جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

’ابراہیمی معاہدہ‘ ،خطرناک امریکی کھیل

مولانا زاہد الراشدی | جون ۲۰۲۵ | تقابل ادیان

Responsive image Responsive image

ایک صدی قبل جب ’اسرائیل‘ کے نام سے یہودی سلطنت کے قیام کے لیے ’اعلان بالفور‘ ہوا تو فلسطین پر برطانیہ کے قبضے، دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا کر آباد کرنے، اسرائیل کے نام سے نئی ریاست قائم کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھایا گیا۔ امریکا اور یورپ کی طرف سے اس منصوبے کو ہر طرح کا تحفظ اور قوت فراہم کر کے مسلمانوں، عربوں اور فلسطین کے خلاف ایک جارح ملک تعمیر کرنے کا آغاز کیا گیا۔ پھر تاریخ کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اسے عربوں اور مسلمانوں سے تسلیم کرانے کے لیے عالمی استعمار کی طرف سے ’ابراہیمی‘ نسبت کی بحث چھیڑ دی گئی، تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ عقیدت و محبت کے سائے میں یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحیوں کو اکٹھا بٹھا کر، اب تک مسلسل روا رکھی جانے والی تمام زیادتیوں کو پس پشت ڈال کر ناجائز اسرائیلی ریاست کو ’قابلِ قبول‘ قرار دیا جاسکے۔ علمی حلقوں میں یہ بحث ایک عرصے سے بار بار اُٹھائی جارہی تھی، مگر اسے عملی منصوبہ اور مہم کی شکل امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِ صدارت میں دی، جس کا پہلا عملی اظہار ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ء کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، بحرین کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عبد اللطیف راشد، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زید کے درمیان باقاعدہ معاہدے اور اعلان سے ہوا۔ اس معاہدہ کی کچھ تفصیلات وائس آف امریکا اردو کی ۱۷ ستمبر ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہیں: 

’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی صبح کی بنیاد رکھ رہے ہیں، یہ بات انھوں نے عالمی استعمار کی طرف سے وائٹ ہاؤس میں اس وقت کہی، جب متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کے وزیراعظم کے ساتھ مل کر The Abraham Accord نامی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کا مقصد دو عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا: اسرائیل کی پوری تاریخ میں اس سے پہلے صرف دو ایسے معاہدے ہوئے ہیں اور اب ہم نے ایک ہی مہینے میں ایسی دوکامیابیاں حاصل کر لی ہیں اور ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ:یہ معاہدہ یہودیت، اسلام اور مسیحیت میں یکساں طور پر معزز سمجھی جانے والی مذہبی شخصیت کے نام پر رکھا گیا ہے جنھیں تینوں عقائد کے ماننے والوں میں اتحاد کی نمائندگی کرنے والا مانا جاتا ہے‘‘۔ یہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں پر اَمن معاہدے کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ایک وسیع تر سفارتی کوشش کا حصہ ہے‘‘۔ 

حالیہ دنوں ایک اہم واقعہ انھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورئہ مشرقِ وسطیٰ کا ہے۔ اس کے نتیجے میں صورتِ حال جس طرح تبدیل ہو رہی ہے، وہ کچھ یوں ہے: 

ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کر کے سعودی حکومت کے ساتھ تجارت و معیشت کے حوالے سے معاملات طے کیے۔ اس موقعے پر ان کی طرف سے دو باتیں سوشل میڈیا میں گردش کرتی رہیں، جو بہرحال توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ہوا تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے اور دوسرا یہ کہ انھیں امید ہے کہ سعودی عرب ’ابراہیمی معاہدہ‘ میں شامل ہو جائے گا۔ 

’ابراہیمی معاہدہ‘ کی بات بظاہر عرب اسرائیل سفارتی تعلقات کے حوالے سے کی جاتی ہے، لیکن اس کے درپردہ پہلو پر کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔ ایک عرصے سے استعماری قوتوں کی طرف سے عالمی سطح پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ مذاہب کو آپس میں ہم آہنگی بلکہ اتحادِ مذاہب کے عنوان سے ’باہمی افہام و تفہیم‘ یا ’کچھ لو، کچھ دو‘ کی کوئی صورت نکالنی چاہیے۔ جس کی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہے، چونکہ مذہب کو معاشرتی کردار اور سیاسی و تہذیبی ماحول سے الگ کر کے صرف عقائد اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود رکھنے کا فلسفہ عالمی قوتوں نے آپس میں طے کر رکھا ہے اور اس کو قبول کرانے میں انھیں رکاوٹ صرف مسلم معاشرے میں پیش آرہی ہے کہ حکمران طبقوں سے قطع نظر دینی و عوامی ماحول میں مسلم امت اور عوام، دین اسلام کے معاشرتی و تہذیبی کردار سے دست بردار ہونے کے لیے کسی صورت میں آمادہ یا تیار نہیں ہیں۔ اس لیے مختلف ’مذاہب کے درمیان مکالمہ، ہم آہنگی اور یک جہتی‘ کے نام پر گوناگوں سرگرمیاں منظم اور منعقد کی جاتی رہتی ہیں، تاکہ مسلم دنیا کو بھی مذہب کے بارے میں آج کے عالمی استعماری فلسفے کے دائرے میں محصور کیا جا سکے۔ 

اس کا ایک دائرہ ’ابراہیمی مذاہب‘ کو یکجا کرنے اور ایک میز پر بٹھانے کی یہ کوشش بھی ہے کہ چونکہ مسیحی، یہودی، مسلمان اور بعض دانش وروں کے نزدیک ہندو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے ان سب کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے بین الاقوامی ماحول میں محنت کا ایک میدان گرم ہے اور’ابراہیمی معاہدہ‘ بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ابوظہبی میں ’خاندان ابراہیم ہاؤس‘ تعمیر بھی کیا جا چکا ہے۔ اس پر علمی حلقوں کو متوجہ ہونے کی ضرورت کے پیش نظر کچھ گزارشات پیش کررہے ہیں۔ تاہم، پہلے دو پرانی یادیں قارئین کی نذر:  

نصف صدی قبل کی بات ہے۔ ۱۹۷۰ء میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس میں لیبیا کے حکمران جناب معمرقذافی [م:۲۰۱۱ء]نے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بات کہی کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی چونکہ بیش تر آسمانی مذاہب کا مرکز و محور ہے اور بقول قذافی: انھوں نے ہی اپنے ماننے والوں کو ’مسلم‘ ہونے کا خطاب دیا تھا جس کے لیے موصوف نے سورئہ حج کی آیت نمبر۷۸ کے سیاق سباق کے علی الرغم اس حصہ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ  سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان کہلانے کے لیے یہ ابراہیمی نسبت ہی کافی ہے اور انھیں اپنا مرکز و محور ماننے والوں کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کے عنوان سے الگ تشخص قائم کرنا ضروری نہیں ہے‘‘۔ 

ہمیں یاد ہے کہ اس وقت مصر کے نائب صدر جناب حسین الشافعی بھی کانفرنس میں شریک تھے اور انھوں نے معمرقذافی کی اس بات کو موقعے پر ہی ٹوک دیا تھا کہ ’’آپ کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور ’مسلمان‘ کے لیے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور انھیں آخری نبی کے طور پر اپنا پیشوا تسلیم کرنا بھی لازمی ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں ہے اور نہ کسی کو مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے‘‘۔ 

