اگست ۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشے پر دو آزاد مملکتوں، پاکستان اور بھارت کا ظہور جدید ایشیائی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ ہندستان کی انگریزوں کے اقتدار سے آزادی ،ایک طویل تحریک کا نتیجہ تھی، جس میں برصغیر کے بڑے بڑے رہنما شامل تھے۔ لیکن جو شہرت اور اہمیت اس تحریک کے آخری دور میں محمدعلی جناح [م: ۱۹۴۸ء] اور موہن داس کرم چند گاندھی [م: ۱۹۴۸ء]کے حصے میں آئی، وہ کسی دوسرے رہنما کو نصیب نہیں ہوئی۔ ان رہنمائوں کے ہاتھوں آزادی کی تحریک تکمیل کو پہنچی اور ہندستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہوگیا۔ ان کی خدمات کے پیش نظر قوم نے ایک کو قائداعظم اور دوسرے کو مہاتما کا لقب دے کر برصغیر کی تاریخ میں زندئہ جاوید کردیا۔ اس تحریک کے دونوں رہنمائوں کا تعلق گجرات کاٹھیا واڑ کے علاقے سے تھا۔ دونوں میں چند باتیں حیرت انگیز حد تک مشابہہ تھیں اور چند بالکل متضاد۔
دونوں رہنمائوں نے قانون کی تعلیم پائی اور پیشۂ وکالت سے وابستہ تھے۔ دونوں نے مغربی طرزِ سیاست کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ محمدعلی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ہندستان میں کی، جب وہ ۱۹۰۹ء میں امپریل لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ گاندھی جی کی سیاست کی ابتدا جنوبی افریقہ میں ہندستانیوں کے لیے حقوق حاصل کرنے کی تحریک شروع کرنے سے ہوئی۔ ہندستان میں دونوں انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں داخل ہوئے۔
ان میں ایک مسلمان گھرانے کا فرد تھا اور دوسرا ہندو۔ اور دونوں کو فطرتاً اپنی اپنی قوم کے مفادات کا احساس پہلے ہوا اور آخر دم تک اسی احساس نے سیاسی میدان میں اُن کی راہیں اور منزلیں جدا رکھیں۔ دونوں برصغیر کی آزادی کے خواہش مند تھے اور اس کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل، لیکن آزادی کس شکل میں حاصل ہو، اس پر اُن میں بنیادی اختلاف تھا۔ گاندھی جی اور قائداعظم کی شخصیات اور اندازِ سیاست میں اختلاف نے ان رہنمائوں کی سیاسی حکمت عملی کے تعین میں بڑا اہم کردارادا کیا تھا۔ گاندھی جی کی سیاست کا انداز احتجاجی تھا، جب کہ جناح صاحب دستوری جدوجہد کے قائل تھے۔ گاندھی جی نے ہندستان کی سیاست میں ستیہ گرہ، مرن برت اور دن بھر کی خاموشی جیسی اصطلاحوں کو رواج دے کر ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش کی تھی، جب کہ جناح صاحب پارلیمانی آدابِ سیاست کے سختی سے پابند تھے۔ گاندھی جی لباس اور عادات و اطوار سے ایک ’تارکِ دُنیا‘ انسان ہونے کا تاثر دیتے تھے اور اُن کے ایک دھوتی پر مشتمل لباس پر چرچل نے ’آدھا ننگا فقیر‘ ہونے کی پھبتی کَسی تھی۔ جناح صاحب کی زندگی ایک بااصول، کھرے، صاف گو، زندگی میں ڈرامائیت سے اجتناب اور انتہائی قابل وکیل کی زندگی تھی اور اُن کی خوش پوشاکی ضرب المثل تھی۔
۱۹۲۰ء تک دونوں کے باہمی تعلقات اچھے رہے اور اس کے بعد تحریک ِ آزادی کے مستقبل اور اُس کی راہ کے بارے میں دونوں لیڈروں میں اختلاف شروع ہوا۔ ۱۹۳۰ء کے اوائل تک جناح صاحب کوشش کرتے رہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ہندستان کے سیاسی مستقبل پر کوئی سمجھوتا طے پاجائے، لیکن کانگریس نے کسی قسم کے سمجھوتے کا امکان ردّ کر دیا۔ ۱۹۳۵ء سے جناح صاحب نے مسلم لیگ کی تنظیم نو شروع کی اور اُن کی زیرقیادت ۱۹۴۰ء میں مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کا مطالبہ پیش کر دیا۔ گاندھی جی ، کانگریس کے ترجمان کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند کے اس مطالبے کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ اُنھوں نے تحریروں ، تقریروں ، خطوط، جلسوں اور اپنی پرارتھنا کی محفلوں میں جناح صاحب کے ساتھ بحث و مباحثے اور پاکستان کی مخالفت کا آغاز کیا۔ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۷ء تک دس برس کے عرصے میں ’ہندو انڈیا‘ اور ’مسلم انڈیا‘ کے ترجمانوں کے درمیان ہندستان کے سیاسی مستقبل پر بڑی اہم، دل چسپ اور پُرجوش بحث ہوئی۔اس بحث کے مختلف مراحل سے تحریک ِ پاکستان کے مختلف اَدوار کی تاریخ کا اجمالی نقشہ سامنے آتا ہے۔
اس پوری جدوجہد کے دوران میں مذہب تمام دلائل کا اہم جزو تھا۔قائد کے نزدیک مسلمانانِ ہند کے تحفظ اور بقا کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایک علیحدہ، خودمختار ریاست کے مالک ہوں، جہاں وہ غیرمسلم اکثریت کے اقتدار کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے دین کے اصولوں کی روشنی میں زندگی بسر کرسکیں۔ گاندھی جی نے خود کو سرتاپا ہندو بنا لیا تھا اور اپنی پوری جدوجہد کا مقصد اپنے مذہب کا تحفظ قرار دیا تھا۔ اُنھوں نے ۱۹۲۰ء ہی سے عوامی سطح پر مذہبی جذبات کو برانگیختہ کر دیا تھا۔ قائداعظم اور مہاتما کے درمیان برصغیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں جو اختلافات تھے، اُنھیں سمجھنے کے لیے ہم دونوں لیڈروں کے درمیان رابطے اور تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
