پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


قرآن کریم اپنے بارے میں جونام استعمال کرتا ہے ان میں الکتاب کے ساتھ ، الہدیٰ، ذکریٰ ، الفرقان ،البرہان، البیان، سب ہی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو حق و باطل کے فرق کو بین اور واضح کر دیتی ہے ۔الفرقان ظن ، گمان اوروہم سے مکمل طور پر نجات دلاکر دل و دماغ کو ایمان اوریقین سے منور کر کے عین الیقین کی کیفیت پیدا کرتا ہے، تاکہ کلام عزیز کا ہر طالب علم اس عظیم ہدایت پر مکمل اعتماد کے ساتھ ذہن کو شک و شبہہ سے پاک کرکے عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن کریم اہل ایمان کو بار بار متوجہ کرتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ۝۰ۭ (النساء۴:۱۳۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔
یعنی ایک مرتبہ شہادت حق دے کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانا کافی نہیں، بلکہ خود ان کو بھی جو خود کو صاحب ِایمان کہتے ہیں بار بارایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایمان کا براہِ راست تعلق اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی سے ہے۔ اس لیے ہر لمحہ ایمان کو تازہ کرنے کے لیے قرآن و سنت کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل ہی ہمیں صراط مستقیم اور ہدایت پر قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک مرتبہ زبانی شہادت دینا کافی نہیں، بلکہ ہرلمحے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا عمل کس بات کی شہادت دےرہا ہے اور ہماری ترجیحات میں اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ؐکی ترتیب کیا ہے؟ ہمارے گھریلو معاملات ہوں، تلاش معاش ہو یا اقامت دین کے لیے سیاسی سرگرمی میں شرکت ہو، ان سب معاملات میں کہاں تک ان کا حوالہ صرف اور صرف اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کی اطاعت اور وفاداری ہے۔
مسلمان اور مومن کے ایمان کو جانچنے کے لیے قرآن نے چار عملی صورتوں کا ذکر کیا ہے: اس کے ایمان کی شہادت اورایمان کے وجود کا ثبوت، اس کی صلوٰ ۃ ،قربانی اور مراسمِ عبودیت، نیز اس کی زندگی اور موت___ ان سب کا مقصد اگرصرف اللہ کی رضا کا حصول ہے تو ایمان محفوظ ہے۔ ایمان کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی نماز ، اپنی قربانی ، اپنی زندگی اور اپنی موت کو صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے خالص کر دے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ (الانعام ۶:۱۶۲) کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔
حق وباطل کو واضح کر دینے کے ساتھ قرآن کریم اہل ایمان اور کفار و مشرکین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو بھی وضاحت سے سمجھاتا ہے۔ شرک سے مکمل اجتناب کے ساتھ مشرکین کی کفر میں شدت کی بنا پر ان سے مایوس ہوکر انھیں ان کے حال پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ مستقل طور پر دین کی دعوت حکمت کے ساتھ دے کر انھیں عذاب سے بچانے اوراللہ کی رحمت کے سایے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ یہ مسلسل دعوتی عمل زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر ہر حالت میں کیا جائے گا۔ دعوتِ دین دینے اور اگر حصول مقصد میں حضرت نوح علیہ السلام کی طرح نو سو سال مسلسل جدوجہد کے باوجود بھی منزل کا حصول نہ ہو سکا ہو ،جب بھی داعی کی اصل کامیابی اس کا خلوصِ نیت کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہوکر اپنی تمام قوتِ کار کو اقامت دین کی جدوجہد میں لگا دینا ہے۔ اس کے بعد اگر اپنی خصوصی رحمت سے ارحم الراحمین دنیا میں کامیابی دے دے تو یہ صرف اس کا فضل ہے ورنہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی کا وعدہ ہے۔ سالہا سال کی جدوجہد، دعوتِ دین اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی میں کسی قسم کی مداہنت اور کفر و شرک کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا ۔ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اسلام کا بنیادی دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہے کہ مخالف کے طرزِ عمل سے قطع نظر اہل ایمان اپنا دعوتی فریضہ ہر حالت میں ادا کرتے رہیں ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ انھیں کب کامیابی سے نوازتا ہے؟ یہ اس کے طے کرنے کا معاملہ ہے۔ تمام انسانی اندازے قیاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
اقامت دین کی جدوجہد میں مشکلات ،مصائب اور رکاوٹوں سے گھبرانے یا ان سب کے نتیجے میں مایوس ہونے اور مطلوبہ نتائج میں تاخیر کی بنا پر اپنی دعوت اور طریقۂ کار پر شک و شبہہ کا کوئی امکان اسلام میں نہیں پایا جاتا۔استقامت کا مطلب ہے کہ دعوت ہر صورت حال اور ہرمرحلے میں جاری رکھی جائے۔ مکی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام تر مخالفت اور دعوت کو رد کرنے کے باوجود ابو جہل ، عتبہ اور دیگر سردارانِ قریش کو دعوتِ دینا معطل نہیں کیا تھا اور نہ اپنے طریقۂ دعوت پر شک وشبہہ محسوس کیا، بلکہ ہر ممکن موقعے کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے استعمال فرمایا۔

طاغوت اور کفر کا ایک ملت ہونا 

قرآن کریم حق وباطل کے معرکے میں طاغوت اور کفر کی قوتوں کو حزبِ شیطان اور ملت ِواحدہ سے تعبیر کرتا ہے اور اس کے مقابل حق کی قوتوں کو بنیان مرصوص، یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے تعبیر کرتا ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ منکر کو مٹانے کے لیے اہل ایمان کو بھی ایک منظم جماعت کی شکل اختیار کرنی ہوگی، یعنی شہادت ِحق کے لیے تعمیر کردار کے ساتھ تنظیمِ افراد بھی مطلوب ہے۔ طاغوتی جماعت کی کثرت کے باوجود حق پر مبنی جماعت اپنی قلت تعداد کے باوجود منکر کے ساتھ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں کرے گی۔ 
تحریک اقامت ِدین ایک اصولی اور نظریاتی تحریک ہے۔ اس کی بنیاد قرآن و سنت سے اخذ کردہ عالم گیر اصول ہیں۔ اس بنا پر یہ وقت کے ساتھ اپنی بنیادی فکر میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔ تاہم، دعوتِ دین کے ابلاغ واشاعت کے لیے ان تمام اسالیب اور طریقوں کو استعمال کر سکتی ہے، جو ہردور میں حاصل ہوں، البتہ وہ اس کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہوں،مثلاً سوشل میڈیا کا استعمال، انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے پیغام کی اشاعت ، غیر اسلامی تنظیموں یا افرادسے مکالمہ اور مذاکرہ وغیرہ۔لیکن ابلاغ کے وہ ذرائع جو شخصیت پرستی کی طرف لے جائیں، یا جو دوسروں کی نقالی کرتے ہوئے اختیار کیے جائیں، جس میں اختلاف کے باب میں اخلاقی اصولوں اور آداب کا لحاظ نہ رکھا جائے، مثلاً اسٹیج پر گانے بجانے کا استعمال یا خطابات میں تضحیک آمیز انداز میں دوسروں کا تمسخر اڑانا، انھیں بُرے القاب سے یاد کرنا وغیرہ۔ ان سب طریقوں کی تحریک اسلامی میں کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔ سورئہ حجرات نے واضح طور ان چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے۔قولِ لیّن (نرمی سے گفتگو) قرآن کریم کا وہ حکم ہے جسے انبیا ؑ اور ان کے ماننے والوں پر فرض کر دیا گیا ہے۔دعوتِ دین کا تقاضا ہے کہ اپنی بات دلوں میں اتارنے کے لیے نرم گفتاری اور بے لوثی کے ساتھ کام کیا جائے اور بھلائی کے کاموں میں نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم کے ساتھ بھی تعاون کا رویہ رکھا جائے۔اُدْعُ   اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ ط (اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ النحل ۱۶:۱۲۵)  ہی تحریک اسلامی کا شعار اور اس کی پہچان ہے۔

نیکی کے کام میں تعاون

قرآن کریم حکمت ِدعوت کے پیش نظر حق و باطل میں امتیاز کی وضاحت کے ساتھ ایسے معاملات میں جہاں بر، نیکی ، تقویٰ اور بھلائی کو تقویت پہنچتی ہو صرف نیکی کی حد تک غیر مسلموں سے بھی تعاون کی اجازت دیتا ہے: 
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠ (المائدہ ۵:۲)جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ 
دعوت و اصلاح کے لیے اگر ایسا مرحلہ درپیش ہو کہ قوت نافذہ داعیان حق کے ہاتھ میں نہ ہو اور مستقبل قریب میں اتنی اکثریت حاصل کرنا کہ تحریک خود بعض اصلاحات نافذ کر سکے ممکن نظر نہیں آ رہا ہو، تو کیا جو نظام موجود ہو اس پر صرف گرفت کافی ہو گی یا خود اس نظام کے زبانی دعوؤں کو بنیاد بنا کر برسراقتدار جماعت کی نظریاتی امداد، اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیم ، ابلاغ عامہ ، صحت، معیشت اور معاشرت میں اصلاح کا منصوبہ بنا کر فراہم کیا جانا مصلحت عامہ کا تقاضا ہو گا، تاکہ اتمامِ حجت کردیا جائے۔ گو، اس طرح کے تعاون میں دنیا میں اس کا کوئی اجر (credit) حاصل نہ ہو۔ 
تفصیلات میں جائے بغیر حضرت یوسف علیہ السلام کا اصلاحِ احوال میں اپنا کردار ادا کرنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ’حلف الفضول‘ کے حوالے سے مشرکین کے ساتھ تعاون کرنے کی خواہش کا اعلان فرماناظاہر کرتا ہے کہ اختلافات کے باوجود بعض متعین بھلائی کے کاموں میں اشتراکِ عمل کیا جا سکتا ہے ۔پاکستان کے تناظر میں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر مروجہ سیاسی نظام ایسا ہو کہ اس میں مستقبل قریب میں زمامِ کار تحریک کے ہاتھ میں آنا ممکن نظر نہ آتا ہو، تو کیا حزبِ اقتدار کے بھلے عناصر کے ساتھ تعاون کا راستہ تلاش کر کے برسرِ اقتدار گروہ کے ذریعے اصلاحات کے نفاذ کی کوشش وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى کی ایک شکل ہوگی؟ اوریہ جاننے کے باوجود کے ان اصلاحات کا تحریک کو کریڈٹ نہیں ملے گا  ، کیا ایسا کرنا دعوتی حکمت عملی ہوگی؟ اگر مکمل نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تحریک کے پاس انسانی ، معاشی اورسیاسی وسائل موجود نہ ہوں، تو کیا برسرِاقتدار جماعت کے ذریعے حالات میں تبدیلی لانے کا عمل مصلحتِ عامہ کے اصول پر عمل ہو گا؟کیا اس طرح کا تعاون تحریک کی اصلاحی اور دعوتی تصویر کو بہتر بنائے گا اور طویل دورانیے میں تحریک کو اس کا سیاسی فائدہ ہو گا ؟
تحریک کو ان سوالات پر غور ضرور کرنا چاہیے کیونکہ تحریک کا مقصد نظامِ زندگی کی اصلاح ہے۔ اگر مکمل نظام کی تبدیلی قریب المعیاد نگاہ میں مشکل نظر آرہی ہو، تو جزوی تبدیلی سیاست شرعیہ، مصلحتِ عامہ اورکم تر خرابی پر عمل کے اصول کے پیش نظر اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔

نظام کی اصلاح کے لیے اسلوبِ دعوت

داعی کا دعوتی اسلوب خود حق وباطل ، ہدایت اور گمراہی ، شرک و توحید ، بندگیِ نفس اور بندگیِ رب میں فرق کو واضح کر دیتا ہے اور یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب اہل ایمان اپنے آپ کو دیگر انسانوں سے کاٹ کر الگ ہو کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ انھیں خیر خواہی کے ساتھ ہدایت و فلاح کی طرف بلاتے رہیں (الدین نصیحہ، رواہ مسلم، دین تو نصیحت اور خیر خواہی ہے)۔ اس کام میں شارع علیہ السلام کی قائم کی ہوئی تدریجی حکمت عملی اہمیت رکھتی ہے ۔ یعنی کلمۂ حق، دعوت خیر و فلاح و سعادت صرف اور صرف اللہ کے لیے ہو ،اللہ کے رسولؐ کے لیے ہو، اور پھر جو صاحب ِامر ہوں ان کی اور عامۃالمسلمین کی اصلاح اور مصلحت عامہ کے لیے ہو۔
دعوت اسلامی کے علَم برداروں بلکہ عام کارکنوں کی بھی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ طاغوت اور کفر و شرک کے خلاف شدت کے ساتھ اپنی آواز بلند کریں۔ بلاشبہہ ایمان اور کفر میں کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی ، لیکن اسلام کی دعوت کا مزاج مخالف کو اپنی قوت سے شکست دینے کی جگہ دلیل کی قوت اور نرمی ومحبت سے دل جیت کر دائرہ اسلام میں شامل کرنے کا ہے ۔اس لیے دعوت کی زبان میں شدت کی جگہ نرمی اسلام کا شعار ہے ۔ رب کریم نے حضرت موسٰی کو واضح ہدایت فرمائی:
اِذْہَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۝۴۳ۚۖ  فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۝۴۴ (طٰہٰ ۲۰:۴۳-۴۴) جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
فن خطابت اور سیاست کاری کے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ کس طرح مخالف کو دباؤ میں لاکر گفت و شنید پر آمادہ کیا جائے ۔ قرآن کریم غور و فکر اور آیاتِ کائنات اور اپنے وجود پر غور کی دعوت دے کر ہمدردی کے ساتھ نصیحت اور تذکیر کا اسلوب اختیار کرتا ہے ۔اس لیے اسلام کا داعی اور کارکن اپنے مخالف کو تضحیک واستہزا کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔ وہ اسے چور اچکا کہہ کر مخاطب نہیں کرسکتا ،گو زبان کے ذریعے دعوت ایک معروف طریقہ ہے لیکن قرآن کریم اس سے بھی زیادہ مؤثر طریقے کی طرف متوجہ کرتا ہے، یعنی اپنے عمل کے ذریعے دعوتِ دینا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳ (الصف ۶۱:۲-۳)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔
 اس آیت کی روشنی میں دعوت کا بہترین اسلوب ایک داعی کا اپنا طرز عمل ہے کہ وہ اپنی سیرت وکردار سے کیا پیغام دے رہا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے داعی کی یہ صفت بتائی ہے کہ وہ جس بات کی دعوت دیتا ہے اس پر پہلے خود عمل کر کے اس کے قابلِ عمل ہونے کو اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر تا ہے ۔
عملی شہادت ہی دعوت کا مؤثر ترین طریقہ ہے۔ اپنے آخری خطاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر تمام حاضرین سے یہ شہادت لی تھی کہ آپؐ نے اپنے عمل و کردار کے ذریعے کیا اس علمِ ہدایت اور پیغام کو پہنچا دیا جو بطور امانت آپ کے سپرد کیا گیا تھا؟

فریضۂ اقامت دین ہی تحریکات اسلامی کے وجود کا سبب ہے اور اس کی صحیح ادایگی ہی آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے ۔دین کا مذاق اڑانے والوں اور کفر وشرک کے علم برداروں کو دعوت الیٰ اللہ دینا تحریک کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاہم، مخالفین کو کس طرح مخاطب کیا جائے؟ اس سلسلے میں قرآنی اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے کہ کس طرح طاغوت کے نمایندہ کے ساتھ بھی قول لیّن اختیار کیا جائے ۔ شرک ظلم عظیم ہے۔اس کاردّ پوری قوت سے کیا جائے اور منکر کو مٹانے کے لیے اپنی تمام قوت لگا دی جائے، لیکن مشرکین کے خداؤں کو ایسے ناموں سے نہیں پکارا جائے جو انھیں مشتعل کرکے نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کے بارے میں نازیبا کلمات کہنے پر اُبھار دیں۔ دین ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم مخالفینِ دعوت کو بھی بُرے القاب سے نہ پکاریں۔ ان ہدایات پر عمل ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔
 قرآن کریم ہمارے لیے جو لائحہ عمل تجویز کرتا ہے ، اس میں دانشمندی ، حکمتِ دعوت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور دین مداہنت، موقع پرستی اور تجاہل عارفانہ کو ناپسند کرتا ہے کیوں کہ اس کا اصل ہدف کفر و شرک ، گمراہی اور ضلالت ہے،کسی کی ذات نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ فرد کو برائی سے نکال کر غم گساری اور نرمی کے ساتھ حقیقی کامیابی سے روشناس کرادے۔یہ کام فرد کوہدف اور نشانہ بنا کر نہیں ہو سکتا۔اس میں فرد کی جگہ نظام پر گرفت و تنقید اور متبادل نظام کا پیش کیا جانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔قرآن کریم اپنی دعوت کا آغازباطل نظام کی نفی سے کرتا ہے اور متبادل نظامِ عبودیت کو اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ پیش کر کے برہانِ قاطع کی حیثیت سے اپنی بات کو انجام تک پہنچاتا ہے۔
اسلام کا اصل کارنامہ کوئی فلسفیانہ نظام پیش کرنا نہیں تھا بلکہ ایسی قابلِ عمل اخلاقی، معاشرتی، سیاسی ، ثقافتی تعلیمات کا پیش کرنا ہے جن کی عملی تفسیر داعی کی ذاتی زندگی ، گھر میں اہل خانہ کے ساتھ تعلق ، پڑوسی کے حقوق کا ادا کرنا ،حتیٰ کہ راستے کے حقوق پر عمل کرنا کہ راستے تک میں کوئی غلاظت اور رکاوٹ نہ ہو، جس سے راہگیر پریشان ہوں۔ تجارت میں کس طرح حلال و حرام میں تمیز، صارف کے ساتھ رویہ، غرض تجارتی، معاشرتی ،سیاسی معاملات میں کس طرح کا رویہ اختیار کیا جانا ہے۔
گویا اسلامی نظام حیات ایک جانب کفر اور شرک پر مبنی نظام پر سخت فکری تنقید کرتا ہے اور دوسری جانب عملاً ایک متبادل نظام کو خاندان اور معاشرے میں نافذ کر کےمعروف اور نیکی کی برتری کو ایک قابل محسوس شکل دے دیتا ہے۔

فرد اور نظام میں فرق

قرآن و سنت کی تنقید و احتساب کا ہدف باطل نظام ہے ۔ لیکن باطل نظام میں بھی ایسے پاک نفوس پائے جاسکتے ہیں جن کو دعوتِ حق حکمت اور محبت سے دی جائے تو دائرۂ حق اور اسلام میں داخل ہو جائیں ۔ یہ کام طنز، طعن اور تضحیک یا تحقیر سے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے لیے اعلیٰ ظرف کے ساتھ دعوتِ حق دینے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور وہ تحریکِ اسلامی کے پرچم تلے آنے میں رکاوٹ محسوس نہ کریں ۔ اس کام میں شفقت ، رحمت، عفو و درگزر اور اللہ کے لیے مخالفین کے ہر ظلم کو بھلا دینا ہی دعوت کی حکمت عملی ہے۔ 
اسلام اور کفر و ظلم کے مقابلے میں دین کا مدعا کسی فریق کو شکست دے کر چت کر دینا نہیں ہے، بلکہ فریقِ مخالف کے دل کو جیتنا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی اَنا کی بنیاد پر بہت سے معاملات میں عقل کے خلاف کام کرنے میں بھی حرج نہیں محسوس کرتا ۔داعی کا کام یہی ہے کہ وہ مخالف کی مصنوعی اَنا کو مجروح کیے بغیر، اسے نشانۂ تضحیک و تذلیل بنائے بغیر اپنی وسعت قلب کے ساتھ دائرہ حق میں ظلمات سے نور کی طرف لے آئے۔ دین اپنی تعلیم و فہم کے ذریعے دین کی دعوت کی عظمت و حقانیت سے آگاہ کرتا ہے اور ایسے افراد بھی جو صدیوں سے اپنی برادری کی عظمت اور چودہراہٹ کے شکار رہے ہوں داعی کی ہمدردی ، غمگساری اور محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ وہ اہل مکہ جو اپنی قبائلی عصبیت و برتری اور معاشی خوش حالی اور مذہبی قیادت کے سہ آتشہ نشے اوررعونت کےشکار تھے ۔ ایسے اَنا زدہ افراد بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، نرمی، عفوودرگزر کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکے ۔آج تحریکات اسلامی کو یہی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ قول لَیِّن ہی وہ برہان قاطع ہے ، جس سے دلوں کی دنیا فتح کی جاسکتی ہے اور جس کی تعلیم خود خالق کائنات نے اپنے انبیا ؑکو دی ۔
انبیاے کرامؑ کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ مشرکین کے بتوں کو اور مشرکین کو سخت الفاظ سے مخاطب کرتے اور انھیں چور، ڈاکو ، قاتل ، شیطان جو چاہتے کہتے اور ان کا یہ کہنا نامناسب بھی نہ ہوتا۔ –اس کے برخلاف انبیاے کرامؑ نے اور خصوصاً نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی انسانیت کو بنیاد بنا کر بار بار انھیں دعوت کی طرف متوجہ کیا ۔ قرآن کریم کی یہ دعوتی نفسیات انبیاے کرامؑ کے طریق دعوت کاحصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کل تک جو اپنے ظلم ، جہل اور گمراہی کی بنا پر طاغوتی تھا، دین کی دعوت اور نصیحت نے اسے اللہ کا مددگار بنا دیا اور جان کے دشمن، جاں نثاروں میں تبدیل ہوگئے۔
دعوتِ قرآن نے جس شدت کے ساتھ جاہلیت ، استحصا ل ،ظلم اور کفر کو رد کیا وہیں اس سے زیادہ دلیل کی قوت کے ساتھ اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی ،انفرادی ، مالی اور سیاسی تزکیہ کے اصول پیش کر کے ایک مکمل متبادل نظامِ حیات سامنے لا کر رکھ دیا کہ اس نور و ہدایت کی وجہ سے ظلمتِ کفر و شرک سکڑنے پر مجبور ہو جائے ۔حق آجائے اور باطل کوقطعی شکست ہو جائےکیونکہ باطل تو شکست کھانے ہی کے لیے ہے۔ چنانچہ نور حق کفر و شرک پر غالب آگیا اور ایک قابل محسوس اسلامی معاشرہ ، اسلامی خاندان ، اسلامی تجارت و معیشت و کاشتکاری ، اسلامی نظامِ عدل، اسلامی بین الاقوامی قانون کے وجود نے باطل نظام کو ایک اعلیٰ اخلاقی نظام سے تبدیل کر دیا۔

غیرمتعصبانہ رویہ اور تعمیری کردار

تحریکات اسلامی کے لیے ایک قابل غور امر یہ بھی ہے کہ طویل عرصہ حزبِ اقتدار پر تنقید و احتساب کرتے کرتے اس کا اپنا طرزِ عمل کہاں تک غیر متعصبانہ رہا ہے کہ وہ پانی کے نصف بھرے گلاس کو ہمیشہ نصف خالی قرار دے یا نصف بھرا ہوا؟دعوت کی نفسیاتی حکمت یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی معمولی سی خیر پائی جائے ، اس خیر کو بنیاد بنا کر اس کی ہمت افزائی کر کے برائی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اسی کا نام مثبت تعمیری فکر ہے جو تحریک اسلامی کا امتیاز ہے اور جو قرآن بار بار یا ایھا الناس کہہ کر ہمیں یاد دہانی کراتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ روایتی حزب اختلاف کے طرز عمل سے ہٹ کر ہم اپنی پہچان حق گو جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرائیں۔ اس طرح ہماری بات میں مزید وزن اور اہمیت پیدا ہو گی۔
 اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تعمیری طرز فکر کے ساتھ تحریک اپنا منشور صرف انتخابات کے زاویے سے نہیں، بلکہ اپنی تعمیری تجاویز کو عملی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی بنیاد پر مرتب کرے۔ نیز حزبِ اقتدار کو بھی ان امور کو نافذ کرنے کی دعوت دے کیوں کہ تحریک کا مقصد اور ہدف اپنی ذاتی کامیابی کا سرٹیفکیٹ لینا نہیں ہے، بلکہ معاشرے میں اسلام اور اسلامی نظامِ عدل و انصاف کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہے۔ اگر یہ کام کسی اور کے ہاتھ سے ہو جائے تو یہ بھی تحریک کی کامیابی ہے۔ اگر اسلامی نظامِ معیشت ، معاشرت ، ابلاغ عامہ وغیرہ کا نفاذ حزبِ اقتدار کر دیتی ہے، تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ تحریک اسلامی کی شکست ہو گی یا کامیابی ؟

عملی مثالیں قائم کرنے کی ضرورت

اپنے اہداف کے حصول کے لیے تحریک اسلامی کو کسی ایک لگے بندھے طریقے کا پابند نہیں ہونا چاہیے، بلکہ نفاذِ شریعت اور اسلامی نظامِ عدل کے قیام کے لیے ہر ممکنہ ذریعے کو استعمال کرنا چاہیے۔ اس عمل کے دوران جہاں کہیں اسے معمولی سا اختیار بھی حاصل ہو، اس چند میٹر رقبے پر خود اسلامی نظام کو قائم کر کے عملی مثالیں پیش کرنی چاہییں۔ مثلاً اگر کسی یونین کونسل میں تحریک کا اثر ہے اور تحریک وہاں سڑکوں کی صفائی ، صاف پانی کی فراہمی ، دکانوں پر ناپ تول کے نظام کی درستی کے لیے اقدامات ، فحاشی کے مراکز کاخاتمہ ، اسکولوں میں بچوں کی صحت اور تعلیم کے معیار کی بہتری کا اہتمام کر لیتی ہے، تو یہ نیکی کے چند قابل مشاہدہ جزیرے اسلامی نظام پر طویل اور مدلل تقاریر سے زیادہ مؤثر دعوتی پیغام پہنچا سکتے ہیں ۔دعوتی کام کا یہ طریقہ صرف ان مقامات تک محدود نہیں ہے جہاں تحریک کا کوئی اثر پایا جاتا ہو، بلکہ ان مقامات پر بھی جہاں اس کے متاثرین کی اکثریت نہ ہو۔ کراچی میں بلدیہ کے تحریکی میئر نے جس خلوص اور توجہ سے اصلاحات کیں، ان کا اعتراف تحریک کے مخالفین نے بھی کیا اور عوام کو اعتماد ملا کہ اگر وہ اپنا ووٹ صحیح افراد کو دیں تو ملک میں اصلاح ہو سکتی ہے۔
دعوت وہ نرم قوت (soft power) ہے جو سنگلاخ چٹانوں کو موم کی طرح نرم بنا سکتی ہے۔ قرآن کریم نے جہاں شقاوت قلب کا تذکرہ کیا ہے وہاں خشیت قلبی کو بھی بیان کیا ہے اور خاشعین ہی کو اپنا انسانِ مطلوب قرار دیا ہے ۔ تحریک کے کارکنوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ

وہ کس طرح ہر ممکنہ صورتِ حال (opportunity ) کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی جب صاحبِ اختیار اسلام کی تعلیمات کے نفاذ کا زبانی وعدہ کررہے ہوں۔کیا ان کی نیت پر شک کا اظہار کیا جانا ضروری ہے؟ جہاں احتساب ضروری ہے، وہیں یہ بھی مطلوب ہے کہ ایک ظاہر بات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تحریک کی جانب سے ایسی تجاویز کو باقاعدہ منصوبۂ عمل کی شکل میں پیش کر دیا جائے    جس کے نفاذ سے ملک میں اسلامی نظام عدل کے قیام کا امکان بڑھ جائے۔ –تحریکات اسلامی نے اس حکمت عملی کو مصر ،سوڈان اورترکی میں جزوی طور پر اختیار کیا ۔اس پہلو سے تنقیدی جائزے کی ضرورت ہے اور پاکستان کے تناظر میں مکمل تبدیلیِ نظام کی جدوجہد کرتے ہوئے تبدیلی کے لیے متعین دائروں میں کون سی اصطلاحات کی جاسکی ہیں ان کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ بالفرض     یہ پُرخلوص کوشش کسی بناپر مطلوبہ نتائج پیدا نہ بھی کرسکے، تو تحریک عند اللہ جواب طلبی سے اپنے  آپ کو بچا سکتی ہے کہ جو اس کے اختیار میں تھا اس نے اس میں کوئی کمی نہیں کی۔
معروف کے قیام ، بر اور تقویٰ کے حصول کے لیے جو کوشش بھی رضاے الٰہی کے لیے کی جائے گی وہ ربِ کریم کےعلم میں ہوگی۔ اس کا مقصد نہ کوئی کریڈٹ لے کر سیاسی کامیابی ہوگی، نہ یہ دعوتِ اسلامی کے طریقۂ کار کی خلاف ورزی ہوگی، بلکہ حکمت دعوت کے قرآنی اصول کی تطبیق اور اتمامِ حجت کی ایک شکل ہوگی۔ اس حکمت عملی کے ذریعے مصلحت عامہ کا حصول، دعوت کی کامیابی اور اس کی اصولی فتح ہوگی کہ اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی اس نے پیشہ ور حزبِ اختلاف کی جگہ قرآنی اصول پر عمل کرتے ہوئے، اپنی سیاسی تصویر (image )کی پروا کیے بغیر اللہ کے بندوں کی بھلائی اور دین کی اقامت کی غرض سے اقتدار کے وسائل کو صحیح راہ پر لانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔

معروف میں تعاون کی حکمت عملی 

قرآن کریم کے اصولوں پر مبنی اس حکمت عملی کو نہ مداہنت کہا جاسکتا ہے اور نہ اپنے اصولوں سے انحراف۔ دعوت کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ جو کل تک اس دعوت کا مذاق اڑاتا رہا  ہو وہ خود اس دعوتی ابلاغ اور دعوتی اسلوب کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مولانا مودودیؒ کا کارنامہ محض اسلام کی اجتماعی دعوت کو مدلل انداز میں پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے لہجے اور اسلوب کا وہ اثر ہے کہ آج وہ لوگ بھی جو اپنی عملی زندگی میں اسلامی طرزِ حیات کی مکمل پیروی نہ کرتے ہوں، اسلامی نظریۂ حیات ،مدینہ کی اسلامی ریاست اور بلاسودی بینک کاری کے تصورات کو بار بار دُہرا کر نظریۂ پاکستان سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔دعوت اور دعوتی فکر کا یہ وہ نفوذ ہے جو دعوت کے حق ہونے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے کی ایک علامت ہے اور تحریک کے لیے اُخروی کامیابی کی ایک شکل ہے کہ ایوان اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی وہ صاحب ِاقتدار افراد سے وہ کام کروانے میں کامیاب ہو گئی جو شاید ۵۰سال بعد اس کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے بعد وہ خود اپنے ہاتھ سے کر سکتی۔
ایک چھوٹی سی مثال سے یہ بات زیادہ واضح ہو سکتی ہے۔ تحریک اسلامی خود ایک فکری ، تربیتی و دعوتی تحریک ہونے کی بنا پر تعلیم و تعمیر کردارکوتبدیلیِ نظام اور پورے ملک میں تبدیلی لانے کا بنیادی ذریعہ سمجھتی ہے۔ اس بنا پر گذشتہ ۷۲ برسوں سے مسلسل مطالبہ کررہی ہے کہ حکومت وقت اسلامی نظام تعلیم کو سرکاری سکولوں میں نافذ کرنے کا اعلان کرے لیکن اس کی یہ خواہش اور تمنا پوری نہیں ہوسکی۔ اس کے سامنے تین واضح امکانات اور عمل در آمد کی شکلیں ہیں۔اوّل: وہ اس وقت تک اس نصاب تعلیم،نصابی کتب اور تربیت یافتہ اساتذہ کو اپنے دامن میں لیے رہے جب تک اقتدار میں نہ آ جائے، اور جیسے ہی اسے اقتدار ملے وہ اپنے کیے ہوئے ہوم ورک کو نافذ کر دے۔ یہ آئیڈیل شکل ہے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ وہ حکومت پرمستقلاً گرفت ، تنقید ، احتساب کرتی رہے۔ نظامِ تعلیم کی تبدیلی کے مطالبے کے ساتھ جہاں جس حد تک اصلاح ممکن ہو اس کی راہیں تلاش کرے۔ 
ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ  کے اصول کی روشنی میں اپنے تیار کردہ تعلیمی منصوبے، نصابی کتب ،تربیت استاد کا نظام، طلبہ کی تعمیر سیرت کے لیے عملی پروگرام، غرض جو بنیادی کام (home work) اس نے کیا ہے وہ سب ایک ایسی حکومت کے سامنے رکھ دے جو بظاہر تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔ اگر حکومت اصلاح کے پروگرام کو کُلی طور پر نہ سہی جزوی طور پر اختیار کرلیتی ہے ، تو کیا یہ تحریک کی کامیابی نہ ہوگی؟ 
ایک آخری شکل وہ بھی ہے جس پر ایک حد تک عمل ہورہا ہے، یعنی تحریک کی فکر سےمتاثر پورے ملک کے مختلف صوبوں میں جہاں جہاں بھی اسلامی فکر رکھنے والے تعلیمی ادارے ہیں، یا کم از کم وہ ادارے جن کے بانی حضرات کبھی تحریک کے کارکن یا ذمہ دار رہے ہوں وہ اپنے زیراثر تمام اداروں میں مخلوط تعلیم کو یکسر ختم کر دیں ۔ ان کے کالج اور یونی ورسٹی میں طالبات اور طلبہ کے لیے الگ الگ سرگرمیاں ہوں۔ کالج کے مباحثے مشترک نہ ہوں یا طلبہ و طالبات کے ریسرچ پراجیکٹ الگ الگ ہوں ۔ تمام طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت کے لیے  ٹائم ٹیبل میں مستقل جگہ رکھی گئی ہو ۔ ان کے اساتذہ کے لیے سال میں مناسب تعداد میں تربیتی کورس رکھے جائیں ۔ان کے تمام اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اسلامی نظریۂ حیات پر مبنی معاشرتی علوم ،تطبیقی علوم، ہرشعبۂ علم قرآن و سنت کی تعلیمات کو نفسِ مضمون کے ساتھ اس طرح یک جا کر دیا جائے کہ طلبہ و طالبات کیمسٹری ہو یا طبیعات اور علم سیاست، ہر مضمون کے حوالے سے اسلامی اصول اور فکر سے مکمل طورپر آگاہ ہو سکیں ۔یہ تمام ادارے باہمی مشورے سے اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اور ایک نظریاتی نظام تعلیم کو ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ (HEC) اور دیگر بورڈوں کی عمومی ہدایات کے اندر رہتے ہوئے اپنی فکر اور دعوت کوجس حد تک ممکن ہو، نافذ کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان تینوں طریقوں پر بیک وقت بھی عمل کیا جائے۔ اگر صرف یہ کام کر لیا جائے تو ایک عام پاکستانی اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے کہ تحریک کل ایوان اقتدار میں آکر نہ صرف تعلیم کو معیاری ، اخلاقی اور عالمی پیمانوں پر لے جا سکتی ہے، بلکہ معیشت اور قانون کا نفاذ بھی کر سکتی ہے ۔ 

تحریکات اسلامی کا تصور ان افراد کے ذہن میں جو اپنے آپ کو روشن خیال یا بعض اوقات سیکولر مسلمان کہتے ہیں یہی ہے کہ یہ نماز پڑھا سکتے ہیں اور عام طور پر جھوٹ نہیں بولتے، مالی معاملات میں اکثر شفاف ہیں لیکن حکومت ان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کا ایک سبب تحریک کا بعض مسلکی جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنا بھی ہے۔ سیکولر یانام نہاد روشن خیال طبقہ ان جماعتوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔تحریک کا ان سے تعاون تحریک کے تصور کو ان کی نگاہ میں مجروح کرتا ہے  لیکن اگر تحریک سے وابستہ افراد کے ادارے ایک کامیاب مثال پیش کریں تو تحریک کی صلاحیت، خلوص اور معاشرتی اہمیت، ہرشہری کی نگاہ میں مستحکم ہوسکتی ہے۔
اس کے ساتھ اگر تحریک آگے بڑھ کر ایک تفصیلی دستاویز معاشی ، ابلاغی ، صحت عامہ، معاشرتی ، دفاعی پالیسی یا ملکی اور بین الاقوامی حکمت عملی مرتب کرکے پیش کرے جو عملی مسائل پر اسلامی راہنمائی فراہم کرتی ہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ تحریک کے بارے میں موجود منفی تاثر مثبت رویے میں تبدیل نہ ہو جائے ۔ یہ کام نہ صرف محنت طلب ہے ، بلکہ اس میں صبر و استقامت بنیادی شرط ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر اس کام کو مسلسل کرنا ہی تحریک کی اصل کامیابی ہے ۔
تعلیم کے علاوہ معیشت کے میدان میں بھی تحریک سے وابستہ یا ہم خیال افراد کے صرف چند تجارتی ادارے اگر سود میں ملوث ہوئے بغیر کام کرکے ایک کامیاب تجارتی ماڈل پیش کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ اقتدار میں آنے سے قبل تحریک اپنی مطلوبہ تبدیلی کی مثال پیش کر کے عوام کو اپنی دعوت کے قابلِ عمل ہونے پر قائل نہ کرسکے۔ اگر ۱۰؍اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آیندہ ۵۰ برسوں میں صرف دو اعلیٰ تعلیمی نجی ادارے وہ ہوں جو اسلامی ماحول اور اسلامی اصولوں کو اپنے نصابات میں سموکر طلبہ وطالبات کو علمی صلاحیت اور سیرت وکردار سے مزّین کر دیں اور یہ طلبہ و طالبات اپنے تعلیمی معیار اور اخلاقی طرزِ عمل میں مثالی ہوں اور ان دو جامعات میں مخلوط تعلیم نہ ہو، تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
 تحریک اسلامی کے لیے قرآنی منہج بڑا واضح ہے کہ وہ پہلے وہ کام کر دکھائے جس کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ آغاز ان ا داروں سے ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو تحریکی فکر سے قریب سمجھتے ہیں ۔ پاکستان آج بھی انسانی دولت سے مالا مال ہے ۔ یہاں وہ پاک نفوس کثرت سے ہیں جنھیں ہم نے آج تک تلاش نہیں کیا۔ ہمیں اپنے محدود حلقے سے نکل کر محض ووٹ کے لیے نہیں، بلکہ  دعوتِ دین اور اقامت دین کے لیے ان پاک نفوس تک پہنچنا ہے جن تک دعوتِ حق پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، اور جو ہمارے لیے آخرت میں کامیابی یا ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں۔
تحریک ِ اسلامی کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلامی نظام معیشت ، نظام سیاست ، نظام معاشرت، نظام ابلاغ عامہ،نظام صحت و تحفظ حیات ، نظام ماحولیات، غرض ہرہر شعبے میں نظام عمل کا تفصیلی خاکہ تیار کر کے عوام اور حزب اقتدار کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جہاں بھی کسی ادارے میں تحریکی فکر سے ہم آہنگی پائی جائے، اس ادارے کو مثالی ادارہ بنا کر اپنی دعوت کی عملی شکلی پیش کرنا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جب معاشی ، سیاسی ، ثقافتی اور معاشری اشاریے (indicators) یہ پتا دے رہے ہوں کہ قوم پستی کی طرف جا رہی ہے تو اس کے اسباب کا پتا لگانا ایک معاشرتی فریضہ بن جاتا ہے۔ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ اخلاقی امراض، یعنی معیشت میں دھوکا اور فریب، سیاست میں آمریت وکنبہ پروری اور بے ایمانی ، معاشرت میں حقوق کی پامالی اور رشتوں کا احترام ختم کر دینے اور ثقافت میں رنگ رلیوں اور عریانیت کو ’آرٹ‘ اور’فن‘قرار دے دینے کا بنیادی سبب کیاہے؟   کیا یہ اُس دورِ غلامی کا نتیجہ ہے جس سے مسلمان مغربی سامراج کے تسلط کے دورسےگزرے ہیں، یا یہ فلاح اور کامیابی کے معیارات کوگڈ مڈ کرنے کا نتیجہ ہے، یا مقصدِ حیات کے شعور کا صحیح ادراک نہ ہونے کی بنا پر ہے؟ کیا یہ خرابی اچانک رونما ہو گئی ہے، یا مسلم ملت گذشتہ دو سوسال میں جن آزمایشوں سے گزری ہے، اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے ؟ 
قرآن کریم نے اقوام عالم کے عروج وزوال کے اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے غوروفکر کی راہیں روشن فرمائی ہیں۔ 
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ قرآنِ پاک نے معاشی ، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی عروج و زوال کااصل سبب اخلاق کو قرار دیا ہے ۔ یہ اخلاق انفرادی،خاندانی ، معاشرتی اور معاشی و سیاسی سطح پر فیصلہ کن عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔مغربی فکر میں اخلاق کے لیے عموماً دواصطلاحات، یعنی Ethics  (اخلاقیات)اورMorality (سیرت، کردار)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اوّلین اصطلاح فکری اور نظری پہلو کو اور ثانی الذکر اصطلاح اخلاق کے عملی پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی روایت میں قرآن کریم اخلاق کی جامع اصطلاح میں نظری اور عملی پہلو کو یک جا کرتے ہوئے سیرت پاکؐ کو اخلاق کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ اس جامع اصطلاح میں عقیدے اورعمل کی بنیاد پر اخلاقی رویے کو انسانی تہذیب اور ثقافت کے عروج و زوال کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔

مغرب کا ترقی کا معیار

 ہم جس مادی دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ترقی اور عروج کا پیمانہ: بیرون ملک میں محفوظ سرمایہ ، کاروبار میں خواتین کے قائدانہ کردار، مختصر خاندان، ذاتی مکان اور کار اور مغربی تعلیم کے حصول کو قرار دیا جاتا ہے ۔چنانچہ ایک ملک یا قوم کے ترقی یافتہ ، کم ترقی یافتہ ، یا عدم ترقی یافتہ ہونے کا فیصلہ ’انسانی ترقی‘ کے انھی خودساختہ معیارات پر کیا جاتا ہے۔
ترقی اور استحکام کو ناپنے کے یہ پیمانے سامراجی اقوام اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں، جنھیں سرمایہ دارانہ فکر کے علَم برداروں نے اپنے تصورِ حیات کی روشنی میں ایجاد کیا اور خود کو غالب تہذیب قرار دیتے ہوئے تمام دنیا کے انسانوں کو جانچنے کے لیےانھی ’مقدس پیمانوں‘کو معیار قرار دیا۔ ان کی بنیاد پر اقوام عالم کی درجہ بندی کرنے کے ساتھ اقوام عالم کو یہ بات باور کروا دی کہ وہ انھی پیمانوں کی روشنی میں ترقی یافتہ یا ترقی پذیر بن سکتی ہیں۔ اسی معیار کے پیش نظر ان ممالک کی تعلیم ، معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کو قدیم، غیر ترقی یافتہ قرار دے کر انھیں اس دوڑ میں لگا دیا گیا کہ وہ خود کو مغرب کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے زعم میں مبتلا ہوسکیں۔
مغربی فکر کی نمایندگی کرتے ہوئے معروف امریکی تجزیہ کار سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اس حقیقت کا سادہ الفاظ میں یوں اظہار کیا:

To be successful you must be like us, our way is the only way "The argument is that the religious values, moral assumptions and social structures of these (non-western)  societies are at best alien and sometimes hostile to the values and practices of industrialism"(The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, London, 1997, p73).