اسی تناظر میں ایک ذاتی مشاہدہ پیش خدمت ہے۔ امریکا کے ایک سفر میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی رفاقت تھی اور ہم دونوں شکاگو میں چنیوٹ کے ایک تاجر دوست ریاض وڑائچ مرحوم کے مہمان تھے۔ شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی [م:۱۸۹۲ء]کے پیروکار ’بہائیوں‘ کا بہت بڑا مرکز ہے، جسے دیکھنے اور وہاں کی شب و روز کی سرگرمیاں معلوم کرنے کا مجھے تجسس ہوا۔ مولانا چنیوٹیؒ سے ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ’چھوڑو وہاں کون ہمیں اندر جانے دے گا؟‘ میں نے اصرار کیا تو آمادہ ہوگئے اور ہم اپنے میزبان ریاض صاحب کے ہمراہ وہاں جا پہنچے۔ منتظمین نے ہمیں احترام کے ساتھ اپنے مرکز کا دورہ کرایا۔  

بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود سب مذاہب برحق ہیں اور بہائیت سب کی جامع ہے۔ اس کے اظہار کے لیے انھوں نے شکاگو کے اس مرکز کے بڑے مرکزی ہال میں، ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کی عبادت گاہوں کا الگ الگ ماحول بنا رکھا ہے۔ ایک کونے میں مسجد ہے، دوسرے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے، جب کہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہرعبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مسجد اس کونے میں ہے جدھر مکہ مکرمہ ہے، اس میں صفیں بچھی ہوئی ہیں، محراب ہے اور منبر بھی۔ مسجد کے ایک کونے کی الماری میں قرآن کریم کے چند نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے اور بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ایک چھت کے نیچے مسجد، مندر اور چرچ کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں، لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟ مسکرا کر بولے کہ ’چھوڑیں یہ فلسفے کی باتیں ہیں‘۔ میں نے کہا کہ ’نہیں جناب،یہ فلسفہ کی نہیں بلکہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے‘۔ یاد رہے کہ بہاء اللہ شیرازی بہائی مرکز ’عکہ‘ اسرائیل میں مدفون ہے۔ 

ہمارے خیال میں یہی تصور ’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کے پیچھے بھی کارفرما ہے، جو اہلِ علم اور دینی قیادتوں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔ ابھی ابوظہبی میں ’بيت العائلۃ الابراہيمیۃ‘ ، ’خاندانِ ابراہیم کا گھر‘ بن چکا ہے اور اب اس کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ ’اس مرکز میں مسجد کی امامت تم سنبھالو، مگر سعودیہ ابھی تک اس طرف نہیں آرہا اور سعودیہ کی علماء کونسل نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ کفر ہے۔  

قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تذکرہ تفصیلی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام بنی اسرائیل کے بھی باپ ہیں، بنی اسماعیل کے بھی باپ ہیں اور اللہ پاک نے ان کو پوری نسلِ انسانی کی امامت کا اعزاز بھی بخشا تھا: وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ (البقرۃ ۲:۱۲۴) ’’ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو بہت سی آزمائشوں میں ڈالا، جس دن وہ پورے اترے، ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ کو نسلِ انسانی کی امامت عطا فرمائیں گے‘‘۔ 

یہ نسلِ انسانی کی امامت کیا ہے؟ بیت اللہ کو تو ابراہیم علیہ السلام نے مرورِ زمانہ سے دب جانے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ تعمیر کے دوران ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دُعا کی تھی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا (البقرہ۲: ۱۲۹) ’’یااللہ! ہماری اولاد میں ایک رسول پیدا کر‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:انا دعوۃ ابی ابراہیم و بشریٰ عیسٰی، ’’میں اپنے دادا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں‘‘۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام، جن کا لقب اسرائیل ہے، وہ ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ ان سے بنی اسرائیل آگے چلی۔ موسیٰ علیہ السلام، داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں آئے۔ اس طرح دنیا کے دونوں بڑے مذہبی خاندانوں کے دادا ابراہیم علیہ السلام تھے۔ ایک پہلو تو یہ ہے۔ 

اللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ السلام کو جو عظمت عطا فرمائی ہے قربانیوں پر پورا اترنے کے نتیجے میں، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ مکرمہ میں مقامِ نبوت پر سرفراز فرمایا گیا تو نبی کریمؐ کو اپنے پہلے دائرۂ دعوت جزیرۃ العرب میں جن مذاہب کے پیروکاروں کا سامنا تھا، وہ سارے خود کو ’ابراہیمی‘ کہتے تھے ۔ سب سے پہلا سامنا مکہ کے مشرکین سے ہوا، وہ کہتے تھے کہ ہم ابراہیمی ہیں۔ نجران میں عیسائی تھے، وہ کہتے تھے کہ ’ہم ابراہیمی ہیں‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے مدینہ منورہ میں اور پھر خیبر میں جن یہودیوں سے سامنا ہوا تو وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ’ہم ابراہیمی ہیں‘۔ ان کے علاوہ کچھ صابئین بھی کہتے تھے کہ ’ہم ابراہیمی ہیں‘۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ۲۳سالہ نبوی زندگی میں جن قوموں کا سامنا ہوا وہ خود کو ابراہیمی ہی کہتے تھے۔ 

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں دو ٹوک الفاظ میں تینوں کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: مَا كَانَ اِبْرٰہِيْمُ يَہُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا۝۰ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۶۷ (اٰل عمرٰن۳: ۶۷) ’’ابراہیم علیہ السلام یہودی بھی نہیں تھے، عیسائی بھی نہیں تھے، مشرک بھی نہیں تھے، بلکہ وہ موحد مسلمان تھے‘‘۔ قرآن مجید نے اس کی ایک واقعاتی ترتیب بھی بیان کی ہے کہ تمہارے مذہب تو بعد میں آئے ہیں۔ یہودی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تورات میں تحریف سے۔ عیسائی مذہب کا آغاز کہاں سے ہوا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انجیل میں تحریف سے۔ فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام تو یہودیت کے وجود میں آنے سے دوہزار سال پہلے گزر گئے، ان کو یہودی کیسے بنا دیا تم لوگوں نے؟ اور عیسائی تو اس سے بھی دو ہزار سال بعد میں آئے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ تم نے پہلے آنے والی شخصیت کو بعد والے مذاہب کے ساتھ کیسے نتھی کر دیا؟ 

اور ساتھ ہی اصل ابراہیمیوں کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِـاِبْرٰہِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا   ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۶۸)’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل ساتھی وہ ہیں، جو ان کے دور میں ان پر ایمان لائے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ہیں‘‘۔قرآن مجید نے صاف کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کے اپنے پیروکار اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ابراہیمی ہے۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اس میں کوئی ابہام یا کوئی پیچیدگی یا اشکال نہیں ہے کہ کوئی تاویل کی جاسکے۔ 

قرآن کریم کی بعض دیگر آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بنیادی مشن اللہ تعالیٰ کی توحید کے عقیدے پر عمل پیرا ہونا اور شرک کی تمام صورتوں کی نفی کے ساتھ بت شکنی کا عملی کردار کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی طرف نسبت کے ان دعویداروں میں سے کچھ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا، بعض نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’ابن اللہ‘ کا خطاب دیا، اور بعض نے بت پرستی کو فروغ دیا، حتیٰ کہ خود ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے تعمیر کردہ حرمِ مکہ کو بتوں کی آماج گاہ بنادیا۔ اس لیے یہ تینوں گروہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مشن، عقیدہ اور دین سے ہٹ جانے کے باعث ’ابراہیمی‘ کہلانے کے مستحق نہیں ہیں اور یہ اعزاز اب صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت کے پاس ہے۔ 

جو دعوت ’ابراہیمی معاہدہ‘ کو قبول کرنے کے لیے دی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہونے والے تمام نبیوں کی طرف منسوب مذاہب سب ٹھیک ہیں، سب ابراہیمی ہیں‘‘۔ یہ آواز نچلی سطح پر تو کافی عرصے سے ہمارے کانوں سے ٹکرا رہی تھی، مگر اب ذرا عالمی سطح پر بلند ہوئی ہے کہ ’’اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کرنے والے تمام مذہب اکٹھے ہو جائیں‘‘۔ دراصل یہ بڑی پرانی آواز ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں جزیرۃ العرب میں جن مذاہب سے واسطہ تھا وہ سب اپنے آپ کو ابراہیمی کہتے تھے۔ مشرکینِ مکہ اور مشرکینِ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے، وہ بھی ابراہیمی کہلاتے تھے۔ یہودی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، عیسائی بھی ابراہیمی کہلاتے تھے، اور مسلمان تو ابراہیمی تھے ہی۔ 

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ’ابراہیمیوں‘ کی طرف سے مختلف مواقع پر جو پیش کشیں ہوئی ہیں، وہی آج بھی کی جا رہی ہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حیاتِ طیبہ میں جو پیش کشیں ہوئی ہیں، ان میں سے تین چار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں: 

ایک پیش کش یہ ہوئی کہ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۝۹   (القلم۶۸: ۹) ’’تھوڑی سی آپ اپنے عقیدے میں لچک پیدا کر لیں، تھوڑی سی لچک ہم پیدا کر لیں گے‘‘۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ جناب ابو طالب کی وفات سے کچھ دن پہلے قریش کے سرداروں نے یہ محسوس کیا کہ جناب ابوطالب کی موجودگی میں اگر کوئی آپس میں مصالحت ہو گئی تو ہو جائے گی، بعد میں نہیں ہوگی۔ یہ سوچ کر وہ اکٹھے ہوئے اور ان کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اپنے بھتیجے سے ہماری بات کروائیں۔ انھوں نے حضوؐر کو بلا لیا۔ مذاکرات میں مشرکین کی طرف سے دو فارمولے پیش کیے گئے اور تین پیش کشیں : 

پہلا فارمولا یہ تھا کہ آپ اپنی توحید کی بات کریں اور اللہ کی صفات بیان کریں لیکن ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیں، ان کی نفی نہ کریں کہ یہ کچھ نہیں کر سکتے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ دوسرا فارمولا یہ تھا کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور حرم میں کریں، ہم نہیں روکتے، لیکن ہم اپنے بت خانوں میں جو کرتے ہیں وہ ہمیں کرنے دیں۔ کبھی ہم آپ کے پاس آ جایا کریں، کبھی آپ بھی ہمارے پاس آجایا کریں۔ یہ دو فارمولے تھے ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ کے۔ 

دوسری طرف پیش کشیں تین تھیں کہ اگر ان میں سے کوئی فارمولا آپ قبول کر لیں تو تین باتوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیں: (۱) بتائیں کتنے پیسے چاہئیں، ہم اکٹھے کر دیتے ہیں۔ (۲) نشاندہی کریں کہ عرب کی کون سی خاتون سے شادی کرنی ہے، ہم کروائیں گے ۔ (۳) آپ فرمائش کریں، ہم آپ کو علاقے کا سردار بنا دیتے ہیں۔ 

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا؟ وہ مشہور جواب اسی موقع کا ہے کہ میرے دائیں ہاتھ پہ سورج اور بائیں ہاتھ پہ چاند رکھ دو، تب بھی میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ اور قرآن مجید نے بھی اس کا دو مقامات پر ذکر کیا ہے۔ ایک یہ کہ:وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۝۹ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّہِيْنٍ۝۱۰ۙ (القلم۶۸: ۹، ۱۰) اور دوسرا قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ  لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ  ،یعنی میں تمھارے بُت خانے میں عبادت کے لیے نہیں آئوں گا، تم سے ایک اللہ کی عبادت نہیں ہوگی۔ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝۶ۧ ، تم اپنے گھر، میں اپنے گھر۔ تمھارے لیے تمھارا طریقۂ زندگی (دین) اور میرے لیے میرا دین۔ 

یہ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کش ہوئی تھی۔ قرآن کریم نے مشرکینِ مکہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اور پیش کش کا ذکر بھی کیا ہے۔ فرمایا:وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ۝۰ۙ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۝۰ۭ  (یونس۱۰: ۱۵)’’آپ جو قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ٹھیک ہیں مان لیں گے، لیکن یہ قرآن نہیں، یا تو متبادل لے کر آئیں یا اس میں ردوبدل کر لیں‘‘۔ اللہ پاک نے اس کا جواب بھی قرآن مجید میں ہی دلوایا: مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗئِ  نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى  اِلَيَّ۝۰ۚ (یونس۱۰: ۱۵) ’’آپ فرما دیجیے کہ مجھے قرآن میں ردوبدل کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، میں تو وحی کا پابند ہوں‘‘۔ 

پھر ایک اور موقع آیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کے پاس گئے۔ انھی مذاکرات کے نتیجے میں انصارِ مدینہ آئے تھے اور بیعت کی تھی۔ اس زمانے میں ایک بڑا قبیلہ تھا جس کا ایک سردار تھا عامر بن طفیل، عرب کے بڑے سرداروں میں سے تھا۔ اس نے آنحضور صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ مذاکرات کی فضا میں یہ پیش کش بھجوائی کہ ٹھیک ہے ہم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، دو شرطوں میں سے ایک شرط مان لیں:
(۱) یا تو تقسیم کر لیں کہ میدانی علاقے آپ کے، شہری علاقے ہمارے۔
(۲) یا پھر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں۔ ورنہ تیار ہو جائیں میں بنوغطفان کے لاکھوں بندے اکٹھے کروں گا اور آپ سے لڑوں گا۔ اس کو تو اللہ پاک نے اسی سفر میں سنبھال لیا۔ راستے میں ایک جگہ ٹھہرا، طاعون کا پھوڑا نکلا، وہیں ہلاک ہو گیا۔ بہرحال پیش کش یہ تھی کہ یا علاقہ تقسیم کرلو یا حکمرانی دے دو تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ 

یہی پیش کش مسیلمہ کذاب نے کی تھی۔ بنو حنیفہ بہت بڑا اور جنگجو قبیلہ تھا۔ مسیلمہ کا جو پہلا لشکر مقابلے پر آیا تھا وہ ۸۰ہزار کا بتایا جاتا تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خود آیا۔ مدینہ منورہ میں حضوؐر سے ملاقات کی۔ پھر ایک دفعہ وفد اور خط بھی بھجوایا جو بخاری شریف میں موجود ہے: اشرکت معک فی الامر ولکن قریشًا‌ قوم یعتدون کہ ’’مجھے آپ کے ساتھ شراکت دار بنایا گیا ہے لیکن یہ قریشی مانتے نہیں ہیں‘‘۔ وہ مقابلے کا نبی نہیں بنا تھا، اس نے شراکت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نے وہی عامر بن طفیل والی پیش کش کی کہ
(۱)شہری نبی آپ، دیہاتی نبی میں،
(۲) یا پھر اپنے بعد مجھے خلیفہ نامزد کر دیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ حضورؐ نے مسترد فرما دیا۔ 

عرض یہ ہے کہ ایسی پیش کشیں حضورؐ کو بھی ہوئی تھیں، سیاسی بھی ہوئی تھیں، اعتقادی بھی ہوئی تھیں، احکام کی بھی ہوئی تھیں۔ ایک پیش کش کا اور ذکر کیے دیتا ہوں۔ مکہ مکرمہ فتح ہونے کے بعد جب حضوؐر واپس آ گئے تو طائف کے بنو ثقیف کا وفد حضورؐ کے پاس آیا۔ کہا کہ: ٹھیک ہے ہم کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن ہماری شرطیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں شراب حرام ہے، ہمارا علاقہ انگوروں کا ہے، شراب اس سے بنتی ہے، ہم شراب نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں سود حرام ہے، ہمارا سارا کاروبار سود پر ہے، یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کہتے ہیں پانچ وقت کی نماز فرض ہے، ٹھیک ہے، لیکن اوقات ہم خود طے کریں گے۔ آپ کہتے ہیں زنا حرام ہے، ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے، گزارا نہیں ہوتا، اس لیے یہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور آپ ہمارا بت ’لات‘ نہیں گرائیں گے۔ میں اس کا ترجمہ اس طرح کیا کرتا ہوں کہ انھوں نے کہا کہ یہ پانچ کام تو ہم نہیں کریں گے، اگر کلمے میں کچھ اور باقی رہ گیا ہو تو ہمیں پڑھا دیں۔ آنحضورؐ نے سب مسترد فرما دیں۔ 

تین دائروں کی پیش کشیں ہیں۔ سیاسی دائرے کی، جب مکے والوں نے سردار بنانے کی پیش کش کی تھی۔ بنو غطفان نے پورے صحرائی علاقوں کا حکمران ماننے کی پیش کش کی تھی۔ مسیلمہ کذاب نے شہری علاقوں کا حاکم ماننے کی پیش کش کی تھی۔ مکے والوں نے ایک دوسرے کے پاس آجا کر عبادت میں شریک ہونے کی پیش کش کی تھی اور بنو ثقیف نے احکام میں ردوبدل کرنے کی پیش کش کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کوئی پیش کش قبول نہیں فرمائی اور صاف اعلان فرما دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ کافرون میں اعلان کروایا: 

قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ  وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ  وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙ  وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭ  لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝۶ۧ  

فرمایا کوئی سودے بازی نہیں، کوئی سمجھوتہ نہیں، کوئی اتحاد نہیں۔ بالکل اسی طرح آج بھی ہمیں یہی پیش کش ہو رہی ہے، جو عالمی سطح پر سب کے سامنے ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ہے۔ ہمارا جواب بھی وہی ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ 

جیساکہ آغاز میں عرض کیا ہے کہ یہ جو ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب مذہب سچے ہیں، ایک اللہ کی بات بھی سچی ہے، تین خداؤں کی بات بھی سچی ہے، نو کروڑ خداؤں کی بات بھی سچی ہے۔ نہیں بھائی سیدھی بات کرو، دھوکا نہیں دو۔ ایک ایک ہوتا ہے، تین تین ہوتے ہیں۔ توحید توحید ہے، شرک شرک ہے۔ یہ بہت بڑے فتنے کا آغاز ہے جو پوری دنیا میں پھیلے گا، اور اس کو پھیلانے کے لیے قیادت آج ٹرمپ صاحب کر رہے ہیں، جو خود جا کر جگہ جگہ دعوت دے رہے ہیں کہ ’ابراہیمی معاہدہ‘ میں شریک ہوں۔ ہم نے کبھی یہ معاہدہ تسلیم نہیں کیا، آج بھی نہیں تسلیم کرتے اور کبھی نہیں تسلیم کریں گے۔ ابھی پاکستان کو اس کی دعوت نہیں ملی ، ان شاء اللہ اس کی وہ جرأت بھی نہیں کریں گے۔ لیکن میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ یہ دعوت کہ ’’سارے اکٹھے ہو جاؤ اور جھگڑے چھوڑ دو‘‘، یہ بات فی نفسہٖ کفر ہے، ورنہ اسلام کو الگ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ پھر ابوبکرؓ اور ابوجہل میں فرق کیا رہ جائے گا؟ اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے، قرآن مجید کے خلاف ہو رہا ہے، اور ہم کبھی اس فلسفے کو قبول نہیں کریں گے، اور نہ پاکستان کو قبول کرنے دیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