مضامین کی فہرست


جون ۲۰۲۵

بلاشبہ ۷مئی ۲۰۲۵ء کی پاک انڈیا جنگ کے بعد پوری قوم یکجاہو گئی ہے۔ ہر سطح پر یہ نظر آیا کہ عوام سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں نے پاکستان کی سالمیت کےلیے دینی جذبے سے سرشار ہو کر افواج پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ 

طویل عرصے سے پاکستان میں یہ صورتِ حال رہی ہے کہ لوگ منقسم نظر آتے ہیں۔ علاقائیت، قوم پرستی، مسلک پرستی اور سیاسی تقسیم کے مظاہر بہت نمایاں طور پر مشاہدے میں آتے رہے ہیں، اور اسی بنیاد پر پاکستان کے حال اور مستقبل سے مایوسی کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اس بیرونی جارحیت کے نتیجے میں پوری قوم متحد ہوئی ہے، جو اپنی جگہ بڑا قابلِ قدر پہلو ہے۔ 

یکجہتی و استحکام کی اساس 

پاکستان کے وجود اور ترقی کےلیے  بنیادی قوت اسلام ہی ہے۔ ایک چیز جو پاکستان کو اور پاکستان کے ۲۵ کروڑ عوام کو جوڑ سکتی ہے وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ افواج پاکستان بھی اسلام اور جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے حوالے سے سامنے آتی ہیں تو لوگ اُن سے جڑتے ہیں اور اگر کوئی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگاتا ہے، جو بظاہر ’پاکستانیت‘ ہے، لیکن درحقیقت جب وہ نعرہ امریکا نوازی کے موسم اور اسی مہم کی توسیع میں لگایا گیا، تو اس پر قوم منقسم تھی، متحد نہیں تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ۲۰۰۱ء سے جو جنگ امریکا کے کہنے پر لڑی گئی، اس میں لوگ اپنی ہی فوج سے دُور یا لاتعلق رہے، اور ساتھ نہیں دیا،لیکن جب جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کو سامنے رکھ کر اور دشمن کو ٹھیک طریقے سے متعین کیا گیا کہ ہمارا حقیقی دشمن کون ہے؟ اور فوج بھی اسلام کے جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کی طرح سیسہ پلائی دیوار میں ڈھل گئی، تو پوری قوم بھی متحد ہوگئی۔ 

ابھی تین چار سال پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ ’’قوم منتشر ہے‘‘، مگر آج جب قیادت نے یکسوئی دکھائی تو پوری قوم متحد ہو گئی۔ دشمن کے ۸۰ سے زائد ڈرون مار گرائے گئے اور وہ طیارے جو ناقابلِ شکست سمجھے جاتے تھے، تباہ کر دیے گئے۔ انڈیا کا گھمنڈ، جو برسوں سے بڑھتا جا رہا تھا، الحمدللہ اب زمین بوس ہوا۔ 

انڈیا جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتا تھا، وہ پاکستان کے مؤثر دفاع، اتحاد اور جذبۂ ایمان کے سامنے ٹھیر نہیں سکا۔ دشمن نے تکبر کیا، پاکستان نے تدبر سے جواب دیا۔فرانس سے خریدے گئے رافیل طیارے گرے، روس سے لی گئی دفاعی ٹکنالوجی تباہ ہوئی، اسرائیل سے لیے گئے ڈرون خاک میں ملے۔ جسے طاقت ور سمجھا جاتا تھا، وہ پاکستان سے شکست کھا گیا۔ وہ حالات کہ جن میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی پھیل رہی تھی اور جگہ جگہ ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے، جیسے بغاوت کے آثار نمودار ہورہے ہوں۔لیکن بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کی فتح نے قوم کو پھر سے متحد اور یکجا کر دیا ہے۔ 

گویا اسلام ہی واحد قوت ہے، جو پوری پاکستانی قوم کو متحد کرسکتی ہے۔ یہ بات تو خود پاکستان کے وجود کا حصہ ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اس بنیاد پر ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے اور دو قومی نظریہ ہماری اساس ہے۔ ہندوؤں سے ہماری کوئی نسلی دشمنی نہیں ہے۔ ان کا عقیدہ الگ ہے، ان کا طرزِ زندگی الگ ہے، ان کی بودو باش الگ ہے، اور اس کی بنیاد پر ان کا معاشرہ الگ ہے، اور مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اگرچہ ملک میں بلوچ اور پختون بھی ہیں، پنجابی، سندھی اور مہاجر بھی ہیں، ہرزبان اور ہرعلاقے کے رہنے والے ہیں، لیکن ہم لاالٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر ایک امت ہیں۔ لہٰذا نظریۂ پاکستان ہی وہ قوت ہے جو ہمیں جوڑ سکتا ہے۔ اب بھی اس نے ہمیں جوڑا ہے ، آئندہ بھی یہی چیز جوڑے گی۔ یہ تاریخ کا ایک سبق ہے ، اس کو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ 

جنگ بندی کا بنیادی سبب 

جب انڈیا کو شرمناک جارحیت کے بعد جوابی کارروائی کے نتیجے میں شکست اور ذلّت کا سامنا ہوا تو اس نے امریکا سے مداخلت کی درخواست کی۔ انڈیا کے کہنے پر امریکی صدر ٹرمپ نے مداخلت کی اور جنگ بندی کروائی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ جب انڈیا پٹنے لگتا ہے تو دوڑا دوڑا اقوام متحدہ چلا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں بھی یہی ہوا تھا کہ جموں و کشمیر میں اس کو شکست ہو رہی تھی اور مجاہدین سری نگر تک پہنچ گئے تھے۔ آج جو گلگت، بلتستان، آزاد کشمیر ہے، یہ بھی جذبۂ جہاد کے نتیجے میں آزاد کرایا گیا ہے۔ اور جب انڈیا اقوام متحدہ میں گیا اور اس نے کسی طرح جنگ بندی کروائی، اور پوری دُنیا کے سامنے استصواب رائے کا وعدہ کیا ، مگر اس نے آج تک وہ وعدہ پورا نہیں کیا۔  

جب پہلگام میں انڈیا نے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا، اس وقت امریکی نائب صدر انڈیا کے دورے پر تھے۔ انھوں نے انڈیا کی حمایت میں بیان جاری کیا جیسے انڈیا کوئی بہت بڑی طاقت ہے اور اس کو امریکا کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ ٹکنالوجی میں بہت آگے ہے، اور ایک بڑی اور طاقت ور فوج رکھتا ہے۔ 

انڈیا نے اسی زعم میں ۷مئی ۲۰۲۵ء کو آدھی رات کے وقت پاکستان پر میزائل کے حملے کرکے جارحیت کا ارتکاب کیا۔ پاکستان نے بہت بالغ نظری سے، پوری جرأت ایمانی اور استقامت سے جب منہ توڑ جواب دیا تو اس کے نتائج پوری دُنیا کے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح ہوئے۔ پاکستان نے انڈیا کی طرح شہری آبادی اور عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا، بچوں اور عورتوں پر بم نہیں برسائے، بلکہ ان کی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔پاکستان کی ریاست اور افواج نے جذباتی ہوکر فوری طور پر ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جس سے افراتفری پھیلے بلکہ انتظار کیا، ٹارگٹ کو دیکھا اور بروقت نپی تلی کارروائی کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ ایک قوت ہے۔ وہ صرف نام کی ایٹمی قوت نہیں ہے بلکہ اس کی فوجی طاقت اور جنگی مہارت بھی زبردست ہے ، جس میں پاک فضائیہ کی برتری بھی واضح اور تاریخ ساز ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک ایٹمی قوت کے مسلط کردہ جنگی منصوبے کو پاکستان نے ہرمیدان میں شکست دی ہے۔ 

اب سفارتی محاذ پر جامع اور بھرپور انداز سے کام کی ضرورت ہے۔ پوری دُنیا پر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف انڈیا کا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے اور دوسری طرف پاکستان کا  ذمہ دارانہ رویہ۔ ہم حملے کا جواب بھی دیتے ہیں تو پوری ذمہ داری کے ساتھ، مگر انڈیا ہمارے ڈیموں کو نشانہ بنارہا ہے، ہمارے بچوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ 

انڈیا نے یکطرفہ طور پر’ سندھ طاس معاہدہ‘ معطل کرنے کا غیرقانونی اعلان کیا ہے۔ اس نے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا ہے اور جب پاکستان نے غیرجانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تو اس سے انڈیا بھاگ گیا۔ اس لیے جب تک انڈیا اپنے غیرذمہ دارانہ اقدامات اور رویوں پر ندامت کا اظہار نہیں کرتا، اور سندھ طاس منصوبے کو معطل کرنے جیسے فیصلے کو واپس نہیں لیتا، امن کی ضمانت کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہوسکتا۔ 

کشمیر بنیادی تنازع 

پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ ہم ایک اچھے پڑوسی کی طرح انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ لیکن پہلے دن سے جو مسئلہ ہمیں پیش آیا وہ کشمیر ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بنیادی وجۂ تنازع کشمیر ہے۔ کشمیر میں انڈیا کی اس وقت بھی ۱۰ لاکھ ملٹری اور پیراملٹری فورسز موجود ہیں، ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ تعذیب خانوں میں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،ان کے بنیادی حقوق سلب ہیں۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ مگر حکومت پاکستان کی طرف سے وہ کردار ادا نہیں کیا جارہا جو کرنا چاہیے۔  

ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ انڈیا نے جب آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کی حکومت اور اس کے آرمی چیف نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، بلکہ مایوسی کی باتیں کی جارہی تھیں، بزدلانہ باتیں پھیلائی جارہی تھیں۔ پھر دیکھیے کہ اس کے نتیجے میں ہمیں کیا حاصل ہوا؟ اس کے برعکس آج اگر ہم نے ہمت دکھائی، جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا، قومی غیرت اور حمیت کی بات کی، فورسز بھی کھڑی ہو گئیں اور پوری قوم بھی کھڑی ہوگئی، تو اس پورے عمل کے نتیجے میں پوری قوم یک جان بھی ہوگئی اور کشمیر کا مسئلہ ایک حقیقی مسئلہ بن کر عالمی سطح پر اُجاگر ہوگیا ہے۔ 

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اصل مسئلہ تو کشمیر ہے اور اسے ہرصورت میں حل ہونا چاہیے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی منظورشدہ قراردادوں کے تحت حل کیا جائے، اور اس کے لیے سفارتی محاذ پر کامیابی ضروری ہے۔ لہٰذا اسے پوری قوم کا ایشو بننا چاہیے اور بھرپور سفارت کاری کے ذریعے عالمی سطح پر اُجاگر کیا جانا چاہیے۔ 

مزاحمت کا راستہ 

بے شک مزاحمت  زندگی ہے۔ اسی میں نجات اور عزّت و توقیر ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کی مزاحمت ،انھیں پوری دنیا میں سرخرو کر رہی ہے۔ فلسطینی تو پہلے بھی شہید ہو رہے تھے ، ۱۰۰ سال سے شہید کیے جارہے تھے، مگر اس مرتبہ تو حد ہوگئی ہے، لیکن ان کی مزاحمت نے پوری دنیا میں ان کے ہمدرد پیدا کر دیے ہیں۔ ’حماس‘ جس کے خلاف دہشت گردی کا لیبل لگایا گیا ، اس سے امریکا بھی مذاکرات کر رہا ہے اور اسرائیل کو بھی کرنا پڑ رہے ہیں۔ حماس نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ آج مغربی ممالک میں فلسطینیوں کے لیے جتنے سروے آرہےہیں، ان کے مطابق خود ’حماس‘ سے ہمدردی ۵۰ فی صد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ افراد کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی طاقت، جب مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی ہے، حق اور سچ پر کھڑی ہوجاتی ہے، قربانیاں دیتی ہے، تو وہ پوری دنیا میں اپنے ہمدرد پیدا کر لیتی ہے اور بالآخر طاغوتی قوتوں کو جھکنا پڑتا ہے۔  

مزاحمت میں زندگی کا یہ تاریخی سبق موجود ہے۔ ہم اندھی جنگ نہیں لڑنا چاہتے۔ بحیثیت قوم ہم تو کسی سے بھی تصادم نہیں چاہتے، لیکن ہم اپنی آزادی اور خودمختاری اور قومی وقار کا سودا بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا جب ہم نے بھارتی جارحیت کے خلاف ردعمل دیا ہے اور صحیح طریقے سے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، تو پوری دنیا میں ہماری عزّت و وقار میں اضافہ ہوا ۔  

پاکستان: ایک نظریہ ، ایک تحریک 

اسلام ہماری بنیاد ہے اور پاکستان محض ایک جغرافیے کا نام نہیں ہے۔ پاکستان ایک نظریے اور عقیدے کا نام ہے۔ پاکستان کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے خون کا دریا عبور کیا تھا۔ علامہ اقبال ؒنے محض خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ ایک زندہ تصور دیا تھا۔ قائد اعظم ؒ کی قیادت بے داغ تھی۔ وہ سچے اور مخلص انسان تھے ، پوری قوم ان کی قیادت میں یکجا ہوگئی تھی۔ اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس قائداعظمؒ اور اُن کے جانثار ساتھیوں کے پاس جو مدلل لٹریچر تھا جسے نوجوان اور طلبہ گلی گلی، اور قریہ قریہ جا کر تقسیم کرتے تھے اور مسلمانوں کو قیامِ پاکستان کے لیے ترغیب دیتے تھے، تو وہ دو قومی نظریے پر مشتمل مسئلہ قومیت تھا، جو سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے لوگوں کو علم اور تجزیے کے اعتبار سے، اور تاریخ کے حوالوں سے، یہ بات سمجھائی کہ مسلمان کسی رنگ اور نسل کی بنیاد پر قوم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر اُمت ہیں اور ان کی اپنی تہذیب ہے، ان کی اپنی ثقافت اور کلچر ہے۔ 

پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کبھی معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا، اور یہ سب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کا نتیجہ ہے۔ اور اگر کہیں، کبھی کوئی افسوسناک واقعہ سامنے آیا، تو پوری قوم نے اس کی مذمت کی، کبھی حکومت نے اور انتظامیہ نے اس کی سرپرستی نہیں کی۔ دوسری طرف انڈیا ہے جو اپنے آپ کو دُنیا کی بڑ ی اور ایک سیکولر جمہوریت کہتا ہے، وہاں آر ایس ایس اور بی جے پی ’ہندوتوا‘ کے پرچم تلے ریاستی اور حکومتی فسطائیت کا دن رات مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے زندگی اجیرن ہے، مسیحیوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں اور سکھ قیادت کو چُن چُن کر قتل کیا جارہا ہے۔ کسی نہ کسی صورت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ’اوقاف‘ کو سلب کرنے کی موجودہ قانون سازی نے بدترین برہمنی درندگی کا دروازہ کھول دیا ہے، جس کے متاثرین مسلمان، مسیحی، سکھ، جین اور بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ 

مجوزہ لائحہ عمل 

اس جنگ کے نتیجے میں درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے: 

  • اس دوران میں ایک محدود طبقہ ایسا نظر آیا جس کے کچھ تحفظات تھے۔پاکستان کے حکمرانوں سے اس کو شکایت تھی۔ افواج پاکستان کا آئینی کردار بھی زیربحث تھا۔ یہ تحفظات اور شکایات اپنی جگہ کوئی بے بنیاد نہیں ہیں اور اگر حکومت کی طرف سے یا اداروں کی طرف سے کوئی زیادتی روا رکھی گئی ہے تو وہ غلط ہے، لیکن اس کی بنیاد پر ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کسی سیاسی محرومی کا شکار فرد، دشمن ملک کے ساتھ جا کر کھڑا ہوجائے۔ اتفاق اور اختلاف اصولی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ ہمیں کبھی اپنے ملک کے خلاف کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ 

جماعت اسلامی میں اور دوسری پارٹیوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔ جماعت اسلامی کا حکومت سے اختلاف بلکہ شدید اختلاف بھی ہوتا ہے ، حکومت سے مطالبہ اور احتجاج بھی ہوتا ہے اور آئینی بالادستی کی جدوجہد بھی ہوتی ہے، مگر اس بنیاد پر ملک کی مخالفت کے خیال کی رمق پیدا نہیں ہوسکتی۔ مولانا مودودیؒ  ۱۹۴۸ء اور ۱۹۵۳ء میں گرفتار ہوئے، اور ۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی اور مرکزی مجلس شوریٰ سمیت ساری قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ آمروں کے مقابلے میں کھڑے رہے، ڈکٹیٹروں کا مقابلہ کیا، لیکن جب ملک کی سالمیت کا معاملہ پیش آیا تو جماعت اسلامی نے حکومت سے تعاون کیا۔اگر اتفاق اور اختلاف اصولی بنیادوں پر ہو اور اصولی بنیادوں پر سیاست کی جائے تو روایات و اقدار فروغ پاتی ہیں اور ملک مستحکم ہوتا ہے۔ اگرشخصی بنیاد پر اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اتفاق یا اختلاف کیا جائے تو یہ خطرناک رجحان ہے۔ اس کے نتیجے میں قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔  

  • کہا جارہا ہے کہ امریکا ثالثی کی پیش کش کر رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ سے انصاف کی امید نہ رکھیں۔ امریکی انتظامیہ ، مسلمانوں سے دشمنی کے جذبات کو چھپانے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ ایسے میں امریکا کیا ثالثی کرے گا؟ 
  • کشمیر کا فیصلہ حقِ خود ارادیت کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت قابلِ قبول ہوگا۔ ثالثی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے اور انڈیا کا حقیقی چہرہ دُنیا کو دکھانے کے لیے بھرپور سفارت کاری کے ساتھ ساتھ اہل کشمیر کی اخلاقی و سفارتی مدد کی ضرورت ہے۔ 
  • امریکا کی گرفت سے باہر نکلنا ہے تو خطے میں اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ چین، ترکی، روس اور ایران کے ساتھ افغانستان کو بھی ہم قدم بنا کر علاقائی اتحاد اور نئے بلاک کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہماری پوزیشن مستحکم ہوگی اور ہم بہتر انداز میں مذاکرات کا عمل آگے بڑھا سکتے ہیں۔ 

پاکستان پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے امید کا چراغ ہے۔ حالیہ پاک انڈیا جنگ کے مثبت نتائج سے نہ صرف ملکی وقار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ پاکستان کا عالمی کردار بھی اُجاگر ہوا ہے۔  اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تحریک پاکستان کے جذبے کو دوبارہ زندہ کریں اور ہرسطح پر، ہر میدان میں  پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کریں۔ 

درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس کی کتاب اس کے اپنے الفاظ میں ہمارے پاس موجود ہے۔ دنیا کی دوسری قوموں کے پاس بھی اللہ تعالیٰ کی کتابیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول آئے۔ خود قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہر قوم میں رسول آئے ہیں اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام بھیجا ہے۔ لیکن کوئی قوم اُس اصل پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا، اس کے اپنے الفاظ میں محفوظ نہیں رکھ سکی۔ صرف قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر انسانی کلام کے ایک لفظ کی آمیزش بھی نہیں ہو سکی اور خالص اللہ تعالیٰ کی زبان میں یہ کتاب موجود ہے۔  

اگر ایک آدمی عربی زبان وادب کا ذوق رکھتا ہو اور وہ قرآن کو پڑھے تو فی الواقع اس کی روح وجد میں آجاتی ہے، کیونکہ اس کے اندر اس بلا کی تاثیر ہے، اس قدر زبردست کشش ہے اور اس کے اندر اتنی پُرزور Spirit بھری ہوئی ہے کہ آدمی کے لیے بعض اوقات ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یا تو وہ رو پڑے، یا پھر سر دُھنتا رہ جائے۔ 

اس کے علاوہ ایک دوسری عجیب و غریب چیزجو ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوسری کتابیں جو خدا کی کتابوں کی حیثیت سے پیش کی جاتی ہیں، ان میں پورا ایک مضمون کئی کئی صفحوں میں بیان کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا شاہانہ کلام ہے کہ جب ہم اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ کے کلام میں دیکھتے ہیں تو وہ ایک دو فقروں کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ وہ ایک دو فقرے بھی ان تمام عبارتوں کے مقابلے میں جو ہمیں دوسری کتابوں میں ملتی ہیں زیادہ بھاری، زیادہ بامعنی اور زیادہ مؤثر ہیں۔ 

اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ الٰہی کلام میں اور وہ انسانی کلام جو الٰہی کلام کی تفسیر وتاویل کرتا ہے یا ترجمانی کرتا ہے، اس میں کیا عظیم الشان فرق ہے۔ 

دوسری الٰہی کتابیں جن زبانوں میںآئی تھیں، اُن زبانوں میں وہ اب محفوظ نہیں ہیں۔ صرف ان کے ترجمے ہیں جیساکہ بروہی صاحب (اے کے بروہی) نے فرمایا اور بالکل صحیح فرمایا کہ خدا کے کلام کا ترجمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی دوسری زبان ایسی نہیں ہوسکتی جس میں خدا کے کلام کا ترجمہ کیا جاسکے۔ 

اب جن قوموں کے پاس خدا کا کلام محفوظ نہیں ہے اور صرف ان کے ترجمے محفوظ ہیں، وہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ اور جس قوم کے پاس خدا کا کلام موجود ہے ، اور اپنی اصلی شکل میں موجود ہے، اصل الفاظ میں موجود ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ موجود ہے جس ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے اس کو مرتب کروایا تھا، اس سے زیادہ بدقسمت پھر کوئی قوم نہیں ہے جو اُس کتاب سے فائدہ نہیں اُٹھاتی، خود اس کتاب سے کوئی سبق نہیں لیتی اور دنیا تک اس کتاب کے نور کو پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی۔ جتنے بدقسمت وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اصل کتابِ الٰہی کو کھو دیا اور صرف ترجمے ان کے پاس رہ گئے، اُس سے زیادہ بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کے پاس اصل کتاب موجود ہے اور وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے اور نہ دنیا تک اُس کے نور کو پہنچاتے ہیں۔  

محض عربی دان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کئی بلندپایہ عربی دان تو عیسائیوں میں بھی ملتے ہیں، بڑے بڑے معروف ادیب ہیں۔ خود مسلمانوں میں بھی بکثرت ایسے ادیب ہیں، جنھوں نے قرآن مجید آج تک نہیں پڑھا ہے حالانکہ انھیں عربی زبان بھی آتی ہے۔ پھر جن کی مادری زبان عربی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی قرآن مجید نہیں پڑھا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے! 

ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ خود اس کتاب کو سمجھیں ، اس کتاب کا اپنی زندگی پر پوری طرح اثر قبول کریں، اور اس کتاب کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ۔ اس کی روح اور اس کی Siprit کو اپنے اندر جذب کریں اور اس کے بعد ساری دنیا تک اس کو پہنچائیں ۔ یہ ہماری ذمہ داری اور responsibility ہے۔  

جب ہم مغربی دنیا میں جاتے ہیں تو وہاں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ صرف اس وجہ سے بہک رہے ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی نہیں مل رہی۔ کوئی ہپّی (Hippy، ملنگ) بن رہا ہے ۔ کس وجہ سے؟ صرف اس لیے کہ جو اس کی زندگی ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہے۔ کوئی بودھ ازم کی طرف جا رہا ہے، کوئی ہندوازم کی طرف چلا جا رہا ہے، کوئی سکھ بن رہا ہے۔ اس طرح سے مختلف قسم کے عجیب وغریب تجربات لوگ کر رہے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ اصل روشنی ان کے پاس نہیں پہنچی۔  

اگر آپ اپنے گردوپیش میں ایسے چند آدمی بھی پائیں کہ جو قرآن مجید کو کم از کم انگریزی زبان ہی میں، اس کی اصل روح کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کریں، اور اس زمانے کے آدمی کے سمجھنے کے قابل عبارت میں اس کو پیش کریں تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہو گی ، نہ صرف اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے بلکہ دنیا کی رہنمائی کے لیے بھی۔  

آج انسان اس چیز کا طالب ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کا طالب ہے ؟ وہ ایک پیاس محسوس کر رہا ہے، مگر اسے نہیں معلوم کہ اسے کس چیز کی پیاس ہے ؟ جب اُس کے پاس یہ چیز پہنچے گی اور اس زبان میں پہنچے گی کہ جس کو وہ سمجھتا ہو، تب اس کو معلوم ہو گا کہ ہاں، یہ وہ چیز تھی جس کا میں پیاسا تھااور اس سے وہ سیراب ہو گا۔  

متعدد آدمی ایسے میرے علم میں ہیں کہ جب ان کے سامنے اسلام کو اس کی اصلی روح میں پیش کیا گیا، اور ان کو بتایا گیا کہ قرآن مجید یہ ہے اور یہ اس کی تعلیم ہے، تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ حیران ہو گئے کہ’’کیا فی الواقع ایسی چیز دنیا میں موجود ہے اور ہم اس سے ناواقف ہیں؟‘‘ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے کہ ہمارے پاس وہ شے موجود ہے مگر ہم نہ خود اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اورنہ دنیا کو اس کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔  

اس لیے میں ایسے تمام لوگوں کو انتہائی قابلِ قدر سمجھتا ہوں، جو موجودہ زمانے کی زبان میں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیمات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اس ملک میں جتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت عطا فرمائی ہے کہ وہ بیرونی زبانوں میں، انگریزی میں یا فرنچ میں، اور دوسری زبانوں میں قرآنِ مجید کی تعلیمات سمجھا سکتے ہیں، وہ اس خدمت کو ضرور انجام دیں۔ خود ہماری نئی نسلیں بھی بگڑ رہی ہیں اور دنیا کے لوگ بھی صرف اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی کی ہدایت نہیں مل رہی۔  

 ۲۳مئی ۱۹۷۵ء کو ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل ،لاہور میں مختصر خطاب 

قرآنِ حکیم نے انسانی تاریخ کی چند ایسی شخصیات کا ذکر کیا ہے، جو رہتی دنیا تک قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔ یہ ہیں وہ سعید روحیں جن کے نقشِ قدم پر چل کر اولادِ آدم دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ ایسی ہی نمایاں شخصیات میں ایک مرکزی نام ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ ہیں جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں باربار ہوا ہے۔قرآنِ حکیم حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی اور ان کے طریقے کی اِتباع کا حکم ان الفاظ میں دیتا ہے: ’’اے نبیؐ! کہو ،میرے ربّ نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریقہ جسے یک سُو ہوکر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘۔(الانعام ۶:۱۶۱) 

قرآنِ حکیم نے حضرت ابراہیم ؑ کی چند نمایاں خوبیوں کا ذکر کیا ہے، تاکہ اُمت مسلمہ کے افراد ان اوصاف کو اپنے اندر پروان چڑھا سکیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے اوصافِ عالیہ کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جا رہا ہے: 

۱- صدیق (راست باز): سورئہ مریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اس کتاب میں ابراہیم ؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی ؑ تھا‘‘۔ (مریم۱۹:۴۱) 

مولانا محمد جونا گڑھیؒ نے ’صدیق‘ کا ترجمہ ’بڑی سچائی والا‘ کیا ہے۔ اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر مولانا صلاح الدین یوسف نے ان الفاظ میں کی ہے: ’’صدیق، صدق (سچائی) سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول و فعل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام نبوت کے بعد سب سے اعلیٰ ہے۔ ہرنبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لیے وہ صدیق بھی ہوتا ہے‘‘۔ (احسن البیان، ص ۷۳۵) 

اس آیت ِ کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے خیرالبشر کا تذکرہ کرتے رہو، جس کی ساری زندگی حق کی گواہی میں گزری، جس کا ہرلمحہ اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہوئے گزرا۔ ذکر کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اُن اوصاف ِ عالیہ کو اپنے اندر پروان چڑھایا جائے جو حضرت ابراہیم ؑ کے اندر تھے، اور جن میں نمایاں وصف ’صدیق‘ ہے۔ رحمٰن کے بندوں کی یہی خوبی سورۃ الفرقان میں اس طرح بیان کی گئی ہے: ’’(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے‘‘ (الفرقان۲۵:۷۲)۔ جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے سے مراد یہ ہے کہ نہ تو وہ کسی غلط کام میں حصہ لیتے ہیں اور نہ کسی غلط اور لایعنی مشغلے کی حوصلہ افزائی ہی کرتے ہیں، بلکہ ان کا پورا کردار صداقت و دیانت سے عبارت ہوتا ہے۔ 

۲- منیب (پلٹنے والا):بندئہ مومن کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ باربار اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور اپنے ربّ کے سامنے روتا اور گڑگڑاتا ہے تاکہ اس کا مالکِ حقیقی اس سے راضی رہے۔ سورئہ ہود میں حضرت ابراہیم ؑ کی یہ صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ’’حقیقت میں ابراہیم ؑ، بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہرحال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا‘‘۔ (ھود ۱۱:۷۵) 

آیت میں اصل لفظ ’منیب‘ آیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں کہ ’ منیب‘ نوب سے مشتق ہے۔ اس کےمعنی ہیں: کسی چیز کا بار بار پلٹنا۔ شہد کی مکھی کے لیے عربی زبان میں ایک لفظ نوب بھی آتا ہے۔ اس کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ وہ باربار اپنے چھتے کی طرف پلٹ کر آتی ہے۔ اللہ کی طرف انابت کا مطلب ہے توبہ و استغفار کے ذریعے اس کی طرف رجوع ہونا اور اخلاص کے ساتھ اس کے حکموں کو بجا لانا۔ (امام انسانیت، ص۱۵۳) 

دراصل توبہ اور ’انابت‘ مومنین کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے، کیونکہ ان کی ہرسرگرمی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ سورئہ توبہ میں جن لوگوں کو بشارت دی گئی ہے، ان کی نمایاں خوبیاں یہ بتائی گئی ہیں: ’’اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے، اور اے نبیؐ، ان مومنوں کو خوش خبری دے دو‘‘۔(التوبہ ۹:۱۱۲) 

گویا مومنین کا معاملہ اس پروانے کا سا ہوتا ہے، جس کی زندگی شمع کا طواف کرتے کرتے ختم ہوجاتی ہے۔ جو ایک لمحہ بھی شمع کے نُور سے اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ 

۳- مسلم (فرماں بردار):حضرت ابراہیم ؑ کی نمایاں ترین صفت یہ تھی کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت میں کمربستہ رہتے تھے۔ ربِ کائنات کے ہرحکم کو بجا لانے کی فکر ان کی زندگی کی اصل فکر تھی۔ قرآن گواہی دیتا ہے کہ: ’’اس (ابراہیم ؑ) کا یہ حال تھا کہ جب اس کے ربّ نے اس سے کہا: ’’مسلم ہوجا‘‘ تو اس نے فوراً کہا: ’’میں مالکِ کائنات کا ’مسلم‘ ہوگیا‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۱) 

لفظ مسلم کی وضاحت مولانا صدرالدین اصلاحیؒ نے اس طرح کی ہے: ’’مسلم کے معنٰی ہیں اسلام والا۔’اسلام‘ کے معنی ہیں گردنِ اطاعت جھکا دینا۔ پس مسلم وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو بلاقید و شرط اللہ کی بندگی اور رضا کے حوالے کردے۔ اپنے جذبات پر، اپنے اعمال پر، اپنے افکار و نظریات پر اور اپنے ترک و اختیار پر اللہ تعالیٰ کے احکام و مرضیات کی بالادستی تسلیم کرلے‘‘۔(تیسیرالقرآن، ص ۱۶۹) 

واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ہرشے اللہ کے حکم کی تابع ہے۔ انسان کی خیر اسی میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کائنات کی اس فطرت سے ہم آہنگ کرلے، تاکہ اسے فلاح نصیب ہو۔ قرآن اس حقیقت کا ادراک ان الفاظ میں کراتا ہے کہ: ’’پس یک سُو ہوکر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہوجائو، اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ (الروم۳۰:۳۰) 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’تمام انسان اس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی ربّ اور کوئی معبود اور کوئی حقیقی مطاع، ایک اللہ کے سوا نہیں ہے۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہوجانا چاہیے۔ اگر خودمختاری کا رویہ اختیار کرو گے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے، اور اگر بندگیِ غیرکا طوق اپنے گلے میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے‘‘۔ (تفہیم القرآن، سوم، ص ۷۵۲) 

۴- حنیف (یک سُو):حضرت ابراہیمؑ نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی، جو شرک و بُت پرستی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن ان کی طبیعت ان فرضی معبودوں کی گرویدہ نہیں ہوئی۔ اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچپن ہی سے غوروفکر کے عادی تھے۔ اپنے والد سے جوکہ خود بھی پجاری و کاہن تھا، بعض چبھتے ہوئے سوالات پوچھ لیتے تھے۔ 

سورئہ مریم میں ہے کہ :’’اس نے اپنے باپ سے کہا کہ: ’’اباجان آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں؟ اور نہ آپ کا کوئی کام بناسکتی ہیں؟‘‘ (مریم ۱۹:۴۲) 

معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ منطقی اور علمی نقطۂ نظر سے غوروفکر کیا کرتے تھے۔ کائنات میں غوروفکر کے نتیجے میں انھوں نے مشرکانہ رسوم و رواج، طرزِزندگی سے برأت کا اظہار کر دیا۔ قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اعلان کیا: ’’مَیں نے تو یک سُو ہوکر اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کرلیا، جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور مَیں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ (الانعام ۶:۷۹) 

’حنیف‘ کی جمع حنفاء ہے۔ یہ اصطلاح ان سعید لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جوکہ شرک سے بے زاری کا اعلان کرچکے ہوں۔ ’شرک‘ ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے سیّد قطب شہیدؒ رقم طراز ہیں: ’’ہروہ حالت یا کیفیت، جس میں زندگی کے تمام معاملات میں خالص خدائے واحد کی اطاعت و تابع داری نہ ہو، شرک ہے اور لا الٰہ الا اللہ کے منافی ہے۔ شرک کی شکل و ماہیت رُوبہ عمل آنے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی کے بعض گوشوں میں تو اللہ کی بندگی و اطاعت کرے، مگر دوسرے شعبہ ہائے حیات میں غیراللہ کی اطاعت کرے۔ مراسمِ عبودیت کی ادائیگی تو اطاعت و تابع داری کی بے شمار شکلوں میں سے صرف ایک شکل ہے۔ اس بابت ان دنوں انسانی معاشرے میں جو مثالیں پائی جاتی ہیں، ان سے ہمارے سامنے شرک کی حقیقی اور واقعی شکل اس طرح اُجاگر ہوتی ہے: ایک شخص جو خدائے واحد کی اُلوہیت پر یقین رکھتا ہے۔ پھر وضو، طہارت، نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات میں اللہ کے حکموں پر عمل کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اپنی زندگی کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی اُمور میں غیراللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کرتا ہے، تو وہ شرک کرتا ہے۔ (فی ظلال القرآن، جلدہفتم،ص ۱۰۱) 

حضرت ابراہیم ؑ نے جس ماحول میں دعوتِ حق کا فریضہ انجام دینا شروع کیا وہاں ستاروں کی پرستش زوروں پر تھی۔ علاوہ ازیں پروہتوں نے اپنے مکروفریب کا جال پھیلا رکھا تھا، جس میں بہت سے نادان پھنس کر اپنی دنیا و عاقبت خراب کر رہے تھے۔ ان حالات میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی داعیانہ تگ و دو اپنے وطن کے باہر بھی جاری رکھی۔چنانچہ وہ یہ دُعا مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں: ’’یاد کرو وہ وقت، جب ابراہیم ؑ نے دُعا کی تھی کہ :’’پروردگار! اس شہر (یعنی مکّہ)کوامن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا‘‘ (ابراہیم۱۴:۳۵)۔اس دُعا سے یہ معلوم ہوا کہ شرک اور بُت پرستی کا جہاں بھی گزر ہوگا وہاں ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہوجائے گا۔ امنِ عالم کے لیے شرک ناسور کی مانند ہے۔ 

۵- شاکر (شکر ادا کرنے والا):نعمتوں پر شکر ادا کرنا ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، یعنی وہ ان نعمتوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں، جو ان کے ربّ نے انھیں عطا کی ہیں۔ 

قرآنِ حکیم میں ارشاد رباری تعالیٰ ہے کہ: ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ (الدھر ۷۶:۲-۳)۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر اس رویے (attitude) کا نام ہے، جو کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے، یعنی دینِ اسلام۔ 

حضرت ابراہیم ؑ کی ایک خوبی یہ بیان ہوئی کہ وہ: ’’اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا‘‘۔ (النحل ۱۶:۱۲۱) 

اس ضمن میں ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں کہ ’’انعم جمع قلت کا صیغہ ہے۔ اس سے یہ لطیف اشارہ مقصودہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اس وقت بھی اللہ کے شکرگزار تھے، جب وہ زیادہ انعاماتِ الٰہی سے بہرہ ور نہیں ہوئے تھے۔ اگر کسی شخص پر انعام و اکرام کی بارش ہوجائے تب وہ اپنے محسن کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہو، اس میں کوئی ندرت نہیں ہے۔ قابلِ تعریف تو وہ شخص ہے،جو معمولی احسان کو بھی مانے اور قلیل نعمتوں پر بھی شکرگزار ہو‘‘۔ (امامِ انسانیت، ص ۱۵۴) 

شکرگزاری کا رویہ حضرت ابراہیم ؑ اپنی اولاد میں بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے ربّ سے دُعا کی کہ: ’’پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۳۷) 

 ۵- حلیم (نرم دل و بُردبار):نفسِ انسانی کنٹرول میں رکھنا خاصا دشوار کام ہے۔ یہ صفت کہ ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو قابو میں رکھا جائے انھی لوگوں کے حصے میں آتی ہے،جو کہ اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ داعی حق کے لیے یہ وصف ناگزیر ہے۔ لفظ حلیم ’حلم‘ سے مشتق ہے۔ ’حلم‘ سے مراد یہ ہے کہ آدمی غصے کی حالت میں بھی اپنا آپ نہ کھو بیٹھے۔ اگر کوئی نادان شخص اس سے بدکلامی پر اُتر آئے تو قَالُوْا سَلٰــمًا کہہ کر آگے بڑھ جائے(الفرقان ۲۵:۶۳)۔  حلم و بُردباری کی یہ خوبی حضرت ابراہیم ؑ میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔  

اس آیت کی تشریح سیّد قطب شہیدؒ نے اس طرح کی ہے: ’’یعنی وہ اللہ کے سامنے کثرت سے آہ و زاری کرنے والا، اور لوگوں کی اذیت برداشت کرنے والا تھا۔اس کے باپ نے اسے سخت تکلیف پہنچائی لیکن اس نے نہایت حلم و بُردباری کا مظاہرہ کیا اور جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمنِ خدا ہے تو اس نے اس سے قطعِ تعلق کرلیا اور خدا کی بارگاہ میں اپنی غلطی پر رونے، گڑگڑانے لگا‘‘۔ (فی ظلال القرآن، جلدششم، ص ۷۴۷) 

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’حلیم‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطر میں حد ِ اعتدال سے تجاوز کرجائے۔ (تفہیم القرآن، دوم، ص ۲۴۳) 

دوسرے مقام پر قرآنِ مجید نے یہ صراحت کی ہے کہ جو لوگ اللہ کی یاد سے غافل ہوتے ہیں وہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد حلم و بُردباری جیسی صفات سے عاری ہوتے ہیں۔ لہٰذا قرآن اہلِ ایمان کو نصیحت کرتا ہے کہ: ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔ (الکہف ۱۸:۲۸) 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جن کا ذکر قرآن کرتا ہے تاکہ اہلِ ایمان ان اعلیٰ اوصاف کو اپنا کر دنیا کے سامنے دینِ اسلام کے گواہ بن سکیں، اوریہ ثابت کرسکیں کہ: ’’اب کون ہے جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کرلیا ہو اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے؟ ابراہیمؑ تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا‘‘۔(البقرہ ۲:۱۳۰) 

حج دینِ اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ یہ ۹ ہجری میں فرض ہوا۔ جو اس کا انکار کرے وہ کافر ومرتد ہے، اور جو استطاعت کے باوجود ادا نہ کرے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دی ہے۔ حج در اصل نفس کی ہرقسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔ (صحیح بخاری ، حدیث:۱۷۷۳، صحیح مسلم، حدیث :۱۳۴۹)  

حجِ مبرور سے مراد ایسا حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو، جس میں کوئی ریا اور شہرت کا دخل نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو، جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے، جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت اور آخرت کا شدت سے طلب گار ہوجائے ۔ اور سب سے بڑھ کر ایسا حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ 

جب مسلمان حج کرنے جاتا ہے تو گویا اُسے اللہ تعالیٰ اپنے گھر اپنا مہمان بنا کربلاتا ہے اور اپنے مہمان کی تواضع اُس کی دُعائیں قبول کرکے اور اُس کی بخشش کا پروانہ جاری کرکے کرتا ہے۔ جب حاجی اُس کے گھر سے رخصت ہو رہا ہوتا ہے تو چلتے وقت تحفتاً جنت اُس کےلیے واجب کردیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انھیں بخش دیتا ہے‘‘۔ (ابن ماجه، السنن، ۲: ۹، رقم: ۲۸۹۲) 

ایک حدیث میں آتا ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام اور مصافحہ کرو اور اس سے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنی بخشش کی دعا کی درخواست کرو کہ وہ بخشا ہوا ہے۔‘‘ (احمد بن حنبل، المسند، ۲: ۶۹، رقم:۵۳۷۱) 

جب انسان کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہےتو وہ دینِ فطرت پر ہوتا ہے یعنی معصوم ہوتا ہے اور آگے چل کر وہ اپنے آباو اجداد کے دین کا انتخاب کرتا ہے اِلا یہ کہ حق کو پانے کی تڑپ دل میں رکھتے ہوئے جدوجہد کرے۔ ایک حاجی کا اجر امت کو بتانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور پھر فحش گوئی کی نہ بدکار ہوا ، تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو گیا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘۔ (صحیح بخاری ۱۵۲۱ و صحیح مسلم ۱۳۵۰) 

حاجی کا محبت سے اپنے ربّ کو لبیک اللھم لبیک (حاضر ہوں، اے میرے اللہ میں حاضر ہوں) پکارنا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو اتنا بھلا لگتا ہے کہ جس مخلوق تک اُس حاجی کی لبیک کی آواز پہنچتی ہے وہ وجد میں آجاتی ہے اور اُس حاجی کی آواز میں آواز ملا کر فرطِ محبت سے خود بھی لبیک اللھم لبیک کی گردان شروع کردیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے، اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت، ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے‘‘۔ (ترمذی، السنن، ۳: ۱۸۹، رقم: ۸۲۸، راوی حضرت سہلؓ بن سعد) 

امیر المومنین حضرت عمر ؓ بن خطاب اپنے دورِ امارت میں ایک روز فرماتے ہیں کہ ’’میں نے پختہ ارادہ کیا کہ اپنے لوگوں کو شہروں میں بھیجوں تاکہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ جن لوگوں کو حج کی استطاعت ہے پھر بھی وہ حج نہیں کرتے تو اُن پر جزیہ مقرر کردوں۔ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔ (جزیہ اسلامی ریاست میں غیر مسلمین پر ایک ٹیکس ہے جس کے بدلے اسلامی ریاست اُس کے جان، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے اور ہر وہ سہولت اُسے فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے جو کسی مسلمان کو فراہم کرے گی۔ یاد رہے یہ ٹیکس غیرمسلمین پر اس لیے عائد ہوتا ہے کہ اُن پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے،جب کہ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر مختلف حالتوں میں سالانہ زکوٰۃ، عشر و خمس فرض ہے) ۔ 

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے دوسری مخلوقات کی طرح انسان کو بھی جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ ان میں ایک جنس مرد، جب کہ دوسری جنس عورت ہوتی ہے۔ ان دونوں کی جسمانی ساخت، قوتِ برداشت ، کام کرنے کی صلاحیتیں، سوچنے سمجھنے، موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے وغیرہ جیسی صفات مختلف رکھی ہیں تاکہ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر معاشرہ تشکیل دیں۔ لہٰذا سارا دن محنت مزدوری کرکے بال بچوں کے لیے ضروریاتِ زندگی یعنی خوراک، لباس اور رہائش کا بندوبست کرنا مرد کے ذمہ لگایا ہے،جب کہ اپنے شوہر کے مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کرنا، اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرنا، خانگی معاملات کا انتظام کرنا عورت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اگر کبھی دشمن سے مڈبھیڑ ہوجائے تو میدانِ جہاد میں دشمن سے اپنے گھر، بیوی، بچوں اور مستضعفین کی جان، مال، عزّت و آبرو کی حفاظت کے لیے لڑنا مرد کی ذمہ داری لگائی ہے اور عورت کو اس سے مبرّا رکھا ہے۔ اس سلسلے میں اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپؐ نے فرمایا: جِهَادُكُنَّ الحَجُّ ’’یعنی تمھارا جہاد حج ہے‘‘۔(صحیح بخاری: ۲۸۷۵) 

حج کے پوشیدہ راز 

  • توحید باری تعالٰی کا عملی مظاہرہ:عقیدۂ توحید اسلام کا پہلا عقیدہ ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے اور دل چیر کر کسی کو دکھایا نہیں جاسکتا کہ اس میں کیا کچھ موجود ہے، لیکن اگر اس عقیدہ کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو حج کے موقع پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک حاجی دُور دراز کے سفر کی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور وہ مال جو اُسے اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیارا ہوتا ہے، جس کے لیے بھائی بھائی کا گلا کاٹنےپر آمادہ ہوجاتا ہے، حقِ وراثت دبانے کے لیے بھائی بہنوں کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک حاجی اسی مال کو اللہ کی خوشنودی کی خاطر حج کی ادائیگی کےلیے خوشی خوشی خرچ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، تاکہ اُس کا ربّ اُس سے راضی ہوجائے۔ لہٰذا حج میں سب سے پہلا چھپا راز یہی ہے کہ اس میں توحیدِ باری تعالیٰ کا عملی مظاہرہ نظر آتا ہے۔ 
  • درسِ اجتماعیت:یوں تو اراکینِ اسلام کلمۂ توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج درسِ اجتماعیت سے خالی نہیں ہوتے، بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ اجتماعیت کی تربیت دینا بھی ان کا ایک مقصد ہے۔ لیکن حج میں پائی جانے والی اجتماعیت اُمت کو وہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو سکھایا ہے جس کے راوی حضرت نعمانؓ بن بشیر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے سے محبت و مودّت اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے، بایں طور کہ نیند اُڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ، صحيح مسلم  ۲۵۸۶) 

افسوس صد افسوس! اسلام کے بتائے ہوئے دیگر اسباق کی طرح حج کے موقع پر مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع اپنی روح سے خالی نظر آتا ہے اور خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے مسلمان تتر بتر ہیں، باہمی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں اور کیفیت نفسا نفسی کی ہے۔ یہی و جہ ہے کہ ماضی قریب اور عصر حاضر میں بوسنیا، چیچنیا، شام، لیبیا، عراق، افغانستان، برما، کشمیر اور فلسطین کی تباہی ہمارے سامنے ہے۔ لہٰذا حج کے چھپے رازوں میں سے ایک راز یہ ہے کہ اُمت متحد ہو ، ان کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکیں اور یہ ایک قوت نظر آئیں۔ 

  • احرام :احرام حج کا پہلا فرض ہے ، جس کے بغیر حج ہو ہی نہیں سکتا۔ احرام کا باندھنا دراصل انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خطبہ حجۃ الوداع میں کی گئی وہ نصیحت یاد دلاتا ہے کہ کسی امیر کو غریب پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بادشاہ ہو کہ فقیر، عربی ہو یا عجمی، بڑے سے بڑے حسب نسب والا ہو یا عام سا انسان، سب کا لباس ایک ہی ہوتا ہے، کوئی کسی میں تمیز نہیں کرسکتا۔ پھر دوسری طرف یہی احرام انسان کو اُس کی اوقات یاد دلاتا ہے کہ جب وہ اس دنیا میں آیا تھا تو وہ خالی ہاتھ اور خالی لباس تھا اور جب اس دنیا سے جائے گا تو خالی ہاتھ ہی جائے گا اور اُس کو مل سکیں تو لٹھے کی دو چادریں ملیں گی جن میں لپٹ کر وہ مٹی کے گڑھے میں جا لیٹے گا۔ یہ لٹھے کی چادریں بھی اس لیے کہ اللہ سبحان اللہ تعالیٰ حیاء دار ہے۔ اُس کی حیاء کا تقاضا ہے کہ جو انسان زندگی بھر اپنے جسم کی برہنگی کو چھپاتا پھرا، موت کے بعد اُس کے ربّ کو بھی اُس کی برہنگی گوارا نہیں۔  
  • طواف کعبہ:بیت اللہ کے طواف پر اکثر کفّار پرچار کرتے ہیں کہ مسلمان بھی بُت پرستوں کی طرح ایک پتھر ہی کو پوجتے ہیں۔ لیکن ایک حاجی جب بیت اللہ کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے تو وہ کسی پتھر کی پوجا نہیں کررہا ہوتا بلکہ اپنے ربّ کے بتائے ہوئے حکم کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حکم اُس کے ربّ نے اُسے دیا ہوتا ہے۔ اور یہ حکم اُس کے ربّ نے کیوں دیا تاکہ اُمت ایک مرکز پرجمع ہوسکے۔  

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ۝۹۶(الِ عمرٰن۳: ۹۶)’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی ہے اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ِہدایت بنایا گیا‘‘۔ لہٰذا مشرق سے یا مغرب سے، شمال سے یا جنوب سے جہاں سے بھی کوئی حاجی عمرہ یا حج کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوگا تو وہ ایک مرکز پر جمع ہو کر ایک ہی طریقہ سے خانہ کعبہ کے گرد گھومے گا، اور مرکزیت برقرار رکھنے کے لیے اس کے گرد سات چکر لگائے گا۔ ان چکروں کو کم یا زیادہ کرنے کا بھی اُس کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ 

  • زمزم کا پینا :ایک حاجی طواف سے فارغ ہو کر دو رکعت نفل کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے ربّ کا ایک مرکزیت پر اکٹھا ہونے کا شکر ادا کرتا ہے ، بعد ازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زم زم کے پانی سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ اِس زمزم کے پینے میں ایک راز پوشیدہ ہے اور وہ ہے اللہ پر توکّل کرنا۔ کہ کس طرح ایک ننھی سی جان بے آب و گیاہ وادی میں پیاس سے بلبلا رہی تھی اور اُس پیاس کی شدت سے اپنی ایڑیاں زمین پر رگڑ رہی تھی، اُس ننھی سے جان کی ماں کی مامتا جوش مارتی ہے، اس کے باوجود کہ وہ جانتی ہے کہ ان سنگلاخ پہاڑوں میں دُور دُور تک پانی کا نام ونشان نہیں ہے۔ وہ اپنے ربّ سے دُعا کرتی ہے کہ وہ اس کے بچے کےلیے پانی عطا فرمادے۔ یہ توکّل علی اللہ کی اعلیٰ مثال تھی۔ لہٰذا زمزم کا پینا ایک حاجی کو توکّل علی اللہ کا درس دیتا ہے۔  
  • صفا و مروہ کی سعی: حضرت اسماعیل علیہ السلام کا پیاس کی شدت سے زمین پر ایڑیاں رگڑنا اور ممتا کی ماری ماں حضرت ہاجرہؑ کا ربّ سے دُعا کرنا، یقیناً اللہ پر توکّل کی اعلیٰ مثال ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ لیکن حضرت ہاجرہؑ نے صرف دُعا ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے اس دُعا کے ساتھ ہی اسباب کی تلاش شروع کردی ، چنانچہ انھوں نے صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی جانب دوڑنا شروع کردیا اور جیسے ہی وہ نشیب میں پہنچتیں تو انھیں سامنے حضرت اسماعیل ؑ جان کنی کی حالت میں ایڑیاں زمین پر رگڑتے ہوئے نظر آتے اور وہ اُس جگہ سے تیزی سے دوڑنا شروع کردیتیں، جس کی پیروی میں آج حاجی بھی ہری بتیوں کے دوران دوڑتے ہیں۔ لہٰذا صفا و مروہ کی سعی میں یہ راز پنہاں ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے اُمور و حاجتوں کے لیے اللہ سے دعائیں کرکے سکون سے بیٹھ جانا نہیں چاہیے۔ 
  • منٰی میں قیام :گو کہ ایک مسلمان اللہ، اس کے رسولوںؑ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے لیکن انسان ہوتے ہوئے یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ وہ مشاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت اپنے مشاہدے سے جانے۔ اس کی حقیقت کو سمجھانے کےلیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے حج کے افعال میں منٰی کا قیام رکھ دیا ہے کہ انسان دیکھے کہ منیٰ کی وادی حج سے پہلے ایک بنجر میدان اور چھوٹی بڑی چٹانوں کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ 

جس طرح منٰی کی شان و شوکت اور رنگینی عارضی ہے بالکل اسی طرح اس دنیا کی ساری شان و شوکت اور رنگینیاں بس ایک صُور پھونکے جانے کی محتاج ہیں۔ یہ وہ راز ہے جسے سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ حاجیوں کو ۸ ذو الحجہ سے ۱۲ ذوالحجہ تک منیٰ میں قیام کروا کر تجربہ کراتا ہے اور دنیا میں بسنے والے دیگر انسان اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ 

  • وقوفِ عرفہ:مسلم اُمہّ کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ روزِ حشر اللہ کے حضور اکٹھے ہوکر اپنے اعمال کا حساب کتاب دینے پر یقین رکھیں۔ عرفات کے قیام میں ایک حاجی کو ایسے عمل سے گزارا جاتا ہے کہ سب حجاج رنگ و نسل سے ماورا، معاشرتی طبقات کو پسِ پشت ڈال کر، جغرافیائی حدود کے فرق کو مٹا کر، ایک میدان میں جمع ہوں اور اپنے ربّ کے آگے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتے ہوئے گڑ گڑا کر معافی طلب کریں اور آیندہ گناہوں سے بچنے کا عہد کریں۔ اُس میدان میں  انھیں صرف ایک ہی کلمہ یاد رہتا ہے اور وہ ہے:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ  لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، یعنی انھیں اُس میدان میں ہرطرف اللہ نظر آرہا ہوتا ہے، اس کی جلالت نظر آرہی ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر حاجی اس کے سامنے حاضر ہونے کے تصور کو زندہ کرتا ہے اور اُس کی کبریائی بیان کرتا ہے۔  
  • مزدلفہ میں قیام :وقوفِ عرفہ کی تکمیل پر حجاج جب منیٰ واپس لوٹتے ہیں تو اُن کا رات کا قیام راستے میں آنے والے مقام مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے ہوتا ہے۔ مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے کچھ ہی عرصہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کےلیے یمن سے ہاتھیوں پر آنے والے متکبر بادشاہ ابرہہ کے لشکر کو اللہ کے حکم سے چھوٹی چھوٹی ابابیلوں نے کنکرنما میزائیلوں سے حملہ کرکے زمین بوس کر دیا تھا۔ جس کی شہادت قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دیتے ہوئے فرمایا ہے: اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۝۱ۭ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَہُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۝۲ۙ وَّاَرْسَلَ عَلَيْہِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ۝۳ۙ  تَرْمِيْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ۝۴۠ۙ فَجَــعَلَہُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۝۵ۧ (الفیل۱۰۵:۱ تا۵) ’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا؟ اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے جو اُن کے اُوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے، پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے (جانوروں کا) کھایا ہوا بھوسا‘‘۔ 

لہٰذا حاجیوں کو مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے قیام اس لیے کرایا جاتا ہے کہ وہ آٹھ ذو الحجہ سے جس کلمہ کو چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، تنہائیوں میں اور مجمعوں میں بلند کررہے ہیں، اُس کی حقیقت کو پہچانیں کہ وہی تمام بڑائیوں کا مالک ہے، وہی رات اور دن پیدا کرتا ہے، وہی موسم کو سرد اور گرم کرتا ہے، وہی زمین سے اپنی مخلوق کے لیے رزق نکالتا ہے، وہی ہے جو پوری کائنات کا خالق ہے، وہ جس کام کا ارادہ کرلیتا ہے بس اُس کےلیے ہوجا (کُن) کہہ دیتا ہے اور پھروہ ہوجاتا ہے (فیکون) ۔ لہٰذا جب ساری قوتوں کا مالک وہی ہے، سب کچھ کرنا ہی اُس نے ہے تو پھر حضرتِ انسان کون ہوتا ہے جو اُس کی زمین پر اپنی من مانی کرے۔  

  • رمی جمرات:مزدلفہ میں رات گزارنے کے بعد صبح فجر کی ادائیگی کرکے حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں، جہاں اُنھوں نے سنتِ ابراہیمیؑ کی پیروی کرتے ہوئے جمرات پر رمی کرنی ہے یعنی علامتی شیطان کو کنکریاں مارنی ہیں۔ یہ کنکریاں مارنا اُس واقعہ کی یاد دلاتی ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ اپنے ربّ کے حکم کی ادائیگی کےلیے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو قربان گاہ لے جارہے تھے تو شیطان حضرت اسماعیل ؑ کو بہکانے آدھمکا تھا، جس پر انھوں نے اپنے بابا ابراہیمؑ کو بتایا تو انھوں کنکریاں اُٹھا کر اللہ اکبر کے نعرہ کے ساتھ اُسے وہیں زمین بوس کردیا تھا۔ حج کے دوران اس سنت پر عمل ہمیں زندگی بھر، شیطان کی پیروی سے نجات کا درس دیتا ہے۔ 
  • قربانی: رمی سے فراغت کے بعد حجِ قِران و حجِ تمتع کرنے والے حجاج کو قربانی کرنی ہوتی ہے۔ یہ قربانی دراصل حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ حضرت ہاجرہؑ کی قربانی کی یاد دلاتی ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ کو بڑھاپے کی انتہا پر ایک بانجھ بیوی کے ساتھ بیٹا (اسماعیلؑ) عطا کیا گیا اور جب وہ بڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے خواب میں حضرت ابراہیمؑ کو دکھایا کہ وہ اپنے اس لختِ جگر کو اللہ کی راہ میں ذبح کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اور اُس کی ماں حضرت ہاجرہؑ سے اپنا خواب بیان کرکے ان کی رضا حاصل کی اور اسے اللہ کا حکم سمجھ کر بلا چون و چرا اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری چلا دی ، لیکن رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور اللہ نے اسماعیلؑ کی جگہ ایک مینڈھے کی قربانی بھیج کر اُنھیں اس سخت ترین آزمائش سے نکالا (الصّٰفّٰت ۳۷: ۱۰۲-۱۰۷)۔ لہٰذا ہر قربانی کرنے والے حاجی کو یہ قربانی اُس کی رُوح کے مطابق کرنی لازم ہے، جس میں وہ اپنے اللہ سے عہد کرے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں جہاں ضرورت پڑی وہ اللہ کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گا۔ اب یہ قربانی اُس کے مال کی ہو، اُس کے وقت کی ہو، اُس کی صلاحیتوں کی ہو، اللہ کے حکم کے آگے آڑے آنے پر اُس کی رائے کی ہو، رسم و رواج کی ہو، یا اُس کی انانیت کی ہو، سب کچھ اللہ کے حکم کے آگے ڈھیر کردے گا۔ 
  • بال ترشوانا یا سر منڈوانا :قدیم زمانے میں انسانوں کی خرید و فروخت عام تھی اور جب کوئی انسان کسی انسان کی غلامی سے کسی بھی طرح آزاد ہوتا تھا تو وہ علامتی طور پر اپنے سر کے بال منڈوالیتا تھا۔ حج کے افعال میں سے ایک فعل سر کے بال کٹوانا یا منڈوانا بھی ہے۔ عمرہ یا حج کے اعمال کے طور پر سر کے بال منڈوانے والے کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار رحمت کی دُعا کی۔ لہٰذا حج کے دوران بال منڈوانا اس بات کی علامت ہے کہ ایک حاجی اعلان کر رہا ہے کہ اب وہ اس دنیا میں اللہ کے سوا ہر کسی کی غلامی سے آزاد ہوگیا ہے۔ اب نہ تو وہ اللہ کے آگے معاشرے کے رسم و رواج کی غلامی کرے گا، نہ اپنی خواہشاتِ نفسانی کی غلامی کرے گا، نہ مال کی غلامی میں مبتلا ہوگا۔ 

 دوسرے احرام کی حالت میں پراگندہ اور غبار آلود رہ کر بارگاہِ عالی میں حاضر ہونے کا حکم تھا، اور احرام کے بعد صاف ستھرا رہنا پسندیدہ ہے، تو بالوں کو کاٹنے میں ان پراگندہ بالوں سے مکمل صفائی اور ایک حالت سے دوسری حالت کی تبدیلی بدرجہ اتم موجود ہے۔  

تیسرے یہ کہ احرام کی حالت میں بال توڑنے پر پابندی تھی اب ان تمام یا بیش تر بالوں کو کاٹ کر اس حد بندی کے خاتمہ کی تعلیم خود پابندی لگانے والی شریعت ہی نے دے دی کہ عمرہ اور حج کے اعمال سے فارغ ہونے سے پہلے احرام کی حالت میں بال رکھنا، عبادت اور عمرہ اور حج کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد اب ان کاکاٹنا عبادت ہے۔  

لہٰذا اس عمل میں پوشیدہ سبق یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جائز کام سے رُکنے کا کہیں تو فوری رُک جانا چاہیے اور جب وہ کسی کام کو کرنے کا حکم دیں تو بے چون و چرا اُن کے حکم کو بجا لانا چاہیے۔ اگر ایک حاجی حج کے بعد والی زندگی میں ایسا نہ کرے تو اُس نے حج کی شکل ضرور بنا لی لیکن اُس کی حقیقی روح کو نہ پا سکا۔ 

  • احرام کا اتارنا :احرام کا اُتارنا اس بات کی علامت ہے کہ اے حاجی! تیری تربیت کا عمل اب مکمل ہوا چاہتا ہے اور اب ایک بار پھر تو نے دنیا کی طرف لوٹنا ہے اور اس دنیا میں اس پورے حج کے دوران ہونے والے ایک ایک عمل میں چھپے رازوں کا علم ہوجانے کے بعد اپنے ربّ کے احکامات کی مکمل بجا آوری کرنی ہے، اور بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُسوۂ نبوی ؐ کو مقدم رکھنا ہے جیسے حج کے ایک ایک عمل میں سنت نبوی ؐکے مطابق عمل کرتا رہا۔ اگر تو ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو تجھے حجِ مبرور مبارک ہو، اجر کے طور پر اس کے صلے میں ملنے والے تمام انعامات و اکرامات تیرے منتظر ہیں خاص طور پر اللہ کی رضا! 

 ۷مئی ۲۰۲۵ء پاکستان کی تاریخ میں ایک تاریخ سازدن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے نہ صرف انڈیا کی کھلی جارحیت کو، جو مکر و فریب اور تفاخر و استکبار پر مبنی تھی، ناکام و نامراد کیا بلکہ عالمی استعمار ایک عرصے سے اس خطہ میں انڈیا کو جو حیثیت و مرتبہ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا تھا، اس تاثر کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا دیا۔ 

جنگی مبصرین کے مطابق انڈیا کی طاغوتی حکومت ۲۰۱۹ءسے اپنی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے مغرب کی بہترین ٹکنالوجی سے لیس لڑاکا جنگی جہاز اور دیگر جنگی ساز و سامان جمع کر رہی تھی۔ اس نے پہلگام ڈراما کی آڑ میں اچانک پاکستان پر متعدد جہتوں سے یکبارگی بھرپور حملہ کرکے پاکستان کی سالمیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے اور اس بہانے آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ بہترین تدبیر فرمانے والا ہے: وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ (اٰل عمرٰن۳:۵۴)’’اللہ سب سے عمدہ تدبیر فرمانے والا ہے‘‘۔ وہ ہردور میں معرکۂ حق و باطل میں اپنی آیات، اہل ایمان کے دلوں کے نور میں اضافہ کرنے کے لیے روزِ روشن کی طرح دکھاتا ہے، تاکہ اہل ایمان اس کے شکر و حمد و ثناء کے جذبے سے سرشار ہوکر زندگی کے ہردائرے میں اللہ کی اطاعت اختیار کرتے ہوئے اس کا قرب حاصل کر سکیں۔  

نصرتِ الٰہی پر اظہارِ تشکر 

​اللہ تعالیٰ کے اَن گنت احسانات میں سے غیبی نصرت ایک عظیم احسان و نعمت ہے ۔ اللہ ربّ العزت اس ذریعے سے اہل ایمان کے دلوں سے موت کے خوف کو نکال کر شہادت کی تڑپ اور تمنا پیدا فرماتا ہے اور مشکل اور کٹھن اوقات میں دلوں کو اطمینان اور ذہنوں کو سکون عطا فرماتا ہے ۔ یہ وہی کیفیت ہے جو ہمارے ہوا بازوں کو نصیب ہوئی ۔ اللہ کی یاد اور اس کی نصرت و تائید کے بھروسے پر انھوں نے اپنے فضائی مشن کا آغاز کیا۔ ابتدائی فضائی جنگ میں نہ صرف دشمن کے تعداد میں دگنا طیاروں کو ملکی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روکا بلکہ اللہ ربّ العزت کی عطا کردہ قوتِ ایمانی کے ذریعے، اور اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے ٹکنالوجی میں اپنے سے بہتر سمجھے جانے والے فرانسیسی طیاروں کو نشانہ بناکر تباہ بھی کر دیا۔ پاکستان کی فضائیہ کے ترجمان کے مطابق ۶ اور ۷ مئی کو ’فضائی لڑائی‘ ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی اور اسے حالیہ عالمی فضائی جنگوں کی تاریخ میں سب سے طویل فضائی جنگوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق دفاعی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے انڈین فضائیہ کے چھ جنگی طیارے اور۸۰ سے زائد ڈرونز مار گرائے۔پاکستان کے عسکری ذرائع کے مطابق انڈیا کی جانب سے چار راتوں کی مسلسل اشتعال انگیزی اور ڈرون حملوں کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت اور جوانوں نے سنت ِ رسولؐ کے مطابق ۱۰مئی کو قبل اَز فجر ربّ العزت کے حضور سربسجود ہوتے ہوئے اس کی مدد ونصرت کی التجا کی اور پھر حکم ربانی فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا۝۳ۙ (العٰدیٰت ۱۰۰:۳) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے مطابق نمازِ فجر کے بعد اللہ کی کبریائی کے ا ظہار کے لیے سورۂ صف کی آیت ۴ سے اخذ کردہ اصطلاح بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے نام سے جوابی کارروائی کی ۔ 

 جوابی کارروائی میں آدم پور میں پاک فضائیہ کے جے ایف۱۷ تھنڈر کے ہائپر سونک میزائلوں نے بھارت کا ایس-۴۰۰ دفاعی نظام تباہ کر دیا۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کا تربیتی مرکز، کے جی ٹاپ بریگیڈ ہیڈکوارٹر ، اڑی فیلڈ سپلائی ڈپو تباہ کیے گئے ۔آدم پور، اودھم پور، پٹھانکوٹ، سورتھ گڑھ، سرسہ، بھٹنڈا، ہلواڑہ ایئر فیلڈز اور اکھنور ایوی ایشن مراکز کو نشانہ بنایا اور بیاس میں ’براہموس میزائلوں‘ کے ذخیرے کو نشانہ بنایا۔ علاوہ ازیں زمینی جوابی کارروائی میں  لائن آف کنٹرول پر بیسیوں بھارتی چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا ۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی کے مقابلے میں بھارتی فوج کئی پوسٹوں سے فرار ہوئی اور کئی پوسٹوں پر سفید جھنڈے لہرا کے اس نے باضابطہ اپنی شکست بھی تسلیم کی ۔   

اس عظیم فضلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق سنّت ِ مطہرہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر پاکستانی مسلمان ہرقسم کے تکبر و تمسخر سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے ربّ کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ سجدہ ریز ہو کر اس کا شکر ادا کرے۔ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور اپنی موروثی غلامانہ فکر پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے استغفار کرے، اللہ کے حکم اور توحیدی فکر کے مطابق ربِّ کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے۔ اس طرح ہرشعبۂ زندگی میں اللہ ربّ العزت کے دیئے ہوئے امن و سلامتی اور خوشحالی کے ضامن عادلانہ اسلامی احکام اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات میں اپنا کر اسلام کے عالم گیر نظام کو اپنے معاشرے، ریاست اور دُنیا میں غالب کرنے کی جدوجہد کرے۔ نیز اپنی تمام صلاحیتوں اور وسائل کو اللہ کی رضا اور دُنیا و آخرت میں کامیابی کے حصول کے لیے کھپانے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔ 

بھارت کے جارحانہ مذموم عزائم 

یہ بات بالکل واضح ہے کہ انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس، مذہبی ونسلی منافرت پر مبنی ’ہندوتوا‘ فکروفلسفہ کی علَم بردار ہے اور ببانگ دہل اپنی انتہا پسندی اور دہشت گردی پر فخر کرتی ہے۔ جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور انڈین کانگریس بھی اس معاملے میں اس کی ہمنوا ہے اور جو ’اکھنڈ بھارت‘کے نعرے کی بنیاد پر ہندوؤں کے جذبات میں اشتعال پیدا کرکے حکومت کرتی رہی ہے۔ بی جے پی نے آج سے چھ ماہ قبل اپنے منصوبے کی طرف اشارہ کردیا تھا کہ وہ پاکستان کے اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو اپنی حدود میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ اسی ہدف کے حصول کے لیے دوسری جانب اکثر انڈین چینل اور دیگر پاکستان دشمن صحافتی ذرائع ایک منظم حکمت عملی کے ذریعے  اقوام عالم کو یہ بات باور کرانے میں مصروف رہےہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور دہشت گرد برآمد کرنے والا ملک ہے۔ چنانچہ اسی مسلسل پروپیگنڈے کے باعث عالمی سطح پر پاکستانیوں کے ساتھ تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ دوسری جانب انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور اس کے اتحادی پاکستان کی معیشت اور سیاسی صورتِ حال کو خراب کرنے کے لیے اپنے گماشتوں اور سہولت کاروں کے ذریعے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستان سے دشمنی پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان گذشتہ ۲۵برس سے مسلسل نہ صرف دہشت گرد کارروائیوں کا ہدف بنا ہوا ہے بلکہ اندرونی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ اس طرح ’ہندو توا‘ کی علَم بردار آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے پاکستان کی ملکی سلامتی اور معیشت پر مسلسل وار کرتی آرہی ہے۔ 

۱۱ مارچ ۲۰۲۵ء کو کوئٹہ سے پشاور روانہ ہونے والی ’جعفر ایکسپریس‘ ٹرین کو بولان کے علاقے میں ’را‘ کے پروردہ بلوچ دہشت گردوں نے اسلحے اور گولہ بارود کے زور پر اغوا کرنے کے بعد ۴۰۰سے زائد مسافروں کو جو اپنے گھر والوں سے ملنے جا رہے تھے یرغمال بنا لیا۔ ان علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی پر بھی انڈین عسکری ادارے اور حکومت اپنے مالی وسائل کے ساتھ عرصے سے ملوث تھے۔ طویل عرصے سے علیحد گی پسند دہشت گردوں کے ہاتھوں عام پاکستانیوں کا سفاکیت سے قتل کیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں پس پردہ ملوث انڈیا کا چہرہ دنیا کو دکھانا حکومت ، سرکاری اداروں اور سیاسی رہنماؤں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن معاشی و سیاسی مفادات کے زیر اثر حکمران جماعتیں، سیاسی راہ نما اور سرکاری ادارے اپنا یہ فرض پورا کرنے سے مسلسل غفلت برتتے چلے آئے ہیں۔ 

عسکری برتری اور سائبر جنگی مہارت 

۱۰مئی کی فتح مبین کے اہم واقعے میں اللہ کی تائید و نصرت کی واضح نشانیاں موجود ہیں، لیکن ایک سیکولر ،قوم پرست ذہن اس کو اپنی عسکری برتری اور سائبر جنگ کی مہارت سے ہی تعبیر کرسکتا ہے اور فخریہ انداز میں اپنی فتح کی خوشی منا کر اپنے منہ اپنی تعریف کر کے مطمئن ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک معروضی ذہن رکھنے والا مسلمان اسے کسی اور زاویے سے دیکھتا ہے۔ انڈیا کی جارحیت میں اولین نمایاں پہلو باطل اور طاغوت کا فخر و غرور اور استکبار ہے، جس کا اظہار انڈیا کی نسل پرست اور دہشت گرد آر ایس ایس اور زعفرانی بی جے پی کے نمائندہ وزیراعظم کے بیانات اور بین الاقوامی مذاکرات میں اس کے رویہ سے ہوتا رہتا ہے ۔’ہندو توا‘کے علَم بردار نے ہمیشہ پاکستان کو حقارت اور نفرت کے جذبات کے ساتھ مخاطب کیا ہے۔ 

انڈیا کے ابلاغ عامہ نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اپنی حالیہ جارحیت پر اپنےعوام الناس کے سامنے جو نقشہ کھینچا، وہ کم و بیش یہ تھا کہ انڈین فوج نے پاکستانیوں کو سبق سکھا دیا ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کو تباہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان گڑگڑا کر انڈیا سے صلح اور امن کی درخواست کر رہا ہے۔مگر حقیقت حال بالکل برعکس تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی معجزانہ امداد سے پاکستان کی مجاہد افواج اور ہوا بازوں نے اپنے رب پر بھروسا کرتے ہوئے۔ اس اعلان کے ساتھ کہ جس مشن پر وہ جا رہے ہیں اس سے سلامتی سے واپسی کی کوئی امید نہیں ہے۔ ایمان، یقین، جوش، ولولہ کے ساتھ اللہ کے بھروسے پر بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے تکبر و غرور میں مست ’ہندو توا‘ قیادت کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے: وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶ (اٰل عمرٰن۳:۲۶) ’’(اللہ) جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے ہی اختیار میں ہے۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ 

 انسان کی تمام تیاریاں، منصوبے مادی قوت ،فنی برتری، ان سب سے زیادہ قوی، العزیز، الحکیم کی قوت ہے۔ انسان جب اس پر ایمان لے آئیں اور استقامت اختیار کریں تو غیبی امداد کے دروازے ان پر کھل جاتے ہیں۔ اور پھر اللہ بزرگ و برتر کی غیبی مدد سے اس کے عاجز بندے تکبر اور غرورکے عادی افراد کو جھکنے اور مٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 

حساس جنگی معلومات سے آگاہی، انڈیا کے فضائی دفاعی نظام کا معطل کیا جانا، انڈیا کے میزائل اور جہازوں کا تباہ کیا جانا، یہ سب محض انسانی قوتِ بازو سے نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیں لازماً چین کی بروقت رہنمائی و امداد اور ترکیہ کی حمایت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن تمام تر فنی اور تکنیکی کمال کے باوجود جنگ میں فتح و شکست کا معیار فنی و تکنیکی صلاحیتوں اور آلات کو استعمال کرنے والے انسان کے طرزِفکروعمل کو تشکیل دینے والا مقصد ِ زندگی ہوتا ہے ۔جب اللہ کا بندہ اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا شعور رکھتے ہوئے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جذبۂ جہاد کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے موجود خطرات میں کود کر ربّ العزت کی نصرت و امداد پر بھروسے کا ثبوت پیش کرتا ہے، تو اللہ ربّ العزت کی طرف سے فتح کے ایسے نتائج سامنے آتے ہیں کہ جن کا مشاہدہ آج دُنیا کے سامنے ہے ۔ 

عالمی تشخص کا اُجاگر ہونا 

اللہ تعالیٰ کے اس احسان پرکہ کل تک جو پاکستان، عرب دنیا ہو یا مغربی اور مشرقی ممالک، سب کی نگاہ میں ایک کمزور اور معاشی طور پر پس ماندہ اور عسکری طور پر انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک سمجھا جا رہا تھا ، اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اس معرکۂ حق میں اس کی وقعت ، اہمیت، علاقائی قیادت میں باوقار مقام پر فائز ہوا ہے اور پاکستان کی مدافعانہ قوت کی برتری کا سکہ بیٹھ گیا ہے۔انڈیا کے تکبر و غرور کا نشہ خاک میں مل گیا ۔ایسے واقعات بار بار نہیں ہوتے، لیکن یہ جب ہوتے ہیں تو ان کے زیر اثر قوم کی ماہیت قلبی میں ایمانی رنگ نمایاں ہو جاتا ہے۔اسی ایمانی رنگ کو ہرپاکستانی کے دل و دماغ میں اُجاگر کرنے اور غالب کرنے کے لیے جدوجہد اور اقدامات وقت کا تقاضا ہے۔ 

حقائق کی دنیا پر نظر ڈالی جائے تو امریکی ذہنی غلامی میں جکڑی نوکر شاہی اور سفارت کاروں نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی۔کشمیر کا مسئلہ عدم توجہی کا شکار رہا اور چین کے ساتھ جو معاشی بنیاد پر تعاون کی فضا بنی تھی، اس میں واضح کمزوری پیدا ہوئی۔ اگر خدانخواستہ چین بروقت معلومات اور وہ فنی تعاون جس میں انڈیا کے برقی مواصلاتی نظام کا مفلوج کیا جانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے، فراہم نہ کرتا تو تنہا ہماری فضائی صلاحیت وہ نتائج پیدا نہ کر پاتی، جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے فتح کی صورت میں ظاہر ہوئے ۔ چین کے زاویہ سے دیکھا جائے تو انڈیا کی برتری کا واضح مطلب چین کے مقابلے میں ایک دوسرے ہمالیہ کا بلند ہونا تھا ۔ چین کی بروقت معاونت نہ صرف اس خطے میں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کے ساتھ ساتھ چین کی عسکری اور آئی ٹی کے میدان میں مغرب پر برتری کا سکہ جمانے کا سبب بھی بنی اور دنیا کو یہ بھی نظر آگیا کہ فرانسیسی طیاروں کے فنِ کمال کے دعوےاور انڈین ایس ۴۰۰ کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے سب خاک میں مل گئے ۔نیز خطے میں انڈین چودھراہٹ و بالادستی، اور چین و پاکستان کے خلاف بر تر قوت بننے کا خواب عملاً چکنا چورہوگیا۔ 

ادھر وہ مسلم ممالک جو انڈیا سے تعلقات استوار کرتے رہے ہیں، ان کے سامنے بھی یہ حقیقت کھل کر آگئی کہ ملک میں غیر جمہوری اقدامات اور  سیاسی انتشار کے باوجود جب غیرملکی جارحیت کے خلاف پاکستانی قوم متحد ہوتی ہے تو مادی طور پر اپنے سے ۱۰ گنا بڑی طاقت سے بھی ٹکر لینے سے نہیں گھبراتی۔ یہ اعتماد قوم کے لیے ایک بڑا سرمایہ ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کی بحالی کا ذریعہ بھی۔ پاکستان کی عسکری فتح و برتری انڈیا میں مسلمان اقلیت کے لیے ہی نہیں بلکہ جہاں بھی مسلمان مسائل کا شکار ہیں ، ان سب کے لیے ایک تقویت کا باعث ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم احسانات کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ 

۱۰مئی کے واقعے نے پاکستانی قوم کو اس کے اصل تشخص پر دوبارہ فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی عسکری قیادت نےواضح اور علانیہ طور پر اپنا رشتہ دعاؤں ، مناجات ، اللہ کی کبریائی اور قرآنی اصطلاح بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ سے جوڑ کر یہ حقیقت واضح کر دی کہ پاکستان محض پہاڑوں، کھیتوں اور سبز ہ زاروں کا نام نہیں بلکہ اس کا مقصد ِوجود اسلام اور دوقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے ۔ افواج پاکستان نے اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اللہ سے دعا و مناجات کے ساتھ اپنی عسکری کارروائیوں سے وہ حیران کن اور معجزاتی کام کیا، جس کے بارے میں انڈیا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،اور جس کی بنا پر سخت متعصب اور پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے امریکی صدر نے بھی اپنے بیان میں پاکستان اور انڈیا کو ایک چھوٹے اور بڑے ملک کے طور پر نہیں بلکہ دو یکساں ایٹمی طاقت والے ممالک کے طور پر مخاطب کیا ۔ واضح رہے کہ امریکا ماضی میں پاکستان کو دہشت گردوں کا پشتی بان اور انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک شمار کرتا رہا ہے۔ 

 پہلگام میں دہشت گردی کا ڈراما 

۲۲؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے تفریحی مقام پر ایک دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والے ۲۶ شہریوں میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے۔ انڈیا نے کسی ثبوت یاتحقیق کے بغیر متعصبانہ انداز میں حملے کی ذمہ داری چند منٹوں میں پاکستان پر عائد کردی ۔ پاکستان نے اس افسوسناک واقعے کی آزادانہ اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی ۔لیکن انڈین ذرائع ابلاغ نے جھوٹ پر مبنی ایک منظم ، جارحانہ اور متعصبانہ پروپیگنڈے اور نفرت انگیز مہم کے ذریعے جنگی جنون کا ماحول پیدا کر دیا اور ساتھ ہی مسلّمہ صحافتی اخلاقیات کا بھی قتل عام کیا۔ انڈین میڈیا نے حقائق اور ثبوت کی جگہ ابلاغی محاذ پر فتنہ و فساد پر مبنی جھوٹے بیانیے کے ذریعے ابلاغی جنگ سے بی جے پی حکومت کے لیے ساز گار جنگی ماحول بنایا ۔  

اسی جنگی ماحول میں ۶ اور ۷  مئی کی درمیانی رات بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں پنجاب اور کشمیر میں نومقامات پر مساجد کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ۴۰؍ افراد شہید ہوئے ، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی، جب کہ انڈیا کا دعویٰ تھا کہ ’’یہاں دہشت گرد تربیت دیے جاتے ہیں‘‘۔ یہ ایک واضح باضابطہ اعلانِ جنگ تھا ۔ انڈیا نے یہ غور نہیں کیا کہ پہلگام، مقبوضہ کشمیر میں اتنے اندر جا کر ایک ایسے مقام پر واقع ہے کہ جہاں سوائے پیدل افراد کے اور کوئی داخل نہیں ہوسکتا اور جہاں چپےچپے پر انڈین فوج کے افراد متعین ہیں۔ اس المناک واقعے کے فوراً بعدیہ الزام عائد کرنا کہ یہ پاکستان کے ایجنٹوں کی کارروائی ہے ، نیز ایک ہوائی دعوے کی بنیاد پر بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کا پاکستان میں میزائل حملے کرنا کہاں تک ایک معقول بات ہے؟ 

اللہ کے فضل و کرم سے انڈیا ناکام رہا۔ بےشک اللہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ اس تناظر میں باشعور شہریوں اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

جنگی حکمت عملی 

 قرآن کریم کا ارشاد ہے: وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ  وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝۰ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۝۰ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝۰ۭ (الانفال۸:۶۰) ’’اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے ہوئے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔  

اس ارشاد میں جنگی تیاری کا اصل مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ دشمن پر رعب قائم رکھا جائے، جارحیت بجائے خود مقصود نہیں ہے۔ افواج پاکستان خصوصاً فضائی قوت کی حکمت عملی اور بقیہ دونوں افواج کے ساتھ مضبوط رابطے کے نتیجے میں نہ صرف فضائی برتری کے حصول میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی بلکہ انڈین ہوائی جہاز بردار بحری بیڑا’وکرانت‘بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ بین الاقوامی مبصرین نے جو اعداد و شمار اور تجزیے پیش کیے ہیں اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو سراہتے ہوئے انڈین جارحانہ رویے کی مذمت اور پاکستان کی جانب سے تحمل اور اعلیٰ کارکردگی کے مظاہرے کی تعریف کی ہے۔ پاکستان کی اس پوزیشن نے عالمی مبصرین کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ انڈیا نہ صرف جارح تھا بلکہ اس کی فضائی قوت نے کھلی شکست کھائی ہے۔  

پاکستان کا علاقائی اور عالمی کردار 

اس غیبی امداد نے پاکستان کے علاقائی اور عالمی تناظر میں کلیدی کردار کو یکایک اجاگر کردیا ۔اس تبدیلی کا واقع ہونا اور اس امتحان کے موقعے پر نہ صرف چین اور ترکیہ بلکہ ازبکستان، آذربائیجان اور بنگلہ دیش کاکھل کر پاکستان کی حمایت کا اعلان کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا انعام ہے اور ہمیں اس موقعے کو بنگلہ دیش، ترکیہ، ازبکستان اور آذر بائیجان کا ایک امن پسند بلاک بنانے کے لیے سبیل سوچنی چاہیے۔ انڈیا کو صرف اسرائیل نے اپنی حمایت کا یقین دلایا، جو عالمی طور پر انڈین چہرے کو مزید داغدار کرتا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں غیرانسانی رویہ اور مظالم جاری رکھنے کے بعد کوئی باشعور شخص اپنے آپ کو اسرائیل سے وابستہ کرنا پسند نہیں کرتا ۔ پاکستان کی جانب سے برقی ڈیجٹیل جنگ اور ترقی یافتہ سائبر سکیورٹی کے آلات کے استعمال نے ثابت کر دیا کہ الحمدللہ! پاکستان اس میدان میں انڈیا سے آگے ہے اور انڈیا اپنی طاقت کے گھمنڈ کی بنیاد پر علاقائی چودھراہٹ کھو بیٹھا ہے ۔ برقی ذرائع معلومات اور ڈیجیٹل آلات کی مدد سے کم سے کم وقت میں حصولِ معلومات، معلومات کی درجہ بندی اور اہداف کے تعین نے فضائی کارکردگی کو مؤثر بنانے میں غیرمعمولی مدد کی ۔ لیکن اصل امداد اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ہوا بازوں کے دلوں میں اللہ پر بھروسے اور سکینت کی تھی جو صرف اہل ایمان ہی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ 

تحریک اسلامی کا مطلوبہ کردار 

واقعات کے اس تناظر میں تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے غور کرنے کے لیے بہت سے اہم پہلو ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ یہاں کیا جانا ضروری ہے : 

۱- تقویت ایمان کی مہم: اس بات کی ضرورت ہے کہ عسکری اور تکنیکی کامیابی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کے ذریعے جو قوت ہم کو دی گئی ہے، اسے اجاگر کرتے ہوئے غور کیا جائے کہ اس کامیابی نے ہمارے ایمان میں کتنا اضافہ کیا اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے اور اللہ سے تعلق بڑھانے کے لیے پورے ملک میں کن کن اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ 

۲- احسان مندی :اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس فتح نے کیا بہ حیثیت قوم اور انتظامیہ کہیں ہماری خود اعتمادی میں اضافہ کے ساتھ غرور و تکبر تو نہیں پیدا کیا؟ہماری نگاہ میں انڈیا کی ناکامی کا بڑا سبب اس کا غرور و تکبر تھا ۔اللہ تعالیٰ کو غرور اور تکبر سخت ناپسند ہے۔ وہ صرف اپنے ان بندوں کو کامیابی دیتا ہے جو اللہ کو اپنا رب ماننے کے ساتھ راہِ استقامت پر عاجزی، توبہ اور استغفار کے ساتھ گامزن رہتے ہیں ۔قوم کے نوجوانوں کو اس جانب توجہ کرنے اور انھیں عملا ًایسی سرگرمیوں میں لگانے کی ضرورت ہےجو قربِ الٰہی اور احساس جواب دہی کو بڑھانے میں مددگار ہوں۔موجودہ حالات میں قوم کی اخلاقی تربیت و اصلاح، تحریک اسلامی کے کارکنوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ 

۳-سائبر میدان میں فنی مہارت :اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے قوت ایمان کے ساتھ ہردور میں موجود جدید ترین وسائل کو بھی اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ حاصل کرنے، اور ان میں ترقی کی راہیں تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔آج کی جنگیں محض گولے، ٹینک ،کلاشنکوف کی نہیں ہیں بلکہ سائبر ایجادات کے فنی استعمال کی ہیں۔ اگر فنی طور پر انڈیا کے برقی معلوماتی نظام کو معطل نہ کیا جاتا، تو ہمارے ہوا باز کس طرح ان کی حدود میں جا کر ان کے اثاثے تباہ کرپاتے؟ تحریکی نوجوانوں کو ان میدانوں میں جو مستقبل کی فتوحات کے لیے ضروری ہیں،ا قامت دین کے تصور کے ساتھ آگے بڑھ کر تعلیم اور تطبیقی تجربات کی ضرورت ہے۔ 

۴-پانی پر جنگیں : جدید تحقیقات نے اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ آج تک قدرتی ذرائع خصوصاً تیل ، دھاتوں، معدنیات پر قبضہ کرنے کے لیے مادہ پرست یورپی اقوام نے گذشتہ ڈھائی سو سال سے جو جنگیں کی ہیں، اب ان میں ایک بڑا محاذ آبی وسائل کا ہے ۔  

چین ہو یا انڈیا یا افغانستان، سب نے اپنے علاقے میں چھوٹے بڑے بند بنا کر پانی کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن صرف ہم ایک ایسی دشمنِ عقل قوم ہیں جو آج تک اپنی محدود اپروچ کی پرستش کرنے کی بنا پر صوبہ جاتی ذہن کے ساتھ یہ طے نہیں کر سکی کہ قومی ضرورت اول ہے یا کسی کی ذاتی جاگیر ؟پانی کی قلت پہلے سے موجود ہے اور حالیہ جنگ میں اس بات کو کھول کر بیان کر دیا گیا کہ انڈیا پہلے پانی کے محاذ پر پاکستان کو ایک ایک قطرہ پانی سے محروم کرنے کا باضابطہ اعلان کر چکا ہے اور یہ دوسرا محاذ عسکری بنیاد پر ان علاقوں پر قبضہ کرنا تھا کہ جن کو وہ عرصہ سے اپنی جغرافیائی وحدت سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو پورے پاکستان میں پانی کی ترسیل کا ذریعہ ہیں۔تحریک اسلامی اس موضوع پر علمی بنیادوں پر ماہرین کو جمع کر کے مسئلے کے حیاتیاتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، زرعی اور قانونی پہلوؤں پر معیاری تحقیق قوم کے سامنے پیش کرے اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر قومی پالیسی پر اثر انداز ہوں۔ انصاف اور عقل کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر علاقائی یا صوبائی عصبیت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دلیل کی بنیاد پر معقول رویہ اپنایا جائے۔ 

۵- مسئلہ کشمیر پر مؤثر سفارت کاری : انڈیا کے حالیہ عسکری دخل اندازی کا ایک بنیادی محرک آزاد کشمیر پر قبضہ کرنا تھا۔ اللہ تعالی کی خاص عنایت سے دشمن اس میں ناکام رہا، لیکن دشمن آج بھی تاک میں ہے کہ اسے کوئی اور موقع ملے اور وہ کسی طرح اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کر سکے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نادر موقع فراہم کیا ہے کہ انڈیا کےپیشہ وارانہ جھوٹ کا پول ایسے کھلا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں انڈیا کے بیانیہ کا اعتماد ٹوٹ چکا ہے۔ اس موقع پر ہمارا فرض ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے مظالم اور حقوق انسانی کی پامالی پر دنیا کے تمام اداروں کو اس کے ظلم سے آگاہ کر کے آزادیٔ کشمیر کے مطالبہ کو قوت دیں۔ اقوام متحدہ کی نصف صدی سے زائد عرصہ سے سردخانے میں پڑی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے اپنے تمام سفارتی، اخلاقی اور مادی وسائل کا استعمال کریں۔ 

۶- نظریۂ پاکستان کے موضوع پر آگاہی : قومی بیداری کے اس موقعے پر تحریک کو خصوصاً نظریہ پاکستان کے حوالے سے نئی نسل کے سامنے جس نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا اور جس کو سرکاری اور غیر سرکاری تعلیم میں صرف پاکستان کے قیام کے حوالے سے منتخب قراردادیں اور واقعات سنائے گئے ہیں، اس نسل کو نظریۂ پاکستان کی روح، اقبال ، قائداعظم، محمداسد ،علامہ شبیر احمد عثمانی، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر رہنماؤں کے بیانات اور تصورات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

حالیہ جنگ کا محرک ’ہندو توا‘اور تشدد پسند جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کا یہ نعرہ ہے کہ ’پاکستان کا وجود میں آنا ہی غلط تھا‘۔ نیز ہندو اکثریت والے خطے میں مسلمانوں کو صرف اقلیت کے طور پر رہنے کا حق ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ دشمن کی زبان اور فلسفہ کو ہمارے ملک کے دانش وروں نے غیر شعوری طور پر اتنا اختیار کر لیا ہے کہ ان کے تصورِ قومیت اور ’ہندوتوا‘ کے تصور قومیت میں کوئی بہت بڑا فرق باقی نہیں رہا۔ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ا بلاغ عامہ کا شعبہ، یکساں طور پر اس سنگین علمی بددیانتی میں برابر کا شریک کار ہے۔ 

تحریک اسلامی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس موقعے پر تاریخی حقائق اور علمی اور تحقیقی دلائل کے ساتھ اسلامی ثقافت ،معاشرت، معیشت اور سیاست و ابلاغ عامہ کے ذریعے پاکستان کے مقصدِ قیام، تصورِ قومیت اور آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو عام فہم زبان میں نوجوانوں تک پہنچائے۔ اس موضوع پر ملک گیر تقریری مقابلے یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں منعقد کیے جائیں۔ ان سرگرمیوں میں غیر جذباتی، علمی لیکن عام فہم انداز میں براہِ راست قائدین تحریک پاکستان کے بیانات اور تحریرات کو پھیلایا جائے ۔اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اشد ضروری ہے۔ حفیظ جالندھری نے جس طر ح شاہنامہ اسلام  لکھا ،ایسے ہی ’شاہنامۂ پاکستان‘ لکھنے کی ضرورت ہے۔ 

۷-  تدریسی مواد: نظریۂ پاکستان پر غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی مواد کی غیر معمولی کمی ہے۔ تحریک سے وابستہ وہ افراد جو ملک کی یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور تحریک پاکستان سے واقفیت رکھتے ہیں، ان میں باصلاحیت افراد کا انتخاب کر کے، وقت کا ہدف مقرر کر کے ایسی درسی اور غیر درسی کتب تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو اُردو، سندھی، انگریزی میں تحریک پاکستان کی اصل روح یعنی اسلام کو بطور نظامِ حیات کے تناظر میں، قربانیوں کی تاریخ کو، حوالوں کے ساتھ پیش کریں۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو بھلادیتی ہیں، تاریخ ان ا قوام کو بھی بھلا دیتی ہے ۔مستقبل کی تعمیر کے لیے بنیادماضی ہی فراہم کرتا ہے۔ اس کام میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔موجودہ صورتِ حال میں اسے ترجیحی بنیاد پر کرنے کی ضرورت ہے۔ 

علّامہ اقبالؒ کی وفات کو تقریباً ۹۰ برس ہونے کو ہیں۔ یہ ایک عجیب حیرت کی بات ہے کہ اپنی وفات سے بیس پچیس سال پہلے انھوں نے مسلم ممالک کے احوال کی جو تصویرکشی کی تھی، وہ آج کے حالات سے بالکل مشابہت رکھتی ہے ۔ خلافت عثمانیہ کا زوال ، مفادات کے اسیر بعض طاقت ور عربوں کی غداری ، سامراجی طاقتوں کے سامنے سہمے ہوئے مسلم حکمرانوں کی نااہلی ، مسلم ملکوں پر مغربی طاقتوں کا تسلط ان کے زمانے میں عالم اسلام کے خدو خال تھے۔  

فلسطین ، لبنان ، شام ، عراق میں مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت اور اس پر مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ہمارے زمانے کی مسلم دُنیا کے چہرے کی شناخت ہے۔ ان کے دور میں عرب قوم پرستوں کی غداری سے خلافت اسلامیہ کے ٹکڑے ہوئے۔ آج اُن عرب قوم پرستوں کی مقتدر اولادوں کی غداری سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔ 

ترکوں کے دورِ حکومت میں مکہ کے گورنر کو ’شریف‘ کہا جاتا تھا کیونکہ یہ شخص سادات میں سے ہوتا تھا۔ ۱۹۰۸ء میں شریف حسین بن علی [۱۸۵۴ء-۱۹۳۱ء] اس منصب پر فائز ہوا۔ ۱۹۱۶ء میں اس نے ترکوں سے بغاوت کرکے اور برطانوی سامراجی قوت کو ساتھ لے کر انگریزوں کی شہہ پر حجاز کی بادشاہت کا اعلان کردیا ۔ شریف حسین کے چار بیٹے تھے۔ شریف حسین نے انگریزوں کی مدد سے ترکوں کو بے حد نقصان پہنچایا۔ حالانکہ یہ واحد قوم تھی جو مغربی طاقتوں کے مقابلے میں ہر محاذ پر لڑرہی تھی۔ علّامہ اقبال نے خضر راہ  نظم کہی تو عربوں کی غداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: 

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفےٰؐ 
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش 

شریف حسین، ہاشمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی دینِ مصطفےٰ ؐ کی عزت و حرمت بیچ رہا ہے، جب کہ سخت جان ترک مسلمان آج بھی اسلام کی خاطر جان کی بازی لگارہا ہے۔ 

حرم رُسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے 
جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے 

شریف حسین کا ایک بیٹا امیر فیصل اوّل [۱۸۸۳ء-۱۹۳۳ء] جو بعد میں عراق کا بادشاہ بنا، انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کرنے میں اور ترکوں کا خون بہانے میں پیش پیش تھا۔ امیرفیصل اوّل کا دوسرا بھائی عبداللہ [۱۸۸۲ء-۱۹۵۱ء]جو بعد میں اردن کا بادشاہ بنا،وہ بھی انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف لڑرہا تھا۔ ان دو کے علاوہ شریف حسین کے دوبیٹے علی اور زید تھے۔ 

عربوں کے برعکس ۱۹۱۱ءمیں اٹلی نے لیبیا پر حملہ کیا تو شیخ احمد شریف سنوسی [۱۸۷۳ء-۱۹۳۳ء ] نے ترکوں کی حمایت کے عوض خلیفہ کی طرف سے کوئی مالی اعانت بھی قبول نہیں کی۔ عظیم حریت پسند شہید عمر مختار ؒ [۱۸۵۸ء- ۱۹۳۱ء] سنوسی تحریک ہی کے پرور دہ اور تربیت یافتہ تھے۔ 

عالم اسلام کے دوسرے مسلمانوں کی طرح شیخ سنوسی بھی شریف حسین اور ان کی اولاد سے ناراض تھے۔ انھیں امیر فیصل سے زیادہ شکایت تھی، جنھوں نے ’لارنس آف عربیہ‘ [تھامس ایڈورڈ لارنس: ۱۸۸۸ء-۱۹۳۵ء]کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف جنگیں لڑی تھیں۔ یہ غدار ابن غدار وہی اسلام دشمن عرب تھا، جس نے فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کے لیے صہیونیوں سے سازباز کی تھی۔ علّامہ اقبال نے اس ہاشمی سے شیخ سنوسی کی نفرت کا تذکرہ بھی ایک شعر میں کیا تھا : 

کیا خوب امیرِ فیصل کو سُنّوسی نے پیغام دیا 
تُو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا 

شریف حسین کے دوسرے بیٹے عبداللہ کے خاندان کی حکومت اردن میں قائم ہے۔ چوں کہ اس خاندان میں غداری کی روایت ایک صدی سے جاری رہی ہے، اس لیے اس کا ہر حکمران اس روایت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ موجودہ حکمران شاہ عبداللہ دوم کے والد شاہ حسین (م: ۱۹۹۹ء) کے دورِ حکومت میں ۱۹۷۰ء کے دوران اُردن میں فلسطینیوں کے قتل عام نے اُن کے اعمال نامے میں سیاہی کا اضافہ کیا۔ فلسطینیوں کے اس قتل عام کو ’سیاہ ستمبر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ حکمران شاہ عبداللہ دوم کی داستان بھی سرجھکا دینے کے لیے کافی بنیادیں رکھتی ہے۔ اسرائیل پر جب ایران نے میزائل داغے تو اُردن نے ان میزائلوں کو اپنے ملک کی حدود میں روک کر اسرائیل نوازی کا ثبوت فراہم کیا۔فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی کے دوران جب حوثیوں نے آبی گزرگاہوں کو بند کردیا تو سعودی اور اُردنی بادشاہوں نے اسرائیل کو جانے والی سپلائی کے لیے زمینی راستے کھول کر، اسرائیل پہ پڑنے والا دبائو کم کردیا۔ 

شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعویٰ ۱۹۲۴ء میں کیا، جسے نجد کے حکمران عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن سعود [۱۸۷۵ء-۱۹۵۳ء] نے تسلیم نہیں کیا،   اور ۱۹۲۵ ءمیں حجاز پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے بعد ۸ جنوری ۱۹۲۶ء کو حجاز کے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا۔اس کے بعد وہ نجدوحجاز کے بادشاہ کہلائے اور ۲۳ستمبر ۱۹۳۲ء کو نجد و حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ دیا۔ انگریزوں نے شریف حسین سے جس عرب سلطنت کے وعدے کیے تھے، اس کے ٹکڑے کیے گئے۔ اب انگریزوں نے شریف حسین کو دھوکا دے کر اس سے چھٹکارا پالیا اور اس کی جگہ شاہ عبدالعزیز ابن سعود کو نیا حلیف چُن لیا۔ آج تک آلِ سعود کا خاندان ہی سعودی عرب کا حکمران چلا آرہا ہے۔ دینی وابستگی کے اعتبار سے سلفیت سے نسبت ہے، مگرامریکا اور برطانیہ کے ساتھ ناقابلِ تصور حد تک دوستی و وابستگی ہے۔ کنگ عبدالعزیز نے جس طرح عہدِ رسالت اور خلافت راشدہ کی یاد گاروں کو مٹانے کے لیے اپنے اقتدار کا استعمال کیا، اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی۔ علّامہ اقبال نے ان سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی حاصل کریں : 

تو ہم آں مے بگیر از ساغرِ دوست 
کہ باشی تا ابد اندر برِ دوست 

سجودے نیست اے عبدالعزیز ایں 
بروبم از مژہ خاک درِ دوست 

[تُو بھی حبیبِ ؐ خدا کے اسوہ سے استفادہ کر تاکہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امان میں رہو۔ اے عبدالعزیز جو میں کررہاہوں یہ سجدہ نہیں ہے۔ میں اپنی آنکھوں کی پلکوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کی مٹی جھاڑرہا ہوں۔]  

اقبال اس کے بعد شاہ عبدالعزیز سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: 

تو سلطانِ حجازی من فقیرم 
ولے درکشورِ معنی امیرم 

جہانے کو ز تخمِ لااِلٰہ  
رُست بیابنگر بآغوشِ ضمیرم 

[تو حجاز کا بادشاہ ہے، میں گو ایک فقیر ہوں، مگر اقلیم معانی کا امیر ہوں۔ لااِلٰہ کے تخم سے جو دنیا پیدا ہوئی ہے، اگر اس دنیا کو دیکھنا ہو، تو میرے ضمیر کے اندر دیکھ لو۔ ] 

علّامہ اقبال نے آج کے عربوں سے بار ہا مایوسی اور نا اُمیدی کا اظہار کیا ہے۔ جاوید نامہ میں انھوں نے ایک پُرسکون سمندر میں دو سرکش انسانوں کی روحوں کو دکھایا ہے، جو اس سمندر میں اسیر ہیں۔ ان میں سے ایک روح مصر کے فرعون کی ہے، جس نے حضرت موسٰی کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے لشکر کو غرقِ آب کردیا۔ دوسری روح فیلڈمارشل ہربرٹ کچنر [۱۸۵۰ء- ۱۹۱۶ء]کی ہے، جو برطانیہ کا ایک درندہ صفت فوجی جرنیل تھا۔ اس نے ۱۸۹۸ءمیں خرطوم (سوڈان) پر قبضہ کیا اور شہر میں داخل ہوتے ہی مہدی سوڈانی (محمد احمد بن عبداللہ مہدی: ۱۸۴۵ء- ۱۸۸۵ء) کی لاش قبر سے نکال کراسے نذر آتش کردیا، جس پر مہدی سوڈانی کے پیروکار درویشوں نے اس درندے کو بددعا دی کہ تو نے ہمارے مرشد کی لاش کی بے حُرمتی کی، اللہ کرے تیری لاش کو خشکی اور سمندر میں کہیں امان نہ ملے۔ اٹھارہ سال بعد اس درندے کا جہاز جس میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کررہا تھا، سمندر میں غرق ہوا۔ اس کی لاش ہی پانی میں ڈوب گئی ۔ برطانیہ کے اس مایہ ناز فرزند کی لاش کو نکالنے کے لیے ماہر غوطہ خور لائے گئے، جنھوں نے بڑی کوششوں کے بعد اس کی لاش سمندر سے نکالی اور بندرگاہ کے ساحل پر رکھ دی۔ لاش ساحل پر رکھی ہوئی تھی کہ وہاں موجود گارڈ نے سوچا کہ لاش کی رپورٹ تیار کرنے میں بڑی پریشانی ہوگی، چنانچہ اس زحمت سے بچنے کے لیے اس نے کچنر کی لاش کو آگ لگادی اور اسے راکھ میں بدل دیا۔ مزید کسی زحمت سے بچنے کے لیے اس نے ٹھوکریں مار مار کر راکھ کو بکھیر کر اڑا دیا۔ قدرت کس طرح بڑے بڑے سرکشوں سے انتقام لیتی ہے! 

پُر سکون سمندر میں لارڈ کچنر کی روح تقریر کرتی ہے کہ ہم نے مصر کے آثار قدیمہ کی کھدائی کسی مادی منفعت کے لیے نہیں کی، بلکہ انگریز علم و حکمت کو پسند کرتے ہیں، اس لیے اس قوم کا مقصد بلند ہوتا ہے۔ ہم نے یہ کھدائی اس لیے کی ہے تاکہ مصر کی قدیم تاریخ اور فرعون و موسٰی کی کش مکش کے تاریخی شواہد سامنے آسکیں۔ علم و حکمت کا مقصد ہی چھپی چیزوں سے پردہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہم نے اگر مصر کے فرعون کی قبر کھودی تو اس کا مقصد یہی تھا۔ 

لارڈکچنر کی یہ تقریر سن کر فرعون نے سوال کیا کہ ٹھیک ہے ہماری قبر کو تونے تاریخی شواہد معلوم کرنے کے لیے کھودا، مگر مہدی سوڈانی کی قبر کے اندر کیا تھا؟ 

قبرِ ما را علم و حکمت برکشود 
لیکن اندر تربتِ مہدی چہ بُود؟ 

یہاں لارڈکچنر خاموش ہوجاتا ہے، کوئی جواب اُس سے نہیں بن پاتا۔ 

اس اثناء میں اس پرسکون سمندر میں ایک بجلی چمکتی ہے۔ پانی میں لہر اُٹھتی ہے اور جنت کے گلستان سے ایک خوشبو آتی ہے۔ مصری درویش مہدی سوڈانی نمودار ہوتے ہیں اور کچنر سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگر تمھاری آنکھوں میں روشنی ہو تو درویش کی خاک کا انتقام دیکھ۔ آسمان نے تمھیں قبر کے لیے جگہ بھی نہ دی۔ سمندر کے طوفان کا شور ہی تمھارا مقدر بنا۔ اس کے بعد مہدی سوڈانی کی آواز بیٹھ جاتی ہے۔ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے عربوں سے خطاب کرتے ہیں : 

گفت اے روح عرب بیدار شو 
چوں نیا گ خالقِ اعصار شو 

اے فواد اے فیصل اے ابن سعود  
تا کجا بر خویش پیچیدن چو دور 

زندہ کن درسینہ آں سوزے کہ رمت  
درجہاں باز آور آں روزے کہ رفت 

خاک بطحا خالدے دیگر بزاے  
نغمۂ توحید را دیگر سراے 

اے نخیلِ دشت تو بالندہ تر  
بر نخیزد از تو فاروقے دگر 

اے جہانِ مومنانِ مشک فام  
از تومی آید مرا بوے دوام 

زندگی تاکجاے ذوق سیر 
تا کجا تقدیرِ تو در دستِ غیر 

بدمقامِ خود نیائی تابکے  
استخوانم دریچے نالد چونے 

از بلاترسی؟ حدیثِ بمصطفٰے است 
مرد را روزِ بلا روزِ صفاست 

 

[مہدی سوڈانی کا یہ خطاب طویل ہے، یہاں صرف نو اشعار دیئے گئے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے:] 

اے عرب کی روح بیدار ہوجاؤ، اگلے بزرگوں کی طرح نئے اَدوار پیدا کرو 

اے فواد، اے فیصل، اے ابن سعود! ( مصر ، عراق اور حجاز کے حکمران) تم کب تک تفرقہ بازی کا شکار ہوکر صرف اپنی ذات تک محدود رہو گے؟ 

اپنے سینے میں ایمان کی وہ آگ پیدا کرلو جو چلی گئی ہے۔ ان ایام کو دنیا میں پھر سے لاؤ جو چلے گئے ہیں۔  

بطحا کی سرزمین سے ایک نیا خالد (خالد بن ولیدؓ) پیدا کرلو اور توحید کے نغمے کو دنیا میں دوبارہ گاؤ۔  

تمھارے جنگل کا درخت اب بھی بہت سرسبز ہے۔ پھر کیوں کوئی دوسرا عمر فاروقؓ پیدا نہیں ہوتا؟ 

اے سیاہ فام مومنوں کی سرزمین (سوڈان)، مجھے تم سے ابدی خوشبو آتی ہے۔ بڑی اُمیدیں ہیں، تم کب تک غیر متحرک زندگی گزارتے رہوگے؟ تمھاری تقدیر کب تک دوسروں کے ہاتھ میں رہے گی؟ 

اے سیاہ فام مومنو، تم کب تک اپنے مقام سے غافل رہوگے؟ اس تصور سے میری ہڈیاں بانسری کی طرح فریاد کرتی ہیں۔ تم بلاؤں سے گھبراتے ہو، حالانکہ ہمارے پیغمبرؐ نے فرمایا ہے کہ مرد کے لیے مصیبت کا دن قلب کی صفائی کا دن ہوتا ہے۔ یعنی روزِ بلا تزکیۂ نفس کا دن ہوتا ہے۔ 

آج کے حالات میں عرب حکمرانوں کے لیے اس سے بہتر کوئی پیغام نہیں ہوسکتا، جو مہدی سوڈانی نے انھیں دیا ہے۔ آج اگر مسلم ممالک متحد اور طاقت ور ہوتے تو ہمارے فلسطینی مسلمان بھائی اس ظلم و سفاکیت کا شکار نہ ہوتے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس نسل کشی کے دوران فلسطین کے اصل باشندوں کی جلاوطنی اور ’ابراہیم اکارڈ‘ کی باتیں ہورہی ہیں اور عرب اور مسلمان حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ 

ایک صدی قبل جب ’اسرائیل‘ کے نام سے یہودی سلطنت کے قیام کے لیے ’اعلان بالفور‘ ہوا تو فلسطین پر برطانیہ کے قبضے، دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا کر آباد کرنے، اسرائیل کے نام سے نئی ریاست قائم کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھایا گیا۔ امریکا اور یورپ کی طرف سے اس منصوبے کو ہر طرح کا تحفظ اور قوت فراہم کر کے مسلمانوں، عربوں اور فلسطین کے خلاف ایک جارح ملک تعمیر کرنے کا آغاز کیا گیا۔ پھر تاریخ کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اسے عربوں اور مسلمانوں سے تسلیم کرانے کے لیے عالمی استعمار کی طرف سے ’ابراہیمی‘ نسبت کی بحث چھیڑ دی گئی، تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ عقیدت و محبت کے سائے میں یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحیوں کو اکٹھا بٹھا کر، اب تک مسلسل روا رکھی جانے والی تمام زیادتیوں کو پس پشت ڈال کر ناجائز اسرائیلی ریاست کو ’قابلِ قبول‘ قرار دیا جاسکے۔ علمی حلقوں میں یہ بحث ایک عرصے سے بار بار اُٹھائی جارہی تھی، مگر اسے عملی منصوبہ اور مہم کی شکل امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِ صدارت میں دی، جس کا پہلا عملی اظہار ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ء کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، بحرین کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عبد اللطیف راشد، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زید کے درمیان باقاعدہ معاہدے اور اعلان سے ہوا۔ اس معاہدہ کی کچھ تفصیلات وائس آف امریکا اردو کی ۱۷ ستمبر ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہیں: 

’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی صبح کی بنیاد رکھ رہے ہیں، یہ بات انھوں نے عالمی استعمار کی طرف سے وائٹ ہاؤس میں اس وقت کہی، جب متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کے وزیراعظم کے ساتھ مل کر The Abraham Accord نامی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کا مقصد دو عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا: اسرائیل کی پوری تاریخ میں اس سے پہلے صرف دو ایسے معاہدے ہوئے ہیں اور اب ہم نے ایک ہی مہینے میں ایسی دوکامیابیاں حاصل کر لی ہیں اور ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ:یہ معاہدہ یہودیت، اسلام اور مسیحیت میں یکساں طور پر معزز سمجھی جانے والی مذہبی شخصیت کے نام پر رکھا گیا ہے جنھیں تینوں عقائد کے ماننے والوں میں اتحاد کی نمائندگی کرنے والا مانا جاتا ہے‘‘۔ یہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں پر اَمن معاہدے کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ایک وسیع تر سفارتی کوشش کا حصہ ہے‘‘۔ 

حالیہ دنوں ایک اہم واقعہ انھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورئہ مشرقِ وسطیٰ کا ہے۔ اس کے نتیجے میں صورتِ حال جس طرح تبدیل ہو رہی ہے، وہ کچھ یوں ہے: 

ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کر کے سعودی حکومت کے ساتھ تجارت و معیشت کے حوالے سے معاملات طے کیے۔ اس موقعے پر ان کی طرف سے دو باتیں سوشل میڈیا میں گردش کرتی رہیں، جو بہرحال توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ہوا تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے اور دوسرا یہ کہ انھیں امید ہے کہ سعودی عرب ’ابراہیمی معاہدہ‘ میں شامل ہو جائے گا۔ 

’ابراہیمی معاہدہ‘ کی بات بظاہر عرب اسرائیل سفارتی تعلقات کے حوالے سے کی جاتی ہے، لیکن اس کے درپردہ پہلو پر کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔ ایک عرصے سے استعماری قوتوں کی طرف سے عالمی سطح پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ مذاہب کو آپس میں ہم آہنگی بلکہ اتحادِ مذاہب کے عنوان سے ’باہمی افہام و تفہیم‘ یا ’کچھ لو، کچھ دو‘ کی کوئی صورت نکالنی چاہیے۔ جس کی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہے، چونکہ مذہب کو معاشرتی کردار اور سیاسی و تہذیبی ماحول سے الگ کر کے صرف عقائد اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود رکھنے کا فلسفہ عالمی قوتوں نے آپس میں طے کر رکھا ہے اور اس کو قبول کرانے میں انھیں رکاوٹ صرف مسلم معاشرے میں پیش آرہی ہے کہ حکمران طبقوں سے قطع نظر دینی و عوامی ماحول میں مسلم امت اور عوام، دین اسلام کے معاشرتی و تہذیبی کردار سے دست بردار ہونے کے لیے کسی صورت میں آمادہ یا تیار نہیں ہیں۔ اس لیے مختلف ’مذاہب کے درمیان مکالمہ، ہم آہنگی اور یک جہتی‘ کے نام پر گوناگوں سرگرمیاں منظم اور منعقد کی جاتی رہتی ہیں، تاکہ مسلم دنیا کو بھی مذہب کے بارے میں آج کے عالمی استعماری فلسفے کے دائرے میں محصور کیا جا سکے۔ 

اس کا ایک دائرہ ’ابراہیمی مذاہب‘ کو یکجا کرنے اور ایک میز پر بٹھانے کی یہ کوشش بھی ہے کہ چونکہ مسیحی، یہودی، مسلمان اور بعض دانش وروں کے نزدیک ہندو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے ان سب کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے بین الاقوامی ماحول میں محنت کا ایک میدان گرم ہے اور’ابراہیمی معاہدہ‘ بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ابوظہبی میں ’خاندان ابراہیم ہاؤس‘ تعمیر بھی کیا جا چکا ہے۔ اس پر علمی حلقوں کو متوجہ ہونے کی ضرورت کے پیش نظر کچھ گزارشات پیش کررہے ہیں۔ تاہم، پہلے دو پرانی یادیں قارئین کی نذر:  

نصف صدی قبل کی بات ہے۔ ۱۹۷۰ء میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس میں لیبیا کے حکمران جناب معمرقذافی [م:۲۰۱۱ء]نے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بات کہی کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی چونکہ بیش تر آسمانی مذاہب کا مرکز و محور ہے اور بقول قذافی: انھوں نے ہی اپنے ماننے والوں کو ’مسلم‘ ہونے کا خطاب دیا تھا جس کے لیے موصوف نے سورئہ حج کی آیت نمبر۷۸ کے سیاق سباق کے علی الرغم اس حصہ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ  سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان کہلانے کے لیے یہ ابراہیمی نسبت ہی کافی ہے اور انھیں اپنا مرکز و محور ماننے والوں کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کے عنوان سے الگ تشخص قائم کرنا ضروری نہیں ہے‘‘۔ 

ہمیں یاد ہے کہ اس وقت مصر کے نائب صدر جناب حسین الشافعی بھی کانفرنس میں شریک تھے اور انھوں نے معمرقذافی کی اس بات کو موقعے پر ہی ٹوک دیا تھا کہ ’’آپ کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور ’مسلمان‘ کے لیے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور انھیں آخری نبی کے طور پر اپنا پیشوا تسلیم کرنا بھی لازمی ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں ہے اور نہ کسی کو مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے‘‘۔ 

اسی تناظر میں ایک ذاتی مشاہدہ پیش خدمت ہے۔ امریکا کے ایک سفر میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی رفاقت تھی اور ہم دونوں شکاگو میں چنیوٹ کے ایک تاجر دوست ریاض وڑائچ مرحوم کے مہمان تھے۔ شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی [م:۱۸۹۲ء]کے پیروکار ’بہائیوں‘ کا بہت بڑا مرکز ہے، جسے دیکھنے اور وہاں کی شب و روز کی سرگرمیاں معلوم کرنے کا مجھے تجسس ہوا۔ مولانا چنیوٹیؒ سے ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ’چھوڑو وہاں کون ہمیں اندر جانے دے گا؟‘ میں نے اصرار کیا تو آمادہ ہوگئے اور ہم اپنے میزبان ریاض صاحب کے ہمراہ وہاں جا پہنچے۔ منتظمین نے ہمیں احترام کے ساتھ اپنے مرکز کا دورہ کرایا۔  

بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود سب مذاہب برحق ہیں اور بہائیت سب کی جامع ہے۔ اس کے اظہار کے لیے انھوں نے شکاگو کے اس مرکز کے بڑے مرکزی ہال میں، ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کی عبادت گاہوں کا الگ الگ ماحول بنا رکھا ہے۔ ایک کونے میں مسجد ہے، دوسرے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے، جب کہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہرعبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مسجد اس کونے میں ہے جدھر مکہ مکرمہ ہے، اس میں صفیں بچھی ہوئی ہیں، محراب ہے اور منبر بھی۔ مسجد کے ایک کونے کی الماری میں قرآن کریم کے چند نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے اور بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ایک چھت کے نیچے مسجد، مندر اور چرچ کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں، لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟ مسکرا کر بولے کہ ’چھوڑیں یہ فلسفے کی باتیں ہیں‘۔ میں نے کہا کہ ’نہیں جناب،یہ فلسفہ کی نہیں بلکہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے‘۔ یاد رہے کہ بہاء اللہ شیرازی بہائی مرکز ’عکہ‘ اسرائیل میں مدفون ہے۔ 

ہمارے خیال میں یہی تصور ’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کے پیچھے بھی کارفرما ہے، جو اہلِ علم اور دینی قیادتوں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔ ابھی ابوظہبی میں ’بيت العائلۃ الابراہيمیۃ‘ ، ’خاندانِ ابراہیم کا گھر‘ بن چکا ہے اور اب اس کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ ’اس مرکز میں مسجد کی امامت تم سنبھالو، مگر سعودیہ ابھی تک اس طرف نہیں آرہا اور سعودیہ کی علماء کونسل نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ کفر ہے۔  

قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تذکرہ تفصیلی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام بنی اسرائیل کے بھی باپ ہیں، بنی اسماعیل کے بھی باپ ہیں اور اللہ پاک نے ان کو پوری نسلِ انسانی کی امامت کا اعزاز بھی بخشا تھا: وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ (البقرۃ ۲:۱۲۴) ’’ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو بہت سی آزمائشوں میں ڈالا، جس دن وہ پورے اترے، ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ کو نسلِ انسانی کی امامت عطا فرمائیں گے‘‘۔ 

یہ نسلِ انسانی کی امامت کیا ہے؟ بیت اللہ کو تو ابراہیم علیہ السلام نے مرورِ زمانہ سے دب جانے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ تعمیر کے دوران ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دُعا کی تھی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا (البقرہ۲: ۱۲۹) ’’یااللہ! ہماری اولاد میں ایک رسول پیدا کر‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:انا دعوۃ ابی ابراہیم و بشریٰ عیسٰی، ’’میں اپنے دادا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں‘‘۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام، جن کا لقب اسرائیل ہے، وہ ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ ان سے بنی اسرائیل آگے چلی۔ موسیٰ علیہ السلام، داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں آئے۔ اس طرح دنیا کے دونوں بڑے مذہبی خاندانوں کے دادا ابراہیم علیہ السلام تھے۔ ایک پہلو تو یہ ہے۔ 

اللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ السلام کو جو عظمت عطا فرمائی ہے قربانیوں پر پورا اترنے کے نتیجے میں، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ مکرمہ میں مقامِ نبوت پر سرفراز فرمایا گیا تو نبی کریمؐ کو اپنے پہلے دائرۂ دعوت جزیرۃ العرب میں جن مذاہب کے پیروکاروں کا سامنا تھا، وہ سارے خود کو ’ابراہیمی‘ کہتے تھے ۔ سب سے پہلا سامنا مکہ کے مشرکین سے ہوا، وہ کہتے تھے کہ ہم ابراہیمی ہیں۔ نجران میں عیسائی تھے، وہ کہتے تھے کہ ’ہم ابراہیمی ہیں‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے مدینہ منورہ میں اور پھر خیبر میں جن یہودیوں سے سامنا ہوا تو وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ’ہم ابراہیمی ہیں‘۔ ان کے علاوہ کچھ صابئین بھی کہتے تھے کہ ’ہم ابراہیمی ہیں‘۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ۲۳سالہ نبوی زندگی میں جن قوموں کا سامنا ہوا وہ خود کو ابراہیمی ہی کہتے تھے۔ 

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں دو ٹوک الفاظ میں تینوں کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: مَا كَانَ اِبْرٰہِيْمُ يَہُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۶۷ (اٰل عمرٰن۳: ۶۷) ’’ابراہیم علیہ السلام یہودی بھی نہیں تھے، عیسائی بھی نہیں تھے، مشرک بھی نہیں تھے، بلکہ وہ موحد مسلمان تھے‘‘۔ قرآن مجید نے اس کی ایک واقعاتی ترتیب بھی بیان کی ہے کہ تمہارے مذہب تو بعد میں آئے ہیں۔ یہودی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تورات میں تحریف سے۔ عیسائی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انجیل میں تحریف سے۔ فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام تو یہودیت کے وجود میں آنے سے دوہزار سال پہلے گزر گئے، ان کو یہودی کیسے بنا دیا تم لوگوں نے؟ اور عیسائی تو اس سے بھی دو ہزار سال بعد میں آئے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ تم نے پہلے آنے والی شخصیت کو بعد والے مذاہب کے ساتھ کیسے نتھی کر دیا؟ 

اور ساتھ ہی اصل ابراہیمیوں کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِـاِبْرٰہِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا   ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۶۸)’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل ساتھی وہ ہیں، جو ان کے دور میں ان پر ایمان لائے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ہیں‘‘۔قرآن مجید نے صاف کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کے اپنے پیروکار اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ابراہیمی ہے۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اس میں کوئی ابہام یا کوئی پیچیدگی یا اشکال نہیں ہے کہ کوئی تاویل کی جاسکے۔ 

قرآن کریم کی بعض دیگر آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بنیادی مشن اللہ تعالیٰ کی توحید کے عقیدے پر عمل پیرا ہونا اور شرک کی تمام صورتوں کی نفی کے ساتھ بت شکنی کا عملی کردار کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی طرف نسبت کے ان دعویداروں میں سے کچھ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا، بعض نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’ابن اللہ‘ کا خطاب دیا، اور بعض نے بت پرستی کو فروغ دیا، حتیٰ کہ خود ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے تعمیر کردہ حرمِ مکہ کو بتوں کی آماج گاہ بنادیا۔ اس لیے یہ تینوں گروہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مشن، عقیدہ اور دین سے ہٹ جانے کے باعث ’ابراہیمی‘ کہلانے کے مستحق نہیں ہیں اور یہ اعزاز اب صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت کے پاس ہے۔ 

جو دعوت ’ابراہیمی معاہدہ‘ کو قبول کرنے کے لیے دی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہونے والے تمام نبیوں کی طرف منسوب مذاہب سب ٹھیک ہیں، سب ابراہیمی ہیں‘‘۔ یہ آواز نچلی سطح پر تو کافی عرصے سے ہمارے کانوں سے ٹکرا رہی تھی، مگر اب ذرا عالمی سطح پر بلند ہوئی ہے کہ ’’اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کرنے والے تمام مذہب اکٹھے ہو جائیں‘‘۔ دراصل یہ بڑی پرانی آواز ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں جزیرۃ العرب میں جن مذاہب سے واسطہ تھا وہ سب اپنے آپ کو ابراہیمی کہتے تھے۔ مشرکینِ مکہ اور مشرکینِ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے، وہ بھی ابراہیمی کہلاتے تھے۔ یہودی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، عیسائی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، اور مسلمان تو ابراہیمی تھے ہی۔ 

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ’ابراہیمیوں‘ کی طرف سے مختلف مواقع پر جو پیش کشیں ہوئی ہیں، وہی آج بھی کی جا رہی ہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حیاتِ طیبہ میں جو پیش کشیں ہوئی ہیں، ان میں سے تین چار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں: 

ایک پیش کش یہ ہوئی کہ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۝۹   (القلم۶۸: ۹) ’’تھوڑی سی آپ اپنے عقیدے میں لچک پیدا کر لیں، تھوڑی سی لچک ہم پیدا کر لیں گے‘‘۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ جناب ابو طالب کی وفات سے کچھ دن پہلے قریش کے سرداروں نے یہ محسوس کیا کہ جناب ابوطالب کی موجودگی میں اگر کوئی آپس میں مصالحت ہو گئی تو ہو جائے گی، بعد میں نہیں ہوگی۔ یہ سوچ کر وہ اکٹھے ہوئے اور ان کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اپنے بھتیجے سے ہماری بات کروائیں۔ انھوں نے حضوؐر کو بلا لیا۔ مذاکرات میں مشرکین کی طرف سے دو فارمولے پیش کیے گئے اور تین پیش کشیں : 

پہلا فارمولا یہ تھا کہ آپ اپنی توحید کی بات کریں اور اللہ کی صفات بیان کریں لیکن ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیں، ان کی نفی نہ کریں کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ دوسرا فارمولا یہ تھا کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور حرم میں کریں، ہم نہیں روکتے، لیکن ہم اپنے بت خانوں میں جو کرتے ہیں وہ ہمیں کرنے دیں۔ کبھی ہم آپ کے پاس آ جایا کریں، کبھی آپ بھی ہمارے پاس آجایا کریں۔ یہ دو فارمولے تھے ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ کے۔ 

دوسری طرف پیش کشیں تین تھیں کہ اگر ان میں سے کوئی فارمولا آپ قبول کر لیں تو تین باتوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیں: (۱) بتائیں کتنے پیسے چاہئیں، ہم اکٹھے کر دیتے ہیں۔ (۲) نشاندہی کریں کہ عرب کی کون سی خاتون سے شادی کرنی ہے، ہم کروائیں گے ۔ (۳) آپ فرمائش کریں، ہم آپ کو علاقے کا سردار بنا دیتے ہیں۔ 

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا؟ وہ مشہور جواب اسی موقع کا ہے کہ میرے دائیں ہاتھ پہ سورج اور بائیں ہاتھ پہ چاند رکھ دو، تب بھی میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ اور قرآن مجید نے بھی اس کا دو مقامات پر ذکر کیا ہے۔ ایک یہ کہ:وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۝۹ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّہِيْنٍ۝۱۰ۙ (القلم۶۸: ۹، ۱۰) اور دوسرا قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ  لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ  ،یعنی میں تمھارے بُت خانے میں عبادت کے لیے نہیں آئوں گا، تم سے ایک اللہ کی عبادت نہیں ہوگی۔ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝۶ۧ ، تم اپنے گھر، میں اپنے گھر۔ تمھارے لیے تمھارا طریقۂ زندگی (دین) اور میرے لیے میرا دین۔ 

یہ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کش ہوئی تھی۔ قرآن کریم نے مشرکینِ مکہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اور پیش کش کا ذکر بھی کیا ہے۔ فرمایا:وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ۝۰ۙ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۝۰ۭ  (یونس۱۰: ۱۵)’’آپ جو قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ٹھیک ہیں مان لیں گے، لیکن یہ قرآن نہیں، یا تو متبادل لے کر آئیں یا اس میں ردوبدل کر لیں‘‘۔ اللہ پاک نے اس کا جواب بھی قرآن مجید میں ہی دلوایا: مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗئِ  نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى  اِلَيَّ۝۰ۚ (یونس۱۰: ۱۵) ’’آپ فرما دیجیے کہ مجھے قرآن میں ردوبدل کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، میں تو وحی کا پابند ہوں‘‘۔ 

پھر ایک اور موقع آیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کے پاس گئے۔ انھی مذاکرات کے نتیجے میں انصارِ مدینہ آئے تھے اور بیعت کی تھی۔ اس زمانے میں ایک بڑا قبیلہ تھا جس کا ایک سردار تھا عامر بن طفیل، عرب کے بڑے سرداروں میں سے تھا۔ اس نے آنحضور صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ مذاکرات کی فضا میں یہ پیش کش بھجوائی کہ ٹھیک ہے ہم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، دو شرطوں میں سے ایک شرط مان لیں:
(۱) یا تو تقسیم کر لیں کہ میدانی علاقے آپ کے، شہری علاقے ہمارے۔
(۲) یا پھر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں۔ ورنہ تیار ہو جائیں میں بنوغطفان کے لاکھوں بندے اکٹھے کروں گا اور آپ سے لڑوں گا۔ اس کو تو اللہ پاک نے اسی سفر میں سنبھال لیا۔ راستے میں ایک جگہ ٹھہرا، طاعون کا پھوڑا نکلا، وہیں ہلاک ہو گیا۔ بہرحال پیش کش یہ تھی کہ یا علاقہ تقسیم کرلو یا حکمرانی دے دو تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ 

یہی پیش کش مسیلمہ کذاب نے کی تھی۔ بنو حنیفہ بہت بڑا اور جنگجو قبیلہ تھا۔ مسیلمہ کا جو پہلا لشکر مقابلے پر آیا تھا وہ ۸۰ہزار کا بتایا جاتا تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خود آیا۔ مدینہ منورہ میں حضوؐر سے ملاقات کی۔ پھر ایک دفعہ وفد اور خط بھی بھجوایا جو بخاری شریف میں موجود ہے: اشرکت معک فی الامر ولکن قریشًا‌ قوم یعتدون کہ ’’مجھے آپ کے ساتھ شراکت دار بنایا گیا ہے لیکن یہ قریشی مانتے نہیں ہیں‘‘۔ وہ مقابلے کا نبی نہیں بنا تھا، اس نے شراکت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نے وہی عامر بن طفیل والی پیش کش کی کہ
(۱)شہری نبی آپ، دیہاتی نبی میں،
(۲) یا پھر اپنے بعد مجھے خلیفہ نامزد کر دیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ حضورؐ نے مسترد فرما دیا۔ 

عرض یہ ہے کہ ایسی پیش کشیں حضورؐ کو بھی ہوئی تھیں، سیاسی بھی ہوئی تھیں، اعتقادی بھی ہوئی تھیں، احکام کی بھی ہوئی تھیں۔ ایک پیش کش کا اور ذکر کیے دیتا ہوں۔ مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعد جب حضوؐر واپس آ گئے تو طائف کے بنو ثقیف کا وفد حضورؐ کے پاس آیا۔ کہا کہ: ٹھیک ہے ہم کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن ہماری شرطیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں شراب حرام ہے، ہمارا علاقہ انگوروں کا ہے، شراب اس سے بنتی ہے، ہم شراب نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں سود حرام ہے، ہمارا سارا کاروبار سود پر ہے، یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں پانچ وقت کی نماز فرض ہے، ٹھیک ہے، لیکن اوقات ہم خود طے کریں گے۔ آپ کہتے ہیں زنا حرام ہے، ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے، گزارا نہیں ہوتا، اس لیے یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور آپ ہمارا بت ’لات‘ نہیں گرائیں گے۔ میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا کرتا ہوں کہ انھوں نے کہا کہ یہ پانچ کام تو ہم نہیں کریں گے، اگر کلمے میں کچھ اور باقی رہ گیا ہو تو ہمیں پڑھا دیں۔ آنحضورؐ نے سب مسترد فرما دیں۔ 

تین دائروں کی پیش کشیں ہیں۔ سیاسی دائرے کی، جب مکے والوں نے سردار بنانے کی پیش کش کی تھی۔ بنو غطفان نے پورے صحرائی علاقوں کا حکمران ماننے کی پیش کش کی تھی۔ مسیلمہ کذاب نے شہری علاقوں کا حاکم ماننے کی پیش کش کی تھی۔ مکے والوں نے ایک دوسرے کے پاس آجا کر عبادت میں شریک ہونے کی پیش کش کی تھی اور بنو ثقیف نے احکام میں ردوبدل کرنے کی پیش کش کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کوئی پیش کش قبول نہیں فرمائی اور صاف اعلان فرما دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ کافرون میں اعلان کروایا: 

قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ  وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ  وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙ  وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭ  لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝۶ۧ  

فرمایا کوئی سودے بازی نہیں، کوئی سمجھوتہ نہیں، کوئی اتحاد نہیں۔ بالکل اسی طرح آج بھی ہمیں یہی پیش کش ہو رہی ہے، جو عالمی سطح پر سب کے سامنے ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ہے۔ ہمارا جواب بھی وہی ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ 

جیساکہ آغاز میں عرض کیا ہے کہ یہ جو ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب مذہب سچے ہیں، ایک اللہ کی بات بھی سچی ہے، تین خداؤں کی بات بھی سچی ہے، نو کروڑ خداؤں کی بات بھی سچی ہے۔ نہیں بھائی سیدھی بات کرو، دھوکا نہیں دو۔ ایک ایک ہوتا ہے، تین تین ہوتے ہیں۔ توحید توحید ہے، شرک شرک ہے۔ یہ بہت بڑے فتنے کا آغاز ہے جو پوری دنیا میں پھیلے گا، اور اس کو پھیلانے کے لیے قیادت آج ٹرمپ صاحب کر رہے ہیں، جو خود جا کر جگہ جگہ دعوت دے رہے ہیں کہ ’ابراہیمی معاہدہ‘ میں شریک ہوں۔ ہم نے کبھی یہ معاہدہ تسلیم نہیں کیا، آج بھی نہیں تسلیم کرتے اور کبھی نہیں تسلیم کریں گے۔ ابھی پاکستان کو اس کی دعوت نہیں ملی ، ان شاء اللہ اس کی وہ جرأت بھی نہیں کریں گے۔ لیکن میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ یہ دعوت کہ ’’سارے اکٹھے ہو جاؤ اور جھگڑے چھوڑ دو‘‘، یہ بات فی نفسہٖ کفر ہے، ورنہ اسلام کو الگ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ پھر ابوبکرؓ اور ابوجہل میں فرق کیا رہ جائے گا؟ اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے، قرآن مجید کے خلاف ہو رہا ہے، اور ہم کبھی اس فلسفے کو قبول نہیں کریں گے، اور نہ پاکستان کو قبول کرنے دیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔ 

مارچ کے وسط سے صوبہ پنجاب میں صحت کے سرکاری اداروں کی نجکاری (پرائیویٹائزیشن) کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج جاری ہے ۔ ابتدائی طور پر ڈاکٹروں نے آؤٹ ڈور کا بائیکاٹ کیا، ضلعی مقامات پر احتجاجی ریلیاں نکالیں اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر کے سامنے مظاہرے کیے ۔ ۲۰ مارچ کو ڈاکٹروں ، نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف نے مل کر ’گرینڈ ہیلتھ الائنس‘ (GHA) کے قیام کا اعلان کیا اور لاہور میں گنگا رام ہسپتال سے لے کر محکمہ صحت کے دفاتر تک مارچ کیا ۔۷؍ اپریل کے بعد ’گرینڈ ہیلتھ الائنس‘ نے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا اور دھرنے کا آغاز کیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’’نج کاری کے عمل سے عامۃ الناس کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر آئیں گی‘‘،جب کہ گرینڈ الائنس کا موقف ہے کہ ’’نج کاری سے غریب اور کم وسیلہ افراد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔ حکومت کے حالیہ اقدامات سے پرائیویٹائز ہونے والے بنیادی مراکز صحت (BHUs) اور دیہی مراکز صحت (RHCs) کے روزانہ کی بنیاد پر صحت کی سہولت حاصل کرنے والے ایک لاکھ ۶۵ ہزار مریض اپنے صحت کے حق سے محروم ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر، نرسز اور دیگر طبّی عملہ کا روزگار معرضِ خطر میں پڑ جائے گا اور ہزاروں خاندان معاشی عدم استحکام کا شکار ہوں گے‘‘۔ 

’گرینڈ ہیلتھ الائنس‘ نے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کے دوران بھی احتجاجی مظاہرے کیے اور ۱۸؍ اپریل کو وزیر اعلیٰ ہاؤس تک مارچ کیا ۔ ۲۸؍اپریل کو ایک بڑا جلوس نکالا، جو وزیراعلیٰ ہائوس تک پہنچا۔ اسی رات پولیس نےاحتجاجی کیمپ پر کریک ڈاون کیا۔ لاٹھی چارج ہوا اور کیمپ میں سوئے ہوئے افراد پر تشدد کیا ، اور اس دوران احتجاج میں شریک خواتین تشدد کا شکار ہوئیں ۔ سوشل میڈیا پر پولیس تشدد کی تصاویر اور تفصیلات عوام تک پہنچیں ۔ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ڈاکٹروں اور دیگر مظاہرین پر مقدمات درج کیے گئے۔ بہت سے طبّی ملازمین کو ملازمتوں سے معطل کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ہسپتالوں میں بائیکاٹ کا دائرہ مزید وسیع ہوا اور غریب عوام کو ہسپتالوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس دوران ۶؍۷ مئی کو پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اعلان کیا کہ وہ ’’ملک کے دفاعی تقاضوں کے پیش نظر اپنا احتجاج ملتوی کر رہے ہیں‘‘ اور ہسپتالوں میں تمام ملازمین بائیکات ختم کر کے اپنی خدمات پر واپس آگئے ۔ حکومتی عہدے داروں نے اس جذبے کو ’احتجاج ختم ہونے‘ کے دعوے سے جوڑ کر زیادتی کی۔ دوسری طرف طبّی ملازمین کے احتجاجی جذبات کا اظہار سوشل میڈیا اور اداروں میں جاری ہے ۔  

ان حالات میں طبّی اداروں کی نجکاری کا پس منظر، اس کے مقاصد اور صحت عامہ پر اس کے اثرات کا مطالعہ اور تجزیہ بہت اہم اور ضروری ہے :  

طبّی سہولتوں کی نج کاری کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ صحت کی سہولتوں کو حکومتی و ریاستی انتظام سے نکال کر پر ائیویٹ افراد یا کمپنیوں کو منتقل کر دیا جائے ۔ ان کمپنیوں میں این جی اوز اور منافع کے حصول کے لیے کام کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔ بہت سے ممالک میں جہاں طبّی سہولتوں کی فراہمی حکومتی انتظام میں شامل تھی، ۱۹۸۰ء کے عشرے سے نج کاری کی طرف پیش رفت کا عمل جاری ہے۔ یہ عمل اس اُمید پر شروع کیا گیا تھاکہ منڈی کی مسابقت کے عمل اور نجی سیکٹر کے معاشی مفاد کے زیراثر طبّی سہولتوں کی فراہمی کا معیار بہتر ہوگا اور اخراجات میں کمی آئےگی، مگر یہ تجربہ ناکام رہا۔ 

  • پنجاب میں نج کاری کے عمل کا آغاز:پاکستان میں اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں اس قسم کی کوششوں کا آغاز ۹۰ کی دہائی سے جاری ہے ۔ ان کوششوں کے پیچھے بہت حد تک عالمی معاشی اداروں کا دباؤ اور حکومتی معاشی وسائل کی بڑھتی ہوئی قلت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خاص طور پر ۹۰ کے عشرے کے وسط میں ڈاکٹروں کی سیکڑوں مستقل آسا میوں کی تعینائی روک کر مختصر مدت کے کنٹریکٹ پر ڈاکٹروں کی بھرتی شروع کی ۔ اس سے ایک طرف مستقل ملازموں کی مالی اور دیگر سہولتوں سے چھٹکارا شامل تھا، تو دوسری طرف پنشن دینے کی ذمہ داری سے چھٹکارا تھا۔ نتیجہ یہ کہ اس سے اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے ڈاکٹروں کے طبقے میں معاشی عدم استحکام اور ملازمت کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت پیدا ہوئی اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ اس سوچ کے منفی اثرات صحت کی سہولتوں کے معیار اور میڈیکل کا لجوں کے تعلیمی اور تربیتی معیار پر بھی مرتب ہو رہے ہیں ۔ 

پنجاب میں طبّی سہولتوں کی نج کاری کا عمل ادارہ جاتی سطح پر تقریباً ایک عشرہ قبل پنجاب ’ہیلتھ مینجمنٹ فیسیلٹیز کمپنی‘ (PHMFC) کے قیام سے عمل میں آیا ۔ یہ کمپنی محکمہ صحت کے زیر سرپرستی ۱۹۸۴ء کے کمپنیز آرڈیننس کے سیکشن ۴۲ کے تحت قائم کی گئی۔ طبّی اداروں کی تعمیر، قیام، بہتری اور جدیدکاری اس کے مقاصد میں شامل تھی۔ بعد کے برسوں میں تقریباً ۷۰۰ بنیادی صحت یونٹ اور دیہی طبّی مراکز اس کمپنی کے انتظام میں دیے گئے۔  

ایک نیم خود مختار ادارے کی طرح یہ کمپنی بنیادی صحت مراکز (BHUs ) کا انتظام چلاتی ہے۔ اسے ملاز مین کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کا اختیار ہے اور آلات اور ادویات بھی خود خریدتی ہے۔ اس کمپنی کی شہرت اور صحت مراکز کے انتظام کے حوالے سے اس کی کارکردگی پر مسلسل سوال اٹھتے رہتے ہیں ، ملازمین کی شکایات اور مہینوں ان کی تنخواہوں میں تاخیر کی خبریں بھی زبان زدعام ہیں۔  

اصولی طور پر چاہیے تو یہ تھا کہ نج کاری کے عمل کو وسعت دینے سے پہلے اس تجربے کا تفصیلی اور آزادانہ تجزیہ اسمبلی کے ایوان میں اور میڈیا پہ کیا جاتا اور عوام کے علم میں حقائق کو لایا جاتا۔ تعجب ہے کہ اس ادارے کی ویب سایٹ انٹرنیٹ سے غائب ہے اور میڈیا اور عوام اس ادارے کی کارکردگی اور تفصیل جاننے سے محروم ہیں ۔ کمپنی کے سابقہ عہدےداروں نے نجی گفتگو میں اعتراف کیا ہے کمپنی اپنے سپرد کی گئی سہولتوں میں قابلِ ذکر بہتری لانے میں ناکام رہی ہے، اور عالمی سطح پر طے شدہ صحت کے اشاریوں جیسے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی، حاملہ ماؤںکی شرح اموات میں کمی اور دیگر حوالوں سے کوئی بہتری نہیں لاسکی ہے۔ 

  • پنجاب حکومت کے اقدامات کی حقیقت:پنجاب کی موجودہ حکومت گذشتہ ایک سال سے صحت کی نج کاری کو بڑے زور شور سے آگے بڑھا رہی ہے ۔ اب کمپنی سے ہٹ کر افراد کو طبّی ادارے ٹھیکے پر دیے گئے ہیں۔ پنجاب کے ڈھائی ہزار سے زائد بنیادی مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت  دو مرحلوں میں ، اپریل ۲۰۲۵ء تک پہلے ۱۵۰، اور پھر ۹۸۲ کلینک پرائیویٹ افراد کو منتقل کردیے گئے ہیں اور اس طرح یہ تعداد ۱۱۳۲ ہوگئی ہے۔ پالیسی کے تحت باقی صحت کے مراکز اور کلینک۲۶-۲۰۲۵ء کے مالی سال میں آؤٹ سورس کر دیے جائیں گے ۔  

حکومت پنجاب کی جانب سے بنیادی مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت کی حالیہ نج کاری کی جو پالیسی دستاویز جاری کی گئی ہے، اس میں ان مراکز صحت کی تزئین نو کرنے کے بعد ’مریم نواز ہیلتھ کلینک‘ کے نام سے انھیں موسوم کیا گیا ہے ۔ کوئی بھی کوالیفائڈ ڈاکٹر کچھ تجربے کے ساتھ ان مراکز کا کنٹریکٹ حاصل کر سکتا ہے ۔ وہ کلینک چلانے کے لیے ڈسپنسر، لیڈی ہیلتھ وزیٹر ، گارڈ اور صفائی کا عملہ بھرتی کرے گا ۔ ماہانہ بنیادوں پر دیکھے گئے مریضوں کی تعداد اور مہیا کی گئی خدمات کی بنیاد پر حکومت اسے معاوضہ دے گی ، مثلاً ماہانہ ۱۱۰۰ ؍عام مریض، ۳۰ ڈیلیوری کیسز،  ۲۰۰ حفاظتی ٹیکے اور کچھ دیگر خدمات پر تقریباً ۹لاکھ روپے ملیں گے، جس میں عملے کی تنخواہیں، ادویہ، طبّی آلات وغیرہ کے علاوہ معمول کی دیکھ بھال کے اخراجات شامل ہیں۔ 

مزید برآں لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور ملتان کے بڑے ہسپتال بھی نج کاری کے عمل میں شامل ہو جائیں گے ۔ قابلِ ذکر ہسپتال جیسے لاہور کا جناح ہسپتال اور راولپنڈی کا ہولی فیملی ہسپتال نجکاری کے اشتہارات میں شامل ہو چکے ہیں ۔ پنجاب کے سب سے قدیم لاہور کے میوہسپتال کا شعبہ پتھالوجی بھی اس آؤٹ سور سنگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ ٹھیکیدار ہسپتال کا عملہ خود بھرتی کریں گے۔  

مزید برآں محکمہ صحت کی ۳۰ ہزار خالی آسامیاں پُر کرنے کے بجائے سرے سے ختم کردی گئی ہیں۔ہسپتالوں کی سہولیات ختم ہونے کے بعد ضرورت مند شہریوں کو صحت کی سہولتوں کے لیے پورا مطلوب معاوضہ دینا ہو گا، اور حکومت صحت انشورنس کا نظام متعارف کرائے گی ۔ 

  • ہسپتالوں کی نج کاری کا تحقیقی جائزہ:ہسپتالوں کی نج کاری کے حوالے سے عالمی سطح پر سائنسی انداز سے تحقیق کی گئی ہے۔ جس میں بیان کیے گئے نتائج ہمارے لیے غور وفکر کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور جن سے رہنمائی حاصل کر کے ہم بہتر پالیسیاں مرتب کر سکتے ہیں۔سعودی جرنل آف میڈیسن اینڈ میڈیکل سائنسز میں شائع ہونے والی تجزیاتی رپورٹ  میں گذشتہ ربع صدی کی گیارہ مطالعاتی رپورٹوں کی بنیاد پر نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں سعودی عرب وغیرہ کی چار مطالعاتی رپورٹیں نج کاری کے حق میں ہیں، جب کہ ترقی یافتہ ممالک کی رپورٹیں نج کاری کی مخالفت میں ہیں۔ 

تاہم، اصل قابلِ غور بات یہ ہے کہ’ مثبت رپورٹیں‘ خدمات کی تیزی کے ساتھ فراہمی اور ’منافع بخش‘ ہونے کی بنیاد پر ہیں، جب کہ منفی رپورٹیں خدمات کی غیر مساوی فراہمی ، معیار کی پستی اور خدمات کے حصول میں مشکلات بیان کرتی ہیں ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی ریسرچ کے نتائج کا انحصار اس بات پر ہے کہ زیر مطالعہ عمل کے کس پہلو کو اہمیت دیتی ہیں ۔  

برطانیہ سے شائع ہونے والے مؤقر ترین طبّی جریدے دی لانسٹ (The Lancet) مارچ ۲۰۲۴ء کے شمارے میں نج کاری کے حوالے سے ۱۳ تحقیقی رپورٹوں پر جامع تجزیہ شائع ہوا ہے۔ تحقیق کار نے نتائج اخذ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس ریسرچ کے نتیجے میں جو نتائج تسلسل کے ساتھ سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ نج کاری کے نتیجے میں کبھی بھی طبّی خدمات کا معیار بہتر نہیں ہوا۔ آؤٹ سورسنگ اخراجات کو کم کر سکتی ہے، لیکن وہ بھی معیار کی پستی کی قیمت پر‘‘۔ 

 مجموعی طور پر یہ ریسرچ واضح طور پر نج کاری کو چیلنج کرنے کی دلیل فراہم کرتی ہے اور یہ کہ نجکاری کے عمل کو آگے بڑھا نے کی بنیاد کمزور ہے ۔ نجکاری کے بعد کم وسیلہ اور غریب افراد کے لیے صحت کی سہولیات کا حصول مشکل ہوجاتا ہے ۔ ادارے زیادہ منافع بخش خدمات کو بڑھاتے ہیں اور جن مریضوں کے علاج سے ہسپتال کو کم منافع ہوتا ہے، ان کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔ 

پنجاب حکومت کی طرف سے پہلے مرحلے پر آئوٹ سورس کیے گئے ۱۵۰ مراکز صحت کی کوئی سرکاری رپورٹ یا تجزیاتی مطالعہ سامنے نہیں آیا،لیکن واقفانِ حال کے حوالے سے ا ن مراکز کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ (EMR) میں جعلی اندراجات، کم تر معیار والے غیرکوالیفائیڈ سٹاف کی بھرتیاں ،حکومت کے طے کردہ معیار سے بہت کم تنخواہ ملنا اور دیگر مشاہدات شامل ہیں ۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے کنٹریکٹرز کو کم اور تاخیر سے معاوضوں کی ادائیگی کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ 

مجوزہ تجاویز 

چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے مرحلے کے ۱۵۰ طبّی مراکز کی کار کردگی اورہیلتھ کیئر پر اس کے اثرات کے جائزے کے بعد مزید پیش رفت کی جاتی لیکن بہت جلد بازی میں تقریباً ایک ہزار مزید طبّی مراکز اس پروگرام کے تحت ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں ۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ درج ذیل تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے اور اصلاحِ احوال کے لیے اقدامات اُٹھائے: 

۱- کسی بھی جمہوری معاشرے میں افراد کو رائے دینے اور احتجاج کرنے کا حق ہے ۔ ڈاکٹر، نرسز، پیرا میڈیکل اور دیگر متعلقہ عملہ اگر سراپا احتجاج ہے تو ان کا موقف سنا جائے، ان کی شکایات کا نوٹس لیا جائے۔ 

۲- احتجاجی کیمپ اور طبّی عملہ کی ریلی پر پولیس تشدد کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کی جواب طلبی اور قرار واقعی سزا دی جائے ۔ 

۳- ’پنجاب ہیلتھ فیسیلٹیز مینجمنٹ کمپنی‘ (PHFMC) کی دس سال سے زائد عرصہ کی کارکردگی کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے اور اس کی رپورٹ عام کی جائے۔ 

۴- دنیا بھر میں صحت کی سہولیات کی نج کاری سے دو بڑے نتائج سامنے آئے ہیں: صحت کی خدمات کے معیار کی تنزلی اور کم وسیلہ لوگوں کی ان خدمات تک نارسائی۔ ان معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور حقائق کی بنیاد پر حکمت عملی کا تعین کیا جائے۔ 

۵- پنجاب ہیلتھ اصلاحات کے تحت پہلے مرحلے پر آؤٹ سورس کیے گئے ۱۵۰ طبّی مراکز کی کارکردگی ، مشکلات اور دیگر معلومات کا تجزیہ کر کے عوام کے سامنے رکھا جائے۔ 

۶- مزید نج کاری / آؤٹ سورسنگ سے پہلے ڈاکٹروں،نرسوں اور معاشرے کے نمائندہ طبقوں سے آراء لی جائیں اور انھیں شریکِ مشورہ کیا جائے۔ 

۷- سرکاری طبّی ادارے اگر معیاری کارکردگی نہیں دکھا رہے تو اس کے عوامل تلاش کر کے اصلاحِ احوال کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ 

’دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کے مطابق عوام کو معیاری صحت کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اداروں کی نج کاری کے ذریعے اس حکومتی ذمہ داری سے فرار اور پہلو تہی ملک کے کم وسیلہ اور غریب عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔نیز ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبّی عملہ روزگار کے مسائل سے دوچار ہوگا اور ہزاروں خاندان معاشی عدم استحکام سے دوچار ہوں گے۔ 

امریکا میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم، ایلائنس فار وٹنس ٹرانسپیرنسی (AWT) نے ان افراد کے سلسلہ وار انٹرویو شائع کیے ہیں ،جنھوں نے عوامی لیگی فاشسٹ وزیراعظم حسینہ واجد کے ہاتھوں مجبور ہوکر حزبِ اختلاف کے اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف گواہیاں دیں، جن کی بنیاد پر حسینہ واجد کی عدلیہ نے ان کو عمر قید اور موت کی سزائیں سنائیں۔ 

جھوٹی گواہیوں پر سزائے موت 

’’میں سوچتا ہوں کہ جس کے خلاف میں نے گواہی دی، کیا وہ مجھے معاف کر دے گا؟ کیا  خدا مجھے معاف کر دے گا، جسے معاف کرنے کا حق صرف ایک انسان کو ہے؟‘‘ یہ بات ایک غریب، بوڑھے بنگالی مسلمان، مقبول حسین نے، جو بنگلہ دیش کے شمال مغربی ضلع رنگ پور نزد ڈھاکہ کا رہائشی ہے، مقامی بنگالی لہجے میں آنسو پونچھتے ہوئے کہی۔ 

مقبول حسین ۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کے دوران، سابقہ مشرقی پاکستان میں رہتا تھا۔ وہ اپنے علاقے پر پاکستان کے آرمی ایکشن سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا کہ اس ایکشن میں اس کی والدہ ہلاک ہوگئی تھیں۔ 

جب خانہ جنگی کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی راکھ سے بنگلہ دیش وجود میں آیا، تو اس کے پچاس برس بعد بنگلہ دیشی حکومت نے مقبول حسین سے رابطہ کیا اور اسے اپنی ماں کے قتل کے مقدمے میں گواہی دینے کو کہا۔ اسے یہ گواہی حزبِ اختلاف کے ایک اہم بنگالی مسلم رہنما کے خلاف دینا تھی جو حسینہ کے بڑھتے ہوئے آمرانہ رخ کے خلاف لڑ رہا تھا۔ 

مقبول کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ اس کی ماں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ صرف اس سیاستدان کے خلاف گواہی دے سکتا تھا، جن کا نام اے ٹی اظہر الاسلام تھا، جو اس وقت ملک کی دوسری سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی، جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل (قائم مقام) تھے۔ مقبول کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اس نے اظہرالاسلام یا کسی بنگالی شخص کو اپنی ماں کی موت کے ذمہ دار کی حیثیت سے نہیں دیکھا تھا، لیکن حسینہ واجد کی وردی میں ملبوس فورسز نے اس کا پیچھا کیا اور اسے دہشت زدہ کر کے گواہی دینے پر مجبور کیا کہ ’’نوجوان مقبول نے اظہرالاسلام کو فوج کے ساتھ اس واقعے کے دوران موجود دیکھا تھا‘‘۔ اس کے علاوہ، حسینہ نے مقبول سے یہ گواہی دلوائی کہ ’’اظہر الاسلام، رنگ پور کے دھپ پارہ میں ایک اجتماعی قتل میں ملوث تھا‘‘۔ 

۲۰۱۴ء میں حسینہ واجد کی قائم کردہ ڈھاکہ میں ایک عدالت نے، جو پاکستان فوج کے ساتھیوں کے طور پر نامزد کرنے والوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے بنائی گئی تھی، مقبول کی گواہی پر، اظہر کو سزائے موت سنا دی۔ اس کے بعد، اظہر بنگلہ دیش کی جیل کے سزائے موت کے خوفناک سیل میں قید رہے۔ اب، اگرچہ حسینہ واجد تو فرار ہوکر انڈیا چلی گئی ہے، لیکن اظہر اب بھی قید میں ہیں۔ 

تاہم، اظہر کی خوش نصیبی ہے کہ وہ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں زندہ رہے۔ حسینہ واجد نے ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۶ء کے درمیان ان کے چھ ساتھیوں کو پھانسی دی۔یہ سب مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کی اتحادی جماعت اسلامی کے اعلیٰ رہنما تھے۔ ان کے علاوہ جماعت کے کئی بزرگ راہ نما جیل میں فوت ہوگئے۔ 

۵؍ اگست ۲۰۲۴ء کو انڈیا، —جو حسینہ واجد کے آمرانہ نظام کو مضبوط اور برقرار رکھنے میں اس کا سب سے بڑا حامی تھا،وہ اس کی حکومت تو نہ بچا سکا، مگر اسے اپنے ہاں لے آیا۔ اس انقلاب کے بعد مقبول حسین کیمرے پر نمودار ہوا اور اس نے واضح لفظوں میں کہا کہ میں کس طرح حسینہ حکومت کے دبائو پر ایک ایسے شخص کو تکلیف دینے کا حصہ بنا جسے میں بے گناہ سمجھتا ہوں۔ 

اخلاقی صدمے سے دوچار، مقبول اب خود اس شخص کی رہائی کے لیے منت سماجت کر رہا ہے جو اس کی گواہی کے نتیجے میں تقریباً پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا گیا تھا۔ 

عدالتی قتل کی مشین 

یہ کہانی ایک مقبول حسین پر ختم نہیں ہوجاتی ہے، دوسروں نے بھی سامنے آ کر عوام کو بتایا ہے کہ حسینہ واجد نے ان کے دُکھوں کو کس طرح اپوزیشن سیاستدانوں کو ناحق قتل کرنے کی کوشش —میں استعمال کیا۔ ایلائنس فار وٹنس ٹرانسپیرنسی (اے ڈبلیو ٹی)، ایک امریکی انسانی حقوق کی تنظیم، نے اب تک پانچ افراد کے انٹرویو کیے ہیں، جن میں مقبول حسین بھی شامل ہے۔ 

عین الحق، جس کا اے ڈبلیو ٹی نے سب سے پہلے انٹرویو کیا۔ اس نے بتایا: ’’میں ایک مقامی چائے کے اسٹال پر بیٹھا تھا جب حسینہ کے پولیس افسران نے مجھے اٹھایا اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے میں گواہی دینے پر مجبور کیا‘‘۔ نظامی صاحب کو بعد میں عین الحق کی گواہی کی بنیاد پر پھانسی دی گئی۔عین الحق اب دعویٰ کرتا ہے کہ ’’۱۹۷۱ء میں، مَیں نے مطیع الرحمان نظامی کو ان واقعات میں ملوث ہوتے نہیں دیکھا جن میں حسینہ نے انھیں ملوث کیا، لیکن ریاستی دباؤ کی وجہ سے مجھے اپنی گواہی میں جھوٹ بولنا پڑا‘‘۔ 

مہتاب حوالدار اور الطاف حوالدار نے اے ڈبلیو ٹی کو بتایا کہ ’’حسینہ کی پولیس نے انھیں جماعت اسلامی کے ایک اور سینئر رہنما، دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت دینے کے لیے نشانہ بنایا۔ ایک پولیس افسر، ثناء اللہ، نے حوالدار کو بندوق کی نوک پر رکھا اور دھمکی دی کہ اگر تم لوگوں نے سعیدی کے خلاف گواہی دینے سے انکار کیا تو تمھیں گنگا دریا میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ 

ان حوالداروں کو عدالت میں کیا کہنا تھا؟ اس کی تربیت دینے والوں میں ریاستی وزیر قمرالاسلام، بنگلہ دیش کے سب سے بااثر کمیونسٹ طلبہ تنظیم کے سابق اعلیٰ لیڈر کامریڈ غلام عارف ٹیپو، پراسیکیوٹر اور ہندو نسل پرست رہنما رانا داس گپتا، اور پراسیکیوٹر سے سیاست دان بننے والے بیرسٹر سمن (Sumon)شامل تھے۔ حوالداروں نے یہ حقائق اے ڈبلیو ٹی کو بتائے۔ 

مطلب یہ کہ انھیں جھوٹ بولنے پر مجبور کرنا کافی نہ تھا۔ عدالت کے سربراہ جج، نسیم نے حوالداروں کو یقین دلایا کہ ’’آپ کو جھوٹ بولنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دلاور سعیدی کو پھانسی دینے کی ذمہ داری میں خود لے رہا ہوں‘‘۔ 

حوالداروں کی گواہی نے سعیدی کو ۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کے دوران ہندو اقلیت کے ساتھ عصمت دری، قتل، اور ظلم و ستم میں ملوث قرار دیا۔ اس بنیاد پر سعیدی کی سزائے موت کا فیصلہ ہوا، جو بعد میں ملک گیر احتجاج کے بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ 

حسینہ نے انصاف کے حق میں مظاہرہ کرنے والے ایک سو سے زائد افراد کا قتل عام کیا، جس پر اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء نے اس وحشت کو نسل کشی قرار دیا۔ 

اس معاملے کی ستم ظریفی یہ ہے کہ حسینہ کے ججوں کو ان افراد کی جھوٹی گواہی حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وجہ یہ کہ ان مقدمات کی سماعت کے لیے بنائے گئے قانون اور نام نہاد عدالت کو زیرمقدمہ افراد پر غیر مصدقہ خبروں کی رپورٹوں پر انحصار کر کے سزا دی جا سکتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں، یہ عدالت خاص طور پر ڈیزائن کی گئی تھی، بطور قتل کی مشین کے۔ 

بھارتی جبر اور حسینہ کی آمریت کی مزاحمت 

اس سانحے سے وابستہ پرودیپ کمار دیو اور سکھرنجن بالی کی کہانیاں بہت نمایاں ہیں۔ یہ دو بنگالی ہندو ہیں، جنھوں نے انڈیا اور اس کی ایجنٹ حسینہ کے سامنے سچ بولنے کی جرأت کی۔ بالی کی کہانی نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے گروہوں کی توجہ حاصل کی تھی، البتہ پرودیپ کمار دیو کی کہانی حال ہی میں ایلائنس فار وٹنس ٹرانسپیرنسی (اے ڈبلیو ٹی) کے ذریعے عوام کے سامنے آئی۔ 

اے ڈبلیو ٹی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں، پرودیپ کمار نے ریاستی سرپرستی میں اغوا، جبر، اور غیرقانونی پیش کشوں (ایک ملین بنگلہ دیشی ٹکہ، تقریباً  ۸ہزار۵ سو امریکی ڈالر) کی کہانی سنائی، جن کو اس نے مطیع الرحمان نظامی کے خلاف اپنی گواہی کے دن مسترد کر دیا تھا۔ اگرچہ حسینہ نے دیو (Dev)کو نظامی صاحب کے ’مبینہ جنگی جرائم‘ کے گواہ کے طور پر پیش کیا، مگر دیو نے عدالت کو بتایا کہ مجھے نظامی کے کسی غلط کام کا علم نہیں، جس کے بعد حسینہ کو دیو کو’ دشمن گواہ‘ قرار دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ 

اگرچہ دیو کی جرأت مندانہ کوششوں سے ملک کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم جماعت اسلامی کے مرکزی راہ نما مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت سے بچایا نہ جا سکا، لیکن ظالم ریاست کے خلاف دیو کا کھڑا ہونا، بھارتی بیانیہ کو توڑنے کا باعث بنا کہ حسینہ، نسل پرست ہندوؤں کی دوست تھی اور مطیع الرحمان نظامی جیسے لوگوں کی دشمن۔ پردیپ کمار دیو کی بہادری کو سکھرنجن بالی کے تجربے کو دیکھ کر بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ دیو کا سامنا کس بلا سے تھا؟ 

حسینہ نے سعیدی پر سکھرنجن بالی کے بھائی کے قتل کا الزام لگایا اور بالی کو اس واقعے کے گواہ کے طور پر پیش کیا۔ جب بالی نے اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کیا اور اس کے بجائے سعیدی کی بے گناہی کی گواہی دی تو حسینہ نے اسے عدالت کے سامنے سے جبری طور پر اٹھوا لیا۔ بالی بعد میں ایک بھارتی جیل میں پایا گیا، جو اس عدالتی قتل میں بھارت کی براہِ راست شرکت کو اُجاگر کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں بھارتی بالادستی کے ناقد سیاست دانوں کو دبانے اور بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں میں ملوث چلاآرہا ہے۔ 

نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت کی طرف سے حسینہ واجد کے دور میں جبری گمشدگیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے ۳۵۰۰ سے زائد جبری گمشدگیوں کے مقدمے رجسٹر کیے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں میں بھارت ملوث تھا۔ 

حسینہ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے نو ماہ بعد بھی، اظہرالاسلام جیل میں ہیں۔ اس عدالتی قتل کی مشین کے ذریعے سزائے موت سنائے گئے لوگ اب بھی ناجائز تیار کردہ ریاستی ریکارڈ اور کاغذات کے مطابق ’دشمن‘ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے زیر سرپرستی بنگلہ دیش کی قوم پرست تاریخ نے ۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کو ایک حساس مسئلہ بنا دیا ہے۔ جو کوئی بھی اس خانہ جنگی کے دوران متحدہ پاکستان کی حمایت کرتا ہوا سمجھا جاتا ہے، وہ خود بخود ’جنگی مجرم‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ 

دوسری طرف، بنگلہ دیش نے بھارت نواز قوتوں کو یکم مارچ ۱۹۷۱ء سے ۲۸ فروری ۱۹۷۲ء کے درمیان کیے گئے جرائم کے لیے مکمل استثنا دے رکھا ہے۔ درحقیقت حسینہ کے والد مجیب الرحمٰن کی طرف سے ۱۹۷۳ء میں نافذ کردہ عام معافی کے حکم سے مشرقی پاکستان میں بھارت نواز قوتوں کی طرف سے جنگ سے پہلے، دوران، اور بعد میں گرفتار کیے گئے غیر بنگالی شہریوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم کی قانونی کارروائی روک دی گئی ہے۔ 

بھارتی پروپیگنڈا سے نجات کی ضرورت 

بی بی سی ، لندن کی طرف سے ۱۹۷۱ء میں جنوبی ایشیا کی صحافت کا ایک انتہائی ’بااثر‘ قرار دیا گیا مشہور ٹکڑا انتھونی ماسکارہانس کی رپورٹ ہے، جس نے خانہ جنگی کے دوران عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف موڑ دیا۔ اسی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ:پاکستانی فوج کی ’جوابی نسل کشی‘ شروع ہونے سے بہت پہلے پاکستان مخالف اور علیحدگی پسند قوتوں نے غیربنگالی اور بہاری نسل کشی شروع کر دی تھی، جس میں چند ہفتوں میں لاکھوں بہاریوں کا قتل عام کیا گیا۔ 

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے تو جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ہر شخص کو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی فریق سے ہو، انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن بنگلہ دیش میں انڈیا نواز قوتوں نے اس کے جواب میں مسلسل دعویٰ کیا کہ ’’۱۹۷۱ء میں جنگی جرائم کے لیے صرف پاکستان ذمہ دار تھا‘‘۔ 

اگرچہ انڈیا کی گماشتہ حسینہ واجد کو جولائی ۲۰۲۴ء کے انقلاب میں معزول کر دیا گیا، طویل خانہ جنگی کے غیر بنگالی شکاروں، خواہ وہ بہاری ہوں یا چکمہ، انصاف سے اب بھی محروم ہیں کیونکہ غالب بھارتی بیانیہ ’اچھا انڈیا، بُرا پاکستان‘ (Good India, Bad Pakistan)کے دائرے سے باہر نہیں دیکھ سکتا۔ جب تک اظہرالاسلام اور جنگ کے بیانیہ پر جاری لڑائی کے دیگر شکاروں کو پاکستانی حامی کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے، کسی بھی بنگلہ دیشی حکومت کے لیے انصاف مہیا کرنا مشکل ہے۔(Asia Times، ۲۱؍اپریل ۲۰۲۵ء، ترجمہ: س م خ) 

سات عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم لوگ، انڈیا کے بے رحم تسلط تلے زندگی گزار رہے ہیں۔اُن کے چاروں طرف دہشت، بارود، گولی، بے حُرمتی، پھانسی، جیل، تذلیل اور انسانی زندگی کی بے توقیری روز کا معمول ہے۔اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء سے ان کا خود ارادیت کا حق تسلیم کیا ہے ۔ لیکن نہ ویٹو کلب نے اپنے فیصلے کو نافذ کرایا اور نہ انڈیا نے عالمی برادری کے فیصلے کو کسی احترام کے قابل سمجھا۔ نتیجہ یہ کہ اس جبر کے خلاف جدوجہد میں، ۱۹۸۹ء سے اب تک تقریباً ایک لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں کو جبری طور پر غائب کیا گیا،  حراست میں رکھا، یا بھارتی فورسز کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۴۷ (۱۹۴۸ء) — غیر جانب دارانہ رائے شماری کا مطالبہ کرتی ہے — ، اسے ایک طرف پھینکتے ہوئے، انڈیا نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی اور کشمیری آواز کو دبانے کا عمل جاری رکھا۔ اسی دوران ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک سنگین موڑ لیا، جب وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰، اور ۳۵-اے کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ اس اقدام کے نتیجے میں فوجی لاک ڈاؤن، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، کرفیو اور طویل مواصلاتی بلیک آؤٹ ہوا۔ 

آج ۹ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی، خطے میں دندنا رہے ہیں۔ اس طرح کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ بن چکا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے مذکورہ بالا کریک ڈاؤن کے بعد، ۱۳ ہزار سے زائد نوجوان کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA) جیسے سخت وحشیانہ قوانین کے تحت حراست میں لیا گیا، جو بغیر مقدمہ چلائے حراست کی اجازت دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی ۵۵۰ دن سے زائد عرصے تک بندش نے مواصلات، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا۔ 

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سمیت بین الاقوامی انسانی حقوق کے نگران اداروں نے انڈیا کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے OHCHR رپورٹ میں وسیع پیمانے پر بدسلوکیوں کی تفصیل دی گئی،جن میں من مانی گرفتاریاں، تشدد، اور چھرّے والی بندوقوں کا استعمال، جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد شہریوں، جن میں زیادہ تر نابالغ تھے، مستقل اندھے ہو گئے۔ 

ان خدشات میں اضافہ کرتے ہوئے، انڈیا نے ۲۰۱۹ء سے غیر مقامی افراد کو لاکھوں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں ۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو خطے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ ایسی آبادیاتی انجینئرنگ، چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، جو مقبوضہ علاقوں کی آبادی کی ساخت میں تبدیلی کی ممانعت کرتا ہے۔ 

اپریل ۲۰۲۵ء میں، پہلگام میں تشدد کے افسوس ناک واقعے کو بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف دشمنی بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تاہم، پاکستان کے مضبوط سفارتی اور فوجی ردعمل نے اب تک مزید تصادم کو روکا ہے۔ اس کے باوجود، ’ہندوتوا‘ قوم پرستی کی شاہراہ پر چلنے والی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہٹ دھرمی پر مبنی اسٹرے ٹیجک جرم کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے، جو کشمیر کے اس تنازعے کے طے شدہ قانونی حل کے بجائے موت اور خون کی طرف دُنیا کو دھکیل سکتا ہے۔ 

انڈیا اور پاکستان دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں۔ کشمیر پر ایک بھی غلط قدم تباہ کن علاقائی یا عالمی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی برادری اب خاموش تماشائی بننے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، یورپی یونین، اور عالمی طاقتیں فیصلہ کن مداخلت کریں تاکہ طویل عرصے سے موجود ’اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل‘ (UNSC) کی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ 

کشمیر صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں ہے، یہ عالمی برادری کی بے حسی کا جرم اور انڈیا کی علاقائی غنڈا گردی کا زندہ ثبوت ہے۔ یہ انسانی حقوق، انصاف اور وقار کا سوال ہے۔ اگر دنیا نے اس تنازع سے نظریں پھیرنا جاری رکھا تو اس کے نتائج جنوبی ایشیا سے کہیں آگے جا سکتے ہیں، — جو بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا دنیا تباہی کو روکنے کے لیے اٹھے گی — یا اسی طرح خاموشی سے شریکِ جرم رہے گی؟ 

دُنیا بھر میں امن کو برباد کرنے اور انسانوں کے قتل عام میں دلچسپی رکھنے والی ریاست امریکا نے انڈیا کی درخواست پر، وہ جنگ جو انڈیا نے شروع کی تھی، اور اب خوفناک تباہی کا عنوان بن رہی تھی، رکوا دی۔درحقیقت اس پیش رفت کا دوسرا پہلو، امریکا کی جانب سے اپنے ایشیائی ’پولیس مین‘ ملک کو سبکی اور ذلّت سے بچانا بھی تھا۔ اسی مرحلے پر مختلف سطحوں پہ یہ نظریہ زور پکڑنے لگا کہ ’امریکی ثالثی‘ سے مسئلہ کشمیر حل کرا لیا جائے۔ 

ہمارے نزدیک ’امریکی ثالثی‘ کا آپشن اختیار کرنے سے کشمیر تنازعہ کے حل میں کئی ممکنہ تباہ کن نقصانات کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لیے اُمڈ آئیں گے، خاص طور پر جب اسے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے ہٹ کر دیکھا جائے گا۔ ذیل میں چند اہم نکات پیش ہیں: 

  • حقِ خود ارادیت کا موقف کمزور ہونا:سلامتی کونسل کی قرارداد ۴۷ (۱۹۴۸ء) کشمیریوں کے لیے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے حقِ خود ارادیت کی واضح ضمانت دیتی ہے۔ ’امریکی ثالثی‘ اس اصول سے ہٹ کر دوطرفہ مذاکرات یا ایک مدت تک تنازع کو ’منجمد ‘ رکھنے جیسے حل پیش کر سکتی ہے، جو کشمیریوں کے بنیادی مطالبے کو نظرانداز کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ امریکی مفادات اکثر جغرافیائی سیاست اور طاقت کے توازن پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس لیے امریکا، کشمیریوں کی اُمنگوں کے بجائے بھارت کی علاقائی بالادستی کو ترجیح دے سکتا ہے بلکہ یقینی طور پر ایسا ہی ہوگا (یاد رہے ۱۹۶۲ء میں چین انڈیا تصادم میں مسئلہ کشمیر کے زمینی حل کے تاریخی امکان کو امریکی شاطرانہ ڈپلومیسی نے رُوبہ عمل نہ آنے دیا، اور پھر پاکستان کے ہاتھ باندھ کر مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں دھکیل دیا)۔ 
  • انڈیا کی پوزیشن مضبوط ہونا:امریکا اور انڈیا کے درمیان اسٹرے ٹیجک شراکت داری (خاص طور پر انڈوپیسفک حکمت عملی اور چین کے مقابلے میں) انڈیا کو ’امریکی ثالثی‘ میں ایک مضبوط پوزیشن دے سکتی ہے۔ اس سے انڈیا کے غیر قانونی اقدامات، جیسے آرٹیکل ۳۵-اے اور ۳۷۰ کی منسوخی، پر عالمی تنقید کم ہو سکتی ہے۔ نام نہاد ’امریکی ثالثی ‘انڈیا کے ’داخلی معاملہ‘ کے بیانیے کو تقویت دے سکتی ہے، جس سے کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت کمزور پڑے گی۔ 
  • پاکستان کی سفارتی پوزیشن کا کمزور ہونا:پاکستان نے ہمیشہ کشمیر تنازعہ کو اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ’امریکی ثالثی ‘اس فریم ورک کو نظرانداز کر کے بلکہ توڑ پھوڑ کر پاکستان کی تاریخی سفارتی کوششوں کو کمزور کردے گی۔ 

امریکا کی جانب سے غیر جانب دار(نیوٹرل) ثالث ثابت ہونا ، تاریخ کا ایک عجوبہ ہوسکتا ہے۔ درحقیقت وہ یقینا پاکستان ہی پر دبائو ڈالے گا کہ پاکستان اپنی اصولی اپوزیشن سے پیچھے ہٹے، بلکہ پسپا ہو۔ انڈیا کے ساتھ اس کے گہرے معاشی اور فوجی تعلقات پاکستان کے لیے غیر منصفانہ نتائج کا باعث بنیں گے۔  

  • کشمیریوں پر انسانی حقوق کے اثرات:’امریکی ثالثی ‘سیاسی سودے بازی پر مرکوز ہو سکتی ہے، جو کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں (جیسے من مانی حراستیں، ریاستی تشدد وغیرہ ) کو پس پشت ڈال دے گی۔جس سے کشمیر میں فوجی قبضے کو معمول کی کارروائی کے طور پر قبول کرنے پر اہل کشمیر اور پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے، بجائے اس کے کہ اس ظلم کو ختم کیا جائے۔ 
  • علاقائی عدم استحکام کا خطرہ:بظاہر تمام اعشاریے یہی بتاتے ہیں کہ ’امریکی ثالثی‘، انڈیا کے حق میں جھکاؤ رکھے گی، تو اس سے پاکستان میں عدم اطمینان بڑھتے ہوئے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے۔ یک طرفہ امریکی کردار کو دیکھ کر چین اور روس بھی تنازعہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کشمیر عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ کا میدان بن سکتا ہے۔ 
  • کشمیری عوام کی آواز کا دبنا:اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیری عوام کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، لیکن ’امریکی ثالثی‘ میں انڈیا اور پاکستان ہی کو حکومتی سطح پر مذاکرات کو ترجیح دی جائے گی، جس سے کشمیری عوام اور ان کے نمائندوں (جیسے حریت کانفرنس) کی آواز نظرانداز ہوسکتی ہے۔ ’امریکی ثالثی‘ تاریخی طور پر (جیسے اسرائیل-فلسطین مذاکرات میں) کمزور فریق کی نمائندگی کو کم بلکہ برباد کرتی ہے، جو آخرکار کشمیریوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ 

تجاویز 

اقوام متحدہ کے فریم ورک پر قائم رہتے ہوئے پاکستان اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کے لیے زور دینا چاہیے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک تسلیم شدہ حل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ’امریکی ثالثی‘ پر انحصار کرنے یا اسے اپنے ہاتھ کاٹ کر دینے کے بجائے، ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور دیگر غیر جانب دار فورمز (جیسے یورپی یونین) کو متحرک کرکے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کے لیے دبائو بڑھایا جائے۔ 

کشمیریوں اور پاکستانیوں کو عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں (جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل) کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ کسی بھی یک طرفہ ثالثی کو چیلنج کیا جاسکے (حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے کہ امریکا، ثالثی جیسے ’ڈرامے‘ میں ظالم فریق کا طرف دار ہی ہوتا ہے، اور مظلوم کو مزید کچلنے کے لیے شیرہوتا ہے، غزہ کا منظر آنکھوں کے سامنے رہے)۔ 

’امریکی ثالثی‘ سے کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت، پاکستان کی سفارتی پوزیشن، اور خطے میں استحکام، خطرے میں پڑجائیں گے۔ یہ سفارتی عیاشی بھارت کے اقدامات کو جائز قرار دینے اور کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کا باعث بن جائے گی۔ انڈیا بظاہر لیت و لعل سے کام لے کر، آخرکار ’امریکی ثالثی‘ پر آمادہ ہوجائے گا، کیونکہ انڈیا کو معلوم ہے کہ یہ ثالث، فی الحقیقت اس کا فرنٹ مین ہی ہے۔ اس کے برعکس، اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت عالمی برادری کی شمولیت زیادہ منصفانہ اور پائیدار حل فراہم کر سکتی ہے۔ 

اسی طرح سفارتی پسپائی اختیار کرتے ہوئے، انڈیا اپنی دوسری دفاعی لائن ’خودمختار کشمیر‘  یا ’تیسرے آپشن‘ کا دائو بھی کھیلنے سے نہیں چُوکے گا۔ اس جال میں پھنسنے سے بچنے کے لیے کشمیری قیادت، پاکستانی سیاسی و فوجی مقتدرہ اور رائے عامہ کو ہوشیار و بیدار رہنا ہوگا۔ گذشتہ ڈیڑھ دوسو سال کی تاریخ نے ایک بات تو بار بار ثابت کی ہے: ’’مسلمان، مذاکرات کی میز پر دھوکے میں آتا ہے اور مار بھی کھاتا ہے‘‘۔ 

مئی ۲۰۲۵ء کے پہلے بارہ دنوں میں دنیا نے انڈین دہشت گردی کی ایک ایسی خون آشامی کا مشاہدہ کیا، جو ریاستی حکمت عملی کی آڑ میں چھپی ہوئی تھی۔ ۲۲؍اپریل کو پہلگام (مقبوضہ کشمیر) میں ہونے والے ایک مہلک حملے میں ۲۶ ؍انڈین ہندو،مسلم سیاح ہلاک ہوئے۔ کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہ کی، کوئی تفتیش نہ کی گئی اور نہ کوئی ثبوت منظر عام پر آیا۔ مگر نئی دہلی نے، حقائق کی عدم موجودگی کے باوجود، الم ناک و اقعے کے صرف آدھ گھنٹے کے اندر اندر اپنی مرضی کا بیانیہ تشکیل دے ڈالا۔ اتنی عجلت میں تمام مرحلوں کا طے کر ڈالنا ریاستی ڈرامے کے خالقوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، کہ انھیں نہ سچائی مطلوب تھی اور نہ ضروری ہی تھی۔ صرف ایک چیز اہم تھی کہ برق رفتاری سے — کشیدگی کی طرف بڑھتے ہوئے، تشدد پر تیار کردہ اپنے عوام کی نفسیاتی تسکین کا سامان کیا جائے۔ 

۷ مئی کی رات، انڈیا کے جنگی طیارے لائن آف کنٹرول پار کر کے پاکستان کے اندر مبینہ شدت پسند ٹھکانوں پر بمباری کر چکے تھے۔ اس کارروائی کا نام ہی ’سندور‘ تھا، یعنی وہ سرخ سفوف جو ہندو عورتیں اپنے شادی شدہ ہونے کی علامت کے طور پر لگاتی ہیں۔ — یہ اپنی جگہ خود ایک علامتی اعلان بھی تھا۔ یہ محض فوجی کارروائی نہ تھی، بلکہ مذہبی علامتوں میں لپٹی سیاسی نمائش تھی___ زعفرانی قوم پرستی اور فضائی بالادستی کا ایک دکھاوا بھرا امتزاج۔ یہ بدلہ نہ تھا، بلکہ رسم تھی۔ یہ حکمت عملی نہ تھی، بلکہ ایک خونیں تماشا تھا۔ یہ قومی دفاع نہ تھا، بلکہ یہ زعفرانی تھیٹر تھا۔ 

اس پوری کارروائی کی منطق سکیورٹی نہیں تھی، بلکہ بہکانا تھا۔ اصل ہدف رائے دہندہ تھے۔ جنگی جہاز، انتخابی مہم کے ہتھیار تھے، مقتولین کو انتقام کے رقص میں شریک کر لیا گیا اور آگے بڑھ کر  بہاولپور، مظفرآباد، مریدکے میں ایک ایک مسجد کو بھی نشانہ بنایا۔جہاں قریب رہنے والوں، گھروں کے بچّے اور عورتیں بھی جاں بحق ہوئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس انڈین حملے پر عالمی ردِعمل غصے کا نہیں تھا — بلکہ بےحسی کا تھا۔ ایسا ردعمل، جو ہر نئے ظلم کے ساتھ مزید مکروہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ آج کی ظالم جیوپولیٹیکل دنیا میں کس کا خون اہم ہے اور کس کا اہم نہیں، یہ ظلم کی شدت سے نہیں بلکہ گروہی یا نسلی وابستگی سے طے ہوتا ہے۔ 

  • جنگ، نظریاتی خونیں تماشا: ہم اس دور میں جی رہے ہیں، جہاں جنگ لڑی نہیں جاتی — بلکہ ترتیب دی جاتی ہے۔ ہر متعددی ’بم‘ کو سوشل میڈیا پر ’وائرل‘ کرنے کے لیے مرتب اور ایڈٹ کیا جاتا ہے۔ ہر حملے کے ساتھ ہیش ٹیگ ہوتا ہے۔ ہرلاش کو ایک فلٹر سے گزارنا لازم ہے —۔  کیا وہ قابلِ افسوس ہے یا نہیں؟ کیا وہ ’اسٹرےٹیجک‘ ہے یا نہیں؟ پہلگام میں جب سیاح قتل ہوئے، نئی دہلی نے انصاف کا راستہ اختیار نہیں کیا، اس نے اپنی مرضی کا مذموم منظرنامہ چنا۔ نہ کوئی عدالتی تحقیق ہوئی اور نہ فرانزک تجزیہ ہوا۔ صرف ایک بےساختہ اداکاری ہوئی —، اور جنگ بطور تماشا اور ظلم بطور الگورتھم۔ 

بہاولپور ،مظفرآباد اور مریدکے میں مسجد پر حملہ کوئی حادثہ نہ تھا، وہ ایک پیغام تھا۔ وہ مودی کی جانب سے نیتن یاہو کے خون آلود اسکرپٹ کی تکرار تھی۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کا منظم قتلِ عام ’اپنے خودار دفاع‘ کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ انڈیا میں کشمیری جانوں کی تباہی کو ’انسدادِ دہشت گردی‘ کا لیبل دیا جاتا ہے۔ دونوں جگہ، شہریوں کا دُکھ جھٹلایا جاتا ہے یا پھر لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ مزاحمت کو جرم بنادیا جاتا ہے، اور ماتم کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ یہ محض فوجی حکمت عملی نہیں، — یہ ایک خونیں نظریاتی تھیٹر ہے۔ 

  • ’صہیونیت ‘ اور ’ہندوتوا‘ کی مماثلت:کشمیر میں جو کچھ ہوا، وہ انڈیا کی انفرادی کوشش نہیں تھی بلکہ یہ ایک نوآبادیاتی شیطانی اور فرعونی عمل کی تکرار ہے۔ یہ ’صہیونیت‘ کے ظالمانہ باب کو ’ہندوتوا‘ کی موجودہ خواہش کے لیے اپنانے کا اعلان اور عمل ہے۔ نیتن یاہو کی غزہ میں جاری نسل کشی — اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں کی تباہی، — ایک بے لگام بدمعاش ریاستی طاقت کے وحشیانہ مظاہرے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مودی نے اس ریاستی بدمعاشی کو دیکھا، اس سے متاثر ہوا، اس سے سیکھا اور اس پر عمل کرنے کے لیے چل پڑا۔ 

یہ مشابہتیں محض اتفاقیہ نہیں — بلکہ باقاعدہ طریق کار کا حصہ ہیں۔ نیتن یاہو کا مستقل جنگ جاری رکھنے کا نظریہ، مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہدفی قتل، مغربی تہذیبی درندگی، اور صلیبی جوش و تعصب کا وحشیانہ استعمال، — یہ سب نئی دہلی میں صرف سراہا ہی نہیں جا رہا، بلکہ عملی طور پر اپنایا بھی جا رہا ہے۔ انڈیا اب اسرائیلی نگرانی (Survillence)کا سافٹ ویئر، ڈرون، حتیٰ کہ مخصوص ’جنگی اخلاقیات‘ درآمد کر رہا ہے۔ 

نیتن یاہو اپنے تشدد کو ’یہودی بقا‘ کی زبان میں چھپاتا ہے، جب کہ مودی اسے ’ہندو مظلومیت‘ کے نام پر تقدیس عطا کرتا ہے۔ دونوں اپنے افسانوی اور خیالی ماضی کے صدموں کو حال کے مظالم کا جواز بناتے ہیں۔ دونوں خوف کے ذریعے حکومت کرتے ہیں، دونوں اپنے دشمن تخلیق کرتے ہیں، اور دونوں مذہب کو نجی عقیدہ نہیں، بلکہ اژدہا بنا کر استعمال کرتے ہیں۔ صہیونیت اور ’ہندوتوا‘ نہ صرف سانجھے طریقے استعمال کرتے ہیں — بلکہ ایک کائناتی تصور بھی بانٹتے ہیں۔ اسرائیل میں بالادستی مقدس ہے، اور فتح نجات، پھر ’قبضے سے جلاوطن تک‘ غزہ جس اذیت سے گزر رہا ہے، کشمیر تو اس برہمی نسل پرست عقیدے کو مدتوں سے جانتا ہے، انیسویں صدی سے تو مسلسل ۔ 

لیکن اب، قبضہ ایک اور بھیانک رُوپ اختیار کر چکا ہے — یعنی ’جلا ڈالو‘۔ ۲۰۱۹ء میں جب آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے  کو منسوخ کیا گیا، تو یہ کوئی حکومتی اقدام نہ تھا — بلکہ ایک آئینی چال میں لپٹی ہوئی، دُنیا سے بغاوت تھی۔ اُس دن سے، مقبوضہ کشمیر اجتماعی سزا کی تجربہ گاہ بن چکا ہے: اجتماعی گرفتاریاں، مواصلاتی بلیک آؤٹ، ماورائے عدالت قتل۔ جس میں ہر مظاہرہ بغاوت قرار پاتا ہے، ہر کشمیری مشتبہ، باغی اور گردن زدنی ٹھیرتا ہے۔ 

یہ محض جبر نہیں، — یہ بنیادی ڈھانچے کی تباہی ہے۔ اسرائیلی ڈرونز جو خان یونس پر منڈلاتے تھے، وہ اب کپواڑہ پر بھی منڈلاتے ہیں۔ تل ابیب میں تیار کردہ چہرہ شناس سافٹ ویئر اب سری نگر میں متحرک ہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی، حیاتیاتی ڈیٹا کی شناخت، اور پیش گوئی پر مبنی پولیس گردی، — جو کبھی فلسطینیوں پر آزمائی گئی تھی، اب انڈین ریاست کے ہتھیار بن چکی ہے۔ یہ محض فوجی ہم آہنگی نہیں، بلکہ بے حساب ظلم کی عالمی توسیع ہے۔ نسل کشی (Genocide)اب ایک برانڈ بن چکی ہے، جس کے فرنچائز ہر سمت کھل رہے ہیں۔ اس بارے کسی کو  غلط فہمی نہ ہو، یہ ایک عریاں نسل کشی ہے۔ ایسی نسل کشی جو ہمیشہ گیس چیمبر یا اجتماعی قبروں سے شروع نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یہ نسل کشی خاموش بیوروکریسی، معیشت کے گلا گھونٹنے، اور الگورتھمی نقاب میں مسلط کی جاتی ہے۔ ایک قوم کو صرف جغرافیہ سے نہیں، بلکہ یادداشت سے بھی مٹا دیا جاتا ہے۔ 

  • ظلم کا ’معمول‘ بن جانا:نیتن یاہو اور مودی دونوں یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ظلم کو چھپانے کی ضرورت نہیں، — صرف از سر نو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ مظلوموں کو بدنام کر دو، اور اُن کے دُکھ کو نئے کوڈ میں لکھ دو۔ غزہ کے تمام مسلمان ’حماس کے ہمدرد‘ بتائے جاتے ہیں۔ سارے کشمیری ’دہشت گردوں کے ہمسائے‘ ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ایک بار یہ لیبل لگ جائے، تو جواز خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور دس مزید حملوں کا ’نظریہ‘ بن جاتا ہے۔ 

امریکا و مغرب، جو برسوں سے اسرائیل کی بے لگام درندگی کے شریکِ کار رہے ہیں، انڈیا کو ایک منافع بخش شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسرائیل، امریکی ہتھیاروں سے شہریوں کا قتلِ عام کرتا ہے اور انڈیا یہی کام اسرائیلی ٹکنالوجی سے کرتا ہے۔ ادھر انسانی حقوق کی زبان کو بے اثر کردیا گیا ہے۔ — وہ محض ’تحمل‘ اور’مذاکرات‘ جیسی مبہم اپیلوں تک محدود ہو چکی ہے۔ واشنگٹن، لندن، جنیوا اور پیرس میں تجارتی معاہدے جنگی جرائم سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جنگی مجرم ’مصلح‘ دکھائی دیتے ہیں۔ نسل پرست قاتل، جمہوریت پر لیکچر دیتے ہیں۔ میڈیا خونریزی کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کرتا ہے، تاریخ، اخلاق، اور انجام کی ارتھی اُٹھائے مہاشوں کا ہجوم!یہ صرف اخلاقی انحطاط نہیں — یہ بازاری منطق ہے۔ یعنی قتل، اگر ’درست انداز‘ میں پیش کیا جائے، تو منافع بخش چال ہے۔ 

  • تصادم، پھر جواب:لیکن اس بار پاکستان نے صرف زخم نہیں سہے۔ ۸ مئی کو اسلام آباد نے راجوری اور سانبہ میں انڈین فوجی تنصیبات پر درست جوابی حملے کیے۔ یہ صرف بیان بازی نہ تھی — بلکہ سوچا سمجھا پیغام تھا۔ یہ ایک وارننگ تھی کہ اگر مہم جوئی بڑھی، تو اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ یہ میدانِ جنگ میں ایک سفارت کاری تھی، — آواز کی رفتار سے تیز سفارت کاری۔ 

اب جنوبی ایشیا ایک خطرناک کنارے پر کھڑا ہے۔ دو ایٹمی ریاستیں، ایک ایسی قیادت کے ہاتھوں یرغمال ہیں، جو مذہبی اور قومی نسل پرستی کے خواب میں مدہوش ہے۔ ایک غلطی، ایک غلط اندازہ، اور پورا برصغیر پاک و ہند راکھ ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی ڈراوا نہیں، — یہ ریاضی کا ایک سیدھا جواب ہے۔ علاقہ جوہری تاب کاری میں بھڑکنے اور قیادت بھڑنے کی دہلیز پر ہے۔ اور دنیا، حسبِ معمول، اپنی ہی دُنیا میں گم۔مودی اور نیتن یاہو جو کچھ کھیل رہے ہیں، وہ صرف اپنے دشمنوں کی تقدیر سے نہیں —، ہم سب کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔ 

  • ’ہسبارہ‘ اور ’ہندوتوا‘ ایک زہریلا امتزاج:اسرائیل اسے ’ہسبارہ‘ کہتا ہے، یعنی — ریاستی جھوٹ، پردہ پوشی اور انکار کا نظام۔ انڈیا اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ مودی کے انڈیا میں سچ جرم بن چکا ہے، صحافت غداری ہے، حقیقت کی جانچ اشتعال انگیزی ہے اور اختلاف رائے ملک دشمنی ہے۔ جو میڈیا مہم کے طور پر شروع ہوا تھا، وہ اب ریاستی نگرانی میں بدل چکا ہے۔ 

مودی کے انڈیا میں افسانہ قانون بن چکا ہے، اور قانون محض افسانہ۔ نیوز اینکر خبریں نہیں دیتے، نعرے لگاتے، چیختے اور چنگھاڑتے ہیں۔ مؤرخین تشریح نہیں کرتے، — وہ نشانے باندھتے ہیں۔ یونی ورسٹیاں علم کی جگہ نہیں فکری غلامی کے کارخانے بن چکی ہیں۔ ’ہندوتوا‘ کوئی قدامت پسند نظریہ نہیں، — یہ نسلی برتری کا وحشیانہ مذہب ہے۔ یہ ایک ایسا ہندو ریاستی خواب دیکھنا ہے جو مسلمان، عیسائی، دلت، اور اختلاف رائے، سب کو آلودگی قرار دے کر ان کے خاتمے اور کچلنے کا پیغام دیتا ہے۔ ’ہندوتوا‘ کا منصوبہ، صہیونیت کی طرح، صرف تابع داری نہیں چاہتا — بلکہ خاتمہ۔ اسے صرف غلبہ نہیں چاہیے — بلکہ یکسانیت چاہیے۔ انڈیا اور اسرائیل دونوں میں ریاست اب ادارہ نہیں — مذہبی قربانی کی مقتل گاہ بن چکی ہے۔ 

  • جب ماتم مزاحمت ہوجائـے:غزہ میں بچّے منہدم کنکریٹ کے نیچے دفن ہو رہے ہیں، اور نیتن یاہو فوجی اڈوں کے دورے پر کیمروں کے سامنے مسکرا رہا ہے۔ بہاولپور، مظفرآباد، مریدکے میں بچّے مسجد میں شہید ہوتے ہیں، اور انڈین اینکر اسے ’سرجیکل کامیابی‘ قرار دیتے ہیں۔ کشمیر میں مائیں اپنے بیٹوں کا ماتم کرتی ہیں، جنھیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر لاشیں واپس نہیں کی جاتیں۔ یہ خون آلود واقعاتی یکسانیت حادثاتی نہیں بلکہ پالیسی ہے۔ شہری محض چھوٹے موٹے نقصان سے گھائل نہیں — بلکہ خاتمے کا نشانہ ہیں۔ ماتم خود ایک مزاحمت بن چکا ہے۔ یہ بغاوت ایک ایسی ریاست کے خلاف کھڑی ہے جو صرف خاموشی چاہتی ہے۔یہ جنگ نہیں، نسلی تطہیر ہے، ہیش ٹیگ کے ساتھ۔ یہ ایک ’غیر مطلوب قوم‘ کی رسمِ قتل ہے — مذہبی حوالے سے ’جائز‘ اور عالمی طاقتوں کے ذریعے مالی امداد یافتہ۔  
  • یہ مشق نہیں ___ یہ حقیقت ہـے:غزہ اور کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ عالمی نظام سے انحراف نہیں — بلکہ اسی کا لازمی نتیجہ ہے۔ مودی صرف نیتن یاہو کو دیکھ نہیں رہا، — وہ اسے پڑھ رہا ہے، نقالی کر رہا ہے، اور اس کے ہتھیاروں کو نکھار رہا ہے۔ نیتن یاہو صرف فلسطینیوں کو قتل نہیں کر رہا — وہ ظالموں کی نئی عالمی نسل کی تربیت کر رہا ہے۔ یہ ’نیتن مودی‘ صرف اتحاد نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے: مذہبی علامتوں اور سمارٹ بموں کے ساتھ جدید فسطائیت کا۔ 

اور جب دنیا خوفناک تباہی کے کنارے پہنچ چکی تھی، ۱۰ مئی کو ایک جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ انڈیا اور پاکستان نے مزید کشیدگی روکنے پر اتفاق کیا۔ تب میدان میں داخل ہوا ڈونلڈ ٹرمپ، خود ساختہ ’امن کا پیغامبر‘۔ جس نے فوراً یہ کریڈٹ لیا کہ ’اس نے برصغیر کو پُرسکون کر دیا‘۔ دو جوہری ممالک کی قسمت ایک کھوکھلے لیڈر کے کریڈٹ شو کی نذر ہو جائے، یہ ایک مضحکہ خیز اور شرمناک منظر ہے۔مگر دھوکا نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ یہ جنگ بندی کسی امن کی تمہید نہیں۔ — یہ محض وقفہ ہے۔ غزہ میں اب بھی شعلے بھڑک رہے ہیں۔ کشمیر میں اب بھی نگرانی کے ٹاور غرا رہے ہیں۔ اور جو نظریہ اس قتل گاہ کو چلارہا ہے، وہ اب بھی پھیل رہا ہے تیزرفتار — کینسر کی طرح۔ 

  • اسٹیج جل رہا ہـے:تاریخ اُن لوگوں کے ساتھ نرمی نہیں برتے گی: جنھوں نے یہ سب دیکھ کر کچھ نہ کیا، اُن سفیروں کے ساتھ جنھوں نے کھوکھلے بیانات دیے، اُن میڈیا اداروں کے ساتھ جنھوں نے جھوٹ کو دہرایا، اور اُن شہریوں کے ساتھ جنھوں نے صرف اس لیے منہ پھیر لیا کہ لاشیں ’سفید فام‘ نہ تھیں۔ 

یہ ان سب کے لیے پکار ہے، جو انصاف کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وقت گزر چکا ہے۔ مظلوم محض علامتیں نہیں، — وہ بیٹے، بیٹیاں، خاندان اور مستقبل ہیں۔ غزہ اور کشمیر میدانِ جنگ نہیں، نسل پرست — جرم کے منظرنامے ہیں۔ اور اگر اس پر کھل کر، بے خوف ہو کر، اکٹھے ہو کر آواز نہ اٹھائی — تو ہم تماشائی نہیں رہیں گے —، ہم شریکِ جرم بن جائیں گے۔اگلا باب بلوچستان، کراچی، سری نگر، یا رفح میں کھل سکتا ہے۔ 

سوال اب یہ نہیں کہ ہم عمل کریں گے یا نہیں، — بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم میں اتنی اخلاقی ہمت ہے کہ ہم تباہی کے اس انجن کو روک سکیں؟ اس سے پہلے کہ یہ ہمیں بھی کچل کر چلا جائے۔ کیونکہ یہ کھیل کا اختتام نہیں۔ — یہ وہ لمحہ ہے جب ناظرین فیصلہ کرتے ہیں:کیا وہ کھڑے ہوکر اپنے آپ کو بچائیں گے؟ یا جلتے اسٹیج کے ساتھ جل جائیں گے؟ 

جب انڈیا اور پاکستان اپنی فوجی کامیابیوں کے تذکرے کرتے ہیں تو ان نعرئہ ہائے تحسین  میں کشمیریوں کو سسکنے کے لیے غم کی وادی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 

’اوڑی‘ انڈین زیر انتظام کشمیر میں — ۸ مئی کی رات صنم بشیر کے لیے اُلجھے ہوئے منظرنامے کی متحرک تصویر کے طور پر آتی ہے۔ اس کا خاندان تین گاڑیوں میں سوار تھا۔ اس کے بقول: ’’سڑک بہت تاریک تھی، اور گولہ باری کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے والی تھی۔یہ قیامت کی گھڑی لگ رہی تھی‘‘۔ ۲۰سالہ صنم اپنے چارسالہ کزن منیب، اپنی خالہ اور اپنی ماں نرگس بیگم کے ساتھ پچھلی سیٹ پر دبکی ہوئی تھی۔ صنم کو یاد نہیں کہ گاڑی کی چھت کو کس چیز نے چیر ڈالا، لیکن وہ اپنی خالہ کی تیز چیخ یا اپنی ماں کے گلے سے نکلنے والے گرم خون کو نہیں بھول سکتیں۔ جب وہ ہسپتال پہنچے تو نرگس بیگم کی موت و اقع ہو چکی تھی۔ 

انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار دن کی لڑائی میں جموں و کشمیر کے بھارتی زیر انتظام علاقے میں کم از کم ۲۷؍ افراد جان سے گئے، جن میں گیارہ سالہ جڑواں بچے بھی شامل تھے، اور ۵۰سے زائد زخمی ہوئے۔ اچانک ہونے والی یہ لڑائی اس خطے میں کئی عشروں میں سب سے بدترین لڑائی تھی۔ جیسا کہ پچھلے تنازعات میں ہوا، شہریوں ہی کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جنگ بندی کے بعد، ہم نے لائن آف کنٹرول سے ۱۵کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع دیہات کا دورہ کیا۔ — یہ وہ غیر رسمی سرحد ہے جو پہاڑوں اور دریاؤں کے پار گزرتی ہے، اور کشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے۔  

گذشتہ ماہ کئی برسوں کی نسبتاً خاموشی اس وقت ٹوٹ گئی جب مبینہ طور پر سیاحتی شہر پہلگام کے قریب ۲۶ شہریوں کو گولی مار دی گئی، اور نئی دہلی حکومت نے فوراً کہہ دیا کہ اس حملے کے ذمہ داران کے پاکستان سے روابط تھے۔اسلام آباد نے ایسی کسی بھی شمولیت و سرپرستی سے انکار کیا اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے تعاون کی پیش کش کی۔ خطۂ کشمیر کے لوگوں نے مابعد واقعات کے خوف سے سانس روک لی۔انڈیا نے ۷ مئی کی رات پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے اور خود پاکستان کے چند شہروں پر جوابی حملہ کیا۔ پھر اگلے روز پاکستان کے اندر دُور تک پچاس سے زیادہ حملے کیے، جس میں کم از کم ۲۶؍ افراد جاں بحق ہوئے۔ اگلی تین راتوں تک، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک جنگ کے اور قریب ہوتے گئے۔ — فوجی اہداف پر حملوں کا تبادلہ کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے شہروں میں ڈرونز کی پروازیں بھیجتے رہے۔ ۱۰ مئی کو امریکی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد، دونوں ممالک نے اپنی فوجی کامیابیوں کے دعوے کیے، اور اپنے اپنے نقصانات کو کم کر کے پیش کیا۔ 

لائن آف کنٹرول کے ساتھ، جہاں خاندان طویل عرصے سے تنازع کے سائے میں رہتے ہیں، پاکستانی گولہ باری شدید ترین تھی۔ ادھر پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں بھی ایسی ہی رپورٹس تھیں، جہاں بھارتی فائرنگ سے کم از کم ۱۶؍افراد جاں بحق ہوئے۔ اوڑی اور اس کے آس پاس ۴۵۰ سے زائد گھر یا دکانیں تباہ ہوئیں، اور کم از کم ایک تہائی آبادی اپنے گھروں سےنکل جانے پر مجبور ہوئی۔ جنگ بندی کے بعد، لوگ اپنی زندگیوں کے جمع شدہ ملبے کو ٹھکانے لگانے کے لیے واپس لوٹ رہے تھے۔اگرچہ بھارتی فوج نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، لیکن ان علاقوں میں سول آبادی اور رہائشی اب بھی خوفزدہ ہیں۔  

راجروانی کے گاؤں میں نرگس بیگم کے گھر پر، ان کے پیاروں کو اب بھی صدمہ ہے:’’اگر حکومت نے بنکر [پختہ مورچے] بنائے ہوتے یا صبح ہمیں انخلا کے لیے کہا ہوتا، تو وہ آج ہمارے ساتھ ہوتیں‘‘،ان کے ۲۷ سالہ بیٹے ثاقب بشیر خان نے کہا۔آٹھ افراد کے اس خاندان نے ہمیشہ غربت کا سامنا کیا۔ نرگس بیگم اسکول میں کھانا تیار کر کے ماہانہ ۱۲ ڈالر کماتی تھیں، ان کے شوہر ایک دہاڑی دار مزدور ہیں، جنھیں مستقل کام نہیں ملتا۔ نرگس بیگم کے رشتہ داروں کو مقامی حکومت نے موت کے بدلے ۷ہزار ڈالر معاوضہ دیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا نقصان کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ حکومت غریبوں کو زندہ رہنے کی سہولت دینے سے پہلو بچاتی ہے‘‘۔ان کی بھابھی حفیظہ بیگم نے کہا، ’’لیکن اب جب وہ مر چکی ہیں، تو حکومت پیسے دے رہی ہے۔ اب اس دولت کا کیا فائدہ؟‘‘ 

قریبی گاؤں باندی میں، محمد انور شیخ مدد کے انتظار میں ہیں: ’’پہلے بھی فائرنگ ہوتی تھی، لیکن ہمارے گھروں پر کبھی اس طرح گولے نہیں برسے تھے‘‘، ۴۰سالہ شیخ نے کہا، جن کا سادہ تین کمروں کا گھر ایک بھارتی فوجی کیمپ کے قریب ہے۔ ایک گولے نے ان کے مرکزی کمرے کو چیر دیا، کھڑکیاں توڑ دیں، ٹیلی ویژن کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور دیوار پر گہرے گڑھے چھوڑ دیے۔ ان کے بیٹے کی نوٹ بک ٹکڑوں میں بکھر چکی تھی۔شیخ انور نے بتایا: ’’انڈین فوجی تین دن پہلے گولوں کے ٹکڑے جمع کرنے آئے تھے اور کہا تھا ہم آپ کی مالی مدد کریں گے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو میں نے اپنی بیوی اور چھ بچوں کو ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پر ایک امدادی کیمپ میں بھیج دیا تھا۔ ہم ہررات، اپنے چند پڑوسیوں کے ساتھ ایک عارضی مورچے میں دبک کر پڑے رہتے تھے، جو ہمیں صرف جزوی تحفظ فراہم کرتا تھا۔ مگر ۹ مئی کی صبح سویرے، فائرنگ اور تیز گولہ باری ہو گئی‘‘، شیخ نے کہا۔ 

شیخ کے گھر سے آگے، ایک تنگ ندی کے کنارے سرسبز پہاڑیوں میں واقع لگاما گاؤں ہے۔ ۶۳ سالہ محمد شفیع پٹھان کی جائیداد پر اخروٹ اور ناشپاتی کے کھڑے درخت لہلہا رہے ہیں، لیکن ان کا گھر رہنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ ریٹائرڈ فوجی ۹ مئی کی رات کو اپنی بیوی، بیٹے اور تین پوتے پوتیوں کے ساتھ اس وقت جان بچانے کے لیے بھاگا، جب وادی میں دھماکوں کی گونج سنائی دی۔ اگلی صبح سویرے، پولیس نے فون پر شفیع کو بتایا کہ اس کا گھر تباہ ہو گیا ہے۔ یہ سن کر وہ گھر آیا تو ٹین کی چھت اُڑ چکی تھی اور کنکریٹ کا ایک بڑا ٹکڑا ایک جانب پڑا ہوا تھا۔ چاول کے ڈرم راکھ سے ڈھکے ہوئے تھے اور بارود کی بہت تیز بدبُو تھی۔ 

’’ایک بھی چیز نہیں بچی، سب برباد‘‘، پٹھان نے کمبل، کھلونوں، کپڑوں اور چمچوں کے بکھرے ہوئے ڈھیر پر سے گزرتے ہوئے کہا۔ سرحد کے ساتھ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ غربت عام ہے اور تنازعے کا سایہ ہمیشہ سانس کی طرح ساتھ رہتا ہے۔ شہری روزانہ بار بار چیک پوسٹوں پر تلاشی دینے کے لیے انڈین فوج کا سامنا کرتے ہیں، جن کے مسلح قافلے باقاعدگی سے گزرتے اور جگہ جگہ ہیں۔ 

مئی ۲۰۲۵ء کی انڈوپاک لڑائی نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے: ’’کشمیر ایک فلیش پوائنٹ ہے اور اس میں پورے جنوبی ایشیا کو ایک بڑی جنگ میں دھکیلنے کی بھرپور صلاحیت ہے‘‘، سری نگر میں مقیم سیاسی تجزیہ کار شیخ شوکت حسین نے یہ بات کہی۔ حسین نے کہا۔ ’’کشمیری، ایسی صورتِ حال میں پھنسے ہیں جو ان کے کنٹرول سے باہر ہے، اور یہی سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ بڑی عالمی طاقتوں کا کام ہے کہ وہ کشیدگی کو مستقل طور پر کم کرنے میں مدد کریں‘‘، انھوں نے کہا۔ 

سری نگر میں نئے کافی شاپس اور ہوٹل کھلے ہوئے ہیں، جو نئی دہلی کی جانب سے سیاحتی صنعت کو بحال کرنے کی کئی سالہ کوشش کا حصہ ہے۔ لیکن پاکستان کے بے مثال ڈرون حملوں کے نتیجے میں سری نگر پر ایک اُداسی چھائی ہوئی ہے۔ڈل جھیل پر — جو عظیم الشان پہاڑی چوٹیوں سے گھری ہوئی ہے —، کشتی بان گپ شپ لگا رہے تھے یا مچھلی پکڑ رہے تھے، مگر کوئی بھی چیز سیر کے لیے راغب کرنے والی نہیں تھی۔ سیاح غائب ہوچکے تھے۔ 

سری نگر کے مرکزی لال چوک میں، ۲۱ سالہ مسکان، اپنے بھائی کے ساتھ تصاویر لے رہا تھا۔ انھوں نے کہا:’’پہلگام حملے سے کشمیریوں کو تکلیف پہنچی، لیکن اس کے بعد بھارتی سیکیورٹی کریک ڈاؤن اور انڈیا کے طول و عرض میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ پر حملوں کی خبروں نے انھیں اور بھی زیادہ صدمے سے دوچار کیا‘‘۔ انھوں نے کہا:’’ ہمارے لیے اور سیاحوں کے لیے کوئی خوف کی فضا نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ 

اوڑی، جو چند دن پہلے تک ایک ویران شہر تھا، دکاندار واپس آ گئے تھے، انڈے، سکارف اور پلاسٹک کا سامان بیچ رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک سرکاری دفتر کے احاطے میں پختہ مورچہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ مقامات پر آنا جانا اب بھی ممنوعہ ہے۔ ایک چیک پوسٹ پر، بھارتی فوجیوں نے ہم کو اسلام آباد گاؤں جانے سے روک دیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے بھاری نقصان پہنچا ہے۔ تازہ ترین تنازع نے سب کچھ بدل دیا۔ ریٹائرڈ فوجی شفیع پٹھان نے کہا: ’’ہماری کیا زندگی ہے کہ ہم نہ سکون سے جی سکتے ہیں، اور نہ سکون سے مر سکتے ہیں‘‘۔ [ترجمہ: س م خ] 

منگل، ۲۷ مئی ۲۰۲۵ء کی صبح چیف جسٹس سید رفعت احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش کے سات رکنی فل بنچ نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے اے ٹی ایم اظہرالاسلام کی رہائی کا حکم دیا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس سید رفعت احمد کی سربراہی میں قائم سات رکنی بنچ نے ۸ مئی کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ۲۷ مئی کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی۔اس سے قبل، ۲۲ ؍اپریل کو اظہرالاسلام کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کے لیے عدالت نے ۶ مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔ مقررہ دن سماعت کا آغاز ہوا اور اظہرالاسلام کے وکیل نے دلائل دیے۔ جس کے بعد  عدالت نے ۸ مئی کو مزید سماعت کی، اور فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ۲۷ مئی کی تاریخ متعین کی گئی۔ 

اپیل کنندہ کی جانب سے وکیل محمد منیر نے دلائل دیے، جب کہ ان کے ساتھ سید محمد ریحان الدین بھی موجود تھے۔ ریاست کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اے آر حق اور پراسیکیوٹر غازی ایم ایچ تمیم نے دلائل پیش کیے۔ 

یاد رہے کہ ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو حسینہ واجد حکومت کی جانب سے قائم کردہ نام نہاد ’بین الاقوامی جرائم ٹریبونل‘ (ICT)نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم اظہرالاسلام کو ’۱۹۷۱ء کی جنگِ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف انھوں نے ۲۸ جنوری ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔بعد ازاں، ۳۱ ؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کوبنگلہ دیش سپریم کورٹ نے ان کی سزائے موت برقرار رکھی، اور ۱۵مارچ ۲۰۲۰ء کو اس فیصلے کی باقاعدہ تفصیلی کاپی بھی جاری کر دی گئی، جس کے بعد اظہرالاسلام نے ۱۹ جولائی ۲۰۲۰ء کو نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی۔ بعدازاں وہ مسلسل جیل میں قید رہے اور حسینہ واجد کی حکمرانی کے دوران ہروقت اُن پر سزائے موت کے باقاعدہ عمل درآمد کا خطرہ موجود رہا۔ مگر مشیت ِ خداوندی کے تحت، وقت گزرتا گیا، حتیٰ کہ اگست ۲۰۲۴ء میں سیاسی حالات تبدیل ہوئے اور ۲۶ فروری ۲۰۲۵ءکو سپریم کورٹ نے ان کی اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرکے فریقین کو دو ہفتوں کے اندر سمری جمع کرانے کا حکم دیا۔ سمری جمع ہونے کے بعد اپیل پر یہ سماعت ہوئی، اور فیصلہ سنایا گیا ہے۔  

بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے مشاہدات  

۱- سپریم کورٹ نے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات میں ماضی میں دیے گئے فیصلوں کے ذریعے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ پورے برصغیر کی فوجداری عدالتی نظام کی بنیادی ساخت کو بدل کر رکھ دیا گیا تھا، جو کہ ایک سنگین اور ناقابلِ معافی جرم تھا۔ 

۲- سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ جناب اے ٹی ایم اظہرالاسلام کو سزا دیتے وقت ان کے خلاف پیش کیے گئے شواہد اور ثبوتوں کی منصفانہ جانچ کیے بغیر ہی سزائے موت سنادی گئی تھی۔ 

۳- سپریم کورٹ نے اسے ’تاریخ میں سچائی کے ساتھ ایک سنگین مذاق‘ (travesty of truth) قرار دیا، یعنی انصاف کے نام پر کھلم کھلا ناانصافی۔ 

۴-   عدالت کا کہنا تھا کہ زیرسماعت مقدمے میں جو شواہد اور ثبوت پیش کیے گئے ہیں، ماضی میں ان کی اپیل پر عدالت نے درست اور دیانتدارانہ جائزہ لینے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ 

یہ امرواقعہ ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف ایک انفرادی مقدمے میں انصاف کی بحالی ہے بلکہ یہ بنگلہ دیش میں خصوصاً عوامی لیگی فسطائی حکومت کے دورِ حکمرانی میں عدالتی نظام میں ماضی کی سنگین لغزشوں، گناہوں اور جرائم کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ 

تشکر کے اس موقعے پر ڈاکٹر شفیق الرحمان، امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کہا: ’’آج بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ہماری نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے میں ہمارے قابلِ احترام مظلوم لیڈر اور ہمارے پیارے بھائی اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔ کتنے صدمے کی بات ہے کہ اس طرح کی جعلی فیصلہ سازی سے ہمارے نہایت عظیم ساتھیوں اور ملّت و قوم کے راہ نمائوں کو پھانسیاں دے کر ہم سے جدا کردیا گیا۔اگر وہ رہنما جو ہماری قوم کے سرتاج ہیں، قومی بحران کے اس لمحے میں زندہ ہوتے تو اپنی دانش مندی، دُور اندیشی اور تجربے سے اس قوم کو راستہ دکھا سکتے تھے۔ کینگرو کورٹ نے انھیں ایک ایک کر کے مار دیا۔ آج دنیا میں کوئی بھی انھیں ہمارے پاس واپس نہیں لا سکتا۔ لیکن اللہ کے دین کے لیے ان کی قربانی اور خدمات ہمیشہ باقی رہیں گی‘‘۔ 

یاد رہے ان مقدمات کو نمٹانے میں لامحدود دھوکا دہی اور جعل سازی کا سہارا لیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سریندرکمار سنہا نے ستمبر ۲۰۱۸ء میں اپنی کتاب A Broken Dream: Rule of Law, Human Rights & Democracy میں اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے کس طرح جھوٹ کا سہارا لیا۔ اس وقت کی عدلیہ اور حکومت نے مشترکہ طور پر ایک منصوبہ بنایا کہ منظم طریقے سے جماعت کے ان مرکزی رہنماؤں کو قتل کیا جائے۔عدالتی ڈرامے کے ذریعے پھانسی پانے والا اللہ کی عدالت میں چلاگیا ہے۔ ان ظالموں نے اسی پر بس نہ کیا، بلکہ ان کے لواحقین اور گھروالوں کو بھی وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ عبدالقادر مُلّا کو جس رات پھانسی دی گئی، اسی رات ان کے گھر پر حملہ کیا، ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں جنازے میں شرکت کی اجازت دینے کے بجائے دھکے دیتے اور تشدد کرتے ہوئے جیل میں ڈال دیا گیا۔ یوں پھانسیاں پانے والے تمام خاندانوں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا گیا۔ 

قتل کاری کے اس عدالتی عمل کے دوران ’اسکائپ اسکینڈل‘ کو دیکھ کر پوری دنیا نے مذمت کی۔ ان مقدموں کے دوران دو ٹارچر سیل بنائے گئے: ایک کا نام ’سیف ہوم‘ تھا، اور دوسرے کا نام ’سیف ہاؤس‘ تھا۔ ’سیف ہوم‘ میں متاثرہ رہنماؤں کو ہراساں کیا گیا۔ ہائی کورٹ کی ہدایت پر انھیں ’سیف گھر‘ میں رکھا گیا اور کئی دنوں تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جماعت کے کارکنوں نے اسے خاموشی سے برداشت کیا۔ احتجاج کی کوشش کی، مگر سیاسی غنڈوں کے حملوں کا انھیں سامنا کرنا پڑا۔ 

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف رفاہی تنظیموں نے ان مقدموں کی مذمت کی۔ لیکن حکمرانوں اور ان کے پروردہ ججوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر منصفانہ مقدمات کی کارروائی چلی تو وہ قتل کی اجازت نہیں دے گی، مگر یہ بات کسی نے نہیں سنی۔ 

ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے۔ ہمارے پیارے لیڈر بھی اس ملک سے محبت کرتے تھے۔ اسی محبت کی وجہ سے انھوں نے ملک کی بہتری کے لیے جدوجہد کی۔ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بنگلہ دیش میں صحت مند سیاست کا فروغ چاہتے تھے۔ نہ صرف انھوں نے سڑکوں پہ سیاسی جدوجہد کی بلکہ حکومت کا حصہ بننے کے بعد بھی انھوں نے حکومتی انتظام کو بہتر بنانے کی مثالی کوششیں کیں۔ پوری قوم گواہ ہے، دووزیروں نے مثالی انداز سے تین وزارتیں چلائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی۔ انھوں نے پوری ایمانداری اور مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام کے لیے روشن وصیت نامہ چھوڑا ہے اور شان دار مثال قائم کی ہے‘‘۔  

جب ہم ماضی میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ سارے بنگلہ دیش اور پوری دُنیا کے سامنے عوامی لیگی خصوصی عدالت میں کیس نمٹاتے ہوئے ان خاندانوں کی طرف سے کسی سے کوئی گواہی نہیں لی جن کے نام لے لے کر قتل کے مقدمے چل رہے تھے۔ بلکہ ایسے مقدمے کی بنیاد بننے والے ایک مقتول کا بھائی گواہی دینے آیا تو سادہ لباس پولیس نے عدالت کے احاطے میں اس فرد کو وکیل کی گاڑی سے کھینچ کر اغوا کرلیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور انڈیا کی سرزمین پر چھوڑ دیا گیا۔ وہ مذہباً ہندو اور عملاً سچّی گواہی دینے کی غرض سے عدالت پہنچنے کی کوشش میں طویل عرصہ جیل میں رہنے کے بعد وطن واپس آیا ہے۔ یہ گواہ علامہ دلاور حسین سعیدی کے حق میں گواہی دینے کے لیے آیا تھا۔ 

اظہر الاسلام کی موجودہ اپیل کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے کہا کہ ’’مطیع الرحمان نظامی کو ایک دن یا ایک منٹ بھی سزا دینے کی گنجائش نہیں تھی، مگر انھیں سزائے موت دی گئی۔ ان عدالتوں نے جماعت اسلامی کے لیڈروں پر ظلم کیا ہے۔ فیصلے پر عمل درآمد سے پہلے ہی سازشیں رچائی گئیں‘‘۔  

جماعت کے پھانسی پانے اور جیلوں میں انتقال فرمانے والے قائدین سب کے سب ثابت قدم تھے۔ وہ اپنے ایمان میں مضبوط تھے، وہ حق پر قائم تھے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہوگئے، یا جیل میں سسکتے رہے، لیکن ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ انھوں نے یہ سکھایا ہے کہ اگر ایک باوقار قوم سچائی پر ڈٹی رہتی ہے تو پھانسی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ موت توصرف ایک بار آنی ہے، مگر وہ موت ذلت آمیز موت نہیں بلکہ بہادری کی موت ہونی چاہیے۔ ان کی شہادت اور موت بہادری کی موت تھی۔  

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’ان مقدمات کو چلاتے ہوئے بین الاقوامی روایتی قانون کی پاسداری نہیں کی گئی اور ساتھ ہی ملکی قانون کی بھی پاسداری نہیں کی گئی۔ جو ثبوت قانون کے تحت موجود تھے ان پر بالکل عمل نہیں کیا گیا۔ حکمران طبقے کے لیے آئین کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، قانون کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جن کے کہنے پر عدالت کی کارروائی چلی، انھی کی مرضی قانون تھا، انھی کی مرضی کا فیصلہ تھا۔ چاہے وہ قانونی ہو یا غیر قانونی۔ اس طرح جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا گیا‘‘۔ 

معین الدین چودھری جنھیں انھی کینگرو عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی، ان کے مقدمے پر برطانوی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس فیصلہ دیتے ہوئے لکھا تھا: ’’بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے مقدمات انصاف کے نام پر ایک سنگین مذاق ہیں۔ یہ فیصلے نہیں، یہ انصاف کی نسل کشی ہے۔ ان میں انصاف کا قتل عام کیا گیا ہے‘‘۔ انھوں نے ’کلنگ آف دی جسٹس‘ نہیں کہا۔ کیونکہ اگر یہ ایک ہی کیس ہوتا تو وہ کہتے کہ یہ قتل ہے، لیکن یہاں تو ایک سے زیادہ کیس تھے۔ اسی لیے برطانوی سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ’انصاف کی نسل کشی‘ ہے۔ لیکن اُس وقت کی بنگلہ دیشی عدالت نے ایسا نہیں لکھا تھا۔ تاہم، بنگلہ دیشی عدالت نے ۲۷مئی کو اپنے فیصلے کے ذریعے یہ بات دُہرائی ہے جو برطانوی سپریم کورٹ نے متعین کی تھی۔ 

جماعت اسلامی کے شہید قائدین میں: سابق امیر پروفیسر غلام اعظم، سابق نائب امیر ابوالکلام محمد یوسف، سابق امیر شہید مولانا مطیع الرحمان نظامی، سابق سیکرٹری جنرل شہید علی احسن محمد مجاہد، سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل شہید قمر الزمان، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ میرقاسم علی، سابق اسسٹنٹ سیکرٹری شہید عبدالقادر مُلّا، نائب امیردلاور حسین سعیدی، سابق نائب امیر سابق ایم پی مولانا عبدالسبحان رحمہ اللہ، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ، جنھیں ناحق قتل کیا گیا۔ وہ دنیا سے تو مٹ گئے ہیں، لیکن اہل حق کے دلوں سے نہیں نکل سکتے۔ اہل باطل نے اس قیادت کو انصاف کی نسل کشی کے ذریعے ختم کر کے ملک اور جماعت کو قیادت سے محروم کرنے اور عوام کو اندھیروں میں دھکیلنے کی ظالمانہ کوشش کی ہے، مگر ۲۷مئی کے فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ سچ کو دبایا نہیں جا سکتا۔ سچائی بادلوں کو چیر کر روشنی کی چمک لاتی ہے اور وہ سچ آج دُنیا پہ ظاہر ہے۔ 

بنگلہ دیش میں ’جولائی انقلاب‘ رَدِ فسطائیت کا ایک تاریخی اور قومی یکجہتی کا موقع لے کر  آیا تھا۔ ہزاروں نوجوان طلبہ و طالبات اور عوام کے لہو سے ہم فسطائیت اور بھارتی تسلط کے مشترکہ طوقِ غلامی سے اپنی مادرِ وطن کو نجات دلانے میں کامیاب ہوئے۔ عوام کو یہ توقع تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں فسطائیت مخالف تمام عناصر پر مشتمل ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو آئندہ انتخابات تک ریاست کا نظم و نسق سنبھالے گی۔ 

بدقسمتی یہ ہوئی کہ گذشتہ سال ۸؍ اگست کو نہ تو کوئی قومی حکومت بنی، نہ کوئی حقیقی انقلابی حکومت وجود پاسکی۔ اس کے بجائے، نام نہاد سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی گئی، مگر وہ مطلوبہ وسیع تر سیاسی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہی۔ حکومت کی تشکیل کے آغاز ہی میں مخصوص ’این جی اوز‘ اور ’سول سوسائٹی‘ کی بالادستی کے تاثر کو ایک بااثر مشیر نے غیرملکیوں سے گفتگو میں خوشی سے اس طرح بیان کیا: ’’’سول سوسائٹی‘ کے نصف درجن نمائندے حکومت میں جگہ پاچکے ہیں‘‘۔ یہ بات مجھے انھی غیرملکیوں نے بتائی۔ ذرا ماضی میں جائیں تو قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ۲۰۰۷ء میں اسی ’سول سوسائٹی‘ کے اخبار کے ایک مشہور مدیر نے اُس وقت کے اطلاعاتی مشیر مینال حسین کو برملا ڈانٹ کر یہ کہا تھا کہ ’’یہ حکومت [یعنی حسینہ واجد] ہم نے بنائی ہے‘‘۔ اس طرح یہ گروہ ہر دورِ حکومت میں اثر و رسوخ اور اپنی گرفت قائم رکھتا آیا ہے۔ حال ہی میں، یہی مدیر انقلاب کے چندماہ بعد ڈاکٹر یونس پر سخت تنقید کرنے لگے ہیں۔ 

ہم نے دیکھا کہ حکومت بننے کے بعد، بیرونِ ملک مقیم تمام ’سمارٹ‘ بنگلہ دیشیوں کو مشیر، خصوصی معاون، مشیروں کے مشیر وغیرہ مختلف عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ ہم ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت بنگلہ دیشیوں کا تذکرہ سن کر خوش ضرور ہوئے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ملک میں غیرمعروف ہیں اور یہاں کے ماحول میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ 

چنانچہ، حکومت بننے کے ۹ ماہ بعد بھی نہ تو کوئی اصلاحات نافذ ہو سکیں، اور نہ اصلاحات کے کسی سیاسی اتفاقِ رائے کے آثار نظر آتے ہیں۔ میرے لیے باعث تشویش یہ ہے کہ موجودہ حکومت کئی طرح کی اصلاحی تجاویز کو بغیر کسی نتیجے پر پہنچائے، درمیان میں چھوڑ کر اور کسی مشترکہ مثبت اور دُوررس اثرات کے حامل سیاسی نظامِ کار کو متعارف و نافذ کرائے بغیر ہی رخصت ہوجائے گی۔ مزید ستم یہ کہ صرف ۹ ماہ کے اندر اندر حکومت کو درجنوں مطالبات کے ذریعے سڑکوں پر ہنگاموں کی صورت میں بے حال کرنے کی کوششیں تسلسل کے ساتھ سامنے آئیں۔ حکومت کے مینڈیٹ پر جب بار بار سوالات اٹھائے گئے، تو غیر تجربہ کار مشیروں کا گروہ ان کا معقول جواب دینے سے قاصر رہا۔ 

دوسری طرف، انقلاب کی گرمی ٹھنڈی ہونے سے قبل ہی، عوامی لیگ سے ہٹ کر بنگلہ دیش کی دو بڑی سیاسی جماعتوںبنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)اور جماعت اسلامی کے درمیان بیانات کی جنگ چھڑ چکی تھی۔ جماعت اسلامی، جو سترہ سالہ وحشیانہ عوامی لیگی اور بائیں بازو کے جبر سے اچانک نجات پانے میں کامیاب ہوئی۔ وہ کئی پہلوئوں سے اپنی حقیقی عوامی تائید اور تنظیمی قوت کی نسبت سے زیادہ خوداعتماد نظر آئی۔ ملک کے بدلے ہوئے سیاسی منظرنامے میں جماعت اسلامی کی قربانیوں اور عزم و حوصلے کے احترام کے باوجود بہرحال، رائے دہندگان کی ووٹوں کی صورت میں تائید و حمایت پورے ملک میں اس درجہ منظم انداز سے پھیلی ہوئی نہیں ہے۔ جن علاقوں میں جماعت کی انتخابی طاقت موجود ہے، اس کی بنیاد پر مستقبل قریب میں جماعت کے لیے اقتدار کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ تاہم، جماعت اسلامی ایک معقول تعداد کے ساتھ پارلیمان میں جا کر اپوزیشن کا بڑا مؤثر مقام ضرور حاصل کر سکتی ہے۔ 

’جولائی انقلاب‘ کے بعد پیدا ہونے والی اس کش مکش میں، جلد اقتدار میں آنے کی خواہش مند اور عوامی حمایت و تنظیمی طاقت میں بہت برتر بی این پی کی جانب سے صورتِ حال اس وقت کش مکش میں تبدیل ہوگئی، جب شہروں میں جماعت اسلامی کے بڑے بڑے جلسے ہوئے تو بی این پی جماعت اسلامی پر غضبناک ہو گئی۔ حسینہ کے فرار کے کچھ ہی دنوں بعد، بی این پی اور جماعت اسلامی کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے۔ 

درحقیقت ۲۰۱۴ء کے بعد ہی سے بی این پی اور جماعت کے مابین دوریاں پیدا ہو چکی تھیں۔ پھر ۲۰۱۸ء کے ضمنی کے الیکشن میں فاصلے مزید بڑھ گئے۔ جن بی این پی رہنماؤں کو نظرانداز کرکے یہ نشستیں جماعت کو دی گئی تھیں، وہ ناراض بھی ہوئے۔ تب سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف بن گئی ہیں۔ ۲۰۲۲ء میں بی این پی نے باضابطہ طور پر ۲۰جماعتی اتحاد توڑ دیا، جس کے بعد صاف ظاہر ہو گیا کہ مستقبل میں یہ دونوں جماعتیں شدید سیاسی حریف بن کر ابھریں گی۔ 

موجودہ حالات میں، بی این پی اور جماعت کے درمیان تنائو یا تصادم کی فضا عوامی لیگ کے تلخ تجربے سے بھی زیادہ تلخ نتائج سامنے لاسکتی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ حالیہ دنوں میں بی این پی سے بائیں بازو کی بڑے پیمانے پر قربت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 

وہ بھارت نواز بائیں بازو کے عناصر جو عوامی لیگ کے کاندھوں پر سوار ہوکر سترہ سال اقتدار میں رہے، اور اختلاف رائے کو کچلتے رہے، بھارت کا اسلام مخالف بیانیہ بھی پھیلاتے رہے، اور فسطائیت کے دامے درمے مددگار بنے رہے، انھوں نے جماعت اسلامی اور بی این پی کے باہمی تصادم سے پیدا ہونے والے خلا سے فوراً اور بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ عوام سے کٹے ہوئے بائیں بازو کے سیاستدان ہر دور میں کسی نہ کسی بڑی جماعت کی چھتری تلے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ 

فسطائیت مخالف قوتوں کی ناپختہ یکجہتی اور بی این پی کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ نے ان عناصر کو بی این پی میں داخل ہونے کی کھلی راہ فراہم کر دی۔ وہی میڈیا گروہ، جو برسوں سے ضیاء خاندان اور بی این پی کے خلاف مہم چلاتے رہے، اب جب انھیں بی این پی اقتدار کے قریب نظر آئی تو انھوں نے روایتی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقف بدل لیا۔ دوسری جانب بی این پی کی قیادت نے بھی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی تمام تلخ یادیں بھلا کر انھیں خوش آمدید کہا۔ اقتدار کی سیاست غالباً ہمیشہ مفاد پرستانہ ہی ہوتی ہے۔ 

اب بی این پی کی صفوں میں عوامی لیگ کی بھارت نوازی کو نشانہ بنانے کے بجائے اُن اسلامی حلقوں کو جنھیں وہ ’اسلامسٹ‘ کہتے ہیں، انھی کو اصل چیلنج اور نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 

بی این پی اور جماعت اسلامی سے باہر نوجوان طلبہ اور عوام پر مشتمل ایک تیسری سیاسی قوت کے اُبھرنے کی اُمید ضرور پیدا ہوئی ہے، مگر سرِدست وہ صحیح معنوں میں سیاسی میدان میں جڑ نہیں پکڑ سکی۔ 

۷۰کے عشرے میں جنرل ضیاء الرحمٰن نے چین نواز بائیں بازو اور اسلام پسندوں کو ملا کر بی این پی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ جماعت آج بھی ملک کی ایک بڑی قوت ہے، مگر اندرونی نظریاتی کش مکش ختم نہیں ہو سکی۔ اقتدار میں شراکت کی خواہش نے سب کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا تو رکھا، لیکن بائیں بازو اور اسلام دوست قوتوں کی مسلسل نظریاتی جنگ چلی آرہی ہے۔ ایک عشرے سے بی این پی میں بھارت نواز اور بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے جماعت کے لیے اجنبیت پیدا کردی ہے۔ 

اب بی این پی میں ان افراد کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے، جو پہلے عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ یہ موقع پرستی بی این پی کے نظریاتی انحراف کی افسوس ناک علامت ہے۔ 

طلبہ کی نئی جماعت ’نیشنل سٹیزن پارٹی‘ (NCP) میں بھی ستّر کی دہائی کی بی این پی کی طرح بائیں بازو اور اسلام دوست عناصر کا امتزاج موجود ہے، جس سے نظریاتی تقسیم واضح ہو رہی ہے۔ قیادت کے تقریباً تمام افراد ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے قیادت کی چپقلش بھی ناگزیر ہو گئی ہے۔ این سی پی کے علاوہ ’جولائی انقلاب‘ کے طالب علم رہنماؤں کے کئی پلیٹ فارم وجود میں آچکے ہیں۔ اگر ان میں وحدت پیدا نہ ہو سکی، تو بی این پی اور جماعت کے علاوہ تیسری جماعت کے وجود پذیر ہونے میں مزید مدت لگے گی۔ 

اب سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟ 

اگرچہ بحیثیت جماعت عوامی لیگ کی واپسی فی الحال ممکن نظر نہیں آتی، مگر ان کے کم از کم ۲۰فی صد وفادار حمایتی ملک میں موجود ہیں۔ دوسری جانب بی این پی نے ان سب کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔ این سی پی قیادت کا بھی ایک طبقہ عوامی لیگ کے ۱۹۷۱ء سے متعلق بیانیے کے قریب تر موقف پیش کر رہا ہے، تاکہ عوامی لیگ کے حامیوں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔ 

میرا اندازہ ہے کہ عوامی لیگ کے کارکنان اور حامی، موجودہ حالات میں اپنی سلامتی کے لیے، واضح طور پر اقتدار کے قریب پہنچتی بی این پی کا رُخ کریں گے۔ چونکہ بھارت بھی بظاہر بی این پی کو قابلِ اعتماد سمجھنے لگا ہے، اس لیے عوامی لیگ نوازوں کی بی این پی میں شمولیت پر کوئی رکاوٹ باقی نہیں۔ 

حال ہی میں بی این پی نے، ڈاکٹر یونس حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر، سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب، بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ جنرل وقار الزماں کی اس تقریر نے حکومت کو کمزور کر دیا ہے، جس میں انھوں نے آرمی ہیڈ کوارٹر میں افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’عبوری حکومت جلداَز جلد انتخابات کرائے، فوجی معاملات میں مداخلت بند کرے اور رخائن راہداری کے بارے میں معاملات سے فوج کو باخبر رکھے‘‘۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایک حاضر سروس فوجی سربراہ کو حکومت کے متعلق ایسے بیانات دینے کا اختیار کیسے حاصل ہے ؟ 

ان حالات میں، عبوری حکومت ایک ’لنگڑی بطخ‘ بن چکی ہے۔ تاہم، اگر موجودہ حکومت کسی حادثاتی یا سازشی عمل کے نتیجے میں رخصت ہو جاتی ہے، تو انڈیا کی منصوبہ بندی کامیاب ہو جائے گی۔ افسوس کہ جو سیاسی جماعتیں اس حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ لازمی طور پر اس خطرے کو نظر انداز کر رہی ہیں۔صرف دو ماہ قبل، عیدالفطر کے روز قومی عیدگاہ میں لوگوں کا پُرجوش خیرمقدم دیکھ کر ڈاکٹر یونس کو بنگلہ دیش کا مقبول ترین رہنما تصور کیا جا رہا تھا، مگر آج وہ بی این پی کی جزوی تنظیمی طاقت کے سامنے غیر متوقع حد تک بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ 

جولائی کے انقلاب نے اگرچہ شیخ حسینہ واجد کی فاشسٹ حکومت کو اقتدار سے محروم کر دیا تھا، مگر افسوس کہ اس کے بعد کی عبوری حکومت، بنگلہ دیش کو انڈیا کی آکٹوپس گرفت سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۲۴ء تک، ۱۷ برسوں میں ریاست کے ہر شعبے میں انڈین ایجنٹوں کی جو دراندازی ہوئی ہے، انھیں شناخت کر کے بے دخل کرنے کے لیے کوئی مؤثر اور مربوط اقدام نہیں کیا گیا۔ 

چھ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ کر میں نے پروفیسر یونس صاحب سے بارہا کہا: ’’یا تو واقعی حکومت کریں، ورنہ کنارہ کش ہوجائیں‘‘۔ مگر سیاست سے ناواقفیت کے باعث شاید وہ میری بات کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔ وہ، ان کے مشیر اور طلبہ رہنما ایک خودپسندانہ ’کمفرٹ زون‘ میں داخل ہوگئے۔ انھوں نے باہر کے خیرخواہوں کی بات سننے کی ضرورت محسوس نہ کی۔اس حکومت کی ناکامی، سیاست دانوں کی ناعاقبت اندیشی، اور اقتدار کی شدید خواہش نے انڈیا کو ایک بار پھر بنگلہ دیش کی سیاست میں داخل ہونے کا موقع دے دیا ہے۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ نامکمل ’جولائی انقلاب‘ کو مکمل کرنے کے لیے قوم کو ایک بار پھر جدوجہد کی تیاری کرنا ہوگی۔  

تیونس میں خصوصی ’فوجداری عدالت‘ نے جمعہ کی شب، صدر قیس سعید کے درجنوں سیاسی مخالفین کو ۱۳ سے ۶۶سال کی سزائیں سنادیں۔ سزا پانے والوں میں جناب راشد الغنوشی (رئیس تحریک نہضت)، عصام الشابی (سیکرٹری جنرل جمہوری پارٹی)، نجیب الشابی (اپوزیشن اتحاد جبھۃ الخلاص کے رہنما)، غازی الشواشی (سابق سیکرٹری جنرل ڈیموکریٹک موومنٹ) اور اپوزیشن کے ایک اور معروف رہنما جوہر مبارک سمیت تیونس کی نمایاں ترین سیاسی، صحافتی اور قانونی حلقوں سے وابستہ ۴۰ شخصیات شامل ہیں۔ 

ان سیاسی قیدیوں پر جو دو سال سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں، حددرجہ سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں ریاستی سلامتی کے خلاف سازش ، ملکی و غیرملکی عناصر سے خفیہ روابط، صدرقیس سعید کا تختہ اُلٹنے کی کوشش، اور دہشت گرد گروہ تشکیل دینا شامل ہیں۔ ان سبھی سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کی کارروائی آن لائن چلائی گئی۔ ساری عدالتی کارروائی عدل و انصاف کے ادنیٰ سے ادنیٰ تقاضوں سے یکسر خالی اور ’قانونِ انسداد دہشت گردی‘ اور ’فوجداری قانون‘ کے تحت سخت ترین ماحول میں انجام پائی، جس پر دُنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون پسند حلقوں نے شدید تنقید کی ہے۔ 

۸۳برس کے جناب راشدالغنو شی گذشتہ دو برس سے جیل میں قید ہیں۔ یاد رہے، اس سے ہٹ کر ایک نام نہاد مقدمے میں انھیں پہلے ہی ۲۲برس قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ 

اپوزیشن رہنمائوں پر یہ مقدمہ دوخفیہ مخبروں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، جن کا نام آج تک دُنیا کے سامنے نہیں آسکا۔ اس سے پہلے ۲۰۲۳ء میں صدرقیس سعید بیان دے چکے ہیں: ’’جو جج قیدیوں کو بری کریں گے، وہ بھی شریک جرم سمجھے جائیں گے‘‘۔ 

جناب راشدالغنوشی عرب اور اسلامی دُنیا کے نمایاںترین مفکرین اور سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں حزب النہضۃ  (تحریک ِ نہضت) کی بنیاد رکھی۔ سابق صدر حبیب بورقیبہ کے دور میں انھیں قید کیا گیا، اور پھر زین العابدین بن علی کے اقتدار میں جلاوطن کردیا گیا۔۲۰۱۱ء میں ’تیونسی انقلاب‘ کے بعد، وہ جلاوطنی ترک کرکے لندن سے واپس تیونس آئے، اور ان کی سیاسی جماعت نے آئین ساز اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی، جس کے نتیجے میں انھوں نے عبوری دور کے خدوخال متعین کرنے میں فعال حصہ لیا۔ 

بعدازاں انھوں نے دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کی حکمت عملی اپنائی، جس کا نتیجہ مرحوم صدر باجی قائدالسبسی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ دور انقلاب کے بعد کے اَدوار میں سب سے زیادہ مستحکم دور شمار ہوتا ہے۔ الغنوشی، ’مسلم جمہوریت‘ کا تصور کو پیش کرنے والے اوّلین اسلامی مفکرین میں سے ہیں۔ 

راشدالغنوشی ۲۰۱۹ء سے تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے منصب پر فائز رہے، اور ۲۵جولائی ۲۰۲۱ء کو جس وقت صدر قیس سعید نے پارلیمنٹ کو معطل کیا، تو الغنوشی نے بطور اسپیکر اسمبلی صدر کے اس اقدام کی کھل کر مذمت کی اور اس صدارتی اقدام کو دستوری اختیار اور ۲۰۱۴ء کے آئین کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ 

صدر قیس سعید نے ۲۵جولائی۲۰۲۱ء کو وزیراعظم ہشام مشیشی کی حکومت کو برطرف کر دیا، پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کو تحلیل کر دیا اور ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے وسیع تر اختیارات کے ساتھ ملک کا کنٹرول خود سنبھال لیا۔ بعدازاں صدر قیس سعید نے تیونس میں ایک نیا آئین نافذ کیا، جس کے تحت مزید اختیارات سمیٹ لیے۔ ۲۰۲۴ء کے صدارتی انتخابات میں رائے دہندگان نے ملکی تاریخ کے کم ترین شرح سے ووٹ ڈالے تھے ، جس کی بنیاد پر خود کو دوبارہ صدر منتخب قرار دے دیا۔ 

’اسلام‘ ، ’جمہوریت‘ اور ’جدیدیت‘ ،معاصر اسلامی فکر کا مستقل مسئلہ رہا ہے۔ اس کے جوابات بھی مختلف اسلامی تحریکوں نے الگ الگ طریقے سے دیے ہیں۔ ان جوابات میں مفکرین اور محققین نے اسلامی تحریکوں کی حد بندی کی ہے۔ کچھ اسلامی مفکرین کہتے ہیں کہ ’اسلام اور جمہوریت میں توافق پیدا کیا جا سکتا ہے، جب کہ دوسرے اسلامی مفکرین کا خیال ہے کہ جمہوریت تو وہی ہے، جس کا ذکر قرآن میں ’شوریٰ‘ کے نام سے آیا ہے‘۔ یہ حضرات احادیث نبویؐ اور بعض فقہی آراء سے استشہاد کرتے ہیں جس کی رُو سے ’شوریٰ ‘واجب ہے۔ انھی میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ جمہوریت اور شوریٰ ایک ہی چیز ہے۔ یہ لوگ دستورِ مدینہ سے استدلال کرتے ہیں کہ وہ انسانی تاریخ میں مشترک شہریت کا پہلا معاہدہ تھا کیونکہ اس میں انصاف، کثرتیت اور اقلیتوں کی حفاظت کی بات کی گئی تھی، نیز یہ کہا گیا تھا سب مسلمان ایک امت کا حصہ ہیں۔  

اس کے برعکس اسلامی مفکرین کی ایک جماعت ایسی بھی ہے، جو کہتی ہے کہ ’جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دونوں جمع نہیں ہو سکتے ہیں‘۔ یہ لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: ایک روایت پسند ہے اور دوسری جہاد پر مبنی سرگرمیوں کی قائل۔ یہ دونوں قرآن اور سنت سے اپنے موقف کا استشہاد کرتے ہیں کہ ’حقِ حکومت‘ اللہ کا ہے، عوام کا نہیں ہے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ کو ہے، پارلیمنٹ کو نہیں ہے۔ پہلے فریق کا کہنا ہے کہ ’جمہوریت‘ اسلام کے سیاسی طاقت اور حکومت کے تصور سے ٹکرا رہی ہے، جب کہ دوسرا فریق فقہی مباحث سے آگے بڑھ کر عقیدے کی بات کرتا ہے کہ جمہوریت کفر ہے بلکہ وہ اسے موجودہ زمانے کا ’طاغوت‘ کہتا ہے۔ 

یہ آراء اور تصورات ’قابلِ تبدیلی‘ اور ’نا قابلِ تبدیلی‘ اعتقادات پر مبنی ہیں، جو سوسائٹی کے بدلتے ہوئے سیاسی فکر و نظریات سے متاثر ہیں اور جو دنیا بھر میں جمہوریت کے پچھلی صدی کے آٹھویں عشرے سے چلن کا نتیجہ ہے۔ ان آراء کی وجہ سے عربی اور دوسری زبانوں میں بہت کچھ شائع ہوا ہے، جس کا موضوع ہے: فکری تجدید، جدیدیت، جمہوریت، لبرلزم اور سیاسی اسلام وغیرہ۔ 

 یہ سلسلہ ’عرب بہار‘ کے بعد مزید تیز ہو گیا ہے، جس کے بعد عرب قومیں آزادی، عزّت، برابری، جمہوریت اور سیاسی زندگی میں خواتین کے کردار کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان مسائل پر لکھنے والوں میں عالم اسلام کے کچھ مشہور سیاسی رہنما اور مجتہد شامل ہیں۔ مثلاً سوڈان کے سیاسی و دینی مفکر اور قائد ڈاکٹر حسن عبداللہ الترابی (م: ۲۰۱۶ء) جنھوں نے السیاسۃ و الحکم: النظم السلطانیۃ بین الأصول و سنن الواقع (۲۰۰۳ء) اس وقت لکھی، جب وہ سوڈان کی حکومت کے ساتھ اختلاف کے باعث جیل میں بند تھے، حالانکہ خود اسی حکومت کو لانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ اُن لکھنے والوں میں تیونس کی تحریک نہضہ کے قائد راشد الغنوشی [پ:۲۲جون ۱۹۴۱ء]بھی شامل ہیں، جو اپنے ملک میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے ۲۰۲۳ء سے جیل میں قید ہیں۔ انھوں نے الحریات العامۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ  کتاب لکھی، جس کی پہلی جلد ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی اور دوسری جلد ۲۰۱۲ء میں۔ انھوں نے الدیمقراطیۃ وحقوق الانسان فی الاسلام بھی لکھی، جو مرکز الجزیرۃ برائے تحقیق اور الدار العربیۃ سے ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔  

  • راشد غنوشی اور اسلامی جمہوریت : راشد غنوشی نے اپنی ۲۰ سے زیادہ کتابوں میں اسلام میں آزادی اور جمہوریت کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ان افکار کو سیاسی طور پر تیونس میں پرکھا بھی ہے، جس کی وجہ سے عرب اور مغربی محققین کی نظر ان کی آراء پر مرکوز ہوئی ہے۔ ان محققین نے راشد غنوشی کے بارے میں اتنا کچھ لکھا ہے، جو کسی اور معاصر مسلم سیاسی مفکر کے بارے میں نہیں لکھا گیا ہے۔ ان میں جدید ترین کو شش امریکا کی میساچوسٹس یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اینڈریو ایف مارچ کی ہے، جنھوں نے غنوشی کے ساتھ مل کر ان کے بارے میں On Muslim Democracy: Essays and Dialogues  کتاب لکھی ہے، جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس سے شائع ہوئی۔  

اس کتاب میں امریکی پروفیسر نے راشد غنوشی کےمتعدد عربی مقالوں کا انگریزی ترجمہ کیا ہے، اور کتاب میں غنوشی کے ساتھ ایک طویل انٹرویو بھی شامل ہے، جس میں انھوں نے اپنے فکری اور سیاسی سفر اور اس میں بڑی تبدیلیوں پر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کیسے ’اسلامی جمہوریت‘ سے ’مسلم جمہوریت‘ تک پہنچے۔ یہ ۲۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے بارے میں ۱۸ مارچ کو پروفیسر اینڈریو مارچ نے شہر ’سلا ‘(مراکش) میں اسلام اور جمہوریت پر بات کرتے ہوئے ایک کانفرنس میں اظہار خیال کیا، جس میں ممتاز اہلِ قلم، سیاسی رہنمااور اہلِ فکر شریک تھے۔ اس موقعے پر غنوشی کے ایڈوائزر برائے امور خارجہ رضا ادریس بھی موجود تھے۔  

پروفیسر مارچ نے کہا: کتاب لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں حکومت اور آزادی کے متعلق اسلامی افکار سے دلچسپی رکھتا ہوں۔ شیخ غنوشی کی کتاب الحریات العامۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ (اسلامی حکومت میں عمومی آزادیاں) پڑھنے کے بعد ان سے ’استخلاف‘ (خلافت)کے بارے میں مزید بات کرنے کی خواہش ہوئی کیونکہ اسلامی سیاسی فکر میں یہ تصور ایک بنیادی مقام رکھتا ہے۔ میں سمجھنا چاہتا تھا کہ کس طرح تقلیدی ’خلافت‘ کا نظریہ عصری جمہوری تبدیلیوں سے متاثر ہوا ہے، بالعموم عرب اور اسلامی ممالک میں ’عرب بہار‘ کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے اور بالخصوص تیونس میں جہاں سے ۲۰۱۱ء میں ’عرب بہار‘ کی پہلی چنگاری پھوٹی تھی۔  

  • تحریکِ نہضہ: پروفیسر مارچ نے مقدمے میں کتاب لکھنے کا سفر بھی بیان کیا ہے۔ اس کی ابتدا انھوں نے ییل یونی ورسٹی کے تعاون سے غنوشی کی کتاب ’اسلامی ریاست میں عمومی آزادیاں‘ کے ترجمے سے کی۔ اس کے بعد انھوں نے غنوشی سے ملاقات کی اور تیونس کے جمہوری تجربے اور ’عرب بہار‘ کے بارے میں لکھا، جس کی کامیابی میں غنوشی کا بڑا ہاتھ تھا۔ انھوں نے اس وقت کے صدر جمہوریہ الباجی قائد السبسی کے ساتھ مل کر کام کیا۔  

 دوسری اسلامی تحریکوں کے برعکس ،تحریک نہضہ نے اپنے سیکولر مخالفین کے لیے بہت نرمی کا رویہ اختیار کیا، تاکہ تیونس میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکے۔ تحریک نہضہ اس سے بھی آگے تک گئی اور واضح طریقے سے الیکشن جیتنے کے با وجود، ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے حق میں دست بردار ہوگئی ۔ یہی نہیں بلکہ تیونس کے آئین بننے کے تین سال بعد مئی ۲۰۱۶ میں تحریک نہضہ نے کافی اندرونی بحث و مباحثہ کے بعد اپنی دسویں کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ عصرحاضر میں اسلامی احیا کے اپنے طریق کار سے آگے بڑھ کر اب اپنی سیاسی فکر کو ’مسلم جمہوریت‘ کا نام دیتی ہے۔  

اسی کے ساتھ تحریک نہضہ نے مسلم ڈیموکریٹس کو دعوت دی کہ وہ یہ راستہ اپنانے کے لیے مکالمہ شروع کریں تاکہ اسلامی سوچ اور جدیدکاری میں کوئی ٹکرائو باقی نہ رہے۔ اس نئی سوچ کے بارے میں حالات پر نظر رکھنے والوں کا تجزیہ تھا کہ اس طرح تحریک نہضہ اپنے اس تاریخی اور نظریاتی راستے سے ہٹ گئی ہے، جس پر وہ ابتدا میں کار بند تھی۔  

پروفیسر مارچ نے کہا کہ غنوشی کی گرفتاری اور ان کے ساتھ اب تک کا معاملہ تیونس میں ڈیموکریٹک تجربے کو پیچھے لے جانے والا قدم ہے۔ یہ صورت حال اس چیلنج کو واضح کرتی ہے، جو ’اسلامی جمہوریت‘ کو نہ صرف سیاسی تجربے کے طور پر بلکہ ایک فکر کے طور پر بھی درپیش ہے،جب کہ اسلامی جمہوریت اسلامی فریم ورک میں کثرتیت اور آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ پروفیسر مارچ نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ’اسلامی جمہوریت‘ کے بارے میں لکھا گیا ہے، لیکن ان کی کتاب انگریزی میں اس موضوع پر پہلی کتاب ہے، جس میں بنیادی اُمور اور تحریک نہضہ کو پیش کیا گیا ہے، جس نے اسلامی تحریکی سوچ سے تجاوز کرتے ہوئے ’مسلم جمہوریت‘ کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ یہ مفہوم روایتی اسلامی سیاسی فکر سے آگے بڑھ کر ایک قدم ہے۔  

اسلام اور جمہوریت کے درمیان تعلق  

  • کیا ’مسلم جمہوریت‘ صرف ایک سیاسی اصطلاح ہے یا وہ ایک مکمل فکر ہے جو اسلامی تحریکی فکر سے آگے کا ایک قدم ہے؟  
  • کیا ’مسلم جمہوریت‘ ایک سیاسی اسلامی آئیڈیالوجی یا نظریہ ہے؟  
  • ’مسلم جمہوریت‘ کس طرح سابقہ اسلامی سیاسی نظریے یا اسلامی تحریکی فکر سے الگ ہے؟  
  • ’مسلم جمہوریت‘ کس طرح غیر اسلامی ڈیموکریٹک نظریات سے الگ ہے جو کثرتیت اور پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں؟  
  • کیا یہاں معاملہ صرف الیکشن کے زمانے میں سیاسی مارکیٹنگ کا ہے یا یہ ’اسلامی جمہوریت‘ کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے خلاف اسٹرے ٹیجک فیصلہ ہے؟  

یہ وہ سوال ہیں جن پر پروفیسر مارچ نے اس کتاب میں گفتگو کی ہے اور اس کے لیے انھوں نے ’مسلم جمہوریت‘ کی اصطلاح کی تشریح کی غرض سے راشد غنوشی کے ۱۰ مقالات کا ترجمہ کیا ہے اور ان سے تفصیلی گفتگو بھی کی ہے، جس سے اس نظریے کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس گفتگو سے پچھلے چالیس برسوں کے درمیان غنوشی کے بحیثیت سیاسی لیڈر پر روشنی پڑتی ہے۔  

راشد غنوشی نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ایک سیکولر اور قوم پرست لیڈر کے طور پر کی تھی اور دھیرے دھیرے نہضہ پارٹی کے ذریعے اسلامی تحریک میں شامل ہوئے تھے۔ اس دوران ان کو پریشانیوں، گرفتاریوں اور تعذیب کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلی صدی کے نویں عشرے میں ان کی پھانسی کا دو بار حکم صادر ہوا، جس کی وجہ سے وہ ۱۹۸۹ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک جلاوطن کے طور پر لندن میں مقیم رہے ،کیونکہ ان کے خیالات اور نظریات ان کے مخالفین کو نا پسند تھے۔ خصوصاً اس لیے کہ انھوں نے ایک نیا فکری ماڈل پیش کیا تھا، جس سے سیاسی اور اجتماعی تبدیلی کے خواہش مند مسلم ممالک کو ایک راستہ نظر آتا ہے۔  

اس کے برعکس غنوشی کے سیاسی مخالفین، یقین رکھتے ہیں جن میں اسلامی حرکیات سے تعلق رکھنے والے بعض پُرجوش حضرات اور سیکولر دونوں شامل ہیں کہ اسلامی تحریکی فکر اور جمہوریت کو ایک دوسرے سے قریب لانا ممکن نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت کا اسلامی حرکی پہلو یا اسلامی تحریکوں کا جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آناایک وقتی حربہ ہے تاکہ یہ لوگ حکومت پر قبضہ کرسکیں اور اس کے بعد یہ لوگ جمہوریت اور جمہوری قدروں کے خلاف بغاوت کر کے تاریخی اسلامی خلافت جیسی حکومت قائم کریں۔ مگر ان لوگوں کے برعکس تحریک نہضہ نے جمہوریت، سماجی امن و سلامتی اور وطن کی خاطر، حکومت میں سیاسی شرکت سے کنارہ کشی کا راستہ اپناکر دکھایا تھا۔ 

پروفیسر مارچ کے خیال میں غنوشی صرف ایک سیاسی لیڈر نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مفکر اور مجدد ہیں، جنھوں نےاسلامی سیاسی روایت اور جدید جمہوریت کے درمیان قربت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس گفتگو سے سیاسی کثرتیت، حقوق، آزادیاں، بالخصوص عقیدے اور ضمیر کی آزادی ، عوامی حکومت اور انصاف کے بارے میں غنوشی کے افکار واضح ہوتے ہیں۔  

  • اسلامی جمہوریت سے ’مسلم ڈیموکریسی‘ کی طرف: تیونس کا تجربہ دوسرے ممالک مثلاً ترکیہ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ سے مختلف ہے۔ ان کا تقابل راشد غنوشی کی فکر سے کرتے ہوئے پروفیسر مارچ ’اسلامی جمہوریت‘ اور ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔ ’اسلامی جمہوریت‘ ریاست پر ایک اسلامی ماڈل نافذ کرنا چاہتی ہے،جب کہ ’مسلم ڈیموکریسی‘ کثرتیت کو ایک سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر مارچ نے بتایا ہے کہ تیونس کے تجربے نے اس تبدیلی کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے جس کے تحت سیکولر، لبرل اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بنیاد پر ایک زیادہ لچک دار طریقۂ کار اپنانا پڑتا ہے تاکہ سوسائٹی میں بہت سی مشکلات سے بچا جا سکے۔ اس کا بنیادی عنصر آزادی کا التزام ہے۔  

غنوشی کے خیال میں ’’آزادی صرف ایک لبرل قدر (value ) نہیں ہے بلکہ وہ کسی اخلاقی اور دینی عمل کے لیے ایک بنیادی شرط ہے اور دینی فضیلت کو حقیقی آزادی کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ غنوشی سیاسی کثرتیت کاگہرے طور پر اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاسی کثرتیت کوئی جادو کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاست کی حقیقت کوسمجھنے کا مسئلہ ہے۔ انھوں نے اشارہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دستورِ مدینہ بنایا اور نافذ کیا، جو اسلامی حکومت کی تاریخ میں پہلا سول دستور تھا۔ غنوشی کے خیال میں دستورِ مدینہ کثیرقومی ریاست کا سیاسی و انتظامی ماڈل تھا، جس میں سوسائٹی کے مختلف عناصر شہری انتظامی مصلحتوں کی بنیاد پر حکومت بناتے ہیں، نہ کہ دین یا عقیدے کی بنیاد پر۔  

پروفیسر مارچ کا کہنا ہے: برسوں کے سیاسی سفر کے دوران غنوشی،ایک خیالی، مثالی مرحلے سے نکل کر سیاسی واقعیت کے مرحلے میں داخل ہوئے اور ان کی سوچ زیادہ واضح ہو گئی کیونکہ وہ تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاست میں مثالیت نہیں چلتی بلکہ مصلحتوں کے درمیان موافقت پیدا کرنی ہوتی ہے اور مسائل کو کم کیا جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران غنوشی، اسلامی تحریک اور سیکولر لوگوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں اس مرحلے تک پہنچے جس میں سیاسی کش مکش کو دینی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جاتاہے، جس میں لوگوں کے درمیان دوست اور دشمن، دین دار اور کافر سمجھ کر تفریق نہیں کی جاتی۔ کیونکہ ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے دائرے میں جمہوریت کے مخالف کو ’دشمن ‘سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ شخص اسلام پسند ہو یا سیکولر، اور ’دوست‘ اس کو سمجھا جاتا ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتا ہے، چاہے وہ نظریاتی طور پر کسی بھی بات پر یقین رکھتا ہو ۔دوستوں میں وہ شامل نہیں ہیں جو ڈکٹیٹرشپ یا سیاسی استبداد پر یقین رکھتے ہوں یا غیر ملکی طاقتوں کے بل پر کھڑے ہوں۔  

پروفیسر مارچ کے خیال میں: ’مسلم ڈیموکریسی‘ کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ استبداد کے خلاف ایک عملی متبادل پیش کرتی ہے جو آزادی، کثرتیت اور انصاف پر قائم ہے۔ اسلامی حکومت کا ایک مثالی ماڈل پیش کرنے کے بجائے ’مسلم ڈیموکریسی ‘ ایک ایسا نظام پیدا کرنا چاہتی ہے، جس میں مختلف نظریات کا آپس میں نبھا ہوسکے۔ پروفیسر مارچ نے لکھا ہے کہ میں نے راشد غنوشی سے زیادہ اس بات پر عمل کرنے والا کسی کو نہیں پایا۔ وہ اپنے ان نظریات کی وجہ سے اب تک دو رمضان جیل میں گزار چکے ہیں۔ ان کا جیل میں رہنا ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے لیے ایک حقیقی امتحان ہے اور وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ عالم اسلام میں جمہوریت کی جڑیں پھیلانا کتنا مشکل ہے۔ 

پروفیسر مارچ نے کہا کہ جمہوریت محض ایک نظام کا نام نہیں بلکہ وہ ایک کلچر ہے جس پر لوگوں کا یقین اور اعتماد ہونا ضروری ہے۔ اگر جمہوریت ، استبداد اور خانہ جنگی میں سے کسی ایک کو چننا ہو، تو ایسی حالت میں ’مسلم ڈیموکریسی‘ ہی بہترین حل ہے، جو مسلم معاشروں میں استحکام اور کثرتیت کی ضامن ہوگی۔ (الجزیرہ، ۲۷مارچ ۲۰۲۵ء) 

سوال : [آپ کی کتاب] خطبات میں عبادات کے مقاصد کے تذکرے پر یہ اعتراض اُٹھایا گیا ہے کہ آپ نے صرف ان کے دُنیوی فوائد کا تذکرہ کیا ہے۔ عبادات کے اُخروی فوائد کا یا تو ذکر ہی نہیں کیا، یا اگر کیا بھی ہے تو ثانوی درجے کی حیثیت سے۔ اس کے جواب میں ہم اپنے علم کے مطابق وضاحت کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر معترضین ہمارے جواب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اس لیے خود آپ کی توضیح زیادہ مفید ہوگی بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتابوں کی عبارتوں میں ضروری ترمیم کر دی جائے۔ آخر میں یہ خوش خبری بھی عرضِ خدمت ہے کہ اندھی مخالفت کا یہ طوفان جتنا جتنا زور پکڑ رہا ہے، ہماری دینی دعوت بھی اسی کے ساتھ روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ آپ ہمارے لیے خدا تعالیٰ سے دُعا فرمایئے۔ 

جواب : خطبات میں عبادات کے دُنیوی نہیں بلکہ اخلاقی فوائد کو میں نے زیادہ نمایاں کرکے پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میں اُخروی فوائد کا قائل نہیں ہوں یا انھیں کم اہمیت دیتا ہوں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگوں کی نگاہوں سے عبادات کے اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی فوائد اوجھل ہوگئے ہیں، اور ان کے اوجھل ہوجانے کی وجہ سے لوگ ان عبادات سے غفلت برتنے لگے ہیں۔ اس لیے میں نے ان پہلوئوں کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔ نمایاں وہی چیز کی جاتی ہے، جو مخفی ہو یا جس سے عموماً لوگ غافل ہوں،نہ کہ وہ چیز جس سے پہلے ہی لوگ واقف ہوں۔ 

آخر میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد فرمائے اور فتنہ پردازوں سے آپ کی حفاظت فرمائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقع پر دُعا فرمایا کرتے تھے:  

اَللّٰھُمَّ   اِنَّا  نَجْعَلُکَ  فِیْ  نُحُوْرِہِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ (سنن ابی داؤد، کتاب تفریع، حدیث: ۱۵۳۷) [اے اللہ! ہم تجھے اُن (دشمنوں) کے مقابلے میں سامنے رکھتے ہیں اور اُن کے شرور سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔] 

یہی دُعا مَیں بھی مانگتا ہوں۔ جو لوگ محض نفسانیت اور تعصب اور حسد کی بنا پر ہمارے خلاف طرح طرح کے فتنے اُٹھا رہے ہیں اور محض اپنے ذاتی کینے کی وجہ سے اُس خیر کا راستہ روکنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں، ان کے شر سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں ، اور خدا ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان سے نمٹ لے۔ 


کیا نماز میں درود پڑھنا شرک ہے؟ 

سوال : نماز میں سورئہ فاتحہ ، سورئہ اخلاص یا کوئی اور سورت جو ہم پڑھتے ہیں، ان میں صرف اللہ ہی کی حمدوثنا اور عظمت و بزرگی کا بیان ہے۔ اسی طرح رکوع و سجود میں اسی کی تسبیح و تہلیل بیان ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم تشہد کے لیے بیٹھتے ہیں تو حضور سرورِ کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شروع ہوجاتا ہے، جیساکہ تشہد اور دونوں درود شریف وغیرہ۔ کیا اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کی عبادت میں شریک نہیں ہوجاتے؟ 

جواب : تشہد کی پوری عبارت پر آپ غور کریں۔ پہلے آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سلام پیش کرتے ہیں، پھر رسولؐ کے لیے رحمت و برکت کی دُعا کرتے ہیں۔ پھر اپنے حق میں اور تمام نیک بندوں کے حق میں سلامتی کی دُعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر رسولؐ اللہ پر درود بھیجتے ہیں، جو دراصل اللہ ہی سے اس امر کی دُعا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نوازشات کی بارش فرمائے۔ پھر اللہ سے اپنے حق میں اور اپنے والدین کے حق میں بخشش کی دُعا کرتے ہیں۔ ان سارے مضامین کو آپ خود دیکھیں، ان میں کیا چیز ہے جسے آپ ’شرک‘ کہہ سکتے ہیں؟ یہ توساری دُعائیں اللہ تعالیٰ ہی سے ہیں۔ کیا اللہ سے دُعا کرنا ’شرک‘ ہے؟ اور کیا اللہ کے رسولؐ کو رسول ماننا بھی ’شرک‘ ہے؟ (ترجمان القرآن، فروری۱۹۶۱ء( 

خلافت ِ راشدہ حقیقت میں محض ایک سیاسی حکومت نہ تھی، بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی۔ یعنی اس کا کام صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ملک کا نظم و نسق چلائے، امن قائم کرے اور سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے، بلکہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں معلّم، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی، جونبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ طیبہ میں انجام دیا کرتے تھے، اور اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ دارالاسلام میں دینِ حق کے پورے نظام کو اس کی اصلی شکل و روح کے ساتھ چلائے ، اور دُنیا میں مسلمانوں کی پو ری اجتماعی طاقت، اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگادے۔ 

اس بناپر یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ صرف ’خلافت ِ راشدہ‘ ہی نہ تھی بلکہ ’خلافت ِ مرشدہ‘ بھی تھی۔ ’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘ کے الفاظ اس کی انھی دونوں خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں، اور دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اسلام میں اصل مطلوب اِسی نوعیت کی ریاست ہے نہ کہ محض ایک سیاسی حکومت۔ 

(’خلافت راشدہ سے ملوکیت تک‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۵ء، ص ۳۳)