ڈاکٹر یوسف القرضاوی


یہاں پر ہم ان پہلوئوں اور رویوں کو مختصر الفاظ میں زیر بحث لائیں گے، جو مسلم اُمت کے مختلف طبقوں اور معاشروں میں دینی امور کی نسبت سے پائے جاتے ہیں: 

ترجیحی توازن قائم کرنے کی ضرورت 

اگر ہم اپنی زندگی پر غور کریں اور مادی، معنوی، فکری، معاشی، معاشرتی، سیاسی یعنی ہر پہلو سے اس پر نظر ڈالیںتو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں ترجیحات کا توازن بری طرح الٹ پلٹ ہوچکا ہے۔ تقریباً تمام مسلم ملکوں میں ایک عجیب طرح کی افراط وتفریط ہے۔ فن وتفریح کو تعلیم وتعلم پر ترجیح دی جاتی ہے۔ نوجوانوںکی سرگرمیوں میں جسمانی ورزشوں کو عقل وفکر اور روحانی تربیت پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ گویا کہ نوجوانوں کی تربیت کا ایک ہی مطلب ہے کہ ان کو جسمانی ورزش کرائی جائے۔ کیا ’انسان‘ صرف جسم کا نام ہے یا جسم اور عقل کے مجموعے کو ’انسان‘ کہتے ہیں؟ 

کاش! یہ لوگ تفریح کی ان قسموں کا اہتمام کرتے، جن سے عوام زیادہ بڑے پیمانے پر استفادہ کر سکتے۔ مگر ان کی ساری توجہ کھیل کے مقابلوں کی طرف ہوتی ہے، خاص طور پر فٹ بال [اور کرکٹ]، جس میں چند کھلاڑی کھیلتے ہیں اور باقی کروڑوں محض تماشائی! 

معاشرے میں عزّت و شہرت عالموں، ادیبوں، سائنس دانوں اور اہلِ دین ودانش کو نہیں بلکہ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو کے مذاکروں کا موضوع بحث یہی لوگ ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ان کے کھیلوںاور’ کارناموں‘ کی خبریں نشر ہوتی ہیں، خواہ وہ کتنی ہی غیراہم کیوں نہ ہوں۔ دوسرے لوگ [جوکوئی فائدے کا کا م کرتے ہیں] ان کا کسی پر سایہ بھی نہیں پڑنے دیا جاتابلکہ وہ فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ 

اگر کوئی ’ادا کار‘ فوت ہوجائے تو تہلکہ مچ جاتاہے اور اُس کی تعریف وتوصیف کے دریا بہادیتے ہیں، مگر کوئی عالم، ادیب، یا کوئی بڑا ماہرِ فن وفات پا جائے تو کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ معاشی پہلو سے دیکھاجائے تو کھیل کود اور اداکاری کو فروغ دینے، اور حکمرانوں کی ذاتی حفاظت کے لیے تو بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں لیکن تعلیمی اور فلاحی ادارے، ہسپتال اورشفاخانے اور دعوتِ دین کی تحریکیں فنڈز کا رونا روتی رہتی ہیں۔ وہ جب اپنی ترقی اور عصری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی مطالبہ کرتی ہیں تو ان سے معذرت کر دی جاتی ہے اور بہانے بناکر ان سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ آدمی حیران ہوجاتاہے کہ اُدھر سخاوت کے دریا بہائے جاتے ہیں اور اِدھرایک گھونٹ کی بخیلی۔ 

دین دارطبقے کا رویہ 

یہ خرابی صرف عوام یا سیکولر طبقے میں نہیں در آئی، بلکہ خود مذہبی طبقہ بھی طرح طرح کی بے اعتدالیوں کا شکارہے۔ ان میں بھی معاملات کے درست فہم اور دین کے صحیح علم کی کمی پائی جاتی ہے۔ صحیح علم تو وہی ہوتاہے جو آدمی کے سامنے اہم اور کم اہم کو واضح کردے اوراس کے ذریعے معلوم ہوسکے کہ صحیح کیاہے اور غلط کیا، قابلِ قبول کیاہے اور قابلِ رَد کیا؟ وہ اسے بتاسکے کہ کون سی چیز ’سنت‘ ہے اور کون سی ’بدعت‘؟ اِسی طرح وہ شریعت کے مطابق ہرچیز کی اصل قدروقیمت کی پہچان کرائے۔ 

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ علم کی روشنی اور معاملات کی سمجھ سے محروم لوگ، مختلف امور کے  درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ یا تو افراط سے کام لیتے ہیں یا تفریط کا شکارہوجاتے ہیں۔ ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ ایسے لوگ اپنے اخلاص کے باوجود زیادہ اہم اور زیادہ افضل سے غفلت برتتے اور کم افضل پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ 

میں نے بہت سے نیک طبع مسلمانوں کو دیکھاہے کہ وہ کسی ایسے شہر میں مسجد کے لیے عطیہ دیتے ہیں، جہاں پہلے سے بہت سی مسجدیں موجود ہوتی ہیں اور اس پر پانچ دس لاکھ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کرڈالتے ہیں۔مگر جب ان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ آپ اس سے آدھی یا چوتھائی کے برابر رقم دعوتِ اسلام کی اشاعت میں، کفر والحاد کا مقابلہ کرنے میں یا اسلامی نظام کے نفاذکی خاطر جاری کوششوں میں، یا اس طرح کے دوسرے عظیم مقاصد میں خرچ کریں جن کے لیے بعض اوقات اہل افراد تو دستیاب ہوتے ہیں، مگر وسائل کی کمی ہوتی ہے، تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ آپ کو کوئی مثبت جواب نہیں دیںگے۔ وہ اینٹوں اورپتھروں کی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، مگر انسانوں کی تعمیر ان کی نظر میں فضول کام ہے۔ 

ہرسال حج کے دنوں میں صاحبِ ثروت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بضد ہوتی ہے کہ وہ نفلی حج کریں گے، اور بہت سے لوگ رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا بھی اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنے خرچ پر دوست احباب کوبھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مگر ان سے جب آپ کہتے ہیں کہ وہ یہ سالانہ اخراجات فلسطین میں یہودیوں کے مقابلے کے لیے، ہرذی گوونیا میں سربوں کے مقابلے کے لیے، یا انڈونیشیا، بنگلہ دیش یادوسرے ایشیائی اور افریقی ممالک میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنے کے لیے دے دیں، یا کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کرنے کے لیے یا ایسے داعیوں کی تیاری کے لیے خرچ کریں، جو اس میں تخصص حاصل کرکے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے وقف کریں، یا بلند پایہ تحقیق، تصنیف، تالیف، ترجمے یا دینی کتابوں کی اشاعت کا کوئی ادارہ قائم کرنے کے لیے عطیہ کردیں، تو سر جھٹک دیتے ہیں۔ یہ ہے لوگوں کی حالت! 

دوسری طرف قرآن سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ جہاد سے متعلقہ اعمال اُن اعمال سے افضل ہیں، جو حج سے متعلق ہیں: 

کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد ِحرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرالیاہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاںفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انھی لوگوں کا درجہ بڑاہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان ومال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان کا ربّ انھیں اپنی رحمت اور خوش نودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتاہے جہاں ان کے لیے پائے دار عیش کے سامان ہیں۔ (التوبۃ ۹: ۱۹-۲۱) 

۹۰ کے عشرے میںجب بوسنیا میں آزادی کی جدوجہد جاری تھی، ہمارے دوست اور معروف اسلامی اسکالر استاذفہمی ہویدی نے وضاحت کے ساتھ مسلمانوں سے یہ بات کہی تھی کہ ’بوسنیا کی آزادی فریضۂ حج پر مقد م ہے‘۔ جن لوگوں نے یہ مقالہ پڑھا، ان میں سے بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا: ’’یہ بات شرعی اور فقہی نقطۂ نظر سے کس حد تک درست ہے؟‘‘ میں نے ان حضرات کو کہا: ’’استاد ہویدی کی بات بالکل درست ہے اور فقہی لحاظ سے قابلِ اعتبار بھی ہے۔ شرعی طور پر یہ بات متعین ہے کہ جو فرائض فوری طور پر مطلوب ہوں، ان کو ایسے فرائض پر مقدم کیاجائے گا جن میں تاخیر کی گنجایش ہوتی ہے، اور فریضۂ حج میں تاخیر کی گنجایش موجود ہے۔ بعض ائمہ کے نزدیک یہ واجب عندالتراخی  ہے، یعنی اس میں ڈھیل ہوسکتی ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کو جس موت، بھوک وافلاس، امراض، سردی اور اجتماعی ہلاکت کا سامنا ہے، انھیں اس سے بچانا، ایک فوری فریضہ ہے، جسے بروقت انجام دینے کی ضرورت ہے اوراس میں نہ تاخیر کی گنجایش ہے اور نہ ’تراخی‘ یعنی ’ڈھیل‘ کی۔ کیوں کہ یہ فریضۂ وقت ہے اور ساری اُمت پر آج کا اہم ترین واجب ہے‘‘۔ 

جولوگ ہرسال نفل حج ادا کرتے ہیں ان کی تعداد یقیناً بہت زیادہ ہوتی ہے___اسی طرح خصوصاً رمضان کے دنوں میں عمرہ کرنے والوں کی بڑی تعداد۔ کاش! وہ اپنے حج اور عمرے کی قربانی دیںاور یہ اخراجات اللہ کی راہ میں دے دیں۔ یعنی اپنے مال کو اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو نجات دلانے کے لیے خرچ کریں، جو مادی اور معنوی ہلاکت سے دوچارہیں، جنھیں بے انتہا ظلم وجبرکا سامنا ہے۔ ان کا دشمن ان کی جان ومال اور عزت کے درپے ہے، اور چاہتاہے کہ دُنیا سے ان کا نام ونشان مٹ جائے۔ 

ایک بار میں انڈونیشیا گیا تو میں نے وہاں دیکھا کہ عیسائی مشنری بڑے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان کے بالمقابل تعلیمی، طبی اور اجتماعی ادارے قائم کرنے کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے ان نیک طبع بھائیوں سے کہا: ’’اس سال آپ حج کا ارادہ ترک کردیںاور اس پر اُٹھنے والے اخراجات انڈونیشیا میں عیسائیت کے جواب میں خرچ کریں۔ اگر ایک سو افراد ہوں اور ایک فرد کا خرچہ دس ہزار روپیہ ہو تو اس کا کُل ۱۰ لاکھ روپیہ بنتاہے۔ اس رقم سے ایک بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیاجاسکتا ہے۔ اگر ہم نے اس طرح کے کسی منصوبے کا آغاز کیا اور اس کی تشہیر کی تو دوسرے لوگ بھی ہماری تقلید کریںگے اور ان کے کام میں ہمیں بھی ثواب ملے گا‘‘۔ مگر ان دوستوں نے کہا: ’’جب بھی ذوالحجہ کا مہینہ آتاہے، تو ہم اپنے دل میں حج کا ایسا جذبہ محسوس کرتے ہیں، جس کا ہم کسی دوسری چیز سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جب وہاں حاضر ہوتے ہیں تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے‘‘۔ 

اگر فہم صحیح ہوتا اور مسلمانوں کے ہاں ترجیحات کے مسئلے کی اہمیت ہوتی تو یقیناً وہ اس سے زیادہ خوشی، سعادت اور روحانیت اس وقت محسوس کرتے، جب وہ اپنے حج وعمرے کے اخراجات کو کسی اسلامی منصوبے کا آغاز کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، ملک بدر لوگوں کو پناہ دینے، مریضوں کا علاج کرنے، اَن پڑھوں کو تعلیم دینے اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں صرف کردیتے۔ 

ایسے بہت سے نوجوان دیکھے ہیں، جو یونی ورسٹی کے میڈیکل، ایگری کلچر، انجینئرنگ، یاایجوکیشن کے شعبے میں یا دوسرے نظری یا سائنسی شعبوں میں اچھا بھلا پڑھتے اور دوسروں سے آگے تھے۔زیادہ عرصہ نہ گزرا ہوگا کہ انھوں نے اپنے اپنے شعبے کو یہ کہتے ہوئے خیرباد کہا کہ ’’ہم تو دعوت و تبلیغ کے لیے فارغ ہوںگے‘‘۔ لیکن اگر وہ اپنے تخصص کے شعبےہی میں کام کرتے، جو ایک فرض کفایہ تھا، تو وہ اچھی نیت سے اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے ہوئے اور اس میں حدود اللہ کی پابندی کرتے ہوئے اسے عبادت اور جہاد میں تبدیل کرسکتے تھے۔ 

اگر ہرمسلمان اجتماعی، تمدنی اور معاشرتی زندگی میں اپنے پیشے کو چھوڑ دے تو پھر اُمت کی ضروریات کون پوری کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب منصب نبوت عطا ہوا تو صحابہ کرامؓ مختلف پیشوں سے وابستہ تھے۔ آپ ؐنے ان میں سے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے پیشے کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دعوت کے لیے فارغ کرلے۔ ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے۔ مگر جب جہاد کا موقع آتا اور انھیں جہاد کے لیے بلایا جاتا تو سارے لوگ، خواہ ہلکے ہوتے یا بوجھل، میدانِ جہاد کی طرف نکل پڑتے اور اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردیتے تھے۔ 

امام غزالیؒ نے اپنے دور میں یہ بات ناپسند کی کہ اکثر طالب علم فقہ اور اس طرح کے دوسرے علوم کی طرف متوجہ ہوتے تھے، اور دوسری طرف مسلم ممالک میں کسی یہودی یا عیسائی طبیب کے علاوہ کوئی معالج نہ ہوتاتھا۔ وہ انھی سے اپنے مردوں اور عورتوں کا علاج کراتے تھے اور اپنے پردوں کو انھی کے سامنے کھولتے تھے۔ وہ انھی سے ایسے امور بھی معلوم کرتے تھے، جن کا تعلق شرعی احکام کے ساتھ ہوتاتھا۔ 

اسی طرح میں نے کچھ لوگوں کو دیکھاہے کہ وہ روزانہ ایسے معرکے گرم کرتے ہیں، جن کا مقصد جزئی یا اختلافی مسائل پر مناظرے کرنا ہوتاہے۔ وہ اس بنیادی اور اصولی بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بڑا معرکہ ایسے دشمن کے ساتھ ہے جسے اسلام سے نفرت ہے،وہ اس کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ 

یہاں تک کہ امریکا، کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک میں رہایش پذیر مسلمانوں میں بھی ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں، جن کے ہاں سب سے اہم مسئلہ جو پوچھنے کے لیے رہ گیاہے وہ یہ ہے کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں باندھی جائے یا بائیں ہاتھ میں، کوٹ پتلون کے مقابلے میں سفیدکرتاقمیص پہننافرض ہے یاسنت، اور عورتوں کا مسجد میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟ اسی طرح کھانے کے لیے میز کرسی استعمال کرنا اور چھری کانٹے سے کھانا کیا کفار کی مشابہت ہے یانہیں؟ 

یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو ہمارے بہت سارے اوقات کو کھاجاتے ہیں، لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کردیتے ہیں، دلوں کو ٹکرے ٹکڑے کردیتے ہیںاور اس سے بہت سی محنتیں اور صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کیوںکہ یہ ایسی کوشش ہے جس کا کوئی ہدف نہیں اور یہ ایسا ’نام نہاد جہاد‘ ہے، جو دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اپنوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ 

میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھاہے جو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اس لیے سختی سے پیش آتے ہیں کہ وہ گناہ گار ہیں اور دین سے منحرف ہیں۔ وہ نوجوان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیاہے خواہ وہ مشرک ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: 

اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مانو۔ البتہ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے رہو۔ (لقمان ۳۱:۱۵) 

اس طرح والدین کی طرف سے اس پُرزور دباؤ کے باوجود ___ جسے قرآن نے مجاہدہ علی الشرک کہاہے ___  اللہ تعالیٰ حکم دیتاہے کہ ان کے ساتھ معروف کے ساتھ پیش آیاجائے: 

میرا شکر کرو اور اپنے والدین کاشکر بھی بجالاؤ، میری ہی طرف تجھے پلٹ کر آنا ہے۔(لقمان۳۱:۱۴) 

اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔(النساء۴:۱) 

دور انحطاط کی روایات کو بدلنے کی ضرورت 

انحطاط کے دور میں مسلمان جن بُری عادات کا شکار ہوئے اور اب تک چلے آرہے ہیں، ان میں سے چندعادات یہ ہیں: 

۱- انھوں نے ایسے فرائضِ کفایہ کو بڑی حد تک چھوڑ دیاہے جن کا تعلق بحیثیت ِمجموعی پوری اُمت کے ساتھ تھا،مثلاً سائنسی، صنعتی اور عسکری برتری، جو اُمت کو اپنے اختیارات کا مالک بناتی ہے اور اسے صرف دعوؤں اور باتوں کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دُنیا کی قیادت عطا کرتی ہے۔ مثلاً فقہی مسائل میں اجتہاد اور احکامِ شریعت کا استنباط، دعوتِ اسلامی کی نشرواشاعت، شوریٰ کے حکمِ ربانی کو بیعت او رآزادانہ اختیارات کی بنیادپرقائم کرنا، ظالم اور دین سے منحرف بلکہ دین دشمن حکمران کے خلاف جہاد کرنا وغیرہ۔ 

۲- انھوں نے ایسے امور کو بھی چھوڑدیاہے جوفرضِ عین کے درجے میں ہیں، یااگر چھوڑا نہیں تو کم از کم انھیں وہ مقام نہیں دیا جو اِن کو دیا جانا چاہیے تھا۔ جیسے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ، جسے قرآن نے اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے نماز اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے:’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کاحکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں‘‘۔(التوبۃ۹:۷۱) 

اس فریضے کو اُمت مسلمہ کے بہترین اُمت ہونے کا سب سے پہلا سبب قرار دیاگیاہے: ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت او راصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) 

۳- مسلمانوں نے بعض ارکانِ اسلام کو بعض دوسرے ارکان پر زیادہ اہمیت دی ہے، مثلاً نماز کے مقابلے میں روزے کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں دن کے وقت مسلمان بہت کم کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ اسی طرح خواتین، نماز میں غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوںنے عمر بھر میں ایک مرتبہ بھی اللہ کے سامنے رکوع اور سجدہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہوگی۔ بعض لوگ نماز کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں، مگر زکوٰۃ کے معاملے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ۲۸ مقامات پر ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیاہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہمیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیاہے اور جو شخص زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز مقبول ہی نہیں‘‘۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایاتھا: وَاللّٰہِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ ’’خدا کی قسم ! میں ان لوگوں کے خلاف ضرور لڑوںگا، جو نماز ا ورزکوٰۃ کے درمیان فرق روا رکھتے ہیں‘‘۔  

صحابہ کرامؓ، مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف جہادپراسی طرح متفق تھے جس طرح وہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروںاور مرتدین کے خلاف متفق تھے۔ اس طرح گویا اسلامی حکومت روئے زمین کی پہلی حکومت تھی، جس نے غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ 

۴- بہت سے دین دار لوگ ذکرو اذکاراور تسبیحات و اورادکا بے حد اہتمام کرتے ہیں، مگر ان کے ہاں بعض فرائض کے بارے یہ اہتمام نظر نہیں آتا، خصوصاً معاشرتی فرائض جیسے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، پڑوسی کے ساتھ احسان، کمزوروں پر رحم کرنا،  یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا، منکر کو روکنا اور اجتماعی وسیاسی ظلم وجبر کے خلاف جہاد کرنا۔ 

۵- بعض اوقات انفرادی عبادات ،جیسے نماز اور ذکر وغیرہ کی بڑی پابندی کی جاتی ہے، مگر اجتماعی فرض عبادات، جن کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتاہے، ان کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، جیسے جہاد ، علم، اصلاح بین الناس،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون، صبر اور رحم کی تلقین، عدل وانصاف اور شوریٰ کے قیام کی دعوت، عمومی انسانی حقوق کی پاسداری اور خاص طورپر کمزور انسانوں کا خیال رکھنا۔ 

۶- بہت سے لوگ ’فروع‘ [ضمنی مسائل]کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ’اصول‘ [بنیادی مسائل] کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ امام راغب کا قول ہے: مَنْ ضَیَّعَ الْأُصُوْلَ حُرِمَ الْوُصُوْلَ ’جس نے بنیاد کو چھوڑدیا وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتا‘۔ مطلب یہ کہ اُنھوں نے عقیدۂ توحید، ایمان باللہ اور اخلاص فی الدین سے غفلت برتی ہے۔ 

۷- اسی طرح جن مسائل کے درمیان توازن میں خلل پیدا ہواہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بہت سے لوگ مکروہات اور مشتبہ امور کے خلاف برسرپیکار ہیں، مگر انھوں نے کھلی حرام اشیاء کے بارے میں اتنی سرگرمی نہیں دکھائی، نہ ان واجبات کو قائم کرنے کا کوئی خاص اہتمام کیاہے، جنھیں لوگوں نے چھوڑ دیاہے۔ اسی طرح بعض لوگ ان اُمور پر اپنی زیادہ قوتیں صرف کرتے ہیں، جن کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف پایاجاتاہے، مگر ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے جن کی حُرمت قطعی اور یقینی ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اسی طرح کے اختلافی مسائل کو زندگی موت کا مسئلہ بنادیا ہے۔ جیسے تصویر، موسیقی، چہرے کاپردہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل۔ دوسری طرف وہ بڑی فیصلہ کن لڑائیوں سے غافل ہیں جن کا تعلق اُمت کے وجود، اس کے انجام، اور دُنیا کے نقشے پر اس کی بقا کے ساتھ ہے۔ 

۸- اسی طرح کے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ صغیرہ گناہوں کو ختم کرنے کے لیے توایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، مگر تباہ کُن کبیرہ گناہوں کو نظرانداز کرتے ہیں، خواہ وہ دینی لحاظ سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہوں، یامعاشرتی اورسیاسی طور پر ہلاکت سے دوچار کرنے والے ہوں۔ 

یہ ایک بہت بڑی بیماری ہے کہ بڑی چیز یا مسئلے کو چھوٹا بنا کرپیش کیاجاتاہے اور چھوٹی چیز یا مسئلے کو بڑا کرنے کا رجحان پروان چڑھایا جاتا ہے۔ رائی کو پہاڑ بنالیا جاتاہے اور ایک اہم ترین معاملے کو بالکل نظرانداز کر دیا جاتاہے۔ پہلے کو آخر پر رکھاجاتاہے اورآخری کو پہلے درجے پر لایا جاتاہے۔ اختلافی مسائل کے لیے میدانِ جنگ گرم کیاجاتا ہے۔ یہ ساری باتیں آج کے دور میں اُمت ِمسلمہ کو اس ضرورت کا احساس دلاتی، بلکہ شدت کے ساتھ اس بات کا محتاج بناتی ہیں کہ وہ چیزوں کی ترجیح کے مسئلے کو سمجھے، تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے طریق کار کا نئے سرے سے جائزہ لے، اس کے بارے میںگفت وشنید کرے، افہام وتفہیم کرے اورہرایک اپنی بات سامنے رکھے۔ اس کے نتیجے میں، دلوں کو اطمینان ہوگا، بصیرت کو روشنی ملے گی اور اس کے بعد اُمت کے ارادے عملِ خیر اور خیرالعمل کی طرف متوجہ ہوںگے۔(جاری) 

جذباتیت کے زیراثر آنے کے حوالے سے یہاں پر تین اہم مظاہر کا ذکر کیا جاتا ہے:

(الف) ناکافی غور وخوض اور منصوبہ بندی

اسلام عقل وعلم کو پکارتا اور انھیں کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جادۂ حق پر چلتے ہوئے معروف روایات کا لحاظ رکھنے کی تلقین اور بہت سی جگہوں پر احتیاط وپرہیز کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کل کا سامان فراہم کرو اور مستقبل کے لیے تیاری کرو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی میں عام طور پر اس نوعیت کا اہتمام کرنے کا رجحان کمزور ہے۔

میں نے ایک مرتبہ ایک بڑے عالمِ دین کے سامنے حالات وواقعات کے مطالعے اور اس کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت کا اظہار کیا۔ جواب میں ان کا ارشاد تھا: ’’کیا اللہ کی طرف بلانے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے بھی کسی منصوبہ بندی اور نقشہ گری کی ضرورت ہے؟‘‘

اب ذرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھیں۔ آپؐ نے مدینہ ہجرت کرکے آنے کے بعد مسلمانوں کی مردم شماری کا حکم دیا تھا۔ بخاری کی روایت ہے کہ آپؐ کے حکم کی تعمیل میں مردم شماری ہوئی اور مسلمانوں کی کل تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ اس عمل سے جس حقیقت پر دلالت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپؐ افرادی قوت کی اہمیت کا احساس رکھتے تھے۔ آپؐ نے وابستگانِ اسلام کی تعداد کا شمار اس لیے کرایا تاکہ ان کی قوت، احوال اورصورتِ حال سے ٹھیک ٹھیک واقفیت ہوجائے۔

سچی بات یہ ہے کہ مطالعہ اور غور وفکر کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور تحریک اسلامی کو بھی اسی عمل سے اپنی اور مخالفین کی قوت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ متعلقہ بیانات، ضروری معلومات اور ٹھوس حقائق کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی صحیح نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں اور ایسا لائحہ عمل وضع ہو سکتا ہے، جس کو اختیار کر کے نصب العین کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

تحریک سے نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کو غور وخوض اور عمل کے لیے نقشہ سازی ناگوار بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے ایک ملنے والے صاحب کے نزدیک: ’’غور وفکر کے بعد عمل کے لیے درست راہوں کا تعین کرنا ایک ایسا فریب ہے جس کا مظاہرہ اکثر ماہرین اقتصادیات، معاشی منصوبہ بندی میں نفع کے گوشوارے دکھا کر کرتے رہتے ہیں‘‘۔ ان کا خیال ہے کہ: ’’اصل اہمیت آغازِ کار کی ہے۔ ہمیں کام شروع کر دینے کے بجائے ٹک کر چین سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’میرا ناقص عمل پر بھی یقین ہے۔ کام ہونا چاہیے خواہ وہ نقص اور خطا کے پہلو اپنے اندر رکھتا ہو۔ آج ہم ناقص عمل کر دکھائیں گے تو کل کوئی اللہ کا بندہ آکر اسے درست کر دے گا۔ نقص رفع اور خطا صحیح ہو جائے گی‘‘۔

ممکن ہے اس نقطۂ نظر کو بھی کچھ سند ِجواز حاصل ہو، اور کسی سطح پر اندھا دھند اور اضطراری عمل کے مثبت نتائج بھی نکل آتے ہوں، لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بے سوچے سمجھے اور غلط اعمال اور دعوئوں کی پیوند کاری اور ٹیڑھے میڑھے اور آنکھیں موند کر بنائے جانے والے منصوبوں کے ذریعے سے منزل تک پہنچنا، ایک صحیح اور گہری منصوبہ بندی کے مقابلے میں ہزار گنا دشوار ہوتا ہے۔ بعد میں بڑے مخلص لوگوں کی تھکا دینے والی ساری جدوجہد، ان راہوں کی کج روی درست کرنے میں صرف ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ غلط بنیادوں پر استوار ہونے والی سب کوششیں حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ایسی کوششوں کی دیوار کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی ہوتی ہے۔

زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور امتیاز وخصوصیت پیدا کرنے کے لیے بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علمی، قانونی، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی، تربیتی، نشریاتی اور تنظیمی میدانوں میں ترقی کر کے دکھانا اور مہارت بہم پہنچانا جدید معاشرے میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوامی ضروریات کی تکمیل اور تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان میں سے کوئی بھی شعبۂ حیات غیر اہم اور نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔

چنانچہ ترقی ومہارت اور تخصص وامتیاز کے لیے منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ یہ کمپیوٹر، ایٹمی اسلحے، فضائی جنگوں، طب وریاضی میں زبردست ترقی کا دور ہے۔ دنیا ایجادات کے میدان میں بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ سب گہرے غور وخوض اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ لکیر کا فقیر بنے رہنا، آپس میں غیر مفید چیزوں پر الجھتے رہنا اور بے نتیجہ ورد کرتے رہنا وقت، وسائل، صلاحیت اور قوت کو ضائع کرنے کا باعث ہے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں مہارت وتخصص، شریعت کی نظر میں بھی اُمت مسلمہ پر واجب ہے۔ ایک میدان میں اپنی ساری قوتیں اور توانائیاں کھپا دینا اور دوسرے شعبوں سے غافل رہنا کسی طور پر بھی روا نہیں ہے۔

اسلام میں جہاد کی قدر و منزلت اور اہمیت کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟

اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تمام مسلمانوں کے یک بارگی جہاد پر نکل جانے کو بھی ایک موقعے پر قرآن نے خامی بتایا ہے کیونکہ اس وجہ سے مسلمان ایک دوسرے میدان سے غافل ہو گئے تھے جو اہمیت کے اعتبار سے کچھ کم نہیں۔ یعنی دین کے فہم کے سلسلے میں ان کی توجہ وطلب، جہاد میں شرکت کے مقابلے میں کم ہو گئی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۝۰ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا  اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۝۱۲۲ۧ (التوبہ۹: ۱۲۲) اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔

ذرا غور کیجیے، ہمارے کام اٹکل پچو اور ہمارے تیر بے ہدف چل رہے ہیں، جب کہ مخالفینِ اسلام اور دشمنانِ تحریک اسلامی ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جدوجہد کا پھل ان کی جھولی میں پڑتا ہے۔ پھل پکنے اور توڑنے کے وقت ہم بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث ہمیں پھل پکنے کے موسم ہی کی خبر نہیں ہوتی۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مغربی سامراجی طاقتوں کے غلبے کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں یا کسی باطل قوت کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر اٹھتے وقت، ان تحریکوں کے لیے قوتِ محرکہ اسلام ہی بنتا رہاہے؟ پھر عوامی جذبات کا سرچشمہ اسلام سے وابستگی ہی سے مؤثر ثابت ہوتا رہا، لیکن اسلام کے نام پر جو کھیتی بوئی گئی اور جو پودے لگائے گئے، انھیں کاٹا اور ان کی باغ بانی کا کام آگے چل کر سنبھالا تو ان اسلام دشمن، مکار اور کینہ پرور عناصر نے، جو چپکے سے ہماری صفوں میں گھس آئے تھے!

