پاکستانی معاشرے کی ۷۶ سالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو حالیہ عشرہ بلکہ اس کے آخری پانچ سال معاشرتی ،معاشی اور سیاسی استحکام کی غیر معمولی خراب صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ مؤرخہ ۶ جون ۲۰۲۳ء کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں ملک پر مجموعی قرض کا حجم ۴۳ہزار ۷۰۵؍ ارب روپے تھا جو اپریل ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۵۸ہزار۵سو ۹۹ ؍ ارب روپے ہوگیا، یعنی ۴۱ ؍ارب روپے یومیہ قرض لیا گیا۔ ملک پر واجب الادا بیرونی قرض ۷ہزار۲ سو۵۹؍ ارب روپے یعنی ۴۹ فی صد سے بڑھ کر ۲۲ ہزار۵۰؍ ارب روپے ہوگیا اور اسی طرح ایک سال کی مدت میں اندرونی قرض ۷ہزار ۶سو۳۵؍ ارب روپے یعنی ۳۴ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ ہزار۵سو۴۹ ؍ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔
قرض لے کر اِترانے کے یہ سرکاری اعداد و شمار ہی معاشی زندگی کا گلا گھونٹنے کے لیے کافی ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اورمعاشی عدم استحکام کی بناپر بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں کسی کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کا خطرہ مول لینے پر تیار نظر نہیں آتے۔ مقامی کاروباری برادری کی جانب حکومت کی عدم توجہی، کاروبار میں معاونت کی بجائے حیلوں بہانوں سے رشوت طلب کرنا اور غیر ضروری رکاوٹوں کی وجہ سے کاروبار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ مزیدبرآں سستی بجلی ، پانی ، اور گیس کی عدم فراہمی اور کاروبار میں پیش آمدہ مختلف مسائل کے حل سے لاتعلقی ایک ایسی مجرمانہ روش ہے جس کے نتیجے میں مقامی کاروباری برادری اپنے پاؤں پر کبھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔
ان معاشی مسائل کے ساتھ نصف عشرے کے دوران ملک پر اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور ان کےپشت پناہ اداروں نے معاشی مسئلے سے مجرمانہ لاپروائی برتی ہے اور ملکی مفاد سے عدم دلچسپی اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دینے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔
ان حالات میں ملکِ عزیز میں معاشرتی خرابیوں اور عدم تحفظ کا جو منظر نامہ سامنے آرہا ہے، وہ ہرمحب وطن کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں شہروں اور دیہاتوں میں جان و مال کو جو خطرات لاحق ہیں، ان کا اندازہ ڈان ۴جنوری ۲۳ء کو شائع ہونے والے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت میں ایک دن میں ۳۶ جرائم رپورٹ کیے گئے ۔ایک سال کے دوران صرف اسلام آباد میں۱۳ ہزار ۴۰۹ وارداتیں پولیس تھانوں میں درج ہوئی ہیں، جب کہ ملک میں (وارداتوں کی اطلاع کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی کے باوجود) ۲۱۸۰ ڈکیتیوں، ۱۳۹۲جھپٹ کر چھیننے کے واقعات، ۷۱۹گاڑیوں کی چوری، ۲۰۹۵موٹر سائیکلوں کی چوری، ۹۵۴ قتل یا قتل عمد اور اغوا اور جنسی زیادتی کے واقعات جو پولیس کے علم میں لائے گئے ہیں۔خیبر پختون خوا میں ۲۰۲۳ء کے صرف پہلے دو ماہ میں ۷۴ قتل ، ۱۲۶ قتل عمد، ۷۴ڈکیتیوں، ۵۱چوری کے واقعات ، ۵۹ موٹر سائیکل کی چوری کے واقعات پیش آئے۔
سندھ میں جنوری ۲۰۲۳ء کی ایک اطلاع کے مطابق صرف چار ماہ میں ۵۲۹ خواتین اغوا کی گئیں۔۱۱۹ گھریلو دہشت گردی کے واقعات ، ۱۴۲ بچوں کے ساتھ زیادتی ، ۵۶ جنسی زیادتی کے واقعات اور ۳۷ واقعات عزت کے نام پر قتل کے پیش آئے۔
معاشی، اخلاقی اور سیاسی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ خاندان کا نظام بھی انتشار کا شکار ہے۔ جولائی ۲۰۲۳ء کے ٹربیون کی اطلاع کے مطابق صرف پاکستان کے ایک بڑی آبادی والے شہر لاہور میں ۲۰۱۹ء سے تا حال طلاق کے مقدمات کی تعداد ۲۴ ہزار ایک سو ۵۷ ہے۔ ۹ہزار ۸ سو ۱۱ خلع کی درخواستیں جمع کرائی گئیں ۔ یہ معاملہ شہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ تحصیل کی سطح پر ۱۱ہزار ۸سو ۷۹طلاقیں دی گئیں، جن سے ۶۰ ہزار بچوں کا مستقبل شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
طلاق میں کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک کی مدت میں کل ۷۵ ہزار طلاقیں واقع ہوئیں،جب کہ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۱ء کے عرصہ میں ۲۴ہزار ایک سو ۳۹ طلاقیں دی گئیں ۔ ایسے میں ۲۰۱۲ءمیں خلع کے واقعات ۱۳ہزار ۲ سو ۹۹ تھے، جب کہ ۲۰۱۳ءمیں ۱۴ہزار ۲ سو ۴۳ اور ۲۰۱۴ء میں ۱۶ہزار ۹سو ۴۲، اور ۲۰۱۶ء میں یہ تعداد ۱۸ہزار ۹۱ تک پہنچ گئی۔ یاد رہے یہ وہ واقعات ہیں جو قانون کی نگاہ میں آگئے ۔پاکستان میں بے شمار مقامات پر ایسے واقعات کو کسی کے علم میں لانا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ان کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔
ان خاندانی معاملات میں مرد کی طرف سے اکڑ، دھونس، چودھراہٹ اور خواتین کی طرف سے معاشی آزادی کے لیے ملازمت اختیار کرنے کے بعد اپنی خود مختاری تسلیم کرانے کی خواہش کے علاوہ دیگر بہت سے عوامل شامل ہیں، جو محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر پائے جاتے ہیں ان میں ایک اہم محرک ابلاغِ عامہ بھی ہے۔
معاشرتی علوم کے ماہرین مغرب کے مقرر کیے ہوئے پیمانوں کی روشنی میں مشترکہ خاندانی نظام میں ساس کے کردار کو خرابی کی جڑ قرار دیتے ہیں، جب کہ پسند کی شادی اور نام نہاد محبت کی بنیاد پر نکاح بھی عام طور پر زیادہ پائدار ثابت نہیں ہوتے۔
ہمارے معاشرے میں شرم و حیا جیسی بنیادی اسلامی قدر کا علم و فہم اور عملی زندگی میں اس پر عمل پیرا ہونے کا رویہ بڑی تیزی سے کمزور ہو رہا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں ، سکول ، کالج ، یونی ورسٹی کی سطح پر شرم وحیا، کردار کی پاکیزگی ، عصمت و عفت کے بنیادی اسلامی تصورات کی تعلیم و تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ۔ اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں منعقدہ مختلف مخلوط پروگرامات اور سر گرمیوں میں ناچ گانے ، موسیقی اور دیگر بے ہودہ انداز و اطوار اور چلن عام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دیگر سماجی رسومات مثلاً شادی بیاہ کے مواقع پر بھی فلموں ، ڈراموں میں دکھائے جانے والے نیم عریاں لباس کا شرفا گھرانوں تک کے مرد وخواتین میں بے دھڑک استعمال بھی فیشن بن گیا ہے ۔عمر کے مختلف حصوں میں شرم و حیا کے اسلامی تصورات سے عاری کارٹون کرداروں، فلموں ، ڈراموں کے زیر اثر نشو و نما پانے والی نئی نسل کے یہ بچے اور بچیاں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے اداروں کے مخلوط ماحول میں پہنچتے ہیں تو ان کے گم کردہ راہ کا مکمل امکان اور سامان موجود ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد تعلیمی اداروں سے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں ، جن کو سن کر اور جان کر ہرذی شعور فرد کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ظاہر ہے جب تعلیمی اداروں اور والدین نے انھیں شرم وحیا ، پاکیزگی، سچائی ، امانت و دیانت، عزّت و آبرو، عصمت و عفت کے طرزِ عمل کی تعلیم و تربیت ہی نہیں دی، تو نئی نسل سے اعلیٰ اخلاقی رویے ، باحیا طرزِ عمل، ضبط نفس اور تقویٰ کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ مغرب کے تعلیمی فلسفے، تصورات اور پیمانوں میں فرد کی اخلاقی تربیت ،تعمیر کردار و سیرت کے پہلو نہ ہونے کے برابر ہیں اور اخلاق و کردار کی اہمیت سے عاری یہی پیمانے ہمارے تجزیہ نگاروں کے دل و دماغ پر بھی سوار ہیں اور وہ معاشی مسائل کا حل یہی تجویز کرتے ہیں کہ جب تک خواتین معاشی میدان میں نہ اُتریں گی ترقی نہیں ہو سکتی۔
گذشتہ تین عشروں میں ابلاغ عامہ کو جس طرح بے لگام کیا گیا اور ہندستانی اور مغربی ثقافت، رسوم و رواج اور اقدار، ڈراما ، فلم کوسرکاری سرپرستی میں عریانی، فحاشی، نوجوان لڑکیوں کی مخلوط محفلیں اور ٹی وی کے ہر پروگرام میں ان کی مشروط شرکت، گویا جب تک ان کا کندھے سے کندھا نہ چھلے، ملک کی معاشی ترقی نہیں ہوسکتی ۔اس برائی اور معصیت کے فروغ نے گھریلو تنازعات میں شدت پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور ہر شعبۂ حیات میں منظم انداز میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑاکیا۔
بیرونی امداد پر چلنے والے اداروں نے پوری وفاداری کے ساتھ ’حقِ نمک‘ ادا کیا اور پاکستان میں’عورت مارچ‘کے نام پر اور جامعات میں نوجوانوں کو مخلوط محفلوں کا عادی بنا دیا گیا۔ حقوقِ نسواں کے نام پر خواتین میں شدت پسندی ، انانیت اور انفرادیت کو پروان چڑھا یا گیا ، جس کا نتیجہ اَنا کے ٹکراؤ اور اپنی مرضی پر اصرار کا جذبہ فروغ پایا ۔ جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا کہ والدین کی لاپروائی نےاور اپنی اولاد کو محض تعلیم گاہ کے حوالے کر دینے اور خاص طور پر ایسے تعلیمی اداروں کے حوالے کرنے سےجو اباحیت اور لبرلزم کے لیے مشہور ہیں اور جہاں لباس، زبان ، لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان باہم آزادانہ دوستی اور دونوں جنسوں کے درمیان کوئی رکاوٹ اور فاصلہ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم کے لیے بھیج کر والدین نے درمیانی اور بالائی طبقات میں مغرب کی اباحیت پسندی کی ہمت افزائی کی ۔والدین اور تعلیمی اداروں کی جانب سے بچوں کی تربیت سے لاپروائی اور غفلت کے افسوس ناک طرزِ عمل کے گھناؤنے نتائج اغوا، قتل ، جنسی زیادتی اور مختلف قبیح جرائم ہرچھوٹے بڑے شہر، آبادی میں آئے روز سب کے سامنے آ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں حال ہی میں ملک کی ایک معروف یونی ورسٹی میں جنسی استحصال کے جو مبینہ واقعات منظر عام پر آئے ہیں، وہ ہر باشعور پاکستانی کے لیے شرم و ندامت کے ساتھ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا تعلیم کا مقصد گرے ہوئے اخلاق کی حامل نسل پیدا کرنا ہے، جو تعلیمی سند کے حصول کے لیے اپنی عزّت کی پروا بھی نہ کرے ! بلاشبہہ کسی بھی معاشرے میں معاشی استحصال اور سیاسی عدم استحکام معاشرے کے افراد کے اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن اخلاقی زوال کا سبب محض معیشت اور سیاست کو قرار دینا غلط ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ معاشی استحصال کیوں رُونما ہوتا ہے؟ کیا اس کا سبب صرف معاشی مسائل ہوتے ہیں یا ان کا بڑا سبب معاش پیدا کرنے والے کا اخلاق ہے؟
پیشہ ورانہ اخلاقیات پر عمل نہ کیا جائے تو معاشی بدمعاملگی ، دھاندلی اور ذخیرہ اندوازی وجود میں آتے ہیں۔ دین اسلام بڑی وضاحت کے ساتھ خرابی کے راستوں اور کامیابی کی شاہراہ دونوں کے لیے عملی ہدایات دیتا ہے۔ ملاوٹ، مطلوبہ معیار کا خیال نہ رکھنا، اپنے کیے ہوئے وعدوں کو توڑنا، ہوس اور خود غرضی میں مبتلا رہنے کو کامیابی سمجھنا، معاشرتی ذمہ داری کا احساس تک نہ ہونا، کردار میں استقامت کا نہ پایا جانا، سچ اور عدل کی جگہ دھوکا، جھوٹ ،بے ایمانی، ملاوٹ کا کلچر پروان چڑھانا___ یہ ذاتی خرابیاں، رذائل اخلاق اورمنفی خصوصیات ہیں جو معاشی بگاڑ، استحصال اور کساد بازاری کی طرف لے جاتی ہیں۔ اگر انسان بدعہد، بد معاملہ ،بداخلاق، بدکردار، ناقابل اعتبار اور محض نفس اور ہوس کا بندہ ہو، تو کیا اس سے کسی مستحکم عادلانہ معاشی نظام کو قائم کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس سے تو چوری ، دھاندلی اور بے ایمانی ہی کو فروغ ملے گا۔
گذشتہ دنوں رانی پور (صوبہ سندھ) میں جنسی درندگی کے ہولناک واقعہ اور جڑانوالہ (صوبہ پنجاب) میں آتش زنی کا المیہ، ہمارے معاشرے کی بدنما تصویر پیش کرتا ہے، جسے درست کرنے کے لیے حکومت اور علما و اساتذہ اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
گویا معاشی زوال ہو یا سیاسی عدم استحکام اصل اور بنیادی سبب وہ فرد ہے، جو اس نظام کو چلانے، فروغ دینے، اس کا دفاع کرنے میں اپنی صلاحیت ،ذہن ،علم و فکر اور جان کو کھپاتا ہے۔ ہمارے دین نے ہماری معیشت کو ایمان کا حصہ بنا کر ایک انقلابی راہ دکھائی، اور قرآن کریم میں جہاں بھی اہل ایمان کا ذکر کیا، وہاں یہ نہیں کہا کہ وہ علمِ کلام، فصاحت و بلاغت اور ادبیت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہوں بلکہ یہ بات کہی کہ اہل ایمان دو باتوں کا اہتمام اور قیام کرتے ہیں، یعنی صلوٰۃ اور زکوٰۃ۔ زکوٰۃکو عبادت اور دین میں شامل کرنے کا مطلب یہ تھا کہ معیشت استحصال سے پاک ہو۔ کمائی کے ذرائع حلال ہوں ،ذخیرہ اندوزی اور دیگر حرام طریقوں سے اجتناب برتا جائے۔
سود کو حرام، ممنوع اور اللہ کے غضب کو جوش میں لانے والی برائی قرار دیا گیا ۔ قرض کو بغیر سود قرار دے کر تجارت اور زراعت اور صنعت کو اخلاق کے تابع کر کے دین و دنیا کی تفریق کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسے معاشرے اور نظم مملکت کی بنیاد رکھی گئی ، جہاں عدل، حقوق کا تحفظ، مال کی حرمت، جان کی قدر، عصمت و عفت کا تحفظ، خاندان اور نسل کی حُرمت، غرض معاشرتی، معاشی اور سیاسی تینوں محاذوں پر اخلاق، سیرت و کردار کو خوفِ الٰہی، جواب دہی کا احساس، ربِّ کریم کے شاکر بندے کی حیثیت سے اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ۔معاشرہ ہو یا معیشت یا نظم مملکت، استحکام، ترقی اور کامیابی کی علامت اور انحصار سڑکیں، پُل، فیکٹریاں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہیں صرف اور صرف مخلص، ایمان دار ، باصلاحیت ، محنت کش، صالح فرد ہوتے ہیں، جن کا کردار شفاف اور سیرت عیوب سے پاک ہو۔
اخلاص اور تقویٰ کا تعلق نماز اور ذکر الٰہی کے وسیع تر مفہوم سے ہے ،جس کو قرآن کریم نے یومِ جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: جب نمازِجمعہ کی اذان سنو تو تمام کاروبارِ معیشت و سیاست کو چھوڑ کر مسجد کی طرف اللہ کا ذکر کرنے کے لیے تیزی اختیار کرو اور جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو واپس آؤ اور کاروبارِ حیات کی طرف رجوع کرو، مگر اللہ کاذکر کثرت سے کرتے ہوئے (الجمعہ ۶۲:۹)۔ گویا مسجد کی طرح اپنے کاروباری ادارے میںبھی اللہ کے سامنے حاضری کے احساس کے ساتھ ناپ تو ل اور کیفیت و کمیت (quality) کے اعلیٰ معیار کو اختیار کیا جائے۔ اسی کا نام اللہ کا ذکر اور تقویٰ ہے ۔
تقویٰ کا ایک مظہر قیام ،رکوع ،سجود اور حق گوئی ہے، تو اس کا دوسرا مظہر کسی بھی کام کا انتہائی نقطۂ کمال کے ساتھ اللہ کی رضا کا طلب کرنا ہے ۔ایک سنار جب سونے کو آلودگی سے پاک کر کے کھٹالی میں پکا کر نکالتا ہے تو وہ اس کے اپنےاخلاص اور تقویٰ کا مظہر ہوتا ہے۔ معیشت اور معاشرت میں تقویٰ کا مطلب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خوش اخلاقی، صداقت، فیاضی ،عفو و درگزر، حلم و بُردباری، صبر و استقامت اور حکمت و دانش کے ساتھ والدین ہوں یا اولاد، بیوہ ہو یا یتیم بچّے یا اقربا یا احباب، ہر ایک کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہے،جو قرآن و سنت میں تعلیم کیا گیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی اس وقت ممکن ہے، جب دین ودنیا کی تفریق کی جگہ اسلام پوری زندگی پر حاوی ہو ۔معاشرتی اصلاح اور معاشی خود انحصاری کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہے، جب کشکولِ گدائی کو توڑا جائے اور خاندان اور اسلامی اخلاقی معاشرتی نظام کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے، بہت آسان اور قابلِ عمل ہے۔
افراد سازی، تعمیر سیرت و شخصیت کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمیں گھر ،تعلیم گاہ، مسجد، یونی ورسٹی، ابلاغ عامہ ، ہر محاذ پر قرآن و سنت کے عالم گیر اخلاقی اصولوں کی روشنی میں نئی نسل کی تربیت کرنی ہوگی۔ یہ کام نعر و ں ،مطالبوں کی سیاست اور دھرنوں سے نہیں بلکہ خاموشی سے نظر نہ آنے والی محنت و مشقت کے ساتھ افراد کی زندگیوں کو تبدیل کرنے سے ہوگا۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل عمل ہے۔ جس طرح کھجور کا درخت آٹھ سے دس سال میں پھل دیتا ہے، اسی طرح تعمیر سیرت ۱۰ سے ۲۰سال تک مسلسل اخلاقی آبیاری کرنے کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
اس کام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تعریف و تحسین کی جگہ تنقید اور تضحیک مقدر ہوتی ہے۔ اللہ کے کسی بھی برگزیدہ نبی کی دعوتِ اصلاح و انقلاب کا استقبال نہیں کیا گیا، بلکہ مخالفت و مزاحمت، رکاوٹ اور اس استہزا کے ساتھ مخاطب کیا گیا کہ اللہ کو تمھارے علاوہ کوئی اور نہ ملا کہ وہ اپنا رسول بناتا؟
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت ان سادہ لوح مولویوں کے بس کی بات نہیں۔ اس تاثر کو صرف وہ افراد دُور کر سکتے ہیں جو علمی اور پیشہ وارانہ معاملات میں مہارت رکھتے ہوں اور ان کے مخالف ان کی صلاحیت کے معترف ہونے پر مجبور ہوں۔
یہ صاحبِ حیثیت افراد کا دین نہیں تھا بلکہ اس میں جہاں حضرت عثمان ؓجیسے صاحبِ مال و ثروت تھے، وہیں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت بلال ؓجیسے مالی دولت سے محروم شمع رسالتؐ کے پروانے بھی تھے۔ لیکن امانت و تقویٰ میں دوسروں سےبرتر افراد تھے ۔معاشرے کے کم مال دار افراد انفاق فی سبیل اللہ ، ایثار و قربانی میں دوسروں سے کچھ آگے ہی تھے ۔ وہ جو کل تک غلام تھے، انھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو زمین بوس کر دیا ۔ صدقات اور زکوٰۃ کی تقسیم (آٹھ مدوں میں)کے ذریعے معاشی استحکام اسلام کا بنیادی ہدف تھا۔ فقر و فاقہ شرک کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ انفاق و صدقات انسان کو متقی بناتے ہیں اور مال کی محبت سے پاک فرد اپنے رب کی محبت و اطاعت میں سکون حاصل کرتا ہے۔
علم کی تدوینِ جدید کی بنیاد حقیقی اور قطعی علمِ وحی پرہوگی ۔یہ تعمیر محض تجرباتی علم یا قیاسی، ظنی یا وجدانی اور روحانی تجرباتی احساس پر نہیں ہو سکتی۔ مروجہ علوم کی بنیاد تجرباتی تصورِ علم پر ہے، یعنی وہ علم جسے تجربہ گاہ میں جانچا جا سکتا ہے ۔وحی الٰہی کا منبع کسی کا ذاتی تجربہ نہیں بلکہ وہ ربّ العالمین ہے، جو ہر خیر اور شر کا علم بھی رکھتا ہے اور ہر خیر و شر پر قدرت بھی۔علم کی تدوینِ جدید وحی کی روشنی میں اس کے عالم گیر ہونے کے سبب واحد اعلیٰ ترین ذریعۂ علم ہے۔وحی کے علاوہ تمام علم محدود، وقتی اور داخلی ہے۔ وحی معروضی، عالم گیر اور تطبیقی علم کا واحد قطعی ذریعہ ہے۔ اس بنا پر تمام معاشرتی اور تجربی علوم کی اخلاقی اصولوں پر مبنی تدوینِ جدید اسی وقت پُرمعنی ہو سکتی ہے، جب اس کی بنیاد روشن ثبوتوں پر استوارہو۔
معاشرتی علوم اور تجرباتی علوم کی تشکیلِ جدید قرآن و سنت کے عالم گیر اصولوں کی بنیاد پر کرنی ہوگی اور یہ کام اُن پُرعزم معلمین و معلمات اور طلبہ و طالبات کو کرنا ہوگا جو شعور حیات رکھتے ہوں ،جو رضاکارانہ طور پر اللہ کے انصار بننے پر تیار ہوں۔ ایسے انصار ہی سے یہ وعدہ کیا گیا ہےکہ جب وہ اللہ کو اپنا رب مان کر اس کے راستے یعنی اس صراط مستقیم پر چلیں گے اور ان کے قدم جادۂ حق اور صراطِ مستقیم کی طرف اٹھیں گے، تو اگر وہ ۲۰ ہوں تو ۲۰۰ پر اور اگر سوہوں تو ہزار پر غالب آئیں گے۔ باطل کی چمک دمک ان کے عزم و ارادے کے سامنے تحلیل ہو جائے گی۔فرشتے ان کے ساتھ صف بہ صف شریک ہو کر ان کی استعانت اور مدد کریں گے۔
مستقبل انھی کا ہے جو تمام غلامیوں کو پامال کر کے صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں آجائیں، دین میں پورے کے پورے داخل ہوں، خلوص، قربانی ،عزمِ صمیم کی تصویر ہوں، تو مستقبل خود ان کی طرف پیش قدمی کرے گا اور وہ ایک تابناک صبح کے پیغامبر بن کر انسانیت کو عدل، حُریت، احترامِ انسانیت، پاک دامنی ، حیا اور معاشرتی عدل کی برکات سے بہرہ وَر کردینے والے خوش نصیب ہوں گے ۔یہ وہ کام ہے جو سب سے زیادہ ترجیح کا مستحق ہے اور جسے شعوری طور پر وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو ذہنی ،جذباتی اور عملی طور پر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر چکے ہیں۔
اگست کا مہینہ ہر سال پاکستان اور بیرونِ پاکستان پاکستانیوں میں تصورِ پاکستان سے وابستگی کے احساس کو تازہ اور قیام پاکستان پر اللہ تعالیٰ کے شکر اور احسان مندی کے جذبات میں اضافہ کرتا ہے۔ ہرشخص گلی کوچوں میں، شہروں میں، گاؤں میں ، موٹر سائیکل ، سائیکل ، ریڑھی ، ویگن ، پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ، ہرپاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اسکولوں میں بچے پاکستان کے پرچم کے رنگ کے لباس زیب تن کرکے ملی ترانے اور تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور تقریباً پورا مہینہ جشنِ آزادی کا منظر پیش کرتا ہے جس سے وطن عزیز کے ساتھ نوجوانوں کی محبت کا اظہار ثابت ہوتا ہے، لیکن قوم کیا اس محبت کے محرکات ، تقاضوں اور مطالبات کا شعور بھی رکھتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مناسب جواب تلاش کیے بغیر ہم ملک و قوم کے مستقبل کی تعمیروتشکیل کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔
تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو دنیا کے نقشے میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جس نے صدیوں کی جنگ ِآزادی کو محض ایک عشرے سے بھی کم یعنی سات سال کی قلیل مدت میں اپنی منزل اور اپنے فوری ہدف کے حصول کو ممکن بنایا ہو ۔ الجزائر ہو یا یورپ میں برپا ہونے والی آزادی کی تحریکات،مثلاً: شمالی آئرش ریپبلک کی آزادی کی تحریک، یہ سب دو صدیوں پرمحیط نظر آتی ہیں۔ برعظیم میں مسلمانوں میں انگریز کی محکومیت سے آزادی کی تحریک مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ آخر۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں قراردادِ پاکستان مسلم لیگ کے کنونشن میں منظور کی گئی۔ اس میں باضابطہ طور پر برعظیم کے مغربی اور مشرقی صوبوں پر علاحدہ قومیت کی بنیاد پر دو ایسے خطوں کی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی تھی ۔ اس تاریخی موڑ پر یہ سوال کرنافطری ہے کہ کیا حصولِ پاکستان محض ایک قومی ریاست کے وجود کا مطالبہ تھا یا دو سو سال کی غلامی کے بعد مسلمان بطور ایک امت اس خطّے میں اسلامی تصور حیات ،اسلامی معیشت، ،اسلامی ابلاغ عامہ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ثقافت کے احیا کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے ؟
تاریخ گواہ ہے کہ برعظیم کے مسلمان ایک طویل عرصے انگریز کے عدم مساوات کے رویے کا شکار رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عداوت اور ہندوؤں کے ساتھ ہمدردی، ملازمتوں میں واضح جانب دارانہ رویہ اور تعلیم اور تجارت میں کھلے کھلے تعصبات اور تفریق کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اپنے اسلامی تشخص اور اپنی ثقافت و تہذیب کے تحفظ و بقا کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کریں ۔
ہندو اکثریت انگریز کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کر کے اپنی عددی فوقیت کی بنیاد پر مسلمانوں پر حاکمیت کے منصوبے پر مصروفِ عمل تھی لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہوکر دکھاوے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگا کراور مغرب سے متاثر مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے بے تاب اور سرگرم تھی۔
ان حالات میں۱۹۰۰-۱۹۰۱ء کے دوران نواب محسن الملک نے بزم دفاع اردو کے تناظر میں ہندو کانگریس سے الگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت کے قیام پرقوم کو متوجہ کیا ۔ اور اسی تصور اور فکر کی بنیاد پر ۱۹۰۵ء میں نواب سلیم اللہ کے مکان پر مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ پھر اکتوبر ۱۹۰۶ء میں آغا خان کی سربراہی میں ۳۵؍ افراد پر مشتمل مسلمانوں کے ایک وفد نے وائسرائے لارڈ مینٹو سے شملہ میں ملاقات کی اور انھیں اپنے مطالبات و خدشات سے آگاہ کیا اور جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ۔ یہ گویا باضابطہ طور پر دو قومی نظریے کا اعلان تھا کہ مسلمان اپنی ثقافت ،لباس ، غذا ، زبان، تصورِخدا،طرزِ معاشرت،معیشت، غرض ہر شعبۂ حیات میں اختلاف کے سبب صدیوں سے ایک ملک میں غیر مسلموں کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ہر تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں ، جن کا دین بنیادی تصورات و ترجیحات ہندوؤں کے تصور حیات کی ضد اور اپنا ایک مستقل وجود رکھتے ہیں، اور اب گویا وہ وقت آگیا تھا کہ وہ اپنے وجود اور تشخص کے لیے ایک آزاد خطّے کا مطالبہ کریں ۔ مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت ، ان کی جدوجہد اور اللہ ربّ العزت کے فضل و کرم سے ایک مختصر عرصے میں قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’ایمان، اتحاد اور تنظیم ‘‘کے بغیر پاکستان کا حصول ناممکن تھا۔ جنگ آزادی کے عمل کی بنیاد ایمان پر تھی ۔ وہی ایمان اتحاد کی بنیاد تھا جس نے عصبیتوں اور قومیتوں کی جگہ لا الٰہ الا اللہ کے ذریعے دلوں کو جوڑ دیا، اور یہ ایمان ہی تھا جس نے منتشر افراد کے اس گروہ کو جو۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مایوسی اور ناامیدی کا شکار تھا ایک تنظیم میں یکجا ہونے کی توفیق دی اور یہ ثابت کر دیا کہ ایمان کا لنگر مضبوط ہو گا، اور بقیہ دواُصول اتحاد اور تنظیم بھی مستحکم ہوں گے تو پھر دنیا کی کوئی قوت اسے زیر نہیں کر سکتی ۔
اس سے قطع نظر کہ مصلحت یا سیاسی حکمت عملی کی بنا پر مسلم لیگ میں ایسے افراد بھی شامل ہوگئے تھے جو انگریز سے ٹکراؤ قطعاً نہیں چاہتے تھے ۔ اور پھر وہ انگریز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ کانگریس کی طرح وہ بھی برطانوی تاج کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں،اور مسلمان صرف چندحقوق کے حصول کے لیے دستوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود جس چیز نے پورے خطے کے مسلمانوں کو یکجا کرنے میں اکسیر کا کام کیا وہ صرف لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ تھے ، جن کا واضح مفہوم اللہ کی حاکمیت کا اللہ کی زمین پر قیام تھا۔
۱۳؍ اگست ۱۹۱۹ءکو جلیانہ والا باغ، امرتسر کے سانحے میں ۱۵۱۶؍ افراد کو بہیمانہ طور پر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ واقعہ ملک گیر پیمانے پر عوام الناس کو جگانے کا ایک بڑا سبب بنا۔
مسلم لیگ کے مصلحت پسند مسلمانوں کو بھی یہ یقین ہو گیا کہ ان کی جان، مال، دین اور مستقبل انگریز کےہاتھوں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس دوران اتحادی افواج کا ترکی کے ساتھ رویہ مسلمانوں کے جذبات کو مزید مشتعل کرنے کا سبب بنا اور انگریز کی مسلم دشمنی کی اس واضح مثال کے بعد ردعمل کے طور پر تحریک ِ خلافت شروع ہوگئی۔ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا کردار نمایاں رہا۔
اس دوران ہندو راہ نماؤں نے جو اپنی عددی اکثریت پرپہلے ہی نازاں تھے، شدّھی کی تحریک کا آغاز کردیا اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم شروع کی۔ ان تمام واقعات نے مسلم قیادت کو اس بات پر یکسواور متفق کر دیا کہ حقیقت میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔ ان کا دین، زبان، ثقافت ،تاریخ ،تصور کائنات، تصور انسان ،تصور آخرت ہر چیز ہندوؤں سے مختلف ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں جب ہندو اکثریت زبر دستی مسلمانوں کو ہندو بنانے اور اپنی محکوم بنانے پر تلی ہوئی ہے، آزادی کے لیے متحدہ طور پرجدوجہد بے معنی ہے ۔چنانچہ انھیں اپنی آزادی کے حصول کےلیے ایک الگ قوم کی حیثیت سے خود اپنے پائوں پر کھڑے ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔
فروری ۱۹۲۸ء میں جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کی سربراہی میں جو رپورٹ پیش کی گئی، اس میں لکھنوکے معاہدہ ۱۹۱۶ء کو مکمل طور پرنظرانداز کرکے خود کانگریس نے باضابطہ یہ اعلان کردیا کہ وہ صرف ہندوؤں کی آزادی کے لیے متحرک ہےاوروہ کسی مسلم مفاد کا تحفظ نہیں کرسکتی ۔ مولانا محمد علی جوہرؒبھی اس واقعے کے بعد کانگریس سے علاحدہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔
۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علّامہ اقبالؒ نے حالات کے تجزیہ کے ساتھ یہ تجویز پیش کی کہ اپنے دینی اور ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے بطور نقطۂ آغاز وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت ہے، ایک یا زائد خود مختار اکائیوں کی شکل میں یکجا ہوں، مثلاً: پنجاب، شمالی مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو بطور ایک اکائی یکجا کر دیا جائے ۔ اس خطاب میں انھوں نے نظریاتی بنیاد کو بھی واضح کر دیا کہ توحید اور اللہ کی حاکمیت کی بنیاد پر ایک مسلم ریاست کا قیام ہی اہل خطہ کے لیے راہ نجات فراہم کر سکتا ہے۔ علامہ کے الفاظ یہ تھے :
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک اخلاقی نصب العین اور نظام سیاست کے___ اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے تحت عمل میں آتا ہو، اور جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرم عمل ہو ___ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے،اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہوکرایک متمیز ومعین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہو جاتا ہے۔
حقیقت میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شاید ہندستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندستان میں بھی اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام ہی کی رہین منت ہے۔ اس لیے کہ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے.... لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندستان میں ایک اسلامی ہند قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے....ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔
میری ذاتی طور پر خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی ۔
۱۶؍ اگست ۱۹۳۲ء کو کیے جانے والے کمیونل ایوارڈ (Communal Award)نے جداگانہ انتخاب کے اصول کو تسلیم کر کے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونےپر سرکاری مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ برطانوی سامراج اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکا تھا کہ استعماری چراغ کی لَو بجھنے والی ہے، اس لیے اس نےاپنی روایتی مسلم دشمنی کی بنا پر ایسے فیصلے کیے جن کا نقصان مسلمانوں کو ہوا اور جنھیں مسلمان مجبوراً ماننے پر آمادہ ہوئے ، مثلاً ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں فیڈرل ، پروینشنل اور concurrent کی تقسیم جس میں فیڈرل فہرست اور صوبائی فہرست میں بعض اختیارات دینے کے باوجوداسے ایک ملغوبہ بنایا گیا۔ اس قانون کو قائد اعظم نے ناقابلِ قبول قرار دیا لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مسلم لیگ کو ٹکراؤ کی جگہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
