اگست ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کیا تبدیلی کے سفر کا آغاز اس طرح ہوتا ہے؟

پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۱۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام کے فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ ملک کے نظام اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ پرویز مشرف اور زرداری،گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے اتحادیوں نے اپنے ۱۴سالہ دورِ حکومت میں ملک کے پورے نظام کو   جس طرح درہم برہم کیا تھا اور ملک کی آزادی، حاکمیت، سالمیت اور نظریاتی شناخت سے لے کر امن و امان، جان و مال اور آبرو کے تحفظ، اور معاشی اور معاشرتی، تعلیمی اور اخلاقی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد اس زمانے میں رُونما ہوا، اس نے زندگی کی ہرسطح پر تباہی مچادی۔ کرپشن اور بدعنوانی کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور ایک عام آدمی کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی۔ قوم کے سامنے ایک طرف وہ سیاسی پارٹیاں تھیں جو اس ۱۴سالہ دور کی نمایندہ بنیں، یعنی پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) اور ایک حد تک جے یو آئی۔ اور دوسری طرف وہ جماعتیںتھیں جو اس اسٹیٹس کو (status quo) کو چیلنج کررہی تھیں اور قوم کو تبدیلی کا پیغام دے رہی تھیں۔

قوم نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ میں اپنے اپنے حلقوں میں اگر بظاہر کامیابی ہوئی بھی تو وہ عوامی مینڈیٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس مینڈیٹ کو جبر اور دھوکے سے اغوا کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں  واضح مینڈیٹ ملا اور صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور ایک حد تک جماعت اسلامی کو۔      جناب میاں نواز شریف نے ۱۱مئی کی رات ہی کو اپنی فتح کا اعلان کردیا اور گو وزارتِ عظمیٰ کا چارج انھیں ۶جون کو ملا لیکن ان کے فی الواقع (virtual) اقتدار اور آزمایش کا آغاز ۱۱مئی ہی سے ہوگیا۔ چونکہ وہ اس سے پہلے دو بار وزیراعظم کی ذمہ داریاں اُٹھاچکے تھے، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار حاصل تھا اور مرکز میں بھی اس زمانے میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں معقول تعداد میں موجود ہونے کے باعث حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی، اس لیے توقع تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ تبدیلی کے سفر کا آغاز کرے گی اور قوم کے سامنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نئی راہ کھل جائے گی۔

پارلیمانی جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ حزبِ اختلاف دراصل منتظر حکومت (Government in waiting) کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس شیڈوکیبنیٹ کی شکل میں متبادل قیادت ہرلمحہ موجود ہوتی ہے اور وہ متبادل پالیسیوں کے باب میں بھی ہرلمحہ تیار ہوتی ہے۔ پھر مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس بہتر اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ اس نے دو سال کی تیاری اور بحث و مباحثے کے بعد ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے لیے قوم کے سامنے ایک مفصل منشور  پیش کیا تھا اور اس امر کی توقع تھی کہ ذمہ داری سنبھالنے کے فوراً بعد معروف جمہوری روایات کی روشنی میں وہ پہلے ۱۰۰ دن کا پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے گی۔ پھر چونکہ ذمہ داری سنبھالتے ہی ۱۰دن کے اندر اسے نیا بجٹ پیش کرنا تھا جس کے لیے عملاً اس نے ۱۱مئی کے بعد ہی کام شروع کردیا تھا۔ وہ ایک نادر موقع تھا کہ کم از کم نئی پالیسیوں کا ایک مربوط نقشہ قوم کے سامنے پیش کردیا جائے لیکن بجٹ بحیثیت مجموعی مایوس کن رہا اور ان سطور کے لکھتے وقت تک ۱۰۰ میں سے ۵۰دن گزر چکے ہیں لیکن نئے پروگرام کی کوئی جھلک قوم کے سامنے نہیں آسکی۔