ایسے عناصر ان تحریکوں میں مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر اس تاک میں لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں پھاڑا اور لڑا دیا جائے ، آگے بڑھ کر اس پوری جدوجہد کی قیادت سنبھال لی جائے اور عظیم کوششوں کا پکا ہوا پھل اپنے دامن میں سمیٹ لیا جائے۔

ایسا المیہ ہماری بے تدبیری، کم فہمی اور بے فکری ولا پروائی ہی کے باعث ہوتا ہے کہ اسلام دشمن اور فریب کار لوگ ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر اور ہمارے نعروں کی گونج میں ہیرو بن بیٹھتے ہیں۔ لوگ اپنا تن من دھن ان کے سپرد کر دیتے ہیں اور وہ نام نہاد ہیرو اطمینان کے ساتھ فتح وکامرانی کا ثمرہ پا لیتے ہیں۔ کتنوں کو دیکھا گیا کہ اسلام کا محض لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، ان کی زبانوں پر اسلام، اسلام کا ورد جاری ہو جاتا ہے، مگر اُن کے دل اس کے خلاف سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اسلام عملاً ان کی زندگی سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ اپنی لچھے دار تقریروں اور دجالانہ تدبیروں کے باعث وہ مسلم عوام کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب اقتدار کا منصب اور ہیرو کا مرتبہ وہ پالیتے ہیں تو اسلام کا لبادہ اُتار پھینکتے اور اپنے حقیقی روپ میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔

کمال اتاترک [۱۸۸۱ء-۱۹۳۸ء] کو لیجیے۔ اسلام کے جھنڈے کے تحت، اسلام ہی کے نام پر، اس نے ترک عوام کی قیادت سنبھالی۔ عوام نے اپنی جانیں اور مال بخوشی اس کو سونپ دیے، اس کی عظمت کے نعرے لگائے، خوب خوب تعریف وستائش ہوئی، اور وہ ’غازی‘ کہلایا۔ لیکن جب سادہ لوح مسلم عوام کی حمایت اور اسلام کے نام کے استعمال کے ذریعے کامیابی نے اس کے قدم چومے، ’اسلام کی تلوار‘ اور ’غازی‘ کا لقب پانے والا یہ شخص خود اسلام اور مسلمانوں کے لیے زہر میں بجھا ہوا خنجر ثابت ہوا۔ اس نے کمال ہوشیاری سے خلافت کی بساط لپیٹی اور اسلام کا پورا باب خود اس نے مقفل کر دیا۔ ترکیہ کے عوام کے اسلام سے سارے رشتے کاٹنے کے درپے ہو گیا۔

(ب)  عجلت اور بـے صبری

عقل ومنطق اور علم وتدبیر پر جذبات کے غالب آجانے کا ایک اور بڑا اور منفی نتیجہ نکل کر سامنے آتا ہے۔ عجلت کار شخص میں تحمل وبردباری اور صبر اور ٹھیراؤ کی خوبی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ آج بوئے اور کل صبح ہی کاٹ لے، بلکہ صبح پودا لگائے اور شام ہی کو اس کا پھل پا لے۔ یہ چیز نہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہے اور نہ دنیا میں ایسا کوئی اصول کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ وہ اس بات پر قادر تھا کہ کن کہہ دیتا اور فیکون کی صورت میں نتیجہ سامنے آجاتا، لیکن اللہ نے چاہا کہ وہ اس سنت کے ذریعے سے تحمل کی تعلیم دے۔

ربِّ ذوالجلال اس بات پر بھی قادر تھا کہ اپنے نبی نوح علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی غیب سے مدد کر دیتا اور پہلے روز ہی وہ کامیاب قرار پاتے، لیکن اس نے ایسا کرنے کے بجائے حضرت نوح علیہ السلام کو ۹۵۰سال تک شب وروز اور چپکے چپکے بھی اور ہانکے پکارے بھی دعوت دینے پر مامور کر دیا۔ پھر انجام میں بھی نوح علیہ السلام کو نجات سے نوازا تو ان کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی کشتی ہی کے ذریعے۔ آسمان سے ان کے لیے کچھ نہ برسایا۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور آپؐ کے دشمنوں کو کسی آسمانی یا ارضی آفت کے ذریعے سے ہلاک کر دینے پر بھی قادر تھا، لیکن اس کے بجائے اس نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ابتلاؤں اور آزمایشوں سے گزار کر فتح ونصرت سے نوازا۔ یہاں تک کہ ابتدا میں طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں جہاد کر کے اپنابچاؤ کرنے کی بھی اجازت نہ دی اور تاکید کر دی:

  • كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ (النساء ۴:۷۷) اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔

تا آنکہ آپ کا کانٹوں بھری راہوں کا پر عزیمت سفر ختم ہوا ۔ کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت مل گئی اور اللہ کا ارشاد ہوا:

  •  وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝۳۹ۙ (الحج ۲۲:۳۹) اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔

اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا امر صادر کرنے تک اپنے نبیؐ اور مومنین کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رہنے کا حکم دیا:

  • فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۝۰ۭ (احقاف۴۶: ۳۵)پس اے نبیؐ، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔
  •  فَاصْبِرْ  اِنَّ  وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ۝۶۰ۧ (الروم۳۰: ۶۰) پس (اے نبیؐ) صبر کرو، یقیناًاللہ کا وعدہ سچا ہے، اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔
  •  وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۝۱۲۷ (النحل۱۶: ۱۲۷)اے نبیؐ، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمھارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔
  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۝۰ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۲۰۰ۧ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔

عجلت کاری کے نتیجے میں تحریک اسلامی مکمل تیاری سے قبل ہی سخت معرکوں میں کود پڑی۔ ایسی مشکلات کو بھی اس نے قبل از وقت دعوت دے دی جو اس کی طاقت سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ بیک وقت مشرق ومغرب سے ٹکرا گئی اور اپنے آپ کو ایسی مشکل راہوں پر ڈال لیا جن سے ہٹنا اب اس کے بس میں نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جملہ معاملات میں ہماری قدرت وطاقت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے۔ ہمارے لیے ہرگز یہ روا اور درست نہیں کہ اپنے آپ کو ان امور میں بھی مکلف ٹھیرا لیں جن کی سردست ہمارے پاس طاقت نہیں ہے اور فتنوں میں اپنے آپ کو بغیر تیاری کے مبتلا کر دیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن ۶۴:۱۶)’’ اور اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تمھارے لیے ممکن ہو‘‘۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’جب تمھیں کسی بات کا حکم دیا جائے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے پورا کرو‘‘۔ پھر فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو قوتِ بازو سے اسے مٹائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘۔

تغیر وانقلاب کی کوششوں کے طاقت وقدرت کی نسبت سے درجے مقرر کر دیے گئے ہیں، چنانچہ مسلمان کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کام میں اپنے آپ کو لگائے جس کی ہمت وطاقت رکھتا ہو اور اس کام کو چھوڑ دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عجلت کی روش کو سخت ناپسند کیا ہے، کیونکہ نتائج کے اعتبار سے یہ بہت بُری روش ہے۔ قرآن پاک میں ایسے اشارے موجود ہیں، جو عجلت پسندی اور بے صبری کے بُرے انجام پر خبردار کرتے ہیں:

وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى۝۸۳ قَالَ ہُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى۝۸۴ قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـہُمُ السَّامِرِيُّ۝۸۵ (طٰہٰ ۲۰:۸۳-۸۵) اور کیا چیز تمھیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسٰی؟ اس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں، اے میرے ربّ، تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے‘‘۔ فرمایا: اچھا،’’ تو سنو، ہم نے تمھارے پیچھے تمھاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انھیں گمراہ کر ڈالا‘‘۔

جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پلٹے تو وہ قوم کے گمراہ ہونے کی وجہ سے غضب اور تاسف میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے بھائی کی داڑھی کے بال پکڑ کر غصے سے کہا:

قَالَ يٰہٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَہُمْ ضَلُّوْٓا۝۹۲ۙ اَلَّا تَتَّبِعَنِ۝۰ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ۝۹۳  قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ۝۰ۚ اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِيْ۝۹۴ (طٰہٰ۲۰: ۹۲-۹۳)بولا ’’ہارونؑ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘ ہارونؑ نے جواب دیا: ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔

بنی اسرائیل میں شرک کے جرم کے پھوٹ پڑنے پر، ہارون علیہ السلام نے صبر وتحمل کا شیوہ اختیار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بھائی موسٰی کے آنے تک بنی اسرائیل باہمی پھوٹ اور خلفشار سے بچے رہیں۔ موسٰی کے آنے پر ان کے مشورے سے نئی صورت حال کا کوئی حل سوچا جائے گا۔

حدیث نبویؐ میں آیا ہے: ’’صبر وتحمل کی روش کی نسبت اللہ سے ہے،جب کہ عجلت اور اوچھا پن شیطانی خصلتوں میں سے ہے‘‘۔ ایک اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’اس بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جو جلدی نہ کرے اور کہے کہ میں نے دعا تو کی تھی، ابھی قبول نہیں ہوئی‘‘۔

میری شدید خواہش ہے اور میں نے بارہا اس کا اظہار بھی کیا کہ تحریک اسلامی کو جہدوکاوش کا جتنا موقع ملتا ہے، اسے غنیمت جانتے ہوئے اپنی قوتوں کو مجتمع کرے۔ کسی فریب کا شکار ہو کر محاذآرائی میں نہ اُلجھ جائے۔ نہ تو اپنے اندر کے ناپختہ اور جلد باز عناصر اسے تصادم کی راہ پر ڈال سکیں اور نہ باہر کے مکار اور سازشی گروہ اسے تصادم کے میدان میں کھینچ کر لا سکیں۔

یہ ایک مخصوص عرصے تک حکمت سے اور اچھی اور بھلی زبان میں اسلامی دعوت کو پھیلانے میں سرگرمی دکھائے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اور اسی کی خدمت کے لیے بلند ہمت نسلوں کی تعمیر وتربیت کا کام کرے۔ نئی نسلوں کو ذہنی، روحانی، جسمانی اور اجتماعی تربیت کے زیور سے آراستہ کرے۔ معاشرے کے اندر جذب ہو کر اس کے مسائل کے حل میں مدد دے، عوام کی مشکلات دُور کرنے میں سعی دکھائے اور معاشرے کی غلط سمت درست کرنے اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل میں کوشاں رہے۔ اپنی قوت اور زور بازو کے مظاہرے کی سوچ کچھ عرصہ ترک رکھے، حکومتوں سے کھلی ٹکر لینے کی پالیسی سے باز رہے۔ اس طرح کا طرزِ عمل اپنانے سے ایک پُرامن انقلاب پورے معاشرے میں برپا ہو سکتا ہے۔ یہ فکر ونظر اور نفس واخلاق کا انقلاب ہوگا، جس کے لیے کسی اسلحے کے استعمال یا اعلان کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

اگرچہ یہ امکان موجود ہے اور اس طرح کے خدشات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اسلام سے بیزار اور خائف طائفے اور ان کے حامی گروہ تحریک اسلامی کے رسوخ، نشوونما اور اس کے اثرات کے پھیلاؤ کو گوارا نہیں کرتے، اس کے اتحاد کو پارہ پارہ اور اس کی منزل کو کھوٹا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے سازشوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ تحریک کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو نظر انداز نہ کرے، جو تحریک کو براہ راست مقابلے پر لانے کی سازش کے تحت کیے جاتے ہیں۔ اہل تحریک کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہیں۔ جب کوئی آزمائش آہی پڑے تو صبر واستقامت سے اس کا مقابلہ کریں۔

(ج) مبالغہ

جب جذبات غالب آجاتے ہیں تو ایک تیسری آفت اندر سے رونما ہوتی ہے۔ وہ ہے مبالغے کا حد سے بڑھ کر معاملات ومکالمات میں شامل ہو جانا۔ اس آفت میں تو صرف تحریک اسلامی نہیں، پوری امت ہی گرفتار ہے۔ ظاہری معاملات میں ہم دو انتہاؤں میں سے کسی ایک پر کھڑے ہوتے ہیں، جس میں تفریط (waste)کا شکار ہوتے ہیں یا پھر افراط (excess) کا،جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی جس صفت سے مدح فرمائی ہے، وہ تو ’الوسط‘ یعنی میانہ روی ہے:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے۔

یہ خوبی تحریک اسلامی سے رخصت ہوتی نظر آتی ہے۔ تحریک کی صفوں میں بھی مبالغہ اور حد سے بڑھی ہوئی نمائش، فہمائش اور تعریف ومذمت کا رجحان تقویت پکڑ رہا ہے۔ اپنی تعریف آپ کی جاتی ہے اور خرابیوں کا مجسمہ اپنے مخالفین کو بتایا جاتا ہے۔ ’فراواں مبالغے‘ کے صیغوں میں ہی بات ہوتی ہے۔ زبان وقلم سے ’عظیم ترین‘، ’مضبوط ترین‘، ’اعلیٰ ترین‘، ’بے مثال‘ اور مقابلے میں ’گھٹیا ترین‘، ’بدترین‘، اور ’کمزور ترین‘ جیسی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم خود پسندی میں حد سے زیادہ فراخ دل ثابت ہو رہے ہیں اور دوسروں کی عیب نمائی میں بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کسی معقول آدمی کو اس سے اختلاف نہیں کہ اپنی تہذیب پر فخر کیا جائے۔

جو قوم سورج کی شعاعوں تلے فروغ وترقی چاہتی ہے، اس میں اپنی ہر چیز سے پسندیدگی فطری امر ہے۔ خاص طور پر جب تہذیبی اور ثقافتی یلغار اور معرکے بپا ہوں، ایک تہذیب دوسری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہو، تو ایسی حالت میں اجتماعی خود پسندی روا ہے۔ لیکن یہاں پر یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ غرور اور خود پسندی عقل ونظر سے محروم ہو، اس میں اندھا پن پیدا ہو جائے۔ فخر وتکبر ان مہلک ترین بیماریوں میں سے ہیں، جو کسی فرد یا قوم کا مقدر ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم یہ اشارہ دیتا ہے:

وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۝۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا (التوبہ۹: ۲۵) ابھی غزوۂ حنین کے روز تمھیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرّہ تھا۔ مگر وہ تمھار ے کچھ کام نہ آئی۔

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’دو چیزوں میں ہلاکت ہے، غرور اور قنوطیت‘‘۔

ہم غیروں ___خاص طور پر مغربی تہذیب___ کی خرابیاں کثرت سے گنواتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مغربی تہذیب اپنے اندر بعض ایسے فتنے رکھتی ہے، جنھیں اس تہذیب کی اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں ہزار آفتیں پوشیدہ ہیں، جنھیں اب اس کے مزاج سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مادیت، نفع اندوزی اور استحصال جیسے اجزا اس کے خمیر میں داخل ہیں۔ لیکن بہ نگاہِ انصاف دیکھا جائے تو یہ تہذیب بعض ایسے نکات بھی رکھتی ہے، جو اس کی قوت کے منابع (springs) ہیں۔ قوت کے ان سرچشموں کا علم واعتراف ہمیں اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ یہ عدل کا تقاضا ہے اور اس لیے بھی کہ مخالف کی طاقت کے حقیقی راز کا فہم، معقولیت واحتیاط کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس تہذیب کے قیام میں جہاں ایک بڑا اہم کردار علم وتجربے نے فراہم کیا ہے، وہاں اداروں اور تنظیموں کو محکم بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ تعاون کی فضا ہے اور جماعتی عمل کو ایک پائیداری وتسلسل حاصل ہے۔ اجتماعی اخلاق کے کچھ اصول موجود ہیں۔ انسان، اس کی جملہ نوع کی آزادی اور ہر طرح کے حقوق کا احترام پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کے اندر اپنی تہذیب کے شہریوں کے لیے حقوق کی فراہمی کا بھرپور اہتمام ہے۔ ان کے معاملات اصول مشاورت کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ حکام کے ظلم اور نا انصافی کے مقابلے میں حقوق کی حفاظت کے لیے مؤثر ادارے موجود ہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کے آثار میں سے ایسی مثالوں کا ذکر کروں، جن میں دشمنوں کے لیے بھی انصاف اور ان کی بڑائی اور خوبی کا اعتراف ہے۔ یہ انصاف اور اعتراف ان حالات میں بھی برقرار رہا، جب مخالف میدان جنگ میں مقابلے پر اترا ہوتا تھا۔ یہ چیز میں کسی ادبی کتاب کے افسانے یا تاریخ کے واقعات سے ڈھونڈ کر پیش نہیں کر رہا ہوں، بلکہ یہ ایک حدیث ہے جسے امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اور امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ الفاظ مسلم کے ہیں:

موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاصؓ کے سامنے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’قیامت برپا ہوگی تو رومیوں (عیسائیوں) کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی‘‘۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا: ’’ذرا غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس شخص نے کہا: ’’میں تو وہی کچھ کہہ رہا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘‘۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات ہے تو پھر ضرور ان میں چار خصائل ہوں گے: ۱- آزمائش کے وقت وہ سب سے زیادہ حلم وبردباری کا مظاہرہ کرتے ہوں گے، ۲- مصیبت سے گزرنے کے بعد بہت جلدی سنبھلنے کی صلاحیت کے مالک ہوں گے، ۳- مسکینوں، یتیموں اور ضعیفوں کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہوں گے، اور ۴-حاکموں کے ظلم سے بچانے والے ہوں گے‘‘۔

ممکن ہے کسی کے لیے یہ بات تعجب و حیرانی کا باعث ہو کہ اہل روم کی خوبیوں کی یہ گواہی مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی قیادت سنبھالنے والی ہستی حضرت عمرو بن العاصؓ دے رہی ہے، جس نے مصر، فلسطین اور دیگر کئی مقامات پر رومیوں کے خلاف زبردست معرکے سر کیے، لیکن اس میں تعجب کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اسلام نے ہمارے بزرگوں کو انصاف پر قائم رہنے، اللہ کے لیے سچ کی گواہی دینے کی تعلیم دی تھی، خواہ اس کی زد خود ان کے اپنے اوپر پڑتی تھی اور کسی قوم سے ان کی دشمنی انھیں عدل سے نہیں روکتی تھی۔

دورِ حاضر کی تحریک اسلامی کے بیش تر تجزیہ کار یہ چیز دیکھتے ہیں کہ کس طرح اپنی قوت کا مبالغہ آمیز تصور پیش کریں، اور دوسری طرف مخالفین کی مفروضہ کمزوری کے بارے میں بھی حددرجہ مبالغہ آمیزی کا شکار رہیں۔ متعلقین تحریک جب اپنی مدح وتعریف کرتے ہیں تو خواہ وہ اپنے عزائم اور کارگزاری کی ہو یا قائدین کی، تعریف میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ۔ اور جب مذمت ونفرت کرنے کھڑے ہوتے ہیں، تب بھی آخری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کبھی اس طرح کے قول نہیں رہے کہ ’’جب اپنی پسندیدہ اور ممدوح شخصیت سے محبت کرو تو حد سے آگے نہ بڑھو، ہوسکتا ہے وہی شخصیت کسی روز تمھارے لیے سب سے ناپسندیدہ بن جائے۔ اور جب کسی کے خلاف غضب اور غصے کا اظہار کرو تو اس میں بھی اعتدال برتو۔ بعید نہیں کہ آج کی وہی مغضوب شخصیت کل تمھاری محبوب ہستی قرار پائے‘‘۔

قرآن حکیم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کسی سے محبت یا نفرت کے معاملے میں ہمیں عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ محبت ولگاؤ خواہ اپنی ذات کے ساتھ ہو یا اپنی جماعت کے ساتھ، اور نفرت اپنے دشمنوں کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ (النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

تجدید و اجتہاد سے گریز

یہ نکتہ بھی تحریک اسلامی کی کمزوریوں میں سے ایک ہے کہ ’اجتہاد‘ سے گریزپا نظر آتی ہے۔ حالات اور وقت کی مناسبت سے دین کے دائرے کے اندر تجدیدی عمل سے جھجک محسوس کرتی ہے اور عمل وفکر کے اعتبار سے جدید انقلابی راہیں اختیار کرنے پر بہت زیادہ اندیشوں میں گھری دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ فقہی معاملات میں کسی قدر اجتہاد کی قائل ہوتے ہوئے بھی یہ تحریک فکر، حرکت اور عمل میں تقلیدی رجحان ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہر قدم کوجوں کا توں قائم (status quo) رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ اس نے بعض روایات اور فیصلوں کو گلے سے لگا رکھا ہے، خواہ یہ روایات اور فیصلے اس کی دعوت کے فروغ اور وسعت کی راہ میں ایسا پتھر ثابت ہوں، جن سے مسلسل ٹھوکر لگ رہی ہو، نیز ان کے باعث تحریک کی صفوں میں تھکن، تساہل اور بے دلی کی کیفیات ہی کیوں نہ جنم لے رہی ہوں۔ مگر حیرت ہے کہ ان تمام منفی نتائج سے بے نیاز یہ چلی جا رہی ہے۔

تحریک نے فکر وعمل کے میدان میں ’مقبول‘ اور ’باکمال‘ کی کچھ ایسی حدود قائم کر رکھی ہیں، جو حریتِ فکر اور تجدید ِعمل اور جادۂ نو کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس نے بعض مفکرین کے ساتھ ایسی سخت وابستگیاں استوار کر دی ہیں، جن کے باعث علم وتفکر کے سرچشمے، پتھر کے قالب سے پھوٹنے والے چھوٹے چھوٹے جھرنوں ہی کا رُوپ دھار کر رہ جائیں گے، جس کے نتیجے میں ذہنی اور فکری گھٹن اور نظر کی تنگی پروان چڑھتی رہے گی، اور شاید نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ کسی دوسرے کی کتابیں پڑھنے اور دوسروں کے حلقوں کی بات سننے اور غور کرنے پر ہی پابندیاں عائد ہو جائیں۔ 

خبردار رہنا چاہیے کہ گھٹن کے ماحول میں تعلق وعقیدت کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں، اور زندگی بخشنے والی دل چسپیاں کم ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں حرکت وعمل کی روح سے سرشار افراد آہستہ آہستہ کھسکنے لگیں گے، جیسے انگلیوں کے درمیان سے خشک ریت سرک جاتی ہے۔ اپنے ہدف سے انکار نہ کرنے اور نصب العین کی لگن موجود ہوتے ہوئے بھی عقلیں جامد ہو کر رہ جائیں گی۔ ان دو متوازی بلکہ مخالف رجحانات کے آگے بڑھنے پر تحریک ان کھسک جانے والوں کی علیحدگی پر خود خوشی،اطمینان اور سکون محسوس کرے گی، کیونکہ ساکن کو متحرک کرنے کی ’گستاخی‘ کرنے والے اور تبدیلی وانقلاب کے پرچم اُٹھانے والے یہ عناصر تحریک کی صفوں میں ’ناپسندیدہ عناصر‘ قرار پائیں گے۔

میں نے بعض اسلامی جماعتیں دیکھی ہیں، جو اپنے پیروکاروں پر مخصوص قسم کی تعلیمات اور محدود قسم کا ثقافتی رنگ اختیار کرنے کی پابندی لگا دیتی ہیں۔ یہ بے چارے جماعتوں کی قیادت کی پڑھائی ہوئی پٹی کو اس طرح دُہراتے ہیں، جیسے کوئی مقدس صحیفہ پڑھا جاتا ہے۔ مقرر کردہ وظائف کو بار بار دُہرایا اور پھیلایا جاتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ پڑھائی ہوئی اس پٹی اور رٹائے ہوئے چنددرچند وظیفوں کے بارے میں اپنی سوچ کو کام میں لائے یا ان پر تبادلۂ خیال کے لیے زبان کھولے۔ ان کے ہاں اختیار کی گنجایش تو ہے، مگر امتیاز وتمیز برتنے کی نہیں۔ ان کے قائد کا ہرفرمودہ، ہر موقف صحیح ترین کا درجہ رکھتا ہے، جس میں خطا کا خفیف سا بھی امکان نہیں بلکہ ایسا حق ہے جس میں باطل کا شائبہ تک نہیں ہو سکتا۔

تحریک اسلامی میں صوفیا کے طریق تربیت سے نظریاتی اختلاف وبراءت کا نقطۂ نظر غالب ہے۔ اس کے باوجود مطلق سمع اور اندھی تقلید وطاعت کے اسی تصور کو اختیار کیا جا تا ہے، جو صوفیہ سے خاص ہے۔ جس میں یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ جس نے اپنے ’شیخ‘ [مرشد]سے ’کیوں‘ کا سوال کر دیا، وہ کبھی نجات نہیں پائے گا۔ ’مرید‘ اپنے ’مرشد‘ کے ہاتھ میں ایسا ہی ہے، جیسے مردہ، غسال کے ہاتھ میں۔ ہم صوفیہ کو اپنے مریدوں کی تربیت اس نہج پر کرتے دیکھتے ہیں کہ ’شیخ‘ کے کہے ہوئے سے ہٹنا محال ہے، اور ’کیوں‘ کا سوال ناقابلِ قبول بغاوت ہے۔ صوفیہ کے حلقوں میں اس نہج پر تربیت سے مریدوں کی فوج میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ علما ومفکرین کی بھی اسی طرح روایتی تقلید ہونے لگتی ہے۔ اس محدود فکر سے نکلنا محال ہو جاتا ہے، جس سے فکر اور اس کی تعبیر میں کھینچی ہوئی لکیروں سے باہر نکلا نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی ایسا کر گزرے تو اسے مخالفت کے شدید حملوں کا نشانہ بننا پڑتاہے۔

آپ کو تعجب ہوگا کہ دعوت اسلامی کے ایک عظیم قائد ڈاکٹر مصطفےٰ السباعیؒ [م: ۳؍اکتوبر ۱۹۶۴ء] کو بھی ایک مرتبہ ایسی ہی شدید صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا، کیونکہ انھوں نے اپنے زمانے میں ابلاغ کے لیے اجتہاد کرتے ہوئے اسلامی نظام عدل کو ’الاشتراکیۃ الاسلامیۃ‘ کا نام دے دیا تھا۔ عمومی فضا میں بہت سے لوگوں کو لفظ اشتراکیت میں کشش محسوس ہوتی تھی اور بہت سارے اس لفظ سے بوجوہ الرجک تھے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسلام تو اپنے اندر سرمایہ داری کا رنگ رکھتا ہے۔استاذ السباعی نے اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی۔

اسی طرح ایک اور مسلمان مصنف نے ایک رسالے کے پہلے شمارے کے لیے فرمائشی مضمون لکھا، جس میں اس نے ’بائیں بازو کے مسلمانوں‘ کی اصطلاح استعمال کر دی۔ ایسا اس نے اس رجحان کے رد میں کیا تھا کہ لوگ عام طور پر دعوت اسلامی کو ’دائیں بازو‘ کی صف میں گنتے ہیں اور اس کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی افکار کی نیازمندی سے قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ ہوا یہ کہ اس صاحب ِقلم کی تحریر پر شدید رد عمل ظاہر کیا گیا۔

میں ذاتی طور پر نہ ’دائیں بازو‘ کی اصطلاح سے اتفاق کرتا ہوں اور نہ ’بائیں بازو‘ کی اصطلاح سے۔ لیکن میراموقف یہ ہے کہ اہل فکر ونظر اور صاحبان علم سے ’اجتہاد‘ کا حق نہ چھینا جائے۔ محض اختلاف رائے کے نتیجے میں انھیں اتہامات اور بُرے بھلے کلمات کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ان کی رائے مسترد کر دی جائے، لیکن آنے والے دور میں وہی رائے مقبول   قرار پائے۔ میرے خیال میں مجتہد، اللہ تعالیٰ کے ہاں مستحقِ اجر ہوتا ہے، خواہ اس کی اجتہادی رائے صحیح ہو یا غلط۔ تاہم اس کے لیے خلوص نیت اور علم و فضل شرط ہے۔

ایک رسالے نے ایک بڑے مسلم مصنف سے کچھ مقالات لکھنے کی درخواست کی۔ انھوں نے ایک مقالہ لکھ کر بھیجا، جس میں یہ رائے درج تھی کہ ’’اسلامی نظام کے تحت ایک سے زیادہ اسلامی جماعتوں کا قیام جائز ہے‘‘۔ مگر مذکورہ ادارے کی رائے اس سے مختلف تھی، چنانچہ ان کا وہ مقالہ شائع نہ ہو سکا، کیونکہ وہ لا حزبیۃ فی الاسلام والے روایتی فلسفے کے علی الرغم رائے کا حامل تھا۔

دعوتی عمل سے منسلک ایک بزرگ کو ایک مرتبہ دعوت کے لیے پانچ سالہ خاکہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انھوں نے اس کی تیاری میں یہ اہتمام کیا کہ مختلف اطراف سے تبادلۂ خیال کیا۔ دعوت اسلامی سے خائف مخالف دھڑوں سے، مغرب کے اہل فکر مستشرقین سے، اہل کتاب کے مذہبی رہنماؤں سے، سیاسی مدبروں اور سفیروں وغیرہ سے مختلف مواقع پر تبادلۂ خیال کر کے کام کا نقشہ وضع کیا۔ اس تبادلۂ خیال سے ان کی غایت اسلام کے بارے میں مخالفین و معاندین کی اس پرانی سوچ کو بدلنا تھا کہ مسلمان کوئی وحشی انسانوں کا غول ہیں اور تحریک اسلامی دہشت گردی اور تشدد کی علامت ہے۔ وہ سوچتے تھے کہ دوسرے آسمانی ادیان کے ساتھ پُرامن طور پر زندگی گزارنے کے لیے مفاہمت کی فضا پیدا کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلمان اپنے اپنے وطن میں اپنی شریعت اور عقیدے کے مطابق خود مختارانہ انداز میں رہیں، بسیں اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں مزاحم نہ ہوں۔ لیکن ہوا یہ کہ بزرگ کی جملہ آراء وتجاویز کو نہ صرف رد کردیا گیا، بلکہ بڑے پیمانے پر تضحیک وتمسخر کا نشانہ بنایا گیا اور کہنے والے نے کہا کہ ’’یہ علّامہ صاحب بڑے ’ترقی پسند‘ بن گئے ہیں‘‘۔

موجودہ فضا میں دین دار عوام کی سخت رائے اور سنگین لب ولہجہ کچھ عمومی حیثیت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے، جس کا فائدہ مخالفین بڑی آسانی سے اُٹھا رہے ہیں۔ اس منفی پہلو کے باوجود دینی حلقوں میں سمجھا جاتا ہے کہ’’ سخت موقف ہی کے ذریعے سے اس منڈی میں سودے طے پاتے ہیں۔ سختی، تیزی، تندی کو قبولیت عامہ حاصل ہو تی ہے‘‘۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ امت میں بگاڑ اور انحراف، علم کی مسندوں کا تنخواہ داری میں چلے جانے اور عالموں کے مقتدر لوگوں اور طبقوں کے اتباع کے باعث پیدا ہوا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ عوامی خواہشات کا اتباع، اور دبائو میں آنے اور حاکموں یا مقتدر طبقوں کی مرضی کا پابند ہونے سے بھی خطرناک نتائج قسمت میں لکھے جاتے ہیں۔ حاکموں کی پیروی واطاعت کرنے والے کبھی بے نقاب ہو کر رد کر دیے جاتے ہیں، جب کہ عوام کی خواہشات میں تنکے بن کر چلنے والے وہ باطل ہوتے ہیں، جو رائے عامہ کے بہائو میں حسرت اور ماضی میں دفن ہوکر رہ جاتے ہیں۔

بیسیویں صدی کے وسط میں ایسی فکر غالب رہی۔ ان حالات کا نتیجہ تجزیہ نگاروں سے مخفی نہیں ہے۔ دعوت اور معاشرے میں ایک دیوار کھڑی ہو گئی۔ جاہلیت مطلقہ نے اسی تشدد کو جواز بناکر اسے نیچا دکھانے میں اپنا پورا زور صرف کیا۔ اس عرصے میں اسی پُرتشدد اور سخت رجحان کے تحت کفر کے فتوے جاری کرنے میں بڑی فراخ دلی کا ثبوت سامنے آیا۔ مسلم عوام کو لا الٰہ الا اللہ کا مطلب نہ جاننے اور حاکمیت الٰہ کا تصور نہ رکھنے کے باعث کافر ٹھیرایا گیا۔ وقت کے اہم مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے فقہی اجتہاد پر پابندی رہی، اسلامی فقہ کی تجدید کے تصور کا مذاق اڑایا گیا۔ کہا گیا کہ پہلے عقیدے کو قبول کیا جائے، اسلامی نظامِ زندگی کا نقشہ بنانے کی بات بعد میں ہوگی۔ اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی نظام اسلامی کے حقائق پیش کرنا ثانوی امر ہے۔

عصرِحاضر میں تحریک اسلامی کے ضعف کے یہ چند نکات تھے، جو میں نے اللہ کی پکڑ کے احساس کے تحت پیش کیے ہیں۔ مقصد صرف اصلاح وتعمیر ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تحریک کے بعض متعلقین اس تنقیدی جائزے پر سخت چیں بہ جبیں ہوں گے۔ اسی طرح تحریک کے مخالفین بھی اسے غنیمت سمجھ کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے، بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے اور تحریک اسلامی اور اس کے مقاصد کے ہی نہیں، خود اسلام کے بارے میں بھی غلط فہمیوں کا غبار اٹھانے کی سعی کریں گے۔ دشمن کو قائل کرنا کچھ آسان نہیں، مگر اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی سمت چلنا تو ممکن ہے! (مکمل)

اسلامی تحریک نہ کمزوریوں سے مبرا ہے اور نہ تنقید ونصیحت سے بے نیاز، جیسا کہ اسلامی تحریکوں کے بعض مخلص وابستگان بے جا طور پر تصور کر لیتے ہیں۔ اس تصور کے حامل افراد تحریک اسلامی اور اسلام کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک کے کاموں اور حکمت عملیوں پر تنقیدی و تجزیاتی نگاہ ڈالنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر تنقید ہو رہی ہے۔ ایسا کچھ بعض لادین عناصر دوسرے انداز میں کرتے ہیں۔ وہ تحریک اسلامی کی تدبیری غلطی یا کمزوری گنواتے ہیں تو اسے براہِ راست اسلام سے منسوب کر دیتے ہیں اور اسلام اور اس کے احکام میں کیڑے ڈالنے لگتے ہیں۔

یہ تحریک بہرحال اُن انسانوں کی تحریک ہے، جو اسلام کے غلبے اور اس کا پیغام پھیلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک سے وابستہ افراد اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام ممکنہ جائز اسباب وتدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے کہ ان کا ’اجتہاد‘ کسی وحی و الہام کے درجے میں آتا ہے یا ان کی بات کسی بحث وتنقید سے بلند ہے۔ بلاشبہہ ان میں سے کوئی بھی یہ زعم نہیں رکھتا کہ وہ مواخذہ ومحاسبہ سے بری ہے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات ایسے ہیں جنھیں جواب وصفائی کے درخور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

اسی بنا پر ہمارا خیال ہے کہ تحریک کے وجود، ڈھانچے اور داخلی اسباب پر اس مناسبت سے بحث کی جانی چاہیے کہ یہ اب تک مطلوبہ معاشرے کی تعمیر میں کیوں کام یاب نہیں ہو رہی ہے اور اس کی کمزوری کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ یہاں ہم اختصار سے چند اہم اسباب کا جائزہ لیتے ہیں:

خود احتسابی کا فقدان

سب سے پہلی چیز جس کی لوگ شکایت کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ تحریک کے اندر نقد واحتساب کا عمل اگر یکسر ختم نہیں تو کمزور ضرور ہے۔ ’خود احتسابی‘ سے ہماری مراد یہ ہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے: ’’سمجھ دار وہ ہے، جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘‘ یعنی اس کا محاسبہ کرتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اپنا محاسبہ خود کرو قبل اس کے کہ کوئی تمھارا محاسبہ کرے۔ گویا اپنے اعمال کا وزن اپنے طور پر کر لیا کرو قبل اس کے کہ کوئی تمھارے اعمال کا وزن کرے۔ بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’مومن اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں جابر سلطان سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے‘‘۔یہ تو ہوا انفرادی محاسبۂ نفس۔

جس طرح ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ دیکھتا رہے کہ وہ اللہ کے معاملے میں کسی تفریط کا شکار نہ ہو، اور بندوں کے حقوق میں کوئی کمی نہ چھوڑتا ہو، تاکہ اس کا آج، کل سے بہتر بنے اور  آنے والا کل اس کے آج سے بہتر ثابت ہو۔ اسی طرح جماعت پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اجتماعی محاسبے کے عمل کو جاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر اکٹھے ہونے سے تو محفوظ رکھا ہے، لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے، وہ عملی دُنیا میں کام کرتے ہوئے خطا اور غلطی سے محفوظ نہیں سمجھی جاسکتی۔ خاص طور پر اجتہادی امور میں، جہاں ایک معاملے کے متعدد پہلو ہو سکتے ہیں۔ جتنا کسی پہلو میں صحت کا امکان ہوتا ہے، اس باب میں اتنا ہی غلطی اور لغزش کا بھی۔ خطا کا امکان بشری کمزوریوں کے ما تحت ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ ایمان وتقویٰ کے منافی نہیں بلکہ بشریت کے فطری لوازم میں سے ہے۔ خطا کے رُخ پر ان کے قدم بھی پھسل سکتے ہیں جو ہم میں سب سے کامل ایمان والے ہیں اور میزانِ عدل میں جن کے عمل قابل ترجیح ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہی کے زمانۂ سعادت کو دیکھ لیجیے۔ غزوۂ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟:

اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا۝۰ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى ہٰذَا۝۰ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۶۵ (اٰل عمرٰن۳: ۱۶۵) یہ تمھارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمھارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبیؐ، ان سے کہو، یہ مصیبت تمھاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

قرآن نے صحابہؓ کے بعض اقوال واعمال کا تعلق کمزوری اور غلطی کے حوالے ہی سے دکھایا ہے:

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۚ (اٰل عمٰرن۳: ۱۵۲)اللہ تعالیٰ نے (تائید ونصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا، وہ تو اس نے پورا کر دیا۔ ابتدا میں اس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کر رہے تھے۔ مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی وہ چیز اللہ نے تم کو دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے، اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔

تحریک اسلامی اپنی مالک آپ ہی نہیں ہے، یہ تو پوری امت اسلامیہ کی متاع ہے۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی مسلمان نسلوں کو منتقل ہونے والا ورثہ ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کے اثر وقوت کے سرچشموں سے آگاہی بھی حاصل کی جائے اور اس کے ضعف واضمحلال سے سبق بھی سیکھا جائے۔

تحریک اسلامی کے بعض مخلص وابستگان تحریک میں تنقید کا دروازہ کھلنے سے اس لیے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ’’اس طرح بعض لوگ اس کی اچھائیوں کو بھی برائیاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ ایسی تنقید اگر اصلاح کا باعث نہ بن سکے تو فساد ثابت ہوتی ہے‘‘۔ اسی نوعیت کا عذر بعض قدیم علما نے بھی اختیار کیا، جنھوں نے امت کو ’اجتہاد‘ کے دروازے بند کیے رکھنے کی نصیحت وتاکید کی۔ ان کا خیال تھا کہ ’’ایسے لوگ بھی ’اجتہاد‘ کے نام پر اللہ کے دین کو تختۂ مشق بنا ڈالیں گے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔ دین میں بے حقیقت باتوں کو داخل کریں گے، علم وبصیرت کے بغیر اجتہادی فیصلے کریں گے، خود بھی گمراہی کا شکار ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لیے یہ دروازے بند نہیں ہونے چاہییں جو علم وتقویٰ کے لحاظ سے معاملے پر قادر ہوں۔

اسی طرح تحریک اسلامی کے بعض عظیم قائدین پر تنقید کو بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ حسن البناؒ ، ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، سید قطبؒ اور مصطفےٰ السباعیؒ یا ایسی ہی دیگر فکری اور تحریکی قیادت پر جب تنقیدی رائے زنی کی گئی تو اسے اتہام گردانتے ہوئے یہ سمجھا گیا کہ ان شخصیات کی امامت وعظمت کو طعن کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ کوئی تنقید علمی سطح پر ہو یا عملی اور تحریکی سطح پر، کسی شخص کو علمی، دینی اور اخلاقی مرتبے سے نیچے نہیں لا سکتی۔ ان عظیم رہنماوں کی فکر صرف وابستگان تحریک ہی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان نسلوں کی ملک ہے۔ چنانچہ نہایت ضروری ہے کہ سب ان کی فکر پر تنقیدی جائزے کے ذریعے سے یہ جان سکیں کہ کہاں مکمل اتفاق ہو سکتا ہے اور کن پہلوئوں میں اختلاف کی گنجایش ہے؟ مگر کسی ایک چیز میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے مجموعی خیر کی قدر نہ کی جائے۔

خود ان مفکرین نے کبھی اپنے آپ کو معصوم نہیں سمجھا، نہ اپنی آراء ،اجتہاد اورفکر پر کبھی ’تقدس‘ کا رنگ چڑھایا۔ حسن البناؒ نے تو اپنے ’دس اصولوں، میں یہ بات بہ تاکید کہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کی بات کو اختیار واخذ بھی کیا جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔

ان تمام حضرات نے خوب سے خوب تر کے سفر میں اپنے علمی موقف پہ نظرثانی میں کبھی عار نہیں سمجھا۔ سید قطبؒ التصویر الفنی ومشاہد القیامۃ فی القرآن میں قرآنی بلاغت کے منفرد اور عظیم نقاد کی حیثیت میں سامنے آئے۔ جب انھوں نے عدالۃ الاسلام ونظامۃ الحیاۃ لکھی تو اسلامی نظام معاشرت کی خوبیوں کے پرچارک بنے۔ اس سے آگے فکرِ بلند نے پرواز کی تو المعالم فی الطریق اور فی ظلال القرآن میں ایک زبردست تحریکی داعی کے قالب میں ڈھل کر معاشرے میں اسلامی انقلاب کے علَم بردار بن گئے۔ ان کے ایک شاگرد نے ان نظریات وآراء میں ان زبردست تبدیلیوں کے ضمن میں ان سے ایک مرتبہ کہا، ’’معاف کیجیے گا، آپ کے بھی امام شافعیؒ کی طرح دومذہب ہیں، ایک قدیم اور ایک جدید‘‘۔ سید قطبؒ نے اپنی فکر کے اجتہادی سفر میں ترقی وانقلاب کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور کہا، ’’ہاں، شافعی نے صرف فروع میں رائے بدلی، میں نے تو اصول میں بھی ایسا کیا ہے‘‘۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی بعض تحریروں پر سیّد ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقید کو خندہ پیشانی سے دیکھا اور اس کا ذرہ برابر بُرا نہ منایا، جب کہ ان کے رفقا کسی ایسی تنقید سے ناراض ہوتے ہیں۔ انھیں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ تحریک کے مخالفین ایسی کسی بھی تنقید کے نام پر تحریک اور اس کے زعما کے خلاف ناشائستہ مہم شروع کر دیں گے، قابل اعتراض نکات جمع کر کے انھیں اپنے نقطۂ نظر سے پرکھیں گے، اور چھوٹی بات کو بڑی بنا کر پیش کریں گے۔ پھر تحریک اور شخصیات سے ایسی باتیں منسوب کریں گے جن کا ان سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہوگا۔

خود میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ میں نے اپنی کتاب الحل الاسلامی میں تحریک اسلامی کی بعض داخلی مشکلات وموانع کا جائزہ لیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس میں سے کچھ لیا، کچھ کاٹا، کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا۔اس طرح کی تحریف وخرافات سے قطع نظر خالص علمی تنقید جو اخلاص سے کی جائے، اسے نہیں روکنا چاہیے۔

اسلامی جماعتوں میں اختلاف اور قربت

معاصر اسلامی تحریک کو ایک دوسرے فتنے کا بھی سامنا ہے کہ تمام جماعتیں اور صفیں انتشار واختلاف اور تقسیم وشکستگی کا شکار ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ ہی کو ’جماعت المسلمین‘ تصور کرتی ہے اور وہ یہ نہیں مانتی کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ہے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے، باقی سب گمراہی کے راستے پر گام زن ہیں۔ صرف اسی جماعت میں شامل ہونے والے جنت کے، اور آگ سے نجات کے مستحق ہوں گے۔ وہی واحد ’فرقۂ ناجیہ‘ ہے، باقی سب ہلاکت اور دوزخ میں پڑیں گے۔ یہ بات ان میں سے ہر جماعت اگر زبان قال سے نہیں کہتی تو زبان حال سے اسی کا اظہار کرتی ہے۔ اُمت جس انتشار اور عدم وحدت کا شکار تھی، اسی میں کئی قابلِ قدر تحریکیں ڈوب چکی ہیں۔ تحریک کا اصل ہدف غلبۂ اسلام تک نہ پہنچ پانے اور اس میں استقامت نہ دکھا سکنے میں اسی افتراق اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا دخل ہے، جس کا احساس بعض مخلص اور غیرت مند افراد کو ہے اور وہ اسی چیز کے شاکی اور فکرمند رہتے ہیں۔ فکر وعمل کا سفر اسی رُخ پر اگر ڈھلوان کی جانب جاری ہے تو اتفاق اور قربت اور یک جہتی کے رستے منقطع ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں جڑنا اور ملنا مشکل ہو جائے گا۔یاد رہے، یہ عمل پہلے پہل ایک ہی چھت کے نیچے نہایت معمولی چیزوں میں اختلاف سے شروع ہوا کرتا ہے۔

میں اسلامی جماعتوں کی تعداد کے خلاف نہیں ہوں، اسی لیے میں نے موجودہ دراڑوں کو بھرنے کے لیے لفظ ’وحدت‘ کے بجائے ’قربت‘ استعمال کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب اپنے اپنے وجود کو تحلیل کر کے ایک قیادت کے تحت ایک جماعت کی شکل اختیار کرلیں کیونکہ یہ ایک پُرکیف اور خوش گوار خواب کے سوا کچھ نہیں۔ عملی دُنیا میں سب کے لیے اتنا بڑا ایثار اور عجز آسان نہیں ہے، اِلا یہ کہ انسان فرشتہ صفت ہستیوں میں ڈھل جائیں۔ پھر جماعتوں کی تعداد اگر محض تنوع اور تخصص کے لیے ہو تو یہ کوئی ایسی قبیح بات بھی نہیں ہے، مگر شرط یہ ہے کہ یہ تصادم وتضاد کی حدود سے محفوظ رہے۔

ہو سکتا ہے، ایک جماعت جاہلانہ خرافات اور شرکیہ افعال اور افکار سے اپنے آپ کو پاک رکھنے میں خصوصیت رکھتی ہے، اور اس کا مقصود یہ ہو کہ مسلمانوں کے عقیدے درست کر کے قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے۔ lکوئی جماعت عبادات کو بدعات اور دیگر آمیزشوں سے پاک رکھنے کے لیے کوشاں ہو اور چاہتی ہو کہ لوگ دین کی تعلیمات کو سمجھ لیں۔ lممکن ہے کوئی جماعت مسلم خاندان کو درپیش بڑے گمبھیر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتی ہو۔ اس کی دعوت ہو کہ عورتیں شرعی پردے کو اپنائیں اور بن ٹھن کر نمائشِ زینت نہ کرتی پھریں۔ lاسی طرح بعض جماعتوں کے پیش نظر  سیاسی انقلاب کا نصب العین ہو سکتا ہے اور وہ انتخاب کے میدان میں اُتر کر لادینی گروہوں کی سیاسی پیش قدمی کو روکنے کا لائحہ عمل رکھتی ہوں۔ lپانچویں قسم ان جماعتوں کی بھی ہو سکتی ہے جو تزکیہ وتربیت اور اجتماعی عمل کو اپنا ہدف سمجھتی ہیں اور اپنی جملہ کاوشیں اور وقت اسی مقصد کے لیے صرف کرتی ہیں۔ lپھر یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جماعتیں عام لوگوں میں اپنا کام کرتی ہوں۔ lاس کے مقابلے میں کچھ دوسری جماعتیں صرف تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگوں کو اپنا مخاطب بناتی ہوں۔ lبعض کی دعوت جذبات پر مضراب کا کام کرتی ہے اور بعض ایمانی کیفیات کو متاثر کرتی ہیں۔ lکچھ کا پیغام عقل وفکر کو اپیل کرتا ہے، خاص طور پر ایسے لبرل اور آزاد خیال ذہنوں کو اپیل کرتا ہے، جو مغرب زدگی کے باعث عقل ہی کو زندگی کے تمام اُمور کا معیار سمجھے بیٹھے ہیں۔

دیکھا جائے تو جماعتوں میں اسی نوعیت کے فرق ہیں۔ اس فرق کی بنا پر ہرجماعت اسی میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے، جس میدان کی وہ نمایندہ ہے اور جسے وہ کسی دوسرے میدان کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتی ہے۔

یہ چیز اچھی بھی ہے اور مفید بھی بشرطیکہ سب ایک دوسرے کے بارے میں حُسن ظن کا مظاہرہ کریں اور اختلاف کے دائروں میں ایک دوسرے کی برداشت سے باہر نہ ہو جائیں۔ ’معروف‘ کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور سمجھائیں اور جب کبھی شعائر دین کی حفاظت جیسے بڑے مسائل درپیش ہوں تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں اور قدم سے قدم ملا کر منزل مقصود تک پہنچیں۔ یہودیوں، عیسائیوں، اشتراکیوں، ملحدوں اور نسل پرست برہمنوں کے خلاف ایک محاذ بنا کردلیل، دعوت اور تنظیم سے مقابلہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یاد رکھیں:

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۝۴ (الصف ۶۱:۴) اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں، گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

آج اسلامی تحریک کی قیادت کا فرض ہے کہ اسلام کے لیے سرگرم اسلامی جماعتوں کے مابین قربت واتفاق کی ایسی فضا پیدا کرے جس میں سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک تازہ جوش وولولہ کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہوں۔ عالم عرب میں خصوصیت سے جن جماعتوں کا ذکر مقصود ہے، وہ یہ ہیں: lاخوان المسلمون lسلفی جماعت lجماعت الجہاد lحزب تحریر l تبلیغی جماعت ___ اور عالم عرب سے باہر پاکستان، ہند اور بنگلہ دیش میں الگ الگ دساتیر اور نظم کے تحت جماعت اسلامی، نوری جماعت ترکی، جماعت شباب مسلم اور حزب اسلامی ملائشیا وغیرہ۔

ان اسلامی جماعتوں کو چاہیے کہ سب کے مفکرین اور قائدین کو ایک دوسرے کے اجتماعات اور دروس کے حلقوں میں بلائیں، تعاون کے مواقع تلاش کرنے اور اختلافات کی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش کریں، تاکہ جزئیات میں اختلاف کی آگ ٹھنڈی ہو۔ دوسروں کے بارے میں،  اگر وہ رائے یا عمل میں مکمل اتفاق نہ بھی رکھتے ہوں، تو بھی حُسن ظن کو فروغ دیا جائے۔ کوئی ایسا  لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے جس پر سب کا جمع ہونا ممکن ہو، تاکہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف مقابلے میں سب ایک صف میں کھڑے ہو سکیں، خواہ دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، تیاری کتنے ہی پہلوؤں سے ہو اور مکر کا جال کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔

ان جماعتوں میں فرق کا بڑھا چڑھا ہوا ہونا اور اختلافات کے شگاف کا وسیع ہونا ایک عذر ہے۔ آخر کام تو سب جماعتیں اسلام ہی کا کر رہی ہیں، پھر کیوں نہ قطع تعلق کی روش ختم ہو اور کشیدگی ورنجش کا ازالہ ہو؟

میرا خیال ہے کہ امام حسن البنا رحمہ اللہ کے وضع کردہ ’دس اصول‘ مذکورہ جماعتوں میں فکری وعملی اشتراک کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ اصول امام شہیدؒ نے مصر کی دینی جماعتوں کو اتحاد کی کم از کم بنیاد کے طور پر پیش کیے تھے، تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے جملہ عناصر میں فہم وفکر کی ’قربت‘ پیدا کی جا سکے اور ان میں پائے جانے والے اختلافات اور الزام تراشی کو ختم کیا جاسکے۔ نیتوں میں اخلاص ہو تو یہ ’دس اصول‘ آج بھی روشنی کا مینار بن سکتے ہیں۔ ان میں ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ ’’جس چیز پر ہمارا اتفاق ہو جائے گا، ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اگر کسی چیز میں اختلاف باقی رہے گا تو (الزام تراشی اور اتہام بازی کے بجائے) ایک دوسرے سے معذرت کر لیں گے‘‘۔

میں نے حسن البناؒ سے بڑھ کر اسلام کے کاز کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کی دل داری اور احترامِ جذبات کی خواہش کسی میں نہیں پائی۔ وہ اتفاق اور رفاقت پر زور دیتے تھے، اور دلوں میں ’قربت‘ پیدا کرنے کے لیے نرم اور میٹھا اسلوب اپناتے تھے۔

اخوان المسلمون کے چھٹے اجتماع کے موقعے پر اپنے پیغام میں انھوں نے یہ کہا تھا:

جو مختلف گروہ اسلام کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کے مابین نزاعات کے سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ محبت، اخوت، تعاون اور دوستی کے جذبات کام میں لائے جائیں، نقطۂ نظر میں قربت اور اتفاق کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ فقہی اور مسلکی اختلاف، کسی خلیج اور نفرت کا باعث نہ بنے۔ دین کو پیش کیا جائے یا دین کا کام کیا جائے تو انتہائی نرم لہجے میں تاکہ بات دلوں میں اتر جائے اور عقل کو اپیل کرتی جائے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نام، القاب اور تنظیموں کی ہیئت کے فرق ختم ہو جائیں گے۔ دین اسلام کے ماننے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ مومنانہ اخوت قائم ہوگی اور دین کے لیے کام کرنے والے تمام لوگ اسی جذبے سے سرشار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں گے۔

تحریک اسلامی کے کارکنوں اور قائدین کے لیے یہ ہرگز مناسب بات نہیں ہے کہ وہ ان شخصیات کی دینی خدمات یا ان کا وزن کم کریں، جو دعوتِ دین کے میدان میں سرگرم ہیں۔ یہ شخصیات اگرچہ انفرادی طور پر بھی کام کر رہی ہوں، لیکن پھر بھی ان کا وسیع حلقۂ اثر وتلامذہ ہے، ان کے مدارس اور مرید ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض راست باز اور مخلص تو ایسے ہیں جو رائے عامہ میں ایک زبردست حرکت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ سب اُمت کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قوت، صلاحیت اور دائرۂ اثر کو دین ہی کی تقویت کے لیے بروئے کار آنا اور لانا چاہیے۔

ہماری منظم جماعتی، تنظیمی اور ایک لگے بندھے پروگرام کے مطابق جدوجہد کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان لوگوں کے اعتبار کو عوام میں ساقط کر دیں جو جماعت کی حدود کے اندر آکر کام نہیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا معقول جواز اور بعض مادی ومعنوی رکاوٹیں ہوں، جو انھیں منظم اور جماعتی اسلوب کار کا حصہ بننے سے روکے ہوئے ہوں۔ اگر وہ فکری، قلبی اور عملی طور پر جماعتی کام سے تعاون بھی کرتے ہوں تو پھر ان کے باضابطہ اور باقاعدہ طور پر رکن جماعت نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح بعض بڑی صاف ستھری، دعوت دین میں مخلص شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو سرکاری محکموں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ خواہ کسی درس گاہ میں کام کر رہی ہوں یا وزارت وغیرہ میں ملازم ہوں۔ محض سرکاری ملازم ہونے کے ’جرم‘ میں ان سے گریز اور لاتعلقی برتنا بھی کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ بعض اوقات سرکاری مشینری اور اداروں میں رہ کر یہ افراد بھی بڑے بڑے علمی اور عملی کام کرجانے کے قابل ہوتے ہیں۔

جذبات سے مغلوبیت

تحریک اسلامی جس نوعیت کے ضُعف کا شکار ہو رہی ہے، اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ عقلی اور علمی پہلو پر جذبات کی دھندچھا رہی ہے۔ تحریک کی راہوں میں بلاشبہ جذبات کا ایک کردار ضرور ہے، اس حد تک جذبات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جذبات اور قلبی کیفیات کی لطیف لہروں کو یکسر مسدود کر دینا مقصود نہیں ہے اور نہ یہ منشاہے کہ عقل کو اتنا غلبہ حاصل ہو جائے کہ تحریک اسلامی محض بے رحم عقلیت کے تابع ہو کر رہ جائے۔

یہ چیز نہ صرف تحریک کے مزاج کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے مزاج سے بھی اسے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اسلام عقل کا احترام سکھاتا ہے اور فکر ونظر کو کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے، لیکن یہ کوئی مجرد جامد عقلی ومنطقی فلسفہ نہیں ہے، جس میں انسانی جذبات کا سرے سے کوئی گزر ہی نہ ہوتا ہو۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جذبات اور دلی واردات و احساسات کے عمل دخل سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں یہ جذبات اپنے مقام پر بڑی قدر وقیمت کے حامل ہیں۔  اللہ کے لیے محبت، اللہ کے لیے نفرت، خدا کی نعمتوں اور فراغت کو پا کر فرحت وطمانیت، نیکی پر مسرت کی کلیوں کاکھلنا، گناہ کے ارتکاب پر غم اور دُکھ کی کیفیت پیدا ہونا، اللہ کا خوف دلوں میں بیٹھنا اور اس سے امید بھرا ایک تعلق قائم کرنا، سب ایسے نفسیاتی و جذباتی احوال ہیں، جن کی اہمیت مسلّم ہے۔ اہل تصوف نے تو ان جذبات وکیفیات پر اپنی کتابوں میں پورے پورے باب باندھے ہیں۔ اس کی واضح مثالیں امام عبداللہ الانصاری الھروی [م: ۱۰۸۸ء] کی منازل السائرین اور علّامہ ابن قیم [م:۱۳۵۰ء]کے قلم سے اس کی شرح مدارج السالکین میں دیکھی جاسکتی ہیں۔  اسی طرح کی اور بھی کئی کتب ہیں۔

اس حد تک جذبات سے نہ تو ناپسندیدگی ہے اور نہ ان کے وجود کے حوالے سے کوئی اختلاف۔ اسلام انسانی عقل اور قلب کو بیک وقت مخاطب کرتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے ان لوگوں کو لائق مذمت ٹھیرایا ہے، جو عقل وفہم کو استعمال نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کی مذمت بھی آئی ہے، جن کے دل اللہ کے ذکر اور پیغام سے نرم نہیں پڑتے۔ چنانچہ عقل وجذبات کو بیک وقت کام میں لانا ضروری ہے۔ متفق علیہ حدیث ہمیں یہی حقیقت سمجھاتی ہے: ’’جس شخص میں تین چیزیں پائی جائیں، اس نے حقیقت میں ایمان کی حلاوت کا مزا چکھ لیا: یہ کہ اللہ اور رسولؐ سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی محبوب نہ ہو۔ اس کی محبت اور نفرت خالص اللہ کے لیے ہو۔ اسلام سے دوبارہ کفر کی طرف پلٹ کر جانا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے اسے اپنا آگ میں جلایا جانا ناگوار ہے‘‘۔

تحریک اسلامی کے مزاج میں ایمانی کیفیات، شعور ووجدان کا جہاں پاس و لحاظ موجود ہے، وہیں پر جذبات کی لپک کے لیے گنجائش بھی ہے۔ تحریک کے لیے ضروری ہے کہ عقل کی روشنی میں جہد وعمل کا اہتمام کرے اور محبت، اخوت اور ایثار جیسے جذبوں کے سوتوں کو بھی خشک نہ ہونے دے۔

تحریک اسلامی، اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں ہے۔ اس میں فہم وفکر کی ہم آہنگی بھی ہونی چاہیے، تنظیمی وحدت بھی قائم رہنی چاہیے اور ساتھ ساتھ جذباتی رشتے بھی مستحکم رہنے چاہییں۔ قلوب کی تالیف ہوتی رہے۔ دل، اللہ کی محبت کی رسی سے باہم جڑے رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور احسان بیان فرمایا ہے:

ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۶۳(انفال۸: ۶۲-۶۳) وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناًوہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔

امام حسن البناؒ ہر منگل کو اپنے ہفتہ وار خطبوں اور تقریروں میں اس امر کی شدید خواہش اور کوشش کرتے تھے کہ دلوں کو ایمان ومحبت کے ذریعے سے ہمیشہ کی تازگی اور زندگی بخشی جائے۔ اسی بنا پر انھوں نے ارکان بیعت کے لیے ’اخوت‘ کو تعلق کی علامت بنایا اور جماعت کا نام ’الاخوان المسلمون‘ رکھا۔ امام شہید اپنے پر اثر ارشادات میں بتاتے تھے: ’’ہماری دعوت کی تین بنیادیں ہیں: عمیق ایمان، دقیق فہم، وثیق حُب۔

ان ساری گزارشات کی غرض یہ بتانا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحریک اسلامی کے اندر محبت ، خلوص اور جذبات کا یہ مقام اور اہمیت ہے۔ اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’جب ہم کہتے ہیں کہ تحریک کے اندر جذبات کی کارفرمائی بڑھ گئی ہے تو درحقیقت ہماری اس سے مراد کیا ہے؟‘‘ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ تحریک اسلامی میں جملہ حالات وتعلقات، فکر وعمل، افعال واقوال، آراء وموقف، شخصیات اور اجتماعی ہیئت میں انفعالیت اور جذبات سے مغلوبیت کا حصہ عقل کے استعمال سے زیادہ ہے۔ غلبۂ جذبات کے رجحان کے سلسلے میں متعدد دلائل ومظاہر موجود ہیں اور ان کے اثر سے منفی نتائج کی بھی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔(جاری)

دعوتِ دین کا قرآنی اسلوب

میری چہیتی بیٹی ’عُلا، میرے جگر کے ٹکڑے، میرے دل کی زندگی، میر ی روح کی ٹھنڈک،

میری پیاری بیٹی! تم پر میرا دل نثار ہے، میرے دل کی ساری محبت نثار ہے، میری محبت کی ساری صداقت نثار ہے، اور میری صداقت کا سارا خلوص نثار ہے۔ میری پیاری بیٹی، سودن سے زیادہ ہوگئے، تمھیں باغیوں اور سرکشوں کی جیلوں میں رہتے ہوئے۔ آہ! مظلوم کے اُوپر ظلم کے دن کتنے بھاری گزرتے ہیں،ایک دن ایک برس کے برابر لگتا ہے۔ مگر تسلی رکھو، اللہ نے چاہا تو ظلم کے یہ دن بھی ختم ہوں گے۔ تم اور تمھارے شوہر اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کے درمیان ضرور لوٹو گے، اس طرح کہ سلامتی تم پر سایہ فگن ہوگی، اور اللہ کی رحمت کی تم پر بارش ہوگی۔ تم نے سوچا ہوگا کہ ظالموں کا دھیان تمھاری طرف نہیں جائے گا، کیوں کہ تم ہمیشہ ان سے دُور رہی، نہ ان کے ملک میں پیدا ہوئی، نہ ان کے اسکول اور کالج میں داخلہ لیا، نہ ان کے محکمے میں نوکری کی، پھر ان سے تمھارا کیا لینا دینا ؟

تم ایک بیوی ہو، ایک ماں اور ایک دادی ہو، ایک امن پسند عورت ہو، اپنے ملک کے سفارت خانے میں ملازم ہو، جس کی تمھارے پاس شہریت ہے، ان کا تمھاری ملازمت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر تمھارا سیاست سے بھی کوئی تعلق نہیں رہا، البتہ تمھارے شوہر کا سیاست سے ضرور تعلق رہا، مگر وہ بھی کسی ممنوعہ پارٹی سے نہیں، بلکہ وسط پارٹی سے، جو ملک کی ہر طرح سے تسلیم شدہ اور قانونی پارٹی ہے۔ اس کے باوجود تمھارے شوہر کو ان ظالموں نے دوسال سے زیادہ عرصہ جیل میں بند رکھا، عدالت میں مقدمہ چلایا، جب کچھ نہیں ملا تو پھر کافی عرصے بعد رہا کیا، اور اب پھر انھیں جیل میں ڈال دیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ تمھارے شوہر ہیں۔ ہرانسان اصولی طور سے قانون کی نگاہ میں بے گناہ ہوتا ہے۔ ہرقانون میں، ہر ملزم بھی بے گناہ ہوتا ہے ، جب تک کہ منصف عدالت اسے مجرم قرار نہ دے دے۔ اس کے بعد بھی اسے اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور اعلیٰ عدالت بھی اس وقت تک اُس کے ساتھ ہوتی ہے، جب تک اس کی بے گناہی یا جرم کا فیصلہ نہ ہوجائے۔ یقینا اللہ تعالیٰ کی ذاتِ واحد ہرچیز سے باخبر ہے۔

میری بیٹی، آخر یہ ظالم تمھارے ساتھ ایسی سنگ دلی کا سلوک کیوں کر رہے ہیں؟ انھوں نے تم کو ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں تنہا کیوں قید کر رکھا ہے؟ جہاں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ کب دن کا اُجالا آیا اور کب رات کی تاریکی اُتری؟ بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ تم کو قید ہی کیوں کیا گیا؟ اور عدالتی کارروائی کے دوران تمھارے خلاف اس قدر پروپیگنڈا کیوں کیا گیا؟ تم کو بنیادی حقوق سے کیوں محروم رکھا گیا؟ نہ کوئی تم سے مل سکتا ہے اور نہ تمھاری صحت اور دوا کا کوئی خیال اور انتظام ہے۔ تم نے تو کوئی بڑا گناہ تو کیا کوئی چھوٹا گناہ بھی نہیں کیا،نہ دین کے معاملے میں اور نہ دنیا کے سلسلے میں، نہ کسی مظاہرے میں حصہ لیا اور نہ کسی مہم جوئی میں شریک ہوئی۔ کتنے سال سے تم اس ملک میں رہتی بستی، ضابطے اور قانون کے مطابق سفر بھی کرتی رہیں، تمھارے ریکارڈ پر کبھی کوئی حرف نہیں آیا، پھر اب ایسا کیا ہوگیا؟ لگتا ہے کہ اچانک انھیں یاد آگیا کہ تم قرضاوی کی بیٹی ہو۔ میری بیٹی، تمھارا باپ بھی کون ہے؟ زندگی بھر دنیا والوں کے بیچ دین کا دامن تھامے چلتا رہا، لوگوں کو دین سکھانے کا کام کرتا رہا، داعی اور معلم، شاعر اور مصنف۔ کبھی اپنی اُمت کے ساتھ اس نے خیانت نہیں کی۔ کبھی اس نے اپنی اُمت کے مشن کے ساتھ بے وفائی نہیں کی۔ جب سے لوگوں نے اسے جانا ہے، اور نوّے سال سے زیادہ عمر ہوجانے تک زندگی میں ایک بار بھی اس نے اپنی اُمت کو کوئی دھوکا نہیں دیا۔    تمام براعظموں کا سفر کیا، سارے اہم ملکوں کا دورہ کیا، لیکن کہیں بھی اُمت کے کسی مسئلے کو فراموش نہیں کیا۔ مسلمانوں کے تعلق سے اپنی کسی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا۔ اگر یہ سب کچھ انھیں اچھا نہیں لگا، اور اس لیے اچھا نہیں لگا، کیوں کہ انھیں نہ تو اسلام کی فکر ہے، نہ اُمت مسلمہ کی فکر ہے، نہ اسلامی تہذیب کی فکر ہے، تو آخر اس میں تمھارا کیا قصور ہے؟ تمھیں یہ کس بات کی سزا دے رہے ہیں؟ یا تم پر ظلم کے پہاڑ توڑ کرتمھارے باپ کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں؟ انھوں نے تمھارے باپ پر بھی مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ الزام یہ لگایا ہے کہ اس نے ۸۵سال کی عمر میں جیل میں گھس کر اس جیل سے قیدیوں کو نکال بھگایا تھا، جس کا نام بھی اس نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ خود ا س الزام کو بھی اس کی خبر نہیں ہے!