۱۹۳۵ءکے ایکٹ کی روشنی میں ہونے والے انتخابات کے بعد ۱۹۳۷ء-۱۹۳۹ء میں کانگریس کی حکومت نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں۔ ابھی مکمل آزادی نہیں ملی تھی لیکن کانگریس نے اپنے ماتحت مقامات پر نظام تعلیم اور نصابی کتب کووِدیا مندر منصوبہ کے تحت تبدیل کردیا اور طلبہ کے لیے ہر صبح بندے ماترم کا ترانہ گانا لازمی قرار دیا ۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں مسلم لیگ کے پٹنہ سیشن میں اس ترانے کو شدت کے ساتھ ردّ کیا گیا اور اسے بت پرستی اور مسلم دشمنی کی واضح مثال قرار دیا گیا ۔
اس تناظر میں علامہ اقبال کا ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کا خط اہم راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ قائداعظم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو سو سالہ زوال اور ہندو کی مہاجن کی حیثیت سے مسلمانوں کے معاشی استحصال کے بعد اب نجات کی راہ کیا ہو گی؟ پھر خود جواب دیتے ہیں:
’’روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے۔مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دوسوسال سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جارہی ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندو ساہوکار و سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے اگرچہ ابھی قو ی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کرکے رہے گا۔
’’ جواہر لال نہرو کی منکر خدا اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جا سکتی ہے؟لیگ کا مستقبل اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مسلمانوں کو افلاس سے نجات دلانے کے لیے کیا کوششیں کرتی ہے؟ اگر لیگ کی طرف سے مسلمانوں کو افلاس کی مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو مسلمان عوام پہلے کی طرح اب بھی لیگ سے بےتعلق رہیں گے۔
’’خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے اور فقہ اسلامی کا مطالعہ مقتضیاتِ حاضرہ کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریقے پر سمجھا اور نافذ کیا جائے، تو ہر شخص کو کم از کم معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلامی شریعت کا نفاذ ناممکن ہے جب تک اس ملک میں ایک یا ایک سے زائد آزاد ریاستوں کا وجود نہ ہو۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہےاور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندستان کے امن کا بہترین حل سمجھتا ہوں اور اگر ہندستان میں اس طریق کار پر عمل درآمد اور اس مقصد کا حصول ناممکن ہے، تو پھر صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے اور وہ خانہ جنگی ہے۔ جو فی الحقیقت ہندومسلم فسادات کی شکل میں کئی برسوں سے شروع ہے۔
’’لیکن جیسا کہ اُوپر ذکر کر چکا ہوں اسلامی ہندستان میں ان مسائل کا حل بہ آسانی رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعے ایک یا زائد آزاد اسلامی ریاستوں کا قیام اشد لازمی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا ؟شاید جواہرلعل کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ بہترین جواب ہے‘‘۔
مسلم لیگ کے ۲۵ویں اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں ۱۵-۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اسی بات پر غورکیا گیا اور قائد اعظم نے طے کیا کہ مسلم لیگ اب مکمل آزادی یا ایک فیڈریشن یا آزاد جمہوری ریاستوں کے قیام کی جدوجہد کرے گی تاکہ مسلمانوں کا مفاد محفوظ ہو سکے اور اقلیتوں کو بھی تحفظ ملے ۔ اس غرض کے لیے مسلمانوں میں اتحاد اور تنظیم پیدا کرنا لیگ کا مشن قرار پایا ۔ اس جدوجہد کا منطقی نتیجہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ءکو لاہور میں منظور ہونے والی قراداد میں ان الفاظ میں ظاہر ہوا:
آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروخوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے، جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطّوں کی صورت میں حدبندی کا عامل ہو اور بوقت ِ ضرورت ان میں اس طرح ردو بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو، جیساکہ ہندستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے میں، انھیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
یہ وہ تاریخی موقع تھا جب مسلم لیگ نے یکسو ہو کر منزل کے حصول کے لیے ساری قوت صرف کرنا شروع کی۔ قائداعظم کے فولادی اعصاب نے ہر لمحہ بدلتے حالات کی صورت حال میں اللہ پر اعتماد کے ساتھ مستقل مزاجی سے جنگ آزادی کی کامیاب قیادت کی ۔ اس جدوجہد کا مقصد جیسا کہ علامہ اقبال کے خط بنام قائد سے واضح ہوتا ہے، نئے خطۂ پاک میں اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔ یہ ایک عجیب سانحہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائد کے واضح تصور پاکستان کے باوجود پاکستان کے نام نہاد روشن خیال اور اباحیّت پسند دانشوروں نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد تصور پاکستان کے حوالے سے ہندو کانگریس کے سیکولر ریاست کے تصور کو قائد کے تصور کے طور پر تکرار کے ساتھ پیش کیا اور دو قومی نظریہ کی جگہ سیکولر ریاست کے تصور کو عام کرنے میں اپنی تمام ذہانت استعمال کرتے ہوئے ابہام در ابہام پیدا کرنے میں اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں ۔ صحافت ، نوکر شاہی اور دیگر ملکی اداروں میں جو افراد ذمہ دار بنے ، ان میں سے کسی کو علامہ اور قائد کے تصور پاکستان سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ اس لیے انھیں پہاڑ کھودنے کے بعد لے دے کر ایک تقریر ایسی ملی جس کو اپنی فکر کے مطابق معنی پہنا کر اس کی جو تعبیر وہ کرنا چاہتے تھے، اس تعبیر کو قائد سے منسوب کر کے اس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ لوگ اسے سچ مان لیں لیکن حق و باطل کی اس کش مکش میں حق ہی کو غالب آنا تھا۔ اس تناظر میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان کیا تھا؟ اسے انھی کے الفاظ میں جان کر ایک قاری صحیح فیصلہ کر سکتا ہے ۔
یکم فروری ۱۹۴۳ءکو قیام پاکستان سے بہت پہلے ہوسٹل پارلیمنٹ اسماعیل یوسف کالج، بمبئی میں خطاب کرتے قائد اعظم فرماتے ہیں :
پاکستان میں ریاست اسلامی اصو لوں کے مطابق چلائی جائے گی ، اس کی ثقافت ، سیاسی اور معاشی تشکیل اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گی۔غیر مسلم اس امر سے خائف نہ ہوں کیوں کہ ان کے ساتھ مکمل عادلانہ رویہ رکھا جائے گا ۔ ان کے ثقافتی ، مذہبی ، سیاسی ، معاشی حقوق کا مکمل تحفظ ہو گا ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انھیں موجودہ نام نہاد جمہوری پارلیمنٹری طرز حکومت سے زیادہ تحفظات حاصل ہوں گے۔
لاہور میں ہونے والی یونی ورسٹی ریلی سے حصولِ آزادی کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہم نے اپنی منزل مقصود ’آزادی‘پالی ہے اور ایک آزاد خودمختار اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت قائم ہو چکی ہے۔ اس برعظیم میں رونما ہونے والے حالیہ اندوہناک واقعات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی قوم ابتلا اور ایثارکے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتی.... کچھ لوگوں کی غداری اور سازشوں سے اس برعظیم میں بدنظمی اور افراتفری کی قوتوں کو بےلگام چھوڑ دیا گیاجس کی وجہ سے لاکھوں اموات واقع ہوئیں۔بہت وسیع پیمانے پر املاک کی تباہی اور بربادی ہوئی اور لاکھوں انسانوں کو اپنے گھر بار اور اپنی محبوب اشیا سے جدا کر کے اذیت اور مصائب میں مبتلا کر دیا گیا ۔ ہم ایک نہایت گہری اور خوب سوچی سمجھی سازش کا شکار ہوئے جس کا ارتکاب کرتے ہوئے دیانت داری، شجاعت اور وقار کے بنیادی اصولوں کا بھی مطلق لحاظ نہیں کیا گیا ۔ ہم اس تائید غیبی کے لیے سراپا شکر گزار ہیں کہ اس نے طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بہت حوصلہ اور ایمان کی قوت عطاکی۔ اگر ہم قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرتے رہے تو حتمی فتح، میں پھر کہتا ہوں، ہماری ہو گی ۔کام کی زیادتی سے، میں کہتا ہوں، گھبرایئے نہیں!
نئی اقوام کی تاریخ میں کئی مثالیں (ملتی ہیں )جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔آپ کی تخلیق ایک جوہرِ آب دار سے ہوئی ہے اورآپ کسی سے کم نہیں ہیں ۔اوروں کی طرح اور خود اپنے آبا و اجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہیں ہوں گے؟آپ کوصرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبہ کو پروان چڑھانا ہو گا۔آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ قابل ، صلاحیت کے حامل کرداروں اور بلند حوصلہ اشخاص سے بھری پڑی ہے ۔ اپنی روایات پر قائم رہیےاور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کر دیجیے ۔
اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ ہر شخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہوگا ، جن کا نصب العین اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی امن ہوتا ہے۔
اسی بات کو قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں کہا اور یاد رہے کہ یہ بیان بھی اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ قائداعظم امریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے کہتے ہیں کہ :
میرے لیے یہ امر انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ میں اہلیان ریاست ہائے متحدہ امریکا سے پاکستان ،اس کی حکومت ،اس کے افراد اور اس کے وسائل کے بارے میں اس نشریے کے ذریعے گفتگو کر رہا ہوں۔ یہ مملکت جو کسی حد تک برعظیم کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت (Premier Islamic State) اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔مجھے اس بات کا علم تو نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہو گی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ایسے ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہر نوع پاکستان ایسی تھیا کریسی نہیں ہوگا جہاں پادری فرماں رواں ہوں۔
غیر مسلم ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں ۔انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی جو کسی اور شہری کو حاصل ہو سکتی ہیں اور وہ اُمورِپاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کر سکیں گے۔
قائداعظم اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات اور جدید دور میں قابل عمل نظام سمجھتے تھے۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں فرماتے ہیں:
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی.... آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا....جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔
قائد کی ۱۹۴۳ء یعنی قیام پاکستان سے قبل اور ۱۹۴۸ء میں اس تقریر کے بعد جس میں انھوں نے وہ بات نہیں کہی جو ان کے شارح اپنی تعبیرات میں بیان کرتے ہیں ، ان تمام تقاریر کو ، جو بے ساختہ نہیں بلکہ تحریری شکل میں لکھنے کے بعد کی گئی تھیں، سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ان کے تسلسل ، فکر اور موقف کی یگانگت اور یکسوئی میں ذرہ برابر فرق نظر نہیں آتا۔ جس طرح ۱۹۴۳ء میں وہ پاکستان کو بطور اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے تھے بالکل اسی طرح ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار سے خطاب ،۱۴ فروری ۱۹۴۸ءکو سبی دربار سے خطاب ، فروری ۱۹۴۸ءکو امریکی عوام سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء کو اِک اِک ریجمنٹ کراچی سے خطاب، یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک سے خطاب میں وہ ریاست کے اسلامی خدوخال کو اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام پر مبنی قرار دیتے ہیں۔
قائد کے ارشادات کی روشنی میں خود قائد کی حیات اورسر براہی میں دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ مولانا سیّد سلمان ندوی کی صدارت میں قائم کر دیا گیا تھاجو اسلامی اصولوں کی روشنی میں دستور کے حوالے سے اسمبلی کی راہ نمائی کرکے دستوری سفارشات مرتب کرے ۔ اسی طرح لاہور میں علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ایک ادارہ پاکستان کی تعمیر نو کے نام سےقائم کیا گیا اور قائد کی حیات میں انھیں یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ پاکستان کے لیے دستور کے خدو خال پر دستاویز تیار کریں ۔ یہ دستوری خاکہ جو علامہ اسد نے تحریر کیا، آج بھی ان کے اعزاز میں انگریزی میں طبع شدہ کتاب: Muhammad Asad (Leopold Weiss): Europe's gift to Islam (دو جلدیں)میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب انگریز کے اداروں میں تربیت پانے والے سرکاری اہل کار ، عدلیہ میں انگریز کے ذہنی غلام نمایندے اور خود سیاسی محاذ پر پاکستان کے تصور کے مخالف افراد، مثلاً باچا خان و دیگر کے لیے یہ امر نا قابل ہضم تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے ، چنانچہ جسٹس منیر ہوں یا بیورو کریسی کے افراد جن میں ۱۹۶۴ء تک ۶۰ سے اُوپر افراد سیکرٹری کے عہدے تک وہ تھے جن کی قومیت بھی برطانوی تھی ۔ جن کی علمی تربیت برطانوی تصور ریاست پر ہوئی تھی۔ یہ افراد مغربی تصورات اور طرز ِ زندگی پر یقین رکھتے تھے اور اسی وجہ سے دین اور ریاست کو ایک دوسرے کی ضد سمجھتے تھے ۔
اس سب کے باوجود ۱۹۵۶ء کے دستوری مسودے میں قائد اور قوم کے خیالا ت کو نمایندگی دینے کی کوشش کی گئی، حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جن دفعات کو اسلامی کہا جاتا ہے، دستور کا دیباچہ (preamble)اس تصور کی وضاحت کرتا ہے ۔ قرارداد مقاصد پیش کرتے وقت قائدِ ملت نے جو مفصل تقریر کی، اس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کے تصور کی نمایندگی کرتا ہے۔ عوام نے بھی ہمیشہ تحریک پاکستان کے آغاز سے لے کر آج تک صرف اسلام کو ملک کی نظریاتی بنیاد قرار دیا۔ اب گذشتہ دو دہائیوں سے ملک جس تکلیف دہ صورتِ حال میں مبتلا ہے ، اس سے نکلنے کی راہ اور حکمت عملی کیا ہو ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہر صائب الرائے فرد کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گو، ملک کی سیاسی قیادت آج بھی مفادات کی جنگ اور اخلاقی اقدار کی پامالی میں مصروفِ عمل ہے اور اس کے نتیجے میں ایک مزدور سے لے کر ایک دانش ور تک، ہر فرد ذہنی و فکری انتشار میں مبتلا ہے ۔ قومی زندگی کے اس فیصلہ کن موڑ پر ریاست کے نظریاتی تحفظ کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہم اس بھنور سے کیسے نکلیں اور قائد کے تصورِ پاکستان کے حصول کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اس حوالے سے چند بنیادی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان چند عملی تجاویز پر عمل کرنے کے لیے کسی بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں صرف عقلی اور علمی سرمایہ کو استعمال کرتے ہوئے اور غیر سرکاری اداروں میں حکمت و تدبر کے ساتھ ان تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اپنے طرز عمل میں سیاسی ہنگامہ خیزی اور سیاسی تبدیلی کے ذریعے ملک اور معاشرے میں اصلاح کی جگہ اسلامی تعمیر شخصیت اور کردار کی تبدیلی کو اوّلیت اور فوقیت دے۔تعمیر کردار اور اصلاح فکر کے بغیر کوئی سیاسی تحریک نہ آج تک کامیاب ہوئی ہے، نہ ہو سکتی ہے ۔ انسانیت کے محسن اور کامل ترین قائد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ اور عمل کی اصلاح کے بعد جو باکردار اصحاب پیدا کیے، وہی سیاسی ،معاشی ، معاشرتی اور قانونی نظام کے معمار اور محافظ بنے۔جائزہ لینے کی ضرورت ہےکہ کسی اصلاحی اور دعوتی تحریک کا کتنے فی صد مساعی کا حصہ تطہیر افکار اور تعمیر شخصیت و کردار پر صرف ہو رہا ہے اور کتنے فی صد سرگرمی ہنگامی طور پر آگ بجھانے کے کام میں لگ رہی ہے۔
تحریک کو ایسے انسانی وسائل کی ضرورت ہے جو مثبت طور پر حکمت عملی پر پورا عبور رکھنے کے ساتھ فکری، جذباتی اور عملی طور پر اس سیرت و کردار کا نمونہ ہو ںجو صداقت، امانت، شہادت حق، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری اور اسلام کے حقیقی تصور کی عملی مثال ہوں ۔ فکری و نظریاتی طور پر تربیت یا فتہ با اخلاق کارکنان کے بغیر کوئی پائدار سیاسی ہدف حاصل نہیں ہو سکتا اور بنیادوں کے استحکام کے بغیر کوئی مضبوط عمارت نہ قائم ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے۔پاکستان میں عدم استحکام کا سبب ان بنیادوں کو اہمیت نہ دینا ہے، جس کی طرف قائداعظم نے متوجہ کیا تھا۔ اگست کا مہینہ اس بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر کی یاددہانی کراتا ہے جس میں ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ نے معجزاتی طور پر لا الٰہ الا اللہ کی علَم بردار ایک قوم کو ایک ملک دیا تھا، تاکہ وہ اس ملک میں حاکمِ کائنات کی ہدایت و احکامات کے نفاذ کے لیے کمر بستہ ہو۔ یہ یاددہانی ۷۶ سال کے بعد بھی ویسی ہی تابناک ہے جیسے روز ِاول تھی۔ صرف آگے بڑھ کر اس کے لیے انسانی وسائل کو یکجا کرنے اور منظم جدوجہد کے ذریعے عقل ، فہم و تدبر اور حکمت کی قوتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔
جدید سائنسی تحقیقات میں مصنوعی ذہانت (Artifical Intelligence)نے جسے AI بھی کہا جاتا ہے، گذشتہ چندبرسوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ تقریباً ہر روز علمی اُفق پر مصنوعی ذہانت کے معیشت ، معاشرت ،عالمی دفاع ، فرد اور معاشرے پر اثرات کےتعلق سے موضوعات زیر بحث لائے جا رہے ہیں ۔ علمی و تحقیقی حلقوں میں چیٹ جی پی ٹی(Chat GPT) کے عمل دخل کی بنا پر پیدا ہونے والے اخلاقی سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی عقل اور تحقیق اس مقام تک پہنچنے لگی ہے جہاں فرعون اور نمردود کی پیروی کرتے ہوئے سائنس خوداپنے ربّ ہونے اور جدید دجّال کی طرح زندگی اور موت پر قابو کاعملاً اعلان کرنے کے لیے آمادہ ہو۔
تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں گذشتہ ربع صدی میں عالم گیر سطح پر بعض جائزے یہ شواہد فراہم کر رہے ہیں کہ جرمن مفکّر نیٹشے کے یہ لکھنے کے باوجود کہ عیسائیت کے خدا کی (نعوذ باللہ ) موت واقع ہوچکی ہے اور جس کے نتیجے میں امریکن اکیڈمی آف ریلجنز کے سالانہ علمی اجتماعات میں ایک سے زائد فکری حلقوں میںDeath of God Theology کے موضوع پر مختلف مقالات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں گیلپ انٹرنیشنل نے ایک عالمی جائز ہ لیا (سروے کیا)، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے ’خطرے‘ کے پیش نظر یہ دیکھا جائے کہ مختلف مسلم ممالک اور غیرمسلم دُنیا اور علاقوں میں کیا رجحانات پائے جاتے ہیں اور اسلام سے خائف یورپ اور امریکا کس طرح اپنا دفاع کرسکتے ہیں؟
اس جائزے میں یہ بات اُبھرکر سامنے آئی کہ ایسے ممالک میں بھی جہاں ظلم و استبداد، عسکری تسلط اور اسلام دشمن قوتیں یا کم ازکم لادینیت (Secularism) کے حمایتی برسر اقتدار ہیں ، ان ممالک میں بھی ۶۰ فی صد یا زائد مسلمان اسلامی شریعت کو اپنے مسائل کا حل اورآمریت اور مغربی لادینیت کے مقابلے میں اسلامی احیا کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ اس تحقیق کے مرتب اور اسلامیات پر گہری نگاہ رکھنے والے پروفیسر جان ایل اسپوسیٹو کے تجزیے کے مطابق مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک کے ایسےمرد و خواتین جنھیں مغرب زدہ یا Moderate سمجھا جاتا ہے، ان کے ۸۳فی صد نے اسلامی شریعت کے حق میں رائے دی ۔ جب کہ وہ معاشرتی گروہ جو اسلامی انقلابی (Politicaly radical)کہلاتے ہیں، ان سے تعلق رکھنے والے ۹۱ فی صد افراد کی نگاہ میں شریعت پر مبنی نظام ہی ان کے مسائل کا حل ہوسکتا ہے ۔اسی طرح اس سوال کے جواب میں کہ اسلام کا مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مصر اور سعودی عرب میں بالترتیب ۹۰فی صد اور ۹۱فی صد مرد اور عورت دونوں کا خیال تھا کہ اسلام انھیں روحانی سکون عطا کرتا ہے، زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے اور زندگی کو بامعنی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
نماز کی ادائیگی اور اس کے اثرات کے بارے میں ۲۰۰۱ء میں گیلپ ہی کے ایک تجزیے کے مطابق چھے ممالک کی دوتہائی آبادی کے تاثرات پر مبنی جائزے میں مراکش میں ۸۳فی صد پاکستان اور انڈونیشیا میں ۷۹فی صد، کویت میں ۷۴ فی صد، انڈونیشیا میں ۶۹ فی صد ،لبنان اور ایران میں ۶۸فی صد مردو خواتین نے یہ اقرارکیا کہ ’’نماز انھیں اپنے ذاتی مسائل کے حل میں مدد اور تسکین فراہم کرتی ہےاور روزہ اللہ رب العزت کے دروازہ تک اور صدقہ ہمارے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنتے ہیں‘‘۔
گیلپ انٹرنیشنل کے حالیہ علمی جائزے ۲۰۲۳ء میں خدا کے وجود، آخرت پر یقین ، جنت اور جہنم پر ایمان کے نکات پر دُنیا کی تقریباً دوتہائی آبادی سے حاصل کردہ معلومات تمام اہل دانش کے لیے قابلِ غور ہیں، خصوصاً ایسے افراد جو اقامت دین کو اپنا مقصد ِحیات قرار دیتے ہیں، ان کے لیے اس جائزے میں غور و فکر کے کئی عنوانات موجود ہیں۔
خدا کے وجود اوراپنے تشخص کے بارے میں عالمی سطح پر ۶۲ فی صد افراد اپنا تشخص مذہبی ہونا بتاتے ہیں،جب کہ ۷۲فی صدخدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔دنیا کی آبادی کے دوتہائی افراد میں سے ۵۷ فی صد حیات بعد موت پر یقین رکھتے ہیں ۔ ۵۹ فی صد افراد جنت کے وجود پر اور ۵۳ فی صد جہنم کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کا مقابلہ ۲۰۱۳ء کے جائزے سے کیا جائے تو امریکا میں ۵۶ فی صد افراد خود کو مذہبی سمجھتے تھے،جب کہ روس میں ۷۰ فی صد اپنے مذہبی ہونے کا اقرار کرتے تھے۔ ۲۰۲۳ءمیں امریکا میں اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ چنانچہ ۶۰فی صد افراد خود کو مذہبی قرار دیتے ہیں لیکن روس میں ۲۰۲۳ء میں اس رجحان میں کمی ہوئی اور وہاں آج ۷۰ فی صد کے مقابلے میں ۶۲ فی صد اپنے آپ کومذہبی سمجھتے ہیں۔
۲۰۲۳ء کے اعداد و شمار کی روشنی میں میں دنیا کی آبادی کے دو تہائی حصے میں سے ۱۰فی صد خود کو دہریہ (Atheist)قرار دیتے ہیں،جب کہ ۲۰۱۳ء میں یہ شرح ۹فی صد تھی ۔ گویا اس جائزے کے مطابق دہریت میں ایک فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔اگر صرف مسلم ممالک کو دیکھا جائے تو خدا کے وجود پر مسلم ممالک میں سو فیصد اور غیر مسلم ممالک جہاں مسلمان آبادی قلیل تعداد میں ہے، ۱۷ممالک میں ۹۰ فی صد یا اس سے کچھ کم درجہ رکھنے والے افراد ۹۰ تا ۹۹ فی صد خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ مسلم اکثریتی ممالک میں یہ تناسب ۱۰۰ فی صدیا اس کے لگ بھگ ہے۔
دنیا کے دو سو سےزائد ممالک پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے تو دہریت میں ایک فی صداضافہ ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ، آخرت ، جنت اور جہنم پر یقین کو دیکھا جائے تو مسلم ممالک دیگر ممالک سے بہت آگے ہیں، اور ۱۰۰ فی صد یا اس کے لگ بھگ آبادی میں دہریت سے دُوری اور اور مذہب سے وابستگی کا اظہار موجود ہے۔اگرچہ عالمی سطح پر ایک فی صد دہریت میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر دینی معلومات میں کمی ہےاورایسے طبقات تک دعوت کا مؤثر ابلاغ نہ ہو سکا جس کی بے پناہ ضرورت ہے۔
زمینی حقائق کے اس جائزے سے بظاہر یہ عمومی تاثر ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے کہ ’’تمام تر دہریت (Atheism) اور لادینیت (Secularity) اور مادہ پرستی (Materialism) کے باوجود، لوگوں کی ایک معقول تعداد عیسائیت ، اسلام ، ہندو ازم اور بودھ ازم کے تناظر میں اپنے آپ کو مذہب سے وابستہ کرتی ہے اور دنیا کی مکمل آبادی میں بہ مشکل ۱۰ فی صد افراد ہیں جو الحاد میں اپنی نجات سمجھتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ۱۰ فی صد افراد عالمی معیشت،سیاست ، ثقافت ، تعلیم اور دفاعی معاملات میں کتنا مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں اور جو اکثریت اپنے آپ کو ’مذہبی‘ کہتی ہے معاشرہ اور عالمی حالات پر اس کا کتنا اثر (impact)ہے؟
یہ بات جانی پہچانی ہے کہ تمام معروضیت کےباوجود کسی بھی عددی جائزے میں جو سوالات مرتب کیے جاتے ہیں، انھی سے دیگ کے چندچاولوں کی بنیاد پر کھانے کے قابلِ طعام ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ نتائج بڑی حد تک مختلف عوامل سے متاثر ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر چند لمحات کے لیے یہ مان لیا جائے کہ تجزیے میں دنیا کی دو تہائی آبادی سے سوالات و استفسارات سے جو مواد حاصل ہوا ہے، وہ معتبر ہے اور بڑی حد تک مذہب ، خدا اور انسانی زندگی پر ان اثرات کے حوالے سے جو اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ زمینی حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں، توبآسانی یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ مختلف اسباب اور عوامل کے نتیجے کے طور پر عالمی سطح پر الحاد میں لازماً اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بعض مذاہب نے ان علاقوں میں جہاں پہلے ان کا اثر کم تھا، وہاں اپنی پہنچ میں اضافہ کیا ہے اور بعض مذاہب باوجود اپنی اعلیٰ صلاحیت کے وقت کے مطالبات کے معقول حل پیش کرنے میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔
پیش نظر مسئلے کا تقابلِ ادیان کے زاویے سے جائزہ لیں تو خصوصاً افریقا میں ۱۹۷۰ء میں عیسائی چرچ نے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے عالمی سطح پر عیسائیت کی ترویج کے لیے وسائل مہیا کیے تھے ، جس کے اثرات ربع صدی کے بعد ظاہر ہوئے اور سروے میں اس کا ثبوت عیسائیت کے فروغ کی شکل میں موجود ہے۔ بہرحال فی الوقت ہمارے پیش نظر صرف اسلام کے حوالے سے چند بنیادی اُمور پر غور کرنا ہے ۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے وجود یا آخرت کے واقع ہونے اور جنت اور جہنم پر ایمان کا تعلق ہے، مسلمانوں کے انتہائی زوال کے دور میں بھی ایک پیدایشی یا ثقافتی مسلمان بھی جنت اور جہنم کے حقیقت ہونے کا قائل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی ذاتی زندگی اس عقیدے سے کتنی مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ کے وجود اور دنیا میں کیے جانے والے اعمال کے لیے ایک امتحان گاہ کو نہ صرف عقلی ضرورت بلکہ اپنے وجود سے وابستہ سمجھتا تھا ، لیکن امتداد ِزمانہ کے ساتھ برصغیر جنوب مشرقی ایشیا میں ہمارے دینی عقائد میں بیرونی تصورات غیر شعوری یا شعوری طور پر داخل ہوتے گئے جس کا سبب برصغیر میں غیر اسلامی خصوصاً ہندو مت کے بہت سے طریقوں کا روایتی مسلم معاشرے میں نفوذ کر جانا ہے۔ ان بہت سی رسومات کو جو بنیادی دینی تعلیمات سے عدم آگاہی کی بنا پر رواج پا گئیں، روحانیت اور قرب الٰہی کے نام پر رواج دیا گیا۔ میر تقی میر نے ڈھائی صدی قبل اس مسئلے کا اظہار یوں کیا تھا ؎
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا ، دَیر میں بیٹھا ،کب کا ترکِ اسلام کیا
دوسری جانب جنت اور جہنم کے وجود پر ایمان لاتے ہوئے ایک ایسے ذہین شاعر نے جو اپنے آپ کو نصف مسلمان اس لیے کہتا تھا کہ حرام مشروب کے استعمال کے باوجود کبھی حرام گوشت کی طرف نہیں گیا ، جنت اور جہنم کے وجود پر اپنے ایمان کو یوں بیان کیا ہے کہ ؎
کیوں نہ جنت کو جہنم سے ملادیں یا رب
سیرکے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
گویا مسلم معاشرتی شعور میں روح کی گہرائیوں اور ذہن کی وسعتوں میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ملتا،جہاں عملاً دین کے بعض ارکان کو ترک کرنے کے باوجود ایک مسلمان، چاہے وہ محض پیدائشی اور ثقافتی طور پر مسلمان ہو ، بنیادی تعلیمات سے واقفیت اور آگاہی کے ساتھ ان پر یقین رکھتا تھا۔ ان کے ہاں دین کا جامع تصور مفقود نظر آتا ہے ۔ اگر جدید جائزوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو دین کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی آج تک ایک تلخ زمینی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ اس رجحان کے اسباب اور ان کا ممکنہ حل کیا ہو؟ یہ تحریکات اسلامی کے لیے ایک اہم غور طلب امر اور چیلنج ہے۔
معاشرتی رجحانات کے بننے اور بگڑنے میں تربیت ، ماحول اور تعلیم کا کردار فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ مذکورہ جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں بھی اسلام سے جذباتی وابستگی پائی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور ایک اطمینان بخش صورتِ حال ہے، لیکن وہاں بھی اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو پرائیوٹ تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والی نئی نسل اے لیول اور او لیول اور سیکولر کلچراور نصاب کے سائے میں پرورش پا کر فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات بھی دین کے بارے میں محض رسمی معلومات سے زیادہ کچھ بھی نہیں جانتے ۔ تحریک اسلامی کے لیے یہ صورت حال خاص طور قابل غور ہے اور فوری اقدام کی متقاضی ہے۔ مملکت خدادادِ پاکستان میں ۷۵ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود، ہرحکومت کے دور میں زبانی جمع خرچ تو ہوا لیکن خاطرخواہ طریقے سے نصابی تبدیلی اور نصاب کے ساتھ بنیادی دینی معلومات فراہم کرنے والی کتب ، اساتذہ اور ماحول فراہم نہیں کیا جاسکا۔
اب ذرا غور فرمایئے کہ جن اداروں میں تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پائے جاتے ہیں، کیا وہاں تعلیم و تربیت سے متعلق منظم اور مستقل اقدامات کیے جارہے ہیں؟ اور جہاں تحریکی افراد کے اپنے ادارے ہیں، ان میں ملک گیر پیمانے پر کیا تجربات کیے گئے ہیں؟ اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد آیندہ کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟ اس پر بلاکسی تاخیر جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ضرورت کے تعین (Need Analysis) کے ذریعے ایک قابلِ عمل حکمت عملی کا نفاذ کیا جاسکے۔
