ڈاکٹر محمود الرحمٰن


بنگلہ دیش میں ’جولائی انقلاب‘ رَدِ فسطائیت کا ایک تاریخی اور قومی یکجہتی کا موقع لے کر  آیا تھا۔ ہزاروں نوجوان طلبہ و طالبات اور عوام کے لہو سے ہم فسطائیت اور بھارتی تسلط کے مشترکہ طوقِ غلامی سے اپنی مادرِ وطن کو نجات دلانے میں کامیاب ہوئے۔ عوام کو یہ توقع تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں فسطائیت مخالف تمام عناصر پر مشتمل ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو آئندہ انتخابات تک ریاست کا نظم و نسق سنبھالے گی۔ 

بدقسمتی یہ ہوئی کہ گذشتہ سال ۸؍ اگست کو نہ تو کوئی قومی حکومت بنی، نہ کوئی حقیقی انقلابی حکومت وجود پاسکی۔ اس کے بجائے، نام نہاد سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی گئی، مگر وہ مطلوبہ وسیع تر سیاسی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہی۔ حکومت کی تشکیل کے آغاز ہی میں مخصوص ’این جی اوز‘ اور ’سول سوسائٹی‘ کی بالادستی کے تاثر کو ایک بااثر مشیر نے غیرملکیوں سے گفتگو میں خوشی سے اس طرح بیان کیا: ’’’سول سوسائٹی‘ کے نصف درجن نمائندے حکومت میں جگہ پاچکے ہیں‘‘۔ یہ بات مجھے انھی غیرملکیوں نے بتائی۔ ذرا ماضی میں جائیں تو قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ۲۰۰۷ء میں اسی ’سول سوسائٹی‘ کے اخبار کے ایک مشہور مدیر نے اُس وقت کے اطلاعاتی مشیر مینال حسین کو برملا ڈانٹ کر یہ کہا تھا کہ ’’یہ حکومت [یعنی حسینہ واجد] ہم نے بنائی ہے‘‘۔ اس طرح یہ گروہ ہر دورِ حکومت میں اثر و رسوخ اور اپنی گرفت قائم رکھتا آیا ہے۔ حال ہی میں، یہی مدیر انقلاب کے چندماہ بعد ڈاکٹر یونس پر سخت تنقید کرنے لگے ہیں۔ 

ہم نے دیکھا کہ حکومت بننے کے بعد، بیرونِ ملک مقیم تمام ’سمارٹ‘ بنگلہ دیشیوں کو مشیر، خصوصی معاون، مشیروں کے مشیر وغیرہ مختلف عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ ہم ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت بنگلہ دیشیوں کا تذکرہ سن کر خوش ضرور ہوئے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ملک میں غیرمعروف ہیں اور یہاں کے ماحول میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ 

چنانچہ، حکومت بننے کے ۹ ماہ بعد بھی نہ تو کوئی اصلاحات نافذ ہو سکیں، اور نہ اصلاحات کے کسی سیاسی اتفاقِ رائے کے آثار نظر آتے ہیں۔ میرے لیے باعث تشویش یہ ہے کہ موجودہ حکومت کئی طرح کی اصلاحی تجاویز کو بغیر کسی نتیجے پر پہنچائے، درمیان میں چھوڑ کر اور کسی مشترکہ مثبت اور دُوررس اثرات کے حامل سیاسی نظامِ کار کو متعارف و نافذ کرائے بغیر ہی رخصت ہوجائے گی۔ مزید ستم یہ کہ صرف ۹ ماہ کے اندر اندر حکومت کو درجنوں مطالبات کے ذریعے سڑکوں پر ہنگاموں کی صورت میں بے حال کرنے کی کوششیں تسلسل کے ساتھ سامنے آئیں۔ حکومت کے مینڈیٹ پر جب بار بار سوالات اٹھائے گئے، تو غیر تجربہ کار مشیروں کا گروہ ان کا معقول جواب دینے سے قاصر رہا۔ 