دونوں رہنما ایک دوسرے کو کب سے جانتے تھے، اس کی قطعی تاریخی کا کہیں ذکر نہیں۔ تاہم، گاندھی جی کے کاغذات میں ایک خط ریکارڈ پر ہے جو اُنھوں نے ۲۲فروری ۱۹۰۸ء کو Indian Opinion کو لکھا تھا۔ اس میں اُنھوں نے جنوبی افریقہ میں اپنی ستیہ گری تحریک کا دفاع کرتے ہوئے اس الزام کو غلط بتایا کہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں وہاں ہندوئوں اور مسلمانوں میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ اس خط میں گاندھی جی نے لکھا ہے کہ وہ جناح صاحب کو جانتے ہیں اور اُن کی بہت عزت کرتے ہیں۔
جنوبی افریقہ سے واپسی پر گاندھی جی کے اعزاز میں مختلف تقریبات منعقد ہوئیں۔ ۱۸؍اگست ۱۹۱۴ء کو ’سیسل ہوٹل‘ لندن میں منعقد ہونے والی ایک ایسی تقریب میں جناح صاحب بھی شریک تھے۔ بمبئی میں سر جہانگیر پیٹٹ کے گھر جنوری ۱۹۱۵ء میں ہونے والی اسی طرح کی ایک گارڈن پارٹی میں بھی جناح صاحب مدعو تھے۔ گاندھی جی نے اس پارٹی میں قائد کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مسٹر جناح گجراتی ہونے کی وجہ سے وہاں موجود تھے، مجھے یاد نہیں کہ اصل مقرر کی حیثیت سے یا صدر کی حیثیت سے ، مگر اُنھوں نے انگریزی میں چھوٹی سی خوب صورت تقریر کی تھی‘‘۔
۳۰دسمبر ۱۹۱۵ء کو بمبئی میں ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دونوں لیڈر شریک ہوئے ۔ اکتوبر ۱۹۱۶ء میں بمبئی میں صوبائی کانفرنس میں جناح صاحب کو اس کا صدر چنا گیا۔ اس موقعے پر تقریر کرتے ہوئے گاندھی جی نے جناح صاحب کے متعلق کہا: ’’ایک قابل مسلمان، ایک ممتاز وکیل اور نہ صرف لیجسلیٹو کونسل کے ممبر بلکہ ہندستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی انجمن (association)کے صدر بھی‘‘ (جناح صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے، جسے گاندھی جی نے ایسوسی ایشن قرار دیا)۔
تین ماہ بعد دسمبر ۱۹۱۶ء میں دونوں رہنما پھر لکھنؤ میں کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جمع ہوئے جہاں گاندھی جی نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ’’نہ صرف اُردو کی ترویج و ترقی میں حصہ لیں، بلکہ ہندی بھی سیکھیں‘‘۔
۱۶ جون ۱۹۱۸ء کو جناح صاحب اور گاندھی جی نے بمبئی میں ’ہوم رول لیگ‘ کے ایک جلسے سے خطاب کیا، جس میں ۱۵ہزار کے لگ بھگ افراد شریک تھے۔ جناح صاحب نے اس موقعے پر ہندستانی فوج کے متعلق برطانوی پالیسی پر سخت نکتہ چینی کی۔ اس کے برعکس، اس زمانے میں گاندھی جی نے ہندستان سے برطانوی فوج کے لیے بھرتی کی مہم شروع کر رکھی تھی اور جناح صاحب سے اس مہم میں تعاون کے طالب تھے۔
۱۹۲۰ء میں گاندھی جی نے قومی پیمانے پر ’عدم تعاون‘ اور ’سول نافرمانی‘ کی تحریک شروع کردی جو فی الحقیقت تحریک ِ خلافت کا حصہ تھی۔ جناح صاحب کا خیال تھا کہ عوام کی تربیت کے بغیر سول نافرمانی کی تحریک تشدد کی راہ پر چل پڑے گی اور آزادی کی جدوجہد میں رخنہ انداز ہوگی۔ دوسال بعد اُن کا یہ خیال صحیح ثابت ہوا۔ ستمبر۱۹۲۰ء میں کانگریس کے اجلاسِ کلکتہ میں جناح صاحب نے عدم تعاون کی تحریک سے اپنے اختلافات کی نوعیت بیان کرتے ہوئے سبجیکٹ کمیٹی میں عدم تعاون کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ یوں اس قرارداد کے خلاف واحد ووٹ اُنھی کا تھا۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان جدائی کی یہ خلیج دسمبر ۱۹۲۰ء تک اور بڑھ گئی۔ ناگ پور میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں جناح صاحب نے ایک دفعہ پھر عدم تعاون کی مخالفت کرتے ہوئے اس سلسلے میں اپنے شکوک کا اظہار کیا۔ بدقسمتی سے اُن کی تقریر پر ایوان میں زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ یہ کانگریس کا آخری اجلاس تھا جس میں جناح صاحب نے شرکت کی۔
۱۹۲۴ء - ۱۹۲۵ء کے درمیان آل پارٹیز کانفرنس کے دوران میں ان دونوں رہنمائوں کے مابین متعدد مذاکرات ہوئے، جن کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کی راہیں تلاش کرنا تھا۔ ۱۹۲۷ء میں دونوں رہنما، وائسرائے لارڈ ارون سے ملنے گئے، جہاں اُنھیں سائمن کمیشن کے تقرر کی اطلاع ملی۔ گاندھی جی اور جناح صاحب ، دونوں نے کمیشن کے بائیکاٹ پر اتفاق کیا۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں آل پارٹیز کانفرنس کے سامنے جناح صاحب نے: ’’مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی ایک تہائی نمایندگی اور صوبوں کو اختیارات تفویض کرنے کی تجاویز پر اصرار کیا‘‘۔ کانفرنس میں اُن کی یہ تجاویز رد کر دی گئیں اور اُنھیں مسلمانوں کا نمایندہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا۔ جناح صاحب نے اس اجلاس کے بعد اپنے دوست جمشید کو بتایا تھا کہ: ’’یہ راستوں کی جدائی کا نقطۂ آغاز ہے‘‘۔ اس کے باوجود کچھ عرصے تک برصغیر کی آزادی کے لیے اُنھوں نے کانگریس کے ساتھ تعاون جاری رکھا۔
