جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

بنگلہ دیش: نامکمل ’جولائی انقلاب‘

ڈاکٹر محمود الرحمٰن | جون ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بنگلہ دیش میں ’جولائی انقلاب‘ رَدِ فسطائیت کا ایک تاریخی اور قومی یکجہتی کا موقع لے کر  آیا تھا۔ ہزاروں نوجوان طلبہ و طالبات اور عوام کے لہو سے ہم فسطائیت اور بھارتی تسلط کے مشترکہ طوقِ غلامی سے اپنی مادرِ وطن کو نجات دلانے میں کامیاب ہوئے۔ عوام کو یہ توقع تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں فسطائیت مخالف تمام عناصر پر مشتمل ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو آئندہ انتخابات تک ریاست کا نظم و نسق سنبھالے گی۔ 

بدقسمتی یہ ہوئی کہ گذشتہ سال ۸؍ اگست کو نہ تو کوئی قومی حکومت بنی، نہ کوئی حقیقی انقلابی حکومت وجود پاسکی۔ اس کے بجائے، نام نہاد سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی گئی، مگر وہ مطلوبہ وسیع تر سیاسی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہی۔ حکومت کی تشکیل کے آغاز ہی میں مخصوص ’این جی اوز‘ اور ’سول سوسائٹی‘ کی بالادستی کے تاثر کو ایک بااثر مشیر نے غیرملکیوں سے گفتگو میں خوشی سے اس طرح بیان کیا: ’’’سول سوسائٹی‘ کے نصف درجن نمائندے حکومت میں جگہ پاچکے ہیں‘‘۔ یہ بات مجھے انھی غیرملکیوں نے بتائی۔ ذرا ماضی میں جائیں تو قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ۲۰۰۷ء میں اسی ’سول سوسائٹی‘ کے اخبار کے ایک مشہور مدیر نے اُس وقت کے اطلاعاتی مشیر مینال حسین کو برملا ڈانٹ کر یہ کہا تھا کہ ’’یہ حکومت [یعنی حسینہ واجد] ہم نے بنائی ہے‘‘۔ اس طرح یہ گروہ ہر دورِ حکومت میں اثر و رسوخ اور اپنی گرفت قائم رکھتا آیا ہے۔ حال ہی میں، یہی مدیر انقلاب کے چندماہ بعد ڈاکٹر یونس پر سخت تنقید کرنے لگے ہیں۔ 

ہم نے دیکھا کہ حکومت بننے کے بعد، بیرونِ ملک مقیم تمام ’سمارٹ‘ بنگلہ دیشیوں کو مشیر، خصوصی معاون، مشیروں کے مشیر وغیرہ مختلف عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ ہم ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت بنگلہ دیشیوں کا تذکرہ سن کر خوش ضرور ہوئے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ملک میں غیرمعروف ہیں اور یہاں کے ماحول میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ 

چنانچہ، حکومت بننے کے ۹ ماہ بعد بھی نہ تو کوئی اصلاحات نافذ ہو سکیں، اور نہ اصلاحات کے کسی سیاسی اتفاقِ رائے کے آثار نظر آتے ہیں۔ میرے لیے باعث تشویش یہ ہے کہ موجودہ حکومت کئی طرح کی اصلاحی تجاویز کو بغیر کسی نتیجے پر پہنچائے، درمیان میں چھوڑ کر اور کسی مشترکہ مثبت اور دُوررس اثرات کے حامل سیاسی نظامِ کار کو متعارف و نافذ کرائے بغیر ہی رخصت ہوجائے گی۔ مزید ستم یہ کہ صرف ۹ ماہ کے اندر اندر حکومت کو درجنوں مطالبات کے ذریعے سڑکوں پر ہنگاموں کی صورت میں بے حال کرنے کی کوششیں تسلسل کے ساتھ سامنے آئیں۔ حکومت کے مینڈیٹ پر جب بار بار سوالات اٹھائے گئے، تو غیر تجربہ کار مشیروں کا گروہ ان کا معقول جواب دینے سے قاصر رہا۔ 

دوسری طرف، انقلاب کی گرمی ٹھنڈی ہونے سے قبل ہی، عوامی لیگ سے ہٹ کر بنگلہ دیش کی دو بڑی سیاسی جماعتوںبنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)اور جماعت اسلامی کے درمیان بیانات کی جنگ چھڑ چکی تھی۔ جماعت اسلامی، جو سترہ سالہ وحشیانہ عوامی لیگی اور بائیں بازو کے جبر سے اچانک نجات پانے میں کامیاب ہوئی۔ وہ کئی پہلوئوں سے اپنی حقیقی عوامی تائید اور تنظیمی قوت کی نسبت سے زیادہ خوداعتماد نظر آئی۔ ملک کے بدلے ہوئے سیاسی منظرنامے میں جماعت اسلامی کی قربانیوں اور عزم و حوصلے کے احترام کے باوجود بہرحال، رائے دہندگان کی ووٹوں کی صورت میں تائید و حمایت پورے ملک میں اس درجہ منظم انداز سے پھیلی ہوئی نہیں ہے۔ جن علاقوں میں جماعت کی انتخابی طاقت موجود ہے، اس کی بنیاد پر مستقبل قریب میں جماعت کے لیے اقتدار کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ تاہم، جماعت اسلامی ایک معقول تعداد کے ساتھ پارلیمان میں جا کر اپوزیشن کا بڑا مؤثر مقام ضرور حاصل کر سکتی ہے۔ 