دوسری طرف، انقلاب کی گرمی ٹھنڈی ہونے سے قبل ہی، عوامی لیگ سے ہٹ کر بنگلہ دیش کی دو بڑی سیاسی جماعتوںبنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)اور جماعت اسلامی کے درمیان بیانات کی جنگ چھڑ چکی تھی۔ جماعت اسلامی، جو سترہ سالہ وحشیانہ عوامی لیگی اور بائیں بازو کے جبر سے اچانک نجات پانے میں کامیاب ہوئی۔ وہ کئی پہلوئوں سے اپنی حقیقی عوامی تائید اور تنظیمی قوت کی نسبت سے زیادہ خوداعتماد نظر آئی۔ ملک کے بدلے ہوئے سیاسی منظرنامے میں جماعت اسلامی کی قربانیوں اور عزم و حوصلے کے احترام کے باوجود بہرحال، رائے دہندگان کی ووٹوں کی صورت میں تائید و حمایت پورے ملک میں اس درجہ منظم انداز سے پھیلی ہوئی نہیں ہے۔ جن علاقوں میں جماعت کی انتخابی طاقت موجود ہے، اس کی بنیاد پر مستقبل قریب میں جماعت کے لیے اقتدار کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ تاہم، جماعت اسلامی ایک معقول تعداد کے ساتھ پارلیمان میں جا کر اپوزیشن کا بڑا مؤثر مقام ضرور حاصل کر سکتی ہے۔ 

’جولائی انقلاب‘ کے بعد پیدا ہونے والی اس کش مکش میں، جلد اقتدار میں آنے کی خواہش مند اور عوامی حمایت و تنظیمی طاقت میں بہت برتر بی این پی کی جانب سے صورتِ حال اس وقت کش مکش میں تبدیل ہوگئی، جب شہروں میں جماعت اسلامی کے بڑے بڑے جلسے ہوئے تو بی این پی جماعت اسلامی پر غضبناک ہو گئی۔ حسینہ کے فرار کے کچھ ہی دنوں بعد، بی این پی اور جماعت اسلامی کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے۔ 

درحقیقت ۲۰۱۴ء کے بعد ہی سے بی این پی اور جماعت کے مابین دوریاں پیدا ہو چکی تھیں۔ پھر ۲۰۱۸ء کے ضمنی کے الیکشن میں فاصلے مزید بڑھ گئے۔ جن بی این پی رہنماؤں کو نظرانداز کرکے یہ نشستیں جماعت کو دی گئی تھیں، وہ ناراض بھی ہوئے۔ تب سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف بن گئی ہیں۔ ۲۰۲۲ء میں بی این پی نے باضابطہ طور پر ۲۰جماعتی اتحاد توڑ دیا، جس کے بعد صاف ظاہر ہو گیا کہ مستقبل میں یہ دونوں جماعتیں شدید سیاسی حریف بن کر ابھریں گی۔ 

موجودہ حالات میں، بی این پی اور جماعت کے درمیان تنائو یا تصادم کی فضا عوامی لیگ کے تلخ تجربے سے بھی زیادہ تلخ نتائج سامنے لاسکتی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ حالیہ دنوں میں بی این پی سے بائیں بازو کی بڑے پیمانے پر قربت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 

وہ بھارت نواز بائیں بازو کے عناصر جو عوامی لیگ کے کاندھوں پر سوار ہوکر سترہ سال اقتدار میں رہے، اور اختلاف رائے کو کچلتے رہے، بھارت کا اسلام مخالف بیانیہ بھی پھیلاتے رہے، اور فسطائیت کے دامے درمے مددگار بنے رہے، انھوں نے جماعت اسلامی اور بی این پی کے باہمی تصادم سے پیدا ہونے والے خلا سے فوراً اور بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ عوام سے کٹے ہوئے بائیں بازو کے سیاستدان ہر دور میں کسی نہ کسی بڑی جماعت کی چھتری تلے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ 

فسطائیت مخالف قوتوں کی ناپختہ یکجہتی اور بی این پی کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ نے ان عناصر کو بی این پی میں داخل ہونے کی کھلی راہ فراہم کر دی۔ وہی میڈیا گروہ، جو برسوں سے ضیاء خاندان اور بی این پی کے خلاف مہم چلاتے رہے، اب جب انھیں بی این پی اقتدار کے قریب نظر آئی تو انھوں نے روایتی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقف بدل لیا۔ دوسری جانب بی این پی کی قیادت نے بھی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی تمام تلخ یادیں بھلا کر انھیں خوش آمدید کہا۔ اقتدار کی سیاست غالباً ہمیشہ مفاد پرستانہ ہی ہوتی ہے۔ 

