مارچ ۲۰۱۹

فہرست مضامین

گفتگو: سایے اور غفلت سے

ڈاکٹر جاسم محمد مطوع | مارچ ۲۰۱۹ | تذکیر

Responsive image Responsive image

میرا سایہ اچانک پکار اٹھا : میں تمھارے ساتھ چلتے چلتے اُکتا چکا ہوں۔
میں: کیوں؟
سایہ: کیوں کہ تم مجھے وہاں وہاں لیے پھرتے ہو، جہاں جانا میری فطرت کے خلاف ہے۔ تمھارے کاموں پر بظاہر خوب صورتی اور چمک دکھائی دیتی ہے، لیکن اندرون میں ریاکاری کا اندھیرا ہوتا ہے۔ کاش میں تمھارا سایہ نہ ہوتا!
میں: تم مجھے چھوڑنا چاہتے ہو، لوگ تو مجھ سے ملنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ حیرت ہے تمھاری راے پر!
سایہ: اخلاق کے جوہر تو ساتھ رہنے پر ہی کھلتے ہیں۔ لوگ میری طرح تمھارے ساتھ نہیںرہتے۔ تم اپنے دل میں دیکھو گے تو سیاہی ہی نظر آئے گی۔
میں: اس سیاہی کا سبب کیا ہے؟
سایہ: جب کاموں سے اخلاص رخصت ہوجائے اور معاملات میں دکھلاوا اور ریاکاری شامل ہوجائے تو دل سیاہ ہوجاتے ہیں۔
میں: کیا یہ چیز واقعی دل پر اس درجہ اثر کرتی ہے؟
سایہ: ہاں! اخلاص ہی تو عمل کی اساس ہے۔ اسی لیے کہا گیا ’جو انسان اخلاص سے خالی ہو، اس سے کہہ دو کہ اپنے آپ کو تھکانے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا حکم دیا ہے: ’’انھیں تو صرف اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے‘‘۔(البینۃ ۹۸:۵)
امام محاسبیؒ بیان کرتے ہیں: ’’ جب درخت کی جڑیں باہر نظر آنے لگتی ہیں تو وہ سیراب ہونا بند کردیتا ہے۔ پھر اس کے پتّے سوکھنے لگتے ہیں، وہ پھل دینا بند کردیتا ہے اور اس کی قدر وقیمت گھٹ جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کی جڑیں زمین کے اندر ہوں تو وہ خوب سیراب ہوتا ہے خوب سرسبز و شاداب رہتا ہے اور اچھے پھل دیتا ہے۔ یوں اس کی قدروقیمت بھی بڑھ جاتی ہے‘‘۔
میرے دوست اسی طرح جب تمھارا عمل اللہ کے لیے خالص ہوگا، اللہ کی شریعت میںاس کی جڑیں ہوں گی، تو انجام بھی خوب ہوگا۔
میں: لیکن یہ کام تو میرے لیے بہت دشوار ہے۔
سایہ: تم صحیح کہہ رہے ہو، اس کی و جہ یہ ہے کہ نیت وہ سب سے بڑا دروازہ ہے، جس سے شیطان کو آنے کا موقع ملتا ہے۔ وہیں سے وہ آدمی کے عمل کو بگاڑتا ہے۔ امام سفیانؒ نے اسی لیے تو کہا تھا: ’’ مجھے سب سے زیادہ دشواری اور مشکل اپنی نیت کی اصلاح میں پیش آتی ہے‘‘۔
میں: لیکن لوگ تو نہیں جانتے کہ میں ریاکار ہوں؟
سایہ: ذرا سوچو، کیا تمھارا معاملہ لوگوں کے ساتھ ہے یا لوگوں کے ربّ کے ساتھ ہے؟  اور پھر اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپنے والی نہیں ہے۔ سیدقطب شہیدؒنے تو لکھا ہے:
اس کے یہاں قیامت کے دن ہر چیز بے نقاب ہوگی۔ جسم بے نقاب، نفس بے نقاب، ضمیر بے نقاب، عمل بے نقاب، انجام بے نقاب، رازوں پر سے تمام پردے گرپڑیں گے، اور جسموں کی طرح روحیں بھی بے لباس ہوجائیں گی۔
اس دن لوگ تمھارے کام نہیں آسکیں گے میرے دوست۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرو۔ چھپ کر عبادت کرو، تاکہ شیطان تمھاری نیکیاں چوری نہ کرلے۔
 میں تمھیں ایک بزرگ کاواقعہ سنائوں: ’’انھوں نے چالیس سال ایسے روزہ رکھنے کا اہتمام کیا کہ کوئی نہیں جان سکا۔ گھر سے روز روٹیاں لے کر بازار کے لیے نکلتے تھے۔ وہاں انھیں صدقہ کرکے خود روزے سے رہتے تھے۔ گھر والے سمجھتے تھے کہ بازار میں جاکر کھالیا اور بازار والے سمجھتے رہے کہ گھر سے کھا کر نکلے ہیں‘‘۔