کامیابی کے لیے آپ کو لازماً ہمیں پسند کرنا ہوگا۔ ہمارا راستہ ہی صرف واحد راستہ ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ان (غیرمغربی اقوام) کی مذہبی اقدار، اخلاقی تصورات اور سماجی ڈھانچے، ہمارے سماجی و معاشی اور صنعتی نظام کی اقدار و روایات (انڈسٹریل ازم) کے لیے صرف نامانوس ہی نہیں بلکہ بسااوقات دشمنی پر مبنی ہیں۔

گویا ترقی کے لیے صنعتی انقلاب کے بعد لادینی اور سرمایہ دارانہ مادیت جس کو یورپ نے اختیار کیا، ان کو اپنائے بغیر کوئی غیر یورپی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

اسلام کا ترقی کا پیمانہ

اس کے مقابلے میں اسلام اخلاق کو ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جو اقوام اخلاقی لحاظ سے مستحکم ہوں گی، وہی مادّی ترقی اور خود انحصاری حاصل کر سکیں گی۔   جن اقوام کے اخلاق اچھے ہیں تو ان کو ترقی کی ضمانت دی گئی، اور اگر اخلاق بدتر،ناپسندیدہ اور باطل ہیں تو انھیں متوقع تباہی و بربادی سے آگاہ کرنے کے لیے ماضی سے ایسی مثالیں پیش کی گئیں جنھیں کوئی فرد بھی جو دو آنکھیں اور دماغ رکھتا ہو، رد نہیں کر سکتا ۔چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جن اصولوں کو اپنایا، ان کے نتیجے میں تجارت، کاشت کاری،صنعتی ترقی، لوہے اور فولاد سے تیار کردہ ہتھیار وغیرہ اورغلے کی پیداوار میں فراوانی اور دولت میں کثرت پیدا ہوئی۔ اگر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ناپ تول میں کمی کی، وعدوں کو پورا نہیں کیا،اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اپنے خاندانی اخلاق کو ایک ایسے عمل سے تباہ کر دیا جس کا ارتکاب اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں کیا تھا، تو اللہ کا غضب اور عذاب ان پر نازل ہوا۔ ان کے تعمیر کردہ محل،اس زمانے کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگیں اور وائٹ ہاؤس اور آزادی کے علامتی مینارزمین بوس ہوکر خاک میں مل گئے۔ ان کی ما دی عظمت ان کے کسی کام نہ آئی اور تباہی کو نہیں روک سکی۔
ترقی اور خوش حالی کے لیے اسلام نےجس چیز کو معیار اور بنیادی پیمانہ قرار دیا، وہ انسان کا اخلاق ہے، جس کے ثمرات کے طور پر ذاتی زندگی میں تزکیہ اور انسانی معاشرے میںتعاون، اخوت، عدل وانصاف اور حقیقی خوش حالی رُونما ہوتے ہیں۔ حلال و حرام کے فرق کو سمجھتے ہوئے صرف حلال روزی کو اختیار کرنا اور خصوصاً خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنا ،انفرادی سطح پر اپنے ہاتھ سے روزی پیدا کرنا___ یہ تصورِاسلامی، اسلامی ثقافت میں ایسی روایت بن گیا کہ کہ دورِ زوال کے کئی حکمران اس پر کاربند نظر آتے ہیں۔ ایسے فرماں روا مثالی اسلامی نظام حکومت سے انحراف کرچکے تھے اور خلافت کے بجاے بادشاہت جیسی حکمرانی کے مرض میں مبتلا تھے، اس کے باوجود اپنے ہاتھ سے قرآن کریم کی کتابت کر کے جو رقم ملتی، اسے اپنی ذات پر خرچ کرتے۔ گو ان کے سیاسی معاملات مکمل طور پر اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی ان کی زندگی دوسرے اربابِ اقتدار سے بڑی مختلف تھی۔برعظیم میں اورنگ زیب عالم گیر اور دور عثمانی کے کئی بادشاہ اس کی مثال پیش کرتے ہیں۔
دورِ حاضر کے معاشی نظام اور معاشی ترقی کا بڑا انحصار سودی لین دین پر ہے ۔وہ تجارت ہو یا صنعت و حرفت ، فرد ہو یا ادارہ اپنے کارو بار کے آغاز کے لیے کسی بنک سے قرض لینے کو ایک بنیادی ضرورت سمجھ کر کام کا آغاز کرتا ہے۔ پھر ساری عمر سود کی مقررہ شرح ادا کرنے کے لیے بھاری نفع پر اشیا فروخت کر کے ایک جانب سود کی اقساط ادا کرتا ہے ساتھ ہی صارفین کو اضافی نرخ پر اشیا فراہم کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے ۔
بظاہر مادہ پرستی پر مبنی نظام پھلتا پھولتا نظر آتا ہے لیکن ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بھونچال نے یہ بات ثابت کردی کہ سرمایہ دارانہ نظام کھوکھلا ہو چکا ہے اور اشتراکیت کے بعد اب اس کی مکمل تباہی کی باری ہے ۔ ۲۰۰۸ء میں دنیا کے ۱۰۰ سے اُوپر معاشی مراکز میں اس نظام کے خلاف اسی نظام کے پروردہ افراد نے مظاہرے کیے اور عالمی منڈی میں بینکوں ، تعمیراتی کمپنیوں اور معاشی اداروں نے اپنے کنگال ہونے کے کاغذات داخل کر کے اس نظام کے ناکام ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دیے ۔
مادیت اور ذاتی افادیت پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلام جو نظام تجویز کرتا ہے وہ اخلاق کے اعلیٰ اصولوں، صدق شعاری ، امانت و دیانت ، پاس داریِ عہد ،اشیا کی معیاری ضمانت  (Quality Assurance)اور عدم استحصال کو معاشی پالیسی کے ستون قرار دیتا ہے۔اس کے ساتھ ہی معاشرے میں ترقی کے لیے خاندان کی اخلاقیات کو بنیاد قرار دیتا ہے۔انفرادی اور اجتماعی ہردو سطحوں پر یہ نظام خود انحصاری کا علَم بردار ہے۔قرآن کریم انبیاے کرامؑ کے معاشی معاملات میں خود انحصاری اختیار کرنے کی مثالیں دے کر سمجھاتا ہے کہ صیحح رویہ کون سا ہے؟حضرت نوح ؑ کا  کشتی سازی (Ship Building) کی صنعت کو نقطۂ کمال تک پہنچانا اور حضرت داؤدؑ کا فولاد سے زِرَہ ، تلوار، ڈھال اور دیگر آلات کا تیار کرنا خود انحصاری کی اعلیٰ مثالیں ہیں ۔
قرآن کریم ہمیں بار بار یاد دہانی کراتا ہے کہ دنیا میں ترقی اور آخرت میں کامیابی کا اگر کوئی درست طریقہ ہے تو وہ صرف قرآنی اخلاق اور اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے۔چنانچہ ماضی کی اقوام نے جب بھی اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کی، وہ تباہی کے گڑھے میں جاگریں۔

اخلاقی انحطاط کا سبب

آج مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان جن زمینی مسائل کا شکار ہے،ان میں سر فہرست مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔برقی ابلاغ عامہ نے معاشرے کے اخلاقی ناسوروں کو ضرورت سے زیادہ   بے نقاب کر کے اخلاقی گراوٹ کے احساس کو اور زیادہ شدید کر دیا ہے۔ملک میں چلنے والے ہر ٹی وی چینل پر اگر کوئی خبرسرخی بنتی ہے تو وہ اخلاقی دیوالیے اور زوال ہی کی کسی شکل کو ظاہر کرتی ہے ۔ مختلف اوقات میں بچوں اور خواتین کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات کو ’نشر فحش‘کا فریضہ سمجھ کر ابلاغی ادارے سنسنی اور مبالغے کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے پاکستان اخلاقی خرابیوں میں ’سربراہی‘ کا مقام رکھتا ہو۔
 اسی طرح اگرملک میں طلاق کے رجحان کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم امریکا کو جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ طلاق زدہ ملک ہے ، کچھ عرصے میں پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ معاشی بدعنوانی، کرپشن کی خبریں دیکھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بد معاملگی اور کرپشن میں شاید  ہم ہی سرفہرست ہیں ۔ تعلیم میں دیکھا جائے تو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بدمعالگی عروج پر نظر آتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار کیے بغیر کہ واقعتاً یہ مسائل معاشرے میں پائے جاتے ہیں، مگر ابلاغ عامہ جس تباہ کن انداز میں انھیں پیش کر کے قوم میں مایوسی اور خود فراری کی کیفیت پیدا کرتا ہے، اسے قومی اور ملکی مفاد کے منافی اور طاغوتی فکر کی ایک سازش سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صبح سے شام تک بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ، خواتین کے عدم احترام، اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اشتہارات میں خواتین کے جنسی استحصال، تعلیم میں معیار کی گراوٹ ، سیاست میں اصول فراموشی، معیشت میں حلال کی جگہ حرام کی پذیرائی اور معاشرت میں ہندووانہ اور مغربی رسموں اور رواج کو شعوری طور پر متعارف کرانے میں ایک ٹی وی چینل دوسرے سے بازی لے جانے میں لگا ہے، تو وہ سوچتا ہے کہ شاید ہم زوال کے اُس درجے پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور ہروقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ یہ پورا نظام دھڑام سے گرنے والا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ ذہنی اور نفسیاتی تاثر ہے جو ہمارا ابلاغ عامہ اوراس ابلاغ عامہ کی پرورش اور اسے غذا فراہم کرنے والے پس پردہ افراد اور ادارے چاہتے ہیں کہ قوم مایوس ، دل برداشتہ اور نااُمید ہو۔ اسے یہ بات سمجھائی جائے کہ مغرب میں قانون کا احترام ہے ، انسانی حقوق ہیں ، معاشی اور سیاسی اخلاقیات ہے، اس لیے اپنے ’مذہب‘ اور روایات کو چھوڑ کر ہمارے لیے راہِ نجات مغربی لادینی معاشرت و سیاست ، معیشت کو اختیار کرنے ہی میں ہےتاکہ ہم ترقی یافتہ بن سکیں۔ یہ وہ اصل ہدف ہے جو قوم میں مایوسی اور اضمحال پیدا کرنے کے نتیجے میں حاصل کرنا مقصود ہے ۔
قبل اس کے کہ ہم ان مسائل کے حل کی طرف آئیں، اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دن رات مایوسی ، دہشت گردی ،جنسی درندگی کی خبریں سن سن کر ایک احساس یہ بھی ابھرتا ہے کہ یہ قوم ہے ہی ایسی بدکردار اور بد بخت کہ اسے صرف کوئی جابرانہ اور آمرانہ نظام ہی آکر ٹھیک کر سکتا ہے ۔اس تناظر میں سابقہ آمرانہ ادوار کی طرف بھی اشارے کیے جاتے ہیں کہ جب بھی آمرانہ دور آیا معیشت میں بہتری ہوئی۔ اس لیے آج جو مسائل پائے جاتے ہیں انھیں کوئی آمر ہی ڈنڈے کے زور سے ٹھیک کر سکتا ہے۔
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اسی قوم کے افراد جب امریکا کے اعلیٰ ترین ہسپتالوں میں یا برطانیہ کے ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں، تو مقامی گوری نسل کے افراد سے کہیں زیادہ فنی مہارت اور ایمان داری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس قوم کے کم تعلیم یافتہ معاشی کارکن جب متحدہ عرب امارات میں گاڑی چلاتے ہیں تو مکمل طور پر ٹریفک کے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے انجینیر اعلیٰ معیار کی سڑکوں کا جلیبی نما جال بچھانے میں دنیا بھر میں اپنی مہارت کا لوہا منواتے ہیں ۔گویا مسئلہ نہ جین (gene)کا ہے ، نہ قوم کی فطرت کا، بلکہ اس کی تربیت اور نظام زندگی میں بنیادی خرابی کا ہے۔ مزید یہ خود اپنے بارے میں اپنی کم حیثیتی (underestimation) کا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں ہی نہیں پورے خطے میں پاکستان ایک بڑی جوہری قوت ہے۔ ملک میں بہ ظاہر بجلی کی کمی کے باوجود اس ملک میں آیندہ ۵۰۰ سال کے لیے کوئلہ کی شکل میں قوت کے ذخائر موجود ہیں۔پاکستان کا ایک بڑا سرمایہ اس کے ۷۰ فی صد کے قریب نوجوان ہیں جن کی صیحح تعلیم و تربیت نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی طور پر انسانی وسائل کے استعمال سے صنعتی ، سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ مٹی نہ صرف نم ہے بلکہ اس میں مکمل روئیدگی موجود ہے۔ صرف اسے اخلاق کے تریاق سے کامیابی تک لے جانے کی ضرورت ہے ۔

  • معاشی اخلاقیات: قرآن کریم نے تجارت کو نہ صرف حلال قرار دیا ہے اور ناپ تول کے پیمانوں کو ایمان داری سے استعمال کرنے پر زور دیا ہے، بلکہ تجارت کو خصوصاً اور کاشت کاری کو عموماً معاشی فلاح کے فروغ کی ایک بنیاد بتایا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ معاشی اخلاقیات پر عمل نہ کیا گیا تو انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایمان دار تاجر کے بارے میں پیش گوئی کی ہے کہ وہ آخرت میں انبیاؑ ، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل ہو گا ۔اسلام نے اس دنیا میں ایسے کردار پیش کیے، جو مکہ سے آئے تو خالی ہاتھ تھے، لیکن مدینہ کے بازار میں جاکر صرف پنیر سے کاروبار کا آغاز کر کے اپنی ایمان داری کے سبب اُس دور کے کروڑ پتی افراد میں شامل ہوگئے ۔ دوسری جانب یہ کتابِ عزیز ان کرداروں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جن کی مالی کثرت ان کے خزانوں کی کنجیوں کے بوجھ سے ظاہر ہوتی تھی لیکن وہ دنیا اور آخرت میں اپنی معاشی بدمعاملگی کی بناپر تباہ و برباد کر دیے گئے ۔ ہامان اس رویے کی نمایندگی کرتا ہے۔
  • سیاسی اخلاقیات: سیاسی میدان میں خود نمائی ، مشاورت پر عمل نہ کرنا ، اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہ سمجھنا بلکہ خود کو انسانوں کا رب سمجھنا، وہ عظیم غلطی ہے جو بڑی بڑی تہذیبوں اور مضبوط اقوام کی تباہی کا سبب بنی۔فرعون اور اس جیسے سیاسی فرماں روا،یونان اور روم و ایران کے ایوانِ اقتدار پر قابض افراد،سب سیاسی شرک اور اللہ کی حاکمیت کا انکار کرنے کے سبب تباہ و برباد ہوئے ۔
  • ثقافتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی تہذیب کو لھو الحدیث(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ق ، اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دلفریب خرید کر لاتا ہے، تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے۔ لقمان ۳۱:۶) کی شکل دے دی اور قصہ گو ، رقص اور تماشے کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور مثال بنایا اور انھیں اعلیٰ قومی اعزا ز دیے، جب کہ اہل علم و فکر وتقویٰ کے لیے زمین کو تنگ کردیا___ وہ اقوام اپنی تمام تر مادی قوت کے باوجود صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ وہ شام اور مصر کی تہذیب ہو یا روم و کسریٰ کے تخت ہوں، کوئی قوت ان کو زوال سے نہ روک سکی۔
  • معاشرتی اخلاقیات: جن اقوام نے اپنی معاشرت کو ہواے نفس کا تابع بنا دیا اوراللہ کی جانب سے عطا کردہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو رد کرکے ان کی جگہ وہ طریقے ایجاد کیے جو غیرفطری تھے، اور اس سے پہلے انسانیت میں استعمال نہیں ہوئے تھے ( قرآن کریم صراحت سے بیان کرتا ہے کہ قومِ لوط کا عمل ان سے پہلےانسانوں میں رائج نہ تھا)، تو نتیجتاً انھیں بربادی سے کوئی نہ روک سکا۔ آج کے دور میں جنسی آزادی کے زیر عنوان ان غیر فطری اعمال کو ’بنیادی انسانی حقوق‘ بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلم معاشروں میں بھی بچوں کی تعلیم میں ان ’حقوق‘ کے ’احترام‘ کو داخل کیا جارہا ہے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر طریقے جن میں مخلوط تعلیم ،ا بلاغ عامہ کا ہر موقعے پر مخلوط ماحول کو نمایاں کرنا اور معاشرت میں بد اخلاقی کے سبب طلاقوں کا بڑھ جانا، یہ وہ عوامل ہیں جو کسی تہذیب اور ملت کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتےہیں۔ نتیجتاً پورا معاشرہ یکایک اپنی عظیم الشان ظاہری شکل کے باوجود زمین بوس ہو جاتا ہے ۔

نظامِ زندگی کا مقام

اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو انسانوں کے رویے، طرز عمل اور معاملات ان کے  تصورِ زندگی اور مقصد ِحیات کا عکس ہوتے ہیں ۔اگرایک قوم یہ سمجھتی ہے یا اس کی تعلیم و تہذیب اسے یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کی زندگی کا مقصد مسخرا پن (fun)، لذت اندوزی (enjoyment)، پُرسُرور مشغولیت (entertainment ) اورذاتی نفسیاتی انگیخت (self-stimulation )کا حصول ہے، تو پھر معیشت ہو یا معاشرت یا ثقافت، ہر شعبے میں اس کا عکس پایا جاتا ہے۔ معیشت کے میدان میں وہ اشیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں، غیر ضروری بن جاتی ہیں ۔ ساری معیشت وہ سامانِ عیش و عشرت پیدا کرنے میں لگ جاتی ہے جو خود پرستی اور مصنوعی طور پر اپنی ذات کو نمایاں کرنے میں مدد گار ہو۔ آرایشی مصنوعات (cosmetics)،  طرح طرح کے جنسی ترغیب والے عطریات اور غازے نہ صرف خواتین کے لیے بلکہ مردوں کے لیے، اور جنسی آوارگی کے بہت سے پُرتعیش سامان معیشت کے میدان پر چھا جاتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی بڑے شاپنگ سنٹر میں کثرت سے وہ دکانیں نظر آتی ہیں جہاں یہ سامان موجود ہوتا ہے۔ اس میں نشہ آور ادویات ، مشروبات ، نیم عریاں لباس ، فحش کتب ، ویڈیو اور آڈیو مواد، حتیٰ کہ موبائل پر تمام خبیث اور فحش مواد کی فراہمی معیشت کا حصہ بن جاتی ہے ۔
اگر مقصد ِحیات محض دولت کا حصول ہو تو پھر تعلیم گاہوں میں وہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن کی بازار میں مانگ ہو اور ہر طالب علم سرمایہ دارانہ نظام کا ایک گرگا بن کر نکلتا ہے، جو انسانوں کا خون چوس کر اپنی ہوس پوری کرنے کو اپنی معاشی فتح سمجھ کر شادیانے بجاتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر مقصدِ حیات ایک ذمہ دارانہ اخلاقی زندگی گزارانا ہو تو معیشت ہو یا سیاست، ثقافت ہو یا معاشرت، ان سب کی اقدار اور بنیادیں بدل جاتی ہیں اور وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں مدینہ اور مکہ کی جھلک نظر آتی ہے۔لیکن ایسا کیوں نہیں ہو پاتا ؟ انسانی ذہن اس طرف کیوں نہیں جاتا؟ وہ کیوں چمک دمک میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور زندگی جیسی قیمتی شے کو مشروب کے ایک پیمانے میں ڈبو کر غرق کر دیتا ہے؟
بات کچھ ایسی مشکل بھی نہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام امراض کے پیدا ہونے اور معاشرے میں فتنہ و فساد ، معیشت میں سودی لعنت ، معاشرت میں ظلم و استحصال ، ثقافت میں عریانیت و لذت پرستی اور سیاست میں فرعونیت کو دور کرنے کا آسان حل تجویز کیا ہے اور وہ ہے توحیدی نظام۔ یعنی زندگی سے تضادات کو ختم کر کے بہت سارے خداؤں کی جگہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ کی بندگی میں آ جانا۔یہ کام محض انسانوں کے اللہ کی بندگی میں آجانے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پورے نظام کو آمریت ، لادینیت اور ثنویت کے بتوں سے نجات دلا کر  اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں لانے سے ہی ہو سکتا ہے۔

توحیدی نظامِ حیات

شرک محض اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کی جگہ تین یا بہت سے خداؤں کے ماننے کا نام نہیں ہے، بلکہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دینے کا نام ہے۔ ایک خانہ حصول مال کا، ایک خانہ حصولِ اقتدار کا، ایک خانہ تفریح اور لذت کے حصول کا، اور ایک خانہ ہفتے میں ایک دن عبادت یا دن میں چند بار اللہ کو یاد کرلینے کا۔ اس کے مقابلے میں توحید کا مطالبہ ہے کہ انسان زندگی کے    تمام معاملات کو الہامی اخلاقیات کے ضابطے میں لائے ۔ اس کی معیشت حلال اور غیر استحصالی ہو۔ اس کی معاشرت باحیا ہو۔ اس کی ثقافت تعمیری ہو۔ اس کی سیاست عدل و توازن پر مبنی ہو۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود پھر اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟
اس خرابی کا ذمہ دار اس کا زندگی کا تصور ہوتا ہے،یعنی وہ زندگی کو ایک اکائی تصور نہیں، بلکہ شعوری یا غیر شعوری طور پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتاہے۔ایک کو مذہب و اخلاق کا نام دیتا ہے اور باقی زندگی کو دنیا۔ اس طرح زندگی میں ثنویت اور دو رنگی (dualism )  اور لادینیت یا سیکولراز م کو رائج کرتا ہے ۔ کسی بھی انسانی معاشرے میں جب تک یہ تقسیم رہے گی، وہ ان تمام کمزوریوں کا شکار رہے گا جن کا تذکرہ اُوپر کیا گیا ہے۔جب تک ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بطور سیاست دان جو وعدے چاہے کر سکتا ہے تاکہ اسے ووٹ ملیں، اور وہ کسی نہ کسی طرح سربراہ مملکت بن جائے، اور ساتھ ہی وہ پابندی سے نماز بھی پڑھتا ہے، تو وہ عملاًایک سیکولر شخص ہے۔ اگرچہ وہ ہرچھے ماہ میں عمرہ کرتا ہو۔ ساتھ ہی اس کا سارا کاروبار سودی قرض پر چل رہا ہو اور وہ تجارتی معاملات میں صرف اپنے مفاد اور منافع کو اپنا ’خدا‘ مانتا ہو۔اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود ایسا شخص صحیح معنوں میں سیکولر ہے۔
اگر ایک استاد اپنی یونی ورسٹی یا کالج یا مدرسے میں جو مضمون پڑھاتا ہے،اس مضمون کی بنیاد عوام کی حاکمیت کے تصور پر ہے یا صرف دولت اور قوت کے حصول پر ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہوکوئی حکمت عملی اختیار کر کے وہ اقتدار پر قابض ہو جائے اور معاشی وسائل پر قبضہ کر لے تو وہ سیکولر تصورِ حیات کی تدریس کر رہا ہے، چاہے وہ پنجگانہ نماز کے ساتھ تہجد بھی پڑھتا ہو، اور اس نے قرآن کریم کے اجزا بھی حفظ کر رکھے ہوں ۔ چونکہ وہ زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک رات کی تنہائی میں اللہ جل شانہٗ کے سامنے اظہارِ بندگی اور دوسرے دن کے ہر لمحے میں دولت ، اقتدار ، شہرت کے خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونا۔جب تک زندگی سے یہ دوعملی یا لا دینیت خارج نہیں ہوتی،  جس کو اسلام نے لا الٰہ الا اللہ کے جامع کلمے سے تعبیر کیا ہے ، اس وقت تک اس شخص نے توحید کو سمجھا، نہ اس کا مزہ چکھا ۔
قرآن ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج (البقرہ ۲:۸۵) ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟‘‘ اور تمام انسانوں سے جو اللہ کی حاکمیت کے منوانے کے دعوے دار ہیں، مطالبہ کرتا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ اس لیے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنا شیطان کا راستہ ہے، رحمٰن کا نہیں۔ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۲۰۸ (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
امام ابن تیمیہؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کے اس جامع تصور کو پیش کیا ہے۔ اس میں اقامت دین کا مطلب وہ کوشش ہے جو اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ہو،اورا س جدو جہدکو کرنے کے لیے وہ افرادِ کار تیار کیے جائیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی شناخت ِ نو (re-branding) کی جگہ اپنی دعوت، اسلام کا مکمل نظام، اور اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو جانے کا عزم رکھتے ہوں۔ جس میں ذاتی زندگی ، معاشی معاملات، سیاسی سرگرمی اور اہداف، ہر چیز توحید کے تحت ہے ۔اس میں خالص سیاسی اور خالص تربیتی اور  دعوتی تقسیم کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی ۔ روایتی علما نے جو دین اور دنیا کی تقسیم کے قائل تھے، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر اسلام کو سیاسی رنگ دینے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا اور بعض نے اس بنا پر جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی۔جماعت اسلامی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کی دعوت محض انفرادی اصلاح تک محدود نہیں، یہ کام تو صوفیہ اور بہت سے دوسرے اللہ کے بندے انجام دے رہے تھے۔ اس کی دعوت زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے ایسے افراد کی تیاری اور تنظیم کی تھی اور ہے، جو اسلام کو اپنی زندگی میں مکمل طور پر نافذ کر چکے ہوں۔   اس کی قوت عددی یا پارلیمنٹ کی نشستوں میں نہیں تھی بلکہ افرادِ کار کے علم ، تقویٰ اور فراستِ دینی میں تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ دعوتی سعی و جہد، تزکیہ اور سیرت سازی کی مساعی ہے۔ اجتماعی اور سیاسی تبدیلی کے لیے جدوجہد ایک دوسرے سے مربوط اور کُلی تبدیلی کے مختلف پہلو اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کاذریعہ ہیں۔
جب تعلیم کی بنیاد سیکولر ازم پر ہو جیسا کہ آج عملی طور پر ہو رہا ہے،تو پھر مسلم دنیا کے مدارس وہ دینی ہوں یا دنیوی، دونوں نظام دین و دنیا کی علیحدگی کے اصول کو عملاً اختیار کیے ہوئے ہیں، اور ثنویت اور دو رنگی کی وجہ سے معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔  وہ اسلام کے توحیدی تصور سے دورغیر شعوری طور پر قریب المیعاد سیاسی کامیابی کے حصول پر توجہ کے سبب طاغوتی جال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیکولر ازم کے زیر سایہ  جو نظام بھی کام کرے گاوہ آج نہیں تو کل انسانی ذہن کو الحاد کی طرف لے کر جائے گا ۔ جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ سودی کاروبار کرنے والا ایک شخص جو کل تک ایک چھوٹی دکان کا مالک تھا، آج   ایک بڑے کاروبار کا مالک ہے، تو زندگی کی تقسیم کے زیر اثر یہ سوچنے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اصل زندگی تو دولت اور قوت والی ہی ہے ۔ اس طرح شیطان اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کا اظہار اس نے جنت سے نکالے جانے سے قبل کیا تھا کہ وہ انسانوں کو لبھائے گا ، للچائے گا ، بہکائے گا، اور گمراہی میں مبتلا کر کے ایسے کلمات تک کہنے پر آمادہ کر دیتاہے کہ: اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ  (النزعٰت ۷۹: ۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا ربّ ہوں‘‘۔

مسائل کا حل: اسلامی نظامِ حکومت

آج جو اخلاقی زوال ، بے راہ روی، گمراہی، جنسی جرائم ، قتل و غارت ، چوری اور ذخیرہ اندوزی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی شکل میں ہمیں نظر آ رہا ہے، اسے دُور کرنے کے لیے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو ہادی اعظمؐ اور محسن انسانیتؐ نے اُس دورِ جاہلیت میں استعمال کی جو آج کے دورِجاہلیت سے مختلف نہ تھا۔ اُس بگڑے معاشرے کی فکری تطہیر اور عمل کے تزکیے کے لیے توحید کاصحیح شعور پیش کرنا لازم کیا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح آج الکتاب سے وابستگی اور براہِ راست اس کی ہدایات کو سمجھ کر زندگی کے تمام شعبوں میں نفوذ کا چیلنج درپیش ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ان صالح افراد کو تلاش کرنا ہے، جو معاشرے میں اگرچہ موجود ہیں اور وہ ہدایت کو تلاش بھی کررہےہیں، لیکن ہم ابھی ان تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ آگے بڑھ کر ہمیں ان کو منظم کرنا ہو گا۔    ان کے ایسے حلقے قائم کرنے ہوں گے جہاں وہ قرآن و سنت کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کا ذریعہ بن سکیں اور اس طرح عملی شکل میں اس کے نمونے بن سکیں۔ نیز اس تنظیم کے افراد کے ذریعے معروف کو قائم کرنے اور منکر، بدی اور برائی کو دُور کرنے کے لیے غیر حکومتی بنیادوں پر ایسے ماڈل نظامِ عدل و احسان کو قائم کرنا، جو قرآن و سنت کی تعلیمات و ہدایات کو ایک محدودپیمانے پر معیشت، معاشرت ، سیاست ،ثقافت اورتعلیم کے میدان میں، غرض زندگی کے تمام اہم شعبوں میں، اپنی اپنی جگہ عملی طور پر ایک چھوٹی ریاست کی شکل میں قائم کرکے دکھا دیں۔ 
دین کی یہ اقامت معاشرتی سطح پر وہ نمونہ پیش کرے گی جو تحریک اسلامی ملکی سطح پر قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کام کی نصرت اورامداد کا وعدہ رب کریم نے خود فرمایا ہے کہ وہ ان افراد کی استعانت کرے گا جو اس کے راستے میں نکلیں گے اوراللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اپنی ذاتی زندگی میں، گھر اور خاندان میں ، معاشرے اور معیشت میں ،ثقافت و تعلیم میں نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ان کی مدد فرشتوں سے کرے گا ۔
اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو معاشرے کے صالح عنصر کو منظم کرنا ہوگا اور ایسا نظامِ تربیت تیار کرنا ہو گا جو فکری اور عملی لحاظ سے ہر گاؤں اور قریے میں ایسے افراد معاشرے کے سامنے پیش کر سکے ، جنھوں نے تمام حاکمیتوں کی نفی کرکے صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کو اپنی فکر ، اپنے خاندان ، اپنے کاروبار ، اپنی سیاست اور اپنی دعوتی زندگی میں رائج کر دیا ہو۔ اصل سرمایہ وہ اخلاقی رویہ ہے جو غیر نمایشی ہو ،خلوصِ نیت پر مبنی ہو، اور جسےصلے کی طلب نہ ہو۔   انبیاے کرامؑ کا کہنا صرف یہ تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور ان سے کوئی اجر نہیں مانگتے۔ ربِّ کریم اس طرز عمل سے خوش ہو کر انھیں زمین میں اپنا وارث بناتا ہے اور اس طرح وہ اخلاقی انقلاب برپا ہوتا ہے جو معاشرے کو مثالی نمونہ بنا دیتا ہے ۔یہ جدوجہد بالآخر اسلامی نظامِ حکومت کے قیام پر منتج ہوکر رہتی ہے۔
معاشرے میں صالح افراد کی تیاری کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا ایسا کام جس میں صلے کی خواہش نہ ہو، صرف ربّ کی رضا مقصود ہو ، کامیابی کی ضمانت ہے۔خدمت خلق کسی منفعت کے حصول کے لیے کرنا، تمام اُخروی اجر کو ضائع کر دینا ہے۔ یہی وہ دعوت کی کامیابی کا راز ہے    جسے ایک عام نظر نہیں دیکھ سکتی کیوں کہ ایک عام نظر قریبی فاصلوں اور منزلوں کو حقیقی سمجھتی ہے۔ ایک دُور رس تحریکی نگاہ اُخروی کامیابی کے پیش نظر فوری مفاد کو نظر انداز کر کے استقامت ،صبر اور حکمت دینی کے ساتھ نتائج سے بے پروا ہو کر اپنا تن من دھن ، فکر و صلاحیت، اپنا ہر سانس اور ہرقطرۂ خون دعوت کی آبیاری میں لگا دیتی ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی ہے۔ دنیا میں صرف رب کریم کی عنایت و فضل سے اگر اختیار و اقتدار ملے تو وہ صرف اُس کی میراث ہے اور وہی اس میراث کو دینے والا ہے ۔اُسی کو علم ہے کہ وہ کتنے عرصے میں میراث اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ اسلامی انقلابی دعوت وقت کے پیمانوں سے آزاد ہے۔اس کا سارا تعلق اخلاص نیت اور بےلوث جدوجہد سےہے ۔ یہ اللہ کی رضا کے حصول کو اپنا ہدف قرار دیتی ہے، اور جب یہ کام استقامت سے کیا جاتا ہے تو بالآخر زمامِ کار اس کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہتا ہے۔

نظریاتی تحریکات کو اکثر ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب دعوتی میدان میں یا بعض اوقات سیاسی محاذ پر متوقع کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور تحریک کے ہمدرد اور بہی خواہ ہی نہیں خود اس کے کارکن اور ذمہ دار افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کمی کمزوری کہاں ہے؟___ ہماری اپنی دعوت میں، ہمارے طریقِ دعوت میں ،ہماری شہرت اور عوامی تصویر میں ،عوام الناس کی عقل و فہم اور تعلیم میں، یا ہمارے اسلوب دعوت اور عوامی ذہن و مسائل کے صیحح طور پر سمجھنے میں۔ 
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ انسان اپنی کامیابی کے نتیجے میں، اپنی قوت پر نازاں ہوتا ہے اور ناکامی سے اعصابی تناؤ اورمایوسی کا شکار ہوتا ہے۔تاہم، ایسے مواقع پر خود احتسابی اور رُک کر اپنا جائزہ لینا عملِ خیر ہے، جو مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

تحریک اسلامی اور خود احتسابی

پاکستان میں تحریک ِ اسلامی کی تاریخ کے دوران کئی بار ایسے مواقع آئے، جب اس نے رُک کر یہ غور کیا کہ: کیا وہ اپنے مقصد اور نصب العین پر قائم ہے یا کہیں انحراف کے کچھ پہلو رُونما تو نہیں ہورہے ہیں؟ پھر یہ سوال بھی زیربحث آیا کہ: کیا اس کا طریق کار درست خطوط پر جاری و ساری ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جماعت اسلامی کو اس کے قیام کے تقریباً ۱۶سال بعد اس نوعیت کا ایک مرحلہ پیش آیا۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء میں اس کے بعض ذمہ دار ارکان نے یہ محسوس کیا کہ: ملکی سیاست میں براہِ راست حصہ لینے سے شاید جماعت اپنے ہدف سے ہٹ گئی ہے۔اس صورت حال پر داعیِ  جماعت اسلامی نے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں تمام شرکا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا، اور جو ارکان اس راے سے اختلاف رکھتے تھے، انھیں بھی اپنی پوری بات تفصیل سے بیان کرنے کا پورا موقع دیا۔ اس طرح غور و فکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد استصواب راے ہوا تو داعیِ تحریک کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں ۹۲۰؍ ارکان نے اور اس سے اختلاف کرتے ہوئے ۱۵؍ ارکان نے راے دی۔
جولائی ۲۰۱۸ء میں قومی انتخابات کے نتائج  پر تحریکی قیادت نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کارکنوں اور ہم خیال افراد سے اجتماعی ملاقاتیں کیں۔ مختلف مقامات پر اجتماعات میں سوال و جواب کی نشستوں کا اہتمام کیا، تو اس دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں سامنے آیا کہ: ’’ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا حصہ نہیں لینا چاہیے؟‘‘ مولانا مودودی نے سیاست اور غیرسیاست کا جواب ۹؍اپریل ۱۹۴۵ء کو اس طرح دیا تھا:

ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو یہ بات کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ الٰہیہ سے مراد محض ایک سیا سی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو، پھر چوں کہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لا محالہ وہی مسلمان ہوں گے، جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں۔ اس لیے خود بہ خود اس تصور میں سے  یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دارانہ وعظ شروع ہو تا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ: ’’تمھارے پیش نظر محض دنیا ہے ، حالاںکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیے‘‘___ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے، تو بہ آسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی___ انفرادی اور اجتماعی___ میں وہ ہمہ گیر انقلاب رُونما ہو جو اسلام رُونما کرنا چاہتا ہے۔

اگر ہم اپنی دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات پر مشتمل ہوگی:

  1. یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اورجو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
  2. یہ کہ جوشخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کر ے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
  3. یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور راہنمائی و امامت نظری اور  عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔

اسی بات کو ۱۹۵۷ء کے خصوصی اجتماعِ ارکان میں مولانا مودودی نے اپنی مفصل تقریر میں بیان فرمایا، اور بتایا کہ: جماعت اسلامی کی دعوت کے چار نکات: (۱) تطہیر افکار و تعمیر افکار (۲)صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت (۳)اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی سعی، اور (۴)نظام حکومت  کی اصلاح کے لیے جمہوری ذرائع سے منظم کوشش___ یہ نکات کسی وقتی ضرورت کی بنا پر وجود میں نہیں آئے، بلکہ قرآن و سنت رسول ؐاور خلفاے راشدینؓ کے اسوہ کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد متعین کیے گئے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل حالات میں چوتھے مقصد کے لیے نکلنے کا موقع نہ تھا، لیکن قیامِ پاکستان اور ’قراردادِ مقاصد‘ کے منظور ہونے کے بعد جب یہ موقع ملا، تو بھرپور انداز میں دینی اور ملکی ترجیحات کی روشنی میں بروے کار لایا گیا۔

ایک نظریاتی، اصلاحی اور دعوتی جماعت جو ان چار بنیادی اجزا کو بنیادی اہمیت دیتی ہو، یعنی: تطہیر افکار اورتعمیرافکار، تعمیر سیرت وکر دار ، تنظیم افراد اور تبدیلی امامت___ اسے محض ایک سیاسی جماعت نہیں کہا جاسکتا، نہ اسے محض ایک دعوتی جماعت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ساخت اُن تمام سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوتی ہے، جن کے بنیادی مقاصد، اہداف میں تعمیر کردار اور تعمیر افکار کو مرکزیت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہاں پر جہاں مرکزیت شخصی اور گروہی مفادات کو حاصل ہوتی ہے ، نیز سیاسی جماعت کے قائد سے غیر مشروط وفاداری ہی کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ہوتی ہے، اور ان سب کا مفاد صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔
ایک اصلاحی دعوتی جماعت کی منزلِ مقصود محض سیاسی اقتدار نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے اصل مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جن مقامات پر قیادت کا حصول حالات کی بنا پر ممکن نظر نہ آتا ہو، وہاں بھی اقامت دین کے یہ چار عناصر اس کا تشخص برقرار رکھتے ہیں ، البتہ چوتھے عنصر کے لیے کوشش کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تبدیلیِ قیادت کی عملی جدوجہد پروان چڑھ سکے۔اور جب اور جس حد تک حالات اس کی اجازت دیں، اس میدان میں سرگرم ہوا جاتا ہے۔ ان چاروں اجزا پر مناسب تناسب کے ساتھ بیک وقت عمل کی کوشش کی جاتی ہے، البتہ اس راہ میں توازن کا اہتمام ضروری ہے اور اگر توازن برقرار نہ رہے تو ترقی کا عمل متا ثر ہوتا ہے۔
یہ چار عناصر نہ تو زمانے کی پیداوار ہیں، اور نہ کسی ایک فرد کے ذہن کی تخلیق ہیں بلکہ جو متلاشیِ حق خلوصِ نیت کے ساتھ قرآن سے ہدایت طلب کرے گا اور سیرت پاکؐ پر غور کرے گا، وہ انھی چار عناصر تک پہنچے گا۔ یہی وجہ تھی کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اور حسن البنا شہید، جو کبھی زندگی میں نہ ملے اور نہ خط کتابت کی اور نہ ایک دوسرے کی تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن دونوں نے انھی چار عناصر کو اپنی تحریکات کا ستون قرار دیا۔

تشکیلِ نو کا پہلو

انسانی ذہن جب بھی دعوت اسلامی کی کامیابی یا ناکامی کو، عددی پیمانے یا سیاسی کامیابی سے وابستہ کر دیتا ہے تو پھر اس کا اعتماد اپنی دعوت کے حق ہونے اور طریق کار کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہونے میں بھی متزلزل ہوناشروع ہوجاتا ہے۔ بلاشبہہ اگر تحریک اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہوتی تو نعروں کے بدلنے سے نتائج پر فرق پڑ سکتا تھا، لیکن جب تک وہ ایک ہمہ گیر دعوتی و اصلاحی جماعت ہے، اسے ایسی کسی نئی شناخت (Branding)کی ضرورت نہیں۔البتہ ، اسے انتہائی   بے لاگ اور ناقدانہ خود احتسابی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی اور اسی میں اس کے لیے خیر ہوگی۔
بلاشبہہ برقی ابلاغ عامہ آج عوام کی راے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پھر ایک واضح ثقافتی یلغار: این جی اوز کے تعلیمی منصوبوں اور ابلاغ عامہ کے اشتہارات، ڈراموں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے بے راہ روی، فکری انتشار، مذہب سے دُوری، حتیٰ کہ دہریت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور آزادیِ اظہار کے نام پر یہ سارا کام بغیر کسی روک ٹوک کے کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس اثر انگیزی اور کثرتِ استعمال کی بنا پر بعض تحریکی ہمدرد بھی یہ سوچنے لگے ہیں کہ اگر اپنے فکری مخالفین کا دوبدو مقابلہ نہیں کیا جاتا تو سوشل میڈیا پر مخالفین ہی کا بیانیہ چھایا رہے گا۔
یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے کہ موعظۂ حسنہ محض تلقین اور تحریر تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آج برقی ابلاغ عامہ کی سہولت ہم اپنا لیں گے تو ہماری بات لاکھوں افراد تک پہنچ جائے گی۔ یہ تمنا لازماًقابل احترام ہے، لیکن اس کے باوجود تجربہ بتاتا ہے کہ ذاتی ربط اور براہِ راست (face to face) تبادلۂ خیال کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ کیا دعوت کا مطلب بہت سے لوگوں تک تحریک یا لیڈر کے نام کا پہنچنا ہے یا دعوت کا مطلب تربیتِ اخلاق اور تعمیر سیرت و کردار کا نام ہے، اورکیا یہ نصب العین صرف سوشل میڈیا سے حاصل ہو سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا تیز رفتاری سے لاکھوں افراد تک پیغام پہنچانا اپنی جگہ اہم سہی، لیکن کیا اس کے ذریعے نفس مضمون کی وضاحت اور وہ تشریح ہو سکتی ہے جوفرد اور فرد کے براہِ راست رابطے میں پائی جاتی ہے؟
دعوت ایک ایسا ہمہ پہلو عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز ایک فرد سے ذاتی رابطے کا بدل نہیں ہوسکتی۔ ذاتی رابطہ ہی انسان کو دوسرے انسان کی فکر اور سیرت سے متاثر کرتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ ایک فرد کی قوت فہم، تجزیہ و تحقیق کے بجاے جلد نتائج کی عادت کو پروان چڑھاتے ہیں اور فرد میں توجہ دینے کا پیمانہ انتہائی مختصر ہو جاتا ہے ۔ 
 موجودہ ماحول میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ توجہ کے ساتھ کتب بینی کے رواج کو زندہ کیا جائے، سفری لائبریری اور مطالعہ گھر قائم کیے جائیں اور تحریکی لٹریچر کو جدید ابلاغی آلات کے ذریعے بھی سمجھایا جائے۔ مثال کے طور پر ممکن ہو تو کسی کتاب کے ایک باب یا ۲۰،۲۵صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد مطالعے کی بنیاد کو سامنے رکھ کر پانچ سے سات منٹ کا پاورپوائنٹ حاصلِ مطالعہ تیار کیا جائے۔ اگر اجتماعی مطالعے کی صورت ہے تو سامعین کو سوالات کی دعوت دی جائےاور پھر ان سوالوں کے جوابات اجتماعی طور پر تلاش کیے جائیں۔
بعض جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’دعوت اور تنظیم کو مقبول بنانے کے لیے دعوتی اور سیاسی کاموں کو دو الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک شعبہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار میں مصروف ہو اور دوسرا شعبہ سیاسی مہم جوئی کے لیے وہ تمام حربے استعمال کرے جو سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں، تاکہ تبدیلیِ قیادت میں کامیابی جلد ازجلد حاصل کی جاسکے‘‘۔
ایسی تحریک کہ جو دین کے جامع تصور کی علَم بردار ہو،اسے دوسری سیاسی جماعتوں پر قیاس کرنا ہی بنیادی غلطی ہوگی۔دین کے جامع تصور کے بجاے دین و سیاست کی علیحدگی اختیار کرنا  نہ صرف تحریک کی شناخت تبدیل کرنا ہوگا بلکہ اس کی بنیادی فکر سے بھی انحراف ہو گا۔البتہ، فرق اگر پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ دین کے ہمہ گیر تصور کے ساتھ عصری مسائل پر دلائل و نصوص پر مبنی موقف کو پیش کیا جائے، تا کہ عوام کو دوسری سیاسی جماعتوں کے موقف اور تحریک کے موقف میں واضح فرق نظر آئے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت اور شخصی رابطہ

سوشل میڈیا کے ذریعے دعوت عام کرنا ایک مثبت تجویز ہے، لیکن دعوتِ اسلام میں ذاتی کردار اور شخصیت کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی لیے انبیا ؑ کو مجسمِ دعوت بنا کر بھیجا گیا کہ ان کا ہر عمل وہ مسکراہٹ ہو یا غصے پر قابو پانا، وہ اہل خانہ کے ساتھ نرمی و احترام ہو یا شرک اور کفر کے خلاف پوری قوت سے جہاد کرنا، وہ تجارتی معاملات میں ایمان داری اور شفافیت ہو یا عہد کی پابندی نبھانا، غرض شخصیت کا اعلیٰ معیار لوگوں کے سامنے موجود ہو۔ ان انبیاکرام ؑ کے پیروکاروں کو اسی طرح لوگوں کے سامنے دعوت کا نمونہ بننا ہے۔ یہ مقصد، برقی پیغام رسانی سے چاہے وہ کتنے دل فریب چارٹوں پر مشتمل کیوں نہ ہو کماحقہ‘ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اس وقت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی اکثر معلومات کا غیرمصدقہ ہونا واضح ہے۔ ان خامیوں کے باوجود اس کا محدود استعمال تو ہونا ہی چاہیے، لیکن یہ استعمال کسی بھی نظریاتی اور اصلاحی جماعت کو لٹریچر سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ کتاب اور معلمِ کتاب دو ایسے قرآنی اصول ہیں، جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد دعوت اسلامی کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور جن کا تذکرہ قرآن کریم کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ تذکیر بالقرآن اور تذکیر بالسیرۃ النبیؐ کا اسوہ اور الکتاب کی تعلیم ہی دین ہے۔ یہی دین کی عالم گیر دعوت اور دین کی مکمل شکل ہے۔
نئی رُوپ کاری (re-branding ) ان اداروں کے لیے ضروری ہوتی ہے، جن کا وجود منڈی کی معیشت کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ عملاً خریدار یا صارف کو اپنا ’والی وارث‘ قرار دیتے ہوئے، وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتے ہیں، جو ان کے مَن کو بھاتا ہو۔ تاجر اور صنعت کار کے لیے صارف کی خواہش اور طلب ہی اصل ’حق‘ ہوتا ہے۔ اسی لیے بنک ہوں یا دواساز ادارے، کپڑے فروخت کرنے والے ہوں یا سامانِ آرایش بنانے والے، وہ اپنا تجارتی نشان (برانڈ) اور تعارفی نعرے ایسے رنگوں کے انتخاب سے پیش کرتے ہیں جو جاذبِ نگاہ ہو۔
جب کہ، دعوتِ قرآن و سنت ابدی اصولوںکی صورت میں ہمارے پاس اپنی مکمل ترین شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اس میں کوئی تعلیم نہ پرانی ہوئی ہے نہ اس کی حقانیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی کشش اور اثر آج بھی ایک طالبِ حق کے لیے ویسا ہی ہے، جیسا دورِ رسالتؐ میں مکّہ اور مدینہ کے ماحول میں تھا۔ 
کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس دعوت کو کس موقعے پر ، کس طرح ، کن الفاظ میں اور کس فرد کےسامنے رکھا جائے۔ اگر موعظہ(communication ) ہو تو وہ احسن ہو ، اور اگر جدال (Dialogue ) ہو تو وہ بھی احسن ہو ۔ اگر حکمت کا استعمال ہو تو وہ بھی اعلیٰ ترین ہو۔ بات لازماً کھری اور دل نشین ہو، کھردری نہ ہو۔ بات کرنے والا تھانے دار بن کر بات نہ کرے ، نہ اس کے اظہارِ بیان اور طرزِعمل اور طرزِمعاشرت سے برتری کا اظہار ہو۔ وہ ہرلمحے شگفتہچہرے کے ساتھ (جو اسوہ نبویؐ ہے )مختصر اور ہمدردانہ (الدین النصیحہ) بات کرے۔ دعوت اور طریق دعوت کو دل سوزی سے پیش کرنے کے باوجود اگر کوئی بات نہ مانے تو اسے چھوڑ کراس سے کٹ نہ جائے، یعنی مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے مسلسل اپنا کام جاری رکھے، حتیٰ کہ ربِّ کریم خود ان افراد کے دلوں کو حق کے لیے کھول دے۔ایسے موقعے پر بھی اپنی بندگی اور حلم اور خاکساری کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ رب العالمین سے استغفار طلب کرتا رہے  اور اسے اپنا کارنامہ یاقیادت کا کرشمہ، حکمت عملی کی برتری ، اپنے منصوبے کی کامیابی نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھے۔

کامیابی کا معیار

دعوت و فکر میں کامیابی کا پیمانہ ووٹ نہیں ہے بلکہ اپنی جانب سے مکمل کوششیں کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل استعانت کی طلب اور ہمہ وقت امید پر قائم رہنا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اقتدار مل جاتا ہے، جب بھی اسے کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس راہ میں اصل کامیابی  تو آخرت کی کامیابی ہے ، سیاسی نتائج کامیابی کا حتمی معیار نہیں ہیں۔ کارکردگی کے معیارات للہیت ، تعلق باللہ ، بندگیِ رب، احتسابِ نفس، عدل و انصاف کا قیام اور اپنے دائرۂ اختیار میں بے راہ روی کو دُور کرنا ہے۔ معروف کا قائم کرنا، اور منکر کا کم سے کم ہو جانا ہے۔ یہاں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ ۱۰۰فی صد افراد اہل حق بن جائیں ، حتیٰ کہ ریاست ِمدینہ جیسے معاشرتی عدل کے باوجود منافقین اور فاسقین کی ایک تعداد موجود رہی۔ اس لیے کامیابی کا پیمانہ محض افراد کی گنتی یا انتخابات میں ووٹ کی تعداد نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی مسلسل کوشش اور جدوجہد کا صحیح معنوں میں ایثار و قربانی ، درست سمت اور مستقل مزاجی پر مبنی ہونا ہے۔

اصولی حکمت عملی

جن اُمور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان میں اوّلین چیز خود اس لٹریچر کا مطالعہ ہے، جو اس تحریک کو شروع کرتے وقت لکھا گیا تھا۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ انقلابی اور اصولی تحریریں وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کوئی طالب علم یہ خواہش رکھے کہ وہ فقہ اسلامی میں کوئی نئی راہ نکالے تو اسے سب سے پہلے مقاصد ِ شریعت اور فقہ کے ان اصولوں کو سمجھنا ہوگا کہ جن کی بنیاد خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے رکھی، اور جن کی روشنی میں  تمام عظیم المرتبت فقہا، مجدّدین اور صلحاے اُمت نے ہر دورمیں فکری اور عملی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام ابن حنبل، امام شافعی، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، امام شاہ ولی اللہ وغیرہ کے قرآن و سنت پر مبنی روشن کردہ چراغ آج بھی مینارئہ نور ہیں۔
ایسے ہی تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں کیا ہیں ، اس کا مقصدِ تاسیس کیا ہے، اس کا طریق کار کیا ہونا چاہیے؟ یہ سب موضوعات سنجیدہ مطالعے اور غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں، جن سے کوئی لیڈر اور کارکن بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل اس لحاظ سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، جو طے کرتی ہے کہ کس طرح ایک دعوتی و اصلاحی تحریک صبر و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا سفر رواں دواں رکھتی ہے اور اس کا یہ سفرکس طرح ان چار اجزا کے متناسب طور پر اختیار کرنے سے طے ہوسکتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا جماعت کی دعوت میں کوئی اضافہ نہ تھا اور نہ تحریف۔ یہ خیال ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے تو جماعت اسلامی ایک دعوتی جماعت تھی، اسی لیے متعدد صاحبانِ علم اس میں شامل ہو گئے تھے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب جماعت نے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ ادا کرنا شروع کیا تو وہ سیاسی جماعت بن گئی، تو اس لیے وہ احباب اس سے الگ ہو گئے۔ یہ درست بات نہیںہے۔ جماعت پہلے ہی دن سے اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک اقامت دین ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی پوری اُمت مسلمہ کا مقصد ِ زندگی اور مقصد ِ وجود ہے اور یہی اس کی امتیازی شان ہے۔

دعوتی اور سیاسی پہلو میں توازن

ان معروضات کا دوسرا پہلو بہت زیادہ غور طلب ہے کہ کیا دعوت کے چار اجزا پر گذشتہ عشروں میں واقعی صحیح تناسب کے ساتھ کام کیا جاتا رہا ہے، یا سب سے زیادہ سرگرمیاں چوتھے جز پر مرتکز رہیں اور تطہیر افکار اور تعمیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار کے باب میں کمی آگئی؟کیا اس ربع صدی میں جماعت کے پاس ایک مناسب تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی ہے، جو اس فکری کام کو اعلیٰ سطح پر آگے بڑھا سکے ہوں؟
کیا ساٹھ اور ستّر کے عشرے کے بعد ایسے کارکن پیدا ہو سکے جو چودھری غلام محمد، نعیم صدیقی، چودھری رحمت الٰہی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی ، سیّد سیاح الدین کاکاخیل، مولانا معین الدین، ڈاکٹر نذیر احمد شہید ،مولانا جان محمد بھٹو، مولانا گوہر رحمان، مولانا عبدالعزیز، چودھری غلام جیلانی، ڈاکٹرسیّداسعد گیلانی ، پروفیسر غلام اعظم، قاضی حسین احمد، خرم مراد وغیرہ کے خلا کو پُر کر سکتے ہوں؟  کیا جماعت سے وابستہ افراد کی معتدبہ تعداد اپنے مالی اور معاشرتی معاملات میں وہ رویہ اختیار کرسکی، جو تحریک کی پہلی اور دوسری نسل کے افراد نے برقرار رکھا تھا؟
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت میں خرابیاں در آئی ہیں، تاہم اس جانب متوجہ کرنا مطلوب ہے کہ بڑے اجتماعات کی حاضری سے دعوتی نفوذ کو جانچنا درست پیمانہ نہیں ہے۔تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ سیرت و کردار کے حامل وہ افراد ہیں جو چاہے تعداد میں بہت کم ہوں لیکن عبادات اور سماجی زندگی کے معاملات میں سب سے افضل ہوں۔ ان میں بے لوثی، تعلق باللہ اور علمی صلاحیت سب سے زیادہ ہو۔ وہ نہ صرف قرآن و سنت اور سیرت بلکہ عالمی سیاست، معیشت اور جدید رجحانات سے براہِ راست واقف ہوں یا واقفیت حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہوں اور ایک تعداد تو اجتہادی صلاحیت رکھتی ہو۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم ماضی قریب میں ایسے افراد پیدا کر سکے جو بیسیوں افراد پر علمی اورانتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے غالب آسکتے ہوں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو اصل مسئلہ لیبل، نعرے اور برانڈنگ کا نہیں ہے بلکہ ان چار اجزا پر خود احتسابی کا ہے، اور اس کے نتیجے میں مؤثر منصوبہ بندی اور مردانِ کار کی تیاری کا ہے۔
تحریک کے چوتھے جز کا حصول اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اوّلین تین اجزا کو مطلوبہ حد تک حاصل کریں۔ تحریک سے وابستگی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریک کی دعوت کو جسم و روح کا جزو بنائے بغیر یہ خواہش کرنا کہ دعوت کا استقبال ہر طرف سے ہو، ایک خام خیالی ہے۔یہ سفر لمبا اور صبر آزما ضرور ہے ،لیکن جب تک اس طویل مرحلے سے نہ گزرا جائے، کامیابی عملی شکل اختیارنہیں کرسکتی۔
کوئی بھی فکری اور نظریاتی تحریک اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے تربیت یافتہ افراد ، تعمیر افکار اور تربیت اور مقصد سے والہانہ لگن کو اوّلیت دیتے ہیں۔ سیاسی موضوعات پر ایک عظیم تعداد میں جلسہ کر لینا، نہ دعوت کی مقبولیت کی علامت ہے نہ قیادت یا نعرے کی اثر انگیزی کا ثبوت۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ فکر نہ صرف ہم خیال کے دل و دماغ کو متاثر کرے بلکہ جو ابھی تک مخالفت کر رہا ہے، اسے غوروفکر کرنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح آج اصل چیلنج یہ نہیں ہے کہ کسی معجزاتی انداز میں اپنی دعوت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچادی جائے۔ آج اصل چیلنج تعمیرِ افکار کا ہے۔ مستشرقین اسلام کی نئی نئی تعبیرات گھڑتے اور خود اسلام کو تاریخ کا ایک دور قراردیتے ہوئے، Post Islamism جیسی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ غیر مسلم ہی نہیں خود مسلمان دانش وَر بھی مغربی تقلید میں اس اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں۔اس چیلنج کو سمجھنا تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
یہ کام ایسے افراد تیار کرنے سے ممکن ہے کہ جو اسلام کے منشا کو مکمل طور پر سمجھنے اور جذب کرنے کے بعد تحریکی فکراور قرآنی پیغام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ مسئلہ افراد کی کثرت کا نہیں ہے بلکہ پیغام کی تاثیر کا ہے۔ آج کے معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر تحریک کے موقف کو قرآن و سنت کے نصوص اور جدید فکر کے تنقیدی جائزے کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ اس بنیادی کام کے بغیر لاکھوں افراد تک جدید برقی ذرائع سے محض اپنا نام پہنچانا تو ممکن ہے، لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ یہ بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے نکال دی جائے۔ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا، اور جس کے لیے بعض ادارے بھی قائم کیے گئے۔ گویا کہ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر ترجیح محض سیاسی کامیابی ہو گی تو یہ کام کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ اگر ترجیح دعوت کے چاروں اجزاہوں گے تو یہ کام نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس کے نتائج جماعت کے سیاسی اثر(Impact)کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور جماعت کی اثر انگیزی وقتی طور پر نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المیعاد سطح پر ہو سکے گی۔

قرآن کریم کی تعلیمات سے واضح اور قطعی ثابت ہے کہ بعثت ِ انبیا ؑ کا مقصد روے زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قیام ہے۔ جملہ انبیاے کرام نے اس کے لیے ہمہ پہلو جدوجہد کی۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عبادت ،بندگی کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تعمیر اور ہر قسم کے طاغوت،بغاوت، سرکشی ، بد اخلاقی اور بد اعمالی سے مکمل اجتناب رہا ہے :
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
 اللہ کی بندگی ، عبادت اور اپنے آپ کو اللہ کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سپرد کر دینا ہی اسلام اور ایمان ہے ۔گویا صالح فرد، خاندان ، معاشرہ اورریاست کے قیام میں جو منطقی ربط پایا جاتا ہے، وہ اسلامی ریاست کے قیام کا منہج اور انسانی معاشرے میں معروف کے قیام اور منکر کے رفع کرنے کا اسوۂ انبیاؑ اور خصوصاًاسوۂ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔قرآن کریم نے اس پورے عمل کو صرف ایک اصطلاح ’اقامتِ دین‘ میں سمو دیا۔ نہ صرف حضرت یوسفؑ کے ہاتھوں قیامِ عدل و اصلاح بلکہ ہر دور میں اور ہر مقام پر دعوت،اصلاح اور معروف کے قیام کے لیے اس ایک اصطلاح میں وہ تمام پہلو شامل ہیں، جن کی تفصیل مقاصد ِشریعہ کی شکل میں ہمارے فقہا اور علما نے بیان کی ہے۔ جس کے تحت پورے دین کا قیام یا بالفاظِ دیگر قیام حاکمیت ِالٰہی ہے:
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۳۹ۭ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۝۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۴۰(یوسف ۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خودہی سوچو کہ بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کاحکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی (الدِّیْنُ القَیِّمُ )ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے نہ صرف اسلامی ریاست بلکہ انسانی زندگی کے تمام معاملات میں فیصلہ کن اور حرفِ آخر قوت کو صرف اور صرف اپنے لیے مقرر فرما دیا ہے، کہ حاکمیت سیاسی ہو یا معاشی ، دفاعی ہو یا ثقافتی اور علمی___ ہر شعبۂ حیات میں معیارِ حق صرف اور صرف یہ ہو گا کہ کیا اس بات سے رب کریم راضی ہے یا اس کی جگہ کسی اور چیز نے وہ فیصلہ کن مقام حاصل کر لیا ہے، جو صرف مقتدر اعلیٰ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔یہ توحید ذات اور توحید صفات کا جامع اظہار اور تعریف ہے۔
تصورِ توحید 
قرآن کریم کی روشنی میں ’توحید‘ ایک کلامی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے تمام اعمال کو متعین اور منظم کرنے والا اصول ہے۔ اگر ایک فرد اپنے خاندان میں معروف کو قائم کرنا اور منکر کو ختم کرنا چاہتاہے تو اسے سوچنا ہو گا کہ اس کے گھر میں جو رسوم و رواج صدیوں سے چلے آرہے ہیں، یا  ان کا تعلق جاہلیت کے طور طریقوں سے ہے، کیا وہ توحید سے مطابقت رکھتے ہیں؟ وہ شادی بیاہ کی رسمیں ہوں یا شوہر اور بیوی کا تعلق یا رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا رویہ ہو،ان سب کی بنیاد توحید اور اللہ کو ربّ ماننا ہے۔ کیا اپنے بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرتے وقت معیارِ انتخاب تقویٰ ، حُسنِ کردار اور  دین کاعلم اور اس پر عمل ہے یا لڑکے کی مادّی حیثیت، اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا ، بڑا تاجر ہونا، سیاسی رہنما ہونا یا کسی خاص برادری اور ذات سے وابستگی ہے؟اگر بنیاد محض ذات برادری سے وابستگی اور مادی بلند مرتبت ہے تو یہ توحید کی نفی ہے ۔ اگر صلۂ رحمی کی بنیاد بدلے میں فائدہ حاصل کرنا، احسان جتانا، یا لوگوں کو دکھانا مقصود ہے تو واضح احادیث کی روشنی میں اس نیت کا انجام خیر نہیں ہے ، فلاح نہیں ہے ، کامیابی نہیں ہے بلکہ ذاتی تفاخر و نمایش ہے جو توحید کی ضد ہے ۔
اگر ایک شخص کے کاروباری مشاغل کا ہدف اپنی جگہ محض قا رون بننا ہے، تو اس کی تمام کوشش و جدو جہد کا کوئی تعلق اللہ کی بندگی یا توحید سے نہیں ہے بلکہ سیم و زر اور دولت ہی اس کے ’ربّ‘ ہیں۔ اسی طرح اگر ایک شخص سیاسی اقتدار اس لیے حاصل کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے کہ   وہ تمام انسانوں پر حکم چلائے، اس کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں، وہ خاص الخاص سمجھا جائے، تو اس کی جدو جہد ایک انتہائی وقتی ، محدود اور ناپایدار احساس کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی عملی تعلق اس کے اس زبانی دعویٰ سے سے نہیں ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہا کے تحقیق کردہ اورمتعین کردہ مقاصد شریعہ(امام غزالی اور امام شاطبی کے زیر اثر) جو روایتی طور پر پانچ قرار دیے جاتے ہیں اور جس میں بعد کے فقہا و علما نے مزید اضافے کیے، ان سب کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ توحید ذات اور توحید صفات ہے۔اور وہ حدیث محور ہے جو دین کے تمام معاملات کو ربِّ کریم کے لیے خالص کر دینے کی اخلاص نیت کو قرار دیتی ہے۔
تحریکاتِ اصلاح و دعوت جس بنا پر فرد، خاندان ، معاشرے اور ریاست کو مشرف بہ ایمان کرنا چاہتی ہیں، وہ یہی تصور توحید ہے کہ اللہ سبحانہٗ کی حاکمیت محض مسجد میں نہ ہو، نہ محض گھر میں ہو، اور نہ محض حرم کعبہ میں ہو بلکہ تمام انسانی معاملات کا محرک اور مقصد توحید کا قیام ہو۔ اسلام حقیقتاً دین و دنیا کی تفریق کو ختم کر کے تمام روے زمین کو اللہ تعالیٰ کی مسجد قرار دیتا ہے۔ تاکہ اخلاقِ حسنہ کی بنیاد پر تجارت ، سیاست ، معاشرت ، ثقافت، تعلیم ، علمی تحقیق اور سائنسی ترقی، غرض ہر انسانی کاوش کا مقصد بندگیِ ربّ بیان کرتے ہوئے بندگانِ رب کی فلاح ، مصالح عامہ اور ان حقوق کا تحفظ ہو جنھیں نفس، مال ،عقیدے اور عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یہ صرف اسی وقت پوری طرح ممکن ہے جب حاکمیتِ ربّ قائم ہو، اقامتِ دین ہو اور زندگی کے ہر کاروبار سے طاغوت ، ظلم ، بے اعتدالی اور انتہا پسندی کو دور کر کے عدل اجتماعی اور امن و صلح کا قیام عمل میں لایا جائے۔ – یہ بنیادی اور جوہری تبدیلی محض دعاؤں یا تسبیحات یا جلوسوں اور دھرنوں سے نہیں آسکتی۔ یہ منطقی طور پر فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست کے ایمان لانے، یعنی عملاًقرآن و سنت کو اختیار کرنے سے ہی آ سکتی ہے۔ یہی انبیا کرامؑ کی دعوت ہے، یہی اسوہ نبویؐ اور یہی منہج قرآن ہے۔

حاکمیتِ الٰہی اور اقامتِ دین 

حاکمیت ِالٰہی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب اقتدار اعلیٰ خالق کائنات کا ہو، جمہور کا نہ ہو۔ مغربی لادینی جمہوریت کا نقطۂ آغاز حاکمیت ِجمہور ہے اور اس بنا پر وہ کسی بھی اسلامی معاشرے میں نافذنہیں کی جاسکتی۔ جو نظام جمہور یا عوام کو حاکم بناتا ہے، وہ توحید کی نفی کرتا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس نظام کو احکام الٰہی کا باغی کہا جائے گا۔قرآن نے حاکمیت ِجمہور کی جگہ حاکمیت ِالٰہی  اور خلافتِ جمہور کا تصور دیا ہے، یعنی اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اور ان کا بنیادی فریضہ اقامت دین کے لیے اللہ کی حاکمیت کو اجتماعی کوشش سے نافذ کرنا ہے اوریہ کام باہم مشاورت سے انجام دینا ہے۔ گویا ہر صاحب ِایمان مردوزن، قرآن کریم کے حکم (البقرہ۲:۳۰) کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ لہٰذا تمام مسلم جمہور اصلاً خلیفہ فی الارض ہیں،اگر وہ ان صفات سے متصف ہیں جو خود کلام الٰہی نے بیان کر دی ہیں، پھر وہ حاکمِ کُل ، جو کائنات کا خالق اور رب ہے وہ انھیں بطورِ امانت اختیارات دیتا ہے، جو اقامت دین کے لیے ضروری ہیں۔
اقامتِ دین کا تصور جو سورۂ یوسف کی آیت میں حاکمیت الٰہی کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے،یہ ہے کہ دین حق وہ ہے جو دین شاہ کے مقابلے میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کو معاشرے میں نافذ کرے۔ چنانچہ قرآن کریم نے قوتِ نافذہ کے قیام کے حوالے سے  دین کی ہر اس تعلیم کو، جسے ہم نے اپنی محدود فکر کی بنا پر کسی خاص مفہوم میں قید کر دیا ہے ، جگہ جگہ واضح فرما دیا ہے۔ اگر صلوٰۃ ہے تو محض تنہائی میں ربّ کے حضور بندگی کے اظہا ر کے لیے کسی گوشے میں کھڑے ہو کر چند رکعتوں کا ادا کر دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا باقاعدہ قیام، اُمت مسلمہ پر فرض ہے۔ اگر زکوٰۃ ہے تو وہ کسی پراحسان کرتے ہوئے مالی امداد نہیں ہے، بلکہ اس نظام کی اقامت کا نام ہے، جس میں رزقِ حلال پیدا ہو، پھر اس رزقِ حلال میں سے وہ حصہ جو اللہ نے اس رزق میں دیگر افراد کے لیے پہلے سے رکھ دیا تھا، وہ ان تک پہنچانے کا نظام قائم کیا جائے۔ اسی طرح روزہ فقط تزکیۂ نفس کے لیے اپنے آپ کو کھانے پینے سے روکنے کا نام نہیں،بلکہ پورے عالم میں جہاں کہیں اہل ایمان پائے جاتے ہوں، وہ اجتماعی طور پر روزوں کے اہتما م کے ساتھ وہ نظام تربیت قائم کریں ، جس میں جھوٹ سے اجتناب ، شہوت پرستی سے دُوری، غصے اور انتقامی جذبات کا خاتمہ ، غرض تمام فواحش سے اجتناب ہو اور تمام حسنات ، بھلائیوں ، نیکیوں ، معاشرے کے معذور افراد کی دیکھ بھال، انھیں کھانا کھلانے ، کپڑا پہنانے ، ان کی مشکلات کو دور کرنے کا اہتمام کیا گیا ہو۔

ہرشعبۂ زندگی میں نفاذ

اقامتِ دین محض محاسنِ اسلام پر ایک علمی مقالہ لکھنے کا نام نہیں، بلکہ دین کو مکمل طور پر تمام شعبہ جات میں نافذ کر دینے کی جدوجہد کا نام ہے، تاکہ:
وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ۝۰ۚ (الانفال ۸:۳۹)دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔
 اپنی زمین پر اپنا نظام قائم ہوتے ہوئے دیکھنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے۔ وہ اس کام کے لیے انسانوں کو اپنا خلیفہ بنا کر انھیں اعلیٰ اجر کا مستحق بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر کوئی انسانی گروہ اس سے بندگی کا عہد کرنے کے بعد بھی، اس فریضے کو ادا نہ کرے تو وہ اس گروہ کی جگہ کسی اور قوم کو لاکر یہ مقصد پورا کر سکتا ہے:
اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۰ۥۙ وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۳۹ (التوبہ ۹:۳۹)تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمھیں درد ناک سزا دے گا ، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا ، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اقامت دین کا واضح مفہوم قرآن و سنت کی جملہ اخلاقی تعلیمات کا نافذ کرنا ہے ، جس میں معاشی، معاشرتی ، تعلیمی ، سیاسی ، دفاعی، ثقافتی، غرض تمام ممکنہ انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔حاکمیتِ الٰہی اور اللہ کی بندگی چند مخصوص اوقات اور چند مخصوص مقامات تک محدود نہیں کی جا سکتی ۔ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کا مفہوم کبھی یہ نہیں تھا کہ سیاسی حاکمیت تو عوام کی ہو، اور صرف مسجد کے اندر حاکمیت اللہ کی ہو۔ حاکمیت ِجمہور کے برعکس خلافت ِجمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جمہور بطور خلیفۃ اللہ،    اللہ کے احکام کو نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لیے وہ نظام وضع کرے، جس کے ہر شعبۂ حیات میں قرآن وسنت کی پیروی کی جائے ۔
تحریکاتِ دعوت و اصلاح اسی بنا پر حاکمیت الٰہی اور خلافت جمہور کو اپنے منشور کا نقطۂ آغاز قرار دیتی ہیں ۔ اپنے آپ کو اللہ کا خلیفہ ثابت کرنے کے لیے ایک مسلمان کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا، جسے قرآن کریم نے اہل ایمان کی صفات کی شکل میں تقریباً ہرصفحے پر بیان کر دیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلب ایمان سے روشن ہیں ۔جو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور ان کی یہ یاد انھیں حصولِ دولت اور حصولِ اقتدار میں بھی اللہ کے خوف اور محبت سے وابستہ رکھتی ہے ۔ اس لیے جمعے کی نماز مکمل ہونے پر جب وہ زمین پر پھیلتے ہیں تو اپنے ساتھ اللہ کی یاد کو مسجد میں چھوڑ کر دولت و اقتدار کے بندے نہیں بن جاتے۔ اللہ کے فضل کا حصول اور اللہ کے ذکر کا اہتمام ہر جگہ ان کا شعار ہوتا ہے۔ بازار ہو یا پارلیمنٹ وہ جہاں بھی ہوں وہ عوام کی حاکمیت کے علَم بردار نہیں بنتے، خلافتِ جمہور اور حاکمیت الٰہی کے لیے اپنی تمام جدوجہد کو مرکوز کر دیتے ہیں ۔ اسلام جب تمام زمین کو اہل ایمان کے لیے مسجد قرار دیتا ہے تو پھر پارلیمنٹ ہو یا بازار، ہر جگہ اللہ کی حاکمیت کو اس کے خلیفہ کی حیثیت سے نافذ کرنے کا نام خلافتِ جمہور ہے ۔ یہ حاکمیت ِجمہور کی ضد اور تردید ہے۔ –یہ انسان کا مقصد تخلیق ہے ۔ 
دین کا یہ جامع اور اجتماعی تصور ہی تحریکاتِ دعوت و اصلاح کی پہچان ہے ۔ وہ دین کی محدود تعبیر کی جگہ دین کے کُلّی مفہوم کی علم بردار ہیں اور اس بنا پر انھیں محض ’نظریاتی‘ سمجھنا یا کہہ دینا ان کے عملی پہلو کو نظرانداز کر دینے کے مترادف ہے ۔ نظریات عموماً انسانوں سے وابستہ ہوتے ہیں، جب کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ فکر وعمل ہے۔ یہ دستور حیات ہے ، یہ وہ ہدایت نامہ ہے جو اَبدیت کا حامل ہے ۔یہ کسی وقتی معاشرے کی پیداوار نہیں ہےکہ کسی انسانی تاریخ کے کسی مخصوس دور میں پیدا ہوا ہو،اور وقت کے ساتھ معدوم ہوجائے۔ – یہ ابدی صداقت اور ابدی عملیت سے آراستہ ہے ۔ کیوں کہ اس کی تعلیمات کسی انسان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ یہ خالق کائنات کا براہ راست کلام ہے ۔اسی بنا پر اس میں اَبدیت پائی جاتی ہے اور ہر دور کے لیے افادیت ، فلاح، سعادت اور کامیابی کے اصول فراہم کر دیے گئے ہیں۔ 
اسلام انسانوں پر ’عربیت‘نافذ کرنے نہیں آیا ہے بلکہ عربوں کو اسلامیانے اور اسلام کا  علَم بردار بنانے کے لیے آیا تھا ۔تاکہ یہ علَم برداری کسی رنگ ، نسل، خطے میں نہیں بلکہ اپنے اصولوں اور عمل کی بنا پر انسانیت کی میراث بن جائے اور اس کی عالم گیریت اس کو تمام دیگر نظام ہاے حیات سے ممتاز کر دے۔

خلافت جمہور کے لوازم 

قرآن کریم نے سورۂ مومنون میں اجمالی طور پر ان صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کو اقوام عالم کی قیادت کے لیے تیار کرتی ہیں: 
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو ان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (المومنون ۲۳:۱-۱۱) 
قرآن کریم آخرت کی کامیابی اور فلاح کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور نفاذ سے مشروط کرتا ہے ۔چنانچہ ایمان کے ساتھ ایمان کے پیمانے، یعنی وہ نماز جو خشیت الٰہی والی ہو، وہ زکوٰۃ جو نظام زکوۃ کے ساتھ ادا کی جائے ، وہ جنسی اخلاقیات جس میں جنسی تعلق صرف وہ ہو جو ربّ کریم نے جائز قرار دیا ہے ۔ 
اسی طرح ذمہ داریوں کو امانت اور اہلیت کے ساتھ پورا کرنا اور معاملات میں جو عہد و پیمان اللہ کی مخلوق کے ساتھ کیےہوں، وہ چاہے معاشی عہد ہوں، سیاسی وعدے اور ووٹ ہو ، بین الاقوامی معاہدے ہوں ، ایک شوہر کا بیوی کے ساتھ عقد نکاح ہو، غرض یہ کہ ہر وہ عہد اور معاہدہ جو انسانی معاشرے میں کیا گیا ہو، اگر اسے جیسا اس کا حق ہے پورا کیا گیا ہو، تو رب کریم جنت کا وعدہ فرماتا ہے کہ ایسے اہل ایمان کو میراثِ جنت ملے گی۔ یہ میراث محض جنت کی حد تک نہیں ہے بلکہ زمین میں اقتدار و خلافت کی شکل میں بھی بطور انعام عطا فرمائی جاتی ہے: ’’ اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد کہہ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے(النبأ ۱۰۵:۲۱)۔ اسی بات کو مزید وضاحت سے حضرت موسٰی کے حوالے سے فرمایا گیا:
موسٰی نے اپنی قوم سے کہا ، ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا’’ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے ، اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھا را رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ ۔(الاعراف۷:۱۲۸-۱۲۹) 
 قرآن کریم نے زمین پر وارث بنائے جانے یا خلافت جمہور عطا کیے جانے کو جن شرائط سے وابستہ کر دیا ہے، وہ قرآن کریم نے جگہ جگہ بڑی وضاحت سے بیان فرما دی ہیں ۔یہاں تقویٰ اور صبر کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے قبل عہد و امانت ، قیام نظامِ صلوٰۃ اور صنفی اخلاقیات کو اور دیگر مقامات پر صحیح ناپنے تولنے کو ، صلہ رحمی کو ، معروف کے قیام اور منکر کے خلاف جدوجہد کرنے کو ، قوانین الٰہی کے قیام کے ذریعے حاکمیتِ الٰہی کے قیام کو ، غرض کثیر مقامات پر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ خلافت جمہور اسی وقت بطور انعام عطا کی جاتی ہے ، جب اقامت دین صبر وحکمت اور بغیر کسی مداہنت کے اختیار کی جائے۔
اس خلافت یا وراثت پر جن افراد کو مامور کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ان پر یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ یہ خلافت تمھارا امتحان ہے کہ تم کس طرح اللہ کی بندگی ، اقامت دین اور نفاذ احکام الٰہی کرتے ہو ۔ اگر حصول اقتدار کے بعد وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم اپنی ووٹ کی قوت سے یا سڑیٹ پاور سے یا اپنے عوامی نعروں کی بنا پر کامیاب ہوئے ہیں، اس لیے اب جو چاہے کریں تو بہت جلد ان کو زوال آجاتا ہے اور اگر وہ اسے عطیۂ الٰہی سمجھتے ہوئے ، امانت سمجھتے ہوئے ، امانت کا حق ادا کرتے ہیں، تو زمین ان کے لیے اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان رحمتوں کی بارش کر دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں وہ جنت کے وارث قرار پاتے ہیں ۔اقامتِ دین اور نظام اسلامی کے قیام کے لیے، جن خصوصیات اور ذمہ داران کو جن صفات کی ضرورت ہوتی ہے، قرآن کریم نے ان کو بھی آسان اور متعین الفاظ میں طے کر دیا ہے، تاکہ اہل ایمان کسی ابہام یا غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔

حاکمیت الٰہی 

اسلامی سیاسی نظام کی پہلی اور سب سے نمایاں خصوصیت شخصی آمریتوںکی جگہ حاکمیت ِالٰہی کا قیام ہے، یعنی ریاستی پالیسی اور فیصلوں کی بنیاد الہامی ہدایت ، قرآن و سنت کی حاکمیت ہے ۔ حاکم اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہے ۔ کوئی صدر اور کوئی پارلیمنٹ حاکمیت الٰہی سے برتر نہیں ہے اور نہ صدر ، نہ وزیر اعظم ، نہ پارلیمنٹ یا اس کا کوئی رکن قانون سے برتر یا مستثنیٰ (immune) ہے۔ کسی صدر یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو قرآن و سنت کی دی ہوئی شریعت کے کسی حکم میں تبدیلی یا معافی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔مثال کے طور پر اگر قانونی کارروائی کے بعد ایک قاضی یا جج کسی قاتل یا باغی کو شریعت کے مطابق سزا دیتا ہے، تو وہ سزا نہ صدر، یا وزیر اعظم معاف کرسکتا ہے اور نہ سپہ سالار اعظم۔ 
شورائیت
دوسری اہم خصوصیت اسلامی نظامِ سیاست کا شورائی، یعنی مشاورتی اور consultative ہونا ہے ۔جو دین شارحِ اعظمؐ کو مشاورت سے فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے اور پابند کردیتا ہے ، وہ کسی نام نہاد صدر یا وزیر اعظم کو ویٹو (veto)کا حق نہیں دے سکتا ۔ ایک مثالی اسلامی ریاست میں حکمران شوریٰ کے پابند ہیں۔ کیا وجہ تھی کہ اموالِ فئے کےمعاملے میں صحابہ کرام ؓتین دن رات مصروف شوریٰ رہے اور جب ایک نص قرآنی مل گئی، تو پھر عزم الامور اختیار کیا۔کیا وجہ تھی کہ زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف اقدام پر مسلسل شوریٰ ہوئی اور جب خلیفۂ وقت نے قرآنی دلیل کی بنا پر ثابت کیا کہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے منکر کے خلاف جہاد شریعت کا تقاضا ہے، تو انشراح قلب کے ساتھ سب نے اس پر عمل کیا۔ کیا وجہ تھی کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر و حنین اور کئی دیگر مواقع پر اجتماعی راے پر عمل کرتے ہوئے قرآن کے اصول کو عملاً نافذ فرمایا۔شوریٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اصحاب شوریٰ مصالح امت کے پیش نظر پوری قوت سے مسئلے کے ہر پہلو پر بحث و گفتگو کریں۔ لیکن جب ایک بات طے ہو جائے، چاہے اس کے لیے ایک تعداد کو اپنی راے کی قربانی دینی پڑے تو پھر اجتماعی فیصلے کی برکت پر اعتماد کرتے ہوئے وہی راے سب کی راے ٹھیرے، اور کسی کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ مجلس سے باہر اپنی دانش وری کے دعوے کرتا رہے ۔
امانت واہلیت 
تیسرا اہم اصول ذمہ داریوں کا صرف ان افراد کو دیا جانا ہے، جو ان ذمہ داریوں کے   اہل ہوں۔ قرآن کے اس واضح حکم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے فرد کو جو خود تعلیم کا مستحق ہو، وزیر تعلیم بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو طب کی الف با سے بھی واقف نہ ہو وزیر صحت بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو اُمورِمملکت کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا ہو، محض اس کی شکل وصورت اور صحت مندی دیکھ کر اُمورِمملکت اس کے حوالے کر دینا قرآنی اصول اور روح کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ 
پاکستان کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ پر اگر خلوصِ نیت سے عمل کیا جائے، تو اس غلطی کے امکان کو بہت کم کیا جاسکتا ہے ۔امانت سے مراد محض مالی امانت نہیں ہے، بلکہ بات اور زبان کی ا مانت ، صلاحیت کی امانت ، جو اختیارات کسی کے سپرد کیے جائیں، ان کی حفاظت، خود اپنے دینی شعور کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال ، غرض یہ امانت واہلیت اسلامی نظام حکومت کی ایک بنیادی خصوصیت ہے ۔

احتساب 

اسلامی ریاست میں اعلیٰ ترین افراد کوبھی جو ذمہ داری دی گئی ہو، اس کے لیے وہ عوام الناس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی بات سننے سے پہلے عوامی اجتماع میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کُرتا جو آپ نے پہنا ہے، اس کے لیے اضافی کپڑا کہاں سے آیا ؟ اس سوال کے اٹھانے پر نہ خلیفہ کے محافظ سوال اٹھانے والے پر لپکے اور نہ اسے کسی نے گھور کر دیکھا بلکہ خلیفۂ وقت نے اپنے بیٹے سے جواب کے لیے کہا، جس نے عوام کے سامنے یہ بات واضح کر دی کہ چوںکہ وہ کپڑا جوخلیفہ کے حصے میں ایک عام شہری کی طرح آیا تھا چھوٹا تھا، اس لیے اس نے اپنے حصے کا کپڑا بھی باپ کو دے دیا، تاکہ اس سے کم از کم اس کے باپ کا ایک کُرتا بن جائے۔ یہ احتساب اختیارات کا بھی ہے ، ذاتی زندگی کا بھی، مالی معاملات کا بھی اور ریاستی حکمت عملی کا بھی۔ اور یہ محض پارلیمان یا شوریٰ کے افراد کا حق نہیں ہے بلکہ ہر عام شہری یہ حق رکھتا ہے ۔کیا دنیا کی کسی پارلیمنٹ کا ارتقا اس مقام تک پہنچا ، جس سے اسلام اپنی سیاسی حکمت عملی کا آغاز کرتا ہے !

حکمرانوں کی صفات 

  • اسلامی ریاست کا مقصد حاکمیت ِالٰہی اور اقامت ِدین کا نفاذ ہے۔ اس لیے اس کا نفاذ کر نے والوں کا ریاست کی بنیاد اور مقصد اور ہدف پر یقین اور دل و جان سے خلوص نیت کے ساتھ جدو جہد کرنا شرط اوّل ہے۔یہ ایسا کام نہیں ہے کہ اسےٹھیکے پر یا کرایے پر کام کرنے والوں کو دیا جائے،یعنی out source کر دیا جائے اور محض ایسے پیشہ ور ٹیکنو کریٹ افراد جو انتظامی اُمور میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہوں لیکن ریاست کے نظریے پر یقین نہ رکھتے ہوں، انھیں ذمہ داری دے دی جائے۔
  • حاکمیتِ الٰہی کے قیام اور اقامت دین کے لیے وہ افراد ہی موزوں ہو سکتے ہیں، جو قرآن و سنت ، فقہ، اداراتی امور سے پوری واقفیت رکھتے ہوں ۔یہی مفہوم ہے امانت و دیا نت کا ، یہی مفہوم ہے ایفاے عہد کا۔ یعنی صرف وہ جو عہد کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہی اس کام کو صحیح طور پر انجام دے سکتے ہیں ۔اس کو یوں سمجھیے کہ اقامت ِصلوٰۃ کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ مسجد کے اردگرد رہنے والوں میں جو قرآن سے زیادہ تعلق رکھتا ہو،قرأت کے اصول جانتا ہو، جس کا کردار و عمل محلے والوں کے لیے مثالی ہو، وہی امامت کرے، لیکن عموماً ہر جگہ یہ شکل ممکن نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک امام کا تقرر کر دیا جاتا ہے۔ عموماً امام وہی ہو تا ہے جو خود قرآنی تعلیمات سے آگاہ ہو ، حفظ اور قرأت میں دوسروں سے افضل ہو ، ایمان داری اور تقویٰ میں معروف ہو۔ ہم کسی مسجد میں کسی ایسے فرد کو، جو نہ قرآن کو اپنی کتاب مانتا ہو، نہ رسول کے خاتم النبیینؐ ہونے پر یقین رکھتا ہو، لیکن ہوبہت خوش آواز، اس کی خوش آوازی کی بنا پر امام مقرر نہیں کرتے۔ یہ ’عہدہ‘ کسی گویے کو  نہیں دیا جا سکتا۔ اس ذمے داری کے کچھ مطالبات ہیں جن پر اس کو پورا اُترنا چاہیے ۔ایسے ہی اسلامی ریاست میں سربراہی کی ذمہ داری کے سزاوار صرف وہ ہیں، جن میں مطلوبہ صفات ہوں اور خود اس کے طالب نہ ہوں۔ ان کو اس ذمہ داری پر مقرر کیا جاسکتا ہے،چاہے وہ پارلیمان کے ذریعے منتخب ہوں یا براہِ راست منتخب ہوں۔ گویا پہلی صفت ذمہ داران کا خود اسلام کا علم اور اس پر مستقل عمل کرناہے ۔
  • ایمان ، علم ، تقویٰ اور انتظامی صلاحیت کے ساتھ ساتھ منتخب کرنے والوں کا اعتماد بھی ایک بنیادی شرط ہے۔بہترین حکمران وہ ہیں جو اپنے عوام سے محبت کریں اور عوام ان سے محبت کریں ۔ وہ فرماں روا جو عوام سے خائف ہوں اور جن کے آگے پیچھے محافظوں کی ایک فوج ہر وقت انھیں اپنے عوام سے ’بچانے‘ کے لیے موجود رہے ، اسلامی ریاست کے لیے سخت ناموزوں افراد سمجھے جاتے ہیں۔ 
  • ریاستی امور چلانے کے لیے فرما ںروا میں اجتہادی صلاحیت کا ہونا بھی ایک شرط ہے۔ یہ اجتہاد محض معاشرتی مسائل کا نہیں بلکہ دفاعی معاملات میں ، بین الاقوامی تنازعات میں ، ملک کی معاشی ، تعلیمی حکمت عملی میں، غرض یہ کہ ان تمام معاملات میں اس کا مجتہد ہونا ضروری ہے تاکہ   وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح فیصلہ کر سکے ، ایک بنیادی شرط ہے ۔
  • یہ خیال بے بنیاد ہے کہ اسلامی ریاست عیسائیت کی طرح تھیا کریسی(پاپائیت) کی قائل ہے۔اسلام وہ واحد دین ہے جس میں پادریت یا برہمنیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ۔ کوئی خاص طبقۂ علما یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ حکومت کرے۔ اس بنا پر اسلام میں نہ تھیا کریسی ہے اور نہ فرقہ واریت بلکہ صحیح معنی میں خلافت جمہور ہے ۔ عوام میں سے جو بھی باصلاحیت فرد اپنے تقویٰ،  علم اور تجربے کے لحاظ سے دوسروں سے بہتر ہو، وہ بڑی سے بڑی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے ۔ اسی طرح ریاست کسی فرقے یا مسلک کی ریاست نہیں ہے۔ گویا اس کا کوئی فقہی مسلک یا مذہب نہیں ہے۔ یہ صرف شریعت کی بالادستی چاہتی ہے اور معاملات میں عام شہری جس فقہی مسلک کے قائل ہوں، اس کی روشنی میں ان کے معاملات طے کیے جاتے ہیں ۔ریاست مسالک سے بلند ہوکر قرآن و سنت کے نفاذ کی ذمہ دار ہے۔
  • اسلامی ریاست کے خدوخال کے حوالے سے یہ امید رکھنا کہ قرآن کریم یا سنت میں علم سیاست اور اداراتی علوم کی کسی نصابی کتاب کی طرح ہر موضوع پر الگ ابواب قائم کیے گئے ہوں، قرآن سے ناواقفیت کی علامت ہے ۔ قرآن و سنت واضح عالم گیر اصول اور چند صورتوں میں متعین احکام دیتے ہیں، تاکہ انسانی معاشرے میں تبدیلی و ارتقا ہوتا رہے اور یہ اصول اس تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر تبدیل شدہ حالت کے بارے میں رہنمائی فراہم کر سکیں ۔ 

ہم نے مختصر طور پر محض چند بنیادی امور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی ریاست کیا ہے۔ مدینہ منورہ میں اس کے قیام اور بعد کے اَدوار پر مفصل اور تحقیقی موادکی کمی نہیں ہے ۔ ایک جامع کتاب محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اسلامی ریاست ہے ، دوسری محترم مولانا امین احسن اصلاحی کی معرکہ آرا تصنیف اسلامی ریاست ہے۔ پھر ڈاکٹر حمید اللہ کے مضامین پر مبنی Muslim Conduct of State  ایک وقیع علمی کتاب ہے ۔ علامہ محمد اسد کی اسلام کا سیاسی نظام  (انگریزی میں ) ایک اہم تصنیف ہے ۔ 
انگلستان سے اسلامک کونسل آف یورپ نے تین نہایت اہم بیا نیے (declaration  ) شائع کیے:lUniversal Declaration of Islam, lInternational Declaration of Islamic Human Rights, lA Model Islamic Constitution یہ ڈیکلریشن اسلام کے پورے نظام کو جدید حالات کے پس منظر میں پیش کرتے ہیں اور انھیں عالم اسلام کی مقتدر شخصیات نے مرتب کیا ہے۔پھر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی صدارت میں جاری ہونے والا بیانیہ الوسطیۃ  بھی اس سلسلے کی ایک قیمتی دستاویز ہے۔مختصراً جماعت اسلامی کے ۱۹۵۸ء سے ۲۰۱۸ء تک کے انتخابات کے جاری ہونے والے منشور بھی اس سلسلے میں تبدیلی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا کہ مدینہ کی ریاست کیسی تھی اور آج کس طرح اس کی روشنی میں ریاست قائم ہو؟ کوئی قیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انتہائی واضح اور ٹھوس حقائق کی شکل میں، ان تمام سوالات کے جواب تحریری شکل میں موجود ہیں ۔ ایسے واہمے بعض حضرات اسلامی مصادر سے دُوری کی بنا پر یا اپنی سادہ لوحی کی بنا پر اٹھاتے ہیں ۔اس تحریر میں ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ عصر حاضر میں تحریکاتِ دعوت و اصلاح ، اقامت دین اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو کوششیں کر رہی ہیں، اختصار سے ان کے تصور کے خدوخال کیا ہیں، اور یہ بتانا ہے کہ نہ تو وہ کسی مغربی لا دینی ، اشتراکی یا سرمایہ دارانہ تصور سے متاثر ہیں اور نہ ان کی دعوت اور مغربی لادین جمہوریت میں کوئی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ اسلام حاکمیت الٰہی اورخلافت جمہور کا علَم بردار ہے،جو مغربی تصور ِریاست سے بالکل مختلف تصور ہے۔ دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ اسے سمجھے اور مدّنظر رکھے بغیر صحیح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔
 

مسلم دنیا میں گذشتہ نصف صدی کے دوران مصر، سوڈان ، ترکی ، تیونس ، پاکستان ، لبنان اور بنگلہ دیش میں تحریکات اسلامی کو جن مسائل کا سامنا رہا ہے ،ان میں اکثر کو نظر انداز کرتے ہوئے ابلاغ عامہ ہی نہیں خود تحریکی کارکن تحریک کی مقبولیت یا ناکامی کو صرف ایک ہی پیمانے پر ناپنے لگے ہیں اور وہ ہے سیاسی محاذ پر پارلیمان میں نشستوں کی تعداد اور حکومت میں عمل دخل۔ بلاشبہہ سیاسی کامیابی کسی تحریک کی توسیع،مقبولیت اور اثر کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہو سکتا ہے لیکن محض سیاسی عینک سے ہر چیز کو دیکھنا تحریکی مزاج اور مقاصد سے مناسبت نہیں رکھتا۔

اگر تحریک اسلامی ، دعوت اسلامی ، اقامت دین ، تبدیلیِ قیادت کی اصطلاحات کا صرف ایک سیاسی مفہوم ہی ہے تو یہ فکر کی ایک بنیادی غلطی ہے ۔ دنیا کی تمام اسلامی تحریکیں قرآن و سنت سے اخذ کر دہ ترجیحات کی بنا پر تبدیلی کا آغاز فرد، خاندان، معاشرہ اوراداروں کی تبدیلی و اصلاح سے کرتی ہیں۔سنت انبیاؑ بھی یہی ہے اور اسی کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ تحریکات اسلامی اور دیگر تحریکات اصلاح نفس کا بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر تحریکات فرد کی اصلاح کو اپنا اعلیٰ مقصد قرار دے کر اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں اُلجھ جاتی ہیں اور بعض اوقات مثالی انفرادی کردار پیدا کرنے میں کامیاب ہونے کے باوجود فرد کی اصلاح سے امت کو کوئی اجتماعی فائدہ نہیں ہوتا۔گو نظری طورپر یہی کہا جاتا ہے کہ جب سارے افراد درست ہو جائیں گے تو معاشرہ خود بہ خود ٹھیک ہو جائے گا ۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوتا تو اللہ تعالی کو اقامت صلوٰۃ فرض کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھ لیا کرتے اور نفس کی اصلاح کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتے ۔ نہ روزہ کو ایک پورے مہینے کے لیے اجتماعی طور پر فرض کرنے کی ضرورت تھی، نہ جہاد فی سبیل اللہ کو افضل و اعلیٰ کہنے کی ضرورت تھی۔ لوگ مجاہدۂ نفس کرکے اپنے خیال میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کے مستحق بن جاتے اور سیاست، معیشت، ثقافت ہر شعبے کو آزاد چھوڑ کر کسی غیبی قوت کے ذریعے اچانک معاشرے میں عدل و انصاف، امن و محبت اور حقوق و فرائض کے نظام کا قیام ہو جاتا ۔ نہ حضرت موسٰی کو وقت کے جباروں سےٹکرانے کی ضرورت تھی، نہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کو زمین پر خلافت الٰہی قائم کرنے کی خواہش ہونی چاہیے تھی۔

 تحریکی فکر اور عام دینی فکر میں فرق یہی ہے کہ اسلام کی اجتماعیت ، جو اس کی روح ہے،  کو بنیاد بناتے ہوئے فرد، خاندان معاشرہ اور زمام اقتدار کی تبدیلی اس کے واضح اہداف ہیں ۔

ظاہر ہے انسانی معاشرے میں کوئی کام اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اس کام کے کرنے والےباصلاحیت اور ماہرانہ اہلیت رکھتے ہوں ۔ اگر ہم ایک مکان نہیں، ایک شلوار قمیص بھی سلوانا چاہتے ہیں تو بہترین درزی تلاش کرتے ہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک گروہ معاشرے اور ملک کی اصلا ح کرنے چلے اور اس کے پاس افراد وہ ہوں جو نہ دین سے آگاہ ہوں ، نہ انتظامی معاملات میں مہارت رکھتے ہوں ۔ اس لیے افراد سازی بذریعہ تطہیر افکار وہ پہلا قدم ہے جس کے بغیر کوئی دعوتی، اصلاحی اور اقامت دین کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سب انسان ایک سانچے میں ڈھل کر یکساں نہیں ہو سکتے ۔کیا سارے صحابہؓ اور عشرہ مبشرہ برابر تھے۔؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عشرہ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابہؓ میں کوئی خامی پائی جاتی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مصدقہ طور پر اخلاص کے باوجود نبی کریمؐ نے حضرت ابوذرؓ سے یہی تو کہا تھا کہ ہم تمھیں  کسی ذمہ داری پر نہیں لگائیں گے کیوں کہ اس کے لیے جو صلاحیت درکار ہے وہ تم میں نہیں ہے۔  یہ نہ ان کے تقویٰ پر ، نہ دین کے علم پر کسی قسم کے شبہہ کااظہار تھا۔ اسی لیے ہر تحریک اسلامی کو اپنے فرد مطلوب کے لیے ایک معیار اور پیمانہ طے کرنا ہوتاہے۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۳عقیدہ کے زیر عنوان اپنے فرد مطلوب کے تصور کو واضح کر تی ہے ۔ دستور کی دفعہ۴ یہ وضاحت کر دیتی ہے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی چاہتی ہے، جزوی اصلاح کی یا مکمل دین کی اقامت۔اسلامی نظام زندگی سے مراد محض عبادات ہیں یا انفرادی ، اجتماعی ، معاشرتی اور  ملکی سطح پر قرآن و سنت کی تعلیمات کا نفاذ و قیام اور اس کام کے لیے اجتماعی جدو جہد لازمی ہے ۔

یہی وہ فرق ہے جو کسی تحریک کو تحریک اسلامی بناتاہے لیکن کیا جب تک ہر فرد انسانِ مطلوب کے معیار کا نہ ہو جائے ، دعوتی ، اصلاحی  اور سیاسی سرگرمیوںکو معطل کر دیا جائے ؟نظری طور پر تو  یہ بات شاید معقول نظر آئے، عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہہ ایک کم سے کم معیار کا تعین کیا جانا چاہیے کہ اگر ایک فرد نہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہو، نہ اس کے گھر کا ماحول طہارت وپاکیزگی کا عکاس ہو ، نہ اس کا کاروبار حلال و حرام کا فرق کرے لیکن اس سب کے باوجود بھی اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے تو یہ دستور کے منافی ہو گا۔ہاں، اگر وہ باوجود کوشش کے تین نمازیں جماعت سے ادا کرپاتا ہو ، اپنے گھر میں تمام کوشش کے باوجود ابھی کامیاب نہیں ہوا ہو اور اپنے کاروبار سے حرام کے عنصر کو نکالنے میں لگا ہوا ہو اور جلد اسے پاک کر لے گا، تو اس سعی و کوشش اور خلوص نیت اور مسلسل جدوجہد میں لگنے کی بنا پر اسےتحریک میں شامل تو کر لینا چاہیےلیکن ساتھ ہی اس کی تربیت و تعمیر سیرت کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ قرآن کاا صول ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی برداشت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں ڈالتا ۔ جو چیز ایک فرد کی طاقت سے باہر ہو اس پر اس کی گرفت نہیں کی جاسکتی۔

اس کا یہ مطلب بھی نہیں لیا جا سکتا کہ ایک سیاسی کارکن جو اپنے علاقے میں اثر و رسوخ تو رکھتا ہو لیکن عبادات و معاملات میں بہت پیچھے ہو پھر بھی محض اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کرنے  کے لیے اسے تحریک میں شامل کر لیا جائے ۔ تحریک کو فرد کی اصلاح کے معیار پر سختی سے عمل کرنا ہو گا ۔کیوں کہ اس کا ہدف کثرت افراد نہیں ، تطہیر و تبدیلی افراد ہے اور ایسے افراد کو پوری محبت و احترام کے ساتھ موقع دینا ہو گا کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کر یں اور اس کے بعد ہی تحریک کا حصہ بنیں ۔

            ایسے ہی تطہیر افکار اور تربیت افراد کسی خلا میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ایک ایسی  جماعت کے وجود کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت تزکیہ نفس اور تعمیر سیرت کے مواقع پیدا کرتی ہو اور جس میں افراد کی شمولیت کا مقصد محض سیاسی قوت کے حصول کی جگہ باصلاحیت، فکری اور عملی قیادت کی تیاری ہو ۔یہ کام ایک طویل المعیاد عمل ہے ۔ یہ دو تین تربیت گاہوں یا اجتماعات میں شرکت کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مسلسل عملی تربیت کی ضرورت ہے،جو صرف دعوتی میدان ہی میں ہو سکتی ہے ۔ کوئی ایک ہفتہ یا تین دن کا کورس اس کام کو حتمی طور پر نہیں کر سکتا ۔

تزکیہ فکر اور تربیت اخلاق محض نئے آنے والے افراد کے لیے نہیں،تحریک میں ہر سطح کی ذمہ دار قیادت کے لیے بھی ضروری ہے ۔اگر قیادت ایک مقام فکر وعمل پر رُک جائے اور اس میں مسلسل ترقی کی کوشش نہ کرے تو وہ کارکنوں کو قابل عمل مثال فراہم کرنے میں ناکام رہے گی۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ تھوڑے یا عبوری عرصے کے لیے کارکن اپنی بے چینی کا اظہار نہ کریں اور حُسنِ ظن رکھتے ہوئے قیادت کے ساتھ چلتے رہیں لیکن جلد ان کے ذہنوں میں گمان ، ظن اور بدگمانی پیدا ہو نا ایک فطری عمل ہے۔تحریک اسلامی میں جس لمحے کارکنوں میں یہ بے چینی پائی جائے فوری طور پر اسے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور تعمیری انداز میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

اس فکر کا پایا جانا اس پہلو سے تو اچھا ہے کہ تحریک میں لوگ اپنی سوچ اور فکر کا استعمال کررہے ہیں اور تحریک جامد اور ساکت نہیں ہے ۔لیکن ہر فکر خود اپنی جگہ پر صحیح قرار نہیں دی جاسکتی اور بعض تصورات بہت معصوم ہوتے ہیںلیکن وہ تحریک کے مقصد وجود کی ضد ہوتے ہیں ۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا دعوتی ، اصلاحی اور سیاسی تبدیلی الگ الگ دائروں کا نام ہے یا دعوت اصلاح میں سیاسی اصلاح ایک لازم و ملزوم عنصر ہے؟ تحریکات اسلامی اور جماعت اسلامی کو دیگر تحریکات سے ممتاز کرنے والا یہی وہ پہلو ہے جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کا مقصد چند ایسے زاہد و عابد افراد کا پیدا کرناکبھی نہ تھا جو علم کے موتی بکھیرتے رہیں اور معیشت ، معاشرت ، ثقافت اور سیاست و قانون پر شیطانی فکر غالب رہے بلکہ روز اول سے اس کا نصب العین اقامت دین رہا ہے ۔ جس میں سیاسی تبدیلی ایک لازمی مرحلہ ہے اور کام وہاں جاکر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ملکی اداروں کی تبدیلی و اصلاح کا کام وہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ نظام کی تبدیلی محض پارلیمان میں چند نشستوں پر جا کر بیٹھ جانے کا نام نہیں ہے ، بلکہ ملکی معیشت ، تعلیم ، قانون، ابلاغِ عامہ، غرض ہر شعبے میں افرادی قوت ، نظریاتی اور مقصدی اصلاح کرنے کا نام ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام چند وزراتوں یا کسی طرح وزارت عظمیٰ تک پہنچ جانے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک طویل اور مسلسل عمل ہے جس میں نصرتِ الٰہی کے ساتھ صحیح حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔

یہ خیال کمزور ہونے کے باوجود بذاتِ خود بحث اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے سیاسی کام کو معطل کر دیا جائے یا دو الگ دائرے طے کر لیے جائیں۔ درحقیقت یہ تصور  جماعت کے قیام و مقصد اور دستور کے منافی ہے ۔اگر ایسا کیا جائے گا تو جماعت اسلامی اس تصور کی توثیق کرے گی جس میں بعض حضرات نے تبلیغ کو اختیار کر لیا اور بعض افراد نے سیا سی محاذ سنبھال لیا ، نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔اگر ایسا کیا جائے تو یہ سیکولر افراد کی تقویت اور خوشی کا باعث ہو گا اور جو حضرات جماعت اسلامی سے کسی نہ کسی وقت بھلائی کی امید رکھتے ہیں ان کی امیدوں کو چکنا چور کرنا ہو گا ۔نہ صرف یہ بلکہ خود وہ لوگ جو جماعت میں اس بنا پر شامل ہو ئے کہ یہاں دین کا ا جتماعی تصور ہے، اور یہاں وہ توازن ہے جو دین چاہتا ہے۔ یہاں اخلاص نیت ہے ۔ یہاں عہدوں کی طلب نہیں ہے۔ یہاں حصول امارت یا شوریٰ کے لیے نجویٰ اورcanvassing نہیں ہے۔ یہاں کسی لسانی یا صوبائی وابستگی کی بنیاد پر کسی کا انتخاب نہیں کیا جاتا ۔یہ اور جماعت کے کلچر سے وابستہ دیگر وجوہ جو کسی کے جماعت سے قریب آنے کا سبب بنتی ہیں ، ان تمام توقعات کو ختم کر دینا ہو گا۔

جماعت اسلامی کے بانی امیر نے اس طرف تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل  میں متوجہ کیا تھا:’’یہ کہنا کہ جماعت اسلامی سیاسی جدوجہد کے میدان سے ہٹ کر پہلے کارکنوں کے اخلاق بنائے پھر اس میدان میں قدم رکھے،اپنے پیچھے اخلاق کی تیاری کا یہ تصور رکھتا ہے کہ ایک کام کے لیے جس قسم کے اخلاق کی ضرورت ہے وہ اس کام میں پڑے بغیر کہیں باہر سے تیار کرکے لائے جاسکتے ہیں۔ حالاںکہ یہ تصور اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی آدمی پانی میں اترے بغیر تیراک ہوسکتا ہے۔ عقل اس کو غلط کہتی ہے ‘‘۔(ص ۱۱۶)

تاہم، جس چیز پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم تحریک کی کامیابی و ناکامی کو صرف سیاسی پیمانے ہی سے ناپنا چاہتے ہیں تو گذشتہ دو اور حالیہ الیکشن کے اعداد وشمار سامنے رکھ کر دیکھا جائےکہ ہمارے مجموعی حاصل کر دہ ووٹوں میں کس تناسب سے کمی یا اضافہ ہوا ہے؟ہم نے کس عمر ، قابلیت ، تجربہ کے افراد کو انتخابی نمایندہ بنایا اور ہر صورت حال میں کامیابی و ناکامی کی وجوہ کیا تھیں؟ اس پہلو سے خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ۱۰ سال میں ہماری ترجیحات کیا رہی ہیں؟ ہمارے وقت ، مالی وسائل ، صلاحیتوں، منصوبہ بندی کا کتنا تناسب ، قیادت کی اپنی تربیت ، مرکزی شوریٰ اور عاملہ کے ہر فرد کی کارکردگی اور مالی ، فکری تعاون میں صرف ہوا؟ اور کتنا صوبائی اور ضلعی بنیاد پر افراد کے تقرر ، ان کی صلاحیتوں کی نشو ونما (grooming )، ان کا احتساب،  ان کی کارکردگی کے معروضی جائزے پر صرف ہوا؟

اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ۱۰ سالہ مدت میں سیا سی منصوبہ بندی اور تنظیمی دوروں اور معاملات میں وقت کا استعمال اور دعوت پر غور وفکر، فکر مودودی سے استفادہ،  قرآن و سنت کا براہِ راست مطالعہ اور تجزیہ ، جماعت کی مجموعی فضا سیاسی رہی یا دعوتی؟ للہیت کے پیدا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ سیاسی محاذ پر مقصود محض شکست دینا تھا یا ہماراطرزِ عمل مصلحانہ اور دعوت کار ہے یا پیشہ ور حزبِ اختلاف کی طرح ہر بات پر منفی طرزِ عمل و تنقید کرتے رہے ، یا وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى (جو کام نیکی اور خداترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو۔ المائدہ۵:۲)پر عمل ہو رہا ہے یا صرف عدم تعاون پر عمل رہا؟ مخالف کا دل جیتنے کے لیے اپنے اہداف و طریقۂ کار سے ایک انچ ہٹے بغیر کیا اقدامات کیے ؟ دیگر تحریکات اسلامی خصوصاً تیونس اور ترکی جہاں تحریک اسلامی کو سیاسی کامیابی ہوئی ، کیا ان کا علمی، تاریخی جائزہ لیا گیا؟ تیونس میں خصوصاً جس طرح النہضۃ نے اپنے مخصوص حالات میں تبدیلی اختیار کی ہے، کیا اس کے بعد وہ ہمارے لیے مثال بن سکتی ہے؟ ترکی میں طیب اردگان کو لانے میں نجم الدین اربکان کا کتنا دخل تھا اور پھر باہمی اختلافات کے بعد آج وہاں پر دعوتی اور تحریکی کام کی شکل کیا ہے؟غرض علمی اور تحقیقی جائزے کے بغیر کسی بھی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کو کسی دوسرے مقام پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ کیا واقعی جماعت کی حکمت عملی میں کوئی ایسی خرابی ہے کہ جب تک تیونس اور ترکی سے تریاق نہیں آئے گا، کام نہیں ہو سکتا یا ہم نے خود بعض فیصلے غلط کیے ہیں ، جن کی بنا پر ہم دعوتی اور سیاسی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ ان تمام پہلوؤں پر ان حضرات کو غور کرنےکی ضرورت ہے جو خود میدان میں کام میں مصروف ہوں۔ چند دانش وَر کسی بھی تحریک کو مسائل کا حل نہیں دے سکتے ۔ گو، حکمت مومن کی گم شدہ پونجی ہے اور جہاں سے بھی ملے اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔

 اس امر کی ضرورت ہے کہ ترجیح اوّل کے طور پر کارکنوں کی فکر ی تربیت اور دعوتی میدان میں شرکت کے ذریعے عملی تربیت کو اختیار کیا جائے اور ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں، صالح اور مکمل طور پر تحریکی فکر رکھنے والے افراد کو متعارف کروایا جائے جو ۱۰ سال بعد ملکی سطح پر تحریک کو قیادت دے سکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ قرآن کریم کا غیرمعمولی ادبی اعجاز ہے کہ وہ انسانوں کے لیے اپنی ہدایت کی تعلیمات کو انتہائی مختصرالفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ ان الفاظ میں نہ کہیں جھول پایا جاتا ہے، نہ ابہام، نہ فلسفیانہ اُلجھن بلکہ سلاست ِبیان کے ساتھ محض چند الفاظ معانی کے سمندر کو سمو لیتے ہیں۔ سورئہ صف میں چند الفاظ میں انبیاے کرام ؑ کو مقرر کرنے کا مقصد، دعوتِ دین کی جامعیت، دعوت و اصلاح کا مقصد اور آخرکار ایک ایسے معاشرے اور نظامِ عدل کے قیام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شرک و کفر اور زندگی میں ظلم، فساد اور دو رنگی سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے۔ فرمایا جاتا ہے:

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۹ۧ (الصف۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

منصبِ رسالتؐ

یہاں پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی طور پر بھیجا جانا اس غرض کے لیے ہے کہ وہ ہدایت اور دین حق کو، جیساکہ وہ ہے، بغیر کسی کمی بیشی کے اس میں سے کسی بات کو نظرانداز کیے بغیر، بلاکم و کاست اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا فریضہ اس طرح انجام دیں کہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام اور شبہہ نہ رہے اور حق ظاہر ہوجائے۔ لیکن یہاں ساتھ یہ بات بھی سجھائی جارہی ہے کہ دینِ حق اور ہدایتِ الٰہی کو محض پیش کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ حق کو باطل، شرک اور فسق پر غالب کرنے کی جدوجہد کرنا بھی دعوت کا حصہ اور مقصود ہیں۔ دین آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ شرک و و الحاد کو، نفس پرستی اور آبا پرستی کو ، اور ہر طرح کے ظلم و استحصال سے انسانی زندگی کو پاک کرے، جھوٹے خدائوں سے انسانیت کو نجات دلائے، اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اللہ رب العزت کی سربلندی اور حاکمیت کے قیام کے ذریعے سے اللہ کی زمین پر صرف اس کی مرضی کو رائج اور قائم کردے۔ یہ دعوتِ دین کے کسی خاص جزو یا حصے پر  عمل پیرا ہونے کی نہیں بلکہ مکمل دین کی دعوت ہے۔ توحید فقط اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں صرف اور صرف اس کی بندگی میں آجانے کا نام ہے۔

اسلام دین و دنیا کی ثنویت یا دو رنگی (dualism) کی جگہ دین و دنیا کی وحدت کا داعی ہے اور یہ توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ زندگی کو دو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ زندگی کو ایک ایسی اکائی میں تبدیل کر دیتا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کا کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لباس پہننا، تجارت کرنا، تفریح کرنا، غرض ہرانسانی عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشی اور مرضی کے تابع ہوجاتا ہے۔      یہ عیسائیت کی طرح ہفتے میں ایک دن چرچ جا کر اپنے رب کی بڑائی بیان کرنے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکومت اور دائرۂ کار کو جس طرح مسجد میں قائم کرتا ہے، اسی طرح خاندان، تجارت، سیاست، معاشرت، قانون و ثقافت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور احکام کے تابع کرتا اور اس کی رضا کے حصول کا میدانِ کار بنا دیتا ہے۔نعوذ باللہ یہ ایسے خدا کا قائل نہیں جو مسجد یا خانقاہ تک محدود ہو اور باقی تمام کاروبارِ حیات شیطان کے حوالے کردے۔ اسلام اس تقسیم کو توحید کے منافی قرار دیتا ہے اور یہی منصب نبوت کا تقاضا ہے۔ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۝۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) ’’اللہ کے بندے بن جائو اور طاغوت سے مکمل اجتناب کرلو‘‘۔ یہی وہ دعوت ہے جسے حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے انسانوں تک پہنچایا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔

ہدایت و رہنمائی

اگلی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ انبیاے کرام ؑ ہی ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور تمام انبیاےکرامؑ نے انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ گویا یہ دین ہی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ وہ اللہ ہے جو الرحمٰن اور الرحیم ہے، جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور انھیں گمراہ نہیں دیکھنا چاہتا، جو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنے انبیا ؑ بھیجتا رہا اور جس نے آخرکار پوری ا نسانیت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور پیغامبر بنا کر بھیجا۔ دین کو مکمل شکل میں محفوظ کیا اور اسے قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے صراطِ مستقیم اور نجات کا راستہ قرار دیا۔ نیز یہ کہ نبی کا کام نہ صرف تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب ہے بلکہ تزکیہ اور حکمت کی تعلیم و تربیت دینا بھی ہے۔ ان چاروں وظائف کو عملاً نافذ کرنے کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یعنی تلاوتِ کتاب کے ذریعے انسانوں تک ہدایت اور دین حق کو جیساکہ وہ ہے پہنچانا، نبی کی ذمہ داری ہے۔اس کے ساتھ افراد کا تزکیہ کرنا، جسے ہم کردار سازی اور صلاحیت ِ کار میں ترقی کہتے ہیں۔ افراد کی صلاحیتوں کو اُبھارنا اور انھیں دعوتِ دین کی حکمت عملی سے آگاہ کرنا نبی کے مشن کا حصہ ہے۔ نبی کے بعد دعوت کا پہنچانا ہو یا ہدایت کی وضاحت کرنی ہو، قانون کا نفاذ کرنا ہو، یہ سب کام نبی کے بعد اُس اُمت کے سپرد کر دیے گئے جو نبی پر ایمان رکھتی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ تم وہ خیراُمت ہو جسے پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ انسانوں کو اچھائی ، نیکی، بھلائی اور معروف کا حکم دو اور گمراہی، منکر اور فواحش سے روکنے اور بچانے کے لیے اپنی قوت کا استعمال کرو۔(اٰل  عمرٰن ۳:۱۱۰)

یہاں بات فقط وعظ و تلقین کی نہیں کی جارہی بلکہ اس کے امرونہی کا بھی ذکر ہے جو واضح طور پر قوتِ نافذہ کی طرف اشارہ ہے اور جس کے ذریعےمتوجہ کیا جارہا ہے کہ منکر اور بُرائی کو مٹانے کے لیے ہرممکن ذریعۂ اصلاح کا استعمال ضروری ہے۔

یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہدایت مکمل ہے، یہ زندگی کے کسی خاص پہلو تک محدود نہیں، یہ محض روحانیت کا نام نہیں، نہ یہ محض ’ذاتی‘ اور ’نجی‘زندگی کے لیے ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ہدایت نہ صرف جامع اور مکمل ہے بلکہ یہی حق ہے یہی ’دین الحق‘ ہے اور  اس ’دین الحق‘ کی دعوت اور اس کی سربلندی کی جدوجہد کرنا نبی اور ان کے بعد نبی کے ماننے والوں کا کام ہے۔ تحریک اسلامی کا اصل مقصود، دین حق کا قیام اور باطل اور طاغوت سے انسانیت کو نجات دلانا ہے۔

مخالفین کا ردعمل

یہ بات بھی واضح کی جارہی ہے کہ اس دین حق کی دعوت اور جدوجہد کو کفر، ظلم، طاغوت کے علَم بردار برداشت نہیں کریں گے۔وہ اسے سخت ناگوار سمجھتے ہوئے اپنی تمام قوت اس کا راستہ روکنے میں لگائیں گے اور نہ صرف مقامی طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دین حق کو دبانے اور نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے۔ جو خوش نصیب ہدایت کو قبول کرلیں گے اور اس پر استقامت سے جم جائیں گے، وہ اپنے رب کی نصرت و حمایت سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود بالآخر کثرت پر غالب آئیں گے۔ اسلام قلت و کثرتِ افراد کی جگہ افراد کی تاثیر اور قوت کردار و اخلاق کا اصول پیش کرتا ہے کہ اگر وہ صرف ۲۰ صالح اور مجاہد افراد ہیں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے ۔ گویا کامیابی کا معیار تعداد نہیں تربیت ہے، کردار اور طرزِعمل ہے۔ مخالفت کی ہوائیں جتنی بھی تندوتیز ہوں گی، حق اتنا ہی زیادہ بلندی کی طرف جائے گا۔

تحریکاتِ اصلاح کا اصل تشخص

جو اسلامی تحریکات اپنے قیام کا مقصد اور اپنی سرگرمیوں کا ہدف حاکمیت ِالٰہی کا قیام قرار دیتی ہیں، ان کے لیے قرآن کا دیا ہوا اصول یہی ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کے لیے ایسے افراد تیار کریں جو چاہے تعداد میں کم ہوں لیکن اپنے ایمان اور کردار میں غیرمتزلزل اور میدانِ کارزار میں چٹان کی طرح جم جانے والے ہوں، جو سر تو دے دیں لیکن ان کا سر صرف اللہ کے سامنے جھکے اور ایمانی اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہ کریں۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل سرمایہ یہی تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں، جو اللہ کے حضور شب گزاری کے ساتھ ساتھ کارزارِ حیات میں، رزم حق و باطل میں فولاد کی طرح ہوں۔

اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ ہدایت ربانی اور مکمل دین کے اظہار اور حق کو قائم کرنے کے لیے محض عددی قوت یا عوامی احتجاج کی طاقت (street power)کا استعمال کامیابی کی شرط نہیں ہے۔ تحریکی کارکنوں کی وہ کم تعداد بھی جو قوتِ کردار سے آراستہ ہو، باطل اور طاغوت کے بڑے سے بڑے لشکر پر غالب آسکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہےکہ معرکۂ بدر ہو یا غزوئہ احزاب، اہلِ ایمان کی کم تعداد اپنی قوتِ کردار اور اعلیٰ تربیت یافتہ اخلاق کی بناپر منکرینِ حق کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان پر غالب آئی۔

خلافتِ جمہور کا مفہوم

پارلیمنٹ یا معاشی منڈی یا تعلیم گاہ جہاں کہیں بھی انسان کا اپنا بنایا ہوا نظام چل رہا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی حاکمیت، آمریت اور بادشاہت کی جگہ مالکِ حقیقی کی حاکمیت کو  خلافتِ جمہور کے ذریعے رائج کیا جائے۔ یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ ہدایتِ الٰہی کی روشنی میں اسلامی شریعت کو قائم کیا جائے لیکن خلافت کے قیام اور خلافت ِ جمہور کے ذریعے نظامِ عدل کا قیام چند بنیادی شرائط کو پورا کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس تبدیلی و اصلاح کا داعی اور اس کے رفقا سب سے پہلے خود دین کی شہادت دیں، چنانچہ فرمایا گیا:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۵)رسول اور اہلِ ایمان اس ہدایت پر ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے۔ انھوں نے اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔

زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو رائج کرنے والوں کو پہلے اپنی دعوت پر غیرمتزلزل یقین ہو۔ وہ اس کا اظہار و اقرار نہ صرف زبان سے کر رہے ہوں بلکہ عملاً شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنے میں قیادت کریں۔ چنانچہ جب تک تحریک کا ہر کارکن تجدید ِ ایمان کرتے ہوئے اللہ کی بندگی اور تحریک سے وابستگی اور دین کی سربلندی اور کامیابی پر مکمل ایمان نہ لائے وہ دین کی دعوت، استقامت و اعتماد سے نہیں دے سکتا۔ اس کا لہجہ اور اس کی ہر ہر ادا( body language) اس بات کا اعلان کرے کہ وہ اپنی دعوت کی صداقت پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتاہے اور کسی فکری انتشار (confusion)کا شکار نہیں ہے۔وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیاسی مقابلے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل کو شہادتِ حق میں لگا دے گا۔ اس کا اصل ہدف دین حق کا قیام ہو جس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ایک ضروری وسیلہ تو ہے، اس کی منزل نہیں۔ وہ فتح اور ناکامی سے بلند ہوکر اپنی تمام قوت اقامتِ دین کی جدوجہد میں لگا دے۔

خلافتِ جمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو حکمت و محبت کے ساتھ اللہ کے دین سے آگاہ کیا جائے جو محض زبان سے نہ ہو بلکہ ہر تحریکی کارکن کی شخصیت، اور اس کی سیرت اور اس کا کردار خود دعوت کی زبان بن جائے۔ زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر وہ اپنے وجود سے ایک دیکھنے والے کو یہ بات پہنچا دے کہ وہ سچ پر قائم اور سچ کو غالب کرنے والا ہے۔ وہ بے غرض ہے۔ اسے اپنی لیڈری مطلوب نہیں ہے۔ وہ دراصل دین کا کارکن ہے۔ وہ نہ شہرت چاہتا ہے نہ کوئی معاوضہ یا بدلہ طلب کر رہا ہے بلکہ اپنا سب کچھ اپنے رب کی خوش نودی کے حصول کے لیے لگادینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے۔

خلافتِ جمہور اور مغربی جمہوریت کا جوہری فرق ہی یہ ہے کہ خلافت اللہ کی ہدایت کی بالادستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اوراس میں کسی فرد کی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی اور نہ اس میں اکثریت کے نام پر استبداد کو قبول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت جمہور کا مطلب یہ ہے کہ تمام معاملات میں فیصلے آنکھیں بند کر کے محض افراد کے ووٹوں کی کثرت پر نہ کیے جائیں بلکہ جس اصول پر فیصلہ ہو وہ یہ ہے کہ انسانیت کا خالق ہم سے کیا چاہتا ہے۔ گویا ووٹ کا استعمال لازماً کیا جائے لیکن ووٹ اپنی قوت قرآن و سنت سے حاصل کرے اور اس کا تابع ہو۔ نیز جن اُمور کے بارے میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت موجود ہے، اسے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کیا جائے اور جو معاملات انسانوں کی عقل اور تجربے پر چھوڑے گئے ہیں ان میں قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں جمہور کی مرضی کے مطابق معاملات طے ہوں۔ شوریٰ کے نظام کی روح جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہے وہیں فیصلہ سازی میں عوام اور ان کے نمایندوں کی ایک ایسے انتظام کے ذریعے مؤثر شرکت ہے جو افراد اور گروہوں کی آمریت سے پاک ہو۔

خلافتِ جمہور کی روح یہ ہے کہ فیصلے کی طاقت محض حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ تمام باشعور افراد قرآن و سنت کی روشنی میں اُمورِ سلطنت چلانے کا اہتمام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں مخالفت براے مخالفت اور محض عصبیت اور سیاسی مفاد کی بنیاد پر اطاعت اور ہم نوائی کے مقابلے میں وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠  (المائدہ ۵:۲) کو رہنما اصول قرار دیا گیا ہے۔ خلافت ِ جمہور میں کسی پیشہ ورانہ حزبِ اختلاف کا تصور نہیں پایا جاتا کہ اسے لازماً حزبِ اقتدار کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنی ہے بلکہ کسی بھی بات کی صداقت براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر مان لینے کا نام نیابت و خلافت ہے۔ خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت بجاے خود کوئی حتمی حیثیت نہیں رکھتی، البتہ شریعت کے ذریعے اصولوں کی بنیاد پر تبدیلی لانے کی جدوجہد آئینی ذرائع سے کی جائے تو وہ خلافت ِ جمہور کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی معاملات ہوں یا معاشی، دفاعی، ثقافتی اور قانونی مسائل، ہر معاملے میں مشاورت یا شوریٰ کو بنیاد بنایا جائے۔ شوریٰ کی روح اختلاف ِ راے ہے، جتھابندی نہیں ہے، نجویٰ نہیں ہے، غیبت نہیں ہے بلکہ کھل کر معاملات پر گفتگو و تبادلۂ خیالات کے ذریعے اجماع یا اتفاق راے کا پیدا کرنا ہے۔ اور اگر اتفاق راے نہ ہوسکے اور معاملہ حکمت اور مصلحت کا ہو اور جو معصیت سے پاک ہو تو پھر اکثریت کی راے ہی معتبر ہوگی لیکن اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کوئی اطاعت نہیں۔ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ(مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث: ۳۳۰۵۴) ’’خالق کی نافرمانی والے کام میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے‘‘۔

یہاں فیصلہ مغربی یا مشرقی قوموں کے بنائے ہوئے ضوابط پر نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے حریت و آزادی، امانت و دیانت اور تقویٰ و احسان کے ضوابط پر ہے۔ یہاں ہرراے اور عمل کا پیمانہ ہدایت ِ الٰہی اور اسوئہ نبویؐ ہے۔

خلافت جمہور کا مطلب وہ نظام ہے جس میں احتساب پر عمل کیا جارہا ہو۔ قائد سے لے کر ایک عام کارکن تک کا احتساب اجتماعی ضوابط کی روشنی میں کیا جاسکتا ہو اور کیا جا رہا ہو۔ خلافتِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ ملک سے اس لادینی نظام کو ختم کیا جائے جس میں دین و دنیا میں تفریق کرکے خالق کائنات کو مسجد تک محدود کر دیا جاتا ہے اور مسجد سے باہر مادی قوتوں اور عوام کی خوشی اور خواہشوں کو اپنارب بنا لیا جاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی فکر کے تمام خودساختہ بتوں کوپاش پاش کرنے کے بعد بے لوث اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ، باصلاحیت، خدمت کرنے والوں کو مناصب کے لیے نامزد کیا جائے۔

خلافت ِ جمہور کا مطلب یہ ہے کہ انفرادیت پسندی، قومیت اور صوبائی اور لسانی عصبیت جیسے تمام بتوں سے معاشرے کو پاک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات اور شریعت کو زندگی کے تمام معاملات میں نافذ کردیا جائے۔

خلافت جمہور کے لوازمات

خلافت ِ جمہور کا قیام ضروری نہیں کہ چند ہفتوں، چند مہینوں یا چند برسوں میں تکمیل کو پہنچ جائے۔ قوموں اور تحریکوں کی زندگی میں ۷۰سال پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے تحریکی کارکنان کو اپنی سوچ کو درست رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک حکایت ہے کہ ایک ۹۹سالہ بوڑھا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیے کھجور کی گٹھلی بو رہا تھا کہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ تحریک کی دعوت بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اس کی جدوجہد براے خلافت جمہوربھی  فوری نتائج سے بے پروا ہوکر اچھائی کے بیچ سنگلاخ زمین کے کچھ حصے کو نرم کر کے ڈالنا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی جڑیں چٹانوں میں دراڑیں ڈال کر اپنے تنے کو مستحکم کردیں اور اس کی شاخیں تمام انسانیت کے لیے سایہ، سکون اور پھل فراہم کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔

دعوتِ دین کا شجر طیبہ بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس شجر طیبہ کے لگانے اور اس کی پرورش کی کچھ شرائط اور لوازمات ہیں جن کو پورا کیے بغیر یہ پودا درخت نہیں بن سکتا اور درخت پھل نہیں دے سکتا۔ ان شرائط میں سب سے اوّل دعوت حق دینے والے کا خلوصِ نیت ہے۔

دین میں خلوصِ نیت بنیاد ہے۔ نماز ہو یا روزہ یا حج یا زکوٰۃ کی ادایگی میں خلوصِ نیت نہ ہو تو یہ سب ریا بن جاتے ہیں اور اپنا ثواب یا اجر کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ایک درسِ قرآن اس لیے دیا جارہا ہو کہ مقرر کو عالمِ دین سمجھا جائے۔  اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو، اس کا چہرہ سوشل میڈیا پر بطور ایک تحریکی رہنما کے لوگوں کو نظر آئے، اس کے درس کی رپورٹ تصویر سمیت کسی رسالے یا اخبار میں طبع ہو، تو یہ عمل اللہ کی نصرت اور برکت سے محروم رہے گا اور سیکڑوں افراد کے درس کو  سن لینے کے باوجود تبدیلیِ فکر، تطہیرقلب اور تعمیرکردار پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر درسِ قرآن دینے والے کی نیت بغیر کسی اجر اور علمیت کے اظہار کے، صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول ہے، تو یہ عمل چاہے بہت چھوٹے پیمانے پر ایک مسجد یا گھر میں محض پانچ سات افراد کی مجلس میں کیا گیا ہو لیکن نتائج کے اعتبار سے زیادہ تعمیری اورثمرآور ثابت ہوگا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے پہلے تمام انبیا ـؑ نے اپنی دعوت پیش کرنے کے بعد ایک ہی بات تو کہی تھی کہ: ’’میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے‘‘۔

اگر اللہ کے بندوں کی خدمت (وہ طبی امداد ہو، تعلیم ہو، بیوائوں، یتامیٰ کی خبرگیری ہو، ضعیفوں کی نگہداشت ہو اور اس طرح کے دیگر رفاہی کام) اس غرض سے کیے جائیں کہ وہ اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں ان سے کوئی ذاتی فائدہ مطلوب نہیں تو صرف اس صورت میں ان کاموں کے اثرات، دعوت کی تو سیع کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔ اگر رفاہی کاموں کا مقصد ووٹ کا حصول ہوگا تو آخرت تو ہاتھ سے گئی ہی، دنیا بھی یقینی نہیں کہی جاسکتی۔

گویا خلافت ِ جمہورکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہرعمل کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضاکا حصول ہونا چاہیے۔ اگروہ ہمارے کام سے خوش ہوکر لوگوں کے دلوں میں دین کی دعوت کے لیے جگہ پیدا کردے ، اور جو کل تک مخالف تھے ان کو ولی بنا دے تو یہ اس کا کرم اور رحمت ہے۔ ہمارا کام تو  اس کام کے بتائے ہوئے طریقے سے، اس کے بھیجے ہوئے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اطاعت و بندگی کی شہادت پیش کرنا ہے۔

خلافت جمہور کا ایک لوازمہ یہ ہے کہ رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہردور میں ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس کی بنیاد حقیقت پسندی اور افراد کی سیرت سازی پر ہو۔ تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہیں۔ اگر وہ تربیت کے مراحل سے گزر کر معاشرے میں کام کریں گے تو ان کی مالی ایمان داری، امانت اور بے لوثی و بے غرضی ، ان کی سادگی، ان کا حق کی حمایت کرنا اور ظلم کی مخالفت میں سب سے آگے ہونا، ان کی زبان سے ایک لفظ ادا کیے بغیر خود ان کا عمل اور کردار دعوت کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائے گا۔ اسلام وہ واحد نظام ہے جس کی دعوت سیرت و کردار دیتے ہیں۔ اس لیے تحریک کا سارا زور تعمیر کردارکے لیے مطالعے کے حلقے ، رفاہِ عام کے کام، مقامی افراد کے مسائل کے حل کی کوششوں کی شکل میں ہو،تو اس کے نتائج سامنے آنے یقینی ہیں۔

تنظیم اور تحریک

دعوتِ دین کا منظم کام کرنے کے لیے اگرچہ تنظیم ضروری ہے تاکہ ہرفرد کو اپنی ذمہ داری اور دائرہ کار کا احساس ہو اور وہ اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرسکے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بعض اوقات تحریکات محض تنظیم بن جاتی ہیں جن میں دستوری دفعات پر الفاظ کی حد تک تو عمل ہوتا ہے لیکن دستور کی روح نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ جن میں نظم اور امارت، اپنے اختیارات کا استعمال کرنا تو جانتے ہیں لیکن وہ دلوں میں گھر کرنے اور اپنی اخلاقی قوت سے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ شاید اس کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایسی ’تنظیم‘ ہمیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔

رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہمارے بے لوث کارکن جو کام کرتے ہیں، اس کی اطلاع جمہور تک پہنچنی چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک کو ابلاغ عامہ کا صحیح استعمال نہیں آتا۔ ہمیں لازمی طور پر ابلاغِ عامہ، ٹی وی اور تقریبات کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن انھیں شخصیت پرستی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری نگاہ اور توجہ ہماری دعوت کی توسیع پر، اپنی کردار سازی پر، علمی قیادت پر اور ملک کے سیکولر ذہن کے افراد کو اسلام کے قریب لانے پر ہونی چاہیے۔ملک کے مختلف طبقات تک ان کی ذہنی صلاحیت اور طلب کے پیش نظر اپنی دعوت ان تک پہنچانے پر ہونی چاہیے۔ دعوت کے طویل المیعاد منصوبے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس منصوبے کو قرآن و سنت کے حدود میں رہتے ہوئے بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

موجودہ نظام کو لادینیت سے، لادینی جمہوریت سے، انفرادیت پسندی سے، عصبیت سے، جہالت، ظلم اور تفریق سے، غرض ان تمام منفی صفات کو جو قومی وحدت کو نقصان پہنچانے والی ہیں، ان سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی جگہ اجتماعیت، دین کی جامعیت اور للہیت کو توجہ کا مرکز بنانا خلافت ِ جمہور کی شرط ہے۔ ہم جتنا اپنی تربیت اور فکری اصلاح پر توجہ دیں گے اور ہر فرد اپنے ذاتی نصاب کے مطالعے کے ذریعے علم میں اضافہ اور مصادر سے براہِ راست استفادے کی کوشش میں لگ جائے گا تو نتائج خود بولیں گے۔ ایک اصولی جماعت ہونے کی بنا پر ہمارا فکری محاذ پر متحرک ہونا کامیابی کی ایک بنیادی شرط ہے۔مظلوم طبقات کی حمایت، معاشی طور پر ضرورت مند لوگوں کی حاجت روائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اللہ کے بندوں کی خدمت کو ہماری ترجیحات میں اوّلیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر ہم آیندہ پانچ سے دس سال کا منصوبہ دعوت، تربیت اور تنظیم کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور خود اپنے تجربات کی روشنی میں مرتب کریں اور اس پر سختی سے عمل کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی دعوتی اور اصلاحی ترجیحات کی پابندی کرتے ہوئے اپنے کام کی نئی منصوبہ بندی کریں، تو ان شاء اللہ خلافت ِ جمہور کا راستہ بہت آسان اور مختصر ہوسکتا ہے۔

اصل چیز عزمِ مصمم، استقامت، صبر اور توکل علی اللہ کے ساتھ اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتوں کو مجتمع کردینا اور دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں جھونک دینا ہے۔ جو لوگ اللہ کو اپنا رب مان لیتے ہیں اور اس پر قائم ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات کی تمام قوتیں ان کے لیے حمایت اور تعاون کے دروازے کھول دیتی ہیں اور آخرت اور دنیا میں کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ کیا ہم اپنا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْن۝۳۱ۭ

نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۝۳۲ۧ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝۳۴ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا۝۰ۚ وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۝۳۵  وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۳۶ (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۰-۳۶) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اِس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اُمت ِ مسلمہ کی تاریخ کے روشن ترین اَدوار میں بھی بعض ایسے لمحات نظر آتے ہیں جن میں ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا واقعی اسلامی جماعت اور اسلامی تحریک حق پر ہے؟ معرکۂ اُحد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایمان و یقین اور صبرواستقامت کے بعض پہاڑ بھی ایک لمحے کے لیے لرز اُٹھے لیکن یہ کیفیت آگے نہیں بڑھنے پائی اور فوری طور پر دل و دماغ نے یکسو ہوکر ایک ہی بات کہی کہ اگر اس معرکۂ حق میں مصروفِ عمل رہتے ہوئے قائد اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی تو پھر اسوئہ حسنہ کی پیروی میں جس اصول اور حق کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پیش کی، اس حق کی شہادت اپنی منزل اور مقصد پر اعتماد میں کمی کے بغیر پورے عزم و ارادے کے ساتھ اپنی متاعِ حیات کو اس بازی پر لگانا ہی شرطِ وفاداری ہے۔

یہ وہ پُراُمید (optimistic )رویہ اور طرزِعمل ہے جو کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے جس میں کسی تعبیر اور تاویل کی گنجایش نہیں۔ جو اگر نگاہ کے سامنے ہو تو دل و دماغ میں مایوسی، نااُمیدی، دل گرفتگی، پشیمانی اور ظن و گمان جیسی کیفیات کا گزر نہیں ہوسکتا۔

اپنی تاریخ کے ان روشن ابواب کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کی بھی یکساں ضرورت ہے کہ ایک مومن ہرلمحہ انفرادی و اجتماعی احتساب سے گزرتا رہے اور یہ ایک رسمی عمل نہ ہو کہ کسی کارکنان کے اجتماع میں ایک ذمہ دار چند لمحات کے لیے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرے اور پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہ حالات درست ہوگئے ہیں۔ احتساب دراصل پلٹنے کا عمل ہے۔  یہ اللہ کی طرف پلٹنے اور اس طرح پلٹنے کا عمل ہے کہ فرد اور جماعت اپنے ماضی کے فکروعمل اور شعوری اور غیرشعوری فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد، اصلاحِ احوال اور تعمیر مستقبل کے لیے اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔ مومن تعلق باللہ، یعنی توحید خالص کے ساتھ ربِ کریم کی امان، پناہ اور رحمت میں آتے ہوئے اس کی رضا کے لیے بے غرض، بے لوث اور جذبۂ ندامت کے ساتھ اپنی تمام قوت کو اس کے دین کی سربلندی میں لگا دیتا ہے۔

تحریک اسلامی کی غرض و غایت

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلامی جماعت کا مقصد ِ وجود اور نصب العین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو سلطانی ِ جمہور کی جگہ خلافت ِ جمہور کی شکل میں نافذ کرنے کی جدوجہد کو اپنی متاعِ حیات بنالے۔ اقامت ِ دین کو اس کے تمام مطالبات کے ساتھ ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش اسی کا نام ہے۔

