جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

حالیہ جنگی معرکہ، بنیادی اسباق

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جون ۲۰۲۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

 ۷مئی ۲۰۲۵ء پاکستان کی تاریخ میں ایک تاریخ سازدن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے نہ صرف انڈیا کی کھلی جارحیت کو، جو مکر و فریب اور تفاخر و استکبار پر مبنی تھی، ناکام و نامراد کیا بلکہ عالمی استعمار ایک عرصے سے اس خطہ میں انڈیا کو جو حیثیت و مرتبہ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا تھا، اس تاثر کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا دیا۔ 

جنگی مبصرین کے مطابق انڈیا کی طاغوتی حکومت ۲۰۱۹ءسے اپنی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے مغرب کی بہترین ٹکنالوجی سے لیس لڑاکا جنگی جہاز اور دیگر جنگی ساز و سامان جمع کر رہی تھی۔ اس نے پہلگام ڈراما کی آڑ میں اچانک پاکستان پر متعدد جہتوں سے یکبارگی بھرپور حملہ کرکے پاکستان کی سالمیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے اور اس بہانے آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ بہترین تدبیر فرمانے والا ہے: وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ (اٰل عمرٰن۳:۵۴)’’اللہ سب سے عمدہ تدبیر فرمانے والا ہے‘‘۔ وہ ہردور میں معرکۂ حق و باطل میں اپنی آیات، اہل ایمان کے دلوں کے نور میں اضافہ کرنے کے لیے روزِ روشن کی طرح دکھاتا ہے، تاکہ اہل ایمان اس کے شکر و حمد و ثناء کے جذبے سے سرشار ہوکر زندگی کے ہردائرے میں اللہ کی اطاعت اختیار کرتے ہوئے اس کا قرب حاصل کر سکیں۔  

نصرتِ الٰہی پر اظہارِ تشکر 

​اللہ تعالیٰ کے اَن گنت احسانات میں سے غیبی نصرت ایک عظیم احسان و نعمت ہے ۔ اللہ ربّ العزت اس ذریعے سے اہل ایمان کے دلوں سے موت کے خوف کو نکال کر شہادت کی تڑپ اور تمنا پیدا فرماتا ہے اور مشکل اور کٹھن اوقات میں دلوں کو اطمینان اور ذہنوں کو سکون عطا فرماتا ہے ۔ یہ وہی کیفیت ہے جو ہمارے ہوا بازوں کو نصیب ہوئی ۔ اللہ کی یاد اور اس کی نصرت و تائید کے بھروسے پر انھوں نے اپنے فضائی مشن کا آغاز کیا۔ ابتدائی فضائی جنگ میں نہ صرف دشمن کے تعداد میں دگنا طیاروں کو ملکی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روکا بلکہ اللہ ربّ العزت کی عطا کردہ قوتِ ایمانی کے ذریعے، اور اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے ٹکنالوجی میں اپنے سے بہتر سمجھے جانے والے فرانسیسی طیاروں کو نشانہ بناکر تباہ بھی کر دیا۔ پاکستان کی فضائیہ کے ترجمان کے مطابق ۶ اور ۷ مئی کو ’فضائی لڑائی‘ ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی اور اسے حالیہ عالمی فضائی جنگوں کی تاریخ میں سب سے طویل فضائی جنگوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق دفاعی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے انڈین فضائیہ کے چھ جنگی طیارے اور۸۰ سے زائد ڈرونز مار گرائے۔پاکستان کے عسکری ذرائع کے مطابق انڈیا کی جانب سے چار راتوں کی مسلسل اشتعال انگیزی اور ڈرون حملوں کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت اور جوانوں نے سنت ِ رسولؐ کے مطابق ۱۰مئی کو قبل اَز فجر ربّ العزت کے حضور سربسجود ہوتے ہوئے اس کی مدد ونصرت کی التجا کی اور پھر حکم ربانی فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا۝۳ۙ (العٰدیٰت ۱۰۰:۳) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے مطابق نمازِ فجر کے بعد اللہ کی کبریائی کے ا ظہار کے لیے سورۂ صف کی آیت ۴ سے اخذ کردہ اصطلاح بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے نام سے جوابی کارروائی کی ۔ 

