علامہ اقبالؒ ہماری ملّی اور ادبی تاریخ کی ایک کثیرالجہات اور منفرد شخصیت ہیں۔ شاعر، مفکر، معلّم، وکیل، سیاست دان اور ملت اسلامیہ کے ہمدرد، بہی خواہ، غم گسار اور مربی…ان کی شاعری کا سب سے بڑا اور اہم ترین موضوع ملت اسلامیہ ہے۔
علامہ اقبال کی متذکرہ بالا مختلف حیثیتوں میں سب سے معروف حیثیت ایک شاعر ہی کی ہے۔تاہم، علامہ اقبال فقط ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ علمی مسائل پر نگاہِ عمیق رکھنے اور ان پر غوروفکر کرنے والے عالم، مفکر اور محقق و دانش وَر بھی تھے۔ اسی لیے انھیں بعض علمی موضوعات پر کچھ لکھنے اور کام کرنے کا خیال آتا رہا۔ خطبات سے قطع نظر، علامہ کی علمی تحقیق و جستجو کا ذکر ان کے تذکروں میں بہت کم ملتا ہے۔ ذیل میں ان کے بعض علمی منصوبوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱- قرآن حکیم کے مطالعے اور اس پر برسوں کے فکروتدبر کے نتائج کو ’مقدمۃالقرآن‘ کے نام سے مرتب کرنا چاہتے تھے۔ ۱۹۲۳ء سے انھوں نے عزم کرلیا تھا کہ ’’تفسیر قرآن اَزبس ضروری ہے‘‘۔ اس عزم کا پس منظر ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے، لکھتے ہیں:’’حق بات یہ ہے کہ جب ہم وید، انجیل وغیرہ کتب مطالعہ کرنے کے بعد قرآن کا مطالعہ کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خیالات کی ایک نئی فضا میں داخل ہوگئے ہیں۔ افسوس کہ مسلمانوں کو قرآن کی جدت کا کبھی احساس نہ ہوا، بلکہ انھوں نے اس جدید کتاب کے مطالب و حقائق کو قدیم اقوام کے خیالات کی روشنی میں تفسیر کرکے اس کے اصل مطلب و مفہوم کو مسخ کردیا‘‘۔ مگر عملاً اس موضوع پر قلم اُٹھانے میں ان کی کسرنفسی مانع رہی ہے اور اس موضوع پر وہ کچھ نہ لکھ سکے۔ اس تفسیر کے لیے انھوں نے مختلف اوقات میں تین مختلف نام تجویز کیے تھے:
1- An Introduction to the Study of Quran.
2- Aids to the Study of Quran.
3- An Interpretation of Holy Quran in the Light of Modern Philosophy.
وقت کے ساتھ ساتھ ’مقدمۃ القرآن‘ لکھنے کی آرزو بڑھتی گئی۔ اس کا اندازہ بعض مکاتیب، بنام ڈاکٹر تاثیر، بنام سر راس مسعود اور بنام نذیر نیازی اور بعض گفتگوئوں (مثلاً عبدالرشید طارق) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اور پھر جب ان کی صحت رفتہ رفتہ خراب ہوتی گئی تو وہ سر راس مسعود کو ۳۰مئی ۱۹۳۵ء کو لکھتے ہیں:’’چراغ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں، تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کرجائوں۔ جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے، اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں، تاکہ (قیامت کے دن) آپ کے جدامجد(حضور نبی کریمؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینانِ خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی، جو حضوؐر نے ہم تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لاسکا‘‘۔
سیّد نذیر نیازی لکھتے ہیں:’’اس سلسلے کی ان کی ایک دو تحریریں ضرور دستیاب ہوئیں (مگر) حضرت علامہ نے ان تحریروں میں صرف چند الفاظ مستفسرانہ انداز میں لکھے ہیں‘‘۔