لیکن محمدعلی جناح، ہندستان میں جس دستوری طرزِ سیاست کے حامی تھے، وہ گاندھی جی کے احتجاجی اندازِ سیاست کے باعث ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ جناح صاحب نے ہندستان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے کہا:
ہندو تنگ نظر ہیں اور میرے خیال میں ناقابلِ اصلاح۔ مسلمانوں کا کیمپ بے حوصلہ افراد سے بھرا ہوا ہے، جو مجھ سے کچھ بھی کہیں مگر کوئی کام کرنے سے پہلے ڈپٹی کمشنر سے ضرور پوچھیں گے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ ان دو گروہوں کے درمیان مجھ جیسے آدمی کے لیے جگہ کہاں؟
۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کا عرصہ برصغیر کی تاریخ کا اہم ترین دور ہے۔ ان دس برسوں میں وہ واقعات پیش آئے، جنھوں نے برصغیر کی تاریخ کے مستقبل کا تعین کر دیا۔ قائد کی غیرموجودگی سے مسلم سیاست انتشار کا شکار ہوگئی تھی۔ ہرسطح پر مسلمان رہنمائوں میں اختلافات پیدا ہوچکے تھے۔ ان حالات میں محمدعلی جناح ۱۴دسمبر ۱۹۳۴ء کو انگلستان سے واپس بمبئی کی بندرگاہ پر پہنچے تھے۔ وطن واپسی کے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
مسلمان شدید خطرے میں تھے۔ میں نے ہندستان واپس آنے کا ارادہ کرلیا، کیوںکہ مَیں لندن سے اُن کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
انگلستان سے واپسی کے بعد محمدعلی جناح کے سیاسی خیالات میں بہت بڑی تبدیلی رُونما ہوچکی تھی۔ اب وہ اس نظریے کے قائل تھے کہ جب تک مسلمان متحد، منظم اور مضبوط نہیں ہوں گے، ہندوئوں کے ساتھ کسی باعزت سمجھوتے کا امکان نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے سے جناح صاحب کے نزدیک ہندو مسلم تعاون کا امکان کسی صورت میں ختم نہیں ہوتا تھا۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۷ء تک وہ مسلسل ہندو مسلم تعاون کے لیے بار بار اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مئی ۱۹۳۷ء میں اُنھوں نے گاندھی جی کو لکھا:’’ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک باعزت سمجھوتے کو مجھ سے زیادہ اور کون پسند کرے گا؟‘‘
’ہندومسلم اتحاد‘ کے بجاے ’ہندو مسلم تعاون‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اب برابری کی سطح پر سیاسی سمجھوتے میں فریق بننا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تسلیم کرنے کے بجاے پنڈت نہرو [م: ۱۹۶۴ء] نے اسے ’اعلیٰ طبقے کے مٹھی بھر نااہلوں کا گروہ‘ قرار دیا جس سے تعاون کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ۱۹۳۷ء کے صوبائی انتخابات کے بعد کانگریس نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کی ہر پیش کش پاے حقارت سے ٹھکرا دی۔ یہ پالیسی قائد کے جذبۂ تعاون کے لیے ایک چیلنج تھی۔ اُنھوں نے کانگریس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا:
کانگریس کی موجودہ قیادت، خصوصاً پچھلے دس برسوں میں، خالص ہندو طرزِعمل اختیار کر کے ہندستان کے مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کی ذمے دار ہے۔ مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ کانگریس کی موجودہ پالیسی کا نتیجہ طبقاتی کشاکش، فرقہ وارانہ جنگ اور بالآخر برطانوی سامراج کا اقتدار مستحکم کرنے کی صورت میں نکلے گا۔
اس بے لاگ تقریر پر گاندھی جی کا ردعمل جناح صاحب کے نام ایک خط کی صورت میں یوں ظاہر ہوا: ’’آپ کی پوری تقریر اعلانِ جنگ ہے‘‘۔
۵نومبر کو جناح صاحب نے جواباً لکھا: ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ نے میری لکھنؤ والی تقریر کو اعلانِ جنگ سمجھا۔ اُس کی نوعیت خالص دفاعی ہے۔ ازراہِ کرم اُسے پھر پڑھیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ معلوم ہوتا ہے آپ نے پچھلے ۱۲ماہ کے دوران میں ہونے والے واقعات پر کوئی توجہ نہیں دی‘‘۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان خط کتابت کی رفتار بڑھ گئی۔ گاندھی جی نے جناح صاحب کو بحث میں اُلجھانے کی نئی صورت نکالی۔ فروری ۱۹۳۸ء میں اُنھوں نے لکھا: ’’اپنی تقریروں سے اب آپ مجھے پرانے قوم پرست نظر نہیں آتے۔ جب میں ۱۹۱۵ء میں جنوبی افریقہ سے خود اختیار کردہ جلاوطنی کے بعد ہندستان واپس آیا تو ہرشخص آپ کو پکا قوم پرست سمجھ کر ہندوئوں اور مسلمانوں کی اُمید قرار دیتا تھا۔ کیا آپ اب بھی وہی مسٹرجناح صاحب ہیں؟‘‘ جناح صاحب کی تقریریں گاندھی جی کے نزدیک شاید صرف سودے بازی کے لیے تھیں، تبھی اُنھوں نے اُس خط میں لکھا: ’’اگر آپ کہیں کہ آپ وہی ہیں تو آپ کی تقریروں کے باوجود مَیں آپ کے الفاظ پر یقین کرلوں گا‘‘۔
جناح صاحب خوب سمجھتے تھے کہ ’قوم پرست‘ جیسی فریب کُن ترکیبوں میں اُلجھا کر گاندھی جی اُن کی توجہ اصل مسائل اور زیربحث نکات سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ بارہ دن بعد بڑے اختصار سے جواب میں لکھا: ’’قوم پرستی کسی فردِ واحد کی اجارہ داری نہیں اور آج کل کے زمانے میں اس کی حدود متعین کرنا ناممکن ہے۔ مجھے اس بحث کو مزید طول دینے کی خواہش نہیں‘‘۔
کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کے درمیان اس کش مکش کا فائدہ براہِ راست انگریزی حکومت کو پہنچ رہا تھا۔ حالات اب اس مقام تک آگئے کہ جناح صاحب کے نزدیک دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی سمجھوتا بہت ضروری تھا، تاکہ ہندستان کی آزادی کے لیے اجتماعی طور پر کوشش کی جائے۔ اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ: کانگریس، مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی واحد نمایندہ جماعت تسلیم کرلے تاکہ دونوں قوموں کے درمیان تعاون کی راہیں تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ جناح صاحب کا مطالبہ جان لینے کے بعد گاندھی جی نے ۸مارچ ۱۹۳۸ء کو لکھا کہ: ’’کچھ نکات قابلِ بحث ہیں، اور اس کے لیے اُنھوں نے ملاقات کی تجویز پیش کی‘‘۔
۲۸؍اپریل ۱۹۳۸ء کو دونوں رہنمائوں کی بمبئی میں ملاقات ہوئی، جس میں کانگریس کے صدر سبھاش چندر بوس [م: ۱۹۴۵ء] بھی شریک تھے۔ جناح صاحب نے اس ملاقات میں اصرار کیا کہ:’ ’کانگریس، مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت تسلیم کرلے‘‘۔ لیکن گاندھی جی اور سبھاش چندر بوس نے یہ موقف مسترد کر دیا۔ چنانچہ بات چیت ناکام ہوگئی۔ اس ملاقات کے بعد بھی سبھاش چندر بوس اور گاندھی جی نے جناح صاحب کے ساتھ خط کتابت جاری رکھی، تاہم گاندھی جی، اس حقیقی تقاضے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
۱۹۳۸ء میں جناح صاحب کے پیش نظر سب سے اہم مسئلہ مسلم لیگ کی تنظیم نو اور مسلم عوام کی زیادہ سے زیادہ حمایت کا حصول تھا۔ پنڈت نہرو کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا: ’’تنظیم جس قدر اہم ہو، اُسی قدر اُس پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ اہمیت اس بات سے پیدا نہیں ہوتی کہ اسے باہر کے لوگ تسلیم کر رہے ہیں، بلکہ یہ اہمیت تنظیم کی اندرونی فطری قوت کی پیداوار ہوتی ہے‘‘۔ گاندھی جی نے محسوس کرلیا کہ جناح صاحب کی شبانہ روز محنت کی بدولت مسلم لیگ ایسی قوت بن چکی ہے جسے نظرانداز کرنا اب ناممکن ہے۔تاہم، مسلم لیگ کی نمایندہ حیثیت تسلیم کر کے براہِ راست معاملہ کرنے کے بجاے اُنھوں نے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ وہ یہ کہ ۱۶ جنوری ۱۹۴۰ء کو جناح صاحب کے نام بڑے دوستانہ انداز میں خط میں پہلی بار اُنھوں نے ’قائداعظم‘ کا خطاب استعمال کیا تھا۔
’ڈیئر قائداعظم‘ کے الفاظ سے شروع ہونے والے اس خط کے ساتھ گاندھی جی نے اخبار ہریجن میں اشاعت کے لیے بھیجے جانے والے ایک مضمون کی پیشگی کاپی ملفوف کی تھی۔ مضمون میں جناح صاحب کو ایک ’پُرانا رفیق‘ قرار دیتے ہوئے اُنھوں نے لکھا تھا :’ ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم آج بعض معاملات پر ایک دوسرے سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات نہیں کرتے۔ اس سے ان کے لیے (جناح صاحب کے لیے) میرے دل میں جو خلوص ہے، اُس پر کوئی حرف نہیں آتا‘‘۔ اس مضمون میں گاندھی جی نے تجویز پیش کی تھی کہ: ’’اگر جناح صاحب ہندستان کی تمام اقلیتوں پر مشتمل ایک مشترکہ پارٹی تشکیل دے سکیں، تو یہ ہندستان کی بہت بڑی خدمت ہوگی‘‘۔
قائداعظم واضح طور پر ثابت کرچکے تھے کہ: ’’مسلمان، ہندستان میں اقلیت نہیں، ایک الگ قوم ہیں‘‘۔ اسی لیے وہ کانگریس سے برابری کی سطح پر معاملہ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے ۲۱جنوری ۱۹۴۰ء کو گاندھی جی کے نام اپنے خط میں لکھا: ’’آپ کے مضمون میں بیش تر مواد صرف وہم کا نتیجہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اور دوسری یہ کہ آپ کے خیالات کی رہنما آپ کی ’اندر کی آواز‘ ہے۔ آ پ کا حقیقتوں سے، جنھیں عام اصطلاح میں عملی سیاست کہا جاتا ہے، بہت کم واسطہ رہ گیا ہے‘‘۔
۱۹۴۰ء کے اوائل میں برصغیر کے سیاسی مستقبل کے متعلق بحث ’قومیت‘ کی تعریف کے گرد گھوم ری تھی۔ گاندھی جی کے نزدیک مذہب کی تبدیلی سے قومیت کی حدود پر کوئی حرف نہیں آتا تھا۔ ۲۷جنوری کو اُنھوں نے اسی موضوع پر ہریجنمیں ایک مضمون لکھا۔ دوسری طرف جناح صاحب اس بحث کو ہمیشہ کے لیے طے کرچکے تھے کہ ہندستان کے مسلمان دنیا کے ہرقانون کے مطابق ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اسی بنیاد پر اب قوم کے لیے الگ وطن کی ضرورت تھی۔ مارچ ۱۹۴۰ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں ایک لاکھ سے زائد افراد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے مسلمانانِ ہند کی منزل کی نشان دہی کی اور پوری قوت سے اعلان کیا کہ:’ ’ہندستان کو تقسیم کرکے خودمختار ریاستوں کی تشکیل کی جائے‘‘۔
آنے والے برسوں میں پاکستان کا حصول مسلمانانِ ہند کی منزل بن گیا۔ مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام اسی مقصد کے لیے وقف ہوگئے۔ مسلمان اب اپنی راہیں منتخب اور منزل متعین کرچکے تھے۔ گاندھی جی کے لیے قرارداد لاہور اور جناح صاحب کی تقریر شاید ایک ناقابلِ یقین واقعے کے طور پر سامنے آئی تھی۔ اُن کا ابتدائی ردعمل غصّے اور گہرے صدمے کے اظہار پر مبنی تھا۔ ۶؍اپریل کے ہریجنمیں مسلمانوں کے عزم پر شک کا اظہار کرتے ہوئے اُنھوں نے لکھا:
مسلمان کبھی ہندستان کی چیرپھاڑ (vivisection) اور واضح خودکشی پر رضامند نہیں ہوںگے، جو تقسیم کا نتیجہ ہوگی۔
قراردادِ لاہور کی شکل میں مسلم لیگ کی طرف سے تقسیم کا مطالبہ، گاندھی جی کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اس کے بعد اُن کے لہجے میں بڑی تُندی آگئی اور اُن کے قلم سے یکے بعد دیگرے تقسیم ہند کے خلاف مضامین نکلنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ اُنھوں نے قائداعظم کی ذات کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا: ’’تقسیم کا تصور بالکل خلافِ حقیقت ہے۔ میری روح اس نظریے کے خلاف بغاوت کرتی ہے کہ اسلام اور ہندو ازم دو مخالفانہ تمدن اور نظریات پیش کرتے ہیں‘‘۔
گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبے کے خلاف ایک اور دلیل پیش کی کہ ’’ہندو اور مسلمان دراصل ایک ہی قوم کے دو بازو ہیں اور مسلمان، ہندوئوں سے اس لیے زیادہ مختلف نہیں کہ اُنھوں نے اسلام قبول کرلیا ہے‘‘۔اُنھوں نے مزید لکھا: ’’مجھے اس نظریے کی ہرقیمت پر مخالفت کرنی ہے کہ کروڑوں ہندستانی جو کل تک ہندو تھے، اُنھوں نے اسلام کو مذہب کے طور پر قبول کرتے ہی اپنی قومیت بدل لی‘‘۔
قائداعظم نے گاندھی جی کے اس بیان کی کہ: ’ہندستانی کل تک ہندو تھے‘، تردید کرتے ہوئے کہا: ’’ایک ہزار سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت، ایک علیحدہ معاشرے، اپنے علیحدہ فلسفۂ حیات اور علیحدہ عقیدے کے تحت زندگی بسر کرتی چلی آرہی ہے۔ پھر یہ کیسی لغو اور فضول بات ہے کہ عقیدے کی تبدیلی مطالبۂ پاکستان کی بنیاد نہیں بن سکتی!‘‘
اپنی دلیل کے ثبوت میں اب گاندھی جی نے جناح صاحب کا نام مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا:’’اُن کا نام کسی ہندو کا بھی ہوسکتا تھا۔جب میں اُن سے پہلی بار ملا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ مجھے اُن کا مذہب اُس وقت معلوم ہوا جب مجھے اُن کا پورا نام بتایا گیا۔ اُن کی ہندستانی قومیت اُن کے انداز اور اُن کے چہرے پر نقش تھی‘‘۔
۴مئی کو ہریجن کے شمارے میں ایک دفعہ پھر گاندھی جی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے کہا کہ: ’’مسلمانوں کی اکثریت تقسیم کے منصوبے کو رد کردے گی۔ میں اسے تسلیم نہیں کرسکتا کہ مسلمان واقعی ہندستان کے ٹکڑے کرنا چا ہتےہیں‘‘۔
گاندھی جی کے اندازِ بحث کے جواب میں ۱۹۴۰ء میں قائداعظم نے تقسیم کے خلاف کانگریس اور گاندھی جی کی تمام دلیلوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’متحدہ ہندستان کا تصور برطانوی نوآبادیاتی نظام کی پیداوار ہے‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا:’’حیرت ہے کہ مسٹر گاندھی اور راج گوپال اچاریہ [م: ۱۹۷۲ء] ، قراردادِ لاہور کو ہندستان کو چیرپھاڑ اور بچے کو دو ٹکڑوں میں کاٹنے کی اصطلاحوں سے کیسے تعبیر کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہندستان فطری طور پر پہلے ہی منقسم ہے۔ مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا جغرافیے کی صورت میں موجود ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چیخ پکار کیسی ہے، کہاں ہے وہ ملک جسے تقسیم کیا جارہا ہے؟ کہاں ہے وہ قوم جسے بکھیرا جا رہا ہے؟ انڈیا قومیتوں کا مجموعہ ہے۔ ذاتیں اور گروہ اُس پر مستزاد ہیں‘‘۔
آنے والے مہینوں میں گاندھی جی کی مہم میں تیزی آگئی اور لہجے کی درشتی میں اضافہ ہوگیا۔ ستمبر ۱۹۴۰ء میں تقسیم اور پاکستان کے قیام کے خلاف اُن کی تلخ ترین تحریر سامنے آئی: ’’ہندستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا طوائف الملوکی سے بھی بدتر ہے‘‘ ۔ اُنھوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’’یہ ایسی چیرپھاڑ ہے جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
جناح صاحب نے اس پوری مہم کے جواب میں کہا: ’’ہم تقسیم کے نتائج کا سامنا خود کرلیں گے۔ آپ اپنی فکری کریں‘‘۔
پاکستان کے قیام کے خلاف گاندھی جی کی جذباتی تحریروں اور تقریروں سے ہندستان بھر میں کشیدگی کی فضا پیدا ہورہی تھی۔ قائداعظم کو معلوم تھا کہ اگر اُنھوں نے اُن کے جواب میں وہی لہجہ اختیار کیا تو اس کا نتیجہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی صورت میں نکلے گا۔ اس لیے اُنھوں نے فضا سے کشیدگی کم کرنے کے لیے مسلمانانِ ہند کو ہدایت کی کہ: ’’وہ ہمیشہ معقولیت کو پیش نظر رکھیں اور اپنے مخالفین کو سنجیدگی سے قائل کرنے کی کوشش کریں‘‘۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم اور قابلِ توجہ بات یہ تھی کہ:’ ’مسلمان پاکستان کے حصول کو اپنا مطمح نظر بنالیں جو اُن کے لیے موت و حیات کا معاملہ ہے‘‘۔
تقسیم کے متعلق دونوں لیڈروں کے درمیان پوری بحث کا سب سے دل چسپ پہلو یہ ہے کہ گاندھی جی نے تقسیم کی مخالفت کے لیے ایسے بھاری اور بوجھل الفاظ کا انتخاب کیا، جن سے تکلیف اور تشدد کا اظہار ہوتا تھا، جیسے کاٹ دینا (cut)،کاٹ کر علیحدہ کرنا ( carve) ، حصے بخرے کرنا (dismember) اور چیرپھاڑ کرنا (vivisect) ۔
