ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں:
ایک تحفظ ِ نسب، جس کی خاطر زنا کو حرام اور جرم قابلِ تعزیر قرار دیا گیا ہے۔ پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیںاور مرد و زن کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کردیا گیا ہے، جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔
دوسرے تحفظ ِ نظامِ عائلہ، جس کے لیے مرد کو گھر کا قوّام بنایا گیا ہے، بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خدا کے بعد والدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔
تیسرے حُسنِ معاشرت، جس کی خاطر زن و مرد کے حقوق معین کر دیے گئے ہیں۔ مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اور عدالتوں کو تفریق کے اختیارات دیے گئے ہیں ۔ اور الگ ہونے والے مرد و زن کے نکاحِ ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، تاکہ زوجین یا تو حُسنِ سلوک کے ساتھ رہیں، یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہوکر دوسرا بہتر خاندان بناسکیں۔
چوتھا صلۂ رحمی، جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے، اور اس غر ض کے لیے ہرانسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظامِ عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دُور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظامِ عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔ رہے طرزِ زندگی کے مظاہر تووہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانیت ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں ردّ و بدل نہ ہو۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’رسائل و مسائل‘، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۶، مارچ ۱۹۵۹ء، ص۵۹-۶۰)