سوال : قرآن پاک میں آیا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا ’’یعنی اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی‘‘ ۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں کوئی exception [استثنا] نہیں ہے، مثلاً اگر آگ کی خاصیت جلانا ہے تو وہ ہر ایک کو جلائے گی۔ لیکن بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں بھی ہوتا، جیساکہ حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ ہے، اور ایسے ہی بعض دوسرے معجزات ہیں۔ توکیا معجزات کا صدور اس آیت کے خلاف نہیں پڑتا؟
جواب :لوگ دراصل context[سیاق و سباق] سے بات الگ کر کے اس کا مطلب نکالتے ہیں۔ وہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو قوم اللہ کے نبی ؑ کو آخرکار جھٹلا دیتی ہے، اللہ اسے تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اب اس خاص موقعے سے الگ کر کے اس آیت کا مطلب نکالا جائے گا تو صحیح مفہوم خبط ہوجائےگا۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی سنت کیا ہے اور کیا نہیں؟ اس کا تعین اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ آگ ہمیشہ اور ہرمقام پر جلانے ہی کا کام کرے گی؟ اس کی اس چھوٹی سی زمین میں جو ایک بہت بڑی لامحدود کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، یہ بات آپ کو نظر آتی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔ اس پر آپ نے اسے اللہ کا قانون قرار دے لیا، کہ آگ جلاتی ہے اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہوسکتا۔ آخرکار یہ معلوم کرنے کا آپ کے پاس کیا ذریعہ ہے کہ اللہ کا قانون یہی ہے؟
جہاں تک آگ کا جلانا ایک physical law [طبعی قانون] قرار دیا جاتا ہے تو اس ’فزیکل لا‘ کی حیثیت کائنات کے لامحدود حقائق کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے کہ وسیع سمندر کے مقابلے میں چندقطروں کی ہوتی ہے۔ جو حقائق آج آپ کو معلوم ہیں اور آپ انھیں ’فزیکل لا‘ قرار دیتے ہیں۔ جب تک وہ حقائق آپ کو معلوم نہیں تھے تو آپ کا وہ ’فزیکل لا‘ (طبعی قانون) بھی کوئی چیز نہیں تھا۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو پہلے انسان کو معلوم نہ تھیں توفزیکل لا نہ تھیں۔ سوسال پہلے اگر کوئی کہتا کہ ایک ایسی سواری ہےجو ہوا میں اُڑ سکتی ہے تو لوگ اسے کہتے کہ ’تو جھک مارتا ہے‘ کیوں کہ ان کے نزدیک یہ چیز اس وقت تک کے معلوم حقائق کے مطابق ’فزیکل لا‘ کے خلاف تھی۔ ان کے نزدیک تو ’فزیکل لا‘ یہ تھا کہ جوچیز ہوا سے زیادہ بھاری ہو، وہ ہوا میں نہیں ٹھیرسکتی۔ لیکن اب یہی چیز علم کے ذریعے سامنے آگئی ہے تو یہ طبعی قانون بن گیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو مالک اور حاکم ہے، اگر اس کا قانون اسے باندھ دے اور وہ اپنے قانون میں کسی تبدیلی کا اختیار نہ رکھتا ہو، تو یہ چیز اس کی حاکمیت اور قدرت کے خلاف ہوگی۔
سوال : اقامت ِ دین اور تبلیغ کے فرق کے بارے میں وضاحت فرمایئے؟
جواب :تبلیغ بلاشبہہ مفید چیز ہے مگر اس سے وہ تمام حقوق پورے نہیں ہوجاتے جو فریضۂ اقامت ِ دین کی رُو سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ محض کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر آدمی، اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں کہہ دے، مگر ارادہ ہرگز یہ نہ ہو کہ یہ باتیں عمل میں بھی آئیں تو یہ چیز لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ [تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ الصف ۶۱:۲] کے زمرے میں آئے گی۔
مثلاً ایک بستی میں ایک شخص چاہتا ہے کہ لوگ نماز پڑھیں، تو کیا وہاں اس کا فرض محض نماز کے لیے کہہ دینا ہی ہے؟ یا ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے یہ بھی اس کا فرض ہے کہ جو لوگ نماز پڑھنے پر آمادہ نظر آئیں، ان کے لیے مناسب جگہ تلاش کرے، انھیں یک جا کرے اور فریضۂ نماز کی بجاآوری میں ان کی مدد کرے۔ پھر وہاں نماز پڑھنے کے لیے مسجد بنانے کی فکر کرے۔ ساتھ ہی اسے یہ فکر بھی ہو کہ وہاں وقت پر اذان دی جائے اور باقاعدہ باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ یہ تمام چیزیں نماز کی تبلیغ کے لوازم ہیں۔ اب اگرکوئی شخص محض نماز کی تبلیغ کرکے بیٹھ رہے اور جب اس سے یہ کہا جائے کہ ان لوازم کے اہتمام کے لیے بھی آگے بڑھو، تو وہ کہے کہ یہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب وہ لوگوں کو نماز پڑھنے کے لیے کہتا ہے تو وہ تبلیغ نہیں کرتابلکہ محض ایک بات کہتا ہے جو کہنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔
اگر کوئی گروہ اقامت ِ صلوٰۃ کے لوازم پورے کرنے کے لیے کنواں کھودتا ہے تاکہ نمازیوں کو وضو کے لیے پانی میسر آسکے، مزدوروں کی طرح اینٹیں ڈھوتا ہے تاکہ مسجد کی تعمیر ہوسکے اور مبلغ یہ سب کچھ دیکھ کر کہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے کنواں کھودنے یا اینٹیں ڈھونے کے لیے تو نہیں کہا تھا، میں نے تو صرف نماز پڑھنے کو کہا تھا، تو ظاہر بات ہے کہ ایسا کہنے والا تبلیغ کے تقاضوں اور فریضۂ اقامت ِ دین کے حقیقی مفہوم ہی سے ناآشنا ہے۔
سوال : بھارت میں مسلمان جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں، اس سے وہاں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ذہن میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
جواب :بھارت میں اس وقت جو مسلمان موجود ہیں، انھیں ملک نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ وہاں رہ کر کام کرناچاہیے۔ میں نے ہندستان کے آخری اجتماع میں بھی کہا تھا کہ جب تک کوئی سخت مجبوری لاحق نہ ہو ، کسی کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔ خود ہم نے پٹھان کوٹ میں فیصلہ کیا تھا کہ ڈٹ کر بیٹھیں گے، لیکن جب وہاں کی اور دُوردُور تک کی ساری آبادیاں مسلمانوں سے خالی کرا لی گئیں تو مجبوراً لاہور آنے کا فیصلہ کیا گیا۔
بھارتی مسلمان صبر کے ساتھ رہیں اور اپنے رویے کو درست رکھیں۔ ان شاء اللہ حالات آج نہیں تو کل تبدیل ہوں گے۔ ہندوئوں کے لیڈر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کے نظریات کا علاج بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ دراصل پہلے انگریز دشمنی اور مسلمان دشمنی کی بنیاد پر ہندو قوم کا تشخص برقرار تھا۔ اب صرف مسلمان دشمنی باقی رہ گئی ہے۔ مسلمان دشمنی کے سوا ان کے پاس کھڑے رہنے کے لیے کوئی پائوں نہیں ہیں۔یہ پائوں اگر آپ نے کاٹ دیے تو پھر وہ ٹھیر نہیں سکیں گے۔ ہندو کا مقابلہ اگر آپ مسلمان قوم پرستی کے ذریعے کرنا چاہیں گے تو یہ غلطی ہوگی۔ ایسی چیزوں سے ہندو قومیت کو غذا ملے گی۔ ہندوئوں میں آپ کو ’مسلمانوں کے مطالبات‘ کے بجاے ’اسلام کے مطالبات‘ لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ساتھ لے کر ہندستانی مسلمان موجودہ مراحل سے گزرتے چلے جائیں تو ان شاء اللہ صورتِ حال بدل جائے گی اور آج کے مسلمان آیندہ نسلوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہندوئوں میں جو لوگ مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرکے فساد برپا کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ خود ہندو اس صورتِ حال سے بیزار ہوجائیں گے۔
سوال : ہندوئوں کے قومی تشخص کو، ہندو لیڈر مسلمان دشمنی کو ہوا دے کر برقرار رکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوئوں کا مذہب ان کے قومی تشخص کے لیے کافی نہیں ہے؟
جواب :ہندوئوں کی کوئی ایسی کتاب یا ایسا عقیدہ نہیں ہے جس پر سب ہندو متفق ہوں۔ ۱۸۸۱ء میں جب مردم شماری ہوئی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ ہندو کس کو قرار دیا جائے؟ کیوں کہ کسی کا کچھ عقیدہ تھا اور کسی کا کچھ۔ آخر یہ طے پایا کہ جس کا مذہب ہندستان سے متعلق ہو اور جو گائے کو مقدس مانے وہ ہندو ہے۔ ان کی کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نہیں جس پر یہ سب متفق ہوں۔ دیوتا بھی ایک نہیں، بلکہ کروڑوں ہیں۔ ان کے لٹریچر میں اپنے گروہ کے لیے کوئی نام بھی نہیں ہے، جس سے انھیں پکارا جائے۔ ہم برصغیر میں آئے اور انھیں ہندو کہنا شروع کیا تو ان کا نام ہندو پڑگیا۔
سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔
سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟
جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔
سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟
جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟
جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟
جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔
سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟
جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟
سوال : مولانا، کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟
جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔
سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟
جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔
سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔
سوال : مولانا، لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟
جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔
سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟
جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