یہ ظالم اپنے دل کا کینہ اور نفرت اب ایک آزاد خاتون پر انڈیل رہے ہیں، اسے شکست دینا چاہتے ہیں، لیکن اللہ انھیں شکست دے گا۔مجھے یقین ہے، میرا رب میری بیٹی کی نگہداشت کرے گا، اپنی اس آنکھ سے جو سوتی نہیں ہے۔ میرا ربّ اس کی حفاظت کرے گا، اپنی اس پناہ میں رکھے گا جہاں کسی کی پہنچ نہیں ہے۔ میری بیٹی عُلا!تمھارے نام کا مطلب بلندی ہے، تو سمجھ لو کہ اللہ نے چاہا ہے کہ تمھارے نام کی برکت تمھیں حاصل ہوجائے۔ اس نے چاہا ہے کہ دنیا اور آخرت میں تمھارے درجات بلند کرے۔ ان آزمایشوں سے تمھاری نیکیوں کا ترازو بھاری کرے۔ تم جیل کی تنگ کوٹھڑی میں رہتے ہوئے اللہ کے نزدیک اُونچے محل میں رہنے والے سرکش ظالم کے مقابلے میں بہت بلند ہو، اور اللہ کو اور اللہ کے بندوں کو اس کے مقابلے میں بہت زیادہ محبوب ہو۔ تصور کرو، دنیا کے کونے کونے میں مومن مرد اور عورتیں تمھارے لیے استغفار کر رہے ہیں، تمھارے لیے اللہ سے دُعا کر رہے ہیں۔ اللہ تمھیں اور تمھارے تمام مظلوم بھائیوں اور بہنوں کو  جلد رہائی عطا کرے، اور ان ظالموں کو ان کے ظلم کا مزہ چکھائے۔ ان کی یہ دُعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی، ضرور رنگ لائیں گی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ تمھاری اور تمھارے شوہر کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، تمھارے دلوں کو سکون ملے، تمھارے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلے۔
میری بیٹی! یقین رکھو کہ ان جیلوں میں ستائے جانے والے مظلوموں کی ایک دُعا اتنی تاثیر رکھتی ہے کہ ظالموں کی ساری دنیا تباہ و برباد کرڈالے، اور انھیں ناکام و نامراد کردے۔ تسلی رکھو کہ تمھارا ربّ ان کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے، اور ظالموں کو ضرور معلوم ہوجائے گا کہ انھیں کس انجام سے دوچار ہونا ہے!
 تمھارے ابو!
یوسف القرضاوی

شرک کے شائبوں سے پاک عقیدۂ توحید جب کسی فرد کی زندگی میں آ جائے ، یا کسی قوم کی اجتماعی زندگی اس عقیدے پر اُستوار ہو جائے، تو زندگی میں اس کے بہترین ثمرات اور نہایت مفید اثرات سامنے آتے ہیں۔ ان ثمرات واثرات میں سے چند درج کیے جاتے ہیں: 

انسانی آزادی 

شرک اپنی تمام صورتوں اور مظاہر میں انسان کی ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ شرک انسان کو مخلوقات کے سامنے جھکاتا اور ان اشیا اور انسانوں کی بندگی اس سے کراتا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں ۔ وہ خود اپنے کسی نفع ونقصان کے بھی مالک نہیں ، اور نہ زندگی اور موت ان کے ہاتھ میں ہے، جب کہ توحید دراصل اللہ کی بندگی کے سوا ہرطرح کی بندگی سے انسان کی نجات اور آزادی کا نام ہے۔ توہمات وخرافات سے انسانی دل ودماغ کی آزادی ہے اور انسانی ضمیر کے کسی بھی چیز کے سامنے حقیر وذلیل ہونے سے آزادی ہے۔ وقت کے فرعونوں ،خدائوں اور جھوٹے معبودوں کے تسلط سے انسانی زندگی کی آزادی ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ شرک کے علَم بردار وں اور جاہلیت کے باغیوں نے ہر دور میں انبیاؑ کی دعوت کو روکنے کی پوری کوشش کی خاص طور پر رسول کریم ؐ کی دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ دراصل ان باغیوں اور سرکشوں کو معلوم تھا کہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب انسان کی آزادی کا اعلان ہے۔ ہر قسم کے جابروں کو ان کی جھوٹی خدائی کے تخت سے گرانے کا اعلان ہے۔ اہل ایمان کے لیے سر اُٹھا کر جینے کا اعلان ہے۔ یہ اعلان کہ ان کی پیشانی اللہ رب العالمین کے سوا کسی شے کے سامنے خم نہیں ہو سکتی۔ 

متوازن شخصیت کی تشکیل

عقیدۂ توحید ایک ایسی متوازن شخصیت تشکیل کرتا ہے جس کا قبلۂ زندگی ممتاز ہوتا ہے۔ اس کا مقصد زندگی ایک ہوتا ہے اور اس کا طرزِ زندگی متعین ہوتا ہے۔ اس کا معبود ایک ہی ہوتا ہے جس کی طرف وہ خلوت وجلوت میں رجوع کرتا ہے۔ وہ تنگی اور تکلیف میں اسی کو پکارتا ہے۔ وہ چھوٹا بڑا عمل وہی انجام دیتا ہے جو اس معبود واحد کی رضا مندی کا باعث ہو۔ 
اس کے مقابلے میں مشرک کا قبلۂ زندگی طرح طرح کے معبودوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اس کی زندگی قسم قسم کے معبودوں میں بٹی ہوتی ہے۔ کبھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو کبھی بتوں کی طرف لپکتا ہے۔ وہ کبھی اس بت کی بندگی بجا لاتا ہے تو کبھی دوسرے بت کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ 
ایسی ہی کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ کے پیغمبر سیدنا یوسف ؑ نے فرمایا تھا: ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۳۹ۭ (یوسف ۱۲:۳۹) ’’تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے بھی ایسی کیفیت کو مثال دے کر سمجھایا ہے : ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْہِ شُرَكَاۗءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ۝۰ۭ ہَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا  ۝۰ۭ (الزمر۳۹:۲۹) ’’اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں، اور دوسرا شخص پورا کا پوراایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا اُن دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟‘‘
مومن کی مثال اس غلام جیسی ہے جس کا مالک ایک فرد ہو۔ ایسے غلام کو اپنے مالک کی پسند وناپسند اور خوشی و نا خوشی کا علم ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ غلام وہی کام کرتا ہے جو اس کے مالک کو خوش کرے اور اس سے اس کو راحت ملے،جب کہ مشرک کی مثال اس غلام جیسی ہے جس کا مالک ایک فرد نہیں بلکہ کئی افراد اس کے مالک ہوں۔ ایک فرد اس کو مشرق کی طرف روانہ کرتا ہے، جب کہ دوسرا مغرب کی طرف بھیج دیتا ہے۔ ایک اس کو دائیں طرف سے کھنچ رہا ہوتا ہے اور دوسرا اسے بائیں طرف سے کھینچتا ہے۔ یہ مختلف اور متضاد رجحانات اور مقاصد رکھنے والے مالک ہیں اور بے چارہ غلام ان کے درمیان منقسم اور بٹا ہوا ہے۔ وہ ایک جگہ نہ ٹھیرسکتا ہے نہ رُک سکتا ہے۔ 

اطمینان دل کا سرچشمہ 

عقیدۂ توحید اپنے ماننے والے کو دل کا اطمینان اور سکون عطا کرتا ہے۔ عقیدۂ توحید کے حامل فرد کے اوپر وہ خوف اور خدشات حاوی نہیں ہو سکتے جو ایک مشرک کے اوپر قبضہ جمائے رہتے ہیں۔ عقیدۂ توحید ایسے خوف وخدشات کے تمام راستوں کو بند کر دیتا ہے، مثلاً رزق کا خوف، موت کا خوف، بیوی بچوں کا خوف، انسانوں اور جنوں سے نقصان پہنچنے کا خوف ، موت اور مابعد الموت کا خوف۔ یہ تمام خوف عقیدۂ توحید سے خالی دل کی آما جگاہ ہوتے ہیں بلکہ اس طرح کے دل میں یہ تمام خوف بہترین طریقے سے نشوونما پاتے ہیں، جب کہ عقیدۂ توحید سے لبریز دل میں ان خطرات کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ وہاں صرف ایک رب کی ناراضی کا خوف ہے اور کسی کا نہیں۔ 
توحید پرست مومن اللہ کے علاوہ کسی شے سے ڈرتا ہے نہ کسی انسان سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوگ گھبرا جاتے ہیں تو یہ مطمئن نظر آتا ہے۔ لوگ مضطرب اور بے چین ہوں تو یہ پُرسکون دکھائی دیتا ہے۔ دراصل یہ عقیدۂ توحید کا اثر ہے جس نے اس کے دل سے تمام خطرات وخدشات کا خوف نکال دیا ہے۔ جلیل القدر پیغمبر اور جدالانبیاؑ سیدنا ابراہیم ؑ کے اپنی قوم کے ساتھ مکالمے میں اسی اطمینان قلبی کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، جب ان کی قوم نے ان کو اپنے بتوں سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی۔ سید نا ابراہیم ؑ نے نہایت تعجب خیز انداز میں ان سے پوچھا: وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا ۝۰ۭ فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ۝۰ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۱ۘ (الانعام ۶:۸۱) ’’اورآخر مَیں تمھارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں، جب کہ تم اللہ کے ساتھ اُن چیزوں کو اُلوہیت میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اُس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتائو اگر تم کچھ علم رکھتے ہو‘‘۔
پھر اللہ تعالیٰ نے خود بھی واضح کیا کہ ان دونوں فریقوں میں سے امن کا حق دار کون سا فریق ہے، لہٰذا فرمایا : اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲)’’ حقیقت میں تو امن اُن ہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘۔
دل کا یہ سکون دل کے اندر ہی سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ کسی شیطانی محافظ کی کسی کوشش سے۔ اور یہ تو دنیاوی امن کی بات ہے ۔ رہا آخرت کے امن کا معاملہ تو یہ دنیاوی امن سے زیادہ بڑا معاملہ ہے ۔ اور یہ اہل ایمان ہی کو حاصل ہو گا کیوںکہ انھوں نے اللہ کی بندگی کو شرک سے آلودہ نہ ہونے دیا بلکہ اس کو خالص رکھا۔ 
امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آیت اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ (الانعام ۶:۸۲) نازل ہوئی تو ہم نے پوچھا : یارسولؐ اللہ ! ہم میں سے کون ہے جو اپنے اوپر ظلم نہیں کرتا ؟ آپ ؐ نے فرمایا: بات اس طرح نہیں ہے جیسے تم کہہ رہے ہو ۔ کیا تم نے لقمان ؑ کی اپنے بیٹے کو نصیحت نہیں سنی کہ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۝۱۳  (لقمان۳۱:۱۳) ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔
لہٰذا واضح ہوا کہ وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیا اور اپنے عقیدۂ توحید کو شرک کے شائبوں سے آلودہ نہیں کیا۔ 

قوتِ نفس کا سرچشمہ 

عقیدۂ توحید اپنے ماننے والے کو بہت بڑی نفسیاتی قوت عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل اللہ سے اُمید ، اس پر یقین اور توکل ، اس کے فیصلوں پر رضامندی ، اس کی آزمایشوں پر صبر اور اس کی مخلوقات سے استغنا کی قوت وطاقت سے لبریز رہتا ہے۔ ایسا شخص پہاڑ کی مانند ثابت قدم ہوتا ہے جس کو حادثاتِ زمانہ ہلا سکتے ہیںنہ حالات زمانہ ڈگمگا سکتے ہیں ۔جب بھی کوئی مصیبت یا سختی اس پر آتی ہے تو وہ مخلوق کی طرف نہیں بھاگتا بلکہ وہ اپنے دل کو اپنے خالق کی طرف یکسو کر لیتا ہے ۔ وہ اسی سے مانگتا ہے اور اسی سے مدد لیتا ہے ، اسی کے اُوپر اعتماد و انحصار کرتا ہے۔ وہ مصیبت سے نجات اور خیر کے حصول کے لیے اللہ کے علاوہ کسی سے اُمید نہیں رکھتا۔ وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی کے آگے دست ِ دُعا نہیں پھیلاتا۔ وہ اُس کے سامنے روتا اور گڑگڑاتا ہے او ر اسی کی طرف رجوع کرتا اور اسی سے اپنی لو لگاتا ہے۔ اس کا امتیازی نشان بزبان رسالت یہ ہوتا ہے : ’’تو جب بھی مانگے ، اللہ سے مانگ ، اور مدد چاہے تو اللہ سے لے‘‘۔
ایسے شخص کی اعتقادی کیفیت کو قرآن مجید نے یوں متعین کر کے بیا ن کیا ہے: وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ ۝۰ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝۰ۭ  يُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۝۰ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۱۰۷ (یونس ۱۰:۱۰۷) ’اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اُس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
ایسا ہی موقع تھا جس کو قرآن مجید نے اہل ایمان کی اعتقادی کیفیت کو تقویت دینے کے لیے بیان کیا ہے جب پیغمبر خدا حضرت ہود ؑ کی قوم نے بتوں کی کارروائی سے ان کو ڈرایا تو ہود ؑ نے فرمایاـ: اُشْہِدُ اللہَ وَاشْہَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۝۵۴ۙ مِنْ دُوْنِہٖ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵ اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۝۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۵۶ ( ھود ۱۱:۵۴-۵۶) ’’میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوںاور تم گواہ رہو کہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے اُلوہیت میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اِس سے مَیں بے زار ہوں۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اُٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔ میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمھارا ربّ بھی۔ کوئی جان دار ایسا نہیں جس کی چوٹی اُس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے‘‘۔
یہ ایسی طاقت ور عقلی دلیل ہے جو ایک مضبوط عقیدۂ توحید کے حامل دل اور مضبوط ترین قوتِ استقامت کے حامل نفس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ ایسا ایمان ہے جو کمزور پڑ سکتا ہے نہ دب سکتا ہے اور ایسی روحانی قوت ہے جو کسی کمزوری اور خوف سے نا آشنا ہو۔ اس لیے کہ ایسا دل اور نفس توکّل علی اللہ سے مدد لیتا ہے اور جو اللہ پر توکّل کر ے جان لینا چاہیے کہ اللہ تمام تر طاقت اور حکمت کا مالک ہے: وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ فَاِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۴۹ ( الانفال ۸:۴۹) ’’اگر کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو یقینا اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے‘‘۔

 اُخوت ومساوات کی بنیاد 

جب عقیدۂ توحید انسان اور اس کے احساس عزت وتکریم کی آزادی کی اساس شمار ہوتا ہے تو یہ عقیدہ انسانی اخوت اور بشری مساوات کی بنیاد بھی بنے گا۔ کیوںکہ انسانوں کے اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا ربّ بنا لینے کی صورت میں انسانی اخوت ومساوات قطعاً پیدا نہیں ہوسکتی ۔ انسانوں کے درمیان اخوت ومساوات کی اصل بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ وہ سب کے سب ایک اللہ کے بندے ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مکاتیب دنیا کے مختلف باد شاہوں اور سربراہوں کو لکھے غالباً اسی بنا پر ان کا اختتام اس آیت پر ہوتا ہے: تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ ۝۰ۭ(اٰل عمرٰن ۳:۶۴) ’’ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سو ا کسی کو اپنا ربّ نہ بنا لے‘‘۔
رسول کریم ؐ کی بعد از نماز دعائوں میں یہ عظیم اور شان دار دعا بھی مروی ہے: 
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ءٍ وَمَلِیْکَہُ ، اَنَا شَہِیْدٌ اَنَّکَ اللہُ وَحْدَکَ ، لَا شَرِیْکَ لَکَ
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ءٍ وَمَلِیْکَہُ ، اَنَا شَہِیْدٌ   اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ءٍ وَمَلِیْکَہُ ، اَنَا شَہِیْدٌ   اَنَّ الْعِبَادَ کُلُّھُمْ اِخْوَۃٌ

اے اللہ ہمارے رب اور ہر چیز کے رب اور مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ واحد ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ۔ اے اللہ! ہمارے رب اور ہر چیز کے رب اور مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ؐ تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں ۔ اے اللہ! ہمارے رب اور ہر چیز کے رب اور مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام کے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکور یہ تینوںشہادتیں ایک دوسری سے مربوط ہیں۔ تیسری شہادت ’عام انسانی اخوت ‘ کا اعلان کہ تمام کے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں ، پہلی دوشہادتوں پر مبنی ہے: یعنی اللہ تعالیٰ کا اُلوہیت میں یکتا ہونا کہ اس کا کوئی شریک نہیں ، اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا ربّ نہیں، اور عبادت وتسلیم کا حق اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔ اور محمد ؐ کے عبد اور رسول ہونے کا اقرار آپ ؐ کے لیے الوہیت کے ہر شائبے اور ہر شبہے کی نفی کرتا ہے کہ آپ ؐ الٰہ (معبود ) نہیں ہیں، نہ ابن الہ ہیں اور نہ اُلوہیت کا تیسراا قنوم ہیں جیسا کہ عیسائیوں کاسیّد نا مسیح ؑ کے بارے میں عقیدہ ہے۔ [کتاب حقیقۃ التوحید سے ترجمہ ]

ترجمہ: ارشاد الرحمٰن

’راہِ اعتدال‘ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اس کو ’توازن‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یعنی دو متقابل (متوازی) یا متضاد (مخالف) چیزوں کے درمیان ’اعتدال‘ کا اس طرح پایا جاناکہ ان میں سے ایک زیادہ توجہ پالینے کی بنا پر منفرد اور نمایاں نظر نہ آئے اور اس کی مقابل چیز نظرانداز ہو کر نہ رہ جائے۔متقابل اور متضاد چیزوں کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے: ربوبیت اور انسانیت، روحانیت اور مادّیت، اُخرویت اور دُنیویت، وحی اور عقل، ماضی اور مستقبل، انفرادیت اور اجتماعیت، ثبات اور تغیر وغیرہ ۔ان کے درمیان توازن سے مراد یہ ہے کہ ہرایک کے دائرے اور حدود کو تنگ اور محدود نہ کیا جائے بلکہ کشادہ اور وسیع رکھا جائے اور ’عدل‘ کے ساتھ اُس کا حق دیا جائے۔ کسی کے حق میں کوئی کمی ہو، نہ حد سے تجاوز، نہ مبالغہ ہو، نہ تقصیر اور نہ ظلم و زیادتی ۔

اللہ کی پیدا کردہ اس کائنات میں ہم اپنے گردوپیش پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں رات اور دن، تاریکی اور روشنی، گرمی اور سردی، خشکی اور سمندر اور دیگر بے شمار مخلوقات دکھائی دیتی ہیں، اور یہ سب ایک حساب، میزان اور حدود کی پابند نظر آتی ہیں۔ کوئی چیز مقابل اور متوازی چیز پر زیادتی کرسکتی ہے اور نہ اپنی مقررہ حدود سے تجاوز کر سکتی ہے۔ آسمان پر سورج، چاند اور تارے وسیع و عریض فضا کے اندر اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں۔ کوئی دوسرے سے تصادم نہیں کرتا اور اپنے دائرے اور حدود سے نہیں نکلتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔(القمر۵۴:۴۹)

تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے۔(الملک۶۷:۳)

 نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ (یٰس۳۶:۴۰)

آسمان کو اُس نے بلند کیااور میزان قائم کر دی۔ (الرحمٰن۵۵:۷)

 توازن اور عدل درحقیقت انسان کے بس سے باہر ہے۔ اس لیے کہ اُس کی عقل اور علم محدود ہے۔ ذاتی و خاندانی، نسلی اور قومی میلانات اور جذبات و احساسات سے وہ متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کا وضع کردہ کوئی نظام و قانون خواہ وہ ایک فرد نے تشکیل دیا ہو، یا انسانوں کے کسی گروہ نے، افراط و تفریط سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ ماضی اور حال کا مطالعہ اس بات کی تائید کرتا ہے۔

یہ توازن اور میزان قائم کرنے اور جاری رکھنے کا حق صرف اُسی ذات کو حاصل ہے جو کائنات کے اندر مادی و معنوی ہر شے عطا کرنے والی ہے۔ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہے جس نے ہرچیز کو درست تقدیر کے ساتھ پیدا کیا۔ پھروہ ذات ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، باخبر ہے اور  اس نے اپنی رحمت اور علم کا سایہ ہر شے کے اوپر پھیلا رکھا ہے۔ یہ بات نہایت نامناسب اور نامعقول ہو گی کہ کائنات کی تخلیق اور اس نظام کے جاری و ساری رہنے میں تو اللہ کا قائم کردہ توازن موجود ہو، مگر انسانوں کو عطا کیے گئے دین و ہدایتِ حق میں یہ توازن موجود نہ ہو۔

اعتدال و توازن کے اس مفہوم و معنی کی روشنی میں عملی اور نظریاتی، تربیتی اور قانونی، غرض اسلام کی ہر تعلیم اور ہر حکم میں اعتدال موجود ہے۔ اسلام عقیدہ و نظریہ، عبادات و شعائر، اخلاق و آداب اور قانون و نظام میں معتدل ہے۔

عقیدہ و نظریہ میںاعتدال

عقیدے و نظریے کے اعتبار سے انسانوں کے متعدد گروہ ہیں۔ ہر گروہ کسی نہ کسی لحاظ سے اعتدال اور توسط سے دور ہے۔ یہ شرف اور خصویت صرف اسلام کو حاصل ہے کہ وہ ان تمام گروہوں کے درمیان اعتدال کی علامت کے طور پر کھڑا ہے:

۱-انسانوں کا ایک گروہ عقیدے و نظریے میں اسراف و زیادتی کا ارتکاب کرتا ہے۔ دوسرا گروہ مادیت پرستوں کا ہے جو ماوراے حِس ہر چیز کا انکار کرتا ہے۔ فطرت کی آواز پر کوئی توجہ دیتا ہے نہ عقل کی بات مانتا ہے، حتیٰ کہ کسی معجزے کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

اسلام اعتقاد و ایمان کی دعوت دیتا ہے، لیکن ایسا ایمان جس کے اوپر قطعی دلیل قائم ہوتی ہو، یقینی برہان سے وہ ثابت ہو۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے اسلام اُس کا انکار کرتاہے اور اُسے اوہام و خرافات قرار دیتا ہے۔ اسلام کا تو یہ دائمی شعار ہے: قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۱۱)’’ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو‘‘۔

۲- عقیدے و نظریے کے حوالے سے ایک گروہ ملحدین کا ہے جو کسی الٰہ اور معبود ہی کا قائل نہیں۔ وہ اپنے سینے میں موجود فطرت کی آواز کو بھی دبا دیتے ہیں اور اپنے دماغ میں موجود عقل کی اپیل کو بھی رد کر دیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک گروہ اُن لوگوں کا ہے جو متعدد معبودوں کا قائل ہے، یہاں تک کہ وہ شجر و حجر اور جانوروں کی بھی پوجا کرتے اور اصنام و اوثان کو معبود مانتے ہیں۔

اسلام صرف ایک معبودِ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتاہے، یعنی وہ اِلٰہ اور معبود جو لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ o وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ o (اخلاص ۱۱۲:۳-۴) ہے۔ اُس کے علاوہ جو کچھ ہے سب مخلوق ہے اور مخلوق میں سے کوئی چیز بذاتِ خود کسی کو کوئی نفع و نقصان پہنچانے،  موت و حیات سے ہم کنار کرنے، ازسرِنو زندہ اُٹھانے کی قدرت و صلاحیت ہرگز نہیں رکھتی کہ اُسے الٰہ اور معبود مان کر شرک، ظلم اور کھلی گمراہی کا ارتکاب کیا جائے۔ فرمایا:’’آخر اُس شخص سے زیادہ بہکا ہوا اِنسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک اُسے جواب نہیں دے سکتے، بلکہ اِس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں‘‘۔(احقاف۴۶:۵)

۳-کچھ لوگ صرف کائنات ہی کو وجودِ حقیقی مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے علاوہ جو کچھ ہے (جس کو آنکھ دیکھ نہیں سکتی اور ہاتھ چھو نہیں سکتا)، وہ وہم ہے۔ یہ نظریہ رکھنے والے لوگ مادہ پرست ہیں جو ہر ماوراے حِس چیز کا انکارکرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کائنات کو وہم اور غیرحقیقی خیال کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک یہ سراب ہے جس کو پیاسا پانی سمجھ بیٹھا ہے۔ یہاں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اُس کے علاوہ کچھ موجود نہیں ہے۔ یہ گروہ وحدۃ الوجود کا قائل ہے۔

 اسلام کائنات کے وجود کو ایک حقیقت قرار دیتا ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ، مگر وہ اس حقیقت سے ایک دوسری بڑی حقیقت تک انسان کو لے جاتا ہے۔ وہ حقیقت اُس ذات کا وجود ہے جس نے اس کائنات کو تشکیل دیا، اس کا نظام قائم کیااور اس نظام کو چلایا اور مسلسل چلا رہا ہے۔

۴-عقیدے کے لحاظ سے کچھ لوگ انسان کو معبود سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ انسان کے اندر ربوبیت کی خصوصیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان خود اپنا اِلٰہ ہے۔ وہ جو چاہے کرے اور حکم دے۔ انھی لوگوں کے مقابل کچھ لوگ انسان کو معاشی یا سماجی یا دینی جبریت کا پابند خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان تو ایک تنکا ہے جس کو ہوا جدھر چاہے اُڑا لے جائے، یا یہ ایک پتلی ہے جس کو سماج ہلاتا اور حرکت دیتا ہے، یا پھر معیشت اور تقدیر اُس سے کچھ کرواتی ہے۔

اسلام کی نظر میں انسان ایک ذمہ دار اور جواب دہ مخلوق ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ وہ اپنے ماحول کو خود جس قدر چاہے تبدیل کر سکتاہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد۱۳:۱۱)

۵- انسانوں میں سے کچھ انسان انبیا ؑ کو اس قدر مقدس ٹھیراتے ہیں کہ انھیں مرتبہ الوہیت تک پہنچا دیتے ہیں، یا انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں۔ ان کے مقابل وہ بدبخت بھی ہیں جنھوں نے انبیا ؑ کو جھٹلایا، اُن پر تہمتیں لگائیں، اذیتیں دیں، حتیٰ کہ اُن کا ناحق خون کر دیا۔

اِسلام کہتاہے کہ انبیا ؑ انسان تھے۔ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور گلیوں بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔ اُن کی بیویاں بھی تھیں اور اولاد بھی۔ ان کے اور دیگر انسانوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ وحی سے سرفراز کیا اور معجزات سے ان کی تائید و نصرت فرمائی، اور انسانیت کی ہدایت کے لیے ان کو نبی اور رسول مقرر فرمایا۔ اور خود انھی کی زبانی کہلوایا:’’اُن کے رسولوں نے ان سے کہا واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے، اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمھیں کوئی سند لادیں۔ سند تو اللہ ہی کے اِذن سے آ سکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسا کرنا چاہیے‘‘۔ (ابراھیم ۱۴:۱۱)

۶-کچھ لوگ حقائق کو جاننے کا واحد ذریعہ عقل کو مانتے ہیں۔ اور کچھ لوگ عقل کا منفی و مثبت کوئی کردار ہی تسلیم نہیں کرتے اور محض وحی و الہام پر ایمان رکھتے ہیں۔

اِسلام عقل پر یقین رکھتا اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ جمود و تقلید کو پسند نہیں کرتا۔ وہ احکام و منہیات کے سلسلے میں عقل سے مخاطب ہوتا ہے۔ وہ کائنات کی دو عظیم حقیقتوں کے اثبات میں اُسی کے اُوپر اعتماد کرتا ہے، یعنی وجودِباری تعالیٰ اور انبیا ؑکے دعواے نبوت کی تصدیق عقل ہی سے کی جاتی ہے۔ لیکن عقل کی تکمیل اور تائید کے لیے وہ وحی پر ایمان لانا ضروری ٹھیراتا ہے، کیوںکہ عقل بھٹک سکتی ہے اور اس پر خواہشات کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے۔ وحی اُن امور میں عقل کی  ہادی و رہنما ہے جو عقل کی رسائی اور حدود سے باہر ہیں، مثلاً امورِ غیب اور تعلیماتِ نبوت اور عبادت!

عبادات میں اعتدال

کچھ قوموں اور ادیان نے اپنے فلسفہ و نظریہ اور واجبات و فرائض کے روحانی پہلو، یعنی عبادت و بندگی کو ہی کالعدم کر رکھا ہے۔ جیسا کہ بودھ مت صرف انسانی اخلاق کے حوالے سے پابندیاں اور امور واجب کرتا ہے۔اسی طرح کچھ دین ایسے ہیں جو اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا کو تج کر عبادت کے لیے وقف ہو جائو، جیسا کہ مسیحی رہبانیت کا یہ تصور ہے۔

اِسلام ایک مسلمان سے متعین شعائراور عبادات کی ادایگی کا مطالبہ کرتا ہے، مثلاً دن بھر میں پانچ نمازوں کی ادایگی، سال میں ایک بار صیامِ رمضان، اور زندگی میں ایک دفعہ حج۔ مقصد یہ ہے کہ انسان دائمی طور پر اللہ تعالیٰ سے مربوط رہے۔ وہ اُس کی رضا و خوش نودی سے کٹ نہ جائے۔ ان شعائر کی ادایگی کے بعد وہ آزاد ہوتا ہے کہ دنیاوی کام کاج کرے۔ گوشہ ہاے ارض پر دوڑدھوپ کرے، اور رزق کمائے۔ اس کی واضح ترین مثال آیت جمعہ ہے۔ (الجمعہ ۶۲:۹-۱۰)

یہ ہے دین اور زندگی کے ساتھ مومن کا تعلق، اور وہ بھی جمعہ کے روز کہ وہ نماز سے قبل  بھی دنیاوی کام کاج کرے، اور پھر نماز اور ذکر الٰہی کے لیے آ جائے۔ کاروبار و تجارت اور دیگر مشاغلِ حیات کو چھوڑ دے۔ نماز کی ادایگی کے بعد دوبارہ زمین میں پھیل کر اپنا رزق تلاش کیا جائے اور کسی حال میں بھی ذکر الٰہی سے غافل نہ ہو۔ کیوںکہ کامیابی اور فلاح کی اساس یہی ذکر ہے۔

اَخلاق میں اعتدال

۱- مثالیت پسندوں (Idealistics)کا خیال ہے کہ انسان ایک فرشتہ یا فرشتے کے مشابہ مخلوق ہے۔ ان لوگوں نے انسان کے لیے ایسے آداب و اقدار وضع کیے ہیں جن کے اوپر پورا اُترنا انسان کے بس میں نہیں۔ اسی طرح وہ واقعیت پسند (Realistics) ہیں جنھوں نے انسان کو حیوان یا حیوان سے مشابہ سمجھا ہے۔ پہلے گروہ نے انسانی فطرت کے بارے میں اس قدر حُسن ظن کیا کہ انسان کو مکمل خیر قرار دے دیا، جب کہ دوسرے گروہ نے انسان کو گرا کر خالص شر ٹھیرا دیا۔

اِسلام کا نظریۂ انسان ان دونوں انتہائوں کے درمیان عدل و توازن پر مبنی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسان مخلوقِ مرکب ہے۔ اس کے اندر عقل، شہوت اور روحانی ملکہ ہے۔ اس کو دونوں راستوں کاشعور الہام کیاگیا ہے۔ وہ ان دونوں راستوں پر چلنے کے لیے فطری طور پر تیار کر دیا گیا ہے۔ وہ چاہے تو شکرگزار بن جائے، اور چاہے تو منکر ہو جائے۔ اس کے اندر فجور پر چلنے کی استعداد بھی ہے اور تقویٰ کو اختیار کرنے کی طاقت بھی۔ اس کی مہم نفس سے جہاد اور اس کی تربیت ہے تاکہ اُس کا تزکیہ ہو جائے۔ اسی لیے فرمایا گیا: ’’اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا۔ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی، یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا‘‘۔ (الشمس ۹۱:۷-۱۰)

۲- انسانی تصورات اور نظریات میں افراط و تفریط موجود ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان آسمانی روح ہے جس کو ارضی جسد کے اندر قید رکھا گیا ہے۔ یہ لوگ اس روح کی بالیدگی اور صفائی ستھرائی انسانی جسم کو تعذیب اور محرومی سے دوچار کرکے ممکن سمجھتے ہیں، جیسا کہ برہمنیت وغیرہ کا تصور ہے۔ اسی طرح کچھ مادہ پرست نظریات انسان کو صرف جسم تصور کرتے ہیں۔ اسے ایک مادی وجود سمجھتے ہیں جس میں کوئی آسمانی روح موجود نہیں ہے اور نہ وہ کسی آسمانی عطیے کے لیے خاص ہے۔

اسلام کے عطا کردہ تصور میں انسان ایک روحانی اور مادی وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل کی تخلیق مٹی سے فرمائی اور یہ چیز اس کے وجود کی مادیت پر دلیل ہے، اور پھر اس انسانی بدن کے اندر اپنی روح پھونکی اور یہی روح انسان کا طرۂ امتیاز اور سرچشمۂ عزت و توقیر ہے۔   اسی بنیاد پر تو فرشتوں کو اِس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم ملا۔چونکہ انسان روح و بدن کا مرکب ہے، اس لیے اسلام نے اس کی روح کا حق بھی اس کے اوپر واجب کیا ہے اور اس کے بدن کا حق بھی۔

۳- ایک طبقہ آخرت کا منکر ہے۔ ان کے نزدیک اوّل و آخر یہی دنیاوی زندگی سب کچھ ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں:’’آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے‘‘(الانعام۶:۲۹)۔ اسی تصور کی بنا پر وہ شہوات اور خواہشاتِ نفس میںغرق رہے۔ اپنے نفس کے غلام ہو کر رہ گئے۔ دنیاوی مفادات کے علاوہ انھیں کوئی مقصد اور ہدف ہی دکھائی نہ دیا جس کے اوپر وہ اپنی توجہ مرکوز کرتے۔

ہر زمانے کے مادہ پرستوں کا یہی وتیرا رہا ہے۔ ان کے مقابلے میںکچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس دنیا کو کوئی اہمیت دینے سے ہی انکار کر دیا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اس کو    ایک کالعدم عنصر کی حیثیت سے دیکھا، اور اسے سراسر شر خیال کیا جس کی مزاحمت ضروری ہے۔ دنیاوی ضروریات و آسایشات سے ہی خود کو محروم رکھنا لازمی سمجھا، اور دنیا والوں سے خود کو دُور رکھنا اپنے اوپر واجب ٹھیرا لیا۔ دنیا کی تعمیر و ترقی اور اس کے لیے کچھ کرنا یا اسے کچھ دینا گناہ سمجھا۔

اسلام ان دونوں نظریاتِ زندگی کی اصلاح کرتا اور خود ایک معتدل نظریہ عطا کرتا ہے۔ اِسلام کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کی تعمیر کا عمل اللہ کی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام اُن انتہا پسند دین داروں کی تردید کرتا ہے جو زینت اور پاکیزگی کو بھی حرام سمجھتے ہیں، اور ان کو بھی درست نہیں سمجھتا جو خوش حالی و شہوت پرستی میں غرق ہو کر رہ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔(محمد ۴۷:۱۲)

اے بنی آدمؑ، ہر عبادت کے موقعے پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو پیو اور    حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اے نبیؐ، اِن سے کہو، کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟(اعراف۷:۳۱-۳۲)