اب بی این پی کی صفوں میں عوامی لیگ کی بھارت نوازی کو نشانہ بنانے کے بجائے اُن اسلامی حلقوں کو جنھیں وہ ’اسلامسٹ‘ کہتے ہیں، انھی کو اصل چیلنج اور نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 

بی این پی اور جماعت اسلامی سے باہر نوجوان طلبہ اور عوام پر مشتمل ایک تیسری سیاسی قوت کے اُبھرنے کی اُمید ضرور پیدا ہوئی ہے، مگر سرِدست وہ صحیح معنوں میں سیاسی میدان میں جڑ نہیں پکڑ سکی۔ 

۷۰کے عشرے میں جنرل ضیاء الرحمٰن نے چین نواز بائیں بازو اور اسلام پسندوں کو ملا کر بی این پی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ جماعت آج بھی ملک کی ایک بڑی قوت ہے، مگر اندرونی نظریاتی کش مکش ختم نہیں ہو سکی۔ اقتدار میں شراکت کی خواہش نے سب کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا تو رکھا، لیکن بائیں بازو اور اسلام دوست قوتوں کی مسلسل نظریاتی جنگ چلی آرہی ہے۔ ایک عشرے سے بی این پی میں بھارت نواز اور بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے جماعت کے لیے اجنبیت پیدا کردی ہے۔ 

اب بی این پی میں ان افراد کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے، جو پہلے عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ یہ موقع پرستی بی این پی کے نظریاتی انحراف کی افسوس ناک علامت ہے۔ 

طلبہ کی نئی جماعت ’نیشنل سٹیزن پارٹی‘ (NCP) میں بھی ستّر کی دہائی کی بی این پی کی طرح بائیں بازو اور اسلام دوست عناصر کا امتزاج موجود ہے، جس سے نظریاتی تقسیم واضح ہو رہی ہے۔ قیادت کے تقریباً تمام افراد ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے قیادت کی چپقلش بھی ناگزیر ہو گئی ہے۔ این سی پی کے علاوہ ’جولائی انقلاب‘ کے طالب علم رہنماؤں کے کئی پلیٹ فارم وجود میں آچکے ہیں۔ اگر ان میں وحدت پیدا نہ ہو سکی، تو بی این پی اور جماعت کے علاوہ تیسری جماعت کے وجود پذیر ہونے میں مزید مدت لگے گی۔ 

اب سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟ 

اگرچہ بحیثیت جماعت عوامی لیگ کی واپسی فی الحال ممکن نظر نہیں آتی، مگر ان کے کم از کم ۲۰فی صد وفادار حمایتی ملک میں موجود ہیں۔ دوسری جانب بی این پی نے ان سب کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔ این سی پی قیادت کا بھی ایک طبقہ عوامی لیگ کے ۱۹۷۱ء سے متعلق بیانیے کے قریب تر موقف پیش کر رہا ہے، تاکہ عوامی لیگ کے حامیوں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔ 

میرا اندازہ ہے کہ عوامی لیگ کے کارکنان اور حامی، موجودہ حالات میں اپنی سلامتی کے لیے، واضح طور پر اقتدار کے قریب پہنچتی بی این پی کا رُخ کریں گے۔ چونکہ بھارت بھی بظاہر بی این پی کو قابلِ اعتماد سمجھنے لگا ہے، اس لیے عوامی لیگ نوازوں کی بی این پی میں شمولیت پر کوئی رکاوٹ باقی نہیں۔ 

حال ہی میں بی این پی نے، ڈاکٹر یونس حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر، سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب، بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ جنرل وقار الزماں کی اس تقریر نے حکومت کو کمزور کر دیا ہے، جس میں انھوں نے آرمی ہیڈ کوارٹر میں افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’عبوری حکومت جلداَز جلد انتخابات کرائے، فوجی معاملات میں مداخلت بند کرے اور رخائن راہداری کے بارے میں معاملات سے فوج کو باخبر رکھے‘‘۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایک حاضر سروس فوجی سربراہ کو حکومت کے متعلق ایسے بیانات دینے کا اختیار کیسے حاصل ہے ؟ 

