پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


ایک صالح معاشرے کی پہچان، اس میں بسنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِعمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن ، انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق کا احترام اور بالخصوص جان ، مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے ۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے۔ کیوں کہ جس معیشت ،معاشرت ،اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہوگی، وہ پس ماندہ ، مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا ، جھوٹ ، فریب ، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا ۔اس میں معروف ، بر، خیر ، فلاح، حیا ، نیکی، ایفائے عہد، معاشی،اخلاقی اور قانونی پیمانوںکا احترام لازمی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری ، ذمہ دارانہ طرزِ عمل ، حیا اور ایمان داری کے لیے مثال بنا رہا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں سیاسی آزادی کے حصول سے قبل بازار میں اگر کبھی کسی مسلمان گاہک نے ایک ہندو ساہوکار سے کہا کہ ’’فلاں دوکان پر اس شے کی قیمت اتنی کم ہے تو اس نے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی ، میاں آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا ، آپ اسی قیمت پر یہ چیز لے سکتے ہیں۔گویا مسلمان کی پہچان سچائی اور امانت سے منسلک تھی، جیسا کہ حدیثِ نبویؐ سے واضح ہے کہ ’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں‘‘۔

لیکن یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی و جغرافیائی آزادی کے حصول کے ساتھ ہی ہم نے اپنے روایتی رویوں اور طرزِ عمل سے بھی، جو ہماری پہچان تھے،آزادی حاصل کر لی اور گذشتہ دوعشروں میں اس کے زہریلے پھل ہمارے سامنے آنے لگے ۔ملک کے ہر حصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی ، خواتین کی بے حُرمتی ، خودکشی اور نشہ آور اشیا کے کاروبار اور بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شیطانی مافیائوں کا وجود پکار پکار کر ہمارے قومی ضمیر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس غیر ذمے دارانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا انفرادی و اجتماعی احتساب کرتے ہوئے ان اسباب کو دُور کیا جائے، جو ان شرمناک واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں ۔

گھر اور خاندان

ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا ، تایا ، نانا، ماموں ، خالہ ودیگر رشتوں)سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر دو تنخواہوں کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ سکون کے ساتھ موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے سکول یا کالج میں دن کیسے گزارا،دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین پانچ طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف، اُن معاملات پر بھی بات کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین اپنی محنت کی کمائی صرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں ۔ خاندان کا نظام سکڑکر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہوچکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی ، نانا ، نانی ، خالہ، پھوپھی، چچی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا ۔

تعلیم گاہ

جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا، آزادی ملنے کے باوجود نہ صرف اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کرکے اسلامی، تہذیبی،قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔چنانچہ یہ تعلیمی ادارے مولانا مودودی کے الفاظ میں تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہورہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم میں محض ’دینیات‘ کا ایک پرچہ شامل کرنے سے کوئی بڑا جوہری فرق واقع نہیں ہوا، اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔

یہ سمجھنا ایک بڑا مغالطہ ہے کہ اگر اسکول کی بارہ سالہ تعلیم اور کالج کی چار سالہ تعلیم میں ہفتہ میں بہ مشکل ۵۰منٹ کی ایک کلاس پڑھا دی جائے، جس میں روایتی طور پر چند مختصر سورتیں اور عقیدے کی تعلیم شامل ہو، تو اس طرح طالب علم اسلام کی منشا اور مرضی کو سمجھ جائے گا اور اس میں نظریۂ پاکستان سے محبت بھی پیدا ہوجائے گی، اور ملک و قوم کی تعمیروترقی کا بے لوث جذبہ بھی اس کے دل و دماغ میں موج زن ہوجائے گا۔

نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئیں کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہرپیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد ، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن ، دھوکا دہی ، ملکی خزانے کے ناجائز استعمال کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟

ابلاغ عامہ

یہی شکل ہمارے ابلاغ عامہ کی ہے، خصوصیت سے گذشتہ ۲۰برسوں میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے اور انھوں نے ہر جانب سے مغربی اور ہندو تہذیب وثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ یہ صرف تفریح کے پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں، بلکہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ بہت سے نام نہاد، اسلامی موضوعات پر رمضان کے دوران لڑکوں ، لڑکیوں کو زرق برق لباسوں کے ساتھ بطور رول ماڈل پیش کیا جارہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھلتی۔ کسی خبر نامے کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جاتا، جب تک اس میں ایک خاتون پوری زیبایش کے ساتھ خبریں نہ پڑھے۔ ڈراموں میں مرو وعورت کا آزادانہ اختلاط ، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں عورت کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن گیا ہے۔

اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا ، نیم پاکستانی اور معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ اس گھناؤنے جرم کا ذمہ د ار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جانے پر اُکساتے رہتےہیں،یعنی تعلیم ، والدین کی عدم توجہی ، ابلاغِ عامہ اور خصوصاً علما، مشائخ اور اساتذہ کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی۔

قرآن کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علما اور راہبوں کو قرار دیا، جنھوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں ، حرام کا ارتکاب کررہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں ، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً  بُرے اعمال میں ان کی مدد کی ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصلاحِ احوال کیسے ہو ؟

اسلام ایک جامع ، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بنا پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت کے ساتھ اور کامیابی سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں حیا، عدل ، احترام ،تحفظ ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی ۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں ریاست کو کلیدی کردارادا کرنا ہے۔ لیکن جتنی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اتنی ہی یہ معاشرے کے تمام کارفرما اداروں اور افراد پر بھی عائد ہوتی ہے، اور سب کا فرض ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

والدین کا کردار

والدین کو اپنے اوقاتِ کار کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کے اصلاحِ احوال کے لیے قربان کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور انھیں اپنے ساتھ بٹھاکر قرآن وسنت کے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ جاگزیں کرنے میں صرف کرنا ہو گا ۔یہ کام یک طرفہ طور پر وعظ و نصیحت سے نہیں ہوگا، بلکہ خود اولاد سے قرآن وسنت کے کسی حصے کا مطالعہ کروا کر ایک غیر رسمی مکالمہ کی شکل میں کرنا ہوگا۔ کوشش کیجیے کہ بچے والدین کے ساتھ مل کر اجتماعی غوروفکر کی عادت کو اپنائیں اور اس طرح اپنے دماغوں کو قرآنی اخلاقیا ت اور پیغام سے منور کریں ۔

یہ سارا کام محض تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔بلاشبہہ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن آج ستم یہ ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں نے تعلیم کو بطور تجارت اختیار کیا ہواہے ۔ ان کے سامنے سیرت و کردار کی تعمیر اور نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا حصول بطور ہدف اور ترجیح موجود ہی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے والدین کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

تعلیمی اصلاح

حکومت ِوقت جو بھی ہو، اس کو اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنا ہو گی کہ وہ اس ملک کی آبادی کو قرآن وسنت سے آگاہ کرنے کے لیے ’یکساں نظامِ تعلیم‘ کے تحت مجموعی نصاب میں اسلامی اخلاقی تعلیمات کو درسی مضامین کا حصہ بنائے اور ہر طالب علم کو اس سے قطع نظر کہ اس کامذہب و مسلک کیا ہے ، یکساں نصاب سے گزارے ۔ دنیا کے تمام نام نہاد ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں مسلک کے اختلاف کے باوجود یکساں نظام تعلیم پر عمل کیا جاتا ہے، اوراس میں کہیں بھی کسی انسانی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔پاکستان میں خصوصاً ۳فی صد غیر مسلم آبادی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ۹۷ فی صد اکثریتی آبادی کے عقائد ، نظریات ، تہذیب سے آگاہ ہوں تاکہ کوئی ثقافتی ، تناؤ اور ٹکراؤ نہ پیدا ہو اور معاشرے میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اس سلسلے میں اقلیتوں کی قیادت سے افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب انتظام کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ دیگر مذاہب کے حامل ہم وطنوں کے لیے اکثریت کے عقائد سے واقفیت حاصل کرنے کا مطلب ان پر عقائد تھونپنا ہرگز نہیں ہے۔ جہاں تک معاشرے کی اخلاقیات کا تعلق ہے، اس باب میں انسانی طرزِ عمل کی اصلاح کے لیے جوتعلیمات قرآن و سنت نے دی ہیں، وہ عالم گیر ہیں اور ان پر ایک غیر مسلم کا عمل کرنا اتنا ہی مطلوب ہے جتنا ایک مسلمان کا۔  کیا کوئی صاحب ِعقل یہ چاہے گا کہ ایک مسلمان سے تو یہ مطالبہ ہو اور اسے تدریس و تربیت کے ذریعے یہ سکھایا جائے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا ، چوری نہیں کرے گا ، قتل و غارت نہیں کرے گا، شرم و حیا کے ساتھ رہے گا ، ہمسایے کے حقوق ادا کرے گا ، خواتین ، معمر افراد اور بچوں کے حقوق ادا کرے گا،لیکن دوسری طرف غیر مسلم کو ان تعلیمات سے بے بہرہ رکھا جائے اور وہ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے جو چاہے رویہ اختیار کرے؟

ابلاغ اور نقار خانے کی آواز

آج سوشل میڈیا نے جو ابلاغی مقام حاصل کر لیا ہے، اس میں روایتی صحافت بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میٖڈیا کو تعمیری کام کے لیے استعمال کیا جائے اور سنسنی خیز اطلاعات یا لطیفے اورا فراد پر تیشہ زنی کی جگہ گھریلو امن ، حیا ، پاکیزگی ،رشتوں کے احترام کی بحالی اور معاشرے سے فحاشی اور عریانی کو ختم کرنے کے لیے تدابیر کی جائیںاور اس سلسلے میں جہاد اور اجتہاد کے طریقوں سے کام لیا جائے۔یہ کم خرچ بالا نشین حکمت ِعملی تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوانوں کے ذریعے ملک گیر مہم بن سکتی ہے، اور عوام و خواص کو آج اخلاقی مسائل کی اصلاح کی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔

اصلاحِ احوال کے لیے علماو مشائخ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مسجد وہ اہم مقام ہے، جہاں سے ہر جمعے کو اگر سنجیدہ تعمیری پیغام دیا جائے تو عام مسلمان جو بنیادی طور پر آج بھی دین کو اہمیت دیتا ہے، فحاشی و بے حیائی اور سماجی و معاشی استحصال کے خلاف جہاد میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا ۔

قانون اور  ریاست

قانونی ذرائع ہر معاشرے میں اہمیت رکھتے ہیں، لیکن جب تک قانون کا نفاذ جیسا اس کا حق ہے نہ کیا جائے، تو محض قانون کا بنانا ایک کاغذی عمل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ہے۔

’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے قانون سازی کے سلسلے میں سال ہا سال سے جو قیمتی تجاویز دی ہیں، افسوس ہے کہ تمام حکومتوں اور ملک کی پارلیمنٹ نے انھیں نظرانداز کیا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی روشنی میں حکومت قانون سازی کرے، پھر قوانین کے نفاذ کے لیے قانون نافذکرنے والے تمام ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس، اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ سیاسی قیادت بھی ساتھ دے اور عوامی دبائو بھی ڈالا جائے۔

تحریک اسلامی کا کردار

دعوت و اصلاح کا بنیادی مقصد: معروف اور بھلائی کا قیام اور منکر ، فواحش، باطل اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنا ہے ۔ معاشرتی مفاسد سے نجات کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خاندان کے تحفظ اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی جان اور عزت کے تحفظ کے معاملات کو اسلامی فکر اور روح کے مطابق بہتر بنایا جا سکے ۔ ایسی دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں خاندانوں کو شریک کروایا جائے ۔ اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے لیے اجتماعی سرگرمیوں کا اہتمام بھی ضروری ہے، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے خصوصی جدوجہد مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں ہرسطح پر گفتگو ، مذاکروں، تقاریر اور عمومی تعلیم کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔

 عوامی شعور کی بیداری میں مسجد کا ادارہ انتہائی کلیدی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مساجد  اور خطبا سے رابطہ کاری کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے انھیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کو درپیش اہم مسائل، مثلاً خاندانی نظام کا تحفظ ، بزرگوں کااحترام ، معاشرتی رواداری ، عریانی و فحاشی کے خلاف رائے عامہ کی بیداری ، بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی ضرورت و اہمیت اور اس جیسے بیسوں اہم مسائل پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

تحریکی فکر کے حامل تعلیمی اداروں کو مرکز بناتے ہوئے کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان اداروں کی معاونت سے طلبہ و طالبات کے والدین کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جائے۔ ان کو خاندانی نظام کے استحکام اور معاشی مشکلات سے نجات کے لیے اسلام کے مطابق سادہ زندگی گزارنے کی ضرورت و اہمیت بتائی جائے اور بچوں کی تربیت اور نفسیاتی و خانگی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی برکات سے آگاہ کیا جائے۔

اگر مستقل طور پر یہ عمل جاری رکھا جائے تو اس سے تحریک کی دعوت کو بھی فروغ ملے گا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ اُردو اور انگریزی اخبارات میں مضامین ، خطوط اور کالم لکھے جائیں، اور انھیں صوبائی اور مرکزی پارلیمانوں میں پہنچایا جائے۔ ہم خیال صحافیوں ، وکلا اور اساتذہ کی طرف سے ملک گیر پیمانے پر دستخطی مہم چلائی جائے اور اس طرح جو لوگ دستخط کریں ان کے ای میل، سوشل میڈیا رابطہ ایڈریس حاصل کیے جائیں، تاکہ مہم کے نتائج سے انھیں آگاہ کیا جائے اور مستقل بنیادوں پر ان سے آیندہ بھی دعوتی رابطہ کاری ہوتی رہے ۔بڑے اجتماعات کی جگہ چھوٹے اجتماعات، جن پر خرچ بھی کم ہوگا منعقد کیے جائیں اور خصوصاً مساجد اور اسکولوں کو اس مقصد کے لیے بنیاد بنایا جائے۔

ان تمام اقدامات کے ساتھ حکومت اور میڈیا کو فساد اور انتشار کے اس چیلنج کے مقابلے اوراسلامی اقدار کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔دراصل یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی جواب دہی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم اپنی ان گزارشات کا اختتام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو زریں ارشادات پر کرنا چاہتے ہیں، جن کے مخاطب مساوی طور پر حکمران اور عامۃ المسلمین ہیں:

حضرت تمیم داریؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النصیحہ اور یہ ارشاد تین بار فرمایا۔ ہم نے پوچھا: لِمَنْ، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:لِلّٰہِ وَلکِتبِہِ ولرسولہِ ولائمۃ المسلمین وعامیتھم ،یعنی دین سراپا نصیحت اور خیرخواہی ہے___ اللہ کے لیے ، اللہ کی کتاب کے لیے،اس کے رسولؐ کے لیے، مسلمانوں کی قیادت کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔

 عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخو اہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوارکرنا اور اس کے تقاضوں کوپورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔  یہ ہرفرد کے لیے لازم ہے جو اسلام کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خودسادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اورسعی و جہد کا محور بنانا ہے۔ قیادت سے خیرخواہی جہاں حق بات اُن تک پہنچانے، صحیح مشورہ دینے، معروف میں اطاعت کرنے پر مشتمل ہے،وہیں اصلاحِ احوال کے لیے ان میں غلطی اور ناروا رویے پر تنقید و احتساب بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اور عامۃ الناس کے لیے خیرخواہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے تاکہ معاشرہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہرشخص کے لیے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے:

قَالَ : اَلَا کُلُّکُمْ  رَاعٍ   وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ  عَنْ  رَّعِیَّتِہٖ  ،فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ  رَاعٍ   وَّھُوَ  مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ   رَاعٍ  عَلٰٓی  اَھْلِ  بَیْتِہٖ  وَھُوَ  مَسْئُوْلٌ  عَنْ  رَّعِیَّتِہٖ  وَالْمَرْأَۃُ   رَاعِیَۃٌ  عَلٰی  اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا  وَوَلَدِہٖ   وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ  عَنْھُمْ ، وَالْخَادِمُ  فِیْ  مَالِ  سَیِّدِہٖ  رَاعٍ   وَھُوَ  مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ     اَلَا فَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ

عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الاستقراض، باب العبد، راعٍ  فی مال سیدہ، حدیث:۲۳۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے،اور تم میں سے ہرایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں جواب دہی کی تیاری کے لیے، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

تعلیم کی اہمیت ایک انسانی معاشرے میں ایسی ہی ہے، جیسے انسانی جسم کے لیے غذا۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے اپنے منتخب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلا پیغام یہی دیا کہ اللہ کے نام سے پڑھو، جس نے انسان کو پیدا کیا اور قلم کے ذریعے علم دیا تاکہ انسان اپنے رب کی حمدو ثناء و بزرگی بیان کرے اور اس کا شکرگزار بندہ بن سکے۔ اس لحاظ سے اسلامی معاشرے کے لیے تعلیم عبادات کی طرح ایک اعلیٰ مقام کاحامل فریضہ ہے ۔ کیوں کہ جو علم رکھتے ہیں اور جوعلم نہیں رکھتے، قرآن کریم کی نگاہ میں یکساں نہیں ہوسکتے۔ اور جو علم رکھتے ہیں وہی اللہ کی خشیت بھی زیادہ کرتے ہیں۔ گویا اسلام نے اللہ کی قربت اور خشیت کو ترک دنیا کے طریقوں سے الگ کر کے علم کے ساتھ وابستہ کر دیا۔

یہی وجہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں اپنے شہریوں کی تعلیم کا بندوبست اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اسلامی معاشرے کی روایت یہ رہی ہے کہ جہاں کہیں بھی مرکزی مساجد تعمیر کی گئیں، ان کے ساتھ طلبہ کے لیے اقامت گاہیں اور درس کے لیے کمرے بنائے گئے تاکہ ہر اہم مسجد ایک اہم جامعہ کے فرائض سرانجام دے سکے ۔ جہاں سے امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام جعفر صادق ؒ، امام احمد بن حنبلؒ جیسے فقہااور ابن سینا اور الظواہری اور الغ بیگ جیسے ماہرین طب، فلکیات ، کیمیا اور جراح پیدا ہوئے۔ یہ مدارس برصغیر پاک و ہند میں انگریز حکمرانوں کی آمد تک طب ، فلکیات اور انجینئرنگ کی تعلیم دیتے تھے۔ مشہور مغل تعمیرات انھی مدارس سے فارغ طلبہ کے فن کی یاد گار ہیں۔ انھیں کسی فرانسیسی یا انگریزی انجینئر نے تعمیر نہیں کیا ۔

تعلیم کی اس اہمیت کے پیش نظر ایک ایسی مملکت کے لیے، جس کا مقصد وجود اسلامی فکر و علوم کا احیاء اور ایسے معاشرے کی تعمیر تھا ، جہاں اسلامی تعلیمات کے تحت عدل ، معاشرت ، سیاست ، معیشت ، ثقافت اور صنعت و حرفت کا فروغ ہو ، تعلیم کو فروغ دینا ایک متوقع فریضہ تھا۔ تاہم، تعلیم اور خصوصاً وہ تعلیم جو ملک کے مقصد وجود کی تکمیل کرے کبھی لائق توجہ نہیں رہی ۔یہ ضرور ہوا کہ حکومتی تعلیمی پالیسی جب بھی تشکیل دی گئی تو اس میں ملک کی نظریاتی اساس کا ذکر اور اس حوالے سے نصاب اور نظام تعلیم میں اصلاح کا ذکر ضرور شامل کیا گیا ۔لیکن تعلیم کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا عمومی رویہ ہمیشہ سوتیلے پن کا رہا ہے۔ تعلیم کو بجٹ میں کبھی اہمیت نہیں دی گئی، اور جو رقم مختص بھی کی گئی اس کا مناسب استعمال کبھی نہیں کیا گیا ۔

قومی نصابِ تعلیم کے لیے اصولی رہنمائی

ماضی کے المیے پر اظہارِ افسوس اپنی جگہ، لیکن ہمیں اصل توجہ مستقبل کی تعمیر کی طرف کرنی چاہیے، تاکہ ماضی کی کوتاہیوں کاازالہ کسی حد تک کیا جا سکے۔ لیکن مستقبل پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ مختلف سیاسی ادوار میں تعلیمی پالیسی کیا رہی؟ حالیہ حکومت کی وزارت تعلیم کے طبع کردہ قومی نصابِ تعلیم فریم ورک کے حوالے سے درج ذیل معلومات کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے :

  • The Education Policy (1972-80) recommended designing of curricula relevant to nation‘s changing social and economic needs compatible with ideology of the country. In order to achieve national cohesion and harmony, the policy recommended implementation of national curriculum in all federating units.(Government of Pakistan, Ministry of Education, The Education Policy (1972-1980)  Islamabad, Ministry of Education).
  • The National Education Policy and Implementation Programme 1979 recommended revision, modernization, and Islamization of curricula to bring it in conformity with Islamic ideals (National Education Policy and implementation program (1979)  Islamabad, Ministry of Education, Government of Pakistan).
  • National Education Policy 1992-2002 focused on restructuring the existing educational system on modern lines in accordance with principles of Islam to create enlightened Muslim society and to improve the quality of education by revising curricula (The Education Policy (1992-2002) Government of Pakistan, Ministry of Education, Islamabad).
  • National Education Policy 1998-2010  stressed on diversifying education  system, making curriculum development a continuous process, popularizing Information Technology and making the Quran teaching and Islamic principles as an integral part of curricula (The Education Policy (1998-2010), Government of  Pakistan, Ministry of Education), 1998.
  • National Education Policy 2009 proposed revitalizing the existing education system to cater to social, political, and spiritual needs of individuals and society. The policy laid emphasis on the preservation of the ideals, which led to the creation of Pakistan and strengthen the concept of basic ideology within Islamic ethos.
  • The Policy also recommended development of a common curricular framework to be applied to educational institutions, both in public and private sectors. The Policy further recommended to the Government to take steps to bring the public and private sectors in harmony through common standards, quality and regulatory regimes (The Education Policy (2009) Islamabad, Ministry of Education, Govt. of Pakistan). Please see P4-5 of National Curriculum Framework, Ministry of Federal Education and Professional Training,2020.
  • تعلیمی پالیسی (۱۹۷۲ء-۱۹۸۰ء) سفارش کرتی ہے کہ نصاب کی تیاری میں قوم کی تغیر پذیر سماجی اور اقتصادی ضروریات کو ملک کی نظریاتی اساس کے پیش نظر ملحوظ رکھا جائے۔ قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کے حصول کے پیش نظر پالیسی تمام وفاقی یونٹس میں قومی نصاب کے نفاذ کی سفارش کرتی ہے (تعلیمی پالیسی (۱۹۷۲ء- ۱۹۸۰ء)، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی اور اطلاقی پروگرام ۱۹۷۹ء سفارش کرتے ہیں کہ نصاب پر نظرثانی کرتے ہوئے، جدیدیت اور نفاذِ اسلام کے عمل میں اسلام کے اصولوں اور تصورات کو یقینی بنایا جائے (قومی تعلیمی پالیسی اور پروگرام ۱۹۷۹ء، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی (۱۹۹۲ء-۲۰۰۲ء) اس بات پر مرکوز کرتی ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کو اسلام کےاصولوں کے مطابق جدید خطوط پر استوار کرنے اور ایک جدید اور روشن خیال معاشرے کی تعمیر کے لیے اور معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے نصاب پر نظرثانی کی جائے (تعلیمی پالیسی (۱۹۹۲ء-۲۰۰۲ء) ، حکومت ِ پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)
  • قومی تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء-۲۰۱۰ء تعلیمی نظام کو متنوع بنانے کے لیے نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے جو کہ ایک مسلسل عمل ہے، انفارمیشن ٹکنالوجی کو متعارف کرواتے ہوئے اور قرآن کی تعلیمات اوراسلام کے اصولوں کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے پر زور دیتی ہے (تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء- ۲۰۱۰ء، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء تجویز کرتی ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کا احیاء کیا جائے تاکہ فرد اور معاشرے کے سماجی، سیاسی اور روحانی تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔ پالیسی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ وہ نظریات جو قیامِ پاکستان کا باعث بنے، ان کا تحفظ کیا جائے اور اسلامی اخلاقیات کے بنیادی تصورات کو تقویت فراہم کی جائے۔
  • پالیسی مشترکہ نصاب کی تیاری کے لیے فریم ورک کی بھی سفارش کرتی ہے جس کا نفاذ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں، دونوں میں ہوگا۔ پالیسی حکومت کو بھی سفارش کرتی ہے کہ وہ سرکاری اور نجی سیکٹر میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مشترکہ معیار، کوالٹی اور ریگولیٹری رجیم کے لیے اقدامات اُٹھائے ( تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء،حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد) ازراہ کرم قومی نصاب فریم ورک کا ص۴ اور ۵ دیکھیے۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ، ۲۰۲۰ء۔

وزرات تعلیم کی سرکاری طور پر شائع کردہ اس دستاویز کے بعد جو پانچ سابقہ حکومتوں کی جانب سے پالیسی کا خلاصہ بیان کرتی ہے ، کیا یہ گنجائش رہ جاتی ہے کہ آزادیِ رائے یا اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اس متفقہ پالیسی کے نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی امداد پر قائم ’فکری توپ خانوں‘ کے پیدا کردہ خدشات پر بحث کی جائے ؟سیاسی اَدوار کے اختلاف اور ذاتی پسند ناپسند کے باوجود ان پانچ سفارشات میں جو عناصر مشترک ہیں ، ان میں سب سے اوّل پاکستان کی نظریاتی اساس ہے، یعنی اسلام جس کے نام پر یہ ملک بنا۔ چنانچہ نظریاتی اساس کو صرف نصاب میں علامتی طور پر شامل نہ کیا جائے بلکہ اس کی بنیاد پر تمام نصابات کی تہذیب و ترتیب کا اہتمام کیا جائے ۔ گویا وہ اردو ادب ہو یا انگریزی ادب ، وہ کیمسٹری ہو یا فزکس یا ریاضی یا عمرانی علوم، ہرمضمون میں اسلامی اقدار ، افکار اور آئڈیلز کا سمویا جانا ریاست کی نظریاتی اساس کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلامیات بطور ایک مستقل اور لازمی مضمون کے زیر بحث ہے ہی نہیں، یہ تو پہلے سے ہی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اسے تمام مسلمان طلبہ و طالبات کو پڑھایا جائے گا ۔

اس کے ساتھ پاکستان کی اس تاریخ کو جس میں محمد علی جو ہر ، علامہ محمد اسد ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا حسرت موہانی ، علامہ اقبال اور خود بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کے وہ خطبات اور بیانات، جن میں ملک کی نظریاتی اساس اور پاکستان کے قیام کے ذریعے اسلامی احیاء اور اسلام کے معاشرتی نظام، عدل و انصاف اورمعاشرتی فلاح کا واضح تذکرہ ہے، شامل نصاب کیا جائے۔ تاریخ کے ان اہم اوراق کو ایک مخصوص لابی نے ۷۴ سال سے شعوری طور پر قوم سے چھپا کر رکھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حقائق کو ’مطالعہ پاکستان‘ کے نصاب میں شامل کیا جائے اور لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے ۔ اس لازمی مضمون کی ضرورت و اہمیت اور افادیت اور اس کے بھرپور انداز میں اجرا پر قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اصل بات جس کی طرف یہ تمام پالیسی دستاویزات متوجہ کرتی ہیں، وہ یہ ہے کہ تمام مضامین میں اسلامی اخلاقی اصولوں اور اقدار کو سمویا جائے ۔

معاشرتی اقدار کے فروغ میں زبان کا کردار

ظاہر ہے کہ یہ بات ملک کے ایک فی صد سے بھی کم لیکن ذرائع ابلاغ ، صحافت اور   این جی اوز سے استفادہ کرنے والے طبقے کو کیسے گوارا ہو سکتی ہے۔ انھیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بچی یا بچہ اردو کی کتاب میں حمد یا نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں پڑھتا ہے ؟ یہ ان کے خیال میں ’مذہبی مواد‘ ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خود انگریز اپنی زبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اگر انگریزی سے وہ الفاظ جو عہد نامہ جدید و قدیم کی بنیاد ہیں ، نکال دیے جائیں تو انگریزی ادب چاہے وہ یورپ کا ہو یا امریکا کا، ایک بے جان ڈھانچا رہ جائے گا۔صرف لفظ supper, goodbye, convent, resurrection کی etymology پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ انگریزی سے اس ’مذہبی مواد‘کو اگر نکال دیا جائے تو انگریزی کا وجود ہی ناپید ہو جائے گا۔ دُور نہ جائیں انگریزی کے مشہور شاعر ٹی ایس ایلیٹ (T.S Eliot  - م: ۱۹۶۵ء) کے صرف ان الفاظ کو غور سے پڑھیں :

The dominant force in creating a common culture between peoples each of which has its distinct culture, is religion. Please do not, at this point, make a mistake in anticipating my meaning. This is not a religious talk, and I am not setting out to convert anybody. I am simply stating a fact.      I am not so much concerned with the communion of Christian believers today; I am talking about the common tradition of Christianity which has made Europe what it is, and about the common cultural elements which this common Christianity has brought with it. [...] It is in Christianity that our arts have developed; it is in Christianity that the laws of Europe have—until recently—been rooted.It is against a background of Christianity that all our thought has significance. An individual European may not believe that the Christian Faith is true, and yet what he says, and makes, and does, will all spring out of his heritage of Christian culture and depend upon that culture for its meaning. Only a Christian culture could have reproduced a Voltaire or a Nietzsche. I do not believe that the culture of Europe could survive the complete disappearance of the Christian Faith. And I am convinced of that, not merely because I am a Christian myself, but as a student of social biology. If Christianity goes, the whole of our culture goes. Then you must start painfully again, and you cannot put on a new culture ready made. You must wait for the grass to grow to feed the sheep to give the wool out of which your new coat will be made. You must pass through many centuries of barbarism. We should not live to see the new culture, nor would our great- great- great-grandchildren: and if we did, not one of us would be happy on it. (T.S. Eliot, Notes Towards the Definition of culture, London, Faber & Faber,1949, P-122)

نمایاں تہذیب رکھنے والی مختلف قوموں کو ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے تشکیل دینے میں مذہب غالب تر قوت ہوتا ہے۔ براہِ کرم ، اس موقع پر، میرا مفہوم اخذ کرنے میں غلطی نہ کریں۔ یہ ایک مذہبی گفتگو نہیں ہے، نہ میں کسی کا مذہب ہی تبدیل کرنے آیا ہوں۔ میں سادہ الفاظ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ مسیحی اہلِ ایمان کے دینی اجتماعات کے حوالے سے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو آج مسیحیت کی عام روایت کی بات کر رہا ہوں جس نے یورپ کو وہ بنا دیا ہے جو آج نظر آرہا ہے، اور یہ اُن مشترکہ تہذیبی روایات کے بارے میں ہے جو عمومی مسیحیت اپنے ہمراہ لے کر آئی ہے.....یہ مسیحیت ہی ہے کہ جس میں ہمارے (علوم و ) فنون پروان چڑھے ہیں۔ مسیحیت میں یورپ کے قوانین کی جڑیں آج تک موجود رہی ہیں۔ یہ عیسائیت کے  پس منظر کے خلاف ہے کہ ہماری فکر اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک یورپی فرد شاید یقین نہ کرتا ہو کہ مسیحی عقیدہ درست ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ جو کچھ کہتا ہے، کرتا ہے، اسی مسیحی تہذیب و تمدن کے ورثے سے پروان چڑھے گا اور اس کے معنی تشکیل دینے کے لیے اُس تہذیب و تمدن پر انحصار کرے گا۔ مسیحی تہذیب و تمدن سے ہی والٹیر (Voltaire) یا نطشے (Nietzsche) ازسرنو جنم لے سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یورپ کا تہذیب و تمدن اس قابل تھا کہ وہ مسیحی عقیدے کے مکمل طور پر غائب ہوجانے کے بعد اپنے آپ کو برقرار رکھ سکتا۔ میں اس پر پورا یقین رکھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مَیں خود بھی عیسائی ہوں بلکہ میں سوشل حیاتیات کا طالب علم ہوں۔

اگر مسیحیت جاتی ہے تو ہمارا سارا تہذیب وتمدن جاتا ہے۔ پھر انتہائی تکلیف دہ حالت میں آپ کو دوبارہ آغاز کرنا ہوگا اورکسی تیار شدہ (ready made)تہذیب و تمدن کو آپ فوری طور پر اُوڑھ نہیں سکتے۔ آپ کو انتظار کرنا ہوگا کہ گھاس پھل پھول جائے تاکہ اُسے بھیڑیں کھاسکیں، اور اُس سے اُون حاصل کی جائے جس سے آپ کا نیا کوٹ تیار ہوسکے۔ آپ کو ظلم و سفاکیت کے بہت سے اَدوار سے لازماً گزرنا پڑے گا۔ نئے تہذیب و تمدن کے لیے نہ ہم زندہ رہیں گے، نہ ہماری نسلوں کی اولادوں کی اولادوں کی اولادیں ہی۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم میں سے کوئی بھی خوش نہ ہوگا۔

عیسائیت کا جو کردار آج تک یورپ اور امریکا کی تہذیب کی تعمیر اور ارتقا میں رہا ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ کردار اسلام کا مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی تعمیر و بقا میں رہا ہے۔اقبال  کے علاوہ اگر غالب کے کلام سے ’مذہبی مواد‘کو نکال دیا جائے تو چند ناتمام نقوش کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا ۔

تعلیم، تہذیبی ورثہ اور فکر و معاشرت کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اگر خاندان کے تمام افراد حصول معاش میں مصروف ہو جائیں اور تعلیم سے ہدف بنایا جانے والا ’مذہبی مواد‘ یعنی احترام جان، احترام قرابت ، احترام عقل ، احترام عدل، احترام مال ، دوغلے پن، منافقانہ طریق کار اور فاسقانہ طرزِ حیات وغیرہ کو نکال دیا جائے، اور پھر توحیدی تصورِ زندگی جو ہزارسجدوں کی جگہ صرف وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کو سجدہ کرنا ہے، ان تمام امور کو معیشت ، معاشرت ، سیاست ، قانون ، تاریخ ،ثقافت سے نکال کر ’دینیات‘ میں ڈال دیا جائے، تو کیا کسی کی زندگی کا کوئی مفہوم و معنی باقی رہ سکتا ہے، اور کیا ایسی تعلیم کسی معاشرے اور ریاست کو یک جا رکھ سکتی ہے ؟

’مذہبی مواد‘ اور قومی ترانہ

 ابھی تک تو بات معاشرتی علوم، اردو ،انگریزی کی ہو رہی ہے کہ ان کتب میں " مذہبی مواد" یعنی اگر کہیں حیا کا ذکر آگیا ہو، یا کہیں صبر و استقامت یا مجاہدانہ بے خوفی یا آخرت میں کامیابی کے لیے ایمان داری سے صحیح ناپ تول کا ذکر ہو، یا کسی سے سچ بولنے کے لیے کہا گیا ہو اور اس کی تعلیم دی گئی ہو، کہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کے رویے کی تعلیم دی گئی ہو، یا کہیں ماں کا احترام اور اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی بات کی گئی ہو، تو چونکہ یہ سب ’مذہبی مواد‘ ہے ، اور یہی قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں، اس لیے انھیں تمام علوم کی کتب سے خارج ہونا چاہیے تاکہ اس کے بعد ہماری نئی نسل’انسانیت پرستی‘ (Humanism) یعنی دینی تعلیمات و اخلاقیات سے بالکل لاتعلق ہوجائے۔ کیا کوئی عقل و ہوش رکھنے والا پاکستانی ان خیالات کو کسی باہوش و حواس شخص سے منسوب کرسکتا ہے؟

اگر اس منطق اور دلیل کو مان لیا جائے تو لازماً اگلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ نہ صرف اذان جس سے ۳ فی صد سے بھی کم آبادی کی ’سمع خراشی‘ کا بعید امکان ہے۔ اب ۱۴سوسال بعد، اچانک اس کا امکان کچھ دانشوروں کے ذہن کے کسی گوشہ میں ابھر آیا ہے ، اس لیے اس پر بھی پابندی ہو! یہی نہیں بلکہ تین فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ہمارے ’روشن خیال‘ اور حقوقِ انسانی کے علَم بردار یہ بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ قومی ترانہ سے ’مذہبی مواد‘ نکالا جائےیا پھر ان کو قومی ترانے میں شرکت سے بھی رخصت دی جائے، کیوں کہ اس کا ایک ایک بول ’مذہبی مواد‘ سے لبریز ہے۔ چونکہ  مسلمانوں اور غیرمسلموں،دونوں کے لیے ہے، اور یہ ترانہ ان کی پہچان ہے، تو اسے سب کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے۔ مراد یہ ہے کہ اگر’ مذہبی مواد‘ کا وہ فلسفہ درست ہے، جس کومختلف علوم کے سلسلے میں پیش کیا جارہا ہے تو تو پھر قومی ترانے کا بھی تیا پانچہ کرنا ہوگا!