اس کے مقابلے میں جناح صاحب کی طرف سے پاکستان کے قیام کے لیے الفاظ کے استعمال میں سنجیدگی اور تقسیم کے مطالبے کا مثبت پہلو نمایاں ہوکر سامنے آتا تھا،جیسے: تشکیل جدید کرنا (re-construction)،اَزسرِنو ترتیب دینا (re-constitute) اور حدبندی کرنا (demarcate) وغیرہ۔
۱۹۴۲ء میں حالات نے ایک نئی کروٹ لی۔ یورپ میں دوسری جنگ ِ عظیم اپنے پورے عروج پر تھی اور جنگ میں برطانوی پوزیشن کمزور پڑرہی تھی۔ ہندستان کو جنگی کوششوں میں شامل کرنے اور اُس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے، نیز امریکی دبائو کے پیش نظر، برطانوی حکومت نے کرپس مشن ہندستان بھیجا۔ مشن کی تجاویز کانگریس اور مسلم لیگ،دونوں نے مسترد کر دیں۔ تاہم، مشن سے بات چیت میں یہ امر مستحکم ہوکر سامنے آیا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ہے۔ کانگریس کی قیادت کو احساس ہوا کہ مسلم لیگ کے تعاون کے بغیر آزادی کا حصول ناممکن ہوگا۔ ۱۹؍اپریل کے ہریجن میں گاندھی جی نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا:
اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت اپنے آپ کو ایک ایسی علیحدہ قوم تصور کرتی ہے، جس کی ہندوئوں اور دوسری قوموں کے ساتھ کوئی چیز مشترک نہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت اُنھیں اس کے خلاف سوچنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔
گاندھی جی کی اس تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اُنھوں نے تقسیم کے معاملے میں مسلمانوں کے موقف کو تسلیم کرلیا تھا، لیکن وہ کچھ اور سوچ رہے تھے:’’میں ابھی تک مطالبۂ پاکستان کا قائل نہیں ہوا۔ لیکن مَیں اپنے مخالفین سے کہتا ہوں کہ وہ مجھے ملیں اور مجھے دوستانہ طریقے سے قائل کرنے کی کوشش کریں‘‘۔
گویا یہ موقف کی تبدیلی کے بجاے حکمت عملی کی تبدیلی تھی۔ گاندھی جی ۱۹۴۰ء کے بعد جس انداز سے تقسیم اور پاکستان کے قیام کے مطالبے کے خلاف مہم چلا رہے تھے، اُس کے پیش نظر اُنھیں تقسیم کا بنیادی اصول مان لینے پر قائل کرنا اس لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ابھی تک تقسیم کو، مقدس گائے کو دو ٹکڑوں میں کاٹنے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔
جناح صاحب نے گاندھی جی کی تجویز کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’ گاندھی جی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی تجویز کا کیا مطلب ہے۔ کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ مسٹرگاندھی جیسے شخص کو مسلمانوں کے مطالبے کی صحت کا قائل کرسکے۔ اُنھیں تو صرف اُن کی ’اندرونی آواز‘ ہی قائل کرسکتی ہے جسے وہ (گاندھی جی) آسمانی قرار دیتے ہیں‘‘۔
۱۹۴۲ء کے آخر تک دونوں رہنمائوں کے درمیان تقسیم کی بحث سے متعلق بیش تر دلائل کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ ۱۹۳۸ء میں قائداعظم نے مطالبہ کیا تھا کہ: ’’وہ مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی نمایندہ جماعت تسلیم کرکے بات چیت کرے‘‘۔ ۱۹۴۲ء تک کانگریس اس مطالبے کو واضح طور پر تسلیم کیے بغیر کسی نہ کسی طرح گفت و شنید کر رہی تھی۔ ۱۹۴۲ء میں بحث کا محور یہ تھا کہ پاکستان کے قیام کے مطالبے پر کس انداز سے بات چیت میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
۱۹۴۳ء کا پور ا سال گاندھی جی نے ’انڈیا چھوڑ دو‘ (Quit India) تحریک شروع کرنے کے جرم میں آغاخان پیلس میں نظربندی میں گزارا۔ ’انڈیا چھوڑ دو‘ کی تحریک کا ظاہری مقصد انگریزوں سے ہندستان کے مستقبل پر کانگریس کا نقطۂ نظر منوانا تھا، تاکہ سارے اختیارات اُس کے ہاتھ میں آجائیں اور اس طرح مسلمانانِ ہند پر اپنی مرضی کا سمجھوتا مسلط کیا جاسکے۔
’ہندستان چھوڑ دو‘ کے نعرے کے جواب میں جناح صاحب نے اُس کی تصحیح کرتے ہوئے مطالبہ کیا : ’تقسیم کرو اور چلے جائو‘ (Divide & Quit)۔ اُنھیں معلوم تھا کہ کانگریس، انگریزوں کی نازک پوزیشن کے پیش نظر ملک بھر میں تحریک چلا کر ہندستان کے مستقبل سے متعلق اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
گاندھی جی نے جناح صاحب کی پوزیشن کو امتحان میں ڈالنے کے لیے ایک نئی چال چلی اور بیان دیا: ’’ہم انگریز سے لڑ رہے ہیں۔ہمیں توقع ہے کہ آپ ہمارا ساتھ دیں گے‘‘۔ جناح صاحب نے فوراً جواب دیا:’’ہمیں معلوم ہے آپ کس سے لڑ رہے ہیں، اگر آپ واقعی انگریز سے برسرِ جنگ ہیں تو لڑ لیجیے۔ مسلمان کنارہ کش رہیں گے، انگریز کا ساتھ نہیں دیں گے‘‘۔
’Quit India‘ تحریک سے مسلمانوں کی علیحدگی کی وجوہ پر قائداعظم نے ایک بیان میں کہا: ’’آزاد ہندستان کے متعلق اُن (کانگریس) کا تصور ہمارے تصور سے مختلف ہے۔ ہم، ہندوئوں، مسلمانوں اور دوسروں کی آزادی چاہتے ہیں۔ مسٹر گاندھی کے نزدیک آزادی کا مطلب صرف کانگریس راج ہے‘‘۔