ان حالات میں، عبوری حکومت ایک ’لنگڑی بطخ‘ بن چکی ہے۔ تاہم، اگر موجودہ حکومت کسی حادثاتی یا سازشی عمل کے نتیجے میں رخصت ہو جاتی ہے، تو انڈیا کی منصوبہ بندی کامیاب ہو جائے گی۔ افسوس کہ جو سیاسی جماعتیں اس حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ لازمی طور پر اس خطرے کو نظر انداز کر رہی ہیں۔صرف دو ماہ قبل، عیدالفطر کے روز قومی عیدگاہ میں لوگوں کا پُرجوش خیرمقدم دیکھ کر ڈاکٹر یونس کو بنگلہ دیش کا مقبول ترین رہنما تصور کیا جا رہا تھا، مگر آج وہ بی این پی کی جزوی تنظیمی طاقت کے سامنے غیر متوقع حد تک بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ 

جولائی کے انقلاب نے اگرچہ شیخ حسینہ واجد کی فاشسٹ حکومت کو اقتدار سے محروم کر دیا تھا، مگر افسوس کہ اس کے بعد کی عبوری حکومت، بنگلہ دیش کو انڈیا کی آکٹوپس گرفت سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۲۴ء تک، ۱۷ برسوں میں ریاست کے ہر شعبے میں انڈین ایجنٹوں کی جو دراندازی ہوئی ہے، انھیں شناخت کر کے بے دخل کرنے کے لیے کوئی مؤثر اور مربوط اقدام نہیں کیا گیا۔ 

چھ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ کر میں نے پروفیسر یونس صاحب سے بارہا کہا: ’’یا تو واقعی حکومت کریں، ورنہ کنارہ کش ہوجائیں‘‘۔ مگر سیاست سے ناواقفیت کے باعث شاید وہ میری بات کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔ وہ، ان کے مشیر اور طلبہ رہنما ایک خودپسندانہ ’کمفرٹ زون‘ میں داخل ہوگئے۔ انھوں نے باہر کے خیرخواہوں کی بات سننے کی ضرورت محسوس نہ کی۔اس حکومت کی ناکامی، سیاست دانوں کی ناعاقبت اندیشی، اور اقتدار کی شدید خواہش نے انڈیا کو ایک بار پھر بنگلہ دیش کی سیاست میں داخل ہونے کا موقع دے دیا ہے۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ نامکمل ’جولائی انقلاب‘ کو مکمل کرنے کے لیے قوم کو ایک بار پھر جدوجہد کی تیاری کرنا ہوگی۔  

عوامی لیگی کا رکن، قانون شکن اور بدعنوان شمس الدین احمد چودھری، بنگلہ دیشی عدلیہ کا اصل چہرہ ہے۔ کچھ سال پہلے تک بدنام شہرت کا حامل یہ شخص اپیل کونسل میں منصف کے طور پر شامل ہوکر سپریم کورٹ کا وقار مٹی میں ملا رہا تھا۔ دس سال سے زیادہ عرصہ قبل جب یہ آدمی ہائی کورٹ کا جج تھا تو میں نے بطور شہری اور مدیر روزنامہ امر دیش ،صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط لکھ کر  اس کے خلاف احتسابی کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس خط میں اس کی بدعنوانی اور اخلاقی گراوٹ کے کئی واضح اور ناقابلِ تردید ثبوت بھی مہیا کیے گئے تھے۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا، جو کسی فسطائی ریاست میں ہو سکتا تھا۔ اس ملزم کو ترقی دے کر اپیل ڈویژن میں بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف ایک اختلافی آواز کو دبانے کے لیے مبینہ طور پر وزیر اعظم حسینہ واجد کے حکم پر مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کئی دفعہ جان سے مارنے کی کوشش ہوئی، پانچ سال تک قید میں رکھا گیا، اخبار بند کردیا اور چھاپہ خانے کو پولیس نے سربمہر کر دیا۔ ۲۲ جولائی ۲۰۱۸ء کو عدالتی حدود میں ایک دفعہ پھر مجھ پر حکومتی جماعت کے اُجرتی قاتلوں نے حملہ کیا، جس کے بعد ملک چھوڑنے کے سواکوئی چارہ نہ رہا۔

یہی شمس الدین نامی بدمعاش ’جج َ‘ اب ریٹائر ہونے کے بعد چند دن سے دوبارہ خبروں کا حصہ بنا ہوا ہے۔ موصوف نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں بنگلہ دیش سے امریکی سفیر پیٹر حاس کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے بنگلہ دیش کی فسطائی حکومت کے چند محدود اور غیر متعین عناصر کے خلاف ویزا پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ بنگلہ دیشی عدلیہ راتوں رات ذلّت کی گہرائی میں جاگری بلکہ ۲۰۰۸ء میں عوامی لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد بنگلہ دیش سے جمہوریت کے خاتمے اور عدل کی زندگی کے قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہمارے اخبار امردیش نے ہر طرح کی مخالفت کے باوجود ۲۰۰۹ء میں عدلیہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور بھرتیوں کے خلاف کئی مضامین شائع کیے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوگیا تھا جب دسمبر ۲۰۰۸ء میں حسینہ واجد، امریکا و بھارت کی مدد سے انتخابات میں کامیابی کے نام پر اقتدار پہ قابض ہوئی تھیں۔ بھارت کے سابق صدر پرناب مکھرجی، جو اُس وقت وزیر خارجہ تھے، اپنی یادداشتوں میں یہ قصہ سناتے ہیں کہ کیسے انھوں نے تب کے بنگالی سپہ سالار جنرل معین کو شیخ حسینہ کے حق میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ مکھرجی کے بقول انھوں نے بدلے میں جنرل معین کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حسینہ کی حکومت میں بنگالی فوج کی سپہ سالاری انھی کے پاس رہے گی۔

۱۰ مئی ۲۰۱۰ء کومیں نے امر دیش  میں ایک کالم بعنوان ’آزادیٔ عدالت کے نام پر دھوکا‘ لکھا تھا۔ اس کے جواب میں توہین عدالت کے دو مقدمے قائم کر کے مجھے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ایک لاکھ ٹکا جرمانہ بھی میری سزا میں شامل تھا، جو میں نے یہ کہتے ہوئے ادا نہیں کیا کہ میرا مضمون مکمل طور پر حق اور سچ پر مبنی ہے اور اخلاص کے تحت لکھا گیا ہے۔ نتیجتاً میری سزا میں ایک مہینے کا اضافہ کر دیا گیا۔

میرا مقدمہ عدالت کے فل بنچ کے سامنے لگا تھا۔ اپیلیٹ ڈویژن کے ایک جج نے عدالت میں کہا تھا: اس مقدمے میں لفظ ’’سچ آپ کا دفاع نہیں کر سکتا‘‘۔ میں نے اپنا مقدمہ بغیر کسی وکیل کے جیل سے خود لڑا تھا کیونکہ قید خانے میں کوئی قانونی مدد اور سہولت دستیاب نہیں تھی۔ ان جج صاحب کا نام عبدالمتین تھا، اور ریٹائر ہونے کے بعد اب وہ سول سوسائٹی کا تازہ تازہ حصہ بنے ہیں، اور جب منہ کھول کر عدلیہ کی آزادی پر خطبے دیتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ جب میرا مقدمہ چل رہا تھا تو سپریم کورٹ میں ان کا دوسرا نمبر تھا اور وہ خود چیف جسٹس بننے کے امیدوار تھے۔اس عہدے کے لالچ میں وہ حسینہ واجد کی چاپلوسی میں اُلٹے سیدھے ہو رہے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اس فسطائی حکومت کو خوش کرنے کے لیے مجھے زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے کیونکہ میں نے حکمران خاندان کی بدعنوانیوں اور بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ مگر سفاک وزیراعظم کے قریب ترین سمجھے جانے والے جسٹس خیر الحق، عبدالمتین کو پیچھے چھوڑ کر چیف جسٹس بن گئے اور بنگلہ دیشی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل انھی نے ٹھونکی۔