نہیں کہا جاسکتا کہ موعودہ کتاب میں اقبال کیا طریق تفسیر اختیار کرتے، لیکن اس سلسلے کی بعض تحریروں اور گفتگوئوں سے واضح ہوتا ہے کہ ’مقدمۃ القرآن‘ لکھنے سے اقبال کی بنیادی غایت خدمت ِدین تھی اور اپنی اس کتاب میں وہ اُمت مسلمہ کو قرآنی رُموز و نکات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ مسلمانانِ عالم اس کی روشنی میں اپنے سیاسی اور معاشی مسائل حل کرسکیں۔ وہ یہ بھی ارادہ رکھتے تھے کہ اسلام اور قرآن پر یورپ کے متعصبانہ اور بے بنیاد اعتراضات کا مدلل جواب دیا جائے۔ اگر اقبال ’مقدمۃ القرآن‘ لکھتے تو بلاشبہہ عصرحاضر میں یہ ان کا ایک بڑاعلمی کارنامہ ہوتا۔
۲- دوسرا بڑا منصوبہ ’اسلامی فقہ کی جدید تدوین‘ کا تھا۔ اسے علامہ ’اسلام کی سب سے بڑی خدمت‘ سمجھتے تھے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام ۲ستمبر۱۹۲۵ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نگاہ سے زمانۂ حال کے اصولِ قانون (Jurisprudence) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم وہی شخص ہوگا‘‘۔
اسی طرح وہ فقہ اسلامی کی مفصل تاریخ کی’سخت ضرورت‘ پر بھی زور دیتے تھے بلکہ ابتدائی زمانے میں انھوں نے فقہ اسلام پر ’اپنے فن میں ایک بے نظیر کتاب‘ بزبانِ انگریزی لکھنا شروع کردی تھی۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس کا انجام کیا ہوا، تاہم بعد میں علامہ نے Islam and I Understand it کے نام سے ایک کتاب کا خاکہ بھی تیار کیا تھا، لیکن یہ تصنیفی منصوبہ بھی عملی صورت اختیار نہ کرسکا۔
فقہ اسلام کی تاریخ و تدوین کے سلسلے میں انھوں نے سیّد سلیمان ندوی اور سیّدانورشاہ کاشمیری کو لاہور بلانا چاہا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔
۳- اسرارِ خودی کی اشاعت (۱۹۱۵ء) پر اقبال کے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ بعض غلط فہمیوں کے ازالے کےلیے انھوں نے تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھنا شروع کیا، جو بعد میں پھیل کر ایک کتاب کی شکل اختیار کرگیا۔ محمد اسلم جیراج پوری کو لکھتے ہیں: ’’میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی، ایک دو باب لکھ کر رہ گیا‘‘۔ یہ علمی منصوبہ بھی ناتمام رہا۔
۴- اقبال کے دیگر علمی منصوبوں اور تصنیفات و تالیفات میں: قلب و دماغ کی سرگزشت، ایک فراموش شدہ پیغمبر کی کتاب، فصوص الحکم پر تنقید، تاریخ ادب اُردو، کچھ دیگر متفرق چیزیں اور بعض تراجم شامل تھے۔
اقبال کے ان منصوبوں کا اہم ترین محرک ملّی انحطاط کا وہ شدید احساس تھا، ان تصانیف کے ذریعے وہ قارئین میں دین کا فہم پیدا کرکے تجدید و احیائے اسلام کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ اپنے تصنیفی منصوبوں کا مقصد ان کے لیے ان کے اپنے بقول یہ تھا کہ ’’میں اپنے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں پر دین کے اسرار منکشف کرجائوں، تاکہ وہ دین کے قریب آجائیں‘‘۔
متذکرہ بالا عزائم اور ارادوں کے باوجودعلامہ کو بجاطور پر احساس تھا اور برعظیم کی تاریخ اس کی مؤید ہے کہ بسااوقات علمی منصوبے فردِ واحد کے بجائے اجتماعی کاوشوں اور علمی اداروں کے ذریعے ہی بروئے کار آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ یورپ کے علمی اداروں اور دانش گاہوں کا براہِ راست مشاہدہ کرچکے تھے۔
خواجہ عبدالوحید [مشفق خواجہ مرحوم کے والد گرامی] نے بعض دوسرے دوستوں سے مل کر ۱۹۲۸ءمیں ’اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تمدن و تاریخ کے مطالعے کی طرف راغب کیا جائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ علامہ اقبال اس ادارے کی سرگرمیوں میں دل چسپی لیتے تھے اور بعض کاموں میں عملی تعاون بھی کرتے تھے۔ اسی ضمن میں خواجہ عبدالوحید بتاتے ہیں کہ ۱۹۳۱ء میں علامہ کی تجویز اور انھی کی رہنمائی میں علومِ اسلامیہ کی ترویج و تحقیق کے لیے لاہور میں ’ادارہ معارفِ اسلامیہ‘ قائم کیا گیا۔ اس ادارے سے علامہ کا کوئی تنظیمی تعلق تو نہ تھا، لیکن یہ انھی کی تجویز اور انھی کی رہنمائی میں قائم کیا گیا تھا۔ وہی اس کے روحِ رواں تھے اور تمام کام انھی کے مشوروں سے انجام پاتے تھے۔ اقبال اس ادارے کو ایک معیاری تحقیقی ادارہ بنانے کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے اپنے اثرورسوخ سے ریاست حیدرآباد دکن سے اس ادارے کے لیے سالانہ مالی امداد بھی منظور کرائی تھی۔
علمی منصوبوں کی تکمیل کے لیے کوئی ایک ادارہ کافی نہیں ہوتا۔ خاطرخواہ نتائج مختلف النوع کاوشوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتے ہیں۔ علامہ علمی تحقیق کے مسئلے پر وقتاً فوقتاً بعض احباب سے تبادلۂ خیال کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں عبدالمجیدسالک لکھتے ہیں:
’’مدت دراز سے علامہ کے دماغ میں یہ تجویز گردش کر رہی تھی کہ ایک علمی مرکز قائم کیا جائے، جہاں دینی و دُنیاوی علوم کے ماہرین جمع کیے جائیں اور ان ماہرین کو خورونوش کی فکر سے بالکل آزاد کردیا جائے، تاکہ وہ ایک گوشے میں بیٹھ کر علامہ کے نصب العین کے مطابق اسلام، تاریخ اسلام اور شرعِ اسلام کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کی دُنیائے فکر میں انقلاب پیدا کردیں۔ چنانچہ ایک دفعہ مرزا جلال الدین بیرسٹر سے ذکر آیا تو انھوں نے ریاست بہاول پور میں سرکار بہاول پور کے زیرسرپرستی اس قسم کے ادارے کے قیام کا سروسامان درست کیا، لیکن ریاستوں کے معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں، معاملہ جو تعویق میں پڑا تو پھر اس کا کوئی سراغ ہی نہ ملا‘‘۔
مختلف علوم و فنون میں تحقیق و تصنیف کے ضمن میں علامہ کا ایک نہایت مفصل خط بنام صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بھی اہمیت رکھتا ہے، جس میں وہ ’اسلامی تاریخ، آرٹ، قانون اور تہذیب و تمدن کے مختلف پہلوئوں پر حاوی عالموں کی تیاری، ان کی تعلیم و تربیت اور اسلامی افکار اور ادبیات میں تحقیق کی ضرورت‘ کا ذکر کرتے ہیں۔
۹جنوری ۱۹۳۸ء کو ہندستان کے طول و عرض میں ’یومِ اقبال‘ منایا گیا۔ لاہور میں یہ تقریب انٹرکالجیٹ مسلم برادرہڈ کے زیراہتمام مینارڈ ہال میں منعقد ہوئی۔ متعدد اکابر ِ سیاست کی طرح پنجاب کے وزیراعظم سرسکندر حیات نے بھی اقبال کے لیے نیک تمنائوں کا پیغام بھیجا، جس میں یہ تجویز بھی پیش کی کہ جہاں جہاں ’یومِ اقبال‘ منایا جائے، وہاں کے باشندے شاعراعظم کی خدمت میں ایک تھیلی نذر کریں۔ علامہ اقبال نے یہ تجویز مسترد کردی۔ فرمایا: ’بہتر ہوگا اسلامیہ کالج لاہور میں اسلامی علوم کی تحقیق کے لیے ایک خصوصی شعبہ یا ایک خاص چیئر قائم کی جائے اور سرمایہ اس کے لیے فراہم کیا جائے‘۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ اقبال کی بہت سی تمنائوں میں ایک تمنا یہ بھی تھی کہ ’’کسی مسلم یونی ورسٹی کے اندر یا کسی پُرسکون مقام پر ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں ایسا ادارہ قائم کیا جائے، جس میں بہترین دل ودماغ کے مسلم نوجوان خالص اسلامی ماحول میں اسلامی ریاضیات، طبیعیات، کیمیا، تاریخ، فقہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرکے علومِ جدید کا علومِ قدیمہ سے تعلق دریافت کرسکیں‘‘۔