ایک بظاہر تجربہ کار ٹیم کی طرف سے یہ کارکردگی بڑی مایوس کن اور ملک کے مستقبل کے لیے تشویش ناک ہے۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی پوری قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے۔ ہم اپنے تمام اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں دعاگو ہیں کہ وہ سیاسی قوتیں جنھیں قوم نے حالات کو سنبھالنے اور بگاڑ کی اصلاح کے لیے مینڈیٹ دیا ہے، وہ سنجیدگی، دیانت اور اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور عوام کو اس دلدل سے نکالیں جس میں ان کو دھنسایا گیا ہے، ورنہ قوم خاص افراد ہی نہیں، سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل سے مایوس ہوسکتی ہے جو سب کے لیے خسارے کا سودا ہے۔

قوم کی توقعات اور حکومتی روش

نئی حکومت سے یہ توقع تھی کہ اسے واضح مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ معلّق پارلیمنٹ کی آزمایش سے بچ گئی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے بلیک میل کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ کر خارجہ اور داخلہ دونوں میدانوں میں ایک واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے لائے گی اور کوشش کرے گی کہ زیادہ سے زیادہ اُمور پر قومی اتفاق راے پیدا کرے اور عوام کو ایک نئی اُمید اور اُمنگ دے کر سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھے۔ بلوچستان کے گمبھیر حالات کی بناپر جو ابتدائی روش مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اختیار کی، اس سے اچھی اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں لیکن ۵۰دن گزرنے کے باوجود اب تک صوبے میں کابینہ کا نہ بننا ایک پریشان کن صورت حال کی خبر دے رہا ہے۔ نیز دہشت گردی اور لاقانونیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ فاٹا اور کراچی کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور سارے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جامع قومی سلامتی پالیسی بنائے جانے کا خواب ایک خوابِ پریشان بنتا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کے مسئلے پر کُل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی ایک تاریخ  (۱۲جولائی) دینے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی اُمور کے بارے میں کوئی واضح سوچ بھی موجود نہیں۔ سب سے پریشان کن چیز سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور یک سوئی کے باب میں متضاداشاروں کا ظہور ہے۔ ایبٹ آبادکمیشن کی رپورٹ کے نام سے جو دستاویز سامنے آئی ہے اور جس طرح سامنے آئی ہے اس نے سیاسی سطح پر بڑے سوالیہ نشان مرتسم کردیے ہیں۔

ڈرون حملے بند کرانے اور امریکا سے دہشت گردی کی جنگ کے باب میں تعلقات پر مکمل نظرثانی قوم کے لیے اوّلین ترجیح کا عالمی مسئلہ تھا اور ہے۔ توقع تھی کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ(ن) نے مناسب ہوم ورک کررکھا ہوگا جس کا وہ عندیہ بھی دیتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے کوئی واضح خطوطِ کار موجود نہیں ہیں اور خود اپنے منشور میں جو باتیں انھوں نے کہی ہیں، ان کو بھی کسی واضح اور متعین پالیسی میں ڈھالنے اور قوم کو ساتھ لے کر ایک حقیقی طور پر آزادخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے باب میں ان ۵۰دنوں میں وہ پہلا قدم بھی نہیں اُٹھا سکے۔ نہ معلوم کس مصلحت کے تحت وزیراعظم صاحب نے خارجہ اُمور اور دفاع دونوں شعبے اپنے پاس رکھے ہیں اور عملاً کوئی مستقل وزیر ان اہم ترین شعبوں میں نہیں مل سکا۔ وزیراعظم کے مشیر براے خارجہ اُمور اور سلامتی اور معاون خصوصی کے درمیان بھی ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ عالمِ سیاست کے دو اہم ترین مراکز، یعنی واشنگٹن اور لندن دونوں کے لیے مسلم لیگ(ن) کی حکومت مناسب سفیروں کا انتخاب نہیں کرسکی ہے۔ واشنگٹن میں ڈیڑھ مہینے سے کوئی سفیر نہیں ہے اور لندن میں زرداری صاحب کے معتمدخاص  سفارتی تجربہ نہ رکھنے کے باوجود بطور ہائی کمشنر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں آیا ہے، اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ افغانستان سے تعلقات پر کھچائو اور بے اعتمادی کے سایے صاف نظرآرہے ہیں۔ طالبان امریکا مذاکرات کی جو دگرگوں کیفیت ہے، وہ پاکستان کے لیے بھی بڑے مسائل پیدا کر رہی ہے اور آگ بجھانے کی کچھ کوششیں تو ہورہی ہیں لیکن اصل مسئلہ یعنی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ سے نکلنے اور اس آگ سے خود افغانستان کو بچانے کے لیے جس داعیے (initiative) کی ضرورت ہے، اس کے اِدراک کا دُور دُور پتا نہیں۔