میں: میرے سایے ،تو نے میرے سوچنے کا زاویہ ہی بدل دیا لیکن یہ تو بتا کہ ریاکار اور ظاہردار کی علامتیں کیا ہیں؟
سایہ: حضرت علیؓ فرماتے ہیں: 
ریاکار کی تین نشانیاں ہیں: جب وہ تنہا ہوتا ہے تو سستی کرتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے تو چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ تعریف ہو تو عمل زیادہ کرتا ہے ، مذمت ہو تو عمل کم کرتا ہے۔
میں: افسوس صد افسوس! میرے تو سارے کام بے کار اور برباد گئے۔
سایہ: نیا عزم کرو، اللہ کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرو۔ عمل میں اخلاص کے لیے ہمیشہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمھارے عمل میں بھی وہی برکت دے، جو اس نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے عمل میں دی تھی۔
میں: اخلاص نے عمر بن عبدالعزیزؒ کی شخصیت کو کیسے بابرکت بنا دیا تھا؟
سایہ: عمر بن عبدالعزیزؒ کے چچا زاد بھائی ہشام بن عبدالملک ان کے بارے میں کہتے تھے: ’’میں سمجھتا ہوں کہ عمر کے ہر قدم کے ساتھ نیک نیتی کارفرما ہوتی تھی‘‘۔
 اس پر شیخ راشد لکھتے ہیں:’’ اسی لیے عمر بن عبدالعزیزؒ نے دو سال سے بھی کم مدت میں دونسلوں کے ٹیڑھ کو درست کردیا‘‘۔
 آج بھی داعی اسلام کو چاہیے کہ وہ اس بگاڑ کو بہت بڑا نہ سمجھے جو پورے عالم اسلام پر چھایا ہوا ہے، کیوںکہ اگر اس کے بھی ہر قدم کے ساتھ خلوص نیت شاملِ حال رہا تو اللہ کے حکم سے دو سال سے کم عرصے میں وہ دونوں طاقتوں کو شکست دے سکے گا۔
میں: تمھاری بات تو پہاڑوں کو ہلا ڈالنے والی ہے۔ میں بھی ان شاء اللہ اب نیک نیتی کے ساتھ حرکت وعمل کے میدان میں کود پڑوں گا۔
سایہ: میرے دوست اپنے آپ کو اخلاص کے لیے آمادہ کرنا شروع کردو اور حسن نیت کے ساتھ میدان عمل میں آجائو، قبل اس کے کہ تمھارا سایہ تمھیں جلا ڈالے۔
میں: کیا کہا آپ نے؟ سایہ اور جلاڈالے؟
سایہ: ہاں میرے دوست! سایے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:
عذاب کا سایہ، جب قیامت کے دن اللہ پاک کہے گا:
اِنْــطَلِقُوْٓا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِہٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۲۹ۚ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۝۳۰ۙ  لَّا ظَلِيْلٍ وَّلَا يُغْنِيْ مِنَ اللَّہَبِ۝۳۱ۭ [المرسلات۷۷: ۲۹-۳۱] چلو اس سایے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے، نہ ٹھنڈک پہنچانے والا اور نہ آگ کی لپٹ سے بچانے والا۔
دوسرا رحمت کا سایہ جس کے بارے میں رب کریم نے فرمایا: 
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ  فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ  وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ  وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ  وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ [الواقعہ ۵۶:۲۷ - ۳۱] اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کاکیا کہنا، وہ بے خار بیریوں اور تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دو رتک پھیلی ہوئی چھائوں اور ہردم رواں پانی میں ہو ں گے۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں:’’جنت میں دھوپ نہیں ہوگی، جنت میں تو سایہ ہی سایہ ہوگا‘‘۔
تو میرے ساتھی خود ہی طے کرو تم کون سا سایہ پسند کرو گے؟

اور غفلت

میں دار المطالعے میں داخل ہوا تو کیا دیکھا کہ ایک کتاب زمین پر پڑی ہوئی ہے۔ میں نے تعجب سے سوچا، اسے یہاں کس نے ڈال دیا ہے؟ میں تو کتابیں سلیقے سے رکھنے کا شوقین ہوں، پھر اسے زمین پر کس نے گرادیا؟ کیا یہ خود ہی گرپڑی ہے یا کسی اور نے میری کتاب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے؟ میں نے کتاب اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کتاب میں سے یکایک ایک لفظ زمین پر گرپڑا۔ میں نے اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو اس نے کہا: ’مجھے مت پکڑو‘۔ میں نے تعجب سے دیکھا تو یہ لفظ تھا: ’غفلت‘۔
میں:کیا الفاظ بھی بولتے ہیں؟
کتاب : ہاں، جب غفلت حد سے بڑھ جاتی ہے تو الفاظ بھی پکاراٹھتے ہیں۔
میں: کیا مطلب؟ کیا میں غافل ہوں؟
غفلت: تمھارا دل ایمانی کیفیات سے غافل ہے۔ اب دیکھو نا، تمھارے اندر مراقبے اور غوروفکر کی کمی ہے ۔ مجاہدے کی کمی ہے۔ نہ احتساب ہے اور نہ توبہ اور انابت ہے۔
میں: ہاں تمھاری بات تو صحیح ہے۔ میں فکری اور تحریکی لحاظ سے تو ٹھیک ہی ہوں، لیکن میری زندگی کا ایمانی پہلو کمزور ہے، روحانی غفلت میری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن اے غفلت! یہ تو بتا اس کا سبب کیا ہے؟
غفلت: آہ! غافلوں کے ساتھ رہنا ہی اس کا سبب ہے۔ وہ بدی کو اچھا بنا کر پیش کرتے ہیں اور برائیوں کو خوبصورت لباس میں دکھاتے ہیں۔ اسی لیے تو اللہ نے ان کے ساتھ رہنے اور ان کی بات سننے سے منع فرمایا ہے:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۝۲۸ (الکہف۱۸:۲۸)اس کی بات مت مانو جس کے دل کو ہم نے غافل کردیا اور اس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کی۔ 
میں: کیسے معلوم ہو کہ دل غفلت کا شکار ہے؟
غفلت: سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: ’’جب انسان کی پوری توجہ اس کی ذات، اس کے مال، اس کے بچوں، اس کے سازوسامان اور شہوتوں کی طرف ہوجائے اور وہ اپنے دل میں اللہ کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑے‘‘۔
میں: تمھارا خیال ہے کہ غفلت والوں کی صحبت کا بھی اثر پڑتاہے، حالاںکہ جو خود غافل ہیں وہ دوسروں پر کیا اثر ڈالیں گے؟
غفلت: ارے اللہ کے بندے! لمحے بھر کے لیے سوچو کہ، دھواں گھر کو جلاتا نہیں مگر کالا تو کردیتا ہے۔
میں: یہ مثال تو بڑی پیاری ہے، لیکن یہ بتائو کہ ایمان کے تقاضوں سے غفلت کا، زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
غفلت: غافل کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب اسے اللہ کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہے تو اس کے دل میں خوشی اور انبساط کا احساس نہیں پیدا ہوتا۔
اللہ کی یاد اور قرآن کی تلاوت اسے مسرور اور سرشار نہیں کرتے۔
اللہ کے دیدار کا شوق اس کے دل کو بے تاب نہیں کرتا۔
اسی لیے تو اللہ رب العزت نے کہا ہے:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۝۲۰۵  (اعراف۷:۲۰۵) اپنے رب کو صبح وشام یاد کیا کرو ،دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی، ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
میں: (پُرجوش ہوکر): ارے ہاں، یہی تو میری پریشانی ہے۔
میں لوگوں کی بھیڑ میں مل جل کر رہنا ہی پسند کرتا ہوں، اور مجھے اب اسی کی عادت پڑگئی ہے۔ اب اللہ کے ساتھ خلوت میں اور اس کی یاد میں مشغول رہنا مجھے راس ہی نہیں آتا۔ غفلت کے بارے میں مجھے کچھ اور بتائو۔
غفلت: تھوڑی دیر کے لیے مان لو کہ تم ایک بے آب وگیاہ صحرا میں گم ہوگئے ہو۔ کھانا پانی ختم ہوگیا ہے اور تم موت کے منہ کے قریب پہنچ گئے ہو اور پھر مایوس ہوکر اپنے آپ کو موت کے حوالے بھی کردیا ہے۔ابھی تم موت کا انتظار ہی کررہے ہو کہ دور ایک قافلہ نظر آیا اور تم اُٹھ کر اس کی جانب دوڑ پڑے۔ دوڑتے میںایک کانٹا تمھارے تلوے میں چبھ گیا اور تم رُک کر اسے دیکھنے لگے۔ اسی دوران میں پھر جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ قافلہ تو کسی ٹیلے کی آڑ میں چلاگیا ہے۔نظروں سے گم ہوگیا ہے۔
میں: اس میں بھلا غفلت کی کون سی بات ہے؟
غفلت: یہی کہ دنیا کے کانٹوں میں مصروف ہوجانا۔
میں:دنیا کے کانٹے کیا ہیں؟
غفلت: یہ کانٹے ہیں: دنیا سے وابستہ ہوجانا، دل کو پوری طرح مال ومنصب، زن اور زیب و زینت کی طرف جھکا دینا، اور ان چیزوں کو اللہ کے حقوق سے بھی بڑھ کر سمجھ لینا۔ 
یاد رکھو! جب غفلت چھاجاتی ہے ، خواہ وہ دل کی ہو یا زبان کی ، کان کی ہو یا آنکھ کی، تو اس وقت انسان کی سخت آزمایش ہوتی ہے۔
میں: مجھے ایک بزرگ کی بات یاد آگئی۔ ایک روز انھوں نے کہا تھا: ’’جب تم آزمایش زدہ کو دیکھو تو اللہ سے عافیت کی دعا مانگو‘‘۔ پھر مجھ سے کہنے لگے: ’’جانتے ہو آزمایش زدہ کون ہوتے ہیں؟ وہ جو اللہ سے غافل ہوں‘‘۔
غفلت: ہاں، یہ بہت سچی بات ہے۔ امام ابن جوزیؒ کہتے ہیں: 
خوش خبری اس کے لیے ہے جو نیند سے بیدار ہوجائے، ماضی کے بگاڑ پر آنسو بہائے اور پھر نافرمانی کے دائرے سے نکل کر نیکی کے دائرے میں آجائے۔ ہوسکتا ہے اس کا صحیح اعترافِ گناہِ، اس کے بُرے ارتکابِ گناہ کو مٹا دے۔ لیکن یہ اس دن سے پہلے ہو، جب اس کی بات بے سود اور اس کا عذر بے وزن ہوگا۔
یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
غفلت: کبھی کبھی داعی حق کے راستے کی ایک ٹھوکر اسے چونکا دیتی ہے کہ: ’’راستہ تو ابھی بہت کم طے ہوا ہے‘‘ اور پھر وہ عمل اور تقویٰ میں مزید اضافے کے لیے کوشاں ہوجاتا ہے۔ لیکن میں تمھیں یہ خوشی کی بات بھی بتائوں کہ ہر غفلت قابل مذمت نہیں ہوتی۔ غفلت کی ایک قسم پسندیدہ بھی ہے۔
میں: کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
غفلت: ہاں، اور اسی کے بارے میں امام مطرف بن عبداللہؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ مجھے موت کب آئے گی، تو خوف سے میرا دماغ خراب ہوجاتا۔ یہ تو اللہ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ موت سے تھوڑا سا غافل بھی ہوجاتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہو تو نہ انھیں زندگی کا کوئی لطف ملے اور نہ زندگی کا کاروبار چل سکے‘‘۔میرے نام کا یہی ایک اچھا مفہوم ہے، لیکن لوگ اس سے بھی غافل ہیں۔
میں: قسم سے، تم نے سچ کہا۔
غفلت: ایک اور مفہوم بھی ہے غفلت کا، جس پر میں نے اب تک بات نہیں کی۔
میں: وہ کیا ہے؟ بتاؤ، آج میں غفلت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہتا ہوں۔
غفلت: لوگوں کا مذاق اڑانے اور ان کے عیبوں کو تلاش کرنے کا اصل سبب خود اپنے آپ سے غفلت ہے۔ امام عونؒ بن عبداللہ کے الفاظ میں:’’جس نے اپنے آپ کولوگوں کی عیب جوئی کے لیے فارغ کررکھا ہے، میں نے دیکھا کہ وہ اپنے آپ سے غافل ہے‘‘۔
سو، ا ے بندۂ خدا ہوشیار رہو، غفلت کو دل کے قریب بھی نہ پھٹکنے دو، تمھارا شمار متقیوں میں ہوگا اور متقیوں کی دعوت میں تمھیں بلایا جائے گا۔
میں: متقیوں کی کیسی دعوت؟
غفلت: قیامت کے دن متقی مومنوں کی تقریبِ دعوت۔ اس دن غافلوں سے کہہ دیا جائے گا : ’’آج ہم انھیں فراموش کردیں گے، کیوںکہ انھوں نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا‘‘۔ (اعراف۷:۵۱)
میں نے کتاب کھولی اور گرے ہوئے لفظ ’غفلت‘ کو اُٹھا کر اس کی جگہ پر چسپاں کیا۔ کتاب اور اس کے الفاظ مطمئن تھے کہ انھوں نے ہوشیار کرنے کی ذمہ داری ادا کر دی اور میری زبان پر یہ دعا تھی: اللہم لا تجعلنی من الغافلین،’’ اے اللہ مجھے غافلوں میں مت بنا۔‘‘