پستی کی طرف بڑھتے بنگلہ دیش کو خبردارکرنے کے لیے میں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو باخبر رکھنے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے تب کی امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں پر بھی کڑی تنقید کی اور ایک مضمون بعنوان ’’گڈگورننس اب امریکی مقاصد کا حصہ نہیں‘‘ ( ۱۷ مئی ۲۰۱۰ء) امر دیش میں شائع کیا۔ ریاستی مشینری اور سیکولرازم کے لبادے میں چھپے اسلام مخالف میڈیا نے، جس کی سربراہی ۹۰ کے عشرے سے پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار  اخبار کے گروپ کر رہے ہیں، مجھے ’اسلامی انتہا پسند‘ قرار دے ڈالا۔ یہ بہتان دنیائے مغرب میں شدید اسلام دشمنی کے لیے کافی خطرناک ہو سکتا تھا۔ اگرچہ اسلام دشمنی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے حال ہی میں ۱۵ مارچ ’اسلاموفوبیا‘ پراپیگنڈا مہم کے خلاف عالمی دن قرار دیا ہے، جو یقیناً خوش آیند ہے۔ تاہم، ۲۰۱۰ء میں عالمی سیاسی حالات کافی مختلف تھے۔ بظاہر ۲۰۱۰ء میں امریکیوں کو اخبار امردیش کے خلاف ہونے والی فسطائی کارروائیوں پر خوشی ہوتی تھی، جو بنگال کا دوسرا مقبول ترین اخبار تھا اور اس کے برعکس امریکا کا حمایت یافتہ پروتھم ایلو بعد میں آتا تھا۔ میری اور اسلام پسند سمجھے جانے والے ’دشمن‘ عناصر کی تکالیف پر ڈھاکہ میں موجود امریکی سفارت خانہ بھی مطمئن تھا۔

دُنیا کے حاکم اس چیز کو اہمیت نہیں دیتے کہ بندے کی وضع قطع کیا ہے، چاہے وہ کیسی ہی ماڈرن صورت رکھتا ہو، وہ اس کے خیالات اور عمل کی بنیاد پر طے کرلیتے ہیں کہ یہ اسلام پسند ہے اور اسے سیکولر طبقے میں شمار نہیں کرنا۔

عوامی لیگی حکومت کی پشت پناہی میں حریص اور مفادات کے اسیر ججوں اور وکلا کی ایک بڑی جماعت نے جارج آرویل [م: ۱۹۵۰ء]کے ناولوں Animal Farm وغیرہ سے مماثل ایک ظالمانہ ریاست بنانے کی سازش کی تھی، جس میں ’کن ٹٹا باپ (شیخ مجیب کا بھوت)‘ اور ’کن ٹٹی شہزادی (شیخ حسینہ جو خودکو ’سر‘ کہلوانے پر مصر رہتی ہیں)‘ اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوں گے۔ عدلیہ کی جانب سے اس سازش میں شریکِ جرم درج ذیل تھے:

۱- سابق چیف جسٹس خیر الحق،۲- سابق چیف جسٹس ایس کے سنہا، ۳- سابق چیف جسٹس مزمل حسین،۴- سابق چیف جسٹس تفضل اسلام، ۵- سابق چیف جسٹس فضل الکریم، ۶-سابق چیف جسٹس سید محمود حسین، ۷- سابق چیف جسٹس حسن فائز صدیقی، ۸-موجودہ چیف جسٹس عبید الحسن، ۹- سابق اپیل ڈویژن جسٹس شمس الدین چودھری، ۱۰- سابق اپیل ڈویژن جسٹس نظام الحق نسیم (جن کے کردار کا پردہ روزنامہ امر دیش اور دی اکانومسٹ نے ’اسکائپ اسکینڈل‘ میں چاک کیا تھاـ)،۱۱- موجودہ اپیل ڈویژن جسٹس عنایت الرحمٰن،۱۲- موجودہ وزیرقانون انیس الحق،۱۳- سابقہ وزیر قانون  شفیق احمد،۱۴- مرحوم اٹارنی جنرل محبوب عالم، ۱۵-غلام عارف ٹیپو ایڈووکیٹ، ۱۶-سیّدریاض الرحمٰن ایڈووکیٹ،۱۷-رانا داس گپتا ایڈووکیٹ، ۱۸- زیاد المعلوم ایڈووکیٹ (مجرم اسکائپ سکینڈل)