مسلّمہ  تعلیمی معیارات

اس وقت بیش تر گفتگو کا مرکز نصاب ہے جس پر عالمی سطح  پر ماہرین تعلیم کا اتفاق ہے کہ اس کا براہ راست تعلق معیارات (standards)، تاریخ و ثقافت ، قومی ہیرواور قومی مقاصد اور تہذیب وتمدن سے ہے۔ تعلیمی معیارات ،تاریخ و ثقافت اورقومی ہیرو ہر نصاب کا حصہ ہوتے ہیں اور وہ قومی اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ انھی سے قومیت کا تصور ابھرتا ہے ۔ لیکن ہمارا معاملہ دوسروں سے بہت مختلف ہے۔ہماری قومیت کی بنیاد نہ صوبہ ہے ،نہ مقامی لباس یا بول چال ، نہ کوئی زمین کی حدود ، نہ رنگ و نسل اور نہ ذات برادری یا قبائلی تعلق بلکہ صرف اور صرف دین اور اس دین کی بنیاد پر ترقی پانے والی ثقافت اور تہذیب ہے۔

 ہماری نگاہ میں اصل موضوع وہ نظام تعلیم ہے، جس کی طرف مندرجہ بالا تمام سرکاری دستاویز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ فرسودہ نظامِ تعلیم، یعنی جو نظام انگریز سامراج نے ہمیں دیا، اس کی جگہ ایک کردار سازی کرنے والا نظام تعلیم جس میں اسلامی اقدار اور آئیڈیل سمو دیے گئے ہوں،  اس کا نفاذ کیا جائے۔یہ مطالبہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ یہ ماہرین کے مقرر کردہ ہر کمیشن کی مشترکہ قرارداد ہے، جسے آج تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔غالباً یہی وہ پہلو ہے، جسے وزیراعظم عمران خان باربار کہتے ہیں کہ ’’ہمیں وہ نظام تعلیم لانا چاہیے، جس میں ہر نوجوان کے لیے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم سیرت و کردار کا اعلیٰ ترین نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہو‘‘۔ جب تک ہر شعبۂ علم میں آپؐ کی ہمہ گیر شخصیت کے پہلو شامل نہیں کیے جائیں گے ، اسلامیات کی کتاب میں ایک باب یا چند صفحات یہ کام نہیں کر سکتے۔

اگر ایک نہیں درجنوں غیر مسلم مفکرین جن میں: کارلائل ہو ، یا گب یا مائیکل ہارٹ، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’انسانیت کے لیے سب سے زیادہ مکمل اور اچھی مثال یا رول ماڈل اگر کوئی ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و حیات ہے‘‘۔پھر وہ جو کلمۂ شہادت کے ذریعے اپنے ایمان اور ختم نبوت پر یقین کا اعلان کرتے ہیں ، ان کے علوم کی تعلیم میں اس پہلو کو شامل نہ کرنا کیا اس شہادت سے کھلاانحراف نہ ہو گا؟ نہ صرف یہ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا کسی بھی بڑے سے بڑے سائنس دان سے موازنہ کرنا اور آپؐ کی سیرت کی جگہ اس کا تذکرہ شامل کرنا ،کیا انسانیت کے مفاد میں ہو گا؟ قرآن کریم نے آپؐ کو تمام انسانوں (كَا فَّةً لِّلنَّاسِ) کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے ۔ایک ہندو ، عیسائی یا کسی بھی مذہب کو ماننے والے کے لیے آپؐ صحیح انسانی طرزِ عمل کی مثال پیش کرتے ہیں ۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کرنا ، قرآن کے اس فیصلے کے خلاف ہے اور غیر مسلموں کو بھلائی ، خیر اور سچائی کی اعلیٰ ترین مثال سے محروم کرنا ہے، جو انسانی حقوق کی بھی واضح خلاف ورزی ہے۔

یہ بدگمانی بھی اصلاح طلب ہے کہ قرآن کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ قرآن اپنے آپ کو ھُدًی  لِلنَّاسِ کہتا ہے۔ شریعت، یعنی سچائی ، ایمان داری ، پاک بازی ، حقوق کی ادائیگی ، ماں باپ کا احترام و اطاعت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ۔ یہ انسا نیت کے وجود کے لیے لازمی عناصر ہیں۔ اس لیے قرآنی اخلاق، یعنی معاشی ، معاشرتی ، سیاسی طرز عمل کو صرف مسلمانوں تک محدود کرنا غیر مسلموں کے ساتھ تفریق ، ظلم اور ان کے ابلاغی حقوق کی پامالی ہے۔ انھیں انسانیت کی بھلائی کے عالمی متفقہ چارٹر اور راہنما اصولوں سے محروم رکھنا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ ان سے زیادتی کے مترادف ہے ۔قرآن چاہتا ہے کہ سچ ہر انسان تک پہنچے، تاکہ وہ طے کر سکے کہ اسے قبول کرنا اس کے لیے مفید ہے یا نہیں ۔ اسے اسلامی اخلاق و سیرت پاک سے لاعلم رکھنا، اس کےبنیادی حقوق پر ڈاکا اور واضح ظلم ہے۔

’مذہبی مواد‘ اور بانیٔ پاکستان

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا ’مذہبی مواد‘کے بارے میں کیا تصور تھا اور کتنی پیشہ وارانہ بددیانتی کے ساتھ قائد کے حقیقی تصور کوقوم سے چھپائے رکھا۔ خصوصاً ’مطالعہ پاکستان‘ میں ان خیالات کو آنے ہی نہیں دیا گیا، جن سے مغربی سامراجیت زدہ اذہان خوف زدہ تھے۔ ’مذہبی مواد‘ کے بارے میں ہم صرف چند مستند تحریری بیانات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے قائد اعظم ایک کھرے ،بےباک ، پر وقار اور دو ٹوک بات کرنے والی شخصیت کے حامل تھے۔ ان میں دو رنگی اور منافقت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اس کا اظہار کھل کرکر تے تھے۔ موجودہ زمانے کے نام نہاد سیاسی بازیگروں کی طرح ذومعنی الفاظ کا استعمال ان کی لغت اور زندگی میں نہیں تھے۔ ان کی نگاہ میں اسلام ، اسلامیات کی کتاب تک محدود نہیں تھا۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کے اپنے تحریری خطاب میں فرماتے ہیں:

  • He said that "he could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat".  The Qa‘id-e-Azam said "Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago.
  • No doubt, there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam. Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim which regulates his life and his conduct in even politics and economics and the like. It is based on the highest principles of honour, integrity, fairplay and justice for all". (K.A.K. Yusufi,  Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, volume4, P 2669-2670)
  • انھوں نے فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا۔
  • جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیںتو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسم و رواج،روایات اور روحانی نظریات کامجموعہ ہے،بلکہ اسلام ہرمسلمان کےلیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، جلد چہارم، ص ۴۰۲-۴۰۳)

قائد اعظم کا یہ خطاب ان تمام پیدا کردہ شکوک و شبہات کو ختم کر دیتا ہے، جو ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی انوکھی تعبیر کر کے پیدا کیے جاتے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ تحریر بلکہ بہت سے وہ تحریری بیانات و خطبات جو کسی بھی محقق سے مخفی نہیں ہیں اور شاید جان بوجھ کر انھیں بیان نہیں کیا جاتا رہا۔ وہ اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ ’دینی مواد‘کو ہر شعبۂ زندگی میں شامل کر نے اور پاکستان کو ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست بنانے پر یکسو تھے ۔یہ قیام پاکستان کے بعد کی بات نہیں، اس سے بہت پہلے بھی ان کا موقف یہی تھا ۔

پھر فروری ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمدعلی جناح نے ریڈیو سے امریکی شہریوں کو خطاب کرتے ہوئے دستور پاکستان کے بننے سے پہلے ہی اس کا اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ قائدامریکی باشندوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ:

This Dominion which represents the fulfillment, in a certain measure, of the cherished goal of 100 million Muslim of this sub-continent, came into existence on August 14, 1947. Pakistan is the premier Islamic State and the fifth largest in the world. (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, volume 4,       P 2692)

ہرمملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دُنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلد چہارم، ص ۴۲۰)

اسی بات کو فرنٹئیر مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ ، ۲۰ نومبر ۱۹۴۵ء، بمقام پشاور میں یوں بیان کرتے ہیں :

We have to fight a double-edged battle, one against the Hindu Congress and the other against the British Imperialists, both of whom are  capitalist.The Muslims demand Pakistan,where they could live according to their own code of life, their own cultural growth, traditions and Islamic Laws. (K.A.K. Yusufi, The Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah some Rare Speeches ـ&  & Statements ,  Lahore, Punjab University, 1988, P 93)

ہمیں دوہری جنگ لڑنا ہوگی۔ ایک ہندو کانگرس کے خلاف اور دوسری برطانوی سامراجیوں کے خلاف، دونوں ہی سرمایہ دار ہیں۔ مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے نظامِ زندگی، اپنی ثقافت و روایات اور اسلامی قانون کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

 ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم کس بنیاد پر ملک و قوم اور نظام تعلیم کی تعمیر چاہتے تھے ۔وہ بار بار کہتے ہیں کہ ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہماری سیاست، ہمارا قانون، سب اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوں گے ۔گویا نظام تعلیم اس سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ ’روشن خیالی‘ کے نام پر سیکولر زم نہیں لایا جا سکتا ۔بیرونی ممالک کی زر خرید این جی اوز کے کہنے پر’ مذہبی مواد‘ الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ایسا کرنا قائد اعظم اور پاکستان کے تصور سے غداری اور امانت و دیانت کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہو گا۔بانی ٔ پاکستان کے ان دوٹوک پالیسی فرمودات کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ کسی بھی ملک کے لیے اس کے بانیان کا تصور اور اس کا دستور ہمیشہ ایک تقدس کا مقام رکھتا ہے۔

دستوری ہدایات

مناسب ہو گااگر ایک لمحے کے لیے یہ دیکھ لیا جائے کہ نظام تعلیم پر کیا دستوری ہدایات (یہاں ہم نصاب پر بات نہیں کر رہے، کیوں کہ وہ لا محالہ نظام تعلیم کے تابع ہوگا) پائی جاتی ہیں ۔ دستور پاکستان کی دفعہ۳۱(۱) (۲) ’اسلامی طریقۂ حیات‘ کے زیرعنوان کہتی ہے:

31. (1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.

(2)The State shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan,

(a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of the Holy Quran;

(b) to promote unity and the observance of the Islamic moral standards; and, (c) to secure the proper organisation of Zakat, Ushr, Auqaf and Mosques (The Constitution of Islamic Republic of Pakistan, Islamabad, 1989, P 22-23).

۳۱- (۱) پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے، اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ، عشر،اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

اسلامی نظامِ تعلیم کا نفاذ  __ دستوری تقاضا

اس وسیع تر تناظر میں بنیادی مسئلہ وہ ہے، جس سے سیکولر لابی اور خود پرست صاحبان اقتدار پہلو بچاتے رہے ہیں، یعنی ملک میں مکمل اسلامی نظامِ تعلیم کا نفاذ اور اس میں نصاب اور نصابی کتب کی اسلامی اخلاق کی تدوین جدید کے ساتھ معلمین اور معلمات کی اس نظام تعلیم کے فلسفے سے آگاہی اور اس کے نفاذ کی حکمت عملی پر یکسوئی، تاکہ نہ صرف نصابی کتب بلکہ ان کے متن کو سمجھانے والے اپنے ذاتی کردار کی مثال سے ایک عملی نمونہ پیش کر سکیں ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور تمام پاکستانیوں کے حقوق کا پاسبان ہے اور وضاحت سے ہدایت کرتا ہے کہ ان کی اولاد اور آنے والی نسلوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت ، عمرانیات، سیاسیات ، انجینئرنگ ، طب، غرض تمام علوم کی تعلیم دی جائے اور دستور کی ہدایات پر ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے اسلامیات ایک لازمی مضمون کے طور پر برقرار رہے ۔ گویا ہر شعبۂ علم میں ’مذہبی مواد‘ شامل کیا جانا ایک دستوری ضرورت ہے اور قائد اعظم کے واضح ارشادات پر عمل کرنا ہے۔ہمارے خیال میں کوئی بھی پاکستانی چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو ، بانی ٔ پاکستان کے سوچے سمجھے مقصدِ پاکستان سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ جس مقصد کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں اور عزّتیں قربان کی گئیں۔ اس کا حصول موجودہ اور آنے والی نسلوں کاا یمانی تقاضا ہے ۔ اس میں کسی غیر مسلم شہری کی نہ دل آزاری ہے ، نہ حقوق کی پامالی۔ ویسے بھی ان مذاہب کے ماننے والوں کے نمایندوں کے باہمی اتفاق سے وزارت تعلیم نے ان کا مذہبی نصاب ان سے بنوا کر شائع کر دیا ہے۔ اب یہ مسئلہ صرف ۹۶ فی صد مسلمانوں کا ہے۔

جہاں تک تعلق’ دینی مواد‘ کا ہے تو مسلمان کی تمام زندگی ہی دینی مواد کے تابع اور زیراثر ہے ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ، ایک ایک عمل اپنے ربّ کی بندگی میں بسر ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی دوالگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہوتی کہ ایک خانے میں دھوکا اور رشوت ہو اور ایک خانے میں تسبیح اور نماز اور دیگر عبادات ۔ اس لیے ہمارا ادب ہو ، شاعری ہو ، عمرانی علوم ہوں، معاشیات ہو یا انجینئرنگ یا طب، ہر علم میں اسلامی اقدار و روایات کا مکمل نفوذ ہی ہمیں صحیح معنوں میں پاکستانی بنا سکتا ہے ۔ ہم وہ قوم ہیں ، جس کا وجود نہ کسی خطۂ زمین سے ہے نہ کسی نسل ، ذات یا مسلک سے بلکہ صرف اور صرف دین اسلام ہماری شخصیت اور پہچان ہے ۔

یہ تاریخ کا ایک منفرد باب ہے جس میں ایک قوم اسلام کی بنا پر پہلے وجود میں آئی اور اس قوم نے دو مراحل (۱۹۳۰ءسے ۱۹۴۰ء تک ایک مرحلہ اور ۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء تک دوسرے مرحلے میں ) یعنی عملاً سات سال میں ایک خطۂ زمین حاصل کرلیا۔پہلے ایک قوم بنی، ملک بعد میں وجود میں آیا۔یہ تاریخ کا ایک ایسا واقعہ اور حقیقت ہے ، جس کی صرف ایک مثال اس سے قبل پائی جاتی ہے اور وہ ہے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام ۔ وہاں بھی امت مسلمہ پہلے وجود میں آئی اور مملکت اس کے بعد بطور عطیۂ الٰہی ملی ۔اس لحاظ سے پاکستان یا قائد اعظم کے اپنے الفاظ میں ’اسلام کے قلعہ‘ کا تحفظ ، فروغ ، اور اس میں اسلامی نظام تعلیم کا قیام ، اس ملک کے ۹۶ فی صد شہریوں کا پیدایشی، جمہوری اور دینی حق ہے، جسے کوئی طاقت غصب نہیں کر سکتی۔

تہذیب اور ثقافت کی روایتی تعریف پر غور کیا جائے تو چاہے ثقافت سے مراد کسی اجتماعیت میں پائی جانے والی اقدارِ حیات ہوں یا ان کا تصور مذہب، قانون، معیشت، سیاست، فنون اور ادب یا وہ قابلِ محسوس ورثہ جو فنِ تعمیر میں، شعروادب میں، رسوم و رواج اور مذہبی عبادات، تہواروں اور نامور ان کی عزت واحترام کی شکل میں پایا جاتا ہو، ہم جس زاویے سے بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف اپنے ذہن میں کریں، ایک مشترک قدر بہرصورت نظر آتی ہے اور وہ ہے ’تہذیبی یا ثقافتی تشخص‘ identity یا پہچان۔

یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص نے ماتھے پر زعفرانی رنگ کی لکیریں بنائی ہوں اور عین ماتھے کے وسط میں ایک بندیا لگاکر اور گلے میں گیارہ رنگین دھاگے لٹکاکر وہ اپنے بارے میں امام مسجد یا کسی مدرسے کے شیخ الحدیث ہونے کا دعویٰ کرے۔ ایسے ہی اگر ایک شخص حالت ِ سفر میں ہو اور کسی ریستوران میں جاکر کھانا طلب کرے اور اسے معلوم ہو کہ فرانس یا جرمنی یا امریکا کے اُس ریستوران میں ’حلال و حرام کی تمیز نہیں کی جاتی اور بھوک پر قابو کرتے ہوئے دودھ یا سوکھی روٹی پر گزارا کرلے تواس کا یہ عمل اس کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کا پتا دے گا۔ اپنی اس ثقافتی اور تہذیبی شناخت کا اہتمام اور اس پر فخر بعض اوقات ایک مضحکہ خیز طرزِعمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے لیکن اپنی تمام مضحکہ خیزی کے باوجود اپنے اندر ایک گہرا پیغام رکھتا ہے۔ بعض اوقات اس تشخص کا جزوی اہتمام انسان کے اندر حق و باطل کی کش مکش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ اس کے باوجود انسان کا ضمیر اگر زندہ ہو تو وہ ایک غلطی کو غلطی ہی سمجھتا ہے۔

اُردو ادب کا ہرطالب علم یہ جانتا ہے کہ گیسوے اُردو کو سنوارنے والوں میں مرزا اسد اللہ غالب وہی مقام رکھتے ہیں جو معنوی ادب کی تعمیر میں اقبال کا ہے لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے دوران جب ثقافتی اور تہذیبی تشخص کے حوالے سے مرزا کو ایک انگریز کرنل کے سامنے مسلمان ہونے کے جرم میں پیش کیا گیا اوراس نے پوچھا کہ ’ویل کیا ٹم مسلمان ہے؟‘ تو مرزا کا جواب انتہائی معنی خیز تھا۔ انھوں نے کہا: جناب میں ۵۰ فی صد مسلمان ہوں۔ انگریز نے تعجب سے دوبارہ استفسار کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ شراب ضرور پیتا ہوں لیکن خنزیر کبھی نہیں کھاتا۔ یہاں پر مرزا نے اپنی شناخت اعترافِ گناہ کے ساتھ جس بلیغ انداز میں کی وہ ان کی اپنی ذات کے بارے میں تصور کو واشگاف الفاظ میں ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ بنیادی طور پر تو اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ثواب طاعت و زُہد سے آگاہ ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن طبیعت سے مجبور ہوکر بعض اوقات بھٹک بھی جاتے ہیں۔ ایسے ہی مرزا کی چار گوشے والی ٹوپی، ان کا خرقہ، ان کی شکل صورت،    ان کے ہرہرشعر میں جنت اور جہنم کا حوالہ، ان کی شخصیت کے سیاق و سباق ان کے تشخص کو کھول کر بیان کردیتا ہے۔

اس تاریخی جملۂ معترضہ سے ہماری مراد صرف یہ ہے کہ تہذیبی تشخص کا تعلق اُس تصورِحیات اور بعد الممات سے ہوتا ہے جو ایک فرد اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ جب پوچھا جائے کہ   تم کون ہو؟ تو اس کا جواب یہ نہیں ہوتا کہ میں کس علاقے، کس زبان، یا کس ذات پات اور نسل سے تعلق رکھتا ہوں بلکہ اس کا جواب تہذیبی اور ثقافتی تشخص، اقدارِ حیات پر مبنی خودبینی اور اجتماعی وابستگی کوظاہر کرتا ہے۔

شکست خوردہ اور محکوم ذہنیت کا ایک بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیرمحسوس طور پر جس فضا اور ماحول میں پلتی بڑھتی اور ترقی کرتی ہے، اس فضا کی اتنی عادی ہوچکی ہوتی ہے کہ اسے اپنی محکومیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ گرمیوں کے موسم میں ہرشخص کو پسینہ آتا ہے لیکن عموماً ایسے افراد جن کے پسینے میں تیزابیت اور بو ہوتی ہے انھیں خود اپنی اس کمزوری کا احساس نہیں ہوتا، جب کہ ان کے دائیں اور بائیں نماز کی صف میں کھڑے ہونے والے نمازی اس  بُو سے پریشان رہتے ہیں۔ اسی بنا پر ہمارے دین نے ہمیں نظافت اور طہارت کا حکم دیا ہے اور سیرتِ پاکؐ سے یہ پیغام ملتا ہے کہ  نمازی نماز کو جانے سے قبل لہسن نہ کھائے اور ایک محنت کش اپنے بازوئوں سے پسینہ صاف کر کے صف میں شامل ہو۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا ہر صاحب ِ ایمان میں یہ احساس بیدار کرنا تھا کہ وہ خود احتسابی کرتے ہوئے اپنے عقیدے اور نظریۂ حیات کا جائزہ لے یہاں تک کہ انتہائی معمولی باتوں میں بھی اپنا جائزہ لیتا رہے۔

اس کے مقابلے میں ایک شکست خوردہ ذہنیت کو اپنے سامراجی نظام کی فکر، زاویۂ تحقیق اور تعلیم سے گہری وابستگی کی بناپر وہ اچھائی جو سامراجی تعلیم و ثقافت کی پہچان ہے، غیرمحسوس طور پر درست، اور ہر وہ  بُرائی جو سامراجی تہذیبی و ثقافتی روایت میں بُری سمجھی جاتی ہے، اپنے خیال میں بُرائی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے بڑی واضح مثال ان مفکرین کی ہوگی جو سامراجی فکر اور سامراجی پیمانۂ معروف ومنکر پر غیرمحسوس طور پر ایمان رکھنے کی بنا پر مغرب کے رواج کو مثالی انسانی طرزِعمل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اگر مغرب میں صرف ایک شادی قانونی طور پر درست سمجھی جاتی ہے یا قاتل کو سزاے موت دینا ایک غیرمہذب فعل سمجھا جاتا ہے یا تہذیب کی معراج یہ سمجھی جاتی ہے کہ انفرادی آزادی کے نام پر مردوں اور عورتوں کوتن کی عریانی کا غیرمحدود حق دے دیا جائے تو یہ مفکرین اور دانش ور مسلم معاشروں میں ایسی ہی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔

معاشرے میں پایا جانے والا ظلم و استحصال انھیں مضطرب نہیں کرتا۔ اگر انھوں نے انگریز کے دیے ہوئے تعلیمی نظام میں تربیت پائی ہوتی ہے تو وہ اسی نظامِ تعلیم کو حق اور درست سمجھتے ہیں اور اس میں کسی معمولی سی اصلاح کو انحراف قرار دیتے ہیں۔ الجیریا کے معروف مفکر مالک بن نبی مرحوم نے اس ذہن کے بارے میں بہت صحیح کہا تھا کہ سامراجیت سے زیادہ سامراج زدہ ذہن خطرناک ہوتا ہے کیوںکہ و ہ سامراجی طاقت کی طرح کھلا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ سامراجیت کے زہر سے آلودہ ہوکر بظاہر ایک نوآزاد مملکت کا مقامی سربراہ ہوتا ہے لیکن اپنی فکر اور عمل میں وہ سامراجی طاقت سے زیادہ سامراجیت کا وفادار ہوتا ہے۔

اس شکست خوردہ ذہنیت سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی تشخص پر کم از کم چار زاویوں سے غور کیا جاسکتا ہے:

۱- عمرانی اور سماجیاتی زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کی بنیاد وہ مقامی بودوباش کی روایت ہوتی ہے جو کسی قبیلے یا قوم نے کسی خطے میں اختیار کی ہو اور عرصۂ دراز تک اس پر عمل کرنے کے سبب وہ ان کی عادت اور عرف بن گیا ہو۔ اسی بنا پر ہندستان کی تہذیب کو ہندووانہ رسوم و رواج، عبادات اور ناچ گانوں، طبقاتی تقسیم اور رنگ (وارنا)کی بنیاد پر تفریق اور طبقاتی تقسیم والی تہذیب قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تہذیب برصغیر میں محدود رہی اور اگر کسی نے اس کے زمینی تقدس کو پامال کرنا چاہا تو اسے مذہب بدر کر دیا گیا، حتیٰ کہ گاندھی نے بھی جب ہندستان کو چھوڑ کر برطانیہ اور جنوبی افریقہ کا رُخ کیا تو اس مذہبی خلاف ورزی پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسی فرد کو اس کی مسلمان دشمن سیاسی حکمت عملی اور نام نہاد پُرامن احتجاج کے تصور کی بنا پر ’مہاتما‘ کے اعلیٰ روحانی مقام پر فائز ہونے کا اعزاز دیا گیا۔

زرتشت کے زیراثر پرورش پانے والی تہذیب و ثقافت چونکہ صرف ایران میں مقید و محدود رہی، اس لیے اس کی بنیاد بھی وہ زمینی روایات ہیں جو اس خطے میں پائی جاتی تھیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ہم اس طریق تحقیق کو اس کے بنیادی نقص، یعنی دائرۂ تحقیق کو ایک مخصوص خطے تک محدود کردینے کی بناپر استعمال نہیں کرسکے۔ گو بہت سے غیرمسلم اور ان سے متاثر بعض مسلمان اسلامی ثقافت و تہذیب کو عربی ثقافت و تہذیب قرار دینے کی صریح غلطی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔

۲- سامراجی ثقافت و تہذیب کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو بعض اقوام نے اپنے زیرتسلط محکوم اقوام کو اپنے دورِ اقتدار میں تعلیم، معاشی، سیاسی اور قانونی تبدیلیوں کے ذریعے سامراجی فکر کا تابع بنانے اور ان کی اپنی تہذیب و ثقافت سے ان کے تعلق کو منقطع کرنے کے لیے ان کی زبان و ادب، ان کی معاشرت اور کاروبارِ حیات میں ان پر بندشیں لگاکر انھیں فکری اور عملی طور پر اپنا مکمل محکوم بنایا۔ بہترین مثال برطانوی سامراج کی ہے جس نے ۱۰۰سال سے اُوپر برعظیم کے مسلمانوں پر اپنی تعلیمی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حکمت عملی کے ذریعے ان کے ماضی سے تعلق کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے ساتھ ان کی ذہنیت کو یورپی بلکہ انگریزی فکرومزاج سے اتنا ہم آہنگ کردیا کہ اگر آج ایک دانش ور انگریز ادیبوں، فلسفیوں، ماہرین عمرانی علوم کے حوالے دے کر   اپنی قومی زبان میں کوئی مقالہ لکھتا ہے تواس کی تمام تحقیق اور محنت کو صحافیانہ تحریر قرار دے کر ایک طرف کردیا جاتا ہے۔

انگریز سامراج کی یہ ذہنیت اسے اپنی زبان میں سوچنے اور اس میں اظہارِ خیال کرنے کی صلاحیت سے آہستہ آہستہ محروم کردیتی ہے او روہ ان اصطلاحات کے استعمال کے بغیر جن کا منبع اور روحانی رشتہ یورپی اور انگریزی ثقافت سے ہے اپنی بات بیان نہیں کرسکتا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جو قوم اپنی زبان میں سوچ نہ سکتی ہو اور اپنی زبان میں اظہارِ مدعا نہ کرسکتی ہو اس پر ترقی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حقیقت بین نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں ہوسکتی کہ کوریا ہو یا چین ان کی ترقی کا راز ان کی اپنی زبان میں تعلیم اور اپنی زبان و ثقافت پر فخر کا بنیادی دخل ہے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم غیرملکی زبانوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں محض قومی زبان نہیں بلکہ مزید پانچ یورپی زبانوں پر عبور ایک مستحسن اقدام ہے لیکن انگریز سامراجی ذہن سے ہرمسئلے پر غور کرنا اور جوتحقیق کی حکمت انھوں نے اپنے مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے ایجاد کی ہو، اس کو ایک مختلف معاشرتی، ثقافتی، دینی ماحول کی تعبیر میں استعمال کرنا طریق تحقیق کی ایک بنیادی ناسمجھی ہی نہیں واضح غلطی ہے۔

مثال کے طور پر اگر یورپ زدہ سامراجی علمِ عمرانیات میں خاندان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ایک شخص اور اس کی قانونی منکوحہ اور اس کے حد سے حد دو بچوں پر مبنی اولاد، تو غیرشعوری طور پر اگر ایک ایسے معاشرے کا مطالعہ کرنا ہو جس کے بنیادی تصورات میں کثیرالاولاد ہونا اچھائی کی علامت ہو، جہاں خاندان کا مطلب والدین، شوہر،بیوی، شوہر کے بھائی بہن، ان کے بچے اور  اس کے اپنے بچے ہوں___ تحقیقی تعصب سے اپنے آپ کو بچانا ناممکن ہوگا اور نتائجِ تحقیق کا لازمی طور پر رنگین عینک سے دیکھنے کی وجہ سے گمراہ کن ہونا یقینی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ زدگی کے شکار علومِ عمرانی کے ماہر، تاریخ دان ہوں یا سیاسی تجزیہ کار، جس تحقیقی حکمت عملی میں تربیت پاکر   اعلیٰ تعلیمی سندات حاصل کرتے ہیں اپنے آپ کو اُس فکری حلقے میں نہ تو قید تصور کرتے ہیں اور نہ اُس سے نکل کر زمینی حقائق پر غور کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔

اگر یورپ زدہ سماجیاتی تصور یہ ہے، اور جو تقریباً ۲۰۰ سال سے ہماری اپنی جامعات میں رائج ہے، کہ ثقافت اور تہذیب کی جڑیں مقامی رسوم و رواج میں ہوتی ہیں، تو پھرکسی کا مصر میں   اپنا تشخص تلاش کرنے کے لیے یہ کہنا کہ وہ فراعنہ کی اولاد سے ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں مصری دیومالائوں میں پائی جاتی ہیں، بالکل فطری عمل ہے۔ یہی تصور قومیت کی بنیاد بنتا ہے اور ایک فرد جس خطے میں پیدا ہو، اس مغرب زدہ فکری زاویۂ نگاہ کی بناپر اپنا نسب اور تعلق زمین سے جوڑتا ہے۔ قدیم ہندو تصور جس میں ’دھرتی ماتا‘ کو مقدس قرار دیا گیا تھا، بظاہر ایسے تمام جغرافیائی قومیت کے تصورات کی بنیاد نظر آتا ہے۔ اس طریق تحقیق کے نتیجے میں جو شخص اپنے آپ کو فرانسیسی یا برطانوی کہتا ہے اس کی حقیقی وجہ اس کا جغرافیائی طور پر اس جگہ پر پیدا ہوجانا، یا اس کا فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا ، یا کسی  کا برطانوی انگریزی میں بات کرنا قرار پاتا ہے۔

اسی طرح عمرانیات میں جس چیز کونسل پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی بنیاد بھی یورپ زدہ طریقِ تحقیق ہے جو رنگ، خون یا نسل کو تشخص قرار دیتا ہے۔ آج بھی فرانسیسی قومیت کا ایک اہم جز سفیدفام نسل سے تعلق اور فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ اس طریق تحقیق کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے بارے میں اس کی روشنی میں کوئی تاریخی یا عمرانی تحقیق کی جائے تو انھیں عرب یا ایرانی یا ترک یا نائیجیری اور انڈونیشی کی حیثیت سے زیرمطالعہ لایا جاتا ہے اور ان کے مقامی لباس، چہرہ مہرہ یارنگ کی بنیاد پر ان کا تشخص قرار دیتے ہوئے اسلام کو بھی انڈونیشی اسلام، ایرانی اسلام یا ترکی اسلام کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس تحقیقی حکمت عملی کے استعمال کرنے والوں میں مشہور کینیڈین اسکالر اسمتھ جیسا سنجیدہ شخص بھی شامل ہے۔

اس بظاہر طویل نظری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ سمجھنا ہے کہ جب ہم اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو ہمارا اصل تشخص کیا قرار پاتا ہے اور کیا ہونا چاہیے اور کیا وہ جیسا ہونا چاہیے ویسا ہے؟

پہلی بات تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی خطہ نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ تقسیم ہند سے قبل جن خطّوں کو بعد میں یک جا کر کے پاکستان بنا وہ زبانی عصبیت کی جگہ جغرافیائی خصوصیت کی بنا پر اپنا ایک نام رکھتے تھے ، مثلاً پانچ دریائوں کی زمین کو پنج آب اور دریاے سندھ کی وادی کو سندھ اور ہندستان کی شمال مغربی سرحد کو سرحد کا نام دیا گیا تھا۔ بلوچستان کی بنیاد بھی زبان نہیں قبائلی نسبت تھی۔ ایسے ہی مشرقی اور مغربی بنگال کی بنیاد بھی زبان نہیں تھی کیوںکہ جو زبان مغربی بنگال میں مستعمل تھی وہ سنسکرت زدہ اور جو مشرقی بنگال میں (جو بعد میں مشرقی پاکستان کہلایا) استعمال ہوتی تھی وہ عربی،فارسی کے سرمایے سے بھرپور تھی۔۱؎ گویا پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی حدیں یا مقامی زبان، غذا یا وضع قطع نہیں ہوسکتی۔

دوسری بنیاد جس پہ مغرب زدہ علومِ عمرانیات قائم ہیں علاقائی اور قبائلی تعلق ہے۔ پاکستان کے تناظر میں مختلف خطوں اور قبائلی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے قبائلی یا علاقائی تشخص قومی تشخص نہیں بن سکتا۔خود بانیِ پاکستان نے اس پہلو پر مختلف مواقع پر پُرزور الفاظ میں یہ بات کہی کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ آپ کی پہچان نہ بلوچیت ہے، نہ پنجابیت، نہ سندھیت، نہ سرحدیت، اب آپ ایک نئی اکائی اور وحدت میں شامل ہوگئے ہیں۔ آپ کا تشخص اُس سے بہت مختلف ہے جو مغرب نے ہمیں سکھایا ہے۔۲؎

تیسری بنیاد غالب تہذیب کا صدیوں کے عمل کے نتیجے میں محکوم پر غالب آجانا ہوسکتاہے۔ اگر غیرمنقسم ہندستان کے تناظر میں اس مفروضے کا جائزہ لیا جائے تو ۸۰۰ سال کے لگ بھگ حکومت کرنے کے باوجود تقسیم ملک کے وقت مسلمان تعداد میں ایک چوتھائی یا اُس سے کچھ  کم رہے۔ اگر وہ سامراجی طاقت ہوتے تو اپنی تعلیمی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حکمت عملی اور دبائو سے غیرمسلم اکثریت کی تعداد کو اقلیت میں تبدیل کرسکتے تھے۔ جدید فرانس اسی اصول کی بناپر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ چونکہ وہ غالب اور حاکم تہذیب ہے اس لیے اس کے نوآبادیاتی نظام سے آنے والے افریقی ہوں یا الجزائری، وہ فرانسیسی طرزِ زندگی اختیار کیے بغیر فرانسیسی نہیں شمار کیے جاسکتے۔ انھیں اپنے دینی معاملات کو بھی فرانسیسی تہذیب کا تابع کرنا ہوگا۔ چنانچہ سر پررومال کے استعمال پر پابندی کو ایک قومی مسئلہ بنایا گیا۔

اگر اکثریت کے رواج، بودوباش، دینی فکر اور عمل اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی طرزِعمل کی بنیاد پر کسی قوم کا تشخص قرار دیا جانا فرانس، برطانیہ، امریکا یا دیگر ممالک میں ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، تو پھر پاکستانی تشخص اور تہذیب و ثقافت بھی پاکستان کی غالب اکثریت کی بناپر جو قدرِمشترک پائی جاتی ہو اسی پر مبنی ہونی چاہیے۔ یہ قدر مشترک نہ تو علاقائی زبان ہوسکتی ہے، نہ   جسم و قدوقامت نہ قبائلی اور نسلی تعلق، یہ صرف اور صرف وہ تصورِ حیات ہی ہوسکتا ہے جو اس کے رہن سہن، کھانے پینے، معاشرتی عادات، معاشی ترقی کے تصور اور نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آنے والی زندگی میںکامیابی کے تصور کا تعین کرتا ہے۔

تہذیب و ثقافت میں مذہب کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور کیا وجہ ہے مغرب زدہ دانش ور اور مغربی مفکرین جب بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف کرتے ہیں، تو اس میں مذہب کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر تہذیب و ثقافت سے مراد وہ رہن سہن اور روایات لیتے ہیں جو صدیوں سے کسی مقام یا کسی اجتماعیت میں پائی جاتی ہوں۔ اس سوال کا مختصر جائزہ ہم اس مقالے کے آغاز میں لے چکے ہیں کہ یورپی تاریخ میں عیسائی چرچ کے دور کو تنگ نظری، انتہاپسندی، مذہبی نفاق، ردِعقلیت، جذباتیت اور ترقی پسندی کی ضد خیال کیا جاتا ہے بلکہ یہ تصور مغربی فکر میں ایک ’مصدقہ حقیقت‘ کا مقام رکھتا ہے۔ جدید علمی تحقیق میں عیسائی چرچ کے خلاف ردعمل کو لبرل ازم یا اباحیت پرستی، عقل پرستی، سائنسی فکر، نشاتِ ثانیہ، احیاے انسان پرستی (Humanism)، احیاے فطرت پرستی اور روشن خیالی کے نام پر یاد کیا جاتا ہے۔ آج جو مکاتب ِ فکر یورپ و امریکا میں پائے جاتے ہیں اور ان کے زیراثر تعلیم پاکر آنے والے مسلم ممالک کے دانش ور، سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مذہب اور عقلیت میں ٹکرائو ایک فطری عمل ہے۔ وہ غیرشعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ مذہب لازمی طور پر انتہاپسندی کو پیدا کرتا ہے وغیرہ۔ اس لیے مغرب زدہ عمرانی علوم کا نقطۂ آغاز ہی عقل کی مطلق العنانی، مذہب کی چرچ کی چاردیواری تک محدودیت اور معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کا مذہب کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہونا، ترقی کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے اور جب علم پر مبنی معاشی ترقی، علم پر مبنی معاشرہ ، یا روشن خیالی کی بات کی جاتی ہے، تو ذہنی پس منظر میں عملاً مادیت پرستی، افادیت پرستی، اخلاقی اضافیت (Ethical Relativisim)، انفرادیت پرستی اور تہذیبی و ثقافتی ارتقا پر ایمان بالغیب لانے کے بعد ہی مذہب اور ثقافت کو معاشرتی ارتقا کے تابع کردیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج اخذ کیے جاسکیں۔ مزید یہ کہ مغربی تصورِ حیات کی پیروی میں مسلم معاشرے میں بھی مذہب کو ذاتی یا انفرادی معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

اس مغربی فکری شیش محل میں محصور ذہن کے مقابلے میں ایک آزاد ذہن جو مغرب زدگی کے سحر سے نکل چکا ہو، جب تہذیب و ثقافت کے تصور پر غور کرتا ہے تو تہذیب و ثقافت صرف اور صرف ایک ملت کے تصورِ حیات کی قابلِ محسوس شکل اور مظہر قرار پاتی ہے۔ عصرِحاضر کے عظیم دینی رہنما اور مفکر سیدمودودی نے اس ساری بحث کو محض چند الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اس کے علوم و آداب، فنونِ لطیفہ، صنائع و بدائع، اَطوارِ معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا، مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیں ہیں، تہذیب کے نتائج و مظاہر ہیں۔ تہذیب کی اصل نہیں ہیں،شجر تہذیب کے برگ و بار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدروقیمت     ان ظاہری صورتوں اور نمایشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جاسکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اوراس کے اساسِ اصول کا تعین کرنا چاہیے۔

اس نقطۂ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے۔ انسان کا اس دنیا سے کیا تعلق ہے؟ اورانسان اس دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے‘‘۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، ۱۹۶۰ء ص ۱۱)

پاکستان بلکہ کسی بھی ایسے ملک کا تشخص جو اپنے آپ کو مسلمان یا اسلامی کہتا ہو، اس کی اسلامیت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کیوںکہ نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحد، نہ اس کا رنگ، نہ اس کے افراد کا نسلی یا قبائلی تعلق اس کا اصل تشخص قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مغربی سامراجی فکرسے متاثر تحقیق کی حکمت عملی سے نجات اور آزادی کے بغیر ہم زمینی حقائق اور معاشرتی تصورات کو جیسے کہ وہ ہیں نہ تو صحیح طور پر  سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد کوئی نتائج نکال سکتے ہیں۔

اس معروضی اور مختصر تجزیاتی مقالے کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق جس اصول کی بنیاد پر ہوئی وہ مسلمانوں کا اپنی تہذیب، ثقافت اور نظریۂ حیات کی بنیاد پر ایک ملّت ہونا تھا جسے دوقومی نظریہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان دو ملّتوں میں ایک دریا کا پانی پینے اور ایک فضا میں سانس لینے کے باوجود بنیادی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اختلاف پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے ملّت اسلامیہ کو اپنے ثقافتی، تہذیبی اور دینی تشخص پر قائم رہنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جہاں وہ اپنی ’پہچان اور تہذیبی اور ثقافتی تشخص‘ کو نہ صرف برقرار   رکھ سکے بلکہ مزید ترقی دے سکے۔ ظاہر ہے یہ تشخص اور پہچان اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی تھی۔ ہند میں مسلم اُمت کی بقا اور ترقی کے لیے لازم تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جس کی پہچان صرف اور صرف اسلام ہو۔

پاکستان کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے بانیِ پاکستان نے اسی تہذیبی اور ثقافتی تشخص کی نشان دہی کی تھی:

ہم ہند کو ہندستان اور پاکستان میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں… ہندو ہند اور مسلم ہند دونوں کو الگ ہونا چاہیے۔ چونکہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور بعض معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو کچھ اختلافات کے بارے میں بتا دوں۔ ہم ان سے تاریخ، ثقافت، زبان، فنِ تعمیر، موسیقی، قوانین، اصولِ قانون اور ہمارا سارا معاشرتی تانابانا اور ضابطۂ حیات میں مختلف ہیں (اے بی سی لندن کے ذریعے امریکیوں کے نام پیغام، لندن ۱۳دسمبر۱۹۴۶ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ناشر: بزمِ اقبال لاہور، ترجمہ: اقبال احمدصدیقی، ۱۹۹۸ئ، ص۲۷۲)

اس تشخص کے حوالے سے قائداعظم نے بارہا وضاحت سے یہ بات کہی کہ ثقافتی اور تہذیبی بنیادوں سے ان کی مراد اسلامی نظامِ حیات ہے چنانچہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظریۂ حیات کا قیام و نفوذ ہے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر ’Muslim Ideology‘(مسلم نظریے) کی اصطلاح استعمال کی:

ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے اپنی قوم کی تنظیم کرنا۔ اور ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں۔  نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں اور اسلامی آئیڈیل اوراصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم آئیڈیالوجی بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔(مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن صوبہ سرحد کے نام پیغام، ۱۸جون ۱۹۴۵ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم،  ۱۹۹۸ئ، ص۴۳۸)

آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پاکستان کے اصل تشخص اور پاکستانیت کے اصل مفہوم کو نہ صرف اس کے صحیح تناظر میں بلکہ بانیانِ پاکستان کے بیانات کی روشنی میں تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے، لیکن یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب محققین یورپ زدگی سے اپنے ذہن کو آزاد کرکے مغربی معاشرتی علوم کے طرزِ تحقیق کے خطرات کو ذہن میں رکھتے اور اپنا دامن بچاتے ہوئے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے غور کریں۔ وہی قومیں زندہ رہنے کا حق رکھتی ہیں جن کی نظریاتی اساس مضبوط ہو اور جو خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوں

ان غیر مبہم ، واضح اور مستند تحریری و تقریری بیانات کے مطالعے کے بعد کوئی بھی صاحبِ عقل یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ قائداعظم کا بیانیہ اسلامی پاکستان، اسلامی معیشت ، اسلامی معاشرت اور اسلامی ثقافت کے علاوہ کوئی اور تھا۔اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر اور ایک دوسرے موقعے پر جسٹس منیر کے قائد اعظم سے منسوب ایک گمراہ کن بیان کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہےتاکہ وہ نسل جو قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہوئی ہے حقائق سے آگاہ ہو اور قائد اعظم کی اصل تصویر ان کے سامنے آ سکے۔

ٹیلی ویژن کے دانش وَر اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے والے ’سیکولر‘ اسکالرز بار بار کہتے ہیں کہ جناح صاحب نے ۱۱؍ اگست کی تقریر میں مذہب اور ریاست کو الگ کر کے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کر لیا۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر درج کردہ درجن بھر سے زیادہ بیانات جو ان کے اپنے قلم سے تحریر کردہ ہیں اور جو تقاریر وہ لکھ کر پڑھتے تھے ان میں مسلسل ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستانیت کا مطلب اسلامیت اور نظریۂ پاکستا ن کا مطلب اسلام کے علاوہ کچھ نہیں۔ یاد رہے یہ سب بیانات ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکے بعد کے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ہم محض ایک مفروضے کے طور پر سیکولر طبقے کی ذہنی اختراع کو مان بھی لیں تو ان ساری تحریروں ،بیانات کے بعد۱۱؍ اگست کے خطاب کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے؟ ہم چند لمحات کے لیے اگر یہ مان بھی لیں کہ قائد نے تمام زندگی میں صرف ۱۱؍ اگست کو ہی ایک تقریر کی، تب بھی حقیقت وہ نہیں ہے، جو مخصوص طبقے کا دعویٰ ہے۔

۱۱؍اگست کی تقریر: متن اور حقائق

آئیے اس تقریر کو جو تحریری تھی اور جس کا مسودہ ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی مرتب کردہ دستاویزات میں پایا جاتا ہے، خود پڑھ کر دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ تقریر دستور ساز اسمبلی کے صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت کی گئی ۔ تقریر کا متن مع حوالہ درج ذیل ہے:       

As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class.... The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of great Britain and they all are members of the nation. Now, I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State (Qua‘id -i-Azam M. Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48 Ministry of Information, Government of Pakistan, Islamabad, 1989,  P271)

جیساکہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیساکہ آج ہندستان میں پائے جاتے ہیں۔رومن کیتھولک اور  پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیںجہاں ایک مخصوص فرقےسےامتیاز برتا جاتاہے اوران پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں…

انگلستان کےباشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آنےوالے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اوراس بارِ گراں سے سبکدوش ہوناپڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کےاس مرحلے سے بہ تدریج گزر گئے۔ آپ بجاطورپر   یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ، اب جو چیز موجودہے   وہ یہ کہ ہرفرد ایک شہری ہے اورسب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کےسب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا، نہ ہندو، ہند و رہےگا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے (قائداعظم: تقاریرو بیانات ، جلدچہارم، ص ۳  ۶۰)۔

اس تقریر کو پُراسرار بنانے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا گیا کہ اس کے مسودہ کو کہیں چھپاکر رکھا گیا تھا اور قوم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی، جب کہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ یہ تقریر ہراس مجموعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں قائد کے خطابات کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر یک جا کیا گیا ہے۔ ہمارایہ حوالہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے طبع کردہ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء کی تقاریر و بیانات کی مطبوعہ کتاب سےہے ۔ جس پر اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کا پیش لفظ ہے۔اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ اس کو عوام سے چھپایا گیا ۔اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ تقریر میں کیا کہا گیا۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اس تقریر کا پس منظر بیان کرتے ہیں ، جس کا جاننا بہت ضروری ہے:

Islamic ideology recognizes a distinction of meaning in the words "mazhab" and  "din". "Mazhab" means personal faith, view point or path, whereas "din" means a body of those universal principles of Islam which are applicable to entire humanity. Therefore, in this sense, Pakistan does not have any specific mazhhab; because it is neither founded on nor projects the personal viewpoint of any particular Muslim sect. This very important aspect of the Sate of Pakistan was clarified by the Quaid-e-Azam in his famous Presidential address to the Constituent Assembly on August 11, 1947:

"You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State" (Dr. Javed Iqbal, Ideology of Pakistan, Lahore,Sang-e-Meel Publication, 2005  P.16).

نظریۂ اسلام ’مذہب‘ اور’دین‘ کے معنوں میں امتیاز روا رکھتا ہے۔ ’مذہب‘ کا مطلب ہے ذاتی اعتقاد، نقطۂ نظر یا راستہ، جب کہ ’دین‘ کا مطلب ہے اسلام کے وہ عالم گیر اصول جو تمام نوعِ انسانی پر لاگو ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اس مفہوم میں تو پاکستان کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ اس بنیاد پر قائم ہوا ہے اور نہ یہ کسی مخصوص مسلم فرقے کی فکر کو فروغ دیتا ہے۔ ریاست پاکستان کے اس نہایت اہم پہلو کی وضاحت قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ءکو قانون ساز اسمبلی سے اپنے مشہور صدارتی خطاب میں کر دی تھی: ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں یا کسی بھی عبادت کی جگہ پر جانے کے لیے پاکستان کی ریاست میں آزاد ہیں۔ آپ جس بھی مذہب، ذات اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست کے اُمور سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔

گویا قائد نے پہلی بات یہ کہی کہ ملک کی آزادی کے بعد جدوجہد آزادی کے دوران جو فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوا اب اس سے آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ ایک نئی فکر کے تناظر میں بین المذاہب تعلقات پر غور کی ضرورت ہے ۔چنانچہ برطانیہ کی مثال دے کر یہ بات کہی کہ وہاں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقے یا مسلک کے افراد نے ایک عرصے تک ایک دوسرے کا قتل عام کیا لیکن آخر کار وہ سمجھ گئے کہ ان سب کو ملک کے دستور و قانون کے مطابق امن اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہو گا ۔ایسے ہی اب پاکستان بننے کے بعد اس کے قیام کے دوران جو ہندو مسلم اور سکھ فساد او رقتل وغارت کی گئی اسے بھلا کر ملک میں قانون کی برتری کو قائم کرنا اورقانون پر اعتمادبحال کرنا ہو گا ۔اور یہ کرتے وقت برطانیہ کی مثال کو سامنے رکھنا ہو گاکہ وہاں پر اب نہ کوئی کیتھولک ہے نہ پروٹسٹنٹ بلکہ دونوں فرقے یکساں شہری کی حیثیت سے ایک دوسرے کا احترام کررہے ہیں۔ گو ذاتی طور پر وہ اپنے مسلک پر عمل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان بننے کے بعد ریاست کسی کو محض ہندو یا عیسائی یا پارسی ہونے کی بنا پر تفریق کا نشانہ نہیں بننے دے گی۔   وہ ریاست کی نگاہ میں یکساں شہری ہوں گےاور ان کا مسلکی یا مذہبی معاملہ ان کی ذات تک ہوگا۔

اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قائد نے برطانیہ کی مثال اس لیے پیش کی کہ مسلک کی بنیاد پر جس طرح عیسائی وہاں قتل و غارت کر رہے تھےایسے ہی تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم فسادات ہوئے۔اس میں نہ کسی سیکولر ازم کی طرف اشارہ ملتا ہے اور نہ یہ بات کہ پاکستان میں اسلام ریاست کی بنیاد نہیں ہو گا ۔لیکن لبرل دانش وَروں نے پوری تقریر پڑھے اور سمجھے بغیر محض لفظ Religionکے استعمال کی بنیاد پر ایک خیالی محل تعمیر کر ڈالا اور اسے اتنی بار دُہرایا کہ لوگوں کو یقین آ جائے۔اسے علمی دیانت اور اصول تحقیق سے واضح انحراف کی ایک شکل ہی کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مندرجہ بالا وضاحت کے بعد کہ مذہب یاReligionسے مراد مسلک ہےجو ایک ذاتی پسند ہے، جب کہ اسلام دین، یعنی مکمل نظام حیات ہے،اس مغالطے کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس سے قبل نصف درجن تقاریر و بیانات میں قائد اعظم اسلام کی تعریف جس طرح کرتے ہیں ، اس کو مسجد کی نماز تک محدود ایک ذاتی مذہب نہیں کہا جا سکتا ۔وہ واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے، جو معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی شعبوں میں الہامی ہدایات فراہم کرتا ہے اور یہ وہ بات ہے جو ان کے بقول ہندوؤں اور بعض مسلمانوں کے ذہن میں نہیں آتی۔

جسٹس منیر کی علمی خیانت

دوسرا بڑا ظلم کرنے والا کوئی انگریز یا امریکی مستشرق نہیں بلکہ پاکستان کی عدالت عالیہ سے وابستہ ایک فرد ہے جو بہت سے دیگر مصنّفین کو گمراہ کرنے کا واحد ذریعہ بنا۔ جسٹس منیر اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں تحریر کرتے ہیں :

The pattern of government which the Qua’id –i–Azam had in mind was a secular democratic government.This is apparent from his interview which he gives to Mr Doon Campbell ,Reutter’s correspondent in New Dehli in 1946, in the course of which he said:  "The new State would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regardless of religion cast or creed" (M.Munir, From Jinnah to Zia , Lahore, Vanguard book,1980,P29).

وہ طرزِ حکومت جو قائداعظم کے ذہن میں تھا وہ ایک سیکولر جمہوری طرزِ حکومت تھا۔ اس کا اظہار ان کے اس انٹرویو سے ہوتا ہے جو انھوں نے رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل کو ۱۹۴۶ء میں نئی دہلی میں دیا تھا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام اورنئی قوم کے ارکان کی ہوگی جن کو مذہب، ذات یا مسلک سے قطع نظر شہریت کے یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔

پاکستانی نژاد برطانوی محقق سلینا کریم نے اپنی محققانہ تصنیف Secular Jinnah and Pakistan: What the nation Does't know   میں جسٹس منیر کی تحریر اور خصوصاً رائیٹر کے نمایندے Doon Campbell کے انٹریوو کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا وہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے :

The date of the Reuter’s interview of Jinnah with Doon Camble provided by Munir was simply the year 1946. No proper reference was provided anywhere in the book.The actual date of this interview is 21May 1947. The full transcript of the interview appears in the first volume of Z.H.Zadi’s Jinnah Papers. This in turn was obtained from an original typewritten document containg corrections in Jinnah’s own handwriting as well as his signature, conforming the textual authority of this particular interview. In particular wording of the text as given by Munir does not appear in the interview (Saleena Karim, Secular Jinnah and Pakistan: What the Nation doesn’t know, Karachi, Paramount Publishing Enterprises, 2010,  P.30).

جناح کی رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل سےانٹرویو کی تاریخ جو [جسٹس ] منیرنے دی ہے وہ محض ۱۹۴۶ء ہے۔ کتاب میں کوئی معقول حوالہ کہیں بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اس انٹرویو کی اصل تاریخ ۲۱مئی ۱۹۴۷ء ہے۔ انٹرویو کا مکمل متن زیڈ ایچ زیدی   کے Jinnah Papers کی پہلی جلد میں سامنے آیا ہے۔ یہ درحقیقت ٹائپ کیےہوئے اس اصل مصدقہ دستاویز سے حاصل کیا گیا ہے جس پر جناح کی اپنی تحریر میں تصحیح کے ساتھ ساتھ دستخط موجود ہیں جو اس مخصوص انٹرویو کی مستند حیثیت کی تصدیق کرتے ہیں۔ متن کے وہ مخصوص الفاظ جن کی نشان دہی [جسٹس]منیر نے کی ہے انٹرویو میں نہیں ملتے۔

سلینا کریم کی تحقیق کے مطابق اور ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی سرکاری نگرانی میں طبع شدہ کتاب میں موجود قائد اعظم کے اپنے ہاتھ سے اصلاح شدہ مسودہ میں جسے ان کے سیکرٹری نے ٹائپ کیا اور انھوں نے اس کی اصلاح کرنے کے بعد آخر میں اپنے دستخط بھی کیے ،وہ الفاظ نہیں پائے جاتے جو جسٹس منیر نے قائد سے منسوب کر کے یہ بات پھیلا دی کہ وہ مغربی طرز کی سیکولر ریاست چاہتے تھے۔ دستاویز کے الفاظ یہ ہیں :

But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of government.Its parliament and cabinet, responsible to the parliament, will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect , which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the government that may be adopted from time to time (Saleena Karim, 2010,  p30-31).

لیکن حکومت پاکستان صرف ایک عوامی نمایندہ اور جمہوری طرز کی حکومت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اورکابینہ، پارلیمنٹ کو جواب دہ اور بالآخر یہ دونوں راے دہندگان اور عوام کو بلاامتیاز ذات، مسلک یا فرقہ جواب دہ ہوں گے، اورحکومت وقتاً فوقتاً جو حکمت عملی اورپروگرام بناتی ہے اس ضمن میں یہ عنصر حتمی فیصلہ کن ہوگا۔

The question Doon Campbell asked was : on what basis will the central administration of Pakistan be set up?? In other words he wanted to know the thought of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state and how this would affect its relationship with neighboring  countries?  It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose, and this would have surly suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted (Saleena Karim, 2010,  p-31).

ڈون کیمپبل نے جو سوال پوچھا تھاو ہ یہ تھا: پاکستان کی مرکزی انتظامیہ کن بنیادوں پر قائم ہوگی؟ دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست اورکس طرح یہ اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو متاثر کرے گی؟ جناح کے لیےیہ ایک اچھا موقع تھا، اگر وہ چاہتے تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دےدیتے، اور یہ بات مغربی سامعین کو یقیناپسند آتی جن کےمفاد کے پیش نظر یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔

جسٹس منیر نے جو الفاظ قائد سے منسوب کیےوہ اصل دستاویز میں نہیں پائے جاتے،مثلاً قائد نے درج ذیل الفاظ قطعاً استعمال نہیں کیے:

the new state would be a modern democratic state.

اور نہ sovereigntyکا لفظ ہی استعمال کیا اور نہ religionکا۔ سلینا اپنی کتاب میں یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر واقعی قائد سیکولر ریاست چاہتے تھے تو یہ بہت اچھا موقع تھا کہ بیرونی اخباری نمایندہ اس بات کو دنیا میں پھیلا دیتا لیکن قائد نے ایسا نہیں کیا۔دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک ماہر قانون جس کی ساری عمر دستاویزات جانچنے ، پرکھنے اور ان پر فیصلے کرنے میں گزرتی ہے کس منہ سے سو فی صد غلط بیانی کر تا ہے؟ مگر حقائق یہی ہیں اور سلینا کریم نے اصل مسودہ تلاش کر کے جسٹس منیر کی ہی نہیں بلکہ ان کو اپنا ماخذ مانتے ہوئے بہت سے غیر مسلم اور مسلم ماہرین کے خیال کی مستند تردید کردی ہے۔

دستورپاکستان اور شریعت

بانی ٔپاکستان نے میلاد النبی کی ایک تقریب میں کراچی کے وکلا کی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ۲۵جنوری۱۹۴۸ء کو واضح الفاظ میں بیان کیا کہ نظریہ پاکستان کے جو دشمن بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں اور ان کا اشارہ خصوصاً ڈاکٹر خان کی طرف تھا جو سرحدی گاندھی باچاخان کی طرح دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کےمخالف تھے ۔قائد اعظم نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ جو شریعت ۱۳۰۰سال پہلے درست تھی وہی آج بھی درست ہے اور وہی دستور کی بنیاد ہو گی:

He could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Sharia. The Qua’id-e-Azam said “the Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago. The Governor General of Pakistan said that he would like to tell those who are misled  "some are misled by propagating" that not as the Muslim but also the non-Muslims have nothing to fear and its idealism have taught democracy. Islam has taught equality, justice and fair play to everybody. What reason is there for anyone to fear democracy, equality of man, freedom and the highest standard of integrity and on the basis of fair play and , justice for  everybody. The Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah  said, Let us make it  (the future constitution of  Pakistan). We shall make and we will show it to the world (Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48, Government of Pakistan, 1989,  p125).

وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوںکا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرناچاہتاہے،  یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پراسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔

گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا: جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ،یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے ہیں ، انھیں بتا دینا چاہتاہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموںکو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

اسلام اوراس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نےہرشخص کومساوات، عدل اورانصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت، مساوات اورحُریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ وہ دیانت کےاعلیٰ ترین معیارپرمبنی ہو اور اس کی بنیاد ہرشخص کے لیے انصاف اور عدل پررکھی گئی ہو۔ قائداعظم محمدعلی جناح نےفرمایا: ’’ہمیں اسے (پاکستان کا آیندہ دستور) بنا لینے دیجیے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو دکھائیں گے‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و  بیانات، جلدچہارم،ص ۴۰۲)

 قائد اعظم کے دستور پاکستان کے شریعت پر مبنی ہونے کے بیان کی مزید تائید قائد کے ان اقدامات سے ہوتی ہے جو انھوں نے اس حوالے سے کیے ۔ ہم یہاں صرف دو ایسے شواہد کا ذکر کریں گے ، جن کی سند کی ضرورت نہیں ۔ اول علامہ محمد اسد کو قائد کے مشورے پر ’قومی تعمیر نو‘ کے ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا کہ وہ اسلامی دستور کا مسودہ تیار کریں۔ دوسرے دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ تعلیمات اسلامی بورڈ مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری مولانا ظفر احمد انصاری کی زیرنگرانی قائم کیا گیا ۔جس کی صدرات مولانا سید سلیمان ندوی کے سپرد کی گئی اور اس بورڈنے قرارداد مقاصد اور دستور میں اسلامی دفعات کی تیاری کا فریضہ انجام دیا ۔

اسلام کے معاشی نظام پر بات کرتے ہوئے،انتقال سے بہ مشکل دوما ہ قبل یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبہ تحقیق کا افتتاح کرتے ہوئے قائد نے اپنے خطاب میں پاکستان میں مروجہ سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کے نفاذ پر زور دیا :

I shall watch with keenness the work your Research organization, in evolving banking practices compatible with the Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insolvable problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world... The adoption of western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people. We must work our destiny in our own way and prove to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of mankind and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it,and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind (ibid, p 271). 

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طورطریقوں کو معاشرتی اوراقتصادی زندگی کےاسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کےسلسلے میں جو کام کرے گا مَیں اس کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروںگا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور ہم میں سے اکثرکو یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسےاس وقت سامنا ہے....  مغربی اقدار، نظریئے اور طریقے خوش و خرم اورمطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اوردُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصورپر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچاسکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اورانسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)

پاکستان کا نام اور نظریہ پاکستان

یہ حقیقت ہر باشعور پاکستانی کے علم میں ہے کہ ۱۹۳۳ء میں کمیرج یونی ورسٹی کے چند طلبہ جن میں چودھری رحمت علی اور ان کے رفیق کار خواجہ عبد الرحیم شامل تھے ، شمالی ہند میں مسلمانوں کی اکثریت کے پیش نظر ان صوبوں کے ناموں میں سے حروف لے کر ملک کے لیے ایک نام تجویز کیا تھا جو ’پاک-ستان‘ تھا۔اس تجویز کے محرک چودھری رحمت علی تھے۔

جو بات قوم کے علم میں نہیں لائی گئی وہ یہ ہے کہ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو، یعنی قرارداد پاکستان کے اگلے روز لاہور میں خواجہ عبدالرحیم نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کی دیگر اعلیٰ قیادت کو اپنے گھر پر چائے پر مدعو کیا ۔ اس موقعے پر قائد اور خواجہ عبدالرحیم کی گفتگو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ، کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔپاکستان کے دل و دماغ میں پاکستان اور اسلام کا کیا تعلق تھا اور پاکستانیت یا پاکستانی قومیت کی بنیاد کس تصور پر ہے؟

“On March 24, 1940, a day after the Lahore Resolution, Khawaja Abdurrahim one of those who in Cambridge proposed the name of the country invited the Quai’d at his residence. The Quai’d told him Rahim the name you gave in 1930 is highly talked about in Hindu press.Khawaja Rahim asked the Quai’d then what should be the name in your view, Allama Iqbal in those days had already endorsed this name. The Quai’d said  "if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add 'I' which stands for Islam and is the link between these  provinces". Khawaja Rahim conveyed it to Chaudary Rahmat Ali, who was visiting Karachi those days (Sultan Zaheer Akhter, Shayed Keh Tery Dil main uter jai meri baat, Rawalpindi, Tanzim Karkunan-i-Pakistan, 1998, p 23-24).

۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء ، قرارداد لاہورکےایک روز بعد، خواجہ عبدالرحیم نے جو ان میںسے ایک ہیں جنھوں نے کیمرج میں ملک کا نام تجویز کیاتھا، قائداعظم کو اپنی رہایش گاہ پر  مدعو کیا۔ قائد نے ان سے کہا کہ ۱۹۳۰ء میں جو نام آپ نے تجویز کیا ہے ہندو پریس میں اس کا بہت چرچا ہے۔ خواجہ رحیم نے قائدسےپوچھا کہ ان کی رائے میں ملک کا کیا نام ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال پہلے ہی اس نام کی تصدیق کرچکے تھے۔ قائد نے کہا: ’’اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک -ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ خواجہ رحیم نے چودھری رحمت علی کو اس سے آگاہ کیا جو ان دنوں کراچی کے دورے پر تھے۔

کیا اس چونکا دینے والے انکشاف کے بعد بھی کوئی شخص قائد کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کا تصور پاکستا ن اسلام کے علاوہ کچھ اور تھا؟

قائد کی خواہش __ صرف اسلام کے لیے جینا اور مرنا

قائد اعظم کی فکر کا تسلسل اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے پاکستان کا حصول ہر دور میں ان کی تقاریر اور بیانات کا موضوع رہا لیکن ’لبرل‘ دانش وروں ، نوکر شاہی ، ابلاغ عامہ پر قابض تجزیہ نگاروں نےبھرپور کوشش کی کہ قائد کو ایک سیکولر شخص کے طور پر projectکیا جائے۔ خود قائد کا اپنا اسلام سے تعلق کتنا گہرا تھا،اس کا اندازہ مندرجہ ذیل تقریر سے کیا جا سکتا ہےجو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع منعقدہ ۱۹۳۹ء میں کی گئی:

I have seen enough of the world and possess a lot of wealth.

I have enjoyed all comforts of life. Now my only desire is to see the Muslims flourish and prosper as an independent community. I want to leave this world with a clean conscience and content with the feeling that Jinnah had not betrayed the cause of Islam and the Muslims. I do not want your praise nor any certificate. I only want that my heart, my conscience and my faith should prove at the time of my death that Jinnah died defending Islam and cause of the Muslims. May my God testify that Jinnah lived and died a Muslim fighting against the forces of  "Kufar"  and holding the flag of Islam high (Address at All India Muslim League 1939 reported in Daily Inqalab Lahore, October 22, 1939,  Quoted by Dr.Safdar Mehmood, "Quaid wanted Islamic, democratic state, Dawn Pakistan Day Supplement" , March 23,  2002, P5).

میں دُنیا کافی دیکھ چکا ہوں اورکافی دولت رکھتا ہوں۔ میں زندگی کی تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوچکا ہوں۔ اب میری واحد تمنا یہ ہےکہ مسلمانوں کو کامیاب، خوش حال اورآزاد قوم کی طرح دیکھوں۔ میں اس دنیا کو صاف ضمیر اورپورے اطمینان کے ساتھ اس احساس کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں کہ جناح نے اسلام کے مقصد اورمسلمانوں سے بے وفائی نہیں کی۔ مجھے آپ کی تعریف یا کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا دل، میراضمیراور میرا ایمان موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح مسلمانوں اورمسلمانوں کے مقصد کا دفاع کرتے ہوئے فوت ہواہے۔ میرا خدا گواہی دے کہ جناح ’کفر‘کی قوتوں کےخلاف ایک مسلمان کی طرح جیا اور  اسلام کےپرچم کو سربلند کرتے ہوئے جان دی۔

مولانا حسرت موہانی کی گواہی

ہم آخر میں صرف دو مزید حوالے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق قائد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اس کے راوی نامورمسلم لیگی لیڈر مولانا حسرت موہانی ہیں:

In 1945, Maulana Hasrat Muhani went to see the Quai’d at his Delhi residence (10- Aurangzeb Road) and was told he does not like to meet people at this evening hour. It was time for Magrib prayer, the maulana prayed in the lawn, and then started walking in the corridor. He heard some whispers and thought the Qua’id is talking with someone, he tried to peep into his room. What he saw was reported by him: "The Quai’d was sitting on prayer rug and was praying to Allah for the success of the Muslims with tears and sobs" (Agha Ashraf, Muraqa Quaid-i-Azam, Lahore, Maqbool Academy, 1992).

۱۹۴۵ء میں، مولانا حسرت موہانی، قائدسے ملنے کے لیے دہلی میں ان کی رہایش گاہ (۱۰- اورنگ زیب روڈ) پر گئے۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ شام کے ان اوقات میں لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ مولانا نے باغیچے میں نمازادا کی اور پھر برآمدے میں چہل قدمی شروع کردی۔ ا نھوں نے سرگوشی سنی اور سمجھا کہ قائد کسی سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے ان کے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا ان کے بقول: ’’قائدجائے نماز پر بیٹھے تھے اور وہ آنسوئوں اور سسکیوں کے ساتھ مسلمانوں کی کامیابی کے لیے اللہ سے دُعاگو تھے‘‘۔

مسلم لیگی عہدے داران کا عہدنامہ

دوسری اہم دستاویز وہ عہد نامہ ہے جو مسلم لیگ کے عہدے داران نے دہلی میں ۹،۱۰؍اپریل ۱۹۴۶ء کو منعقدہ اجلاس میں اٹھایا ۔اس عہد نامہ کا آغاز قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت ۱۶۱ سے ہو رہا ہےاور اختتام سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہوتا ہے ۔

عہدنامے کا آغاز سورئہ انعام کی آیت سے ہوتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ (انعام ۶: ۱۶۱) ’’میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔

 عہد نامہ کا اختتام بھی قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہو رہا ہے: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۵۰ۭ (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے رب ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پاؤں جمائے رکھ اور اس کافر قوم پر ہماری مدد کر‘‘۔

اس عہد نامہ کے الفاظ اور ان پر قائد اعظم کے دستخط اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی پوری جدوجہد ِقیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنی زندگی اور موت کو کس عقیدہ سے وابستہ سمجھتے تھےاور اس وابستگی کے اظہار میں کسی معذرت کے بغیر پوری استقامت کے ساتھ قائم تھے۔

 ایک بنیادی سوال اس عہد نامہ کے حوالے سے یہ ہے کہ کیا اس عہد نامہ کے کرنے والے بہ شمول ایک ماہر قانون اور بے باک اور نڈر قائد یہ عہد ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے اُٹھا رہے تھے ؟ کیا قائد اعظم نے اپنے دستخط کرتے وقت اس عہد نامہ کو پڑھ کر اور سمجھ کر دستخط کیے تھے یا محض مروتاً دستخط ثبت کر دیے؟ ایک ماہر قانون جس نے زندگی میں کوئی جھوٹا مقدمہ ہاتھ میں لینا پسند نہیں کیا۔کیا وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اس عہدنامے پر دستخط کر سکتا ہے ؟قائد کے کردار ، عزم ، جرأت اور دوٹوک بات کرنے کی روایت کی روشنی میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دانش وَروں اور لبرل ازم کے سہارے زندہ رہنے والے افراد نے قائد کی حیات اور فکر پر بھاری ظلم کیا ہے اور پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے کی ایک ناپاک کوشش کی ہے۔

ایک غیرمسلم محقق کی شہادت

 دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو بات ایک غیر مسلم محقق نے سمجھ لی اور جس کا اظہاروہ اپنی ایک مشہور کتاب میں کرتا ہے ، اس پر ہمارے بہت سے دانش وَر آج بھی جانتے بوجھتے شکوک میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کیوں وجود میں آیا؟ کنا ڈا کے تقابل ادیان کے ماہر کینٹول اسمتھ جنھوں نے ایک عرصہ علی گڑھ میں گزارا پھر تحریک پاکستان کے دوران لاہور کے فورمین کرسیچین (FC) کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے اور جو اردوسے بہت اچھی واقفیت رکھتے تھے جس کا راقم چشم دید گواہ ہے، وہ تصور پاکستان کو یوں چند الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

In the Pakistan case…the whole raison detre of the state was Islam:it was Islam that first brought it into being, and that continued to give it meaning. The purpose of setting up the state was to enable Muslims here to take up once again the task of implementing their faith also in the political  realm".

…Pakistan came into being as already an Islamic state not because its form was ideal but because, in so far as, its dynamic was idealist To set up an Islamic State then was the beginning not the end of an adventure.To achieve an Islamic state was to attain not a form but a process (Wilfred Cantwell Smith, Islam in Modern History, New York,  Mentor Books 1957,  P 217-219).

پاکستان کے معاملے میں …ریاست کا حقیقی مقصد اسلام تھا: یہ اسلام ہی تھا جو سب سے پہلے اسے معرضِ وجود میں لایا اورجس نے اس کے مفہوم کا تعین کیا۔ ریاست کا مقصد مسلمانوں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ ایک بار پھراپنے ایمان پرعمل پیرا ہوسکیں اور میدانِ سیاست میں بھی…

پاکستان ابتدا ہی سے ایک اسلامی ریاست کےطور پر معرضِ وجود میں آیا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا وجود مثالی تھا بلکہ اس کا محرک اصولِ پسندی تھا۔ ایک اسلامی ریاست کا قیام ایک مہم کا انجام نہیں بلکہ آغاز تھا۔ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل محض ایک وجود کا حصول نہیں بلکہ ایک عمل کا آغاز تھا۔

یہ وہ چند ناقابل تردید حقائق ہیں جن کے تذکرہ سے وہ تاریخِ تصورِ پاکستان جو ہمارے ملک کے نام نہاد لبرل و سیکولر طبقہ کے تعلیم یافتہ مؤرخین نے ’ معرو ضیت‘ کے نام پر تحریر کی اور جو ہماری نسلوں کو قیام پاکستان سے آج تک پڑھایا گیا، تاکہ ان کے ذہنوں میں وہی ’مذہب‘ و ’سیاست‘ کی تفریق جاگزیں ہو جس نظریہ کی پیداوار یہ دانش وَر خود تھے۔معروضیت کا تقاضا ہے کہ ان حقائق کو ہر مسلم و غیر مسلم پاکستانی کے علم میں لایا جائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس عظیم انعام اور تحفہ ، پاکستان کی امانت کا حق ادا کر سکے اور اپنے تشخص اور پہچان کو صوبائیت ، علاقائیت ، فرقہ واریت اور مسلکیت سے الگ کر کے پاکستان کا مقصد کیا لاالٰہ الا اللہ کو اپنی زندگی اور ملک کے نظام میں عملاً نافذ کر سکے۔(مکمل)

کچھ عرصہ قبل لاہور - سیالکوٹ موٹر وے پر ہونے والے شرمناک واقعے کے ردعمل کے طور پر وزارتِ قانون نے ۲۶ نومبر۲۰۲۰ء کو ایک حکم نامے کا مسودہ جاری کیا ہے، جو گیارہ نکات پر مشتمل ہے۔ ان نکات میں مروجہ قانون میں وہ اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، جن پر عمل درآمد سے وزارتِ قانون و عدل کے ماہرین کے خیال میں اس انسانیت سوز جرم میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔  اَشک شوئی کے لیے ہی سہی، خلوصِ نیت اور ذمہ داری کے ساتھ جو اقدامات بھی کیے جائیں، ان سے وارداتوں میں کمی کا امکان ہو سکتا ہے۔

ہماری نگاہ میں مسئلہ محض کسی مروجہ قانون میں جزوی تبدیلی کا نہیں ہے بلکہ اس نظامِ قانون کے بنیادی تصورات کی تبدیلی اور ہمارے تصور معاشرہ ، معروف و منکر ، حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور بنیادی اخلاقی اقدارکا ہے۔ اس لیے جب تک مسئلے کے قانونی پہلو کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی اور معاشرتی اقدار شامل کرکے ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی وضع نہیں کی جائے گی، صرف چند قانونی دفعات میں ردّوبدل سے حالات میں تبدیلی کی خواہش محض ایک خوش فہمی ہوگی۔

اصل مسئلہ

سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے جائزے یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں تیزی کے ساتھ جرائم کے ارتکاب میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف ایک صوبے کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ہولناک صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ صرف نوماہ کے عرصے (جنوری ۲۰۲۰ء تا ستمبر ۲۰۲۰ء) میں پنجاب میں پولیس کے ریکارڈ کے مطابق قتل کے ۳ہزار ۶سو۳۱، اقدام قتل کے ۵ہزار ۲سو ۶۳، مجروح کرنے کے۷۴ہزار ۹ سو ۱۴، اغوا اور اغوا برائے تاوان کے ۲لاکھ ۷۷ہزار ۱۲، زنا بالجبر کے ۳ہزار ۲سو ۶۴، اور ڈاکے اور چوری کے۷۲ہزار ۸۶ مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ان میں مقدموں کی وہ بڑی تعداد شامل نہیں ہے جو پولیس تھانوں میں درج نہیں کروائی گئی اور خصوصاً زنا بالجبر کا جرم ان معاملات میں سے ہے، جس کی اطلاع عموماً بہ امر مجبوری ہی پولیس کو دی جاتی ہے۔ورنہ معاشرتی دباؤ اور پولیس پر عدم اعتماد کی بنا پر بہت سے واقعات پولیس کے علم میں آتے ہی نہیں اور نہ ابلاغ عامہ تک ان کی اطلاع پہنچتی ہے۔

جنسی استحصال کے حوالے سے اس سے قبل ۱۹۷۹ء میں حدود آرڈیننس اور ۲۰۰۶ء میں تحفظ ِخواتین بل اور اس کے ۱۰ سال بعد ۲۰۱۶ء میں جرم زنا بالجبر قانون میں ترمیم اور اب مزید تقریباً دس سال بعد حالیہ مجوزہ آرڈی ننس، جزوی تبدیلی کی ایک شکل ہے۔  چنانچہ صورت حال پر اس کا اثر بھی لمحاتی اور جزوی ہی ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلے کے بنیادی (اخلاقی اوردینی) پہلوؤں کو سمجھے بغیر اس آرڈی ننس کی حیثیت ایسی ہی ہوگی، جیسے ایک طبیب کسی مریض کو بخار میں مبتلا دیکھ کر اسپرین یا پینا ڈول تجویز کر دے ، جب کہ بخار کا اصل سبب برقرار رہے۔

اخلاقی اور دینی پہلو

اسلامی نظام حیات دراصل ایک ایسے اخلاقی ضابطے کا نام ہے، جو انسان کی تمام سرگرمیوں کو الہامی اخلاقی اصولوں کا پابند بنا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں مختصر ترین الفاظ میں اس حقیقت کو یہ کہہ کر واضح کر دیا گیا کہ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم۶۸:۴) ’’آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین معیار پر فائز ہیں‘‘۔چنانچہ آپؐ نے زندگی کے تمام شعبوں کے لیے الہامی اخلاقی اصول متعین کردیے۔

یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ وہ اخلاق اور قانون کو دو الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ اخلاق کے دائرے کو قانون تک وسعت دیتا ہے۔ سود چونکہ ایک غیر اخلاقی کام ہے، اس لیے حرام ہے۔ زنا بالجبر ہو یا محض زنا، ایک غیر اخلاقی کام ہے، اس لیے قابلِ سزا ہے۔ چوری ایک غیر اخلاقی کام ہے۔ اس لیے چور سزا کا مستحق ہے۔ چونکہ ان تمام معاملات میں اخلاقی خلاف ورزی سے پورا معاشرہ خطرات کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے یہ معاشرتی جرائم بھی ہیں اور اسلامی ریاست  ان معاملات میں خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی۔ اس کے فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ وہ تمام فواحش کو معاشرے سے ختم کرکے معروف، بِرّ ، حیا اور وفا کو معاشرے پر غالب کر دے۔ گویا اسلام میں اخلاق کا وجود نظری نہیں ہے بلکہ اطلاقی اور قانونی ہے۔

اخلاق سے مراد ایک مخصوص طرزِ عمل ہے۔ اس طرزِ عمل میں صنفی معاملات کو اوّلیت دینے کے ساتھ ان کی صحت اور مطالبات کے پیش نظر انھیں دنیاوی لذات سے وابستہ نہیں کیا بلکہ روح اور دین سے وابستہ کر دیا گیا ہے، تاکہ فرد دیگر مذاہب کی طرح کسی احساس گناہ کی جگہ حلال ، طیب اور احسن طریقے سے اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرکے بھی دائرۂ عبودیت میں شامل ہو جائے۔

آج مغرب ’جنسی تعلیم‘ کو اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں متعارف کرانے کے بعد شرم وحیا اور حلال و حرام کی تمیز کو مٹانا چاہتا ہے۔ اسلام نے اس کے برعکس طہارت، بلوغت، رضاعت اور جنسی تعلق پر تعلیم و تربیت کے نظام کے ذریعے قرآن و حدیث اور سیرتِ پاکؐ کی مثالوں سے وہ تمام پہلو ذہن نشین کرائے ہیں جن کے بعد کوئی صاحب ِایمان زنا یا اس سےملتے ہوئے دیگر غیراخلاقی رویوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ قرآن و سنت کا اندازتعلیمی ہے، جب کہ مغرب سے درآمد کردہ جنسی تعلیم کا مقصد ان کے اپنے الفاظ میں صرف’ محفوظ جنسی زندگی‘ (safe sex) ہے جس میں کہیں آس پاس بھی یہ احساس نہیں پایا جاتا کہ یہ حیوانات کی طرح ایک ضرورت نہیں بلکہ قرآن کریم نے حلال و حرام کے اسلامی اصولوں کی روشنی میں اسے اخلاقی قیود کا پابند کیا ہے اور حصولِ لذت کو بھی رضائے الٰہی کے تابع کر دیا ہے۔

لا دینی مغربی ذہن، اخلاق اور قانون کو دو الگ دائروں میں تقسیم کرتا ہے۔ قانون کو اجتماعی مگر اخلاق کو ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے۔اس ذہن کے ساتھ زیربحث معاملے پر جب کسی مسلم ملک میں قانون سازی کی جاتی ہے یا موجود قوانین میں ترمیم کی جاتی ہے تو بنیادی مفروضہ یعنی ’محفوظ جنسی زندگی‘ کے اخلاقی جواز اور شرعی حیثیت کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ صرف اس پہلو پر غور کیا جا تا ہے کہ کتنی عمر تک اگر یہ فعل کیا جائے تو اسے قانون کی نگاہ میں جرم کہا جائے گا اور کتنی عمر کے بعد اگر رضامندی سے یہ فعلِ بد کیا جائے، تو پھر یہ نام نہاد انفرادی انسانی حقوق اور Humanismکی بنا پر قانون کی دسترس میں نہیں آئے گا۔ یاد رہے ’ہیومنز ازم‘ مغرب کے معاشرے کو عیسائیت سے نجات دلانے کا علَم بردار ہے، اور ہر فرد کو یہ حق دینے کا نام ہے کہ کیا چیز اچھی اور اخلاقی ہےاور کیا چیز بُری اور غیر اخلاقی ہے۔ اسی تصور کو آج ہماری وزارتِ تعلیم ’اخلاقی اصلاح‘ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم بھی اسلام کو نظرانداز کرکے ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر اپنا رویہ طے کریں۔

حالیہ ترامیم کے حوالے سے یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر مروجہ قوانین جنھیں ۱۸۶۰ء میں انگریز نے وضع کیا تھا، وہ آج تک اس گھناؤنے فعل میں کمی نہ کر سکے تو کیا اب ان قوانین میں چند تبدیلیاں یا ترامیم کرنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ایسی پیوندکاری ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔

نفسیاتی پہلو

ماہرین نفسیات اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کے بچپن کو ان ناخوش گوار واقعات کا  ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ ماہرینِ سماجیات کے مطابق عموماً مجرم بعض اوقات خود کسی نہ کسی ذلت آمیز رویے کا شکار رہ چکا ہوتا ہے۔ قبلِ بلوغ یا بعد از بلوغ اس کے ساتھ کوئی اس سے ملتا جلتا واقعہ گزرا ہوتا ہے، جس میں خود اس پر زیادتی کی گئی اور پھر موقع ملنے پر بطور ایک انتقامی رویّے کے اسے ارتکابِ جرم پر اُبھارتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی تجزیاتی طور پر کہی جاتی ہے کہ بعض اوقات انسانی نفس بعض ہیجانات کا تابع ہو جاتا ہے جن کا تعلق دوسرے کو تکلیف دے کر لذت حاصل کرنے سے ہوتا ہے۔ان اندورونی محرکات کے ساتھ بعض اوقات ہیجان انگیز لباس ، خوشبو یا ایسی جسمانی حرکت جو دیکھنے والے کے جذبات کو بھڑکا کر اسے جارحانہ رویوں پر ابھار دیتی ہے۔

بلاشبہہ ان اُمور کا تعلق بھی جرم کے ارتکاب سے ہوسکتا ہے، مگر انسانی نفسیات کے ان تمام امکانات کے پیش نظر اسلام کے نظام حیا اور قانون میں ان اندرونی اور بیرونی محرکات کے اثرات سے بچنے کے لیے قرآن نے غضِ بصر کی تاکید کی ہے۔ مزیدبرآں ساتر لباس کے استعمال اور لوچ نہ پیدا کرنے کے علاوہ، خون کے رشتوں میں بھی مخالف جنس کے جسم سے مس نہ کرنے اور تنہائی میں مخالف جنسوں کے جمع نہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر اللہ کے خوف سے گناہ سے بچنے کے تصور کے ذریعے برائی کے امکانات کو کم سے کم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔چنانچہ جن مسلم معاشروں میں اسلامی اخلاقی اقدار پر عمل کیا جاتا رہا ہے، وہاں بےراہ روی کا تناسب حددرجہ کم دیکھنے میں آتا ہے۔

اس تناظر میں مجوزہ حکم نامے میں اس بُرے فعل کے عادی یا غیر عادی مجرم کو برضا یا آپریشن سے ایک ایسی صلاحیت سے محروم کرنا ہے جسے خالق کائنات نے تمام انسانوں کے خمیر میں رکھا ہے اور جسے اپنی حدود میں رکھنے اور اس کے صحت مند ، جائزاور حلال استعمال کو پسند فرمایا ہے۔کسی انسان کو اس صلاحیت سے محروم کر دینا نفسیاتی زاویے سے اس کے اندر جذبۂ انتقام کو مزید بھڑکانے کا سبب بن سکتا ہے اور شاید قانونی پیچیدگیوں کی بنا پر مزید مشکلات کا سبب بھی بن جائے۔ حکومت کے قانونی مشیر اور ان دوسرے ماہرین نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہے۔ ہم دوبارہ عرض کریں گے کہ چوری اور دیگر غیر انسانی افعال کا سدباب محض ایک نیا قانون بنادینے اور نظامِ قانون اور پولیس اور تفتیش کے نظام کو جوں کا توں رکھنے سے نہیں ہوسکتا۔

 انسانی جسم میں اصل خفیہ کیمرہ (hidden camera  )اس کا اپنا ایمان ہے ، اور احساس آخرت ہے، اور نفس انسانی یا انسانی جان کا احترام ہے جو قرآن وحدیث نے واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ ایک فرد کا قتلِ ناحق تمام انسانیت کا قتل ہے۔ اور یہ کہ ایک فرد کی عزت کو مجروح کرنا پورے معاشرے کی عزت کو مجروح کرنے کے مترداف ہے۔  یہ چیز کسی درآمد شدہ ہیومنزازم سے حل نہیں کی جاسکتی اور نہ اقوام متحدہ کے عنایت کردہ اقوامِ عالم کے لیے ’ہزارسالہ ترقیاتی اہداف‘ (M.D.G's) کی فرماں بردارانہ پیروی ہی اس کا حل ہے۔

 اس مرحلے میں ہمیں خود اپنے آپ سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے گھر میں یا ابتدائی اسکول میں اپنے بچوں اور بچیوں کو شرم وحیا ، پاکیزگیِ نگاہ و زبان ، رشتوں کے احترام، اللہ کی محبت اور اس کے تقاضوں،آخرت میں جواب دہی کے احساس کے بارے میں کچھ بتایا ہے؟ اور کیا انھیں یقین دلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اور دو فرشتے ہمہ وقت ہمارے ہرعمل کو تحریری شکل میںقلم بند کر رہے ہیں اور یوم حساب ہمارا اعمال نامہ ہمارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ ایک بچے یا بچی کو گھر کی ابتدائی تعلیم میں اسلام کے ابدی عالمی اخلاقی اصولوں کو ذہن نشین کرا دیا جائے تو ان شاء اللہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر کوئی غلط فکر یا غلط عمل اختیار کرنے کی طرف مائل نہیں ہوگا۔

شرعی پہلو

مسلمان کی زندگی ہو یا موت ، گھریلو معاملات ہوں یا معاشرتی اور معاشی سرگرمیاں، ہرچیز کی بنیاد شریعت پر ہے۔ شریعت نے بعض افعال کو سخت ناپسند کرتے ہوئے ’فحش ‘سے تعبیر کیا ہے اور غیر اخلاقی (ناجائز)جنسی تعلق کو چاہے وہ محض نگاہ کی آوارگی ہو ، یا زبان و بیان کے ذریعے دعوتِ گناہ ، یعنی ہرطرح کی بُرائی کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک نظام شرم وحیا دیا ہے، اور  بچوں کو ہوش سنبھالنے کے ساتھ اس کی تعلیم دینا والدین پر فرض کر دیا ہے۔ابھی بچہ محض دس سال کا ہے اور اس کا بستر الگ کر دینا ضروری ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جنسی فاصلے کا اہتمام کیا جائے۔ بلوغ کے بعد مزید واضح احکامات ملتے ہیں۔ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر ایک شخص ہوائے نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے تو پھر غیرشادی شدہ ہونے کی شکل میں (زنا کی سزا کے طور پر) اُسے سوکوڑے کھلے عام لگائے جائیں تاکہ معاشرے میں فحش کام کرنے کی کسی میں ہمت نہ ہواور اگر یہ فعل کسی شادی شدہ فرد نے کیا تو اسے پورے معاشرے کے لیے عبرت بنانے کے لیے سنگسار کرنا نہ صرف شریعتِ محمدیؐ بلکہ شریعت موسویؑ اور شریعت عیسویؑ دو نوں میں فرض کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے جب تک مسلم معاشرے میں شرعی قوانین کا نفاذ رہا یہ برائی سر نہیں اٹھا سکی۔ آج بھی اگر اس بدفعلی کو ختم کرنا ہے تو اسلام کے ابدی اور عالم گیر قوانین کا نفاذ ہی اس کا حل ہے:

اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ وَلْيَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲ (النور۲۴:۲) بدکاری کرنے والی عورت اور مرد(جب ثابت ہو جائے) دونوں میں سے ہر ایک کو سودُرّے مارو۔اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو شریعت الہیٰ کے حکم میں تمھیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو ۔

فقہا اور مفسرین نے خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والوں پر وہی حکم لگایا ہے جو حرابہ  [فساد برپا کرنے] والوں پر نافذ ہوتا ہے۔ شریعت کے ہر حکم کی بنیاد وحی کی فراہم کردہ علت وحکمت پر ہے اور اگر شریعت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تو یہ برائی کو اس کی جڑ سے ختم کرنے کا بہترین حل پیش کرتی ہے۔

اس کے برعکس ہمارے ابلاغ عامہ کے ادارے، مساوات مرد و زن کے مغربی تصور کے اظہار کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ہرموقعے پر ، جب تک اسکرین پر ایک نوجوان اور جدید ترین مغربی فیشن سے  لیس ایک خاتون کو اُچھل کود اور حرکات کرتے ہوئے پیش نہ کریں تو ناظرین کو ان کی ’روشن خیالی‘ پر یقین نہیں آئے گا۔نیم عریا ں شکل میں ہندو ثقافت یا مغربی تہذیب کی پیروی کرتے ہوئے اشتہارات کا مسلسل نظر آنا بصری استحصال کے ساتھ احساسِ شرم و حیا کی حس کو غیرمحسوس طور پر بے حس بنانے کا ذریعہ ہے، تاکہ ناظرین غیر شعوری طور پر اس ہندوانہ اورمغربی ثقافت کی طرف راغب ہو جائیں۔

مجوزہ آرڈی ننس کا مختصر جائزہ

آئین پاکستان کسی پارلیمنٹ یا وزارت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ کوئی بھی قانون اسلامی شریعت کی بنیادی تعلیمات کے منافی بنایا جا سکے۔ایسی قانون سازی آئین کی خلاف ورزی اور ریاست مدینہ کی ضد ہے۔اس لیے ایسی تجاویز کو کسی بھی صورت میں ملکی قانون کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا:

    ۱-      مجوزہ آرڈی ننس’ خصوصی عدالتوں‘ کے قیام کا مشورہ دیتا ہے۔ اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو حدود آرڈی ننس کا نفاذ بھی اسی غرض سے کیا گیا تھا، تو کیا اس کے جاری ہونے سے جرائم کے روک تھام میں کمی واقع ہوئی؟

    ۲-  ’زنا بالجبر سے حفاظت کے شعبے‘ (Anti Rape Crises Cells) کے قیام کی تجویز ہے ، جس کا سربراہ ایک کمشنر یا ڈپٹی کمشنر ہو گا۔سوال یہ ہے کہ کیابیوروکریسی ہی کے اختیارات میں اضافہ اس مسئلے کا حل ہے؟اور کیا یہ افسران اس خصوصی معاملے میں کسی خاص مہارت کی بنا پر مقرر کیے جائیں گے؟

    ۳-  ایف آئی آر کے جلد اندراج اور کیمیاوی اور فرانزک تجزیے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ تو آج بھی موجود ہے، لیکن کیا یہ مؤثر ہے؟ہمارے موجودہ انتظامی اور سماجی نظام میں کیا ایک مجروح فرد کسی بااثر فرد کے خلاف ایف آئی آر کٹوا سکتا ہے؟

    ۴-  متاثرہ فرد سے عدالت کے کمرے میں جرح کا حق صرف وکیل کو دیا جا رہا ہے، کیا اس طریقے سے متاثرہ فرد کو اپنی بات کہنے میں سہولت ہو جائے گی ؟

    ۵-  کیا متاثرہ فرد کو سرکار کی جانب سے قانونی امداد ایک قابلِ عمل تجویز ہے ؟

    ۶-  کیا مقامی پولیس افسران پر مشتمل جے آئی ٹی کے قیام سے غیر جانب دار تحقیق و تفتیش ممکن ہوسکے گی؟

    ۷-  کیا صرف جنسی جرائم کرنے والوں کی تفصیلات یک جا کر کے اس برائی کو دُور کیا جا سکتا ہے؟

    ۸-  کیازنا کی ایک نئی تعریف جو دور غلامی میں انگریز کی وضع کردہ تعریف سےبہت مختلف نہیں ہے ، اس کی بنیاد پر جرم کی کثرت و شدت میں کمی یا قانون کی گرفت میں اضافہ ہوسکے گا؟

    ۹-      جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ ایک عادی مجرم کو جنسی صلاحیت سے کیمیاوی یا جراحی طریقے سے محروم کرنے کا عمل کیازنا کے (ماقبل) مختلف مراحل کو بھی روکنے کا باعث بن جائے گا؟عقل اور تجربہ اس بات کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں،یا ایک مجروح سانپ کی طرح ایسا مجرم مزید انتقامی جذبات میں مبتلا ہو جائے گا۔

اسلام نے تو ’توبۃ النصوح‘ کا مفہوم یہ سمجھایا ہے کہ فرد اپنے اندر سے یہ عہد کرے کہ  وہ خلوصِ دل کے ساتھ دوبارہ اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرے گا۔کیا مروجہ فرسودہ نظام میں کوئی جزوی تبدیلی مجرم میں اس احساس کو بیدار کر سکتی ہے ؟

معاشرتی پہلو

جنسی اخلاقیات کا نظر انداز کیا جانا معاشرے کی صحت و استحکام کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ اگر رشتوں کی حرمت و احترام کی اہمیت کو کم یا ختم کر دیا جائے تو ایک بچہ اور بچی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔

پاکستان میں بیرونی امدادسے چلنے والی این جی اوز، جو اسی موضوع پر کام کرنے کی دعوے دار ہیں۔ ان کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مجرمانہ حملہ کرنے والے سب اجنبی نہیں تھے، ان میں رشتہ دار، پولیس والے، پڑوسی اور اجنبی کے علاوہ ڈرائیور، اور ڈاکٹر اور اساتذہ تک شامل ہیں۔ اس زمینی حقیقت کے پیش نظر ایک نام نہاد نظامِ عدل جو ۱۸۶۰ء کے برطانوی قانون میں  زنا کی تعریف ( ’’زنا دراصل ایک شادی شدہ خاتون کے اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف کسی دوسرے فرد سے تعلق کا نام ہے‘‘ )کے بل پر چل رہا تھا، اور جو تعریف حدود آرڈی ننس کے آنے تک ہمارے قانون میں برقرار تھی، وہ معاشرے کو کچھ نہ دے سکی۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ اسی قانون کے دفاع میں ایک معروف این جی او کی لیڈر نے یہ بات لکھی تھی کہ ’’۱۸۶۰ءکا قانون خواتین کے لیے رحمت تھا‘‘۔ایسے اسلام کے منافی قانون میں آپ جتنے پیوند اور ایسے دیمک شدہ درخت میں جتنے قلم صحت مند شاخوں کے لگالیں نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی ہوگا۔

دینی نقطۂ نظر

 اسلام دینِ کامل کے طور پر فرد اور معاشرے کے مسائل کو ایک فطری اور اخلاقی زاویے سے حل کرنا چاہتا ہے اور محض نظری طور پر نہیں بلکہ عملاً ٹھوس تاریخی حقائق کے ساتھ ان مسائل کا کامیاب حل ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ جو فساد اور غیر اخلاقی رویہ آج مغرب و مشرق کی پہچان بن گیا ہے، یہی مشکل کل اسلام سے قبل دنیا کی تھی۔ وہ عرب ہو یا عجم یا روم اور افریقہ کے افراد، سب اخلاقی زوال کا شکار تھے۔

اسلام کی عالمی اخلاقی اقدار نے محض ۲۳ سال کی مدت میں وہ فرد اور معاشرہ پیدا کر دیا، جو آج بھی للہیت، اعلیٰ اخلاق کریمانہ اور عفو درگذر، اُلفت و اخوت کے ساتھ قانون کے احترام کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ جو مقدمات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنسی معاملات میں پیش کیے گئے وہ کسی پولیس یا خفیہ ادارے کا کارنامہ نہیں تھے، بلکہ ایک فرد کا اپنا ضمیر اسے اس بات پر مجبور کرتا تھا کہ اس سے جس غلطی کا ارتکاب ہو گیا، اسے اس سے پاک و صاف کر دیا جائے۔ یہ اندر کا مفتی اسے بے چین رکھتا تھا۔ اسے کسی جابر و قاہر قاضی یا فوجی حکمران کا خوف اقرار پر نہیں اُبھارتا تھا۔

مسئلے کا حل محض بوسیدہ قانون میں پیوند کاری نہیں ہے۔ جس مقصد اور نصب العین کے لیے پاکستان وجود میں آیا، وہ قائد اعظم کے اپنے الفاظ میں اسلامی نظریۂ حیات کو اس خطے میں نافذ اور رائج کرنا تھا، اور یہ کام محض صدارتی حکم نامے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تعلیم، ابلاغ عامہ، قانون سازی،گھر کے اندر کے ماحول، نام نہاد ثقافتی سرگرمیوں، غرض تمام معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور قانونی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ ایک انفرادی اور اجتماعی شخصیت کی تعمیرنو ہوگی۔ ایک نیا انسان وجود میں آئے گا، جس کی زندگی ،جس کا مرنا ،جس کی عبادت و قربانی، جس کی فکر اور عمل، جس کی معیشت، سیاست، غرض اس کی تمام سرگرمیاں اس اخلاق فاضلہ کی پابند ہوں گی جسے قرآن کریم نے تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ اورایک قابل عمل مثالی کردار و سیرت قرار دے کر ہم پر اپنے خصوصی فضل کا اظہار فرمایا ہے۔ قرآن اور سنت کا دیا ہوا اخلاق وہ قوت فراہم کرتا ہے جو شیطان کی ہر چال اور اس کے ہر جال کو تار تار کر سکتی ہے۔ یہ خاموش انقلاب کسی تشدد کے بغیر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔

ضرورت یہ ہے کہ زندگی سے دورنگی، دو عملی اور تضادات کو نکال کر، صرف اور صرف اللہ کو اپنا رب اور حاکم بنالیا جائے۔ یہ شعوری قدم قوم کی قسمت جگانے اور اسے اخلاقی زوال، فحاشی کے سیلاب اور بداعمالیوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے کافی ہے۔ آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا، اپنی تعلیم گاہ سے، اپنے کاروبار کے ادارے سے___ غرض جہاں کہیں بھی کوئی باشعور مسلمان ہے، وہ کسی بیرونی امداد کے بغیر اس مقدس کام کا آغاز کر سکتا ہے۔ یہ اجتماعی جدوجہد اس بڑے اور وسیع شیطانی سیلاب کےسامنے بند باندھ کر معاشرے کے رُخ کوتباہی کے بجائے بھلائی کی طرف موڑسکتی ہے۔ اس ابتدائی اور بنیادی کام کے بغیر محض قیادت یا چہروں کی تبدیلی سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ ہمیں توحید، معروف، عدل، صداقت اور حیا کا نظام قائم کرنا ہو گا۔اسلامی نظام ایمان، عزم اور خونِ جگر کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ صبر و استقامت کے ساتھ طویل جدوجہد کا متقاضی ہے۔

قائداعظم کا موقف ہمیشہ یہی رہا کہ پاکستانی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے ، علاقائیت ، نسلیت، لسانیت نہیں ہے اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی حیثیت سے ایک عالمی کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے برخلاف جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا نہ صرف دیو بند اور اس کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی بلکہ پوری انگریز سامراجیت اور انگریز کی تربیت یافتہ بیورو کریسی جو پاکستان کی قسمت میں آئی ، بہ شمول عسکری ادارہ جو انگریز ہی کا تربیت یافتہ اور انگریز ی ثقافت کا علم بردار تھا ۔ ان اداروں کے لیے اسلام کا دین ہونا اور محض پوجا پاٹ کا مذہب نہ ہونا ایک نئی بات تھی۔ انھیں روزِ اوّل سے سمجھایا گیا تھا کہ مذہبی آزادی کا مطلب جمعہ کے دن یا عیدین میں نیا لباس پہن کر نماز پڑھ لینا ہے ۔ بقیہ دنوں میں انگریز کی وفاداری اور اندھی پیروی ہی نجات دے سکتی ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس سے ہم آج تک گزر رہے ہیں ۔

قومیت کا غلط تصور

علمائے دیوبند میں سے ایک مؤثر جماعت اور احرار جو نظریہ پاکستان اور دو قومی تصور کے مخالف تھے، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے نامور مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہتے ہیں :

As the congress ulema grew more unpopular, their writings became more and more vituperative …The main target of their abuse was the Qua’id -i-Azam, some of the maulvies drew special pleasure in distorting his name “Jinnah an Arabic word, into jina and when this failed to irritate him or his followers , they assigned him all kind of insulting sobriquets like kafir-i-A‘zam (this was invented by Ahrar leader Mazhar Ali Mazhar"). He further adds: The Ahrar ulma specially maulana ‘Ataullah Shah Bukhari and Habib-ur-Rehman Ludhianvi were strangers to a balanced  language. They seldom mentioned the Qua’id -i- Azam by his correct name. (Ishtiaq Husain Qurashi, Ulama in Politics, Karachi, Ma'aref Ltd,1974, p.354)

جیسے جیسے کانگریسی علما غیر معروف ہوتے گئے، ان کی تحریریں اور زیادہ دشنام طرازی پر مبنی ہوتی چلی گئیں… ان کی گالیوں کا مرکزی ہدف قائداعظم تھے۔ کچھ مولوی صاحبان کو ان کے نام جناح جو کہ عربی لفظ ہے کو Jina کہہ کر تضحیک کانشانہ بنا کر زیادہ خوشی ہوتی تھی۔ جب وہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو مشتعل کرنے میں ناکام رہے تو انھوں نے انھیں ہرطرح کے بُرے القاب جیسے ’کافراعظم‘ (یہ نام احرار کے لیڈر مظہرعلی ظہرنے رکھا تھا) سے پکارا۔ وہ مزید کہتے ہیں: احرار کے علما بالخصوص عطاء اللہ شاہ بخاری اور حبیب الرحمٰن لدھیانوی ایک متوازن زبان سے ناآشنا تھے۔ وہ کبھی کبھار ہی قائداعظم کو درست نام سے پکارتے تھے۔

 تصورِ پاکستان کی حمایت اور دو قومی نظریہ کے دفاع میں اوردیو بندی علما کا مدلل جواب اگر کوئی دیا گیا تو وہ صرف مولانا مودودی کا تحریر کردہ رسالہ مسئلہ قومیت  تھا۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

in fact Maulana Mawdudi’s rejoinder [to Mutahhidah qawmiyat aur Islam by Maulana Hussain  Madani]  was so logical, authoritative, polite and devastating that it was beyond the capacity of any supporter of a united nationhood to counter. Maulana Mawdudi pointed out that Maulana Hussain Ahmad had been carried away by his hatred of the British and had twisted history and facts. Are nations really created by political boundaries? If they are, why are ethnical, cultural and religious conflicts endemic in many states including the European countries? Maulana Husain Ahmad had indulged in willful distortion of the Arabic dictionary and even the meaning of verses of the Qur’an. He had no business to use a well-known word like  "nation" in any sense except the one internationally assigned to it. The Muslims and Jews of Madina did not form a single nation even after the Prophet had brought about an alliance between them for a short while after his migration from Mecca to that city. (Ibid, p 351)

درحقیقت مولانا مودودی کا جواب [متحدہ قومیت اور اسلام ، از مولانا حسین مدنی] اس قدر مدلل ، مستند، شائستہ اور زبردست تھا کہ متحدہ قومیت کے کسی حامی کی بساط سے باہر تھا کہ وہ اس کا ردکرسکے۔مولانا مودودی نےنشان دہی کہ مولانا حسین احمد انگریز سے نفرت کی وجہ سے حقیقت سے دُور ہوگئے اور انھوں نےتاریخ اورحقائق کو مسخ کردیا ہے۔ کیا قومیں واقعی سیاسی سرحدوں کی بنیاد پر بنتی ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر نسلی،ثقافتی، مذہبی تصادم مختلف ریاستوں بشمول یورپی ممالک میں کیوں پھوٹتے ہیں؟ مولاناحسین احمد عربی الفاظ حتیٰ کہ آیاتِ قرآنی کا مفہوم جانتے بوجھتے مسخ کرنے میں ملوث ہیں۔ انھیں ایک معروف لفظ ’قوم‘ کو کسی بھی مفہوم میں استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے  سوائے اس کے جوعالمی سطح پر مستعمل ہے۔جب رسولؐ اللہ نے مکہ سے اس شہر ہجرت کے بعد باہمی اتحاد تشکیل دیا تھا تو اس وقت بھی مدینہ کے مسلمانوں اوریہودیوں نے ایک محدود مدت کے لیے بھی ایک قوم کو اختیار نہ کیا۔

ڈاکٹر قریشی مزید کہتے ہیں :

"Maulana Mawdudi’s superior scholarship, his telling arguments, his cold logic and his knowledge of modern concepts in political science and law made it impossible for the Jami‘at group to answer his contentions.In fact Mufti Kifayatullah who was a faqih (jurist) and , therefore more cognizant of the demands of logic and academic debate, advised his colleagues against any attempt to continue the discussion, because he opined the Maulana Mawdudi was in the right and there was no point in attempting to defend the indefensible.(Ibid, p352)

مولانا مودودی کی علمی برتری، ان کے منہ بولتے دلائل، ان کی غیرجذباتی منطق اور جدیدسیاسیات اورقانون پران کے فہم نے جمعیت کے گروپ کے لیے ناممکن بنادیا کہ وہ ان کے دعویٰ کا جواب دے سکیں۔ درحقیقت مفتی کفایت اللہ نے جو کہ ایک فقیہہ تھے اوراس علمی و منطقی بحث کے تقاضوںسے بخوبی آشنا تھے ، اپنے ساتھیوں کو اس بحث کو مزید جاری رکھنے کی کسی بھی کوشش سے منع کیا کیونکہ ان کی نظر میں مولانامودودی کا موقف درست تھا اور اس ناقابلِ دفاع موقف کا دفاع کرنا کسی طرح ممکن نہ تھا۔

پاکستانی قومیت کی اساس

پھر پاکستانی قومیت کی صیحیح بنیاد کیا ہے ؟اس کا واضح اظہارقائد اعظم نے انتہائی مختصر الفاظ میں یوں فرمایا :

"What is that keeps the Muslims united, and what is bedrock and sheet anchor of the community? asked Mr. Jinnah, "Islam" he said and added "It is the great Book, Qur’an, that is the sheet- anchor of Muslim India. I am sure that as we go on and on there will be more and more of oneness ___ one God, one Book, one Qibla, one Prophet and one Nation". (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 3.,Dawn , Dec27, 1943).

وہ کون سی چیز ہے جس نے فردِ واحد کی طرح مسلمانوں کو متحد کردیا ہے اور قوم کا ملجا و ماویٰ کیا ہے؟ انھوں نے خود ہی جواب دیا: ’اسلام‘ اور مزید کہا: ’’یہ عظیم کتاب قرآنِ کریم ہے جو مسلمانانِ ہند کی پناہ گاہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے زیادہ سے زیادہ یکتائی آتی جائے گی___ ایک اللہ،ایک کتاب، ایک قبلہ، ایک رسولؐ اور ایک قوم‘‘۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلدسوم، ص ۲۵۱)

قائد کے نقطۂ نظر اور حد نظر تک ہدف کے واضح ہونے کی دلیل اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ دسمبر۱۹۴۳ء کو انھوں نے نپے تلے الفاظ میں دو قومی نظریہ اور خود مسلم قومیت کی سنگ بنیاد کو ایک تعریف کی شکل میں بیان کر دیا کہ اس کا لنگر جو اسے تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس کی سنگ بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ قرآن کریم ہے۔ پھر اس کی مزید وضاحت کر دی کہ کس طرح یہ کتاب مسلمانوں کو ایک قوم بناتی ہے، یعنی ایک اللہ ، ایک کتاب ، ایک قبلہ ، ایک رسول اور ایک ملت(یا قوم)۔

اسلام کس طرح پاکستانیت اور پاکستانی قومیت کی واحد بنیاد ہے ؟ اس بات کو سادہ الفاظ میں ڈاکٹر جا وید اقبال نظریۂ پاکستان کے تناظر میں یوں بیان کرتے ہیں:

"Pakistan claims itself to be an ideological state because it is founded on Islam …it is obvious that the people of Pakistan descend from different racial stock, different language, but live in geographically contiguous territories. The foundation of the state therefore could not possibly be laid on such principles as common race, common language and common territory… The real factor which sustains the state of Pakistan is the existence of a consciousness among the people of belonging to each other because a large majority of them adheres to a common spiritual aspiration i.e.faith in Islam… Consequently, the basis of nationhood in Pakistan is Islam. Islam acted as a nation –building force long before the establishment of Pakistan… Hence the historical fact which cannot be denied is that the formation of the Muslim nation preceded the demand for a homeland. Pakistan by itself did not give birth to any nation on the country, the Muslim nation struggled for and brought Pakistan into  being. therefore, Pakistan is not technically the cause of any kind of nationhood. It is only an effect, a result or a fruit of the strength of the Muslim nation for territorial specification.(Javid Iqbal, Ideology Of Pakistan, Lahore, Sang-e-Meel Publications,2005,p13)

پاکستانی ایک نظریاتی ریاست کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ یہ اسلام کے نام پر بنا ہے… یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کے لوگ مختلف نسلوں، مختلف زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جغرافیائی طور پرملحق خطوں سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا ریاست کی بنیاد مشترکہ نسل، مشترکہ زبان اورمشترکہ خطے جیسے اصولوں پر نہیں رکھی جاسکتی… وہ حقیقی عنصر جو ریاست پاکستان کو قائم رکھتا ہے وہ لوگوں کے درمیان شعور کی بیداری ہے، اس لیے کہ ان کی اکثریت ایک مشترکہ روحانی اُمنگ رکھتی ہے، یعنی اسلام پرایمان… نتیجتاً پاکستان میں قومیت کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام نے قیامِ پاکستان سے کافی عرصہ پہلے ایک قومی تعمیرپر مبنی قوت کا کردارادا کیا ہے… لہٰذا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم قوم کی تشکیل کے نتیجے میں ہی ملک کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان نے بذاتِ خود ملک میں کسی قوم کو پیدا نہیں کیا، بلکہ مسلم قوم نے جدوجہد کی اور پاکستانی کو معرضِ وجود میں لائی۔ لہٰذا تکنیکی طور پر پاکستان کسی قومیت کی تعمیر کی اساس نہیں ہے۔ یہ صرف مسلم قومیت کی علاقائی خصوصیت اورقوت کا نتیجہ اور ثمرہے۔

قائداعظم کا فکری تسلسل

قائد اعظم کا تصورِ پاکستان ان کے فکری تسلسل اور اعتماد کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ وہ ایک بات کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر قبول کرنے کے قائل تھےاور لمحہ بہ لمحہ موقف تبدیل کرنے کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ چنانچہ یکم فروری ۱۹۴۳ء کو قیام پاکستان سے بہت پہلے ہوسٹل پارلیمنٹ اسماعیل یوسف کالج میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"In Pakistan we shall have a state which will be run according to the principles of Islam.It will have its cultural, political and economic structure based on the principles of Islam....

The non-Muslims need not fear because of this, for fullest justice will be done to them, they will have their full cultural, religious, political and economic rights safeguarded.As a matter of fact they will be more safeguarded then in the present day so-called democratic parliamentary form of Government (Address at the Hostel Parliament of Ismail Yusuf College, Jogeshwari, Bombay, February 1, 1943.  M. A. Harris ed. Quaid-e-Azam, 1976, Karachi, Times Press, p 174)

پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا… غیرمسلموں  کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے،ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی ، سیاسی اورمعاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔

قائد کے اتنے دوٹوک ، غیر مبہم اور پر اعتماد بیان سے جو کسی ’طبقہ علما‘ کے دباؤ پر نہیں دیا گیا قائد کے تصورِ پاکستان کی تصویر بالکل واضح ہو جاتی ہے لیکن پاکستان کے وہ دانش وَر جو بظاہر تاریخ کے شعبے میں دکتورہ(ڈاکٹریٹ)بھی رکھتے ہیں اور اصول تحقیق سے بھی آگاہ ہیں ، نہ معلوم کن وجوہات کی بنا پر ان تاریخی بیانات کو مکمل طورپرنظر انداز کر جاتے ہیں اور ان کی سوئی صرف ایک تقریر پر آکر رکتی ہے ۔جس میں قائد نے وہ بات نہیں کہی جو ان دانش وَروں کے ذہن میں پائی جاتی ہے ۔

علامہ اقبال، قائداعظم اور علامہ اسد اسلام کے دین ہونے اور مغرب یا مشرق کے  تصورِ ’مذہب‘ کے اسلام سے عدم تعلق پر یکسو اور متفق نظر آتے ہیں ۔قرآن کریم نے تقریباً  ۸۵مقامات پر اسلام کے لیے دین کی اصطلاح استعمال کی ہے،جب کہ مذہب جو ایک عربی اصطلاح ہے ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں کی گئی۔ وجہ ظاہر ہے،کیوں کہ مذہب کا مفہوم وہ نہیں جو دین کا ہے۔ مذہب عموما ً عبادات اور رسومات تک محدودسمجھا جاتا ہے اور اسی بنا پر مغرب زدہ اور لبرل طبقہ اسلام کو مذہب کہہ کر پکارتا ہے ۔ یورپ اپنے تاریخی تناظر میں مذہب جس سے مراد اصلاً عیسائیت تھی ، سائنس، جدیدیت، عقلیت ، نشاتِ ثانیہ کی فکر وغیرہ سے ٹکراؤ کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچا کہ مذہب ایک غیر عقلی ، اندھے عقیدہ کا نام ہے۔ چنانچہ یورپ میں سترھویں صدی سے لے کر آج تک ’مذہب‘کا رسمی مفہوم علمی مباحث میں یہی پایا جا تا ہے ۔ اسلام اس کے برعکس عقل اور عقلی استدال کے استعمال ، تجربہ اور تحقیق کو دین کا حصہ قرار دیتا ہے ۔اس لیے اس کے لیے مذہب کی اصطلاح استعمال کرنا کسی طرح بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ اسلام کسی ذاتی طریق عبادت کا نام نہیں بلکہ مکمل نظام حیات کا نام ہے ۔

پاکستان اور دیگر ممالک میں جو لوگ اپنے آپ کو لبرل کہلانا پسند کرتے ہیں ،وہ ہمیشہ یہی بات کہتے ہیں کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ یہی موقف کانگریس اور انگریز کا تھا کہ چونکہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے، اس لیے قومیت کی بنیاد نہیں بن سکتا، جب کہ ہم نے اوپر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے جواقتباسات پیش کیے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم یقین رکھتے تھے کہ اسلام بہ حیثیت دین سیاست ، معیشت ، معاشرت، ہر معاملے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔اور پاکستانی قومیت کی اگر کوئی بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف دین اسلام ہی ہے ۔اسی بات کو  ۲۲مارچ ۱۹۴۰ء کو اپنے صدارتی خطاب میں قائد اعظم نے وضاحت سے بیان کیا :

"It is extremely difficult to appreciate why our Hindu friends fail to understand the real nature of Islam and Hinduism. They are not religions in the strict sense of the word, but are, in fact, different and distinct social orders, and it is a dream that the Hindus and Muslims can ever evolve a common nationality, and this misconception of one Indian nation has gone far beyond the limits and is the cause of most of your troubles and will lead India to destruction if we fail to revive our nation in time. The Hindus and Muslims belong to two different religious philosophies, social customs and literatures.

They neither inter-marry nor inter-dine together and indeed they belong to two different civilizations which are based mainly on conflicting ideas and conceptions. Their aspects on life and of life are different. It is quite clear that Hindus and Musalmans derive their inspiration from different sources of history. They have different epics, different heroes and different episodes. Very often the hero of one is a foe on the other end, like wise their victories and defeats overlap. To yoke together two such nations under a single state, one as numerical minority and the other as a majority, must lead to growing discontent and final destruction of any fabric that may be so built up for the government of such a state". (K.A.K Yusufi,1996,  Vol-2, p 1881)

یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندودوست اسلام اور ہندومت کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں۔ فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی صورت میں منسلک ہوسکیں گے۔ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کرگیا ہے اورآپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے۔ اوراگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کردے گا۔ ہندوؤںاور مسلمانوں کا دومختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوارہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اورمسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے۔ ہیرو الگ ہیں اورداستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہوجاتی ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اوردوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگی اور آخرکار وہ تانا بانا ہی تباہ ہوجائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لیے بنایا جائے گا۔ (قائداعظم:تقاریرو بیانات، دوم، ص۳۷۱)

اسلام ، مکمل نظامِ حیات

عموماً لبرل طبقہ یہ بات کہتا ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کے نظریہ اور نظام حکومت کے سلسلے میں اسلامی نظریۂ حیات یا Islamic Ideologyکی اصطلاح استعمال نہیں کی اوراس اصطلاح کو ایک معروف دینی جماعت کے ایک دانش وَر نے قائد اعظم سے منسوب کر دیا ۔حقیقت یہ ہے کہ ۱۸ جون ۱۹۴۵ء کو سرحد مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی کانفرنس کے نام اپنے تحریری پیغام میں قائد فرماتے ہیں :

I have often made it clear that if Musalmans wish to live as honorable and respectable People there is only one course open to them: fight for Pakistan, live for Pakistan, if necessary, die for the achievement of Pakistan or else Muslims and Islam are doomed.There is only one course open to us to organize our nation, and it is by our own dint of arduous and sustained and determined efforts that we create strength and support our people not only to achieve our freedom and independence but to be able to maintain it and live according to Islamic ideals and principles. Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim ideology, which has been preserved, what has come to us as a precious gift and treasure, and which, we hope, others will share with us. (K.A.K Yusufi,1996,  Vol-3, p 2010)

میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مسلمان باوقار اور لائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہناچاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے، پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہو تو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں، نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں، اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے۔ جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔( قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم،ص۴۳۸)

اس تحریری پیغام سے دوسال قبل۲۶ دسمبر۱۹۴۳ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم اسی بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ اسلام ہے:

What is that keeps the Muslims united, and what is bedrock and sheet anchor of the community, asked Mr. Jinnah  "Islam" he said and added "It is the Great Book, the Qur’an that is the sheet anchor of Muslims India. I am sure that as we go on and on there will be more and more of oneness ___one God, one Book, one Qibla, one Prophet and one Nation".(K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam, e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 3, p 1821)

وہ کون سی چیز ہے جس نے فردِ واحد کی طرح مسلمانوں کو متحد کردیا ہے اورقوم کا ملجا و ماویٰ کیا ہے؟ انھوں نے خود ہی جواب دیا : ’اسلام‘ اور مزید کہا: ’’یہ عظیم کتاب قرآنِ کریم ہے جو مسلمانانِ ہند کی پناہ گاہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے زیادہ سے زیادہ یکتائی آتی جائے گی___ ایک اللہ، ایک کتاب، ایک رسولؐ اورایک قوم‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم، ص۲۵۱)

اس خطاب میں قائد اعظم نے واضح الفاظ میں اتحاد اور تنظیم کے لیے اسلام ہی کو قومیت کی بنیاد قرار دیا اورقومیت کے دیگر تصورات، یعنی نسل ،وطن اور زبان کی واضح تردید کر دی۔ قائداعظم کو اس بارے میں ذرہ برابر بھی شبہہ نہیں تھا کہ اسلام ذاتی مذہب نہیں ہے بلکہ مکمل نظام حیات ہے اور سیاست ، معیشت ، معاشرت ہر انسانی سرگرمی کا انحصار اسلام کی تعلیمات پر ہے ۔ ان کا دین کاتصور علامہ اقبال اور علامہ اسد سے مسلسل رابطہ اور تبادلۂ خیالات کے نتیجے میں بالکل واضح شکل اختیار کر چکا تھا۔ ۸ستمبر ۱۹۴۵ء کو عید کے پیغام میں فرماتے ہیں:

Everyone except those who are ignorant knows that the Qur’an is the general code of the Muslims.A religious, social, civil,  commercial, military, Judicial, criminal and penal code. It regulates everything from ceremonies of religion to those of daily life. It is a complete code regulating the whole Muslim society in every development of life, collectively and individually. (Eid message to the Muslims of India, September 8, 1945 in K.A.K. Yusufi, 1996, Vol-3, p 2053).

جہلا کے سوا ہرشخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی، معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی، عدالتی، فوجداری ضابطہ ہے۔ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔روح کی نجات سے لے کر جرائم تک اس دنیا میں سزا سے لے کرعقبیٰ میں سزا تک۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم، ص ۴۷۴)

قائد اعظم اسلام کو ایک تہذیبی قوت سمجھتے تھے اور ان کے خیال میں پاکستان کا قیام اس روایت علم ، تحقیق و ایجادات کا احیا تھا جسے ناموران اسلام نے پہلی صدی سے عالمی سطح پر قائم کیا تھا۔

وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے خواہاں تھے ۔ مسلمانان ہند کو ۳۰ ستمبر۱۹۴۳ء کو عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں فرماتے ہیں:

We are a nation of 100 million of people inhabiting this great sub-continent and we have a great history and great past behind us. Let us prove worthy of it and bring about true renaissance of Islam and revive its glory and splendor. (K.A.K. Yusufi, 1996, Vol-3, p 1766)

ہم ۱۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ایک قوم ہیں جو اس برصغیر میں آباد ہے اور ہم ایک عظیم تاریخ اورماضی کے وارث ہیں۔ آیئے ہم خود کو اس کے اہل ثابت کریں اور اسلام کی حقیقی نشاتِ ثانیہ کا آغاز اور اس کی عظمت اورشان وشوکت کو زندہ کریں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، سوم، ص۲۱۰-۲۱۱)

اسلام کا احیااور اس غرض سےپاکستان کا قیام قائد کے پسندیدہ موضوعات نظر آتے ہیں۔ اسی بات کو ایک دوسرے پیرائے میں ۱۸مارچ ۱۹۴۴ءکو پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور سے اپنے خطاب میں فرماتے ہیں :

 But on this auspicious day I would urge upon you in the name of our national cause and our cherished goal of Pakistan to stand united and unswerving in your determination and that you should hesitate to make every specific and prepared for all sacrifice for collective good and our national cause.

The league had give them a definite goal and taken them out of darkness and confusion and give them a clear cut and crystalized goal of Pakistan which was now an article of faith with the Muslim, millions of whom were prepared to fight with lives for its achievements.it was no more a slogan, it was something which the Muslims had to understand and in it lay their defence, deliverance and destiny which would once more bring to the world that there was a Muslim state which would revive the past glories of Islam. We want to rule our homeland and we shall rule.(K.A.K Yusufi, 1996,  Vol-3, p 1856-1857)

لیگ نے ان کے لیے قطعی منزل کی نشان دہی کر دی ہے اور انھیں واضح اور صاف شفاف نصب العین ’پاکستان‘ دے دیا ہے۔ جو اَب مسلمانوں کے عقیدے کا جزو بن گیا ہے جس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمان سردھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اب یہ محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی شے ہے جسے مسلمانوں نے سمجھ لیا ہے، اور اسی میں ان کا دفاع، نجات اور تقدیر مضمر ہے جس کی صدائے بازگشت ساری دنیا میں سنائی دے گی کہ ایک مسلم مملکت ہے جو اسلام کی عظمت رفتہ کو واپس لائےگی۔ انھوں نے کہا: ’’ہم اپنے وطن پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کرکے رہیں گے۔ (قائداعظم:  تقاریر و بیانات ، سوم، ص ۲۸۰)

قائداعظم نے اپنے خطابات اور بیانات میں جن امور پر بار بار زور دیا ان کاواضح اور براہِ راست تعلق قوم کی فکری قیادت اور اسلام کی عظمت کے احیا سے بھر پور نظر آتا ہے۔چنانچہ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ءکو اس تقریر کے پورے ایک ماہ بعد جس کی تسبیح لبرل حضرات صبح شام پڑھتے ہیں، فوج اور سول انتظامیہ کے افسران سے کراچی کے خالق دینا ہال میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 The establishment of Pakistan for which we have been striving for the last ten years is, by the grace of God, an established fact today, but the creation of a State of our own was means to an end and not the end in itself. The idea was that we should have a State in which we could live and breathe as free men and in which we could develop according to our own lights and culture and where principles of Islamic social justice could find free play. (Address to civil, naval, and military officers, Khaliq Dena Hall, Karachi, Oct 11, 1947, in Speeches and Messages of the Quai’d-e-Azam,1947-48, Islamabad, Govt of Pakistan, 1989, p 74 ; also K.A.K Yusufi, VOL IV, P 2623-24).

قیامِ پاکستان ، جس کے لیے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل وکرم سے آج ایک مسلّمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں گے اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں گے۔ جسے ہم اپنی صواب دید اور ثقافت کے مطابق ترقی دےسکیں اورجہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، چہارم، ص۳۷۴-۳۷۵)

قائد نے بارہا یہ بات دُہرائی کہ ہمارے لیے مغربی جمہوریت نہ مثال بن سکتی ہے اور نہ اس میں سیاسی اور دیگر امور کو عقل اورعدل کے ساتھ چلانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو بلوچستان سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

In proposing this scheme, I have had one undelaying principle in mind, the principle of Muslim democracy. It is my belief that our salvation lies in following the golden rules of conduct set for us by our great law-giver, the Prophet of Islam.Let us lay the foundation of our democracy on the basis of truly Islamic ideals and principles. Our Almighty has taught us that “our decisions in the affairs of the State shall be guided by discussion and consultation.(al-Shura 42:38). (K.A.K Yusufi op.cit,1996, Vol-4, p 2682)

اس اسکیم کو پیش کرتے ہوئے میرے پیش نظرایک ہی اصول تھا، یعنی اسلامی جمہوریت کا اصول۔ میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات انھی سنہری قوانین کی پابندی میں ہے جو ہمارے شارع اعظم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے متعین کیے۔ آیئے ہم اپنی جمہوریت کی اساس صحیح اسلامی تصورات اور اصولوں پراستوار کریں۔ ہمارے خدائے عزوجل نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ’’کاروبار مملکت کے سلسلے میں ہمارے فیصلے، مباحثے اورمشاورت کے اصول کے تحت ہوں گے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، چہارم، ص۴۱۲)

قائد اعظم کی فکر کا تسلسل و تواتر ان کے ہر بیان اور تقریر میں واضح نظرآتا ہے ۔سبی دربار میں اپنے خطاب کے تقریباً ایک ہفتے بعد ۲۱فروری ۱۹۴۸ءکو ملیر کراچی میں اک-اک رجمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مزیدوضاحت کرتے ہیں :

You have fought many a battle on the far flung fields of the globe to get rid the world of the fascist menace and make it safe for democracy.Now you have to stand guard over the development and maintenance of Islamic democracy, Islamic social justice and the equality of mankind in your own native soil. You will have to be alert, very alert, for the time for relaxation is not yet there. With faith, discipline and selfless devotion to duty, there is nothing worthwhile that you cannot achieve.

آپ نےدنیا کو فسطائیت کی مصیبت سے نجات دلانے اور اسے جمہوریت کے لیے محفوظ کرنے کے لیے خطۂ ارض کے دُور دراز گوشوں میں بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں، اب آپ کو اپنے وطن میں اسلامی جمہوری، معاشرتی عدل اور انسانی مساوات کے فروغ اور بقا کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔ آپ کو چوکنا رہنا ہوگا، بہت ہی چوکنا کہ ابھی آرام کا وقت نہیں آیا۔ یقین، نظم و ضبط اوربے لوث فرض کی لگن سے شاید ہی کوئی ایسی قابلِ قدر شے ہو جو آپ نہ حاصل کرسکیں۔  (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،چہارم، ص۴۱۹)

اپنے خطاب میں وہ بار بار یہ بات واضح کررہے ہیں کہ اسلام ایک ذاتی مذہب نہیں ہے بلکہ سیاست ، معیشت ، معاشرت کی بنیاد اور جزو لاینفک ہے۔ اسے جدا نہیں کیا جا سکتا کہ ذاتی زندگی میں محدود کر دیا جائے ۔اس کی معاشرتی ، معاشی، سیاسی تعلیمات آج بھی ترو تازہ ہیں اور معاشرے کے لیے واحد حل کی شکل رکھتی ہیں اور یہی پاکستان کا مقصد ِوجود ہے۔

دستوری طور پر جب ۱۹۵۶ء کا دستور بنا تو ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان طے پایا لیکن اس سے بہت پہلے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکا کے عوام کو ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے بطور خود ملک کا نام بنیادی طور پر ’اسلامی ریاست‘ قرار دے دیا تھا۔

This Dominion which represents the fulfillment, in a certain measure, of the cherished goal of 100 million Muslim of this sub-continent, came into existence on August 14, 1947.  Pakistan is the premier Islamic State and the fifth largest in the world. (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 4, p 2692)

یہ مملکت جو کسی حد تک ا س برصغیر کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دُنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔  (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،چہارم،ص ۴۲۰)

اپنے اسی خطاب میں آگے چل کر قائد اعظم پاکستان کے زیر ترتیب دستور کے بارے میں یہ وضاحت کرتے ہیں :

constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of  Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1,300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fair play to everybody. (K.A.K Yusufi,ibid,p2694)

مجلس دستورسازپاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امرکا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگاجس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ (ایضاً، ص۴۲۱)

نوجوانوں کا مطلوبہ کردار

قائداعظم کی تقاریر، بیانات اور انٹرویوزکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی نوجوانوں سے غیر معمولی طور پر پُر امید تھے۔ مسلم اسٹوڈنس فیڈریشن ہو یا کسی کالج کی پارلیمنٹ یا طلبہ کی ریلی ، ہر موقعے پر وہ ایک ہی بات دُہراتے ہیں کہ نوجوان نسل اللہ تعالیٰ کے اس عظیم عطیہ کو جو ہمیں پاکستان کی شکل میں ۲۷رمضان المبارک ۱۹۴۷ء کو دیا گیا اور جس کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا ، اس امانت کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب اس میں اسلامی معاشرت ،اسلامی قانون، اسلامی معیشت اور اسلامی ثقافت و تعلیم کو رائج کیا جائے۔یہی وہ فریضہ ہے جو نوجوانوں کو ادا کرنا ہے ۔ ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی اس مشہور زمانہ تقریر کے بعد جس کے علاوہ کوئی تقریر ہمارے لبرل دانش وَروں کو یاد نہیں آتی ۔قائد نے پنجاب یونی ورسٹی کے طلبا کی ریلی ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اور ملک سے اسلام کے تعلق اور نوجوانوں میں روحِ جہاد کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ آج بعد از اسلامو فوبیا دور میں اچھے خاصے باشعور مسلمان قائدین بھی کہنے سے پہلے اپنے الفا ظ کو بہت ناپ تول کر استعمال کرتے ہیں، لیکن قائد اعظم اپنی روایتی جرأت، اعتماد ، یقین محکم اور ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف نوجوانوں کو علامہ اقبال کی طرح روحِ جہاد پیدا کرنے پر ابھارتے ہیں بلکہ پاکستان کو ’اسلام کا قلعہ‘قرار دیتے ہیں :

Do not be overwhelmed by the enormity of the task.There is many an example in history of young nations building themselves up by sheer determination and force of character. You are made of sterling material and are second to none. Why should you also not succeed like many other, like your own forefathers. You have only to develop the spirit of the “Mujahids". You are a nation whose history is replete with people of wonderful gifts, character and heroism. Live up to your traditions and add to it another chapter of glory.

All I require of you now is that every one of us to whom this message reaches must vow to himself and be prepared to sacrifice his all, if necessary, in building up Pakistan as a bulwark of Islam and as one of the greatest nations whose ideal is peace within and peace without… Along with this, keep up your morale. Do not be afraid of death. Our religion teaches us to be always prepared for death. We should face it bravely to save the honor of Pakistan and Islam. There is no better salvation for a Muslim than the death of a martyr for a righteous cause. (K.A.K Yusufi Speech, Statements and Messages of the Qua’id-i-Azam e.d. Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol 4, p 2643)

کام کی زیادتی سے گھبرایئے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایک مثالیں ہیں جنھوں نے محض عزم اورکردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرآبدار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم نہیں۔ اوروں کی طرح، اورخود اپنے آباؤاجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ قابلِ صلاحیت کے حامل کردار اور بلندحوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایات پرقائم رہیے اور اس عظمت کے ایک اورباب کا اضافہ کردیجیے۔

اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچادیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اوراسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا۔ جن کا نصب العین اندرونِ ملک بھی امن اور بیرونِ ملک بھی امن ہوتا ہے… اس کے ساتھ اپنا حوصلہ بلند رکھیے۔ موت سے نہ ڈریئے ۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ موت کا استقبال کرنے کے لیے تیاررہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کا وقار بچانے کے لیے اس کا مردانہ وارسامنا کرنا چاہیے۔ صحیح مقصد کے حصول کی خاطر ایک مسلمان کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے سے بہتر کوئی راہِ نجات نہیں۔  (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،چہارم، ص ۳۸۹-۳۹۰)

قائد اعظم کے ان تحریری پیغامات ، بیانات اور تقاریر سے یہ بات حتمی طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی فکر اور موقف جو ۱۹۴۳ء میں تھا ، وہی ۱۹۴۷ء اور۱۹۴۸ء تک رہا ۔اس میں کہیں نہ مفاہمت ہے نہ معذرت بلکہ پورے اعتماد سے مسلم آئیڈیالوجی ، اسلامی ریاست ، شریعت کی بالادستی ، اللہ کی حاکمیت اور مغربی سیکولر جمہوریت سے بے زاری صاف طور پر نظر آتی ہےاور ان کے تصورِ پاکستان کے بیانیہ کو غیر مبہم اور دوٹوک بنا دیتی ہے ۔ ۱۵ جون ۱۹۴۵ءکوفرنیٹئیر مسلم فیڈریشن پشاور کے نام اپنے تحریری پیغام میں جو بات قائد نے کہی تھی وہ اس پر قائم و دائم رہے اور بغیر کسی معذرت کے اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو بیان کرتے رہے ۔ہم ایک مرتبہ پھر اس بیان کو دُہراتے ہیں:

I have often made it clear that if Musalmans wish to live as honorable and respectable People there is only one course open to them: fight for Pakistan, live for Pakistan, if necessary, die for the achievement of Pakistan or else Muslims and Islam are doomed.  There is only one course open to us to organize our nation, and it is by our own dint of arduous and sustained and determined efforts that we create strength and support our people not only to achieve our freedom and independence but to be able to maintain it and live according to Islamic ideals and principles.

Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim ideology, which has to be preserved what has come to us as a precious gift and treasure and which, we hope, others will share with us. (K.A.K Yusufi op.cit ,1996ٍ Vol-3, p 2010)

میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگرمسلمان باوقار اورلائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے: پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہوتو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہوجائیں گے۔

ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت،مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں،نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطاق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

پاکستان کا مطلب نہ صر ف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھناہے۔ جو ایک بیش قیمت تحفے اورسرمائے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔  (قائداعظم: تقاریر و بیانات ،سوم، ص ۴۳۸)۔ (جاری)

قائد اعظم کے دست راست نواب زادہ لیاقت علی خان کو بھی ان حقائق کا اندازہ تھا ۔ چنانچہ ۱۶ فروری ۱۹۴۷ءکو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کےجلسۂ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے ، پارلیمنٹ کے کردار اور نام نہاد پارلیمنٹ کی بالا دستی کا رد کرتے ہوئے پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ کس کی ہو گی___عوام یا پارلیمنٹ کی یا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی؟ اس پر واضح اور دوٹوک بات کہتے ہیں:

There is one very important question that will be asked. We say we want to live in our own way and in order to be able to do so we want to have a free and independent state. What is that way of life and what are the principles on which our state will be based?? Such a question for a Muslim has only one answer. The Ideal which Muslim has before him is and can be non-other than the ideal that was set before the world by Muhammad P.B.U.H of Arabia over 13 hundred years ago.The message that Muhammad P.B.U.H brought is still with us, preserved for the whole of humanity in greatest of all books the Qur’an. Every Muslim should live and die for God. God is the only King the only Sovereign.

According to Islam no one can wield authority in his own right as all authority is derived from God and can be exercised only on His behalf. Islam aims at building of a society in which all possibilities of exploitation of man by man will disappear, in with all distinction of birth, colour and geographic origin will be wiped away. (M. Rafiq Afzal, Speeches, Statements of Quaid-e-Millat Liaqat Ali Khan, 1941-1951, Lahore, Research Society of Pakistan, University of the Punjab, 1987, p58-59).

ایک بہت اہم سوال ہے جو پوچھا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق رہنا چاہتے ہیں اوراس پر عمل درآمد کے لیے ہمیں ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی ضرورت ہے۔ وہ طرزِ زندگی کیا ہے اوروہ کیا اصول ہیں جن پر ہماری ریاست انحصار کرے گی؟ ایک مسلمان کے لیے اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ ایک مسلمان کے سامنے وہ تصور ہے اور اس کے علاوہ کوئی تصور نہیں ہوسکتا جو دنیا کے سامنے تیرہ سو سال قبل عرب کے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا۔ وہ پیغام جو حضرت محمدصلی اللہ    علیہ وسلم لے کر آئے تھے، ہمارے پاس آج بھی موجود ہے اور پوری انسانیت کے لیے دُنیا کی عظیم ترین کتاب قرآنِ مجید کی شکل میں محفوظ ہے۔ ہرمسلمان کو اللہ کے لیے جینا اور مرنا چاہیے۔ اللہ ہی واحد شہنشاہ اور واحد بااختیار ہستی ہے۔

اسلام کے مطابق کوئی بھی شخص اپنے استحقاق کی بناپر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے اور صرف اسی کی مرضی کے مطابق ان پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کی غرض و غایت ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ہے جس میں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے تمام امکانات کا خاتمہ کردیا جائے گا اور پیدایش، رنگ اور علاقائی تمام امتیازات کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔

لادینی مغربی جمہوریت موزوں نہیں

وہ پاکستانی دانش وَر جو اپنے آپ کو ’آزاد خیال‘ کہنا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔کاش! کھلے ذہن کے ساتھ کبھی قائد اعظم اور ان کے رفقاء کارکے ارشادات کو پڑھ لیتے کہ کیا وہ اس مغربی جمہوریت کے پرستار تھے جس کی تبلیغ یہ دانش وَر کرتے ہیں یا ان کا تصور ان سے مختلف تھا؟ علمی دیانت (academic honesty)کا تقاضا ہے کہ جب کسی فرد سے کوئی بات منسوب کی جائے تو اس میں اپنی رائے کو شامل نہ کیا جائے۔ اس کے باوجود ایک صاحب ِقلم کو یہ آزادی رہتی ہے کہ وہ اس بیان سے اختلاف کرے اور اپنی رائے کو پیش کرے لیکن اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی رائے کو کسی دوسرے کے بیان میں پڑھ لے یا ایک بے بنیاد تصور اس سے منسوب کر دے۔ دُکھ کی بات ہے کہ قائد کے ساتھ یہی ظلم دانش وَری کے عنوان سے ایک طویل عرصے سے کیا جا رہا ہے اورقائد کی اپنی آواز کو دبا کر ہمارے ’دانش وَر‘ یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ قائد مغربی سیکولر ڈیموکریسی کے قائل تھے۔۶ مارچ ۱۹۴۰ء کو قائد اعظم علی گڑھ میں اپنے خطاب میں فرماتے ہیں :

Two years ago at Simla I said that the democratic parliamentary system of government was unsuited to India. I was condemned everywhere in the Congress press. I was told that I was guilty of disservice to Islam because Islam believes in democracy. So far as I have understood Islam, it does not advocate a democracy which would allow the majority of non-Muslims to decide the fate of the Muslims. We cannot accept a system of government in which the non-Muslims merely by numerical majority would rule and dominate us. The question was put to me, if I did not want democracy what then did I want___ Fascism, Nazism or totalitarianism?? I say, what have these votaries, these champions of democracy done?? They have kept sixty millions of people as untouchables:; they have set up a system which is nothing but a 'Grand Fascist Council'. Their dictator (Gandhi) is not even a four anna member of Congress. They set up dummy ministries which were not responsible to the legislatures or the electorate but to a caucus of Mr. Gandhi’s choosing. Then, generally speaking, democracy has different patterns even in different countries of the West. Therefore, naturally I have reached the conclusion that in India where conditions are entirely different from those of the Western countries,the British party system of government and the so - called democracy are absolutely unsuitable. (Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, ed. Khurshid Ahmed Khan Yusufi, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol.II, p1159)

دو برس قبل میں نے شملہ میں یہ کہا تھا کہ جمہوری پارلیمانی طرزِ حکومت ہند کے لیے ناموزوں ہے۔ اس پر کانگرسی اخبارات نے ہرجگہ میرے لتے لینے شروع کر دیئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ میں اسلام کی بدخدمتی کا مجرم ہوں۔ کیونکہ اسلام جمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔جہاں تک مَیں نے اسلام کو سمجھا ہے،یہ ایسی جمہوریت کی قطعاً وکالت نہیں کرتا جس میں غیرمسلم اکثریت کو مسلمانوں کے مقدّر کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ ہم ایسے نظامِ حکومت کو قبول نہیں کرسکتے جس میں غیرمسلم محض کثرتِ تعداد کی بناپر ہم پر حکومت کریں اور ہم پر غالب آنے کی کوشش کریں۔ مجھ سے یہ سوال کیا گیا: اگرمیں جمہوریت نہیں چاہتا تو پھر میں کیاچاہتا ہوں؟___ فاشزم، نازی ازم یا آمریت! مَیں پوچھتا ہوں کہ جمہوریت کے اِن سورماؤں اورفدایوں نے کیا کیا ہے؟ انھوں نے ساٹھ ملین (چھے کروڑ) انسانوں کو اچھوت بنا رکھا ہے۔ انھوں نے جمہوریت کے لبادے میں جو نظام قائم کیا، وہ ایک ’گرانڈ فاشسٹ کونسل‘ کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا ڈکٹیٹر کانگرس کا چارآنے کا رُکن بھی نہیں۔ انھوں نے ڈمی وزارتیں بنارکھی ہیں جو نہ تو قانون ساز ادارے اور نہ ہی انتخاب کنندگان کے سامنے جواب دہ ہیں، بلکہ مشیرمطلق مسٹر گاندھی کے زیرفرمان ہیں۔ پھر میں یہ کہتا ہوں کہ مغرب کے مختلف ملکوں میں بھی جمہوریت کے مختلف سانچے ہیں۔ چنانچہ قدرتی طور پر مَیں  اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہند میں، جہاں کے حالات مغربی ملکوں سے قطعی طور پرمختلف ہیں، برطانیہ کا پارٹی سسٹم نظامِ حکومت اور نام نہاد جمہوریت قطعی طور پر ناموزوں ہے (پاکستان تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر غلام حسین ذوالفقار، بزمِ اقبال، لاہور،۱۹۹۷ء، ص ۵۸-۵۹)۔

قائد اعظم کے ان واضح الفاظ کی تعبیر اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ مغربی سیکولر جمہوریت کے نظام کو سمجھنے اور اس کا ذاتی تجربہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ اندھی جمہوریت جو عقل و شعور کی جگہ صرف افراد کی گنتی اور شمار کی بنا پر کسی چیز کو جائز و ناجائز قرار دیتی ہے ، اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ جس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ اسلام میں اکثریت کی رائے کی اہمیت نہیں۔ اسلام تو وہ واحد دین ہے جو اولین انسان حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک فرد کے اختیار و آزادی کا علَم بردار اور مشاورت(شوریٰ)کے بغیر کوئی بھی معاملہ طے کرنا نہیں چاہتا ۔ اس کی روح ہی مشاورت میں ہے، آمریت میں نہیں۔ تاہم، یہ مشاورت انسان کو ، کسی پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ عقل و شعور کے خلاف محض اکثریت رائے کی بنا پر یہ فیصلہ کر دے۔

قائد اعظم کو اس بات کا پورا شعور تھا کہ اگر غیر منقسم ملک میں مسلمان اس وقت ۱۰ فی صد ہیں اور ۵۰ سال میں ۲۵ فی صد بھی ہو جائیں جب بھی وہ یکساں طور پر بڑھتی ہوئی ہندو آبادی کے تناسب میں ابدی طور پر محکوم قوم بن کر رہیں گے ۔ہندستان میں آج مسلمانوں کی حالت زار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد کا تجزیہ کتنا صحیح تھا ۔ آج جو کچھ اہل کشمیر کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور ان کے دستوری اور جمہوری حقوق کو نام نہاد ’سیکولرزم‘ کی بنیاد پر پامال کیا جار ہا ہے ۔اس کا ایک نابینا بھی منکر نہیں ہو سکتا ۔ قائد اعظم کا اس نتیجے تک پہنچنا ان کی سیاسی فراست کا ایک ثبوت ہے کہ ایک نظریاتی ملت اور قوم ہونے کی بنا پر مسلمان ایک سیکولر جمہوریت میں اپنا تشخص اور بقا برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ اس لیے ایک نظریاتی مملکت کا وجود ہی ان کے تحفظ کی ضمانت دے سکتا تھا۔

آزاد مسلم ریاست وقت کا تقاضا  __ مکتوب اقبال

یہ بات محض قائد اعظم نہیں بلکہ ان کے فکری راہنما علامہ اقبال پر بھی واضح تھی ۔ قائداعظم کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں :

 The Muslim has begun to feel that he has been going down and down during the last 200 years. Ordinarily he believes that his poverty is due to Hindu money- lending or capitalism. The perception that it is equally due to foreign rule has not yet fully come to him. But it is bound to come. The atheistic Socialism of Jawahrlal is not likely to receive much response from the Muslims. The Question therefore is :how is it possible to solve the problem of the Muslim poverty?? And the whole future of the League depends on the League’s activity to solve this question. If the League can give no such promises I am sure the Muslim masses will remain indifferent to it as before.

Happily there is a solution in the enforcement of the Law of Islam and its further development in the light of modern ideas. After a long and careful study of Islamic Law I have come to the conclusion that if this system of Law is properly understood and applied, at least the right to subsistence is secured to everybody.

But the enforcement and development of the Shariat of Islam is impossible in this country without a free state or states. This has been my honest conviction for many years and I still believe this to be only way to solve the problem of bread for Muslims as well as to secure a peaceful India. If such a thing is impossible in India the only other alternative is a civil war which as a matter of fact has been going on for some time in the shape of Hindu-Muslim riots. (Dr. G. H. Zulfiqar, ed, Pakistan, as Visualized by Iqbal Jinnah, Lahore, Bazm-i-Iqbal, n.d. p32)

مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دو صد سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہوکاری یا سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے، ابھی پوری طرح نہیں اُبھرا، لیکن آخر کو ایسا ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کرسکے گی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگراس امر میں مسلم لیگ نے کوئی وعد ہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ میں اس کا حل ہے، اور موجودہ نظریات کی روشنی میں اس میں ترقی کا امکان ہے۔

اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہرشخص کے لیےکم از کم حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یاریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہاسال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہند میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسری متبادل صورت صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے(پاکستان تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر غلام حسین ذوالفقار، بزمِ اقبال، لاہور،  ص۳۴-۳۵)۔

دستورِ پاکستان کی بنیاد شریعت

نہ صرف علامہ اقبال بلکہ قائد اعظم جو بطور ایک اعلیٰ درجے کے قانون دان، اسلامی شریعت و قانون سے واقفیت رکھتے تھے ، اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ پاکستان میں اگر کوئی نظام ترقی کی ضمانت دے سکتا ہے تو وہ صرف اسلامی نظام ہے جسے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً نافذ کرکے اس کی عملیت کو مستحکم فرما دیا ۔ چنانچہ ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی کی وکلا برادری (بارایسوسی ایشن ) کو خطاب کرتے ہوئے اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے شریعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے یہ بھی ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد کا بیان ہے ۔ جو کسی سیاسی دباؤ میں نہیں دیا گیا،بلکہ قائد اعظم کی سوچی سمجھی رائے اور موقف کو ظاہر کرتا ہے :

He further said that he could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat. The Qa‘id-e-Azam said the "Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago". No doubt there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam. Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim which regulates his life and his conduct even in politics and economics and the like. It is based on the highest principle of honour, integrity, fair play and justice for all.

انھوں نے مزید فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جودانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام  نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص۴۰۲-۴۰۳)

نواب بہادر یارجنگ کا موقف

قائد اعظم کے اس موقف اور تصور کا اظہار ایک نہیں سو سے زائد مواقع پر ان کے خطابات، بیانات ، اور انٹرویوز میں ہوا۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانش وَر اور آزاد خیال محققین کی نگاہ صرف اور صرف ایک تقریر پر اٹک کر رہ گئی ۔ جس میں وہ بات نہیں کہی گئی جو وہ اس بات میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے دسمبر۱۹۴۳ ء کے سیشن میں نواب بہادر یار جنگ کی تقریر پر قائد اعظم کا تاثر اور رد عمل ان کے موقف کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے ۔ نواب بہادر یار جنگ نے کہا:

Gentlemen achievement of Pakistan is not that difficult as to make it true Pakistan and sustain it. Your Quaid have on several occasions mentioned that Muslims cannot frame their constitution and law by themselves. This constitution in the form of the Quran is already in their hands. How well taken is this vision and decision of ours. No one can deny the fact that, we do not want Pakistan simply as a land where they became instruments of shaytan like in so many other places in the world today. If this is the objective of our Pakistan , at least I am not in favour of such Pakistan.

Who can deny the fact that we want Pakistan in order to establish Qurani nizam hukumat.

This will be a revolution. It will be a renaissance, a new life in which our cherished Islamic ideas and dreams shall become a reality and Islamic way of life shall be revived. If constitutional and political system proposed by the planning committee does not have its foundations in the Book of Allah and the sunnah of Rasool sallallahu alaihi wasallam,it will be a satanic political system, we seek Allah’s protection from such politics.

The Qua’id banged forcefully on the table and said “you are absolutely right".

حضرات! پاکستان کا حصول اس قدر مشکل نہیں ہے جتنا کہ اسے حقیقی پاکستان بنانا اور اس کو برقرار رکھنا۔ آپ کے قائد نے مختلف مواقع پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمان اپنے لیے دستور اور قانون کی تشکیل خود نہیں کرسکتے۔ یہ دستور قرآن کی شکل میں ان کے ہاتھوں میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا یہ وژن اور فیصلہ کس خوبی سے لیا جاتا ہے۔ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہم پاکستان کو محض ایک ایسی سرزمین کے طور پر نہیں چاہتے جہاں ہم موجودہ دنیا کے بہت سے خطوں کی طرح شیطان کے آلۂ کار بن جائیں۔ اگر ہمارے پاکستان کا یہی مقصد ہے، تو کم از کم مَیں ایسے پاکستان کے حق میں نہیں ہوں۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ قرآنی نظامِ حکومت قائم کرسکیں۔ یہ ایک انقلاب ہوگا۔ یہ ایک نشاتِ ثانیہ ہوگی، ایک نئی زندگی جس میں ہمارے انتہائی عزیز اسلامی تصورات اور خواب حقیقت میں ڈھل سکیں گے اور اسلامی طرزِ زندگی کا احیا ہوسکے گا۔ اگر منصوبہ بندی کمیٹی کے تجویز کردہ دستوری اور سیاسی نظام کی بنیادیں اللہ کی کتاب اور سنت ِ رسولؐ پر مبنی نہیں ہیں تو یہ ایک شیطانی سیاسی نظام ہوگا۔ ہم ایسی سیاست سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

 قائداعظم نے اس پر اپنی میز کو بہت زورسے بجایا اور کہا: ’’آپ بالکل حق بجانب ہیں‘‘ (تصورِ پاکستان بانیانِ پاکستان کی نظر میں، شریعہ اکیڈمی، اسلام آباد، ۲۰۱۳ء، ص ۸۲-۸۳)۔

لیاقت علی خان کا دستور ساز اسمبلی سے خطاب

نہ صرف نواب بہادر یار جنگ بلکہ قائد اعظم کے دست راست لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد پیش کرتے وقت دستور ساز اسمبلی میں جو خطاب کیا وہ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے قیام پر ریاست کے سوچے سمجھے موقف کو واضح کر دیتا ہے اور اس کے لیے کسی پہاڑ کو کھود کر حقائق تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک غیر جانب دار ذہن اور قلب کی ضرورت ہے ۔اور صرف وہ شخص جو یہ غیر جانبدار ذہن اور قلب رکھتا ہواپنے آپ کو طالب ِدانش کہہ سکتا ہے ۔ ہم اصولِ تحقیق کے خلاف قائد ملت کا یہ طویل اقتباس دینے پر مجبور ہیں کیوں کہ اس کا پورا متن مطالعہ کیے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی ۔

قائد ملت لیاقت علی خان نے خطاب کا آغاز یوں کیا:

"Sir, I consider this to be a most important occasion in the life of this country, next in importance only to the achievement of independence, because by achieving independence we only won an opportunity of building up a country and its polity in accordance with our ideals. I would like to remind the House that the Father of the Nation, Quaid-e-Azam, gave expression to his feelings on this matter on many an occasion, and his views were endorsed by the nation in unmistakable terms.Pakistan was founded because they wanted to demonstrate to the world that Islam provides a panacea to the many diseases which have crept in to the life of humanity today...."

"We, as Pakistanis, are not ashamed of the fact that we are overwhelmingly Muslims and we believe that it is by adhering to our faith and ideals that we can make a genuine contribution to the welfare of the world. Therefore, Sir, you would notice that the Preamble of the Resolution deals with frank and unequivocal recognition of the fact that all authority must be subservient to God. It is quite true that this is in direct contradiction to the Machiavellian ideas regarding a polity where spiritual and ethical values should play no part in the governance of the people and, therefore, it is also perhaps a little out of fashion to remind ourselves of the fact that the State should be an instrument of beneficence and not of evil.But we, the people of Pakistan, have the courage to believe firmly that all authority should be exercised in accordance with the standards laid down by Islam so that it may not be misused...."

"Sir, I just now said that the people are the real recipients of power. This naturally eliminates any danger of the establishment of a theocracy.It is true that in its literal sense, theocracy means the Government of God;; in this sense, however, it is patent that the entire universe is a theocracy, for is there any corner in the entire creation where His authority does not exist? But in the technical sense, theocracy has come to mean a Government by ordained priests, who wield authority as being specially appointed by those who claim to derive their rights from their sacerdotal position.I cannot over emphasise the fact that such an idea is absolutely foreign to Islam. Islam does not recognise either priesthood• or any sacerdotal authority; ; and, therefore, the question of a theocracy simply does not arise in Islam.If there are any who  still use the word theocracy in the same breath as the polity of Pakistan, they are either labouring under a grave misapprehension, or indulging in mischievous propaganda.

You would notice, Sir, that the Objectives Resolution lays emphasis on the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, and further defines them by saying that these principles should be observed in the constitution as they have been enunciated by Islam. It has been necessary to qualify these terms because they are generally used in a loose sense…”

“When we use the word democracy in the Islamic sense, It pervades all aspects of our life;; it relates to our system of Government and to our society with equal validity,; because one of the greatest contributions of Islam has been the idea of the equality of all men. Islam recognises no distinctions based upon race, colour or birth".

"In the matter of social justice as well, Sir, I would point out that Islam has a distinct contribution to make Islam envisages a society in which social justice means neither charity nor regimentation. Islamic social justice is based upon fundamental laws and concepts which guarantee to man a life free from want and rich in freedom. It is for this reason that the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice have been further defined by giving to them a meaning which, in our view, is deeper and wider than the usual connotation of these words".

"The next clause of the Resolution lays down that Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunna. It is quite obvious that no non-Muslim should have any objection if the Muslims are enabled to order their lives in accordance with the dictates of their religion".

"You would also notice, Sir, that the State is not to play the part of a neutral observer, wherein the Muslims may be merely free to profess and practice their religion, because such an attitude on the part of the State would be the very negation of the ideals which prompted the demand of Pakistan, and it is these ideals which should be the corner-stone of the State which we want to build. The State will create such conditions as are conductive to the building up of a truly Islamic society, which means that the State will have to play a positive part in this effort. You would remember, Sir, that the Quaid-e-Azam and other leaders of the Muslim League always made unequivocal declarations that the Muslim demand for Pakistan was based upon the fact that the Muslims have a way of life and a code of conduct. They also reiterated the fact that Islam is not merely a relationship between the individual and his God, which should not, in any way, affect the working of the  State.  Indeed, Islam lays down specific directions for social behaviour, and seeks to guide society in its attitude towards the problems which confront it from day to day. Islam is not just a matter of private  beliefs and conduct. It expects its followers to build up a society for the purpose  of   good life ___ as the Greeks would have called it, with this difference, that Islamic "good life" is essentially based upon spiritual values. For the purpose of emphasising these values and to give them validity, it will be necessary for the State to direct and guide the activities of the Muslims in such a manner as to bring about a new social order based upon the essential principles of Islam, including the principles of' democracy, freedom, tolerance and social justice. These I mention merely by way of illustration;; because they do not exhaust the teachings of Islam as embodied in the Quran and the Sunna. There can be no Muslim who does not believe that the word of God and the life of the Prophet are the basic sources of his inspiration. In these, there is no difference of opinion amongst the Muslims and there is no sect in Islam which does not believe in their validity".

"Therefore, there should be no misconception in the mind of any sect which may be in a minority in Pakistan about the intentions of the State. The State will seek to create an Islamic society free from dissensions, but this does not mean that it would curb the freedom of any section of the Muslims in the matter of their beliefs. No sect, whether the majority or a minority, will be permitted to dictate to the others and, in their own internal matters and sectional beliefs, all sects shall be given the fullest possible latitude and freedom. Actually we hope that the various sects will act in accordance with desire of the Prophet who said that the differences of opinion amongst his followers is a blessing. It is for us to make our differences a source of strength to Islam and Pakistan, not to exploit them for narrow interests which will weaken both Pakistan and Islam. Differences of opinion very often lead to cogent thinking and progress, but this happens only when they are not permitted to obscure our vision of the real goal, which is the service of Islam and the furtherance of its objects. It is, therefore, clear that this clause seeks to give the Muslims the opportunity that they have been  seeking, throughout these long decades of decadence and subjection, of finding freedom to set up a polity, which may prove to be a laboratory for the purpose of demonstrating to the world that Islam is not only a progressive force in the world, but it also provides remedies for many of the ills from which humanity has been suffering".

"In our desire to build up an Islamic society we have not ignored the rights of the non-Muslims. Indeed, it would have been un-Islamic to do so, and we would have been guilty of transgressing the dictates of our religion if we had tried to impinge upon the freedom of the minorities. In no way will they be hindered from professing or protecting their religion or developing their cultures. The history of the development of Islamic culture itself shows that cultures of minorities, who lived under the protection of Muslim States and Empires, contributed to the richness of the heritage which the Muslims built up for themselves. I assure the minorities that we are fully conscious of the fact that if the minorities are able to make a contribution to the sum total of human knowledge and thought, it will rebound to the credit of Pakistan and will enrich the life of the nation. Therefore, the minorities may look forward, not only to a period of the fullest freedom, but also to an understanding and appreciation on the part of the majority which has always been such a marked characteristic of Muslims throughout history". (M. Rafiq Afzal, Speeches, Statements of Quaid-e-Millat Liaqat  Ali Khan, 1941-1951, Lahore, Research Society of Pakistan, University of the Punjab, 1987, p58-59).

’’جناب والا، میں اس موقعے کو ملک کی زندگی میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اہمیت کے اعتبار سے صرف حصول آزادی کا واقعہ ہی اس سے بلند تر ہے، کیونکہ حصول آزادی سے ہی ہمیں اس بات کا موقع ملا ،کہ ہم ایک مملکت کی تعمیر اور اس کے نظام سیاست کی تشکیل اپنے نصب العین کے مطابق کر سکیں۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس مسئلے کے متعلق اپنے خیالات کا متعدد موقعوں پر اظہار فرمایاتھا ،اور قوم نے ان کے خیالات کی غیرمبہم (unmistakable) الفاظ میں تائید کی تھی۔

پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اس برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے، کہ آج حیات انسانی کو جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے صرف اسلام ہی اکسیر اعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے‘‘....

’’ہم پاکستانی ہوتے ہوئے اس بات پر شرمندہ نہیں ہیں، کہ ہماری غالب اکثریت مسلمان ہے، اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اپنے ایمان اور نصب العین پر قائم رہ کر ہی دنیا کے فوز و فلاح میں حقیقی اضافہ کر سکتے ہیں۔

جناب والا، آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس قرارداد کی تمہید میں صاف اور صریح الفاظ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے، کہ تمام اختیار اور اقتدار کا ذاتِ الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ نظریہ مغربی فلسفی میکیاولی کے خیالات کے بالکل برعکس ہے، جس کا تصور مملکت یہ ہے کہ: نظام سیاست و حکومت میں روحانی اور اخلاقی قدروں کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔

اس لیے شاید اس بات کا خیال بھی رواج کے کسی قدر خلاف ہی سمجھا جاتا ہے کہ مملکت کے وجود کو خیر کا آلہ ہونا چاہیے، نہ کہ شر (evil) کا۔ لیکن ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمان موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام(انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے‘‘....

