شرک کے شائبوں سے پاک عقیدۂ توحید جب کسی فرد کی زندگی میں آ جائے ، یا کسی قوم کی اجتماعی زندگی اس عقیدے پر اُستوار ہو جائے، تو زندگی میں اس کے بہترین ثمرات اور نہایت مفید اثرات سامنے آتے ہیں۔ ان ثمرات واثرات میں سے چند درج کیے جاتے ہیں:
شرک اپنی تمام صورتوں اور مظاہر میں انسان کی ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ شرک انسان کو مخلوقات کے سامنے جھکاتا اور ان اشیا اور انسانوں کی بندگی اس سے کراتا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں ۔ وہ خود اپنے کسی نفع ونقصان کے بھی مالک نہیں ، اور نہ زندگی اور موت ان کے ہاتھ میں ہے، جب کہ توحید دراصل اللہ کی بندگی کے سوا ہرطرح کی بندگی سے انسان کی نجات اور آزادی کا نام ہے۔ توہمات وخرافات سے انسانی دل ودماغ کی آزادی ہے اور انسانی ضمیر کے کسی بھی چیز کے سامنے حقیر وذلیل ہونے سے آزادی ہے۔ وقت کے فرعونوں ،خدائوں اور جھوٹے معبودوں کے تسلط سے انسانی زندگی کی آزادی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شرک کے علَم بردار وں اور جاہلیت کے باغیوں نے ہر دور میں انبیاؑ کی دعوت کو روکنے کی پوری کوشش کی خاص طور پر رسول کریم ؐ کی دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ دراصل ان باغیوں اور سرکشوں کو معلوم تھا کہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب انسان کی آزادی کا اعلان ہے۔ ہر قسم کے جابروں کو ان کی جھوٹی خدائی کے تخت سے گرانے کا اعلان ہے۔ اہل ایمان کے لیے سر اُٹھا کر جینے کا اعلان ہے۔ یہ اعلان کہ ان کی پیشانی اللہ رب العالمین کے سوا کسی شے کے سامنے خم نہیں ہو سکتی۔
عقیدۂ توحید ایک ایسی متوازن شخصیت تشکیل کرتا ہے جس کا قبلۂ زندگی ممتاز ہوتا ہے۔ اس کا مقصد زندگی ایک ہوتا ہے اور اس کا طرزِ زندگی متعین ہوتا ہے۔ اس کا معبود ایک ہی ہوتا ہے جس کی طرف وہ خلوت وجلوت میں رجوع کرتا ہے۔ وہ تنگی اور تکلیف میں اسی کو پکارتا ہے۔ وہ چھوٹا بڑا عمل وہی انجام دیتا ہے جو اس معبود واحد کی رضا مندی کا باعث ہو۔
اس کے مقابلے میں مشرک کا قبلۂ زندگی طرح طرح کے معبودوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اس کی زندگی قسم قسم کے معبودوں میں بٹی ہوتی ہے۔ کبھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو کبھی بتوں کی طرف لپکتا ہے۔ وہ کبھی اس بت کی بندگی بجا لاتا ہے تو کبھی دوسرے بت کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔
ایسی ہی کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ کے پیغمبر سیدنا یوسف ؑ نے فرمایا تھا: ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲:۳۹) ’’تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے بھی ایسی کیفیت کو مثال دے کر سمجھایا ہے : ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْہِ شُرَكَاۗءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ۰ۭ ہَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا ۰ۭ (الزمر۳۹:۲۹) ’’اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں، اور دوسرا شخص پورا کا پوراایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا اُن دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟‘‘
مومن کی مثال اس غلام جیسی ہے جس کا مالک ایک فرد ہو۔ ایسے غلام کو اپنے مالک کی پسند وناپسند اور خوشی و نا خوشی کا علم ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ غلام وہی کام کرتا ہے جو اس کے مالک کو خوش کرے اور اس سے اس کو راحت ملے،جب کہ مشرک کی مثال اس غلام جیسی ہے جس کا مالک ایک فرد نہیں بلکہ کئی افراد اس کے مالک ہوں۔ ایک فرد اس کو مشرق کی طرف روانہ کرتا ہے، جب کہ دوسرا مغرب کی طرف بھیج دیتا ہے۔ ایک اس کو دائیں طرف سے کھنچ رہا ہوتا ہے اور دوسرا اسے بائیں طرف سے کھینچتا ہے۔ یہ مختلف اور متضاد رجحانات اور مقاصد رکھنے والے مالک ہیں اور بے چارہ غلام ان کے درمیان منقسم اور بٹا ہوا ہے۔ وہ ایک جگہ نہ ٹھیرسکتا ہے نہ رُک سکتا ہے۔
عقیدۂ توحید اپنے ماننے والے کو دل کا اطمینان اور سکون عطا کرتا ہے۔ عقیدۂ توحید کے حامل فرد کے اوپر وہ خوف اور خدشات حاوی نہیں ہو سکتے جو ایک مشرک کے اوپر قبضہ جمائے رہتے ہیں۔ عقیدۂ توحید ایسے خوف وخدشات کے تمام راستوں کو بند کر دیتا ہے، مثلاً رزق کا خوف، موت کا خوف، بیوی بچوں کا خوف، انسانوں اور جنوں سے نقصان پہنچنے کا خوف ، موت اور مابعد الموت کا خوف۔ یہ تمام خوف عقیدۂ توحید سے خالی دل کی آما جگاہ ہوتے ہیں بلکہ اس طرح کے دل میں یہ تمام خوف بہترین طریقے سے نشوونما پاتے ہیں، جب کہ عقیدۂ توحید سے لبریز دل میں ان خطرات کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ وہاں صرف ایک رب کی ناراضی کا خوف ہے اور کسی کا نہیں۔
توحید پرست مومن اللہ کے علاوہ کسی شے سے ڈرتا ہے نہ کسی انسان سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوگ گھبرا جاتے ہیں تو یہ مطمئن نظر آتا ہے۔ لوگ مضطرب اور بے چین ہوں تو یہ پُرسکون دکھائی دیتا ہے۔ دراصل یہ عقیدۂ توحید کا اثر ہے جس نے اس کے دل سے تمام خطرات وخدشات کا خوف نکال دیا ہے۔ جلیل القدر پیغمبر اور جدالانبیاؑ سیدنا ابراہیم ؑ کے اپنی قوم کے ساتھ مکالمے میں اسی اطمینان قلبی کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، جب ان کی قوم نے ان کو اپنے بتوں سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی۔ سید نا ابراہیم ؑ نے نہایت تعجب خیز انداز میں ان سے پوچھا: وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا ۰ۭ فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ۰ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۸۱ۘ (الانعام ۶:۸۱) ’’اورآخر مَیں تمھارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں، جب کہ تم اللہ کے ساتھ اُن چیزوں کو اُلوہیت میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اُس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتائو اگر تم کچھ علم رکھتے ہو‘‘۔
پھر اللہ تعالیٰ نے خود بھی واضح کیا کہ ان دونوں فریقوں میں سے امن کا حق دار کون سا فریق ہے، لہٰذا فرمایا : اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲)’’ حقیقت میں تو امن اُن ہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘۔
دل کا یہ سکون دل کے اندر ہی سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ کسی شیطانی محافظ کی کسی کوشش سے۔ اور یہ تو دنیاوی امن کی بات ہے ۔ رہا آخرت کے امن کا معاملہ تو یہ دنیاوی امن سے زیادہ بڑا معاملہ ہے ۔ اور یہ اہل ایمان ہی کو حاصل ہو گا کیوںکہ انھوں نے اللہ کی بندگی کو شرک سے آلودہ نہ ہونے دیا بلکہ اس کو خالص رکھا۔
امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آیت اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ (الانعام ۶:۸۲) نازل ہوئی تو ہم نے پوچھا : یارسولؐ اللہ ! ہم میں سے کون ہے جو اپنے اوپر ظلم نہیں کرتا ؟ آپ ؐ نے فرمایا: بات اس طرح نہیں ہے جیسے تم کہہ رہے ہو ۔ کیا تم نے لقمان ؑ کی اپنے بیٹے کو نصیحت نہیں سنی کہ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۱۳ (لقمان۳۱:۱۳) ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔
لہٰذا واضح ہوا کہ وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیا اور اپنے عقیدۂ توحید کو شرک کے شائبوں سے آلودہ نہیں کیا۔
عقیدۂ توحید اپنے ماننے والے کو بہت بڑی نفسیاتی قوت عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل اللہ سے اُمید ، اس پر یقین اور توکل ، اس کے فیصلوں پر رضامندی ، اس کی آزمایشوں پر صبر اور اس کی مخلوقات سے استغنا کی قوت وطاقت سے لبریز رہتا ہے۔ ایسا شخص پہاڑ کی مانند ثابت قدم ہوتا ہے جس کو حادثاتِ زمانہ ہلا سکتے ہیںنہ حالات زمانہ ڈگمگا سکتے ہیں ۔جب بھی کوئی مصیبت یا سختی اس پر آتی ہے تو وہ مخلوق کی طرف نہیں بھاگتا بلکہ وہ اپنے دل کو اپنے خالق کی طرف یکسو کر لیتا ہے ۔ وہ اسی سے مانگتا ہے اور اسی سے مدد لیتا ہے ، اسی کے اُوپر اعتماد و انحصار کرتا ہے۔ وہ مصیبت سے نجات اور خیر کے حصول کے لیے اللہ کے علاوہ کسی سے اُمید نہیں رکھتا۔ وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی کے آگے دست ِ دُعا نہیں پھیلاتا۔ وہ اُس کے سامنے روتا اور گڑگڑاتا ہے او ر اسی کی طرف رجوع کرتا اور اسی سے اپنی لو لگاتا ہے۔ اس کا امتیازی نشان بزبان رسالت یہ ہوتا ہے : ’’تو جب بھی مانگے ، اللہ سے مانگ ، اور مدد چاہے تو اللہ سے لے‘‘۔
ایسے شخص کی اعتقادی کیفیت کو قرآن مجید نے یوں متعین کر کے بیا ن کیا ہے: وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ ۰ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۰ۭ يُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۰ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۱۰۷ (یونس ۱۰:۱۰۷) ’اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اُس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
ایسا ہی موقع تھا جس کو قرآن مجید نے اہل ایمان کی اعتقادی کیفیت کو تقویت دینے کے لیے بیان کیا ہے جب پیغمبر خدا حضرت ہود ؑ کی قوم نے بتوں کی کارروائی سے ان کو ڈرایا تو ہود ؑ نے فرمایاـ: اُشْہِدُ اللہَ وَاشْہَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۵۴ۙ مِنْ دُوْنِہٖ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۵۵ اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۵۶ ( ھود ۱۱:۵۴-۵۶) ’’میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوںاور تم گواہ رہو کہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے اُلوہیت میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اِس سے مَیں بے زار ہوں۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اُٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔ میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمھارا ربّ بھی۔ کوئی جان دار ایسا نہیں جس کی چوٹی اُس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے‘‘۔
یہ ایسی طاقت ور عقلی دلیل ہے جو ایک مضبوط عقیدۂ توحید کے حامل دل اور مضبوط ترین قوتِ استقامت کے حامل نفس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ ایسا ایمان ہے جو کمزور پڑ سکتا ہے نہ دب سکتا ہے اور ایسی روحانی قوت ہے جو کسی کمزوری اور خوف سے نا آشنا ہو۔ اس لیے کہ ایسا دل اور نفس توکّل علی اللہ سے مدد لیتا ہے اور جو اللہ پر توکّل کر ے جان لینا چاہیے کہ اللہ تمام تر طاقت اور حکمت کا مالک ہے: وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ فَاِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۴۹ ( الانفال ۸:۴۹) ’’اگر کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو یقینا اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے‘‘۔
جب عقیدۂ توحید انسان اور اس کے احساس عزت وتکریم کی آزادی کی اساس شمار ہوتا ہے تو یہ عقیدہ انسانی اخوت اور بشری مساوات کی بنیاد بھی بنے گا۔ کیوںکہ انسانوں کے اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا ربّ بنا لینے کی صورت میں انسانی اخوت ومساوات قطعاً پیدا نہیں ہوسکتی ۔ انسانوں کے درمیان اخوت ومساوات کی اصل بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ وہ سب کے سب ایک اللہ کے بندے ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مکاتیب دنیا کے مختلف باد شاہوں اور سربراہوں کو لکھے غالباً اسی بنا پر ان کا اختتام اس آیت پر ہوتا ہے: تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ ۰ۭ(اٰل عمرٰن ۳:۶۴) ’’ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سو ا کسی کو اپنا ربّ نہ بنا لے‘‘۔
رسول کریم ؐ کی بعد از نماز دعائوں میں یہ عظیم اور شان دار دعا بھی مروی ہے:
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ءٍ وَمَلِیْکَہُ ، اَنَا شَہِیْدٌ اَنَّکَ اللہُ وَحْدَکَ ، لَا شَرِیْکَ لَکَ
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ءٍ وَمَلِیْکَہُ ، اَنَا شَہِیْدٌ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ءٍ وَمَلِیْکَہُ ، اَنَا شَہِیْدٌ اَنَّ الْعِبَادَ کُلُّھُمْ اِخْوَۃٌ
اے اللہ ہمارے رب اور ہر چیز کے رب اور مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ واحد ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ۔ اے اللہ! ہمارے رب اور ہر چیز کے رب اور مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں ۔ اے اللہ! ہمارے رب اور ہر چیز کے رب اور مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام کے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکور یہ تینوںشہادتیں ایک دوسری سے مربوط ہیں۔ تیسری شہادت ’عام انسانی اخوت ‘ کا اعلان کہ تمام کے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں ، پہلی دوشہادتوں پر مبنی ہے: یعنی اللہ تعالیٰ کا اُلوہیت میں یکتا ہونا کہ اس کا کوئی شریک نہیں ، اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا ربّ نہیں، اور عبادت وتسلیم کا حق اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔ اور محمد ؐ کے عبد اور رسول ہونے کا اقرار آپ ؐ کے لیے الوہیت کے ہر شائبے اور ہر شبہے کی نفی کرتا ہے کہ آپ ؐ الٰہ (معبود ) نہیں ہیں، نہ ابن الہ ہیں اور نہ اُلوہیت کا تیسراا قنوم ہیں جیسا کہ عیسائیوں کاسیّد نا مسیح ؑ کے بارے میں عقیدہ ہے۔ [کتاب حقیقۃ التوحید سے ترجمہ ]