’جولائی انقلاب‘ کے بعد پیدا ہونے والی اس کش مکش میں، جلد اقتدار میں آنے کی خواہش مند اور عوامی حمایت و تنظیمی طاقت میں بہت برتر بی این پی کی جانب سے صورتِ حال اس وقت کش مکش میں تبدیل ہوگئی، جب شہروں میں جماعت اسلامی کے بڑے بڑے جلسے ہوئے تو بی این پی جماعت اسلامی پر غضبناک ہو گئی۔ حسینہ کے فرار کے کچھ ہی دنوں بعد، بی این پی اور جماعت اسلامی کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے۔ 

درحقیقت ۲۰۱۴ء کے بعد ہی سے بی این پی اور جماعت کے مابین دوریاں پیدا ہو چکی تھیں۔ پھر ۲۰۱۸ء کے ضمنی کے الیکشن میں فاصلے مزید بڑھ گئے۔ جن بی این پی رہنماؤں کو نظرانداز کرکے یہ نشستیں جماعت کو دی گئی تھیں، وہ ناراض بھی ہوئے۔ تب سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف بن گئی ہیں۔ ۲۰۲۲ء میں بی این پی نے باضابطہ طور پر ۲۰جماعتی اتحاد توڑ دیا، جس کے بعد صاف ظاہر ہو گیا کہ مستقبل میں یہ دونوں جماعتیں شدید سیاسی حریف بن کر ابھریں گی۔ 

موجودہ حالات میں، بی این پی اور جماعت کے درمیان تنائو یا تصادم کی فضا عوامی لیگ کے تلخ تجربے سے بھی زیادہ تلخ نتائج سامنے لاسکتی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ حالیہ دنوں میں بی این پی سے بائیں بازو کی بڑے پیمانے پر قربت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 

وہ بھارت نواز بائیں بازو کے عناصر جو عوامی لیگ کے کاندھوں پر سوار ہوکر سترہ سال اقتدار میں رہے، اور اختلاف رائے کو کچلتے رہے، بھارت کا اسلام مخالف بیانیہ بھی پھیلاتے رہے، اور فسطائیت کے دامے درمے مددگار بنے رہے، انھوں نے جماعت اسلامی اور بی این پی کے باہمی تصادم سے پیدا ہونے والے خلا سے فوراً اور بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ عوام سے کٹے ہوئے بائیں بازو کے سیاستدان ہر دور میں کسی نہ کسی بڑی جماعت کی چھتری تلے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ 

فسطائیت مخالف قوتوں کی ناپختہ یکجہتی اور بی این پی کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ نے ان عناصر کو بی این پی میں داخل ہونے کی کھلی راہ فراہم کر دی۔ وہی میڈیا گروہ، جو برسوں سے ضیاء خاندان اور بی این پی کے خلاف مہم چلاتے رہے، اب جب انھیں بی این پی اقتدار کے قریب نظر آئی تو انھوں نے روایتی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقف بدل لیا۔ دوسری جانب بی این پی کی قیادت نے بھی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی تمام تلخ یادیں بھلا کر انھیں خوش آمدید کہا۔ اقتدار کی سیاست غالباً ہمیشہ مفاد پرستانہ ہی ہوتی ہے۔ 

اب بی این پی کی صفوں میں عوامی لیگ کی بھارت نوازی کو نشانہ بنانے کے بجائے اُن اسلامی حلقوں کو جنھیں وہ ’اسلامسٹ‘ کہتے ہیں، انھی کو اصل چیلنج اور نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 

بی این پی اور جماعت اسلامی سے باہر نوجوان طلبہ اور عوام پر مشتمل ایک تیسری سیاسی قوت کے اُبھرنے کی اُمید ضرور پیدا ہوئی ہے، مگر سرِدست وہ صحیح معنوں میں سیاسی میدان میں جڑ نہیں پکڑ سکی۔ 

۷۰کے عشرے میں جنرل ضیاء الرحمٰن نے چین نواز بائیں بازو اور اسلام پسندوں کو ملا کر بی این پی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ جماعت آج بھی ملک کی ایک بڑی قوت ہے، مگر اندرونی نظریاتی کش مکش ختم نہیں ہو سکی۔ اقتدار میں شراکت کی خواہش نے سب کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا تو رکھا، لیکن بائیں بازو اور اسلام دوست قوتوں کی مسلسل نظریاتی جنگ چلی آرہی ہے۔ ایک عشرے سے بی این پی میں بھارت نواز اور بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے جماعت کے لیے اجنبیت پیدا کردی ہے۔ 

اب بی این پی میں ان افراد کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے، جو پہلے عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ یہ موقع پرستی بی این پی کے نظریاتی انحراف کی افسوس ناک علامت ہے۔ 

طلبہ کی نئی جماعت ’نیشنل سٹیزن پارٹی‘ (NCP) میں بھی ستّر کی دہائی کی بی این پی کی طرح بائیں بازو اور اسلام دوست عناصر کا امتزاج موجود ہے، جس سے نظریاتی تقسیم واضح ہو رہی ہے۔ قیادت کے تقریباً تمام افراد ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے قیادت کی چپقلش بھی ناگزیر ہو گئی ہے۔ این سی پی کے علاوہ ’جولائی انقلاب‘ کے طالب علم رہنماؤں کے کئی پلیٹ فارم وجود میں آچکے ہیں۔ اگر ان میں وحدت پیدا نہ ہو سکی، تو بی این پی اور جماعت کے علاوہ تیسری جماعت کے وجود پذیر ہونے میں مزید مدت لگے گی۔ 

اب سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟ 

اگرچہ بحیثیت جماعت عوامی لیگ کی واپسی فی الحال ممکن نظر نہیں آتی، مگر ان کے کم از کم ۲۰فی صد وفادار حمایتی ملک میں موجود ہیں۔ دوسری جانب بی این پی نے ان سب کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔ این سی پی قیادت کا بھی ایک طبقہ عوامی لیگ کے ۱۹۷۱ء سے متعلق بیانیے کے قریب تر موقف پیش کر رہا ہے، تاکہ عوامی لیگ کے حامیوں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔ 

میرا اندازہ ہے کہ عوامی لیگ کے کارکنان اور حامی، موجودہ حالات میں اپنی سلامتی کے لیے، واضح طور پر اقتدار کے قریب پہنچتی بی این پی کا رُخ کریں گے۔ چونکہ بھارت بھی بظاہر بی این پی کو قابلِ اعتماد سمجھنے لگا ہے، اس لیے عوامی لیگ نوازوں کی بی این پی میں شمولیت پر کوئی رکاوٹ باقی نہیں۔ 

حال ہی میں بی این پی نے، ڈاکٹر یونس حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر، سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب، بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ جنرل وقار الزماں کی اس تقریر نے حکومت کو کمزور کر دیا ہے، جس میں انھوں نے آرمی ہیڈ کوارٹر میں افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’عبوری حکومت جلداَز جلد انتخابات کرائے، فوجی معاملات میں مداخلت بند کرے اور رخائن راہداری کے بارے میں معاملات سے فوج کو باخبر رکھے‘‘۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایک حاضر سروس فوجی سربراہ کو حکومت کے متعلق ایسے بیانات دینے کا اختیار کیسے حاصل ہے ؟ 

ان حالات میں، عبوری حکومت ایک ’لنگڑی بطخ‘ بن چکی ہے۔ تاہم، اگر موجودہ حکومت کسی حادثاتی یا سازشی عمل کے نتیجے میں رخصت ہو جاتی ہے، تو انڈیا کی منصوبہ بندی کامیاب ہو جائے گی۔ افسوس کہ جو سیاسی جماعتیں اس حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ لازمی طور پر اس خطرے کو نظر انداز کر رہی ہیں۔صرف دو ماہ قبل، عیدالفطر کے روز قومی عیدگاہ میں لوگوں کا پُرجوش خیرمقدم دیکھ کر ڈاکٹر یونس کو بنگلہ دیش کا مقبول ترین رہنما تصور کیا جا رہا تھا، مگر آج وہ بی این پی کی جزوی تنظیمی طاقت کے سامنے غیر متوقع حد تک بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ 

جولائی کے انقلاب نے اگرچہ شیخ حسینہ واجد کی فاشسٹ حکومت کو اقتدار سے محروم کر دیا تھا، مگر افسوس کہ اس کے بعد کی عبوری حکومت، بنگلہ دیش کو انڈیا کی آکٹوپس گرفت سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۲۴ء تک، ۱۷ برسوں میں ریاست کے ہر شعبے میں انڈین ایجنٹوں کی جو دراندازی ہوئی ہے، انھیں شناخت کر کے بے دخل کرنے کے لیے کوئی مؤثر اور مربوط اقدام نہیں کیا گیا۔ 

چھ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ کر میں نے پروفیسر یونس صاحب سے بارہا کہا: ’’یا تو واقعی حکومت کریں، ورنہ کنارہ کش ہوجائیں‘‘۔ مگر سیاست سے ناواقفیت کے باعث شاید وہ میری بات کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔ وہ، ان کے مشیر اور طلبہ رہنما ایک خودپسندانہ ’کمفرٹ زون‘ میں داخل ہوگئے۔ انھوں نے باہر کے خیرخواہوں کی بات سننے کی ضرورت محسوس نہ کی۔اس حکومت کی ناکامی، سیاست دانوں کی ناعاقبت اندیشی، اور اقتدار کی شدید خواہش نے انڈیا کو ایک بار پھر بنگلہ دیش کی سیاست میں داخل ہونے کا موقع دے دیا ہے۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ نامکمل ’جولائی انقلاب‘ کو مکمل کرنے کے لیے قوم کو ایک بار پھر جدوجہد کی تیاری کرنا ہوگی۔