ان کے علاوہ جن بے ضمیر ججوں نے اپنے عہدوں کے لالچ اور مراعات کی ہوس کے لیے فسطائی حکومت کے جائز و ناجائز اقدامات کی حمایت کی، ان میں دو شخصیات خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں، ایک اپیل ڈویژن کے جسٹس عبدالمتین اور دوسری سابقہ جسٹس نجم الآراء سلطانہ۔ ان میں سے جسٹس عبدالمتین کا ذکر پہلے ہو چکا جو آج کل پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار کی چھترچھایا کے نیچے نام نہاد سول سوسائٹی کے ارکان کے درمیان ایک بزرگ دانشور اور سیاست دان کے طور پر خود کو پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جسٹس نجم الآراء سلطانہ کے بارے میں یہ بتا دیا جائے کہ انھوں نے جسٹس عبدالوہاب میاں اور جسٹس امام علی کے ساتھ مل کر اس آئینی ترمیم کی بڑی سختی سے مخالفت کی تھی، جس کے تحت نگران حکومتوں کا نظام ختم کر کے بنگلہ دیش میں ایک جماعت کی فسطائی حکومت کا راستہ ہموار کیا گیا۔ جب یہ کیس سپریم کورٹ میں پہنچا تھا تو مذکورہ تین جج اس کے مخالف تھے، جب کہ تین ہی ججوں نے حمایت کی تھی۔ آخر چیف جسٹس خیر الحق نے اس کی حمایت میں فیصلہ دے کر بنگلہ دیش کے آئین میں مہیا کردہ آزادانہ انتخابات کی سب سے بڑی ضمانت ختم کر دی تھی۔ 

 عدلیہ میں موجود عوامی لیگی حواریوں کے جرائم کی ایک فہرست یاددہانی کے لیے پیش ہے:

            ۱-         نگران حکومتی نظام کا خاتمہ کر کے عوامی لیگی شیطانی حکومت کے لیے زمین ہموار کرنا۔

            ۲-         انسانیت کے خلاف ہر طرح کے جرائم مثلاً جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، حراست میں تشدد وغیرہ میں شیخ حسینہ اورپولیس، فوج، راب(RAB) میں موجود اس کے ڈیتھ اسکواڈ کی مدد۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں، آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ضمانتوں سے انکار، بنگالی عوام کے بنیادی حقوق پر کھلی ڈاکا زنی۔

            ۳-         فاشسٹ حکمران شیخ حسینہ کی خواہشات کے مطابق اس کے سیاسی مخالفین بشمولہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے خلاف وزارت قانون کی جانب سے تیار کردہ فیصلے بغیر کسی شرم، ہچکچاہٹ کے من و عن سنا دینا اور جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان کی مسلسل گرفتاری کہ جس میں انھیں نہ ضمانت کا جائز حق میسر ہے، نہ اپنی بزرگی اور بگڑتی صحت کے باوجود علاج کی مناسب سہولت۔

            ۴-         نئی دہلی حکومت کے ایما پر اسلام پسند رہنماؤں کے قتل کے لیے کینگرو عدالتوں کا قیام اور ملکی عدلیہ اور اداروں کی مستقل تباہی۔ اس قتل و غارت گری کے لیے ۱۹۷۱ء کی جنگ کو جواز بنایا جاتا ہے۔ روزنامہ امر دیش اور لندن اکانومسٹ نے ۲۰۱۲ء میں ایک زبردست تحقیقی رپورٹ کے ذریعے اس منصوبے کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ یہ رپورٹ آزادی کے بعد کی بنگلہ دیشی صحافت میں اہم مقام رکھتی ہے۔ تاہم، بین الاقوامی برادری اور مغرب کے آزادی ٔ صحافت کے علَم برداروں نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ہندستان کو خوش کرنے کے لیے آنکھیں بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔

            ۵-         آزادیٔ اظہار پر پابندیوں میں حکومت کے ساتھ اتحاد۔

            ۶-         ملک میں قانون کی حکمرانی مکمل طور پر ختم کرنے میں حکومت کے ساتھ اشتراک۔

پچھلے پندرہ برسوں کے دوران ہونے والے عدلیہ کے یہ جرائم مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ یہ سب انڈیا کی پشت پناہی میں ایک بدعنوان اور ظالم خاتون کی ایما پر کیا گیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ عدلیہ میں عوامی لیگ کے مقرر کردہ یہ جلاد ایک دن انصاف کا سامنا کریں گے۔