قرآنِ مجید نے خوش حالی اور اچھی زندگی کو دنیا میں اللہ تعالیٰ کاانعام واکرام قرار دیا ہے:

آخر کار اللہ نے اُن کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثوابِ آخرت بھی عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں۔(اٰلِ عمرٰن۳:۱۴۸)

قرآن اس کے لیے ایک جامع دعا بھی سکھاتا ہے: ’’اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘۔(البقرہ ۲:۲۰۱)

قوانین میں اعتدال

اِسلام اپنے قانونی و سماجی نظام میں اعتدال و توازن کی خصوصیت کا حامل ہے۔ حلّت و حرمت کے قانون کو یہودیت نے اپنے ہاتھ میں لیا تو محرمات میں انتہا کو پہنچ گئے۔ اللہ نے جو کچھ اُن کے اوپر حرام نہیں کیا تھا اُس کو بھی حرام ٹھیرا دیا۔ یہ اُن کی بغاوت اور سرکشی کی روش تھی۔ اسی طرح مسیحیت نے بھی حلّت و حرمت کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا تو اُن چیزوں کو بھی حرام قرار دے لیا جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے اوپر حرام نہیں کی تھیں۔ اِنھوں نے اُن اشیا کو حلال کر لیا جن کی حرمت کی نصوص تورات میں موجود تھیں اور مسیحؑ تو تورات کی تکمیل کے لیے آئے تھے۔ اس کے باوجود مسیحیت کے بڑوں نے کہا کہ طاہرین کے لیے ہر چیز طاہر ہے۔

اسلام کا نظام حلّت و حرمت ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے۔ اسلام نے حلال و حرام کا اختیار کسی انسان کو نہیں دیا، بلکہ یہ اللہ وحدہ کا حق ہے۔ اللہ نے صرف ناپاک و نقصان دہ چیزوں کو حرام اور نفع بخش و پاک چیزوں کو حلال قرار دیا ہے۔ خود اہل کتاب کا مصدرِ دین رسولِ اکرمؐ کے اوصاف اس طرح بیان کرتا ہے:’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔(اعراف۷:۱۵۷)

عائلی اور خاندانی امور و مسائل میں بھی اسلام کے قوانین اعتدال پر مبنی ہیں۔ عائلی معاملات میں غیراسلامی نظریات کی دو انتہائیں یہ ہیں کہ بعض لوگ ازدواج (شادی)کی تعداد میں حد اور قیدو پابندی ہی کے قائل نہیں، اور بعض لوگ ایک سے زائد شادی کے سرے سے قائل ہی نہیں خواہ ضرورت و حاجت اور حالات و واقعات کا تقاضا کتنا ہی ناگزیر ہو۔ اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت انسان کی مالی استطاعت اور ازواج کے درمیان عدل کے برتائو کو یقینی بنانے سے مشروط کرکے دی ہے۔ اگر انسان کو اندیشہ ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویوں سے عدل نہیں کرپائے گا تو اُس پر لازم ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے: ’’لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ   ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو‘‘۔(النساء۴:۳) 

طلاق کا معاملہ دیکھ لیجیے کہ یہاں بھی اسلام دو انتہائوں کے درمیان کھڑا نظر آتا ہے۔ ایک انتہا پر وہ لوگ کھڑے ہیں جو طلاق کو سرے سے حرام سمجھتے ہیں، خواہ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی ناقابل برداشت ہولناکی سے دوچار ہو، جیسا کہ کیتھولک چرچ کا تصور ہے۔ انھی سے قریب قریب آرتھوڈوکس چرچ کا نظریہ ہے جنھوں نے طلاق کو زنا اور ازدواجی خیانت کے علاوہ حرام ہی سمجھا ہے۔ ان کے مقابل وہ لوگ ہیں جنھوں نے طلاق کو اس قدر کھلا چھوڑ رکھا ہے کہ وہ کسی قید و حد کی پابند ہی نہیں، اور نہ کسی شرط سے مشروط ہے۔ مرد و عورت میں سے جو بھی طلاق کا مطالبہ کرے اُسے اختیار حاصل ہے۔ اس طرح تو ازدواجی زندگی کو معمولی اسباب و وجوہ کی بنا پر ختم کر دینا بہت آسان ہے۔ یوں شادی کا مضبوط بندھن بیتِ عنکبوت سے بھی کمزور ہو کر رہ جاتاہے۔

اسلام طلاق کو جائز اور مباح ٹھیراتا ہے مگر اُس وقت جب دیگر تدابیر سے مرض ٹھیک نہ ہورہا ہو۔ کوئی ثالثی اور صلح و صفائی کی کوشش کامیاب نہ ہو رہی ہو۔ اس کے باوجود اللہ کے نزدیک یہ طلاق ابغض الحلال (ناپسندیدہ ترین حلال ہے)۔ طلاق دینے والے مرد کو اختیار حاصل ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے اپنی مطلقہ سے رجوع کر سکتا اور اُس کو اپنے دائرۂ زوجیت میں لوٹا سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اُس کو رخصت کر دیا جائے‘‘۔(البقرہ۲:۲۲۹)

فرد اور معاشرے میں اعتدال

اسلام اپنے سماجی اور اجتماعی نظام و قانون میں بھی معتدل ہے۔ وہ لبرلزم یا سرمایہ داری کی طرح فرد کو سماج پر حاوی نہیں کرتا کہ فرد معاشرے سے مطالبات و تقاضے تو بہت کرے مگر اپنے اوپر کوئی واجبات اور تقاضے عائد نہ کرے جن کی جواب دہی اُس کے اوپر فرض ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا رہے، اور فرائض کو اہمیت نہ دے۔ اسی طرح اشتراکیت اور سوشلزم کا معاملہ ہے جو اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک معاشرے، سوسائٹی اور سماج کا کردار برتر اور اہم ہے۔ وہ فرد کے اوپر معاشرے اور سوسائٹی کا بار تو ڈالتے ہیں مگر فرد کو اُس کے حقوق بہت کم دیتے ہیں۔ اُس کی حریت کو سلب کر لیتے ہیں، اس کے ذاتی میلانات و رجحانات کو ابھرنے نہیں دیتے۔

اسلام فرد اور سوسائٹی کو ایک بہترین متوازن صورت میں رکھتا ہے۔ اس صورت کے اندر حریت ِ فرد اور مصلحت ِ معاشرہ دونوں ایک توازن کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ دونوں پر حقوق اور فرائض عائد ہوتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مفادات و منافع عدل سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔

قدیم فلسفے اور نظریات فرد و معاشرے اور ان کے درمیان باہمی تعلقات کے قضیے میں  اُلجھ کر رہ گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ فرد اصل ہے اور معاشرہ و سماج ایک عارضی شے، جو فرد کے اوپر عائد کر دی گئی ہے، کیونکہ معاشرہ تو افراد سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ یا پھر معاشرہ و سماج اساس اور بنیاد ہے اور فرد کی حیثیت ایک زائد چیز کی ہے، کیوںکہ معاشرے کے بغیر فرد ایک (خام)مادہ ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جو فرد کی تشکیل و تعمیر کرتا، اس کی شخصیت کو نشوونما دیتا، اور اُسے ایک نمایاں صورت عطا کرتا ہے۔ یوں معاشرے ہی سے فرد اپنی ثقافت و آداب اور عادات و اطوار وراثت میں لیتا ہے۔ اس معاملے اور قضیے میں کچھ لوگ پہلے نظریے کے قائل ہوئے اور کچھ دوسرے نظریے کے۔ یوں فلسفہ و قانون، معاشیات و عمرانیات اور سیاسیات کے ماہرین کی مختلف آرا سامنے آئیں اور وہ کسی ایک نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ ارسطو، افلاطون، مانی، مزدک اور قدیم یہود و نصاریٰ کے تصورات اس قضیے کو حل نہ کر سکے۔

اِسلام ہی وہ واحد دین ہے جو اس قضیے میں انتہا و تقصیر سے پاک معتدل نظریہ پیش کر سکتا ہے۔ اسلام کا شارع انسان کا خالق ہے۔ لہٰذا یہ محال اور ناممکن ہے کہ خالق ایسا نظام وضع کرے جو انسان کی فطرت کو کچل دے اور اُس سے متصادم ہو۔ اللہ سبحانہ نے انسان کو ایک مرکب طبع و مزاج پر پیدا کیا ہے۔ انفرادیت اور سماجیت بیک وقت اُس کے اندر موجود ہیں۔ انفرادیت اُس کے نظامِ وجود کی اصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے محبت کرتا،اور اپنے ذاتی امور و معاملات میں آزادی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرد کے اندر اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ میل جول اور قربت و اجتماع کی رغبت بھی موجود ہے۔ ایک صالح نظام وہی ہوسکتا ہے جو اِن دونوں عناصر: انفرادیت اور اجتماعیت کاپورا پورا لحاظ رکھتا ہو۔ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دیتا ہو۔ اس میں کوئی حیرت و تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ معتدل نظام اسلام نے پیش کیاہے۔ وہ اسلام جو دین فطرت ہے۔ وہ معاشرے کو فائدہ پہنچا کر فرد کے اوپر ظلم نہیں کرتا ،اور نہ فرد کی خاطر معاشرے پر کوئی ناروا بوجھ ڈالتا ہے۔ معاشرے کو بے پناہ حقوق دے کر وہ فرد کی تذلیل نہیں کرتا اور بے پناہ واجبات عائد کرکے وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ اسلام فرد کے اُوپر اُس کی وسعت و طاقت کے مطابق حقوق و فرائض عائد کرتا ہے۔ اسلام فرد کی حاجت پوری کرنے کے لیے لبیک کہتا ہے، اس کی توقیر و احترام کی حفاظت کرتا ہے، نیز اس کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتا۔

ترجمہ: ارشاد الرحمن

ڈاکٹر حسن الترابی کا شمار عالمِ عرب اور اُمت مسلمہ کے مردانِ جری میں ہوتا ہے۔       وہ فکروتربیت اور میدانِ سیاست کے بھی ممتاز فرد تھے۔ وہ سیاسی و دینی رہنما اور صاحب ِ دانش انسان تھے۔ اُن کا شمار اسلامی سیاست کے قائدینِ تجدید میں بھی ہوتا ہے۔ عالم، مفکر، داعی، مجاہد اور عزم و جزم سے لبریز یہ شخصیت ۵مارچ ۲۰۱۶ء کو ۸۴برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

وہ سوڈان اور عالمِ اسلام کی چند بڑی اور نمایاں فکری و سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے۔ ۱۹۹۶ء میں نجات انقلاب کے زمانے میں سوڈانی پارلیمنٹ کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں حکمران جماعت قومی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل چُنے گئے۔ خرطوم یونی ورسٹی میں پہلے بحیثیت استاد اور پھر انسانی حقوق کالج کے پرنسپل کے طور پر کام کیا۔ جولائی ۱۹۷۹ء میں دستور پر نظرثانی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بنے۔ پھر وزیرعدل بنائے گئے۔ ۱۹۸۸ء میں سوڈان کے نائب وزیراعظم اور صادق المہدی کی حکومت میں وزیرخارجہ مقرر ہوئے۔ بعدازاں ان کے اور صدر عمرالبشیر کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ ۱۹۹۹ء میں حکومت میں دراڑیں پڑگئیں۔  حسن الترابی حکومتی اور جماعتی مناصب سے برطرف کر دیے گئے۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے اپنی جماعت قومی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔

حسن الترابی اخوانی تاریخ کے تیسرے ’حسن‘ ہیں۔ حسنِ اوّل: حسن البنا شہید، حسنِ ثانی: حسن الہضیبی اور حسنِ ثالث: حسن الترابی ہیں، یعنی خالص اور اصل سوڈانی حسن الترابی!

ڈاکٹر حسن الترابی نے قرآنِ مجید بچپن ہی میں حفظ کرلیا تھا۔ انھوں نے عربی زبان اور شرعی علوم کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مغرب میں اعلیٰ تعلیم پائی مگر اس کے باوجود اُن کی اصل اسلامی فکر اپنی نہاد پر قائم رہی۔ انھوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ پھر سوربون یونی ورسٹی فرانس سے ڈاکٹریٹ کی۔ انگریزی ، فرانسیسی، جرمن اور عربی زبانوں پر انھیں کامل عبور حاصل تھا۔ اس جدت کے باوجود وہ عمربھر سوڈانی عرب مسلمان کی شناخت کے ساتھ زندہ رہے۔

حسن الترابی متحرک شخصیت تھے۔ سُستی و کاہلی اور تھکان کا اُن کی زندگی میں گزر نہیں تھا۔ وہ طویل نیند اور آرام کے عادی نہ تھے۔ وہ آزاد مرد تھے۔ اُن کی فکر آزاد تھی، اُن کے ارادے آزاد تھے۔ اُن کے فیصلے آزاد ہوتے تھے۔ وہ روشن عقل کے مالک تھے۔ اُن کی زبان فصیح تھی۔ اُن کا چہرہ اصل سوڈانی چہرہ تھا۔ کسی تکلف کے بغیر ہمیشہ، مسکراتا چہرہ!

صادق المہدی کی ہمشیرہ سے اُن کی شادی ہوئی۔ وہ اُن کی بہترین شریکِ حیات ثابت ہوئیں۔ اخوان کے ساتھ حکمت عملی کی سطح پر اُن کا اختلاف رہا۔ دراصل حسن الترابی کا تحریک کے مقابلے میں اپنا ایک فلسفہ تھا جو اخوان کی تحریک کے عمومی لائحہ عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں تھا۔ انھوں نے اخوان کی عالمی تنظیم سے کہا کہ ہمیں ہمارے اُن بعض اقدامات اور فیصلوں میں معذور سمجھا جائے جو بسااوقات مقامی، علاقائی اور سیاسی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم طے شدہ پالیسی کے مطابق اُن کو قائم رکھیں، اُس پالیسی کے پابند ہوں، یا اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ پھر برسوں اسی طرز پر معاملات چلتے رہے۔

حسن الترابی نے سوڈانی جماعت کی قیادت اچھے وقتوں میں بھی کی اور مشکل حالات میں بھی وہی سرخیل رہے۔ اُن کے ساتھ بس ایک گروہ تھا۔ اگرچہ اُن میں سے بھی بعض لوگ اُن مخالفتوں کا سامنا نہ کرسکے جن کا اخوان کی روایات پر چلنے کے معاملے میں حسن الترابی کو اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کرنا پڑا۔ دراصل ان معاملات میں لوگوں کی طبائع اور رجحانات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض لوگ سیاست اور فکر میں روایت سے ہٹنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔

شیخ الترابی کو میں نے فہم وفراست میں نہایت باریک بین پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں نہایت حساس طبیعت عطا کی تھی۔ اُن کا ایمان گہرا اور علم پختہ تھا۔ ہماری گفتگو کا موضوع اُمت کے حالات، مسائل اور اُن کا سدباب ہوتا۔ مسلمانوں کے حالات، اُن کی بیداری اور اُن کی دعوت میں ترقی اور بہتری کے طریقوں اور راستوں پر بحث و تمحیص ہوتی۔

۱۹۸۵ء میں پہلی مرتبہ مَیں ترابی صاحب سے بیروت میں ملا۔ اُس وقت وہ بھرپور جوان تھے۔ اس سے پہلے وہ قومی تحریک کی قیادت کرچکے تھے جس کے نتیجے میں عبود کی صدارت میں قائم فوجی حکوت کا خاتمہ ہوا تھا اور سوڈان میں سول حکومت قائم ہوئی۔

ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کے متعدد ساتھیوں کو النمیری کے دورِ حکومت میں ایک عرصہ پابند سلاسل رکھا گیا۔ پھر حکومت کی اُن کے ساتھ یہ بات چیت طے پائی کہ حکومت اور وہ مل کر کام کریں تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ ممکن ہوسکے۔ حکومت نے انھیں بعض مناصب قبول کرنے کی تجویز پیش کی جو انھوں نے مان لی۔ دراصل وہ مرحلہ وار کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔

ہم سوڈان کے اُس قومی اجتماع میں شریک تھے جس کا اعلان النمیری نے اسلامی قانون سازی کی غرض سے کیا تھا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کی جماعت پوری قوت کے ساتھ اس بہت بڑے مارچ میں شریک تھے۔ اس اجتماع کو ’ملین مارچ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ میں اور شیخ صلاح ابواسماعیلؒ ایک بلندعمارت سے اس مارچ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ لوگ شریعت، اسلام اور قرآن کے لیے پوری طاقت اور گرم جوشی کے ساتھ نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارے آنسو جاری تھے اور ہم کہہ رہے تھے: کیا ہمارے لیے بھی قاہرہ میں ایسا دن آئے گا؟

پھر سوڈان میں حالات بہت جلد بدل گئے۔ دراصل عسکری انقلاب کے پاس کوئی فکری، تربیتی اور اخلاقی لائحہ عمل نہیں تھا، لہٰذا تبدیلی ناگزیر تھی۔ اس کے جواب میں پھر ایک عسکری انقلاب آیا لیکن یہ صاف شفاف اور پُرامن انقلاب تھا۔ اس کی قیادت جنرل عبدالرحمن سوارالذہب کررہے تھے۔ وہ صاحب ِ اخلاق اور امن پسند انسان تھے۔ تقویٰ و پرہیزگاری اور حکومت و سلطنت میں ایثار و قربانی میں ضرب المثل تھے۔ وہ ایک سال بعد ہی مشترک حکومت کے قیام پر اُتر آئے۔

سیاسی بساط لپیٹ دیے جانے کے بعد ضروری تھا کہ اب ملک میں حکومتی اُمور پر مضبوط گرفت رکھنے والا کوئی طاقت ور فرد سامنے آتا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اپنے وژن اور دُوراندیشی کے اعتبار سے ایسی صفات کے حامل لوگوں میں سرفہرست تھے۔ لہٰذا انھوں نے قد م آگے بڑھایا اور فوجیوں کے ایک گروہ کو منتخب کیا جن میں عمرالبشیر سب سے نمایاں تھے۔ اس نازک موقعے پر اگر حسن الترابی قدم نہ اُٹھاتے تو اشتراکی اور بعثی پہل کر جاتے۔ آغاز میں ان لوگوں نے مسلح انقلاب کی کوشش کی تھی لیکن اُن کی یہ کوشش کچل دی گئی تھی۔

حسن الترابی ماضی جیسی عزیمت کے حامل مرد تھے۔ وہ  فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّل عَلَی اللّٰہِ کی عملی تصویر تھے۔ انھیں کسی شاعر کا یہ قول بہت پسند تھا:

اِذَا کُنْتَ ذَا رَأیٍ فَکُنْ ذَا عَزِیْمَۃٍ

فَاِنَّ فَسَادَ الرَّأْیِ أَنْ تَتَرَدَّدَا

وَاِنْ کُنْتَ ذَا عَزْمٍ فَانْفِذْہُ عَاجِلًا

فَاِنَّ فَسَادَ الْعَزْمِ أَنْ یَتَقَیَّدَا

(اگر تم صاحب راے ہو تو صاحب ِ عزم بھی بنو، کیونکہ تمھارا متردد رہنا تمھاری راے کو تباہ کردے گا۔ اگر تم صاحب ِ عزم ہو تو جتنا جلد ہوسکے اسے نافذ کرو، کیونکہ التوا عزم کو تباہ کردیتا ہے)۔

سوڈان کے مسلم نوجوان حسن الترابی کے گرد جمع ہوئے اور پورے سوڈان میں اُن کو اسلامی تحریک کے لیے اپنا قائد منتخب کرلیا۔ جب وہ انقلاب برپا ہوا جس کے اسباب اسی شخص نے پیدا کیے تھے اور خود ہی پوری حکمت کے ساتھ اس کی قیادت کی تھی اور اس میں سرخ روئی بھی نصیب ہوگئی تھی، اس وقت انھوں نے جیل جانا گوارا کرلیا اور جیل کے اندر سے ہی تحریری ذریعے سے معاملات چلاتے رہے۔ اس کے بعد ترابی صاحب نمودار ہوئے اور جیل سے باہر آگئے۔ یہی وہ موقع ہے جب ترابی صاحب، عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ انھوں نے باہر کے لوگوں کو سوڈان بلایا۔ میں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا۔

ڈاکٹر حسن الترابی کا طریقۂ کار عربی اسلامی مزاج رکھتا تھا۔ چند خاص اُمور پر اُن کا ارتکاز تھا:

                ۱-            اس بات پر پختہ ایمان کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ شریعت اور تربیت ہمارا عمومی منہج ہے۔

                ۲-            یہ یقین کہ ’قوموں کی آزادی‘ اسلامی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جس کے لیے ہم مصروفِ جہاد ہیں۔

                ۳-            فکروتعبیر کی آزادی اور ظلم و استبداد کی مزاحمت بنیادی فرائض ہیں۔

                ۴-            مسئلۂ فلسطین اصل مسئلہ ہے۔ اس میں کسی کمزوری کا مظاہرہ جائز نہیں۔ اس کا دفاع فرض ہے۔

                ۵-            عدلِ اجتماعی کے قیام اور بدعنوانی اور مظالم کے خاتمے کے لیے لڑنا اسلام کا جزولاینفک ہے۔

                ۶-            مشرق و مغرب میں پھیلی اُمت مسلمہ اُمت واحدہ ہے۔ اس کا انتشار جائز نہیں۔

                ۷-            ہر امن پسند کے لیے ہم امن پسند ہیں۔ ہمارا ہاتھ اُس کے ہاتھوں میں ہوگا، مگر اُس کے ہم دشمن ہیں جو ہم سے دشمنی کرے۔

                ۸-            تمام تر انسانیت اولادِ آدم ہے۔ سب کے سب بھائی بھائی ہیں۔ ان کے اُوپر فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت اور تعاون کریں۔

ڈاکٹر حسن الترابی وہ شخصیت ہیں جن کے مقام و مرتبے اور احیاے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ سوڈان میں اسلامی تحریک کے لیے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ صہیونی اور صلیبی ریشہ دوانیوں کے خلاف اُن کی مزاحمت قابلِ ذکر ہے۔ سیکولرزم اور لادینیت کے خلاف اُن کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اس تمام تر کے باوجود وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ بعض مسائل میں اُن کے تفردات ضرور تھے    ؎

وَمَنْ ذَا الَّذِیْ تُرضٰی سَجَایَاہُ کُلُّھَا

کَفَی الْمَرْئُ فَضْلًا أَنْ تُعَدَّ مَعَائِبُہُ

(کون ہے جس کی تمام صفات و عادات قابلِ قبول ہوں۔ کسی آدمی کے بلند مقام و مرتبے کے لیے یہی کافی ہے کہ اُس کے معائب گنے جاسکتے ہوں، بے شمار نہ ہوں)۔

میں نے متعدد مسائل میں ترابی صاحب سے اختلاف کیا۔ اپنے فتاویٰ کی پانچویں جلد میں اُن مسائل کو میں نے شامل کیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ڈاکٹر ترابی کو کوئی وقعت    نہ دی جائے اور اُن کے اجتہادات کو نظرانداز کردیا جائے۔ وہ مسلمانوں اور عربوں کے بطلِ حُریت رہے۔ لوگ اُن کے حلقے میں آتے جاتے رہے مگر وہ عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے فکری، دعوتی، تربیتی اور جہادی و سیاسی سطح پر صفِ اوّل کی قیادت میں شامل تھے۔ اُن کی وہ تالیفات، افکار و معارف اور توجیہات جن سے اُن کے شاگردوں اور ساتھیوں نے استفادہ کیا وہ مرتب و مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اسی کے لیے وہ مصروفِ عمل تھے۔ اُسی کے لیے اجتہاد کیا اور مجتہد کے لیے تو درستی پر دو اجر ہیں، اور غلطی پر ایک۔ اُن کی رحلت اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہرحال ایک نقصان ہے۔

حسن الترابی کے اندر ایک خوبی اور خصوصیت تھی جو اُن کے علاوہ کسی اور سیاست دان میں نہیں تھی۔ وہ یہ کہ وہ محض سیاسی لیڈر نہیں تھے بلکہ فقہ و دعوت کے غیرمعمولی عالم بھی تھے۔ اُن کے تمام اعمال اور نقطہ ہاے نظر میں ایک فکر نظر آتی تھی۔ اُن کی فکر کا سرچشمہ اسلام تھا، یعنی قرآن و سنت اور انھی دو سرچشموں سے بننے والے اصول، مقاصد اور قواعد ان کی فکر کا ماخذ اور مصدر ہوتے تھے۔

حسن الترابی کی متعدد تصانیف، مقالات اور مختلف موضوعات پر لیکچر موجود ہیں۔ اُن کی چند تصانیف کے نام:m قضایا الوحدۃ والحریۃ (۱۹۸۰ئ) m تجدید اُصول الفقہ (۱۹۸۱ئ) m تجدید الفکر الاسلامی (۱۹۸۲ئ) m الاشکال الناظمۃ لدولۃ اسلامیۃ معاصرۃ (۱۹۸۲ئ) m تجدید الدین(۱۹۸۴ئ) m منھجیۃ التشریع (۱۹۸۷ئ) mالمصطلحات السیاسیۃ فی الاسلام (۲۰۰۰ئ)

ڈاکٹر حسن الترابی علم و ایمان سے لبریز شخصیت، فساد و بدعنوانی اور سرکشی کے خلاف مزاحمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ صلیبی اور مادی جابروں اور متکبروں کے سامنے ڈٹ جانے کے عزم و ہمت کا نام تھے۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم و استبداد سے ٹکر لی خواہ وہ اشتراکیت کی صورت میں تھا یا سرمایہ داری کے رنگ میں۔ ان بڑے بڑے ظالم اور استبدادی نظاموں اور قوتوں کی مزاحمت انھوں نے معمول کی زندگی کے ذریعے کرنا پسند کی۔ بلندوبالا محلات میں رہنا انھوں نے گوارا نہ کیا، نہ شاہانہ اور امیرانہ گاڑیوں میں گھومنا ان کی خواہش رہی۔ وہ سہولتوں بھری زندگی گزارنے کے بھی متمنی نہ رہے۔ وہ عام آدمی کی طرح زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ نرم گرم سے اسی طرح متاثر ہونا پسند کرتے تھے جس طرح عام لوگ ہوتے ہیں۔

اسی بنا پر تو کش مکش کو انھوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور جس بات کو حق سمجھا بلاخوف و خطر کہہ دیا۔ باطل سے صرف تصادم اُن کا ہدف نہ تھا بلکہ اُسے مغلوب کرنا اُن کا عزم ہوتا تھا۔ اُن کی اس خاصیت نے انھیں اپنے اُن ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ بھی متصادم رکھا جن کو اُنھوں نے کٹیا سے محلات تک اور فرش سے عرش پر پہنچایا۔وہ زندگی بھر حراست سے جیل اور جیل سے حراست میں منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ اُنھیں اپنے گھر میں زندگی گزارنے کی فرصت ہی نہ دی گئی۔ اُن کی عمر ۸۰سال ہوچکی تھی اور وہ مسلسل جیل میں بند تھے۔

ڈاکٹر حسن الترابی دل کے غنی تھے۔ جیساکہ حدیث میں آیا ہے: لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرْضِ ، اِنَّمَا الغِنَی غِنَی النَّفْسِ’’امیری مال و دولت کی کثرت کا نام نہیں، یہ تو دل کی  بے نیازی کا نام ہے‘‘۔ میں نے دوحہ میں سوڈان کے سفیر سے سنا کہ خرطوم میں حسن الترابی کا اپنا مکان نہیں تھا۔ اللہ اکبر! ___رہنما، عالم، متعدد کتب کا مصنف حسن الترابی سادہ سے مکان کا بھی مالک نہیں۔ انھوں نے کئی بار ہمیں اپنے گھر بلایا اور ہم نے وہاں سوڈان کے مشہور و معروف کھانے کھائے۔ اُن کے نمکین و شیریں ماکولات سے ہم شکم سیر ہوئے۔ اس کے باوجود واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ بنک میں رکھواتے۔ شہر سے باہر بھی کوئی زمینی جایداد نہ تھی حالانکہ یہ چیزیں تو عموماً لوگوں کے پاس ہوتی ہیں۔

برادرم حسن! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی ہو۔ اس سرزمین کو سلام جس نے تجھے جنم دیا۔    اللہ تمھیں، تمھارے بیٹوں، بھائیوں اور ساتھیوں کو بھی برکت سے نوازے۔ زندگی میں انھوں نے تمھارے ساتھ اتفاق کیا ہو یا تمھاری مخالفت کی ہو، یہ سب تمھارے ساتھ شاہراہِ مستقیم پر تھے۔  اللہ برادرم ابراہیم السنوسی کا بھی حامی و ناصر ہو جو اَب جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔

ہم اپنے عزیز بھائی حسن الترابی کے لیے دعاگو ہیں کہ انھوں نے اللہ کے دین اور اُمت محمدی کے لیے جو جدوجہد کی اُس پر اللہ تعالیٰ انھیں بہترین جزا عطا فرمائے۔ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن پر رحم فرمائے۔ انھیں اپنے پاس صالحین میں قبول فرما لے۔ اُن کی اجتہادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ اللہ اُن کی آل اولاد اور رفقا کے اندر سے اُن کا بہترین جانشین اُٹھائے۔

(ماخذ:  www.qaradawi.net)

اَخلاق اِسلام کے شعبوں میں سے ایک شعبہ نہیں، بلکہ اسلام مکمل طور پر ایک اخلاقی پیغام ہے۔ محققین عموماً پیغامِ اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ۱-عقائد ، ۲-عبادات، ۳-معاملات اور ۴-اَخلاق۔ اس تقسیم میں اَخلاق کو آخری نمبر پر رکھنے سے یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے بھی اسے آخری چیز کے طور پر ہی بیان کیا ہے اور اس کی حیثیت دیگر شعبوں جیسی نہیں ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں جو بھی اسلام پر غور و فکر کرے، اس کی روح اور نصوص پر نظر رکھتا ہو، اور اس کے الفاظ اور مقاصد کو سمجھتا ہو، اُس پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اپنے جوہر اور اصلیت میں ایک اخلاقی پیغام ہے۔ اسلام لفظِ اخلاقیت کے تمام معانی اور مفاہیم کا حامل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اخلاقیت اسلام کی عمومی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔

اِسلام صرف اس لیے اخلاقی پیغام نہیں ہے کہ اس نے فضائل کی ترغیب پر بہت زور دیا ہے اور رذائل سے بچنے کا حکم بھی اسی شدت کے ساتھ دیا ہے۔ اور ان دونوں معاملات میں اسلام نہایت بلند سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا اہتمام بھی اعلیٰ سطح پر کیا ہے۔

اسلام کو سراسر اخلاقی پیغام ہونے کا یہ امتیاز اس لیے بھی حاصل نہیں ہے کہ اس میں اَخلاق پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناو توصیف کے لیے   ان الفاظ سے ارفع اور بلیغ جملہ کوئی نہیں پایا جاتا:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں‘‘۔ خود زبانِ رسالتؐ نے اپنی رسالت کے مقصد کا خلاصہ اسی چیز کو قرار دیا ہے: ’’بلاشبہہ، مجھے اَخلاقِ کریمہ کی تکمیل کے لیے نبی بنایا گیا ہے‘‘۔

صرف دوچار معاملات میں اَخلاقیت اسلام کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ اسلام کے پورے ڈھانچے میں اخلاقیت خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ یہ تمام اسلامی تعلیمات، حتیٰ کہ عقائد، عبادات، معاملات، سیاست و معیشت اور امن و جنگ کے شعبوں میں بھی موجود ہے۔

اَخلاق اور اسلامی عقائد

اسلامی عقائد کی اساس توحید ہے اور اس کی ضد شرک ہے۔ اسلام توحید کو ایک اَخلاقی رنگ قرار دیتا ہے۔ وہ اُسے عدل و انصاف میں شمار کرتا ہے اور عدل و انصاف ایک اَخلاقی فضیلت اور خوبی ہے۔ اسی طرح اسلام نے شرک کو ظلم شمار کیا ہے اور ظلم ایک بداَخلاقی ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌo(لقمان۳۱:۱۳)’’حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑاظلم ہے‘‘۔

شرک کو اس لیے ظلم کہا گیا ہے کہ اس کا مرتکب عبادت کو اُس کی جگہ سے ہٹا کر ایک غیرموزوں جگہ رکھ دیتا ہے اور اُس چیز کو عبادت کا مستحق قرار دیتا ہے جو عبادت کی مستحق نہیں ہوتی۔ قرآنِ مجید نے تو کفر کو اس کی تمام انواع و اقسام سمیت ظلم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘۔(البقرہ۲:۲۵۴)

اسلام کا عقیدہ، یعنی ایمان جب کامل ہو جاتا ہے اور پھل دینے لگتا ہے تو وہ اَخلاقی فضائل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قرآنی آیات اور احادیثِ رسولؐ اس امر کی بہترین وضاحت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاحبِ ایمان لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو: اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامِل ہوتے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو اُن کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ اُن پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں۔(المومنون۲۳:۱-۸)

 سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیںجن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔(الانفال ۸:۲-۴)

حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔(الحجرات ۴۹:۱۵)

اسی طرح احادیث رسولؐ بھی اَخلاقی فضائل کو ایمان کے ساتھ مربوط کرتی ہیں۔ ان فضائل کو ایمان کے لوازم اور ثمرات قرار دیتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو اُسے رشتے داریوں کو قائم رکھنا چاہیے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایے کو اذیت نہ دے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے‘‘۔ دوسری حدیث ہے:’’ایمان کے ۶۹شعبے ہیں، سب سے اعلیٰ لا الٰہ الا اللہ ہے، اور سب سے کم تر کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے: ’’زانی زِنا نہیں کر سکتا کہ وہ زِنا کرتے وقت بھی مومن ہو اور چور چوری نہیں کر سکتا کہ وہ چوری کے وقت بھی مومن ہو، شرابی شراب نہیں پی سکتا کہ وہ شراب پیتے وقت بھی مومن ہو‘‘۔

اَخلاق اور اِسلامی عبادات

بڑی بڑی اسلامی عبادات واضح اَخلاقی اہداف اور مقاصد رکھتی ہیں۔ نماز مسلمان کی زندگی میں پہلی یومیہ عبادت ہے۔ یہ فرد کی ذاتی زندگی کی تشکیل اور دینی غیرت و حمیت کی تربیت کا شان دار فریضہ انجام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ یقینا نمازفحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔(العنکبوت۲۹:۴۵)

نماز مسلمان کے لیے اَخلاقی سہارا بھی ہے جس کے ذریعے وہ مشکلات و مصائبِ زندگی کے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے۔ فرمایا:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔(البقرہ۲:۱۵۳)

زکوٰۃ وہ عبادت ہے جسے قرآنِ کریم نے نماز کے ساتھ متصل (التوبہ۹:۱۰۳)بیان کیا ہے۔ یہ کوئی مالیاتی ٹیکس نہیں ہے جس کو امیروں سے وصول کرکے فقیروں پر تقسیم کر دیا جاتا ہے، بلکہ یہ جہانِ اَخلاق میں فرد کی تطہیر اور تزکیے کا وسیلہ بھی ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح یہ مال و دولت کی ترقی اور افزایش کا ذریعہ ہے۔ فرمایا:’’اے نبیؐ!تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو‘‘۔(التوبہ۹:۱۰۳)

اسلام میں روزے کا مقصد نفس کو شہواتِ نفسانی اور مرغوباتِ حیوانی کی تکمیل سے رُکنے کا ضابطہ سکھانا اور اس ضابطے کی عملی مشق کرانا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ نفس کو تقویٰ کی خاصیت کے لیے تیار کرتا ہے۔ وہ تقویٰ جو اسلامی اَخلاق کا سنگم ہے۔ اسلامی عبادات کا نقطۂ اتصال اور احکامِ اسلامی کا مرکزی خیال ہے۔ فرمایا گیا:

 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ۲:۱۸۳)

حج کا مقصود اور مطلوب مسلمان کی روحانی و جسمانی تطہیر بھی ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ہونا بھی۔ زندگی کی خوشنمائیوں اور رعنائیوں، کشمکشوں اور تصادمات سے اوپر اٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے اعمال شروع کرنے سے پہلے احرام پہننا فرض کیا گیا تاکہ بندہ ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو جائے جس کی بنیاد اور اساس سادگی و انکساری، امن و سلامتی اور سنجیدگی و پاکیزگی ہے۔ یہ خوبیاں معمول کی دنیاوی زندگی کی رعنائیوں میں عموماً ابھر کر اس طرح سامنے نہیں آتیں جیسے دورانِ حج ممکن ہو جاتی ہیں۔ فرمایا:

 حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔(البقرہ۲:۱۹۷)

اسلامی عبادات اگریہ مفاہیم و معانی کھو جائیں اور اپنے مطالب و مقاصد کو پورا نہ کریں تو وہ اپنا جوہر اور اصل کھو بیٹھتی ہیں۔ وہ ایک بے روح جسم کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ احادیث نبویؐ میں اسی چیز کو بلیغ انداز میں تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نماز سے متعلق فرمایا گیا:’’جس شخص کی نماز اُسے بے حیائی سے نہ روکے، اُس کی نماز بے مقصد ہے‘‘۔

تہجد گزار کے بارے میں آیا ہے:’’کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کو جاگنے کے سوا قیام سے کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔

روزے کے بارے میں فرمایا:’’جو شخص جھوٹ اور جھوٹ پر مبنی فعل نہ چھوڑے، اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

بعض لوگ عبادات کو محض خاص قسم کی تعبدی حرکات کی ادایگی سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ نماز، روزہ، اور حج وغیرہ کے اعمال کی خاص شکلیں ہیں۔ افسوس ہے کہ عبادات سے متعلق عمومی تصور یہی پایا جاتا ہے، اور یہ تصور غلط ہے۔ اسلام میں عبادت پوری زندگی پر محیط ہے۔ پورا دین عبادت ہے۔ عبادات کے خاص طریقوں اور معروف ارکان کی ادایگی کے ساتھ اَخلاقی قواعد اور نصیحتوں کا اہتمام اس سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اور یہ سب کچھ تقربِ الٰہی کے حصول کی غرض سے کیا گیا ہے۔

جب ایک مسلمان سچ بولتا ہے، بھلائی کے کام کرتا ہے، وعدہ پورا کرتا ہے، عہد کو نباہتا ہے، امانت ادا کرتا ہے، عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے، مقدمات کا تصفیہ انصاف سے کرتا ہے، ناپ تول میں پورا پورا دیتا ہے، نگاہیں نیچی رکھتا ہے، شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، دوسروں کے جان، مال اور عزت و آبرو پر دست درازی سے باز رہتا ہے، والدین سے اچھا برتائو کرتا ہے، رشتے داریاں ٹوٹنے نہیں دیتا، ہمسایے سے حسن سلوک رکھتا ہے، اپنے مہمان کی عزت و توقیر اور خاطر تواضع کرتا ہے، کمزوروں پر ترس کھاتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے، یتیموں کو دھتکارتا نہیں، خیر کی دعوت عام کرتا ہے، معروف کی تلقین اور منکر کی ممانعت کا فریضہ انجام دیتا ہے، جابر حکمران کے سامنے حق کہتا ہے، زندگی کی تلخیوں پر صبر اور آسانیوں پر شکر کرتا ہے___تو وہ یہ سب کچھ انجام دیتے ہوئے دراصل اپنے رب اللہ سبحانہ کی عبادت ہی کرتا ہے۔ وہ کتاب و سنت کے احکام کی تنفیذ اور تعمیل ہی تو کرتا ہے، اور اس تمام تر جدوجہد کے ذریعے وہ رب کی رضا اور خوش نودی چاہتا ہے۔

جو شخص بھی قرآنِ مجید کو غور سے پڑھے گا وہ اَخلاقی حدود کو ایمانی عقائد اور تعبدی شعائر کے پہلو بہ پہلو پائے گا، ان میں کہیں بھی کوئی دُوری اور جدائی نہیں دیکھے گا۔

قرآنِ مجید کا یہ مقام پڑھیے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔(البقرہ۲:۱۷۷)

اس جامع آیت میں اُن یہودیوں کے رویے اور تصور کی تردید کی گئی ہے جو عبادات کی محض شکلوں (طرزِ ادایگی)اور مراسم ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ قرآنِ مجید نے ان کے تصورِ عقیدہ و شعائر دونوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی بس یہی نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کی طرف رخ کر لو، بلکہ (عقیدہ میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے، آخرت پر ایمان رکھا جائے، (شعائر میں) نیکی یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے، (اعمال میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں قریبی اور دور کے رشتے داروں اور ہمسائیوں وغیرہ پر مال خرچ کیا جائے، وعدے پورے کیے جائیں، تنگی تکلیف اور جنگ کے وقت صبر سے کام لیا جائے۔

اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:

نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ اور اُن کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پوراکرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعدتوڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی رَوِش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں اُن سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے۔(الرعد۱۳:۱۹-۲۲)

ان آیات میں ایفاے عہد، صلہ رحمی، صبر، انفاق اور حلم کے اَخلاق کو خشیت الٰہی اور   انجامِ بد کے خوف اور قیامِ نماز کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے مربوط کیا گیا ہے۔ یہاں انسانی اَخلاق کے روحانی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ’ایفا‘ دراصل اللہ کے عہد کا ہے، ’صلہ‘ اس ربط و تعلق کا ہے جس کے وصل کا حکم اللہ نے دیا ہے، اور صبر کا مقصود رضاے الٰہی ہے۔ یہ محض تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی و عمرانی اخلاق نہیں ہیں جو روحانیت سے بالکل خالی ہوں۔

اس سے آگے بڑھیے اور سورۂ فرقان کی آیات ۶۳ تا ۷۶ کا مطالعہ کیجیے۔یہاں دیکھیے کہ روحانی مفاہیم کس طرح انسانی مفاہیم سے بغل گیر ہوتے ہیں۔ یہ ایک شان دار اخلاقی چارٹ ہے جس میں تواضع (انکسار)، حِلم (برداشت و بردباری)کو قیام اللیل اور خوفِ خدا کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ شرک باللہ کو قتل و زِنا کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ تمام خوبیاں اور صفات دراصل بندگانِ خدا کی خوبیاں ہیں۔ جب وہ ان اچھے اخلاق سے آراستہ ہو جاتے اور بداخلاقیوں سے اجتناب کرتے ہیں تو وہ رب رحمن کی عبودیت کے مفہوم و مقصد کو پا لیتے ہیں۔

اَخلاق اور اِسلامی معاشیات

اسلامی اَخلاق کے اثرات مالی اور معاشی امور پر بھی ہیں خواہ وہ پیداوار کا میدان ہو یا پیداوار کی تقسیم کا، یا دولت اور اس کے استعمال کا۔ اسلامی معاشیات بے مہار نہیں ہے کہ حدود و قیود کے بغیر اور قواعد و ضوابط سے بالا جیسے چاہے چلتی رہے۔ اعلیٰ مثالوں اور نمونوں کا کوئی لحاظ نہ رکھے۔ جیسا کہ بعض ماہرین معاشیات دعوے دار ہیں کہ اخلاق اور معاشیات کے درمیان کوئی ربط و تعلق قائم نہ کیا جائے۔

کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ جو چاہے تیار کرتا رہے، خواہ وہ مادی اور معنوی اعتبار سے انسانیت کے لیے ضرررساں ہی ہو۔ وہ ایسا نہیں کر سکتا، خواہ اس پیداوار سے بہت بڑی کاروباری کامیابی اور بہت بڑے مالی منافع کیوں نہ حاصل کر سکتا ہو۔ تمباکو (سگریٹ اور افیون کا تمباکو) اور ضرررساں نشہ آور چیزوں کی زراعت میں بہت بڑا مادی فائدہ ہی کیوں نہ ہو، اس کے عوض ملین اور بلین ہی کیوں نہ کمائے جا سکتے ہوں، اِسلام اس بات سے روکتا ہے کہ انسان کی کمائی اور نفع دوسروں کے نقصان اور خسارے کی قیمت پر حاصل ہو۔

شراب کی تیاری کے لیے فراہمی کی غرض سے انگور کی پیداوار بہت بڑا مالی فائدہ دے سکتی ہے مگر اسلام اس منافع کوکالعدم قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مقابل نقصانات بہت بڑے ہیں۔ شراب کے استعمال سے عقل و دماغ اور بدن و اخلاق سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ ان نقصانات کا عملی مشاہدہ جماعتوں، خاندانوں اور افراد کی تخریب، ٹوٹ پھوٹ اور فساد کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

 پوچھتے ہیں:شراب اور جوئے کاکیا حکم ہے؟ کہو: اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ اِن میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔(البقرہ۲:۲۱۹)

کوئی شخص فحش سیاحت (ٹورازم) سے بڑے بڑے منافع کما سکتا ہے۔لُچر، فحش اور نشہ آور چیزوںکی تجارت کرکے بڑے بڑے بنک بیلنس قائم کر سکتا ہے، مگر اسلام مسلمان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے تو مشرکین کو حج کی نیت سے عازمِ مکہ ہونے سے روک دیا تھا حالانکہ اس میں اہل مکہ کے لیے بڑے فوائد تھے۔ فرمایا:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مشرکین ناپاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ اور اگر تمھیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔(التوبہ۹:۲۸)

مسلمان تجارتی تبادلے کے میدان میں شراب، خنزیر، مُردار اور بُتوں کی تیاری، فراہمی جیسی تجارت نہیں کر سکتا۔ وہ کوئی ایسی شے ایسے کسی شخص کے ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا جس کے بارے میں اُسے علم ہو کہ وہ اس چیز کو کسی شر، فساد، اور دوسروں کو نقصان پہنچانے میں استعمال کرے گا، مثلاً کوئی شخص انگور کا جوس، یا انگور ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے جس کو وہ جانتا ہوکہ یہ اس سے شراب تیار کرے گا۔ اسی طرح کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اسلحہ فروخت کرے جس کے بارے میں اُسے علم ہو کہ وہ کسی بے گناہ اور معصوم کو قتل کرے گا یا اسے ظلم و زیادتی کے موقع پر کام میں لائے گا۔

حدیث رسولؐ میں ہے:جب اللہ نے کسی شے کو حرام کر دیا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کردی ہے۔ حدیث ہی میں ہے: انگوروں کی چنائی کے وقت جو شخص اس لیے انگور روک رکھے کہ (وہ بعد میں)کسی یہودی یا نصرانی یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے گا جو اس کو شراب کے لیے استعمال کرتا ہے تو اُس (مالک)کی آنکھوں پر آگ پھینکی جائے گی۔

اناج (کھانے پینے کی اشیا ) اور انسانی ضروریات کی دیگر اشیا محض اس لیے ذخیرہ کیے رکھنا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ مارکیٹ میں ان کی قلت رونما ہو گی تو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرے گا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ کوئی ذخیرہ نہیںکرتا، مگر صرف گناہ کار۔ قرآنِ مجید میں  انھی معنوں میں فرعون، ہامان اور اُن کے لشکروں کو بھی گناہ گار کہا گیا ہے۔

مسلمان تاجر کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے سامان کے عیوب و نقائص چھپائے اور خوبیاں اُجاگر کرکے بیان کرے۔ جیسا کہ عصری ذرائع ابلاغ میں اشتہارات کا طریقہ ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریب خوردہ خریدار اصل سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ دھوکا اور فریب ہے جس سے اسلام اور رسولِؐ اِسلام نے اظہارِبراء ت کیا ہے۔ فرمایا: جس نے ہمیں فریب دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

غیرمتوازن تقسیمِ وراثت اور عارضی ملکیت کے میدان میں مسلمان کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ غلط اور ناجائز طریقے سے سامان کا مالک بن جائے۔ اپنی ذاتی ملکیت کو بھی کسی غلط طریقے سے نشوونما دینا حلال نہیں۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے سُود، جوا، باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانا، اور ظلم اور ضرر کی ہر قسم اور ہر رنگ کو حرام کیا ہے۔

کسی چیز کے صَرف، خرچ اور استعمال میں بھی اسلام نے انسان کو بے مہار نہیں چھوڑ رکھا کہ وہ جیسے چاہے خرچ کرے خواہ اِس سے اُس کی اپنی ذات، اپنے خاندان، یا اپنی قوم ہی کو نقصان پہنچتا ہو، بلکہ اسلام نے اس معاملے میں انسان کو اعتدال و توسّط کا پابند کیا ہے۔ فرمایا:

 نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔(بنی اسرائیل۱۷:۲۹)

اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (اعراف۷:۳۱)

بے قید خرچ و صَرف کو اسلام نے شاہانہ انداز میں شمار کیا ہے اور ایسے لوگوں کو شاہ خرچ کہا گیا ہے۔ اسلام نے شاہانہ طرز کے ہر مظہر کو حرام ٹھیرایا ہے، مثلاً سونے اور چاندی کے برتن مردوں اور عورتوں سب کے لیے حرام ہیں۔ اسی طرح ریشم اور سونے کا استعمال مردوں پر حرام قرار دیا گیا ہے۔

اسلامی اَخلاق کے مقاصد

جس طرح اسلامی عقائد، عبادات اور معاملات کے مقاصد کو بطور اَخلاق بیان کیا گیا ہے، اسی طرح اسلامی اَخلاق کے بھی کچھ مقاصد اور اہداف بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر کیا جا رہا ہے:

۱- اسلامی اَخلاق کا ایک مقصد اور ہدف انسان کی ذات کے لیے رفعت اور فضیلت کا حصول ممکن بنانا ہے، یعنی انسان ایک اچھی اور نفیس شخصیت بن جائے۔

۲- دیگر اخلاقیات کے مقابل اسلامی اَخلاق کو جو چیز ممتاز اور منفرد بناتی ہے وہ اللہ وحدہ کی عبودیت کا حصول ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور اُس کے حقِ ربوبیت سے وفاداری نباہنا ہے۔ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے ہدایت سے نوازا، انسان کو بہترین ساخت پر نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس کو انتہا درجے کی تکریم سے سرفراز کیا۔ اسے سوچنے کی صلاحیت اور بولنے کا ملکہ عطا کیا۔ اسے بہترین صورت عطا کرکے اس میں اپنی روح پھونکی۔ اسے آنکھ، کان اور دل عنایت کیے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے لیے مطیع کر دی، اس کے اوپر اپنی ظاہری اور مخفی نعمتوں کا نزول فرمایا۔ ان سب چیزوں کو بعثت ِرسولؐ اور نزولِ قرآن پر مکمل فرمایا۔

اسی رب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکم بھی دے اور منع بھی کرے۔ وہی حرام و حلال کا اختیار بھی رکھے۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی بات سنے اور اُس کا حکم مانے۔ کیوںکہ اللہ تبارک و تعالیٰ خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا، شر کے علاوہ کسی چیز سے نہیں روکتا، طیب کے علاوہ کچھ حلال نہیں ٹھیراتا اور ناپاک کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں کرتا۔(qaradawi.net)

اسلام ہرمعاملے میں اعتدال اختیار کرنے کی بنا پر تمام ادیان میں ممتاز و نمایاں ہے۔ اسلام نے اپنی امت کی ایک خصوصیت ’اعتدال‘ کو قرار دیا ہے۔ اسلام عمل و عقیدے اور روحانی و مادی ہر میدان میں توازن کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ فرد کی زندگی میں روح اور مادہ، عقل اور قلب، دنیا اور آخرت اور حقوق و فرائض کے درمیان توازن کی بنیاد پر اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ فرد اور معاشرے کے درمیان میزانِ عدل قائم کرتا ہے۔ وہ فرد کو بے تحاشا آزادی اور حقوق نہیں دے دیتا کہ وہ معاشرے کے لیے دردِسر بن جائے، جیسا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے کیا ہے۔ اسلام معاشرے کو ایسے اختیارات بھی نہیں دیتا کہ معاشرہ سرکش و ظالم بن جائے، یا فرد پر  ایسی بے جا پابندیاں عائد کر دے کہ اُس کی شخصیت دب کر رہ جائے۔ اُسے پنپنے کا موقع نہ ملے، اس کی صلاحیتیں اور کارآمد قوتیںبروے کار نہ آ سکیں، جیسا کہ کمیونزم اور انتہا پسند اشتراکیت نے کیا۔ اسلام معاشرے میں عدل قائم کرنے کے لیے بے قید شخصی آزادیوں کا سرمایہ دارانہ نظریہ بھی قبول نہیں کرتا۔ خصوصاً اُن طبقات کی وجہ سے جو معاشرے میں کمزور اور پسے ہوئے ہوں۔

اسلام فرد کو فرد کا حق اور معاشرے کو معاشرے کا حق دیتا ہے۔ وہ کسی کے حق میں کوئی کمی کرتا ہے نہ دوسرے کے حق میں کوئی اضافہ۔ یہ تمام چیزیں شریعت کے احکام اور تعلیمات نے مرتب کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ملک کے باشندوں کی آزادی کی حفاظت اُسی طرح کرتا ہے جس طرح وطن کی آزادی کی۔ یہ حریت فکر ہے نہ کہ حُریت کفر، یہ ضمیر کی آزادی ہے لیکن حدود کے ساتھ، یہ حقوق کی آزادی ہے مگر حدود سے تجاوز کی آزادی نہیں۔

ہم یہاں اس عقیدے اور ایمان کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو اُن کی مائوں نے آزاد پیداکیا ہے، لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے پر مسلط ہو اور نہ کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ لوگوں میں سے کچھ کو اللہ کے علاوہ رب بنا لے۔ دراصل حقیقی آزادی تو حقیقی توحید کا ثمر ہے اور لا الٰہ الا اللہ کے مفہوم کا لازمی نتیجہ ہے۔

اسلام واقعیت پسندی میں انفرادیت رکھتا ہے۔ اسلام انسان کے ضعف کا اعتراف کرتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے انسانوں کو ترغیب بھی دی ہے اور ڈرایا بھی ہے، نیکی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ سزا ئیں بھی مقرر کی ہیں اور توبہ کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ اسلام نے ضرورتوں کے لیے احکام وضع کیے ہیں۔ مجبور اور معذور لوگوں کے عذر کا خیال رکھا ہے۔ لہٰذا مختلف حالات میں رخصتیں اور استثنا کی گنجایش رکھی ہے، جیسے خطا، نسیان اور اِکراہ ہے۔ جب اعلیٰ اور ارفع صورت کو اختیار نہ کیا جا سکتا ہو تو ادنیٰ اور نسبتاً ہلکی صورت کو اپنا لینے کی اجازت دی ہے۔

اسلام کی واقعیت پسندی کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ انسان کی تکریم کرتا ہے، اس کو اُوپر اٹھاتا ہے۔ وہ اُسے حیوانیت کے پست درجے پر نہیں گراتا اور نہ اُسے خداوندی کے مقام پر فائز کرتا ہے۔ وہ اُس کے ارفع شوق اور سفلی جذبات کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ روحانی اور جسمانی، عقلی اور جذباتی، مردانہ اور نسوانی، انفرادی اور معاشرتی، ہراعتبار سے اس کا اعتراف کرتا ہے، اسے اہمیت دیتا اور اس کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ اس کے لیے جائز تفریح اور خوشی اور راحت کے مواقع فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ پُرمسرت اور خوش گوار زندگی گزار سکے۔

خاندان، معاشرے کی بنیاد

اسلام خاندان کو معاشرے کی اساس خیال کرتا ہے۔اس لیے اسلام شادی کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے اسباب اور ذرائع کو آسان اور رکاوٹوں کو دُور کرتا ہے۔ ناروا پابندیوں کو رَد کرتا ہے جو شادی کو مشکل بناتی اور تاخیر کا سبب بنتی ہیں، مثلاً بہت زیادہ حق مہر مقرر کرنا، تحفے تحائف اور شادی ولیمے میں اسراف، زیب و زینت اور لباس میں تفاخر ،جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہے۔

اسلام حلال اور جائز ذرائع مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ حرام اور اُس کی طرف لے جانے والی عریانی، بنائو سنگھار، گفتگو، تصویر، ناول اور ڈراما وغیرہ سب کے دروازے بند کرتا ہے، خصوصاً ذرائع ابلاغ میں جو ہر گھر میں داخل ہو سکتے ہیں اور آنکھ اور کان تک پہنچ کر اُسے متاثر کر سکتے ہیں۔

اسلام میاں بیوی کے درمیان راحت و مودت، ہمدردی وسکون کے تعلقات، حقوق و فرائض کی ادایگی اور معروف کے ساتھ باہمی زندگی گزارنے کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ وہ طلاق کو ناگزیر جراحی کی طرح اس وقت جائز قراردیتا ہے جب زوجین کا اکٹھے رہنا ناممکن ہو جائے اور صلح و ثالثی کے تمام طریقے آزمائے جا چکے ہوں۔ اسلام صرف اُس مومن کو  دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے جو اسباب و ذرائع بھی رکھتا ہو اور عدل کر سکے۔

اسلام والدین کی طرف سے مادی وجذباتی اور تربیتی پہلوئوں کی پوری پوری رعایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات کو فرض ٹھیراتا ہے۔ اولاد کی طرف سے والدین کے ساتھ احسان اور اچھے برتائو کو واجب قرار دیتا ہے۔ اسلام معاشرے اور حکومت کی طرف سے ماں کی مامتا اور بچے کے بچپن، خصوصاً یتیم اور لاوارث بچوں کے بچپن کے حقوق اور نگہداشت کی پوری رعایت رکھتا ہے۔ اسلام خاندان کو وسعت دیتا ہے تاکہ نسبی اور قریبی رشتے دار اس دائرے میں آجائیں۔ ان رشتے داریوں کو قائم رکھنا فرض ہے اور انھیں توڑ دینا اللہ کے نزدیک کبیرہ گناہ ہے۔

رھنمائی اور تربیت کا اھتمام

اسلام قانون اور قانون سازی کی طرح تربیت اور رہنمائی کا بھی اہتمام کرتا ہے بلکہ قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد سے قبل تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ صرف قوانین معاشروں کی تشکیل نہیں کرتے، بلکہ معاشروں کی تشکیل مسلسل تربیت اور رہنمائی سے ہوتی ہے۔ ہر تحریک اور تبدیلی کی بنیاد ایک صاحب ِفکر اور باضمیر انسان کی تشکیل ہوتی ہے۔ ایسا انسان جو صاحب ِاخلاق بھی ہو اور صاحب ِایمان بھی۔ یہی صالح انسان ایک صالح معاشرے کی اساس ہوتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ تربیتی ادارے خواہ وہ ماں کی گود ہو یا یونی ورسٹی، ہر ایک رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے پر خصوصی توجہ دے کہ نسلِ نو کو علوم اور مہارت کے ساتھ ساتھ ایمان و اخلاق کی تربیت بھی دی جائے۔

عقیدے کو خرافات سے محفوظ رکھنا، توحید کو شرک سے آلودہ نہ ہونے دینا، آخرت پر یقین، اخلاق میں استحکام، بات میں سچائی کو اپنانا، عمل میں پختگی، عہد و امانت کو پورا کرنا، حق کا واشگاف اظہار، دین میں وفاداری اور خیرخواہی کا مظاہرہ ، اللہ کی راہ میں جان و مال کے ذریعے جہاد، حسب استطاعت دل و زبان سے برائی کو روکنا، ظلم و سرکشی کے خلاف جدوجہد کرنا، ظالموں سے مرعوب ہو کر اُن کی طرف مائل نہ ہونا، خواہ اُن کے پاس فرعون جیسی سلطنت اور قارون جیسی دولت کیوں نہ ہو__ یہ تمام وہ نکات ہیںجو معاصر مسلمان طبقوں کی مطلوب تربیت کے اہم نشانات ہیں۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو درست رخ پر رکھنے کے لیے بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میڈیا لوگوں کی سوچ، میلانات اور دل چسپی کو ایک رُخ دیتا ہے اور پھر راے عام اُسی رُخ پر تشکیل پاتی ہے جسے میڈیا تشکیل دیتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ میڈیا کے ان پہلوئوں کی تطہیر کی جائے جو عقیدے کو خراب، سوچ کو آلودہ اور رویوں میں انحراف پیدا کرتے ہیں۔ میڈیا کی توجہ معیاری پروگراموں کے ذریعے جو سنسنی خیزی اور غلط فہمی پیدا کرنے سے دور ہوں، قوم کے بڑے مقاصد کی خدمت پر مرکوز ہونی چاہیے۔ میڈیا کا محور خبر کے اندر سچائی اور رہنمائی کا عنصر ہونا چاہیے۔ میڈیا کو اسلامی اقدار و روایات اور قومی پالیسی کا عکاس ہونا چاہیے۔

 وحدت و اخوت پر مبنی معاشرہ

اِسلام اپنے ماننے والوں کے درمیان وحدت و اخوت کے تعلقات پر مبنی معاشرہ قائم کرتا ہے جہاں مختلف نسلوں کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے اور نہ مختلف ادیان کے مابین کوئی کش مکش۔ نہ مختلف طبقات آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں، نہ مختلف مذاہب (مسالک) ایک دوسرے سے گتھم گتھا۔ یہاں تمام انسان بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونا اور آدمؑ کی اولاد ہونا ان کے اتحاد کی وجہ ہے۔ ان کے درمیان طرح طرح کے اختلافات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت کا نتیجہ ہیں۔ اللہ قیامت کے روز ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔

اسلام اسلامی معاشرے کے غیرمسلم باشندوں کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسلام انھیں اللہ تعالیٰ، اس کے رسولؐ اور مسلمانوں کی امان میں دیتا ہے۔ گویا مسلمان اُن کے جان و مال کی حفاظت، دفاع اور اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک اور عدل و انصاف کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر یہ تعبیر بھی غیرمسلموں کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو انھیں اُن کے فہم و شعور پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بہرحال اسلام اُن کے لیے عقیدے اور عبادت کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اُن کے خون، عزت و آبرو اور مال و دولت کا اسی طرح محافظ ہے جس طرح مسلمانوں کا۔ اسلام اِن کو بھی اسی طرح اندرونی ظلم و ستم سے محفوظ رکھتا ہے جس طرح بیرونی دشمن کی جارحیت سے ان کا دفاع کرتا ہے۔ اسلام اُن کے لیے بھی وہ تمام حقوق مقرر کرتا ہے جو مسلمانوں کے لیے ہیں۔ ان کے اوپر بھی وہی فرائض عائد کرتا ہے جو مسلمانوں پر عائد ہیں سواے اُن مستثنیات کے جن کا تعلق دین کے فرق سے ہے۔ اسلام انھیں مادی و معنوی اور قانونی، تمام ضمانتیں اور تحفظ فراہم کرتا ہے جو اُن کے لیے اِن حقوق کے حصول کی ضمانت ہیں۔

مذھبی پیشوائیت کی نفی

اِسلام پیشوائیت کو نہیں مانتا۔ اسلام میں کوئی ایسا تصور نہیں جو پیشوائیت کے منصب پر براجمان کسی طبقے کا قائل ہو۔ ایسا طبقہ جو دین کو دیوار سے لگا کر خود لوگوں پر حکومت کرنے لگے۔ لوگوں پر اللہ کا دروازہ بند کر دے۔ اگر کھولے تو اپنے ذریعے سے۔ کسی کو کچھ عطا کرنے کا فیصلہ بھی اسی طبقے سے صادر ہو اور کسی کو بخش دینے کا مژدہ بھی یہی طبقہ سنائے۔ اسلام کے نزدیک کسی شخص کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس کا رب تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ علماے دین کی حیثیت تو دین کے ماہرین کی ہے۔ ان کی طرف بھی کوئی شخص اسی طرح رجوع کرتا ہے جس طرح وہ کسی دوسرے علم کے ماہر سے استفادہ کرتا ہے۔ یہ حق ہر مسلمان کو حاصل ہے کہ وہ جب چاہے دین کے مطالعے کے ذریعے اس میں تخصص حاصل کرکے عالم بن جائے۔ یہ منصب نہ کسی وراثت کا مرہونِ منت ہے نہ کسی لقب اور مخصوص لباس کا متقاضی۔

اسلام میں دینی اور غیردینی جماعتوں اور تنظیموں کی تقسیم نہیں ہے۔ اس اعتبار سے لوگوں کے درمیان، قوانین کے درمیان، تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان کوئی تقسیم نہیں ہے۔ ناگزیر ہے کہ یہ سب کے سب اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں۔

حقِ حکمرانی کا اختیار

اِسلام امت کے اس حق کو یقینی بناتا ہے کہ وہ امورِ سلطنت کو انجام دینے کے لیے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرے۔ کسی کو حکمران بنا کر اس کے اوپر مسلط نہیں کیا جا سکتا جو اس کی مرضی کے خلاف اس کی قیادت کرے۔ امت مسلمہ تو حکمرانوں کو مزدور اور خادم سمجھتی ہے۔ امت کے پاس اُن کی نگرانی اور محاسبے کا حق ہے۔ وہ اِن حکمرانوں کی مدد اور خیرخواہی کے لیے مصروف ہوتی ہے۔ معروف میں ان کی اطاعت کو فریضہ سمجھتی ہے۔ اسی طرح اُس کی اطاعت کا فریضہ امت پر سے ساقط ہوجاتا ہے جو معصیت کا حکم دے اور انحراف کی روش اپنا لے۔ ایسے حکمران کو نصیحت اور رہنمائی کرنا فرض ہے۔ اگر یہ چیز مفید نہ ہو سکے تو اس کو معزول اور حکومت سے بے دخل کردینا ضروری ہے۔ اگرکوئی حکومت خواہ وہ اسلامی ہی ہو، اس طرح کی روش اختیار کر لے تو وہ اُن معنوں میں دینی حکومت نہیں ہے جس سے عہد وسطیٰ میں مغرب آشنا ہوا۔ یہ تو بیعت اور شورٰی اور عدل پر قائم حکومت تھی۔ یہ اس قانون کی مدد سے حکمران تھی جو نہ اس نے بنایا تھا نہ اُس کو بدلنے کی طاقت اور اختیار رکھتی تھی۔ اس کے اعیانِ سلطنت علماے دین نہیں تھے، بلکہ طاقت و امانت اور علم و حفاظت کی صلاحیت رکھنے والے فرد ہوتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہوتے تھے جنھیں اگر اللہ زمین میں حکمرانی عنایت کرے تو وہ نماز کا نظام قائم کریں، زکوٰۃ اداکریں، معروف کا حکم دیں اور منکر سے منع کریں۔

اسلام سرکش اور ظالم حکمرانوں سے تصادم کے دوران ایسی تمام عملی صورتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو حکمرانوں کے مقابلے میں قوموں اور طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کے حقوق کی ضامن ہوں۔ خواہ ان کا تعلق اُن دساتیر سے ہو جو مقتدر قوتوں کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں، یا منتخب پارلیمان سے ہو، بااختیار عدلیہ سے ہو، آزاد صحافت سے ہو، آزاد محراب و منبر سے ہو، یا متعارض گروپوں سے۔ ان تمام چیزوں کا اسلام کی روح اور اس کے مقاصد کلّیہ سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے خواہ ان کے بارے میں اسلام کی براہِ راست جزوی نصوص موجود نہ بھی ہوں۔

مال و دولت کا تحفظ

اسلام دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ دولت انسانی زندگی کا مدار اور سرچشمۂ اسباب ہے۔ اس کے بغیر دنیا کی زندگی کی تعمیر نہیں ہو سکتی، نہ دین کی نصرت و حمایت اس کے بغیر ممکن ہے۔ یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا فرض ہے۔ یہ ایسی امانت ہے جس کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ اسی طرح یہ آزمایش اور امتحان بھی ہے کہ اللہ یہ عطا کرکے انسانوں کو آزماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حلال اور جائز طریقوں سے کمانا ضروری ہے۔ اس میں واجب ہونے والے حقوق کو ادا کرنا اور اسے بے جا اور تعیشات و فضولیات پر خرچ ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ خاص طور پر دولت عامہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے، یعنی وہ مال ودولت جس کو اسلام میں عظیم حرمت عطا کی گئی ہے، جیسے مالِ یتیم کی حرمت۔

اسی طرح اسلام پوری قوت کے ساتھ قوم کی اقتصادی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ   اس کے مادی ذرائع کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس کی افرادی قوت کو تربیت فراہم کرتا ہے اور وہ اُمت کے تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے لیے سہارا بناتا ہے تاکہ ہر ایک خود کفیل ہو سکے۔ زراعت و صنعت کے میدانوں میں وہ اپنی ضرورت کے مطابق اشیا پیدا کر سکیں۔ وہ دوسروں کے دست نگر نہ رہیں۔ اسلام دنیا کے لیے کیے جانے والے عمل کو دین کا ایک جزو سمجھتا ہے۔ وہ زمین کی آباد کاری کو عبادت قرار دیتا ہے۔ معاشرے کی ترقی کو فرض ٹھیراتا ہے۔امت کی تہذیبی وعسکری اور جہاد فی سبیل اللہ کے حوالوں سے ترقی و تقویت، معاشی طور پر امت کو آزاد اور خودمختار و خودکفیل بنانے کے لیے جدوجہد تقربِ الی اللہ کا افضل ترین عمل ہے۔ یوں اسلام امت کو ایسے معنوی محرکات، ترغیبات، ذرائع اور طریقے مہیا کرتا ہے جو اس کی گاڑی کو پوری قوت کے ساتھ آگے کی طرف دوڑاتے ہیں۔ انسان کی ایسی پوشیدہ قوتیں جو ترقی کا ہدف ہوں ان کو بھی اسلام نے اپنے قالب میں ڈھال کر کارآمد بنایا ہے۔

کمزور طبقات پرانتھائی توجہ

معاشرے کے کمزور طبقات مزدور، کسان، ہنرمند اور وہ چھوٹے ملازمین جو امن میں ضروریاتِ زندگی فراہم کرتے ہیں اور حالت جنگ میں مددو نصرت کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں، اسلام ان پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے۔ وہ ان کو تحفظ فراہم کرنے والی ضمانتوں اور اُن کے حقوق کا محافظ ہے۔ ہر آجر سے اس کی حیثیت کے مطابق لیا جائے گا اور ہراجیر کو اس کی محنت اور ضرورت کے مطابق دیا جائے گا۔ دونوں ایک دوسرے کی استطاعت و استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاملات طے کریں گے۔ اسی طرح کام نہ کر سکنے والوں یا اپنی محنت مزدوری سے اپنی ضروریات پوری نہ کرسکنے والے حاجت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا بھی اسلام خیال رکھتا ہے، اور ان کے لیے سالانہ اور عمومی مدات میں حقوق مقرر کرتا ہے۔ یہ حقوق مال دار افراد کے مال و دولت،    قومی بیت المال میں جمع غنائم، فے اور دیگر تمام ذرائع آمدن میں سے دیے جاتے ہیں۔ اسلام اس عمل کے ذریعے کمزور طبقات اور دولت مند افراد کے درمیان ایک مضبوط قربت پیدا کرتا ہے تاکہ کمزور طبقات کو امیروں کے ظلم سے محفوظ رکھا جا سکے اور فقرا کی سطح سے اوپر اٹھایا جا سکے۔ اسلام اس صورتِ حال کو قبول نہیں کرتا کہ معاشرے میں کوئی فرد شکم سیر ہو کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ اسلام کے نزدیک حکومت ایسے لوگوں کی نگہداشت کی براہِ راست جواب دہ ہے۔ کیونکہ حکمران اور قائد چونکہ نگران ہے، لہٰذا وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔

وطن سے محبت اور اس پر فخر

اسلام اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ مسلمان اپنے وطن سے محبت رکھے اور اس پر فخر کرے، یااپنی قوم سے محبت کا دم بھرے اور اس پر فخر کے جذبات رکھے۔ جب تک یہ چیز مسلمان کے اپنے دین اور اس پر فخر سے متصادم نہ ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں وطنیت اور قومیت کے حوالے سے اسلام کا دامن تنگ نہیں بشرطیکہ ان میں ایسے نظریات نہ ہوں جو اسلام سے متصادم ہوں یا اسلام دشمن ہوں، جیسے الحاد، سیکولرزم، مادہ پرستی، جاہلی عصبیت وغیرہ۔ اس کے ذریعے اسلام تعمیر کا خواہاں ہے تخریب کا نہیں۔ وہ وحدت و اتحاد قائم کرتا ہے تفریق و انتشار نہیں۔  وہ تقویت فراہم کرتا ہے ضعف پیدا نہیں کرتا۔ وہ وطن کے اتحاد اور اس کی مضبوطی کا داعی ہے۔ لہٰذا امت اسلامیہ کا اتحاد مشترکہ اخلاقی اصولوںکے تحت انسانیت کے اتحاد اور اس کے امن و سلامتی کی کوشش ہے۔

نظریا تی اختلاف اور مکالمہ

اسلام نظریے کا مقابلہ نظریے سے کرتا ہے اور شبہے کا مقابلہ حجت سے۔ اس لیے کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور نہ نظریے میں کوئی جبر ہے۔ وہ تشدد کو طریقہ اور دہشت گردی کو ذریعہ بنا لینے کی تردید کرتا ہے۔ خواہ اس کا مظاہرہ حکمرانوں کی طرف سے ہو، یا عوام کی جانب سے۔ اسلام بامقصد تعمیری مکالمے پر یقین رکھتا ہے۔ ایسا مکالمہ جو ہرفریق کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر گفتگو کے آداب اور معروضیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ قرآنِ مجید نے اس اصول کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اور اُن سے احسن طریقے سے مکالمہ کرو۔‘‘

اِسلام یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے۔ وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸) ’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دوسروں کی راے کو وزن اور اہمیت دیتا ہے، خواہ یہ دین کی فقہ و فہم میں ہو یا سیاست کے میدان میں۔ جب متعدد آرا اور اجتہادات سامنے آئیں تب تو یہ اختلاف رحمت اور خیر ہوتا ہے۔ اسلامی نظام میں ایک سے زیادہ گروہوں کا وجود اسلام کے اصولوں اور قطعی احکام کی روشنی میں ایک جائز امر ہے۔ اسی طرح اسلام کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور تحریکوں کا ایک سے زیادہ ہونا مضر نہیں ہے بشرطیکہ یہ زیادتی صرف تنوع اور تخصص کی حد تک ہو نہ کہ مخالفت اور تصادم کے لیے، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے دست وبازو بننے کے لیے ہو نہ کہ نفرت و عداوت کی فضا پیدا کرنے کے لیے۔ اہم مسائل اور امور میں سب کے لیے اپنے جزوی اختلافات کو نظرانداز کرکے صف واحد کے طور پر کھڑا ہونا ضروری ہو۔ سب کا محور قرآن و سنت ہو۔ سب کا ہدف اسلام کا غلبہ ہو۔ ہمہ پہلو غلبہ، یعنی اعتقادی، شرعی اور اخلاقی، ہر اعتبار سے غلبہ ۔ سب کا ایک ہی شعار ہو اور وہ یہ کہ ہم جن باتوں پر متفق ہیں اُن میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور جن امور میں اختلاف ہے وہاں ایک دوسرے کے عذر کو قبول کریں۔

ماضی کی شان دار تھذیب پر بس نھیں

اسلام ماضی کی شان دار تہذیب کے گن گانے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ موجودہ اسلامی تہذیب کے اندر جدت لانے پر بھی کام کرتا ہے۔ آج کی تہذیب کے پاس سائنس و ٹکنالوجی اور انتظامی و اداراتی عناصر کی جو بہترین خوبیاں ہیں، یہ تہذیب ان کو اختیار کر لیتی ہے اور اپنی اصل اور خصوصیات کو بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اسلامی تہذیب میں روحانی قدریں انسانی مفاہیم سے مربوط ہوتی ہیں۔ اس میں اسلام کی اصل اور زمانے کی روح روزِ روشن کی طرح نمایاں ہوتی ہے۔ سائنس اور ایمان اس میں مجتمع ہو جاتے ہیں۔ حق اور قوت کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے۔ مادی جدت اور اخلاقی ترقی کا توازن موجود ہوتا ہے۔ اس میں عقل کی روشنی اور وحی کے نور کا تعلق برادرانہ ہوتا ہے۔

یہ ایسی تہذیب ہے جس میں اسلام کی خصوصیات اور مبادیات ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ فرد کی تعمیر، خاندان کی تشکیل، معاشرے کی ترکیب، ریاست کے قیام اور بہترین راستے کی طرف انسانیت کی رہنمائی کرنے میں اسلام کے اہداف و مقاصد اس تہذیب میں مجسم دکھائی دیتے ہیں۔

یہ تہذیب مادی و الحادی مشرقی کیمپ اور سود خور سیکولر مغربی کیمپ سے منفرد و ممتاز ہے۔ یہ نہ دائیں بازو سے وابستہ ہوتی ہے نہ بائیں سے، بلکہ یہ صرف اسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ اسلام ہی سے مدد لیتی، اسی پر انحصار کرتی، اسی کو مقصد ٹھیراتی اور اسی کے ذریعے نمایاں ہوتی ہے۔

یہ تہذیب اپنے امتیاز و انفرادیت کے باوجود مختلف ثقافتوں کے مابین میل ملاپ، مختلف تہذیبوں کے درمیان بات چیت، مختلف قوموں کے درمیان تعارف، اور بنی نوعِ انسان جہاں بھی ہوں ان کے درمیان اخوت پر یقین رکھتی ہے___ لیکن یہ تہذیب کسی دوسری تہذیب میں ضم ہوجانا گوارا نہیں کرتی کہ یوں وہ اپنی اصلیت اور انفرادیت کھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تہذیب ہرقسم کی ثقافتی یلغار اور اجنبی و بیرونی تسلط کو قطعاً قبول نہیں کرتی۔ یہ اُن گھنائونے حربوں کے سامنے ڈٹ جاتی ہے جن کے ذریعے آج کے حملہ آور انسانیت کی آڑ میں اس  میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔

قانون کا صرف ظاھری نفاذ مطلوب نھیں

اسلام شریعت کے قانونی پہلو کے ظاہری نفاذ کو ہی اپنی سب سے بڑی پریشانی نہیں بناتا۔ خاص طور پر حدود و قصاص میں سزائوں کے ہی نفاذ پر سارا زور نہیںدیتا، اگرچہ یہ پہلو شریعت کے احکام کا ایک جزو ہے اور اس کو معطل کر دینا جائز نہیں ہے۔

اسلام کا اولین معرکہ، بہت بڑی مہم اور پیہم سعی حقیقی اسلامی زندگی قائم کرنا ہے__ ایسی زندگی جو انسانوں کے دلوں کی ا صلاح کا کام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بہتر بنا دے۔ اس زندگی کی چھائوں میں ایک مومن انسان، متحد خاندان، مربوط معاشرے اور عادل ریاست کی تشکیل ہوتی ہے۔ قوت اور دیانت داری جس کی خوبی ہو__ یعنی کامل اسلامی زندگی، اسلام کا عقیدہ جس کی رہنمائی کرتا ہے، اسلام کی شریعت جس پر حکمرانی کرتی ہے، اسلام کے معانی جس کی قیادت کرتے ہیں، اسلام کے اخلاق جس کے لیے ضابطہ ہیں اور اسلام کے آداب جس کے لیے باعث جمال ہیں۔

باہمی حقوق کے ضامن متحد معاشرے کی زندگی جس کا ایک حصہ دوسرے کے لیے دیوار کی اینٹوں کی مانند مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔ جس میں کوئی فرد یوں بھوکا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہمسایہ تو پیٹ بھر کر کھاتا ہو اور وہ بھوکا رہ جائے۔ جس میں ایک جاہل کے لیے مفید علم حاصل کرنے کے وافر مواقع میسر ہوں۔ ہر بے روزگار کے لیے مناسب روزگار موجود ہو۔ ہر مزدور کے لیے عادلانہ مزدوری ملنے کا ماحول ہو۔ ہر بھوکے کے لیے اس کی ضرورت کے مطابق غذا مہیا ہو۔ ہر مریض کو مؤثر علاج کی سہولت حاصل ہو۔ ہرشہری کے لیے صحت مند رہایش کا بندوبست ہو۔ ہر محتاج کی ضرورت کا پورا سامان میسر ہو۔ ہر مجبور کا مادی اور معاشرتی ہر حوالے سے خیال رکھا جاتا ہو۔ خصوصاً بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور بیوائوں کے حقوق کا خاص خیال ہو۔ اسی طرح اس زندگی میں ہر پہلو سے بھرپور قوت موجود ہو۔ فکر جان دار ہو، روح توانا ہو، بدن مضبوط ہو، اخلاق اعلیٰ ہوں، معاشیات کے اندر طاقت ہو، عسکری تیاری اور اسلحہ کے اعتبار سے استحکام ہو، اس کے ساتھ یک جہتی و اتحاد اور فولادی عزم کی دولت بھی موجود ہو__ اور اس سب کچھ کی اساس ایمان کی قوت ہو!

تمام مسلمان ایک اُمت

اسلام کا نظریہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہوں، سب کے سب جسد ِ واحد کی طرح امت واحدہ ہیں۔ ان کے ایک معمولی فرد کی ضمانت بھی قابل اعتبار ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایک عقیدے، ایک قبلے، ایک کتاب، ایک رسولؐ اور ایک شریعت پر ایمان نے انھیں ایک جمعیت بنا دیا ہے۔ یہ اِن کا فرض ہے کہ اپنی جماعت کے لیے باعث انتشار تمام عوامل اور وجوہات کا خاتمہ کریں، جیسے نسلی و علاقائی عصبیت سے دَب جانا، درآمدشدہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تنظیموں اور طریقوں کے تابع ہوجانا، حکمرانوں کی من مانیوں اور ذاتی انائوں کے پیچھے چلنا، جو حقیر، معمولی اور عارضی مطالبات کی خاطر امت کے بڑے بڑے مفادات کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ’اسلامی یک جہتی ‘ کو زبانی سطح سے عملی شکل کی طرف منتقل کریں۔ اُسے مضبوط بنائیں، اس کا دائرہ بڑھائیں۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ دنیا کے اتحادوں یا بلاکوں جیسی ایک سیاسی شکل اختیار کر لے۔ ہماری امت اس قابل ہے کہ یہ ایک عظیم بلاک کی شکل اختیار کر لے بشرطیکہ یہ اپنے رب کی اس ندا پر لبیک کہہ دے:

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا(اٰلِ عمرٰن۳:۱۰۳) سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔

[alqardawi.net]

ماہرین اقتصادیات کی تعریف کے مطابق ٹیکس ایک لازمی فریضہ ہے جس کا حکومت کو اداکرنا اس شخص پر واجب ہے جس پر وہ عائد کیا جائے۔ یہ ٹیکس اس شخص کی قدرتِ ادایگی کے پیش نظر عائد کیا جاتا ہے، خواہ اس کو ان خدمات کے فوائد سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے یا نہیں جو حکومتی ادارے فراہم کرتے ہیں۔ ان ٹیکسوں سے ہونے والی مجموعی آمدنی کو جہاں حکومت کے عام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہیں ان کے ذریعے بعض ان اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی اہداف و اغراض کو حاصل کیا جاتا ہے جو حکومت کے پیش نظر ہوتے ہیں۔۱؎

زکوٰۃ جیساکہ اس کی تعریف علماے شریعت نے کی ہے، ایک ایسا فریضہ ہے جس کو اللہ نے مسلمانوں کے مال و دولت میں ان کے لیے واجب قرار دیا ہے جن کو اللہ کی کتاب میں فقرا، مساکین اور دیگر مستحقین زکوٰۃ کے نام سے یاد کیا گیا ہے تاکہ اس کی نعمت کا شکر ادا کیا جاسکے، اللہ سے تقرب حاصل ہو اور مال اور نفس کا تزکیہ ہوسکے۔

زکٰوۃ اور ٹیکس میں ھم آھنگی کا پہلو

اُوپر بیان کردہ دونوں تعریفوں سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ اور ٹیکس میں جہاں اختلاف کے بعض پہلو ہیں، وہیں ان دونوں میں اتفاق اور ہم آہنگی کے بھی بعض پہلو پائے جاتے ہیں۔ ان پہلوئوں کا تذکرہ حسب ذیل ہے:

  1. جبر اور لزوم کا وہ پہلو جس کے بغیر ٹیکس وصول نہیں کیا جاسکتا ہے ، زکوٰۃ میں بھی پایا جاتا ہے اگر ایک مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کے باوجود اس کو ادا نہ کرے۔یہ جبر اور لزوم اس وقت اور بھی زیادہ ہوسکتا ہے جب اس کو ہتھیار کی قوت کے ساتھ اس شخص سے وصول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اس کی ادایگی سے انکار کرتا ہے اور اس کے خلاف تلوار کو میان سے نکال لیتا ہے، نیز جو اس کے واجب ہونے سے انکار کرے اور صاحب ِ قوت بھی ہو۔[یہ اشارہ ہے سیدنا ابوبکرؓ  کا مانعینِ زکوٰۃسے جنگ کرنے اور ان سے تلوار کی نوک پر زکوٰۃ وصول کرنے کی طرف۔مترجم]
  2. علاوہ ازیں ٹیکس کسی عام ادارے کو ادا کیا جاتا ہے جیساکہ مرکزی حکومت یا مقامی حکومت۔۲؎ یہی کچھ حال زکوٰۃ کا بھی ہے جو حکومت کو اس ادارے کے ذریعے ادا کی جاتی ہے جس کو قرآن نے الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا (اس کے لیے کام کرنے والے) کا نام دیا ہے۔
  3.  ٹیکس کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ اس میں خواص___ یعنی خاص خاص افراد___ کی رعایت نہیں کی جاتی۔ ٹیکس ادا کرنے والا ایک خاص معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کی مختلف سرگرمیوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان اپنی زکوٰۃ کسی خاص شخصی فائدے کے لیے ادا نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اس وجہ سے ادا کرتا ہے کہ وہ اس مسلمان معاشرے کا ایک فرد ہے جس کی حمایت، کفالت اور اخوت سے وہ بہرہ ور ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرے کے دیگر افراد کی مدد کرے اور ان کو فقر اور عجز کی حالت میں اور زندگی کی مصیبتوں کے مقابلے میں امن و امان مہیا کرے۔ مزید یہ کہ وہ ایسے عام نفع کے منصوبوں میں اپنا حصہ ادا کرے جس کے ذریعے اُمت مسلمہ کا کلمہ اُونچا ہوتا ہے اور دعوتِ حق کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ اس کو ادایگی زکوٰۃ سے کوئی شخصی نفع پہنچتا ہے یا نہیں ۔
  4.  اگرچہ ٹیکس کے جدید رجحان کے اعتبار سے ٹیکس کے مالی فوائد کے علاوہ کچھ اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی ہدف بھی ہیں لیکن زکوٰۃ کے بھی بعض ایسے پہلو ہیں جو اپنے دائرے میں اس سے زیادہ وسیع ہیںاور ان کا اُفق (horison) زیادہ وسیع اور اس کی جڑیں زیادہ گہری ہیں۔ ان مذکورہ پہلوئوں اور ان کے علاوہ دیگر پہلوئوں میں فرد اور معاشرے پر ان کے دُوررس اثرات نمودار ہوتے ہیں۔[تفصیلات کے لیے دیکھیے اس کتاب کا باب: ’زکوٰۃ کے اہداف‘ ۔مترجم]

زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کا پھلو

زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کے پہلو تو بہت زیادہ ہیں جن میں سے اہم اُمور کا ذکر ہم مندرجہ ذیل سطور میں کرتے ہیں:

اسم اور عنوان میں فرق:

پہلے ہی مرحلے میں زکوٰۃ اور ٹیکس کا فرق ان کے عنوان، ان کی دلالت اور اس کے اثرات سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ لفظ ’زکوٰۃ‘ اپنے لغوی معنوں میں طہارت، نشوونما اور برکت پر دلالت کرتا ہے۔

شریعت ِ اسلامی کا اس لفظ کو اس حصے کی تعبیر کے لیے اختیار کرنا جو اس کے مال و دولت میں فرض کیا ہے اور جو فقرا اور دیگر مستحقین کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس لفظ کے اثرات نفسِ انسانی پر بڑے اچھے پڑتے ہیں برعکس ان اثرات کے جو لفظ ’ٹیکس‘ سے پڑتے ہیں۔

ٹیکس کا لفظ بنا ہے جرمانہ لگانے سے یا پیداوار میں سے ایک حصہ وصول کرنے سے۔ عربی زبان میں ’ضُرِبَ علیہ‘ سے ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ (البقرہ۲:۶۱) (ان پر، یعنی یہود پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی گئی)۔ کہتے ہیں: ضرب علیہم ضریبۃ البیع (اس پر سیلز ٹیکس عائدکیا)۔اس زاویۂ نگاہ سے لوگ ضریبہ(ٹیکس) کو ایک جرمانہ اور ایک بڑا بوجھ تصور کرتے ہیں۔   رہا لفظ ’زکوٰۃ‘ تو وہ اپنے پہلو میں پاکیزگی، نشوونمااور برکت کے معنوں کو سموئے ہوئے ہونے کی وجہ سے، یہ اثر چھوڑتا ہے کہ جو مال و دولت وہ سمیٹ سمیٹ کر جمع کر رہا ہے یا اس سے لطف اندوز ہورہا ہے اور اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کر رہا ہے جس کو اللہ نے فرض کیا ہے، تو وہ مال و دولت اس وقت تک خبیث اور ناپاک رہیںگے جب تک ان کو زکوٰۃ کے ذریعے پاک و صاف نہیں کیا جائے گا۔

یہ لفظ یہ اثر بھی چھوڑتا ہے کہ جو مال زکوٰۃ نکالنے سے بظاہر کم ہوجاتا ہے اگر اس کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ حقیقت میں پاک ہوکر بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ ۲:۲۶۷) ’’اللہ سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو پروان چڑھاتا ہے‘‘۔۳؎ اور وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ (سبا ۳۴:۳۹)،  تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو وہ، یعنی اللہ اس کی جگہ نیا رزق دیتا ہے۔۴؎

یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پاکیزگی، نشوونما اور برکت صرف مال میں نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کے اندر اپنے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ لینے والے میں بھی اور زکوٰۃ دینے والے میں بھی۔ زکوٰۃ وصول کرنے والے کا نفس، معاشی بھلائی کی وجہ سے حسد اور بُغض سے پاک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اس کے اور اس کے خاندان کے لیے مالی آسودگی فراہم ہوجاتی ہے۔ جہاں تک زکوٰۃ دینے والے کا تعلق ہے تو اس کا نفس بخل اور کنجوسی سے پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور اس میں، اس کے اہل و عیال میں اور مال میں برکت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے مال و دولت میں سے زکوٰۃ وصول کرو جس کے ذریعے تم ان کو پاک کرتے ہو اور ان کے نفس کا تزکیہ کرتے ہو‘‘۔

کیفیت اور رُخ میں فرق: 

زکوٰۃ ایک ایسی عبادت ہے جو مسلمانوں پر فرض کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا جاسکے اور اس ہستی مبارک سے قرب حاصل ہو۔ رہا ٹیکس تو وہ ایک خالص تمدنی پابندی ہے جو عبادت اور قربت کے سارے معنوں سے یکسر خالی ہے۔ اسی لیے زکوٰۃ میں ادایگی کے لیے ’نیت‘ شرط ہے تاکہ وہ اللہ کے ہاں قبول ہوسکے، کیونکہ کوئی بھی عبادت نیت کے بغیر ادا نہیں ہوتی ہے۔ انما الاعمال بالنیات ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ ۹۸:۵) ’’اور انھیں حکم نہیں دیا گیا الا یہ کہ وہ اللہ کی عبادت کریں (اپنی نیتوں) کو اس کی اطاعت کے لیے خالص کرکے‘‘۔

اسی وجہ سے زکوٰۃ کا ذکر فقہ کی کتابوں میں عبادات کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کتاب و سنت میں ان دونوں کو، یعنی نماز اور زکوٰۃ کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن نے ۲۰ سے زائد جگہوں پر مکّی اور مدنی سورتوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ رہی سنت تو اس میں ان مقامات کی گنتی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مثلاً حدیث جبریل ؑ اور حدیث: بنی الاسلام علی خمس ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے‘‘۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سی احادیث ہیں جن میں زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے۔ یہ اسلام کی چار عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ اور اس وجہ سے کہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے، شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے اور ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس سبب سے یہ صرف مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ وسعت ِ داماں کی حامل شریعت نے اس بات کو گوارا نہیں کیا کہ ایک مالی عبادت کو غیرمسلموں پر فرض کرے جو شعائر اسلام میں سے ہے۔ یہ ٹیکس کے برعکس ہے جو مسلم اور غیرمسلم دونوں پر فرض کیا جاتا ہے اگر ان میں اُسے ادا کرنے کی طاقت اور قدرت ہو۔

نصاب اور مقدار کے تعین میں فرق:

زکوٰۃ ایک ایسا حق و حصہ ہے جس کو شارع نے بذاتِ خود مقرر کیا ہے۔ اسی نے ہرقسم کے مال کا نصاب مقرر کیا ہے۔ اسی نے ان مقداروں کا تعین کیا ہے جو ۵ فی صد سے لے کر ۱۰ فی صد تک اور ڈھائی فی صد واجب الادا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان میں تبدیلی یا کمی بیشی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو خطاکار قرار دیا ہے جو عصرِحاضر کی اجتماعی اور اقتصادی تبدیلیوں کی بنا پر ان میں زیادتی کرنا چاہتے ہیں (دیکھیے فقہ الزکوٰۃ، ص ۲۴۴-۲۴۶)۔ اس کے برخلاف ٹیکس اپنے نصاب، مقدار، شرح اور دیگر اُمور میں حکومت کی صواب دید پر منحصرہوتا ہے، اور ان کے تعین کا فیصلہ صاحب ِ اقتدار حضرات کرتے ہیں بلکہ ان کا نفاذ یا خاتمہ حکومت کے فیصلے پر منحصر ہوتا ہے اگر وہ اس کی حاجت محسوس کرے۔

باقی اور دائم رھنے کے لحاظ سے  فرق:

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زکوٰۃ ایک باقی رہنے والا اور دائمی فریضہ ہے، جب تک کہ زمین پر اسلام اور مسلمان باقی ہیں۔ اس کو نہ تو ظالم کا ظلم باطل قرار دے سکتا ہے اور نہ عادل کا عدل۔ اس کا حال نماز جیسا ہے جو اسلام کا ستون ہے، جب کہ یہ اسلام کا خزانہ ہے۔ رہا ٹیکس تو نہ اس کی کیفیت کو دوام حاصل ہے نہ مقدار ہی اس کی دائمی ہے اور نہ اس کے وجوب کی کم از کم حد کو بقا حاصل ہے۔ ہرحکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کی شرح میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لاسکے یا اس کو اہلِ حل و عقد (یعنی قانون ساز اداروں) کی پشت پناہی حاصل ہو، بلکہ ٹیکس کا باقی رہنا بجاے خود ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ یہ حاجت کے  تابع ہے اور حاجت کے خاتمے سے اس کا خاتمہ بھی واجب ہوجاتا ہے۔

خرچ کی مدات میں فرق:

زکوٰۃ کے استعمال کی وہ خاص مدات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں مقرر کردیا ہے اور ان کی وضاحت رسولؐ اللہ نے اپنے قول اور فعل سے کی ہے۔ خرچ کی یہ مدات اتنی واضح ہیں کہ ایک مسلمان بذاتِ خود انھیں جان سکتا ہے اور اپنی زکوٰۃ ان میں صرف (خرچ) کرسکتا ہے اگر اُسے ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ یہ مداتِ خرچ انسانی اور اسلامی نوعیت کی حامل ہیں۔ جہاں تک ٹیکسوں کا تعلق ہے تو ان کو عام حکومتی اخراجات پر خرچ کیا جاتا ہے اور ان کا تعین حکومت کے مقتدر ادارے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا موازنہ حکومت کے عام موازنے سے ایک الگ اور مستقل بالذات چیز ہے جس کے صرف کرنے کے راستے نسبتاً محدود اور متعین ہیں، اور جن کو قرآن کریم نے خرچ کرنے کے لیے متعین کرکے کہا: فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ  (التوبہ ۹:۶۰) ’’اللہ کی طرف سے فرض کیے ہوئے‘‘۔

حکومت سے تعلق میں فرق:

یہیں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ٹیکس کی ادایگی کا معاملہ ٹیکس ادا کرنے والے اور حکومت کے درمیان ہوتا ہے۔ حکومت ہی اس کو مقرر کرتی ہے، وہی اس کا مطالبہ کرتی ہے اور وہی اس کی واجب الادا شرح کا تعین کرتی ہے۔ اُسی کے ہاتھ میں اس کو کم کرنا ہوتا ہے اور وہی اس کے کسی جز سے خاص حالات میں دست بردار ہوسکتی ہے۔ کسی خاص سبب کی وجہ سے یا ہمیشہ کے لیے بلکہ اُسی کے ہاتھ میں اس کو منسوخ قرار دینا ہوتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سارے ہی ٹیکسوں کو منسوخ کرسکتی ہے۔ اگر ٹیکس کا شعبہ مطالبے میں لاپروائی سے کام لے یا تاخیر کرے تو ٹیکس ادا کرنے والے کو موردِ الزام نہیں قرار دیا جاتا ہے اور اس سے کسی چیز، یعنی جرمانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس زکوٰۃ کا معاملہ مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ زکوٰۃ ادا کرنے والے اور اس کے رب کے درمیان معاملہ ہے۔ اس کے رب نے اُسے مال عطا کیا ہے اور اس نے اُسے زکوٰۃ ادا کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھیرایا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی پیروی کرسکے اور اس کی خوش نودی حاصل کرسکے۔ اُسی نے اس کی مقدار کا تعین کیا اور اُس نے اس کے خرچ کی مدات کا تعین بھی کیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حکومت، یعنی اسلامی حکومت پائی نہ جاتی ہو جو زکوٰۃ جمع کر کے اُسے مستحقین میں  تقسیم کرسکتی ہو، تو ایک مسلمان کا دین اس پر یہ امر فرض کرتا ہے کہ وہ اس کو اس کے مستحقین پر  تقسیم کرے، کیونکہ زکوٰۃ کسی حال میں اس پر سے ساقط نہیں ہوتی ہے۔ وہ اس معاملے میں نماز کی طرح ہے۔ اگر ایک مسلمان ایسی جگہ پر ہو جہاں نہ تو مسجد ہی پائی جاتی اور نہ امامت کرنے کے لیے کوئی امام ہی موجود ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نماز جہاں بھی ہوسکے پڑھے، اپنے گھر میں یا کسی اور مقام پر۔ کیونکہ زمین ایک مسلمان کے لیے مسجد کا حکم رکھتی ہے (جہاں چاہے نماز ادا کرے) اور کسی حال میں بھی نماز نہ چھوڑے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ زکوٰۃ نماز کی طرح ہی ہے۔ اس وجہ سے ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرے ، یہ اُمید کرتے ہوئے کہ    اللہ تعالیٰ اس کو اس کی جانب سے قبول فرمائے گا اور اس کو واپس نہیں لوٹائے گا۔ یہ امر مستحب ہے کہ وہ اپنے رب سے قبولِ زکوٰۃ کے لیے اس قسم کی دعا کرے: اللھم اجعلھا اجراً ولا تجعلھا مغرماً (اے اللہ! اُسے باعث ِ ثواب و اجر بنا اور باعث ِ عذاب نہ بنا)۔

یہی سبب ہے جس کی بنا پر ایک مسلمان زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اس کی ادایگی سے بھاگتا نہیں ہے جیساکہ عموماً دیکھا گیا کہ لوگ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتے اور جی چراتے ہیں۔ اگر وہ بھاگتے نہیں ہیں تو اُسے جبر کی وجہ سے یا پھر کراہیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو اپنے مال میں سے زکوٰۃ سے بھی زیادہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اس رغبت کے سبب جو اللہ کے ہاں پائی جاتی ہے اور تاکہ اس کا ثواب اور اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہو جیساکہ عہدنبویؐ میں اور آپؐ کے بعد کے اَدوار میں ہوتا رہا ہے۔

اھداف اور مقاصد میں فرق:

زکوٰۃ کے اعلیٰ روحانی اور اخلاقی مقاصد اُفق پر چمکتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکس اتنی بلندیوں تک پہنچنے سے قاصر اور عاجز ہے۔ اس کے اہداف کے بارے میں ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا وہ قول کافی ہے جو اس کی کتاب میں وارد ہوا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے اموال میں سے وہ زکوٰۃ لو جو ان کو پاک کرتی اور ان کے (نفوس کا) تزکیہ کرتی ہے اور ان کے لیے دعا کرو، بے شک تمھاری دعا (ان کے لیے) باعث ِ تسکین ہوتی ہے‘‘۔ نبیؐ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے حق میں اس کی ذات اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے، اور یہ وہ بات ہے جو ہر زکوٰۃ وصول کرنے والے کو کہنی چاہیے۔ رسولؐ اللہ کے اسوئہ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے بلکہ بعض فقہا نے اسے واجب قرار دیا ہے کیونکہ آیت نے اس کا حکم دیا ہے اور بظاہر ایسا ہی صحیح دکھائی دیتا ہے۔

رہا ٹیکس، تو وہ ان اُونچے اہداف کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں اُٹھاتا ہے بلکہ کئی صدیوں تک مالیات کے ماہرین اس بات سے انکار ہی کرتے رہے کہ ٹیکس کا مقصد حکومت کے خزانے بھرنے کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ اسی موقف کو ’غیر جانب دار تصور‘ کا نام دیا گیا مگر جب افکار میں تبدیلی آئی اور اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی حالات میں تغیر پیدا ہوا تو ’غیرجانب دار‘ نظریے کے حامیوں کو شکست ہوئی اور وہ لوگ نمودار ہوئے جو اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ ٹیکسوں کو متعین اقتصادی اور اجتماعی اہداف کو حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا چاہیے، جیساکہ خرچ کی ہمت افزائی یا بچت کی ہمت افزائی یا تعیشاتی اشیا پر خرچ کرنے میں کمی اور (طبقات کے درمیان) پائے جانے والے فرق کا ازالہ وغیرہ۔ یہ سب اس کے اصلی ہدف کے پہلو بہ پہلو ہیں جو ایک مالی ہدف ہے۔ اس کے علی الرغم ٹیکسوں کو عائد کرنے والے اور عوامی مالیات کے ماہرین اور ان کے مفکرین ٹیکسوں کو ان کے مادی دائرے سے باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے جو اس کے دائرے سے زیادہ  وسیع و عریض ہوتا۔ وہ دائرہ روحانی اور اخلاقی اہداف کا دائرہ ہے جس پر زکوٰۃ نے توجہ مرکوز کی ہے۔

فرض کیے جانے کا نظری فرق:

سب سے نمایاں فرق جو زکوٰۃ اور ٹیکس میں پایا جاتا ہے وہ اس بنیاد میں ہے جس پر زکوٰۃ اور ٹیکس کی عمارتیں کھڑی کی گئی ہیں۔ جہاں تک قانونی یا نظری بنیاد کا تعلق ہے ٹیکس کے فرض کیے جانے میں، ان نظریات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ رہی زکوٰۃ تو اس کی بنیاد واضح ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہے۔ ہم ان کی وضاحت ان چار نظریات کی روشنی میں کریں گے جن کے درمیان کوئی تعارض نہیں پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو قوت پہنچاتے ہیں۔ [ان نظریات پر بحث الشیخ القرضاوی نے دوسری فصل: ’زکوٰۃ اور ٹیکس فرض کیے جانے کی نظریاتی بنیادیں‘ میں کی ہے۔ مترجم]

 زکٰوۃ عبادت بھی :

ٹیکس بہی:یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زکوٰۃ بیک وقت عبادت بھی ہے اور ٹیکس بھی۔ ٹیکس اس وجہ سے کہ وہ ایک معلوم مالی حق ہے جس کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔ اگر اس کو خوش دلی اور اطاعت کے ساتھ ادا نہ کیا جائے تو حکومت اس کو بالجبر وصول کرتی ہے، اس سے حاصل شدہ رقم کو ان اہداف کے حصول میں خرچ کرتی ہے جو معاشرے کی خیر و فلاح کا باعث ہوتے ہیں۔

زکوٰۃ سب سے پہلے عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس کے ادا کرنے سے ایک مسلمان اللہ سے تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے اور جب وہ اُسے ادا کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس نے اسلام کے ایک رکن کو ادا کیا اور ایمان کے بہت سے شعبوں میں سے ایک شعبے کوپورا کیا۔ اس کے ذریعے وہ اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے۔ یہیں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ادا کرنا اطاعت اور صلاح کے کاموں میں سے ہے اور اس کو ادا نہ کرنا صریح فسق (نافرمانی) اور کھلی ناشکری ہے۔ وہ ایک ایسا فریضہ ہے جو وصول کرنے والے کے نہ آنے یا تاخیر سے آنے سے ساقط نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ حاکم کی لاپروائی سے یا کئی برس گزرنے سے ہی ساقط ہوتا ہے۔ وہ ٹیکس کی طرح نہیں ہے کہ وہ حکومت کے کہنے سے فرض ہوجائے اور حکومت کے طلب نہ کرنے سے ساقط ہوجائے۔

یہاں ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے علما اس حقیقت کو پاچکے تھے اوراس کی طرف انھوں نے توجہ بھی دلائی تھی کہ زکوٰۃ ان دونوں معنوں کو محیط ہے، یعنی ٹیکس کے معنی اور زکوٰۃ کے مفہوم کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔ اگرچہ انھوں نے لفظ ٹیکس کے ذریعے اس کی تعبیر نہیں کی ہے کیونکہ لفظ ٹیکس ایک جدید اصطلاح ہے۔ وہ اس کے مفہوم کو لفظ ’حق‘ سے تعبیر کرتے تھے جو   مال داروں کے اموال میں فقرا اور مساکین کے لیے واجب الادا ہوتا ہے(دیکھیے بدایۃ المجتہد لابن رشد،ج۱، ص ۲۳۷، مطبعۃ الاستقامۃ)۔ یا وہ اس کو صلۃ الرحم، یعنی انسان ہونے کے ناتے یا مسلمان ہونے کی وجہ سے (اس کو فرض قرار دیتے ہیں) اس میں عبادت کے پہلو کے ساتھ۔

اس سلسلے میں واضح ترین معنیٰ الروض النضیر  کے مصنف نے بعض علما کے حوالے سے زکوٰۃ کی حقیقت اور اس کی حکمت کے بارے میں بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’مال داروں کے مال و دولت کی تاکید اس کے وجوب کے ساتھ کی جاسکے۔ اللہ نے معاونت اور اتحاد و تعاون کا جو حکم دیا ہے اس میں مال داروں کے نفوس کا ابتلا اور امتحان ہے جو انسانی نفوس پر شاق گزرتے ہیں جیساکہ عبادات کو فرض کر کے ان کے جسموں کو ابتلا اور امتحان میں مبتلا کیا۔ یوں یہ صلۃ الرحم کا ذریعہ بنی اور اس میں عبادت کا پہلو بھی آگیا ہے۔ عبادت کے پہلو کی وجہ سے اس میں نیت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس میں نافرمانی اور معصیت جیسی دیگر چیزوں کو شریک کرنا ناجائز ہے۔ اس میں  صلۃ الرحم کے پائے جانے کی بنا پر اس میں کسی کو نائب یا وکیل بنانا جائز ہے اور اس میں جبر کا استعمال جائز ہے۔ جب امام کسی سے بالجبر اُسے وصول کرے تو وہ ادا کرنے والے کی طرف سے نیابت اور وکالت کی نیت کے تحت ہوتا ہے۔ اس کو میت کے مال میں سے وصول کرلیا جاتا ہے۔ خواہ میت نے اس کی وصیت نہ کی ہو۔ چونکہ اس میں صلۃ الرحم کا عنصر غالب ہے، اس لیے اس میں فقرا کے لیے زیادہ منفعت کی رعایت کرنے کا حکم ہے اور یہی وجہ ہے کہ نابالغ یا اس جیسے لوگوں کے اموال میں بھی واجب ہوتی ہے۔ چونکہ اس کا اصل مقصد مواساۃ ہے، اس لیے اُسے صرف بڑی مقدار کے مال میں واجب کیا گیا ہے جس کو نصاب کہتے ہیں۔ اُسے صرف قابلِ نمو (growthable) اموال میں فرض کیا گیا ہے۔ یہ اموال عین (یعنی سونا چاندی) نقد [چونکہ   سونا چاندی کے اس وقت سکّے ہوا کرتے تھے۔ مترجم] اموالِ تجارت، مویشی، زرعی پیداوار ہیں۔ شرع نے ان اموال میں وہ نصاب مقرر کیا ہے، جس کا ان میں سے ہرقسم یا مواساۃ کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ان میں واجب ہونے کی مقدار کو محنت اور زرعی ضروریات کے لحاظ سے مقرر کیا۔ اس لیے بارش یا اس جیسی چیز سے سیراب ہونے والی فصلوں پر ۱۰ فی صد فرض کیا اور جن فصلوں کو جانوروں یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے اس کا نصف، یعنی ۵ فی صد (دیکھیے: الروض النضیر، ج۲، ص۳۸۹، مطبعۃ السعادۃ۔ یہ دراصل امام زید بن علی زین العابدین بن حسین بن علی کی کتاب المجموع الفقہ الکبیر کی چار جلدوں میں شرح ہے)۔

____________________________________________________________

حواشی

  1. مبادی علم المالیہ از ڈاکٹر محمد فواد ابراہیم، ج۱،ص ۲۷۱۔ اس تعریف کو انھوں نے ٹیکس کے مزاج اور اس کے اہداف پر بحث کے بعد بطور خلاصہ پیش کیا ہے۔مترجم
  2. اس شرط کا ذکر انھوں نے محض اس لیے کیا ہے کہ ٹیکس کی تعریف کے ضمن میں اس چیز سے دامن کشی کرنے کے لیے جو یورپ میں عہدوسطیٰ میں وقوع پذیر ہوا کرتی تھی جب کسان زمین کے مالکوں کو ٹیکس ادا کیا کرتے تھے۔مترجم
  3. یہاں غور طلب لفظ ’مٹھ مارنا‘ ہے جو نشوونما کی ضد ہے، یعنی اس کا خاتمہ کرنا۔ آج سود کی کارگزاری کا نتیجہ یہ ہے کہ اسپین میں بے روزگاری ۲۷ فی صد ہوگئی ہے۔ یہی حال قبرص، ہالینڈ، یونان، پرتگال وغیرہ کا ہے۔ یہ سب کچھ سودی مٹھ مار کا نتیجہ ہے۔مترجم
  4. سود حاصل کرنے کے لیے سودخوار خرچ کرنے کے بجاے بچت کی سوچتے ہیں۔ اس سے پیسے کا بہائو پیداواری چیزوں /سرگرمیوں کے بجاے بنکوں میں پیسہ جمع کرانے کی طرف ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی چاول یا گیہوں خریدتا ہے تو کسان کو چاول اور گیہوں پیدا کرنے پر اُبھارتا ہے۔ یوں پیسہ گردش کرکے کئی لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھولتا ہے۔ مترجم

ترجمہ: ارشاد الرحمن

قرآنِ مجید کی ایک مکّی سورت میں دین کے اُسلوبِ خطاب، یعنی دعوتِ دین کا طریق کار متعین کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو‘‘۔ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے بعد ہر اُس اُمتی کو مخاطب کرتی ہے جو اس کے دائرے میں آتا ہو۔ اس لیے کہ اللہ کی طرف بلانا، یا اللہ کے راستے کی طرف بلانا، یعنی دعوتِ دین کا کام اور ذمہ داری نبی کریمؐ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں تھی بلکہ آپؐ کی اُمت سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آپؐ کی موجودگی میں بھی اور آپؐ کے بعد بھی آپؐ کی اس دعوت کو آگے منتقل کرنے کی ذمہ داری ادا کرے۔ ایک دوسری آیت میں قرآنِ مجید اس بارے میں رسولِؐ کریم کی زبانی کہتا ہے:قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط (یوسف۱۲:۱۰۸) ’’تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی‘‘۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو محمدؐ رسول اللہ کا اتباع کرے، اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو، محمدؐ کے نبی اور رسول ہونے کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہو، وہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا (داعی) ہوتا ہے۔ وہ یہ دعوت اپنی قلبی بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ پیش کرتاہے۔

دعوت الی اللہ کے قرآنی اسلوب کا ایک اہم نکتہ ’بہترین انداز میں مکالمہ‘ ہے۔ قرآنِ مجید کے بیان کردہ طریقِ دعوت میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ آیت ِ مذکورہ میں وعظ و نصیحت (موعظہ) کے بہتر (حسنہ) ہونے پر اکتفا کیا گیا مگر مکالمے (جِدال) میں ’حسنہ‘ پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ’احسن‘ (بہترین) طریقے کو اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ نصیحت (موعظہ) کا معاملہ اپنے حامیان اور متفقین کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ مکالمے (جِدال) کا معاملہ مخالفین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مکالمہ احسن انداز میں ہو۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مکالمے کے دو طریقے ہوں: ۱- طریقۂ حسنہ۲- طریقۂ احسن، تو دعوتِ دین کے کارکن کو حکم ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے احسن طریقے سے مکالمہ اور گفتگو کرے۔

مکالمے کے احسن طریقے میں بہت سے پہلو شامل ہیں، مثلاً: داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے مخالف مخاطبینِ دعوت سے گفتگو کرتے ہوئے انتہائی نرم الفاظ اور انتہائی آسان اسلوب اختیار کرے۔ مقصد یہ کہ اس طرح وہ انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے اور اپنے قریب لے آئے۔ وہ کوئی ایسا لہجہ اور الفاظ استعمال نہ کرے جس سے اُن کے سینوں میں عصبیت اور کینہ پیدا ہوجائے۔ قرآنِ مجید نے اس ضمن میں بڑی نمایاں اور حیران کن مثالیں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ مشرکین سے مکالمے اور مجادلے کی مثال ملاحظہ کیجیے۔ فرمایا:

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط قُلِ اللّٰہُ لا وَ اِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ھُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o قُلْ لَّا تُسْئَلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَ لَا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (السبا ۳۴:۲۴-۲۵) (اے نبیؐ!) ان سے پوچھو، ’’کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے؟‘‘ کہو، ’’اللہ۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ اِن سے کہو، ’’جو قصور    ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپُرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی۔

اس خیرخواہانہ اسلوب میں اپنے مخالف مخاطب کی غلط فہمی کے ازالے اور نفسیاتی تسکین کی ایسی کوشش کی گئی ہے جس سے کافی حد تک وہ مطمئن اور قریب ہوسکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے: ’’اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ’’تم کھلی گمراہی میں ہو‘‘۔ آگے مزید دیکھیے کہ حکیمانہ اسلوب کے استعمال کی حد کردی گئی ہے۔ فرمایا: ’’ان سے کہو، جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی کوئی بازپُرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہاں الفاظ کا موازنہ کرکے دیکھیے کہ کہا گیا ہے: وَلَا نُسْأَلْ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ’’جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہ نہیں کہا گیا کہ وَلَا نُسْأَلْ عَمَّا تُجْرِمُوْنَ  ’’جو قصور تم کر رہے ہو اس کی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی‘‘ یعنی قصور اور جرم کو اپنی طرف منسوب کرلیا گیا لیکن اُن کو مانوس اور قریب کرنے کی خاطر جرم کو اُن کی طرف منسوب نہیں کیا گیا۔

دوسری بات جو ’مکالمے کے بہترین انداز‘ کے تحت آتی ہے وہ فریقینِ گفتگو کے نزدیک ’مشترکات‘ پر زور ہے۔ یہاں اختلاف اور مخالفت کے نکات کو اُٹھانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ طرفین کے درمیان ’زمینِ مشترک‘ کا وجود گفتگو کو سنجیدہ اور بامقصد بنانے میں بہت معاون ہوتا ہے۔ یوں فریقینِ مکالمہ کے نزدیک متفق اُمور سے فائدہ اُٹھانا ممکن ہوجاتا ہے۔

  •  احسن انداز میں دعوت: قرآنِ مجید نے اہلِ کتاب کے ساتھ مکالمے میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ق اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹:۴۶) ’’اور اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر  عمدہ طریقے سے___ سواے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں___ اور اُن سے کہو کہ  ’’ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھجی گئی تھی۔ ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے، اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں‘‘۔

یہاں قرآنِ مجید نے اُن عقائد پر زور دیا ہے جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے قریب کرسکیں۔ یہاں یہ عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان ہر اُس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ اسی طرح مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہر رسولؐ پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے ’یکتا معبود‘ ہونے پر بھی سب کا ایمان ہے۔ اشتراکِ ایمان کا یہی وہ نکتہ ہے جہاں تمام مذاہب کے اہلِ ایمان یک جا ہوجاتے ہیں۔ اور اُن سب کی جدوجہد اور کش مکش کا رُخ اُن ملحدین و منکرین خدا کی طرف مڑ جاتا ہے جو صرف مادے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ جن کا اس بات پر کوئی یقین و ایمان نہیں ہے کہ کائنات کا کوئی خدا ہے، انسان کے اندر کوئی روح ہے، اور اس دنیا کے بعد کوئی آخرت بھی ہے!!

’بہترین انداز میں مکالمے‘ میں یہ بات بھی شامل ہے جسے سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر  فی ظلال القرآن میں ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ان کے ساتھ اگر مجادلے کا موقع پیش آئے تو وہ بھی احسن طریق سے ہو۔ یہ مناسب نہ ہوگا کہ مخالف پر داعی حملہ آور ہوجائے اور اس کو ذلیل کرے یا اس کی قباحتیں بیان کرے۔ دعوت میں مباحثے کا انداز یہ ہو کہ مخاطب کو یقین ہوجائے کہ دعوت دینے والا محض غلبے اور کلام میں برتری کا حصول نہیں چاہتا بلکہ داعی محض ایک حقیقت ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ عناد کا مادہ ہوتا ہے اور ہرشخص کی عزتِ نفس ہوتی ہے۔ وہ آخر دم تک اپنی راے کی مدافعت چاہتا ہے تاکہ وہ ہزیمت اور شکست سے بچے۔ اعتقاد و نظریہ دراصل راے ہوتی ہے اور لوگ راے کی قدروقیمت اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اگر کسی کو راے بدلنے کا کہا جائے تو سمجھتے ہیں کہ ان کے رعب، ان کے احترام اور ان کی شخصیت میں فرق آجائے گا۔ اگر داعی اچھے انداز میں مباحثہ اور مکالمہ کرے تو اس سے کسی شخص کے ذاتی احساس کو ٹھیس    نہ پہنچے گی اور مخاطب یہ سمجھے گا کہ اس کی عزت نفس، اس کی شخصیت اور عزت و کرامت محفوظ ہے اور داعی صرف دعوت پہنچانا چاہتا ہے۔ محض اللہ کے لیے اسے ایک اچھی راہ کی طرف بلا رہا ہے۔   اس کام سے اس کی کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں ہے، نہ وہ اپنی فتح اور مخاطب کی شکست چاہتا ہے۔

داعی کے زیادہ جوش اور جذبے کو ذرا کم کرنے کی خاطر نصِ قرآنی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ دراصل اللہ ہی زیادہ علیم ہے ، وہی جانتا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون ہدایت پانے والا ہے۔ لہٰذا بحث و مباحثے کے اندر بہت زیادہ جوش اور جدال کی ضرورت نہیں ہے بلکہ شائستہ انداز میں دعوت دے دی جائے اور اس کے بعد اس کے نتائج اللہ پر چھوڑ دیے جائیں‘‘۔(تفسیر سورئہ نحل، آیت ۱۲۵)

  •  ’کفار‘ کے بجاے ’غیرمسلم‘ کا استعمال: مکالمے اور جدال کا وہ بہترین انداز جس کا مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے اور خاص طور پر گلوبلائزیشن کے دور میں اس کی ضرورت ہے، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنے مخالفین کے کفر کا اعتقاد ضرور رکھیں مگر اُن کو ’کفار‘ کے نام سے نہ پکاریں، خصوصاً اپنے اہلِ کتاب مخالفین کے معاملے میں اس بات کو پیش نظر رکھیں۔ ہمارے پاس اس موقف کی دو وجوہ ہیں:

۱- لفظ ’کفار‘ کے متعدد معانی اور مفاہیم ہیں۔ بعض تو یقینی طور پر ہماری مراد نہیں ہوتے، مثلاً: اللہ، اس کے رسولوں اور جہانِ آخرت کا انکار، جیساکہ اُن مادہ پرستوں کا نظریہ ہے جو محسوسات کے علاوہ کسی چیز پر ایمان ہی نہیں رکھتے، لہٰذا وہ اللہ، رسولؐ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔

ہم جب اہلِ کتاب کے بارے میں بات کریں تو یقینا اس معنی و مفہوم میں ہم انھیں کافر نہیں کہہ سکتے۔ انھیں ’کفار‘ کہنے کا ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حضرت محمدؐ کی رسالت و شریعت کے کافر (منکر) ہیں اور یہ بات تو سچ ہے کیونکہ یہی اعتقاد وہ ہمارے بارے میں بھی رکھتے ہیں کہ ہم اُن کے مذہب کو نہیں مانتے، لہٰذا اُن کے نزدیک ہم ’کفار‘ ہیں اور اس پہلو سے یہ بات بھی درست ہے۔

۲-  ہمارے اس موقف کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم لوگوں کو کافر کہہ کر مخاطب نہ کریں خواہ وہ کافر ہی ہوں۔ غیراہلِ ایمان لوگوں کو قرآنِ مجید میں  درج ذیل الفاظ اور ناموں سے مخاطب کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ (اے انسانو!)، یَابَنِی اٰدَمَ (اے بنی آدم)، یَاعِبَادِی(اے میرے بندو!) یَااَھْلَ الْکِتَابَ(اے اہلِ کتاب!)۔

قرآنِ مجید میں دو مقامات (التحریم ۶۶:۷، الکافرون ۱۰۹:۱-۶)کے سوا لوگوں کو کہیں کافر کے نام سے مخاطب نہیں کیا گیا۔ سورئہ کافرون میں اُن بت پرست مشرکین کو مخاطب کیا گیا ہے جو رسول کریمؐ سے اس بات پر سودے بازی کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک سال آپؐ اُن کے معبودوں کی عبادت کرلیا کریں اور ایک سال وہ آپؐ کے معبود کی عبادت کیا کریں گے۔ چونکہ ایسی کوششوں کو دوٹوک اور حتمی و قطعی اسلوب میں ختم کرڈالنا مقصود تھا، تاکہ اس طرح کی مزید بیان بازیوں کی گنجایش ہی باقی نہ رہے، لہٰذا رسولؐ اللہ کو حکم دیا گیا کہ آپؐ دوٹوک انداز میں اُن کو  مخاطب کریں جس میں تکرار اور تاکید بھی نمایاں ہو۔ اس دوٹوک اندازِ خطاب کے باوجود سورت کا اختتام جس آیت پر ہوتا ہے وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری اور برداشت کا دروازہ کھلا رکھتی ہے، یعنی: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن (تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین)۔ اس بناپر مَیں طویل عرصے سے اس بات کو ترجیح دے رہا ہوں کہ اپنے مخالف دیگر ادیان کے لوگوں کو ’غیرمسلم‘ کے نام سے مخاطب کیا جائے۔

  •  ’ذمی‘ کے بجاے ’شھری‘ کا استعمال: اسی طرح کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ہمارے غیرمسلم اقلیتی بھائیوں کو قبول نہیں، مثلاً ’ذمی‘ کا لفظ ہمارے مصری قبطی برادران کو پسند نہیں حالانکہ اس لفظ کا مفہوم مثبت ہے، یعنی یہ مفہوم کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ، رسول کریمؐ اور مسلم جماعت کی ضمانت حاصل ہے۔ اس مفہوم اور مراد کی مسلمان کے دل میں ایک وقعت اور تاثیر ہے۔ وہ یہ بات کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ وہ اللہ و رسولؐ کی ضمانت کو کسی بھی حال میں توڑ دے۔ جو شخص بھی ایسے فعل کا ارتکاب کرے گا وہ اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق ہوگا۔ تاہم اگر ہمارے مسلم ممالک کے غیرمسلم شہری اس لفظ سے تکلیف محسوس کرتے ہیں تو اس کی جگہ ’شہریت‘ اور ’شہری‘ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ فقہا اس بات سے متفق ہیں کہ اسلامی ریاست کے ذمی ’اہلِ ریاست‘ ہیں اگرچہ وہ ’اہلِ ملت‘ نہیں۔ ’اہلِ ریاست‘ کے اس لفظ کو عصری مفہوم میں ’شہری‘ کے لفظ سے بدلا جاسکتا ہے اور لفظ ’ذمی‘ کو حذف کرنے اور بدلنے سے اسلامی شریعت کے کسی حکم اور مسلّمہ امر کی مخالفت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے خلفاے راشدین کے طرزِعمل میں نمونہ اور مثال موجود ہے۔ اور خلفاے راشدین وہ ہیں جن کی سنت اور طریقے کو اختیار کرنے اور اسے مضبوطی سے پکڑنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، خصوصاً شیخین، یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا طریقہ!!

بنی تغلب عہدِ جاہلیت سے مسیحی چلے آرہے تھے۔ انھوں نے حضرت عمرؓ سے مطالبہ کیا کہ ہم سے ’جزیہ‘ کے نام پر کچھ وصول نہ کیا جائے، یہی چیز ’صدقے‘ کے نام سے وصول کرلی جائے خواہ دگنی لے لیں۔ حضرت عمرؓ نے اُن سے اتفاق کیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، البتہ فرمایا: ’’یہ احمق قوم ہے، نام کا انکار کر رہے ہیں اور معنی کو قبول کرلیا ہے، حضرت عمرؓ کا یہ ایک بہت اہم اصول کی طرف اشارہ ہے، یعنی مقاصد اور معانی پر نظر رکھنا ضروری ہے نہ کہ الفاظ اور عبارتوں پر۔ کیونکہ اعتبار ناموں اور عنوانوں کا نہیں ہوتا بلکہ اُن چیزوں اور باتوں کا ہوتا ہے جن کے لیے یہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

  •  تعلقاتِ انسانی کے لیے اخوت کی اساس: گلوبلائزیشن کے عہد میں مطلوبہ تعبیرات میں سے ایک تعبیر تمام انسانوں کے درمیان تعلقات کو’اخوت‘ کا پیرہن عطا کرنا ہے۔ اس سے مراد عام ’انسانی اخوت‘ ہے جو صرف اس بنیاد پر تشکیل پاتی ہے کہ ساری کی ساری انسانیت ایک خاندان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور آدم ؑ کی ابنیت میں سب انسان مشترک ہیں۔

اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتا ہے، ان کے طبقات، علاقے، زبانیں اور رنگ و نسل جو بھی ہوں۔ یہ خاندان بحیثیت مخلوق ربِ واحد کی طرف اور بحیثیت نسب ایک باپ کی طرف منسوب ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے قرآنِ مجید نے انسانوں کو بلکہ تمام کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً ج وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo(النساء ۴:۱) لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ  دے کر تم ایک دوسرے سے،اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔

یہاں استعمال ہونے والا لفظ الارحام جن تمام تر انسانی رشتوں پر مشتمل ہے اُس کو   ذرا واضح کرنا مناسب ہوگا۔ خاندانِ انسانی کی وحدت جیسی اس حقیقت کو رسولِؐ اسلام حضرت محمدؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عظیم اجتماع کے سامنے علی الاعلان یوں بیان فرمایا تھا: ’’لوگو! یقینا تمھارارب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے، تم سب آدم کی نسل سے ہو،اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔  لہٰذا کسی عرب کو غیرعرب اور کسی غیرعرب کو عرب پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں مگر صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔ کیونکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘‘۔

رسول کریمؐ کے یہ الفاظ قرآنِ مجید کی سورئہ حجرات کے اس مضمون کو تاکید مزید کے طور پر بیان کرتے ہیں: ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o(الحجرات ۴۹:۱۳) ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ    تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے‘‘۔

جب یہ چیز موجود ہے تو تمام انسانوں کا انتساب انسانیت کے باپ حضرت آدم ؑ کی طرف ہونے کے اعتبار سے انسانی اخوت لامحالہ موجود ہے۔ اس نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآنِ مجید میں پانچ مقامات پر لوگوں کو ’یابنی آدم‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس طرح کی تعبیرات دوسروں کو ہم سے قریب کرتی ہیں۔ ہمارے اور اُن کے درمیان حائل خلیج کو پاٹتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارے خلاف گھات میں بیٹھے ہمارے دشمنوں اور ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام بناسکتی ہے جو لوگ ایک ملک اور ریاست کے باشندوں کے درمیان فتنے کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ ایسی سازشوں کے ذریعے ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا انھیں راستہ مل جاتا ہے۔ وہ ہمارے اُوپر تسلط حاصل کرلیتے ہیں اور ہماری گردنوں میں اپنے احکام کی غلامی کا پھندا ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے مواقع پر ان کی چالوں کو  انھی کے اُوپر پلٹ دیں۔ یہ مواقع اُمت کی تمام قوتوں کو اپنے دشمن کے مقابلے میں متحدہ محاذ کی صورت کھڑا کردیتے ہیں۔

  •  دین کی تعبیرِ جدید کا غلط انداز: گلوبلائزیشن کا عہد اگر ہم سے ایسے جدید دینی طریق کار کا تقاضا کرے جس میں ہم اسلام کو اس کی حقیقت ہی سے منحرف کردیتے ہوں یا کلام کو اس کے مدّعا سے ہٹا دیں، یعنی اسلام غیرمسلموں کی منشا و مرضی کے مطابق انھیں پیش کریں۔ ایسا اسلام جو اُن کا پسندیدہ ہو، ایسا اسلام جس کے پاس نہ اقدام کی صلاحیت ہو نہ دفاع کی طاقت، اُسے حکم دیا جائے تو وہ بلاچوں و چرا تسلیم کرلے، داعیان اور علماے دین سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسلام کا ایسا عقیدہ پیش کریں جس میں شریعت نہ ہو، ایسی عبادت جس میں معاملات نہ ہوں، ایسا امن جس میں جہاد نہ ہو، ایسی شادی جو بلاطلاق ہو، ایسا حق جس کے پاس قوت نہ ہو، ایسا قرآن جس کے پاس نہ تلوار ہو، نہ اس کی دعوت ہو، اور نہ اس کی ریاست و حکومت ہو___ ایسے اسلام کو ہم نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے۔ ایسا اسلام قرآن و سنت کا اسلام نہیں ہے۔ رسولؐ اللہ اور صحابہؓ و تابعینؒ کا اسلام نہیں جن کا عہد خیرالقرون (بہترین زمانہ) کہلاتا ہے۔

دین کے اندازِ خطاب کی تبدیلی سے مراد اگر یہ ہو کہ اسلام کو محض بندے اور رب کے درمیان تعلق کے طور پر پیش کیا جائے___   وہ ریاست و حکومت،خاندان و معاشرہ اور فرد کے لیے نظامِ حیات نہ ہو___ تو یہ مسلمانوں کے مقابلے میں وضع کیا گیا غیرحقیقی اور غلط اسلام ہے۔   یہ محمدرسولؐ اللہ کا اسلام نہیں ہے، یہ قرآن اور مسلمانوں کا اسلام نہیں ہے۔ ان کا اسلام تو زندگی اور انسان کے درمیان تقسیم کا قائل نہیں ہے۔ یہ اسلام تو کہتا ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیاگیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں‘‘۔

دین کے اندازِخطاب میں تبدیلی سے مراد اگر اُن آیات کو حذف کرنا ہو جو یہود اور اُن کی غداریوں سے بحث کرتی ہیں، میدانِ جنگ میں نبیؐ اور آپؐ کے لشکر کو چھوڑ کر بت پرستوں سے جاملنے کا ذکر کرتی ہیں، ان آیات کو حذف کردینا یا کم سے کم نظرانداز کردینا اور اُن کو اس طرح منجمد کیے رکھنا کہ ذرائع ابلاغ پر اُن کو تلاوت نہ کیا جائے، خطیب، مقرر اور مدرس اپنے خطبات، تقاریر اور دروس میں ان کے بارے میں بات نہ کریں___ تو اُمت مسلمہ اس بات کو نہیں مان سکتی۔ اُن کے رب کی کتاب بدستور تلاوت ہوتی رہے گی، آیات کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ یہ معلم اور رہنما کا کردار ادا کرتی رہے گی کیونکہ یہ نورِ مبین اور صراطِ مستقیم ہے۔جو شخص بھی اس کا علم حاصل کرے گا وہ آگے نکل جائے گا، جو اس کی بنیاد پر بات کرے گا وہ حق کہے گا، جو اس کے مطابق فیصلے کرے گا، انصاف پر مبنی فیصلے کرے گا، جو اس پر عمل کرے گا اجر پائے گا، اور جو اس کی طرف انسانیت کو دعوت دے گا اُسے راہِ راست نصیب ہوگی۔

اسی طرح ’دینی اندازِ خطاب‘ میں تبدیلی سے مراد اگر مسلمانوں کے ہاں عبادات میں سے رکنِ زکوٰۃ کو حذف کردینا ہو، معاملات میں سے سود کی حُرمت کو ختم کردینا ہو، فوجداری مقدمات میں حدود و تعزیرات کا خاتمہ کردینا ہو، بین الاقوامی تعلقات میں جہاد کو خارج کردینا ہو، سیرت النبیؐ سے غزوات کا تذکرہ نکال دینا ہو، مسلم تاریخ سے خالد بن ولید، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، سیف الدین قطز، عمرمختار اور عزالدین القسام کے کارناموں کا ذکر محو کردینا ہو تو ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔(ماخذ:  www.alqaradawi.net)