یہ ایک حُسنِ اتفاق ہے کہ اسی زمانے میں ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں نے اپنی جائیداد، واقع جمال پور، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس سلسلے میں متعدد زعما اور علما سے رہنمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ اقبال، عبدالماجد دریابادی، سیّد سلیمان ندوی اور مولانا مودودی شامل تھے۔ مجوزہ ادارے کے سلسلے میں مولانا مودودی نے انھیں ایک تفصیلی نقشہ بناکر پیش کیا، جس میںا نھوں نے علمی کام کے لیے چار پانچ شعبوں (فقہ، معاشیات، فلسفہ، علومِ عمران اور نظری سائنس)کی نشان دہی کی تھی۔ مولانا مودودی نے لکھا:’’سب علمی و تحقیقی کام اس بنیادی نظریے کے ساتھ کیا جائے کہ قرآن و سنت ہی علم کا اصل منبع ہے۔ سب کچھ ہم کو اسی سے لینا ہے‘‘۔
عبدالمجید سالک لکھتے ہیں: اس پر چودھری صاحب نے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بتایا کہ میں نے ادارے کے لیے ایک بڑا قطعۂ اراضی وقف کردیا ہے، جس پر کتب خانہ، دارالمطالعہ اور مکانات تعمیر کیے جائیں گے، تاکہ علما اور مصنّفین یہاں رہ کر علومِ اسلامی کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مولانا مودودی کے علمی منصوبے سے بھی علامہ کو آگاہ کیا اور بتایا کہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے ادارہ قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ حضرت علامہ، چودھری نیاز علی خاں کی دین پروری سے بے حد خوش ہوئے اور انھیں دارالاسلام کے منصوبے میں اپنے خواب کی تعبیر نظر آئی۔
پٹھان کوٹ کے مجوزہ علمی مرکز کے لیے علامہ کو مصر سے کسی عالمِ دین کو بلانے کا خیال آیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے الازہر یونی ورسٹی کے شیخ الجامعہ، علامہ مصطفیٰ المراغی کو ایک خط لکھا۔ یہ خط اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس سے علامہ کے مجوزہ تحقیقی ادارے کے مقاصد اور اس کی صحیح نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ، مذکورہ خط میں لکھتے ہیں: ’’ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم پنجاب کی ایک بستی میں ایک اہم ادارے کی بنیاد رکھیں کہ اب تک کسی اور نے ایسا ادارہ قائم نہیں کیا اور ان شاء اللہ اسے اسلامی دینی اداروں میں بہت اُونچی حیثیت حاصل ہوگی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو، جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں، کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یک جا کردیں، جنھیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو۔ جن میں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہوں اور ہم ان لوگوں کے لیے نئی تہذیب اور جدید تمدن کے شوروشغب سے دُور ایک دارالاقامت بنادیں، جو ان کے لیے ایک اسلامی علمی مرکز کا کام دے اور اس میں ہم ان کے لیے لائبریری ترتیب دیں، جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتابیں موجود ہوں، جن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مزیدبرآں ان کے لیے ایک کامل اور صالح گائڈ کا تقرر کیا جائے، جسے قرآن حکیم پر بصیرت تامہ حاصل ہو اور جو دنیائے جدید کے احوال و حوادث سے بھی باخبر ہو، تاکہ وہ ان لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ کی روح سمجھا سکے اور فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات و سیاست کے شعبوں میں فکر اسلامی کی تجدید کے سلسلے میں انھیں مدد دے سکے، تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور اپنے قلم سے اسلامی تمدن کے احیا کے لیے کوشاں ہوسکیں‘‘۔
’’آپ جیسے فاضل شخص کے سامنے اس تجویز کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، چنانچہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ازراہِ کرم ایک روشن دماغ، مصری عالم کو جامعہ ازہر کے خرچ پر بھجوانے کا بندوبست فرمائیں،تاکہ وہ اس کام میں ہمیں مدد دے سکے۔ لازم ہے کہ یہ شخص علومِ شرعیہ، نیز تاریخ تمدنِ اسلامی میں کامل دستگاہ رکھتا ہو اور یہ بھی لازم ہے کہ اُسے انگریزی زبان پر قدرت حاصل ہو‘‘۔
اس کے جواب میں شیخ الازہر نے لکھا کہ ’’ہمارے ہاں علمائے ازہر میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں، جو انگریزی زبان میں قدرت رکھتا ہو‘‘۔ اس سے مسلم دُنیا کی علمی زبوں حالی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ۱۹۳۷ء کی بات ہے سیّد نذیرنیازی اورمیاں محمد شفیع کہتے ہیں کہ علامہ کی نظر سے مولانا مودودی کی تحریریں گزری تھیں اور ان کی الجہاد فی الاسلام بھی علامہ نے دیکھی تھی۔ چنانچہ وہ ان کی علمیت اور ان کے فہمِ اسلام سے متاثر تھے۔ انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا مودودی کو حیدر آباد سے دارالاسلام بلالیں۔ چودھری نیازعلی خاں کہتے ہیں: ’’حضرت علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سیّدصاحب پر جاپڑی‘‘۔ مختصر یہ کہ مولانامودودیؒ نے لاہور آکر، چودھری نیازعلی خاں اور علامہ محمد اسد کی معیت میں علامہ اقبالؒسے ملاقات کی۔ مجوزہ ادارے کے آیندہ منصوبوں، منہاج اور طریقۂ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے بعد، وہ مارچ۱۹۳۸ء میں حیدرآباد دکن سے جمال پور، پٹھان کوٹ منتقل ہوگئے۔
علامہ کا ارادہ تھا کہ وہ بھی ہرسال چند ماہ کے لیے وہاں آکر قیام کریں گے۔ مولانا مودودی مزید مشوروں اور رہنمائی کے لیے لاہور جانے کا پروگرام بنا ہی رہے تھے کہ انھیں سیّد نذیرنیازی کا خط موصول ہوا، جس میں نیازی صاحب نے لکھا تھا:’’جس قدر جلد ممکن ہو، لاہور آیئے، کیونکہ علامہ اقبال کی حالت اچھی نہیں ہے‘‘۔ اس خط کے تیسرے روز علامہ اقبال عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سُدھار گئے۔
ایک اسلامی تحقیقی ادارے کا جو خواب علامہ اقبال اور سیّد مودودی نے دیکھا تھا، وہ ہنوز شرمندئہ تعبیر ہے۔ تاہم، علامہ اقبال کی اچانک رحلت کے بعد مولانا مودودی نے اپنی انفرادی حیثیت میں اُن عام علمی کاموں کے سلسلے میں جو علامہ کے پیش نظر تھے، ایک غیرمعمولی مجتہدانہ بصیرت اور خداداد صلاحیت کے ساتھ جو علمی کارنامہ انجام دیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک اہم سرمایہ ہے۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں، مثلاً: تفہیم القرآن وغیرہ۔ اس کا تذکرہ ایک الگ مقالے کا متقاضی ہے جو آیندہ کسی موقعے پر پیش کیا جائے گا۔