پُرجوش اور طاقت ور مطالبۂ پاکستان کے خلاف اب گاندھی جی نے بحث میں ایک اور رُخ کا اضافہ کیا۔ ۲۶ جولائی کو ہریجن میں لکھتے ہوئے اُنھوں نے یہ دلیل اختیار کی کہ: ’’کوئی ملک بخوشی اپنے کسی حصے کو ایک علیحدہ مملکت بنانے پر رضامند نہیں ہوگا، اس لیے کہ یہ آزاد، خودمختار ریاست کل اُسی ملک کے خلاف جنگ شروع کر سکتی ہے جس کا یہ پہلے حصہ تھی‘‘۔
گاندھی جی کا کوئی حربہ جناح صاحب کو اُن کے موقف سے نہ ہٹا سکا ۔ علی گڑھ کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے ۲نومبر۱۹۴۳ء کو اُنھوں نے واضح کیا: ’’چین اور امریکا کی مشترکہ قوت بھی ہم پر ایسا آئین مسلط نہیں کرسکتی، جس میں مسلمانانِ ہند کے مفادات قربان کر دیے گئے ہوں‘‘۔
مسلم لیگ اور قائداعظم، ہندستان کی برطانوی راج سے آزادی کے اُتنی ہی شدت سے خواہاں تھے، جتنی کانگریس کی قیادت، لیکن مسلم قیادت کا موقف یہ تھا کہ آزادی سے قبل دونوں قوموں کے درمیان سمجھوتا ضروری ہے، جب کہ کانگریس کا مطالبہ تھا کہ انگریزہندستان کو اُس کے حال پر چھوڑ کر چلے جائیں، باقی معاملات ہم خود طے کرلیں گے۔
گاندھی جی اپنی نظربندی کے دوران میں کچھ ایسے اشارات دے رہے تھے، جیسے وہ پاکستان کے مسئلے پر اب واضح بات چیت کرنا چاہتے ہوں۔ جناح صاحب نے ایک بیان میں پوچھا : ’’اگر اُنھوں نے بات چیت کا ارادہ کرلیا ہے، تو مجھے براہِ راست لکھنے میں آخر کیا امر مانع ہے؟‘‘ اس پر گاندھی جی نے ۴مئی کو جواباً لکھا: ’’کیوں نہ ہم دونوں فرقہ وارانہ اتحاد کے عظیم سوال پر ایک مشترکہ حل تلاش کرنے کے لیے باعزم انسانوںکی طرح بات چیت کریں‘‘۔ جناح صاحب کے نزدیک خط کے مفہوم سے گاندھی جی کے رویے میں تبدیلی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اسی لیے ایک اور سال ختم ہوگیا۔
مئی ۱۹۴۴ء میں گاندھی جی کی نظربندی ختم ہوئی۔ اُس وقت تک ۱۹۴۳ء کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نے ۴۷نشستیں حاصل کی تھیں اور کانگریسی مسلمانوں کے حصے میں صرف چار عدد سیٹیں آئی تھیں۔ اب کانگریس نے محسوس کرلیا کہ مسلم لیگ ایسی قوت بن چکی ہے، جس سے بہرصورت معاملہ کرنا پڑے گا۔
گاندھی جی کی نظربندی کے دوران میں اُن کے ایماسے راج گوپال اچاریہ، پاکستان کے سوال پر جنابِ جناح سے خط کتابت کر رہے تھے۔ راج گوپال اچاریہ فارمولے میں تقسیم کے اصول اور پاکستان کے قیام کو تسلیم کیا گیا تھا، لیکن کانگریس کا مطالبہ تھا کہ مسلم لیگ پہلے کانگریس کا ساتھ دے اور انگریز کو باہر نکالنے میں مدد کرے، اس کے بعد تقسیم ہوگی، جب کہ جنا ح صاحب آزادی سے قبل تقسیم کے خواہاں تھے۔ دراصل اُنھیں کانگریس کے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں تھا۔ جولائی ۱۹۴۴ء میں اس فارمولے کی بنیاد پر ہونے والی بات چیت کی ناکامی کا اعلان کر دیا گیا۔
۱۷جولائی کو گاندھی جی نے قائداعظم کے نام ایک خط میں ملاقات کی تجویز پیش کی۔ ۹اور ۲۷ستمبر ۱۹۴۴ء کے درمیان دونوں رہنمائوں کی باہمی بات چیت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مذاکرات کے چودہ دور ہوئے۔ اس دوران میں ہونے والی بات چیت، دونوں رہنمائوں نے ۲۴خطوط میں ریکارڈ کی جو ۱۵ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل تھے۔ ان مذاکرات میں قراردادِ پاکستان کی بنیاد پر غوروفکر کا آغاز ہوا۔
جنابِ جناح چاہتے تھے کہ گاندھی جی پاکستان کا مطالبہ اصولی طور پر تسلیم کرلیں، مگر جسے گاندھی جی نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ: ’آپ کے اور میرے درمیان سمندر حائل ہے‘۔ پھر راج گوپال اچاریہ کے فارمولے کو بنیاد بنا کر بات چیت کرنا چاہی، جسے جناح صاحب پہلے ہی مسترد کرچکے تھے۔ گاندھی جی نے تجویزپیش کی کہ: ’آپ مجھے پاکستان کے جواز پر قائل کرلیں، اور ساتھ یہ شرط بھی رکھی کہ: ’مجھے تمام فرقوں کا نمایندہ تصور کر کے بات چیت کی جائے، جسے قائداعظم نے پہلے ہی مسترد کرتے ہوئے لکھا: ’’یہ بالکل واضح ہے کہ آپ ہندوئوں کے سوا کسی اور گروہ کی نمایندگی نہیں کرتے اور آپ جب تک اپنی صحیح حیثیت اور حقائق کو تسلیم نہیں کرتے، میرے لیے آپ سے بحث کرنا بہت مشکل ہے اور آپ کو قائل کرنا اور بھی زیادہ دُشوار‘‘۔ گاندھی جی ابھی تک نظریاتی بحث میں اُلجھے ہوئے تھے۔ تقسیم کا اصول وہ کسی صورت بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی۔
ان مذاکرات کا سب سے دل چسپ پہلو یہ تھا کہ گاندھی جی، کانگریس کے کسی عہدے دار کی حیثیت سے نہیں،اپنی ذاتی حیثیت میں بات چیت کر رہے تھے۔ قائداعظم نے گاندھی جی کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلاتے ہوئے لکھا: ’’کسی گفت و شنید اور سمجھوتے پر پہنچنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں پارٹیوںکی پوری نمایندگی نہ ہو۔ یہ معاملہ یک طرفہ ہے، اس لیے کہ کسی تنظیم پر اس کی پابندی عائد نہیں ہوگی، اور اگر سمجھوتا طے پا گیا تو آپ ایک فرد کی حیثیت سے کانگریس اور ملک کے سامنے اس کی سفارش کریں گے، جب کہ مسلم لیگ کا صدر ہونے کی حیثیت سے مجھ پر اس کی پابندی لازم ہوگی‘‘۔
مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان آزادانہ طور پر کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے یہ آخری بات چیت تھی۔ کانگریس کی قیادت اور خصوصاً گاندھی جی، مسلمانانِ ہند کی پاکستان کے قیام کی واضح خواہش کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ملک کی تقسیم کے متعلق راج گوپال اچاریہ اور گاندھی جی کا فارمولا، جنابِ جناح نے پاکستان کے مطالبے کو ڈائنامیٹ کرنے کا منصوبہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔
وائسرائے لارڈ ویول [م:۱۹۵۰ء]کی تحریک پر ہندستانی رہنما جولائی ۱۹۴۵ء میں گرمائی دارالحکومت شملہ میں جمع ہوئے جن میں قائداعظم اور گاندھی جی بھی شریک تھے، لیکن دونوں رہنمائوں کے درمیان علیحدہ مذاکرات نہ ہوئے۔ شملہ کانفرنس بھی کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں ناکام ہوگئی۔ اس کانفرنس میں گاندھی جی نے یہ تاثر دیا گویا بادل نخواستہ بات چیت میں شریک ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ جنابِ قائد نے بمبئی میں تقریر کرتے ہوئے پوچھا کہ: ’’گاندھی جی اگر کانفرنس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے تو وہ شملے گئے کیوں تھے؟‘‘ شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد قائداعظم نے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ: ’’مَیں پاکستان کے لیے زندہ رہوں گا اور پاکستان کے لیے مروں گا‘‘۔
تقسیم کے خلاف ابھی گاندھی جی کے ترکش میں تیر ختم نہیں ہوئے تھے۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۶ء کے ہریجن میں اُنھوں نے مطالبۂ پاکستان کی اسلامی اساس پر حملہ کرتے ہوئے نیا شوشہ چھوڑا اور وہ تھا پاکستان کے مطالبے کو غیراسلامی قرار دینا۔ اُنھوں نے کہا: ’’مجھے پاکستان کا مطالبہ قبول کرنے میں تذبذب نہیں ہوگا، اگر مجھے اس مطالبے کے صحیح ہونے یا اسلام کے لیے مفید ہونے کا قائل کردیا جائے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے خود فیصلہ صادر کر دیا: ’’مجھے پوری طرح یقین ہے کہ مطالبۂ پاکستان ، جو مسلم لیگ نے پیش کیا ہے ، غیراسلامی ہے اورمجھے اُسے ایک گناہِ عظیم کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں‘‘۔ گاندھی جی کے نزدیک: ’’وہ لوگ، جو ہندستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، ہندستان اور اسلام دونوں کے دشمن ہیں‘‘۔
گاندھی جی اس پورے عرصے میں تقسیم کے خلاف جس طرح دلائل دے رہے تھے اور ان کے رویّے میں جس قدر شدت اور تیزی آرہی تھی، مسلمانانِ ہند اُتنی ہی قوت سے اپنی حمایت کُل ہند مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال چکےتھے۔ تقسیم اب ایک ناگزیر عمل تھا اور قیامِ پاکستان ایک نہ مٹنے والی حقیقت۔ کانگریس کی لیڈرشپ اب گاندھی جی کے اثر سے نکل کر نہرو ، کرشنامینن [م: ۱۹۷۴ء] اور پٹیل [م: ۱۹۵۰ء] کے ہاتھوں میں مرتکز ہوچکی تھی اور تمام تر فیصلے انھی تین افراد کی مرضی سے طے پاتے تھے۔
۲۴مارچ ۱۹۴۷ء کو مائونٹ بیٹن [م:۱۹۷۹ء]آخری وائسرائے کے طور پر برطانوی مقبوضہ ہندستان پہنچے، تو تقسیم کے متعلق بحث کے تمام نکات کا فیصلہ ہوچکا تھا۔تاہم، مائونٹ بیٹن ، ہندستان کو ایک متحد ملک کے طور پر اختیارات سونپنے کا تصور اورارادہ لے کر آئے تھے۔ گاندھی جی سے بڑھ کر اُن کو اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے اور کون سی ہستی مل سکتی تھی؟ لیکن قائداعظم نے نئے وائسرائے کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں واضح کردیا کہ: ’اگر بات چیت ہوگی تو فقط پاکستان کی بنیاد پر‘۔ اب گاندھی جی نے اپنے ترکش کا آخری تیر استعمال کیا۔ اُنھوں نے مائونٹ بیٹن سے کہا کہ: ’وہ مسٹرجناح کو ہندستان کا وزیراعظم نامزد کردیں‘۔
غالباً وہ سوچ رہے تھے کہ شاید اس طرح تقسیم اور قیامِ پاکستان کچھ عرصے کے لیے ٹل جائے۔ ۶مئی کو گاندھی جی اور جناح صاحب کے درمیان وائسرائے کی تحریک پر مذاکرات کا ایک اور دور ہوا۔ گاندھی جی نے تقسیم کا اصول ماننے سے انکار کردیا۔ ۲۲جون کو اُنھوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا: ’’ہندستان کی تقسیم ___ جہاں تک انسان دیکھ سکتا ہے، اب حقیقت بن چکی ہے‘‘۔ لیکن گاندھی جی شروع سے جس حقیقت سے انکار کرتے چلے آرہے تھے، اُسے اُنھوں نے اب بھی ماننے سے انکار کر دیا اور کہا:’’میں نے قائداعظم جناح کے دو قومی نظریے کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور نہ کبھی کروں گا‘‘۔
تاہم، پاکستان اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آچکا تھا۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے لاہور میں کہا تھا:
ہم لوگ ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کا شکار رہے ہیں جو دیانت، جرأت مندی اور وقار کے بنیادی اصولوں کے خلاف پروان چڑھائی گئی تھی۔ ہم مالکِ حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں حوصلے اور یقین کی دولت سے نوازا کہ ہم بدی کی قوتوں سے لڑسکیں۔
[اس مضمون کے لیے مختلف اخبارات،رسائل اور درجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: