قرآن کریم کی تعلیمات سے واضح اور قطعی ثابت ہے کہ بعثت ِ انبیا ؑ کا مقصد روے زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قیام ہے۔ جملہ انبیاے کرام نے اس کے لیے ہمہ پہلو جدوجہد کی۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عبادت ،بندگی کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تعمیر اور ہر قسم کے طاغوت،بغاوت، سرکشی ، بد اخلاقی اور بد اعمالی سے مکمل اجتناب رہا ہے :
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
اللہ کی بندگی ، عبادت اور اپنے آپ کو اللہ کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سپرد کر دینا ہی اسلام اور ایمان ہے ۔گویا صالح فرد، خاندان ، معاشرہ اورریاست کے قیام میں جو منطقی ربط پایا جاتا ہے، وہ اسلامی ریاست کے قیام کا منہج اور انسانی معاشرے میں معروف کے قیام اور منکر کے رفع کرنے کا اسوۂ انبیاؑ اور خصوصاًاسوۂ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔قرآن کریم نے اس پورے عمل کو صرف ایک اصطلاح ’اقامتِ دین‘ میں سمو دیا۔ نہ صرف حضرت یوسفؑ کے ہاتھوں قیامِ عدل و اصلاح بلکہ ہر دور میں اور ہر مقام پر دعوت،اصلاح اور معروف کے قیام کے لیے اس ایک اصطلاح میں وہ تمام پہلو شامل ہیں، جن کی تفصیل مقاصد ِشریعہ کی شکل میں ہمارے فقہا اور علما نے بیان کی ہے۔ جس کے تحت پورے دین کا قیام یا بالفاظِ دیگر قیام حاکمیت ِالٰہی ہے:
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۴۰(یوسف ۱۲:۳۹-۴۰) اے زنداں کے ساتھیو، تم خودہی سوچو کہ بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کاحکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی (الدِّیْنُ القَیِّمُ )ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے نہ صرف اسلامی ریاست بلکہ انسانی زندگی کے تمام معاملات میں فیصلہ کن اور حرفِ آخر قوت کو صرف اور صرف اپنے لیے مقرر فرما دیا ہے، کہ حاکمیت سیاسی ہو یا معاشی ، دفاعی ہو یا ثقافتی اور علمی___ ہر شعبۂ حیات میں معیارِ حق صرف اور صرف یہ ہو گا کہ کیا اس بات سے رب کریم راضی ہے یا اس کی جگہ کسی اور چیز نے وہ فیصلہ کن مقام حاصل کر لیا ہے، جو صرف مقتدر اعلیٰ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔یہ توحید ذات اور توحید صفات کا جامع اظہار اور تعریف ہے۔
تصورِ توحید
قرآن کریم کی روشنی میں ’توحید‘ ایک کلامی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے تمام اعمال کو متعین اور منظم کرنے والا اصول ہے۔ اگر ایک فرد اپنے خاندان میں معروف کو قائم کرنا اور منکر کو ختم کرنا چاہتاہے تو اسے سوچنا ہو گا کہ اس کے گھر میں جو رسوم و رواج صدیوں سے چلے آرہے ہیں، یا ان کا تعلق جاہلیت کے طور طریقوں سے ہے، کیا وہ توحید سے مطابقت رکھتے ہیں؟ وہ شادی بیاہ کی رسمیں ہوں یا شوہر اور بیوی کا تعلق یا رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا رویہ ہو،ان سب کی بنیاد توحید اور اللہ کو ربّ ماننا ہے۔ کیا اپنے بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرتے وقت معیارِ انتخاب تقویٰ ، حُسنِ کردار اور دین کاعلم اور اس پر عمل ہے یا لڑکے کی مادّی حیثیت، اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا ، بڑا تاجر ہونا، سیاسی رہنما ہونا یا کسی خاص برادری اور ذات سے وابستگی ہے؟اگر بنیاد محض ذات برادری سے وابستگی اور مادی بلند مرتبت ہے تو یہ توحید کی نفی ہے ۔ اگر صلۂ رحمی کی بنیاد بدلے میں فائدہ حاصل کرنا، احسان جتانا، یا لوگوں کو دکھانا مقصود ہے تو واضح احادیث کی روشنی میں اس نیت کا انجام خیر نہیں ہے ، فلاح نہیں ہے ، کامیابی نہیں ہے بلکہ ذاتی تفاخر و نمایش ہے جو توحید کی ضد ہے ۔
اگر ایک شخص کے کاروباری مشاغل کا ہدف اپنی جگہ محض قا رون بننا ہے، تو اس کی تمام کوشش و جدو جہد کا کوئی تعلق اللہ کی بندگی یا توحید سے نہیں ہے بلکہ سیم و زر اور دولت ہی اس کے ’ربّ‘ ہیں۔ اسی طرح اگر ایک شخص سیاسی اقتدار اس لیے حاصل کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے کہ وہ تمام انسانوں پر حکم چلائے، اس کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں، وہ خاص الخاص سمجھا جائے، تو اس کی جدو جہد ایک انتہائی وقتی ، محدود اور ناپایدار احساس کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی عملی تعلق اس کے اس زبانی دعویٰ سے سے نہیں ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہا کے تحقیق کردہ اورمتعین کردہ مقاصد شریعہ(امام غزالی اور امام شاطبی کے زیر اثر) جو روایتی طور پر پانچ قرار دیے جاتے ہیں اور جس میں بعد کے فقہا و علما نے مزید اضافے کیے، ان سب کی بنیاد اگر کوئی ہے تو وہ توحید ذات اور توحید صفات ہے۔اور وہ حدیث محور ہے جو دین کے تمام معاملات کو ربِّ کریم کے لیے خالص کر دینے کی اخلاص نیت کو قرار دیتی ہے۔
تحریکاتِ اصلاح و دعوت جس بنا پر فرد، خاندان ، معاشرے اور ریاست کو مشرف بہ ایمان کرنا چاہتی ہیں، وہ یہی تصور توحید ہے کہ اللہ سبحانہٗ کی حاکمیت محض مسجد میں نہ ہو، نہ محض گھر میں ہو، اور نہ محض حرم کعبہ میں ہو بلکہ تمام انسانی معاملات کا محرک اور مقصد توحید کا قیام ہو۔ اسلام حقیقتاً دین و دنیا کی تفریق کو ختم کر کے تمام روے زمین کو اللہ تعالیٰ کی مسجد قرار دیتا ہے۔ تاکہ اخلاقِ حسنہ کی بنیاد پر تجارت ، سیاست ، معاشرت ، ثقافت، تعلیم ، علمی تحقیق اور سائنسی ترقی، غرض ہر انسانی کاوش کا مقصد بندگیِ ربّ بیان کرتے ہوئے بندگانِ رب کی فلاح ، مصالح عامہ اور ان حقوق کا تحفظ ہو جنھیں نفس، مال ،عقیدے اور عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یہ صرف اسی وقت پوری طرح ممکن ہے جب حاکمیتِ ربّ قائم ہو، اقامتِ دین ہو اور زندگی کے ہر کاروبار سے طاغوت ، ظلم ، بے اعتدالی اور انتہا پسندی کو دور کر کے عدل اجتماعی اور امن و صلح کا قیام عمل میں لایا جائے۔ – یہ بنیادی اور جوہری تبدیلی محض دعاؤں یا تسبیحات یا جلوسوں اور دھرنوں سے نہیں آسکتی۔ یہ منطقی طور پر فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست کے ایمان لانے، یعنی عملاًقرآن و سنت کو اختیار کرنے سے ہی آ سکتی ہے۔ یہی انبیا کرامؑ کی دعوت ہے، یہی اسوہ نبویؐ اور یہی منہج قرآن ہے۔
حاکمیت ِالٰہی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب اقتدار اعلیٰ خالق کائنات کا ہو، جمہور کا نہ ہو۔ مغربی لادینی جمہوریت کا نقطۂ آغاز حاکمیت ِجمہور ہے اور اس بنا پر وہ کسی بھی اسلامی معاشرے میں نافذنہیں کی جاسکتی۔ جو نظام جمہور یا عوام کو حاکم بناتا ہے، وہ توحید کی نفی کرتا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس نظام کو احکام الٰہی کا باغی کہا جائے گا۔قرآن نے حاکمیت ِجمہور کی جگہ حاکمیت ِالٰہی اور خلافتِ جمہور کا تصور دیا ہے، یعنی اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اور ان کا بنیادی فریضہ اقامت دین کے لیے اللہ کی حاکمیت کو اجتماعی کوشش سے نافذ کرنا ہے اوریہ کام باہم مشاورت سے انجام دینا ہے۔ گویا ہر صاحب ِایمان مردوزن، قرآن کریم کے حکم (البقرہ۲:۳۰) کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ لہٰذا تمام مسلم جمہور اصلاً خلیفہ فی الارض ہیں،اگر وہ ان صفات سے متصف ہیں جو خود کلام الٰہی نے بیان کر دی ہیں، پھر وہ حاکمِ کُل ، جو کائنات کا خالق اور رب ہے وہ انھیں بطورِ امانت اختیارات دیتا ہے، جو اقامت دین کے لیے ضروری ہیں۔
اقامتِ دین کا تصور جو سورۂ یوسف کی آیت میں حاکمیت الٰہی کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے،یہ ہے کہ دین حق وہ ہے جو دین شاہ کے مقابلے میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کو معاشرے میں نافذ کرے۔ چنانچہ قرآن کریم نے قوتِ نافذہ کے قیام کے حوالے سے دین کی ہر اس تعلیم کو، جسے ہم نے اپنی محدود فکر کی بنا پر کسی خاص مفہوم میں قید کر دیا ہے ، جگہ جگہ واضح فرما دیا ہے۔ اگر صلوٰۃ ہے تو محض تنہائی میں ربّ کے حضور بندگی کے اظہا ر کے لیے کسی گوشے میں کھڑے ہو کر چند رکعتوں کا ادا کر دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا باقاعدہ قیام، اُمت مسلمہ پر فرض ہے۔ اگر زکوٰۃ ہے تو وہ کسی پراحسان کرتے ہوئے مالی امداد نہیں ہے، بلکہ اس نظام کی اقامت کا نام ہے، جس میں رزقِ حلال پیدا ہو، پھر اس رزقِ حلال میں سے وہ حصہ جو اللہ نے اس رزق میں دیگر افراد کے لیے پہلے سے رکھ دیا تھا، وہ ان تک پہنچانے کا نظام قائم کیا جائے۔ اسی طرح روزہ فقط تزکیۂ نفس کے لیے اپنے آپ کو کھانے پینے سے روکنے کا نام نہیں،بلکہ پورے عالم میں جہاں کہیں اہل ایمان پائے جاتے ہوں، وہ اجتماعی طور پر روزوں کے اہتما م کے ساتھ وہ نظام تربیت قائم کریں ، جس میں جھوٹ سے اجتناب ، شہوت پرستی سے دُوری، غصے اور انتقامی جذبات کا خاتمہ ، غرض تمام فواحش سے اجتناب ہو اور تمام حسنات ، بھلائیوں ، نیکیوں ، معاشرے کے معذور افراد کی دیکھ بھال، انھیں کھانا کھلانے ، کپڑا پہنانے ، ان کی مشکلات کو دور کرنے کا اہتمام کیا گیا ہو۔
اقامتِ دین محض محاسنِ اسلام پر ایک علمی مقالہ لکھنے کا نام نہیں، بلکہ دین کو مکمل طور پر تمام شعبہ جات میں نافذ کر دینے کی جدوجہد کا نام ہے، تاکہ:
وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ۰ۚ (الانفال ۸:۳۹)دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔
اپنی زمین پر اپنا نظام قائم ہوتے ہوئے دیکھنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے۔ وہ اس کام کے لیے انسانوں کو اپنا خلیفہ بنا کر انھیں اعلیٰ اجر کا مستحق بنانا چاہتا ہے۔ اور اگر کوئی انسانی گروہ اس سے بندگی کا عہد کرنے کے بعد بھی، اس فریضے کو ادا نہ کرے تو وہ اس گروہ کی جگہ کسی اور قوم کو لاکر یہ مقصد پورا کر سکتا ہے:
اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۰ۥۙ وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۳۹ (التوبہ ۹:۳۹)تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمھیں درد ناک سزا دے گا ، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا ، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اقامت دین کا واضح مفہوم قرآن و سنت کی جملہ اخلاقی تعلیمات کا نافذ کرنا ہے ، جس میں معاشی، معاشرتی ، تعلیمی ، سیاسی ، دفاعی، ثقافتی، غرض تمام ممکنہ انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔حاکمیتِ الٰہی اور اللہ کی بندگی چند مخصوص اوقات اور چند مخصوص مقامات تک محدود نہیں کی جا سکتی ۔ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کا مفہوم کبھی یہ نہیں تھا کہ سیاسی حاکمیت تو عوام کی ہو، اور صرف مسجد کے اندر حاکمیت اللہ کی ہو۔ حاکمیت ِجمہور کے برعکس خلافت ِجمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جمہور بطور خلیفۃ اللہ، اللہ کے احکام کو نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لیے وہ نظام وضع کرے، جس کے ہر شعبۂ حیات میں قرآن وسنت کی پیروی کی جائے ۔
تحریکاتِ دعوت و اصلاح اسی بنا پر حاکمیت الٰہی اور خلافت جمہور کو اپنے منشور کا نقطۂ آغاز قرار دیتی ہیں ۔ اپنے آپ کو اللہ کا خلیفہ ثابت کرنے کے لیے ایک مسلمان کو وہ سب کچھ کرنا ہوگا، جسے قرآن کریم نے اہل ایمان کی صفات کی شکل میں تقریباً ہرصفحے پر بیان کر دیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلب ایمان سے روشن ہیں ۔جو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور ان کی یہ یاد انھیں حصولِ دولت اور حصولِ اقتدار میں بھی اللہ کے خوف اور محبت سے وابستہ رکھتی ہے ۔ اس لیے جمعے کی نماز مکمل ہونے پر جب وہ زمین پر پھیلتے ہیں تو اپنے ساتھ اللہ کی یاد کو مسجد میں چھوڑ کر دولت و اقتدار کے بندے نہیں بن جاتے۔ اللہ کے فضل کا حصول اور اللہ کے ذکر کا اہتمام ہر جگہ ان کا شعار ہوتا ہے۔ بازار ہو یا پارلیمنٹ وہ جہاں بھی ہوں وہ عوام کی حاکمیت کے علَم بردار نہیں بنتے، خلافتِ جمہور اور حاکمیت الٰہی کے لیے اپنی تمام جدوجہد کو مرکوز کر دیتے ہیں ۔ اسلام جب تمام زمین کو اہل ایمان کے لیے مسجد قرار دیتا ہے تو پھر پارلیمنٹ ہو یا بازار، ہر جگہ اللہ کی حاکمیت کو اس کے خلیفہ کی حیثیت سے نافذ کرنے کا نام خلافتِ جمہور ہے ۔ یہ حاکمیت ِجمہور کی ضد اور تردید ہے۔ –یہ انسان کا مقصد تخلیق ہے ۔
دین کا یہ جامع اور اجتماعی تصور ہی تحریکاتِ دعوت و اصلاح کی پہچان ہے ۔ وہ دین کی محدود تعبیر کی جگہ دین کے کُلّی مفہوم کی علم بردار ہیں اور اس بنا پر انھیں محض ’نظریاتی‘ سمجھنا یا کہہ دینا ان کے عملی پہلو کو نظرانداز کر دینے کے مترادف ہے ۔ نظریات عموماً انسانوں سے وابستہ ہوتے ہیں، جب کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مکمل نظامِ فکر وعمل ہے۔ یہ دستور حیات ہے ، یہ وہ ہدایت نامہ ہے جو اَبدیت کا حامل ہے ۔یہ کسی وقتی معاشرے کی پیداوار نہیں ہےکہ کسی انسانی تاریخ کے کسی مخصوس دور میں پیدا ہوا ہو،اور وقت کے ساتھ معدوم ہوجائے۔ – یہ ابدی صداقت اور ابدی عملیت سے آراستہ ہے ۔ کیوں کہ اس کی تعلیمات کسی انسان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ یہ خالق کائنات کا براہ راست کلام ہے ۔اسی بنا پر اس میں اَبدیت پائی جاتی ہے اور ہر دور کے لیے افادیت ، فلاح، سعادت اور کامیابی کے اصول فراہم کر دیے گئے ہیں۔
اسلام انسانوں پر ’عربیت‘نافذ کرنے نہیں آیا ہے بلکہ عربوں کو اسلامیانے اور اسلام کا علَم بردار بنانے کے لیے آیا تھا ۔تاکہ یہ علَم برداری کسی رنگ ، نسل، خطے میں نہیں بلکہ اپنے اصولوں اور عمل کی بنا پر انسانیت کی میراث بن جائے اور اس کی عالم گیریت اس کو تمام دیگر نظام ہاے حیات سے ممتاز کر دے۔
قرآن کریم نے سورۂ مومنون میں اجمالی طور پر ان صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کو اقوام عالم کی قیادت کے لیے تیار کرتی ہیں:
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دُور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو ان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (المومنون ۲۳:۱-۱۱)
قرآن کریم آخرت کی کامیابی اور فلاح کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور نفاذ سے مشروط کرتا ہے ۔چنانچہ ایمان کے ساتھ ایمان کے پیمانے، یعنی وہ نماز جو خشیت الٰہی والی ہو، وہ زکوٰۃ جو نظام زکوۃ کے ساتھ ادا کی جائے ، وہ جنسی اخلاقیات جس میں جنسی تعلق صرف وہ ہو جو ربّ کریم نے جائز قرار دیا ہے ۔
اسی طرح ذمہ داریوں کو امانت اور اہلیت کے ساتھ پورا کرنا اور معاملات میں جو عہد و پیمان اللہ کی مخلوق کے ساتھ کیےہوں، وہ چاہے معاشی عہد ہوں، سیاسی وعدے اور ووٹ ہو ، بین الاقوامی معاہدے ہوں ، ایک شوہر کا بیوی کے ساتھ عقد نکاح ہو، غرض یہ کہ ہر وہ عہد اور معاہدہ جو انسانی معاشرے میں کیا گیا ہو، اگر اسے جیسا اس کا حق ہے پورا کیا گیا ہو، تو رب کریم جنت کا وعدہ فرماتا ہے کہ ایسے اہل ایمان کو میراثِ جنت ملے گی۔ یہ میراث محض جنت کی حد تک نہیں ہے بلکہ زمین میں اقتدار و خلافت کی شکل میں بھی بطور انعام عطا فرمائی جاتی ہے: ’’ اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد کہہ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے(النبأ ۱۰۵:۲۱)۔ اسی بات کو مزید وضاحت سے حضرت موسٰی کے حوالے سے فرمایا گیا:
موسٰی نے اپنی قوم سے کہا ، ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا’’ تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے ، اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھا را رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ ۔(الاعراف۷:۱۲۸-۱۲۹)
قرآن کریم نے زمین پر وارث بنائے جانے یا خلافت جمہور عطا کیے جانے کو جن شرائط سے وابستہ کر دیا ہے، وہ قرآن کریم نے جگہ جگہ بڑی وضاحت سے بیان فرما دی ہیں ۔یہاں تقویٰ اور صبر کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے قبل عہد و امانت ، قیام نظامِ صلوٰۃ اور صنفی اخلاقیات کو اور دیگر مقامات پر صحیح ناپنے تولنے کو ، صلہ رحمی کو ، معروف کے قیام اور منکر کے خلاف جدوجہد کرنے کو ، قوانین الٰہی کے قیام کے ذریعے حاکمیتِ الٰہی کے قیام کو ، غرض کثیر مقامات پر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ خلافت جمہور اسی وقت بطور انعام عطا کی جاتی ہے ، جب اقامت دین صبر وحکمت اور بغیر کسی مداہنت کے اختیار کی جائے۔
اس خلافت یا وراثت پر جن افراد کو مامور کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ان پر یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ یہ خلافت تمھارا امتحان ہے کہ تم کس طرح اللہ کی بندگی ، اقامت دین اور نفاذ احکام الٰہی کرتے ہو ۔ اگر حصول اقتدار کے بعد وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم اپنی ووٹ کی قوت سے یا سڑیٹ پاور سے یا اپنے عوامی نعروں کی بنا پر کامیاب ہوئے ہیں، اس لیے اب جو چاہے کریں تو بہت جلد ان کو زوال آجاتا ہے اور اگر وہ اسے عطیۂ الٰہی سمجھتے ہوئے ، امانت سمجھتے ہوئے ، امانت کا حق ادا کرتے ہیں، تو زمین ان کے لیے اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان رحمتوں کی بارش کر دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں وہ جنت کے وارث قرار پاتے ہیں ۔اقامتِ دین اور نظام اسلامی کے قیام کے لیے، جن خصوصیات اور ذمہ داران کو جن صفات کی ضرورت ہوتی ہے، قرآن کریم نے ان کو بھی آسان اور متعین الفاظ میں طے کر دیا ہے، تاکہ اہل ایمان کسی ابہام یا غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
اسلامی سیاسی نظام کی پہلی اور سب سے نمایاں خصوصیت شخصی آمریتوںکی جگہ حاکمیت ِالٰہی کا قیام ہے، یعنی ریاستی پالیسی اور فیصلوں کی بنیاد الہامی ہدایت ، قرآن و سنت کی حاکمیت ہے ۔ حاکم اعلیٰ صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہے ۔ کوئی صدر اور کوئی پارلیمنٹ حاکمیت الٰہی سے برتر نہیں ہے اور نہ صدر ، نہ وزیر اعظم ، نہ پارلیمنٹ یا اس کا کوئی رکن قانون سے برتر یا مستثنیٰ (immune) ہے۔ کسی صدر یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو قرآن و سنت کی دی ہوئی شریعت کے کسی حکم میں تبدیلی یا معافی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔مثال کے طور پر اگر قانونی کارروائی کے بعد ایک قاضی یا جج کسی قاتل یا باغی کو شریعت کے مطابق سزا دیتا ہے، تو وہ سزا نہ صدر، یا وزیر اعظم معاف کرسکتا ہے اور نہ سپہ سالار اعظم۔
شورائیت
دوسری اہم خصوصیت اسلامی نظامِ سیاست کا شورائی، یعنی مشاورتی اور consultative ہونا ہے ۔جو دین شارحِ اعظمؐ کو مشاورت سے فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے اور پابند کردیتا ہے ، وہ کسی نام نہاد صدر یا وزیر اعظم کو ویٹو (veto)کا حق نہیں دے سکتا ۔ ایک مثالی اسلامی ریاست میں حکمران شوریٰ کے پابند ہیں۔ کیا وجہ تھی کہ اموالِ فئے کےمعاملے میں صحابہ کرام ؓتین دن رات مصروف شوریٰ رہے اور جب ایک نص قرآنی مل گئی، تو پھر عزم الامور اختیار کیا۔کیا وجہ تھی کہ زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف اقدام پر مسلسل شوریٰ ہوئی اور جب خلیفۂ وقت نے قرآنی دلیل کی بنا پر ثابت کیا کہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے منکر کے خلاف جہاد شریعت کا تقاضا ہے، تو انشراح قلب کے ساتھ سب نے اس پر عمل کیا۔ کیا وجہ تھی کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر و حنین اور کئی دیگر مواقع پر اجتماعی راے پر عمل کرتے ہوئے قرآن کے اصول کو عملاً نافذ فرمایا۔شوریٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اصحاب شوریٰ مصالح امت کے پیش نظر پوری قوت سے مسئلے کے ہر پہلو پر بحث و گفتگو کریں۔ لیکن جب ایک بات طے ہو جائے، چاہے اس کے لیے ایک تعداد کو اپنی راے کی قربانی دینی پڑے تو پھر اجتماعی فیصلے کی برکت پر اعتماد کرتے ہوئے وہی راے سب کی راے ٹھیرے، اور کسی کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ مجلس سے باہر اپنی دانش وری کے دعوے کرتا رہے ۔
امانت واہلیت
تیسرا اہم اصول ذمہ داریوں کا صرف ان افراد کو دیا جانا ہے، جو ان ذمہ داریوں کے اہل ہوں۔ قرآن کے اس واضح حکم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے فرد کو جو خود تعلیم کا مستحق ہو، وزیر تعلیم بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو طب کی الف با سے بھی واقف نہ ہو وزیر صحت بنانا، یا کسی ایسے فرد کو جو اُمورِمملکت کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا ہو، محض اس کی شکل وصورت اور صحت مندی دیکھ کر اُمورِمملکت اس کے حوالے کر دینا قرآنی اصول اور روح کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔
پاکستان کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ پر اگر خلوصِ نیت سے عمل کیا جائے، تو اس غلطی کے امکان کو بہت کم کیا جاسکتا ہے ۔امانت سے مراد محض مالی امانت نہیں ہے، بلکہ بات اور زبان کی ا مانت ، صلاحیت کی امانت ، جو اختیارات کسی کے سپرد کیے جائیں، ان کی حفاظت، خود اپنے دینی شعور کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال ، غرض یہ امانت واہلیت اسلامی نظام حکومت کی ایک بنیادی خصوصیت ہے ۔
اسلامی ریاست میں اعلیٰ ترین افراد کوبھی جو ذمہ داری دی گئی ہو، اس کے لیے وہ عوام الناس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی بات سننے سے پہلے عوامی اجتماع میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کُرتا جو آپ نے پہنا ہے، اس کے لیے اضافی کپڑا کہاں سے آیا ؟ اس سوال کے اٹھانے پر نہ خلیفہ کے محافظ سوال اٹھانے والے پر لپکے اور نہ اسے کسی نے گھور کر دیکھا بلکہ خلیفۂ وقت نے اپنے بیٹے سے جواب کے لیے کہا، جس نے عوام کے سامنے یہ بات واضح کر دی کہ چوںکہ وہ کپڑا جوخلیفہ کے حصے میں ایک عام شہری کی طرح آیا تھا چھوٹا تھا، اس لیے اس نے اپنے حصے کا کپڑا بھی باپ کو دے دیا، تاکہ اس سے کم از کم اس کے باپ کا ایک کُرتا بن جائے۔ یہ احتساب اختیارات کا بھی ہے ، ذاتی زندگی کا بھی، مالی معاملات کا بھی اور ریاستی حکمت عملی کا بھی۔ اور یہ محض پارلیمان یا شوریٰ کے افراد کا حق نہیں ہے بلکہ ہر عام شہری یہ حق رکھتا ہے ۔کیا دنیا کی کسی پارلیمنٹ کا ارتقا اس مقام تک پہنچا ، جس سے اسلام اپنی سیاسی حکمت عملی کا آغاز کرتا ہے !
ہم نے مختصر طور پر محض چند بنیادی امور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی ریاست کیا ہے۔ مدینہ منورہ میں اس کے قیام اور بعد کے اَدوار پر مفصل اور تحقیقی موادکی کمی نہیں ہے ۔ ایک جامع کتاب محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اسلامی ریاست ہے ، دوسری محترم مولانا امین احسن اصلاحی کی معرکہ آرا تصنیف اسلامی ریاست ہے۔ پھر ڈاکٹر حمید اللہ کے مضامین پر مبنی Muslim Conduct of State ایک وقیع علمی کتاب ہے ۔ علامہ محمد اسد کی اسلام کا سیاسی نظام (انگریزی میں ) ایک اہم تصنیف ہے ۔
انگلستان سے اسلامک کونسل آف یورپ نے تین نہایت اہم بیا نیے (declaration ) شائع کیے:lUniversal Declaration of Islam, lInternational Declaration of Islamic Human Rights, lA Model Islamic Constitution یہ ڈیکلریشن اسلام کے پورے نظام کو جدید حالات کے پس منظر میں پیش کرتے ہیں اور انھیں عالم اسلام کی مقتدر شخصیات نے مرتب کیا ہے۔پھر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی صدارت میں جاری ہونے والا بیانیہ الوسطیۃ بھی اس سلسلے کی ایک قیمتی دستاویز ہے۔مختصراً جماعت اسلامی کے ۱۹۵۸ء سے ۲۰۱۸ء تک کے انتخابات کے جاری ہونے والے منشور بھی اس سلسلے میں تبدیلی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا کہ مدینہ کی ریاست کیسی تھی اور آج کس طرح اس کی روشنی میں ریاست قائم ہو؟ کوئی قیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انتہائی واضح اور ٹھوس حقائق کی شکل میں، ان تمام سوالات کے جواب تحریری شکل میں موجود ہیں ۔ ایسے واہمے بعض حضرات اسلامی مصادر سے دُوری کی بنا پر یا اپنی سادہ لوحی کی بنا پر اٹھاتے ہیں ۔اس تحریر میں ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ عصر حاضر میں تحریکاتِ دعوت و اصلاح ، اقامت دین اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو کوششیں کر رہی ہیں، اختصار سے ان کے تصور کے خدوخال کیا ہیں، اور یہ بتانا ہے کہ نہ تو وہ کسی مغربی لا دینی ، اشتراکی یا سرمایہ دارانہ تصور سے متاثر ہیں اور نہ ان کی دعوت اور مغربی لادین جمہوریت میں کوئی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ اسلام حاکمیت الٰہی اورخلافت جمہور کا علَم بردار ہے،جو مغربی تصور ِریاست سے بالکل مختلف تصور ہے۔ دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ اسے سمجھے اور مدّنظر رکھے بغیر صحیح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