بہارت دوستی اور درست ترجیحات کا فقدان

خارجہ پالیسی کا سب سے تشویش ناک پہلو بھارت کے بارے میں نہایت سطحی اور جذباتی انداز میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ پالیسی اشارے ہیں جو ناقابلِ فہم ہیں۔ انتخابی نتائج کے آتے ہی بھارت سے پینگیں بڑھانے کا عندیہ دیا گیا۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ وفد کے سامنے جن جذبات کا اظہار کیا گیا اور جن میں تحریکِ پاکستان کے مقصد ِ وجود تک کی نفی کردی گئی، اس نے پوری قوم کو چونکا دیا۔ اگر تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قوموں اور دو تہذیبوں کا اپنا اپنا مستقل وجود ہی محض ایک واہمہ تھا تو پھر پاکستان کا جواز ہی کہاں باقی رہتا ہے۔ یہ بات اگر بھارت میں گونجنے والی آواز کی بازگشت نہیں تو کیا ہے؟ پھر بھارت کے وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں بلانے کی بات کسی ہوم ورک کے بغیر اور ان کے ٹکے سے جواب کے بعد بھی شیروشکر ہونے کی باتیں کن عزائم کی غماز ہیں؟ بھارت میں ان د و مہینوں میں پاکستان کے خلاف اور خصوصیت سے کشمیر میں جس طرح بے دردی سے نوجوانوں کا قتل اور قرآنِ پاک کی بے حُرمتی ہورہی ہے، اس پر قرارواقعی ردعمل کا فقدان، بلکہ اس سب کے باوجود تجارت ہی نہیں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز قومی سلامتی کے باب میں کسی اعلیٰ اور جامع وژن اور ملک کے حقیقی مفادات کے باب میں صحیح ترجیحات کے فقدان کی بدترین مثال ہے۔

بھارت امریکا کے تعاون سے پاکستان میں، افغانستان میں اور اس پورے خطے میں جو کھیل کھیل رہا ہے، اس کو نظرانداز کرکے خوش فہمیوں پر مبنی جو اقدام کیے جارہے ہیں خواہ ان کا تعلق معیشت اور تجارت سے ہو یا سیاسی تعلقات اور بنیادی تنازعات کے بارے میں صحیح رویے سے،     وہ کم سے کم الفاظ میں نہایت غیرحقیقت پسندانہ اور ملکی سلامتی پر منفی اثرات رکھنے والے ہیں۔ بھارت سے دوستانہ تعلقات ہم بھی چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی قربانی یا ان کو  پسِ پشت ڈالنے کی قیمت پر نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک ناکامی کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مؤثر اور مضبوط ردعمل پاکستان کی طرف سے مؤثر ردعمل ظاہر نہ کیا جانا ہے۔ نیز عالمی سطح پر ان اُمور کو جس طرح ہمیں اُجاگر کرنا چاہیے تھا، اس کی کوئی فکر دُور دُور نظر نہیں آتی ہے۔ کشمیر میں نوجوان روزانہ اپنے خون سے اپنا احتجاج رقم کر رہے ہیں اور قرآن کی بے حُرمتی کے واقعے پر سروں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت بے جان تحفظات کے اظہار کے تکلف سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔

بھارتی پارلیمنٹ پر دسمبر ۲۰۰۱ء کے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان کو دیا تھا اور ایک سال تک بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحدوں میں کیل کانٹے سے لیس کارروائی کے لیے پَر تولتی رہیں،اب اس واقعے کے بارے میں بھارت کے ایک سابق انڈر سیکرٹری نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک حلفیہ بیان دیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ حملہ کسی پاکستانی گروہ کے ایما پر نہیں خود بھارت کی اپنی ایجنسیوں کے ایما پر ہوا تھا اور سارا منصوبہ خود انھی کا تیار کردہ تھا۔ لیکن ہماری وزارتِ خارجہ کا یہ عالم ہے کہ اس نے صرف وضاحت حاصل کرنے کا تکلف کیا ہے اور عالمی سطح پر اس سے جو فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا اس کا کوئی احساس دُور و نزدیک نظر نہیں آتا ہے۔ حالانکہ صرف یہ بیان ہی بھارت کی ایجنسیوں کے اس معاملے میں کردار کا غماز نہیں، اس سے پہلے خود بھارت کے آزاد مبصرین اور محقق اس راے کا اظہار کرچکے ہیں جس کی تفصیل خود بھارت کی پینگوئن پبلشرز کی شائع کردہ کتاب The Strange Case of The Parliament Attack میں موجود ہے جو ۲۰۰۶ء میں واقعے کے پانچ سال بعد شائع ہوئی ہے، اور جس میں بھاررت کی مشہور دانش ور ارون دھتی رائے نے اس پورے واقعے کے بارے میں ۱۳سوال اُٹھائے ہیں اور صاف الفاظ میں وہی بات کہی ہے جو اب بھارتی وزارتِ داخلہ کا انڈرسیکرٹری روی شنکرمانی ، بھارت کے خفیہ ایجنسی کے افسر ستیش چندرا ورما  کی روایت کی روشنی میں کہہ رہا ہے۔ گویا اس کے اور ممبئی کے ۲۰۰۸ء کے خونیں واقعے کے پیچھے خود بھارت کا ہاتھ تھا اور یہ دونوں خونی ڈرامے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے گئے۔ ارون دھتی رائے جس نتیجے پر ۲۰۰۶ء میں پہنچی، وہ اسی کے الفاظ میں پڑھنے کے لائق ہے کہ سات سال پہلے اس نے وہی بات کہی جو آج سپریم کورٹ میں حلف نامے پر کہی جارہی ہے اور پاکستان کی قیادت منہ میں گھونگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ اپنے ۱۳سوالات کی روشنی میں ارون دھتی رائے کہتی ہے:

ان سوالات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ نااہلیت سے بہت زیادہ سنگین صورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو الفاظ ذہن میں آتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں: شرکت، سازش، خفیہ سازباز۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدمے کا جھوٹا اظہار کریں اور نہ ان خیالات کے سوچنے یا ان کو بلندآواز میں کہنے سے پیچھے ہٹیں۔ حکومتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ایک پرانی روایت رکھتی ہیں کہ اس طرح کے اسٹرے ٹیجک واقعات کو، جیساکہ یہ ہے، اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں (دیکھیے: جرمنی میں Reichstag کا جلنا اور ۱۹۳۳ء میں نازی طاقت کا عروج یا آپریشن گلے ڈیو جس میں یورپی    خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں خود کیں، خصوصاً اٹلی میں، جن کا مقصد جنگ جوُ گروہوں جیسے Red Brigades کو منتشر کرنا خیال کیا جاتا ہے۔  (دی گارڈین، لندن، India's Shame از ارون دھتی رائے، ۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ء)

واضح رہے کہ ممبئی حملے کے بارے میں صرف مانی اور ورما کے بیانات سوالیہ نشان نہیں اُٹھا رہے، ممبئی حملے میں جس طرح سمجھوتا ایکسپریس کے بارے میں بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کے کردار کا راز فاش کرنے والے پولیس افسر کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اور پھر جس طرح حال ہی میں  حصولِ معلومات کے حق (Right to Information) کے ذریعے حاصل کی جانے والی معلومات کے ذریعے یہ حقائق سامنے آئے کہ ممبئی کے میونسپل آفس سے اس تاج محل ہوٹل کے بارے میں جو اس واقعے کا مرکزی مقام تھا، تمام میونسپل ریکارڈ غائب کردیے گئے ہیں جسے بھارتی اخبارات نے ایک بڑا سیکورٹی رسک قراردیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، ایوننگ نیوز ڈائجسٹ، ۱۶جولائی ۱۳،۲۰ء رپورٹ کا عنوان: Taj Hotel Files went Missing before 26/11 attacks)

بات ذرا طویل ہوگئی لیکن مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ بھارت سے دوستی کے شوق میں ہماری قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کے ذمہ دار کس طرح زمینی حقائق کو نظرانداز کررہے ہیں، اور وہ پاکستان کے خلاف بھارت کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کرنے اور اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کے مواقع کو ضائع کر رہے ہیں۔

ہم بڑی دل سوزی کے ساتھ وزیراعظم صاحب کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے اُمور پر لب کشائی سے پہلے ٹھنڈے غوروفکر سے کام لیں اور خارجہ سیاست کے نشیب و فراز سے واقف ماہرین سے مشورہ کرلیا کریں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم بھارت سے معاملات کو اس مقام سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں ۱۹۹۹ء میں واجپائی صاحب کے ساتھ طے ہوئے تھے۔ ان کی خواہشات اپنی جگہ، اوّل تو جو کچھ اس موقع پر ہوا وہ نمایش زیادہ اور حقیقت (substantion)  کم تھا۔ پھر لاہور کی بس ڈپلومیسی کے بعد کارگل واقع ہوا۔ جس نے حالات کو بدل دیا۔ اس زمانے میں بھارت میں بی جے پی کی پوزیشن اور سیاسی کردار میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوچکا ہے۔ دسمبر ۲۰۰۱ء اور جولائی ۲۰۰۸ء کے دہلی اور ممبئی کے ڈراموں نے حالات کو بدل دیا ہے۔ بھارت امریکا تعلقات میں اس زمانے میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں انھوں نے پوری علاقائی سیاسی بساط کو متاثر کیا ہے۔ افغانستان اور بلوچستان میں بھارت کے کردار نے بھی مستقبل کے سیاسی منظرکو متاثر کیا ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات کے نشیب و فراز بھی ہوا کے نئے رُخ کا پتا دے رہے ہیں۔ کشمیر میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ڈیم تعمیر کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ اپنے خاص تقاضے رکھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان ۱۴برسوں میں برعظیم کے سیاسی پُلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور اب ۱۹۹۹ء کے پروسس کا اُس مقام سے بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خواہش کی بحالی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مشرف نے اس زمانے میں کشمیر کے مسئلے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کے منفی اثرات بھی ناقابلِ انکار ہیں۔ نئی پالیسی کو اصولی پوزیشن ، زمینی حقائق اور ملک کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی روشنی میں مرتب کیا جانا چاہیے۔ شاعرانہ خوش خیالیوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ انھیں بھارت کے بارے میں اپنی سوچ پر بنیادی نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ وہ خدانخواستہ پاکستان کے مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ریاست کے اُمورپر اگر ’عمرا جاتی‘ کے جذباتی احساسات کا سایہ پڑنے دیا جائے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں ہم پوری دردمندی سے ان کو متنبہ کرنا اپنا دینی اور ملّی فرض سمجھتے ہیں۔

اس سلسلے کی سب سے تکلیف دہ اور شرمناک مثال دفترخارجہ کا وہ بیان ہے جو بنگلہ دیش کے بارے میں دیا گیا ہے۔ وہاں کی عوامی لیگی حکومت ۱۹۷۱ء کے واقعات کے سلسلے میں جنگی جرائم کے نام پر ایک ڈراما کر رہی ہے جو دو سال سے جاری ہے۔ اس نتیجے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب اور جماعت اسلامی کے پانچ قائدین کو شرمناک سزائیں دی گئی ہیں۔ ان کا ہدف صرف جماعت اسلامی کی قیادت نہیں بلکہ پاکستان، اس کی حکومت اور فوج ہے جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہورہا ہے۔ جس مقدمے کا سارا بھانڈا خود لندن کے اکانومسٹ نے ٹربیونل کی غیرقانونی کارروائیوں کے پورے ریکارڈ کی بنیاد پر پھوڑا ہے، جس پر کئی مسلم اور مغربی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج کیا ہے اور  اس کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام گذشتہ پانچ مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں اور سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں اور ۵۰ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہیں، لیکن شرم کا مقام ہے کہ ہمارے دفترخارجہ کے ترجمان اسے بنگلہ دیش کا ’داخلی معاملہ‘ فرما رہے ہیں۔