قرآنِ کریم نے انبیاے کرام ؑکے مبعوث کیے جانے کا بنیادی مقصد اقامت ِ دین کو قرار دیا ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ ۝۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیںاس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اس میں متفرق نہ ہوجائو۔

انبیاے کرام ؑ نے جس اقامت دین کے لیے جدوجہد کی اور دن رات ایک کر دیے، جب اہلِ کتاب اس سے غافل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قیادت کی جگہ محکومیت میں مبتلا کر دیا:

وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰہُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۶۵ وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۝۰ۭ مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ۝۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ۝۶۶ۧ (المائدہ ۵:۶۵-۶۶) اگریہ اہلِ کتاب ایمان رکھتے اور خدا ترسی (تقویٰ)کی راہ پر چلتے تو ہم ان کی بُرائیاں ان سے دُور کردیتے اور نعمت کے باغوں میں انھیں داخل کرتے اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے انھیں پہنچی ہیں، قائم کرتے (اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ ) تو اپنے اُوپر سے بھی رزق بٹورتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔

انبیاے کرام ؑ کی سنت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت ِ دین کی جدوجہد کی شکل میں اپنے نقطۂ کمال کو پہنچی اور قرآنِ کریم نے اسوۂ رسولؐ کی پیروی اُمت مسلمہ پر لازم کرتے ہوئے یہ طے فرما دیا کہ جس طرح رسولِ رحمتؐ نے حق کی شہادت دیتے ہوئے اقامتِ دین فرمائی، اسی طرح اب یہ کام اُمت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں فرض کر دیا گیا ہے:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط ‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

یہی شہادتِ حق اور اقامت ِ دین اس دور کی تحریکات دعوت و اصلاح کا بنیادی ستون اور ان کے منشور اور مقصد ِ وجود کی غایت ہے۔ دین کا جامع تصور ان تحریکات کے اقامت ِ صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام اور حج کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ قیامِ عدل و قسط کے لیے اللہ کی شریعت کو نہ صرف اپنی ذاتی اور عائلی زندگی میں بلکہ اپنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی قائم کریں۔ چنانچہ تحریکات دعوت و اصلاح کے دائرۂ کار میں عبادات کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات، ثقافت و معیشت اور اقتدارو حکومت (گویا زندگی کے ہرشعبے میں اللہ کی حاکمیت اور اس کی شریعت کی برتری یکساں اہمیت کے ساتھ) شامل ہے۔ تحریکات دعوت و اصلاح کا یہی پہلو انھیں دیگر تمام تحریکات سے ممتاز کرتا ہے اور ان کے تشخص کو نمایاں کرتا ہے۔

سیاسی جدوجہد اور حصولِ تمکین کے ذریعے نظامِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ، نظامِ حیا اور نظامِ معروف کا قیام اور منکر، فواحش اور عدوان کا خاتمہ کرنا ان کے فرائض میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

گویا فکروعمل، معیشت اور سیاست میں قیادت کا حصول اقامت ِ دین کی جدوجہد کا ایک جزو ہے اور دین کے قیام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت یوسف ؑ کی مثالیں قرآنِ کریم میں ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ جب تک مقصد اور ہدف واضح طور پر اقامت ِ دین ہے، اس کے لیے سیاسی ذرائع کا استعمال عین تقاضاے دین ہے۔

یہ کام سنت ِ رسولؐ کی شکل میں کس طرح کیا جائے گا؟ دعوت کس بات کی، کس کو، کس طرح اور کب دی جائے گی؟ خود یہ دعوت کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب قرآن و سنت ہر قدم پر فراہم کرتے ہیں اور ان سے اخذ کردہ فکر وہ فکر ہے جسے فکر مودودی کہا جاتا ہے۔ تحریک اسلامی اس وقت ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے جس میں زمینی حقائق بظاہر وہ نہیں ہیں جو توقع کیے جارہے تھے۔ لہٰذا، اس بات کی ضرورت ہے کہ انفرادی اور اجتماعی احتساب کے عمل کو تنہا کسی ایک نشست تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے مسلسل جاری رکھا جائے اس اعتماد و یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے جو بندےاس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور صرف ایک قدم بڑھاتے ہیں تو اس نے دس قدم قریب آنے کا وعدہ کیا ہے، اور مزید اس یقین کے ساتھ کہ جن لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور ہم اس دعوت پر مکمل یقین کرتے ہوئے قائم ہوگئے ہیں تو پھر وہ اپنی غیبی طاقتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ احتساب بار بار اور جب اس اعتماد سے کیا جائے گا تو ہرمرتبہ ایمان و عزم میں اضافہ اور اُمید میں چمک پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔

درپیش چیلنج اور تقاضے

ان ابتدائی گزارشات کے بعد، اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک کو وقتی طور پر جس صدمے کا سامنا ہے اس کے اسباب میں جائے بغیر صرف یہ دیکھا جائے کہ تحریک آیندہ ایسی صورتِ حال سے کس طرح اپنے آپ کو محفوظ کرسکتی ہے؟ بظاہر ہماری یہ بات عجیب تصور کی جائے گی کہ بغیر مرض کی تشخیص کے علاج تلاش کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے اسباب پر لمبی لمبی بحثیں کرکے وقت ضائع کرنے کے بجاے پُرامیدی و احتساب کے ساتھ وہ اصول ذہن میں تازہ کیے جائیں جو دعوت اور اسلامی تحریک کی کامیابی کا یقین دلاتے ہیں۔ یہ وقت اور قوتِ عمل کا زیادہ مناسب استعمال ہے۔

۱- اصول کی برتری

پہلی چیز جو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ان اصولوں کی برتری ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دیے ہیں۔ ان میں اوّلین اصول توحید اور زندگی پر اس کی تطبیق ہے، یعنی کس طرح اپنی انفرادی، خاندانی ، معاشرتی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی زندگی میں توحید کو رائج کیا جائے اور اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ تحریک ِ پاکستان کی کامیابی کا واحد سبب یہی توحید یا لا الٰہ الا اللہ کا سہارا تھا، یعنی اپنی ذات، برادری، اپنے سیاسی تعلقات، ووٹ بنک، اجتماعات میں کثیر تعداد کا جمع ہونا، ان تمام پر بھروسے کی جگہ دل و دماغ کو شعوری طور پر اللہ کا عبد بنانا اور عبودیت پر قائم ہو جانا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی ایک لمحے کے لیے کسی کے دل میں یہ خیال آیا کہ فلاں اتحاد اور فلاں برادری کے وعدے کامیابی کو قریب لے آئیں گے، ہم جادئہ توحید سے دُور ہوجائیں گے۔ ایسے تمام خیالات سے ذہن کو خالی کرنا ہی توحید پر عمل کرنا ہے۔

دوسرا اصول سنت ِ رسولؐ کی مکمل اطاعت ہے، یعنی تحریک سے وابستہ ہرفرد ان تمام اُمور سے اپنا تعلق منقطع کرلے جو قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ وہ ایسے کاروباری قرضے ہوں جس میں سود کی آمیزش ہو یا ایسے معاملات ہوں جن میں برادری کی روایات کی پیروی دین کی تعلیمات سے ٹکراتی ہو، وہ معاشی معاملات میں لین دین میں عدم احتیاط یا عائلی معاملات میں حقوق کی ادایگی کا نہ کرنا ہو۔ دراصل اسلامی تحریک کی اصل قوت اس کی قوتِ کردار ہے کہ اس کے کسی فرد یا نمایندے کے بارے میں کوئی کسی مالی، خاندانی، باہمی تنازعے میں یہ بات نہ کہہ سکے کہ وہ حق کے منافی رسوم و رواج کی پیروی کرتا رہا ہے۔ اسلام نام ہی رسوم و رواجِ جاہلیہ سے بغاوت کا نام ہے۔ جب اور جہاں اس اصول کی پیروی ہوگی اللہ کی مدد اور استعانت اور رحمت کا آنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا قرآنِ کریم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق پر ہونا ہے۔ خود احتسابی میں اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ذمہ داری کے لیے جس فرد کو نامزد کیا جائے اس کی سیرت و کردار آئینے کی طرح ہو، چاہے ایسے افراد تلاش کرنے اور تیارکرنے میں کتنا ہی وقت لگ جائے۔

اصول کی برتری کا ایک واضح تقاضا یہ ہے کہ ہماری محبت اور جڑنا اور مخالفت اور کٹنا صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایک فرد یا گروہ جو کل تک اختلاف کر رہا تھا، ہمارے اصولوں کے قریب  آنے کا اعلان کرے تو ہم ماضی کو نظرانداز کرتے ہوئے مثبت طرزِفکر کے ساتھ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے معروف میں اس کے ساتھ تعاون پر تیار ہوجائیں۔ اگر ایک شخص، گروہ یا جماعت کل تک اسلام سے دُوری کا اظہار کرتی ہو اور آج وہ اس بات کی قولی شہادت دے کہ وہ اسلامی عدلِ اجتماعی کو نافذ کرنا چاہتی ہے تو اپنے تمام تحفظات کے باوجود تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی راے پر نظرثانی کرلی جائے۔

اصولی جماعت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہرلمحہ اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہماری قوت، وقت، انسانی اور مادی سرمایے کا کیا تناسب تعمیرِ کردار و سیرت پر لگایا جارہا ہے، اور کیا ہم واقعی مکّی دور کے ان صبرآزما مراحل سے گزر رہے ہیں جنھوں نے ہر صاحب ِ ایمان کو استقامت اور حکمت دینی سے نواز دیا تھا اور ان کے کردار کے اثر سے وہ جو کل تک خون کے پیاسے تھے، وہ وَلِیٌّ حَمِیْم بن گئے تھے۔

۲- نظریاتی جہاد

تحریک ِ اسلامی ایک نظریۂ حیات کی علَم بردار جماعت ہے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک حق و باطل اور اسلام اور جاہلی نظریۂ حیات میں ایک مکالمہ ہوتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا مکالمہ، حضرت موسٰی کا مکالمہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اہلِ کتاب کے ساتھ انھیں دعوتِ مکالمہ دینا، انبیاے کرامؑ اور دعوت اسلامی کی سنت ہے۔ لیکن اس مکالمے اور نظریاتی جہاد کے لیے انبیاے کرام ؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود تربیت دے کر ان عقلی دلائل سے آراستہ کیا تھا، جن کا کوئی جواب باطل پرستوں کے پاس نہیں تھا اور وہ صرف مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ داعیانِ حق کی طرف سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ: قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۶۴   (النمل۲۷:۶۴)۔ یہ بُرہان قاطع ہی وہ چیز ہے جسے قرآن و سنت اور فکر اسلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گذشتہ ۲۵ برسوں میں قرآن و سنت اور فکرِ مودودی کی ترویج کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا صرف چند نصابی کتابچوں کا سرسری مطالعہ رکن بنتے وقت کرلینا فکرِ مودودی کو ذہن و قلب میں راسخ کرسکتا ہے؟ کیا صرف قرآن کے ماہانہ درس میں شرکت، قرآن کی انقلابی دعوت سے روشناس کرا سکتی ہے؟ ہمارے وقت کا کتنا حصہ قرآن و حدیث سے گہرے تعلق میں گزرتا ہے اور کتنا وقت محض تنظیمی معاملات میں گزرتا ہے؟ اس وقت کا کتنا حصہ اہلِ خانہ کو   دعوت دینے میں، کتنا حصہ اہلِ محلہ کے ساتھ مسجد میں ملاقات کر کے انھیں قرآن کی دعوت سے متعارف کرانے میں گزرتا ہے؟ مکّہ اور مدینہ میں اسلامی جماعت میں شامل ہونے والا ہر فرد بشمول داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھا۔ کیا ہمارا تعلق قرآن کے ساتھ ایسا ہی ہے اور اگر نہیں ہے تو جو ہربات کا علم رکھنے والا ہے، کیا وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ہم کہاں کھڑ ے ہیں، ہمیں ہرمرحلے میں کامیابی سے نواز دےگا؟

سیّد مودودی نے فکر کے جن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ، اس میں دین کی اجتماعیت اور شورائیت اور حاکمیت ِالٰہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم نے ان کی روشنی میں اپنی طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی مرتب کی؟ قرآن کریم میں سات سالہ منصوبہ بندی کا ذکر سورئہ یوسف میں ہے۔ مکہ میں دعوت و تربیت کا کُل عرصہ ۱۳برس تھا۔ سات سالہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں ۱۴برس کی جگہ ۱۳برس ہی میں وہ نتائج حاصل ہوگئے جن کے اثرات آج تک پائے جاتے ہیں۔ قریب المیعاد سات سالہ حکمتِ عملی میں ہماری ترجیح میں صوبے یا مرکز میں، پارلیمان میں نمایندگی کے ساتھ توسیع دعوت اور تعمیرکردار کا کیا تناسب رہا ہے؟ کیا ہم نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام اپنی عملی زندگی کے ذریعے پیش کیا یا محض تحریر و تقریر کو کافی سمجھا؟ کیا اصولی اور نظریاتی انقلاب صرف اچھی خواہشات کی بنا پر آتا ہے یا سنگلاخ وادیوں سے گزر کر تربیت ِ اخلاق سے آتا ہے؟

۳- غیبی حکمت

اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔ وہ بظاہر پریشان کن حالات کو بھی اسلامی تحریک کے لیے بہتری اور بھلائی کا پیش خیمہ بناسکتا ہے۔ گذشتہ ۷۰برس کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک کی تمام تر حکمت عملی کے باوجود بڑی جماعتوں کی اجارہ داری کو نہیں توڑا جاسکا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے عنصر کے ذریعے ان دونوں کے اثرات کو محدود کر دیا ہے اور طاقتی مراکز کو متزلزل کردیا ہے۔ اس طرح حکمت الٰہی سے میدانِ دعوت میں اچانک زیادہ وسعت، قبولیت اور نفوذِ دعوت کا امکان اُبھر کر آگیا ہے۔ جن برادریوں کے جال کو تحریک ۷۰سال میں نہ توڑ سکی، اللہ نے اپنی حکمت سے اس میں شگاف پیدا کر دیا۔ اب یہ تحریک پر ہے کہ وہ کس طرح حکمت، محبت اور خدمت کے ذریعے ان مظلوموں تک پہنچے جو پہلے اپنے ’آقا‘ کے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اب دعوت کی نئی راہیں کھلی ہیں۔

۴- دعوت کی نئی راہیں

دعوت کے لیے ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال سنت ِانبیاے کرام ؑ ہے اور آج کے دور میں اس کی اہمیت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ خصوصیت سے پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر اب سوشل میڈیا میدان پر چھا گئے ہیں۔ گذشتہ چاردہائیوں میں بار بار ہر سطح پر اس پر غور کیا گیا لیکن یہ کبھی نہ ہوسکا کہ اس کو تجویز سے آگے بڑھا کر ترجیحی بنیادوں پر ، جس طرح انتخابات کے مالی وسائل آخرکار جمع کیے جاتے ہیں، اسی طرح میڈیا کے لیے وسائل پیدا کرکے اسے دعوت کا ذریعہ بنایا جائے۔ ابلاغِ عامہ کا سیاسی کردار جتنا اس دور میں اُبھر کر آیا ہے پہلے کبھی نہ تھا لیکن ہمارا ابلاغِ عامہ وہ نہیں ہونا چاہیے جس کا تجربہ قوم کرتی ہے۔ اس پر فوری طور پر ایک ٹاسک فورس جو تین ماہ میں مکمل نقشہ بنا کر دے، بنانے کی ضرورت ہے۔درحقیقت تحریک کا نصب العین رضاے الٰہی کا حصول ہے ، صرف پارلیمنٹ میں نشستوں کا حصول نہیں ہے جن کا رضاے الٰہی کے لیے کام کرنے کے نتیجے میں ملنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ جب نیت واضح طور پر صرف اور صرف رضاے الٰہی کا حصول، دعوتِ حق، شہادتِ حق اور اقامت ِ دین ہوگی، اللہ کی غیبی امداد قلّتِ تعداد کو کثرت پر غالب کردے گی۔ دعوت کے لیے نوجوانوں کو ان کی اپنی زبان میں ان کے مسائل کی روشنی میں دعوت دیے بغیر ہم ان میں تبدیلی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہے۔ آخردو روایتی سیاسی اجارہ دار جماعتوں کو نوجوانوں کو متحرک (mobilize) کرکے ہی شکست دی گئی۔ اگر ایک شخص یہ کام ۲۲سال میں کرسکتاہے تو کیا یہ کام ایک نظریاتی جماعت آیندہ ۱۵برس میں نہیں کرسکتی؟

نوجوانوں کو ان کی نفسیات کی روشنی میں، ناچ گانے کے کلچر سے دامن بچاتے ہوئے کس طرح اپنے اندر شامل کیا جائے؟ اس کے لیے خود قیادت کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہوگی تاکہ روایتی طریقوں کے ساتھ وہ طریقے بھی استعمال کیے جائیں جو نوجوانوں کو ہم سے قریب لاسکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں کچھ نوجوان ہمارے سامنے آنے کے باوجود ہم سے دُور بھی ہوئے۔ اس کے اسباب کو دُور کرنا ہوگا۔ خود اعلیٰ قیادت چاہے برس ہا برس تحریک سے وابستہ رہی ہو، ہرمرحلے میں مزید تربیت کی محتاج رہتی ہے۔ دنیا کی دس بڑی صنعتوں کو کامیابی کے ساتھ چلانے والے CEO's بھی تربیتی ورکشاپس سے گزر کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ نوجوانوں میں دعوت کے لیے خصوصی تربیت کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

۵- خواتین میں کام

نئے راستوں میں خواتین تک ہمارا پیغام کسی مداہنت کے بغیر پہنچنا ضروری ہے۔ ہمارا رویہ نہ معذرت پسندانہ ہو اور نہ روایتی بلکہ آج کے خواتین کے مسائل کے پیش نظر اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ان کو اپنی قوت کا ذریعہ بنا سکیں۔

۶- مظلوموں کی مدد

ان نئی راہوں میں مظلوم عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ بالخصوص جو فاٹا، بلوچستان، اندرونِ سندھ و پنجاب میں غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے حقیقی مسائل کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔

۷- اہلِ قلم کی تیاری

ان نئی راہوں میں ایسے اہلِ قلم پیدا کرنے ہوں گے جو نوجوانوں میں پھیلنے والی جدید دہریت کا مدلل جواب ان کے فہم کے مطابق دے سکیں۔ ایسے اہلِ قلم جو انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں دعوت کو آسان اور دل نشین انداز میں پیش کرسکیں۔

۸- تعلیمی ادارے

ان نئی راہوں میں ان تمام تعلیمی اداروںکو دعوت کا ہدف بنانا ہوگا جو اس وقت گو تحریک سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کے نصابات، ان کے اساتذہ، ان کا ماحول دیگر اداروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ خزانے ہیں جن کو ہم نے آج تک دعوت کے لیے صحیح طور پر استعمال کیا ہی نہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ نظامِ تعلیم اسلامی شکل اختیار کرلے تو جو ادارے ہمارے ہم فکر افراد چلا رہے ہیں، ان میں ہمیں تجرباتی طور پر اپنے تصورات کو اساتذہ کے ذریعے، نئی نصابی کتب کے ذریعے، طلبہ و طالبات کی جداگانہ سرگرمیوں کے ذریعے ایک قابلِ عمل مثال کے طور پیش کرنا ہوگا۔ اگر ہم صرف پانچ ایسے ادارے جو ملک کے ہر صوبے اور آزاد کشمیر میں معیاری تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تربیت ِکردار کر رہے ہوں، آیندہ پانچ برسوں میں قائم کرلیں تو یہ ہماری دعوت کو مستند بنانے کا ایک اعلیٰ نمونہ ہوگا۔ اگر قوم صرف ایک ہسپتال کے چلا لینے کی بنا پر کسی کی صلاحیت کی قائل ہوجاتی ہے، تو کیا ہرصوبے میں ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کے بعد کوئی اسلامی نظامِ عدل کی مخالفت کرسکے گا؟

۹- دعوتی حکمت عملی کے اصول

۸۰ سال قبل سیّد مودودی نے دعوتی حکمت ِعملی کے لیے جن تین اصولوں کی طرف متوجہ کیا تھا، ان کے صحیح ادراک اوران کی روشنی میں طویل المیعاد حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ تین اصول یہ تھے:

۱- لادینیت کے مقابلے میں خدا کی بندگی اور اطاعت

۲- قوم پرستی کے مقابلے میں ملّت ِ اسلامی

۳- جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت

آج کے حالات میں جس طرح تعلیم، سیکولر لابی کے دانش وروں اور ابلاغِ عامہ نے ہرپاکستانی کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے، اسے دلائل کی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اجتماعیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری معاشرت، سیاست، معیشت، ثقافت، بین الاقوامی تعلقات، ہر چیز قرآن و سنت کی روشنی میں طے ہو جیساکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مدعا ہے۔

ایک فوجی آمر نے ایک جذباتی نعرہ یہ دیا کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ ، جس کا مطلب یہ تھا کہ بقیہ تمام معاملات کو الگ کردیں اور ایک زمینی خطے کو جس کا نام پاکستان ہے، اسے اوّلیت دی جائے۔ حالاں کہ اس خطے کے وجود میں آنے سے قبل ہی ملت اسلامیہ نے یہ طے کر دیا تھا کہ ہمیں وہ خطہ چاہیے جہاں لا الٰہ الا اللہ ہر شعبے میں رائج ہو۔ گویا اوّلین چیز وہ ہے جسے خود بانی ِ پاکستان نے اپنے تین اصولوں میں ایمان، اتحاد، تنظیم کی شکل میں بیان کر دیا تھا۔ پاکستان اس کلمے کی  عملی شکل ہے۔ اس لیے جغرافیائی، نسلی، لسانی قوم پرستی کی جگہ نظریۂ پاکستان کی برتری کو حکمت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ملک کے قیام کی بنیاد اس کا نظریہ یا آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ اگر نظریۂ پاکستان کو نظرانداز کردیا گیا تو ملک کی بقا اور قیام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

تیسرا اصول غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے اور ان تمام اعتراضات کا جواب فراہم کرتا ہے جو مروجہ جمہوری نظام کے ساتھ تعاون کرنے پر کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک اسلامی کا ہدف اور مقصد اللہ کی زمین اور بندوں پر صرف اس کی حاکمیت قائم کرنا ہے لیکن اس کے لیے جو راستہ منتخب کیا گیا ہے، وہ نہ حاکمیت ِجمہور ہے اور نہ پارلیمان کی مطلق حاکمیت بلکہ ’خلافت ِ جمہور‘ کے ذریعے اصل مالک، آقا اور حاکم کے احکامات کا نفاذ ہے۔

آمریت، بادشاہت اور پارلیمان کی مطلق حاکمیت کو دستورِ پاکستان رد کرتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کو مملکت کا مقصد قرار دیتا ہے۔ تحریک اسلامی روزِ اوّل سے دستورِ پاکستان کی روح اور الفاظ کا احترام کرتے ہوئے دستوری ذرائع سے ملک میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے جسے ایک شب و روز میں نہیں کیا جاسکتا۔ دستورِ پاکستان اس کے لیے جو طریقہ تجویز کرتا ہے وہ راے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے پارلیمان کے ذریعے اسلامی قانون سازی ہے یا پارلیمان میں اجتماعی اجتہاد ہے۔ یہ کفر و شرک کے نظام میں شرکت نہیں ہے بلکہ خلافت ِ جمہور کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام اور ان کے منتخب نمایندے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی تو کرسکتے ہیں، اس کے خلاف نہیں کرسکتے۔

تبدیلی کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی استعانت سے جلد بھی طے ہوسکتا ہے اور کچھ طویل بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ذہن کو تیار کرنے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس کو اہمیت نہیں دی جائے گی ہماری خواہشات کے باوجود یہ کام اپنی منزل کو نہیں پہنچے گا۔ اس میں سب سے اوّل مکمل بندگیِ رب پیدا کرنے کے لیے ایک انتہائی مؤثر تربیتی نظام کی ضرورت ہے  جو براہِ راست فکرِ مودودی اور مصادر اسلام کے مطالعے پر مبنی ہو۔ فکر کی تطہیر اور ہم آہنگی کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ وطن پرستی کی جگہ ملت اسلامی اور اُمت اسلامی کے تصور کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد مستحکم ہوسکے۔

فلاحی کاموں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہر کام حکومت کی سطح پر کرنے کا مطالبہ اپنی جگہ پر لیکن ساتھ ساتھ خود ایسے اداروں کا قیام جو تعلیم، صحت اور خاندانی نظام کو مستحکم کریں، یہ دعوت کا لازمی حصہ ہے۔ تحریک کو اسے اہمیت دینی ہوگی۔

۱۰- سیاسی حکمت عملی

ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عنقریب مقامی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔ نچلی سطح پر کام ہی تحریک کو دعوت کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ تحریک جو تبدیلی لانا چاہتی ہے، کیا اس کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور اگر لوکل انتظامیہ میں صالح عناصر آنے کے بعد مقامی فلاحی کام کرسکتے ہیں تو کیا صوبائی، مرکزی سطح پر بھی وہ ایسا کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس اعتماد کو بحال کیے بغیر محض صوبائی اور مرکزی سطح پر کام کرنا، مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ایسے افراد کا انتخاب ہماری فوری ضرورت ہے جو صالح نوجوان ہوں، جن کا کردار، سچائی، امانت اور خدمت کا پیغام دیتا ہو۔ افراد کے انتخاب میں ضرورت ہے کہ دوسروں کی نقل کرتے ہوئے دھوم دھام کی جگہ سادگی اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کام کیا جائے۔ اس کام کے لیے سیاسی شعور رکھنے والے افراد کے ساتھ مشاورت اور ملک گیر پیمانے پر منتخب مقامات کا تعین کرکے ان پر آج ہی مناسب افراد کا تعین کرنا ہوگا، تاکہ بھرپور عوامی رابطے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کا عمل مناسب انداز میں سرانجام دیا جاسکے اور دعوتی حکمت عملی کے اثرات سیاسی میدان میں مطلوبہ نتائج پیدا کرسکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گذشتہ چند برسوں سے اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ایک سوال بار بار اٹھا یا جا رہا ہے کہ: ’کیا اسلامی تحریکات کا کوئی سیاسی مستقبل ہے؟‘ یا مغربی صحافت و ابلاغ عامہ کے اس قیاس کو درست مان لیا جائے کہ: ’اب نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو چکا اور یہ صدی سرمایہ دارانہ نظام کی صدی ہے؟‘ لہٰذا، دنیا کے دیگر تمام سیاسی نظاموں کوموجودہ حالات کے تناظر میں اپنے اندرتبدیلی اور لچک پیدا کرکے سرمایہ دارانہ طرز فکر اور نظام کے ساتھ تعاون و اشتراک کی شکلیں اختیار کرنی ہوں گی۔

 مغربی اور مغرب زدہ مصنّفین نے اس تصور کو اتنی تکرار کے ساتھ علمی جرائد، اخبارات اور برقی ابلاغ عامہ میں پیش کیا ہے کہ آج ایک نوجوان یہی سوچتا ہے کہ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی نظریاتی جنگ اب لاحاصل ہے ۔ اس لیے مقابلے کے لیے دو ہی راستے ہیں: زیر زمین سرگرمی کے ذریعے کسی عسکری انقلاب سے نظام بدلا جائے، یا پھر مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت سے سمجھوتا کرکے اسلام کے آفاقی اصولوں کو کچھ عرصے کے لیے کسی سردخانے میں ڈال دیا جائے اور وقت کی راگنی کے ساتھ اپنی لَے ملا کر سیاسی زندگی کے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ اس فکری انتشار کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اسلامی نظام کے قیام کو شک کی نگاہ سے دیکھنےپر مجبور اور اپنی’دینی وابستگی‘ اور ’سیاسی وابستگی‘ میں فرق پیدا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں ۔ اس نازک اور فیصلہ کن دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی تناظر میں اس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے اور ایک مثبت زاویۂ نظر فراہم کیا جائے ۔

موجودہ عالمی کش مکش

 عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جس سرد جنگ کا آغاز جنگ عظیم اول سے شروع ہوا تھا وہ ایک مختصر وقفے کے بعد آج بھی نئی شکل میں برقرار ہے، اور اس سردجنگ کے علم بردار یورپی ممالک اور امریکا دنیا کے نقشے پر اور خصوصاً مسلم دنیا کی بندر بانٹ کرنے میں پہلے سے زیادہ سفّاکی اور چالاکی کے ساتھ سر گرم عمل ہیں ۔ دوسری جانب مسلم ممالک کے فوجی، موروثی اور سیاسی حکمران اپنے ذاتی اقتدار کو بچانے کے لیے مسلم مفاد سے قطع نظر مغربی شاطروں کو ہی اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے انھی کے اشاروں پر سر گرم عمل ہیں ۔یورپی طاقتوں خصوصاً برطانیہ ، فرانس اور امریکا ’ناٹو‘ کے ذریعے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلم دنیا کو مزید تقسیم کرکے انھیں مجبور و محکوم بنانے میں مصروف ہیں ۔ادھر روس اس ’مال غنیمت‘ میں سے اپنا حصہ بٹورنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے، جب کہ مسلم ممالک کے حاکم طبقے، ان خطرات کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے علاقوں میں ایسی اصلاحات کر رہے ہیں، جو مغربی طاقتوں کو یقین دلا سکیں کہ انھیں مسلم دنیا سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مسلم دنیا تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ان کی نذر کرتی رہے گی، تا کہ اس وفاداری کے نتیجے میں مسلم ممالک کے حاکموں کو اقتدار سے بے دخل نہ کیا جائے۔

خود مغربی مفکرین تاریخی شواہد کے ساتھ یورپی ممالک کے عزائم اور عملی کردار پر واضح الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں، مگر مسلم ممالک کے سر براہ اور مغرب زدہ مسلم دانش و ر اس کھلی کتاب کو پڑھنے سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ۲۰۱۶ء میں شائع شدہ ایک اہم کتاب قابلِ ذکر ہے، جس کے مصنف ایم ای میک ملن نے تاریخی دستاویزات کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ برطانیہ ، فرانس اور روس نے باہمی تعاون کے ساتھ مسلم دنیا میں عدم استحکام ، انتشار اور جمہوریت کے قیام کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے اور جمہوری عمل کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ میک ملن کا شائع کردہ تاریخی جائزہ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار ، مسلم دشمنی اور مفاد پرستی کی سچی تصویر پیش کرتا ہے اور نام نہاد حقوقِ انسانی، مساوات انسانی، جمہوریت پرستی کے غبارے کی ہوا نکال دیتا ہے۔(دیکھیے: From the First World War to the Arab Spring. What's Really going on in the Middle East?، ناشر: پالگریو میک ملن، امریکا، ۲۰۱۶ء)

اس جملۂ معترضہ کے ساتھ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ مسلم اور غیر مسلم دانش وَر جو یہ بات باربار کہتے ہیں کہ سابقہ سویت یونین کا منتشر ہونا سرمایہ داری کی فتح ہے، یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دو ایسے نظاموں کا مقابلہ کر رہے ہیں ، جن کی بنیاد ہی مادہ پرستی، انفرادیت پرستی، اور محسوسات پر مبنی نظام حیات (Empiricism) پر ہے ۔مادہ پرستی کی طرف سے اس تقابلی مطالعے کو سادہ لوحی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغربی سرمایہ داری، وسائل پر غیرمحدود کنٹرول حاصل کر لینے کو کامیابی قرار دیتی ہے،   جب کہ اشتراکی تصورِ معیشت ، ریاست کی معاشی اجارہ داری کو اپنا ایمان سمجھتی تھی۔ اس طرح دونوں کی اصل، مادہ پرستی اور معاشی قوت کا استحصالی استعمال رہا ہے۔ اس لیے ایک کا منتشر ہو جانا دوسرے کی فتح نہیں کہا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ روس اور چین دونوںمیں نجی ملکیت اور سرمایہ کاری اور مارکیٹ کی معیشت کے فروغ کے باوجود امریکا ، یورپ اور سابقہ اشتراکی دنیا ایک طرح کی ملی جلی معیشت (mixed economy )کا نقشہ پیش کررہے ہیں اور معاشی دلدل سے نکل نہیں پار ہے۔

نظریاتی کش مکش کے خاتمے کا دعویٰ

اس مختصر نظریاتی جائزے سے معلوم ہوا کہ پہلے بھی اور آج بھی اگر مقابلہ ہے اور مقابلہ ہوسکتا ہے، تو اُن کے درمیان جو اصل کے لحاظ سے مختلف ہوں۔ ماضی میں بھی اور آج بھی اگر   مادہ پرست سرمایہ دارانہ یا اشتراکی معاشی نظاموں کے مقابلے میں کوئی متبادل نظام عوام الناس کو فلاح، کامیابی اور سکون فراہم کر سکتا ہے تو وہ اسلامی نظام معیشت اور نظام سیاست ہی ہے ۔    یہاں امر بھی پیش نظر رہے کہ اگر واقعی نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے تو پھر سرمایہ داری کے علَم بردار ممالک ’مسلم ریاست‘ اور اسلام کے نام سے پریشان کیوں ہوتے ہیں؟  ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل ہر اس کوشش کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے کہ جو اسلامی تصورِ حیات کو دنیا میں کسی بھی خطے میں رائج کرنے کے لیے کی جا رہی ہو۔جس سے یہ بات متعین ہوتی ہے کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم نہیں ہوا اور ختم نہیں ہوسکتا۔

 مغرب کے بہت سے مفکرین گذشتہ دو عشروں سے برابر کہہ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب  کی برتری اورخصوصاً امریکی قیادت کا دور ختم ہو رہا ہے اور ایک ایشیائی قوت، چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر بعض مسلمانوں میں کچھ دانش ور اس حقیقت کے باوجود یہ راے رکھتے ہیں کہ نظریاتی جنگ کا دور ختم ہو گیا ہے، تو یہ ان کی سادہ لوحی اور حقائق سے نظریں چرانا ہے ۔  زمینی حقائق یہ ہیں کہ خصوصاً مغرب، اسلام سے خائف ہو کر اپنے تمام وسائل کو مسلم دنیا میں باہمی ٹکراؤ پیدا کرنے اور مسلم دنیا کے قدرتی وسائل پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مسلسل دخل اندازی کر رہا ہے، وہ اسی نظریاتی ٹکراؤ اور جنگ کا ایک محکم ثبوت ہے۔ اگر اسلامی نظریے میں وہ دم خم نہ ہوتا، تو پھر مغرب پر اسلام کا ہوّا کیوں سوار ہے؟ وہ کیوں ہرتخریبی اور منفی کارروائی کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی وغیرہ کا نام دے کے اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کردیتاہے۔

 ہمارے خیال میں یہ ذہنی محکومیت اور مغربی مفروضوں کے تناظر میں اسلامی ریاست اور اسلامی نشاتِ ثانیہ کے مستقبل سے مایوسی کا رویہ ہے، جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ گذشتہ زمانے کی اشتراکی معیشت کی اخلاقیات اور موجودہ زمانے کی حکمران مغربی سرمایہ دارانہ معیشت کی اخلاقی اقدار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بنا پر ان دونوںکا مقابلہ اگر کسی نظامِ فکر سے ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جو اپنے ماخذ اور تشکیل کے لحاظ سے ایک بالکل مختلف تصور کی نمایندگی کرتا ہے ۔

یہ جائزہ نا مکمل ہو گا اگر اس طرف اشارہ نہ کیا جائے کہ اگر واقعی اسلام اور سرمایہ دارانہ یا اشتراکی نظاموں کے درمیان نظریاتی اور سیاسی جدوجہد کا دور ختم ہو چکا ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ  مصر میں اخوان المسلمون ۷۰ سالہ آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود سابقہ انتخابات میں محض نظریاتی اساس کی بنیاد پر کامیاب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نظریاتی کامیابی کو عالمی جمہوریت کے اجارہ داروں نے برداشت نہیں کیا اور جمہوری عمل کو من پسند فوجی آمریت کے ذریعے غیراخلاقی اور غیر قانونی دخل اندازی کر کے ناکام بنانے کا شرمناک کھیل کھیلا ۔

 تحریک اسلامی الجزائر [FIS: اسلامک سالویشن فرنٹ] نے ۱۹۹۰ء کے آغاز میں اسلامی نظریے کی بنیاد پر جمہوری ذرائع سے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کی ۔ یہ واضح طور پر نظریے کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام کی طرف ایک اہم قدم تھا ۔ اس کو ناکام بنانے کے لیے  فرانسیسی سامراج کی پروردہ الجزائری فوج نے پُر امن جمہوری انقلاب کو خونیں انقلاب میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ہزاروں بے گناہ شہریوں کو لقمۂ اجل بنا دیا گیا۔

 اسی طرح تیونس میں تحریک اسلامی نے نظریاتی بنیاد پر واضح کامیابی حاصل کی۔ اور پھر ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے رضاکارانہ طور پر اقتدار میں دیگر سیاسی جماعتوں کو اس حد تک شریک کار بنایا، جس سے خود النہضہ کے اسلامی تشخص پر شبہہ کیا جانے لگا ۔ اس طرح تیونس کی تحریک اسلامی نے ووٹ سے کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو بقاے باہمی کے اصول کے تحت شریک ِ اقتدار کرکے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا، جو بیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد مثال ہے۔ کیا یہ اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ اسلامی تحریکات اصولی اور نظریاتی سیاست کی بنیاد پر دستوری ذرائع سے سیاسی میدان میں سر گرم ہیں؟

دراصل یہ سب مقابلہ نظریۂ حیات کا ہےاور اصل مدمقابل باطل نظام ہاے زندگی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی نظریے کی صداقت کے لیے ضروری نہیں کہ اس کا   عملی تجربہ ہماری اپنی نگاہوں کے سامنے ہو۔ کارل مارکس پر یقین رکھنے والوں نے آج تک اس کے نظریے کو کسی عملی تجربہ گاہ کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے فکری اور منطقی استدال کی بنا پر درست تسلیم کیا ہے۔  یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ نہ سابقہ اشتراکی روس میں اور نہ عوامی جمہوریہ چین میں آج تک     کارل مارکس کی ’خیالی جنت‘ کا وجود عمل میں آیا اور نہ آنے کا کوئی امکان ہے، اس کے باوجود بطور ایک نظریہ اشتراکیت کا وجود پایا جاتا ہے۔

 اس کے برعکس اسلامی نظریۂ حیات ایک فلسفی کا خواب نہیں بلکہ یہ پندرہ سو سال سے کہیں جزوی طور پر اور کہیں مکمل شکل میں نافذ رہ چکا ہے۔خلافت راشدہ کے بعد بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ  کے مختصر دور میں دوبارہ یہ نظریہ عملی شکل میں نافذ ہوا، اور پھر ملوک و سلاطین کی تمام خامیوں کے ساتھ ان اَدوار میں اس کے اہم اجزا ، قضا،معاشرت اور معیشت عملاً نافذ رہے، البتہ سیاسی نظام میں انحراف کے سبب معاشرہ اسلام کی تمام برکات سے مستفید نہیں ہو سکا ۔

                یہ بات بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ قرآن کریم دو قوتوں کا تذکرہ بار بار کرتا ہے۔ ایک حق کی قوت اوردوسری باطل کی قوت۔ جس کا مقابلہ قیامت تک زندہ رہنے والے اسلامی  نظریۂ حیات سے ہے اور رہے گا ۔ اس معرکۂ حق وباطل میں وقتی اتار چڑھاؤفطری عمل ہے۔   حق و باطل کی کش مکش میں جہاں بدر ایک زندہ حقیقت ہے، وہاں اُحد و حنین اور موتہ بھی دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ حق اپنی صداقت کے باوجود مطلوبہ شرائط پوری نہ ہونے کے نتیجے میں وقتی طور پر مسائل کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن آخر کار حق کو غالب آنا ہے اور باطل مٹ جانے کے لیے ہے: وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ زندہ تصورِ حیات وقتی طور پر غالب نظر نہ آرہا ہو لیکن اپنی عنصری صداقت کی بنا پر اس کو غالب ہو نا ہے اور باطل جو جانے اور ختم ہونے کے لیے ہے، اسے فرار ہونا ہے۔ یہ وہ الہامی اصول ہیں جن سے قرآن کریم کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔

حصولِ اقتدار کی راہ میں رکاوٹ

ایک بات اکثر صورت حال کی تہہ تک نہ پہنچنے کی بنا پر بعض ذہنوں میں پیدا ہوتی ہے کہ اگر تحریکاتِ اسلامی کے پاس قوتِ نافذہ (تمکّن فی الارض) نہیں ہے تو وہ کس طرح اپنا کردار  ادا کر سکتی ہیں؟ اس طرح یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جب تک اسلام کو ایک خطے میں عملاً نافذ کر کے نہ دکھا دیا جائے عوام اس کی صداقت کے قائل نہیں ہوں گے اور تحریکات اسلامی کو ووٹ دے کر کامیاب نہیں کرائیں گے۔ اس کے مقابلے میں مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت یورپ اور امریکا میں عملاً نافذ ہے، اس لیے اسلام کے علم برداروں کو اپنے اندر لچک پیدا کر کے مغربی لادین جمہوریت سے تعاون و اشتراک کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دراصل ان تمام خدشات و شبہات اور مغالطوں کی جڑ میں جو بات فکری طور پر بیٹھی ہوئی ہے وہ وہی ’خودساختہ نظریہ ‘ ہے ، جس میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور معیشت کو دنیا کا واحد قابلِ عمل تصور قرار دیا گیا ہے اور دلیل یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں یہ نظام پھل پھول رہا ہے، جب کہ مقابل نظریہ ( اشتراکیت) شکست کھا کر میدان چھوڑ چکا ہے، اس لیے اب کسی اور تیسرے نظام کی ضرورت نہیں ہے ، دنیا کے انسانوں کو چپ چاپ اس نظام کو اپنا لینا چاہیے ۔

ایسی بات کرنے والے اتنی ہمت تو نہیں رکھتے کہ یہ پوری بات زبان یا قلم سے ادا کریں، لیکن اسی تصور کو گھما پھرا کر اس طرح ادا کرتے ہیں کہ اسلامی تحریکات کی نظریاتی سیاست کا دور  ختم ہو چکا، اب لادینی جمہوریت کے اصول کو اپنا کر ہی کوئی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس لیے پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں بے اصولی کی سیاست کرنے کے باوجود کہتی ہیں کہ وہ ’اصولی سیاست‘ کر رہی ہیں ، حالاں کہ ان جماعتوں کا اصول صرف ایک رہا ہے کہ وہ کس طرح اقتدار پر قابض ہو سکتی ہیں۔

 ان تمام شبہات کا مختصر اورآسان حل قرآن کریم نے فراہم کر دیا ہے کہ باطل نظریات و تصورات کی طغیانی صداقت و حق کے نورکو گل نہیں کر سکتی، نہ اس پر غالب آ سکتی ہے۔یہاں اصل غور طلب امر یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور صحیح افرادی قوت کی فراہمی اور ترجیحات کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ان میں جب بھی صحیح تناسب اور درست توازن ہو گا ، اللہ کی نصرت اور کامیابی یقینی ہے ۔

لا دینی سرمایہ دارانہ جمہوریت و معیشت جو امریکا اور یورپ میں نافذ ہے، کیا وہ کامیاب ہے، اور کیا اس کے ساتھ تعاون ہی میں نجات ہے؟ وہ کشتی جو خود شکستگی سے دوچار ہے، اس پر تکیہ کرنا کوئی دانش مندی ہو گی؟ جس ملک کے عوام و خواص اپنی قیادت پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، جہاں درجنوں بنکوں کو کنگال کر دیا گیا ہو، جو حکومت خود کئی ٹریلین ڈالر کی مقروض ہو، کیا ایسی گرتی ہوئی دیوار کے سایے میں پناہ لینا مسلم دنیا کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے؟

یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ تحریکات اسلامی کا علمی ، فکری ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی سطح پر باطل تہذیب اور جاہلی نظام کے ساتھ معرکہ جاری رہنا ہی ایک فطری عمل ہے۔ لیکن جس چیز پر غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جس طرح مصر میں سیاسی اور دستوری ذرائع سے کامیابی کے بعد ایک فتح بیرونی دخل اندازی سے ناکامی میں تبدیل کر دی گئی ، کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا یا تاریخ کےدھارےکو  موڑا جاسکتا ہے ؟

مجوزہ حکمت عملی

اسلامی تحریکات جس دعوت کو پیش کر رہی ہیں، وہ دعوتِ حق ہے۔ اس میں سیاسی اقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام اور آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اصل کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور آخرت میں اجر ہے ۔ اس لیے اگر سیاسی جدوجہد میں انھیں کوشش کے باوجود ہدف حاصل نہیں ہوتا تو کیا انھیں ناکام کہا جا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال سے بھی زیادہ    غورطلب پہلو یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی دعوتی حکمت عملی ، ترجیحات اور نظام تربیت کا تنقیدی جائزہ اور خود احتسابی کے ذریعے ان اسباب کا تعین ضروری ہے، جو حصول ہدف میں رکاوٹ کا باعث رہے ہوں۔

قرآن کر یم نے ’گھوڑوں کو تیار رکھنےکے حکم‘ کے ذریعے ہمیں لازمی منصوبہ بندی اور ترجیحات کے تعین اور حکمت عملی کے وضع کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس لیے تحریکات اسلامی کو اپنے مقصد اور منزل پر پورے اعتماد کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک خلوص ،  ایثار و قربانی اور بے لوثی کے ساتھ اپنا سب کچھ اقامت دین کے لیے لگادینے والی ٹیم تیار ہورہی ہے؟

 امرِواقعہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامی کی سیاسی کامیابی ایک ضمنی پھل ہے۔ ان کا اصل حاصل وہ جدوجہد ہے جس کے نتیجے میں وہ صالح افراد کی جماعت پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا ہے وہ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  اور اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ  ہیں، جو بنیان مرصوص اور عبادالرحمٰن ہیں (الفتح  ۴۸:۲۹)۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر صرف سمعنا واطعنا کہنے اور عمل کرنے کے قائل ہیں۔ جب اور جہاں یہ تربیت یافتہ افراد پیدا ہو جائیں اللہ تعالیٰ کی نصرت سے وہ باطل پر غالب آتے ہیں :

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ (حٰمٓ السجدة۴۱: ۳۰)    جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ 'نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔

اجتماعی اور سیاسی جدوجہد کے دوران مختلف درجوں کی سرگرمیاں اپنی جگہ، لیکن تبدیلی اور کش مکش کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور پایدار اصلاح کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز وہ مسلسل تعلیمی و تربیتی عمل ہے، جس میں قرآن کریم کا براہِ راست مطالعہ ، سیرت النبیؐ سے براہِ راست تعلق ، عبادات اور حقوق العباد کا شدت کے ساتھ اہتمام ، انفاق فی سبیل اللہ اور اپنے اصولوں پر سختی سے جم جانا شامل ہے ۔ اگر معاشرے میں اخلاق باختگی ہے تو اس کےخلاف کھڑا ہونا ، اگر معاشی استحصال ہے تو ا س کے خلاف صف آرا ہونا ، اگر عدل و انصاف نہیں ہو رہا تو اس کے قیام کی جدوجہد کرنا، راتوں کواللہ کے حضور کھڑے ہوکر مدد طلب کرنا، دن میں رزق حلال کے حصول کی کوشش اور زندگی کے ہر لمحے کو صرف دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا شرطِ اوّل ہے ۔

یہی وہ راستہ ہے جس نے ہر دور میں احیاے اسلام کی جدوجہد کو وقار بخشا اور آخرت میں قبولیت کا امکان روشن کیا۔ –تحریکی ترجیحات میں تعمیر کردار کو اولیت دیے بغیر محض افرادی کثرت پر توجہ، دین کا مدعا نہیں ہے۔ تحریک کا سرمایہ اس کےوہ باکردار افراد ہی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی دعوت اور تبدیلی و اصلاح کے طریق کار کو اختیار کریں اور وقت کی قید سے آزاد ہو کر تطہیر افکار، تعمیر سیرت اور معاشرتی عدل رائج کر سکیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان صادق اور امین نمایندوں کو منتخب کریں جو شریعت کی بالا دستی اور ملک میں اسلامی عدل اور معیشت کے نظام کو رائج کر سکیں ۔

تحریک اسلامی کی بنیادی ذمہ داری ایسے افراد کی تیاری ہے جو ذاتی مفاد کے بندے نہ ہوں بلکہ صرف اور صرف خالق حقیقی کے بندے بن کر اس کے حقوق کو ادا کریں اور خلق خدا کے حقوق کے تحفظ میں ذمہ دارانہ کردار ادا کر سکیں ۔ ان افراد کی تیاری کے بغیر جو تبدیلی بھی آئے گی وہ وقتی اور جزوی ہو گی۔ دعوتِ دین ایک ہمہ جہت اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا نام ہے۔ اس کا ہر محاذ اہم اور ہر محاذ دوسرے سے مربوط اور اس کی معاونت کا محتاج ہے۔ جسے مسلسل خونِ جگر سے سینچنے ہی سے عصر حاضر میں تحریک اسلامی اپنی منزل سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور مسلم ممالک کم از کم گذشتہ ۲۵سال سے ایک ایسے سیاسی خلفشار ، عدم استحکام اور سیاسی بازی گری کا شکار ہیں، جس نے نہ صرف عوام بلکہ باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی جمہوریت پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور عموماً یہ بات کہی جارہی ہے کہ:’ایسی جمہوریت سے تو بادشاہت اور فوجی آمریت ہی بہتر ہیں‘۔ اس مفروضے کو مستحکم کرنے کے لیے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ: ’عام طور پر فوجی آمریت کے دور میں ملک کی معیشت میں ترقی ہوئی ہے، اس لیے جمہوریت کو خیر باد کہہ کر ہمیں صدارتی یا آمرانہ نظام کو اختیار کرنا چاہیے‘۔ اس کیفیت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت سے محبت کے تعلق سے قطع نظر اور جمہوری اَدوار کی بدعنوانیوں ، ظلم اور نا انصافی ، طبقاتی تناؤ اور تفاوت کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے محو کرتے ہوئے معروضی طور پر یہ جائزہ لیا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ کیا واقعی مسلم ممالک اپنی تاریخی روایات کے تناظر میں جمہوریت کے لیے ناموزوں اور بادشاہت یا آمریت کی روح اور نظام سے قریب تر ہیں؟ اور کیا واقعی ان کی نجات صرف مغربی جمہوریت میں ہے؟ اس آخری بات کو خاص طور پر تیونس کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مغربی جمہوریت 

جس نظام کو مسلم دنیا میں ’مغربی جمہوریت‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہ باقیات ہیں اس مغربی سامراجی نو آباد یاتی نظام کے ورثے کی جسے وہ جاتے ہوئے ہمیں تحفے میں دے گیا۔ اب ہم نے اس تحفے کی جو حالت بنائی ہے؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ پاکستان ہو یا ملایشیا، مصرو شام ہو یا الجزائر ، تیونس ہو یا نائیجریا، جو مسلم خطے مغربی استحصالی سامراج کے زیر تسلط رہے اور آزادی اور حریت کی تحریکوں کے باعث آخر کار سامراج کو انھیں چھوڑنا پڑا، وہ اسی نظام کو اپنے انداز میں اپنائے ہوئے ہیں۔ مقبوضات چھوڑنے کے بعد استعماری قوتوں نے مستقبل کے ایسے انتظام پر توجہ دی جس کے نتیجے میں ان تمام ممالک میں وہی سیاسی ، قانونی اور تعلیمی نظام برقرار رہے ،جو استحصالی سامراج نے مسلط کیا تھا۔ چنانچہ یہ نظام برقرار ہے۔ تیونس فرانسیسی زبان اور ثقافت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ پاکستان ، ملایشیا اور نائیجریا انگریزی میں اظہار خیال اور انگریز کی فکر، لباس اور غذا کو ترقی اور کمال سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ انگریز کی چھوڑی ہوئی قانونی ، تعلیمی اور سیاسی روایت جوں کی توں ، اپنی بوسیدگی اور خستگی کے باوجود برقرار ہے بلکہ روز بہ روز زیادہ مطلوب و مرغوب ہوتی جا رہی ہے۔ اسی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

سیاسی تناظر میں پارلیمانی جمہوریت ایوان بالا اور ایوان زیریں کی شکل میں جیسی برطانیہ میں پائی جاتی ہے، اس کا ایک ناقص چربہ ہم نے اختیار کر رکھا ہے، حالاں کہ خود کئی یورپی ممالک (فرانس ، جرمنی ، اٹلی) برطانوی طرزِ جمہوریت کو پسند نہیں کرتے۔

مغربی جمہوریت کی بنیاد عوام کی حاکمیت اور منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے اپنے حق کے استعمال کے اصول پر کام کرنا ہے۔ جس میں قوت کا اصل سرچشمہ عوام قرار پاتے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندے اس قوت کو تفویض کردہ اختیارات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قانون سازی پارلیمنٹ کرتی ہے اور عدلیہ ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے انتظامیہ اور قانون ساز اداروں میں  توازن برقرار رکھنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ قانون سازی کہاں تک دستور یا روایات سے مطابقت رکھتی ہے؟ اس کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ (عدالت ِ عظمیٰ )کرتی ہے اور عدالت عظمیٰ کی تعبیر کو حتمی خیال کیا جاتا ہے۔مغربی جمہوریت کے ان تین ستونوں، یعنی پارلیمنٹ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور مسلح افواج کے کردار اور اختیار کو متعین کرنے کے بعد اسے اس کا پابند کر دیا گیا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان چاروں اداروں کو نفسیاتی الجھاؤ کی بنا پر گڈمڈ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ہمارے اخلاقی زوال نے ان چاروں اداروں کو مسموم بھی کر دیا ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنی پشت پناہی کے لیے عوام کی طرف نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے زر خرید ہیں۔ دوسری جانب عسکری و بیرونی قوتوں سے ضرور اُمید یں باندھ لیتے ہیں اور ان کے منظور نظر ہونے پر پھولےنہیں سماتے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات بھی موجود ہیں کہ جب بعض نام نہاد وزراے اعظم نے گریہ وزاری کے لہجے میں امریکی صدورسے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے حمایت کی درخواست کی۔ اسی طرح ایک آمر صرف ایک بیرونی کال پر ڈھیر ہو گیا۔

ہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے مغربی جمہوریت کو جو مغرب کی فضا ، ، ماحول ، روایات ، نظامِ حیات ، تہذیبی اقدار اور اخلاق پر مبنی تھی ، بغیر کسی بنیادی تبدیلی کے یہ سمجھ کر اختیار کر لیا کہ  جس صورت میں یہ وہاں رائج ہے، اسی شکل میں یہاں بھی مفید ہو گی۔چنانچہ ایک فوجی آمر کے دور میں ایک فوجی افسر نے پاکستان کو یونین کونسلوں کے نظام کا تحفہ دیا جو برطانیہ میں کام کرتا ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ وہ سیاسی تربیت ، تقسیم اختیارات و قوت جو اس کی بنیاد ہے اس کے بغیر یہ کیسے کام کرے گا۔

مغربی جمہوریت کے خمیر میں جو اجزا شامل ہیں وہ ہماری روایات ، نظام حیات اور اقدار سے ٹکراتے ہیں لیکن ہم نے جمہوریت کے بت کو سب سے متبرک سمجھتے ہوئے اس پر مختلف غازے چڑھا کر یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارے لیے مناسب ہو گی۔ چنانچہ مغربی جمہوریت کے لوازمات: لادینیت، سرمایہ دارانہ ذہنیت ، مادہ پرستی ، حق کی جگہ پارٹی پرستی ، پارٹی پرستی کی جگہ شخصیت پرستی اور مفاد پرستی، مساوات مردو زن کا نعرہ لگا کر معاشرتی عدم استحکام کو تقویت دی۔ غرض مغربی جمہوریت جس نظام کو قائم کرتی ہے وہ مسلمانوں کی ثقافت ، عقیدے اور روایات سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا، لیکن    ہم نے سادہ لوحی اور دین سے بغاوت کرتے ہوئے اسے ایک واجب تعظیم بُت کا مقام دے دیا ۔ آج پاکستان کی وہ تین بڑی سیاسی جماعتیں جو ہر لمحے جمہوریت کا وظیفہ پڑھتی ہیں، اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ان کا اندرونی نظام اور ملکی سیاست میں ان کا طرزِ عمل خلافِ جمہوریت کارناموں کی ’ا علیٰ ترین‘ مثال کہا جا سکتا ہے۔

مختصراً مغربی جمہوریت کے تحائف میں سرفہرست لادینیت ، مغرب پر انحصار ، ثقافتی مغلوبیت، انفرادی سطح پر خود پرستی ، معاشرتی اقدار سے بغاوت ،آزادی اور ’مذہب‘ کو مخصوص عبادت گاہوں میں محدود کر دینے کی ثقافت ہیں۔ جہاں کہیں بھی اسے اختیار کیا گیا، وہاں اس نے معاشرتی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری پیدا کی، اخلاقی قدروں کو پامال کیا اور معاشی حوالے سے ایک طبقاتی، نظام وجود میں لانے کا باعث بنی۔ مسلم ممالک میں موجودہ سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ومعاشی بحرانوں کی طویل فہرست مغرب کی اندھا دھند تقلید ہی کا نتیجہ ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلم ممالک کے ذہنی اور فکری طور پرمغلوب اور غلام فرماں روا کبھی خود احتسابی کی طرف راغب نہیں ہوتے۔

پاکستانی جمہوریت

ہم نے جمہوریت کا جو ماڈل پاکستان میں نافذکر رکھا ہے، اس کے لیے مناسب نام ’مفاد پرست جاگیرداریت‘ ہے۔اس کے عناصر ترکیبی میں موروثی سیاست سب سے نمایاں ہے۔ چنانچہ ناموں سے قطع نظر سیاسی جماعتوں پر (صرف جماعت اسلامی کو چھوڑتے ہوئے ) نظر ڈالی جائے تو ہر جماعت اپنے لیڈر کی میراث پر فخر کرتے ہوئے اپنے مقام کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے سیاسی نعروں میں نہ کارکردگی کا تذکرہ آتا ہے ، نہ مستقبل کا لائحہ عمل بلکہ ’مرحومین‘ اور قیادت کے منصب پر فائز تاحیات شخصیتوں کے نام کو اپنا امتیاز بتایا جاتا ہے۔ یہ جاگیر دارانہ مو روثی جمہوریت پاکستان کے لیے زہرِقاتل ہے۔

دوسرا بنیادی عارضہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت علاقائیت یا صوبائیت پر مبنی ہے۔چنانچہ   نام نہاد ’بڑی‘ جماعتیں اپنی صوبائی جڑوں پر فخر کرتی ہیں اور اپنے صوبے کوبطور اشتہار پیش کرتی ہیں کہ انھوں نے ، جس صوبے پر وہ عرصے سے مسلط ہیں، وہاں یہ یہ کارنامے سرانجام دیے ہیں ، اس لیے انھیں آیندہ بھی یہ موقع دیا جائے۔فقط ایک صوبے تک محدود نظر ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے جو ملک کی سالمیت اور دفاع کے لیے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر معروضی طور پر دیکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس کی پہچان کوئی صوبہ نہیں ہے، نہ اس کی قیادت صوبائی بنیاد پر ہے، نہ اس کی ممبر شپ کسی جاگیردارانہ وابستگی سے ہے، بلکہ وہ صرف اورصرف اپنے نظریے اور اسلام کی جامعیت و ہمہ گیریت کی بنیاد پر ہر صوبے میں اپنی دعوت کی بنیاد پر موجود ہے۔اس کے ساتھ داخلی سطح پر اس میں شورائیت اور بے لاگ احتساب کا نظام بھی قائم ہے۔

مروّجہ پاکستانی جمہوریت کی ایک اورخصوصیت سیاسی قیادت کاآمرانہ طرز عمل ہے۔  جن جماعتوں کو ہمارے ذرائع ابلاغ تین بڑی جماعتیں کہتے ہیں، ان کا قائد عملاً سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے ، اس کا نام پارٹی پالیسی ہے۔ پارٹی کے اندر نہ صحیح جمہوری انتخابات کی صورت ہے اور نہ فیصلوں میں مشاورت کا کوئی نظام ہے۔

قطع نظر جمہوریت کے حوالے سے نہ تو مغربی جمہوریت اور نہ مروجہ پاکستانی جمہوریت پاکستانی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے اور نہ ملکی سالمیت ، استحکام اور ترقی کے لیے کارگر ہو سکتی ہے۔ہمارے نوجوانوں کا اضطراب اور جمہوریت پر اعتماد اٹھنے کا سبب ان دونوں طرز کے جمہوری نظاموں کا بنیادی نقص ہے۔اگر اس کی اصلاح بروقت نہ کی گئی تو نوجوانوں کا اضطراب انھیں غیرجمہوری یا آمرانہ نظاموں کی طرف راغب کر سکتا ہے،جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ نام نہاد جمہوریت میں پارٹی لیڈر کا آمر ہونا، یا فوجی آمرکا قابض ہو کر انھی سیاسی مہروں میں سے کچھ کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرنا، یکساں طور پر ملک وملت کے لیے نقصان دہ ہے۔ان دونوں ممکنہ راستوں سے ہٹ کر شاہراہِ کامیابی اگر کوئی ہے تو وہ صرف وہ نظام ہے ، جس میں عدلِ اجتماعی ، عوام کی عزت وتکریم اور قرآن وسنت کی بالا دستی کو نافذکیا گیا ہو۔

  •  اسلامی نظام عدل:پاکستان اور مسلم دنیا کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے تو ہرباشعور شخص اس نتیجے تک پہنچے گا کہ مغربی سامراجیت کا تحفہ لادینی سرمایہ دارانہ جمہوریت ، جس میں مفاد پرست صنعت کار یا سرمایہ دار اور زمین دار موروثی طور پر سیاسی قیادت پر فائز ہو جا ئیں، پاکستان اور مسلم ممالک کے لیے زہر قاتل ہے۔اور اسی طرح وہ نام نہاد جمہوریتیں جو مقامی علاقائیت اور لسانی قومیت کی بنیاد پر پیدا ہوئیں اور اقتدار پر قابض ہیں، عوام کو عدل و انصاف اور ملک کو استحکام اور ترقی دینے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اگر مسلم دنیا اور پاکستان کا کوئی مستقبل ہے تو وہ صرف ایسے عادلانہ نظام کے قیام میں ہے جس کی جڑیں اسلامی تصورِ حیات سے وابستہ ہوں۔
  • اسلامی نظامِ عدل کی پہچان:مغربی لادین جمہوریت کی جگہ قائد تحریک اسلامی سیّدمودودی نے جو اصطلاح اپنی بات کی وضاحت کے لیے استعمال کی وہ Theo-Democracy ہے، جسے عرفِ عام میں اللہ کی حاکمیت پر مبنی عادلانہ جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے۔ یہ نظام اپنی ساخت اور خصوصیات میں مغربی لادین جمہوریت اور پاکستانی موروثی اور صوبائی جمہوریت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔۷۰سال کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ اب نظام کی تبدیلی ہی مسائل کا حل ہے۔ نیا اسلامی فلاحی نظام آمرانہ بادشاہت اور مروجہ جمہوریت دونوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا، بلکہ اس کے خدو خال ان دونوں سے ہر پہلو سے ممتاز ہیں۔
  •  لِلّٰہیت: اس نظام کی پہلی خصوصیت اس کی نظریاتی بنیاد ہے، جو للہیت سے عبارت ہے، یعنی اللہ کو رب تسلیم کرکے اس کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیر۔

للہیت سے مراد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا انفرادی ، خاندانی ، معاشرتی، سیاسی، معاشی، قانونی، غرض زند گی کے تمام کاروبار میں فیصلہ کن مقام حاصل کرنا ہے۔یہ کسی خانقاہ میں دنیا سے کٹ کر بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کے نفاذ کا نام ہے۔اسلامی عادلانہ نظام میں ہرفیصلے کی بنیاد للہیت ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس کا م کا کرنا۔اسلام زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں دے دینے کا نام ہے۔للہیت سیاسی سرگرمی سے نہیں روکتی، بلکہ یہ اخلاقی صورت گری کا ذریعہ بنتی ہے، تاکہ سیاست کا مقصد ذاتی شہرت یا شخصیت کی مرکزیت نہ ہو، اس کی جگہ اللہ کی بندگی کو قرار دیا جائے۔ یہ ملک و ملّت کی قیادت، خدمت، عدالت، انکسار ، بے غرضی اور نمود و نمایش سے دوری کا نام ہے۔ یہ کسی مصنوعی لبادہ اوڑھنے سے پیدا نہیں ہوسکتی نہ کسی جبہ و دستار کی محتاج ہے۔یہ انسان کے روز مرہ کے طرز عمل میں پائی جاتی ہے۔ فخر و اعزاز بادشاہت کا ہو یا کسی پہنچے ہوئے فقیر کا، دونوں للہیت کی ضد ہیں۔یہ صبر و قناعت اور استقامت کا نام ہے۔

  • شریعت کی بالادستی:نئے نظام کی دوسری پہچان قرآن و سنت کی بالا دستی اور فیصلہ کن ہو نا ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام کا قیام صرف اس وقت ممکن ہے جب مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ہو، یا ملکی معیشت و ثقافت و تعلیم ہو یا ابلاغ عامہ، ہرشعبے میں، ہر سرگرمی کا انحصار قرآن و سنت کی ہدایات پر ہو۔ اسلامی شریعت کا اعجاز یہ ہے کہ الہامی ہونے کی بناپر اس میں مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اسلامی شریعت وقت اور مقام کی قید سے آزادمستقل حیثیت کی حامل ہے۔ مغرب زدہ افراد کے لیے یہ بات ناقابلِ فہم رہی ہے کہ اسلامی شریعت جس کا نفاذ دورِ نبویؐ اور دورِ خلافت راشدہؓ میں ہوا ،کس طرح اس دور میں نافذ ہو سکتی ہے۔ وہ انسان کے بنائے ہوئے زمان و مکان میں قید قوانین سے الہامی شریعت کا تقابل کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بنیادی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ دو ایسے نظاموں کا تقابل کررہے ہیں ، جن کی بنیاد اور ساخت بالکل مختلف ہے۔اسلامی شریعت الہامی ہے،اس لیے  آفاقی ہے اور اس کے اصول ہر دور میں یکساں طور پر رہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ مغربی جمہوریت انسان کی خودساختہ ہے، اس لیے مختلف زمانوں میں اور مختلف علاقوں میں اس کی مختلف شکلیں ملتی ہیں۔ یہ یکساں طور پر سب کی رہنمائی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
  •  اسلامی ثقافتی اقدار:اسلامی عادلانہ نظام کی تیسری پہچان اسلامی اخلاقی اقدار کی بنیاد پر فلاحی نظام کا قیام ہے۔ اسلامی نظام نہ صرف شریعت پر مبنی قانون دیتا ہے ،بلکہ وہ انسانیت کی فلاح کی ضامن اخلاقی اقدار فراہم کرتا ہے، جن میں صدق، امانت و استقامت ، حیا، جرأت، اعلاے کلمۃ الحق ، معروف ومنکر ، حلال و حرام کی روشنی میں ترجیحات کا تعین کرتا ہے تاکہ زندگی کے نشیب و فراز میں اسلامی اقدار کی پابندی کی جاسکے۔

اسلامی اقدار توحید ، عدل ، صدق ، امانت ، حیا کا عکس اسلامی قوانین کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جھوٹ اور بہتان کا سدِّ باب قرآن و سنت کے دیے ہوئے مثبت اور تعمیری اخلاقی اصولوں کے ساتھ تادیب اور تعزیر کے نظام سے کیا گیا ہے۔ہر قانونی اقدام سے پہلے مثبت اخلاقی اقدار کا وجود اور ہر خلاف ورزی کی شکل میں پہلے اصلاح ، عفو و درگزر اور آخر کار تادیب و تعزیرانسانی معاشرے میں عدل و سکون کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔یہ بات قلم اور زبان تک محدود نہیں ، اسلامی قانون کا تحقیقی مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام سزااور تعزیر سے زیادہ اپنی اخلاقی اقدار کے بل بوتے پر اور انسانی نفسیات کو اخلاق کا تابع کر کے ایک صحت مند ماحول اور معاشرہ پیدا کرتا ہے،جہاں اگر کسی سے غلطی کا ارتکاب ہو بھی جائے تو بجاے کسی کوتوال یا مخبر کے، انسان کا ضمیر نجات چاہتا ہے اور بغیر کسی گواہ کے، ملزم خود آکر اعترافِ گناہ کے ساتھ اپنے لیے سزا کی درخواست کرتا ہے۔یہ اعزاز صرف اسلامی شریعت کو حاصل ہے کہ تجسس، مخبری اور جاسوسی کے بغیر اگر کسی سے غلطی ہو جاتی ہے تو اس کا ضمیر اسے اپنی اصلاح پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسلامی اقدارِ حیات کا اطلاق اسی وقت ممکن ہے جب نہ صرف مقنّنہ،عدلیہ اور انتظامیہ اس کی برتری اور حتمی ہونے کے قائل اور اس پرعامل ہوں، بلکہ تعلیم اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اسلامی اقدار کو معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں جاگزیں کر دیا جائے۔

  • تعلیم و ابلاغِ عامہ:ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ریاست کے اعضا میں تعلیم اور ابلاغ عامہ کو وہی مقام حاصل ہو گیا ہے جو کل تک مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کو حاصل تھا۔آج ابلاغ عامہ کی فحاشی اور مخلوط محافل منعقد کروانے کی مہم اس مقام تک آگئی ہے کہ اسلامی شعائر کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ: ’’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘ کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ حال ہی میں ایک ایسی مخلوط نماز جنازہ کا برقی ابلاغِ عامہ پر پیش کرنا جو اخلاق ، دین اور دینی حمیت کے منافی ہو، اشاعت ِمنکر ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ اسلامی اخلاقیات نے زندگی کے تمام ہی مسائل اور معاملات کو جو اہم ہونے کے باوجود محدودیت اور احتیاط کا مطالبہ کرتے ہیں ،انتہائی مہذب انداز میں بیان کیا ہے۔ طہارت اور جنسی تعلق جیسے موضوعات کو بغیر کسی منفی یا ہیجانی کیفیت کے تعلیم دینے کے انداز میں قرآن وسنت اور فقہ میں بیان کر دیا ہے۔ آج ابلاغ عامہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو اس طرح پیش کرتا ہے گویا یہ فطری اور عمومی طریقہ ہے اور آخر کار ایسے مناظر کی تکرار ان کو گوارا بنا دیتی ہے۔یہ حکمت عملی اشتہارات میں، خبرناموں میں ، ڈراموں میں، گانوں میں، حتیٰ کہ تعلیمی مباحثوں اور مکالموں میں اس طرح رائج کر دی گئی ہے کہ نوجوانوں کو ان مناظر کا عادی بنا دیا جائے ،اور اس طرح اسلام کے تصورِ حیات اور مردو زن کے الگ الگ دائرۂ عمل کی جگہ مغربی تصورِ اختلاط مردو زن کو معاشرے کا عموم اور رواج بنا دیا جائے۔

اسلامی نظام عدل کا قیام اسی وقت ہو سکے گا جب قوم کے ضمیر کو اسلامی اقدار کی پابندی پر تعلیمی حکمت عملی سے آمادہ کیا جائے۔ اسلام کوڑے کے مقابلے میں زبان و قلم اور عملی مثال سے تعلیم دینےکو فوقیت دیتا ہے، اور نیا نظام ان شاء اللہ اس معاشرتی برائی کو دستوری ذرائع سے ہی درست کرے گا اور کسی تعزیر کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ تعلیم کو نہ صرف انگریز سامراج نے بلکہ اس کے جانشینوں نے اس ڈگر پر قائم رکھا جس پر انگریز نے اسے چلایا تھا۔۷۰ سالہ دور میں نہ تو معیارِ تعلیم کو بلند کیا گیا اور نہ تربیت کی طرف توجہ دی گئی۔تعلیم دراصل تہذیبِ اخلاق کا نام ہے۔ حصولِ معلومات اس کا ایک پہلو ضرورہے لیکن وہ تعلیم جو تہذیب و اخلاق سے خالی ہو ، ایک بے روح جسم اور دماغ تو پیدا کر سکتی ہے، ایک مکمل انسان وجود میں نہیں لا سکتی۔

اسلام کے عادلانہ نظام کی پہچان ایسے نظام تعلیم کا نفاذ ہے جو قومی ضروریات ، فنی مہارت اور جدید ترین معلومات کے ساتھ تعمیرِ اخلاق کو اوّلیت دے۔ ملک میں امن و سکون اور رواداری اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب تعلیم اخلاق و تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہو۔تحریک اسلامی کو اس نئے نظام کے قیام کے لیے نئے نظام کے خدو خال کو بار بار پیش کرنا ہو گا،تاکہ صداقت اور حق پر گردوغبار اور غلط فہمیوں کی جو دبیزچادر ڈال دی گئی ہے، وہ دُور ہو، اور حق آجائے اور باطل معدوم ہو جائے کیوں کہ باطل معدوم ہونے کے لیے ہی ہے۔

  • تبدیلی کا طریقۂ کار :اس عزم اور مستقبل کی روشن امید کے ساتھ جو سوال بار بار اٹھتا ہے وہ بھی توجہ طلب ہے، یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کو ن باندھے گا ؟ نظام کی تبدیلی کیسے ہو گی؟ تبدیلی انقلاب اور قوت کے استعمال سے آئے گی یا ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد آئے گی ؟

قرآن و سنت اور مکی اور مدنی ادوار کے تجزیاتی مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حق وباطل کی کش مکش اور نظام کی تبدیلی کے لیے سب سے پہلے خود حق کے نظام پر مکمل اعتماد و ایمان شرطِ اوّل ہے۔قرآن کریم نے اسے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اللہ کے رسول جس چیز پر مکمل ایمان لائے اور جو اہل ایمان کی ہدایت کے لیے ان پر نازل کی گئی، یعنی کتاب وشریعت۔ دوسری بنیادی شرط اس ہدایت کا اپنی زندگی میں احسن شکل میں نافذ کرنا ہے۔ فرمایا گیا کہ: کیوں  تم وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘(الصف ۶۱:۲-۳)۔ گویا تحریک اسلامی کی جانب سے ایسے افراد کی ایک جماعت ِکثیر کی تیاری جو اپنےعلم و عمل کے لحاظ سے پختہ کار ہوں اور نظریے سے آگہی اور نظریے کے فروغ کے لیے اپنے کردار سے آگاہ ہوں ، ایثار ، قربانی و دیگر اسلامی خصائص سے مثالی طور پر مزین ہوں، جسے ہم آج کی زبان میں افراد کار کی تیاری سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ کام محض جلسوں اور مظاہروں سے نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے پِتّا ماری کے ساتھ قرآن و سیرت سے براہِ راست تعلق ، تفقہ فی الدین، اور تحریکی مزاج کا پیدا کرنا ہے۔یہ خاصیت برسوں کی محنت سے پیدا ہوتی ہے۔  اس میں صبر و استقامت کاہونا شرط ہے۔

تبدیلی کے اس عمل کی ایک اور اہم شرط تعداد کی اہمیت کو کم کیے بغیر معیار کو فوقیت دینا ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکن اپنی علمی ، فکری ، تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں میں صف ِاوّل میں ہونے چاہییں۔ انھیں عصر حاضر کے علوم کے ساتھ قرآن وسنت کے علوم پر مکمل عبور ہوبلکہ مقامِ اجتہاد پر فائز ہوں۔یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے قیام کے وقت جو افراد کو جمع ہوئے تھے، ان میں ایک واضح تعداد ان افراد کی تھی جو علمی اور فکری طور پر سر براہی کے مقام پر فائز ہونے کے لائق تھے۔ آج بھی تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد تیار کرنا ہوں گے جو دینی اور عصری علوم، دونوں پر عبور رکھتے ہوں۔یہ کام انفرادی طور پر نہیں بلکہ اداراتی بنیاد پر کرنا ہوگا، تاکہ ایسے ادارےموجود ہوں جو محض وقتی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر بطور ادارہ متحرک ہوں، اور مطلوبہ افرادی قوت کی تیاری و فراہمی میں کمی نہ ہو۔ تحریک کے افراد کی معیاری برتری ہی تحریک کی کامیابی کی شرط ہے۔

 تبدیلیِ نظام کے لیے ایک اور شرط متبادل نقشۂ عمل اور لائحۂ عمل کی تیاری ہے۔نہ صرف ایک خاکہ بلکہ اس میں تفصیلات کی شکل میں رنگ کا بھرنا۔اگر تعلیمی نظام بدلنا ہے تو اس کا نیا نصاب کیا ہو گا؟اس نصاب کی روشنی میں درسی کتب کون سی ہوں گی؟ان کتب کو پڑھانے والا استاد کس کردار اور علمی رُتبے پر ہو گا؟اسکول، کالج اور یونی ورسٹیوں میں کامیابی کا معیار کیا ہوگا؟طلبہ اور اساتذہ میں کن اخلاقی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی جائے گی؟ درسی کتب کے ساتھ جدید ابلاغ عامہ کو تعلیم کے لیے کیسے استعمال کیا جائے گا؟ کیا ملک کی ۱۸۵ موجودہ جامعات میں تبدیلی لانے کے لیے ایسے افرادِ کار تیار ہیں جو تعلیم، تجربہ اور صلاحیت میں اعلیٰ مقام پر ہوں؟ تعلیم، ملکی معاشی پالیسی، ملک کی دفاعی پالیسی ، ملک کی صحت کی پالیسی پر جب تک تحریک کے پاس ایک واضح نظام عمل موجود نہ ہو، تو کیا محض پارلیمان میں کامیابی تبدیلی لا سکتی ہے ؟

نظام میں تبدیلی کے لیے ایک اور شرط عالمی سیا ست سے اتنی واقفیت بہم پہنچانا ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی حکمت عملی اور ملک کے اندر اور باہر مختلف عناصر کی منصوبہ بندی سے مکمل آگاہی کے ساتھ ہمارے پاس ایک متبادل حکمت عملی بھی موجود ہو، جس میں حالات کے لحاظ سے تبدیلی لانے کی گنجایش ہو۔جن عالمی قوتوں سے تحریک کا سامنا ہے، وہ کسی بھی صورت حال میں حق کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انھیں محض بدعائیں دے کر ناکام نہیں کیا جاسکتا۔ان کی سازشوں کا علم بھی کافی نہیں ہے۔ جب تک ہماری اپنی حکمت عملی ان سے بہتر اور برتر نہ ہو ، کامیابی ممکن نہیں، اور نہ کوئی تبدیلی دیرپا ہو سکتی ہے۔

ان شرائط پر غور کیا جائے تو ان پر عمل صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب دستوری ذرائع ، تعلیمی ذرائع اورتربیتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔ یہ کام کسی قوت یا طاقت کے ذریعے محض اعلیٰ سطح پر تبدیلی لانے سے نہیں ہو سکتا۔ اسلام جس نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے وہ فرد، معاشرہ ، تعلیم ، قانون، معیشت اور سیاست میں ہمہ گیر تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔یہ صبر و استقامت سے کرنے کا کام ہے۔ اس کے لیے تحریک کے نظامِ تربیت کا انتہائی مؤثر ہونا شرط اوّل ہے، تاکہ کارکن سے قیادت تک للہیت ، فہم دین ، تفقہ ، عصری علوم پر عبور،قرآن وسنت سے انتہائی قریبی تعلق ، معاملات میں شفافیت ، سادگی ، انکسار، ایثار و قربانی کی صفات کارکنوں کی شخصیت کا حصہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سچا وعدہ ہے۔ جو لوگ اللہ کو رب مان لیں گے اور اہل ایمان کی صفات سے مزین ہوں گے تو ان کی کامیابی کی ضمانت دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر رب کریم نے خود دی ہے۔ اس کا یہ وعدہ جیسا ماضی میں حق تھا، آج بھی حق ہے۔ فرمایا:

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

قصور میں ہونے والی وحشیانہ اور جنسی درندگی کے واقعے نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کیا۔ پھر اس واقعے پر جس یک جہتی کے ساتھ قوم نے مظلوم زنیب کے ساتھ اپنی ہمدردی اور   اس درندہ صفت شخص کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے،وہ ایک قابلِ تعریف احساس ہے۔   یہ ردِعمل اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اخلاقی انحطاط کے اس دور میں بھی ہرپاکستانی اس وحشیانہ عمل کے سد باب اور مظلوموں کو بلاتاخیر انصاف اور مجرموںکو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا کے بارے میں یک آواز ہے (اسی نوعیت کے شرم ناک واقعات انھی دنوں کراچی، ڈیرہ اسماعیل خاں اور مردان وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں)۔

حقیقت یہ ہے کہ بچے قوموں کا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر وہ تحفظ ، تعلیم ،محبت ، عزت اور تربیت کی جگہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوں تو پھر قومیں روشن مستقبل سے محروم ہو جاتی ہیں ۔بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو فضا پائی جاتی ہے ، اس میں نہ صرف بچوں کو بلکہ بالغ اور معمر افراد وخواتین کو بھی اپنے غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس ہو رہا ہے۔ یہ نظام کی ناکامی اور اجتماعی بگاڑ کا واضح ثبوت ہے، جس کی اصلاح اور فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔

ہم نے انگریز سے جو نظام، وراثت میں لیا ، اس میں جا گیردارانہ نظام کا تحفظ ، پولیس ، سول انتظامیہ اور سیا سی شخصیات سے تعاون جائز تصور کیا جاتا تھا ۔ بڑی زمینداریوں کا وجود  اکثر و بیش تر انگریز سرکاری کی وفاداری کا مرہونِ منت تھا ۔خان بہادر اور نائٹ یا سر کا خطاب بھی   اِلا ماشاء اللہ، انھی کو دیا گیا جو برطانوی سامراج کی نگاہ میں بےضرر یا وفادارِ تاج برطانیہ تھے۔   یہی لوگ سیاسی لیڈر بنے اور انگریز کی نگاہ میں اپنی قوم کے نمایندہ قرار پائے۔

ہمارے ملکی نظام میں سیاسی اداروں پر انھی افراد کا قبضہ رہاجو معاشی طور پر خوش حال تھے اور جو اپنے مزدور اور کسان پر مکمل قابو رکھتے تھے ۔ جس کے نتیجے میں قانون مال داروں کے تحفظ میں تو دل چسپی رکھتا تھا لیکن کمزور اور بے سہارا کے لیے انصاف حاصل کرنا جوے شیر لانا تھا۔   ہم نے اس نظام کو برقرار رکھا اور ماضی میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں ، انھیں سرعامِ برہنہ کرنے اور انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے خواتین کی بے عزتی کو اپنی ساکھ کا مسئلہ بنائے رکھا۔      اگر معاشرے میں قانون کا احترام کم ہو جائے اور اخلاقی روایات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، تو    نہ صرف خواتین بلکہ کسی بھی عمر کے انسان کے ساتھ کسی قسم کا واقعہ ہو سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سانحے پر غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا اور آیندہ ایسے اندوہناک واقعات کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔

ظلم کے اسباب

ہمارے ملک میں غیر سرکاری اعداد و شمار عموماًبیرونی امداد سے قائم ہونے والی این جی اوز جمع کرتی ہیں (جن میں حقائق سے زیادہ ظن و تخمین کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، تاہم ان کی بنیاد سے انکار نہیں کیا جاسکتا)۔ پاکستان کے مقامی اخبارات نے ایک ایسے ہی ادارے کے اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق ۲۰۱۷ء میں پاکستان میں روزانہ بچوں سے زیادتی کے۱۱ واقعات ہوئے ہیں(ڈیلی ٹائمز ، ۱۸ جنوری ۲۰۱۸ء، د ی نیوز، ۲۳جنوری ۲۰۱۸ء)۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ ان اعداد و شمار میں نمونے (sample)کا حجم کیا ہے؟ اور جب تک تمام تفصیلات معلوم نہ ہوں  کسی بھی جائزے اور اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود یہ تعداد بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے حوالے سے ایک خطرناک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے ۔بچوں پر زیادتی کا جائزہ لیتے وقت مناسب ہو گا کہ ایک سرسری نگاہ بنیادی اسباب پر ڈال لی جائے۔

معاشی اسباب

بالعموم تجزیاتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں بااثر معاشی آقا اپنے سے کم تر طبقات کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے ۔ہمارے ہاں بھی اخباری اطلاعات یہی بتاتی ہیں کہ با اثر افراد کی بنا پر اس قسم کے ظالمانہ کام کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ جاتےہیں، اور معاشی طور پر کم زور افراد کی عزت اور ذات ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچوں ، کم عمر لڑکیوںکو پیسےکا لالچ دے کر ایسے کاموں میں پھنسایا جاتا ہے۔ قصور ہی میں کچھ عرصہ قبل ایک گروہ کا پردہ چاک ہوا جو بچوںکی عریاں ویڈیو فلمیں بنا کر اپنی دھمکیوں کے ذریعے انھیں اپنے زیرِ تصرف لا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بڑا سبب معاشی بدحالی بتایا جاتا ہے۔

 لیکن تجزیہ کرنے والے افراد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ظلم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں بھی عام ہے جو ہمارے کم فہم افراد کے لیے ایک ’مثالی معاشرہ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکا اس کی چشم کشا مثال ہے جہاں اس کا سبب محض غربت نہیں بلکہ نشہ آور اشیا کا استعمال ، مخلوط معاشرہ اور انفرادیت پرستی کا نظریہ اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔سب سے زیادہ بنیادی بات اخلاقی اور دینی تربیت کا فقدان ہے ، جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔

نفسیاتی اسباب

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ بچے جو ذہنی طور پر پریشان یا کسی فطری کمی کی بنا پر اپنا اچھا بُرا نہیں سوچ سکتے،ایسے افراد کا شکار ہو جاتے ہیں جو انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ لیکن نظری طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے پاس ابھی تک سائنسی بنیادوں پر جمع شدہ اور مصدقہ اعداد وشمار کا ایسا کوئی جائزہ نہیں ہے جو ان بچوں کے بارے میں جن سے زیادتی کی گئی ہو یہ بات وثوق سے بتائے کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور تھے اور اس بنا پر انھیں غلط استعمال کیا گیا۔

اس کے مقابلے میں جو اعداد وشمار ملتے ہیں وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ اس عمر کے اتنے بچے ان مظالم کا شکار ہوئے یا ان ان صوبوں یا شہروں میں اتنے بچوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے۔ اس طرح کے جائزوں میں بالعموم پنجاب میں ایسے واقعات کی کثرت بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سماجی بگاڑ اور اخلاقی فساد دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہے اور ہرجگہ اور ہرصورت میں ناقابلِ برداشت ہے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر کچھ علاقوں میں ہجوم اور بلوہ کی کیفیت نظر آر ہی ہے ۔ قا نون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی اور عوامی غم وغصہ مل کر جومنظر پیش کررہے ہیں، وہ انتہائی ہولناک ہے ۔ قصور اس کی ایک مثال ہے ۔

معاشرتی اسباب

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ایسے مقام پر آگیا ہے کہ بعض اوقات سوتیلے رشتوں اور بعض اوقات جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر ان خاندانی رشتوں سے احتیاط نہیں کی جاتی جنھیں ہمارے دین نے ہمارے لیے ’خطرناک‘کہا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کا سبب وہ نام نہاد مشرقیت ہے ، جس میں ایک سالی ، بھابی ، سالے یا دیور سے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں ہوتی جو دین چاہتا ہے، بلکہ اس حد کو پار کرکے انتہائی بے تکلفی کی حد تک تعلقات کو بڑھا دیا جاتا ہے جو آخر کار کسی غیر اخلاقی عمل کی شکل میں انجام تک پہنچتا ہے۔یہ معاملہ بالغوں تک محدود نہیں ۔ اس میں بچے (اگر ہم انھیں یونیسکو کی تعریف کی رُو سے ۱۸ سال کی عمر تک بچہ کہیں) بھی شامل ہیں ۔ گویا ہمارے معاشرے میں ہندووانہ رسومات اتنی جڑ پکڑ چکی ہیں اور مغربی معاشرت کو اتنا اپنا لیا گیا ہے کہ اب ان سے خطرناک نتائج کثرت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔

قانونی مشکلات

ایک بات جو بار بار بچوں پر زیادتی کے حوالے سے سننے میں آتی ہے بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں پائی جاتی ہے وہ معاشی ، دیوانی، اور فوجداری معاملات میں نظام عدل میں تاخیر ، مالی اور سیاسی اثرات اور قانونی دفعات کا غلط استعمال ہے۔ جس میں نہ صرف محرراور وکیل بلکہ پولیس اہلکار، حتیٰ کہ وہ منصف بھی شامل ہیں جو ان قوانین کے بارے میں درست معلومات نہیں رکھتے جن کی بنیاد پر وہ فیصلے لکھتے ہیں ۔حدود کے معاملات میں صحیح اور مصدقہ معلومات نہ ہونے کی بناپر      ان دفعات کا استعمال کیا گیا جن کےا ستعمال کی ضرورت نہیں تھی۔خود عوام کو اپنے قانونی حقوق نہیں معلوم ، حتیٰ کہ قانون کے طالب علم اپنے ملک کے دستور کی تمام دفعات سےآگاہ نہیں ہوتے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ بچوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کر دینے سے مسئلے کا حل ہوجائے گا، ایک خیالی جنت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

قانون کا ایک بنیادی کردار معاشرے کے افرادا کو تحفظ اور احساسِ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قانون کا احترام احساسِ تحفظ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر کسی معاشرے میں احساسِ تحفظ اُٹھ جائے تو پھر قانون محض ان کتابوں تک محدود ہو جاتا ہے جو کلیاتِ قانون میں پڑھائی جاتی ہیں۔قانون کا احترام قوت سے نہیں بلکہ تہذیبی شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جو ایک انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سننے اور اس پر عمل کرنے پر ابھارتی ہے ۔کوئی اسے اندر سے پکارتا ہے: یہ غلط ہے، یوں مت کرو!یہ احساس اور کیفیت تنہا کسی خوف سے نہیں بلکہ انسانی فطرت کی پاکیزگی سے پیدا ہوتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں بھی جہاں جرم اور گناہ عام ہو ، صحیح انسانی فطرت ایسے کام کو غلط ہی سمجھتی ہے ۔

جب تک ایک قوم اپنی تہذیبی اقدار پر عامل ہو،اور جب ہر ادارہ سرگرمی کے ساتھ اور شعوری طور پر بچپن سے لے کر جوانی تک اس کی اہمیت سے آگاہ کرےاورعملاً مثال قائم کرے  تو یقینا اس کا مثبت اثر آنے والی نسل پر ضرور پڑے گا۔ اگر ایک تین سال کا بچہ اپنے باپ یا ماں کو کار چلاتے وقت سرخ بتی کا احترام کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، تو وہ خود بھی بڑا ہو کر جب کار چلائے گا تو اس کے تحت الشعور کی آوازاسے ایک غلط کام کرنے سے نہیں روکے گی۔

بُرائی کو روکنے کے لیے قانون کا احترام وہ مثبت ذریعہ ہےجو سزا کے خوف سے زیادہ قانون کے احترام کے ساتھ انسان کی پوری کیفیت کو متاثر کرتا ہے ۔تہذیبی اور ثقافتی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم جس تہذیب کو اپنی پہچان قرار دیتے ہیں، وہ اصلاً ایک اخلاقی تہذیب ہے ۔  قرآن کریم نے اخلاق کی اصطلاح کو اس کے وسیع تر مفہوم میں استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اسلامی تہذیب کی بنیاد وہ اخلاق ہے جسے قرآن نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلُقٍ عَظِیْمقرار دیا ہے، یعنی اخلاق کا نقطۂ کمال۔

ہماری تہذیب جن دو بنیادوں پر قائم ہے وہ حلال و حرام یا طیب اور خبیث یا پاک اور ناپاک ہونے کا احساس ہے۔ جب بھی اور جہاں کہیں بھی کسی معاشرے سے پاک اور   ناپاک ہونے کا تصور مٹ جاتا ہے، وہ معاشرہ درندگی ، دہشت ، ظلم و زیادتی اور بداعمالیوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ اگر ایک بچے کو ابتدا ہی سے یہ احساس ہو جائے کہ اس کے لباس پر اس کے جسم سے نکلنے والا ایک قطرہ بھی لگ گیا تو وہ ناپاک ہو جائے گا، تو وہ مرتے دم تک نہ صرف اپنے لباس بلکہ اپنی زندگی کے ہرہر عمل کو آلودگی سے شعوری طور پر بچانا چاہتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر ایک بچے کی تعلیم و تربیت اس کے والدین کی جگہ کارٹون نیٹ ورک کے سپر د کر دی جائے جو اسے روز چار سے چھے گھنٹے تک دوسروں کو تکلیف پہنچانے ، چکر دینے اور مارنے کی تعلیم دے ، پھر اس سے یہ امید رکھنا کہ اس میں اخلاقی اقدار پیدا ہوں گی ، ایک نیک خواہش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

تہذیبی اور ثقافتی اسباب

حصولِ آزادی سے قبل غیرمنقسم خطے میں حصولِ آزادی کے لیے جدوجہد کے عمل سے جو مسلمان قوم وجود میں آئی وہ اپنی ترکیب میں ایک منفرد قوم تھی۔اس انفرادیت کی بنیاد نہ ہندستان کی زمین تھی،نہ یہاںکا پانی اور ہوا،نہ ان کا رنگ و نسل ، نہ ان کے معاشی فوائد ، نہ ان کی قبائلی اور علاقائی وابستگی۔ وہ جنوب ہند سے ہوں، یا سرحد کے غیور افراد، وہ پنجابی بولنے والے ہوں یا بنگالی بولنے والے ،وہ تاجر ہوں یا ملازمت پیشہ ، ان کا رنگ گندمی ہو یا سیاہ یا وہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں ، ان سب نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا اعلان اور پاکستان کے حصول کے لیے نعرہ بلند کیا تاکہ یہاں اپنی تہذیب و ثقافت اور دین کو آزادی کے ساتھ قائم کرسکیں۔ یہ تہذیب نہ بلوچی تھی ، نہ پنجابی، نہ پشتون، نہ سندھی،بلکہ اسلامی اور صرف اسلامی تھی۔لیکن ملک بننے کے بعد بانیِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے تصورات کو پس پشت ڈال کر عصبیت ، علاقائیت اور صوبائیت کو فروغ دیا گیا  اور ملّی یک جہتی کے لیے کو ئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا ۔

اس خلا کو مغربی تہذیب اور لادینیت نے پُر کیا اورہماری تعلیم ، تجارت ، سیاست، تمدن، معیشت اور ابلاغِ عامہ نے صرف اور صرف لادینیت کی اشاعت کو اپنا مشن قرار دیا۔ تہذیبی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم اپنی نئی نسل کو گذشتہ ۷۰برسوں سے اپنی حقیقی تہذیب سے آگاہ نہیں کراسکے۔ ہماری تہذیب میں بچوں کی محبت ، ماں باپ کا احترام، ایثار اور قربانی ، رشتوں کا احترام، سچائی ، ایمان داری، حلال و حرام کا احساس، پاک اور ناپاک میں تمیز بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک فرد چاہے نمازباقاعدہ نہ پڑھتا ہو، لیکن اس میں یہ احساس ہمیشہ رہا کہ وہ رشتوں کا احترام کرے، لیکن جدیدیت ، مغربیت اور مغرب کی مرعوبیت کے نتیجے میں ہم نے نئی نسل کی  تعلیم و تربیت سے اخلاقی اقدار کو خارج کر دیا اور بزعمِ خویش ’جدیدیت‘ کے راستے پر گامزن ہوگئے۔

ہم نے پہلی جماعت کی کتاب سے لے کر بارھویں جماعت کی کتاب سے ہر اس واقعے کو نکال دیا جس سے اخلاق، مروّت، نرمی ، محبت، ایثار، قربانی کا کوئی سبق مل سکتا تھا۔ نوجوانوں میں بے راہ روی کا ایک سبب یہ تہذیبی اور اخلاقی خلا ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے پیدا کیا ہےاور جسے پُر کرنے کی کوشش میں والدین بھی مکمل ناکام رہے ۔

آج ہمیں جس اخلاقی بحران کا سامنا ہے،اس کا ایک اہم سبب تہذیبی اور ثقافتی اداروں کی ناکامی ہے ۔یہ ادارے ہماری تہذیبی پہچان اور ایک وقت میں ہمارے عروج کا سبب تھے۔ لیکن ہم نے ان کی قدر نہ کی اور انھیں اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔      ان اداروں میں سب سے پہلا ادارہ خاندان ہے۔ہماری ثقافت اور تہذیب میں خاندان محض شوہر، بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچوں کا نام نہیں ہے، بلکہ خاندان کا مطلب وہ سب رشتے ہیں جو ہماری تہذیب کو وجود بخشتے ہیں ۔

 ہماری تہذیب میں بچے کی آمد وہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک با برکت چیز تصور کی جاتی تھی۔کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان افراد کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا تھا جو اپنی تین یا دو یا ایک بیٹی کی صحیح تربیت کر کے اسے صالح لڑکی بنائیں ۔ہم نے جاہلی روایات کو خوش آمدید کہتے ہوئے لڑکیوں کی پیدایش کو ناپسند کیا اور جاگیر دارانہ ثقافت میں ان کےمقام کو ہمیشہ کم تر سمجھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بچوں اور خواتین پر جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب ملک کے ان حصوں میں زیادہ ہے ، جہاں جاگیردارانہ ذہن معاشرے پر حاوی ہے۔

ہم نے اپنی تہذیبی روایات کو چھوڑ کر جس کی پہچان شرم و حیا تھی، بے حیائی کے ساتھ عریانیت اور جسم کی نمایش کو اپنے معاشرے میں ہر سطح پر عام کر دیا۔آج ہمارے اخبارات ہوں،  ٹی وی نیٹ ورک ہوں، ہر جگہ عریانیت کو عام کر دیا گیا ہے۔اس کے اثرات دیکھنے والوں پر شہوانیت ہی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جنسی جذبات و ہیجان کو ابھارنے میں ہمارے ابلاغ عامہ کا کردار بڑا واضح نظر آتاہے۔ظاہر ہے تعلیم اخلاق و تربیت سے خالی ہو اور ۲۴گھنٹے جو مناظر   ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہوں اور وہ جنسی جذبات کو اُبھارنے والے ہوں اور پھر مخلوط معاشرت کو جانتے بوجھتے فروغ دیا جائے، تو نوجوانوں میں بے راہ روی کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے ۔

مغربی سامراجیت ، لادین جمہوریت ، خود پرست انسان، انفرادیت پسند معاشرتی تصوّر کو ’جدیدیت‘ کے زیر عنوان ہمارے اخبار نویسوں ، دانش وروں ، سیاستدانوں نے ملک پر مسلط کرنے کے لیے تعلیم ،معیشت، معاشرت، ہر چیز کو مغرب کے ساتھ مربوط کر دیا ۔ مغربی جمہوریت نے شعوری طور پر خود کو کلیسا کے اثرات سے آزاد کرایا تھا ، ہم نے بھی اس میں خیر سمجھی کہ ’مذہب‘ کو زندگی کے ہر خانے سے خارج کرنے میں پوری قوت صرف کردی جائے۔

پاکستان کی بنیاد ہی اسلام کی آفاقی ، الہامی ، اقدار و اخلاق پر تھی۔ قائداعظم نے خاصی سوچ بچار کے بعد کہا تھا: ایمان، اتحاد ، تنظیم۔ یہ محض تین الفاظ نہیں تھے، بلکہ پورانظریۂ پاکستان ان تین الفاظ کے اندر سمویا ہوا ہے۔ ہم نے اس کا مفہوم آج تک نہیں سمجھنا چاہا ۔

مغربی تہذیب میں جنسی اختلاط ایک روز مرہ کا عمل ہے ۔ اسکول ہوں یا تجارتی ادارے یا سرکاری دفاتر، ہر جگہ مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ہم نے بھی اسی کو ترقی کی علامت سمجھااور اپنے معاشرے میں ’مساوات‘ کے نام پر مخلوط اداروں کو فروغ دیا ۔ اور یہ بھول گئے کہ  یہ تجربہ خود مغرب میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔

مغرب کی مخلوط معاشرت اور معیشت کےحوالے سے صرف امریکا میں اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو ہم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ادارہ والٹر اینڈ میلک (Walters and Melick) کے مطابق امریکا میں ہر سال۱۲لاکھ ۷۰ ہزار خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں، حتیٰ کہ فوج جیسے منظم ادارے میں بھی ان کی عصمت محفوظ نہیں رہتی۔

یورپ اور امریکا میں آج نہیں ۷۰سال پہلے ’جنسی آگاہی‘ کو متعارف کروایا گیا۔ حتیٰ کہ بچوں کے اسکولوں میں مشروبات اور ماکولات کی دکانوںمیں وہ مصنوعات بھی فراہم کر دی گئیں جو جنسی بے راہ روی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ان تمام دانش ورانہ اقدامات کے باوجود اگر دیکھا جائے تو مطبوعہ اعداد و شمار (جو کوئی بھی محقق چند لمحات میں نیٹ سے حاصل کر سکتا ہے)، یہ گواہی دیتے ہیں کہ اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں جنسی تعلیم نہ اخلاقی بے راہ روی کو روک سکی ،اور نہ اس کی بنا پر معصوم بچیاں درندہ صفت انسانوں کی دست برد سے محفوظ ہو سکیں۔

دُورجانے کی ضرورت نہیں صرف امریکا میں بچوں کے ساتھ جنسی بے ضابطگی کے حوالے سے چلڈرن بیورو  نے ۲۰۱۷ء میں ۲۰۱۵ءکے اعداد و شمار پر مبنی جو رپورٹ طبع کی ہے ، اس کے مطابق امریکا میں ایک سال میں ۱۷۴۰بچے جنسی استحصال کی وجہ سے جان سے گئے۔ گویا روزانہ پانچ بچوں کی موت جنسی استحصال سے واقع ہوئی ۔اس سے بڑھ کر جو چیز افسوس ناک ہے وہ یہ کہ ان میں سے ٪ ۸۰واقعات وہ ہیں جن میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جب کہ اس ظلم میں ان کے والدین میں سے کسی ایک کا براہِ راست دخل تھا۔ جنسی استحصال کے کُل واقعات میں کم از کم ۶۰کا تعلق جنسی تعلق سے رہا اور ان میں سے ۹۰ فی صد کسی اجنبی کے ہاتھوں شکارنہیں ہوئے ۔اعداد و شمار   یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان حادثات میں تین سال کی عمر سے ۱۷سال کی عمر تک کے بچوں میں     تین سال کی عمر والے۱۰ء۷ فی صد، جب کہ ۱۷سال کی عمر والے ۳ء۵  فی صد بچے تھے۔گویا   اس درندگی میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے ۔اور گذشتہ تین سال کے جائزے اس رجحان میں اضافے کا پتا دے رہے ہیں۔

کیا کرنا چاہیے؟

مختلف اسباب پر غور کرنے کے بعد عموماً برقی ابلاغ عامہ اور اخبارات میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں ان میں اولاً: اسکولوں میں جنسی تعلیم ، ثانیاً: تعلیم میں بچوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے خبردار رہنے کی تعلیم تجویز کی گئی ہے ۔یہ وہی حل ہے جو امریکا اور یورپ میں گذشتہ ۵۰ برسوں سے متعارف کیا جا چکا ہے،اور اس کے باوجود اوپر کے اعداد و شمار یہ پتا دیتے ہیں کہ اس حل سے مسئلہ وہیں کا وہیں رہا ۔

مغرب میں بچوں کو جنسی تعلیم دینا اس لیے اختیار کیا گیا کہ وہاں معاشرے نے ’محفوظ جنسی‘ تعلق کو جائز قرار دے دیا۔ اس لیے اگر کوئی دوا یا مانع حمل تدابیرکا استعمال کرنا سیکھ لے تو ان کے خیال میں ایڈز اور حمل دونوں سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ ا س تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کوئی بری چیز نہیں ، صرف احتیاط کر لی جائے تو مناسب ہے !کیا یہ حل ایسے افراد کے لیے جن کا دین نکاح کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتا ہو ، قابل قبول ہو سکتا ہے؟

لیکن کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ایک جذباتی فضا میں زینب کے سانحے کے سہارے اس مذموم حل کو نافذکروایا جائے ، بلکہ بہت سے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔  ہرباشعور پاکستانی اس حل کو رد کرتا ہے ، کیوں کہ یہ اس کے دین ، تہذیب اور اس کی اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حل کہ بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے خبردار کیا جائے، خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے ۔کیا خاندان کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ  صرف اپنے ماں باپ پر اعتماد کرے اور باقی ہر رشتے کو شک کی نگاہ سے دیکھے ؟ کیا خاندان صرف   ماں باپ کا نام ہے؟جن مقامات پر یہ فکر اختیار کی گئی ہے وہاں بات رشتہ داروں پر نہیں بلکہ خود والدین تک بھی پہنچی ہے ۔امریکا میں ہونے والے بچوں کے جنسی استحصال میں ۸۰بچوں کی موت میں خود ان کے والدین میں سے کسی کا دخل بتایا جاتا ہے ۔ احتیاط کس کس سے اور کب تک کرائی جائے گی؟

مسئلہ شک و شبہے سے نہیں بلکہ اسلام کے مثبت نظام خاندان سے حل کیا جاسکتا ہے۔  جس میں ماں باپ کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کس طرح تربیتِ اولاد کریں۔ وہ کس طرح محبت اور نرمی کے ساتھ بچوں کو طہارت اور پاکیزہ کردار کی تعلیم دیں ۔ ہمارا فقہی سرمایہ روزِ اوّل سے بچے کو سمجھاتا ہے کہ پاکی اور ناپاکی میں کیا فرق ہے ۔ وہ یہ سمجھاتا ہے کہ وہ نہ اپنے اعضا کسی کو دیکھنے دے، نہ کسی کے اعضا دیکھے ۔ وہ روزِ اوّل سے اس میں ایک اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے جو جنسِ مخالف سے مناسب دُوری اس کی فطرت میں شامل کر دیتی ہے ۔وہ نگاہ کے فتنے سے ، جسم کے لمس سے ، زبان کے فتنے سے ، بچپن سے تعلیم کے ذریعے اپنے گھر کے ماحول میں اسے یہ سب باتیں سکھانا چاہتا ہے ۔ اگر ہم اسلام کی ان عملی اور آفاقی تعلیمات کو خاندان کی   ذمہ داری کے طور پر ادا نہ کریں توقصور خاندان کا ہے یا کسی اور کا ؟

مسئلے کا حل اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آداب و اخلاق کی تعلیم ہے ۔ یہ کام کتابوں میں جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر نہیں کیا جاسکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ جنسی تعلیم انھیں جنسی تجربے پر اُبھارے گی ،جب کہ پاکیزگی ، عصمت و عفت اور رشتوں کے احترام کی تعلیم انھیں مثبت طور پر ایک صالح معاشرے اور خاندان کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گی ۔

اس کے ساتھ میڈیا کے کردار اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو بد اخلاقی پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا فوری اور مؤثر تدارک ضروری ہے ۔بعض افسانے اور ڈرامے بھی جنسی جذبات اُبھارنے کا سبب بنتے ہیں۔ ۵۰ کے عشرے میں تو سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے پر مقدمے بھی چلے اور ایک مقدمے میں تو سپریم کورٹ نے انھیں تین ماہ قید ِ سخت کی سزا بھی سنائی۔ اس طرح کے افسانے آج کل بھی لکھے جارہے ہیں۔ لہٰذا ادیبوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ اسی طرح فیسٹیول کے نام پر بعض ادارے جو مخلوط گانے بجانے کی مخلوط محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ آزادیِ اظہار بجا لیکن وہ آزادی جو اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی کا ذریعہ بنے ، آزادی نہیں فساد اور تباہی کا آلہ ہے ، جسے ملک کے آئین و قانون اور اخلاقی قدروں کا پابند بنانا ضروری ہے ۔پھر اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کی اصلاح ، قانون کا بے لاگ نفاذ ، انتظامیہ ، پولیس اور عدالت کے نظام کی اصلاح اور مجرموں کو قانون کے مطابق بروقت اور قرار واقعی سزا کا دیا جانا اصلاحِ احوال کے لیے اولین ضرورت ہے ۔

روزنامہ جنگ  اور دی نیوز کے صابر شاہ نے ۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء کی اشاعت میں ایک چشم کشا جائزہ مرتب کیا ۔ جس میں اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کے فروغ میں انٹرنیٹ اور میڈیا کے کردار پر بحث کی گئی ہے اور پاکستان اور مغربی دنیا کے حوالوں سے اُن دروازوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، جس سے یہ تباہی خود ہمارے معاشرے کو تہ وبالا کر رہی ہے۔ جہاں ان دروازوں کو بند کرنا ضروری ہے وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو مؤثر سزاکے ذریعے نشانِ عبرت بنانا بھی   ان جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے ۔ صابر شاہ رقم طراز ہیں: ’’ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ ۱۹۸۱ء میں ’پپو‘ نامی لڑکے کو لاہور کے علاقے باغبانپورہ (نزد شالا مار باغ) سے اغوا کیا گیا اور   چند روز بعد اس کی لاش قریبی ریلوے لائن کے جوہڑ سے ملی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں اغوا کنندگان اور قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک ہفتے کے اندر ان مجرموں کو سرعام پھانسی     دی گئی۔ ان مجرموں کی لاشوں کو غروب آفتاب تک لٹکائے رکھا گیا اور اس سخت سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ایک عشرے یا اس سے زائد عرصے کے دوران وہاں کوئی لڑکا اغوا ہوا نہ کسی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔

ہمارے مسائل کا حل ہماری اپنی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور مطلوبہ خاندان کی روشنی میں ہونا چاہیے۔درآمد کیے ہوئے حل نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آج ہو سکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں سے محبت ہے تو ہمیں خاندان ، نظامِ تعلیم اور ابلاغِ عامہ کو صحیح کردار  ادا کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ اس وقت نہ خاندان اپنا فرض پورا کر رہا ہے ، نہ اسکول اور نہ ریاست۔ ہمیں تینوں محاذوں پر کام کرنا ہو گا۔قانون کا مؤثر استعمال اس کا اہم حصہ ہے۔

ہمارے ابلاغِ عامہ کو آفاقی اسلامی اقدارِ حیات کو متعارف کروانا ہو گا اور عریانیت، فحاشی، اور ہندووانہ ثقافت کو جو اس وقت ہمارے ابلاغ عامہ کی پہچان بن گئی ہے ،خیرباد کہنا ہو گا۔ جب تک ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ اس کام کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے جو ظلم اور زیادتی ملک میں ہو رہی ہے ، اس سے اپنے آپ کو بری نہیں کر سکتے۔

قرآن جس ثقافت کا تصور پیش کرتا ہے اس کی ابتدا انکارِ علم یا تشکیک کی جگہ اثباتِ علم سے ہوتی ہے۔ تخلیقِ آدم ؑ کے واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائک کو خصوصی علم عطا کیا ہے لیکن انسان کا علم بعض معاملات میں ملائک سے بھی زیادہ ہے۔

ایمان علمِ حقیقی یا حقیقت ِ عظمیٰ کا نام ہے۔ چنانچہ توحید کا اقرار اور شرک کا ابطال ، حی و قیوم ہونے کا علم اور العزیز الجبار،   رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ  اور رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ   تسلیم کیے بغیر کسی شخص کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں اسلامی ثقافت کو تین بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے، یعنی توحید،رسالت اور آخرت۔ توحید گویا کائنات اور خالق کائنات کے بارے میں اس اعلان کا نام ہے کہ اس کائنات کا خالق و مربی اور ناظم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا اور اپنے اختیارات کے اعتبار سے سب سے بلند ہے۔

انسان عبدِمحض ہے۔ انسان کو عبد قرار دینے کے بعد قرآن اس عبد کو بہترین عبد بنانے اور انسانی تہذیب و ثقافت کے نشوونما کے لیے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن شخصیت کو بطور اسوہ کے پیش کرتا ہے۔ نبی معاشرے کا صالح اور اکمل ترین اور جامع الصفات فرد ہوتا ہے۔     وہ چوںکہ خود ایک معاشرتی زندگی گزارتا ہے اس لیے صرف اسی کا عمل دوسروں کے لیے رہنما     بن سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت میں فرد کا معیارِ مطلوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کائنات کے بارے میں تصورات کی اصلاح کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی و رہنما قرار دینے سے اسلام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکے اور انسان ایک متوازن زندگی گزار سکے۔ اسلامی ثقافت میں کشاکشِ حیات کا مقصد و منتہا اُخروی زندگی کی کامیابی کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اسلامی ثقافت کم تر سے بلند اور بلندتر منزل کی طرف ارتقا کرتی ہے۔ ایک طرف تو تصورِ آخرت انبیاؑ کو جامع و بلند نصب العین فراہم کرتا ہے اور دوسری طرف یہ تصوّر ایک ایسی مشترک بنیاد فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بلاتفریق رنگ و نسل و لِسان ایک اُمت وسط عالمِ وجود میں آتی ہے جو جغرافیائی اور طبعی حدود و قیود سے ماورا تہذیبی یک جہتی کی بنیاد پر ایک عالم گیر معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔

قرآن کی دی ہوئی ثقافت کی یہ تین بنیادیں (توحید، نبوت و آخرت) فرد اور معاشرے کو کمال، خوشی، فرض اور دیگر مقاصد ِ حیات کے محدود نظریات کی پستی سے نکال کر حقیقی خوشی، صداقت اور کمال کی رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔

اسلامی ثقافت ایک ہمہ گیر ثقافت ہے یہ محض چند نفوس کی ذاتی اصلاح اور تربیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے تمام ماننے والوں کو رشتۂ اخوت و ایمان میں جوڑ کر صالح معاشرے کی تعمیر اور عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر انسانی برادری کی تشکیلِ نو کرتی ہے۔ اسلامی ثقافت افراد کے درمیان فلاح اور خیر کو مشترک بنیاد قرار دیتی ہے۔ یہاں پر مسابقت ہے مگر نیکی، شرافت، تعلق باللہ، اطاعت ِ رسولؐ اور ادایگیِ حقوق میں۔ اسلامی ثقافت انسانی زندگی کے ہرگوشے اور ہرعمل کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ زندگی کے ہرعمل میں خواہ اس کا تعلق سیاست سے ہو، معیشت سے ہو، یا معاشرے سے ہو، خواہ ایک شخص کی گھریلو اور خانگی زندگی ہو یا بین الاقوامی مسائل، غرض ہرمسئلے اور ہرمعاملے میں اسلامی تہذیب رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ یہ اصول جس طرح فرد کی زندگی کی اصلاح کرتے ہیں بالکل اسی طرح معاشرے، ریاست اور بنی نوع انسان کی فلاح کی ضمانت بھی دیتے ہیں۔

ماخذثقافت

اسلامی ثقافت خود کو ایک الٰہی تہذیب قرار دیتی ہے اور قرآن اس الٰہی تہذیب میں ماخذ ِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے۔قرآن کسی خاص نسل، قوم یا خطے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ضابطۂ حیات اور دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کی بنیاد پر جو آفاقی ثقافت عالمِ وجود میں آتی ہے وہ تمام تعصبات کو نظرانداز کرتے ہوئے بنی آدم ؑ کو اتحادِ فکر و عمل کے ذریعے ایک عظیم تر انسانی معاشرے میں تبدیل کردیتی ہے۔ دنیا کی کسی اور تہذیب یا ثقافت میں یہ آفاقیت اور ہمہ گیری نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت بنیادی طورپر قرآنی ثقافت ہے۔ یہ معاش و معاد، حلال و حرام اور جائز و ناجائز، غرض تمام مسائل میں قرآن کو رہنما قرار دیتے ہوئے احکامِ الٰہی کے سامنے کامل سپردگی کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ کتاب کو ماخذ مان لینے کے بعد اسلامی ثقافت اس ہستی کو جس پر یہ کتاب نازل ہوئی، مفسرِکتاب اور شارحِ کتاب کا مقام دیتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ماخذ ِ ثانی قرار دیتی ہے۔ چنانچہ قرآن کے عطا کردہ اصول اور نبیؐ کے چھوڑے ہوئے اُسوے میں دو بنیادی ماخذ ہیں جن پر اسلامی تہذیب کے قصر کی تعمیر ہوتی ہے۔

زبان و ادب

اسلامی ثقافت کی ان دو بنیادوں کے مختصر ذکر کے بعد اب ہم ثقافت کے ایک اہم پہلو، یعنی ذریعۂ اظہار کو لیتے ہیں۔ انسانی معاشرہ جن عناصر کے سہارے وجود میں آتا ہے زبان ان میں سے  ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایک لمحے کے لیے زبان کو معاشرے سے الگ کر دیجیے ۔ حُسن، رنگ و بُو، رعنائی و نیرنگی، غرض تمام جسمانی اور نفسیاتی تجربات یکایک وجود سے عدم میں چلے جائیں گی۔ قرآن کی زبان الہامی و توقیفی ہے۔ گو، قرآن کے بیش تر الفاظ لغت ِ انسانی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اپنی بلاغت، ادبیت اور اعجاز کے اعتبار سے یہ اپنی مثا ل آپ ہیں۔ گویا خالص زبان کے نقطۂ نظر سے بھی قرآن بلند ترین ادبی خصوصیات کا حامل ہے۔

قرآن کے ہرکلمے میں زبردست اثرانگیزی ہے۔ قرآن اپنے نظریۂ ادب کی بنیاد کائنات کی ٹھوس حقیقتوں پر رکھتا ہے اور اظہار کے لیے صحت ِ فکر اور عصمت ِ خیال کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اگر حُسن کا معیار معلوم کرنا ہو تو حضرت یوسف ؑ کے حالات دیکھیے۔ اگر ہجر کی لذتوں کا اندازہ کرنا ہے  تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی کیفیات سے گزریئے۔ اگر صبروقناعت کا مشاہدہ کرنا ہے تو حضرت ایوب علیہ السلام کی واردات کا مطالعہ کیجیے۔ اگر استقامت کا مفہوم سمجھنا ہے تو راتوں کو جاگنے والے اور کمبل میں لپٹنے والے، سرورِ دوعالمؐ کے حالات کی ورق گردانی کیجیے، غرض جہنم میں لکڑیاں ڈھونے والی ابولہب کی بیوی سے لے کر حُورانِ بہشت تک ہرمضمون اور ہرموضوع پر زبان و ادب کے مکمل ترین شاہکار قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔ ضرورت صرف دیکھنے والی آنکھ، محسوس کرنے والے دل و دماغ، اور سننے والے کان کی ہے۔

قرآن کریم کے زیراثر وجود میں آنے والی ادبی روایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن نے عربی زبان کو زندۂ جاوید کر دیا ہے۔ اس پہلو سے دنیا کی کوئی تمدنی زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نزولِ قرآن سے آج تک اس زبان کا ادب قرآن کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کے محاورے، روزمرہ اور الفاظ کے استعمالات میں وہ بنیادی تبدیلیاں واقع نہیں ہوئی ہیں جو دنیا کی ساری زبانوں میں گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رُونما ہوتی رہتی ہیں، اور نتیجتاً ایک دَور کی زبان اور اس کا ادب دوسرے دور کے لیے اجنبی اور غیرمانوس ہوجاتاہے۔ نہ صرف یہ کہ قرآن کریم نے عربی زبان کو عالم گیریت سے نوازا بلکہ قرآن کی وجہ سے عربی زبان کے ہزاروں الفاظ دنیا کی دوسری زبانوں میں شامل ہوئے اور ثقافتی اتصال کا ذریعہ بنے۔

شاعری

اسلامی ثقافت کے زیرِاثر وہ عرب شعرا جو زُلف ِ گرہ گیر، نگہ نیم باز، خنجروابرو، لب و رُخسار، اور حُسن و عشق کی حکایات کے لیے مشہور تھے، اب حمدباری تعالیٰ، منقبت ِ رسولؐ، فضائلِ اخلاق، حکایات اور سلوک و معرفت کی منازل جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کرنے لگے۔ قرآن نے شرم و حیا، پاک بازی و عفت کے تصورات دے کر عرب شاعری کو حجاب کی چادر اُوڑھا دی۔ بلاشبہہ قرآن شعر نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ وہ ایسی نثر ہے جس میں شعر کا بانکپن ہے۔ شعریت کا حُسن اس کی سطرسطر سے نمایاں ہے۔ اس خاص اسلوب نے صرف عربی ادب کو متاثر نہیں کیا بلکہ دنیا کی جن جن زبانوں تک قرآن کا پیغام پہنچا ہے انھوں نے اس سے اثرلیا ہے۔ الفاظ، تراکیب اور جملوں کی ترتیب بھی اس سے متاثر ہوئی ہے اور محاورے، تشبیہات، استعارے بھی، غرض ہرہرچیز کو قرآن کے اسلوب نے متاثر کیا ہے، گو عربی قرآن کی زبان ہے خود اُردو پر اس کے اثرات کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قرآن کی حیثیت صرف متاثر کرنے والے کی نہیں بلکہ اس پہلو سے بھی معیار کی ہے۔ اس کا اعتراف اقبال نے اس طرح کیا ہے کہ   ع        آہنگ میں یکتا صفتِ صورئہ رحمٰن

 رسم و رواج

قرآن نے قدیم رسوم و رواج کی مناسب اصلاح کی اور صرف ان رسوم کو باقی رکھا جو اسلام کے بنیادی تصورات سے متعارض نہ تھیں۔ چنانچہ وہ تمام رواج جو انسان کی فطرت سے مناسبت نہیں رکھتے تھے یا جو اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے ٹکراتے تھے اور صدیوں سے عربوں کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے، قرآنی ثقافت نے انھیں یک قلم منسوخ کر دیا، مثلاً غم کے موقعے پر بین کرنا، بال بکھیر کر چہرہ پیٹنا، ایامِ حج میں ستر کو ظاہر کرنا، جسم کو گودنا اور ایسا بنائو سنگھار کرنا جس سے زینت ظاہر ہو اور نامحرموں کے لیے کشش پیدا ہو، منع فرمایا۔ قرآن نے ایسی تمام رسوم و رواج کو تبرج جاھلیۃ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقعے پر بے جا اظہارِ شان و شوکت اور دھوم دھڑکے کو ناپسند کرتے ہوئے فرماںرواے عربؐ نے اپنی صاحب زادیوں کی شادی جس سادگی اور قناعت کے ساتھ فرمائی وہ اُمت ِ مسلمہ کے لیے ایک زندہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس طرح قرآن نے قومی روایت کو رطب و یابس اور منکر سے پاک کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت مند روایت کو معاشرے کا ایک جزو بنایا اور اسے معروف سے تعبیر کیا، یعنی وہ چیز جو جانی پہچانی طور پر اخلاقی ہے۔ اس طرح یہ عظیم تصور دیا کہ دراصل نیکی انسان کی فطرت ہے اور انسان معاشرے کی اصل روایت ہے۔ اُن نیکیوں کو جنھیں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، قرآن ان کو ’معروف‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور یہ وہ بلند ترین مقام ہے جو کسی نظام میں روایات کودیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامی تعامل میں سے وہ چیزیں جو اسلام کی تعلیمات سے متصادم  نہ ہوں اور اس کی روح سے مطابقت رکھتی ہوں، ان کو اسلام اپنے نظام میں ضم کرلیتا ہے اور انھیں ’عرف‘ قرار دیتا ہے۔ پھر قرآن خدا کے رسولؐ کے طریقے کو مسلمانوں کا دائمی طریقہ بناتا ہے اور یہ سنت مسلم معاشرے کی زندہ روایت بن جاتی ہے۔ ہماری تمدنی زندگی میں ان روایات کی حیثیت وہی ہے جو کشتی کے لیے لنگر کی ہوتی ہے۔ اس طرح قرآن نے ہمارے تمدن اور ہماری ثقافت کے چاروں گوشے بھی مقرر کیے اور اس کے ارتقا اور اس کی ترسیل کے لیے بہترین راستے بھی متعین کر دیے۔

معاشرت

قرآن جس معاشرے کاتصور پیش کرتا ہے اس کی بنیادی خصوصیت، معاشرتی عدل ہے، یعنی افراد کے حقوق کا تحفظ ، امدادباہمی و تعاون ، اخوت اور بھائی چارہ اور ضروریات و حاجات کی فراہمی۔ قرآن معاشرتی زندگی کی بنیاد حُرمت اور عصمت کے تصورات پر رکھتا ہے اور متعین طور پر حرام رشتوں کی نشان دہی کردیتا ہے۔ قرآن کے قائم کردہ نظامِ عصمت و عفت میں تمسخر، تہمت،  عیب جوئی، بدگمانی ،بدنامی اور غیبت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے۔

گھریلو زندگی کو ہرقسم کے شک و شبہہ اور مناقشات و اختلافات سے پاک رکھنے کے لیے اتنی احتیاط برتی گئی کہ گھروں میں داخلے کے وقت اجازت کو ضروری قرار دیا۔ افراد کے تشخص کوبرقرار رکھنے کے لیے انھیں مختلف قبائل و شعوب میں بانٹا لیکن جہاں تک انسانی حقوق و فرائض کا تعلق ہے اس میں کوئی تفریق نہیں برتی۔ حتیٰ کہ غلاموں کو جو دنیا کی کسی بھی تہذیب میں عام انسانوں کے برابر نہیں سمجھے گئے، اسلامی ثقافت میں انھیں بھی یکساں بنیادی حقوق فراہم کیے گئے اور غلام سازی کو روکنے کے لیے اخلاقی اور قانونی ضوابط کو متعارف کروایا گیا۔ قرآن کے اس بنیادی نقطۂ نظر کا یہ اثر ہے کہ اس میدان میں بھی ہمارے ثقافتی مظاہر دوسروں سے بہت مختلف ہیں۔ فحش کلامی اورگالم گلوچ کے لیے یہاں کوئی گنجایش نہیں۔ غصہ اور اختلاف کے اظہار کے لیے یہاں اتقوا اللہ اور یھدیکم اللہ  کے کلمات استعمال ہوتے ہیں۔

امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ اگر اہلِ مدینہ کو کسی کو گالی دینی ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ تجھے جمعہ کا غسل نصیب نہ ہو، یعنی ایک نیکی تجھ سے چھوٹ جائے۔ ایسی نیکی جو فرض کے درجے کی نہیں ہے۔ اہلِ عرب آج تک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے لیے یا اس کی بات کاٹتے وقت تعال اللہ  عمرک  (اللہ تیری عمر میں اضافہ کرے) کہتے ہیں۔ قرآن نے کہا کہ والدین کو اُف تک نہ کہو، اور توجہ دلائی کہ تم ان کا احسان نہیں اُتار سکتے۔ ان عالم گیر اور آفاقی و اخلاقی اصولوں کی روشنی میں خاندانی اور اجتماعی آداب کا ایک مکمل نظام تیار کیا۔ معاشرتی زندگی کے یہ تمام ثقافتی مظاہر قرآن ہی کا عطیہ ہیں۔

اکل و شرب اور لباس

بھوک کا رفع کرنا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن انسانوں کو صرف روحانی غذا ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ انھیں خوردونوش کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ قرآن نے غذا کو حلال و حرام کی دوبڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی ان اشیا کی نشان دہی کردی ہے، جو انسان کے لیے مضرت رساں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک عمومی اصول یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ جن اشیا پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور جو ممنوعات میں سے نہ ہوں ان کا استعمال جائز ہے۔ قرآن نے حلال و حرام کے دائرۂ کار کو وسعت دے کر زندگی کے تمام معاملات کو، خواہ وہ انتہائی ذاتی ہوں یا معاشرتی، معاشی ، سیاسی یا ثقافتی، ان دو الفاظ کے ذریعے اچھائی اور بُرائی میں تقسیم کردیا۔ چنانچہ حلال و حرام کا اطلاق محض خوردونوش پر نہیں بلکہ زبان سے کیا لفظ ادا کرنا ہے، کان سے کون سی بات سننی ہے، ہاتھ   کس جانب بڑھنا ہے، پائوں کو کس طرف حرکت کرنی ہے، معاملات کس طرح طے کرنے ہیں، غرض حلال و حرام کی بنیاد پر ایک اخلاقی تہذیب کا وجود صرف اور صرف قرآنِ کریم کا کارنامہ ہے۔

قرآن نے قبل از اسلام کے طورطریقوں ، جن میں بعض غذائوں کا صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونا یا بعض حلال غذائوں کو اپنے اُوپر حرام قرار دے لینے سے منع فرمایا اور اس طرح انسانوں کو کفرانِ نعمت سے روکا۔ غذا کی طرح لباس بھی ایک اہم انسانی ضرورت ہے۔ قبل از اسلام کی ثقافت میں تن کی عریانی ہی لباس بن چکی تھی، حتیٰ کہ حرمِ کعبہ میں برہنہ طواف کرنا ایک عام عادت بن چکی تھی۔ قرآن نے لباس کے سلسلے میں اصول بیان فرمایا کہ وہ ساتر ہو، پاک صاف ہو، سادہ ہو اور دوسری اقوام سے مختلف ہو۔ چنانچہ دورِ نبویؐ کے معاشرے پر نظر ڈالیے تو یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سادہ بالعموم سفید لباس پسند فرماتے تھے۔ آپؐ نے مردوں کے لیے ایسے لباس کو پسند کیا جو مشقت و محنت میں حارج نہ ہو اور جس سے تکبر پیدا نہ ہو۔ چنانچہ ریشمی اور قیمتی لباس پہننے کو ناپسند فرمایا۔ بلاشبہہ لباس کے تعین میں آب و ہوا اور مقامی اثرات کا خاصا دخل ہے لیکن قرآن کے تصورات نے دنیا کے تمام ملکوں میں مسلمانوں کے لباس کا ایک خاص رنگ قائم کر دیا۔ اس میں سادگی، طہارت، نظامِ عبادات سے ان کی مناسبت کے ساتھ حُسنِ ذوق اور سلیقہ کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔

خاص مواقع پر پہننے والے لباس پر قرآن کی موزوں آیات کی کتابت بھی مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے۔اس کا رواج اتنا بڑھا کہ غیرمسلم پادری تک خاص مواقع پر وہ کپڑے استعمال کرنے لگے جن پر عربی الفاظ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ مشہور مؤرخ رابرٹ بریفارلٹ اپنی کتاب تشکیلِ انسانیت میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ آج بھی اشبیلہ کے میوزیم میں ایسی کپڑے پر کاڑھی ہوئی منقش تصاویر (Tapesteries ) موجودہیں جن میں عیسائی پادری وہ چوغے پہنے ہوئے ہیں جن پر قرآنی الفاظ، مثلاً لاغالب الا اللہ تحریر ہیں۔ شاید اسی کیفیت کو اُردو محاورے میں ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ کہا گیا ہے۔

فنون

مفسّرین کا خیال ہے کہ قرآن میں جملہ علوم و فنون کے لیے بنیادیں موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن نے جابجا غوروفکر کرنے اور تحقیق و جستجو اور تلاش کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو محض قرآن کی بنا پر بہت سے فنون وجود میں آئے، مثلاً فنِ قرأت، فنِ تجوید، فنِ کتابت، فنِ کاغذ سازی اور دیگر قسم کے ورق، طغرانویسی، آرایشی و ہندسی خطوط، اُبھارواں و کندہ خطوط، فنِ جلدسازی وغیرہ۔

قرآن کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لیکن مسلمانوں نے مزید احتیاط کے پیش نظر قرآنِ پاک کے الفاظ و معانی کے تحفظ کے لیے فنِ تجوید و قرأت کو فروغ دیا، تاکہ مختلف اقوام کے اختلاط سے (جن کے لہجے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے) قرآن کے الفاظ متاثر نہ ہوں۔ گو، اسلام نے موسیقی کو پسند نہیں کیا لیکن حُسنِ صوت کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ مسلمانوں نے خوش الحانی کے ساتھ قرآن کو پڑھنے کے ذریعے ذوقِ نغمہ کی تسکین بھی کی اور روح کے تغذیہ کا سامان بھی بہم پہنچایا۔

قرآن نے بت پرستی، لہوولعب اور ہرقسم کے شرک کی نفی کی تھی۔ اس لیے اس کے ماننے والوں کے فنون میں قرآن کی ان ہدایات کا عکس نظر آتا ہے۔ تصویر کشی عرب جاہلیہ میں بالکل عام تھی لیکن اسلامی ثقافت میں انسانی شبیہہ اور ذی حیات اجسام کی تصویرکشی کی جگہ ہندسی نمونے،     خط صغریٰ اور قرآنی آیات کے انتہائی خوش نظر نمونے بنائے جانے لگے۔ اوّل اوّل قرآنی آیات پتھروں پر کندہ کی گئیں لیکن دورِ عباسی میں فنِ تعمیر میں وسعتوں کے ساتھ عمارتوں پر ہونے والے پلستر پر، جب کہ وہ تازہ اور نرم ہوتا، سانچوں اور فرموں کی مدد سے آیاتِ قرآنی کے ابھارواں نقوش بنائے جانے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے قیمتی کپڑے تیار کیے جاتے جن میں سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کاڑھی جاتیں اور ان کو رواجِ عام حاصل ہوا۔ بالعموم مساجد کے دروازوں، محرابوں، چھت کے گرد، منبر وں اور چمڑے کے دبیز پردوں پر انتہائی خوب صورت خط میں قرآنی آیات لکھی جاتیں اور نئے نئے نمونے اور شکلیں بنائی جاتیں۔

قرآن کو تحریری شکل میں زیادہ مدت تک محفوظ رکھنے کے لیے قسم قسم کے کاغذ اور دیگر سامانِ کتابت کی ایجاد ہوئی۔ چنانچہ کاغذ کے علاوہ جس کی عمر بہت محدود تھی، اریم، یعنی باریک کھال کی جھلّی، سفید رنگ کے پتھر کی پتلی پتلی اور چوڑی تختیاں (ہمارے ہاں کی سلیٹ سے مشابہ)، کتف، یعنی اُونٹ کے مونڈھے کے پاس سے تراشی ہوئی گول اور پتلی پتلی تختیاں، کھجور کی شاخوں کے چوڑے حصے سے نکالے ہوئے ورق ،بعض نرم لکڑیوں کی تختیاں جن پر تحریر کندہ ہوجاتی اور جنھیں قتب کہا جاتا، ایجاد کی گئیں۔ ان فنون کی ترقی میں سب سے زیادہ دخل قرآنِ پاک کو محفوظ کرنے کی سعی کا تھا۔ اسی طرح روشنائی سازی کا فن بہت ترقی کرگیا۔

اسلامی ثقافت محض چند مفروضوں اور چند تصورات سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہرعمل کے بارے میں واضح اور حقیقی رہنمائی اور ہدایت فراہم کرتی ہے۔  یہ قول و عمل میں تطبیق پیدا کر کے انسان کے علم، عقیدہ، قانون، رسوم و رواج، معاشرت، معیشت، سیاست اور فنون، غرض ان تمام اعمال کو جو انسان معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے انجام   دیتا ہے، آفاقی توحیدی ثقافت و تہذیب کے اخلاقی اصولوں کی روشنی میں ایک نئی شکل دیتا ہے اور انسانی معاشرے کو عدلِ اجتماعی کی بنیاد پر قائم کرتا ہے۔ اس معاشرے میں فرد کی ذاتی تربیت اور شخصیت کے ارتقا کے لیے فطری اور مناسب ماحول کی موجودگی اور ارادہ و عمل کی آزادی ایک متوازن اور صحت مند زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔

اسلامی ثقافت قرآن اور سنت نبویؐ کی بنیادوں پر وجود میں آتی ہے اور اپنی ہمہ گیری کے سبب ہر زمانے اور دور کی ضروریات و مطالبات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ عربوں کے قبل اسلام کے رسوم و رواج کا نام نہیں ہے کیوں کہ اسلام کے آنے کا مقصد عربوں کو اسلام کے ضابطے میں لانا تھا، دنیا کے انسانوں کو عربیت کا رنگ دینا نہیں تھا۔ قرآن کریم کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان اپنے معانی کے بیان کے لیے عربی زبان کو منتخب کرنا ہے۔ اگر قرآن عربی زبان پر یہ احسان نہ کرتا تو عربی بھی عبرانی اور دیگر زبانوں کی طرح سے ایک مدفون زبان بن جاتی۔ قرآنی ثقافت زمان و مکان کی قید اور مشرق و مغرب کے رسوم و رواج سے آزاد ایک ایسے زاویۂ نظر اور طرزِ حیات کا نام ہے، جس نے انسانوں کو جو اپنی تعریف ’ حیوانِ ناطق‘ یا ’معاشرتی حیوان‘ کے کرتے تھے، ایک ’اخلاقی مخلوق‘ میں تبدیل کر دیا جس کا ہرہر عمل عقل و دانش اور وحی الٰہی کے تابع ہونے کی بنا پر مقبول و محمود قرار پایا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عالمی تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی مقصد  اقامتِ دین کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو تحریکات اسلامی کو دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے ۔ بعض دعوتی تنظیمیں اپنی زیادہ توجہ عبادات پر دیتی ہیں ۔ چنانچہ ان کی نگاہ میں نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا صحیح طور پر ادا کرنا دین داری کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد اسی غرض سے دُور دراز کے سفر کرتے ہیں کہ لوگوں کو عبادات کے فضائل سمجھائیں اور بالخصوص نماز کے فرائض اور واجبات سے آگاہ کریں۔ ان کی یہ خدمات قابلِ قدر اور دین کی اقامت کی کوشش کا ایک اہم ابتدائی حصہ ہیں۔ لیکن کیا اقامت ِ دین کی جدوجہد کی ابتدا اور انتہا بس یہی ہے؟

قرآنِ پاک کی تعلیمات اور اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں اس پہلو کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ خصوصیت سے موجودہ عالمی حالات اور اسلام کے باب میں مغربی اور خود مسلم دنیا میں مغربی فکر کے زیراثر سوچنے والے دانش وروں اور نشری اداروں کے اسلام میں دین و دنیا اور مذہب و ریاست کے تعلق کے بارے میں فکری اور سیاسی یلغار کی روشنی میں کچھ عناصر اپنی سادگی میں اور کچھ دوسرے مقاصد سے دین کو مسجد، مدرسہ اور گھر کے دائرے میں محدود کرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا ہدف اسلام کا وہ تصور ہے جو زندگی کی تمام وسعتوں پر حاوی ہے۔ کچھ عناصر کوشش کرتے ہیں کہ تحریکاتِ اسلامی کے تصور ’اقامتِ دین‘ کی اصطلاح کو دین کی سیاسی تعبیر قرار دے کر اس سے اپنی براء ت کا اظہار کریں۔ کچھ اخلاص سے دین کو ایک محدود دائرے میں محصور کررہے اور دوسرے پوری ہوشیاری کے ساتھ دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔

فریضہ اقامتِ دین

تحریکاتِ اسلامی ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح کے استعمال پر اس لیے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے خیال میں اسلام ایک جامع دین ہے اوردین کی جامعیت اس کے معاشرتی ، معاشی ، قانونی، ثقافتی اور سیاسی کردار کےبغیر ممکن نہیں ہو سکتی ۔

اسلام اور عیسائیت میں ایک نمایاں فرق یہی ہے کہ عیسائیت زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات و عمل سے ہے اور دوسرے کا تعلق دنیاوی شان و شوکت اور معا شی اور سیاسی معاملات سے ۔چنانچہ ایک دین دار عیسائی کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتا ہواور اپنے پڑوسی کے ساتھ محبت سے پیش آئے، حضرت عیسیٰؑ کی طرح اگرممکن ہو تو تجرد کی زندگی اختیار کرے اور آخر کار آپ علیہ اسلا م کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقیدے کے تحفظ میں سولی پر چڑھ سکے تو یہ گویا اس کی مذہبی معراج ہوگی ۔ اسلام کا مطلوبہ معیار اس سے بالکل مختلف وہ اسوۂ حسنہؐ ہے، جس میں مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے امتحانات ، ظلم و تشدد سے گزرنے کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرت، اسلامی معیشت، اسلامی ثقافت اور اسلامی طریق حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثال آپؐ نے اپنے عمل سے پیش فرما کر دین کی تکمیل اور تفسیر فرمائی۔ اس طرح اپنے طرزِ عمل کی شکل میں زندگی کی اکائی کو غیر منقسم اور توحیدی بناکر ایک قابلِ عمل نمونہ قیامت تک کے لیے پیش فرما دیا ۔

تحریکاتِ اسلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی جامع تصور اسوۂ حسنہ کو اپنے لیے دین کی مستند تعبیر اورعملی مثال قرار دیتی ہیں۔اس بنا پر ان کے کارکنان راتوں کی تنہائی میں اپنے ربّ کے حضور گڑگڑا کر مدد کی درخواست کرتے ہیں اور دن کی روشنی میں اسوۂ نبویؐ کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اقامتِ صلوٰۃ ، اقامتِ زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت او ران کے نفاذ وقیام اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کو دین کا لازمی عنصر سمجھتے ہیں ۔

سوال کیا جاتا ہے کہ ’اقامتِ دین کی اصطلاح کہاں سے آگئی ؟ ہم نے بچپن سے ارکانِ اسلام کے نام سے کلمۂ شہادت ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں تو سنا ہےکہ یہ دین کے ارکان ہیں ،یہ بھی سنا ہے کہ بعض فقہا جہاد کو چھٹا رکن کہتے ہیں لیکن یہ اقامتِ دین کا تصور کہاں سے آگیا؟‘ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اسلام تو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے اور ظاہر ہے مذاہب عالم عمو ما ًاپنے آپ کو انسان اور انسانوں کےخدا کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہی سے تعبیر کرتے ہیں،جب کہ سیاسی اقتدار ایک مادی اور دنیاوی تصور ہے ۔ اس لیے ان کے نزدیک سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔

یہی وہ بنیادی فکری انتشار ہے جو آگے چل کر یہ بھی سمجھاتا ہے کہ نہ صرف مذہب اور سیاسی سرگرمی دو مختلف چیزیں ہیں بلکہ روحانیت اور للہیت اور معاشرتی اور سیاسی سرگرمی دو متضاد چیزیں ہیں۔ اس لیے ایسے افراد کے نزدیک سچی مذہبیت اور روحانیت یہ ہو گی کہ انسان خاندانی جھمیلوں سے بچ کر رہے اور اپنے رب سے لو لگانے کے لیے کسی خانقاہ ، کسی پہاڑی کے غار ، کسی صحرا میں گوشہ نشین ہو کر اپنے آپ کو ہر طرف سے کاٹ کر اپنے رب کا ’ولی‘ بن جائے ۔ انسانی فکر کے ان لامتناہی تصورات کا سلسلہ کسی ایک مقام پر جا کر نہیں رُکتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر حق کیا ہے ؟کیا اسلام واقعی دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے یا اس کی اپنی کوئی پہچان اور خصوصیت ہے؟

قرآن کریم کی زبان میں اسلام اپنے آپ کو مذہب کی جگہ دین قرار دیتا ہے، اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۹)۔ اس کے ساتھ ہی اپنے بارے میں ایک حرکی تصور دیتا ہے کہ یہ انسان کو تاریکی سے نکال کر نور میں لے آتا ہے ۔ اسی بنا پر ہم اسلام کو توحید کے قیام کی تحریک کہتے ہیں ۔

اقامتِ دین کا مفہوم

اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے بولا جائے ، اس کے معنی سیدھا کر دینے کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ  ط (الکہف۱۸:۷۷) ’’دیوار (ایک طرف جھک گئی تھی اور) گرا چاہتی تھی تو اسے سیدھا کر دیا‘‘، اور جب معنوی اشیا کے لیے بولا جائے تو اس کا معنی، مفہوم کاپورا کا پورا حق ادا کردینے کے لیے آتا ہے ۔

امام راغب الا صفہانی اقامتہ الشئی کے معنی ’’ کسی چیز کا پورا پورا حق ادا کرنے کے‘‘ بیان کرتے ہیں اور قرآن سے دو مثالیں وضاحت کے لیے پیش کرتے ہیں:

 قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ط وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ج  فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ o  (المائدہ۵:۶۸) صاف کہہ دو کہ   ’’اے اہل کتاب ! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں‘‘۔ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا، مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ ﴿

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ o وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ  ط مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ  وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ o  (المائدہ۵:۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے) یہ   اہل کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی رَوش اختیار کرتے تو ہم ان کی برائیاں  ان سے دُور کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔  اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے۔

 گویا اسلام سے قبل بنی اسرائیل کو جب قیادت کی ذمہ داری دی گئی تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ وہ تورات کو پورا کا پورا جیسا اس کا حق ہےسمجھیں ، نافذ اور قائم کریں اور اس میں اپنے مطلب کے اجزا الگ کر کے دین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیں ۔ قرآن کریم نے نہ صرف تورات کے حوالے سے بلکہ دین حق کے حوالے سے بھی جگہ جگہ یہ بات واضح کر دی ہے کہ صحیح اور سیدھا دین اگر ہے تو صرف اسلام ہی ہے۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ  (یوسف ۱۲:۴۰) ’’یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے‘‘۔

اسی دین کی اقامت کے لیے اُمت مسلمہ کو خیر امتہ اور امت وسط قرار دیتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے پر مامور کیا گیاہے ۔ یہ کام جہاں اجتماعیت ، نظم و ضبط اور تحریک کےبغیر عقلاً ممکن نہیں ، وہاں اولین تحریک اسلامی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے جن تربیت یافتہ اصحاب کی ٹیم کو تیار کیا    ان سب نے اجتماعی طور پر مدینہ منورہ میں وہ نظام قائم کیا جس نے عدل، توازن ، عبودیت اور حاکمیت ِالٰہی کی قرآنی تعلیمات و احکام کو اور قرآنی حدود و تعزیرات کو عملاً قائم کر کے دین کے کامل اور قابل عمل ہونے کو قیامت تک کے لیے جیتی جاگتی مثال بنا دیا ۔ سادہ الفاظ میں اقامتِ دین کا مفہوم اسلامی عبادات کے ساتھ دین کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کا زمین پر نافذکرنا ہے ۔

اقامتِ دین کی حکمت

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اقامتِ دین کا مطلب پورے کے پورے دین کو قائم کرنا ہے جسے اس دور میں بظاہر’ بدنام‘کرنے کے لیے مغرب میں ’سیاسی اسلام‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، تو یہ’ سیاسی اسلام‘ ان ممالک میں کیسے نافذ ہو گا جہاں لا دینی جمہوریت یا سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے؟قرآن کریم میں اقامتِ دین کے لیے اُمت مسلمہ کو ذمہ داری دیتے وقت یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ امت کی جواب دہی ہمیشہ بقدر استطاعت ہو گی۔ اگر مسلمان کسی اکثریتی ملک میں جہاں اہل ایمان کو یہ آزادی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھریلو ، معاشی، معاشرتی ، ثقافتی معاملات بلکہ سیاسی معاملات میں ایسے افراد کو ذمہ داری پر مامور کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند ہوں اور ان کے نفاذ کے لیے کوشاں ہوں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں تو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ان سےدین کی اقامت نہ کرنےپر احتساب نہ صرف عقل کا مطالبہ ہے بلکہ قرآن کے واضح احکام کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔

اگر مسلمان کسی ایسے ملک میں ہوں جہاں وہ ’مذہبی آزادی‘کے اصول کی بنا پر دین کے ایک حصے پر عمل کر سکتے ہوں اور بغیر کسی روک ٹوک کے دین کی دعوت بھی پیش کر سکتے ہوں لیکن تبدیلیِ اقتدار ان کے اختیار میں نہ ہو، تو اقامتِ دین کے حوالے سے ان کی ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی اسی حد تک ہو گی جتنا انھیں عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن اس تناظر میں انھیں یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ مقامی صورت حال کے پیش نظر دین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے اس کے سیاسی ، معاشی اور قانونی تعلیمات کے منکر ہوکر دین کو صرف انفرادی زندگی تک محدود کرکے عیسائیت کی طرح ایک روحانی مذہب بنا دیں۔یہ تو اللہ کے دین کے ساتھ مذا ق اورعملی بغاوت ہوگی۔ البتہ دین کو اس کی جامعیت کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حالات کی روشنی میں عمل کریں اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں تو یہ صراطِ مستقیم سے قریب تر ہوگا۔ دین جیسا ہے ویسا ہی رہے گا ___ ہاں، اس کے بعض مطالبات زمان و مکان کی قید کی بناپر اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک ان کےنفاذ کی قوت ہاتھ میں نہ آجائے۔ اس معاملے میں قرآن کریم نے ’تکلیف‘ کے اصول کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے: لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَھَا ج (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے‘‘۔

یہ آیت ہمیں یہ اصول سمجھاتی ہے کہ انسان کس حد تک ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔ اس کی جواب دہی بھی انھی معاملات میں ہے جن میں اسے اختیار ہے ۔ اس لیے یہ ساری بحث کہ امریکا میں یا یورپ میں اقامتِ دین کیسے ہو گی ؟ دین کے بنیادی حقائق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ دین بہت سادہ ، عملی اور عقلی ہے۔ گویا اقامتِ دین سارے کے سارے دین کی تعلیمات کی دعوت اور نفاذکا نام ہے لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ بعض احکام پر مکمل عمل امکان اور اختیار سے باہر ہو تو جس حد تک عمل ہو سکتا ہے اس کا اہتمام وہی دین کا مطالبہ ہوگا ۔ مثلاًایک شخص طاقت ور مومن ہو لیکن اسے زنجیروں سے اس حد تک باندھ دیا جائے کہ وہ صرف رکوع کر سکتا ہو سجدہ نہ کرسکتا ہو تو کیا اس بنا پروہ نماز ترک کر دے گا یا رکوع کرنے کے بعد جس حد تک وہ جھک سکتا ہے ، جھکے گا اور وہی اس کا سجدہ شمار کیا جائے گا اور اس طرح ادا کی گئی نماز اور ایک آزاد فرد کی نماز کی ادائیگی میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی کیوں کہ رب کریم کو علم ہے کہ اس کا بندہ مجبور ہے اور اسی حد تک جسم کو جھکا سکتا ہے جتنا قید و بند میں ممکن ہے ۔

 اقامتِ دین کے لیے تمام موجود ذرائع کا استعمال کرنا اور دین کی تعلیمات کو بغیر کسی کمی بیشی کے بہترین انداز میں پیش کرنا وہ اہم فریضہ ہے جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت مسلمہ کو پسند فرمایا ہے ۔ امت مسلمہ کے لیے اس ذمہ داری پر مقرر کیا جانا ایک ایسا اعزاز ہے ، جس کا    شکر اداکرنا اس پر فرض ہے اور یہ شکر صرف اپنے تمام وسائل کو وہ مادی ہوں ، عقلی اور ذہنی ہوں یا تنظیمی ہوں، حتی المقدور استعمال کر کے ہی ادا کیا جاسکتا ہے ۔

 بنی اسرائیل کو جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب شریعت کو قائم کرنے پر مامور کیا گیا اور انھوں نے اقامتِ دین کے فریضے کی ادایگی جیسا کہ اس کا حق ہے نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ امت مسلمہ کو اپنے فضل سے یہ ذمہ داری سونپ دی ۔قرآن کریم اپنے سے پہلے کے الہامی مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئےکئی مقامات پر وضاحت سے بیان کر تا ہےکہ تمام انبیاے کرامؑ کے آنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قائم کرنایا اقامتِ دین تھا۔فرمایا گیا:

وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط ( المائدہ۵:۶۶) کاش! انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ۔

تورات اور انجیل کے قائم کرنے یا اقا موا کا واضح مطلب ان کتابوں کو طبع کر کے لوگوں میں تقسیم کر دینا یا ان کو خوش الحانی سے پڑھنا نہیں ہے،بلکہ ان احکامات کو نافذ کرنے کے لیے  قوتِ نافذہ کا استعمال کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے حوالے سے اس قوت نافذہ کو واضح الفاظ میں اپنے کلام عزیز میں بیان فرما دیا:

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ط (صٓ۳۸:۲۶) اے داؤدؑ ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔

 یہاں حضرت داؤد ؑسے واضح طور پر جو بات کہی گئی ہے وہ نہ صرف انھیں خلافت پر مامور کرنا ہے، بلکہ قانونی معاملات میں بااختیار حاکم اور قاضی کی حیثیت سے حق پر مبنی فیصلے کرنے کے ذریعے اقامتِ دین کرنا ہے۔اسی سورہ میں آگے چل کر حضرت سلیمانؑ کی وہ دعا بیان کی گئی ہے جس میں وہ اقامتِ دین کے لیے ایسی سلطنت کی خواہش کرتے ہیں جو بے مثال ہو:

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ  اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (صٓ۳۸:۳۵) اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ سلطنت (مُلْکًا) دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔

قرآن کریم عیسائیت اور یہودیت کےاس ذہن کی تردید کرتا ہے جس میں قانون اور روحانیت کو دو خانوں میں تقسیم کرنے کے بعد قانون کو باد شاہت کے لیے اور روحانیت کو اہل اللہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور یہی تصور صدیاں گزرنے پر نہ صرف یہودونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کے کچھ طبقات کے ذہنوں میں ، خصوصاًسامراجی غلامی کے دور میں ، جاگزیں کر دیا گیا، اور اس پر مزید ایک ظلم یہ کیا گیا کہ شریعت کے ایک بڑے حصے کو شریعت سے الگ کر کے خالص روحانیت کے نام سے تصورِ طریقت ٹھیرا کر مشہور کر دیا گیا ۔ قرآن کریم جب اقامتِ دین کا حکم دیتا ہے    تو وہ عبادت، تزکیہ، حب الٰہی، اطاعت رسولؐ، ادایگی حقوق اللہ و حقوق العباد، اجتماعی اصلاح، قیام عدل و احسان میں کوئی تقسیم نہیں کرتابلکہ سب کے مجموعے کو دین القیم کانام دیتا ہے :

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ لا حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ  (البینۃ۹۸:۵) اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃدیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔

اس مختصر آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دین کے جامع تصورکو توحید اور اس کے دومظاہر اقامت صلوٰۃ اور اقامت زکوٰۃکے ساتھ مربوط اور واضح فرمایا ہے،یعنی یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کا پہلا مرحلہ اقامت صلوٰۃ ہے جو اقامتِ دین کی اولین شکل ہے۔ گویا محض نماز کا پڑھنا نہیں کہ پانچ وقت نما زادا کر لی گئی یا رات کی تنہائی میں اللہ کو یاد کر لیا، بلکہ اس نظامِ عدل کا قیام جس میں نماز فحشاء اور منکرات سے بچانے کا کام کرے۔پانچ وقت اس بات کا اعلان و اعادہ کہ اللہ کی زمین پر اگر کسی کی حکومت ہے اور ہونی چاہیےتو وہ صرف مالک وخالق کائنات ہی کی ہوسکتی ہے۔وہی اکبر ہے،وہی اعلیٰ ہے، وہی ہدایت دینے والا ہے، وہی فلاح کا ضامن ہے، وہی اپنے بندوں کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہےاور حکم واختیار صرف اور صرف اس کے لیے ہے۔

سورئہ حج میں اقامت ِ دین کی اس ذمہ داری اور مشن کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ: 

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ  ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اسی طرح ایک صاحبِ مال پر فرض کر دیا گیا کہ وہ معاشرے کے ضرورت مند افراد کو ان کا حق دے۔زکوٰۃ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے اوپر احسان کرنا ہےکہ ایک مستحق کا وہ حق جو صاحبِ مال کو بطور امانت دیا گیا تھا وہ اس نے اصل مالک کوپہنچا دیا۔ اس کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے ایک غریب شخص ایمان کی تکمیل اسی وقت کر سکتا ہےجب وہ زکوٰۃ میں حاصل کی ہوئی مدد کو اس طرح استعمال کرے کہ جلد ازجلد خود زکوٰۃ دینے کے قابل بن سکے۔ اس طرح زکوٰۃ معاشرے میں معاشی خوش حالی اور خودانحصاری پیدا کرنے کے لیے ایک شرعی محرک بن کر صاحبِ مال اور غریب دونوں کو معاشی جدوجہد کی دعوت دیتی ہے۔گویااقامت زکوٰۃ کا مطلب نظام زکوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض چند افراد کی مالی امداد کا نام نہیں، نہ یہ کسی قسم کا ٹیکس ہے جو امیروں پر لگایا گیا ہے۔یہ ایک عبادت ہے۔ یہ فریضہ ہے، یہ شرعی محرک ہے تا کہ غربت دُور ہو اور معاشی استحکام پیدا ہو۔

 نماز اور زکوٰۃ کا یہ نظام دین کی اقامت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے۔ اسلامی ریاست کے فرائض و واجبات میں یہ بات شامل کر دی گئی کہ وہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کے لیے اپنی  قوتِ نافذہ کو ، حکومت کے وسائل و اختیارات کو استعمال کرے گی۔ چنانچہ سورۃ الحج میں صاف  طور پر فرمایا گیا کہ اگر ہم تمھیں زمین میں اختیار دیں تو اقامت صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام تمھاری سرکاری ذمہ داری ہے (الحج۲۲:۴۱)۔دین کی یہ جامعیت ہی ہے جو اسے دنیا کے تمام مذاہب سے ممتاز کرتی ہےاور جس کو نہ سمجھنے کی بنا پر مسلمان اور غیر مسلم سادہ لوحی سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ جس طرح دیگر مذاہب میں Charity  کا تصور ہے ایسے ہی اسلام میں زکوٰۃ کی تعلیم ہے۔زکوٰۃ نہ Charity ہے نہ کوئی ٹیکس اور ذاتی عمل، بلکہ یہ ایک معاشرتی فریضہ ہے جو اجتماعیت کا لازمی حصہ ہے۔ قرآن نے اس انقلابی تصور کو بڑی خوب صورتی سے ان الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے‘‘۔

اگر بنی اسرائیل اور نصاریٰ اس بات کو سمجھتے اور اقامتِ دین کرتے تو قرآن کریم کا فرمان ہے کہ ان پر آسمان اور زمین سے رزق کے دروازے کھل جاتے، آسمان سے رزق برستا اور زمین سے اُبلتا لیکن وہ اقامتِ دین کے فریضے سے فرار اور دین کو انفرادی اور ذاتی مذہبی عبادت سے  تعبیر کر کے ایک بڑے انحراف میں پڑ گئے۔آج اس انحراف کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔      اس انحراف سے نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبینؐ کے ذریعے دین القیم کو اس کی اصل اور درست شکل میں دوبارہ قائم کرنے کے لیے آپؐ کو رحمۃ للعالمینؐ بنا کر مبعوث فرمایااور آپؐ کے بعد اس اقامتِ دین اور شہادت حق کی ذمہ داری کوآپ کی امت پر فرض کر دیا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’اُمّتِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ سے مرادمحض اسلام کے بعض درخشاں پہلو اچھے انداز میں بیان کردینا نہیں ہے، بلکہ اسلام کی ایک ایسی عملی مثال قائم کرنا ہے،جسے آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد ہر دیکھنے والا اسلام کی صداقت پر شہادت دینے پر آمادہ ہو جائے۔ شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بننے کا یہ کام صرف اللہ کی زمین پر اللہ کی ہدایت کے مطابق مکمل نظام عدل کے قیام سے ہی ممکن ہے۔

اقامتِ دین کا اسلوب

اقامتِ دین اور شہادت علی الناس کے فریضے کو قرآن کریم نے جگہ جگہ مختلف حوالوں سے سمجھانے کے لیے دعوتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا ہے۔سورۃالحج میں اس اقامتِ دین کو چار اہم حکومتی فرائض کی شکل میں بیان فرمایا گیا۔ چنانچہ اہل ایمان کی تعریف (definition) یہ کی گئی کہ:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط  وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

لیکن اس سے ایک آیت قبل ان اہل ایمان کی اس ریاستی ذمہ داری کو بیان کرنے سے قبل جو بات کہی گئی تھی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا  ط وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ o نِ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ  يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ  ط (الحج ۲۲: ۳۹-۴۰) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ  وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا ربّ اللہ( ہی) ہے۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا کسی بھی مشرکانہ اور دہریت پر مبنی نظام میں کچھ لوگ وہ چاہے کم تعداد میں ہوں یا زیادہ اگر چپکے چپکے اپنے گھر میں، اپنی مسجد میں، اپنے کلیسا یا مندر میں دن کے اوقات میں اور راتوں کی تاریکی اور تنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتے تو اس طرح کے روحانی عمل سے اردگرد کے معاشرے میں کسی کوکیا پریشانی یا تکلیف پہنچ سکتی تھی؟ اگر مکہ مکرمہ میں مسلمان اپنے گھروں کے اندر بیٹھ کر اللہ کے نام کی تسبیح اور نمازیں ادا کرتے رہتے تو اس سے مشرکین کو کیوں پریشانی ہوتی؟ واضح بات ہے کہ مکہ میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے، اقامتِ دین کے معنی محض ادائیگی نماز کا نام نہ تھا بلکہ تمام جھوٹے خداؤں کی جگہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت کا قائم کرنا تھا ۔ اگر معاملہ صرف اللہ جل جلالہ پر ایمان لانے کا ہوتا تو اہل مکہ بہ آسانی اپنےبہت سے خداؤں میں ایک اللہ کا اور اضافہ کر لیتے۔

بات بڑی واضح ہے۔ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ وہ سارے خدا جو نسل، رنگ، لسانی، قبائلی برتری، اشرافیہ کی منزلت ، دولت کی پرستش ،جنسی آزادی، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت دیتےتھے صرف اللہ کو رب مانتے ہی باطل ٹھیرتے اور مادہ پرست نظامِ معیشت، معاشرت، سیاست اور قانون اور ہر شعبۂ حیات سے بے شمار خداؤں کی بےدخلی کے بعدہی توحید کا قیام ممکن تھااور یہ بات اہل مکہ کو خوب اچھی طرح معلوم تھی۔ وہ توحید کا مطلب شاید ہم سے زیادہ صحیح سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ اس کے شدت سے مخالف تھے۔

دین کی اقامت کا مطلب واضح طور پر توحید کی اقامت تھااور اسی بنا پر مشرکین کے لیے اہل ایمان کا وجود ناقابلِ برداشت تھا۔ یہ بات سمجھانے کے لیے سورۂ حج کی یہی آیت ایک اور اہم حقیقت سے پردہ اٹھا تی ہے کہ انسانی تاریخ میں ظالم اور شیطانی قوتوں کا ہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ دعوت توحید کی مخالفت کریں ۔ا س لیے توحید کے ماننے والوں پر ہر دور میں ظلم کیا گیا اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔اسی بنا پر ان کو جنگ کی اجازت اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے دینی شعائر بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ بھی کر سکیں ۔

مذاہب عالم کی تاریخ اور کتب مقدسہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو اپنے ماننےوالوں پر یہ فریضہ عائد کر دے کہ نہ صرف اپنی مذہبی آزادی اوراپنے عبادت خانوں بلکہ دوسروں کے مقاماتِ عبادت کا بھی تحفظ کریں، تا کہ ان مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوںمیں جا کر اپنے مذہب کے مطابق اپنی مذہبی رسوم ادا کر سکیں ۔قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جویہ کہتی ہے کہ:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰)  اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں۔

یہاں جنگ کی اجازت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ یہ اجازت اجتماعی طور پر جنگ کرنے کی ہے ۔انفرادی طور پر بغیر کسی سیاسی اقتدار کے جنگ کا تصور پوری انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ اقامتِ دین نا ممکن ہو گی اگر اسے محض زبانی اور تحریری اشاعتِ تعلیمات اسلام سے تعبیر کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس طرح اسلام کا قیام اوراسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا نا ممکن رہے گا جب تک قرآن کو قائم کرتے ہوئے اس کے قوانین کو حکومت کے ذریعےنافذ نہ کر دیا جائے۔یہ تمام پہلو قرآن کریم نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیے ہیں اور جو لوگ قانون اور دعوت کے درمیان لکیر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قانون تو انگریز سامراج کا ہو اور مسجد میں عبادت اللہ کی ہو ،    قرآن اس تصور کو سخت الفاظ میں چیلنج کرتاہے۔تورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےسورۂ مائدہ میں فرمایا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ  (المائدہ۵:۴۴) ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔ اس بات کو اگلی آیت میں یوں کہا کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ   (المائدہ۵:۴۵)   ’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔

یہاں اقامت تورات اور اقامتِ دین اور اقامت قرآن کریم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دوٹوک انداز میں واضح فرما دیا کہ جب تک سیاسی قوت اور قانونی قوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ نہ کیا جائے دین کی مکمل اقامت نہیں ہو سکتی ۔یہاں یہ بات دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن مقامات اور حالات میں مسلمان سیاسی غلبہ حاصل نہیں کر پاتے وہاں ان کی جواب دہی صرف ان کے اختیار اور قدرت کی حد تک ہے لیکن اس کے باوجودوہ دین کو مختصر نہیں کر سکتے کہ  ان تعلیمات کو نظر انداز کر دیں جو دین کا لازمی حصہ ہیں ۔

اقامتِ دین کے تصور میں یہ بات فطری طور پر شامل ہے کہ نہ صرف عبادات اور معاملات بلکہ سیاسی اقتدار اور نفاذ قانون کے بغیر دین کے قیام کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا ۔ سورۂ یوسف نے اس پہلو کو نہایت واضح الفاظ میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔پہلے تو حضرت یوسف ؑ اپنے جیل کے ساتھیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا بہت سے خداؤں کی بندگی اچھی ہے یا ایک مالک اور اعلیٰ ترین رب کی؟ پھر آپ ان تک وہ حق پہنچاتے ہیں جس کے لیے آپ اور تمام انبیا کرامؑ بھیجے گئے:

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط   اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ   ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ  ط ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ o (یوسف۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سَنَد نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

قرآن کریم نے حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت یوسف ؑکے حوالے سے یہ بات  وضاحت سے بیان فرمائی ہے کہ اقامتِ دین کے لیے نہ صرف ابلاغ کے ذریعےبلکہ ریاستی ذرائع کا استعمال دین کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔پس یہی وجہ ہے کہ دین زندگی کو دین، چرچ اور بادشاہت میں تقسیم کا روادار نہیں ہے۔ چنانچہ خاتم النبینؐ کی شکل میں نبوت اور ریاست دونوں کو یک جا کرنے کے بعد ہی آپؐ کے اس مجموعی داعیانہ کردار کو اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔جہاں آپؐ کا ہرہر قول و عمل ایک سنت ہے اور آپؐ کی دعوتی زندگی جو ۲۳سالوں پر پھیلی ہوئی ہے اور جو مکی اور مدنی دونوں اَدوار کی اپنی پوری جامعیت کے ساتھ امین ہے اور جس کا نقطۂ عروج آپؐ کا حجِ وداع کا خطبہ ہے، آپ کی سنت ِ کبریٰ ہے جس کا دوسرا عنوان اقامت ِ دین ہے۔

 سیرت پاکؐ کی پیروی اور آپؐ کے اسوہ کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب آپؐ کے مکی اور مدنی دور دونوں پر یکساں عمل کیا جائے اور مکہ کی تیرہ سالہ آزمایش بھری زندگی کی تکمیل کے مدنی مراحل کو الگ نہ کیا جائے ۔ اسوۂ حسنہ مکہ اور مدینہ دونوں کی یک جائی کانام ہے ۔

اسوۂ حسنہ کی پیروی نامکمل ہو گی اگر صرف چند اخلاقی اصول تو اختیار کر لیے جائیں اور آپؐ کے قانونی کردار اور ریاستی معاملات میں آپؐ کےرویے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اقامتِ دین صرف اسی وقت صحیح طور پر ہو سکتی ہے جب یہ دونوں پہلو یک جا ہوں اور ان میں کوئی فاصلہ نہ پایا جائے۔

اقامتِ دین اور عصری رویـے

ان قرآنی حقائق کی روشنی میں دو اہم عصری رویوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔

  •  اول یہ کہ بعض اسلامی تحریکا ت سیاسی تبدیلی کو اس حد تک اولیت دیتی ہیں اور ان کے خیال میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہی اُوپر سے نیچے کی طرف تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے دستوری اور غیر دستوری جو ذرائع بھی ممکن ہوں ان کے استعمال کو بھی درست سمجھتی ہیں۔
  •   دوسرا رویہ یہ ہے کہ راستہ صرف ایک ہے، یعنی نچلی سطح سے اُوپر کی جانب پیش قدمی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اجتماعی اُمور کو متاثر کرنے اور ان کی صورت گری کی فکر کرنا بعد کی بات ہے۔ اصل اور ساری توجہ بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف کرنی چاہیے جس کے لیے عوام الناس میں کام کیا جائے چاہے اقامتِ دین کی اس جدوجہد کے ذریعے انقلاب امامت و قیادت میں غیرمعمولی طویل وقت لگے۔ اس رویے کے ماننے والے مکی دور دعوت اور ابنیاے کرام کے اسوہ کی روشنی میں یہ راے قائم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز عقیدے کی اصلاح اور تعمیرسیرت کی جدوجہد ہے۔ اگر اس دنیا میں کامیابی حاصل ہوجائے تو یہ اللہ کا فضل ہے ، اگر یہاں کامیابی نہ بھی ہو تو آخرت کی کامیابی کا وعدہ ایک مسلمان کے لیے زندگی کا حاصل ہے ۔ اس بنا پر جدوجہد کے طویل ہونے اور نتائج کے حد نظر تک نظر نہ آنے کی بنا پر مایوس ہونا اور اپنی دعوت اور اسوۂ انبیاؑ سے اخذ کردہ طریقِ دعوت پر شک کرنا ہماری بے صبری ظاہر کرتا ہے ۔ ایک مومن کی اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہاں پر کامیابی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انعام و فضل ہے۔
  •   ان دو رویوں کا جائزہ لیتے وقت ایک ضمنی پہلو یہ بھی ابھرتا ہے کہ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں یا ایسی ریاستوں میں جہاں مغربی سیکولر جمہوریت قائم ہے وہاں اقامتِ دین کس طرح کی جائے گی؟ اس اہم سوال پر غور کرنے سے قبل اگر اس بات کا جائزہ لےلیا جائے کہ دعوت دین یا دعوت حق سے مراد کیا ہے؟یہ کس قسم کی شہادت ہے جس کی دعوت قرآن کریم ہمیں دیتا ہے تو سوال کا اگلا حصہ زیادہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی انقلابی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان صرف اور صرف اپنے خالق حقیقی اور مالک کو اپنا رب مانتےہوئےاپنے آپ کو مکمل طور پر  اس کی اطاعت میں دے دےاور اس کام کوشعوری طور پر احساس ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے۔ اسی لیے اس عمل کے لیے شہادت کا لفظ استعمال کیا گیا ۔شہادت قولی ہو یا عملی، ہر دو صورتوں میں انسان پورے احساس ذمہ داری، اختیاراور جواب دہی کےاحساس کے ساتھ ہی شہادت دیتا ہے۔ ایک نابینا شخص کسی واقعے کی عینی شہادت نہیں دے سکتا لیکن کسی بات کی سماعت کی شہادت دے سکتا ہے۔ایک شخص جو سننے کے لیے کسی آلے کا استعمال کرتا ہوسمعی شہادت بھی صرف اس وقت دے سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ وہ آلۂ سماعت پہنے ہوئے تھا۔اس لیےقرآن کریم جب شہادت حق کی بات کرتا ہے تو اہل ایمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے طرزعمل، طرزفکر، اپنے معاشی،سیاسی ،معاشرتی رویے سے توحید کی شہادت دیں گے۔ قرآن کریم جب کسی انسان کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو بات قولی اقرار تک نہیں رہتی فوراً اس اقرار کو ناپنے کا پیمانہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے کہ صلوٰۃ قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ یہ دونوں عبادات اقامتِ دین کی اوّلین مظہر ہیں اور اسلامی معاشرت کی پہچان ہیں۔مدینہ منورہ پہنچنے پر سب سے پہلا کام جو کیا گیا وہ مسجد کے قیام کے ساتھ مدینہ کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ میثاقِ مدینہ قلم بند کیا گیااور اس طرح اقامت صلوٰۃ اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت کا تعین نظامِ عدل کا قیام ، معاشرے سے فواحش اور منکرات کے خاتمے کی بنیادیں رکھی گئیں ۔چنانچہ فرمایا گیا:

 يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸)     اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔

اسی بات کو زیادہ وضاحت سے یوں فرمایا گیا:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمّت ِ وَسَط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

یہ اتنا اہم فریضہ ہے کہ اگر اسے ادا نہ کیا جائےیا اس سے رُوگردانی برتی جائےتو قرآن اس پر وعید کرتا ہے:

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ  ط (البقرہ ۲:۱۴۰) اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟

چنانچہ جو شہادت حق کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلت اور غلامی مسلط کر دیتا ہے:

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ط (البقرہ ۲:۶۱)   ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔

اقامتِ دین ہی وہ واحد عمل ہے جو ذلت و محکومی سے نجات دلا تا ہے۔لیکن یہ کس طرح ہو؟ کیا محض اجتماعات میں تقاریر سے یہ کام ہو سکتا ہے،یا سال میں تین مرتبہ کسی مقام پر چند منتخب افراد کا تین چار دن کےلیے یک جا ہو کر مطالعہ قرآن و حدیث اور نوافل کا اہتمام کرنا اس کے لیے کافی ہے،یا جب تک سیاسی اقتدار حاصل نہ کر لیا جائے؟ تزکیہ و تربیت کردار کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے تبدیلیِ قیادت و نظام اور حصول اقتدار کی منظم جدوجہد کے ذریعے معاشرے کی تطہیر کی جدوجہد کا نام اقامتِ دین ہے ۔اقامتِ دین کا یہ قرآنی شعور ہر دور میں تحریکات اسلامی کے کارکنوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا تسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے ۔ ایک سادہ مثال سے مزید وضاحت کی جا سکتی ہے۔ایک ڈاکٹرکے پاس جب ایک مریض آتا ہےجس کی نبض کی رفتار درست نہ ہو، قلب بھی صحت مند نہ ہو، خون کا دباؤ بھی زیادہ ہو ، سانس لینے میں بھی دقت پیش آرہی ہو، رات کو سو بھی نہیں سکتا، تو وہ اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کرتا ہے کہ اصلاح کا آغاز کہاں سے  کیا جائے۔ چنانچہ معائنے کی روشنی میں ہی وہ دوائیں تجویز کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی مقام پر مسلمان اقلیت میں ہوں اور وہ دین کی تمام تعلیمات کی اقامت نہ کر سکتے ہوں تو اقامتِ دین کا آغاز انھی اقدامات سے ہو گا جن کے کرنے پر وہ آزاد اور مختار ہوں۔ بقیہ تعلیمات کو جوںکا توں مانتے ہوئے مناسب وقت آنے پر ان کا نفاذ کیا جائے گا ۔

اقامتِ دین کے مراحل

اقامتِ دین کا پہلا مرحلہ شعوری طور پر اسلام لانا اور تطہیر افکار یا توحید خالص کا ذہنوں میں جا گزیں کرنا ہے۔ یہ ایک طویل مرحلہ ہے۔ یہ دو چار برس کی با ت نہیں ۔جب مکہ جیسی تربیت گاہ میں کسی اور کو نہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے منتخب کردہ خاتم النبینؐ کو ۱۳سال جدوجہد کرنی پڑی تو ہم  کیسے چار پانچ سال کی مہم میں متوقع نتائج حاصل کر سکتے ہیں (وما توفیقی الا باللہ)۔ ضرورت    اس بات کی ہے کہ نتائج سے بے پروا ہو کر پوری قوت ، حکمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ اقامتِ دین کے پہلے نکتے پر توجہ دی جائے۔اور تطہیر ِ افکا روہ لوگ کریں جو خودنہ صرف تحریکی لٹریچر بلکہ قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ سے سے براہ راست واقفیت رکھتے ہوں اور دعوت کو آسان اور مؤثر انداز سے پیش کر سکتے ہوں، نیز ان کی سیرت ،دعوت کی دلیل پیش کرے:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (حم السجدہ ۴۱:۳۳) اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی، جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

 تحریکاتِ اسلامی کے لیے اصل لمحۂ فکریہ تطہیر افکار اور فہم دین کے حوالے سے یہ جائزہ ہے کہ کیا ان کا ہر کارکن اپنی عملی زندگی اور معاملات سے اپنی دعوت پیش کررہا ہے ؟یا وہ عوامی نعروں سے متاثر ہو کر تحریک میں تو آگیا، لیکن اس کی اپنی زندگی ابھی تک اسی ڈگر پر ہے، جس پر دوسروں کو دیکھتا ہے؟ کیا اس کے معاملات وہ مالی نوعیت کے ہوں یا باہمی تعلقات سے متعلق ہوں، ان اصولوں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی آسان تشریح ایک اہم تحریکی کتاب تحریک اسلامی میں کارکنوں کے باہمی تعلقات میں تحریک کے ایک خادم نے تحریر کر دی ہے، اور کیا اس نے اس تحریر کو شعوری طور پر مطالعہ کر کے جذب بھی کیا ہے؟

نتائج ہمیشہ اسباب کے تابع ہوتے ہیں۔اگر ایک دیوار کی بنیاد کمزور ہو تو عمارت کتنی بلند کیوں نہ بن جائےوہ ناپایدارہی ہو گی۔تحریک اسلامی کی کامیابی محض سیاسی کامیابی اور نشستوں کی تعداد سے نہیں ناپی جاسکتی ۔ اس کا اصل پیمانہ افراد کی اسلامی شخصیت ہے ۔ ان کا خلوص اور دین سے عملی وابستگی ہے۔ اگر یہ ٹھوس بنیاد تعمیر ہو گئی تو نتائج چاہے صدیوں میں نکلیں تحریک ایک کامیاب تحریک ہے۔ نتائج کا نکالنا تحریک کا مسئلہ نہیں،نہ وہ ان کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ مسئلہ اس کا ہے جو اس دنیا میں اصلاح، عدل اور اپنا نظا م چاہتا ہے۔ صحیح کوشش، جدو جہد اورسعی اصل بنیاد ہے۔ کوشش اور جدوجہد ہی کا نام جہاد ہے۔ جتنی کامیابی بدر کی ہے، اتنی ہی کامیابی اُحد اور حنین کی بھی ہے۔ جو اجر بدری کو ملے گا وہی اجر احد اور حنین والے کو بھی ملے گا۔ اس لیے یہ سوال کہ اقامتِ دین کے لیے ہمیشہ اسمبلی نشستیں جیتنا کامیابی کا معیار ہے، قرآن و سنت سے مناسبت نہیں رکھتا۔لیکن  اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ سیاسی جدوجہد کو نظرانداز کیا جائے یا سیاسی جدوجہد کے نتائج کو غیراہم سمجھا جائے۔تاہم، تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا اصل پیمانہ اور معیار محض اس کو نہیں بنایا جاسکتا۔

اقامتِ دین ایسےجامع طرزِعمل کا نام ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کی کوشش اصل ہدف ہے۔ ظاہر ہے اس کا آغاز فکری انقلاب سے ہو گا ، سیرت کے انقلاب سے ہو گا جو آخر کار معاشرت ، معیشت اور قانون و سیاست پر جا کر مکمل ہو گا۔ اقامتِ دین کا آغاز تطہیرِ افکار اور تعمیرِ سیرت سے ہی ہو گا۔ جب یہ بنیادی مرحلہ شروع ہو جائے گا تو فطری طور پر اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اصلاح اقتدار کا مرحلہ بھی آئے گا۔ چوتھا مرحلہ اوّلین تین مراحل کے ساتھ فطری طور پر جڑا ہوا ہے، ان سے الگ اور آزاد نہیں ہے۔

زمینی حقائق کا اِدراک

 یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اقامتِ دین کے لیے تحریک کی حکمت عملی زمینی حقائق پر مبنی ہو نی چاہیے۔ہم کسی بھی معاشرے میں بس رہے ہوں اس کا آغازجب تک گھر سے نہیں ہو گا ہم اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہمیں غیر اسلامی روایا ت اور رواج کو گھروں سے دور کرنا ہو گاتاکہ لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اسلامی گھرانہ اور اسلامی معاشرت کیسی ہوتی ہے۔ ہمیں نہ صرف تربیت کے ذریعے صالح افراد پیدا کرنے ہوں گے بلکہ معاشرے میں بہت سے موجود صالح افراد کو تلاش کرکے اپنے سے قریب لانا ہو گا۔ ان کے خدشات کو دُور کرنا اور ان سے فاصلے کو کم کرنا ہو گا اور زمینی حقائق کے پیش نظر ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔

ان صالح افراد کو بھی محض جمع کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ انھیں مزید عملی تربیت کے لیے معاشرتی کاموں میں مصروف کرنا ہو گا۔شہروں اور دیہا توں میں سڑکوں پر صفائی کی مہم ، مساجد اور مدارس میں تعاون کی پیش کش، مساجد میں حکمت کے ساتھ حلقہ ہاے قرآن کا قیام ، تعلیمِ بالغاں کے مراکز، مساجد کے قریب کسی مطالعہ گھر کا قیام جس میں قرآن و حدیث اور تحریکی لٹریچر نہ صرف کتابی شکل میں بلکہ سمعی مواد کی شکل میں بھی موجود ہو۔بستی کے یتیم و معذور افراد کی خدمت کے لیے مستقل بندوبست، مزدوروں کے مسائل سے آگاہی اور ان میں نفوذ، اساتذہ اور پیشہ ور افراد ، وکلا، تاجر برادری سے محض سیاسی مہم میں نہیں بلکہ ان سے دعوتی تعلق، ان کے مسائل میں آگے بڑھ کر ان کی رہنمائی اور حق کے لیے جدوجہد، اس اولین مر حلے کے لوازم ہیں ۔

پورے ملک میں نجی شعبے میں تعلیم گاہوں کا ایک ایسے مربوط نظام کا قیام ،جس میں وہ نصابی کتب شامل ہوں، جو کردار سازی کرتی ہیں اور طلبہ وطالبات کو ایسا ماحول میسر آئے،جس میں دین کے جامع تصور کو سمجھ سکیں ۔

یہ کام کسی بہت لمبے عرصے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اس سارے کام کو حکمتِ عملی کے ساتھ کرنے میں اصل پیمانہ ہمہ تن کوشش، جذبۂ قربانی، اور اپنی تمام تر قوت کا اقامتِ دین کے لیے استعمال کرنا ہے۔ عزم الامور کے بعد نتائج کو اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس پر چھوڑ دینا ہی قرآن کا طریقہ ہے۔

جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے لیے بھی اقامتِ دین کے ان مراحل میں کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صرف اس کے لیے مکلف ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔ جس نظام میں وہ رہ رہے ہیں اس میں تبدیلیِ امامت کے لیے وہ مشروط طور پر مکلف ہیں، یعنی اگر مکمل بھلائی نہیں پیدا کر سکتے تو کم ازکم کم تر برائی کے ذریعے ایک لمبےعمل کے ذریعے بھلائی کے لانے کے امکانات پیدا کر سکتے ہیں۔ ان سے سوال ان کے حالات کے مطابق اصلاح کی کوشش کے باب میں ہوگا، آخری ہدف کی میزان پر نہیں۔ بلاشبہہ ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ جن معاملات میں ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی، ان میں کیا کارنامہ کیا؟ کیا کسی نے ان کو اس سے روکا تھاکہ وہ اپنے گھر میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اجتماعی مطالعہ قرآن و سیرت کریں؟ کیا کسی نے حکم دیا تھا کہ بچوں کو لازماً عریاں اور جنسی کارٹون دکھائیں؟ کیا کسی نے پابندی لگائی تھی کہ وہ اپنے ارد گرد مسلم اور غیر مسلموں کو اپنے کردار سے متاثر کر کے دین سے متعارف کرائیں؟ کیا کسی نے یہ کہا تھا کہ وہ باہمی تعاون کے ایسے ادارے جو تجارتی کام غیر سودی شکل میں کریں قائم نہ کریں؟

اقامتِ دین کے مراحل واضح ہیں۔ ضرورت اپنے ذہن کو صاف کرنے کی ہےاور یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تحریکا تِ اسلامی نے اقامتِ دین کے جو اَبدی اصول قرآن وسنت سے اخذ کیے ہیں وہ نہ وقتی ہیں نہ جغرافیائی کہ صرف پاکستان یا مصر یا سوڈان میں قابلِ عمل ہوں اور امریکا ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں ان پر عمل نہیں ہو سکتا۔اصل مسئلہ اپنے ذہن کو مغرب کی مرعوبیت سےآزاد کر کے ان اصولوں پر عمل کر کے انھیں عملاً نافذ کرنے کا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو    اپنا تعلق سب سے کاٹ کر صرف اورصرف اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسولؐ سے ایک ایسے عہد کے ساتھ کریں جو صرف ان کے اور ان کے رب کے علم میں ہو ۔