’’میں نے ابھی یہ عرض کیا تھا کہ:’ اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں‘۔ چنانچہ اس راستے کو اختیار کرنے سے قدرتی طور پر ’تھیاکریسی ‘ (Theocracy) کے قیام کا خدشہ جاتا رہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ’تھیاکریسی ‘ کے لغوی معنی ’خدا کی حکومت‘ ہیں اور اس اعتبار سے تو پوری کائنات ہی ’تھیاکریسی ‘ قرار پاتی ہے۔ کیونکہ اس پوری کائنات کا کون سا گوشہ ایسا ہے، جہاں اﷲ تعالیٰ کو قدرت حاصل نہیں ہے؟ لیکن [علم سیاسیات کے] اصطلاحی معنوں میں تھیاکریسی ’برگزیدہ پادریوں کی حکومت‘ کو کہتے ہیں، جو محض اس بنا پر اختیار رکھتے ہوں کہ وہ ایسے اہل تقدس کی طرف سے خاص طور پر مقرر کیے گئے ہیں، جو اپنے مقام قدس کے اعتبار سے ان حقوق کے دعوے دار ہیں۔ اس کے برعکس میں اس امر پر جتنا بھی زیادہ زور دوں کم ہو گا، کہ اسلام میں اس تصورحکمرانی کی ہرگز کوئی گنجایش اور کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام، پاپائیت (Priesthood) یا کسی بھی حکومت مشائخ (Sacerdotal Authority) کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام میں ’تھیاکریسی ‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کوئی شخص اب بھی پاکستان کے نظام حکومت کے ضمن میں ’تھیاکریسی ‘ کا ذکر کرتا ہے، تووہ یا کسی شدید غلط فہمی کا شکار ہے یا پھر دانستہ طور پر شرارت آمیزی سے ہمیں بدنام کرنا چاہتاہے‘‘۔

’’جناب والا، اب میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں، کہ قراردادِ مقاصد میں جمہوریت، حُریت، مساوات، رواداری، اور سماجی عدل کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی مزید صراحت یہ کی گئی ہے کہ دستور مملکت میں ان اصولوں کو اس تشریح کے مطابق ملحوظِ نظر رکھا جائے، جو وضاحت اسلام نے ان الفاظ کی بیان کی ہے۔ ان الفاظ کی صراحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ (الفاظ) بالعموم مبہم طور پر استعمال کیے جاتے ہیں‘‘....

’’جس وقت ہم ’جمہوریت‘ کا لفظ اس کے اسلامی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ جمہوریت ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور اس کا اطلاق جتنا ہمارے نظام حکومت پر ہے، اتنا ہی ہمارے معاشرے پر بھی ہے۔ کیونکہ اسلام نے دنیا کو جن  عظیم الشان صفات سے مالا مال کیا ہے، ان میں سے ایک صفت عام انسانوں کی مساوات بھی ہے۔ اسلام، نسل، رنگ اور نسب کے امتیازات (discrimination) کو کبھی اور کسی سطح پر بھی تسلیم نہیں کرتا‘‘۔

’’جہاں تک سماجی عدل (Social Justice) کا تعلق ہے، جناب محترم، میںیہ کہوں گا کہ اسلام اس میںشان دار اضافہ کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کے قیام کا حامی ہے، جس میں سماجی عدل کا تصور نہ تو بھیک اور خیرات پر مبنی ہے اور نہ ذات پات (اور رنگ و نسل) کی کسی تمیز پر موقوف ہے۔ اسلام جو سماجی عدل قائم کرنا چاہتا ہے، وہ ان بنیادی ضابطوں اور تصوارت پر مبنی ہے، جو انسان کی زندگی کو دوسروں کی محتاجی سے پاک رکھنے کے ضامن ہیں، اور جو آزادی و حریت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ (قرارداد میں) جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کی ایسی تعریف کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے خیال کے مطابق ان الفاظ کے عام معانی کی بہ نسبت زیادہ گہرے اور وسیع تر معانی پیدا ہوگئے ہیں‘‘۔

’’قرارداد مقاصد کی اس دفعہ کے بعد یہ درج ہے، کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ  وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ اگر مسلمان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنا لے، تواس پر اصولی طور پر ہمارے کسی غیر مسلم بھائی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘‘۔

’’جناب والا، آپ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں، کہ حکومت ایک غیر جانب دار تماشائی کی حیثیت سے اس بات پر اکتفا نہیں کرے گی، کہ مسلمانوں کو اس مملکت میں صرف اپنے دین (مذہب) کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کیونکہ حکومت کے اس طرز عمل سے ان مقاصد کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی، جو مطالبہ پاکستان کے بنیادی محرک تھے۔ حالانکہ یہی مقاصد تو اس مملکت کا سنگ بنیادہونے چاہییں، جسے ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مملکت ایک ایسا ماحول پیدا کرے گی، جو ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تعمیر میں ممد و معاون ثابت ہو گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو اپنی کوشش و کاوش میں مثبت پہلو اختیار کرنا ہو گا۔

جناب والا، آپ کو یاد ہو گا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے دوسرے مرکزی رہنماؤں نے ہمیشہ یہ بڑے واضح او ر غیر مبہم اعلانات (uniquivocal declarations) کیے ہیںکہ: ’پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کے ہاں اپنے ’طریق زندگی اور ضابطۂ اخلاق‘ موجود ہیں‘۔ انھوں نے بارہا اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا نجی تعلق قائم ہو، جسے مملکت کے کاروبارمیں کسی قسم کا دخل نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام سماجی اخلاق کے متعلق معاشرے کے طرز عمل کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلام محض ذاتی عقائد اور انفرادی اخلاق کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ماننے والوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں، جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ اہل یونان کے برعکس اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کی بنیادلازمی طور پر روحانی قدروں پہ قائم ہے۔

ان اقدار کو اہمیت دینے اور انھیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقے پر ہم نوائی کرے، کہ جس سے ایک ایسا نیا سماجی نظام قائم ہوجائے، جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایک ایسا سماجی نظام کہ جس میں جمہوریت، حُریت، رواداری اور سماجی عدل شامل ہیں۔ ان امور کا ذکر تو میں نے محض بطورمثال کیا ہے، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن مجید اور سنت نبویؐ پر مشتمل ہیں، محض اسی بات پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیںہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اﷲ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمے ہیں۔ ان سرچشموں کے متعلق مسلمانوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں، جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو‘‘۔

’’لہٰذا، کسی بھی ایسے فرقے کو جو پاکستان میں اقلیت میں ہو، اس مملکت کی نیت کی طرف سے اپنے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ مملکت ایک ایسا اسلامی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی، جو باہمی تنازعات سے پاک ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اعتقادات کے معاملے میں وہ مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کی آزادی کو سلب کرے گی۔ کسی مکتب فکر کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، یہ اجازت نہیں ہو گی کہ دوسروں کو اپنا حکم قبول کرنے پر مجبور کرے، بلکہ اپنے اندرونی معاملات اور فرقہ وارانہ اعتقادات میں تمام فرقوں کے لیے وسعت خیال و عمل کا اہتمام ہوگا اور کامل آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ درحقیقت ہمیں یہ امید ہے کہ مختلف مکاتب فکر اُس منشا کے مطابق عمل کریں گے، جو اس حدیث نبویؐ میں مذکور ہے: ’میری اُمت [کے لوگوں ]میں اختلاف راے ایک رحمت ہے‘۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے اس [فطری] اختلاف کو اسلام اور پاکستان کے لیے باعث استحکام بنائیں اور چھوٹے موٹے مفادات کے لیے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، کیونکہ اس طرح پاکستان اور اسلام دونوں کمزور ہو جائیں گے۔ بسااوقات اختلافات رائے ہم آہنگی اور ترقی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب رائے کے اختلافات میں اس امر کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ہمارے حقیقی نصب العین کو جو اسلام کی خدمت اور اس کے مقاصد کو ترقی دیتا ہے، اسے نظروں سے اوجھل کر دیں۔ پس ظاہر ہے کہ قرارداد میں اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنے کی سہولت دی جائے، جس کی تجربہ گاہ میں وہ دنیا کو عمل کر کے دکھا سکیں، کہ اسلام دنیا میں نہ صرف ایک متحرک اور ترقی پسند طاقت ہے، بلکہ وہ ان گوناگوں خرابیوں کا علاج بھی مہیا کرتا ہے، جن میں آج نوع انسانی مبتلا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو اپنی پستی اور محکومی کے طویل دور میں ہمیشہ اس قسم کے موقع کی تلاش رہی ہے‘‘۔

’’ایک اسلامی معاشرہ تعمیر کرنے کے مقصد میں ہم نے غیر مسلموں کے حقوق کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اگر ہم اقلیتوں کی آزادی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ایک غیراسلامی فعل ہوتا، اور ایسا کر کے ہم یقینا اپنے دینی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے۔ اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے، اس کی حفاظت کرنے یا اپنی ثقافت کو فروغ دینے سے کسی طرح روکا نہیں جائے گا۔ اسلامی ثقافت کے نشوونما کی تاریخ بتاتی ہے، کہ مسلمان حکومتوں اور سلطنتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والی اقلیتوں کی ثقافتیں اس دولت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوئی ہیں، جسے مسلمانوں نے بطور وراثت حاصل کر کے فروغ دیا ہے۔میں اقلیتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ اگر اقلیتیں انسانی علم و فکر کی دولت میں اضافہ کر سکنے کے قابل ہوں گی، تو یہ امر پاکستان کی نیک نامی میں چار چاند لگائے گا اور اس سے قوم کی زندگی اور توانائی میں قابل قدر اضافہ ہو گا۔ اس لیے اقلیتوں کو نہ صرف مکمل آزادی کی توقع کرنی چاہیے، بلکہ یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اکثریت ان کے ساتھ قدر دانی اور احترام کا وہی برتاؤ کرے گی، جو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے‘‘۔(اردو ترجمہ: س م خ)

اس طویل اقتباس کو پیش کر نے کا مقصد یہ بات واضح کر دینا ہے کہ نہ صرف علامہ اقبال ، قائد اعظم،علامہ اسد بلکہ ان کے قریبی رفقابہ شمول نواب بہادر یار جنگ، لیاقت علی خان ، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین ، ان میں سے ہر ایک اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ پاکستان کیوں بنایا گیا اور پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریہ کا سبب کسی فرقہ یا گروہ کا دباؤ نہیں تھا۔ اگر یہ بے بنیاد ڈر اور خوف تسلیم کر لیا جائے تو قائد اعظم کی پوری سیرت اور کردار ہمارے لیے بے معنی ہو جاتا ہے۔ ان کا موقف آغاز سے انجام تک ایک تھا ۔ اس میں کہیں نہ تضاد ہے، نہ مفاہمت اور کمزوری۔ بلکہ اعتماد اور مطالعہ کی بنا پر ان کا موقف یہی رہا کہ پاکستانی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے ، علاقائیت ، نسلیت، لسانیت نہیں ہے اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی حیثیت سے ایک عالمی کردار ادا کرنا ہے۔(جاری)

معلوم انسانی معاشروں میں حق و باطل ، طہارت و خباثت ، حیا اور فحاشی کا وجود اتنا ہی قدیم ہے، جتنا انسان کا وجود ۔ ابلیسیت کی پہلی فتح، اوّلین انسانی جوڑے کو لباس سے محروم کرنا تھا۔اس کا دوسرا کارنامہ پہلے انسانی خاندان میں قتل جیسے گھناؤنے فعل پر ابھارنا اور اسے تکمیل تک پہنچانا تھا۔
اس کے بعد یہی ابلیسیت ان تمام تاریخی واقعات میں کار فرما نظر آتی ہے، جو انسانی تاریخ کے عبرت ناک واقعات کہےجاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اصحاب سبت کا طرزِ عمل، جنھوں نے حیلے بہانے اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اخلاقی اور الہامی ہدایات کی خلاف ورزی کی۔ اسی معاشرے کے بعض افراد ان ہدایات کے باوجود بے تعلق رہے، ظلم و زیادتی سے صرفِ نظر کیا اور خاموش رہے حالانکہ یہ افراد نمازیں پڑھتے تھے ، تورات کی تلاوت بھی کرتے تھے اور اپنے یوم عبادت، یعنی ’سبت ‘ کی شدت سے پابندی بھی کرتے تھے، مگر ان کی تمام عبادت اورخلوص پوری آبادی کو تباہی سے نہ بچا سکا۔ اور وہ باغی افراد جو حدود کو پامال کرنے اور اپنے ربّ کی اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے والے تھے، وہ اپنے ساتھ ان پاک باز افراد کو بھی لے ڈوبے جو مصلحت کے پیش نظر اپنی چونچیں پروں کے نیچے چھپائے رکھنے اورنام نہاد ’غیرجانب داری‘ اختیار کرنا ہی اپنا تقویٰ سمجھتے تھے۔
تاریخ کے ایسے ناقابلِ تردید واقعات کا ذکر کرنے کے بعد مستند ترین الہامی کتاب قرآنِ عظیم ان پر ایک جامع تبصرہ کرتی ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ۝۲ (الحشر ۵۹:۲) ___یعنی اے وہ لوگو،جو اپنے آپ کو دانش مند، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور زمینی حقائق سے آگاہ سمجھتے ہو، ان ناقابلِ تردید تاریخی شواہد پر غور کرو اور سوچو تم کس رخ پر جارہے ہو ۔ تمھیں خبر نہیں کہ تم ایک قعرمذلت کے کنارے کھڑے ہو اور نہیں جانتے کہ تمھارے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
 ملک عزیز میں جب سے نام نہاد ’روشن خیالی‘ یا ’لبرل ازم‘ کے زیرعنوان معیشت، تعلیم، قانون ، معاشرت اورا بلاغ کو مشرف بہ ’مشرف‘ کیا گیا ہے اور آزادیِ رائے کے نام پر فحاشی اور عریانی کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ خود کو فخریہ ’لبرل‘ کہنے والے پاکستانی چینلوں پر اشتہاروں کی شکل میں اور ہندستانی اور مغربی پروگراموں کے ذریعے معاشرے کو فحاشی ، عریانی اور جنسیت کا عادی بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی زوال کی آخری حد کو بھی پار کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک بہت بڑا ہوش مند اور باشعور طبقہ چیخ اُٹھا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ: ’’بےغیرتی اور بےشرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ’پیمرا‘ کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اخلاقی حدوں کو پار کرنے والے عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو سزا دینی چاہیے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہرسطح پر فحاشی برپا کرنے والوں اور قومی شاہراہ پر معصوم بچوں کے سامنے ایک شرمناک فعل اور سر عام درندگی و دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف محض ایک قرارداد ، ایک جلوس ، ایک دھواں دار تقریر یا فقط بددُعا کافی ہے؟ اور کیا کسی زندہ قوم کا ضمیر ایسے گھناؤنے واقعات کو ماضی میں دفن ہونے دے سکتا ہے؟ اور کیا صرف چند باشعور افراد کا مہذب انداز میں سنگین جرائم کی مذمت کر دینا ایسے واقعات کو روک سکتا ہے ؟
حقیقت ِحال یہ ہے کہ گھناؤنے اخلاقی جرائم کی خبریں، چاہے وہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انھیں جنسی اذیت پسندوں کے لیے کھلونا بنا کر پیش کرنے پر مبنی ہوں یا ایسے ذلّت آمیز واقعات تصویری شکل میں ہوں، انھیں ابلاغ عامہ کے پلیٹ فارم سے اس طرح پیش کرنا جیسے یہ کوئی ’تفریحی خبر‘ ہو، بذاتِ خود ایک الم ناک رویہ ہے۔ پھر اس کی اشاعت میں سبقت لے جانے کو اپنی فنی عظمت اور کامیابی کی علامت قرار دینا ،ایک بیمار ذہن اور ایک مُردہ ضمیر کی مثال ہے ۔ برائی کو برائی کہنا، ایمان کا تقاضا ہے، لیکن برائی کی اشاعت کو اس حد تک مشتہر کرنا کہ وہ معمول کی خبروں کی طرح ایک واقعہ بن جائے، اپنی جگہ اس جرم کی سنگینی سے کم نہیں ہے۔

اس صورت حال میں حل کیا ہے ؟

ایسے جرائم کے سدباب کے لیے جو قوانین موجود ہیں، انھیں پوری قوت سے شفافیت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ ان کے نفاذ میں جو کمی ہے یا الجھاؤ ہے، اسے دُور کیا جائے ۔ تفتیش اور فراہمی انصاف کے عمل کو فعال بنایا جائے۔
شرعی سزاؤں کا نفاذ، جو جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے، ان پر بے جا معذرت خواہی کا رویہ ترک کیا جائے۔ یاد رکھا جائے کہ مغربی تہذیب کی ہمدردی مجرم سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور مظلوم کے لیے داد رسی کے امکانات تنگ دلی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام عدل کا راستہ اپناتا ہے۔ کسی کو بے جا سزا کا شکار ہونے نہیں دیتا اور مظلوم کی دادرسی میں کوئی مداہنت نہیں برتتا۔اسلامی شریعت نے جن سزاؤں کو عام لوگوں کے سامنے نافذ کرنے کی ہدایت دی ہے، انھیں سرعام ہی نافذ ہونا چاہیے۔
اس مناسبت سے ابدی شریعت کی ہدایات کو شعوری طور پر معاشرے میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مزید جو اقدامات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں ان کی طرف اختصار سے اشارہ کیا جارہا ہے۔

حیا کے کلچر کو مستحکم کیا جائے

اہلِ اسلام کے اخلاقی نظام کی بنیاد حیا پر ہے ۔یعنی ایک فرد وہ مرد ہو یا عورت، وہ تمام ایسے مواقع سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے، جن میں بے حیائی کا امکان پایا جاتا ہو ۔ اسلام کی خوبی  یہ ہے کہ وہ فقط نظر ی (تھیوریٹی کل)بات نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ہر اخلاقی حکم کے ساتھ اس کی عملی شکل اور ماپنے کا پیمانہ بھی فراہم کرتا ہے، تاکہ فلسفے کی جگہ عملیت غالب آجائے۔
حیا کے ماپنے کا پہلا پیمانہ اور معیار ایک فرد کا اپنی بینائی یا بصارت کا استعمال بھی ہے۔ ایک آنکھ قدرت کے وہ بے شمار مناظر (مثلاً دریا کا پُرسکون کنارہ ، کسی آبشارکے بلندی سے گرنے کا منظر ، کسی ندی کے پانی کے پتھروں سے ٹکرا کر فضا میں ارتعاش بکھیرنےکی آواز ، پرندوں کی چہچہاہٹ ، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کے مسحور کن مناظر) دیکھتی ہے، تو انسان کے ذہن میں مسرت، لذت اور سکون کے جو احساسات جنم لیتے ہیں اور لطف ملتا ہے، وہ شاید بہت سے مادی لذت کے مواقع سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ا س کے مقابلے میں اگر وہی آنکھ ٹی وی کی سکرین پر ایک نیم عریاں حوا کی بیٹی کو بچوں کے لیے چاکلیٹ، بسکٹ کی پیش کش کرتی نظر آتی ہےتو وہ چاکلیٹ سے زیادہ اپنے جسم کوایک پُرکشش اور گناہ کی طرف راغب کرنے والی شے بنا کر پیش کرتی ہے، جو نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی مہذب اخلاقی ضابطے سے میل نہیں کھاتی۔
’ حیا‘ کے احیا کا مطلب یہ ہے کہ ہماری درسی کتب ہوں یا کلاس روم میں معلم اور معلمہ کا تدریسی کام، یا گھر میں ماں باپ اور بچوں کا لباس ہو ، حیا پیش نظررہنا چاہیے۔ ایک کم اثاثے والے فرد کا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی اس کی تلقین ہے:
لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۝۰ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۝۰ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۝۰ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۲۷۳ۧ (البقرہ۲:۲۷۳)خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دَوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم اُن کے چہروں سے اُن کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑکر کچھ مانگیں۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگےوہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہےگا۔
گویا حیا محض جسم کے بعض اعضا کا چھپانا ہی نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ عمل ہے۔ اظہار زینت اور جسمانی خوب صورتی کو چھپانے کی شکل میں حیا کے حکم پر عمل کرنے کو ایک عقل کا اندھا بھی محسوس کرسکتا ہے۔ انسان کا عمل ہی اجر کا پیمانہ ہے۔جب تک حیا کا احیا گھر ، مدرسے، تعلیم گاہ، معاشرے کے کاروبار اور ریاستی ایوانوں میں نہیں ہو گا،ہوس کی خوف ناکی اور ابلیسیت کی جارحیت میں کمی نہیں ہو سکتی ۔اس کے لیے اگر ریاست نااہل ہو تو پھر معاشرہ خود بہت سے اقدامات کر سکتا ہے ۔

معاشرتی ضمیر  کی بیداری

جب کسی معاشرے میں برائی ، فحاشی ، عریانیت ، جنسیت پرستی اور خصوصاً خواتین کے جسم کو معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنے کا عمل ( Sex-Exploitation) معمول بن جائے، تو پھر معاشرے کا اجتماعی ضمیر بھی غفلت کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسے بروقت جھنجھوڑ کر جگا دیا جائے تو پھر وہ فحاشی اور عریانیت کے خلاف نہ صرف کمر بستہ ہوتا ہے بلکہ وہ اسے جڑ سے اُکھاڑ کر چھوڑتا ہے۔ اب یہ کام معاشرے کے افراد کا ہے ۔ اساتذہ ، تاجر، وکیل ، طبیب،انجینیر اور وہ لوگ جو معاشرے میں ایک قابلِ لحاظ مقام رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر برائی کے خاتمے کے لیے، اپنے سیاسی اور مسلکی اختلاف سے بلند ہو کر اپنی اولاد اور بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر فحاشی ، عریانی کے خلاف ایک زنجیر بن جائیں اور پوری قوت سے برائی کو پسپا کر دیں ۔اس میں ابلاغ عامہ کے شعبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ابلاغ عامہ  کا کردار

اس بات کی ضرورت ہے کہ باشعور شہری اجتماعی طور پر فحاشی و عریانی کے خلاف اپنے عزم کے اظہار کے لیے ملک گیر پیمانے پر صرف تین دن کے لیے اپنے گھروں اور دفاتر میں جہاں کہیں بھی ہوں، ٹی وی اور انٹر نیٹ کے پروگراموں کو مکمل طور پر دیکھنا بند کر دیں تو تین دنوں ہی میں ابلاغ عامہ کے سوداگروں کو معلوم ہو جائے گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کوئی نظری بات نہیں، یہ ایک قابلِ عمل چیز ہے ۔لیکن اس طرح کی ’پُرامن مزاحمت‘ صرف اس وقت ممکن ہے، جب ملک کے نوجوان  کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اپنے تعمیری اثرات کا جو دعویٰ پیش کرتے ہیں، اس کا عملی ثبوت دیں۔  وہ میدان میں نکل کر، گلی گلی یہ پیغام دیں اور مساجد سے اعلان کروا کر یہ پیغام ہر فرد تک پہنچا دیں، خواہ شہروں میں رہتا ہو یا دیہات میں، اور نیکی کے سفیر بن کر بغیر کسی توڑ پھوڑ یا مطالبات کی سیاست کے، خود لوگوں تک پہنچ کر ان سے بھلائی ، نرمی ، محبت سے بات کریں، اور انھیں سمجھائیں کہ ہم ایسا کیوںکر رہے ہیں ؟

سوشل میڈیا  اور حیا کا کلچر

گذشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اچھے بھلے اور بظاہر ثقہ افراد بھی اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ طویل اور مختصر پیغامات پڑھنے اور بغیر کسی تصدیق کے انھیں انجانے افراد تک پہنچانے کا نامعقول فریضہ انجام دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے جس تیزی کے ساتھ افراد کے طرزِ حیات اور طرزِ فکر کو متاثر کیا ہے، اس کے مثبت اور تعمیری پہلو کے اعتراف کے باوجود اس کا نفسیاتی اور معاشرتی تجزیہ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کا استعمال ایک ایسے مقصد کے لیے جس سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے ہمارے خیال میں غور طلب ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات کی صورت میں قوم کو یہ بات سمجھائی جائے کہ جب تک وہ خود نہیں جاگے گی، اس کے نام نہاد سیاسی رہنما یا حکومت کوئی پیش قدمی نہیں کرے گی۔ فحاشی اور قوم کو بے غیرت بنانے کے عمل کے خلاف جہاد میں بلاتفریق مسلک و مذہب پوری قوم کو جگانے اور ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوان اور دیگر افراد اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی بڑی مالی امداد کی ضرورت نہیں، صرف اپنی لگن اور مقصد سے وابستگی کی بنا پر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک قابلِ عمل کام ہے ۔ایک دستوری حق ہے اور یہ کسی تشدد کے بغیر کیا جا سکتا ہے ۔

اعلٰی تعلیمی اداروں کا کردار

اس مہم میں اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ قومی سطح پر ملک کے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات ایک دن فحاشی، عریانی اور جنسیت کے خلاف یومِ احتجاج منائیں۔ طلبہ و طالبات خود الگ الگ مختلف سرگرمیاں ترتیب دیں۔ یہ خطبات بھی ہو سکتے ہیں ، تقریری مقابلے اور پوسٹرز کے مقابلے بھی۔ غرض وہ تمام ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعے ملک ِ عزیز میں اس احتجاج کا وزن محسوس ہو۔

قومی تشخص

نوجوان نسل نفسیاتی طور پر اس احساسِ کمتری میں مبتلا کر دی گئی ہے جس کا مظہر مغربی جنسیت زدہ طرزِ تہذیب ہے۔ اس میں لباس اتنا چست ہوتا ہے کہ اٹھنے بیٹھنے میں بھی دِقت کا باعث بنتا ہے ۔ قمیص کا چاک بڑھتے بڑھتے کمر تک پہنچنے کے بعد غائب ہوتا نظر آتا ہے یا قمیص بنیان کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ سب تقلید اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی مغربی رقاصہ یا مغرب کا کوئی پیشہ ور میراثی اور گویّا سٹیج پر اپنے مخصوص لباس میں نظر آتا ہے ۔یہ نفسیاتی اور ذہنی غلامی ہے، جسے دُور کرنے کے لیے یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کے مابین سنجیدہ مکالمے کرنے کی ضرورت ہے۔ مکالموں کے ساتھ مضامین بھی لکھے جائیں، تاکہ آیندہ نسل کو یہ احساس ہو کہ وہ کس طرح غیر شعوری طور پر بھونڈی نقالی میں مبتلا ہو کر اپنی اقدار کو ترک کررہی ہے اور جنسیت کا شکار ہو رہی ہے۔

ترقی اور نقطۂ کمال کا تعین

وہ قومیں جو اپنے تشخص کو برباد کرکے دوسروں کے دیے ہوئے اہداف کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیتی ہیں، وہ شاہراہ ترقی پر قدم نہیں رکھ سکتیں کیوں کہ درآمد شدہ اہداف وہ ہوتے ہیں جو بیرونی اقوام اپنے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیتی ہیں ۔اس صدی کے اہداف (Millennium development goals) جن پر ہماری ہر سیاسی حکومت نے بغیر کسی تکلف اور عقل کے استعمال کے آمنا و صدقنا کہہ کر انھیں اختیار کیا ہے، اپنی جگہ وہ بھی فحاشی و عریانیت اور جنسیت کے پھیلاؤ کا ایک سبب ہیں۔
تعلیم کے اہداف ہوں یا معاشرتی صحت کے معیارات، ان میں جنسی تعلیم ، حتیٰ کہ غیرانسانی جنسی تعلق کو ایک قابلِ قبول تصور بنا کر گوناگونی یا تنوع ( Diversity )کی دھوکا دینے والی اصطلاح کے زیرعنوان حکومتی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے ۔یہ جنسیت اور فحاشی کو ’اخلاقی‘مقام دلانے کی ایک کوشش ہے کہ انسانوں میں اس کا پایا جانا اس لیے برا نہیں ہے کہ مغرب نے اس بے راہ روی کو سینے سے لگا لیا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو جس قرض پر ہم پلنے کے عادی ہوچکے ہیں، اس کے حصول میں دِقت ہو گی ۔
ہر اخلاقی برائی کو ’معاشرتی ضرورت‘ کہہ کر ایک اخلاقی عمل بلکہ ایک لبرل اخلاقی عمل قرار دینا، نہ عقل سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ قومی تشخص اور اقدار سے کیوں کہ ایک کافر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک کی بنیاد اور اساس کلمۂ کفر پر ہے ۔ ایک عقل سے عاری شخص بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کا وجود صرف ایک کلمے کی بنیاد پر ہے، کہ یہاں اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہو گا ، نہ بیرونی قرضے اس کی قسمت طے کریں گے ، اور نہ کوئی لبرل اقدار ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی کہ جن کا بہت تذکرہ کیاجاتا ہے۔
گویا ہمارا تشخص اور ہمارا وجود صرف اور صرف نظریۂ پاکستان سے وابستگی کی بنا پر ہے۔ – صرف اورصرف کلمۂ طیبہ اور کلمے کا نظام اس ملک کی بنیاد ہے اور اس ملک میں صرف اسی ربّ کا نظام نافذ ہو گا ، جس سے قوم نے اس ملک کے قیام کے موقعے پر وعدہ کیا تھا ۔یہ ملک اللہ ربّ العزت نے بطور تحفہ اُس قوم کو عطا کیا تھا، جو اپنے تشخص کی تلاش کے لیے سرگرداں تھی ۔ پھر اس قوم نے رنگ ، نسل ، زبان ، صوبائیت کے تمام جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا الله کی بنیاد پر جدوجہد کی۔
 سات سال (۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء) کے قلیل عرصے میں برصغیر کے مسلمان ایک امت اور ایک نظریاتی قوم بن کر ابھرے، جنھیں یہ خطۂ زمین عطا ہوا۔یہ خطۂ زمین اللہ ربّ العزت کی جانب سے ہمیں صرف اور صرف اس لیے عطا ہوا ہے کہ یہاں کی تہذیب ، ثقافت ، معیشت، معاشرت ،سیاست ،سب کے سب دائروں میں اللہ کے احکامات اور اس کی شریعت سے رہنمائی لی جائے، اور ابلیسی ہتھکنڈوں سے بچ کر جنسی اور معاشرتی استحصال سے پاک معاشرہ قائم کیا جائے، نیز یہاں شرم ، حیا ، عزّت ، احترام ، عدل اور انصاف کے اصولوں کی فرماں روائی ہو ۔
حیا کے کلچر اور تہذیب کا احیا قابلِ عمل ہے۔ صرف اخلاصِ نیت، شعورِ حیات ، شعورِ منزل اور اپنی ذات ، گھراور معاشرے سے کام کے آغاز کی ضرورت ہے ۔ بعد کے مراحل پر کامیابی دینا اللہ ربّ العزت کی مرضی پر منحصر ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں پاکستان کے دستور کے بارے میں واضح کیا کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر  بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ یہاں وہ بیان ملاحظہ فرمایئے جو قائد اعظم نےامریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے دیا :

 The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fair play to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state, to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslim ___  Hindus, Christians and Paresis ___ but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan".

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپاؤں کی حکومت ہو۔ ہمارے ہاں بہت سے غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمور پاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کرسکیں گے۔(قائداعظم : تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلد چہارم، ص۴۲۱-۴۲۲)

اسلامی ریاست نہ تھیاکریسی ہے نہ مغربی جمہوریت

اس بیان میں قائداعظم نے تین بنیادی اصول واضح کر دیے۔ اول یہ کہ چوں کہ دستورسازاسمبلی ابھی دستورر پر کام کر رہی ہے، اس لیےدستور کی آخری شکل وہ ہوگی جو اسمبلی طے کرے گی لیکن اس کی جو بھی شکل ہو گی وہ اسلام کے ابدی اصولوں کے مطابق ہوگی۔دوئم یہ کہ سیاسی نظام نام نہاد مذہبی اجارہ داری، یعنی Theocracy پر مبنی نہیں ہوگا ۔ریاست اسلامی اصولوں کی پابند ہوگی لیکن کسی مخصوص مسلک کی پیروی نہیں کرے گی ۔سوئم یہ کہ اسلامی نظام ریاست میں غیرمسلموں کو ان کے تمام بنیادی حقوق اور تحفظات حاصل ہوں گے۔ یہ وہی تین اہم باتیں ہیں جو قرآن وسنت بار بار دُہراتے ہیں کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، کسی انسانوں کے گروہ یا پارٹی کی نہیں ہوسکتی (فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یوسف ۱۲:۴۰)

 قرآن و سنت نے غیر مسلموں کو ان کے مذہبی معاملات میں مکمل آزادی دی ہے اور بنیادی انسانی حقوق جان ،مال ،عزّت، مذہبی آزادی کے قیام کو مقاصد شریعت قرار دیا ہے (تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔الکافرون ۱۰۹:۶)۔ مستشرقین اور اکثر مغرب زدہ مسلمان دانش وَر یورپ کی تاریخ اور فکر کے تناظر میں بار بار یہ بات دُہراتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں یورپ کی طرح ایک مذہبی یا مسلکی گروہ کی اجارہ داری ہو گی۔ اسلامی ریاست میں Theocracy نہ ہونے کو معروف اسکالر علامہ اسد یوں بیان کرتے ہیں:

Since every adult Muslim has the right to perform each and every religious function,no person or group can legitimately claim to possess any special sanctity by virtue of religious functions entrusted to them. Thus the term "theocracy" as commonly understood in the West is entirely meaningless within the Islamic environment.

چونکہ ہر بالغ مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہرطرح کی مذہبی رسم ادا کرسکے، لہٰذا کوئی فرد یا گروہ قانونی طور پر اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے مذہبی رسومات کی ادایگی کے لیے خصوصی استحقاق دیا گیا ہے۔ لہٰذا ’تھیاکریسی‘ کی اصطلاح جیساکہ عموماً مغرب میں سمجھی جاتی ہے، اسلامی تصور میں مکمل طور پر بے معنی ہے۔ (Principles of State and Government in Islam،ص ۲۱)

نہ صرف علامہ اسد بلکہ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی پاپائیت (تھیاکریسی) کی مخالفت کرتے ہوئے حاکمیت الٰہی کے اصول کو یوں واضح کرتے ہیں:

اسلامی ریاست جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے، نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (Theocracy) ہے اور نہ جمہوری حکومت (Democracy) بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے۔ جو ذہنی اُلجھنیں آج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن میں ’اسلامی ریاست‘ کے تصور کے متعلق پائی جاتی ہیں وہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں جو لازماً اپنے ساتھ مغربی تصورات اور پیچھے مغرب کی تاریخ کا ایک پورا سلسلہ بھی اُن کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے:

۱-خدا کی بادشاہی قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) کے معنی میں، اور

۲- پادریوں اور مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ جو خدا کا نمایندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے۔

ان دو تصورات پر ایک تیسرے امرِواقعی کا بھی اضافہ ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقیات کے سوا کوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کر نہیں گئے، اور سینٹ پال نے شریعت کو لعنت قرار دے کرعیسائیوں کو احکامِ تورات کی پابندی سے آزاد کردیا۔ اب اپنی عبادت، معاشرت، معاملات اور سیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کو قوانین و احکام کی جو ضرورت پیش آئی اسے ان مذہبی پیشواؤں نے اپنے خودساختہ احکام سے پورا کیا اور ان احکام کو خدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔

اسلام میں اس مذہبی حکومت (Theocracy) کا صرف ایک جزآیا ہے، اور وہ ہے  خدا کی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کا دوسرا جز اسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہا تیسرا جز، تو اس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اور وسیع احکام کے ساتھ موجود ہے، اوراس کی تشریح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی قولی اور عملی ہدایات موجود ہیں جن کی روایات میں سے صحیح کو غلط سے ممیز کرنے کے مستند ذرائع ہمیں حاصل ہیں۔ ان دو مآخذ سے جو کچھ ہمیں ملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی فقیہ، امام،ولی یا عالم کا یہ مرتبہ نہیں ہےکہ اس کے قول و فعل کو حکمِ خداوندی کی حیثیت سے بے چون و چرا مان لیا جائے۔ اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کو اصطلاح میں ’مذہبی حکومت‘ (Theocracy)کہنا قطعاً غلط ہے۔(اسلامی ریاست، ص ۴۷۹-۴۸۰)

قائد اعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات میں یہ یکسانیت ظاہر کرتی ہے کہ جس شخص نے بھی اسلام کا مطالعہ کیا ہے، وہ یہ بات جانتا ہے کہ نظام شریعت اور اسلامی ریاست نہ تھیا کریسی یا کسی فرقہ کی جابرانہ حکومت ہے، نہ لادینی مغربی جمہوریت بلکہ شریعت کے اعلیٰ عالم گیر انسانی اخلاقی اصولوں کے نفاذ کا نام ہے۔مغرب زدہ دانش وَروں کا یہ واہمہ کہ اسلامی ریاست کا مطلب ’ملاؤں‘یا ’طالبان‘ کی حکومت ہے، ایک بے معنی اور بے حقیقت دماغی خلل ہے۔

گویا ایک عرصہ سے جو واویلا مچایا جاتا ہے کہ شریعت کا نفاذ ہوا تو بیچارے غیرمسلم مارے جائیں گے، ان کے حقوق سلب ہو جائیں گے، قائداعظم، علامہ اقبال، علامہ اسد اور مولانا مودودی کے تحریری بیانات اس غبارے کی ہوا نکال کر اسلامی ریاست کے منفرد ہونے کو وضاحت سے بیان کر دیتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اگر کوئی نام نہاد،’آزاد خیال دانش وَر‘یہ کہتا ہے کہ اسلامی ریاست ’مولویوں کے ٹولے‘ کی حکومت ہوتی ہے تو وہی جائزہ لے کہ وہ کہاں تک آزاد خیال ہے؟ کہاں تک خود ساختہ تصور ہی میں گم ہے اور نہ حق تک پہنچنے کی کوشش پر آمادہ ہے اورنہ اپنی رائے پر نظرثانی اورغور کرنے کے لیے تیار ہے۔ شاید ایسی ہی صورتِ حال میں قرآن حکیم نے یہ کہا کہ ’’ان کے پاس دل ہیں، مگر وہ سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں‘‘۔(الاعراف ۷:۱۷۹)

علامہ اسد اور  نظریہ پاکستان

مناسب ہو گا کہ علامہ اقبال کے ایک رفیق کار جن کا تذکرہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر تاریخ پاکستان پر لکھی گئی کتب میں کہیں نظر نہیں آتا، حالاں کہ وہ تحریک پاکستان کے فکری قائدین میں سے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں انھوں نے قومی تعمیر نوکےادارہ کے سربراہ کے طور پر جو خدمات انجام دیں، اور بعدازاں پیدایشی طور پر یورپی باشندہ کے ہونے کے باوجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے،یعنی نومسلم علامہ محمداسد۔ وہ قائد اعظم کی زندگی میں یہ بات تحریراً اپنےرسالے عرفات میں طبع کرتے ہیں :

… I do believe (and have believed for about fourteen years) that there is no future of Islam in India until Pakistan becomes a reality and that if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving it is possible to establish an Ideological, Islamic polity in our times no less than it was possible thirteen hundred years ago. But ask yourselves: Are all leaders of Pakistan movement, and the intelligentsia which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islam and nothing but Islam, provides the ultimate inspiration of their struggle?? Are they really aware of what it implies when they say, the objective of Pakistan is la ilaha illa‘Allah?? Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan??

میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کرقائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا : کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین، اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوؤں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ’لا الٰہ الا اللہ ‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟  پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟(’ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟‘ محمد اسد ایک یورپین بدوی، ترتیب و تدوین: محمد اکرام چغتائی، ص ۲۹۳)

 یہ بات یاد رہے علامہ اسد کی یہ تحریر مئی ۱۹۴۷ء کی ہے جو رسالہ عرفات میں لاہور سےطبع ہوئی ۔ یہ الفاظ کسی ’فرقہ وارانہ گروہ‘کے دباؤ میں نہیں کہے گئے۔ یہ الفاظ قائداعظم کے مکمل علم کے ساتھ کہے گئے اور ان الفاظ کو تحریر کرنے والا کوئی بند ذہن کا دینی مدرسہ کا فارغ نہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس کی علمیت سے علامہ اقبال اور قائد پوری طرح آگاہ تھے ۔اس لحاظ سے ان کی تحریر قائد کی فکر کی آواز بازگشت کہی جا سکتی ہے ۔

علامہ اسد آگے چل کر مزید وضاحت سے تحریک پاکستان کا مقصد واضح کرتے ہیں:

In the Pakistan movement, on the other hand, there undoubtedly exists such a direct connection between the people’s attachments to Islam and their political aims. Rather more than that the practical success of this movement is exclusively due to our people’s passionate, if as yet inarticulate desire to have a state in which the forms and objectives of government would be determined by the ideological imperatives of Islam – a state ,that is, in which Islam would not be just a religious and cultural “label” of the people concerned, but the very goal and purpose of the state-formation. And it goes without saying that an achievement of such an Islamic state –the first in the modern world would revolutionize Muslim political thought everywhere,and would probably inspire other Muslim peoples to strive toward similar ends; and so it might become a prelude to an Islamic revolution in many parts of the world.

بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست___ جو جدید دُنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیاسی افکار میں انقلاب برپا کردے گی، اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دُنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔(ایضاً، ص ۲۹۶)

پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے اور صرف نظام اسلامی کے لیے قائم کیے جانے کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے علامہ اسد بات کو آگے بڑھاتے ہیں:

It is, thus, quite legitimate to say that the Pakistan movement contains a great promise for an Islamic revival, and as far as I can see it offers almost the only hope of such a revival in a world that is rapidly slipping away from the ideals of Islam. But the hope is justified only so long as our leaders, and masses with them, keep the true objective of Pakistan in view and do not yield to the temptation to regard their movement just another of the many "national" movements so fashionable in the present day Muslim world a danger which, I believe is very imminent.

اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریک پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظرجاتی ہے، تحریک ِ پاکستان ایک ایسی دُنیا میں تجدید و احیاے اسلام کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُورہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبارپر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں، اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دُنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رُونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۹۶-۲۹۷)

مزید لکھتے ہیں:

In short, it is the foremost duty of our political leaders to impress upon the masses that the objective of Pakistan is the establishment of a truly Islamic polity; and that this objective can never be attained unless every fighter for Pakistan – man or women, great or small –honestly tries to come closer to Islam at every hour and every minute of his or her life that, in a word, only a good Muslim can be a good Pakistani.

مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریک ِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہرگھنٹے، اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔(ایضاً، ص ۳۰۶)

علامہ اسد کے خدشات درست ثابت ہوئے کہ مسلم لیگ میں جو لوگ اپنے مفادات کے لیے شامل ہوگئے تھے اور ایسے ہی وہ نوکرشاہی جسے انگریزکے تربیتی اداروں نے آداب حکومت سکھائے تھے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ مذہب اور دنیا دو الگ دائرے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور دونوں کو کبھی آپس میں ملنا بھی نہیں چاہئیے۔ مذہب ایک’ ذاتی معاملہ‘ہے اور یہ مسجد ، چرچ اور مندر تک محدود ہونا چاہیے۔ بقیہ تمام معاملات انگریز کے دیئے ہوئے ’روشن اصولوں‘ سے طے ہونے چاہییں، چنانچہ ایسی بیوروکریسی اور سیاستدانوں سے امید رکھنا کہ وہ قائد کے انتقال کے بعد تصور پاکستان کے نفاذ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ایک واہمہ سے زیادہ نہیں کہا جاسکتا۔

تحریکِ پاکستان سے متعلق خدشات

ہر وہ شخص جو معروضی طور پر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ اگر ۱۹۳۳ءمیں ظفراللہ خان نے چودھری رحمت علی کے اور علامہ اقبال کے تصور قیام پاکستان کو غیر عملی قرار دے کر رد کر دیا تھا تو کیا سرحدی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پاکستان کی حدود کا تعین ایمانداری سے کر سکتے تھے؟ اگر غلام محمد ،اسکندر مرزا اور دیگر افراد نے سازشوں کے ذریعے   ملک کے نظریاتی تشخص کو دبانا بلکہ تبدیل کرنا چاہا تو ایسے افراد سے کوئی اور توقع کی جاسکتی تھی؟ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ علامہ اسد کے خدشات درست تھے اور یہی وہ بات ہے جو مولانا مودودی نے کہی تھی کہ ہمارا مقصد محض ایک خطے کا حصول نہیں ہونا چاہیے بلکہ خطے کے حصول کے ساتھ ایسے افراد کی تیاری اور کردار سازی ہونا چاہیے جو اس خطے کو صحیح معنی میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور کی مثال بنا سکیں ۔علامہ اسد اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

To a Muslim who takes Islam seriously every political endeavour, must in the last resort ,drive its sanctions from religion , just as religion can never remain aloof from politics: for the simple reason that Islam, being concerned not only with our spiritual development but with the manner of our physical , social and economic existence as well , is a “political” creed in the deepest morally most compelling sense of this term. In other words, the Islamic religious aspect of our fight for Pakistan must be made predominant in all the appeals which Muslims leaders make to the Muslims masses. If this demand is neglected, our struggle cannot properly fulfill its historic mission.

ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سند ِ جواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اوراقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴)

علامہ اسداور قائد اعظم کی فکر میں اس یکسانیت کے باوجود دستور ساز اسمبلی کے اراکین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو قائد اعظم کے تصور پاکستان پر یقین رکھتے تھے اور وہ بھی جو اپنے مفادات کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے،اور ان کی وفاداریاں مروجہ نظام کے ساتھ تھیں۔ علامہ اسد کو ان حقائق کا پورا علم تھا ۔چنانچہ اس اندورونی تضاد یا فکری انتشار کو سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں:

The need for ideological, Islamic leadership on the part of our leaders is the paramount need of the day. That some of them -though by far not all are really aware of their great responsibility in this respect is evident, for example, from the splendid convocation address which Liaquat Ali Khan,the Quaid-e-Azam's principle lieutenant, delivered at Aligarh a few month ago. In that address he vividly stressed the fact that our movement drives its ultimate inspiration from the Holy Qur’an and that, therefore, the Islamic State at which we are aiming should drive its authority from the Shari‘ah alone. Muhammad Ali Jinnah himself has spoken in a similar vison on many occasions. Such pronouncements, coming as they do from the highest levels of Muslim League leadership go a long way to clarify the League‘s aims. But a clarification of aims is not enough. If these ideal aims are to have a practical effect on our politics, the high command of the league should insist on a more concrete elaboration, by a competent body of our intellectual leaders,of the principles on which Pakistan should be built.

ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں،تو گنتی کےچند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند سال قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست ِ راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریک ِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے۔ لہٰذاہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پرعملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پروضاحت و تشریح کا طریقہ اختیارکرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے۔ جو ان اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے، جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔(ایضاً، ص ۳۰۴-۳۰۵)

It is quite possible that before these lines appear in print the Quaid-e -Azam will have sent forth a call to the Muslim nation to establish a constituent assembly for Pakistan or if this has not been done so for, is bound to be done in the very near future. Hence Muslim legislators and intellectuals must make up their minds here and now as to what sort of political structure, what sort of society, and what sort of national ideals they are going to postulate. The fundamental issue before them is simple enough; shall our state be just another symbol of the world wide flight from religion, just one more of the many  "Muslim" states in which Islam has no influence whatever on the community’s social and political behavior or shall it became the most exciting, the most glorious experiment in modern history, our first step on the road which Greatest Man has pointed out to mankind? shall Pakistan only become a means of  "national" development of Muslims in certain areas of India - or shall it herald, to all over the world , the majestic rebirth of Islam as practical political proposition.

یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثراور عمل دخل نہیں ہے۔ نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اس شاہراہ میں پہلا قدم جو انسانِ کامل نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دُنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟(ایضاً، ص ۳۰۵)۔(جاری)

قوم ، ملک، جاے پیدایش اور زبان عموماً کسی گروہِ انسان کو اپنے تشخص اور وجود کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ مشرق ہو یا مغرب ، قبل اسلام کا دور ہو یا تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کے ادوار اور بعد میں آنے والے روشن خیالی ، نشاتِ ثانیہ اور انسان پرستی کے اَدوار، ہرزمانے میں اقوام عالم نے اپنی شخصیت اور وجود کو ان میں سے کسی نہ کسی تصور سے وابستہ کر کے خود اپنی تعریف بطور ایک خطہ میں بسنے والے افراد کے ( یونانی اقوام، افریقی اقوام ، ایشیائی اقوام)، یا رنگ ونسل کی بنیاد پر (زرد اقوام ، سفید اقوام ، سیاہ اقوام)،یا اپنی علاقائی زبان(انگلش ، فرنچ، جرمن، ڈچ) کی بنیاد پر اپنا تعارف کرایا۔حتیٰ کہ بحری راستوں کو بھی ان میں سے کسی ایک تصور سےمنسوب کر دیا ، مثلاً بحیرۂ عرب ، ساؤتھ چائنا سی وغیرہ ۔

قوم پرستی اور رنگ و نسل یا کسی خطے کی بنا پر اپنی پہچان کا تصور ، اسلام کے بنیادی عالم گیریت اور الہامی دین ہونے کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن یہ امت مسلمہ کے لیےایک سانحہ تھا کہ سیاسی میدان میں خلافت کے اسلامی تصور سے انحراف کے نتیجے میں خاندانی اور موروثی طرز حکومت رواج پا گیا۔ اس طرح اکثر مسلم فرماں رواؤں نے اپنے دینی تشخص کی جگہ نسلی ، لسانی یا قبائلی تعلق کی بنیاد پر اپنے آپ کو اموی ، عباسی ، فاطمی، مغل ، عثمانی کہلوانا پسند کیا ۔

مسلمان فرماں روا جنھوں نے طویل عرصے تک برصغیر پرحکومت کی ، اسلام کے دعوتی پہلو پر بہت کم توجہ دی۔تاہم، اپنے اقتدار کو اقلیت میں ہونے کے باوجود تقریباً آٹھ صدی سنبھالے رکھا۔ اگر وہ دین کی اشاعت کے لیے حکمت عملی بناتے تو بہ آسانی آبادی کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوجاتی، یا وہ اسلام کے ان اصولوں کو جو شریعت نے بیان کیے تھے، نافذ کرتے تو اسلام کے عدل اجتماعی سے متاثر ہو کر بے شمار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر فرماں روا ، موروثی بادشاہت کے تحفظ کے علاوہ کسی اور اعلیٰ مقصد سے دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔ بہرصورت مغلوں کی حکومت کے زوال اور انگریز سامراجیت کے یہاں پر غلبے کے بعد برصغیر میں جو غالب رجحانات پائے جاتے تھے،انھی میں سے ایک رجحان یہ تھا کہ انگریزی طور طریقوں کی پیروی کو اس تعبیر کے ساتھ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ’’انگریز نے اکثر اچھائیاں اسلام سے ہی سیکھی ہیں، گو اسلام قبول نہیں کیا‘‘۔

ایک طبقے نے انگریز کی ہر بات کو کفر اور شرک قرار دیتے ہوئے مسلسل جہاد کی حالت کا اعلان کیا ،حتیٰ کہ جمعہ کا قیام بھی ملتوی کر دیا۔چنانچہ فرائضی تحریک نے بنگال میں یہی موقف اختیار کیا ۔ ایک طبقے نے انگریز سے نجات کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کی، لیکن بہت جلد ان حضرات کو تجربات نے یہ سکھایا کہ یہ اتحاد ان کی نجات کی جگہ مقامی ہندو اکثریت کی مستقل غلامی پر جا کر ختم ہو گا۔اس لیے مسلمانوں کے دین ، تہذیب و ثقافت اور مفاد ات کے تحفظ کی صرف ایک ہی شکل ممکن ہے کہ ان کے لیے ایک آزاد خطہ وجود میں آئے ۔ یہی وہ شعور تھا، جو تصور پاکستان کی شکل میں دو قومی نظریہ کی صورت میں وجود میں آیا اور جس کی تعمیر میں سر سید احمد خان، علامہ محمد اقبال ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی  اور سب سے بڑھ کر قائداعظم محمد علی جناح نے قیادت کا کردار ادا کیا۔زیر نظر مقالہ اس تصور کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی ایک کوشش ہے ۔

برصغیر میں اسلامی افکار کا فروغ

برصغیر میں اسلام کا تعارف ، محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے علاوہ بےشمار تاجروں اور صوفیاے کرام کی مساعی جلیلہ سے ہوا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں تصوف آمیز اسلام، جو ظاہر کے مقابلے میں قلب اور داخل کی اصلاح کو فوقیت دیتا تھا، اور جو بادشاہت اور عوام کے لیے زیادہ سہولت مند تھا، رواج پا گیا ۔اس زمینی حقیقت کی بنا پر وہ علماے کرام بھی جو اعلیٰ سیاسی شعور رکھتے تھے اور جو حاکمیت الٰہیہ کے تصور کو سمجھتے تھے، غالباً مصلحت عامہ کی بنا پر بادشاہت کی مخالفت کی جگہ نصیحت کے ذریعے اس کی اصلاح کی طرف راغب رہے ۔حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور اور صوفیا نے بادشاہت کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ دعوتی اور اصلاحی سر گرمیوں سے نظام میں بہتری کی کوشش کی۔

اس پس منظر میں اسلام کا جو تصور برصغیر میں رواج پا یا، وہ ایک محدود مذہبیت کا تصور تھا، جو چند عبادات اور شخصی معاملات تک محدود ہو گیا ۔اسی لیے انگریز کی آمد سیاسی قیادت کی تبدیلی سے زیادہ نہیں سمجھی گئی اور برصغیر میں کم از کم مسلمانوں نے یہی سمجھا کہ جب تک ہند میں مسلمانوں کو سجدے کرنے کی اجازت ہے، ان کا دین بھی آزاد ہے ۔ وہ عبادت کی آزادی کو نہ صرف مذہبی بلکہ دینی آزادی بھی سمجھتے رہے ۔یہی وہ فکر تھی جس کی علم برداری دیوبند جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ نے بھی اختیار کی، اور جسے مسئلہ خلافت جیسی علمی کتاب تحریر کرنے والے مفسر قرآن مولانا ابو الکلام آزادؒ نے اختیار کیا اور ہندو کانگریس کے ساتھ مکمل تعاون کے ذریعے ’ہندستانی قومیت‘، یا ’ایک قومی نظریہ‘ کا علَم بلند کیا۔ اس طرح یہ فکر برصغیر کے مسلمانوں کے ایک طبقے میں سرایت کر گئی۔

چنانچہ مولانا حسین احمد مدنیؒ ناظم دیو بند نے ایک کتابچہ تصنیف کیا(متحدہ قومیت اور اسلام) کہ مسلمان اور ہندو دراصل ایک ہی قوم ہیں اور مذہب ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔اپنے نتیجے کے اعتبار سے یہ تصور نہ صرف ہندوؤں بلکہ انگریز سامراج کی فکر کو تقویت اور حمایت فراہم کرتا تھا۔ اس لیے اس کی پذیرائی کی گئی ۔اس کے برعکس علامہ محمد اقبالؒ ، قائد اعظمؒ اورمولانا مودودیؒ نے دوقومی نظریہ کو تحریک پاکستان کی بنیاد بنایا ۔ علامہ اقبال نے فکری طور پر اپنے خطبات اور شاعری کے ذریعے اور خصوصاً اپنے کُل ہند مسلم لیگ کے الٰہ آباد میں صدارتی خطاب میں یہ بات واضح کی کہ اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ ہدایت ہے ۔ ادھر مولانا مودودیؒ نے مولانا حسین احمد مدنی ؒکے دلائل کی تردیدایک اہم علمی رسالہ مسئلہ قومیت لکھ کرکی ۔جسے مسلم لیگ کی قیادت نے ملک گیر پیمانے پر جگہ جگہ تحریک پاکستان کی نظری بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔

اسی طرح قائد اعظم نے ۱۹۳۰ء کے بعد اپنے تمام خطبات اور بیانات میں ایک ہی بات کو پیش کیا کہ مسلمان اپنے دین ، اپنی ثقافت ، اپنی تاریخ ، اپنے نام وَران و مشاہیر کے لحاظ سے ہندوؤں سے بالکل مختلف ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے ایک مکمل اور الگ قوم ہیں، جو زمین ،  رنگ اورنسل کی قید سے آزاد اور صرف اور صرف عقیدہ و ایمان کی بنا پر ایک قوم ہیں، اور ان کے دین کا تحفظ صرف اور صرف اسی شکل میں ہو سکتا ہے، جب وہ آزادانہ طور پر اپنے نظام حکومت ، نظام معیشت ، نظام معاشرت، نظامِ قانون ، نظام تعلیم غرض زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی بنیاد پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوں ۔ظاہر ہے یہ عمل آزاد خطہ اور سر زمین کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے پاکستان کا وجود میں آنا، ایک منطقی ضرورت تھا ۔

اس مختصر مقالے کا مقصد ان ’کرم فرماؤں‘ کے خیالات کا مفصل جواب دینا نہیں ہے، جو آج بھی متحدہ قومیت کے مرض کا شکار ہیں۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ براہ راست قائداعظم سے یہ پوچھا جائے کہ ان کا تصور پاکستان ان کے اپنے الفاظ میں کیا ہے ؟ اور کیا ان کا یہ موقف ان کے اعتماد ، مستقل مزاجی اور فکری بلوغت کا مظہر ہے یا وہ کسی سیاسی دباؤ میں آکر کچھ طبقات کو خوش کرنے کے لیے، یا غیر سنجیدگی کے ساتھ محض ہوا کے رُخ کو دیکھ کر کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے رہے ۔یہ معاملہ نہ صرف ان کی شخصیت اور مقام سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ اس کا بہت گہرا تعلق ملک کے تشخص، اس کی نظریاتی بنیاد اور اس کی داخلی اور خارجی حکمت عملی کے ساتھ ہے۔

نظریہ   پاکستان کا ارتقا

تصورِ پاکستان، یعنی ایسی سرزمین کا حصول جس پر زمین کے اصل مالک کا نظام اس کی مرضی کے مطابق نافذ ہو ، جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے ،اسی وقت وجود میں آچکا تھا، جب برصغیر میں پہلے مسلمان نےقدم رکھا۔ اس کی توثیق بعد میں پیش آنے والے واقعات نے کی ۔ انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اس خطے میں محمد بن قاسم کی آمد اور مقامی افراد کا ابن قاسم کے   عدل و احسان کے نظام کو پسند کرتے ہوئے اسے اپنا نجات دہندہ سمجھنا، اس تصور کا ایک حقیقی عکس تھا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت کے زوال کے دوران حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنے کے لیے نجیب الدولہ اوراحمد شاہ ابدالی کو دعوت دینا اس عمل کا حصہ تھا ۔ خود ان کے اپنے گھر کے فرد شاہ اسماعیل شہیدکاسید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ شامل ہوکر ۱۸۲۷ء میں پشاور میں خلافت قائم کرنا، اس خطے میں احیاےاسلام اور نظام عدل کے قیام کی ایک کوشش تھی۔ اس سے قبل ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی میں انگریزوں کی کامیابی نے ایک نئی صورتِ حال پیدا کردی تھی۔

 اب دہلی کی مغلیہ سلطنت ، بنگال اور دیگر مقامات پر مسلمان فرماںرواؤں کی جگہ برطانیہ کے پنشن خوار نواب اور فرماںرواؤں کے دور کا آغاز ہوا۔ ایسا شگاف نہ صرف برصغیر میں بلکہ  سلطنت عثمانیہ میں بھی پیدا ہوا۔برصغیر کے بعض جرأت مند مسلمان فرماںرواؤں مثلاً میسور کے حکمران حیدرعلی اورٹیپوسلطان نے اٹھارھویں صدی کے آخر میں اپنی مقدور بھر کوشش کی اور ذلت کی زندگی کی جگہ شہادت کے اعلیٰ مقام کو منتخب کیا۔ لیکن۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں سیّد احمد کی شہادت کے تھوڑے عرصے بعد ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی شکل میں ایک مزید کوشش کے بعد برصغیر کے مسلمان بڑی حد تک مایوسی کا شکار ہو گئے اور اب انھیں آسان راستہ یہی نظر آیا کہ وہ انگریز کے اقتدار کو مانتے ہوئے اپنے ذاتی فوائد کے حصول کے لیےمفاہمت کارو یہ اختیار کریں۔

جو مسلمان اس پر آمادہ نہ تھے،انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کی زمینیں، ان کے کاروبار ختم کردیے گئے اور ہندو زمینداروں نے بڑھ چڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا شروع کیا ۔بہت سے مقامات پر" ڈاڑھی ٹیکس" لگایا گیا۔ گائے کی قربانی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مساجد کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔یہ سب انگریز کی سرپرستی میں ہوا اور حکومت نے اس پر کوئی گرفت نہ کی۔

 انگریز سامراج نے مسلمانوں کو غلام بنانے کے لیے عسکری وانتظامی قوت کے ساتھ تعلیمی قوت کو بھی استعمال کیا اور سرکاری زبان فارسی اور عربی اور عوامی زبان اردو کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر ان تمام مسلمانوں کے لیے جو کل تک تعلیم یافتہ تھے اور حکومت کے مختلف شعبوں عدالتوں، انتظامیہ اور تعلیمی ذمہ داری ادا کر رہے تھے، ایک لمحے میں تعلیم یافتہ سے ناخواندہ میں تبدیل کردیا ۔ ہندو اس سے بہت پہلے انگریز کے ساتھ ساز باز اور تعاون کرنے میں پیش پیش تھے اور انگریزی تعلیم کو اختیار کر چکے تھے اور سرکاری مناصب کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مئی ۱۸۵۷ء میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں ایک مدرسے کا آغاز کیا، جو آگے چل کر اینگلو محمڈن اورینٹل کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسری جانب ہندو ۱۸۳۱ء سے انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور   راجا رام موہن رائے کی کوششوں سے برطانوی حکومت ان کے ساتھ کھل کر تعاون کر رہی تھی۔ ہندوؤں کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸۵۲ء تا ۱۸۶۲ء کلکتہ ہائی کورٹ میں ۱۴۱ وکلا رجسٹر کیے گئے، جن میں سے صرف ایک مسلمان تھا۔ اس صوبے کے ۲۱۴۱گزیٹڈ افسران میں صرف ۹۲ مسلمان تھے ۔ اس بات سے ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم، کاروباراور پیشہ ورانہ شعبوں میں ہر طرف ہندو چھائے ہوئے تھے، خصوصاً بیوروکریسی میں ہندو عمل دخل غیر معمولی تھا۔

انیسویں صدی میں برصغیر میں مسلمانوں کا سیاست میں کوئی نمایاں اثر نظر نہیں آ رہا تھا۔اس صورتِ حال میں ۱۸۸۵ءمیں بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس انگریز حکمرانوں کی مشاورت اور حمایت کے ساتھ قائم ہوئی، تاکہ عوامی سطح پر بھی انگریز کی حمایت حاصل کی جائے اور مسلمان جو انگریز حکومت کے رویے سے غیر مطمئن اور شاکی تھے، ان کے مقابلے میں ایک توازن پیدا کرنے والی عوامی قوت انگریز کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ انڈین کانگریس کے ذمہ داران نے کھلے عام انگریز سے اپنی وفاداری کی بنیاد پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔

 مسلمانوں کو جگانے والا ایک واقعہ اس دوران میں یہ پیش آیاکہ ۱۹۰۵ء میں برطانوی وائس رائے ہند لارڈ کرزن نے اپنی اصلاحات میں بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، ایک حصہ مشرقی بنگال اور آسام کا جس میں مسلمان اکثریت تھی اور اس کا مرکز ڈھاکاتھا ،مشرقی بنگال بعد میں مشرقی پاکستان بنااور دوسراحصہ مغربی بنگال جس کا مرکز کلکتہ تھا -یہ تقسیم ہندوؤں کو گوارا نہیں ہوئی ۔انھوں نے مسلسل مہم چلا کراور حکومت میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ ان حالات نےہر صاحب ہوش مسلمان کو یہ بات باور کروا دی کہ برصغیر میں بسنے والے قطعاً ایک قوم نہیں ہیں بلکہ یہاں صدیوں سےدو اقوام موجود رہی ہیں، جن کے مفادات ،عقائد، دین، تاریخ ،ثقافت، زبان ہر چیز دوسرے سے ممتاز ہے اور کوئی بھی حکومت جس کی بنیاد محض کثرت تعداد پر ہو مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی ۔ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں نواب وقارالملک کی صدارت میں کُل ہند مسلم لیگ کا قیام اسی شعور کا اظہار تھا۔

 یہ جداگانہ قومی تصور ہی تھا جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے مختلف وفود انگریز وائسرائے سے وقتاً فوقتاً ملے ۔ مثلاً آغا خان سوم کی سربراہی میں لارڈ منٹو سے ملاقات اور یہ مطالبہ کے جداگانہ انتخابات کرائے جائیں، اسی فکر کا ایک مظہر تھا۔ لیکن معاہدوں کی سیاست مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔ ۱۹۱۶ءسے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کے صرف ۹ ماہ بعد ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ء کو شاہ آباد ،آگرہ اور اعظم گڑھ میں ۲۵ہزار ہندوؤں نے مسلم دیہات پر حملہ کر کے بہیما نہ قتل و غارت اور مسلمانوں کو زندہ جلا کر نام نہاد ’اتفاق‘کی حقیقت کو واضح کر دیا۔۱۹۲۸ء میں ’نہرورپورٹ‘ نے ’لکھنؤ معاہدہ‘ کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے مخلوط انتخابات اور ایسی تجاویز دیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کا تشخص اور تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔

اس تاریخی تناظر میں ۱۹۳۰ء میں الہ آباد کے کُل ہند مسلم لیگ کنونشن میں اپنے صدارتی خطاب میں علامہ محمد اقبال نے مسلمانان ہند کے مستقبل کے حوالے سے شمال مغربی ہندستان میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ایک آزاد ریاست کی تجویز پیش کی۔ ۱۹۳۳ءمیں چودھری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم نے اپنے فکرانگیز پمفلٹ Now or Never میں علامہ کے خواب کو اپنے الفاظ کی شکل میں پیش کیا۔۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں ایک فیڈرل نظام کی تجویز دی گئی تھی ،اس دوران یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ کانگریس کا تصور متحدہ قومیت، یعنی زمین یا سکونت کسی قوم کی قومیت کی بنیاد ہوتی ہے، مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

انڈین نیشنل کانگریس کے تصورِ متحدہ قومیت کی حمایت میں مسلمانوں کی جانب سے دارالعلوم دیوبند کے علما کا ایک مؤثر طبقہ سب سے آگے تھا۔ چنانچہ مولانا سیّد حسین احمد مدنی صاحب اور ان کے ہم خیال علما نے، جن میں بعض علما بعد میں سیاسی مناصب پر فائز ہوئے، پوری قوت سے کانگریس کی حمایت اور مسلم لیگ کی مخالفت کی۔کانگریس کے حمایتی علما میں مولانا ابوالکلام آزاد سب سے آگے تھے ، جو بعد میں مرکزی وزیر تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔

اس کے برعکس دارالعلوم دیوبند ہی کے اکابر علمامیں سے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے علاوہ مولانا مودودی نے کھل کر دو قومی نظریہ کی حمایت کی ۔

مولانا مودودی نے ایک سلسلہ مضامین مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش تحریر کیا اور ایک رسالہ مسئلہ قومیت تصنیف کیا جس کے بارے میں ڈاکٹر اشتیاق قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث پر مبنی اس رسالے نے مولانا حسین احمد مدنی کے موقف کو پُرزہ پُرزہ کردیا اور انتہائی سنجیدہ ٹھنڈے اور عقلی اور قرآن و حدیث پر مبنی دلائل سے دو قومی نظریہ پر ناقابلِ تردید تحریر پیش کی:

۱- اس رسالے کو مسلم لیگ نے بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا ۔علامہ اقبال نے مولانا مدنی صاحب پر سخت تنقید شعر کی زبان میں کی :

عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ

 زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیست

سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است

چہ بے خیرز مقام محمد عربیست

بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ

 اوست  اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست

 [عجم کو ابھی تک رموز دیں کی خبر نہیں، ورنہ دیوبند کے حسین احمد یہ بوالعجبی نہ کرتے۔ یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی سے کس قدر بے خبری ہے۔ خود کو مصطفےٰ کی بارگاہ میں پہنچاؤکہ دین پورے کا پورا ان سے عبارت ہے۔ اگر تو اس تک نہ پہنچا تو سب کچھ بولہبی ہے]۔

 اور دوسری جانب تصور قومیت، یعنی دین کی بنیاد پر قومیت کا تصور جسے مولانا مودودی نے اپنے رسالے میں وضاحت سے بیان کیا تھا اسے علامہ محمد اقبال نے یوں بیان کیا:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

اس دوران مولانا عبدالماجددریابادی کے بقول یوپی صوبہ کی مسلم لیگ نے ایک مجلس قائم کی کہ جس اسلامی حکومت کے قیام کے لیے پاکستان بنانے کا خیال ہے، یہ مجلس اس کا نقشہ مرتب کرے۔ اس میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا آزاد سبحانی ، اور خود مولانا عبدالماجد دریابادی کو شامل کیا گیا۔

 ۲- جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ہی تحریکِ پاکستان کا بنیادی مقصد تھا اور اس غرض کے لیے مسلم لیگ خود ایسے علما کی امداد حاصل کر رہی تھی، جو دو قومی نظریہ کے حامی تھے، لیکن مسلم لیگ کے ممبر نہیں تھے ۔

مسلم لیگ کی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح، نواب بہادر یارجنگ، نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب خان نشتر ،خواجہ ناظم الدین ،مولوی اے کے ایم فضل الحق، مولانا حسرت موہانی اور قائداعظم کے قریبی حلقہ کے افراد مثلاً علامہ محمد اسد دو قومی نظریہ اور پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ جس کا اظہار ان قائدین نے بے شمار مواقع پر اپنے خطبات ،خطوط اور بیانات میں کیا۔

یہ ایک عجیب معما ہے کہ ان تمام دستاویزات کو نظرانداز کرتے ہوئے، پاکستان کے نام نہاد آزاد خیال دانش وَر صرف ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی اس تقریر کو سیکولرزم کی تائید میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں، جس میں قائد اعظم نے سیکولر یا مغربی جمہوریت کا لفظ تک استعمال نہیں کیا، جب کہ قائد نے دیگر مواقع پر واضح طور پر پاکستان کے لیے اسلامی تشخص اور مغربی جمہوریت کے پاکستان کے لیے ناموزوں ہونے کا بار بار اظہار کیا ۔ قائد کے ان خطبات کو معلوم نہیں کیوں یہ دانش وَر پڑھنے سے گریز کرتے ہیں ؟

اس مختصر تاریخی پس منظر کے بعد ہم قائداعظم اور ان کے رفقاء کے پاکستان کے بیانیہ کو کسی تعبیر و تشریح کے بغیر ان کے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقتباسات اصل زبان میں درج کیے جا رہے ہیں تاکہ ترجمہ کرتے وقت تعبیر کا کوئی دخل نہ ہو اور اصل مدعا بالکل اسی طرح سامنے آئے، جیسے اظہار خیال کرنے والے نے بات کہی ہے ۔

علامہ اقبال کا تصور پاکستان

قائد اعظم کے فکری رہنما اور مسلم لیگ سے براہ راست وابستہ سیاسی بصیرت اور دینی فہم رکھنے والے علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے کنونشن سے ۱۹۳۰ء میں اپنے خطبۂ صدارت میں جو بات تحریراً پیش کی، وہ اقبال اور قائداعظم کی فکر کی نمایندہ اور مسلم لیگ کی اعلان شدہ پالیسی کا درجہ رکھتی ہے ۔علامہ نےمسئلے کی نبض پر ہاتھ رکھ کرواضح اور غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ مسلم قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے جو زندگی کو سیاسی اور مذہبی، مادی اور روحانیت کے الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی تعلیم کے ذریعے مسلمان کے ہر عمل کو دین کے دائرے میں اور ہر سر گرمی کی بنیاد دین کو قرار دیتا ہے:

"What, then, is the problem' and its implications?? Is religion a private affair? Would you like to see Islam as a moral and political ideal, meeting the same fate in the world of Islam as Christianity has already met in Europe?? Is it possible to retain Islam as an ethical ideal and to reject it as a polity, in favour of national politics in which  [the] religious attitude is not permitted to play any part??  This question becomes of special importance in India, where the Muslims happen to be in a minority. The proposition that religion is a private individual experience is not surprising on the lips of a European"....

سوال یہ ہے کہ آج جو مسئلہ ہمارے پیش نظر ہے اس کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا واقعی مذہب ایک فرد کا نجی معاملہ ہے ، اور کیا آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو مغرب میں مسیحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کوبطور ایک اخلاقی تخیل کے توبرقرار رکھیں، لیکن اس کے نظامِ سیاست کےبجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں، جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا؟ ہندستان میں تو یہ سوال اور بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ باعتبار آبادی ہم اقلیت میں ہیں ۔یہ دعویٰ کہ مذہبی ارادت محض انفرادی اور ذاتی واردات ہیں، اہلِ مغرب کی زبان سے تو تعجب خیز معلوم نہیں ہوتا....

The religious ideal of Islam, therefore, is organically related to the social order which it has created. The rejection of the one will eventually involve the rejection of the  other. Therefore the construction of the polity on national lines, if it means a displacement of the Islamic principle of solidarity, is simply unthinkable to a Muslim…

لہٰذا، اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے جو خود اسی کا پیداکردہ ہے، الگ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نےایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک بھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غورکرنے کے لیے آمادہ ہوگا جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر جو اسلام کے اصولِ اتحاد کی نفی کرنے پر مبنی ہو۔

The principle of European democracy cannot be applied to India without recognizing the fact of communal groups. The Muslim demand for the creation of a Muslim India within India is, therefore, perfectly justified....

مغربی جمہوریت کا اصول مختلف قومیتوں کی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ہندستان میں نافذ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا مسلمانوں کا انڈیا میں مسلم انڈیا کی تشکیل کا مطالبہ مکمل طور پر منصفانہ ہے…

I would like to see the Punjab, North-West Frontier Province, Sind and  Balochistan amalgamated into a single State. Self-government within the British Empire, or without the British Empire, the formation of a consolidated North-West Indian Muslim State appears to me to be the final destiny of the Muslims, at least of North-West India.

میری ذاتی طورپر خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد [خیبرپختونخوا]، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہند کےمسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

"I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State ln the best interests of India and Islam. For India it means security and peace resulting from an internal balance of power; for Islam an opportunity to rid itself of the stamp that Arabian imperialism was forced to give it, to mobilise its law, its education, its culture, and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of modern times…"

میں صرف ہندستان اور اسلام کے فلاح و بہبودکے خیال سے ایک منظم مسلم ریاست کے قیام کامطالبہ کر رہا ہوں۔اس سے ہندستان کے اندر توازنِ قوت کی بدولت امن و امان قائم ہوجائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پرقائم ہیں اس جمود کو توڑڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی ، بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہوجائیں گے۔

علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ذہن میں یہ مسئلہ بالکل واضح تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی بالکل بے معنی ہے اگر تقسیم ملک کے بعد بھی ہندوؤں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کوصرف اپنے مندر ، چرچ اور مسجد جانے کی اجازت ہو، اور وہ اپنی ذاتی زندگی میں روزہ، نماز ،زکوٰۃ اور دیگر مراسمِ عبودیت ادا کرسکتے ہوں۔’ مذہب‘پر اس نوعیت کے عمل سے نہ تو انگریز سامراج نے کبھی روکا اورنہ ہندو اکثریت کے ماتحت ہونےکے بعد ہندستان کا سیکولر دستور اس سے روک سکتا تھا، نہ کسی سیکولر نظام نےدنیا کے کسی بھی خطے میں یہ اعلان کیا کہ وہ عبادت کی آزادی نہیں دے گا۔

اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا نئے بننے والے پاکستان کی بنیاد علاقائی، لسانی یانسلی قومیت ہوگی جیسے یورپ میں پائی جاتی ہے؟ اس لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بار بارجن باتوں کو واضح کیا ان میں اول یہ تھی کہ اسلام میں دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ دوم یہ کہ پاکستان کا اسلامی تشخص ہی اس کی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس پختہ عزم کا اظہا کیا گیا کہ کہ نئے ملک میں اسلامی تعلیمات، قوانین ،ثقافت ، سیاسی نظام ،روایت علم اور معیشت کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب اور نافذ کیا جائے گا ۔ دونوں قائدین کےواضح بیانات اور تحریر وں میں یہ با ت تکرار کے ساتھ کہی جاتی رہی، حتیٰ کہ مسلمانانِ ہند نے اس بات پر یقین کیا اور اس کے نتیجے میں عامتہ المسلمین نے جان، مال،عزّت، ہر چیز اس خطۂ زمین پر قربان کرتے ہوئے وہ عظیم قربانی دی، جس کی انسانی تاریخ میں نظیرتلاش کرنا بے حد مشکل ہے۔

علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے اسی کنونشن میں یہی بات بیان کی :

"Islam does not bifurcate the unity of man into an irreconcilable duality of spirit and matter. In Islam, God and universe, spirit and matter, church and state are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam, matter is spirit realizing itself in space and time".

لیکن اسلام کےنزدیک ذاتِ انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ مذہب اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، کلیسااور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزاہیں ۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر جو کسی دوسری جگہ واقع ہے، ترک کر دینا چاہیے۔اسلام کے نزدیک مادہ روح کی ایک شکل کا نام ہے جس کا اظہار قیدمکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔

اسلامی ریاست کے اسی تصور کو علامہ اقبال اپنے خطبے The Principal of Movement  in the Structure of Islam (الاجتہادفی الاسلام) میں یوں بیان کرتے ہیں :

"The essence of Tawhid, as a working idea, is equality, solidarity and freedom. The state, from the Islamic standpoint, is an endeavor to transform these ideal principles into space- time  forces, an aspiration to realize them in a definite human organization. It is in this sense alone that the state in Islam is a theocracy, not in the sense it is headed by a representative of God on earth, who can always screen his despotic will behind his supposed infallibility… All that is secular is, therefore sacred in the roots of its being.....There is no such thing as a profane world. All this immensity of matter constitutes a scope for the self-realization of spirit. All is holy ground. As the Prophet so beautifully puts it:  "The whole of this earth is a mosque"...The state, according to Islam is only an effort to realize the spiritual in a human organization.

گویا بہ حیثیت ایک اصولِ عمل، توحید اساس ہے حُریت ، مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگراس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروے اسلام ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کرظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں ۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنے مفروضہ معصومیت کے عُذر میں اپنے جورو استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے… جس کا ماحصل یہ ہے کہ مادی کے بحیثیت مادی کوئی معنی ہی نہیں ، اِلا یہ کہ ہم اس کی جڑیں روحانی میں تلاش کریں۔ بالفاظِ دیگر یہاں کسی ناپاک دنیا کا وجود نہیں… برعکس اس کے مادے کی ساری کثرت روح ہی کے ادراک ذات کا ایک میدان ہے اور اس لیے جو کچھ بھی ہے، مقدس ہے۔ کیا خوب ارشاد فرمایا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’ہمارے لیے یہ ساری زمین مسجد ہے‘‘۔ لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے ریاست کے معنی ہوں گے ہماری یہ کوشش کہ ہم جسےروحانی کہتے ہیں ، اس کا حصول اپنی ہیئت اجتماعیہ ہی میں کریں (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ترجمہ: سیّد نذیر نیازی، ص ۲۲۸-۲۲۹)۔(جاری)

 امریکا میں نسل پرستی کے تناظر میں ہونے والے حالیہ واقعات ، احتجاج اور فسادات نے عالمی سطح پر بعض ایسے مباحث اور عملی مسائل کو مزید تازہ کر دیا ہے جن پر وقتی، معاشی ،معاشرتی اور صحت سے وابستہ مسائل کی بنا پر ہمارے اذہان کم توجہ دیتے ہیں۔

ان مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ اس نظریاتی اور اصولی تقابل کا ابھر کر آنا ہے، جو اُمت مسلمہ اور تحریکات اسلامی کی اساس ہے۔ قرآن کریم نے اسلام کو بطور دینِ حق پیش کیا ہے  جس کا ہدف شہادتِ حق ، قیامِ عدل و توازن اورحقوقِ انسانی کا تحفظ ہے ۔وہ نسل پرستی، اوہام پرستی، وطن پرستی، مادیت اور مالی منفعت کے بتوں کو پاش پاش کر کےایک اعلیٰ اور جامع ا خلاقی تصورِ حیات فراہم کرتا ہے جس میں افراد کی زندگی کا محور اصول اور اقدار ہیں نہ کہ شخصیات،گروہ یا محض مادی و سماجی مفادات۔ وہ کسی شخصیت کو تذلیل کا نشانہ نہیں بناتا، حتیٰ کہ مشرکین کے بتوں کو بھی بُرے ناموں سے پکارنے کی ممانعت کرتا ہے لیکن شرک، ظلم ، طغیان، فساد ، حقوقِ انسانی کی پامالی کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہے اور اس جدوجہد کے لیے مال اور جان کی قربانی کو عبادت قرار دیتا ہے۔ اس ضمن میں وہ ایک جانب شرک اور استحصالی نظام کی بنیادی فکر پر کاری ضرب لگاتا ہے، اور دوسری جانب مثبت اور تعمیری رویہ اختیار کرتے ہوئے انسانی فوز و فلاح اور کامیابی کے لیے عدل و توازن پر مبنی معاشرتی، معاشی، سیاسی، دفاعی، ثقافتی اور تعلیمی انقلاب کے لیے بنیادی ہدایات اور رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

اُمت مسلمہ اور اسلامی تحریکات کا اصل کام یہی ہے کہ وہ ایک تہذیبی، اصولی اور نظریاتی پس منظر میں قرآن و سنت کے موقف کو عصری زبان میں پیش کریں تاکہ اُمت مسلمہ اجتماعی طور پر زندگی کے اس متبادل نظام کو قائم کرسکے۔ یہ تحریکات اسلامی معروف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مختلف ایک ایسے نظم کا نام ہے، جو جزوی اور وقتی مسائل کے مقابلے میں نظام کی اصلاح اور تبدیلیِ نظام کو اوّلیت دیتا ہے ۔اس کا مقصد اقتدار پر کسی نہ کسی طرح قابض ہونا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور پورے انسان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظام میں اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے، تاکہ ریاستی اعضا، ریاستی تصور کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں اور زندگی کے ہر شعبے میں توازن پیدا ہو سکے۔

اس حوالے سے اگر آج کی دنیا پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی واضح نشانیاں اور آیات آنکھوں کے سامنے آرہی ہیں، جو دین اسلام کی سچائی ،انسانوں کے لیے اس کی ضرورت، اور اسلام کے دیے ہوئے انسانی حقوق کے تصور اور تعلیمات کی صداقت میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں ۔ اب ابلاغ عامہ کے ذرائع کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی پس پردہ نسل پرستی اور منافرت کو مکمل طور پر چھپا سکیں۔ کسی کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ امریکا اور یورپ میں ہونے والے حالیہ واقعات سے صرفِ نظر کر سکے۔ امریکا میں افریقی النسل امریکیوں اور اقلیتی طبقات کے ساتھ جو تعصب معاشرے میں پایا جاتا ہے، اس کی ایک تازہ مثال ۴۶ سالہ جارج فلوئیڈکا سفیدفام امریکی پولیس افسر کے ہاتھوں سفاکانہ قتل ہے، جو پورے امریکا میں نسلی ٹکراؤ اور نسل پرستی کے خلاف ایک مہم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ واشنگٹن میں سرمایہ دارانہ نظام جس کی تعمیر میں افریقی مسلم ممالک سے لائے ہوئے مظلوم انسانوں کا کردار سفیدفام افراد سے کہیں زیادہ ہے، وہ نظام آج سیّد مودودیؒ کی پیش گوئی کے مطابق لرزہ براندام ہے۔

 امریکی صدر کی شخصیت انتہائی متنازعہ بن چکی ہے اور اس پر سفید نسل کی حمایت حاصل کرنے اور ان کے ووٹ کی قوت کی بنا پر نسل پرستی اختیارکرنے کے الزامات زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ اس نسلی منافرت نے سفید نسل پرستی کے بت کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا ہے اور خود سفید نسل کے افراد کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا اور یورپ کی یونی ورسٹیوں، تجارتی مراکز اور سیاسی محاذوں پر اپنے ضمیر کی آواز پر کھلم کھلا موجودہ سرمایہ دارانہ اور نسل پرستی پر مبنی نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

یورپ میں تازہ ترین واقعہ برطانیہ کی ۹۰۰سالہ پرانی یونی ورسٹی اوکسفرڈ کے احاطے میں نصب سیسل رہوڈس کے مجسمے کے خلاف مظاہرہ اور مطالبہ ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے اکھاڑ کر کہیں اور لے جایا جائے۔ اس سے قبل بھی بعض ایسے مجسموں کو، جو نوآبادیاتی غلامانہ نظام سے وابستہ قائدین کے تھے، عوام نے اپنی قوت استعمال کرتے ہوئے اکھاڑ کر سمندر برد کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ سیسل رہوڈس وہ شخص تھا، جس نےجنوبی افریقہ میں برطانوی سامراجیت کو نسل پرستی کی بنیاد پر قائم کیا اور جسے اس کی اس خدمت کے نتیجے میں قومی ہیرو قرار دیا گیا ۔اس کے نام سے تعلیمی وظیفہ جاری کیا گیا اور اس کے مجسمے کو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں نمایاں مقام پر نصب کیا گیا ۔اس دانش گاہ میں تعلیم پا نے والے طلبہ و طالبات دو سو سال سے اس بت کو تقدس کی نگاہ سے دیکھتے چلے آرہے تھے، لیکن آج وہ ’مقدس‘ بت، انھی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ یونی ورسٹی کےبورڈ آف گورنرز نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسے یونی ورسٹی کی حدود سے بے دخل کر دیا جائے۔ تاہم، اس کو کون سی جگہ فراہم کی جائے، یہ ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اس پر یونی ورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کاخیال ہے کہ یہ بت ان کی تاریخ کا حصہ ہے، اسے چھپانے سے تاریخ نہیں بدل جائے گی۔ ماضی کے تذکرۂ عبرت کے طور پر اسے نظروں سے محو نہ کیا جائے تاکہ یہ زندہ عبرت کا نمونہ بنارہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ایسے بت جو نسلی منافرت کی علامت ہوں، اس قابل نہیں کہ ان کے وجود تک کو برداشت کیا جائے ۔

 اس تناظر میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی وائس چانسلر کا بی بی سی کے ساتھ انٹرویو لمحۂ فکریہ  فراہم کرتا ہے۔ لوئیس رچرڈ سن بت کو ہٹانے کے حق میں نہیں تھیں ، ان کا کہنا تھا کہ: ’’اپنی تاریخ کو چھپانا روشن خیالی کے لیے صحیح راہ نہیں ہے‘‘۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ :’’آٹھ سو سال تک جن لوگوں نے یونی ورسٹی کو چلایا، وہ عورتوں کو تعلیم دینے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ کیا ہمیں ان لوگوں کی کھلے عام مذمت کرنی چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ وہ غلط تھے، لیکن ان کے بارے میں کوئی راے قائم کرتے ہوئے ان کے زمانے کو پیش نظررکھنا چاہیے‘‘۔

گویا یونی ورسٹی کی سربراہ کی حیثیت سے ان کی ذاتی راے یہ تھی کہ مجسمے کو ہٹانے سے فرق نہیں پڑے گا، جب تک ماضی کے حالات کے تناظر میں کیے گئے اقدامات کا تنقیدی جائزہ لے کر یہ طے نہ کیا جائے کہ رہوڈس کا سامراجیت کو قائم کرنا درست تھا یا غلط؟معروضی طور پر خاتون وائس چانسلر کی بات میں وزن ہے کہ بجائے تاریخ کے تاریک واقعات کو کتب و مصادر سے خارج کردیا جائے،ان پر تاریخی تناظر میں غور کرنے کے بعد ان کے خلاف یا حق میں فیصلہ کرنا زیادہ دانش مندانہ رویہ ہوگا۔شاید یہی سبب ہو کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو پانی میں  گم کرنے کے بجائے اسے قیامت تک کے لیے ہر ظالم و جابر کے لیے نشانۂ عبرت بنا دیا۔

اُدھر امریکا کے بعض شہروں میں، جہاں سیکڑوں برس سے کولمبس کے مجسّمے نصب تھے، انھیں توڑدیایا گرا دیا گیا ہے، کیوں کہ کولمبس، افریقہ سے مظلوم حبشیوں کو پکڑ پکڑ کرلایا اور اس نے غلاموں کی تجارت کو فروغ دیا۔ اس کا کردار غیراخلاقی ، غیرانسانی اور قابلِ نفرت تھا۔

اسلامی تحریک کے لیے لائحہ عمل

بہرصورت حالیہ منافرت کے خلاف احتجاج نے مغربی تہذیب و ثقافت اور مغربی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے اصلی چہرے کو اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت مسلمہ اور خصوصیت سے تحریک اسلامی اس کے مضمرات پر غور کرے اور دعوتی نقطۂ نظر سے راہِ عمل کو واضح اور مدلل انداز میں پیش کرے ۔

l پہلی بات یہ ہے کہ شاخِ نازک پر بننے والے اس سرمایہ د ارانہ نظام اور سامراجیت کی ناپایداری کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ وہ اپنے خنجر سے اپنے ہاتھوں خود کشی پر آمادہ ہوجائے!یہی وہ دعوتی مرحلہ ہے جس میں اسلامی نظامِ حیات کے خدوخال عصری زبان میں اور براہِ راست    پیش کرنے کے لیے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے ۔ علمی سطح پر اعدادو شمار اور زمینی حقائق کے تجزیے کے ساتھ یہ بات نوجوانوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ امریکا ہو یا یورپ، ان کا استحصالی نظام ان کے اپنے عوام کو جن میں سفید و سیاہ، سب شامل ہیں، عدل، عزّت، وقار، تحفظ اور سکون و اطمینان فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔اس نظام کےامریکی علَم برداران اپنے مفادات کے پیش نظر ’انفرادی آزادی‘ کے نعرے کا استعمال مستقل طور پر اڑھائی دوسو سال سے کر رہے ہیں کہ شہریوں کو اپنے تحفظ کے لیے ذاتی طور پر اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے حق کو اسلحہ بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کا بازارگرم رکھنے کے لیے برقرار رکھا جائے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہوگا کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ریاستی ذمہ داری محض کاغذ پر ہو اور لوگ ڈاکو ، چور ، قاتلوں سے بچنے کے لیے اپنا دفاع اپنے ذاتی اسلحے سے کریں۔ یہ اس لیے کہ امریکا میں اسلحہ سازی اور بندوق کلب سیاسی طور پر اتنے طاقت ور ہیں کہ قانون ساز ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں۔

l دوسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ انسانوں میں بعض فطری بنیادی رجحانات دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ایک متعفن معاشرے میں پیدا ہونے ،پلنے بڑھنے کے باوجود بہت سے کھلے ذہن ایسے موجود ہیں، جو کھلے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سڑکوں پر آنے میں تردد نہیں کرتے ۔ یہی وہ ارواح ہیں جن تک تحریک کی دعوت اگر اس حوالے سے پیش کی جائے کہ اسلام کس طرح منافرت اور نسل پرستی کے بت کو، جو چاہے پتھر کے مجسموں کی شکل میں ہر چوک پر نصب ہو ں یا جو انسانوں کے ذہن ، قلب بلکہ خون میں گردش کر رہے ہوں، انھیں چُن چُن کر پاش پاش کرتا ہے اور تمام انسانوں کو ان کے حقیقی خالق و مالک کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سامراجیت و نوآبادیت کی تاریخ اور اس کے اصل چہرے کو اس کے اپنے مآخذ کی بنیاد پر پیش کرتے ہوئے اسلام کی حیثیت وکردار کو واضح کیا جائے ۔

lتیسری بات یہ ہے کہ اگر مغرب میں ہونے والے اس ردعمل کا تجزیہ کیا جائے تو دو الفاظ کثرت سے استعمال کیے جارہے ہیں، ایک ’افریقی سیاہ نسل کے ساتھ تفریق‘ اور دوسری  Diversity  یا’تنوع کو خطرہ‘ ۔ ان دونوں اصطلاحات کے استعمال کے اندر خود ایسا زہر چھپا ہوا ہے، جو ان کی ظاہری معصومیت سے بالکل واضح نہیں ہوتا۔ یورپ و امریکا کے معاشرے میںتعلیم، معیشت اور مذہب کی جڑیں آج تک نسلی تعصب سے آزاد نہیں ہو سکیں ۔ مغرب کے لادینی جمہوری نظام میں افریقی النسل امریکیوں کو دستوری طور پر تو ووٹ کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنا ووٹ جسے چاہے دے سکیں، لیکن دو سو سال کی تاریخ میں کانگریس اور سینیٹ میں ہی نہیں عدلیہ اور انتظامیہ میں بھی افریقی امریکیوں کا تناسب اس اصول کے منافی نظر آتا ہے۔

اگرچہ Diversity یا تنوع بظاہر ایک معقول اصطلاح ہے، لیکن اس کے مضمرات میں یہ بات شامل ہے کہ انفرادیت پرستی کو بطور حق تسلیم کیا جائے ۔ چنانچہ ہم جنس پسندی کو ملازمت ، مذہبی قیادت ، قومی اور ریاستی معاملات میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔امریکی سپریم کورٹ نے حال میں تیسری جنس کے افراد کے حق میں فیصلہ دے کر اس اصول کی توثیق کی ہے۔اس Diversity کی اصطلاح کو MDG’sملینیم ڈویلپمنٹ گولزاور پایدار ترقی (Sustainable Development) کے ’سترہ سنہری‘ اصولوں میں اسی غرض سے شامل کیا گیا ہے کہ اس کی آڑ میں وہ سارے اقدامات کیے جا سکیں، جو بنیادی انسانی اخلاقیات اور خصوصاًالہامی ہدایات کے منافی ہیں اور معاشرے میں اباحیت ، فحاشی اور بد اخلاقی کو پھیلانے کا کام قانون کے تحفظ کے نام پر کیا جاسکے۔ جہاں اس گفتگو کا مقصد منافرت اور نسل پرستی کو شدت کے ساتھ ردکرنا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح کرنا ہے کہ مغرب کی طرف سے اس کے لیے جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ دلیل اخلاق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی اور تحریکا ت اسلامی کو ایسے تصورات سے آگاہ ہوکر اپنی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا مودودیؒ نے سرمایہ دارانہ نظام اور لادینیت کے خلاف ایمان، دلیل اور دانش سے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا، آج اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اس پروگرام اور دعوت کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ افکار ونظریات وقت گزرنے کے ساتھ فرسودہ نہیں ہو جاتے ۔ یونان کے فلاسفہ نے جس ’جمہوریت‘ کو ’حق‘ قرار دیا تھا، جو دراصل ایک محدود طبقے کی حکومت (Oligarchy) ہے اور جس کی بنا پر عالمی طور پر لادینی جمہوریت، سرمایہ دارانہ افراد کی اجارہ داری بن گئی ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ افلاطون اور ارسطو کے خیالات فرسودہ ہو چکے ہیں اور اب ہمیں کسی نئی جمہوریت کی ضرورت ہے یا جو تصورِاخلاق ارسطو اور افلاطون نے پیش کیے، اسے آج تک یہ کہہ کر رد نہیں کیا گیا کہ وہ پرانا ہوگیا ہے بلکہ وہ لذت کا حصول ہو یا خوشی کا حصول یا قوت کا حصول، ان تصورات کو نئے ناموں کے ساتھ جوں کا توں مغربی فکر میں مقدس انداز میں برقرار رکھا گیا ہے۔

ضرورت ہے کہ آج کے فکری معرکے میں مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ حکمت عملی کو پورے اعتماد کے ساتھ اجاگر کیا جائے۔ تحریکات کا وجود ہی ان کی نظری بنیادکی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی فکری بنیاد سے انحراف کریں یا ہٹ جائیں تو پھر وہ ’مرغ بادنما‘ بن جاتی ہیں، وقتی مسائل کی رو میں بہہ جاتی ہیں، اس طرح وہ مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے بھی غافل ہوجاتی ہیں۔

کرونا وائرس کا چیلنج اور تحریک اسلامی

کرونا وائرس کے اثرات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اپنی جانب سے تمام تر صحت عامہ کی تدبیروں اور انتظامات کے دعوؤں کے باوجود، وقت کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اس وبا کے سامنے بے بس اور ناکام نظر آتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمایش میں تحریک اسلامی کا کردارغیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ ’سماجی فاصلہ‘ رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعوتی توسیع کو عارضی رخصت دے دی جائے، بلکہ ان حالات میں مزید  جوش اور ولولے کے ساتھ روایتی دعوتی طریقوں کو حفاظتی اقدامات اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے دعوتی کام کو وسیع کرنے کا غیبی موقع حاصل ہوا ہے۔

اس وقت عالمی سطح پر اکثر جامعات آن لائن تعلیم دے رہی ہیں۔ ان حالات میں دعوت کے نئے انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غالباً ان افراد کو جو اپنی دفتری یا تجارتی مصروفیات کے بعدوقت کا بڑا حصہ دعوتی سر گرمیوں میں دیا کرتے تھے، اب یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ کس طرح اپنے طرزِ عمل اور خیالات کے ذریعے تحریکی اور دعوتی فکر اور تعمیر سیرت کے اصولوں کو عملاً فروغ دے سکیں ؟ ان حالات میں خدمت عامہ کے دعوتی کردار کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور تحریکی کارکنوں نے جس خلوص اور قربانی کے ساتھ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا ہے ، وہ عبادت کی ایک اعلیٰ شکل ہے۔

تحریک کو اس صورتِ حال میں نئے ذرائع سے دعوتی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ٹی جو بہر صورت جدید تہذیب کا ایک لازمی جزو ہے، اپنی بعض کمزوریوں کے باوجود انسانی روابط، دعوت کی تو سیع ،افراد کی تنظیم اور دیگر ہرطرح کے مقاصد کے لیے ایک لازمی عنصر بن چکی ہے ۔ اس صورتِ حال میں عوامی رابطہ ، تربیت کردار وفکر، اور فروغِ دین کے لیے برقی ذرائع کا استعمال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورتِ حال وہی ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے کہ بعض بظاہر شر، پُرخطر اور نقصان دہ چیزیں ایسی ہیں، جن میں اللہ خیر کا پہلو نکال دیتا ہے۔  اس وقت ابلاغی خیر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ آن لائن دروس قرآن،  آن لائن تربیت ، آن لائن رسائل و جرائد و کتب، غرض ہر وہ کام جو کل تک روایتی ذرائع سے ہورہے تھے، اب وہ برقی ذرائع سے ہو سکتے ہیں اورا س میں کسی تاخیر کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ عوام کی صحت اور طبی امداد کے حوالے سے جو کام جماعت اسلامی شعبہ ہائے خدمت نے انجام دیا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ مستحکم کیا جائے اور ملک کے گوشے گوشے میں ایسے طبی امدادی مراکز قائم ہوں، جن میں مقامی افراد کو اپنی مدد آپ کے رضاکارانہ جذبے پر ابھارا جائے ،چاہے یہ افراد تحریک سے وابستہ نہ ہوں۔ کسی فرد سے اس کے مکان کا صرف وہ ایک کمرہ جس کا دروازہ باہر نکلتا ہواور گھر والوں کی ذاتی آزادی میں فرق نہ پڑتا ہو، اس کے تعاون کے طور پر لیا جائے۔ کسی ڈاکٹر سے ہفتے میں ایک دن بغیر کسی معاوضے کے مفلس افراد کی خدمت ، اللہ سے اجر کی بنیاد پر دینے کے لیے کہا جائے۔کسی فرد سے کم قیمت پر ادویات فراہم کرنے کی درخواست کرکے، انھیں عوام تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔اس کام کے لیے کسی بڑے سرمایے یا کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ نیکی کے جذبے سے سرشار سلیم الفطرت افراد سے اچھائی اور بھلائی میں تعاون کی اپیل کرکے حکمت اور دانائی سے محض رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔

 عوام کو اس کام میں شامل کرنا اور انھیں اس خیر کی وسیع مہم کا حصہ بنانا ہی توسیع دعوت ہے۔ لیکن یہ سارا کام صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول اور خدمت خلق کے بے لوث جذبے کی بنیاد پر کیا جائےتو تحریک مخالف بھی خواہش کرے گا کہ وہ اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے،  لیکن اگر اس کاوش میں کسی قسم کا سیاسی رنگ شامل ہوگا تو پھر اس کے نتائج مختلف ہوں گے ۔

اقامت ِ دین کے لیے ، سیاسی زمامِ کار کی تبدیلی دعوت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے لیکن دعوت کی حکمت عملی اور ترجیحات کا درست اور بروقت تعین ہی دعوت کے مقاصد کے حصول کو آسان بنا سکتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کے اجتماعی شعور نے ظہورِ اسلام سے آج تک دو صداقتوں کو دل و جاں سے زیادہ عزیز رکھا ہے۔ اوّلاً: زمین پر توحید الٰہی کی علامت بیت اللہ کی مرکزیت اور قبلہ ہونا، اپنی سمت عبودیت، سمت معیشت ، سمت ثقافت اور اندرونی وبیرونی تعلقات کوبراہِ راست بیت اللہ کے مالک کی رضا کا پابند رکھتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے میں توحید خالص کو اختیار کرنا ہے۔ ثانیاً: اپنی زندگی کی تہذیب ، اسے سنوارنے اور بنانے کے لیے عملی نمونہ اور مثال کے لیے صرف اور صرف اللہ کے آخری رسولؐ اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور فیصلوں کو قیامت تک کے لیے حتمی اور سند سمجھنا ہے۔

یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ اجتماعی شعور کی موجودگی میں حادثاتِ زمانہ کی بناپر وقتی طور پر اُمت مسلمہ نے کسی بیرونی، فکری یا سیاسی تسلط کی بناپر یونانی فکر اور لادینی تصورات کواختیار کرلیا ہو اور ان بیرونی یا اندرونی گمراہ کن تصورات کی وجہ سے قومیت، لادینیت اور محض معاشی ترقی اس کا قومی ہدف بن جائے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی وہ ترکی ہو یا تیونس یا مصر، اُمت مسلمہ کا اجتماعی شعور وقتی انحراف سے نکلنے اوردوبارہ اپنا قبلہ درست کرنے سے غافل نہیں رہا۔

عصبیت کا  خاتمہ اور نظریاتی اساس

مدینہ کی اسلامی ریاست کا ایک نمایاں پہلو اس کا عربوں کی قبائلی عصبیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق اور مالی وسائل کی بنیاد پر قیادت حاصل کرنے کے تصور کاابطال اور لا الٰہ الا اللہ کے مطالبات کو عملاً نافذ کرنا تھا ۔گویا مدینہ کی ریاست کا قیام عرب و عجم اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کی ’عوامی جمہوریہ‘ کے تصورکا متبادل ایک انقلابی فکر کا نفاذ تھا کہ ریاست کی بنیاد نسلی اور قبائلی اتحاد کی جگہ نظریہ ، عقیدہ اور اقدارِ حیات کو ہونا چاہیے۔چنانچہ ریاست مدینہ کا مقصد اقامت دین اور ایک ایسی امت کا قیام تھا جو رنگ ونسل اور زبان اور زمین کی کشش سے آزاد ہو اورصرف انسانوں اور کائنات کے خالق و مالک کی بندگی پر کاربند ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست عربوں میں مروجہ قبائلی نظام اور پڑوس کے ممالک میں رائج بادشاہت (ایران و روم) سے بالکل مختلف ایک نئے تصور اورنئے سیاسی نظام کی نمایندہ تھی ۔اس ریاست کا مقصد کسی فرد کی موروثی ریاست کا قیام نہ تھا، نہ کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری قائم کرنا تھا، بلکہ اللہ کی زمین پر اس کے دین کی اقامت تھا۔ قرآن کریم نے اقامت دین کے تصور کو ہماری آسانی کے لیے خود واضح کر دیا ہےکہ یہ دین میں مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔یہ صرف مراسم عبودیت ، نماز، روزہ، کا نام نہیں ہے کہ مسجد اور گھر میں نماز ، روزہ ہو رہا ہو، جب کہ حاکمیت سرمایہ دارانہ ملوکیت زدہ ، اخلاق باختہ نظام کی ہو۔ اللہ کی بندگی محض مسجد میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہو۔ ثقافت ہو یا فنون لطیفہ ، معیشت ہو یا معاشرت، غرض ان تمام شعبوں میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو بلا شرکت غیر اپنا رب مانتے ہوئے اس کے نازل کردہ احکامات کا نفاذ ہو۔ جس طرح اسلام مکمل نظام حیات ہے ایسے ہی اسلامی ریاست بھی دین کی مکمل اقامت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نافذ کرنے کا نام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم Nation State یا قومی ریاست کا تصور جسے یورپ نے کلیسا کے پاپائیت کے نظام سے نجات کے لیے اپنایا ۔ اسلام میں اس تصور کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامی تصورِ ریاست میں کسی مسلم پاپائیت کی بھی کوئی گنجا یش نہیں۔ چنانچہ کوئی خاص فرقہ اقتدار پر قابض ہو کر دوسروں کو اپنا محکوم نہیں بنا سکتا ۔ گویا تھیا کریسی (Theocracy )یا مذہبی پاپائیت اسلام کی ضد ہے اور اسلامی ریاست کسی مسلکی فرقے کی حاکمیت کی جگہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کا ذریعہ ہے ۔

ریاستِ مدینہ: چند خصوصیات

۱-حاکمیت الٰہی: قرآن کریم نے ریاست کی اولین ذمہ داری اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کو قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ یوسف میں واضح الفاظ میں ان تمام تصورات کو جن میں بادشاہ کو یا حاکم کو قانون سازی کے اختیارات دیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تابع کردیا ۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲:۴۰) ’’حکومت سواے اللہ کے کسی کی نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے ‘‘۔گویا حاکمیت اعلیٰ نہ پارلیمنٹ کی ہے ، نہ عوام کی ، نہ کسی صدر ، وزیر اعظم یا بادشاہ کی، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ قانون کو جائز یا ناجائز قرار دے۔ پارلیمان صرف اس وقت تک قانون سازی کر سکتی ہے ، جب تک اس کا ہر قانون قرآن و سنت سے مطابقت رکھتا ہو۔

۲- مشاورت : ریاست ِمدینہ میں معاملات کے فیصلے شوریٰ کی بنیاد پر کیے جاتے تھے ۔قرآن کریم نے شوریٰ کے انعقاد اور شوریٰ کے نتیجے میں عزم الامور یا اجتماعی راے پر عمل کرنے کو فریضہ قرار دے کر انفرادی راے کو اجتماعی راے کا تابع کر دیا ۔شوریٰ کے دوران اختلاف کرنا اور اپنے موقف کو دلائل سے پیش کرنا ہر صاحب راے کا حق ہے لیکن شرکا ے مشورہ کے یکسو ہو جانے کے بعد کسی فرد کو چاہے وہ صاحب ِامر ہی کیوں نہ ہو اپنی راےاراکین شوریٰ پر مسلط کرنے کا حق نہیں ہے ۔اسے اپنی راے کو قربان کر کے اکثریت کی راے کی پیروی کرنی ہوگی۔ قرآن میں خود حضور اکرمؐ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:  وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۝۱۵۹ (ال عمرٰن۳:۱۵۹)’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے تمام معاملات کو انجام دینے کے لیے اس ابدی اصول کو حکم ہی نہیں، ملّت اسلامیہ کے عمل اور نمونے کے طورپر ان الفاظ میں بیان فرمایا: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ ،یعنی ان کے تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں (الشوریٰ۴۲: ۳۸)۔

۳-شریعت کی بالا دستی :ریاست کا بنیادی فریضہ قرآن و سنت کے احکامات کا نفاذ اور ان احکامات کی روشنی میں جدید قانون سازی ہے ۔پارلیمان صرف وہ قانون سازی کر سکتی ہے جو شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو۔وہ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ کسی ایسے قانون کو نافذ کر سکتی ہے ۔

۴- نظام صلٰوۃ  و نظامِ زکوٰۃ: ریاست نظامِ صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کو قائم کرنے اور اس کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔

۵-امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ: ریاست معاشرے کی اخلاقی، معاشرتی ، ثقافتی ، تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ہر شعبۂ حیات میں معروف اخلاقی اقدار کو نافذ کرنے اور ہربُرائی کو وہ کسی بھی درجے کی کیوں نہ ہو روکنے کی ذمہ دار ہے۔

۶- فلاح و بہبود اور بنیادی حقوق کی فراہمی:ریاست اپنی حدود میں رعایا کی فلاح کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔وہ ان کی تعلیم، صحت ،غذا، تحفظ ، عزت و ناموس کی حفاظت جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے گی۔ وہ ایک رفاہی ریاست ہے ، جس کا بیت المال رعایا کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ہے ۔ وہ کسی فرماں روا کی ملکیت نہیں ہے۔

۷-قانون کی یکسانیت : اسلامی ریاست میں ہر شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔صدر مللکت ہو یا وزیر اعظم یا ایک یتیم بچہ، قانون ان میں کوئی تفریق نہیں کر سکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات ہیں کہ پچھلی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اعلیٰ طبقاتِ معاشرہ کے لیے الگ اور عام شہری کے لیے الگ قانون استعمال کرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام انسان خواہ مرد ہو یا عورت، یکساں ہیں اور اگر کوئی فرق ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔

۸- مسؤلیت: اسلامی ریاست میں ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داری کے لیے جواب دہ ہے: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور   تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔(بخاری، کتاب الا حکام، مسلم، کتاب الایمان )

۹- مناصب کا امانت ہونا :قرآن نے ریاست کو پابند کر دیا ہے کہ ذ مہ داری صرف ان کو دے جو اس کے اہل ہو ں، اور ایسے ہی عوام کو پابند کر دیا ہے کہ وہ صرف ان افراد کو منتخب کریں جو امانت دار اور اہل ہوں ۔ کسی قسم کی گروہی وابستگی کی بنا پر حمایت کی گنجایش نہیں ہے۔

 ۱۰- نظام احتساب : اسلامی ریاست نظام احتساب، یعنی حسبہ کے قائم کرنے کی ذ مہ دار ہے ۔ جس کا کام پیمانوں کا احتساب ، مال کا خالص ہونا ، قیمتوں کا مناسب ہونا ، راہ داری کا کھلا ہونا، بازاروں میںامن و عدل کا قیام ، صارف کے حقوق کا تحفظ اور ساہوکار پر نگاہ رکھنا اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ وہ اہم کام ہیں جو حسبہ کے تحت دور نبویؐ سے ریاست نے انجام دیا۔

۱۱- نظامِ عدل کا قیام :ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عادلانہ فیصلوں کا اہتمام کرے۔ چنانچہ عدلیہ کا قیام، قاضی کا تقرر اور اس کے فیصلوں کا نفاذ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔

۱۲- مناصب کی طلب پر گرفت : ریاست کی ذمہ د اری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو منصب پر فائز نہ ہونے دے جو اس منصب کا طلب گار ہو۔امانت اور للہیت کے اصولوں کو قائم کرنا اور منصب طلبی، حصولِ اقتدار کی خواہش کرنے کو ختم کرنے کا نظام قائم کرنا ہے۔

۱۳- آزادی راے اور آزادی اختلاف:مدینہ کی اسلامی ریاست میں ہر شہری کو ریاستی معاملات میں اپنی راے دینے اور خلیفہ کا احتساب کرنے کا حق حاصل تھا ۔ ایک عام خاتون سربراہ ریاست سے پوچھ سکتی تھی کہ وہ کس بنیاد پر یکساں مہر کا نفاذ کرنا چاہتا ہے ؟اس خاتون کا استدال  یہ تھا کہ قرآن مہر کی رقم کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ ایک ڈھیر سا مال بھی ہو سکتا ہے اور حضرت عمرؓ سنت رسول ؐکی پیروی کرتے ہوئے وہ مہر جو نبی کریمؐ نے امہات المومنینؓ کے لیے پسند فرمایا، اسی مہر کی رقم کو سب کے لیے مقرر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایک صحابیہؓ کے سر عام ان کو قرآن سے دلیل دینے پر وہ بغیر کسی حجت اور بحث کے اپنی راے سے دستبردار ہو گئے۔

اسلامی فلاحی ریاست کا نمایاں پہلو: تصورِ امانت

مدینہ کی اسلامی ریاست کی ان چند خصوصیات کے ساتھ اب ہم ریاست مدینہ کے ایک اور اہم پہلو پر غور کرنا چاہتے ہیں ، جس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی اور وہ ہے تصورِ امانت ۔

ریاست مدینہ کا سب سے نمایاں پہلو تصورِامانت ہے ۔”ا م ن “سے ماخوذ اس قرآنی اصطلاح کا معنی قابل اعتبار ، اعتماد اور وفادار کے ہیں، اور ہم عام طور پر اس سے روز مرہ کے اقتصادی مالی معاملات مراد لیتے ہیں۔ اگر ایک شخص بددیانتی یا کمی بیشی نہیں کرتا تو ہم اسے امانت دار سمجھتے ہیں ۔قرآن کریم بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے:

فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ ۝۰ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۳) اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسا کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شہادت چھپاتا ہے اُس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔

اسی پہلو کو دیگر مقامات پر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۷ (الانفال۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو ، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو۔

 امانت کے وسیع تر مفہوم کی طرف اشارہ کرتےہوئے قرآن کریم اہل ایمان کی صفات میں سے امانت کو ایک بنیادی صفت قرار دیتا ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۳۲۠ۙ  (المومنون۲۳:۸)’’اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ یہی مضمون المعارج (۷۰:۳۲) میں دُہرایا گیا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو امانت کی تشریح خود قرآن کریم سورۃ النساء میں یوں کرتا ہے:  اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ……اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝۵۸  (النساء۴:۵۷-۵۸) ’’مسلمانوں اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو… اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ‘‘۔

 دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝۵۹ۧ (النساء ۴:۵۹) ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی ، اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِامر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔

یہاں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ امانت اس کے مستحق کے حوالے کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم (امر)ہے ۔اس حکم کی پیروی کے لیے ضروری ہو گاکہ اولاً امانت داری کے معیار کو متعین کر لیا جائے اور پھر اس فرد کو جو اس پیمانے پر پورا اترے، وہ امانت حوالے کی جائے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے کائنات، زمین اور پہاڑوں کے حوالے سے فرمایا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہدایت کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا ۔کیوں کہ پہاڑوں اور زمین کو علم تھا کہ ان میں ارادہ و اختیار کی صلاحیت کی کمی ہے اور اس بنا پر وہ ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکیں گے (الاحزاب ۳۳:۷۲)۔ پہاڑوں کی معذرت سے یہ اصول واضح ہو گیا کہ اگر ایک شخص کو کوئی امانت سپرد کی جارہی ہو اور اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے بارِ امانت کو صحیح طور پر نہیں اٹھا سکے گا، تو اسے وہ امانت قبول نہیں کرنی چاہیے۔اس تناظر میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی اس حدیث کے مفہوم پر غور کیا جائے جس میں فرمایا گیا ہے:’’اس کا ایمان نہیں جوامانت دارنہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جوعہد کا پابند نہیں‘‘ (مسند امام احمد، حدیث:۱۲۳۲۴)۔

سورۃ النساء(۴:۵۶-۵۹)میں دی گئی ہدایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امانت اور عہد میں کتنا قریبی تعلق ہے اور دونوں ایمان کے مظاہر ہیں ۔ایمان کا اظہار ایک جانب دی گئی ذمہ داری کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے سے ہوتا ہے، اور دوسری جانب جس کسی کو ذمہ دار بنایا جائے اگر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو ایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یقینا اس سے بڑھ کر اور کوئی محرومی نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص دنیا اور آخرت دونوں کو کھو بیٹھے ۔

فقہاکا اس بات پر اتفاق ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے اور ووٹ کا حق دار کو دیا جانا ہی اس امانت کا ادا کرنا ہے۔ دوسری طرف عام مشاہدہ ہے کہ ووٹ دینے اور ووٹ طلب کرنے والا دونوں ہی اس کے دینی اور شرعی تقاضوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں ۔

منصب چھوٹا ہو یا بڑا، ایک امانت ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک تعلیمی ادارے کی سربراہی کے لیے ایک ایسےشخص کو منتخب کیا جاتا ہے جس میں انتظامی ، مالی اور تادیبی امور کو سمجھنے اور یکسوئی اور اعتماد سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، تو نہ صرف منتخب کرنے والے بلکہ وہ فرد خود بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گاکہ اس نےوہ ذمہ داری کیسے قبول کر لی جس کی صلاحیت اس میں نہیں پائی جاتی تھی ؟

امانت ،عہد اور عدل جن کی طرف مندرجہ بالا سورۂ نساء اور المؤمنون کی آیات نشان دہی کرتی ہیں، اپنی وسعت کے لحاظ سے حالیہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر کسی تنظیم میں داخلے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایک شخص حلال و حرام کے فرق کو سمجھتا ہے اور مالی معاملات میں جس حدتک ممکن ہو منکر کا ارتکاب نہیں کرتا، تو اپنی تعداد میں اضافے کی خواہش کے باوجود صرف    ان کو تحریک میں شامل کیا جانا چاہیے جو حرام سے مکمل اجتناب ہی نہ کرتے ہوں بلکہ مشتبہ اُمور سے بھی اجتناب کرتے ہوں۔ گویا ان اُمور سے بھی جو حلال و حرام کی سرحد پر ہوں جنھیں ہم عموماً گرے ایریا (Gray Area)کہتے ہیں ، ان کے قریب بھی نہ جاتے ہوں ۔ حدیث نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ گرے ایریا ہی ہمیں حرام کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس لیے نظامِ تربیت سے گزارنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بجائےتعداد بڑھانے کے تطہیرِ فکر کے ساتھ تعمیرِ سیرت پر توجہ دی جائے، تاکہ ایک تربیت یافتہ فرد کا تحریک میں اضافہ دس غیر تربیت یافتہ افراد کے اضافے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک ہو یا حکومت، ہر ایک کے پاس ایک جامع نظام تربیت ہونا چاہیے، جس سے گزرے بغیر کوئی ایسا فرد ذمہ داری کے مناصب پر فائز نہ ہوسکے جس کی فکر اور سیرت میں کمزوری پائی جاتی اور جو دیانت اور صلاحیت ہردو اعتبار سے معیارِ مطلوب پر پورا نہ اُترتا ہو۔

اسی طرح کسی عہدے کی طلب یا کسی عہدے پر کسی کو لانے کے لیے راے عامہ ہموار کرنا بھی اسلامی ریاست مدینہ کی روایات و ضوابط سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔کسی عہدے کی خواہش کرنا اس سے بھی بڑھ کر ظلم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے :’’اللہ کی قسم! ہم اس کام کی نگرانی پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرسکتے، جو اسے مانگتا ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘(صحیح ابن حبان، کتاب البر ، باب الخلافہ والامارہ)۔ یہی وجہ ہے کہ دور خلافت راشدہ میں لوگ ذمہ داری قبول کرنے سے بھاگتے تھے اور کسی عہدے کی طلب نہیں کرتے تھےاور اگر ان پر کوئی ذمہ داری اس کی خواہش اور طلب کے بغیر ڈال دی جاتی، تو اس کے مطالبات کو پوراکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان کا مقصد ذمہ داری کے حوالے سے سہولیات اور status کا حصول کبھی نہیں ہوتا تھا ۔اس احساس ذمہ داری اور احتساب و جواب دہی کی بنا پر اقربا پروری کا امکان تھا ، نہ دوست نوازی کا۔ مناصب کی طلب کی بجائے ان سے دُور رہنے کی خواہش ان میں بے لوثی پیدا کرتی تھی اور عہدے کی طلب اور ذاتی نمودونمایش کے جذبات کو قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ امانت ، عہد اور عدل، وہ تین بنیادیں ہیں جو احساس ذمہ داری کو مستحکم کرتی ہیں۔ ان میں کمی تنظیم میں انتشار فکری اور گروہ بندی کو ہوا دیتی ہے۔

مدینہ کی اسلامی ریاست کے نمونے کے مطابق آج کے دور میں سوسائٹی اور ریاست کے قیام کے لیے فرد کی اصلاح، معاشرے کی اخلاقی تعمیر اور حکومت، ریاست اسلامی کے تمام اداروں اور پالیسیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب فرد ، معاشرہ اور ریاست، ہرسطح پر اسلامی تعمیرنو کو ایک تحریک کی شکل میں انجام دیا جائے۔ اس اخلاقی تعمیر کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ انابت الیٰ اللہ ہے___ اللہ کی طرف پلٹنا، رجوع کرنا ، اس سے تعلق کو مضبوط کرنا اور اس کے سامنے حاضری کی تیاری کرنا!