امن و امان کی دگرگوں صورتِ حال

بدقسمتی سے داخلی میدان میں بھی ان دنوں میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی اور  ع

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے

سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی، لاقانونیت، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور جرائم پر قابو پانے کا تھا لیکن چند خوب صورت بیانات کے سوا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے دامن میں کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ ہر روز اسی طرح شکوہ سنج ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس کے احکامات سے اسی طرح رُوگردانی کی جارہی ہے جس طرح ماضی میں ہورہی تھی۔ لاپتا افراد بھی اسی طرح لاپتا ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے( جولائی ۲۰۱۳ء میں سپریم کورٹ نے ۵۰۴ لاپتا افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے مزید ۲۵۴ کا)، اور بوریوں میں لاشیں اسی طرح مل رہی ہیں۔ پولیس اور ایف سی کی روز سرزنش ہوتی ہے مگر ’زمیں جُنبد نہ جُنبد گُل محمد ‘کی کیفیت ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عدالت عالیہ کو پولیس کے آئی جی، ڈی آئی جی اور فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے کرنل صاحبان تک کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا پڑ رہے ہیں۔ کراچی اُسی طرح میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ نئے وزیرداخلہ صاحب نے جوش میں ایک مہینے میں حالات درست کرنے کی وارننگ دے دی تھی مگر پھر خود ہی اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ لیاری ہی نہیں پورے شہرقائد میں جس طرح انسانوں کا خون ارزاں ہے اور بھتہ خور جس طرح دندناتے پھررہے ہیں، وہ بڑے بنیادی بگاڑ کی خبر دے رہے ہیں۔ کسی بڑے اقدام کے بغیر ان حالات کی اصلاح ممکن نظر نہیں آرہی۔ اصل وجہ مجرموں سے ناواقفیت نہیں، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت اور سیاسی عزم اور اقدام کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ اپنے ۲۰۱۱ء کے فیصلے میں نام لے کر پولیس اور دوسری ایجنسیوں کی جوائنٹ رپورٹ کے حوالے سے ان عناصر کی نشان دہی کرچکی ہے اور ان کے خلاف باربار اقدام کا مطالبہ کر رہی ہے مگر صوبے کی حکومت حسب سابق غافل ہے اور مرکز ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔

توانائی کا بحران

بجلی اور توانائی کا بحران ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ۴۸۰؍ارب روپے گردشی قرضے کے سلسلے میں ادا کیے جاچکے ہیں لیکن ابھی تک بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کی کمی کی شکل میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔کن اداروں کی کتنی مدد کی گئی ہے اور کن شرائط پر؟ اس کی کوئی تفصیل قوم یا پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آئی ہے۔ جس طرح قومی سلامتی کی پالیسی ایک خواب اور خواہش سے آگے نہیں بڑھ پارہی، اسی طرح قومی توانائی پالیسی بھی ابھی تک پردۂ اخفاء میں ہے، حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایسی تھیں جنھیں حکومت کے بننے کے بعد فوری طور پر واضح شکل میں قوم کے سامنے آنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ایک متعین ٹائم ٹیبل طے ہونا چاہیے تھا جس میں ہر ماہ کا ٹارگٹ ہوتا تاکہ کم از کم ان دونوں میدانوں میں فوری نتائج قوم کے سامنے آنا شروع ہوجاتے۔ کوئی بھی  یہ توقع نہیں رکھتا کہ فقط ایک دو ماہ میں یہ مسائل حل ہوجائیں گے لیکن یہ توقع تو ضرور کی جارہی تھی کہ فوری طور پر نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے ہوگا اور قوم یہ محسوس کرسکے گی کہ ہرماہ ہم اپنی منزل کی طرف چند قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش واضح پالیسی کا فقدان اور عملی نتائج کی طرف پیش رفت کے نقشے کا نہ ہونا ہے۔اندازِ حکمرانی اور نتائج و ثمرات عوام تک پہنچانے کے نظام میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی اور یہ سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔

اچہی حکمرانی کے دعوے کی حقیقت

ہم سیاسی انتقام کو ایک اخلاقی اورقانونی جرم سمجھتے ہیں لیکن اہم قومی اداروں اور دستوری ذمہ داری کے مقامات پر صحیح لوگوں کا شفاف انداز میں تقرر اچھی حکمرانی اور نظامِ کار میں تبدیلی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ سب سے بڑا صوبہ دو مہینے سے گورنر سے محروم ہے۔ سندھ میں ۱۱سال سے ایک ہی شخص سیاسی گٹھ جوڑ کی علامت بنا ہوا ہے۔ اہم قومی ادارے بشمول نیب سربراہ سے محروم ہے اور درجنوں مرکزی اداروں اور پبلک سیکٹر (enterprises) پر وہ لوگ براجمان ہیں جو اہلیت اور صلاحیت کو نظرانداز کرکے ذاتی یا گروہی مفادات کی خاطر مقرر کیے گئے تھے جو ان اداروں کی تباہی اور قومی وسائل کے ضیاع کا سبب رہے ہیں، لیکن آج تک نہ نئے افراد کے تقرر کا شفاف نظام بنایا گیا ہے اور نہ صحیح افراد کے تقرر کا عمل شروع ہوا ہے۔ بدقسمتی سے جہاں نئی تقرریاں ہوئی ہیں وہاں وہی پرانی روش جاری ہے۔ اس سلسلے میں پی آئی اے کی مثال میڈیا میں آرہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود، نئی حکومت بھی مناسب اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔ شخصی پسندوناپسند اور ذاتی وفاداریوں، دوستیوں اور احسانات کا بدلہ اُتارنے کے عمل کے تاریک سایے آج بھی منڈلاتے نظرآرہے ہیں۔ پنجاب میں لگژری مکانات پر ٹیکس ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ وزرا اور بااثرافراد کے اپنے لگژری مکانات کو کیٹگری ۲ میں لانے کے بارے میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ اسی بیماری کا پتا دیتی ہے جس کے علاج کے لیے قوم نے قیادت کی تبدیلی کا اقدام کیا تھا۔ سرکاری وسائل کا شخصی استعمال اب بھی ہورہا ہے۔ اگر زرداری صاحب اپنے سرکاری دوروں پر بلاول اور آصفہ کو لے جاتے تھے تو اب چین کے دورے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اپنے صاحب زادوں کو لے کر گئے ہیں حالانکہ ان کو ایسے اہم اور حساس سیاسی دوروں میں شامل کیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ قوم سابقہ دور کی کرپشن سے بے زار تھی اور روزانہ سپریم کورٹ میں اُس دور کی کرپشن کے کسی نہ کسی واقعے کی شرمناک داستان بے نقاب ہورہی ہے۔ سابقہ حکمرانوں نے ترقیاتی فنڈز کو جس طرح ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے وہ شرمناک ہی نہیں مجرمانہ فعل ہے جس پر قانون کے مطابق گرفت ہونی چاہیے۔