زمینی حقائق کچھ یوں ہیں: گھر جو سب سے پہلی تربیت گاہ یا مدرسہ ہے اور جو دینی اور تہذیبی اقدار کا آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا فطری ذریعہ ہے، اس گھر کو ہم نے شعوری یا لاشعوری طور پر جدید الیکٹرانک سمعی اور بصری آلات کی رنگینی کے حوالے کر دیا ہے۔ ایک تین سالہ بچہ بھی ڈزنی کی دنیا کا شہری بن گیا ہے اور اپنے والدین کی دنیا سے کٹ کر اپنے احساسات ، زندگی کے مقصد اور مثالی طرزِ عمل کے لیے ان کارٹون کرداروں کا مرہونِ منت ہو گیا ہے،جو ڈزنی نے لادینیت، عریانیت ، نفس پرستی ، اَنانیت او ر اپنی ذات کی نمائش ا ور پرستش کے اصولوں پر نوعمر ذہنوں اور ان کی روح میں اُتر جانے کے لیے ایجاد کیے۔ یہ رجحان مثبت متبادل مواد کی فراہمی کے بغیر تبدیل نہیں ہو سکتا۔
دوسرا اہم سبب مسلمانوں کے ایک اہم اور مؤثر حصے کا ذہنی مرعوبیت کا شکار ہو جانا اور ہرمعاملے میں اعلیٰ معیار کے لیے صرف اور صرف مغرب کی طرف دیکھنے کو اختیار کرنا ہے ۔ وہ موزہ ہو ، قلم ، قمیص ، جو تا ، غسل خانے میں لگنے والی ٹونٹی ہو یا عمرانیات ، طب ، ریاضی یا دیگر علوم، ہرشعبے میں اعلیٰ معیار( state of the art) مغرب کو قرار دے کر لادینیت پر مبنی علمی روایت کو پوری مسلم دنیا نے پورے عقیدت و احترام کے ساتھ اختیار کر لیا۔اس ذہنی مرعوبیت کے نتیجے میں گفتگو ہو یا تحریر، ہرمیدان میں مغربی جدیدیت کو علمیت کے ثبوت کی شکل میں اختیار کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں مغرب سے درآمد کردہ اصطلاحات کا استعمال دانش وری کی علامت اور علمیت کی دلیل سمجھا جانے لگا۔ ان اصطلاحات کے پیچھے جو تصورات ہمارے ذہنوں میں گھر کر رہے ہیں ،حتیٰ کہ اپنی ثقافت کے مطابق لباس پہننا اور اپنی زبان میں اظہار خیال کرنا بھی معاشرے میں ایک معیوب عمل سمجھا جانے لگا ۔
تعلیم و تربیت کا شعبہ دور جدید میں عددی ابلاغ عامہ (Digital Media )کا تابع ہو چکا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ برقی ذرائع کا استعمال ، تعلیم ، تفریح اور ابلاغ عامہ میں ہو رہا ہے، اس میں صرف چند قرآنی قصوں پر مبنی کتابچے کام نہیں کرسکتے ۔ اگر ہم صرف ہم خیال تعلیمی اداروں کی ضروریات کا جائزہ لیں تو معاشی طور پر ایسی چیزیں جو تربیتی زاویے سے برقی ذرائع میں تیار کی جاسکیں، مارکیٹ میں اپنا مقام پیدا کریں گی۔ شرط یہ ہے کہ اس مواد میں تعلیمی نفسیات اور نصابی کتب کے مطالبات کو فنی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جائے ۔ یہ کام جہاں حکومتی دائرے میں کرنا ضروری ہے، وہیں کسی حکومتی اختیار کے بغیربھی ہو سکتا ہے اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
ایسے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضروریات کے پیش نظر ایسے مواد کی تیاری جو اخلاق، سیرتِ پاک ، قرآنی تعلیمات اور فنی معلومات کو یکجا کرتا ہو ، آج کی بنیادی کی ضرورت ہے ۔ دینی فہم، دینی تعلق اور دینی جذبات کا پیدا کرنا تحریک کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ یہ کام محض بیانات اور تبدیلی کے نعروں سے نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے قابلِ محسوس اعلیٰ فنی معیار کے مواد کی ضرور ت ہے ، جس کی برتری کا اعتراف مخالفین کو بھی کرنا پڑے۔
اس غلامی سے نکلنے کے لیےچند اہم اقدامات ضروری ہیں ۔ اولاً: مغربی فکر سے واقفیت کے ساتھ اس کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے، جس طرح کا کام مولانا مودودی نے تنقیحات، تفہیمات، رسائل و مسائل اور دیگر تحریرات میں کیا ہے تاکہ اس زہر کو سمجھا جاسکے۔ دو سو سال اور خصوصاً ۷۵سالہ پاکستانی دور میں ہردرس گاہ میں یہ زہر پھیلایا جاتا رہا ہے۔ اس غرض سے مولانا مودودی کی ان تمام تحریرات کو بغور کئی کئی بارپڑھنے اور ان سے قابلِ عمل نکات اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا مودودی کے علاوہ بھی دیگر اہل فکر کی تحریرات کو زیربحث لا کر نہ صرف استعماریت کے اثرات کو کم کرنے (decolonization )بلکہ اسلامی اخلاقی اصولوں کو تعلیم و تربیت کے نظام اور نصاب میں سمونے اور مختلف علوم کی تدوینِ جدید کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ کام کسی کمیٹی کے ہاتھوں نہیں ہوگا۔ اس میں ماہرین تعلیم جو تحریکی شعور اور براہِ راست قرآن و سنت اور مسلمانوں کی تاریخ سے آگاہی رکھتے ہوں، ان کی ہمہ وقت شرکت ضروری ہو گی۔ اس کام کوواضح نقشۂ کار اور وقت کے تعین کے ساتھ کرنا ہو گا، تاکہ مقررہ مدت میں نتائج سامنے آسکیں ۔ یہ کام بغیر کسی بڑے مالی بوجھ کے ہو سکتا ہے۔پروفیسر سیّد محمد سلیم مرحوم نے بغیر ماہرین کی کسی ٹیم کے، بہت سے علمی کام کیے۔ یہ کام آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام طویل عرصہ سے مؤخر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔اس قابلِ عمل کام کے لیے قوتِ فیصلہ، ارادے کی پختگی، اجتماعی مشاورت اور آغاز کی ضرورت ہے۔
تیسرا اہم سبب جو دوسرے سبب سے وابستہ ہے دین اور دنیا میں تفریق کا بیرونی اور غیراسلوبی تصور ہے ، جسے دینی اور غیر دینی دونوں طبقات میں بااثر افراد نے نہ صرف قبول کر لیا بلکہ اس کی بنیاد پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کر دیا۔ چنانچہ عبادات کا اہتمام اللہ تعالیٰ کا حق قرار پایا اور سیاست، تعلیم ، معاشرت، ثقافت وغیرہ میں مرغ بادِنما کی طرح زمانے کی ہوا کے ساتھ چلنے کا طرزِعمل اختیار کیا گیا۔
اس ذہنی پس منظر میں دنیا کو ترجیح دینا اور دین کو محض مذہبی رسومات یا تہواروں تک محدود کر نا ایک فطری عمل تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رسمی مذہبیت ہی کو اسلام سمجھ بیٹھا۔ قرآن و سنت سے لاعلمی اور پیری مریدی کے ذریعے نجات حاصل کرنا، جاہل عوام کا نہیں مغربی تعلیم یافتہ اور مغرب پلٹ دانش وروں کابھی مسلک بن گیا۔خود دینی فکر کے حامل طبقات بھی اس دورُخی کو عملاً اختیار کرنے کے سبب زندگی کے دوخانوں پر اظہارِ خیال کرتے رہے اور چند علما اور اہل فکر کو چھوڑ کر دین داری اور دنیاداری دونوں کی آمیزش کو اچھی ’مسلمانیت‘ سمجھ لیا گیا۔
ان حالات میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے براہ راست قرآن و سنت پر مبنی تصورِ دین کو متعارف کرانے کا فریضہ سرانجام دیا اور ان کے انقلابی لٹریچر نے مسلم دُنیا ہی نہیں پوری عالمی سطح پر اسلام کے ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے اور مسلم اُمت کے مقصد وجود کو اقامت دین، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا میدانِ عمل مقرر فرمایا، جس کی بازگشت ساری دُنیا میں سنی جاسکتی ہے۔ اسی طرح علامہ محمد اقبال نے توحید کی وضاحت کرتے ہوئے دین کی ہمہ گیریت اور دین و سیاست کی تفریق کو اپنے شعر اور خطبات کے ذریعے مغربی تعلیم یافتہ افراد تک پہنچایا۔ اور ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ کی آواز بلند کی۔
آج پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کی طرح تجدید ِفکر کے کام کو بنیادی اہمیت دی جائے اور چار سطح پر دین کی بنیادی تعلیمات کو متعارف کروایا جائے ۔ اول: لادینیت اور دہریت پر اعلیٰ تنقیدی ، غیر معذرت پسندانہ انداز میں انگریزی اور اردو میں سلسلۂ مضامین کو پڑھے لکھے افراد تک پہنچایا جائے ۔ دوم: دین کے جامع تصور کے پیش نظر ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر اسلام اور لادینیت اور دہریت پر علمی تبادلۂ خیال کے لیے ہر ماہ دونشستیں منعقد کی جائیں ۔ اس نوع کی نشستوں میں شرکا بھر پور تیاری کے ساتھ شریک ہوں، نیز ایسی نشستوںمیں موضوعات کے ایسے ایک یا دو ماہرین کو شامل کیا جائے جو ان موضوعات پر مہارت رکھتے ہوں اور علمی حلقوں میں پہچانے جاتے ہوں ۔
اس علمی سلسلے کو بہترین حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، اور اس عمل میں تحریک اسلامی سے باہر کے ایسے افراد کو بھی شامل کیا جائے جو موضوع سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ اس عمل کو بہ تدریج آگے بڑھانے سے تحریک کے اندر اور باہر سے اہم علمی موضوعات پر مضبوط اور یکساں آواز بلند کرنے میں مدد ملے گی ۔ثالثاً: تحریک سے وابستہ نوجوانوں کے لیے منصوبہ بندی کے تحت ماہانہ مطالعاتی حلقے (Study Circles) منعقد کیے جائیں جن میں نہ صرف مولانا مودودی بلکہ دیگر علما اور مغرب کے معروف نمایندہ افراد کی فکر کو براہ راست مطالعہ میں لایا جاسکے ۔ اس مشق سے نوجوانوں میں عصری موضوعات کو سمجھنے اور مولانا مودودی کی پیش کردہ اسلامی فکر کی روشنی میں جدید نظریات کے محاکمے اور علمی دانش میں اضافہ اور گفتگو کی صلاحیت پروان چڑھ سکے گی۔
ان خطوط پر تعمیر سیرت و کردار کے ذریعے ایک نئی باشعور مسلمان نسل کو دورِ جدید کے دہریت، الحاد اور لادینیت کی یلغار کا مثبت طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔ یہ کام اسلام کے قرآنی اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی تصور کی روشنی میں قابلِ فہم ابلاغ کے ذریعے انجام پائے گا۔
قرآنِ کریم اہلِ علم اور لاعلم افراد میں نمایاں فرق کرتا ہے اور حصولِ علم کو تفہیم دین کے لیے ایک اہم فریضہ قرار دیتا ہے ۔ پہلی وحی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ پڑھنا اور قلم کا استعمال کرنا دعوت دین و تفہیم دین کا زینہ ہے :
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۵ۭ (العلق۹۶:۴-۵)جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو وہ علم دیا جس سے وہ پہلے آگاہ نہ تھا تاکہ وہ اس علم کو قول و عمل دونوں ذرائع سے دوسروں تک پہنچا سکے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل تمام انبیا ـؑ کے مبعوث کیے جانے کے مقاصد میں تعلیم ، تذکیر ، تزکیہ کو بنیادی مقام دیا گیا ہے۔ اور یہ امر بھی نبوت کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ دین سربلند ہو اور بالآخر غالب ہوکر رہے:
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۱۶۴ ( اٰل عمرٰن۳:۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کا تزکیہ کرتا ہے (سنوارتا ہے)اور ان کو کتاب اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
ہر صاحب ِایمان کو بلا تفریق جنس اور عمر یہ دعا سکھائی گئی تاکہ ان میں اللہ کی خشیت میں اضافہ ہو ، گویا علم اللہ کی خشیت پیدا کرتا ہے:
اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۲۸ (الفاطر ۳۵:۲۸) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔
اہل علم سے سوالات کے ذریعے دین کا علم حاصل کرنا ایمان کی صفت قرار دیا گیا:
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۴۳ (النحل ۱۶:۴۳)سو، اگر تمھیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔
اس حوالے سے جامعات میں نہ صرف معاشرتی علوم بلکہ اطلاقی علوم کے اُن ماہرین کو تلاش کیا جائے، جو تحریک سے وابستگی نہ ہونے کے باوجود اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں، نیز بنیادی اخلاق پر عمل پیرا ہوں ۔ ایسے افراد ہر جگہ موجود ہیں۔ صرف ان تک رسائی اور انھیں تحریک دے کر ایک علمی تربیتی ماحول سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ افراد جامعات میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ، اساتذہ کے احترام میں کمی ، علم کو محض مالی فائدہ کے لیے استعمال کرنے اور مغرب سے مرعوبیت کے رجحانات کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے مثبت طور پر غالب کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ کام تحریک سے وابستہ افراد سب سے بہتر کرسکتے ہیں۔ مسئلہ صرف ترجیحات کی درستی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مولانا مودودی نے تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کو اولیت دی۔ اس کے ساتھ اسلامی فکر اور احکام کے ذریعے معاشرے میں امن و انصاف کے نظام کے قیام کا حکم دیا گیا ہے (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج الحدید ۵۷:۲۵)۔ تحریک میں جب تک ان امور کو ترجیح نہیں دی جائے گی ، اس وقت تک تعلیم و تحقیق کے متحرک ادارے وجود میں نہیں آسکیں گے اور اسلامی بنیادوں پر تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
نہ صرف اہل علم بلکہ ہر مسلمان پر بلا تفریق جنس اور عمر اور خصوصاً ان باشعور افراد پر جو دین کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک تحریک سے وابستہ کریں، یہ فریضہ عائد کر دیا گیا کہ وہ شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بن کر اپنے عمل اور علم کے ذریعے اسلام کی عالم گیر تعلیمات کے نفاذ کےلیے استقامت کے ساتھ ہرممکنہ ذریعے سے جدوجہد کریں :
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اس فریضہ کو مزید وضاحت سے اس گروہِ اہل ایمان کے سپرد کر دیا گیا جو اعلائے کلمۃ الحق کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہو :
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱۰۴ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے ، وہی فلاح پائیں گے۔
اتنی واضح ہدایات کے بعد اگر معاشرے میں دین کی بنیادی تعلیمات و عقائد سے لاعلمی پائی جائے،تو اس کی بڑی ذمہ داری اس گروہ پر ہے جو دین کی بنیاد پر منظم ہوا ہو ۔ گویا دین کی تفہیم اور بنیادی عقائد توحید ، رسالت اور آخرت سے آگاہی کے ساتھ اپنے معاملات کو کھرا ، سچا اور اپنی دعوتِ حق کا نمایندہ بنا کر ہی کوئی اسلامی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔ تحریک سے وابستہ افرادکو توازن ، نرم گفتاری اور مخالفین کے لیے بھی عدل و انصاف کے رویوں کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ قرآن تقاضا کرتا ہے کہ ہم ذات برادری ،شخصیات ،نسلی ، لسانی ، تنظیمی ، سیاسی تعصبات سے بالا تر ہوکر ہر طرح کے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف حکمت اور جرأت کے ساتھ آواز بلند کریں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚۚ (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو ، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ زبان سے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف دعوے کرنا اور عملاً معاشرے میں رونما ہونے والے مختلف سماجی و سیاسی ظلم اور ناانصافی کے واقعات پر خاموشی اختیار کرنا، قول و فعل کے تضاد کے مترداف ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۳ (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔
قرآن کریم نے ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو قول و فعل میں یکساں ہواور مسلسل دعوت و اصلاح کا جامع کام کرے ۔ وہ جماعت قرآنی حکم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی بجاآوری کے لیے مسلسل متحرک ہو اور منظم انداز میں حکمت اور تدبر کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائے۔
تحریک اسلامی اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کسی اور گروہ کے مقابلے میں زیادہ جواب دہ ہے۔غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا تحریک آج کے دور کی زبان میں نوجوان نسل کے لیے دین یعنی قرآن و سنت کے پیغام اور اس کی تفہیم کے کام کو ترجیحی بنیاد پر کر رہی ہے؟ اگر وہ معاشرتی اصلاح ، معاشی اصلاح ، اور اداروں کی اصلاح چاہتی ہے، تو کیا ترجیحات میں سب سے اول ترجیح دعوت الی اللہ ہے یا بعض عصری مطالبات اسے مشغول رکھے ہوئے ہیں؟جس کے منفی اثرات بنیادی دعوتی کام پر پڑ رہے ہیں۔
ایک مسلم ملک میں جس کا دستور اس کی عدلیہ ، مقننہ ، ریاست اور تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند کرتا ہو کہ وہ اپنے عوام کو قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ کرے، ملک میں قرآن و سنت کے نظام معیشت ، معاشرت ، صحافت ، ابلاغ عامہ، تعلیم ، عدلیہ غرض ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کو نافذ کرے۔ دیکھنا ہوگا کہ دستور کی اس شق پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں___ اگر نہیں تو اس کے لیے کون سے دیگر دستوری ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہے؟ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے ریاست ملک کی ۹۷ فی صد مسلم آبادی کی دستوری ضرورت کو پورا کر رہی ہے یا ۳ فی صد اقلیتی آبادی کی خوشنودی کے لیے ۹۷ فی صد اکثریت کےقرآن و سنت سے آگاہی کے حق کو نظرانداز کیا جارہا ہے؟
چار سالہ ڈگری پروگرام میں سرکاری تعلیمی اداروں میں محض دو کریڈٹ گھنٹے یعنی ہفتہ میں ایک مرتبہ یا اس سے بھی کم ’اسلامیات‘کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں معاشرتی علوم یا دیگر تجرباتی علوم جن کی بنیاد میں لادینی فکر موجود ہے، وہ ۱۲۵ تا ۱۳۰ تعلیمی گھنٹوں میں روزانہ کی بنیاد پر پڑھائے جارہے ہیں، کیا اس طرح ریاست نوجوان نسل کو قرآنی پیغام سے آگاہی کی دستوری ذمہ داری سے سبک دوش ہو سکتی ہے؟ اور کیا تحریک سے وابستہ افراد بھی اس کا احساس رکھتے ہیں اور اس پر کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
قرآن کریم اسلامی ریاست کو ( جو دستوری طور پر پاکستان ہے) اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلام کے معاشی نظام (زکوٰۃ) اور نظام عبادات (صلوٰۃ) کو حکومتی اختیارات کے ذریعے نافذ کرے ۔ کیا اس آئینی و دستوری تقاضے کی تکمیل کے لیے ہم ریاست کو اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں؟ آئین کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں اور جدید تعلیم یافتہ دینی طور پر باشعور اور متحرک افراد کے ساتھ مسلسل مشاورت اور مکالمہ کے عمل کے ذریعے دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کی راہیں تلاش کی جائیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲:۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز (کا نظام) قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے (حلال معیشت کے قیام کے ذریعے)، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہاں قرآن کریم نے یہ بات دوٹوک انداز میں واضح کر دی ہے کہ اہل ایمان میں سے جس گروہ کو بھی زمین میں اقتدار دیا جائے، تو وہ نہ صرف اسلام کے نظام عبادات ( نماز اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام) پر اس کی روح کے مطابق عامل ہوگا بلکہ معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے بھلائی ، پاکیزگی ، حیا کی اشاعت و قیام اور بے حیائی، عریانی و فحاشی، بدگوئی ، جھوٹ ، الزام تراشی ، منکر اور برائی کے تمام مظاہر کو حکومتی اور اداراتی اختیارات کے ذریعے ختم کرے گا ۔ دوسری جانب محض ریاستی اور اجتماعی ہی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر ہر فرد اپنے گھر کا سربراہ ہے اور اہل خانہ کے امور کانگران ہے ۔ علاوہ ازیں جو فرد کسی ادارے ، دفتر یا کسی بھی سطح کا ذمہ دار ہے، تو اس کی ذمہ داری بھی ایسی ہی ہے جیسا کہ حکومت عوام کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح وہ فرد بھی اپنے گھر ، دفتر ، ادارہ و دیگر کے بارے میں اللہ ربّ العزت کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسی بات کو حدیث مبارکہ میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہرشخص نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔(صحيح ، متفق علیہ)
اس غرض کے لیے ایک طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو ذرائع موجود ہیں ان کا استعمال کیا جائے ۔
یہ وہ بنیادی کام ہیں جن کو ذمہ داری سے ادا کیے بغیر ہم الحاد ، مادیت ، لادینیت اور دین و دنیا میں تفریق سے غیر توحیدی تصور کی اصلاح نہیں کر سکتے ۔یہ وہ فریضہ ہے جسے اقامت دین اور کلمۂ حق کے قیام کے عنوان سےقرآن کریم نے پکارا ہے اور جس کی ادائیگی کے لیے ’خیراُمت ‘ کو پیدا کیا ہے۔
ہمیں جو ’امت وسط‘ بنایا گیا ہے ، اس کی وجہ ہماری نسل ، رنگ ، زبان نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ہماری ذمہ داری دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کے باب میں ہے۔ اس غرض کے لیے ہرکلمہ گو کو آگے بڑھ کر عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم، معیشت ، سیاست ، ثقافت ، ابلاغِ عامہ، ہر شعبۂ زندگی کی ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علم کی تدوینِ جدید اور بغیر دُنیاوی معاوضے کے، ایک صالح نظام معاشرت ، معیشت و سیاست کے قیام کے لیے افرادِکار کی تیاری کو ترجیحی بنیاد پر کرنا ہو گا۔ نوجوان ہمارا اصل اثاثہ ہیں ۔ اگر یہ کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ۱۰فی صد افراد جو دینی تعلیم سے آگاہ نہ ہونے کے سبب الحاد کا شکار ہو رہے ہیں، اور وہ افراد بھی جو دین کی لاعلمی کا شکار ہیں، انھیں قرآن پاک اور سیرت نبویؐ کے زیر سایہ لا کر پاکستان کے فعال ، تعمیری اور متحرک افراد میں تبدیل نہ کیا جاسکے ۔ اللہ ہمیں اقامت دین کی اس عظیم ذمہ داری کو احسن انداز میں سمجھ کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی قوم اور خصوصیت سے موجودہ قیادت کو قطعاً احساس نہیں کہ پاکستان کتنی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کے قیام کی جدوجہد میں لاکھوں انسانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور بڑے نامساعد حالات میں قائداعظم محمدعلی جناح ؒکی بصیرت اور عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ ملک قائم ہوا جوہمارے ہاتھوں میں امانت ہے۔ یہ ہمارا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے۔
مَیں نے ۴دسمبر ۱۹۴۷ء کو اپنی آنکھوں سے قرول باغ، دہلی میں اپنے گھر کو بلوائیوں کے ہاتھوں لُٹتے دیکھا ہے۔ مجھ پر اور میرے خاندان پر ایک رات ایسی بھی گزری ہے کہ جان بچانے کے لیے پانچ جگہیں تبدیل کرنا پڑیں۔ انسانوں کی جلتی ہوئی لاشوں کی بُو سونگھی ہے۔ایک مہینہ مہاجرین کے کیمپ قلعہ شیرشاہ میںزمین پر، دریوں پر زندگی گزاری ہے۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ہرسطح پر کارفرما موجودہ قیادت کس غفلت ، فکری انحطاط، بے فکرے پن، اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے مسائل کو یکسرنظرانداز کر رہی ہے اور ملک مسائل اور بحرانوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ ان حالات میں اجتماعی زندگی کے پانچ اہم پہلوئوں کے بارے میں اس مضمون میں ڈاکٹر انیس احمد نے بنیادی نقشۂ کار کی طرف متوجہ کیا ہے، جس پر عمل کرکے بحران سے نکلنے کا سامان فراہم ہوسکتا ہے۔مدیر]
ملک عزیز کے ۷۰سالہ اُتار چڑھاؤ کی تاریخ پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایک غیرجانب دار مبصر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہ ملک کی بار بار آزمائی ہوئی سیاسی جماعتیں ملّی مفاد کی جگہ انتخابی سیاست کی شطرنجی بساط کو زیادہ اہمیت دیتی رہی ہیں۔ آج ملک جس سیاسی ، معاشی، دفاعی اور سب سے زیادہ اخلاقی بحران کا شکار ہے، وہ ان کی ا نتخابی سیاست کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ہر وہ جماعت جو کسی اتحاد کی بنا پر یا کسی حوالے سے اپنی اکثریت کی بنا پر برسرِ اقتدار آئی، اس نے یہی سمجھا کہ اب نہ صرف سیاست بلکہ پوری ریاست بھی صرف اس کی میراث ہونی چاہیے۔ اس کی مثال ان دوسگے لیکن خود غرض بھائیوں کی طرح ہے، جو زمین کی تقسیم پر ایک دوسرے کی کردار کشی ، الزام تراشی اور اتہام بازی سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ وہ گھنائونی حرکت ہے جسے قرآن کریم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملت کے وجود کے کے لیےزہر قاتل قرار دیا ہے۔ افسوس ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں پوری تندہی کے ساتھ یہ کام کرنے میں مصروف ہیں اورقوم کے مستقبل سے بے نیاز ہوکر ملک کو تباہی کی طرف لے جانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ آج جو ہنگامی سیاست کی فضا ملک میں قائم ہے اور ہر فریق دوسرے کی ذات، عزّت، شخصیت اور وقار کو نشانہ بنارہا ہے، اس کے نتیجے میں انتشار اور توڑ پھوڑ کے لیے کسی بیرونی دشمن کے حملے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔
اس نازک صورتِ حال میں بلاتاخیر ذاتی اور اجتماعی احتساب کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ، رب کریم کے حضور استغفار اور اجتماعی توبہ اور رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے ۔ حالات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقۂ خیال کے افراد یکسو اور یکجا ہو کر پانچ اہم اُمور کے لیے صف بستہ ہوجائیں، جس میں ابلاغ عامہ اپنی سنسنی خیزیت کو ملتوی کرتے ہوئے ملک و ملت کو ایک تعمیری راستے کی طرف لانے کی کوشش میں تعاون کرے :
اس تناظر میں ملک و ملت کو دستور پاکستان کی حرمت و تحفظ کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ دستور ملکی اتحاد، نظریاتی تحفظ اور جمہوری روایات کا امین ہے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہماری کمزوری دستور نہیں ہے بلکہ دستور سے مذاق و انحراف کرنے والے افراد اور ادارے ہیں ۔اس خرابی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر منتقل کرنے سے یہ صداقت تبدیل نہیں ہو سکتی ۔
موجودہ صورت حال میں ایک پھل فروش سے لے کر کالج کے ایک طالب علم اور کسان تک یہ یقین رکھتا ہے کہ اداروں کے دائرہ کار اور حدود پر عمل کرنے میں توازن کافقدان ہے۔ خاص طور پر الیکشن کمیشن بظاہر اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہا۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مشکوک انتخابی عمل اور حکمران سیاسی جماعت کو کامیاب بنانے کے لیے کی جانے والی انتخابی بے ضابطگیوں نے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہےاوراس ادارے کی غیر جانب داری کو مشتبہ نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور پارلیمان کے نمایندوں نے قوم کےا عتماد کو نقصان پہنچایا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستوری اداروں پر قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ۔
ملک کے ایک حصے میں لسانیت اور علاقائیت کو مسلسل فروغ دیا جا تا رہا ہے، لیکن ملک کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر میں جب تحریک اسلامی نے صحیح حکمت عملی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دعوت کو اختیار کیا، تو اس شہرکے عوام نے عصبیتوں کو رَد کر کے تحریک پر اعتماد کا اظہار اپنے ووٹ سے کیا ۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اگر قوم کو صیحح حکمت عملی سے متوجہ کیا جائے، تو وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنا جانتی ہے اور انتخابات میں اپنا حق اعتماد سے استعمال کرسکتی ہے۔
ایک ایسے سیاسی بیانیے کی ضرورت ہے جو ملک کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی انتشار کو دُور کرنے کے لیے ان اقدامات پر مبنی ہو جو قابل عمل ہوں ، متعین ہوں، عمومی نوعیت کے نہ ہو ں بلکہ مقرر اہداف کی شکل میں ہوں۔ مروجہ سیاسی زبان میں دوسری جماعتوں پر الزام تراشی اورا نھیں بدعنوانی کا ذمہ دار ٹھیرا کر مخالفت برائے مخالفت کی جاتی ہے ، اس کی جگہ دعوتی اور اصلاحی زبان میں شائستگی سے اختلاف کی روایت کو فروغ دیا جائے ۔ اہل اور ایمان دار افراد کو تلاش کیا جائے اور ایک قابلِ عمل معاشی ترقی کے پروگرام کو عزم و ہمت اور نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے بنیاد بنایا جائے۔ ملک کے سیاسی منظرنامے میں متحرک نوجوان قیادت میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے اور وہ زیادہ فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی ہمت افزائی کی جائے جو ۳۰ تا ۳۵ سالہ عمر کے ہوں اور قیادت کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ معاشرتی فلاحی کاموں میں شریک ہوں، جیسے الخدمت فائونڈیشن کام کر رہی ہے۔
گذشتہ دو عشروں میں قوم بہت تیزی کے ساتھ اخلاقی زوال کا شکار ہوئی ہے۔ سیاسی، معاشرتی، حتیٰ کہ مسلکی زبان میں بھی شائستگی کی جگہ بد تہذیبی کو عام کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ملک کے تعلیم یافتہ افراد مایوسی اور لاتعلقی کا شکار ہوئے ہیں اور انھیں مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی مسیحا کی شدت سے تلاش ہے ۔ مسائل کے گھنے بادلوں میں وہ امید کی کوئی کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس معاشرتی نااُمیدی کو دُور کرنے کے لیے تحریک اسلامی ایک مثبت اور تعمیری سمت فراہم کر سکتی ہے، اور اپنے عام فہم اور قابل عمل معاشی ، سیاسی اور اخلاقی حل کے ذریعے تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا منشور جو حال ہی میں جاری کیا گیا ہے، ایک قیمتی رہنما دستاویز ہے۔
اس صورتِ حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کے فلاحی کردار کو اجاگر کیا جائے اور حقوق العباد کے کاموں میں الخدمت کی طرح زیادہ سے زیادہ سرگرمی کی طرف توجہ دی جائے، لیکن اس نیت کے ساتھ کہ ہم اس کا اجر صرف اللہ سے چاہتے ہیں ۔ اگر نیت درست ہوگی تو وہ جو دلوں کے حال سے آگاہ ہے، اپنے بندوں سے (جو نماز اور زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ پر عامل ہوں) وعدہ فرماتاہے کہ انھیں میراث میں جنت دی جائے گی ۔ گویا اصل کامیابی پارلیمنٹ کی کرسی نہیں بلکہ جنت کا حصول ہے ۔اس دنیا کی ساری کوششوں کا محور و مرکز دنیا کی شان وشوکت نہیں ہو نا چاہیے بلکہ آخرت ہونا چاہیے، ہاں اگر وہ جو ہر شے کا مالک ہے، اپنے بندوں کے خلوص سے خوش ہو کر انھیں یہاں بھی میراث میں سے کچھ دے دے تو یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے۔
اقامت دین کی جدوجہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس سرزمین کے عطیے کو جو اس نے اپنے دین کے قیام و فروغ کے لیے دیا ہے، اس کی سالمیت ا ور یہاں پر دستور کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، عوام کو درپیش معاشی اور اخلاقی مسائل کا ایک قابل عمل حل پیش کرنا اور اس کے لیے عوام کو منظم اور متحرک کرنا تحریک اسلامی کی خصوصی ذمہ داری ہے۔تحریک اسلامی اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے کہ اس نے ملک کی سالمیت اور مظلوم عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ا صل جواب دہی اس دنیا کی پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ مالک کائنات کے حضور پیشی کے وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی اور اس کے ہر کارکن کو اس بڑی پیشی میں سرفراز فرمائے،آمین!
اس سلسلے میں علما، والدین، میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے ہر طبقے اور ہرحصے میں وقت کی ضرورت کے مطابق دعوت اور اصلاح کے کام کو منظم اور متحرک کیا جاسکے۔
قرآن کریم نے انتہائی مختصر اور جامع انداز میں رمضان کے روزوں کا بنیادی مقصد صرف ایک ترکیب میں بیان کر دیا ہے یعنی ’حصولِ تقویٰ‘۔ اس کے ساتھ ہی جو ترکیب استعمال کئی گئی ہے، وہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ روزوں کےاہتمام کے بعد بھی تقویٰ کا حصول متوقع تو ہے لازمی نہیں ہے۔یعنی جب تک تقویٰ کے حاصل کرنے میں خلوصِ نیت، رضائے الٰہی اور ہر اس کام سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہیں ہوگی جو رب کریم کو ناپسند ہے، روزوں اور تمام رات کی نماز کے باوجود روزہ کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اسی لیے فرمایا گیا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ۙ (البقرہ۲:۱۸۳)اےلوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑکے پیروکاروں(اُمتوں ) پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی ۔
تقویٰ کا مادہ’وقایہ ‘ہے جس کا مفہوم لغت میں اپنے آپ کو روکے رکھنے، بچانے اور بعض چیزوں سے احتیاط کرنے کا ہے ۔ ہم عام طور پر تقویٰ کو اس طرح لیتے ہیں کہ محض چند کاموں سے بچنا چاہیے۔ یہ اگرچہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر تقویٰ کے مفہوم کو خود قرآن کریم میں تلاش کیا جائے تو سورۂ بقرہ ہی میں اس کی تعریف مل جاتی ہے جو تقویٰ اور صدق کو کم از کم ۱۴ متعین اعمال سے وابستہ کرتی ہے اور ان میں محدود نہیں کردیتی:
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۱۷۷ (البقرہ ۲:۱۷۷)
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
یہ آیت البر تقویٰ کی جامع تعریف یہ بیان کرتی ہے کہ جب ایک صاحب ِایمان مرد ہو یا عورت ، جوان ہو یا بزرگ، ان چودہ اعمال کو اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ایمانِ صادق اور تقویٰ پر عامل ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ آیت میں ترتیب سے حسب ذیل چودہ اعمالِ تقویٰ بیان کیے گئے ہیں:
۱- توحید یعنی ایمان باللہ ۲-آخرت پر ایمان۳- ملائکہ پر ایمان۴-نازل کردہ کتابوں پر ایمان۵-انبیا ؑپر ایمان ۶-اپنا پسندیدہ مال اقربا پر خرچ کرنا ۷-یتامٰی پر خرچ کرنا۸-مساکین کی خبر گیری ۹-مسافروںکی امداد ۱۰- ہاتھ پھیلانے والوں کی ضرورت پوری کرنا ۱۱-غلاموں کی رہائی پر خرچ کرنا۱۲-زکوٰۃ ادا کرنے پر خرچ ۱۳-اپنے وعدوں کو پورا کرنا ۱۴-تنگی اور مصیبت میں اور حق و باطل کے معرکہ میں استقامت اورتحمل اختیار کرنا ۔
گویا رمضان کے روزے جس تقویٰ کو پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ محض بعض اعمال و افعال یعنی چیزوں سے بچنا اور احتیاط کرنا نہیں ہے بلکہ یہ چودہ اعمال و افعال وہ ہیں جن کو یہ آیتِ مبارکہ تقویٰ اور صدق قرار دیتی ہے ۔ اس میں غور طلب پہلو یہ ہے کہ ان چودہ مثبت کاموں میں صرف دو وہ ہیں جن کا ہم پوری توجہ سے رمضان میں اہتمام کرتے ہیں، یعنی نماز اور زکوٰۃ۔
جن چیزوں سے بچنے کا تصور رمضان اور تقویٰ کے الفاظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں آتا ہے، یہ ممنوع اعمال بہت معروف ہیں۔ قرآن نے انھیں جگہ جگہ بیان کر دیا ہے، یعنی قتل ناحق، چوری ، زنا ، جھوٹ ، شرک اور دیگر منکرات و فواحش، جب کہ تقویٰ محض ان سے بچنے سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔
جس طرح آیت البر تقویٰ کے مثبت پہلو کو واضح کرتی ہے ،ایسے ہی سورۃ الحجرات ان اجتماعی برائیوں کی وضاحت کر دیتی ہے، جن سے عموماً رمضان کے دوران بھی شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی :
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اُس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو،اور نہ نبیؐ کے ساتھ اُونچی آواز سے بات کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔ جو لوگ رسولِؐ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں، وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اور اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر ِعظیم۔
اے نبیؐ، جو لوگ تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔ خوب جان رکھو کہ تمھارے درمیان اللہ کا رسولؐ موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمھاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہوجائو۔ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنادیا، اور کفروفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رَو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
اوراگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر اِن میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کےدرمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے۔(الحجرات ۴۹:۱-۱۳)
۱-اللہ اور رسولؐ کے واضح احکام کی روشنی میں اپنی رائے اور فکر کے مطابق فیصلہ نہ کرنا ۲- اپنی آواز کو رسولؐ اللہ کی آواز سے بلند نہ کرنا۳- غیر مصدقہ اطلاعات اور خبروں کو بلا تحقیق نہ پھیلانا ۴- اہل ایمان کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤ کو دُور کرنے کی کوشش کرنا ۵-اگر دو گروہ جنگ پر آمادہ ہو جائیں تو صلح کی کوشش کرنا اور بھائیوں کے درمیان تعلقات کی اصلاح کرنا ۶-لوگوں کا مذاق نہ اڑانا ۷-ایک دوسرے پر طعن نہ کرنا ۸- ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد نہ کرنا ۹- ظن اور گمان کی بنیاد پر بدگمانی میں مبتلا نہ ہونا ۱۰-تجسس نہ کرنا ۱۱-غیبت نہ کرنا ۱۲-اپنے قبیلے ، برادری ، ذات پر فخرنہ کرنا ۱۳- تقویٰ کی روش اختیار کرنا ۔
یہاں جو اہم پہلو غور طلب ہے وہ یہ کہ رمضان کے دوران سورۃ الحجرات کے احکامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا ان اجتماعی برائیوں اور خرابیوں سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ کیا ہم اس ماہ میں ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے، دلوں سے نفرتیں دُور کرنے ، غیر مصدقہ سوشل میڈیا کے استعمال اور منفی فکر کی جگہ معاشرے کے مظلوم طبقات کی عملی امداد ، نوجوانوں میں تیزی سے پھیلنے والی خرابیوں اور نشہ آور ادویات کے استعمال کے خلاف شعور بیدار کرنے کی منظم کوششیں کرتے ہیں؟
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْۚ (الحجرات۴۹:۱۰)بے شک سب مومن آپس میں بھائی ہیں۔ تم اپنے بھائیوں میں صلح کرائو۔
تقویٰ کے مثبت تصور کو سمجھنا اور اسے اپنے طرز ِعمل کے ذریعے معاشرے میں متعارف کروانے کا نام ہی دعوت و اصلاح ہے ۔ انبیائے کرامؑ نے زبانی جمع خرچ کی جگہ اپنے دور میں مظلوم طبقات کے حقوق کے حصول کے لیے کوشش کی اور وہ جو کل تک غلام تھے، اُمت کے قائد بن گئے۔
يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ
اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۱۳۵ (النساء ۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا توجان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔
گویا اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو اختلاف کو ایک طرف رکھ کر اس کے حق کا تحفظ کرنا تقویٰ اور حق کا مطالبہ ہے ۔دین ہمیں ہر صورت حال میں چاہے وہ سیاسی ہو ، معاشی ہو ، دفاعی ہو یا معاشرتی اور ثقافتی ہو، مقاصد شریعہ کی روشنی میں واضح راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ شریعت کا اصول ہے کہ کسی کو ضرر نہ پہنچایا جائے ، کسی کی شہرت کو خراب نہ کیا جائے ، اختلافات کو حکمت کے ساتھ دُور کیا جائے کیوں کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا:
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۱۹۰ (البقرہ ۲:۱۹۰)اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
آج ہمارے معاشرے میں ظلم و ناانصافی کی بے شمار شکلیں رائج ہیں۔ اگر معاشرے میں کسی طبقے کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہو تو اس طبقے کی مدد کرنا اور اسے ظلم و زیادتی سے نجات دلانے کے لیے آئینی ، قانونی مدد فراہم کرنا امت کا اجتماعی فریضہ ہے ۔ سورۃ النساء میں مجبور اور کمزور عورتوں، بچوں اور افراد کے بارے میں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ کون ان کو ظلم و استحصال سے نجات دلائے گا –؟ یہ اجتماعی فریضہ امت مسلمہ کا ہے کہ وہ ہرمظلوم پر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور مظلوم کی مدد کرے ۔ کیا رمضان کے روزے ہمارے اندر اس رویے کو پیدا کرتے ہیں یا ہم نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟
دین میں بنیاد ایمانی، معاشرتی ، سیاسی اور ثقافتی رویے ہیں ۔ ایک کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا اورحق کی حمایت کرنا، اللہ کے بندوں کے حقوق کا پورا کرنا ہے ۔ یہ وہ حق ہے جسے اللہ ربّ العزت جو سراپا عفو و درگزر اور مغفرت ہے، وہ بھی قیامت کے دن اُس وقت تک معاف نہیں فرمائے گا ، جب تک وہ جس پر ظلم ہوتا دیکھ کر ہم خا موش رہے خود معاف نہ کر دے ۔
اس عظیم امتحان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حقوق العباد کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط اور دل کو ہر قسم کے تعصب ، رنجش اور تکلیف سے پاک کر کے صرف اللہ کی رضا کے لیے مظلوم کی حمایت کی جائے اور اسے ظلم سے نجات دلائی جائے ۔ تقویٰ کے مثبت پہلوؤں کے پیش نظر جن کاموں کو پورے اہتمام کے ساتھ رمضان میں کرنے کی ضرورت ہے ، ان میں قرآن پر غور و تدبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ، توحید اور زندگی کے تمام معاملات میں توحیدی رویہ اختیار کرنا سب سے زیادہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
توحید کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اللہ کو رب ماننے کے ساتھ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت پاک کو اپنے رویوں اور معاملات میں اختیار کرنے کی شعوری کوشش کریں اور اس دنیا کی زندگی کو انتہائی عارضی اور مختصر سمجھتے ہوئے اپنے تمام اعمال کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہم نے آخرت کے لیے کیا سامان کیا ہے؟ خصوصاً رمضان کے آخری عشرے میں تنہائی میں اپنا احتساب کرنے کے ساتھ آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کو بہتر بنانے کا عہد اور عزم کیا جائے ۔ اس مبارک مہینے میں کسی ایک ایسے رشتے دار کو جس سے رابطے میں کمی آگئی ہو ، خصوصاً تحفے کے ذریعے ، ملاقات کے ذریعے اور (درحقیقت) اللہ کے لیے اپنے قریب لایا جائے ۔
رمضان میں جو لوگ مانگنے کے لیے آئیں، انھیں دھتکارا نہ جائے بلکہ جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کر دی جائے ۔ اپنے گھر والوں پر کھلے دل کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ جو لوگ ملک میں یا ملک سے باہر قیدی بنالیے گئے ہوں،ان کی رہائی کے لیے ان کی مالی مدد کی جائے، یا کم از کم ان کے لیے دعا کی جائے۔ الخدمت فائونڈیشن جن یتیموں اور بیواؤں اور مستحقین کی امداد کر رہی ہے، اس کام میں تعاون کیا جائے، کیوں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نہایت کشادہ ہاتھ سے دوسروں کی مدد فرماتے تھے جیسے خیرو برکت کی بارش ہو رہی ہو ۔
قرآن کریم نے اسلام کی دعوت کو انتہائی مختصر اور عام فہم انداز میں ایک مختصر سی آیت کریمہ میں سمو دیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے بنائے ہوئے تصوراتی اور مادی خداؤں اور اداروں کی غلامی سے آزاد ہو کر صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی اور پناہ میں آجائے۔ فرمایا:
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶) اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔
آیتِ مبارکہ مثبت اور تعمیری پہلو پر متوجہ کرتے ہوئے یاد دہانی کراتی ہے کہ تمام بندگیوں سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کی جائے۔ اقتدار مکمل طور پر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔ انسانی عقل اور قیاس نے جو معبود تراش لیے ہیں، وہ سب’طاغوت‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ طاغوت انسانوں پر اپنے اختیارات اور قوت کا خوف طاری کر کے اللہ کے بندوں کو صراط مستقیم سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ کامیاب حربہ فوری فائدے اور فوری کامیابی کا تصور ہے۔
شیطان اور اس کی ذُرِّیت بندگانِ خدا میں جلد سے جلد حصولِ اقتدار کی خواہش بیدار کرکے انھیں ایسے راستے کی طرف لے جاتی ہے، جو آخر کار معصیت اور گمراہی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ’طاغوت‘ بڑی چالاکی سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کی جدوجہد میں دو نسلیں گزر گئیں ۔ ۷۰،۸۰سال کی تگ ودوکے بعد بھی وہ عوام کی ایک محدود تعداد ہی کو اپنے ساتھ شامل کر سکی اور عوام یہ جاننے کے باوجود کہ اس تحریک کے کارکن ایمان دار، امانت دار اور بے غرض ہو کر صرف اللہ کے لیے کام کرتے ہیں، مگر انتخابات میں اُنھیں ووٹ نہیں دیتے۔ وہ ووٹ انھی افراد کو دیتے ہیں جن کے دامن کبھی صاف نہیں رہے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ افراد ان کے جائز و ناجائز روز مرہ امور میں ان کو فائدہ پہنچا سکیں گے ، لہٰذا ووٹ انھی کو دیا جائے۔ یہ صورتِ حال عموماً حق کے لیے کام کرنے والوں میں مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا کرتی ہے کہ کیوں نہ جن افراد کے کامیاب ہونے کا امکان ہے ، انھی کے ساتھ کوئی مفاہمت کر کے راستہ نکالا جائے۔
یہ طے کرنے کے لیے کہ مفاہمت کی گنجایش کہاں تک ہے؟ اسلامی فقہ میں ’سیاست شرعیہ‘ کا تصور پایا جاتا ہے ، جو مصلحت ِعامہ کی بنا پر چند مخصوص صورتوں میں کم تر برائی کو برداشت کرنے اور ملک میں افراتفری اور فساد پیدا ہونے کے خطرے سے بچنے کے پیش نظر وقتی طور پر ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس میں اصولوں سے انحراف نہ ہو اور شریعت کے کسی مقصد کی مخالفت بھی نہ ہوتی ہو ۔
اس جدو جہد میں بعض اوقات یہ گمان بھی ذہن میں آتا ہے کہ کب تک اس صبح کا انتظار کیا جائے گا جب اللہ کی حاکمیت اس کی زمین پر اپنی مکمل شکل میں نافذ ہوسکے؟ یہ احساس عموماً مستقبل سے نااُمیدی اور مایوسی پیدا کرتا ہے، لیکن قرآن کریم نے اس وسوسے کا جو تجزیہ اور حل پیش کیا ہے، وہ قیامت تک تحریکات اسلامی کے لیے مشعل راہ ہے۔
قرآن کریم نے اس انسانی نفسیات اور تحریک اسلامی کو پیش آنے والے ایسے مراحل کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے، تاکہ اقا مت دین کی جدو جہد کرنے والے افراد اور قیادت کو اپنی قلتِ تعداد پر مایوسی اور دل شکستگی نہ ہو ، بلکہ اپنی دعوت پر اعتماد میں مزید اضافہ ہو اور حصولِ منزل کے الٰہی وعدوں پر یقین میں کمی نہ آنے پائے ۔فرمایا:
فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہِمْ اَنْ يَّفْتِنَھُمْ۰ۭ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاَرْضِ۰ۚ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ۸۳ (یونس ۱۰:۸۳) (پھر دیکھ کہ) موسٰی کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا،فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔
سورئہ یونس کی یہ آیت تحریک اسلامی کی موجودہ صورتِ حال میں ہمیں راہنمائی فراہم کررہی ہے۔ یہاں بات یہ کہی جا رہی ہے کہ وقت کی جابر اور ظالم قوت (وہ حاکمِ وقت ہو یا کوئی ادارہ ہو، جس کے بارے میں ہر فرد کو معلوم ہے کہ وہ جس فرد کو خطرہ سمجھے، اسے ختم کرنے ، دبانے اور خریدنے کی پوری کوشش کرتا ہے) اس لیے ایسی قوت کے خلاف آواز اٹھا نا یا میدانِ عمل میں نکل کر مخالفت کرنا خطرات کو دعوت دینا ہے۔
قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ اگر وہ چند افراد جو حق پر ایمان رکھتے ہوں استقامت، صبر اور توکل الی اللہ کے ساتھ صحیح حکمت عملی اختیار کریں تو قلت تعداد کے باوجود، آخر کار غالب وہی رہتے ہیں۔فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵ (الانفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔
یہاں قرآن کریم نے چند الفاظ میں عروج و زوال کے اہم اصول کو بیان کر دیا ہے کہ اگر صرف ۲۰؍ افراد ایسے ہوں جو ایمان اور عمل میں یکساں ہوں اور ا ن پر جلد کامیابی کے نتائج کی نفسیات طاری نہ ہو، وہ صٰبِرُوْنَ ہوں ، ان میں مستقل مزاجی ہو ، وہ قلت تعداد کی بنا پر اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں ، اپنے ربّ پر بھروسا رکھتے ہوں اور وقت کی بہترین حکمت ِ عملیوں کے استعمال سے آگاہ ہوں، یعنی ان میں استعداد (capacity)، قابلیت (ability ) اور صلاحیت (capability) پائی جاتی ہو، تو پھر مخالفین کی کثرت تعداد بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ایسے چند نوجوان ہی تاریخ ساز اور زمانے کا رخ موڑنے کا سبب بنتے ہیں۔
قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیت کی تصویر خود دعوت اسلامی کے مکی اور مدنی دور میں نظر آتی ہے۔ اسلام کی دعوت کے اوّلین قبول کرنے والے مکہ کے شیوخ اور جہاں دیدہ سردارانِ قبائل نہیں تھے بلکہ علی ؓابن طالب ، جعفر ؓ طیار ، زبیر ؓ، طلحہ ؓ، سعد ؓبن ابی وقاص ، مصعب ؓ بن عمیر ، عبداللہؓ بن مسعود جیسے افراد تھے جن کی عمریں بیس سال سے کم تھیں ۔ عبدالرحمن ؓ بن عوف ، بلال ؓ، زید ؓ بن حارثہ ، عثمان ؓبن عفان، عمر ؓ فاروق وہ صحابہ تھے جو۳۰،۳۵ سال کے لگ بھگ تھے ۔ حضرت ابو بکر ؓ ۳۸سال کے لگ بھگ ، اور صرف عمار ؓ بن یاسر آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عمر تھے، جب کہ صرف عبیدہ ؓبن حارث کی عمر نبی کریم ؐسے زیادہ تھی ۔
گویا استقامت ، صبر اور توکّل کے ساتھ صلاحیت اور اہلیت میں سب سے بڑھ کر ہونا، وہ شرط ہے جو قلت تعداد کے باجود باطل قوتوں کی کثرت پر قرآنی اصول کی روشنی میں ہر دور میں غالب آئے گی ۔ تحریکات اسلامی کے لیے اصل فکر اور کرنے کا کام دعوت اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ انسانوں کی کردار سازی ہے، نہ کہ محض عددی قوت میں اضافے کی فکر کو خود پر طاری کرنا۔ توجہ کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ جو تعداد میسر ہے، کیا ان میں سے ہر ایک فرد اپنے خلوص ، ایثار و قربانی اور ادایگی فرائض میں مثالی کردار رکھتا ہے؟ اور ایسا نہیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک کی قوت کردار اور اخلاق کی بلندی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف اہل اور امانت کا حق ادا کرنے والوں کو ذمہ داری بطور ایک عطیہ اور امانت کے دیتا ہے۔ باصلاحیت اور اعلیٰ کارکردگی والے افراد کی تیاری تحریک کی ترجیح ہونی چاہیے ، محض تعداد میں اضافہ یا کثرت تحریک کی ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔
قرآنی اصطلاح صٰبِرُوْنَ سے مراد وہ لوگ نہیں جو مشکلات و آزمایش کو محض تحمل سے برداشت کر لیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو ڈٹ کر سینہ سپر ہو کر پوری اُمید (optimism) کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں ۔ مایوسی ، نااُمیدی اور مستقبل کو تاریک دیکھنا صبر و استقامت کے منافی ہے۔ حالات کا نامساعد ہونا حق کے علَم برداروں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ وہ پُرعزم طور پر کسی مفاہمت کے بغیر استقامت اور صحیح حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اوراکثر قلیل المیعاد اہداف کے پیش نظر طویل المیعاد ہدف سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر ایک ایسی صورت حال ہو جس میں کسی ایسی قوت کے ساتھ شمولیت کرنے سے جو ماضی میں تلخ تجربات سے بھری پڑی ہے ، ہمیں فوری برتری نظر آتی تو جادۂ حق کو نہیں چھوڑتے اور طویل المیعاد ہدف کے حصول کے لیے فوری فوائد کو قربان کر دیتے ہیں اور دعوت کے نئے ذرائع کو استعمال میں لاتے ہیں ۔
جس صورت حال سے ملک عزیز گزر رہا ہے، اس میں اقامت دین کی جدو جہد کے راستوں میں کسی ایک تک اپنے آپ کو محدود کر لینا دینی حکمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بانیٔ تحریک اسلامی نے ایسی ہی صورت حال میں جو بات ارشاد فرمائی تھی، اسے ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دعوتی مراحل میں ایسا بھی ہوتا ہےکہ تحریک کے سامنے ایک چٹان حائل ہو جائے اور اس کے سفر کو روکنے کی کوشش کرے، لیکن تحریک کا کام حیات بخش دریا کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے سامنے چٹان کو حائل دیکھ کر رُک نہ جائے بلکہ چٹان کے دائیں اور بائیں سے راستہ نکال کر منزل کی طرف گامزن ہو جائے ، اور چٹانیں منہ دیکھتی رہ جائیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ کی بندگی کی دعوت فرائض و واجبات کی پابندی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے بندوں کی مشکلات کو دور کرنا اور حقوق العباد کا ادا کرنا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم ان افراد کو جو یتیم اور بے سہارا افراد کی خبر گیری سے لاپروا ہیں اور ایسے افراد کو بھی جو فرائض دین مثلاً نماز میں سستی کرتے ہیں اور دیگر کاموں کو بعض اوقات فوقیت دے دیتے ہیں، سرزنش کرتا ہے:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۳ۭ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۱-۷) تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ، اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں،جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔
آج معاشرے میں غربت ، بھوک ، بے روزگاری اور عدم تحفظ اپنی انتہا پر ہے ۔ آفاتِ سماوی کے نتیجے میں اللہ کے بے شمار بندے بے گھر ، کھلے آسمان کے نیچے پڑے کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں۔ بعض اوقات فقر و فاقہ ایک فرد کو شرک کے قریب لے جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جس میں تحریک اسلامی کو ان مستحقین کی خدمت اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ان کی امداد کے لیے تمام ممکنہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے بندوں کی امداد اور انھیں مصائب سے نکالنا تحریک اسلامی کی جدوجہد کی ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ اس میں ہر فرد صرف اپنے مفاد کو اور اپنی ذات کو دیکھتا ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف حکومت کے اہل کاروں سے نہیں بلکہ ہرشہری سے مطالبہ کرتی ہے کہ بے غرضی کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے خلوص دل کے ساتھ استدعا کی جائے کہ وہ نہ صرف ہماری قربانیوں کو قبول کرے بلکہ لوگوں کے دلوں میں حق کی قبولیت کی صلاحیت پیدا کرے۔ بلاشبہہ اسی کی گرفت میں انسانوں کے دل و دماغ ہیں اور جب تک وہ نہ چاہے کوئی دعوت کامیاب نہیں ہو سکتی ۔
تحریک کے کرنے کے کاموں میں بنیادی چیز معاشرے کے افراد میں دعوتِ اسلامی کے بنیادی تصورات کے شعور کے ساتھ آج کے مسائل کا فہم اور انسانی مسائل کے حل کے لیے ایسے افراد کی تلاش ہے جو صاحب امانت ہوں، سچے ہوں ، وعدوں کو پورا کرنے والے ہوں ، جن کا کردار بے داغ ہو، جو خود کسی منصب کے اُمیدوار نہ ہوں اور اگر ا ن پر اعتماد کر کے انھیں ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت کا حق ادا کرنے میں سب سے آگے ہوں۔ ان کا ہر لمحہ اللہ کی بندگی میں صرف ہو اور وہ دکھاوے اور دنیا وی فائدوں کے لیے کسی ضرورت مند کی امداد نہ کرتے ہوں ۔وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ فکری اصلاح اور نظریاتی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ یہی وہ صٰبِرُوْنَہیں جن کی یقینی کامیابی کا وعدہ ربِّ کریم نے فرمایا ہے اور جو سب سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے ، وما علینا الاالبلاغ
قرآن کریم انسانوں کو سمجھانے کے لیے اکثر روز مرہ کی مثالوں کا استعمال کرتا ہے تاکہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ، وہ اس عظیم ہدایت کو نہ صرف سمجھے بلکہ اپنی نگاہوں اور عقل و فہم کا استعمال کرکے قرآن کریم کی تعلیمات کو بچشم سر خود دیکھ سکے ۔
قرآن کریم ایک بظاہر بنجر وادی کی مثال بیان فرماتا ہے، جہاں آس پاس کہیں بھی سبزہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہلکی سی بارش اس وادی کو سر سبز و شاداب کر دیتی ہے، اور وہ انسانی عقل جو کل تک اس وادی کے ویرانے کو حقیقت سمجھ رہی تھی، خود دیکھ سکتی ہے کہ وہاں ہر سمت سبزہ ہی سبزہ ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے کراچی تحریک اسلامی کی پہچان رہا ہے، اور جماعت اسلامی کے زیرانتظام بلدیاتی انتظامیہ کے اَدوار میں کراچی کے شہریوں نے دیکھا کہ تحریکی افراد کس طرح ایمان داری کے ساتھ عوام کی بہتری کے لیے شہر کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ لیکن بہت سے اسباب سے خصوصاً شہرکراچی ایک دہشت گرد جماعت اور دوسری سیاسی مکر کی ماہر جماعت کے زیر اثر آجانے کے بعد سے جماعت اسلامی کے اثر اور مقبولیت میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی، اورا بلاغ عامہ نے خصوصاً اس تاثر کو گہرا کر دیا کہ ملکی سطح پر اب جماعت کا کوئی وجود نہیں ہے اور وہ جماعت جو دوحکمرانی کرنے والے ٹولوں کے بعد تیسری طاقت شمار ہوتی تھی ، اسے صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ نے مکمل طور پر محو کر دیا۔
انھی حالات میں ربِّ کریم نے اپنے ابدی اصولوں کے پیش نظر ایک بار پھر قوم کو یہ دیکھنے کا موقع فراہم کیا کہ خلوص ، خوفِ الٰہی اور صبر و استقامت کو اختیار کیا جائے، تو جسے کل کمزور سمجھا گیا تھا اسے ربِّ کریم نے قوی کیا اور سرفراز کر دیا:
یاد کرو وہ وقت، جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا ، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا ، شائد کہ تم شکر گزار بنو۔ (الانفال۸:۲۶)
اس آیت مبارکہ کو اگر موجودہ حالات کے تناظر میں پڑھا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ابھی ابھی نازل ہوئی ہے ۔
کراچی میں حالیہ کامیابی کے موقعے پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کل تک تحریکی کارکنوں سے گفتگو میں جو مایوسی اور نااُمیدی محسوس کی جا رہی تھی، ربِّ کریم نے انھی کارکنوں کے عزم ، ہمت ، جوش، اللہ پر توکّل او رخلوص کے ساتھ کی گئی کوششوں کو قبول فرمایا اور اپنی نصرت اور انتخابی کامیابی سے سرفراز کیا۔ کراچی میں تحریکی قیادت کو توفیق دی کہ وہ صحیح حکمت عملی وضع کرے اور کارکنوں کو حوصلہ دیا کہ وہ باد مخالف کا مقابلہ ایمانی اور عقابی روح کے ساتھ کریں اور کم تعداد اور محدود وسائل کے باوجود اپنے رب سے نصرت کے طالب رہیں ۔
سورۂ انفال میں ایک دوسرے مقام پر رب کریم فرماتے ہیں:
اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔(الانفال ۸:۶۴)
یہاں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اہل ایمان کی جدوجہد کو صبر و استقامت کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ ہم عموماً ’صبر‘ کا مفہوم ایک منفی زاویے سے اپنے آپ کو روکے رکھنے یا قابو میں رکھنے کا لیتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم اس اصطلاح کو وسیع معنی میں استعمال کرتا ہے ۔
یہاں پر خصوصاً ’صابرون‘سے مراد وہ مجاہدین ہیں، جو ربِّ کریم پر ایمان و اعتماد کے ساتھ اپنی جان اور مال بلکہ سارے وجود کے ساتھ نامساعد حالات سے ٹکرانے اور انھیں زیر کرنے کے لیے اپنی ساری قوت کو بروئے کار لانے والے ہوں ۔ یہاں ’صبر‘ سے مراد استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنا اور ثابت قدمی سے جم جانا ہے اور ایک عزیمت کی مثال قائم کرنا ہے ۔ اس حوالے سے قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے:
اےلوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو ، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰)
یہاں تین بنیادی ہدایات انتہائی قابل غور ہیں:
کراچی کے انتخابات کے نتائج نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ جب بھی اللہ کی رضا کے لیے خلوص اور دعوتی غرض سے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت عملی بنائی جائے گی ، کارکنوں کو مشاورت میں شامل کیا جائے گا، اور ا نھیں متحرک اور پُرامید کیا جائے گا، توربِّ کریم بھی اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے۔غیبی نصرت ہر قدم پر مددگار ہوگی۔ لیکن یہاں پر سب سے بنیادی بات جو قرآن و سنت اور اسوئہ حسنہؐ سے معلوم ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جب کامیابی سامنے ہو تو فخر و تکبر کی جگہ عاجزی اور شکر کے ساتھ استغفار کرنا لازمی ہے۔ جدوجہد کتنے ہی خلوص سے ہو، ہدایات پر کتنی بھی شدت سے عمل کیا جائے، لیکن اس سب کے باوجود انسانی کاوش میں کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (النصر۱۱۰: ۱-۳)
کامیابی حاصل ہونے پر کامیابی دینے والے کا شکر نہ صرف واجب ہے بلکہ کامیابی کو برقرار رکھنے اور نئی حکمت عملی اختیار کرنا بھی واجب ہے ۔ اس حکمت عملی کا آغازربِّ کریم کے شکر و نفل کے اعتراف ، اس کی حمد و ذکر اور تسبیح میں اضافے کے ساتھ ، اس کے حضور عاجزی اور انکسار سے اپنی بندگی کا اظہار، اور اس کے بندوں کی خدمت میں مزید اضافے کی کوشش بھی فرض ہوجاتی ہے۔
کامیابی کے حصول کے ساتھ ضروری ہے کہ بلا تاخیر اس بات پر غور کیا جائے کہ کہاں پر تمام کوششوں کے باوجود کیا کمزوری رہ گئی، جس کی وجہ سے مکمل ہدف حاصل نہ ہوسکا۔ تجزیے اور احتسابِ نفس کی ضرورت ہے، نیز اپنا اور اپنے تمام اقدامات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ جن مسائل اور اُمور کو بنیاد بنا کر مہم چلائی گئی، ان اُمور کے ماہرین کو جمع کر کے حد سے حد ایک ماہ میں ایسا منصوبہ بنایا جائے، جو قابلِ عمل ہو اور کم سے کم وقت میں نافذ کیا جاسکے ۔ جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کی تکمیل میں جو رکاوٹیں ہیں، ان سے عوام کو مکمل طور باخبر رکھا جائے اور ان کے مشوروں کو بھی شامل کیا جائے۔
جن حضرات نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے، ان سے فرداً فرداً رابطہ قائم کیا جائے اور انھیں مشاورت میں شامل کیا جائے۔ جن حضرات نے تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ،انھیں تحریکی لٹریچر فراہم کیا جائے اور علمی و فکری مجالس کا انتظام کیا جائے۔ہر یونین کونسل میں صاحب الرائے حضرات سے الگ الگ مل کر ان کی تجاویز کو یکجا کیا جائے اور ان تجاویز پر غور کیا جائے ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی صفات میں عہد، عقد اور وعدے کو پورا کرنے پر بہت متوجہ فرماتے ہیں۔ عوامی مہم میں عوام سے جو وعدے کیے گئے ہیں، انھیں بہ تدریج پورا کرنے کی کوشش کی جائے اور ان کے پورے ہونے کے مدارج سے عوام کو مطلع رکھا جائے۔
اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ صوبہ سندھ میں جاگیردارانہ سوچ کی حامل برس ہا برس سے حکمران پارٹی، جوڑ توڑ یا ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کرے، لیکن ایسے تمام منفی ہتھکنڈوں کا جواب صبر، حکمت اور اعتدال سے دینا ہوگا۔ معمولی سی بھی بے اعتدالی مخالف سیاسی قوت کے شرپسندانہ اقدامات کے لیے دروازے کھول دیا کرتی ہے۔
اس بات کو کون بھول سکتا ہے کہ ۱۹۸۶ء سے لے کر آج تک کراچی میں تحریک ِ اسلامی کے جوانوں اور بزرگوں نے اپنے مستقبل، اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی دے کر حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ بُرے سے بُرے حالات میں بھی اور جبروتشدد کے بدترین دور میں بھی ثابت قدمی، خیرخواہی اور اسلامی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑا۔ ایک ایک دن میں تین تین کارکنوں کے جنازے اُٹھائے لیکن اشتعال کے بجائے، اللہ کریم ہی سے صبر،مدد اور سہارا مانگا۔ یہ تمام شہدا اور ان کے پسماندگان اس کامیابی کے وارث ہیں اور تحریک اسلامی کے کارکن ان قربانیوں کے امین ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ اسی کی توفیق سے ایک کمزور بندہ کامیابی تک پہنچتا ہے اور اسی کےکرم اور رزاقی سے ہمیں رزق ملتا ہے، جس سے ہمارا وجود وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک کو مزید کامیابیوں سے نوازے۔
پاکستان کو آج جن اند رونی خطرات کا سامنا ہے، ان میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد، حکومتی اداروں کے احترام کا اُٹھ جانا، حتیٰ کہ فوج کے احترام میں نمایاں کمی کے ساتھ ساتھ جرائم، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے دل خراش واقعات میں اضافہ شامل ہیں۔ یہ صورتِ حال ہر باشعور فرد کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔
سیاسی جماعتوں کی باہمی الزام تراشیاں اور عدلیہ کے بعض فیصلوں کی بنا پر عدلیہ کی غیرجانب داری کا مشتبہ ہوجانا بھی قومی زندگی کا نہایت تشویش ناک پہلو ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ دستوری ادارے بھی، جن کی طرف اُمید سے دیکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ کم از کم وہاں سے انصاف کا حصول ممکن ہو سکے گا، اب کھلی عوامی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں ۔
ان حالات میں ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور پڑھے لکھے، ہنرمند نوجوانوں کی ملک سے باہر نقل مکانی میں اضافہ ، اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ا بلاغ عامہ چاہے وہ اخبارات ہوں، ٹی وی چینل ہو ں، یا سوشل میڈیا یا اور کوئی ذریعۂ معلومات ، ہر جگہ مایوس کن تبصروں کی بھرمار ہے ۔ نتیجتاًمعاشرہ ایک شدید تقسیم در تقسیم (polarization ) اور ذہنی و فکری ہم آہنگی سے محرومی کا شکار ہو چکا ہے۔ اور نہ صرف سیاسی گروہوں کے درمیان بلکہ گھروں کے اندر بھی ایک واضح اختلافی تقسیم نظر آرہی ہے۔اگر یہ غیرصحت مندانہ تقسیم اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ حالات کو انتہائی نقصان دہ حد تک بلکہ ٹکراؤکی طرف لے جا سکتی ہے جو ملکی یک جہتی اور اتحاد کے لیے تباہ کن ہوگا۔
مایوسی کی گھٹاؤں میں امید کی کرن کی تلاش پاکستان، خصوصاً نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا تقاضا ہے۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر محض برطانوی سامراج سے نجات پانے والے ایک ملک کے طور پر نہیں قائم ہوا، بلکہ انسانی تاریخ میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ جہاں اسلام کے عالم گیر اخلاقی، سیاسی ،معاشی، معاشرتی ،عدالتی اور انتظامی اصولوں کو نافذ کرکے دنیا کے سامنے ایک متبادل نظریۂ حیات کے طور پر پیش کیے جانے کا خواب دیکھا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ عالمی کردار روزِ اوّل سے بانیان پاکستان کے سامنے واضح تھا اور قائد اعظم محمدعلی جناح ، قائدملت لیاقت علی خاں اور علّامہ اقبال کے درمیان اس امر پر مکمل اتفاق پایا جاتا تھا۔
لیکن قیام پاکستان سے ۹سال قبل علّامہ اقبال کی رحلت اور قیام پاکستان کے ایک سال بعد قائداعظم کے انتقال کے نتیجے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی، اس میں بعض اندرونی قوتوں نے اقبال، قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے متفقہ تصور کو نظر انداز کرتے ہوئے جو حکمت عملی اور طرزِ عمل اختیار کیا، وہ ملکی سالمیت اور استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔چنانچہ قیامِ پاکستان کے ۲۴برس بعد ملک کے ایک بڑے حصے کا جدا ہو جانا اسی انحرافی طرزِعمل کا فطری نتیجہ تھا۔ آج معاشرتی انتشار، سیاسی عدم استحکام ،معاشی زبوں حالی ،ثقافتی انتشار ،فکری پراگندگی، عدلیہ، فوج اور انتظامیہ کے عدم احترام کا پایا جا نا جس تشویش کن صورت حال کو پیش کر رہا ہے ، اس سنگین صورت حال کے پیدا ہونے میں تمام غیراخلاقی عناصر کا دخل ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان تمام مسائل کا سبب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک اخلاقی بحران (Ethical Crisis) ہے جس کا آغاز ۱۹۵۰ءکے عشرے میں ہو گیا تھا۔یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی اصلاح نہیں ہوتی، معاشی ،سیاسی اور دفاعی خدشات اور خطرات کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔
آج عوام الناس کے بعض طبقوں میں دین سے دُوری اور لاعلمی اور فحاشی کا رجحان، تاجرپیشہ طبقے کی مفاد پرستی، نوکرشاہی کی فرائض سے لاپروائی اور اداروں کے باہمی عدم تعاون، حتیٰ کہ ملک کی پاسبان افواج پاکستان کے وقار میں روز بہ روز کمی سمیت دیگر ہو ش ربامسائل کی کوئی ایک بنیادی وجہ تلاش کی جائے، تو وہ صرف اور صرف اسلام کے اخلاقی اصولوں سے انحراف اور دُوری ہے۔
اقوام کی ترقی محض مادی وسائل کے پیدا کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی قوت ِاخلاق ان کے عروج یا زوال کی بنیاد بنتی ہے ۔مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام کسی جبر اور آمرانہ طرزِحکومت یا صنعتی انقلاب کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اس کی اخلاقی برتری ہی اس کی معاشی اور سیاسی کامیابی کی بنیاد بنی۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت ، رحمت ، رواداری، عفو ودرگزر کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغض و عناد سے بھرے دلوں کو رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ میں جس کامیابی کے ذریعے تبدیل کیا، وہ صرف اور صرف عمل صالح ، صدق ، امانت اور دیانت کی وہ چلتی پھرتی مثال تھی، جسے دیکھ کر پتھر دل افراد بھی موم کی طرح نرم ہو کر ایک نئے معاشرے اور ریاست کے معمار بن گئے ۔
پاکستان کےباشعور افراد اور خصوصاً تحریک اسلامی کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ ایسے حالات میں جب سیاسی گروہوں میں شدید دُوری پائی جاتی ہے،ملکی معیشت اور معاشرت ، عدم استحکام کا شکار ہے ، آگے بڑھ کر جہاں کہیں اسے اختیار حاصل ہے، ایسی عملی مثالیں قائم کرے جن کو دیکھ کر ایک عام فردکو اسلام کی عملیت اور معاشرتی مسائل کی اصلاح کرنے کی صلا حیت پر مکمل یقین اور اعتماد ہو جائے ، نیز اسلام کے عملی نمونے کو دیکھ کر اس کا دل سکون اور اطمینان سے بھر جائے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ مقامی سطح پر کونسلوں کے دائرۂ کار میں جو سماجی اور معاشرتی فلاح کے کام آتے ہیں، انھیں امانت اور دیانت کے ساتھ ہاتھ میں لے کر منتخب کردہ علاقوں ، شہروں اور دیہات پر توجہ مرکوز کی جائے اور ۲۵برس پہلے والی ترکی کی اصلاح پسند سیاسی حکمت عملی کے نقشے کو ملکی یا مقامی حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے رُوبہ عمل لایا جائے ۔ یہ کام جتنے خلوص و قربانی اور بے لوثی سے ہوگا، اتنا ہی اس کا نتیجہ مثبت اور کامیاب نکلے گا ۔
دوسرا بنیادی کام پاکستان کی نوجوان آبادی کو معاشرتی فلاح کے کاموں میں رضاکارانہ طور پر شامل کرکے ان کی بے پناہ قوت کا تعمیری استعمال ہے۔ہمارے نوجوانوں میں نہ صلاحیت کی کمی ہے اور نہ قیادت میں وہ کسی سے پیچھے ہیں۔ صرف انھیں صحیح سمت، مقصد حیات اور تنظیم کے ذریعے منتشر اعضا کی جگہ ایک صحت مند جسم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک ِ اسلامی کے مختلف اداروں اور اس سے وابستہ لوگوں نے اس سلسلے میں جو روشن مثالیں پیش کی ہیں، انھیں وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری ترجیح طویل المیعاد نوجوان قیادت کی تیاری ہونی چاہیے، جو فلاحی کاموں میں شامل ہو کر عملی تربیت سے ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہ کام محض تقریری محفلوں سے نہیں ہوسکتا۔ الخدمت کے ماڈل پر بے شمار ایسے پراجیکٹ متعارف کرائے جا سکتے ہیں، جو نوجوانوں کو صحیح سمت اور تربیت فراہم کر سکیں۔ایک چھوٹی سی مثال مقامی سطح پر صحت مند ماحول پیدا کرنے کے لیے صفائی کی مہم ہے۔چاہے شہر بڑے ہوں یاچھوٹے، ہر گلی کوچہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت اور تعفن سے بھرا پڑا ہے۔اگر نوجوان رضاکار اپنی تحریکی پہچان کے ساتھ صرف اس ایک کام کو ایک متعین مدت میں مکمل کرانے کے لیے معاشرے ہی سے مدد لے کر کام کریں، تو ہر شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ کسی مالی معاونت اور کسی بڑے ادارے کو بھاری ٹھیکہ دیے بغیر کس طرح صالح نوجوان اپنی مدد آپ کے اصولوںپر عمل پیرا ہو کر گندگی اور غلاظت کو دُور کر کے ایک صاف ستھرے ماحول کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔ اس طرح اشیا کی آلایشوں سے صاف معاشرہ، فکری آلایشوں سے صفائی کے لیے بھی تیار ہوسکتا ہے۔ اس معاشرے کو خوب صورت گلستان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن سے نہیں اوجھل ہونی چاہیے کہ ملکی حالات میں بنیادی طور پر خاندان کا اثر سب سے گہراہوتا ہےاور آج مغرب کی اندھی پیروی سے ہمارے خاندان کو سب سے زیادہ توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب نوبت یہ آگئی ہے کہ خاندان کے بنیادی تصور کو نوجوان نسل کے سامنے صرف اور صرف حصولِ لذت کے ایک آزادانہ تصور سے تبدیل کیا جا رہا ہے کہ انسان جو اصل میں ایک اخلاقی وجود رکھتا ہے،اور اس بنا پر حیوانات سے ممتاز ہے،اس کی ایک نئی تعبیر ایسی پیش کی جا رہی ہے، جو حیوانات کی دنیا میں بھی اجنبی ہے۔
حیوانات میں بھی بعض حیوانات اپنی جنسی عادات کی بناپر مہذب معاشروں میں ایسے الفاظ سے بیان کیے جاتے ہیں جو ان کی عادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں،اور ان کے جنسی تعلق کو براہِ راست بیان کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ۔اُردو ادب کے اندر’ جنگل والا‘ اور بازاری کتے اور کتیا جیسے الفاظ استعاراً اس جنسی بے راہ روی کو محتاط الفاظ میں بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان حیوانات کی جنسی بے راہ روی نے انھیں یہ نام دلوائے۔آج اس طرز کے جنسی تعلق کو ’انسانی حقوق‘کے نام پر ہمارا ابلاغِ عامہ ،پارلیمنٹ، حتیٰ کہ عدالتیں بھی تسلیم کر رہی ہیں، جسے حیوانات بھی ’حیوانی حقوق‘ کہتے ہوئے شرمائیں ۔
ان حالات میں ہر شہر ، بستی اور گاؤں میں خاندانی نظام کی اہمیت، نیز اس کی تعمیر، اصلاحی اور اخلاقی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاندانی نظام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مساجد ، بازاروں ، اسکولوں اور دیگر سماجی میل جول کے فورموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔بلکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کو روکنے کے لیے محلے کی سطح پر ایسے فیملی کونسلرز کا رضاکارانہ نظام بھی وضع کیا جاسکتا ہے، جہاں اجتماعی طور پر خاندانوں میں مفاہمت اور ٹوٹتے رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کی جائے ۔
ابھی حال ہی میں ملک کی ایک یونی ورسٹی نے چار، چا رماہ کے ایک آن لائن کورس کے ذریعے، کئی سو شرکاء جن میں خواتین کی اکثریت تھی،کو تربیت دی کہ وہ کس طرح خاندان کو اکیسویں صدی میں انتشار سے نکال کر موّدت و رحمت کا مرکز بنا سکتے ہیں۔
اختلاف کرنا اور کسی معاملے میں دلائل کی بنا پر ایک رائے قائم کرنا اور اسے پیش کرنا قرآن کریم کا دیا ہوا ایک حق ہے ، اسی کا نام ’شوریٰ‘ ہے، لیکن شوریٰ اور مشاورت میں ادب اور اعتدال کا پایا جانا شرط ہے۔ یہ ملکی سیاسی معاملات ہوں یا معاشی اور دفاعی حکمت عملی، کسی بھی موقع پر دلیل کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنا ایک دستوری حق ہے ،لیکن جس کسی کو اس رائے سے اختلاف ہو، اس کا نام بگاڑنا، اس پر استہزا کرنا ،اسے تمسخر اور عوام کی نگاہ میں کمتر انسان کے طور پر پیش کرنا نہ قرآن و سنت نے مباح کیا ہے اور نہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اسے گوارا کیا جا سکتا ہے ۔لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آج ان حضرات میں سے بھی کچھ (جن کی طرف لوگ قرآن و سنت کے فہم کے حصول کی نیت سے دیکھتے ہیں) کا سیاسی لہجہ قرآن کے اصولوں کی ضد بن گیا ہے، اور قرآن نے سورۃ الحجرات میں جن آدابِ گفتگو کا درس دیا ہے،ہم ان سے بہت دُور چلے گئے ہیں۔
اسلام اصلاحِ معاشرہ کے لیے امید ،تعاون باہمی اور حق و انصاف کو بنیاد بنا تا ہے اور ہرمشرک کو ایک ممکنہ مومن کے طور پر مخاطب کرکے اسلام سے قریب لانے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن شرک کا شدید ترین رد ّ دلیل کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن مشرکوں کے خداؤں تک کو بُرے نام سے یاد کرنے سے منع کرتا ہے۔چنانچہ کسی سیاسی حریف کو ایسے القاب سے یاد کرنا جو اسے دُور لے جانے والے ہو ں ، ایک غیراسلامی اور غیراخلاقی حرکت ہے۔
تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ ایسی مثبت، سنجیدہ اور باوقار زبان استعمال کرے جو مخالف کو بھی حق کی بنا پر اپنی رائے پر غور کرنے اور حق کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دے۔ یہ رحمۃ للعالمینؐ کی شیریں بیانی تھی جس نے کفروفسق میں ڈوبے افراد کو سہارا دے کر گمراہی سے نکال کر نور حق تک پہنچنے میں مدد فراہم کی۔ اسی اخلاق اور اسی سیرت کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے جو دلوں کو جوڑ دے اور اُمت مسلمہ کو ایک بنیانِ مرصوص میں تبدیل کر دے ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
ایک صالح معاشرے کی پہچان، اس میں بسنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِعمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن ، انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق کا احترام اور بالخصوص جان ، مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے ۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے۔ کیوں کہ جس معیشت ،معاشرت ،اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہوگی، وہ پس ماندہ ، مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا ، جھوٹ ، فریب ، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا ۔اس میں معروف ، بر، خیر ، فلاح، حیا ، نیکی، ایفائے عہد، معاشی،اخلاقی اور قانونی پیمانوںکا احترام لازمی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری ، ذمہ دارانہ طرزِ عمل ، حیا اور ایمان داری کے لیے مثال بنا رہا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں سیاسی آزادی کے حصول سے قبل بازار میں اگر کبھی کسی مسلمان گاہک نے ایک ہندو ساہوکار سے کہا کہ ’’فلاں دوکان پر اس شے کی قیمت اتنی کم ہے تو اس نے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی ، میاں آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا ، آپ اسی قیمت پر یہ چیز لے سکتے ہیں۔گویا مسلمان کی پہچان سچائی اور امانت سے منسلک تھی، جیسا کہ حدیثِ نبویؐ سے واضح ہے کہ ’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں‘‘۔
لیکن یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی و جغرافیائی آزادی کے حصول کے ساتھ ہی ہم نے اپنے روایتی رویوں اور طرزِ عمل سے بھی، جو ہماری پہچان تھے،آزادی حاصل کر لی اور گذشتہ دوعشروں میں اس کے زہریلے پھل ہمارے سامنے آنے لگے ۔ملک کے ہر حصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی ، خواتین کی بے حُرمتی ، خودکشی اور نشہ آور اشیا کے کاروبار اور بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شیطانی مافیائوں کا وجود پکار پکار کر ہمارے قومی ضمیر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس غیر ذمے دارانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا انفرادی و اجتماعی احتساب کرتے ہوئے ان اسباب کو دُور کیا جائے، جو ان شرمناک واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں ۔
ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا ، تایا ، نانا، ماموں ، خالہ ودیگر رشتوں)سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر دو تنخواہوں کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ سکون کے ساتھ موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے سکول یا کالج میں دن کیسے گزارا،دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین پانچ طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف، اُن معاملات پر بھی بات کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین اپنی محنت کی کمائی صرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں ۔ خاندان کا نظام سکڑکر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہوچکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی ، نانا ، نانی ، خالہ، پھوپھی، چچی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا ۔
جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا، آزادی ملنے کے باوجود نہ صرف اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کرکے اسلامی، تہذیبی،قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔چنانچہ یہ تعلیمی ادارے مولانا مودودی کے الفاظ میں تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہورہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم میں محض ’دینیات‘ کا ایک پرچہ شامل کرنے سے کوئی بڑا جوہری فرق واقع نہیں ہوا، اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔
یہ سمجھنا ایک بڑا مغالطہ ہے کہ اگر اسکول کی بارہ سالہ تعلیم اور کالج کی چار سالہ تعلیم میں ہفتہ میں بہ مشکل ۵۰منٹ کی ایک کلاس پڑھا دی جائے، جس میں روایتی طور پر چند مختصر سورتیں اور عقیدے کی تعلیم شامل ہو، تو اس طرح طالب علم اسلام کی منشا اور مرضی کو سمجھ جائے گا اور اس میں نظریۂ پاکستان سے محبت بھی پیدا ہوجائے گی، اور ملک و قوم کی تعمیروترقی کا بے لوث جذبہ بھی اس کے دل و دماغ میں موج زن ہوجائے گا۔
نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئیں کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہرپیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد ، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن ، دھوکا دہی ، ملکی خزانے کے ناجائز استعمال کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟
یہی شکل ہمارے ابلاغ عامہ کی ہے، خصوصیت سے گذشتہ ۲۰برسوں میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے اور انھوں نے ہر جانب سے مغربی اور ہندو تہذیب وثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ یہ صرف تفریح کے پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں، بلکہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ بہت سے نام نہاد، اسلامی موضوعات پر رمضان کے دوران لڑکوں ، لڑکیوں کو زرق برق لباسوں کے ساتھ بطور رول ماڈل پیش کیا جارہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھلتی۔ کسی خبر نامے کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جاتا، جب تک اس میں ایک خاتون پوری زیبایش کے ساتھ خبریں نہ پڑھے۔ ڈراموں میں مرو وعورت کا آزادانہ اختلاط ، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں عورت کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن گیا ہے۔
اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا ، نیم پاکستانی اور معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ اس گھناؤنے جرم کا ذمہ د ار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جانے پر اُکساتے رہتےہیں،یعنی تعلیم ، والدین کی عدم توجہی ، ابلاغِ عامہ اور خصوصاً علما، مشائخ اور اساتذہ کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علما اور راہبوں کو قرار دیا، جنھوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں ، حرام کا ارتکاب کررہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں ، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً بُرے اعمال میں ان کی مدد کی ۔
اسلام ایک جامع ، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بنا پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت کے ساتھ اور کامیابی سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں حیا، عدل ، احترام ،تحفظ ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی ۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں ریاست کو کلیدی کردارادا کرنا ہے۔ لیکن جتنی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اتنی ہی یہ معاشرے کے تمام کارفرما اداروں اور افراد پر بھی عائد ہوتی ہے، اور سب کا فرض ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
والدین کو اپنے اوقاتِ کار کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کے اصلاحِ احوال کے لیے قربان کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور انھیں اپنے ساتھ بٹھاکر قرآن وسنت کے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ جاگزیں کرنے میں صرف کرنا ہو گا ۔یہ کام یک طرفہ طور پر وعظ و نصیحت سے نہیں ہوگا، بلکہ خود اولاد سے قرآن وسنت کے کسی حصے کا مطالعہ کروا کر ایک غیر رسمی مکالمہ کی شکل میں کرنا ہوگا۔ کوشش کیجیے کہ بچے والدین کے ساتھ مل کر اجتماعی غوروفکر کی عادت کو اپنائیں اور اس طرح اپنے دماغوں کو قرآنی اخلاقیا ت اور پیغام سے منور کریں ۔
یہ سارا کام محض تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔بلاشبہہ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن آج ستم یہ ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں نے تعلیم کو بطور تجارت اختیار کیا ہواہے ۔ ان کے سامنے سیرت و کردار کی تعمیر اور نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا حصول بطور ہدف اور ترجیح موجود ہی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے والدین کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
حکومت ِوقت جو بھی ہو، اس کو اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنا ہو گی کہ وہ اس ملک کی آبادی کو قرآن وسنت سے آگاہ کرنے کے لیے ’یکساں نظامِ تعلیم‘ کے تحت مجموعی نصاب میں اسلامی اخلاقی تعلیمات کو درسی مضامین کا حصہ بنائے اور ہر طالب علم کو اس سے قطع نظر کہ اس کامذہب و مسلک کیا ہے ، یکساں نصاب سے گزارے ۔ دنیا کے تمام نام نہاد ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں مسلک کے اختلاف کے باوجود یکساں نظام تعلیم پر عمل کیا جاتا ہے، اوراس میں کہیں بھی کسی انسانی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔پاکستان میں خصوصاً ۳فی صد غیر مسلم آبادی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ۹۷ فی صد اکثریتی آبادی کے عقائد ، نظریات ، تہذیب سے آگاہ ہوں تاکہ کوئی ثقافتی ، تناؤ اور ٹکراؤ نہ پیدا ہو اور معاشرے میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اس سلسلے میں اقلیتوں کی قیادت سے افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب انتظام کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ دیگر مذاہب کے حامل ہم وطنوں کے لیے اکثریت کے عقائد سے واقفیت حاصل کرنے کا مطلب ان پر عقائد تھونپنا ہرگز نہیں ہے۔ جہاں تک معاشرے کی اخلاقیات کا تعلق ہے، اس باب میں انسانی طرزِ عمل کی اصلاح کے لیے جوتعلیمات قرآن و سنت نے دی ہیں، وہ عالم گیر ہیں اور ان پر ایک غیر مسلم کا عمل کرنا اتنا ہی مطلوب ہے جتنا ایک مسلمان کا۔ کیا کوئی صاحب ِعقل یہ چاہے گا کہ ایک مسلمان سے تو یہ مطالبہ ہو اور اسے تدریس و تربیت کے ذریعے یہ سکھایا جائے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا ، چوری نہیں کرے گا ، قتل و غارت نہیں کرے گا، شرم و حیا کے ساتھ رہے گا ، ہمسایے کے حقوق ادا کرے گا ، خواتین ، معمر افراد اور بچوں کے حقوق ادا کرے گا،لیکن دوسری طرف غیر مسلم کو ان تعلیمات سے بے بہرہ رکھا جائے اور وہ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے جو چاہے رویہ اختیار کرے؟
آج سوشل میڈیا نے جو ابلاغی مقام حاصل کر لیا ہے، اس میں روایتی صحافت بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میٖڈیا کو تعمیری کام کے لیے استعمال کیا جائے اور سنسنی خیز اطلاعات یا لطیفے اورا فراد پر تیشہ زنی کی جگہ گھریلو امن ، حیا ، پاکیزگی ،رشتوں کے احترام کی بحالی اور معاشرے سے فحاشی اور عریانی کو ختم کرنے کے لیے تدابیر کی جائیںاور اس سلسلے میں جہاد اور اجتہاد کے طریقوں سے کام لیا جائے۔یہ کم خرچ بالا نشین حکمت ِعملی تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوانوں کے ذریعے ملک گیر مہم بن سکتی ہے، اور عوام و خواص کو آج اخلاقی مسائل کی اصلاح کی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔
اصلاحِ احوال کے لیے علماو مشائخ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مسجد وہ اہم مقام ہے، جہاں سے ہر جمعے کو اگر سنجیدہ تعمیری پیغام دیا جائے تو عام مسلمان جو بنیادی طور پر آج بھی دین کو اہمیت دیتا ہے، فحاشی و بے حیائی اور سماجی و معاشی استحصال کے خلاف جہاد میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا ۔
قانونی ذرائع ہر معاشرے میں اہمیت رکھتے ہیں، لیکن جب تک قانون کا نفاذ جیسا اس کا حق ہے نہ کیا جائے، تو محض قانون کا بنانا ایک کاغذی عمل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ہے۔
’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے قانون سازی کے سلسلے میں سال ہا سال سے جو قیمتی تجاویز دی ہیں، افسوس ہے کہ تمام حکومتوں اور ملک کی پارلیمنٹ نے انھیں نظرانداز کیا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی روشنی میں حکومت قانون سازی کرے، پھر قوانین کے نفاذ کے لیے قانون نافذکرنے والے تمام ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس، اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ سیاسی قیادت بھی ساتھ دے اور عوامی دبائو بھی ڈالا جائے۔
دعوت و اصلاح کا بنیادی مقصد: معروف اور بھلائی کا قیام اور منکر ، فواحش، باطل اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنا ہے ۔ معاشرتی مفاسد سے نجات کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خاندان کے تحفظ اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی جان اور عزت کے تحفظ کے معاملات کو اسلامی فکر اور روح کے مطابق بہتر بنایا جا سکے ۔ ایسی دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں خاندانوں کو شریک کروایا جائے ۔ اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے لیے اجتماعی سرگرمیوں کا اہتمام بھی ضروری ہے، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے خصوصی جدوجہد مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں ہرسطح پر گفتگو ، مذاکروں، تقاریر اور عمومی تعلیم کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔
عوامی شعور کی بیداری میں مسجد کا ادارہ انتہائی کلیدی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مساجد اور خطبا سے رابطہ کاری کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے انھیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کو درپیش اہم مسائل، مثلاً خاندانی نظام کا تحفظ ، بزرگوں کااحترام ، معاشرتی رواداری ، عریانی و فحاشی کے خلاف رائے عامہ کی بیداری ، بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی ضرورت و اہمیت اور اس جیسے بیسوں اہم مسائل پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔
تحریکی فکر کے حامل تعلیمی اداروں کو مرکز بناتے ہوئے کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان اداروں کی معاونت سے طلبہ و طالبات کے والدین کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جائے۔ ان کو خاندانی نظام کے استحکام اور معاشی مشکلات سے نجات کے لیے اسلام کے مطابق سادہ زندگی گزارنے کی ضرورت و اہمیت بتائی جائے اور بچوں کی تربیت اور نفسیاتی و خانگی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی برکات سے آگاہ کیا جائے۔
اگر مستقل طور پر یہ عمل جاری رکھا جائے تو اس سے تحریک کی دعوت کو بھی فروغ ملے گا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ اُردو اور انگریزی اخبارات میں مضامین ، خطوط اور کالم لکھے جائیں، اور انھیں صوبائی اور مرکزی پارلیمانوں میں پہنچایا جائے۔ ہم خیال صحافیوں ، وکلا اور اساتذہ کی طرف سے ملک گیر پیمانے پر دستخطی مہم چلائی جائے اور اس طرح جو لوگ دستخط کریں ان کے ای میل، سوشل میڈیا رابطہ ایڈریس حاصل کیے جائیں، تاکہ مہم کے نتائج سے انھیں آگاہ کیا جائے اور مستقل بنیادوں پر ان سے آیندہ بھی دعوتی رابطہ کاری ہوتی رہے ۔بڑے اجتماعات کی جگہ چھوٹے اجتماعات، جن پر خرچ بھی کم ہوگا منعقد کیے جائیں اور خصوصاً مساجد اور اسکولوں کو اس مقصد کے لیے بنیاد بنایا جائے۔
ان تمام اقدامات کے ساتھ حکومت اور میڈیا کو فساد اور انتشار کے اس چیلنج کے مقابلے اوراسلامی اقدار کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔دراصل یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی جواب دہی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم اپنی ان گزارشات کا اختتام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو زریں ارشادات پر کرنا چاہتے ہیں، جن کے مخاطب مساوی طور پر حکمران اور عامۃ المسلمین ہیں:
حضرت تمیم داریؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النصیحہ اور یہ ارشاد تین بار فرمایا۔ ہم نے پوچھا: لِمَنْ، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:لِلّٰہِ وَلکِتبِہِ ولرسولہِ ولائمۃ المسلمین وعامیتھم ،یعنی دین سراپا نصیحت اور خیرخواہی ہے___ اللہ کے لیے ، اللہ کی کتاب کے لیے،اس کے رسولؐ کے لیے، مسلمانوں کی قیادت کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔
عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخو اہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوارکرنا اور اس کے تقاضوں کوپورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔ یہ ہرفرد کے لیے لازم ہے جو اسلام کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خودسادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اورسعی و جہد کا محور بنانا ہے۔ قیادت سے خیرخواہی جہاں حق بات اُن تک پہنچانے، صحیح مشورہ دینے، معروف میں اطاعت کرنے پر مشتمل ہے،وہیں اصلاحِ احوال کے لیے ان میں غلطی اور ناروا رویے پر تنقید و احتساب بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اور عامۃ الناس کے لیے خیرخواہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے تاکہ معاشرہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہرشخص کے لیے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے:
قَالَ : اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ،فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَّھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰٓی اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ ، وَالْخَادِمُ فِیْ مَالِ سَیِّدِہٖ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ اَلَا فَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ
عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الاستقراض، باب العبد، راعٍ فی مال سیدہ، حدیث:۲۳۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے،اور تم میں سے ہرایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں جواب دہی کی تیاری کے لیے، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے، آمین!
تعلیم کی اہمیت ایک انسانی معاشرے میں ایسی ہی ہے، جیسے انسانی جسم کے لیے غذا۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے اپنے منتخب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلا پیغام یہی دیا کہ اللہ کے نام سے پڑھو، جس نے انسان کو پیدا کیا اور قلم کے ذریعے علم دیا تاکہ انسان اپنے رب کی حمدو ثناء و بزرگی بیان کرے اور اس کا شکرگزار بندہ بن سکے۔ اس لحاظ سے اسلامی معاشرے کے لیے تعلیم عبادات کی طرح ایک اعلیٰ مقام کاحامل فریضہ ہے ۔ کیوں کہ جو علم رکھتے ہیں اور جوعلم نہیں رکھتے، قرآن کریم کی نگاہ میں یکساں نہیں ہوسکتے۔ اور جو علم رکھتے ہیں وہی اللہ کی خشیت بھی زیادہ کرتے ہیں۔ گویا اسلام نے اللہ کی قربت اور خشیت کو ترک دنیا کے طریقوں سے الگ کر کے علم کے ساتھ وابستہ کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں اپنے شہریوں کی تعلیم کا بندوبست اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اسلامی معاشرے کی روایت یہ رہی ہے کہ جہاں کہیں بھی مرکزی مساجد تعمیر کی گئیں، ان کے ساتھ طلبہ کے لیے اقامت گاہیں اور درس کے لیے کمرے بنائے گئے تاکہ ہر اہم مسجد ایک اہم جامعہ کے فرائض سرانجام دے سکے ۔ جہاں سے امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام جعفر صادق ؒ، امام احمد بن حنبلؒ جیسے فقہااور ابن سینا اور الظواہری اور الغ بیگ جیسے ماہرین طب، فلکیات ، کیمیا اور جراح پیدا ہوئے۔ یہ مدارس برصغیر پاک و ہند میں انگریز حکمرانوں کی آمد تک طب ، فلکیات اور انجینئرنگ کی تعلیم دیتے تھے۔ مشہور مغل تعمیرات انھی مدارس سے فارغ طلبہ کے فن کی یاد گار ہیں۔ انھیں کسی فرانسیسی یا انگریزی انجینئر نے تعمیر نہیں کیا ۔
تعلیم کی اس اہمیت کے پیش نظر ایک ایسی مملکت کے لیے، جس کا مقصد وجود اسلامی فکر و علوم کا احیاء اور ایسے معاشرے کی تعمیر تھا ، جہاں اسلامی تعلیمات کے تحت عدل ، معاشرت ، سیاست ، معیشت ، ثقافت اور صنعت و حرفت کا فروغ ہو ، تعلیم کو فروغ دینا ایک متوقع فریضہ تھا۔ تاہم، تعلیم اور خصوصاً وہ تعلیم جو ملک کے مقصد وجود کی تکمیل کرے کبھی لائق توجہ نہیں رہی ۔یہ ضرور ہوا کہ حکومتی تعلیمی پالیسی جب بھی تشکیل دی گئی تو اس میں ملک کی نظریاتی اساس کا ذکر اور اس حوالے سے نصاب اور نظام تعلیم میں اصلاح کا ذکر ضرور شامل کیا گیا ۔لیکن تعلیم کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا عمومی رویہ ہمیشہ سوتیلے پن کا رہا ہے۔ تعلیم کو بجٹ میں کبھی اہمیت نہیں دی گئی، اور جو رقم مختص بھی کی گئی اس کا مناسب استعمال کبھی نہیں کیا گیا ۔
ماضی کے المیے پر اظہارِ افسوس اپنی جگہ، لیکن ہمیں اصل توجہ مستقبل کی تعمیر کی طرف کرنی چاہیے، تاکہ ماضی کی کوتاہیوں کاازالہ کسی حد تک کیا جا سکے۔ لیکن مستقبل پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ مختلف سیاسی ادوار میں تعلیمی پالیسی کیا رہی؟ حالیہ حکومت کی وزارت تعلیم کے طبع کردہ قومی نصابِ تعلیم فریم ورک کے حوالے سے درج ذیل معلومات کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے :
وزرات تعلیم کی سرکاری طور پر شائع کردہ اس دستاویز کے بعد جو پانچ سابقہ حکومتوں کی جانب سے پالیسی کا خلاصہ بیان کرتی ہے ، کیا یہ گنجائش رہ جاتی ہے کہ آزادیِ رائے یا اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اس متفقہ پالیسی کے نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی امداد پر قائم ’فکری توپ خانوں‘ کے پیدا کردہ خدشات پر بحث کی جائے ؟سیاسی اَدوار کے اختلاف اور ذاتی پسند ناپسند کے باوجود ان پانچ سفارشات میں جو عناصر مشترک ہیں ، ان میں سب سے اوّل پاکستان کی نظریاتی اساس ہے، یعنی اسلام جس کے نام پر یہ ملک بنا۔ چنانچہ نظریاتی اساس کو صرف نصاب میں علامتی طور پر شامل نہ کیا جائے بلکہ اس کی بنیاد پر تمام نصابات کی تہذیب و ترتیب کا اہتمام کیا جائے ۔ گویا وہ اردو ادب ہو یا انگریزی ادب ، وہ کیمسٹری ہو یا فزکس یا ریاضی یا عمرانی علوم، ہرمضمون میں اسلامی اقدار ، افکار اور آئڈیلز کا سمویا جانا ریاست کی نظریاتی اساس کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلامیات بطور ایک مستقل اور لازمی مضمون کے زیر بحث ہے ہی نہیں، یہ تو پہلے سے ہی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اسے تمام مسلمان طلبہ و طالبات کو پڑھایا جائے گا ۔
اس کے ساتھ پاکستان کی اس تاریخ کو جس میں محمد علی جو ہر ، علامہ محمد اسد ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا حسرت موہانی ، علامہ اقبال اور خود بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کے وہ خطبات اور بیانات، جن میں ملک کی نظریاتی اساس اور پاکستان کے قیام کے ذریعے اسلامی احیاء اور اسلام کے معاشرتی نظام، عدل و انصاف اورمعاشرتی فلاح کا واضح تذکرہ ہے، شامل نصاب کیا جائے۔ تاریخ کے ان اہم اوراق کو ایک مخصوص لابی نے ۷۴ سال سے شعوری طور پر قوم سے چھپا کر رکھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حقائق کو ’مطالعہ پاکستان‘ کے نصاب میں شامل کیا جائے اور لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے ۔ اس لازمی مضمون کی ضرورت و اہمیت اور افادیت اور اس کے بھرپور انداز میں اجرا پر قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اصل بات جس کی طرف یہ تمام پالیسی دستاویزات متوجہ کرتی ہیں، وہ یہ ہے کہ تمام مضامین میں اسلامی اخلاقی اصولوں اور اقدار کو سمویا جائے ۔
ظاہر ہے کہ یہ بات ملک کے ایک فی صد سے بھی کم لیکن ذرائع ابلاغ ، صحافت اور این جی اوز سے استفادہ کرنے والے طبقے کو کیسے گوارا ہو سکتی ہے۔ انھیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بچی یا بچہ اردو کی کتاب میں حمد یا نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں پڑھتا ہے ؟ یہ ان کے خیال میں ’مذہبی مواد‘ ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خود انگریز اپنی زبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اگر انگریزی سے وہ الفاظ جو عہد نامہ جدید و قدیم کی بنیاد ہیں ، نکال دیے جائیں تو انگریزی ادب چاہے وہ یورپ کا ہو یا امریکا کا، ایک بے جان ڈھانچا رہ جائے گا۔صرف لفظ supper, goodbye, convent, resurrection کی etymology پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ انگریزی سے اس ’مذہبی مواد‘کو اگر نکال دیا جائے تو انگریزی کا وجود ہی ناپید ہو جائے گا۔ دُور نہ جائیں انگریزی کے مشہور شاعر ٹی ایس ایلیٹ (T.S Eliot - م: ۱۹۶۵ء) کے صرف ان الفاظ کو غور سے پڑھیں :
The dominant force in creating a common culture between peoples each of which has its distinct culture, is religion. Please do not, at this point, make a mistake in anticipating my meaning. This is not a religious talk, and I am not setting out to convert anybody. I am simply stating a fact. I am not so much concerned with the communion of Christian believers today; I am talking about the common tradition of Christianity which has made Europe what it is, and about the common cultural elements which this common Christianity has brought with it. [...] It is in Christianity that our arts have developed; it is in Christianity that the laws of Europe have—until recently—been rooted.It is against a background of Christianity that all our thought has significance. An individual European may not believe that the Christian Faith is true, and yet what he says, and makes, and does, will all spring out of his heritage of Christian culture and depend upon that culture for its meaning. Only a Christian culture could have reproduced a Voltaire or a Nietzsche. I do not believe that the culture of Europe could survive the complete disappearance of the Christian Faith. And I am convinced of that, not merely because I am a Christian myself, but as a student of social biology. If Christianity goes, the whole of our culture goes. Then you must start painfully again, and you cannot put on a new culture ready made. You must wait for the grass to grow to feed the sheep to give the wool out of which your new coat will be made. You must pass through many centuries of barbarism. We should not live to see the new culture, nor would our great- great- great-grandchildren: and if we did, not one of us would be happy on it. (T.S. Eliot, Notes Towards the Definition of culture, London, Faber & Faber,1949, P-122)
نمایاں تہذیب رکھنے والی مختلف قوموں کو ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے تشکیل دینے میں مذہب غالب تر قوت ہوتا ہے۔ براہِ کرم ، اس موقع پر، میرا مفہوم اخذ کرنے میں غلطی نہ کریں۔ یہ ایک مذہبی گفتگو نہیں ہے، نہ میں کسی کا مذہب ہی تبدیل کرنے آیا ہوں۔ میں سادہ الفاظ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ مسیحی اہلِ ایمان کے دینی اجتماعات کے حوالے سے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو آج مسیحیت کی عام روایت کی بات کر رہا ہوں جس نے یورپ کو وہ بنا دیا ہے جو آج نظر آرہا ہے، اور یہ اُن مشترکہ تہذیبی روایات کے بارے میں ہے جو عمومی مسیحیت اپنے ہمراہ لے کر آئی ہے.....یہ مسیحیت ہی ہے کہ جس میں ہمارے (علوم و ) فنون پروان چڑھے ہیں۔ مسیحیت میں یورپ کے قوانین کی جڑیں آج تک موجود رہی ہیں۔ یہ عیسائیت کے پس منظر کے خلاف ہے کہ ہماری فکر اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک یورپی فرد شاید یقین نہ کرتا ہو کہ مسیحی عقیدہ درست ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ جو کچھ کہتا ہے، کرتا ہے، اسی مسیحی تہذیب و تمدن کے ورثے سے پروان چڑھے گا اور اس کے معنی تشکیل دینے کے لیے اُس تہذیب و تمدن پر انحصار کرے گا۔ مسیحی تہذیب و تمدن سے ہی والٹیر (Voltaire) یا نطشے (Nietzsche) ازسرنو جنم لے سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یورپ کا تہذیب و تمدن اس قابل تھا کہ وہ مسیحی عقیدے کے مکمل طور پر غائب ہوجانے کے بعد اپنے آپ کو برقرار رکھ سکتا۔ میں اس پر پورا یقین رکھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مَیں خود بھی عیسائی ہوں بلکہ میں سوشل حیاتیات کا طالب علم ہوں۔
اگر مسیحیت جاتی ہے تو ہمارا سارا تہذیب وتمدن جاتا ہے۔ پھر انتہائی تکلیف دہ حالت میں آپ کو دوبارہ آغاز کرنا ہوگا اورکسی تیار شدہ (ready made)تہذیب و تمدن کو آپ فوری طور پر اُوڑھ نہیں سکتے۔ آپ کو انتظار کرنا ہوگا کہ گھاس پھل پھول جائے تاکہ اُسے بھیڑیں کھاسکیں، اور اُس سے اُون حاصل کی جائے جس سے آپ کا نیا کوٹ تیار ہوسکے۔ آپ کو ظلم و سفاکیت کے بہت سے اَدوار سے لازماً گزرنا پڑے گا۔ نئے تہذیب و تمدن کے لیے نہ ہم زندہ رہیں گے، نہ ہماری نسلوں کی اولادوں کی اولادوں کی اولادیں ہی۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم میں سے کوئی بھی خوش نہ ہوگا۔
عیسائیت کا جو کردار آج تک یورپ اور امریکا کی تہذیب کی تعمیر اور ارتقا میں رہا ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ کردار اسلام کا مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی تعمیر و بقا میں رہا ہے۔اقبال کے علاوہ اگر غالب کے کلام سے ’مذہبی مواد‘کو نکال دیا جائے تو چند ناتمام نقوش کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا ۔
تعلیم، تہذیبی ورثہ اور فکر و معاشرت کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اگر خاندان کے تمام افراد حصول معاش میں مصروف ہو جائیں اور تعلیم سے ہدف بنایا جانے والا ’مذہبی مواد‘ یعنی احترام جان، احترام قرابت ، احترام عقل ، احترام عدل، احترام مال ، دوغلے پن، منافقانہ طریق کار اور فاسقانہ طرزِ حیات وغیرہ کو نکال دیا جائے، اور پھر توحیدی تصورِ زندگی جو ہزارسجدوں کی جگہ صرف وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کو سجدہ کرنا ہے، ان تمام امور کو معیشت ، معاشرت ، سیاست ، قانون ، تاریخ ،ثقافت سے نکال کر ’دینیات‘ میں ڈال دیا جائے، تو کیا کسی کی زندگی کا کوئی مفہوم و معنی باقی رہ سکتا ہے، اور کیا ایسی تعلیم کسی معاشرے اور ریاست کو یک جا رکھ سکتی ہے ؟
ابھی تک تو بات معاشرتی علوم، اردو ،انگریزی کی ہو رہی ہے کہ ان کتب میں " مذہبی مواد" یعنی اگر کہیں حیا کا ذکر آگیا ہو، یا کہیں صبر و استقامت یا مجاہدانہ بے خوفی یا آخرت میں کامیابی کے لیے ایمان داری سے صحیح ناپ تول کا ذکر ہو، یا کسی سے سچ بولنے کے لیے کہا گیا ہو اور اس کی تعلیم دی گئی ہو، کہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کے رویے کی تعلیم دی گئی ہو، یا کہیں ماں کا احترام اور اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی بات کی گئی ہو، تو چونکہ یہ سب ’مذہبی مواد‘ ہے ، اور یہی قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں، اس لیے انھیں تمام علوم کی کتب سے خارج ہونا چاہیے تاکہ اس کے بعد ہماری نئی نسل’انسانیت پرستی‘ (Humanism) یعنی دینی تعلیمات و اخلاقیات سے بالکل لاتعلق ہوجائے۔ کیا کوئی عقل و ہوش رکھنے والا پاکستانی ان خیالات کو کسی باہوش و حواس شخص سے منسوب کرسکتا ہے؟
اگر اس منطق اور دلیل کو مان لیا جائے تو لازماً اگلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ نہ صرف اذان جس سے ۳ فی صد سے بھی کم آبادی کی ’سمع خراشی‘ کا بعید امکان ہے۔ اب ۱۴سوسال بعد، اچانک اس کا امکان کچھ دانشوروں کے ذہن کے کسی گوشہ میں ابھر آیا ہے ، اس لیے اس پر بھی پابندی ہو! یہی نہیں بلکہ تین فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ہمارے ’روشن خیال‘ اور حقوقِ انسانی کے علَم بردار یہ بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ قومی ترانہ سے ’مذہبی مواد‘ نکالا جائےیا پھر ان کو قومی ترانے میں شرکت سے بھی رخصت دی جائے، کیوں کہ اس کا ایک ایک بول ’مذہبی مواد‘ سے لبریز ہے۔ چونکہ مسلمانوں اور غیرمسلموں،دونوں کے لیے ہے، اور یہ ترانہ ان کی پہچان ہے، تو اسے سب کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے۔ مراد یہ ہے کہ اگر’ مذہبی مواد‘ کا وہ فلسفہ درست ہے، جس کومختلف علوم کے سلسلے میں پیش کیا جارہا ہے تو تو پھر قومی ترانے کا بھی تیا پانچہ کرنا ہوگا!
اس وقت بیش تر گفتگو کا مرکز نصاب ہے جس پر عالمی سطح پر ماہرین تعلیم کا اتفاق ہے کہ اس کا براہ راست تعلق معیارات (standards)، تاریخ و ثقافت ، قومی ہیرواور قومی مقاصد اور تہذیب وتمدن سے ہے۔ تعلیمی معیارات ،تاریخ و ثقافت اورقومی ہیرو ہر نصاب کا حصہ ہوتے ہیں اور وہ قومی اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ انھی سے قومیت کا تصور ابھرتا ہے ۔ لیکن ہمارا معاملہ دوسروں سے بہت مختلف ہے۔ہماری قومیت کی بنیاد نہ صوبہ ہے ،نہ مقامی لباس یا بول چال ، نہ کوئی زمین کی حدود ، نہ رنگ و نسل اور نہ ذات برادری یا قبائلی تعلق بلکہ صرف اور صرف دین اور اس دین کی بنیاد پر ترقی پانے والی ثقافت اور تہذیب ہے۔
ہماری نگاہ میں اصل موضوع وہ نظام تعلیم ہے، جس کی طرف مندرجہ بالا تمام سرکاری دستاویز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ فرسودہ نظامِ تعلیم، یعنی جو نظام انگریز سامراج نے ہمیں دیا، اس کی جگہ ایک کردار سازی کرنے والا نظام تعلیم جس میں اسلامی اقدار اور آئیڈیل سمو دیے گئے ہوں، اس کا نفاذ کیا جائے۔یہ مطالبہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ یہ ماہرین کے مقرر کردہ ہر کمیشن کی مشترکہ قرارداد ہے، جسے آج تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔غالباً یہی وہ پہلو ہے، جسے وزیراعظم عمران خان باربار کہتے ہیں کہ ’’ہمیں وہ نظام تعلیم لانا چاہیے، جس میں ہر نوجوان کے لیے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم سیرت و کردار کا اعلیٰ ترین نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہو‘‘۔ جب تک ہر شعبۂ علم میں آپؐ کی ہمہ گیر شخصیت کے پہلو شامل نہیں کیے جائیں گے ، اسلامیات کی کتاب میں ایک باب یا چند صفحات یہ کام نہیں کر سکتے۔
اگر ایک نہیں درجنوں غیر مسلم مفکرین جن میں: کارلائل ہو ، یا گب یا مائیکل ہارٹ، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’انسانیت کے لیے سب سے زیادہ مکمل اور اچھی مثال یا رول ماڈل اگر کوئی ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و حیات ہے‘‘۔پھر وہ جو کلمۂ شہادت کے ذریعے اپنے ایمان اور ختم نبوت پر یقین کا اعلان کرتے ہیں ، ان کے علوم کی تعلیم میں اس پہلو کو شامل نہ کرنا کیا اس شہادت سے کھلاانحراف نہ ہو گا؟ نہ صرف یہ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا کسی بھی بڑے سے بڑے سائنس دان سے موازنہ کرنا اور آپؐ کی سیرت کی جگہ اس کا تذکرہ شامل کرنا ،کیا انسانیت کے مفاد میں ہو گا؟ قرآن کریم نے آپؐ کو تمام انسانوں (كَا فَّةً لِّلنَّاسِ) کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے ۔ایک ہندو ، عیسائی یا کسی بھی مذہب کو ماننے والے کے لیے آپؐ صحیح انسانی طرزِ عمل کی مثال پیش کرتے ہیں ۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کرنا ، قرآن کے اس فیصلے کے خلاف ہے اور غیر مسلموں کو بھلائی ، خیر اور سچائی کی اعلیٰ ترین مثال سے محروم کرنا ہے، جو انسانی حقوق کی بھی واضح خلاف ورزی ہے۔
یہ بدگمانی بھی اصلاح طلب ہے کہ قرآن کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ قرآن اپنے آپ کو ھُدًی لِلنَّاسِ کہتا ہے۔ شریعت، یعنی سچائی ، ایمان داری ، پاک بازی ، حقوق کی ادائیگی ، ماں باپ کا احترام و اطاعت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ۔ یہ انسا نیت کے وجود کے لیے لازمی عناصر ہیں۔ اس لیے قرآنی اخلاق، یعنی معاشی ، معاشرتی ، سیاسی طرز عمل کو صرف مسلمانوں تک محدود کرنا غیر مسلموں کے ساتھ تفریق ، ظلم اور ان کے ابلاغی حقوق کی پامالی ہے۔ انھیں انسانیت کی بھلائی کے عالمی متفقہ چارٹر اور راہنما اصولوں سے محروم رکھنا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ ان سے زیادتی کے مترادف ہے ۔قرآن چاہتا ہے کہ سچ ہر انسان تک پہنچے، تاکہ وہ طے کر سکے کہ اسے قبول کرنا اس کے لیے مفید ہے یا نہیں ۔ اسے اسلامی اخلاق و سیرت پاک سے لاعلم رکھنا، اس کےبنیادی حقوق پر ڈاکا اور واضح ظلم ہے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا ’مذہبی مواد‘کے بارے میں کیا تصور تھا اور کتنی پیشہ وارانہ بددیانتی کے ساتھ قائد کے حقیقی تصور کوقوم سے چھپائے رکھا۔ خصوصاً ’مطالعہ پاکستان‘ میں ان خیالات کو آنے ہی نہیں دیا گیا، جن سے مغربی سامراجیت زدہ اذہان خوف زدہ تھے۔ ’مذہبی مواد‘ کے بارے میں ہم صرف چند مستند تحریری بیانات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے قائد اعظم ایک کھرے ،بےباک ، پر وقار اور دو ٹوک بات کرنے والی شخصیت کے حامل تھے۔ ان میں دو رنگی اور منافقت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اس کا اظہار کھل کرکر تے تھے۔ موجودہ زمانے کے نام نہاد سیاسی بازیگروں کی طرح ذومعنی الفاظ کا استعمال ان کی لغت اور زندگی میں نہیں تھے۔ ان کی نگاہ میں اسلام ، اسلامیات کی کتاب تک محدود نہیں تھا۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کے اپنے تحریری خطاب میں فرماتے ہیں:
قائد اعظم کا یہ خطاب ان تمام پیدا کردہ شکوک و شبہات کو ختم کر دیتا ہے، جو ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی انوکھی تعبیر کر کے پیدا کیے جاتے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ تحریر بلکہ بہت سے وہ تحریری بیانات و خطبات جو کسی بھی محقق سے مخفی نہیں ہیں اور شاید جان بوجھ کر انھیں بیان نہیں کیا جاتا رہا۔ وہ اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ ’دینی مواد‘کو ہر شعبۂ زندگی میں شامل کر نے اور پاکستان کو ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست بنانے پر یکسو تھے ۔یہ قیام پاکستان کے بعد کی بات نہیں، اس سے بہت پہلے بھی ان کا موقف یہی تھا ۔
پھر فروری ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمدعلی جناح نے ریڈیو سے امریکی شہریوں کو خطاب کرتے ہوئے دستور پاکستان کے بننے سے پہلے ہی اس کا اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ قائدامریکی باشندوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ:
This Dominion which represents the fulfillment, in a certain measure, of the cherished goal of 100 million Muslim of this sub-continent, came into existence on August 14, 1947. Pakistan is the premier Islamic State and the fifth largest in the world. (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, volume 4, P 2692)
ہرمملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دُنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلد چہارم، ص ۴۲۰)
اسی بات کو فرنٹئیر مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ ، ۲۰ نومبر ۱۹۴۵ء، بمقام پشاور میں یوں بیان کرتے ہیں :
We have to fight a double-edged battle, one against the Hindu Congress and the other against the British Imperialists, both of whom are capitalist.The Muslims demand Pakistan,where they could live according to their own code of life, their own cultural growth, traditions and Islamic Laws. (K.A.K. Yusufi, The Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah some Rare Speeches ـ& & Statements , Lahore, Punjab University, 1988, P 93)
ہمیں دوہری جنگ لڑنا ہوگی۔ ایک ہندو کانگرس کے خلاف اور دوسری برطانوی سامراجیوں کے خلاف، دونوں ہی سرمایہ دار ہیں۔ مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے نظامِ زندگی، اپنی ثقافت و روایات اور اسلامی قانون کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم کس بنیاد پر ملک و قوم اور نظام تعلیم کی تعمیر چاہتے تھے ۔وہ بار بار کہتے ہیں کہ ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہماری سیاست، ہمارا قانون، سب اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوں گے ۔گویا نظام تعلیم اس سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ ’روشن خیالی‘ کے نام پر سیکولر زم نہیں لایا جا سکتا ۔بیرونی ممالک کی زر خرید این جی اوز کے کہنے پر’ مذہبی مواد‘ الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ایسا کرنا قائد اعظم اور پاکستان کے تصور سے غداری اور امانت و دیانت کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہو گا۔بانی ٔ پاکستان کے ان دوٹوک پالیسی فرمودات کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ کسی بھی ملک کے لیے اس کے بانیان کا تصور اور اس کا دستور ہمیشہ ایک تقدس کا مقام رکھتا ہے۔
مناسب ہو گااگر ایک لمحے کے لیے یہ دیکھ لیا جائے کہ نظام تعلیم پر کیا دستوری ہدایات (یہاں ہم نصاب پر بات نہیں کر رہے، کیوں کہ وہ لا محالہ نظام تعلیم کے تابع ہوگا) پائی جاتی ہیں ۔ دستور پاکستان کی دفعہ۳۱(۱) (۲) ’اسلامی طریقۂ حیات‘ کے زیرعنوان کہتی ہے:
31. (1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.
(2)The State shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan,
(a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of the Holy Quran;
(b) to promote unity and the observance of the Islamic moral standards; and, (c) to secure the proper organisation of Zakat, Ushr, Auqaf and Mosques (The Constitution of Islamic Republic of Pakistan, Islamabad, 1989, P 22-23).
۳۱- (۱) پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے، اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور
(ج) زکوٰۃ، عشر،اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
اس وسیع تر تناظر میں بنیادی مسئلہ وہ ہے، جس سے سیکولر لابی اور خود پرست صاحبان اقتدار پہلو بچاتے رہے ہیں، یعنی ملک میں مکمل اسلامی نظامِ تعلیم کا نفاذ اور اس میں نصاب اور نصابی کتب کی اسلامی اخلاق کی تدوین جدید کے ساتھ معلمین اور معلمات کی اس نظام تعلیم کے فلسفے سے آگاہی اور اس کے نفاذ کی حکمت عملی پر یکسوئی، تاکہ نہ صرف نصابی کتب بلکہ ان کے متن کو سمجھانے والے اپنے ذاتی کردار کی مثال سے ایک عملی نمونہ پیش کر سکیں ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور تمام پاکستانیوں کے حقوق کا پاسبان ہے اور وضاحت سے ہدایت کرتا ہے کہ ان کی اولاد اور آنے والی نسلوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت ، عمرانیات، سیاسیات ، انجینئرنگ ، طب، غرض تمام علوم کی تعلیم دی جائے اور دستور کی ہدایات پر ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے اسلامیات ایک لازمی مضمون کے طور پر برقرار رہے ۔ گویا ہر شعبۂ علم میں ’مذہبی مواد‘ شامل کیا جانا ایک دستوری ضرورت ہے اور قائد اعظم کے واضح ارشادات پر عمل کرنا ہے۔ہمارے خیال میں کوئی بھی پاکستانی چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو ، بانی ٔ پاکستان کے سوچے سمجھے مقصدِ پاکستان سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ جس مقصد کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں اور عزّتیں قربان کی گئیں۔ اس کا حصول موجودہ اور آنے والی نسلوں کاا یمانی تقاضا ہے ۔ اس میں کسی غیر مسلم شہری کی نہ دل آزاری ہے ، نہ حقوق کی پامالی۔ ویسے بھی ان مذاہب کے ماننے والوں کے نمایندوں کے باہمی اتفاق سے وزارت تعلیم نے ان کا مذہبی نصاب ان سے بنوا کر شائع کر دیا ہے۔ اب یہ مسئلہ صرف ۹۶ فی صد مسلمانوں کا ہے۔
جہاں تک تعلق’ دینی مواد‘ کا ہے تو مسلمان کی تمام زندگی ہی دینی مواد کے تابع اور زیراثر ہے ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ، ایک ایک عمل اپنے ربّ کی بندگی میں بسر ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی دوالگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہوتی کہ ایک خانے میں دھوکا اور رشوت ہو اور ایک خانے میں تسبیح اور نماز اور دیگر عبادات ۔ اس لیے ہمارا ادب ہو ، شاعری ہو ، عمرانی علوم ہوں، معاشیات ہو یا انجینئرنگ یا طب، ہر علم میں اسلامی اقدار و روایات کا مکمل نفوذ ہی ہمیں صحیح معنوں میں پاکستانی بنا سکتا ہے ۔ ہم وہ قوم ہیں ، جس کا وجود نہ کسی خطۂ زمین سے ہے نہ کسی نسل ، ذات یا مسلک سے بلکہ صرف اور صرف دین اسلام ہماری شخصیت اور پہچان ہے ۔
یہ تاریخ کا ایک منفرد باب ہے جس میں ایک قوم اسلام کی بنا پر پہلے وجود میں آئی اور اس قوم نے دو مراحل (۱۹۳۰ءسے ۱۹۴۰ء تک ایک مرحلہ اور ۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء تک دوسرے مرحلے میں ) یعنی عملاً سات سال میں ایک خطۂ زمین حاصل کرلیا۔پہلے ایک قوم بنی، ملک بعد میں وجود میں آیا۔یہ تاریخ کا ایک ایسا واقعہ اور حقیقت ہے ، جس کی صرف ایک مثال اس سے قبل پائی جاتی ہے اور وہ ہے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام ۔ وہاں بھی امت مسلمہ پہلے وجود میں آئی اور مملکت اس کے بعد بطور عطیۂ الٰہی ملی ۔اس لحاظ سے پاکستان یا قائد اعظم کے اپنے الفاظ میں ’اسلام کے قلعہ‘ کا تحفظ ، فروغ ، اور اس میں اسلامی نظام تعلیم کا قیام ، اس ملک کے ۹۶ فی صد شہریوں کا پیدایشی، جمہوری اور دینی حق ہے، جسے کوئی طاقت غصب نہیں کر سکتی۔
تہذیب اور ثقافت کی روایتی تعریف پر غور کیا جائے تو چاہے ثقافت سے مراد کسی اجتماعیت میں پائی جانے والی اقدارِ حیات ہوں یا ان کا تصور مذہب، قانون، معیشت، سیاست، فنون اور ادب یا وہ قابلِ محسوس ورثہ جو فنِ تعمیر میں، شعروادب میں، رسوم و رواج اور مذہبی عبادات، تہواروں اور نامور ان کی عزت واحترام کی شکل میں پایا جاتا ہو، ہم جس زاویے سے بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف اپنے ذہن میں کریں، ایک مشترک قدر بہرصورت نظر آتی ہے اور وہ ہے ’تہذیبی یا ثقافتی تشخص‘ identity یا پہچان۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص نے ماتھے پر زعفرانی رنگ کی لکیریں بنائی ہوں اور عین ماتھے کے وسط میں ایک بندیا لگاکر اور گلے میں گیارہ رنگین دھاگے لٹکاکر وہ اپنے بارے میں امام مسجد یا کسی مدرسے کے شیخ الحدیث ہونے کا دعویٰ کرے۔ ایسے ہی اگر ایک شخص حالت ِ سفر میں ہو اور کسی ریستوران میں جاکر کھانا طلب کرے اور اسے معلوم ہو کہ فرانس یا جرمنی یا امریکا کے اُس ریستوران میں ’حلال و حرام کی تمیز نہیں کی جاتی اور بھوک پر قابو کرتے ہوئے دودھ یا سوکھی روٹی پر گزارا کرلے تواس کا یہ عمل اس کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کا پتا دے گا۔ اپنی اس ثقافتی اور تہذیبی شناخت کا اہتمام اور اس پر فخر بعض اوقات ایک مضحکہ خیز طرزِعمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے لیکن اپنی تمام مضحکہ خیزی کے باوجود اپنے اندر ایک گہرا پیغام رکھتا ہے۔ بعض اوقات اس تشخص کا جزوی اہتمام انسان کے اندر حق و باطل کی کش مکش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ اس کے باوجود انسان کا ضمیر اگر زندہ ہو تو وہ ایک غلطی کو غلطی ہی سمجھتا ہے۔
اُردو ادب کا ہرطالب علم یہ جانتا ہے کہ گیسوے اُردو کو سنوارنے والوں میں مرزا اسد اللہ غالب وہی مقام رکھتے ہیں جو معنوی ادب کی تعمیر میں اقبال کا ہے لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے دوران جب ثقافتی اور تہذیبی تشخص کے حوالے سے مرزا کو ایک انگریز کرنل کے سامنے مسلمان ہونے کے جرم میں پیش کیا گیا اوراس نے پوچھا کہ ’ویل کیا ٹم مسلمان ہے؟‘ تو مرزا کا جواب انتہائی معنی خیز تھا۔ انھوں نے کہا: جناب میں ۵۰ فی صد مسلمان ہوں۔ انگریز نے تعجب سے دوبارہ استفسار کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ شراب ضرور پیتا ہوں لیکن خنزیر کبھی نہیں کھاتا۔ یہاں پر مرزا نے اپنی شناخت اعترافِ گناہ کے ساتھ جس بلیغ انداز میں کی وہ ان کی اپنی ذات کے بارے میں تصور کو واشگاف الفاظ میں ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ بنیادی طور پر تو اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ثواب طاعت و زُہد سے آگاہ ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن طبیعت سے مجبور ہوکر بعض اوقات بھٹک بھی جاتے ہیں۔ ایسے ہی مرزا کی چار گوشے والی ٹوپی، ان کا خرقہ، ان کی شکل صورت، ان کے ہرہرشعر میں جنت اور جہنم کا حوالہ، ان کی شخصیت کے سیاق و سباق ان کے تشخص کو کھول کر بیان کردیتا ہے۔
اس تاریخی جملۂ معترضہ سے ہماری مراد صرف یہ ہے کہ تہذیبی تشخص کا تعلق اُس تصورِحیات اور بعد الممات سے ہوتا ہے جو ایک فرد اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ جب پوچھا جائے کہ تم کون ہو؟ تو اس کا جواب یہ نہیں ہوتا کہ میں کس علاقے، کس زبان، یا کس ذات پات اور نسل سے تعلق رکھتا ہوں بلکہ اس کا جواب تہذیبی اور ثقافتی تشخص، اقدارِ حیات پر مبنی خودبینی اور اجتماعی وابستگی کوظاہر کرتا ہے۔
شکست خوردہ اور محکوم ذہنیت کا ایک بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیرمحسوس طور پر جس فضا اور ماحول میں پلتی بڑھتی اور ترقی کرتی ہے، اس فضا کی اتنی عادی ہوچکی ہوتی ہے کہ اسے اپنی محکومیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ گرمیوں کے موسم میں ہرشخص کو پسینہ آتا ہے لیکن عموماً ایسے افراد جن کے پسینے میں تیزابیت اور بو ہوتی ہے انھیں خود اپنی اس کمزوری کا احساس نہیں ہوتا، جب کہ ان کے دائیں اور بائیں نماز کی صف میں کھڑے ہونے والے نمازی اس بُو سے پریشان رہتے ہیں۔ اسی بنا پر ہمارے دین نے ہمیں نظافت اور طہارت کا حکم دیا ہے اور سیرتِ پاکؐ سے یہ پیغام ملتا ہے کہ نمازی نماز کو جانے سے قبل لہسن نہ کھائے اور ایک محنت کش اپنے بازوئوں سے پسینہ صاف کر کے صف میں شامل ہو۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا ہر صاحب ِ ایمان میں یہ احساس بیدار کرنا تھا کہ وہ خود احتسابی کرتے ہوئے اپنے عقیدے اور نظریۂ حیات کا جائزہ لے یہاں تک کہ انتہائی معمولی باتوں میں بھی اپنا جائزہ لیتا رہے۔
اس کے مقابلے میں ایک شکست خوردہ ذہنیت کو اپنے سامراجی نظام کی فکر، زاویۂ تحقیق اور تعلیم سے گہری وابستگی کی بناپر وہ اچھائی جو سامراجی تعلیم و ثقافت کی پہچان ہے، غیرمحسوس طور پر درست، اور ہر وہ بُرائی جو سامراجی تہذیبی و ثقافتی روایت میں بُری سمجھی جاتی ہے، اپنے خیال میں بُرائی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے بڑی واضح مثال ان مفکرین کی ہوگی جو سامراجی فکر اور سامراجی پیمانۂ معروف ومنکر پر غیرمحسوس طور پر ایمان رکھنے کی بنا پر مغرب کے رواج کو مثالی انسانی طرزِعمل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اگر مغرب میں صرف ایک شادی قانونی طور پر درست سمجھی جاتی ہے یا قاتل کو سزاے موت دینا ایک غیرمہذب فعل سمجھا جاتا ہے یا تہذیب کی معراج یہ سمجھی جاتی ہے کہ انفرادی آزادی کے نام پر مردوں اور عورتوں کوتن کی عریانی کا غیرمحدود حق دے دیا جائے تو یہ مفکرین اور دانش ور مسلم معاشروں میں ایسی ہی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔
معاشرے میں پایا جانے والا ظلم و استحصال انھیں مضطرب نہیں کرتا۔ اگر انھوں نے انگریز کے دیے ہوئے تعلیمی نظام میں تربیت پائی ہوتی ہے تو وہ اسی نظامِ تعلیم کو حق اور درست سمجھتے ہیں اور اس میں کسی معمولی سی اصلاح کو انحراف قرار دیتے ہیں۔ الجیریا کے معروف مفکر مالک بن نبی مرحوم نے اس ذہن کے بارے میں بہت صحیح کہا تھا کہ سامراجیت سے زیادہ سامراج زدہ ذہن خطرناک ہوتا ہے کیوںکہ و ہ سامراجی طاقت کی طرح کھلا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ سامراجیت کے زہر سے آلودہ ہوکر بظاہر ایک نوآزاد مملکت کا مقامی سربراہ ہوتا ہے لیکن اپنی فکر اور عمل میں وہ سامراجی طاقت سے زیادہ سامراجیت کا وفادار ہوتا ہے۔
اس شکست خوردہ ذہنیت سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی تشخص پر کم از کم چار زاویوں سے غور کیا جاسکتا ہے:
۱- عمرانی اور سماجیاتی زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کی بنیاد وہ مقامی بودوباش کی روایت ہوتی ہے جو کسی قبیلے یا قوم نے کسی خطے میں اختیار کی ہو اور عرصۂ دراز تک اس پر عمل کرنے کے سبب وہ ان کی عادت اور عرف بن گیا ہو۔ اسی بنا پر ہندستان کی تہذیب کو ہندووانہ رسوم و رواج، عبادات اور ناچ گانوں، طبقاتی تقسیم اور رنگ (وارنا)کی بنیاد پر تفریق اور طبقاتی تقسیم والی تہذیب قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تہذیب برصغیر میں محدود رہی اور اگر کسی نے اس کے زمینی تقدس کو پامال کرنا چاہا تو اسے مذہب بدر کر دیا گیا، حتیٰ کہ گاندھی نے بھی جب ہندستان کو چھوڑ کر برطانیہ اور جنوبی افریقہ کا رُخ کیا تو اس مذہبی خلاف ورزی پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسی فرد کو اس کی مسلمان دشمن سیاسی حکمت عملی اور نام نہاد پُرامن احتجاج کے تصور کی بنا پر ’مہاتما‘ کے اعلیٰ روحانی مقام پر فائز ہونے کا اعزاز دیا گیا۔
زرتشت کے زیراثر پرورش پانے والی تہذیب و ثقافت چونکہ صرف ایران میں مقید و محدود رہی، اس لیے اس کی بنیاد بھی وہ زمینی روایات ہیں جو اس خطے میں پائی جاتی تھیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ہم اس طریق تحقیق کو اس کے بنیادی نقص، یعنی دائرۂ تحقیق کو ایک مخصوص خطے تک محدود کردینے کی بناپر استعمال نہیں کرسکے۔ گو بہت سے غیرمسلم اور ان سے متاثر بعض مسلمان اسلامی ثقافت و تہذیب کو عربی ثقافت و تہذیب قرار دینے کی صریح غلطی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔
۲- سامراجی ثقافت و تہذیب کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو بعض اقوام نے اپنے زیرتسلط محکوم اقوام کو اپنے دورِ اقتدار میں تعلیم، معاشی، سیاسی اور قانونی تبدیلیوں کے ذریعے سامراجی فکر کا تابع بنانے اور ان کی اپنی تہذیب و ثقافت سے ان کے تعلق کو منقطع کرنے کے لیے ان کی زبان و ادب، ان کی معاشرت اور کاروبارِ حیات میں ان پر بندشیں لگاکر انھیں فکری اور عملی طور پر اپنا مکمل محکوم بنایا۔ بہترین مثال برطانوی سامراج کی ہے جس نے ۱۰۰سال سے اُوپر برعظیم کے مسلمانوں پر اپنی تعلیمی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حکمت عملی کے ذریعے ان کے ماضی سے تعلق کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے ساتھ ان کی ذہنیت کو یورپی بلکہ انگریزی فکرومزاج سے اتنا ہم آہنگ کردیا کہ اگر آج ایک دانش ور انگریز ادیبوں، فلسفیوں، ماہرین عمرانی علوم کے حوالے دے کر اپنی قومی زبان میں کوئی مقالہ لکھتا ہے تواس کی تمام تحقیق اور محنت کو صحافیانہ تحریر قرار دے کر ایک طرف کردیا جاتا ہے۔
انگریز سامراج کی یہ ذہنیت اسے اپنی زبان میں سوچنے اور اس میں اظہارِ خیال کرنے کی صلاحیت سے آہستہ آہستہ محروم کردیتی ہے او روہ ان اصطلاحات کے استعمال کے بغیر جن کا منبع اور روحانی رشتہ یورپی اور انگریزی ثقافت سے ہے اپنی بات بیان نہیں کرسکتا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جو قوم اپنی زبان میں سوچ نہ سکتی ہو اور اپنی زبان میں اظہارِ مدعا نہ کرسکتی ہو اس پر ترقی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حقیقت بین نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں ہوسکتی کہ کوریا ہو یا چین ان کی ترقی کا راز ان کی اپنی زبان میں تعلیم اور اپنی زبان و ثقافت پر فخر کا بنیادی دخل ہے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم غیرملکی زبانوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں محض قومی زبان نہیں بلکہ مزید پانچ یورپی زبانوں پر عبور ایک مستحسن اقدام ہے لیکن انگریز سامراجی ذہن سے ہرمسئلے پر غور کرنا اور جوتحقیق کی حکمت انھوں نے اپنے مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے ایجاد کی ہو، اس کو ایک مختلف معاشرتی، ثقافتی، دینی ماحول کی تعبیر میں استعمال کرنا طریق تحقیق کی ایک بنیادی ناسمجھی ہی نہیں واضح غلطی ہے۔
مثال کے طور پر اگر یورپ زدہ سامراجی علمِ عمرانیات میں خاندان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ایک شخص اور اس کی قانونی منکوحہ اور اس کے حد سے حد دو بچوں پر مبنی اولاد، تو غیرشعوری طور پر اگر ایک ایسے معاشرے کا مطالعہ کرنا ہو جس کے بنیادی تصورات میں کثیرالاولاد ہونا اچھائی کی علامت ہو، جہاں خاندان کا مطلب والدین، شوہر،بیوی، شوہر کے بھائی بہن، ان کے بچے اور اس کے اپنے بچے ہوں___ تحقیقی تعصب سے اپنے آپ کو بچانا ناممکن ہوگا اور نتائجِ تحقیق کا لازمی طور پر رنگین عینک سے دیکھنے کی وجہ سے گمراہ کن ہونا یقینی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ زدگی کے شکار علومِ عمرانی کے ماہر، تاریخ دان ہوں یا سیاسی تجزیہ کار، جس تحقیقی حکمت عملی میں تربیت پاکر اعلیٰ تعلیمی سندات حاصل کرتے ہیں اپنے آپ کو اُس فکری حلقے میں نہ تو قید تصور کرتے ہیں اور نہ اُس سے نکل کر زمینی حقائق پر غور کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
اگر یورپ زدہ سماجیاتی تصور یہ ہے، اور جو تقریباً ۲۰۰ سال سے ہماری اپنی جامعات میں رائج ہے، کہ ثقافت اور تہذیب کی جڑیں مقامی رسوم و رواج میں ہوتی ہیں، تو پھرکسی کا مصر میں اپنا تشخص تلاش کرنے کے لیے یہ کہنا کہ وہ فراعنہ کی اولاد سے ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں مصری دیومالائوں میں پائی جاتی ہیں، بالکل فطری عمل ہے۔ یہی تصور قومیت کی بنیاد بنتا ہے اور ایک فرد جس خطے میں پیدا ہو، اس مغرب زدہ فکری زاویۂ نگاہ کی بناپر اپنا نسب اور تعلق زمین سے جوڑتا ہے۔ قدیم ہندو تصور جس میں ’دھرتی ماتا‘ کو مقدس قرار دیا گیا تھا، بظاہر ایسے تمام جغرافیائی قومیت کے تصورات کی بنیاد نظر آتا ہے۔ اس طریق تحقیق کے نتیجے میں جو شخص اپنے آپ کو فرانسیسی یا برطانوی کہتا ہے اس کی حقیقی وجہ اس کا جغرافیائی طور پر اس جگہ پر پیدا ہوجانا، یا اس کا فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا ، یا کسی کا برطانوی انگریزی میں بات کرنا قرار پاتا ہے۔
اسی طرح عمرانیات میں جس چیز کونسل پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی بنیاد بھی یورپ زدہ طریقِ تحقیق ہے جو رنگ، خون یا نسل کو تشخص قرار دیتا ہے۔ آج بھی فرانسیسی قومیت کا ایک اہم جز سفیدفام نسل سے تعلق اور فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ اس طریق تحقیق کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے بارے میں اس کی روشنی میں کوئی تاریخی یا عمرانی تحقیق کی جائے تو انھیں عرب یا ایرانی یا ترک یا نائیجیری اور انڈونیشی کی حیثیت سے زیرمطالعہ لایا جاتا ہے اور ان کے مقامی لباس، چہرہ مہرہ یارنگ کی بنیاد پر ان کا تشخص قرار دیتے ہوئے اسلام کو بھی انڈونیشی اسلام، ایرانی اسلام یا ترکی اسلام کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس تحقیقی حکمت عملی کے استعمال کرنے والوں میں مشہور کینیڈین اسکالر اسمتھ جیسا سنجیدہ شخص بھی شامل ہے۔
اس بظاہر طویل نظری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ سمجھنا ہے کہ جب ہم اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو ہمارا اصل تشخص کیا قرار پاتا ہے اور کیا ہونا چاہیے اور کیا وہ جیسا ہونا چاہیے ویسا ہے؟
پہلی بات تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی خطہ نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ تقسیم ہند سے قبل جن خطّوں کو بعد میں یک جا کر کے پاکستان بنا وہ زبانی عصبیت کی جگہ جغرافیائی خصوصیت کی بنا پر اپنا ایک نام رکھتے تھے ، مثلاً پانچ دریائوں کی زمین کو پنج آب اور دریاے سندھ کی وادی کو سندھ اور ہندستان کی شمال مغربی سرحد کو سرحد کا نام دیا گیا تھا۔ بلوچستان کی بنیاد بھی زبان نہیں قبائلی نسبت تھی۔ ایسے ہی مشرقی اور مغربی بنگال کی بنیاد بھی زبان نہیں تھی کیوںکہ جو زبان مغربی بنگال میں مستعمل تھی وہ سنسکرت زدہ اور جو مشرقی بنگال میں (جو بعد میں مشرقی پاکستان کہلایا) استعمال ہوتی تھی وہ عربی،فارسی کے سرمایے سے بھرپور تھی۔۱؎ گویا پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی حدیں یا مقامی زبان، غذا یا وضع قطع نہیں ہوسکتی۔
دوسری بنیاد جس پہ مغرب زدہ علومِ عمرانیات قائم ہیں علاقائی اور قبائلی تعلق ہے۔ پاکستان کے تناظر میں مختلف خطوں اور قبائلی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے قبائلی یا علاقائی تشخص قومی تشخص نہیں بن سکتا۔خود بانیِ پاکستان نے اس پہلو پر مختلف مواقع پر پُرزور الفاظ میں یہ بات کہی کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ آپ کی پہچان نہ بلوچیت ہے، نہ پنجابیت، نہ سندھیت، نہ سرحدیت، اب آپ ایک نئی اکائی اور وحدت میں شامل ہوگئے ہیں۔ آپ کا تشخص اُس سے بہت مختلف ہے جو مغرب نے ہمیں سکھایا ہے۔۲؎
تیسری بنیاد غالب تہذیب کا صدیوں کے عمل کے نتیجے میں محکوم پر غالب آجانا ہوسکتاہے۔ اگر غیرمنقسم ہندستان کے تناظر میں اس مفروضے کا جائزہ لیا جائے تو ۸۰۰ سال کے لگ بھگ حکومت کرنے کے باوجود تقسیم ملک کے وقت مسلمان تعداد میں ایک چوتھائی یا اُس سے کچھ کم رہے۔ اگر وہ سامراجی طاقت ہوتے تو اپنی تعلیمی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حکمت عملی اور دبائو سے غیرمسلم اکثریت کی تعداد کو اقلیت میں تبدیل کرسکتے تھے۔ جدید فرانس اسی اصول کی بناپر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ چونکہ وہ غالب اور حاکم تہذیب ہے اس لیے اس کے نوآبادیاتی نظام سے آنے والے افریقی ہوں یا الجزائری، وہ فرانسیسی طرزِ زندگی اختیار کیے بغیر فرانسیسی نہیں شمار کیے جاسکتے۔ انھیں اپنے دینی معاملات کو بھی فرانسیسی تہذیب کا تابع کرنا ہوگا۔ چنانچہ سر پررومال کے استعمال پر پابندی کو ایک قومی مسئلہ بنایا گیا۔
اگر اکثریت کے رواج، بودوباش، دینی فکر اور عمل اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی طرزِعمل کی بنیاد پر کسی قوم کا تشخص قرار دیا جانا فرانس، برطانیہ، امریکا یا دیگر ممالک میں ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، تو پھر پاکستانی تشخص اور تہذیب و ثقافت بھی پاکستان کی غالب اکثریت کی بناپر جو قدرِمشترک پائی جاتی ہو اسی پر مبنی ہونی چاہیے۔ یہ قدر مشترک نہ تو علاقائی زبان ہوسکتی ہے، نہ جسم و قدوقامت نہ قبائلی اور نسلی تعلق، یہ صرف اور صرف وہ تصورِ حیات ہی ہوسکتا ہے جو اس کے رہن سہن، کھانے پینے، معاشرتی عادات، معاشی ترقی کے تصور اور نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آنے والی زندگی میںکامیابی کے تصور کا تعین کرتا ہے۔
تہذیب و ثقافت میں مذہب کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور کیا وجہ ہے مغرب زدہ دانش ور اور مغربی مفکرین جب بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف کرتے ہیں، تو اس میں مذہب کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر تہذیب و ثقافت سے مراد وہ رہن سہن اور روایات لیتے ہیں جو صدیوں سے کسی مقام یا کسی اجتماعیت میں پائی جاتی ہوں۔ اس سوال کا مختصر جائزہ ہم اس مقالے کے آغاز میں لے چکے ہیں کہ یورپی تاریخ میں عیسائی چرچ کے دور کو تنگ نظری، انتہاپسندی، مذہبی نفاق، ردِعقلیت، جذباتیت اور ترقی پسندی کی ضد خیال کیا جاتا ہے بلکہ یہ تصور مغربی فکر میں ایک ’مصدقہ حقیقت‘ کا مقام رکھتا ہے۔ جدید علمی تحقیق میں عیسائی چرچ کے خلاف ردعمل کو لبرل ازم یا اباحیت پرستی، عقل پرستی، سائنسی فکر، نشاتِ ثانیہ، احیاے انسان پرستی (Humanism)، احیاے فطرت پرستی اور روشن خیالی کے نام پر یاد کیا جاتا ہے۔ آج جو مکاتب ِ فکر یورپ و امریکا میں پائے جاتے ہیں اور ان کے زیراثر تعلیم پاکر آنے والے مسلم ممالک کے دانش ور، سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مذہب اور عقلیت میں ٹکرائو ایک فطری عمل ہے۔ وہ غیرشعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ مذہب لازمی طور پر انتہاپسندی کو پیدا کرتا ہے وغیرہ۔ اس لیے مغرب زدہ عمرانی علوم کا نقطۂ آغاز ہی عقل کی مطلق العنانی، مذہب کی چرچ کی چاردیواری تک محدودیت اور معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کا مذہب کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہونا، ترقی کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے اور جب علم پر مبنی معاشی ترقی، علم پر مبنی معاشرہ ، یا روشن خیالی کی بات کی جاتی ہے، تو ذہنی پس منظر میں عملاً مادیت پرستی، افادیت پرستی، اخلاقی اضافیت (Ethical Relativisim)، انفرادیت پرستی اور تہذیبی و ثقافتی ارتقا پر ایمان بالغیب لانے کے بعد ہی مذہب اور ثقافت کو معاشرتی ارتقا کے تابع کردیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج اخذ کیے جاسکیں۔ مزید یہ کہ مغربی تصورِ حیات کی پیروی میں مسلم معاشرے میں بھی مذہب کو ذاتی یا انفرادی معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس مغربی فکری شیش محل میں محصور ذہن کے مقابلے میں ایک آزاد ذہن جو مغرب زدگی کے سحر سے نکل چکا ہو، جب تہذیب و ثقافت کے تصور پر غور کرتا ہے تو تہذیب و ثقافت صرف اور صرف ایک ملت کے تصورِ حیات کی قابلِ محسوس شکل اور مظہر قرار پاتی ہے۔ عصرِحاضر کے عظیم دینی رہنما اور مفکر سیدمودودی نے اس ساری بحث کو محض چند الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اس کے علوم و آداب، فنونِ لطیفہ، صنائع و بدائع، اَطوارِ معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا، مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیں ہیں، تہذیب کے نتائج و مظاہر ہیں۔ تہذیب کی اصل نہیں ہیں،شجر تہذیب کے برگ و بار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدروقیمت ان ظاہری صورتوں اور نمایشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جاسکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اوراس کے اساسِ اصول کا تعین کرنا چاہیے۔
اس نقطۂ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے۔ انسان کا اس دنیا سے کیا تعلق ہے؟ اورانسان اس دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے‘‘۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، ۱۹۶۰ء ص ۱۱)
پاکستان بلکہ کسی بھی ایسے ملک کا تشخص جو اپنے آپ کو مسلمان یا اسلامی کہتا ہو، اس کی اسلامیت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کیوںکہ نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحد، نہ اس کا رنگ، نہ اس کے افراد کا نسلی یا قبائلی تعلق اس کا اصل تشخص قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مغربی سامراجی فکرسے متاثر تحقیق کی حکمت عملی سے نجات اور آزادی کے بغیر ہم زمینی حقائق اور معاشرتی تصورات کو جیسے کہ وہ ہیں نہ تو صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد کوئی نتائج نکال سکتے ہیں۔
اس معروضی اور مختصر تجزیاتی مقالے کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق جس اصول کی بنیاد پر ہوئی وہ مسلمانوں کا اپنی تہذیب، ثقافت اور نظریۂ حیات کی بنیاد پر ایک ملّت ہونا تھا جسے دوقومی نظریہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان دو ملّتوں میں ایک دریا کا پانی پینے اور ایک فضا میں سانس لینے کے باوجود بنیادی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اختلاف پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے ملّت اسلامیہ کو اپنے ثقافتی، تہذیبی اور دینی تشخص پر قائم رہنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جہاں وہ اپنی ’پہچان اور تہذیبی اور ثقافتی تشخص‘ کو نہ صرف برقرار رکھ سکے بلکہ مزید ترقی دے سکے۔ ظاہر ہے یہ تشخص اور پہچان اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی تھی۔ ہند میں مسلم اُمت کی بقا اور ترقی کے لیے لازم تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جس کی پہچان صرف اور صرف اسلام ہو۔
پاکستان کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے بانیِ پاکستان نے اسی تہذیبی اور ثقافتی تشخص کی نشان دہی کی تھی:
ہم ہند کو ہندستان اور پاکستان میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں… ہندو ہند اور مسلم ہند دونوں کو الگ ہونا چاہیے۔ چونکہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور بعض معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو کچھ اختلافات کے بارے میں بتا دوں۔ ہم ان سے تاریخ، ثقافت، زبان، فنِ تعمیر، موسیقی، قوانین، اصولِ قانون اور ہمارا سارا معاشرتی تانابانا اور ضابطۂ حیات میں مختلف ہیں (اے بی سی لندن کے ذریعے امریکیوں کے نام پیغام، لندن ۱۳دسمبر۱۹۴۶ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ناشر: بزمِ اقبال لاہور، ترجمہ: اقبال احمدصدیقی، ۱۹۹۸ئ، ص۲۷۲)
اس تشخص کے حوالے سے قائداعظم نے بارہا وضاحت سے یہ بات کہی کہ ثقافتی اور تہذیبی بنیادوں سے ان کی مراد اسلامی نظامِ حیات ہے چنانچہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظریۂ حیات کا قیام و نفوذ ہے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر ’Muslim Ideology‘(مسلم نظریے) کی اصطلاح استعمال کی:
ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے اپنی قوم کی تنظیم کرنا۔ اور ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں۔ نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں اور اسلامی آئیڈیل اوراصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم آئیڈیالوجی بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔(مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن صوبہ سرحد کے نام پیغام، ۱۸جون ۱۹۴۵ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ۱۹۹۸ئ، ص۴۳۸)
آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پاکستان کے اصل تشخص اور پاکستانیت کے اصل مفہوم کو نہ صرف اس کے صحیح تناظر میں بلکہ بانیانِ پاکستان کے بیانات کی روشنی میں تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے، لیکن یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب محققین یورپ زدگی سے اپنے ذہن کو آزاد کرکے مغربی معاشرتی علوم کے طرزِ تحقیق کے خطرات کو ذہن میں رکھتے اور اپنا دامن بچاتے ہوئے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے غور کریں۔ وہی قومیں زندہ رہنے کا حق رکھتی ہیں جن کی نظریاتی اساس مضبوط ہو اور جو خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوں
ان غیر مبہم ، واضح اور مستند تحریری و تقریری بیانات کے مطالعے کے بعد کوئی بھی صاحبِ عقل یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ قائداعظم کا بیانیہ اسلامی پاکستان، اسلامی معیشت ، اسلامی معاشرت اور اسلامی ثقافت کے علاوہ کوئی اور تھا۔اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر اور ایک دوسرے موقعے پر جسٹس منیر کے قائد اعظم سے منسوب ایک گمراہ کن بیان کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہےتاکہ وہ نسل جو قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہوئی ہے حقائق سے آگاہ ہو اور قائد اعظم کی اصل تصویر ان کے سامنے آ سکے۔
ٹیلی ویژن کے دانش وَر اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے والے ’سیکولر‘ اسکالرز بار بار کہتے ہیں کہ جناح صاحب نے ۱۱؍ اگست کی تقریر میں مذہب اور ریاست کو الگ کر کے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کر لیا۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر درج کردہ درجن بھر سے زیادہ بیانات جو ان کے اپنے قلم سے تحریر کردہ ہیں اور جو تقاریر وہ لکھ کر پڑھتے تھے ان میں مسلسل ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستانیت کا مطلب اسلامیت اور نظریۂ پاکستا ن کا مطلب اسلام کے علاوہ کچھ نہیں۔ یاد رہے یہ سب بیانات ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکے بعد کے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ہم محض ایک مفروضے کے طور پر سیکولر طبقے کی ذہنی اختراع کو مان بھی لیں تو ان ساری تحریروں ،بیانات کے بعد۱۱؍ اگست کے خطاب کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے؟ ہم چند لمحات کے لیے اگر یہ مان بھی لیں کہ قائد نے تمام زندگی میں صرف ۱۱؍ اگست کو ہی ایک تقریر کی، تب بھی حقیقت وہ نہیں ہے، جو مخصوص طبقے کا دعویٰ ہے۔
آئیے اس تقریر کو جو تحریری تھی اور جس کا مسودہ ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی مرتب کردہ دستاویزات میں پایا جاتا ہے، خود پڑھ کر دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ تقریر دستور ساز اسمبلی کے صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت کی گئی ۔ تقریر کا متن مع حوالہ درج ذیل ہے:
As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class.... The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of great Britain and they all are members of the nation. Now, I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State (Qua‘id -i-Azam M. Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48 Ministry of Information, Government of Pakistan, Islamabad, 1989, P271)
جیساکہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیساکہ آج ہندستان میں پائے جاتے ہیں۔رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیںجہاں ایک مخصوص فرقےسےامتیاز برتا جاتاہے اوران پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں…
انگلستان کےباشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آنےوالے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اوراس بارِ گراں سے سبکدوش ہوناپڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کےاس مرحلے سے بہ تدریج گزر گئے۔ آپ بجاطورپر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ، اب جو چیز موجودہے وہ یہ کہ ہرفرد ایک شہری ہے اورسب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کےسب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا، نہ ہندو، ہند و رہےگا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے (قائداعظم: تقاریرو بیانات ، جلدچہارم، ص ۳ ۶۰)۔
اس تقریر کو پُراسرار بنانے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا گیا کہ اس کے مسودہ کو کہیں چھپاکر رکھا گیا تھا اور قوم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی، جب کہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ یہ تقریر ہراس مجموعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں قائد کے خطابات کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر یک جا کیا گیا ہے۔ ہمارایہ حوالہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے طبع کردہ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء کی تقاریر و بیانات کی مطبوعہ کتاب سےہے ۔ جس پر اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کا پیش لفظ ہے۔اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ اس کو عوام سے چھپایا گیا ۔اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ تقریر میں کیا کہا گیا۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اس تقریر کا پس منظر بیان کرتے ہیں ، جس کا جاننا بہت ضروری ہے:
Islamic ideology recognizes a distinction of meaning in the words "mazhab" and "din". "Mazhab" means personal faith, view point or path, whereas "din" means a body of those universal principles of Islam which are applicable to entire humanity. Therefore, in this sense, Pakistan does not have any specific mazhhab; because it is neither founded on nor projects the personal viewpoint of any particular Muslim sect. This very important aspect of the Sate of Pakistan was clarified by the Quaid-e-Azam in his famous Presidential address to the Constituent Assembly on August 11, 1947:
"You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State" (Dr. Javed Iqbal, Ideology of Pakistan, Lahore,Sang-e-Meel Publication, 2005 P.16).
نظریۂ اسلام ’مذہب‘ اور’دین‘ کے معنوں میں امتیاز روا رکھتا ہے۔ ’مذہب‘ کا مطلب ہے ذاتی اعتقاد، نقطۂ نظر یا راستہ، جب کہ ’دین‘ کا مطلب ہے اسلام کے وہ عالم گیر اصول جو تمام نوعِ انسانی پر لاگو ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اس مفہوم میں تو پاکستان کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ اس بنیاد پر قائم ہوا ہے اور نہ یہ کسی مخصوص مسلم فرقے کی فکر کو فروغ دیتا ہے۔ ریاست پاکستان کے اس نہایت اہم پہلو کی وضاحت قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ءکو قانون ساز اسمبلی سے اپنے مشہور صدارتی خطاب میں کر دی تھی: ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں یا کسی بھی عبادت کی جگہ پر جانے کے لیے پاکستان کی ریاست میں آزاد ہیں۔ آپ جس بھی مذہب، ذات اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست کے اُمور سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔
گویا قائد نے پہلی بات یہ کہی کہ ملک کی آزادی کے بعد جدوجہد آزادی کے دوران جو فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوا اب اس سے آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ ایک نئی فکر کے تناظر میں بین المذاہب تعلقات پر غور کی ضرورت ہے ۔چنانچہ برطانیہ کی مثال دے کر یہ بات کہی کہ وہاں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقے یا مسلک کے افراد نے ایک عرصے تک ایک دوسرے کا قتل عام کیا لیکن آخر کار وہ سمجھ گئے کہ ان سب کو ملک کے دستور و قانون کے مطابق امن اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہو گا ۔ایسے ہی اب پاکستان بننے کے بعد اس کے قیام کے دوران جو ہندو مسلم اور سکھ فساد او رقتل وغارت کی گئی اسے بھلا کر ملک میں قانون کی برتری کو قائم کرنا اورقانون پر اعتمادبحال کرنا ہو گا ۔اور یہ کرتے وقت برطانیہ کی مثال کو سامنے رکھنا ہو گاکہ وہاں پر اب نہ کوئی کیتھولک ہے نہ پروٹسٹنٹ بلکہ دونوں فرقے یکساں شہری کی حیثیت سے ایک دوسرے کا احترام کررہے ہیں۔ گو ذاتی طور پر وہ اپنے مسلک پر عمل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان بننے کے بعد ریاست کسی کو محض ہندو یا عیسائی یا پارسی ہونے کی بنا پر تفریق کا نشانہ نہیں بننے دے گی۔ وہ ریاست کی نگاہ میں یکساں شہری ہوں گےاور ان کا مسلکی یا مذہبی معاملہ ان کی ذات تک ہوگا۔
اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قائد نے برطانیہ کی مثال اس لیے پیش کی کہ مسلک کی بنیاد پر جس طرح عیسائی وہاں قتل و غارت کر رہے تھےایسے ہی تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم فسادات ہوئے۔اس میں نہ کسی سیکولر ازم کی طرف اشارہ ملتا ہے اور نہ یہ بات کہ پاکستان میں اسلام ریاست کی بنیاد نہیں ہو گا ۔لیکن لبرل دانش وَروں نے پوری تقریر پڑھے اور سمجھے بغیر محض لفظ Religionکے استعمال کی بنیاد پر ایک خیالی محل تعمیر کر ڈالا اور اسے اتنی بار دُہرایا کہ لوگوں کو یقین آ جائے۔اسے علمی دیانت اور اصول تحقیق سے واضح انحراف کی ایک شکل ہی کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مندرجہ بالا وضاحت کے بعد کہ مذہب یاReligionسے مراد مسلک ہےجو ایک ذاتی پسند ہے، جب کہ اسلام دین، یعنی مکمل نظام حیات ہے،اس مغالطے کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس سے قبل نصف درجن تقاریر و بیانات میں قائد اعظم اسلام کی تعریف جس طرح کرتے ہیں ، اس کو مسجد کی نماز تک محدود ایک ذاتی مذہب نہیں کہا جا سکتا ۔وہ واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے، جو معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی شعبوں میں الہامی ہدایات فراہم کرتا ہے اور یہ وہ بات ہے جو ان کے بقول ہندوؤں اور بعض مسلمانوں کے ذہن میں نہیں آتی۔
دوسرا بڑا ظلم کرنے والا کوئی انگریز یا امریکی مستشرق نہیں بلکہ پاکستان کی عدالت عالیہ سے وابستہ ایک فرد ہے جو بہت سے دیگر مصنّفین کو گمراہ کرنے کا واحد ذریعہ بنا۔ جسٹس منیر اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں تحریر کرتے ہیں :
The pattern of government which the Qua’id –i–Azam had in mind was a secular democratic government.This is apparent from his interview which he gives to Mr Doon Campbell ,Reutter’s correspondent in New Dehli in 1946, in the course of which he said: "The new State would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regardless of religion cast or creed" (M.Munir, From Jinnah to Zia , Lahore, Vanguard book,1980,P29).
وہ طرزِ حکومت جو قائداعظم کے ذہن میں تھا وہ ایک سیکولر جمہوری طرزِ حکومت تھا۔ اس کا اظہار ان کے اس انٹرویو سے ہوتا ہے جو انھوں نے رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل کو ۱۹۴۶ء میں نئی دہلی میں دیا تھا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام اورنئی قوم کے ارکان کی ہوگی جن کو مذہب، ذات یا مسلک سے قطع نظر شہریت کے یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستانی نژاد برطانوی محقق سلینا کریم نے اپنی محققانہ تصنیف Secular Jinnah and Pakistan: What the nation Does't know میں جسٹس منیر کی تحریر اور خصوصاً رائیٹر کے نمایندے Doon Campbell کے انٹریوو کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا وہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے :
The date of the Reuter’s interview of Jinnah with Doon Camble provided by Munir was simply the year 1946. No proper reference was provided anywhere in the book.The actual date of this interview is 21May 1947. The full transcript of the interview appears in the first volume of Z.H.Zadi’s Jinnah Papers. This in turn was obtained from an original typewritten document containg corrections in Jinnah’s own handwriting as well as his signature, conforming the textual authority of this particular interview. In particular wording of the text as given by Munir does not appear in the interview (Saleena Karim, Secular Jinnah and Pakistan: What the Nation doesn’t know, Karachi, Paramount Publishing Enterprises, 2010, P.30).
جناح کی رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل سےانٹرویو کی تاریخ جو [جسٹس ] منیرنے دی ہے وہ محض ۱۹۴۶ء ہے۔ کتاب میں کوئی معقول حوالہ کہیں بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اس انٹرویو کی اصل تاریخ ۲۱مئی ۱۹۴۷ء ہے۔ انٹرویو کا مکمل متن زیڈ ایچ زیدی کے Jinnah Papers کی پہلی جلد میں سامنے آیا ہے۔ یہ درحقیقت ٹائپ کیےہوئے اس اصل مصدقہ دستاویز سے حاصل کیا گیا ہے جس پر جناح کی اپنی تحریر میں تصحیح کے ساتھ ساتھ دستخط موجود ہیں جو اس مخصوص انٹرویو کی مستند حیثیت کی تصدیق کرتے ہیں۔ متن کے وہ مخصوص الفاظ جن کی نشان دہی [جسٹس]منیر نے کی ہے انٹرویو میں نہیں ملتے۔
سلینا کریم کی تحقیق کے مطابق اور ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی سرکاری نگرانی میں طبع شدہ کتاب میں موجود قائد اعظم کے اپنے ہاتھ سے اصلاح شدہ مسودہ میں جسے ان کے سیکرٹری نے ٹائپ کیا اور انھوں نے اس کی اصلاح کرنے کے بعد آخر میں اپنے دستخط بھی کیے ،وہ الفاظ نہیں پائے جاتے جو جسٹس منیر نے قائد سے منسوب کر کے یہ بات پھیلا دی کہ وہ مغربی طرز کی سیکولر ریاست چاہتے تھے۔ دستاویز کے الفاظ یہ ہیں :
But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of government.Its parliament and cabinet, responsible to the parliament, will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect , which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the government that may be adopted from time to time (Saleena Karim, 2010, p30-31).
لیکن حکومت پاکستان صرف ایک عوامی نمایندہ اور جمہوری طرز کی حکومت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اورکابینہ، پارلیمنٹ کو جواب دہ اور بالآخر یہ دونوں راے دہندگان اور عوام کو بلاامتیاز ذات، مسلک یا فرقہ جواب دہ ہوں گے، اورحکومت وقتاً فوقتاً جو حکمت عملی اورپروگرام بناتی ہے اس ضمن میں یہ عنصر حتمی فیصلہ کن ہوگا۔
The question Doon Campbell asked was : on what basis will the central administration of Pakistan be set up?? In other words he wanted to know the thought of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state and how this would affect its relationship with neighboring countries? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose, and this would have surly suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted (Saleena Karim, 2010, p-31).
ڈون کیمپبل نے جو سوال پوچھا تھاو ہ یہ تھا: پاکستان کی مرکزی انتظامیہ کن بنیادوں پر قائم ہوگی؟ دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست اورکس طرح یہ اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو متاثر کرے گی؟ جناح کے لیےیہ ایک اچھا موقع تھا، اگر وہ چاہتے تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دےدیتے، اور یہ بات مغربی سامعین کو یقیناپسند آتی جن کےمفاد کے پیش نظر یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔
جسٹس منیر نے جو الفاظ قائد سے منسوب کیےوہ اصل دستاویز میں نہیں پائے جاتے،مثلاً قائد نے درج ذیل الفاظ قطعاً استعمال نہیں کیے:
the new state would be a modern democratic state.
اور نہ sovereigntyکا لفظ ہی استعمال کیا اور نہ religionکا۔ سلینا اپنی کتاب میں یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر واقعی قائد سیکولر ریاست چاہتے تھے تو یہ بہت اچھا موقع تھا کہ بیرونی اخباری نمایندہ اس بات کو دنیا میں پھیلا دیتا لیکن قائد نے ایسا نہیں کیا۔دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک ماہر قانون جس کی ساری عمر دستاویزات جانچنے ، پرکھنے اور ان پر فیصلے کرنے میں گزرتی ہے کس منہ سے سو فی صد غلط بیانی کر تا ہے؟ مگر حقائق یہی ہیں اور سلینا کریم نے اصل مسودہ تلاش کر کے جسٹس منیر کی ہی نہیں بلکہ ان کو اپنا ماخذ مانتے ہوئے بہت سے غیر مسلم اور مسلم ماہرین کے خیال کی مستند تردید کردی ہے۔
دستورپاکستان اور شریعت
بانی ٔپاکستان نے میلاد النبی کی ایک تقریب میں کراچی کے وکلا کی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ۲۵جنوری۱۹۴۸ء کو واضح الفاظ میں بیان کیا کہ نظریہ پاکستان کے جو دشمن بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں اور ان کا اشارہ خصوصاً ڈاکٹر خان کی طرف تھا جو سرحدی گاندھی باچاخان کی طرح دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کےمخالف تھے ۔قائد اعظم نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ جو شریعت ۱۳۰۰سال پہلے درست تھی وہی آج بھی درست ہے اور وہی دستور کی بنیاد ہو گی:
He could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Sharia. The Qua’id-e-Azam said “the Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago. The Governor General of Pakistan said that he would like to tell those who are misled "some are misled by propagating" that not as the Muslim but also the non-Muslims have nothing to fear and its idealism have taught democracy. Islam has taught equality, justice and fair play to everybody. What reason is there for anyone to fear democracy, equality of man, freedom and the highest standard of integrity and on the basis of fair play and , justice for everybody. The Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah said, Let us make it (the future constitution of Pakistan). We shall make and we will show it to the world (Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48, Government of Pakistan, 1989, p125).
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوںکا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرناچاہتاہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پراسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا: جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ،یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے ہیں ، انھیں بتا دینا چاہتاہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموںکو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اسلام اوراس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نےہرشخص کومساوات، عدل اورانصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت، مساوات اورحُریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ وہ دیانت کےاعلیٰ ترین معیارپرمبنی ہو اور اس کی بنیاد ہرشخص کے لیے انصاف اور عدل پررکھی گئی ہو۔ قائداعظم محمدعلی جناح نےفرمایا: ’’ہمیں اسے (پاکستان کا آیندہ دستور) بنا لینے دیجیے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو دکھائیں گے‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم،ص ۴۰۲)
قائد اعظم کے دستور پاکستان کے شریعت پر مبنی ہونے کے بیان کی مزید تائید قائد کے ان اقدامات سے ہوتی ہے جو انھوں نے اس حوالے سے کیے ۔ ہم یہاں صرف دو ایسے شواہد کا ذکر کریں گے ، جن کی سند کی ضرورت نہیں ۔ اول علامہ محمد اسد کو قائد کے مشورے پر ’قومی تعمیر نو‘ کے ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا کہ وہ اسلامی دستور کا مسودہ تیار کریں۔ دوسرے دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ تعلیمات اسلامی بورڈ مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری مولانا ظفر احمد انصاری کی زیرنگرانی قائم کیا گیا ۔جس کی صدرات مولانا سید سلیمان ندوی کے سپرد کی گئی اور اس بورڈنے قرارداد مقاصد اور دستور میں اسلامی دفعات کی تیاری کا فریضہ انجام دیا ۔
اسلام کے معاشی نظام پر بات کرتے ہوئے،انتقال سے بہ مشکل دوما ہ قبل یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبہ تحقیق کا افتتاح کرتے ہوئے قائد نے اپنے خطاب میں پاکستان میں مروجہ سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کے نفاذ پر زور دیا :
I shall watch with keenness the work your Research organization, in evolving banking practices compatible with the Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insolvable problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world... The adoption of western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people. We must work our destiny in our own way and prove to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of mankind and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it,and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind (ibid, p 271).
آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طورطریقوں کو معاشرتی اوراقتصادی زندگی کےاسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کےسلسلے میں جو کام کرے گا مَیں اس کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروںگا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور ہم میں سے اکثرکو یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسےاس وقت سامنا ہے.... مغربی اقدار، نظریئے اور طریقے خوش و خرم اورمطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اوردُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصورپر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچاسکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اورانسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)
یہ حقیقت ہر باشعور پاکستانی کے علم میں ہے کہ ۱۹۳۳ء میں کمیرج یونی ورسٹی کے چند طلبہ جن میں چودھری رحمت علی اور ان کے رفیق کار خواجہ عبد الرحیم شامل تھے ، شمالی ہند میں مسلمانوں کی اکثریت کے پیش نظر ان صوبوں کے ناموں میں سے حروف لے کر ملک کے لیے ایک نام تجویز کیا تھا جو ’پاک-ستان‘ تھا۔اس تجویز کے محرک چودھری رحمت علی تھے۔
جو بات قوم کے علم میں نہیں لائی گئی وہ یہ ہے کہ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو، یعنی قرارداد پاکستان کے اگلے روز لاہور میں خواجہ عبدالرحیم نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کی دیگر اعلیٰ قیادت کو اپنے گھر پر چائے پر مدعو کیا ۔ اس موقعے پر قائد اور خواجہ عبدالرحیم کی گفتگو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ، کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔپاکستان کے دل و دماغ میں پاکستان اور اسلام کا کیا تعلق تھا اور پاکستانیت یا پاکستانی قومیت کی بنیاد کس تصور پر ہے؟
“On March 24, 1940, a day after the Lahore Resolution, Khawaja Abdurrahim one of those who in Cambridge proposed the name of the country invited the Quai’d at his residence. The Quai’d told him Rahim the name you gave in 1930 is highly talked about in Hindu press.Khawaja Rahim asked the Quai’d then what should be the name in your view, Allama Iqbal in those days had already endorsed this name. The Quai’d said "if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add 'I' which stands for Islam and is the link between these provinces". Khawaja Rahim conveyed it to Chaudary Rahmat Ali, who was visiting Karachi those days (Sultan Zaheer Akhter, Shayed Keh Tery Dil main uter jai meri baat, Rawalpindi, Tanzim Karkunan-i-Pakistan, 1998, p 23-24).
۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء ، قرارداد لاہورکےایک روز بعد، خواجہ عبدالرحیم نے جو ان میںسے ایک ہیں جنھوں نے کیمرج میں ملک کا نام تجویز کیاتھا، قائداعظم کو اپنی رہایش گاہ پر مدعو کیا۔ قائد نے ان سے کہا کہ ۱۹۳۰ء میں جو نام آپ نے تجویز کیا ہے ہندو پریس میں اس کا بہت چرچا ہے۔ خواجہ رحیم نے قائدسےپوچھا کہ ان کی رائے میں ملک کا کیا نام ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال پہلے ہی اس نام کی تصدیق کرچکے تھے۔ قائد نے کہا: ’’اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک -ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ خواجہ رحیم نے چودھری رحمت علی کو اس سے آگاہ کیا جو ان دنوں کراچی کے دورے پر تھے۔
کیا اس چونکا دینے والے انکشاف کے بعد بھی کوئی شخص قائد کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کا تصور پاکستا ن اسلام کے علاوہ کچھ اور تھا؟
قائد اعظم کی فکر کا تسلسل اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے پاکستان کا حصول ہر دور میں ان کی تقاریر اور بیانات کا موضوع رہا لیکن ’لبرل‘ دانش وروں ، نوکر شاہی ، ابلاغ عامہ پر قابض تجزیہ نگاروں نےبھرپور کوشش کی کہ قائد کو ایک سیکولر شخص کے طور پر projectکیا جائے۔ خود قائد کا اپنا اسلام سے تعلق کتنا گہرا تھا،اس کا اندازہ مندرجہ ذیل تقریر سے کیا جا سکتا ہےجو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع منعقدہ ۱۹۳۹ء میں کی گئی:
I have seen enough of the world and possess a lot of wealth.
I have enjoyed all comforts of life. Now my only desire is to see the Muslims flourish and prosper as an independent community. I want to leave this world with a clean conscience and content with the feeling that Jinnah had not betrayed the cause of Islam and the Muslims. I do not want your praise nor any certificate. I only want that my heart, my conscience and my faith should prove at the time of my death that Jinnah died defending Islam and cause of the Muslims. May my God testify that Jinnah lived and died a Muslim fighting against the forces of "Kufar" and holding the flag of Islam high (Address at All India Muslim League 1939 reported in Daily Inqalab Lahore, October 22, 1939, Quoted by Dr.Safdar Mehmood, "Quaid wanted Islamic, democratic state, Dawn Pakistan Day Supplement" , March 23, 2002, P5).
میں دُنیا کافی دیکھ چکا ہوں اورکافی دولت رکھتا ہوں۔ میں زندگی کی تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوچکا ہوں۔ اب میری واحد تمنا یہ ہےکہ مسلمانوں کو کامیاب، خوش حال اورآزاد قوم کی طرح دیکھوں۔ میں اس دنیا کو صاف ضمیر اورپورے اطمینان کے ساتھ اس احساس کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں کہ جناح نے اسلام کے مقصد اورمسلمانوں سے بے وفائی نہیں کی۔ مجھے آپ کی تعریف یا کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا دل، میراضمیراور میرا ایمان موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح مسلمانوں اورمسلمانوں کے مقصد کا دفاع کرتے ہوئے فوت ہواہے۔ میرا خدا گواہی دے کہ جناح ’کفر‘کی قوتوں کےخلاف ایک مسلمان کی طرح جیا اور اسلام کےپرچم کو سربلند کرتے ہوئے جان دی۔
ہم آخر میں صرف دو مزید حوالے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق قائد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اس کے راوی نامورمسلم لیگی لیڈر مولانا حسرت موہانی ہیں:
In 1945, Maulana Hasrat Muhani went to see the Quai’d at his Delhi residence (10- Aurangzeb Road) and was told he does not like to meet people at this evening hour. It was time for Magrib prayer, the maulana prayed in the lawn, and then started walking in the corridor. He heard some whispers and thought the Qua’id is talking with someone, he tried to peep into his room. What he saw was reported by him: "The Quai’d was sitting on prayer rug and was praying to Allah for the success of the Muslims with tears and sobs" (Agha Ashraf, Muraqa Quaid-i-Azam, Lahore, Maqbool Academy, 1992).
۱۹۴۵ء میں، مولانا حسرت موہانی، قائدسے ملنے کے لیے دہلی میں ان کی رہایش گاہ (۱۰- اورنگ زیب روڈ) پر گئے۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ شام کے ان اوقات میں لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ مولانا نے باغیچے میں نمازادا کی اور پھر برآمدے میں چہل قدمی شروع کردی۔ ا نھوں نے سرگوشی سنی اور سمجھا کہ قائد کسی سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے ان کے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا ان کے بقول: ’’قائدجائے نماز پر بیٹھے تھے اور وہ آنسوئوں اور سسکیوں کے ساتھ مسلمانوں کی کامیابی کے لیے اللہ سے دُعاگو تھے‘‘۔
دوسری اہم دستاویز وہ عہد نامہ ہے جو مسلم لیگ کے عہدے داران نے دہلی میں ۹،۱۰؍اپریل ۱۹۴۶ء کو منعقدہ اجلاس میں اٹھایا ۔اس عہد نامہ کا آغاز قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت ۱۶۱ سے ہو رہا ہےاور اختتام سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہوتا ہے ۔
عہدنامے کا آغاز سورئہ انعام کی آیت سے ہوتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ (انعام ۶: ۱۶۱) ’’میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
عہد نامہ کا اختتام بھی قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہو رہا ہے: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۲۵۰ۭ (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے رب ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پاؤں جمائے رکھ اور اس کافر قوم پر ہماری مدد کر‘‘۔
اس عہد نامہ کے الفاظ اور ان پر قائد اعظم کے دستخط اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی پوری جدوجہد ِقیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنی زندگی اور موت کو کس عقیدہ سے وابستہ سمجھتے تھےاور اس وابستگی کے اظہار میں کسی معذرت کے بغیر پوری استقامت کے ساتھ قائم تھے۔
ایک بنیادی سوال اس عہد نامہ کے حوالے سے یہ ہے کہ کیا اس عہد نامہ کے کرنے والے بہ شمول ایک ماہر قانون اور بے باک اور نڈر قائد یہ عہد ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے اُٹھا رہے تھے ؟ کیا قائد اعظم نے اپنے دستخط کرتے وقت اس عہد نامہ کو پڑھ کر اور سمجھ کر دستخط کیے تھے یا محض مروتاً دستخط ثبت کر دیے؟ ایک ماہر قانون جس نے زندگی میں کوئی جھوٹا مقدمہ ہاتھ میں لینا پسند نہیں کیا۔کیا وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اس عہدنامے پر دستخط کر سکتا ہے ؟قائد کے کردار ، عزم ، جرأت اور دوٹوک بات کرنے کی روایت کی روشنی میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دانش وَروں اور لبرل ازم کے سہارے زندہ رہنے والے افراد نے قائد کی حیات اور فکر پر بھاری ظلم کیا ہے اور پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے کی ایک ناپاک کوشش کی ہے۔
دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو بات ایک غیر مسلم محقق نے سمجھ لی اور جس کا اظہاروہ اپنی ایک مشہور کتاب میں کرتا ہے ، اس پر ہمارے بہت سے دانش وَر آج بھی جانتے بوجھتے شکوک میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کیوں وجود میں آیا؟ کنا ڈا کے تقابل ادیان کے ماہر کینٹول اسمتھ جنھوں نے ایک عرصہ علی گڑھ میں گزارا پھر تحریک پاکستان کے دوران لاہور کے فورمین کرسیچین (FC) کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے اور جو اردوسے بہت اچھی واقفیت رکھتے تھے جس کا راقم چشم دید گواہ ہے، وہ تصور پاکستان کو یوں چند الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
In the Pakistan case…the whole raison detre of the state was Islam:it was Islam that first brought it into being, and that continued to give it meaning. The purpose of setting up the state was to enable Muslims here to take up once again the task of implementing their faith also in the political realm".
…Pakistan came into being as already an Islamic state not because its form was ideal but because, in so far as, its dynamic was idealist To set up an Islamic State then was the beginning not the end of an adventure.To achieve an Islamic state was to attain not a form but a process (Wilfred Cantwell Smith, Islam in Modern History, New York, Mentor Books 1957, P 217-219).
پاکستان کے معاملے میں …ریاست کا حقیقی مقصد اسلام تھا: یہ اسلام ہی تھا جو سب سے پہلے اسے معرضِ وجود میں لایا اورجس نے اس کے مفہوم کا تعین کیا۔ ریاست کا مقصد مسلمانوں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ ایک بار پھراپنے ایمان پرعمل پیرا ہوسکیں اور میدانِ سیاست میں بھی…
پاکستان ابتدا ہی سے ایک اسلامی ریاست کےطور پر معرضِ وجود میں آیا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا وجود مثالی تھا بلکہ اس کا محرک اصولِ پسندی تھا۔ ایک اسلامی ریاست کا قیام ایک مہم کا انجام نہیں بلکہ آغاز تھا۔ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل محض ایک وجود کا حصول نہیں بلکہ ایک عمل کا آغاز تھا۔
یہ وہ چند ناقابل تردید حقائق ہیں جن کے تذکرہ سے وہ تاریخِ تصورِ پاکستان جو ہمارے ملک کے نام نہاد لبرل و سیکولر طبقہ کے تعلیم یافتہ مؤرخین نے ’ معرو ضیت‘ کے نام پر تحریر کی اور جو ہماری نسلوں کو قیام پاکستان سے آج تک پڑھایا گیا، تاکہ ان کے ذہنوں میں وہی ’مذہب‘ و ’سیاست‘ کی تفریق جاگزیں ہو جس نظریہ کی پیداوار یہ دانش وَر خود تھے۔معروضیت کا تقاضا ہے کہ ان حقائق کو ہر مسلم و غیر مسلم پاکستانی کے علم میں لایا جائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس عظیم انعام اور تحفہ ، پاکستان کی امانت کا حق ادا کر سکے اور اپنے تشخص اور پہچان کو صوبائیت ، علاقائیت ، فرقہ واریت اور مسلکیت سے الگ کر کے پاکستان کا مقصد کیا لاالٰہ الا اللہ کو اپنی زندگی اور ملک کے نظام میں عملاً نافذ کر سکے۔(مکمل)