اگست ۲۰۱۳

فہرست مضامین

اسلامی رواداری: اعتقادی اور فکری بنیادیں

ڈاکٹر یوسف القرضاوی | اگست ۲۰۱۳ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

دینی اعتبار سے اپنے مخالفین کے ساتھ معاملات میں جو تصور اور نظریہ مسلمانوں کی رہ نمائی کرتا ہے اس کی اصل اور اس کا منبع وہ افکار اور روشن حقائق ہیں، جو اسلام نے مسلمانوں کے دل و دماغ میں اُتار رکھے ہیں۔ ان میں سے چند اہم افکار و حقائق یہ ہیں:

۱- متعدد گروھوں کے وجود کا اقرار: اسلامی رواداری کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسانوں کے مختلف اور متعدد گروہوں، جماعتوں اور قوموں کے وجود کا اسلام نے اعتراف کیا ہے۔ تعدداور تنوع تمام مخلوقاتِ خداوندی میں موجود ہے۔ یہ ایک فطری چیز ہے اور کائناتی اصول اور قانون ہے۔ مومن جس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح مختلف شعبوں کے اندر انسانی مخلوق کی یکسانیت کے باوجود اُن کے نسلی، قومی، لسانی اور دینی تنوع کو بھی مانتا ہے۔ نسلی اختلافات کو قرآنِ مجید نے یہ کہہ کر واضح کیا ہے: وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا (الحجرات ۴۹:۱۳)، ’’اور تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘۔ لسانی اختلاف کا ذکر یوں کیا: ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کی پیدایش، اور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کے لیے‘‘۔(الروم ۳۰: ۲۲)

دینی تنوع اور اختلاف کا اقرار کرتے ہوئے فرمایا: وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ o اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُم o (ھود ۱۱: ۱۱۸-۱۱۹)، ’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بناسکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی کے لیے تو اس نے انھیں پیدا کیا تھا‘‘۔

مفسرین نے وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُم کا مفہوم یہ بیان کیا ہے: وَلِلْاِخْتِلَافِ خَلَقَھُمْ، یعنی اسی اختلاف اور تنوع کے لیے تو انھیں تخلیق کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ہرایک کو عقل و ارادے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے تو اُن کے نقطہ ہاے نظر اور ادیان و مذاہب لازماً مختلف ہوں گے۔ غرض یہ کہ ان تمام طبیعی دلائل کے ساتھ ہم اس حقیقت کا مشاہدہ تو اپنی نظروں سے کرتے ہیں کہ ایک ہی دین کے اندر فکری اور مسلکی تنوع اور اختلاف موجود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو دین نازل کیا ہے اس کی بنیاد نصوص (متن) پر ہے۔ اور ان نصوص کا فہم ایک سے زیادہ نقطۂ نظر، تعبیرات اور اجتہادات کی اپنے اندر گنجایش رکھتا ہے۔ اللہ قادرمطلق کے لیے تو یہ ہرگز مشکل نہیں تھا کہ وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی راے اور مسلک پر یک جا اور متفق کردیتا۔ اور اگر چاہتا تو اللہ تعالیٰ سارے کے سارے دین کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نصوص پر قائم کردیتا کہ پھر اُس میں اختلاف کی گنجایش ہی باقی نہ رہتی۔

ہماری عمومی دنیاوی اور معاشرتی زندگی میں بھی یہ تنوع اور اختلاف ہرجگہ موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں اور گروہ موجود ہیں، اگر ہم فقہی مذاہب (مسالک) کا شروع سے جواز فراہم کرتے آئے ہیں تو سیاسی گروہوں کے وجود کا انکار کیوں کر کرسکتے ہیں۔ یہ بھی فقہ کی طرح سیاست کے مذاہب (مسالک) ہی تو ہیں۔ اور فقہی مذاہب کیا ہیں؟ گروہ اور جماعتیں ہی تو ہیں!!

 مسلمان کا یہ عقیدہ کہ ہرانسان معزز و محترم ہے، اس کا دین، قومیت، اور نسل جو بھی ہو۔ اس عقیدے کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی‘‘۔ یہ بیان شدہ عزت ہر انسان کے لیے احترام و مقام کا حق واجب ٹھیراتی ہے۔ اس کی عملی مثالیں بہت سی ہیں۔ ان میں ایک امام بخاری کی روایت کردہ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی یہ حدیث ہے: ’’ایک بار ایک جنازہ نبیؐ کے پاس سے گزرا تو آپؐ اس کے احترام میں اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ آپؐسے کہا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا! آپؐ نے جواب میں فرمایا: کیا یہ ایک جان نہیں ہے؟‘‘ دیکھیے رسولِؐ کریم نے  کیسی عمدہ توجیہہ بیان کی اپنے اس عمل کی کہ اسلام میں تو ہر جان کی ایک حُرمت اور مقام ہے۔

۲- اختلاف، اللّٰہ کی مشیت: رواداری کی دوسری بنیاد مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ انسانوں کے مختلف ادیان کا ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی سے ہے۔ اس نے اپنی مخلوقات کی اس نوع، یعنی انسان کو کوئی دین و عقیدہ اپنانے اور چھوڑنے کا اختیار اور آزادی عطا کر رکھی ہے۔ وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ  (الکھف ۱۸:۲۹)، ’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘۔ وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo (ھود ۱۱:۱۱۸)، ’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے‘‘۔

ایک مسلمان کا یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کو کوئی روک نہیں سکتا، کوئی بدل نہیں سکتا، اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ سے اس کی منشا و مرضی کے بارے میں پوچھ سکتا ہے لیکن مسلمان اس حقیقت کا بھی یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں وہی کچھ ہوتا ہے جس میں خیروحکمت ہو۔ انسان اس سے واقف ہوں یا لاعلم رہیں، اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ تمام لوگوں کو مجبور کر کے مسلمان بنالے۔ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ رسولؐ اللہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے: وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَo(یونس ۱۰:۹۹)،     ’’اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟‘‘ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَo(الانعام ۶:۳۵)، ’’اگر اللہ چاہتا  تو ان سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو‘‘۔

اور اگر اللہ چاہتا کہ تمام لوگوں کو ہدایت یافتہ فرماں بردار مومن بنادے تو وہ اُن کو کسی دوسری صورت پر تخلیق فرماتا جیسے فرشتوں کو اپنی مکمل اطاعت و عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ (الانبیاء ۲۱:۲۰)،’’شب و روز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دم نہیں لیتے‘‘۔ لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo(التحریم ۶۶:۶) ، ’’وہ کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اُسے بجالاتے ہیں‘‘۔

اور یہ دینی اختلاف تو واقع ہی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی سے ہے، لہٰذا کون ہے جو اللہ کی منشا و مرضی کے سامنے کھڑا ہوسکے ؟ اور کون ہے جو تمام ادیان کو مٹاکر اپنے ہی دین کو باقی رکھنے کی سوچ سوچے؟ اگر کوئی ایسا تجربہ کرنا چاہے تو کرکے دیکھ لے، اُس کے حصے میں ناکامی و شکست کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ غلبہ اور فتح، اللہ واحد و قہار کی مشیت ہی کو حاصل ہوگی۔

۳-اختلاف کرنے والوں کا حساب روزِ قیامت ھوگا: اسلامی رواداری کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اس بات کا بھی پابند نہیں ہے کہ وہ کافروں کا محاسبہ کرے کہ تم کافر کیوں ہو؟ اور نہ وہ گمراہوں کی گمراہی پر انھیں سزا دے سکتا ہے۔اس لیے کہ یہ اس کا کام نہیں ہے اور نہ سزا اور جزا کا مقام یہ دنیا ہے۔ ایسے لوگوں کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور اس کا ایک دن مقرر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر مسلمان کسی کافر اور گمراہ کو سزا نہیں دے سکتا تو وہ کسی کو جزا اور بدلہ دینے کی ذمہ داری بھی نہیں اُٹھا سکتا۔کیونکہ وہ کسی کو جزا دینے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ اِنْ جٰدَلُوْکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o اَللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَo  (الحج ۲۲:۶۸-۶۹)، ’’اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو ’’جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ کو خوب معلوم ہے، اللہ قیامت کے روز تمھارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو‘‘۔رسولؐ کریم کو مخاطب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’اے محمدؐ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اُسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو، اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور ان سے کہہ دو کہ:’’اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمھارا بھی۔ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔(الشورٰی ۴۲:۱۵)

ان تعلیمات اور ہدایات کی بنا پر مسلمان کا ضمیرپُرسکون رہتا ہے۔ اس کے دل کے اندر اپنے عقیدے اور کافر کے کفر کے درمیان ایسا کوئی تصادم محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کافروں کے ساتھ احسان اور انصاف نہ کرے، اور انھیں اُن کے دین و اعتقاد پر قائم نہ رہنے دے، اور زبردستی انھیں مسلمان بنانے اور ایذا پہنچانے کا ہدف ٹھیرا لے۔

۴- ساری انسانیت کو ایک ھی خاندان سمجہنا:دینی رواداری کی چوتھی بنیاد یہ نکتہ ہے کہ اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتا ہے، ان کے طبقات، علاقے، زبانیں اور رنگ و نسل جو بھی ہوں۔ یہ خاندان بحیثیت مخلوق ربِ واحد کی طرف اور بحیثیت نسب ایک باپ کی طرف منسوب ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے قرآنِ مجید نے انسانوں کو بلکہ تمام کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo  (النساء ۴:۱)، ’’لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مردوعورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے، اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے‘‘۔

یہاں استعمال ہوئے لفظ الارحام جن تمام تر انسانی رشتوں پر مشتمل ہے اس کو واضح کرنا مناسب ہوگا۔ خاندانِ انسانی کی وحدت جیسی اس حقیقت کو رسولِؐ اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر عظیم اجتماع کے سامنے علی الاعلان یوں بیان فرمایا تھا: ’’لوگو! یقینا تمھارا رب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے، تم سب آدم ؑ کی نسل سے ہو، اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لہٰذا کسی عرب کو غیر عرب اور کسی غیرعرب کو عرب پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں۔ مگر صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔ کیونکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز ترین وہ ہے جو سب سے بڑا متقی ہے۔

رسول کریمؐ کے یہ الفاظ قرآنِ مجید کی سورئہ حجرات کے اس مضمون کو تاکید مزید کے طور پر بیان کرتے ہیں: ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳)، ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے؟‘‘۔

اس آیت میں ذَکَرٍ وَّاُنثٰیسے مراد حضرت آدم ؑ و حواؑ ہیں ، اور وہی انسانیت کے والدین ہیں۔ اس مضمون کی مزید تائید و تصدیق مسنداحمد اور ابوداؤد میں مروی حضرت زیدبن ارقمؓ کی یہ روایت ہے کہ نبی کریمؐ ہر نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ئٍ وَمَلِیْکَہٗ ، أَنَا شَھِیْدٌ أَنَّکَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ

اے اللہ! ہمارے اور ہر شے کے پروردگار اور مالک! میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ تو واحد ہے تیرا کوئی شریک نہیں!

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ئٍ وَمَلِیْکَہٗ ، أَنَا شَہِیْدٌ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ

اے اللہ! ہمارے اور ہر شے کے پروردگار اور مالک! میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ محمدؐ تیرے بندے اور رسولؐ ہیں!

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْ ئٍ وَمَلِیْکَہٗ ، أَنَا شَہِیْدٌ أَنَّ الْعِبَادَ کُلُّھُمْ اِخْوَۃٌ

اے اللہ! ہمارے اور ہر شے کے پروردگار اور مالک! میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ تمام کے تمام انسان بھائی بھائی ہیں!

قرآنِ مجید نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ انسانی اخوت کے ساتھ اہلِ ایمان اور اہلِ دین کے درمیان دینی اخوت بھی ہے۔ جیساکہ فرمایا: اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹:۱۰)، ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا: فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا       (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۳)، ’’اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔

اسی طرح قرآنِ مجید قومی اور وطنی اخوت کا اقرار بھی کرتا ہے ، جیساکہ رسولوں اور اُن کی مکذب قوموں کے درمیان اُخوت کا اقرار موجود ہے، مثلاً فرمایا: ’’اور عاد کی طرف ہم نے اُن کے بھائی ہود کو بھیجا‘‘ (اعراف ۷:۶۵)۔ ’’اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو بھیجا‘‘ (النمل ۲۷:۴۵)۔یہاں اخوت دینی بالکل نہیں ہے بلکہ قومی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہررسول لوگوں کو دین کی دعوت دینے کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کرتا:یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (اعراف ۷:۵۹)،’’اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔ جب یہ چیز موجود ہے تو تمام انسانوں کا انتساب انسانیت کے باپ حضرت آدم ؑ کی طرف ہونے کے اعتبار سے انسانی اخوت لامحالہ موجود ہے۔ اس نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآنِ مجید میں پانچ مقامات پر لوگوں کو ’یابنی آدم‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔

۵- انسان کی تکریم محض انسانیت کی بنیاد پر: اسلامی رواداری کی پانچویں بنیاد یہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان قابلِ تکریم و احترام ہے۔ اُس کے قابلِ تکریم ہونے میں اُس کی چمڑی کے رنگ، آنکھوں کے رنگ، بالوں کے رنگ، چہرے اور ناک کی بناوٹ، اُس کی زبان کے لہجے، اس کے علاقے کے محلِ وقوع، اس کے خاندانی شجرئہ نسب، یا کسی معاشرتی طبقے سے تعلق، حتیٰ کہ اُس کے دین کو بھی کوئی دخل حاصل نہیں ہے جس پر اُس کا ایمان ہے۔

انسان کی تکریم اور احترام قرآن کی نظر میں صرف اور صرف انسانیت اور آدمیت کی بنیاد پر ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم ؑ کوبزرگی دی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)۔ مزید فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(التین ۹۵:۴)، ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔ پھر فرمایا: اَلرَّحْمٰنُ o عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ o عَلَّمَہُ الْبَیَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۱-۴) ’’نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اُسی نے انسان کو پیدا کیا اور اُسے بولنا سکھایا‘‘۔نزولِ قرآن کی سب سے پہلی وحی میں فرمایا: اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْo (العلق ۹۶:۳-۵)، ’’پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘۔

تخلیق آدم ؑ کے بعد حضرت آدم ؑ اور فرشتوں کے درمیان ایک مقابلے کا انعقاد کیا گیا جس میں ابوالبشر حضرت آدم ؑ کی فرشتوں پر فضیلت ظاہر ہوگئی۔ اس پہلو سے اسلام نے احترامِ انسان کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں کہ کسی کی موجودگی میں اُسے کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔ یا اُس کی غیرموجودگی میں کسی ایسے لفظ سے اُس کی توہین کی جائے جس کو اگر وہ سُن لے تو اُسے ناگوار ہو، خواہ یہ بات بذاتِ خود حقیقت ہی ہو مگر اُسے تکلیف دینے کا باعث بنے۔ حتیٰ کہ انسان کے مرجانے کے بعد بھی اُس کا ذکر اچھے لفظوں میں کیا جائے۔ انسان زندہ ہو یا مرنے کے بعد نعش کی صورت میں موجود ہو، کسی بھی حالت میں اُس کے جسم کی بے حُرمتی جائز نہیں ہے۔ حدیث رسولؐ میں تو یہاں تک آیا ہے: ’’میت کی ہڈی کو توڑنا زندہ انسان کی ہڈی کے توڑنے جیسا عمل ہے‘‘۔ اس سلسلے میں ایک یہودی میت کے احترام میں رسول کریمؐ کے کھڑے ہونے کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے۔

۶- بلا تفریقِ مذھب عدل و انصاف کا قیام: دینی رواداری کی چھٹی بنیاد  مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ انصاف اسے پسند ہے، وہ اچھے اور اعلیٰ اخلاق کی طرف بلاتا ہے، خواہ مشرکین کے ساتھ ہی معاملہ کیا جا رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں کرتا بلکہ ظالموں کو سزا دیتا ہے، خواہ یہ ظلم ایک مسلمان کی طرف سے کافر پر ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو، عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ رسولؐ اللہ کی بھی یہ حدیث ہے کہ ’’مظلوم کی بددعا سے بچو (خواہ وہ کافر ہی ہو)۔اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی‘‘۔(المائدہ ۵:۸)

غیرمسلموں کے ساتھ اسلام کی رواداری ایسی رہی ہے کہ تاریخ نے اس کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ یہ رواداری اس وقت تو خاص اہمیت اختیار کرلیتی ہے جب معاملہ اہلِ کتاب کا ہو۔ اس سے بڑھ کر یہ رواداری اس وقت اور زیادہ نمایاں اور پُربہار ہوجاتی ہے جب یہ غیرمسلم دارالاسلام (اسلامی ریاست) کے شہری ہوں، اور اگر یہ کہا جائے تو حرج نہیں کہ اُس کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ غیرمسلم خود کو عرب تمدن میں ڈھال چکے ہوں اور عربی کو اختیار کرچکے ہوں۔

۷- انسانی عداوتیں دائمی امر نھیں:دینی رواداری کی ساتویں بنیاد جس کو اسلام نے قائم کیا، مسلمانوں کو اُس کی تعلیم دی اور اُن کے دلوں دماغوں میں راسخ کیا، وہ یہ ہے کہ بسااوقات کچھ لوگ مختلف دینی اور دنیاوی وجوہات کی بناپر آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ عداوتیں حق ہوں یا باطل، کبھی ابدی اور دائمی نہیں ہوتیں۔ دل بدل جاتے ہیں، حالات تبدیل ہوجاتے ہیں اور کل کے دشمن آج کے گہرے دوست بن جاتے ہیں۔ آج فاصلے پر رہنے والے کل کے قریبی ٹھیرتے ہیں۔ یہ تبدیلی انسانی تعلقات کا انتہائی اہم اصول ہے۔ لہٰذا یہ جائز نہیں کہ انسان اپنی عداوت میں اس حد تک آگے نکل جائیں کہ صلح کا کوئی موقع اور گنجایش باقی نہ رہے۔ سورئہ ممتحنہ میں اس بات سے اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے سے منع کرنے کے بعد پوری وضاحت سے متنبہ کردیا گیا۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے رفقا کی استقامت کی مثال دی گئی ہے۔ جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا: اِِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ ۶۰:۴)، ’’ہم تم سے اور تمھارے اُن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے کفر کیا اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بَیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo(الممتحنہ ۶۰:۴)، ’’بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے، جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور و رحیم ہے‘‘۔ اللہ سبحانہ کی طرف سے دلائی گئی اُمید و رجا کو لفظ عسی کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ یہ لفظ دلوں کو تبدیلی کی اُمید سے بھردیتا ہے کہ بُغض و عداوت کی کیفیات محبت و مودت میں بدل سکتی ہیں اور اللہ دلوں کو تبدیل کر دینے پر قادر ہے۔ وہی تو ہے جو دلوں کو جیسے چاہتا ہے، الٹ پلٹ کرتا ہے۔ کینے اور بُغض کے گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ معاف کردینے والا ہے۔ وہ اپنے اُن بندوں پر بہت مہربان ہے جو اپنے دلوں کو ان آلایشوں سے صاف کرلیتے ہیں۔ اسی وجہ سے تو مسلمانوں کے ہاں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ’’کسی کے خلاف اپنی نفرت کا غصہ کچھ نرم رکھو، ہوسکتا ہے کسی وقت وہ شخص تمھارا گہرا دوست بن جائے‘‘۔

۸- مکالمے کے بھترین انداز کی دعوت:اسلامی رواداری کی آٹھویں بنیاد یہ  نکتہ ہے کہ مخالفین کے ساتھ بہترین اسلوب میں بات چیت کی جائے۔ نہایت شائستہ اور مہذب انداز میں اپنی بات کہی اور مخالف کی سُنی جائے۔ اس بنیاد کی دعوت قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا    یہ فرمان ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَo (النحل ۱۶:۱۲۵)، ’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہترجانتا ہے کہ کون اس کی راہ بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے‘‘۔

حکمت اور موعظۂ حسنہ کی دعوت بیش تر مقامات پر اپنے متفقین کے ساتھ گفتگو کے لیے ہے، اور احسن اسلوب میں جدال کی تعلیم بیش تر جگہوں پر اپنے مخالفین کے معاملے میں دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو اُن کے رب کا یہ حکم ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے ایسے بہترین طریقے سے مباحثہ و مکالمہ کریں جو مخالف کے لیے بات کو قبول کرنے کے اعتبار سے مثالی اور انتہائی مؤثر ہو۔

 احسن طریقے سے جدا ل (مباحثہ و مکالمہ) وہ گفتگو اور بات چیت ہے جس کی دعوت ہم اپنے مخالفین کو بھی دیتے ہیں اور یہ ایسی چیز ہے جس سے دلوں کے اندر تنائواور دُوری پیدا نہیں ہوتی اور کوئی ایسا ہیجان برپا نہیں ہوتا جو فتنے فساد کا باعث بنے اور نتیجے کے طور پر ایک دوسرے کے بارے میں بُغض و عداوت پیدا ہوجائے۔ یہ طریقہ تو دلوں کو جوڑنے اور قریب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جیسا قرآن مجید نے اہلِ کتاب کے ساتھ مجادلے کے معاملے میں فرمایا ہے: وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo  (العنکبوت ۲۹: ۴۶)، ’’اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے سواے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں___ اور اُن سے کہو کہ ہم ایمان لاے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھیجی گئی تھی۔ ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں‘‘۔

اس آیت میں اُن جامع مشترکات پر زوردیا گیا ہے جن کے اُوپر فریقین کا ایمان ہے۔ اختلاف اور تفرقے کا باعث بننے والے نکات کو زیربحث ہی نہیں لایا گیا۔ یہی اچھی گفتگو اور شائستہ مکالمے کا اصول ہے۔ اس بنیاد پر اسلام باہم مخالف گروہوں کے درمیان مکالمے کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے وہ اُن کے درمیان تصادم کا قائل نہیں ہے، جیسا امریکی اسٹرے ٹیجک دانش ور سیموئیل پی ہنگ ٹنگٹن کا نظریۂ تصادم ہے۔(ماخذ: www.qaradawi.net)