 جوابی کارروائی میں آدم پور میں پاک فضائیہ کے جے ایف۱۷ تھنڈر کے ہائپر سونک میزائلوں نے بھارت کا ایس-۴۰۰ دفاعی نظام تباہ کر دیا۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کا تربیتی مرکز، کے جی ٹاپ بریگیڈ ہیڈکوارٹر ، اڑی فیلڈ سپلائی ڈپو تباہ کیے گئے ۔آدم پور، اودھم پور، پٹھانکوٹ، سورتھ گڑھ، سرسہ، بھٹنڈا، ہلواڑہ ایئر فیلڈز اور اکھنور ایوی ایشن مراکز کو نشانہ بنایا اور بیاس میں ’براہموس میزائلوں‘ کے ذخیرے کو نشانہ بنایا۔ علاوہ ازیں زمینی جوابی کارروائی میں  لائن آف کنٹرول پر بیسیوں بھارتی چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا ۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی کے مقابلے میں بھارتی فوج کئی پوسٹوں سے فرار ہوئی اور کئی پوسٹوں پر سفید جھنڈے لہرا کے اس نے باضابطہ اپنی شکست بھی تسلیم کی ۔   

اس عظیم فضلِ الٰہی کا تقاضا ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق سنّت ِ مطہرہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر پاکستانی مسلمان ہرقسم کے تکبر و تمسخر سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے ربّ کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ سجدہ ریز ہو کر اس کا شکر ادا کرے۔ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور اپنی موروثی غلامانہ فکر پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے استغفار کرے، اللہ کے حکم اور توحیدی فکر کے مطابق ربِّ کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے۔ اس طرح ہرشعبۂ زندگی میں اللہ ربّ العزت کے دیئے ہوئے امن و سلامتی اور خوشحالی کے ضامن عادلانہ اسلامی احکام اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات میں اپنا کر اسلام کے عالم گیر نظام کو اپنے معاشرے، ریاست اور دُنیا میں غالب کرنے کی جدوجہد کرے۔ نیز اپنی تمام صلاحیتوں اور وسائل کو اللہ کی رضا اور دُنیا و آخرت میں کامیابی کے حصول کے لیے کھپانے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔ 

بھارت کے جارحانہ مذموم عزائم 

یہ بات بالکل واضح ہے کہ انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس، مذہبی ونسلی منافرت پر مبنی ’ہندوتوا‘ فکروفلسفہ کی علَم بردار ہے اور ببانگ دہل اپنی انتہا پسندی اور دہشت گردی پر فخر کرتی ہے۔ جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور انڈین کانگریس بھی اس معاملے میں اس کی ہمنوا ہے اور جو ’اکھنڈ بھارت‘کے نعرے کی بنیاد پر ہندوؤں کے جذبات میں اشتعال پیدا کرکے حکومت کرتی رہی ہے۔ بی جے پی نے آج سے چھ ماہ قبل اپنے منصوبے کی طرف اشارہ کردیا تھا کہ وہ پاکستان کے اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو اپنی حدود میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ اسی ہدف کے حصول کے لیے دوسری جانب اکثر انڈین چینل اور دیگر پاکستان دشمن صحافتی ذرائع ایک منظم حکمت عملی کے ذریعے  اقوام عالم کو یہ بات باور کرانے میں مصروف رہےہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور دہشت گرد برآمد کرنے والا ملک ہے۔ چنانچہ اسی مسلسل پروپیگنڈے کے باعث عالمی سطح پر پاکستانیوں کے ساتھ تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ دوسری جانب انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور اس کے اتحادی پاکستان کی معیشت اور سیاسی صورتِ حال کو خراب کرنے کے لیے اپنے گماشتوں اور سہولت کاروں کے ذریعے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستان سے دشمنی پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان گذشتہ ۲۵برس سے مسلسل نہ صرف دہشت گرد کارروائیوں کا ہدف بنا ہوا ہے بلکہ اندرونی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ اس طرح ’ہندو توا‘ کی علَم بردار آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے پاکستان کی ملکی سلامتی اور معیشت پر مسلسل وار کرتی آرہی ہے۔ 

۱۱ مارچ ۲۰۲۵ء کو کوئٹہ سے پشاور روانہ ہونے والی ’جعفر ایکسپریس‘ ٹرین کو بولان کے علاقے میں ’را‘ کے پروردہ بلوچ دہشت گردوں نے اسلحے اور گولہ بارود کے زور پر اغوا کرنے کے بعد ۴۰۰سے زائد مسافروں کو جو اپنے گھر والوں سے ملنے جا رہے تھے یرغمال بنا لیا۔ ان علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی پر بھی انڈین عسکری ادارے اور حکومت اپنے مالی وسائل کے ساتھ عرصے سے ملوث تھے۔ طویل عرصے سے علیحد گی پسند دہشت گردوں کے ہاتھوں عام پاکستانیوں کا سفاکیت سے قتل کیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں پس پردہ ملوث انڈیا کا چہرہ دنیا کو دکھانا حکومت ، سرکاری اداروں اور سیاسی رہنماؤں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن معاشی و سیاسی مفادات کے زیر اثر حکمران جماعتیں، سیاسی راہ نما اور سرکاری ادارے اپنا یہ فرض پورا کرنے سے مسلسل غفلت برتتے چلے آئے ہیں۔ 

عسکری برتری اور سائبر جنگی مہارت 

۱۰مئی کی فتح مبین کے اہم واقعے میں اللہ کی تائید و نصرت کی واضح نشانیاں موجود ہیں، لیکن ایک سیکولر ،قوم پرست ذہن اس کو اپنی عسکری برتری اور سائبر جنگ کی مہارت سے ہی تعبیر کرسکتا ہے اور فخریہ انداز میں اپنی فتح کی خوشی منا کر اپنے منہ اپنی تعریف کر کے مطمئن ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک معروضی ذہن رکھنے والا مسلمان اسے کسی اور زاویے سے دیکھتا ہے۔ انڈیا کی جارحیت میں اولین نمایاں پہلو باطل اور طاغوت کا فخر و غرور اور استکبار ہے، جس کا اظہار انڈیا کی نسل پرست اور دہشت گرد آر ایس ایس اور زعفرانی بی جے پی کے نمائندہ وزیراعظم کے بیانات اور بین الاقوامی مذاکرات میں اس کے رویہ سے ہوتا رہتا ہے ۔’ہندو توا‘کے علَم بردار نے ہمیشہ پاکستان کو حقارت اور نفرت کے جذبات کے ساتھ مخاطب کیا ہے۔ 

انڈیا کے ابلاغ عامہ نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اپنی حالیہ جارحیت پر اپنےعوام الناس کے سامنے جو نقشہ کھینچا، وہ کم و بیش یہ تھا کہ انڈین فوج نے پاکستانیوں کو سبق سکھا دیا ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کو تباہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان گڑگڑا کر انڈیا سے صلح اور امن کی درخواست کر رہا ہے۔مگر حقیقت حال بالکل برعکس تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی معجزانہ امداد سے پاکستان کی مجاہد افواج اور ہوا بازوں نے اپنے رب پر بھروسا کرتے ہوئے۔ اس اعلان کے ساتھ کہ جس مشن پر وہ جا رہے ہیں اس سے سلامتی سے واپسی کی کوئی امید نہیں ہے۔ ایمان، یقین، جوش، ولولہ کے ساتھ اللہ کے بھروسے پر بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے تکبر و غرور میں مست ’ہندو توا‘ قیادت کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے: وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۶ (اٰل عمرٰن۳:۲۶) ’’(اللہ) جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے ہی اختیار میں ہے۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ 

 انسان کی تمام تیاریاں، منصوبے مادی قوت ،فنی برتری، ان سب سے زیادہ قوی، العزیز، الحکیم کی قوت ہے۔ انسان جب اس پر ایمان لے آئیں اور استقامت اختیار کریں تو غیبی امداد کے دروازے ان پر کھل جاتے ہیں۔ اور پھر اللہ بزرگ و برتر کی غیبی مدد سے اس کے عاجز بندے تکبر اور غرورکے عادی افراد کو جھکنے اور مٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 

حساس جنگی معلومات سے آگاہی، انڈیا کے فضائی دفاعی نظام کا معطل کیا جانا، انڈیا کے میزائل اور جہازوں کا تباہ کیا جانا، یہ سب محض انسانی قوتِ بازو سے نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیں لازماً چین کی بروقت رہنمائی و امداد اور ترکیہ کی حمایت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن تمام تر فنی اور تکنیکی کمال کے باوجود جنگ میں فتح و شکست کا معیار فنی و تکنیکی صلاحیتوں اور آلات کو استعمال کرنے والے انسان کے طرزِفکروعمل کو تشکیل دینے والا مقصد ِ زندگی ہوتا ہے ۔جب اللہ کا بندہ اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا شعور رکھتے ہوئے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جذبۂ جہاد کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے موجود خطرات میں کود کر ربّ العزت کی نصرت و امداد پر بھروسے کا ثبوت پیش کرتا ہے، تو اللہ ربّ العزت کی طرف سے فتح کے ایسے نتائج سامنے آتے ہیں کہ جن کا مشاہدہ آج دُنیا کے سامنے ہے ۔ 

عالمی تشخص کا اُجاگر ہونا 

اللہ تعالیٰ کے اس احسان پرکہ کل تک جو پاکستان، عرب دنیا ہو یا مغربی اور مشرقی ممالک، سب کی نگاہ میں ایک کمزور اور معاشی طور پر پس ماندہ اور عسکری طور پر انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک سمجھا جا رہا تھا ، اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اس معرکۂ حق میں اس کی وقعت ، اہمیت، علاقائی قیادت میں باوقار مقام پر فائز ہوا ہے اور پاکستان کی مدافعانہ قوت کی برتری کا سکہ بیٹھ گیا ہے۔انڈیا کے تکبر و غرور کا نشہ خاک میں مل گیا ۔ایسے واقعات بار بار نہیں ہوتے، لیکن یہ جب ہوتے ہیں تو ان کے زیر اثر قوم کی ماہیت قلبی میں ایمانی رنگ نمایاں ہو جاتا ہے۔اسی ایمانی رنگ کو ہرپاکستانی کے دل و دماغ میں اُجاگر کرنے اور غالب کرنے کے لیے جدوجہد اور اقدامات وقت کا تقاضا ہے۔ 

حقائق کی دنیا پر نظر ڈالی جائے تو امریکی ذہنی غلامی میں جکڑی نوکر شاہی اور سفارت کاروں نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی۔کشمیر کا مسئلہ عدم توجہی کا شکار رہا اور چین کے ساتھ جو معاشی بنیاد پر تعاون کی فضا بنی تھی، اس میں واضح کمزوری پیدا ہوئی۔ اگر خدانخواستہ چین بروقت معلومات اور وہ فنی تعاون جس میں انڈیا کے برقی مواصلاتی نظام کا مفلوج کیا جانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے، فراہم نہ کرتا تو تنہا ہماری فضائی صلاحیت وہ نتائج پیدا نہ کر پاتی، جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے فتح کی صورت میں ظاہر ہوئے ۔ چین کے زاویہ سے دیکھا جائے تو انڈیا کی برتری کا واضح مطلب چین کے مقابلے میں ایک دوسرے ہمالیہ کا بلند ہونا تھا ۔ چین کی بروقت معاونت نہ صرف اس خطے میں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کے ساتھ ساتھ چین کی عسکری اور آئی ٹی کے میدان میں مغرب پر برتری کا سکہ جمانے کا سبب بھی بنی اور دنیا کو یہ بھی نظر آگیا کہ فرانسیسی طیاروں کے فنِ کمال کے دعوےاور انڈین ایس ۴۰۰ کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے سب خاک میں مل گئے ۔نیز خطے میں انڈین چودھراہٹ و بالادستی، اور چین و پاکستان کے خلاف بر تر قوت بننے کا خواب عملاً چکنا چورہوگیا۔ 

ادھر وہ مسلم ممالک جو انڈیا سے تعلقات استوار کرتے رہے ہیں، ان کے سامنے بھی یہ حقیقت کھل کر آگئی کہ ملک میں غیر جمہوری اقدامات اور  سیاسی انتشار کے باوجود جب غیرملکی جارحیت کے خلاف پاکستانی قوم متحد ہوتی ہے تو مادی طور پر اپنے سے ۱۰ گنا بڑی طاقت سے بھی ٹکر لینے سے نہیں گھبراتی۔ یہ اعتماد قوم کے لیے ایک بڑا سرمایہ ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کی بحالی کا ذریعہ بھی۔ پاکستان کی عسکری فتح و برتری انڈیا میں مسلمان اقلیت کے لیے ہی نہیں بلکہ جہاں بھی مسلمان مسائل کا شکار ہیں ، ان سب کے لیے ایک تقویت کا باعث ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم احسانات کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ 

۱۰مئی کے واقعے نے پاکستانی قوم کو اس کے اصل تشخص پر دوبارہ فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی عسکری قیادت نےواضح اور علانیہ طور پر اپنا رشتہ دعاؤں ، مناجات ، اللہ کی کبریائی اور قرآنی اصطلاح بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ سے جوڑ کر یہ حقیقت واضح کر دی کہ پاکستان محض پہاڑوں، کھیتوں اور سبز ہ زاروں کا نام نہیں بلکہ اس کا مقصد ِوجود اسلام اور دوقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے ۔ افواج پاکستان نے اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اللہ سے دعا و مناجات کے ساتھ اپنی عسکری کارروائیوں سے وہ حیران کن اور معجزاتی کام کیا، جس کے بارے میں انڈیا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،اور جس کی بنا پر سخت متعصب اور پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے امریکی صدر نے بھی اپنے بیان میں پاکستان اور انڈیا کو ایک چھوٹے اور بڑے ملک کے طور پر نہیں بلکہ دو یکساں ایٹمی طاقت والے ممالک کے طور پر مخاطب کیا ۔ واضح رہے کہ امریکا ماضی میں پاکستان کو دہشت گردوں کا پشتی بان اور انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک شمار کرتا رہا ہے۔ 

 پہلگام میں دہشت گردی کا ڈراما 

۲۲؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے تفریحی مقام پر ایک دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والے ۲۶ شہریوں میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے۔ انڈیا نے کسی ثبوت یاتحقیق کے بغیر متعصبانہ انداز میں حملے کی ذمہ داری چند منٹوں میں پاکستان پر عائد کردی ۔ پاکستان نے اس افسوسناک واقعے کی آزادانہ اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی ۔لیکن انڈین ذرائع ابلاغ نے جھوٹ پر مبنی ایک منظم ، جارحانہ اور متعصبانہ پروپیگنڈے اور نفرت انگیز مہم کے ذریعے جنگی جنون کا ماحول پیدا کر دیا اور ساتھ ہی مسلّمہ صحافتی اخلاقیات کا بھی قتل عام کیا۔ انڈین میڈیا نے حقائق اور ثبوت کی جگہ ابلاغی محاذ پر فتنہ و فساد پر مبنی جھوٹے بیانیے کے ذریعے ابلاغی جنگ سے بی جے پی حکومت کے لیے ساز گار جنگی ماحول بنایا ۔  

اسی جنگی ماحول میں ۶ اور ۷  مئی کی درمیانی رات بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں پنجاب اور کشمیر میں نومقامات پر مساجد کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ۴۰؍ افراد شہید ہوئے ، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی، جب کہ انڈیا کا دعویٰ تھا کہ ’’یہاں دہشت گرد تربیت دیے جاتے ہیں‘‘۔ یہ ایک واضح باضابطہ اعلانِ جنگ تھا ۔ انڈیا نے یہ غور نہیں کیا کہ پہلگام، مقبوضہ کشمیر میں اتنے اندر جا کر ایک ایسے مقام پر واقع ہے کہ جہاں سوائے پیدل افراد کے اور کوئی داخل نہیں ہوسکتا اور جہاں چپےچپے پر انڈین فوج کے افراد متعین ہیں۔ اس المناک واقعے کے فوراً بعدیہ الزام عائد کرنا کہ یہ پاکستان کے ایجنٹوں کی کارروائی ہے ، نیز ایک ہوائی دعوے کی بنیاد پر بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت کا پاکستان میں میزائل حملے کرنا کہاں تک ایک معقول بات ہے؟ 

اللہ کے فضل و کرم سے انڈیا ناکام رہا۔ بےشک اللہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ اس تناظر میں باشعور شہریوں اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

جنگی حکمت عملی 

 قرآن کریم کا ارشاد ہے: وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ  وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۝۰ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۝۰ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۝۰ۭ (الانفال۸:۶۰) ’’اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے ہوئے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔  

اس ارشاد میں جنگی تیاری کا اصل مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ دشمن پر رعب قائم رکھا جائے، جارحیت بجائے خود مقصود نہیں ہے۔ افواج پاکستان خصوصاً فضائی قوت کی حکمت عملی اور بقیہ دونوں افواج کے ساتھ مضبوط رابطے کے نتیجے میں نہ صرف فضائی برتری کے حصول میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی بلکہ انڈین ہوائی جہاز بردار بحری بیڑا’وکرانت‘بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ بین الاقوامی مبصرین نے جو اعداد و شمار اور تجزیے پیش کیے ہیں اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو سراہتے ہوئے انڈین جارحانہ رویے کی مذمت اور پاکستان کی جانب سے تحمل اور اعلیٰ کارکردگی کے مظاہرے کی تعریف کی ہے۔ پاکستان کی اس پوزیشن نے عالمی مبصرین کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ انڈیا نہ صرف جارح تھا بلکہ اس کی فضائی قوت نے کھلی شکست کھائی ہے۔  

پاکستان کا علاقائی اور عالمی کردار 

اس غیبی امداد نے پاکستان کے علاقائی اور عالمی تناظر میں کلیدی کردار کو یکایک اجاگر کردیا ۔اس تبدیلی کا واقع ہونا اور اس امتحان کے موقعے پر نہ صرف چین اور ترکیہ بلکہ ازبکستان، آذربائیجان اور بنگلہ دیش کاکھل کر پاکستان کی حمایت کا اعلان کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا انعام ہے اور ہمیں اس موقعے کو بنگلہ دیش، ترکیہ، ازبکستان اور آذر بائیجان کا ایک امن پسند بلاک بنانے کے لیے سبیل سوچنی چاہیے۔ انڈیا کو صرف اسرائیل نے اپنی حمایت کا یقین دلایا، جو عالمی طور پر انڈین چہرے کو مزید داغدار کرتا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں غیرانسانی رویہ اور مظالم جاری رکھنے کے بعد کوئی باشعور شخص اپنے آپ کو اسرائیل سے وابستہ کرنا پسند نہیں کرتا ۔ پاکستان کی جانب سے برقی ڈیجٹیل جنگ اور ترقی یافتہ سائبر سکیورٹی کے آلات کے استعمال نے ثابت کر دیا کہ الحمدللہ! پاکستان اس میدان میں انڈیا سے آگے ہے اور انڈیا اپنی طاقت کے گھمنڈ کی بنیاد پر علاقائی چودھراہٹ کھو بیٹھا ہے ۔ برقی ذرائع معلومات اور ڈیجیٹل آلات کی مدد سے کم سے کم وقت میں حصولِ معلومات، معلومات کی درجہ بندی اور اہداف کے تعین نے فضائی کارکردگی کو مؤثر بنانے میں غیرمعمولی مدد کی ۔ لیکن اصل امداد اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ہوا بازوں کے دلوں میں اللہ پر بھروسے اور سکینت کی تھی جو صرف اہل ایمان ہی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ 

تحریک اسلامی کا مطلوبہ کردار 

واقعات کے اس تناظر میں تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے غور کرنے کے لیے بہت سے اہم پہلو ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ یہاں کیا جانا ضروری ہے : 

۱- تقویت ایمان کی مہم: اس بات کی ضرورت ہے کہ عسکری اور تکنیکی کامیابی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کے ذریعے جو قوت ہم کو دی گئی ہے، اسے اجاگر کرتے ہوئے غور کیا جائے کہ اس کامیابی نے ہمارے ایمان میں کتنا اضافہ کیا اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے اور اللہ سے تعلق بڑھانے کے لیے پورے ملک میں کن کن اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ 

۲- احسان مندی :اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس فتح نے کیا بہ حیثیت قوم اور انتظامیہ کہیں ہماری خود اعتمادی میں اضافہ کے ساتھ غرور و تکبر تو نہیں پیدا کیا؟ہماری نگاہ میں انڈیا کی ناکامی کا بڑا سبب اس کا غرور و تکبر تھا ۔اللہ تعالیٰ کو غرور اور تکبر سخت ناپسند ہے۔ وہ صرف اپنے ان بندوں کو کامیابی دیتا ہے جو اللہ کو اپنا رب ماننے کے ساتھ راہِ استقامت پر عاجزی، توبہ اور استغفار کے ساتھ گامزن رہتے ہیں ۔قوم کے نوجوانوں کو اس جانب توجہ کرنے اور انھیں عملا ًایسی سرگرمیوں میں لگانے کی ضرورت ہےجو قربِ الٰہی اور احساس جواب دہی کو بڑھانے میں مددگار ہوں۔موجودہ حالات میں قوم کی اخلاقی تربیت و اصلاح، تحریک اسلامی کے کارکنوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ 

۳-سائبر میدان میں فنی مہارت :اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے قوت ایمان کے ساتھ ہردور میں موجود جدید ترین وسائل کو بھی اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ حاصل کرنے، اور ان میں ترقی کی راہیں تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔آج کی جنگیں محض گولے، ٹینک ،کلاشنکوف کی نہیں ہیں بلکہ سائبر ایجادات کے فنی استعمال کی ہیں۔ اگر فنی طور پر انڈیا کے برقی معلوماتی نظام کو معطل نہ کیا جاتا، تو ہمارے ہوا باز کس طرح ان کی حدود میں جا کر ان کے اثاثے تباہ کرپاتے؟ تحریکی نوجوانوں کو ان میدانوں میں جو مستقبل کی فتوحات کے لیے ضروری ہیں،ا قامت دین کے تصور کے ساتھ آگے بڑھ کر تعلیم اور تطبیقی تجربات کی ضرورت ہے۔ 

۴-پانی پر جنگیں : جدید تحقیقات نے اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ آج تک قدرتی ذرائع خصوصاً تیل ، دھاتوں، معدنیات پر قبضہ کرنے کے لیے مادہ پرست یورپی اقوام نے گذشتہ ڈھائی سو سال سے جو جنگیں کی ہیں، اب ان میں ایک بڑا محاذ آبی وسائل کا ہے ۔  

چین ہو یا انڈیا یا افغانستان، سب نے اپنے علاقے میں چھوٹے بڑے بند بنا کر پانی کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن صرف ہم ایک ایسی دشمنِ عقل قوم ہیں جو آج تک اپنی محدود اپروچ کی پرستش کرنے کی بنا پر صوبہ جاتی ذہن کے ساتھ یہ طے نہیں کر سکی کہ قومی ضرورت اول ہے یا کسی کی ذاتی جاگیر ؟پانی کی قلت پہلے سے موجود ہے اور حالیہ جنگ میں اس بات کو کھول کر بیان کر دیا گیا کہ انڈیا پہلے پانی کے محاذ پر پاکستان کو ایک ایک قطرہ پانی سے محروم کرنے کا باضابطہ اعلان کر چکا ہے اور یہ دوسرا محاذ عسکری بنیاد پر ان علاقوں پر قبضہ کرنا تھا کہ جن کو وہ عرصہ سے اپنی جغرافیائی وحدت سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو پورے پاکستان میں پانی کی ترسیل کا ذریعہ ہیں۔تحریک اسلامی اس موضوع پر علمی بنیادوں پر ماہرین کو جمع کر کے مسئلے کے حیاتیاتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، زرعی اور قانونی پہلوؤں پر معیاری تحقیق قوم کے سامنے پیش کرے اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر قومی پالیسی پر اثر انداز ہوں۔ انصاف اور عقل کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر علاقائی یا صوبائی عصبیت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دلیل کی بنیاد پر معقول رویہ اپنایا جائے۔ 

۵- مسئلہ کشمیر پر مؤثر سفارت کاری : انڈیا کے حالیہ عسکری دخل اندازی کا ایک بنیادی محرک آزاد کشمیر پر قبضہ کرنا تھا۔ اللہ تعالی کی خاص عنایت سے دشمن اس میں ناکام رہا، لیکن دشمن آج بھی تاک میں ہے کہ اسے کوئی اور موقع ملے اور وہ کسی طرح اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کر سکے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نادر موقع فراہم کیا ہے کہ انڈیا کےپیشہ وارانہ جھوٹ کا پول ایسے کھلا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں انڈیا کے بیانیہ کا اعتماد ٹوٹ چکا ہے۔ اس موقع پر ہمارا فرض ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے مظالم اور حقوق انسانی کی پامالی پر دنیا کے تمام اداروں کو اس کے ظلم سے آگاہ کر کے آزادیٔ کشمیر کے مطالبہ کو قوت دیں۔ اقوام متحدہ کی نصف صدی سے زائد عرصہ سے سردخانے میں پڑی قراردادوں پر عمل کرانے کے لیے اپنے تمام سفارتی، اخلاقی اور مادی وسائل کا استعمال کریں۔ 

۶- نظریۂ پاکستان کے موضوع پر آگاہی : قومی بیداری کے اس موقعے پر تحریک کو خصوصاً نظریہ پاکستان کے حوالے سے نئی نسل کے سامنے جس نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا اور جس کو سرکاری اور غیر سرکاری تعلیم میں صرف پاکستان کے قیام کے حوالے سے منتخب قراردادیں اور واقعات سنائے گئے ہیں، اس نسل کو نظریۂ پاکستان کی روح، اقبال ، قائداعظم، محمداسد ،علامہ شبیر احمد عثمانی، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر رہنماؤں کے بیانات اور تصورات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

حالیہ جنگ کا محرک ’ہندو توا‘اور تشدد پسند جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کا یہ نعرہ ہے کہ ’پاکستان کا وجود میں آنا ہی غلط تھا‘۔ نیز ہندو اکثریت والے خطے میں مسلمانوں کو صرف اقلیت کے طور پر رہنے کا حق ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ دشمن کی زبان اور فلسفہ کو ہمارے ملک کے دانش وروں نے غیر شعوری طور پر اتنا اختیار کر لیا ہے کہ ان کے تصورِ قومیت اور ’ہندوتوا‘ کے تصور قومیت میں کوئی بہت بڑا فرق باقی نہیں رہا۔ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ا بلاغ عامہ کا شعبہ، یکساں طور پر اس سنگین علمی بددیانتی میں برابر کا شریک کار ہے۔ 

تحریک اسلامی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس موقعے پر تاریخی حقائق اور علمی اور تحقیقی دلائل کے ساتھ اسلامی ثقافت ،معاشرت، معیشت اور سیاست و ابلاغ عامہ کے ذریعے پاکستان کے مقصدِ قیام، تصورِ قومیت اور آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو عام فہم زبان میں نوجوانوں تک پہنچائے۔ اس موضوع پر ملک گیر تقریری مقابلے یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں منعقد کیے جائیں۔ ان سرگرمیوں میں غیر جذباتی، علمی لیکن عام فہم انداز میں براہِ راست قائدین تحریک پاکستان کے بیانات اور تحریرات کو پھیلایا جائے ۔اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اشد ضروری ہے۔ حفیظ جالندھری نے جس طر ح شاہنامہ اسلام  لکھا ،ایسے ہی ’شاہنامۂ پاکستان‘ لکھنے کی ضرورت ہے۔ 

۷-  تدریسی مواد: نظریۂ پاکستان پر غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی مواد کی غیر معمولی کمی ہے۔ تحریک سے وابستہ وہ افراد جو ملک کی یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور تحریک پاکستان سے واقفیت رکھتے ہیں، ان میں باصلاحیت افراد کا انتخاب کر کے، وقت کا ہدف مقرر کر کے ایسی درسی اور غیر درسی کتب تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو اُردو، سندھی، انگریزی میں تحریک پاکستان کی اصل روح یعنی اسلام کو بطور نظامِ حیات کے تناظر میں، قربانیوں کی تاریخ کو، حوالوں کے ساتھ پیش کریں۔ جو قومیں اپنی تاریخ کو بھلادیتی ہیں، تاریخ ان ا قوام کو بھی بھلا دیتی ہے ۔مستقبل کی تعمیر کے لیے بنیادماضی ہی فراہم کرتا ہے۔ اس کام میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔موجودہ صورتِ حال میں اسے ترجیحی بنیاد پر کرنے کی ضرورت ہے۔