ہم توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے تمام دروازوں کو بند کرے گی اور سپریم کورٹ جس طرح بدعنوانی کے ایک ایک معاملے کو بے نقاب کر رہی ہے، حکومت نہ صرف  ان اتھاہ کنوئوں(bottomless sinks) کو بند کرے گی بلکہ قوم کی لُوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں واپس لائے گی اور کرپشن کے ان شہزادوں کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا دلوائے گی۔ لیکن وزیراعظم کے حالیہ چینی دورے کے ضمن میں جو اطلاعات اخبارات میں آرہی ہیں، وہ بڑی پریشان کن ہیں اور ان کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ نندی پور پروجیکٹ کے باب میں سابق حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی اور مشینری ایک سال سے بندرگاہ پر پڑی سڑ رہی تھی، اس پروجیکٹ کو بحال کرنا ایک مفید اقدام ہے لیکن یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ ۳۳؍ ارب روپے کے اس پروجیکٹ کو چشم زدن میں ۵۷؍ارب روپے کا کیسے بنا دیا گیا اور چشم زدن میں متعلقہ وزارت کی سمری اور پلاننگ کمیشن سے منظوری اور غالباً وزارتِ مالیات کی طرف سے رقم کی فراہمی، یہ سب کیسے ہوا؟ اخباری اطلاعات ہیں وزارتِ خزانہ نے انکوائری شروع کردی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ سب ہوا کیوں؟ اس سلسلے میں ایک سابق ایم ڈی پیپکو کا ایک خط بھی اخبارات میں آیا ہے جس سے بڑی ہولناک صورت حال سامنے آرہی ہے (ملاحظہ ہو روزنامہ دنیا کا کالم ’میرے دوستوں کو اتنی جلدی کیوں؟‘)۔ اس کا فوری سدباب ضروری ہے۔

تبدیلی کی سمت؟

ہم سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کو مناسب موقع ملنا چاہیے لیکن نئی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ واضح پالیسیوں کا اعلان کرے، پالیسیوں پر عمل درآمد کا نقشۂ کار قوم کے سامنے لائے۔ اس نقشے کے مطابق احتساب کا نظام مرتب کیا جائے جس پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل ہو اور قوم اور پارلیمنٹ کو ہرقدم پر پوری طرح باخبر رکھا جائے۔ میڈیا کو بھی پوری دیانت اور ذمہ داری سے مگر کسی مداہنت کے بغیر نگران (watch-dog)  کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حزبِ اختلاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور تمام اہم اُمور پر احتساب کا فریضہ پوری ذمہ داری اور مستعدی سے انجام دیں۔

اس سلسلے میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان پر خصوصی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ قوم کے ضمیرکا کردار ادا کریں اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو عوام کے حقوق کے تحفظ اور  قوم کے وسائل کے صحیح استعمال کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کریں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی اصل رپورٹ کو فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنا چاہیے تاکہ وہ کنفیوژن ختم ہو جو ایک ابتدائی مسودے کے ایک پُراسرار انداز میں شائع کیے جانے سے رُونما ہوا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے سلسلے میں بھی حکومت اور پوری انتظامیہ کے رویے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان فیصلوں پر ٹھیک ٹھیک عمل ہو۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر حکومتیں اور ریاست کے تمام ادارے اپنے اپنے کام ٹھیک ٹھیک انجام دیں تو عدالتوں کو انتظامی اُمور میں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ عدالتوں کو اس میدان میں احکام جاری کرنے کی ضرورت بھی صرف اس وجہ سے پڑرہی ہے کہ حکومت اور دوسرے ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے اور لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یا عدالت کو خود نوٹس لینا پڑتا ہے تاکہ ذمہ دار اداروں کی بے حسی پر ضرب لگا سکے۔ اندازِ حکمرانی کی فوری اصلاح ہی سے حالات صحیح رُخ پر آسکتے ہیں۔

ہم ہرگز معجزات کی توقع نہیں رکھتے لیکن قوم کا یہ حق ہے کہ کم از کم اس کے سامنے یہ چیز تو آئے کہ تبدیلی کی سمت کیا ہے اور منزلِ مقصود کی طرف کوئی قدم اُٹھ بھی رہا ہے یا نہیں۔ سفر بلاشبہہ طویل ہے اور قوم صبروہمت کے ساتھ راستہ کاٹنے کے لیے تیار ہوگی اگراسے یہ نظر آئے کہ منزل کا ٹھیک ٹھیک تعین ہوگیا ہے، پالیسیاں واضح ہیں، نقشۂ کار سب کے سامنے ہے، اور عملاً قدم اس سمت میں اُٹھائے جانے لگے ہیں۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی چیز بھی نظر نہ آئے اور تبدیلی ایک سراب سے زیادہ نہ ہو تو پھر  ع

میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں!