پروفیسر خورشید احمد


اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں ہے جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی زندگی کی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند افکار اور چند رسوم و رواج پر مشتمل ہو۔ اس کے برعکس یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خدائے بزرگ و برتر اور اس کے نبی صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے، اور حیاتِ انسانی کے ہرپہلو کو خداکے نُور سے منور کرتا ہے۔ خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، اورملکی ہو یا بین الاقوامی ۔ اسلام کی اصل دعوت یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دُنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہرگوشے تک خالقِ حقیقی کی مرضی پوری ہو۔ اور یہ کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا، جو ایک طرف اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلیتا ہے، اور دوسری طرف خدا کے دین کو تمام روئے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔

اسلام کا انقلابی پروگرام

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے جس دین کو پسند فرمایا ہے وہ اسلام ہے، اس کو چھوڑ کر جو راہ بھی اختیار کی جائے گی، وہ دُنیا اور آخرت میں ناکامی اور نامرادی کی راہ ہوگی:

  • اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ (اٰل عمرٰن۳:۱۹) بے شک خدا کے نزدیک تو اصلی دین اسلام ہے۔
  • وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج (اٰل عمرٰن۳:۸۵) اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

اپنے پیرووں سے اس دین کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اس کے تابع کردیں اور زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اسی دین سے حاصل کریں اور کسی دوسرے سرچشمہ کی طرف رجوع نہ کریں ورنہ ان کی یہ روش شیطان کی پیروی کے مصداق ہوگی:

  • يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۰۸)اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کی راہ پر نہ چلو۔

’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی میں صرف ہو۔ ہم اپنی تمام انفرادی اور اجتماعی، نجی اور معاشرتی، معاشی اور سیاسی، اخلاقی اور تمدنی سرگرمیوں کو خدا کی ہدایت کے تابع کردیں۔ صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے روشنی طلب کریں۔جھکیں تو صرف اس کے آگے، مانگیں تو صرف اس سے، رجوع کریں تو صرف اس کی طرف، بڑھیں تو صرف اسی کی راہ پر۔ ہمارا مقصد صرف خالق و مالک کی رضا کا حصول ہو اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ناراضی کی پروا نہ کریں۔ یہی معنی ہیں اسلام کے اور یہی حقیقت ہے توحید کی۔

پھر دین میں پورے داخل ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہمارا مقصد ِ زندگی اپنی ذاتی اغراض کا حصول نہ ہو، بلکہ ہم اپنی زندگیوں کو ایک اعلیٰ تر نصب العین کے لیے وقف کردیں اور یہ نصب العین ہے اقامت دین اور غلبۂ حق!

فریضہ اقامتِ دین

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا ؑ کو جس مقصد کے لیے بھیجا وہ یہی مقصد ِ اعلیٰ تھا کہ انسانوں تک حق کی دعوت کو پہنچائیں، بالآخر دین کو غالب اور خدا کے کلمہ کو ہرچیز پر بلند کردیں:

  • ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْـرِكُوْنَ۝۹ۧ (الصف ۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں (اور نظاموں) پر غالب کردے ، خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

انبیائے کرام علیہم السلام کا بنیادی فریضہ یہی تھا کہ حق کی شہادت دیں اور زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع کردیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کام آپؐ کی پوری اُمت کے سپرد کیا گیا ہے کہ وہ اس شمع کو روشن رکھے، جسے انبیاعلیہم السلام نے روشن کیا۔ اس جھنڈے کو بلند رکھے جسے ان مقدس ہستیوں نے اُٹھایا تھا اور قیامت تک قیامِ دین کی جدوجہد میں مصروف رہے:

  • وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳)اور اس طرح ہم نے تم کو وسط شاہراہ پر قائم رہنے والی اُمتِ وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اللہ کے دین کی) گواہی دو اور رسولؐ تم پر (اللہ کے دین کی) گواہی دے۔
  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ (النساء۴:۱۳۵) اے ایمان والو! حق کے برپا کرنے والے بنو، اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے۔

اس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے ’خیرِ اُمت‘ بنایا ہے اور اس کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ دین کو قائم کرے، نیکیوں کا حکم دے اور بُرائیوں کو روکے اور خدا کی طرف انسانوں کو بلائے:

  • كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم بہترین اُمت ہو جو انسانوں کے لیے برپا کیے گئے ہو۔ نیکی کا حکم دیتےہو، بُرائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

یہ ذمہ داری پوری اُمت کی ہے اور اس اُمت کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کارِعظیم کو انجام دینے کے لیے ایک منظم ادارے کی شکل اختیار کرے اور اگر خلافت علیٰ منہاج النبوت کا یہ ادارہ موجود نہ ہو تو پھر فرداً فرداً ہرشخص اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ذمہ دارہے، اور ان افراد کا فرض ہے کہ اس کوانجام کو دینے کے لیے وہ مناسب صورت اختیار کریں:

  • وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴  (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) اور چاہیے کہ تم میں سے ایک گروہ ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ تین باتیں واضح ہوجاتی ہیں:

            ۱-         اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم ہرقسم کے شرک کو ترک کردیں اور اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں دے دیں۔

            ۲-         ہماری ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ دین کو اپنی ذات پر قائم کریں بلکہ بحیثیت مسلمان یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ دین کو قائم کریں، اور خدا کے بندوں کو ظلم کے غلبے سے نجات دلا کر دینِ حق اور امن وعدل کی طرف لائیں۔

            ۳-         اقامت ِدین کا یہ فریضہ پوری اُمت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک طرف خود دین کے قیام کی جدوجہد کریں، اور دوسری طرف دین کی سربلندی اور اس مرکزی نظامِ امر کے قیام کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں تاکہ اُمت پوری شانِ مرکزیت کے ساتھ دعوت الی الخیرکا عظیم کام انجام دے سکے۔

یہ ہے ہم سب مسلمانوں سے اسلام کا ناقابلِ انکار مطالبہ!

جماعت اسلامی کا مقصد

آج پورے عالم اسلام میں مسلمان جن مشکلات اور مصائب سے دوچار ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں اپنے ’خیراُمت‘ ہونے کا احساس باقی نہیں رہا ہے، اور وہ اپنے مسائل کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں حل کرنے کے بجائے محض اپنی ناپختہ عقل اور تجربات یا وقت کے چلتے ہوئے نظاموں کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح فی الحقیقت اپنی مشکلات کو پیچیدہ تر کرتے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے فلاح کی صرف ایک راہ ہے اور وہ ہے محمد رسولؐ اللہ کے دین کی اطاعت اور اس دین کے قیام کی راہ۔

جماعت اسلامی کے قیام کا اصل محرک قرآن و سنت کے واضح احکام اور مسلمانوں کی تاریخ کے ناقابلِ انکار تقاضے ہیں۔ یہ جماعت نہ ان محدود معنی میں ایک مذہبی یا اصلاحی جماعت ہے، جن میں یہ الفاظ عام طور پر بولے جاتے ہیں، اور نہ ان معنوں میں ایک سیاسی جماعت ہے، جن میں سیاسی محاورے میں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی ایک اصولی اور نظریاتی تحریک ہے، جو پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور عالم گیر نظریۂ حیات پر یقین رکھتی ہے اور اس کو قائم کرنے کے لیے ایک واضح پروگرام رکھتی ہے۔ یہ جماعت دینِ حق کو انسانی عقائد و افکار میں، اخلاق و عادات میں، علوم و فنون میں، ادب و آرٹ میں، تمدن و تہذیب میں، مذہب و معاشرت میں، عدالتی و معاشی معاملات میں، سیاست اور نظمِ مملکت میں اور بین الاقوامی تعلقات و روابط میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔

جماعت اسلامی دنیا کے بگاڑ کا حقیقی سبب اخلاقی بگاڑ کو سمجھتی ہے۔ اس کی نگاہ میں تمام خرابیوں کا مرکز، خدا کی اطاعت سے انحراف، آخرت کی جواب دہی سے بے نیازی اور انبیا علیہم السلام کی رہنمائی سے رُوگردانی ہے۔ یہ جماعت نوعِ انسانی کے لیے فلاح کی صرف ایک ہی صورت دیکھتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور گوشوں سمیت خدائے واحد کی بندگی و اطاعت کے اصول پر قائم ہو۔ یہ بندگی و اطاعت آج اپنی صحیح اور کامل صورت میں صرف سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی میں موجود ہے، اور جس کی عملی صورت ہمیں آپ کے اسوئہ مبارکہ میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے میں ملتی ہے، اور افراد کی سیرتوں سے لے کر قوموں کے اجتماعی طرزِ عمل تک ہرچیز کو اس اخلاقی رویے پر قائم کیا جائے جس کی بنیاد آخرت کی جواب دہی کے احساس پر رکھی گئی ہو۔ اس جدوجہد کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یہی جماعت اسلامی کا مقصد و نصب العین ہے اور اس کو جماعت کا دستور اس طرح پیش کرتا ہے:

جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔ اور اس نصب العین کی یہ تشریح دستور میں کی گئی ہے:

’اقامت ِدین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے ، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہویا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزے اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے اور ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو بطورِ خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہل ایمان کو اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اگرچہ مومن کا اعلیٰ مقصد ِ زندگی ، رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دُنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے، اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین رضائے الٰہی ہے، جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ۴)

جماعت اسلامی کی دعوت

جماعت اسلامی کی دعوت تمام انسانوں کو، بالخصوص مسلمانوں کو یہ ہے:

  • خدا کی بندگی کرو، خدا کو پورے معنی میں الٰہ، ربّ، معبود، حاکم، آقا، مالک، ہادی، قانون ساز، محاسب اور جزا دینے والا تسلیم کرو اور پوری زندگی کو اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کردو اور زندگی کا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلائو۔
  • جو شخص اسلام کو قبول کرنے اور ماننے کا دعویٰ کرتا ہے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ اپنی زندگی سے منافقت،دو رنگی اور تناقض کو دُور کردے۔ منافقانہ رویہ یہ ہے کہ انسان جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے، اس کے بالکل برخلاف نظامِ زندگی کو اپنے اُوپر مسلط پاکر راضی اور مطمئن رہے اور اس کو بدل کر اپنے دین کو غالب کرنے کی کوئی جدوجہد نہ کرے۔ ہرمسلمان سے ہم کہتے ہیں کہ آیئے! اپنی زندگیوں سے دو رنگی اور دو رُخے پن کو دُور کریں اور مخلص مسلمان بنیں۔ صرف خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین پر راضی ہوجائیں اور سب اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائیں۔
  • اپنے آپ کو بندگی ٔ ربّ کے حوالے کردینا، اور اپنی زندگیوں کو تناقضات سے پاک کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس اجتماعی نظام میں انقلاب چاہیں، جو آج لادینیت،فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور اس نظام کی جگہ اسلام کا حیات آفرین نظام قائم کریں۔ دُنیا کے معاملات کی باگ ڈور جو آج ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو خدا کی ہدایت سے بے نیاز اور اس کے قانون کے باغی ہیں، ان کی گرفت سے نکل کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں آئے، جو خدا کے مطیع اور فرماں بردار ہیں۔

 قیادت کی یہ تبدیلی ایک ہمہ گیر عمل ہے اور زندگی کے ہرشعبے اور ہر مقام پر یہ تبدیلی واقع ہونی چاہیے۔ جب تک علوم وفنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، ملکی سیاست وعدالت،مالیات، صنعت و حرفت اور تجارت، انتظام ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، غرض ہرشعبۂ زندگی کی قیادت اور امامت خدا کے فرماں بردار بندوں کے ہاتھوں میں منتقل نہیں ہوجاتی، زندگی کا نظام درست نہیں ہوسکتا۔ ہماری دعوت تمام مسلمانوں کو یہ ہے کہ آیئے! دین کو اپنی زندگیوں میں بھی قائم کریں اور پورے نظامِ زندگی پر بھی ۔ یہ ہے صراطِ مستقیم کی دعوت!

جماعت اسلامی کا لائحۂ عمل

اس مقصد کو حل کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے ایک مفصل اور مربوط لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ اس پروگرام پر یہ جماعت مسلسل کام کررہی ہے۔ یہ لائحۂ عمل چار اجزا پر مشتمل ہے:

۱- افکار ونظریات کی اصلاح اور ان کی تعمیر: جماعت کی اوّلین کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں میں وہ ایمان تازہ کیا جائے، جس کی دعوت رسولؐ اللہ نے دی تھی۔ اسلام سے ہماری جذباتی وابستگی بڑی گہری ہے، لیکن ہم اس تفصیلی ایمان اور علم سے محروم ہیں، جو زندگی کو خدا کے قانون کے مطابق گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ پھر ہمارے ذہن و فکر پر ایک طرف ’قدامت‘ کا غلبہ ہے، جو وقت کی حقیقی ضروریات تک کے احساس سے عاری ہے، تو دوسری طرف مغربی فکروفلسفہ کا تسلط ہے، جو ہمارے نوجوان اور ذہین طبقے کو مغرب کی لادینی تہذیب کی طرف کھینچے لیے جارہا ہے۔

جماعت اسلامی کی کوشش یہ ہے کہ ایک طرف غیراسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہِ مستقیم کونمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ ہے۔ تیسری طرف تجدّد پسندی کے اس فتنے کا بھرپور مقابلہ کیا جائے، جو اسلام کے نام پر اسلام ہی کی بیخ کنی میں مصروف ہے اور جو زمانہ کو اسلام کے مطابق چلانے کے بجائے اسلام کوزمانے کےمطابق بدلنا چاہتا ہے۔

جماعت اسلامی، اسلام کی ابدی صداقتوں کو ان کے حقیقی رنگ میں پیش کرنے میں مصروف ہے اور اس کا لٹریچر مسکت دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام ہر زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور دُنیا اور عقبیٰ دونوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔ یہ لٹریچر پوری وضاحت کے ساتھ اس امر کو پیش کرتا ہے کہ دورِ جدید کے مسائل اور معاملات کو اسلام کے مطابق کس طرح حل کیاجاسکتا ہے؟ اور آج کی دُنیا میں قرآن و سنت کے مطابق ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے؟ جماعت اسلامی کے اہل قلم نے اس مقصد کے لیے کتب اور مقالات لکھے ہیں، اور دُنیا کی زبانوں سے لٹریچر کو ترجمہ کرکے مطالعے کے لیے فراہم کیا ہے۔ ہمارے رسالے اور اخبار انھی حقیقتوں کو پیش کر رہے ہیں۔ ہزاروں دارالمطالعے جماعت کی زیرنگرانی اس خدمت کو انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے کارکن گھر گھر لٹریچر پہنچاکر تعمیر افکار کی یہی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ تبدیلی وہی مستقل اور مفید ہوتی ہے، جس کی جڑیں ایمان اور یقین میں ہوں اور جو دل ودماغ میں پیوست ہوں۔

۲- صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت:جماعت اسلامی کے پروگرام کا دوسرا جزو اچھے افراد کی تلاش اور اُمت کے تمام حق پسند عناصر کو ایک مرکز پر جمع کرکے ان کی تمام صلاحیتوں کو دینِ حق کے قیام کے لیے بروئے کار لانا ہے۔

ہم اپنے معاشرے میں ان مردوںاور عورتوں کو ڈھونڈتے ہیں جو پرانی اور نئی خرابیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوں، جن کے اندراصلاح کاجذبہ موجود ہو اور جو حق کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں، خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط، ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں ،ہم انھیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی وعمل میں لانا چاہتے ہیں۔

ایسے لوگ اگر وہ ہمارے نظام کو کُلی طور پر اختیار کرلیں تو ہم انھیں جماعت اسلامی کا ’رکن‘ بنا لیتے ہیں اور اگر وہ رکنیت کی شرئط کو پورا کیے بغیر صرف تائید و اتفاق پر اکتفا کریں تو ان کو اپنے حلقۂ متفقین میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہمارے معاشرے کا صالح عنصر جو منتشر ہونے کی وجہ سے مؤثر نہیں، ایک مرکز پر جمع ہوجائے اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میں لگایا جائے۔ پھر ہم ان عناصر کو منظم ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی سیرت و اخلاق کا تزکیہ کرنے میں مدد فراہم کرتے اور قابلِ اعتماد بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، تاکہ اسلام کے کارکنوں میں وہ صالح سیرتیں اور تعمیری صلاحیتیں پیدا ہوں، جو قرآن و سنت کے مطابق نظامِ زندگی کو تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

۳- اصلاحِ معاشرہ:اس طرح جو قوت جماعت اسلامی کو حاصل ہوتی ہے، وہ اسے معاشرے کی اصلاح اور اس کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر کی جدوجہد میں صَرف کرتی ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کا کام بڑا اہم اور وسیع کام ہے۔ اس میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقِ عامہ کے تحفظ سے لے کر طبّی امداد،یتیموں اوربیوائوں کی مدد،طلبہ کی اعانت تک اور مسجدوں کی تعمیر اور فرقہ واریت سے بالاتر رہتے ہوئے ان کی تنظیم شامل ہے۔ اس طرح ہمارے پیش نظر اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں اس قوت کو منظم کرنے سے لے کر رشوت، خیانت، اخلاق باختگی کے انسدادتک اور تعلیم بالغاں سے لے کر ’اپنی مدد آپ‘ کے اصول پر خدمت ِ خلق کے کاموں تک تمام چیزیں شامل ہیں۔ ہمارے کارکن اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں یہ کام کر رہے ہیں تاکہ اس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے سارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کر خواص تک سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچّے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا ہوسکے۔ مسلمان ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہوں، ان کے مال، جانیں اورآبرو ایک دوسرے سے محفوظ رہیں اور شانہ بشانہ جذبۂ اخوت سے سرشار ایک اعلیٰ مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔

۴- نظامِ حکومت کی اصلاح: اصلاحِ معاشرہ کے اس کام کے ساتھ ہم اس بات کے لیے بھی جدوجہد کرر ہے ہیں کہ نظامِ حکومت درست ہو اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آئے، جو اسلام کو اپنی زندگیوں پر بھی قائم کریں اور اپنے ملک و ملّت پر بھی۔

زندگی کے موجودہ بگاڑ کو درست کرنے کے لیے اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنا اَزبس ضروری ہے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق اور تقسیمِ رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کےمقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا، اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظام کوفسق و ضلالت کی راہ سے ہٹاکر دینِ حق کے صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں، تو ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسند ِ اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ فائز کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اہل خیروصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند برسوں کے اندر وہ کچھ کرڈالیں گے، جو غیر سیاسی تدبیروں سے مدت تک نہیں ہوسکتا۔

یہ تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے؟ ہمارے نزدیک اس کا مؤثر راستہ انتخابی جدوجہد ہے۔ ضرورت ہے کہ رائے عامہ کی تربیت کی جائے۔ عوام کے معیارِ انتخاب کو بدلا جائے۔ انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح اور باصلاحیت لوگوں کو ذمہ داری اور اختیار کے مقام پر پہنچایا جائے، جو ملک کے نظام کو خالص اسلامی شورائیت کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔

جماعت اسلامی دعوتی، قانونی اور دستوری طریقہ سے ایک اسلامی جمہوری نظام قائم کرنے کی داعی ہے۔ وہ اپنے لیے نہیں، اسلام کے لیے اقتدار چاہتی ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ ملّت کا صالح ترین عنصر اس کی زمامِ کار سنبھالے، تاکہ مسائل اُلجھنے کے بجائے سلجھیں اور ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔

جماعت اسلامی کا یہ مستقل پروگرام ہے اور اس لائحہ عمل کے ذریعے وہ ملک کی پوری زندگی پر دینِ حق کو قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ یہ ملکِ عزیز پوری دُنیا کے سامنے دین کی شہادت دے۔

جماعت اسلامی کی خصوصیات

جماعت اسلامی چند بنیادی خصوصیات کی بنا پر دوسری تنظیموں اور اداروں سے الگ ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:

۱- اصولی تحریک:جماعت اسلامی ایک اصولی اوردینی تحریک ہے، جو پورے نظامِ زندگی پر اسلامی نظریۂ حیات کو غالب اور حکمران کرنا چاہتی ہے۔ اس تحریک کا تعلق نہ کسی خاص گروہ سے ہے اور نہ کسی خاص مقام سے۔ اس کےدروازے ہراس شخص کے لیے کھلے ہیں، جو خدا کو اپنا حاکم اعلیٰ، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اورہادی، اورآپؐ کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنی زندگی کا ضابطہ مانتا ہو۔ اس میں نہ رنگ کی تفریق ہے، نہ نسل کی، نہ مقامی عصبیت کا اس میں کوئی دخل ہے اور نہ علاقائی تعصب کا۔ یہ تمام انسانوں کو ایک کلمۂ حق پر جمع کرتی ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی کی بنیاد خدا اور اس کے آخری رسولؐ کی ہدایت ہے۔ اس میں بڑائی اور عزّت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ اس کا مسلک اورمشن صرف اسلام ہے۔ یہ اس فرد،ادارے اور تنظیم کی دوست ہے جو اسلام کو دوست رکھے اور اس کے مدِمقابل ہے جواسلام سے غداری کرے۔ یہ اس سے جڑتی ہے جو اسلام سے جڑے، اور اس سے کٹتی ہے جو اسلام سے کٹے۔ اس تحریک میں اسلام اور بنی آدم سے محبت ہے اور کسی عصبیت کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

۲- اجتماعی تحریک :جماعت اسلامی ایک اجتماعی تحریک ہے۔ یہ اسلام کی دعوت کو صرف نظری اور کتابی حدتک ہی پیش نہیں کرتی، بلکہ یہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسے عملاً قائم کرنے کےلیے سرگرم ہے۔یہ جذبۂ جہاد کو بیدار کرتی ہے۔ یہ منکرکے خلاف تمام قوتوں کو صف آرا کرتی ہے اور معروف کےقیام کے لیے اپنی ساری طاقتیں صرف کر رہی ہے۔ اس کا اصل میدان گوشۂ عافیت نہیں ہے، بلکہ کارزارِ حیات ہے۔ یہ دُنیا سے فرار کی نہیں دُنیا کی تسخیر کی داعی ہے۔ اس کا کام صرف وعظ و تلقین تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ عملی جدوجہد کررہی ہے اور حق کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ یہ معاشرے کی ایک قوت ہے اور اجتماعی زندگی کے رُخ کو موڑ کر اسے دینِ حق کے تابع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ زندگی سے بھاگنے والوں کے لیے جائے امان نہیں، بلکہ حق کی خاطر جان د ینے والوں کی ’شہادت گہِ اُلفت ‘ ہے۔

۳- انقلابی دعوت: جماعت اسلامی ایک مثبت ، جامع اور ہمہ گیر انقلاب کی داعی ہے۔ یہ طاغوت سے مصالحت کے بجائے اس کے پورے نظام سے پنجہ آزمائی کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ کسی جزوی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر تبدیلی کے لیے کام کرر ہی ہے۔ یہ زندگی کے سارے شعبوں کی اصلاح و تعمیر چاہتی ہے اور اس انقلاب کی دعوت دیتی ہے، جسے رسولِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا، جسے آپؐ کے راشد خلفاء نے مستحکم کیا تھا۔ جس کا سرچشمہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ ہیںاور جس کی دعوت ہردور اورہرزمانہ میں صلحائے اُمت دیتے رہے ہیں۔ یہ تمام انسانوں کو شخصیات کی طرف بلانے کے بجائے قرآن و سنت کی اصولی دعوت اور جدوجہد کی طرف بلاتی ہے۔

۴- نظامِ صلاح واصلاح : جماعت اسلامی ایک نظامِ صلاح و اصلاح ہے۔ یہ تعمیرِاخلاق اور تشکیلِ سیرت کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دلوں کو نفاق سےاورزندگی کو بدعملی سے پاک کرنا چاہتی ہے۔یہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تمام انسانوں کی، خصوصاً ان لوگوں کی زندگیوں کا، جو اس کی دعوت پر لبیک کہیں، کردار سازی کے عمل کے ذریعے ان کو اسلام کا سچا نمایندہ بنانا چاہتی ہے۔ اس کامقصد صرف خارجی دُنیا ہی میں تبدیلی نہیں بلکہ قلب و نظر اور اخلاق و سیرت کی بھی اصلاح ہے اور اس طرح یہ ایک نظامِ تربیت بھی ہے۔

۵- فرقہ بندی اور فقہی عصبیت سے  پاک:جماعت اسلامی کی دعوت دین کی اصولی اور کُلی تعلیمات کی طرف ہے۔ وہ کسی فقہی مسلک کی داعی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی فروعی و فقہی مسائل کے دائرے میں کوئی دخل نہیں دیتی۔ اس میں وہ تمام لوگ شریک ہیں، جو دین کو سربلند کرنا چاہتے ہیں، خواہ اس کا تعلق کسی بھی فقہی گروہ سے ہو۔ یہ جماعت فقہی اختلافات سے صرفِ نظر کرتی ہے اور ہرشخص کو اس بات کے لیے آزاد چھوڑتی ہے کہ اپنے فقہی مسلک کے مطابق فروعی معاملات میں جو راہ صحیح سمجھتا ہے، اسے اختیار کرے۔ البتہ یہ جماعت تمام مسلمانوں کو، بلالحاظ فرق و مذہب، شہادتِ حق اور شریعت اسلام کے قیام کی جدوجہد میں مصروف کرتی ہے۔ آج، جب کہ اسلام اور لادینیت کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ برپا ہے۔ جماعت اسلامی فقہی اختلافات میں رواداری اور اعتدال کی تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں کے تمام مکاتب ِ خیال کے پیرووں کو لادینیت و الحاد کے مقابلے میں صف آرا کرنا چاہتی ہے اور دین کی اجتماعی قوت سے کفروضلالت کی قوتوں کے سامنے روک لگانا چاہتی ہے۔

۶- مستقل اور ہمہ گیر دعوت:جماعت اسلامی عام سیاسی جماعتوں سے یکسر مختلف قسم کی جماعت ہے۔ اس کا کام مستقل نوعیت کا ہے اور یہ محض الیکشن کے زمانے میں نمودار ہونے والی تنظیموں میں سے نہیں۔ یہ سیاسی اصلاح و تعمیرمیں تو ضرور مصروف ہے،لیکن محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ یہ ایک فطری تحریک بھی ہے اور نظامِ اصلاح و تربیت بھی ہے۔ تعلیم و تزکیہ کا گہوارہ بھی ہے اور سماجی سدھار اور خدمت ِ خلق کا مرکز بھی ہے۔ یہ جماعت پوری زندگی کی اصلاح کے لیے اُٹھی ہے اوردوسری سیاسی جماعتوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔

جماعت اسلامی کا مقصد ہر طریقے سے اقتدار حاصل کرنا نہیں ہے۔ اس کا اصلی مقصد اسلام کا اقتدار ہے، اپنا اقتدار نہیں۔اس کی ساری جدوجہد اخلاقی اصولوں کے ذریعے ہے اور اس کی نگاہ میں ہر وہ کامیابی ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہے، جو اخلاقی اصولوں کو قربان کرکے حاصل ہو، اور ہروہ شکست گوارا اور عزیز ہے جو اخلاق کی فتح اور سربلندی کا نتیجہ ہو۔

پھر اس کے پیش نظر ’اپنے لوگوں‘ کو برسرِ اقتدار لانا نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ان تمام افراد کو زمامِ قیادت سونپنا ہے، جو اسلام کو اپنی زندگیوں پر بھی نافذ کرتے ہوں اور اسے معاشرے پر بھی قائم کرنے کا عزم و صلاحیت رکھتے ہوں، خواہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہو یا کسی دوسرے تعمیری ادارے یا گروہ سے۔ ہم ہرتعصب کو ختم کرکے اسلام اور صرف اسلام کے لیے قوت و غلبہ چاہتے ہیں اور یہی ہماری بنیادی خصوصیت ہے۔

کونوا انصاراللہ!

ہرشخص بڑے کرب اور بے چینی کے ساتھ یہ دیکھ رہا ہے کہ حالات روز بہ روز بگڑتے جارہے ہیں۔ بُرائیاں پروان چڑھ رہی ہیں اور نیکیوں کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے۔ بدی نہ صرف یہ کہ بڑھ رہی ہے بلکہ منظم ہورہی ہے اور جری ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کی سرپرستی میںثقافت کے نام پر ہماری قیمتی تہذیبی روایات کو پامال کیا جارہا ہے۔ تعلیم، نئی نسلوں کو دین اور تمدن دونوں سے بے بہرہ کر رہی ہے۔ معاشی بے چینی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے ساتھ معاشی فساد بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک عام شہری کےلیے زندگی گزارنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں جمع ہورہی ہے۔ بیرونی قرضوں کی زنجیروں نے پورے ملک کو جکڑ لیا ہے، امن و امان غارت ہوچکا ہے۔ جان اور مال کی کوئی حفاظت باقی نہیں رہی ہے۔ عزّت و آبرو کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔ مایوسی برابر بڑھتی جارہی ہے۔ اس طرح بربادی کی طرف جاتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہنا کسی محب ِ وطن کا کام نہیں ہوسکتا۔

اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ اس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنے کے لیے اُٹھے۔ گیہوں کا ایک دانہ بھی محنت و مشقت اور جہدوکوشش کے اس عمل کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا جو قدرت نے مقرر کردیا ہے ۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے کہ جب اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اس کا سامان فراہم کیا جائے اور اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی جائیں:

  • اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۱) بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے۔

اِن حالات کا تقاضا ہے کہ ہر ذی شعور شہری ملک کی حفاظت اور دین کی مدافعت کے لیے سینہ سپر ہوجائے۔ یہ زمین و آسمان ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حق کو پہچانیں اور اس کے لیے جان کی بازی لگادیں۔ جماعت اسلامی اپنی ساری قوتوں کو اصلاح و تعمیرکی جدوجہد میں لگاچکی ہے۔ اس کا نصب العین، طریق کار اورلائحہ عمل آپ کے سامنے ہے۔ یہ ہرمسلمان کو یہ دعوت دیتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اوراس کا ساتھ دے۔ حق و باطل کی جو کش مکش آج برپا ہے آپ اس کے محض ایک خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور حق کا ساتھ دینے کا عزم لے کر آگے بڑھیں اور خیرواصلاح کی قوتوں کومضبوط کریں اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں عملاً شریک ہوں۔

جماعت اسلامی سے وابستگی کی دو صورتیں ہیں: وہ لوگ جو اپنی زندگیوں کو پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھالنے کا اقرار کریں، فرائض کی پابندی اور کبائر سے اجتناب کریں اور اپنے آپ کو جماعت کے سپرد کردیں، وہ اس کے رکن بن سکتے ہیں، اور جو جماعت اسلامی کے مفید پروگرام اور طریقۂ کار سے اتفاق کریں، لیکن کسی وجہ سے جماعت کی رکنیت کی ذمہ داریاں قبول نہ کرسکیں، وہ جماعت کے متفق بن کر اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جماعت اسلامی آپ کو اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کی طرف بلاتی ہے اورکہتی ہے کہ من انصاری الی اللہ،کون ہے جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرا ساتھی اورمددگار بنے؟

اب یہ فیصلہ کرنا ہرفرد کا کام ہے کہ وہ حق و باطل کی کش مکش میں اپنا وزن کس طرف ڈالے؟ اس ملک کو خطرے سے نکالنے اور اسلام کے رنگ میں رنگنے کے لیے جدوجہد اور قربانی کی راہ اختیار کریں گے یا محض ایک خاموش تماشائی کا رول اختیار کریں گے؟ یاد رکھیے! اس ملک میں جو کچھ بھی ہوگا، اس سے آپ، آپ کے اہل و عیال اور آپ کی آنےوالی نسلیں غیرمتعلق نہیں رہ سکتیں اور جو کچھ آپ یہاں کریں گے اس کا ایک دن بہت بڑی اور برگزیدہ عدالت میں آپ کو جواب بھی دینا ہوگا۔

جماعت اسلامی پاکستان محض ایک سیاسی جماعت نہیں۔ وہ پورے اسلامی نظام کو زندگی کے ہر شعبے میں قائم کرنے اور جاری وساری رکھنے والی عالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ اور روح رواں ہے۔ ۲۰۲۳ء کے دوران پاکستان میں صوبائی اور قومی انتخابات کے انعقاد پر مثبت اور منفی رویوں کے ماحول میں یہ اعزاز جماعت اسلامی کو حاصل ہورہا ہے کہ اس نے اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کردیاہے۔ جماعت اسلامی پہلی جماعت ہے جس نے پوری ذمہ داری اور سنجیدگی سے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس منشور میں تصورِ پاکستان اور تعمیروتشکیل پاکستان کا مکمل نقشہ موجود ہے۔

جماعت اسلامی کی اوّلین ترجیح ملک میں مکمل اسلامی نظام کا نفاذ ہے جس کے لیے شریعت کے تمام احکام و اقدار کو ملک کی اجتماعی زندگی میں جاری و ساری کرنا اس کا ہدف ہے۔ اس کے ساتھ جماعت ملک میں جمہوری نظام قائم کرنا چاہتی ہے، اور خود دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بھی تقاضا یہی ہے، تاکہ اقتدار کا مرکز اور محور محض کوئی ذات یا طبقہ نہ ہو بلکہ عوام اس میں فیصلہ کن قوت کی حیثیت رکھیں۔ نیز جماعت اسلامی ایک حقیقی عوامی فلاحی ریاست و معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ غربت کا مکمل خاتمہ ہو اور ملک میں ایک فلاحی ریاست قائم ہو، جو سب کی حقیقی ضروریات کو مارکیٹ اور ریاست، دونوں کے ذریعے کے طور پر پورا کرسکے۔

جماعت اسلامی ملک میں انصاف کی مکمل حکمرانی کی داعی ہے، تاکہ ظلم و استحصال کی ہرشکل کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ جماعت چاہتی ہے کہ ملک کے تمام علاقوں میں تعاون اور اشتراک کی فضا ہو، جس میں عوام اور عوامی و قومی ادارے ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتی ہے، جس کے تمام علاقوں میں زرعی،صنعتی ، تجارتی اور فنی، ٹکنالوجیکل ترقی جاری و ساری ہو، جس کے نتیجے میں ملک کے تمام علاقوں میں حقیقی خوش حالی رُونما ہوسکے ، اور ملک قرضوں کے جال سے نکل کر خود انحصاری کی بنیاد پر مسلسل ترقی کرسکے۔

نیز جماعت اسلامی ایک مکمل طور پر آزاد خارجہ پالیسی کی داعی ہے۔ وہ کسی بلاک کا حصہ بنے بغیر اور اپنی مکمل آزادی کے ساتھ، پاکستان کے تعلقات دُنیا کے ہرملک سے برابری کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے، تاکہ پاکستان اور دُنیا کے تمام انسانوں کے حقوق ادا ہوسکیں، اور ملک اور عالمی سطح پر عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے مکمل تحفظ اور فلاح پر مبنی نظام قائم ہوسکے۔

یہی وہ مطلوبہ نظام کا نقشۂ کار ہے، جو جماعت اسلامی پاکستان کے انتخابی منشور میں دیکھا جاسکتا ہے۔جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بڑی محنت اور وژن کے ساتھ اپنا کام انجام دیا ہے، لیکن اب ضرورت ہے متعلقہ شعبہ جات اور میدانوں میں تحریکی کارکنوں اور ماہرین کی ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں، جو اُوپر بیان کردہ ہرہر معاملے پر مستقل ورکنگ پیپر تیار کریں، اور جماعت کے مطلوبہ پاکستان کا ایک تفصیلی نقشۂ کار فراہم کریں۔ یہ ایک جاری رکھے جانے والا کام ہے۔

۝

جماعت اسلامی پاکستان کا وژن

 

  • پاکستان کو اسلامی، جمہوری، خوش حال اور ترقی یافتہ ریاست بنانا،
    • قرآن و سنت ؐ کی بالادستی ،
    • آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی،
    • پاکستان کےعوام کی خوش حالی و ترقی،
    • خوش حال صوبے اور خوش حال معاشرہ،
    • خواتین کو اسلامی حدود میں تعلیم و ترقی کے تمام مواقع فراہم کرنا،
    • عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ سے آزاد غیر سُودی مضبوط معیشت استوار کرنا،
    • انصاف،امن ،روزگار،تعلیم،علاج اور چھت سب کے لیے،
    • قومی سلامتی ، مضبوط دفاع اور آزاد خارجہ پالیسی،

۱-​اسلامی پاکستان

  • دستور پاکستان کے مطابق قرآن وسنت کی بالادستی قائم کی جائے گی۔
  • حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوتؐ اور ناموسِ رسالتؐ کا ہر قیمت پرتحفظ کیا جائے گا اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔تاہم، توہینِ رسالت ؐ اور توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کا تدارک کیا جائے گا۔
  • بنیادی انسانی حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔
  • خواتین کے شرعی اور قانونی حقوق کا تحفظ کیا جائے گااور خواتین کے معاشی ،سیاسی اور سماجی استحصال کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
  • پارلیمنٹ کے ذریعے تمام غیر اسلامی قوانین منسوخ کیے جائیں گے۔
  • ’ اسلامی نظریاتی کونسل‘ کی تشکیلِ نو کی جائے گی اور کوئی قانون اس کی پیشگی سفارش کے بغیر پارلیمنٹ سے منظور نہ کیا جائے گا۔
  • دستورپاکستان اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے مطابق سُودی نظامِ معیشت کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • کھاتہ داروں کے ذمے کمرشل بنکوں کا سُود ختم کرنے کے لیے پالیسی بنائی جائے گی۔
  • یتیموں ، معذوروں ، بیواؤں اور بزرگ شہریوں کی خوراک، لباس، چھت، علاج او رتعلیم کا بندوبست کیا جائے گا۔
  • حصول رزقِ حلال کی ترغیب دی جائے گی اور حرام اور ناجائز دولت کمانے اور خرچ کرنے کے تمام راستے بند کیے جائیں گے ۔
  • عوام الناس کو اسلامی عقائد ، عبادات، اخلاقیات اور رواداری کی تعلیم وترغیب دی جائے گی۔
  • فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے علمائے کرام کی مشاورت سے ضابطۂ اخلاق نافذ کیا جائے گا۔
  • دولت کی نمایش، جہیز، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اسراف پر پابندی عائد کی جائے گی ۔
  • گداگری کے سدباب کے لیے متبادل روزگار کانظام بنایا جائے گااور محنت سےکمانے کے لیے ہنرمند بنایا جائے گا۔
  • فحاشی، عُریانی ، بدکاری کی وجوہ کے خاتمے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور اقدامات کیےجائیں گے۔
  • پروٹوکول وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور سادگی کو رواج دینے کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • تعلیمی اداروں میں ہر مسلمان بچے /بچی کے لیے ناظرہ و ترجمہ قران مجید سیکھنا لازمی ہو گا۔
  • مساجد ومدارس کے ائمہ ومدرسین کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جائے گی۔
  • مسجد کو کمیونٹی کا مرکز و محور بنایا جائے گا۔ نئی مساجد میں خواتین کے لیے الگ حصہ مختص کرنا ضروری ہوگا۔
  • غیر مسلم پاکستانی برادری (اقلیتوں)کو اپنے مذہب کے مطابق تمام آزادیاں حاصل ہوں گی ۔
  • غیرمسلم پاکستانیوں اور تمام کمیونیٹیوں کو وہ تمام آئینی ،معاشی اور شہری حقوق حاصل ہوں گے، جو مسلم پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔
  • جمعۃ المبارک کی ہفتہ وار چھٹی بحال کی جائے گی۔

۲-​جمہوری پاکستان

​مضبوط پارلیمان

  • قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کےمطابق آئین،جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کو بالادست بنایا جائے گا۔
  • آئین اور پارلیمان کی عملاً بالادستی قائم کرنے کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں سنجیدہ ، بامعنی اور باوقارماحول بنایا جائے گا ۔
  • پارلیمانی نظام کو موروثی سیاسی خاندانوں کے مفادات اور جاگیردارانہ سیاست سےآزاد کروایا جائے گا۔
  • پارلیمنٹ میں متوسط اورغریب طبقات کی قیادت سامنے لائی جائے گی۔
  • ارکانِ پارلیمنٹ اور قانون سازوں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے ایک ’تربیتی اکیڈمی‘ قائم کی جائے گی۔
  • قانون سازی میں نادیدہ قوتوں اور مخصوص غیرحکومتی تنظیموں کا اثرورسوخ اورمداخلت روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
  • تمام قومی و ریاستی اداروں کو اُن کے دائرۂ کار تک محدود رکھنے اورماورائے آئین اقدامات  کی پیش بندی کی جائے گی۔

​انتخابی اصلاحات

  • آزادانہ، منصفانہ، غیرجانب دارانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے سیاسی جماعتوں کی مشاورت سےانتخابی نظام میں اصلاحات لائی جائیں گی۔
  • متناسب نمائندگی کا طریقِ انتخاب اپنانے کے لیے قومی سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ عوام کا ہرووٹ ضائع ہونے سے بچایا جاسکے، اور ہر سیاسی جماعت کو حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سےقومی اسمبلی ، سینیٹ(پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوںمیں نمائندگی مل سکے۔
  • انتخابی عمل اور انتخابات میں سرمائے اور نادیدہ قوتوں کا عمل دخل اوراثر و رسوخ ختم کیا جائے گا۔
  • بااثر انتخابی شخصیات کی بلیک میلنگ اور ہارس ٹریڈنگ ختم کی جائے گی۔
  • قومی اسمبلی ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اہلیت ،دیانت اور شہرت جانچنے کے لیے ایک آزاد ،غیر جانب دار اور خودمختار کمیشن تشکیل دیا جائے گا،جو اُمیدواروں کی آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق جانچ پڑتال کرے گا۔
  • الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی ،مالی اورعدالتی خودمختاری دی جائے گی۔
  • حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں، انتخابی عملے کی تربیت و تعیناتی کے لیے آئین کے مطابق واضح قواعدوضوابط بنائے جائیں گے۔
  • تمام شعبوں کے باصلاحیت افراد کی اسمبلیوں میں موجودگی کے لیے سیاسی ،دینی اور پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی۔
  • سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اورپارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔

​آئینی اصلاحات

  • اُردو کو سرکاری زبان اوربنیادی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائےگا[جب کہ صوبائی اور علاقائی زبانوں کی ترویج اور ترقی کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے]۔
  • اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات اُردو اور انگریزی میں ہوں گے۔
  • آئین کے مطابق بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کے لیےمؤثر احتسابی نظام قائم کیا جائے گا۔
  • ’قومی احتساب بیورو‘ کو متوازی عدالتی نظام بنانے کے بجائے اعلیٰ عدلیہ کے ماتحت لایا جائے گا۔
  • وی آئی پی کلچر اور غیرضروری پروٹوکول کے خاتمے کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کیے جائیں گے ۔
  • پارلیمنٹ میں بیرونی دباؤ کے نتیجے میں کی جانے والی قانون سازی پر نظرثانی کی جائےگی۔
  • انتظامی اور مالی اختیارات کی نچلی سطح (بلدیات اور مقامی حکومتوں) تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔
  • ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگی اور تشدد کے سدِباب کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • ماتحت عدلیہ میں اچھی کارکردگی ، تجربہ اور شہرت کے حامل ججوں اوروکلا کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا جائےگا۔
  • آئین کی تمام دفعات پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے طریق کار وضع کیا جائے گا۔
  • وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے حتمی ہوں گے اور اسے بدنیتی سےچیلنج نہ کیا جاسکے گا۔

​بلدیاتی ادارے مضبوط

  • بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے آئین میں ایک نیاباب اورشیڈول شامل کیا جائے گا۔
  • صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے مقامی حکومتوں کو مالیاتی اختیارات منتقل کیے جائیں گے۔
  • بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دی جائے گی۔
  • بلدیاتی اداروں کو وفاقی اور صوبائی ترقیاتی فنڈز کی براہِ راست منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔
  • بلدیاتی اداروں کی معطلی اور بالائی حکومتوں کی مداخلت کےسدباب کامؤثر انتظام کیاجائے گا۔
  • بلدیاتی اداروں کے تحت مقامی سطح پر مؤثرمصالحتی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

​آزاد میڈیا

  • آزادیِ اظہار رائے کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنے کے قانون کومؤثربنایا جائے گا۔
  • میڈیا کوناجائز حکومتی اور غیر حکومتی دباؤ سے آزاد رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔
  • میڈیا میں کام کرنے والےتمام ملازمین کو بلا امتیاز تحفظ دیا جائے گا۔
  • جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے صحافتی انجمنوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے حکمت عملی وضع کی جائےگی۔
  • قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملات کے حوالے سےصحافیوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
  • میڈیا کو اسلامی تہذیب وثقافت کا علَم برداربنانے کے لیےترغیب دی جائے گی۔ مغربی اور بھارتی تہذیب و ثقافت کے حملوں کو روکا جائے گا۔
  • عریانی ،فحاشی اورمخرب اخلاق پروگراموں، ڈراموں اور اشتہاروں کی روک تھام کے لیے سیاسی و دینی جماعتوں ،میڈیا ،پیمرااور وزارت اطلاعات و نشریات کی مشاورت کے ساتھ ضابطۂ اخلاق بنایا جائے گااور قوانین پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔
  • نئی نسل کی نظریاتی، علمی و اخلاقی تربیت کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی کے ماہرین کی مشاورت سے ’ڈیجیٹل میڈیا پالیسی‘ بنائی جائے گی۔

۳- ​مضبوط معیشت اور گورننس

جوہری اقدامات

  • سیاسی جماعتوں ، ماہرین معاشیات اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ’میثاقِ معیشت‘ تیار کیا جائے گا۔
  • پاکستان کاطویل المیعاد معاشی منصوبہ ’پاکستان وژن ۲۰۵۰ء ‘تیار کیا جائے گا۔
  • سودی معیشت اور سُودی بنکاری کا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • معیشت کی بنیاد حلال آمدن اور بہترین مالی نظم و نسق پر ہو گی۔
  • حکومتی تعیشات کا کلچر ختم کیا جائے گا اور سادہ طرز حکمرانی متعارف کروایا جائے گا۔
  • ناجائز منافع خور مافیا ز اور کارٹیلزکا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • اشیائے خور و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے گا۔
  • وفاق اور صوبوں میں ٹیکس اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی اورجنرل سیلز ٹیکس کو پانچ فی صد سے کم کیا جائے گا۔
  • سرکاری اہل کاروں کی بے جا مداخلت سے بچنے کے لیے ون ونڈو بزنس پراجیکٹ قائم کیا جائے گا۔
  • اندرون و بیرون ملک سے’ ترسیلاتِ زر پر بنک فیس‘ کم کی جائے گی۔
  • دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گااورمختلف طبقوں کے مابین غیر معمولی معاشی تفاوت کم کیا جائے گا۔
  • غربت کےخاتمےکے لیے۱۰کروڑ عوام سے زکوٰۃ و عشر اکٹھا کیا جائے گا،جس سے ہر غریب گھرانے کی اندازاً اڑھائی لاکھ روپے سالانہ مدد کی جا سکے گی۔
  • زرعی بنیاد پر صنعتوں، گھریلو صنعتوں اور چھوٹی و درمیانی صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے مراعات کا خصوصی پیکج تیار کیا جائے گا۔
  • عالمی بنک ،عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اوراندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
  • بیرون ملک پاکستانیوں کو ترقیاتی منصوبوں میں حصہ دار بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔
  • برآمدات میں اضافے کو فروغ دیا جائے گا اورغیر ضروری درآمدات کا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • درآمد کیے جانے والے خام مال کو ملک کے اندر ہی بنانے والی انڈسٹری کو ۱۰ سال کے لیے خصوصی ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔
  • زر مبادلہ میں ادائیگی کی شرط پرسمندر پارپاکستانیوں کو سرکاری قیمتی کمرشل اراضی پُر کشش قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی جائے گی۔
  • بنیادی، نفع بخش اور زرمبادلہ بچانے والی فصلوں اور صنعتی پیداواری علاقوں میں دس سال کے لیے ٹیکس فری انڈسٹریل زونز قائم کیے جائیں گے، جہاں برآمدات کے لیےویلیوایڈڈ پروڈکٹس تیار ہوں گی۔
  • سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ پرنظرثانی کر کے ’’گورنربنک دولت پاکستان‘‘کو پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے جواب دہ بنایاجائے گا۔
  • ملازمت کے بجائے ذاتی کاروبار کرنے کی تربیت دی جائے گی اور’چھوٹا کاروبار معاشی بہار‘ مہم شروع کی جائے گی۔
  • آئی ٹی، میٹ ایکسپورٹ اور زرعی ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے گا۔

قومی آمدن میں اضافہ

  • سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، صنعت کاروں اور مال دار ترین اشرافیہ سے اُن کی آمدن کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
  • ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ، جب کہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے گی۔
  • براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا منصفانہ تناسب مقرر کیاجائے گا۔
  • فکس ٹیکس اسکیم کےاجرا کا جائزہ لیا جائےگا اور اگر یہ قابلِ عمل ہوا تو اسے نافذ کیا جائے گا۔
  • معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے پُرکشش اسکیم شروع کی جائے گی اور ریونیو ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس میں منتقل کیا جائے گا۔
  • پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے منی لانڈرنگ اور سٹہ بازی کو روکنے کے لیےسخت اقدامات کیے جائیں گے۔
  • سالانہ معاشی شرح نمو کو آبادی میں سالانہ اضافے سے کم از کم دوگنا کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
  • زرعی ٹیکس بتدریج نافذ کیا جائے گا، جب کہ ای آبیانہ اورای مالیہ سکیموں کا اِجرا کیا جائے گا۔
  • ٹیکس افسران کے اختیارات پر نظرثانی کی جائے گی۔

حکومتی اخراجات میں کمی

  • غیر ترقیاتی اخراجات میں ۳۰فی صد کمی کی جائے گی۔
  • غیر ضروری سرکاری اخراجات ختم کیے جائیں گے۔ سرکاری اداروں میں اسراف کا خاتمہ اور سادگی وقناعت کی روش اختیارکی جائے گی۔
  • پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلویز اور پی آئی اے سمیت قومی اداروں کے فروخت یانج کاری کے بجائے اُنھیں منافع بخش ادارےبنانے کے لیے اہل انتظامیہ کا تقرر کیا جائے گا۔
  • صدر، وزیراعظم ، وزرائے اعلیٰ ،وفاقی و صوبائی وزراء،سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی ، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں، اعلیٰ سول اور فوجی افسران کو  قیمتی لگژری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت ختم کی جائے گی۔
  • سابق وفاقی و صوبائی وزرائے کرام ،ریٹائرڈ افسروں ،بیوروکریٹس ،ججوں اور جرنیلوں کوسرکاری گاڑیاں اور مفت پٹرول کی سہولیات واپس لی جائیں گی ۔
  • سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ما ل دار ترین اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے گی،  جس سے ۲۰۰؍ ارب روپے سالانہ بچت ہو گی۔
  • ارکانِ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات پر نظر ثانی کی جائے گی۔
  • سرکاری دفاتر کو متبادل بجلی (سولر) پر منتقل کیا جائے گا، جس سے بجلی اور سرکاری اخراجات میں کمی آئے گی۔
  • اعلیٰ حکومتی عہدے دارن اور ملازمین میں سادگی کو رواج دیا جائے گا۔
  • سرکاری ملازمین کی پنشن سے سرمایہ کاری کی جائے گی، جس سے سرکاری خزانہ کا بوجھ کم ہو گا۔

قرضوں سے نجات

  • تمام اندرونی و بیرونی قرضوں کو بتدریج ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خود انحصاری پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔
  • بیرونی و مقامی قرضوں کی جلد ادائیگی کا شیڈول اور طریق کار وضع کیا جائے گا  ۔
  • مہنگی گاڑیوں، زیبائش اور غیرضروری تعیشاتی اشیا کی درآمد بند کرکے قیمتی زرمبادلہ بچایا جائے گا۔

توانائی پالیسی

  • بجلی پیدا کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ مہنگے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے گی۔
  • بہترین مالی نظم و ضبط سے گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • سرکاری ، کاروباری اور خوشی کی تقریبات دن کی روشنی میں کرنے کی پالیسی اپنائی جائے گی۔
  • بجلی اورگیس کے رائج الوقت ظالمانہ سلیب ریٹ ختم کریں گے۔
  • لوڈشیڈنگ اور لائن لاسز سمیت بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا۔
  • توانائی کے سستے متبادل ذرائع تلاش کیے جائیں گے۔
  • درآمدی ایندھن کی بجائے قدرتی اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔
  • بھاشا اور اکھوڑی ڈیم سمیت تمام چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیرپر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے گا۔
  • ہائیڈروپاور ،شمسی توانائی کے پینل اور ونڈ ٹربائن کی تیاری میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے صنعت کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔
  • پاک ایران گیس پائپ لائن میں اپنے حصے کا کام جلد مکمل کریں گے۔
  • ہوا سےتوانائی (ونڈ انرجی)کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
  • بلوں کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کا نیانظام متعارف کروایا جائے گا۔
  • عالمی دباؤ نظر انداز کرکےتیل ، گیس اور معدنیات کے نئے ذخائر تلاش کیے جائیں گے۔

ماحولیاتی و سیاحتی پالیسی

  • شمالی علاقہ جات، اپردیر،سوات، گلگت بلتستان، چترال نیز سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور آزادکشمیر کے سیاحتی مقامات کو ترقی دی جائے گی۔
  • سیاحت کے فروغ کے لیے شاہراہیں اور رابطہ سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔
  • سیاحتی مقامات پر موجود مقامی آبادیوں اور مکینوں کی ترقی و خوش حالی کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی جائے گی۔
  • سیاحتی مقامات کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے مؤثراقدامات کیے جائیں گے۔
  • سیاحتی علاقوں تک جدید ٹرانسپورٹ کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔
  • سیاحتی مقامات پر سیکورٹی اورمناسب قیمتوں کے تعین و کنٹرول کا نظام قائم کیا جائے گا۔
  • ہوٹل انڈسٹری کو ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔
  • صوبہ خیبرپختونخوا میں سوات،چترال،دیر اور مانسہرہ، جب کہ صوبہ سندھ میں ’گورکھ ہل‘کو عالمی معیار کے سیاحتی مراکز بنایا جائے گا۔
  • ماحولیاتی آلودگی کے سد باب ، کنٹرول اور تحفظِ ماحول کے لیے سخت قوانین سازی اور ان پر مؤثر عمل درآمد کیا جائے گا۔
  • گاڑیوں اور صنعتوں سے زہریلی گیسوں اور صنعتی فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • الیکٹرک انجنوں والی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
  • نئے جنگلات لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات چلائی جائیں گی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
  • جنگلات کو آمدن میں اضافے کا ذریعہ بنا نے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔

احتساب سب کا

  • سخت قوانین پر مشتمل ’احتسابی نظام ‘ تشکیل دیاجائے گا تاکہ رشوت ، کمیشن اور کک بیکس سمیت ہر قسم کی بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔
  • قومی احتساب بیورو (نیب)کا سربراہ ایسے فرد کو مقرر کیا جائے گا، جس کی قابلیت ،اہلیت اور امانت و دیانت مسلمہ ہو۔
  • نیب ،ایف آئی اےسمیت تمام تفتیشی اداروں کی تنظیم نو کی جائے گی اور اس میں سیاسی مداخلت اور انتقامی کارروائیوں پر پابندی عائد کی جائے گی۔
  • پلی بارگین ختم کی جائے گی، اورکرپشن ثابت ہونے پر مجرم کی تمام جائیداد بحقِ سرکار ضبط کی جائے گی ۔
  • لوٹی ہوئی قومی دولت قومی خزانے میں واپس لانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • ہر قسم کے بدعنوان عناصر کو شرعی قوانین کے مطابق عبرت ناک سزا ئیں دی جائیں گی۔

۴-​خوش حال اور ترقی یافتہ پاکستان

انصاف سب کے لیـے

  • عدالتی فیصلے قرآن وسنتؐ کے مطابق ہوں گےاورکوئی عدالت قرآن و سنتؐ کے خلاف فیصلہ نہیں دے گی۔
  • اعلیٰ عدلیہ اور وکلا کی مشاورت سے عدلیہ کے بروقت اور فوری فیصلوں کے لیے عدالتی نظام کی تنظیمِ نو کی جائے گی۔
  • نچلی سطح پر عدالتی نظام کی مکمل اصلاح کے لیے مؤثر و متحرک حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
  • بچیوں اور بچوں کو انصاف کی فوری فراہمی کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گے۔
  • عدالتی تحقیقات کا مؤثر نظام وضع کیا جائے گا۔
  • دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے بالترتیب چھے اور تین ماہ کے اندر کیے جائیں گے۔
  • عدلیہ کے موبائل یونٹس کے ذریعے دُوردراز علاقوں تک انصاف پہنچایا جائے گا۔
  • عدالتی فیصلوں پر بروقت عمل درآمد کے لیے ’آن لائن مانٹیرنگ‘ کا نظام بنایا جائے گا۔
  • فاسٹ ٹریک بزنس کورٹس قائم کی جائیں گی۔

اَمن سب کے لیـے

  • پولیس سٹیشن کو ’خوف کے بجائے تحفظ کی آما جگاہ‘ بنایا جائے گا۔
  • جدید خطوط پر پولیس کی پیشہ وارانہ ، دینی واخلاقی تربیت کی جائے گی، جسے دیکھتے ہی شہریوں کو ’احساس ِ تحفظ‘ ہوگا۔
  • خواتین،بچوں اور بچیوں کی عزت وعصمت کی حفاظت کے لیے پولیس ’’ریپڈ ریسپانس یونٹ‘‘ قائم کیا جائے گا۔
  • پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرکے رشوت ستانی کو ختم کیا جائے گا۔
  • رشوت ستانی میں ملوث سرکاری اہل کاروں کے خلاف فوری انضباطی کارروائی کی جائے گی اور ملوث اہل کاروں کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔
  • ماورائے آئین گرفتاریوں ، شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے، جعلی پولیس مقابلوں، ماورائے عدالت قتل اور دورانِ حراست پولیس تشدد کا خاتمہ کیا جائے گا۔

تعلیم سب کے لیے

  • تعلیم کوانسان کا بنیادی حق قرار دیا جائے گا ۔
  • مسلم و غیر مسلم ،امیروغریب اورشہری و دیہاتی کو بلا تفریق ہر سطح کی تعلیم کا موقع دیا جائے گا۔
  • مختلف نظام ہائے تعلیم اورطبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کر کے پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کیا جائے گا۔
  • نصابِ تعلیم قرآن و سُنت کے مطابق تیار کیا جائے گا۔
  • آئینی ترمیم کے ذریعے تعلیم کےشعبہ کو وفاق کے تحت لاکر اسلامی نظریۂ حیات اور نظریۂ پاکستان کونصابِ تعلیم کا محور بنایاجائے گا۔
  • فنی تعلیم ، شہری شعور،روڈ سیفٹی، حفظانِ صحت اور کردار سازی کے موضوعات کونصاب تعلیم میں شامل کیا جائے گا۔
  • تعلیمی اداروں میں بنیادی سطح پر ہی انٹرپرنیور شِپ (کاروباری مہارت)کی تعلیم دی جائے گی۔
  • شرح خواندگی کو سو فیصد کیا جائے گااور میٹرک تک تعلیم مفت اورلازمی ہو گی۔
  • تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے ۲کروڑ سے زائد بچوں اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کرکے  زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔
  • عربی ، انگریزی اور دوسری عالمی زبانوں کونصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے گا۔
  • جدید خطوط پر نظامِ تعلیم کو استوار کیا جائے گا اور تحقیق و تصنیف کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
  • سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں قرآن وسنت کی بنیادی تعلیم لازمی ہو گی۔
  • طلبہ اور طالبات کے لیے ۵۰ نئی یونی ورسٹیاں اور ٹیکنیکل کالج بنائے جائیں گے ۔
  • طالبات کے لیے اعلیٰ معیاری تعلیمی ادارےقائم کرکے مخلوط نظامِ تعلیم کا خاتمہ کیا جائے گا اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔
  • وزارت سائنس وٹکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ تعلیم کے لیےتحقیق وترقی پروگرام کے بجٹ میں اضافہ کیا جائےگا۔
  • بجٹ میں تعلیم کے لیےجی ڈی پی کا کم از کم ۵ فی صد مختص کیا جائے گا،اور اس میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔
  • سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو خصوصی احترام اور معقول تنخواہیں دی جائیں گی۔
  • طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بلاسُود قرضے دیےجائیں گے۔
  • تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔

صحت سب کے لیے

  • تمام ہسپتالوں میں ۲۴ گھنٹے آؤٹ ڈور علاج اورمفت ایمرجنسی سروس مہیا کی جائے گی۔
  • شہری اور دیہی علاقوں میں خواتین کی زچگی اور حادثاتی طبی سہولیات کے لیے گھر کے قریب انتظام کیا جائے گا۔
  • اندرون ملک معیاری اور سستی ادویات اور آلات کی تیاری کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔
  • ادویات کی جنرک (Generic)ناموں سے فروخت کے لیے قانون سازی کی جائے گی ۔
  • مستحق افراد کاسرکاری سطح پر ڈیٹا بیس تیار کر کے دل، گردہ ، ہیپاٹائٹس ، کینسر، ایڈز، ٹی بی اور منشیات کے مریضوں کامفت علاج کیا جائے گا۔
  • تمام ہسپتالوں میں امراضِ دل ، ذیابیطس ، گردہ ، جلد، ہیپاٹائٹس ، کینسر، ایڈز، ٹی بی ، منشیات اور نفسیات کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا تقررکیا جائے گا۔
  • اضلاع کی سطح تک ’برن یونٹس‘ قائم کیے جائیں گے۔
  • ہرڈاکٹر کو تعلیم کی تکمیل پر ملازمت فراہم کی جائے گی اور معقول معاوضہ دیا جائے گا۔
  • وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے صحت کے سالانہ بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔
  • وفاق و صوبوں کے سالانہ بجٹ میں شعبہ صحت عامہ میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے لیے خصوصی بجٹ مختص کیا جائے گا۔
  • ہر ہسپتال میں متبادل طریقہ علاج (ہومیوپیتھک ، طبّ ِ مشرق وغیرہ)کےالگ یونٹ قائم کیے جائیں گے، اور ان طریقہ ہائے علاج کی سرپرستی کی جائے گی۔
  • موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے فوری علاج فراہم کرنے کے لیےاقدامات کیے جائیں گے۔
  • پانچ ہزار کی دیہی آبادی کے لیے ’’رورل ہیلتھ ڈسپنسری‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائےگا۔
  • اتفاقی حادثات میں زخمیوں کی جان بچانے کے لیے نیشنل ہائی ویز پر ہر ۵۰ کلومیٹر کےبعد اورموٹرویز کے ہر انٹر چینج پر ایمرجنسی ٹراماسنٹرز قائم کیے جائیں گے۔
  • زخمیوں کی فوری طبی امداد کے لیے ایمرجنسی ہیلی کاپٹر سروس  شروع کی جائے گی۔
  • بوڑھوں اور معذوروں کے علاج کے لیے ہربڑے ہسپتال میں خصوصی ڈیسک اور سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
  • پیرامیڈیکل سٹاف کی جدید طرز پرپیشہ وارانہ اور اخلاقی تربیت کی جائے گی۔
  • وبائی امراض سے بچاؤ اور علاج کے لیے بڑے ہسپتالوں میں خصوصی سنٹر اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
  • مریضوں کی نجی ہسپتالوں سےبڑے سرکاری ہسپتالوں میں منتقلی کے لیے ان ہسپتالوں کے درمیان سہولت وہم آہنگی کے لیے قانونی اورعملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • ہر خاندان میں ماں اور بچے کی صحت اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا شعور پیدا کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔
  • یونیورسل ہیلتھ کیئر کے عملی نفاذ کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔

چھت سب کے لیے

  • بے آباد زمینوں کو آباد کرنے کی شرط پر مستحق افراد میں زمین تقسیم کی جائے گی۔
  • کم آمدن والے افراد کو سستی زمین خریدنے اورمکانات کی تعمیر کے لیے آسان اقساط پربلا سود قرضے دیے جائیں گے۔

 

تجدید و احیائے دین، اسلامی تاریخ کی ایک روشن روایت اور عقیدۂ ختم نبوت کا فطری نتیجہ اور دینِ اسلام کے مکمل ہونے کا تقاضا ہے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ برگزیدہ بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ دین کی بنیادی دعوت پر مبنی اللہ کے پیغام کو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے نمونے کی روشنی میں، اپنے دور کے حالات کا جائزہ لے کر بلاکم و کاست پیش کریں۔ دورِحاضر میں جن عظیم ہستیوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء - ۱۹۷۹ء) کا نام سرفہرست ہے۔

ویسے تو مسلم تاریخ کے ہر دور میں نشیب و فراز نظر آتا ہے، لیکن ۱۹ویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بڑی منفرد ہے کہ ساڑھے بارہ سو سالہ تاریخ میں پہلی بار مسلمان ایک عالمی قوت کی شناخت اور حیثیت سے محروم ہوئے۔ اس دوران چار کمزور ممالک اورنام نہاد حکومتوں کو چھوڑ کر پورا عالمِ اسلام مغرب کی توسیع پسندانہ اور سامراجی قوتوں کے زیرتسلط آگیا۔ یہ صورتِ حال ۲۰ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس بات میں کچھ بھی مبالغہ نہیں کہ یہ دور مسلم تاریخ کا تاریک ترین دور تھا، جو فکری و نظریاتی اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور تہذیبی، گویا ہراعتبار سے اُمت کی محکومی کا دور تھا۔

پھر اسی دور میں،کسی نہ کسی پہلو سے تجدید و احیائے دین کی خدمت انجام دینے والی عظیم شخصیات میں: سیّداحمد شہید، مفتی محمد عبدہٗ، سیّدرشید رضا، ابوالکلام آزاد، حسن البنا، علّامہ محمد اقبال، سعید نورسی، سیّدقطب، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور مالک بن نبی جیسے نمایاں ترین رجال شامل ہیں۔ ان سب کی سوچ کا دھارا، کئی اُمور اورمعاملات میں اختلاف کے باوجود، مقصد اور ہدف کے اعتبار سے   ایک جیسا تھا، اور وہ یہ تھا: اللہ کے دین کو اس کی اصل شکل میں پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس دین کے مطابق اپنی اور انسانی زندگی کی تشکیلِ نو اور تعمیرِنوکی دعوت دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ان سب محسنوں پر اپنی رحمت کی بارش فرمائے، اور ان کی اور ان کے رفقائے کار کی کاوشوں کو قبولیت اور فروغ عطا فرمائے۔یہی ہیں وہ رہنما کہ جن کی قابلِ رشک کوششوں کے نتیجے میں، اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے تاریخ نے کروٹ لی اور محکومی کی تاریک اور طویل رات ختم ہوئی ۔ اسلام ایک بھرپور دعوت، انقلابی قوت اور ہمہ پہلو پیغام کی حیثیت سے اپناکردار ادا کرنے کی طرف رواں دواں ہے۔

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۲۰ء سے صحافت اور علم و ادب کے میدان میں  گراں قدر خدمات کا آغاز کیا۔ ۲۴برس کی عمر میں انھوں نے الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی، جو ۱۹۳۰ء میں، برصغیر ہند میں علمی، تحقیق اور اشاعت کے بڑے باوقار ادارے دارالمصنّفین، اعظم گڑھ نے شائع کی۔ اس کتاب کے لیے کی جانے والی تحقیق و جستجو مولانا مودودی کے فکری ارتقا میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔

پھر یہی ہے وہ فیصلہ کن موڑ ہے جہاں سے انھوں نے پیغامِ دین کے لیے عزم و ہمت کا عہد کیا اور عملی قدم اُٹھایا۔ مئی۱۹۳۳ء سے ماہ نامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباددکن کے ذریعے اسلامی فکر اور دعوت کے نئے چراغ روشن کرتے رہے۔ ۱۹۳۸ء میں ادارہ دارالاسلام  کی تاسیس کی۔ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت اسلامی قائم کی اور اس کے امیر منتخب ہوئے۔ فروری ۱۹۴۲ء سے تفہیم القرآن کی تحریر واشاعت کا آغاز کیا۔ ستمبر۱۹۷۹ءیعنی اپنی وفات تک فکرورہنمائی کے ہرمیدان اور تجدیدو احیائے دین اسلام کے بارے میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ مولانا مودودی کی زندگی اور ان کی فکر میں سب سے نمایاں چیز اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق اور قرآنِ کریم کو زندگی کے ہرہرپہلو کے لیے اپنا رہنما بنانا ہے۔

یہ زمانہ گواہی دیتا ہے کہ مولانا کی زندگی میں فکروعمل کا سرچشمہ اور روشنی و ہدایت کا منبع  قرآن پاک ہی ہے۔ اسی بنا پر مولانا کی زندگی کی اہم ترین متاع جن چیزوں کو قرار دیا جاسکتا ہے، ان میں سب سے پہلی، بنیادی اور مرکزی متاع قرآنِ کریم ہے۔ پھر دوسری چیز قرآنِ کریم اور صاحب ِ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک ہی کی روشنی میں دینِ حق کا تصور ہے، اور تیسری چیز ہے: ان دونوں کا تقاضا دعوت، اصلاح اور اقامت ِ دین کی منظم جدوجہد۔ یہی وہ تین میدان ہیں، جن میں مولانا مودودی نے بڑا تاریخ ساز کردار (contribution) اداکیا ہے۔

قرآن ہی شاہِ کلید ہـے!

قرآنِ پاک سے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا تعلق بہت اہم موضوع ہے۔ ۱۹۴۶ء میں جناب محمد عمران خاں ندوی نے غیرمنقسم ہندستان کے اٹھارہ اکابر علما، دانش وروں اور رہنمائوں سے دریافت کیا کہ ’’آپ کی محسن کتاب کون سی ہے؟‘‘ دیگر افراد نے اپنی اپنی پسندیدہ کتاب کے بارے میں بتایا، لیکن ان میں واحد مولانا مودودی تھے، جنھوں نے سب سے مختصر جواب دیا۔یہ جواب مولانا کی شخصیت اور ان کی پوری زندگی کا غماز ہے اور سب پہ بھاری بھی۔ انھوں نے لکھا:

جاہلیت کے زمانے میں، مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ مَیں قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اُتار چکا ہوں ، مگر جب آنکھیں کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں اُلجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کرڈالیں، پھر بھی حل نہ کرسکے، ان کو اِس کتاب نے ایک ایک دو دوفقروں میں حل کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر یہ غریب اس کتاب سے ناواقف نہ ہوتے تو کیوں اپنی عمریں اس طرح ضائع کرتے؟ میری اصلی محسن بس یہی ایک کتاب ہے۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ حیوان سے انسان بنادیا ، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں، حقیقت اس طرح برملا مجھے دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔  انگریزی میں اُس کنجی کو ’شاہ کلید‘ (Master Key) کہتے ہیں، جس سے ہرقفل کھل جائے۔ سو، میرے لیے یہ قرآن ’شاہ کلید‘ ہے۔ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، وہ کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔

قرآن اور اقامتِ  دین

مولانا مودودی کے لیے سب سے بڑی دولت اور زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ،  اللہ کی آخری ہدایت، یہ کتاب ہی ہے۔ قرآن ہی وہ اَبدی ہدایت ہے، جو خود خالق حقیقی نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کو زندگی میں کامیابی کا راستہ دکھانے کے لیے عطا فرمائی۔ مولانا مودودی کے نزدیک قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا کتاب اللہ ہونا ہے، یعنی یہ رہنمائی کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ خالق و مالک کی طرف سے ہے۔ اس کا ذریعہ اور وسیلہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ کو جاننے، اللہ سے جوڑنے اور اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کا واحد راستہ قرآن کی ہدایت کو تسلیم کرنا،اور اس کے مطابق اپنی ذات کو اور ساری دنیا کو ڈھالنا ہے۔ اس چیز کے تین پہلو ہیں:

  • پہلا اور سب سے اہم پہلو خداشناسی ہے، جس سے ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کو ڈھال سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ پر ایمان اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی کو ڈھالنا ، زندگی کو گزارنا، قرآن سے تعلق کو جوڑنا،اور قرآن کا فہم حاصل کرنا نہایت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ قرآن کا اصل مخاطب انسان ہے اور قرآن کا اصل مقصودتمام انسانوں کی دست گیری ہے۔ جو اسے قبول کریں، ان کے لیے یہ سراپا ہدایت ہے اور رہنمائی عطا کرتا ہے۔ یہی خداشناسی اسلام کی بنیاد اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے اصل سہارا اور قوت ہے۔
  •  دوسرا پہلو خودشناسی ہے، یعنی یہ سمجھنا اور جاننا کہ اللہ ہمیں کیسے انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ دیکھنا کہ ہمیں کیا کام سونپا گیا ہے، اور کس معیار پر ہمیں کامیابی اور اجر ملے گا؟ اس چیز کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تووہ ہے ’استخلاف‘۔ اس کے لیے فرد کا تزکیہ کرنا، اس کی کردار سازی کرنا اور علم وعمل کے اعتبار سے اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کی زمین پر، اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، یعنی تقویٰ کا حصول۔
  • تیسرا پہلو ہے خلق شناسی۔ اس سے مراد ہے: انسانوں سے، اداروں سے، معاشروں سے، اقوام سے اور کائنات میں خلق کی ہوئی ہرشکل سے قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق ربط و تعلق قائم کرکے معاملہ کرنا، تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور دنیا عدل، امن اور احترامِ آدمیت کا گہوارا بن جائے۔

ان تینوں بنیادوں کو قرآن نے جامع اصطلاح ’اقامت ِ دین ‘ میں سمو دیا ہے اور یہی معنی عبادت کے ہیں۔یہ دوسرا پہلو ہے: قرآنِ کریم سے مولانا کے تعلق کا، جسے انھوں نے بڑی تفصیل سے مختلف اسالیب میں بیان کیا ہے اور وضاحت فرمائی ہے۔

اقامتِ  دین کا اہم تقاضا

مولانا مودودی نے بتایاہے کہ قرآن صرف اللہ کی کتاب اور کتابِ ہدایت ہی نہیں بلکہ کتابِ انقلاب ہے۔ جہاں اس کے مخاطب تمام انسان ہیں، وہاں اس کا خاص طور پر خطاب انسانوں کے ایسے گروہ سے ہے، جو اسے قبول کرتا ہے۔ قرآن انھیں رہنمائی فراہم کرتا اور تیار کرتا ہے کہ وہ کس طرح خود کو اور پوری انسانی زندگی کے ہر شعبے اور دائرہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے دعوت، شہادتِ حق اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ہے اور ہدف دین کے پیغام کو عام کرنا اور اللہ کی مرضی کو غالب کرنا بتایا ہے۔ اس مقصد کو تفہیم القرآن  کے مقدمے میں مولانا مودودی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

 فہم قرآن کی ساری تدبیروں کے باوجود، آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دُنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حل کرلیے جائیں۔  یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔

اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر، خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔

ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں؟

اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں، جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے ،اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے، جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجَہل اور ابولَہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔

یہ ایک اور ہی قسم کا ’سُلوک‘ ہے، جس کو میں ’سُلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔

پھر اسی کُلیّے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھا ہو، اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، اوّل، ص ۳۳-۳۵)

اسلام، ایک ہمہ گیر تحریک

قرآن سے اس تعلق کے ساتھ مولانا مودودی نے دوسری اہم فکری خدمت یہ انجام دی ہے کہ دین اسلام کو آج کی زبان میں، ایک مکمل لائحہ عمل کے طور پر بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے، جس میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور عبادت اس کا مظہر بھی ہے اور اس کے تقاضوں کے لائق بنانے کا ذریعہ بھی۔ لیکن اصل ہدف اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی مرضی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس میں نجی، خانگی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، ملکی، عالمی سطح کے تمام تعلقات شامل ہیں۔

اس ضمن میں مولانا مودودی نے بنیادی نوعیت کے آٹھ مزید کارنامے انجام دیے، جو ان کی فکری خدمات میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں:

  • اسلامی فکر ، بـے لاگ جائزہ: قرآنی بصیرت و رہنمائی کی روشنی میں، انھوں نے   مسلم معاشرے اور اُمت ِ مسلمہ کی فکر، اس کی تنظیم اور اس کے اجتماعی اہداف پر تنقیدی و تجزیاتی نظر ڈالی۔ جہاں اُن بنیادی وسائل کی قدر، تائید اور پشت پناہی کی، جو اسلام کے پیغام اور دعوت کو محفوظ کرنے اور دین کے علم کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے موجود تھے، وہیں اس امر پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا کہ عملاً ہردور میں اہلِ خیر کی کوششوں کے باوجود ایسی کمزوریاں اور خامیاں دَر آتی رہی ہیں، جو آخرکار مسلمانوں کی کمزوری اور زوال کی راہوں کو ہموار کرنے کاسبب بنیں اور آج بھی اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کے وقار میں اضافے کی راہ میںرکاوٹ ہیں۔

مسلم معاشروں میں دین سے عدم واقفیت، اور جاہلیت کی گرفت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان مسلمان علم، اخلاق اور دیانت کے بغیر کسی بھی میدان میں کام نہیں کرسکتا۔ علوم کی تقسیم دین اور دنیاوی دائروں میں اس حد تک تو گوارا کی جاسکتی ہے کہ مختلف علوم کے دائروں کو متعین کیا جائے، لیکن اسلام کے تصورِعلم میں اللہ کی مرکزیت اور اللہ کی ہدایت کو علم کے ہرشعبے میں مطابقت (relevance) کے ساتھ پیش کرنا اور ہروقت اس کا احساس بیدار کرنا فہمِ دین کا بنیادی اصول ہے۔ ہمارےدورِ زوال میں شعوری یا غیرشعوری طور پر علم کا تصور محدود تر ہوگیا۔ کم از کم علمی سطح پر دین کے دائروں اور دینی ہدایت کو شخصی زندگی اور عبادات تک محدود کردیا گیا۔ اجتماعی زندگی اور اجتماعی علوم کے باب میں دین حق نے جو رہنمائی فراہم کی ہے اور جو دورِ عروج میں ہماری شان رہی ہے، اس سے ہم بہت دُور ہوگئے ہیں۔ جب تک یہ ترتیب اور مطابقت علوم اور تربیت کا حصہ نہیں بنتی، احیائے اسلام ممکن نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کی فکری ساخت کا تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی مرض کی نشان دہی کی۔

  • قانون سازی کی بنیاد : مولانا مودودی نے بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کے سلسلے میں جو ترتیب عطا فرمائی ہے، اس میں روشنی کا بلاشبہہ اصل سرچشمہ قرآنِ پاک ہی ہے۔ لیکن اللہ کی اس مکمل ہدایت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا ہے، اس کی تعلیم دی ہے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا نمونہ ہمارے لیے چھوڑا ہے۔ اس طرح قرآن کے بعد ہدایت کا دوسرا سب سے بنیادی اور مرکزی ذریعہ سنت ِ رسولؐ اور سیرتِ پاکؐ ہے۔

اس کے بعد قرآن و سنت کی روشنی میں نئے مسائل حل کرنے کے لیے استدلال، قیاس، استنباط اور اجتہاد کی بنیاد پر قانون سازی ہے۔ یہی ہے وہ عمل کہ جس سے فقہ کا قیمتی سرمایہ وجود میں آیا۔ پھر فقہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے علم اور تقلید کی روایت نے سفر شروع کیا۔ مولانا مودودی کے نزدیک احیائے دین کے لیے صحیح ترتیب قرآن، سنت، فقہ اور تاریخ ہے۔ جس کی روشنی میں نئے مسائل کا حل قرآن و سنت اور اجتہاد و استنباط ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دورِ زوال میں یہ ترتیب اُلٹ کر رہ گئی۔   یوں تقلید و تاریخ نے عملاً اوّلیت اختیار کرلی، پھر فقہ، اس کے بعد سنت ِ رسولؐ، حکایاتِ بزرگانِ دین اور اس کے بعد قرآن۔ گویا کہ جس چیز، یعنی قرآن کو سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا، وہ سب سے آخر میں چلا گیا۔ یہی بدقسمتی مسلمانوں میں مروج نظامِ تعلیم کے ساتھ ہوئی اور وہاں پر بھی ترتیب اُلٹ گئی، اور قرآن سب سے آخر میں اور وہ بھی محدود تر دائرے میں شاملِ نصاب ہوا۔

مولانا مودودی نے اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ مسلم معاشرے میں اصل اصلاح طلب چیز، حقیقی اور مطلوب ترتیب کو بحال کرنا ہے۔ فقہ کو نظرانداز کرنا یا دریابُرد کرنا علمی اور تہذیبی خودکشی کے مترادف ہے، مگر رہنمائی کے لیے ترتیب میں قرآن ، سنت اور پھر فقہ وتاریخ کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ یہ ایک انقلابی نکتہ ہے، جسے مولانا مودودی نے ابن تیمیہ، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ سے گاہے اتفاق اور کچھ اختلاف کے ساتھ پیش کیا اور اس جرأتِ اظہار کی بڑی قیمت ادا کی۔

  • مغربی فکر و تہذیب کا محاکمہ :تیسرا نکتہ ہے مغربی فکر اور مغربی تہذیب کے غلبے سے پیدا شدہ صورتِ حال اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا اسلام سے معاملہ۔ بلاشبہہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی اور دینی آزادی کے تحفظ کے لیے استعماری قوتوں کے خلاف جہاد کیا اور اس میدان میں بڑی روشن مثال قائم کی۔ تاہم، جہاد کے محاذ پر کامیاب نہ ہونے کے بعد اہلِ خیر کی ایک بڑی تعداد نے تصادم سے پسپائی کی روش ضرور اختیار کی، مگر اس کا مقصد دینی روایت کا تحفظ اور دینی علوم سے رشتے کو جاری اور مضبوط رکھنا تھا۔ اس محدود حد تک تحفظ دین کی یہ حکمت عملی مفید رہی، لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ ضرور رُونما ہوا کہ اجتماعی زندگی اور اس کی رہنما اقدار سے اسلام تقریباً بے دخل ہوتا گیا۔ کچھ حلقوں نے مغرب کی مکمل تقلید اور اپنے کو مغرب کے رنگ میں رنگنے کا راستہ اختیار کیا، تو کچھ دوسروں نے عملاً تو مغربی تقلید کی روش اختیار کی، مگر اس کے لیے بہت سی اسلامی اصطلاحات کا سہارا بھی لیا۔ ’اصلاح مذہب‘ کی نام نہاد تحریکیں مختلف شکلوں میں رُونما ہوئیں، جنھوں نے اصلاح کا کام کم اور دین میں تحریف اور مغرب کی نقالی کا کھیل زیادہ کھیلا۔ اس تہذیبی تبدیلی کو اکبرالٰہ آبادی نے اس طرح بیان کیا ہے:

نہیں اس کی کوئی پرسش کہ یاد اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے

مولانا مودودی نے اقبال اور دوسرے علما و مصلحین کے ساتھ مغربی تہذیب کا بھرپور محاکمہ کیا اور بہت صاف صاف الفاظ میں یہ بات کہی کہ: ’’مغربی سامراج سے صرف سیاسی آزادی مطلوب نہیں بلکہ فکری، نظریاتی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی آزادی بھی مطلوب ہے، تاکہ مسلمان اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی کو مرتب اور منظم کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے محض مسجد بنادینا اور صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے خاندانی نظام کا تحفظ اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیربھی ضروری ہے۔ نیز سیاسی آزادی اور اختیار بھی مطلوب ہے تاکہ دینی اقدار بالادست ہوں اور یوں اجتماعی زندگی اسلامی بنیادوں پر استوار ہو‘‘۔ اقبال نے بڑے لطیف انداز میں کہا:

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

اور یہ کہ:

جدا ہو دیں سیاست سے،تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام، درحقیقت سیاسی و تہذیبی اور فکری و سیاسی میدان میں آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ غلامی کی ہر رمز اور محکومی کی ہر علامت کو رَد کرتا ہے، تاکہ اسے قبول کرنے والے زندگی کی تشکیلِ نو کرسکیں۔ مولانا مودودی نے اس موقف کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے۔ ان کے متوازن ذہن اور محتاط قلم نے مغرب زدگان کو دلیل کے میدان میں بے بس کر دیا ہے اور یہی چیز مغرب کو کھائے جارہی ہے۔ جس کے لیے کبھی اس کے ترجمان ’سیاسی اسلام‘ جیسی نامعقول، مہمل اور مضحک (absurd) اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور کبھی اسلام کے ڈانڈے فسطائیت (فاشزم) اور انتہاپسندی سے جوڑتے ہیں ۔ حالاں کہ سچ بات یہ ہے کہ مسلمان اپنا حق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حق کہ وہ اپنی انفرادی اور اپنی اجتماعی زندگی کو اپنی اقدار و تہذیب اور قانون و ضابطے کے مطابق گزار سکیں۔

جس طرح مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کا جائزہ لے کر ان کی خامیوں کو متعین کیا، اسی طرح انھوں نے مغربی تہذیب کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے اندھی تنقید اور اندھی تقلید دونوں کے مقابلے میں ایک آزاد، نظریاتی، منطقی اور اعتدال پر مبنی رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے تعصب پر مبنی تحقیق و مطالعے کو عدل اور شرفِ انسانی دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ مولانا نے مغرب اور مغربی تہذیب کو اس کے مآخذ کے مطالعے اور سرچشموں کے مشاہدے سے جاننے کی جستجو کی ہے۔ پھر ان بنیادوں پر تنقید کی ہے، جو خدا ناشناسی یا خدا کی قدرت کے محدود تصور پر مبنی ہیں۔

مولانا مودودی نے مغرب کے سامراجی کردار اور نظریاتی و سیاسی پہلوئوں کا ہمہ پہلو محاکمہ کیا ہے۔ پھر مسلم دنیا کو مغرب کے اس اثر سے نکالنے کے لیے سیاسی، فکری، اجتماعی جدوجہد کی دعوت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ مغرب میں یا مغرب کی ہر چیز غلط نہیں، اور نہ مشرق میں اور مشرق کی ہر چیز خیرہے۔ ہمیں کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں سے قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ ’خیر‘ کے لیے کس چیز سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں انسانی زندگی کے معاملات، سیاسی تجربات اور سائنسی علوم کو ایک صاحب ِ ایمان فرد کی حیثیت سے پرکھنا چاہیے کہ کہاں اور کس قدر خیر ہے، خیر کو شر سے چھانٹ کر انسانی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے اور شر سے انسانیت کو بچانا چاہیے۔ یہ حس اور یہ صلاحیت اس کھلے ذہن سے پیدا ہوسکتی ہے کہ جس کی میزان لازمی طور پر اسلامی ایمانیات پر استوار ہو اور جس کی کسوٹی اسلامی اصولوں کے ساتھ تصادم یا مطابقت کے سوال سے مشروط ہو۔

مولانا مودودی نے سمجھایا کہ جو چیز اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہیں، وہ انسانیت کی مشترک میراث ہے۔ البتہ اندھی تقلید اور اندھی تنقید دونوں غلط چیز ہیں۔ جو اچھا ہے، اسے قبول کرلو اور جو بُرا ہے، اسے مسترد کردو۔ خیر تک رسائی اور خیر کے استعمال و اختیار کے لیے پوری دنیا ایک میدان ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان فرد کسی ایک علاقے اور کسی ایک زمانے تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اسے معتدل طریقے سے یہ خدمت انجام دینی چاہیے۔

مسلم اور مغربی معاشروں کے تنقیدی جائزے کے بعد مولانا مودودی نے بتایا ہے کہ اسلامی احیا ہی انسانی زندگی کے لیے خیر اور فلاح کا سرچشمہ ہے، جس کا ماخذ قرآن ہے۔ قرآن کی بنیاد پر دین کو سمجھا جائے، قرآن کی حکمت عملی کو سمجھا جائے اور قرآن کے زیرسایہ اسلامی احیا کی تحریک کو منظم کیا جائے۔ یہ کام دعوت اور نظم و ضبط سے، افراد کی تیاری اور اداروں کی تعمیروترقی ہی سے ممکن ہے، جس میں سب سے مرکزی اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ مولانا محترم نے زور دے کربتایا ہے کہ جدید دور میں، جدید ذرائع اور جدید اسلوب کو دعوت و تنظیم اور عمومی بیداری کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے جدید زمانے میں تنظیم سازی کے لیے بہترین انداز سے جماعت اسلامی اور دوسرے دعوتی اداروں کو منظم کیا۔

  • تبدیلی کا  اسلامی راستہ: چوتھا  یہ کہ مولانا مودودی نے صرف دین ہی کا جامع تصور نہیں دیا، بلکہ عملاً یہ بھی بتایا کہ اسلامی نظام کے خدوخال کیا ہوں گے؟ تبدیلی کا عمل اور تدریج کیا ہوگی؟ انھوں نے جہاد اور قتال کے بارے میں معذرت خواہی یا مداہنت نہیں برتی بلکہ اس کے مقاصد اور حدود کو واضح کیا ہے۔ آج کے معاشرے، ریاست اور قانون کو اسلامی شریعت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اجتہادی اُمور کی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ آج ریاست کو کیسے چلانا ہے؟ دستور کس طرح بنانا ہے؟ اسلامی خاندان اور مسلم معاشرے کی وسیع بنیادیں کیا ہیں؟ مسلم اکثریتی علاقوں میں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے؟ مسلم اقلیتی ممالک میں زندگی کو کس طرح برتنا ہے؟ انسانی معاشرہ مجموعی طور پر کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے یا اس کےاصول کیا ہونے چاہییں؟ خاص طور پر سیاست، معیشت اور تعلیم کے میدان میں بہت ہی متعین انداز میں رہنمائی دی اور درست سمت بتائی ہے۔اس پورے علمی و فکری سفر میں مولانا مودودی کے ہاں ارتقا ہے، تضاد نہیں۔ انھوں نے اجتہاد اور علم کی بنیاد پر کئی نئے راستے کھولے ہیں اور کئی شاہراہوں کی نشان دہی کی ہے۔

مولانا مودودی نے یہ بھی بتایا ہے کہ قومی ریاستیں (Nation States)مسلمانوں کی منزل نہیں، البتہ مسلم ممالک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں وہ مسلم اُمہ کے اتحاد واشتراک کی جانب رواں سفر کا ایک ذریعہ بن سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ نظریاتی اساس پر اپنی تعمیر کریں۔ہماری قومی ریاستیں مغرب کی طرح علاقائی اور جغرافیائی اکائیاں نہیں ہیں، بلکہ ایک نظریے کی علَم بردار اور ایک جسد ِ واحد کا حصہ ہیں، جنھیں ایک جان دار جسم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی ہے وہ سبق، جو قرآنِ کریم نے ہرمسلمان کو پڑھایا اور سمجھایا ہے۔

اس حوالے سے مولانا مودودی کی فکر کو سمجھنے کے لیے بنیادی نکات دو ہیں: قرآن اور اقامت دین۔ ان کا سارا علمِ کلام اس کی تفسیر ہے اور ان کی تمام سرگذشت ِ زندگی انھی کے مدار میں رواں رہتی اور پھلتی پھولتی ہے۔

ایک اہم بات جس کا ادراک بہت ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے ایک طرف قرآن و سنت اور تاریخ تجدید و احیا کے گہرے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں اسلام کے تصورِحیات کو اس کی مکمل شکل میں پیش کیا۔ ایمان اور تزکیے کے ساتھ زندگی کے پورے نظام کی اسی بنیاد پر تعمیر و تشکیل کا واضح تصور اور نقشہ پیش کیا۔ پھر اس کے مطابق زندگی کے نقشے کو بدلنے کے لیے دعوت اور منظم تحریک کی ضرورت اور حکمت عملی کو واضح کیا، وہیں سوچ کا ایک انداز، تحقیق کا ایک اسلوب اور افکار اور حکمت عملی کی تشکیل کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں خطوطِ کار مرتب کیے، جسے مَیں مولانا مودودی کا منہج (methodlogy ) کہتا ہوں۔ اس عمل میں انھوں نے قرآن و سنت سے مکمل وفاداری پر زور دیا ہے۔ تاریخی روایت کے تسلسل کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے تقاضوں کا ادراک کرنے اور اُن کی روشنی میں حدود اللہ کی پاس داری اور مقاصد ِ شریعت سے وفاداری کو لازم قرار دیا ہے۔ پھر زبان و بیان، دلیل و استدلال، تنظیم اور نظامِ کار اور پالیسی کے میدان میں نئے تجربات کی ضرورت اور حدود کو بھی معین فرمایا۔ ان اُمور کی روشنی میں مسلمانوں کی اپنی تاریخ اور دورِحاضر کی غالب تہذیب دونوں کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا اور نئے تجربات کیے۔

  • تنظیم و تحریک کا منفرد وژن: اس سے قبل عام طور پر مسلم معاشروں میں تصوف یا تصوف کے اداراتی ڈھانچے میں مسلمانوں کی تنظیم کا ایک نظام کارفرما تھا، جس میں مرشد یا شیخ ہی کچھ اس طرح مرکز ِ نگاہ ہوتا کہ مریدوں یا چاہنے والوں کے ہاں شیخ سے اختلاف کی گنجائش کم ہی ہوتی۔ مولانا مودودی نے اس ادارے کو یک سر تبدیلی عطا کی اور وابستگان کو فرد سے منسوب کرنے کے بجائے مقصد سے وابستہ کیا اور امیر یا لیڈر کو جواب دہ قرار دیتے ہوئے، انھیں حُریت ِ فکر عطا کی۔ یہ چیز اسلامی تنظیم سازی اور سمع و اطاعت کا ایک انقلابی تصور ثابت ہوا۔
  • مسلکی تقسیم سے بلند ہونے کا درس: چھٹا کارنامہ یہ انجام دیا کہ مسلم معاشرے میں پھیلی فرقہ وارانہ اور مسلکی تقسیم کو ایک بلند تر مقصد کے اس طرح تابع کیا، کہ لوگوں کی نگاہ گروہی و مسلکی مباحث کے بجائے دین کے مرکزی دھارے کی جانب مرکوز ہوگئی۔ مولانا مودودی نے یہ درس دیا کہ ہم آپ کی مسلکی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگاتے، تاہم اس ضمن میں آپ کو متوجہ کرتے ہیں کہ توازن اور عدل کا راستہ اختیار کریں اور اسلامی تہذیب کے مرکزی دھارے اور اُمت کے مجموعی مفاد کو اوّلیت دیں۔ یوں دینی اپروچ رکھنے کے باوجود، مولانا مودودی کے رفقا کے درمیان دین کی مصلحت اور دین کا مفاد سب چیزوں پر حاوی رہا، اور اسی کی انھوں نے باقی لوگوں کو تلقین کی۔
  • دفاعِ دین کے لیے صلائے عام: ساتواں یہ کہ مولانا مودودی نے اس شعور کو اُجاگر کیا کہ دین کو پیش کرنا اور دین کا دفاع کرنا کسی ایک مخصوص طبقے کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ یہ فریضہ ہرصاحب ِ ایمان مرد اور عورت کو انجام دینا ہے۔ اس سلسلے میں عورتوں کے کردار کو علمی اور عملی، ہردوسطح پر واضح کیا اور عملاً اسے انجام دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ہرسطح پر افرادِ کار کو تیار کرنے کا کام کیا۔ جو لکھ سکیں، تحقیق کرسکیں، مکالمہ کرسکیں، اور اسلام کا مقدمہ بہترین طریقے سے پیش کرسکیں۔ جس کے لیے الٰہیاتی علوم سے لے کر سماجیات تک اور ادبیات سے لے کر صحافت و قانون تک، جملہ میدانوں میں ایک ٹیم تیار کی جس کی مثال اس سے پہلے نہیں تھی۔اسلامی معاشرت، اسلامی ریاست اور اسلامی معاشیات کا ارتقاء اس کا ثمرہ ہے۔
  • جرأت و ہمت کی دولت: آٹھویں بڑی شان دار دولت، مولانا مودودی نے یہ تقسیم کی کہ مسلمانوں میں جرأت ، عزم اور ہمت کی اہمیت کو مرکزیت دی۔ انھوں نے بار بار یہ بات ذہن نشین کرائی کہ دین کا وقار آپ کے عمل اور آپ کے فکر میں قدم قدم پر جھلکنا چاہیے۔ ہم خود مولانا مودودی کی زندگی میں ایسے کئی واقعات دیکھتے ہیں، تاہم یہاں پر دو واقعات بیان کیے جاتے ہیں:

پہلا یہ کہ جب ۱۹۵۳ء میں مارشل لا حکومت نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا، اور ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ رحم کی اپیل کرسکتے ہیں مگر مولانا مودودی نے، موت کا پروانہ تھمانے والے اہل کار کو بڑے وقار کے ساتھ دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا: ’’ظالموں سے رحم کی درخواست کرنے کے بجائے مَیں مر جانا بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر خدا کی مرضی نہیں ہے تو پھر یہ میرا بال بیکا نہیں کرسکتے، خواہ اُلٹے لٹک جائیں‘‘۔

اور دوسرا موقع وہ تھا جب ۱۹۶۳ء میں فوجی حکمران جنرل ایوب خاں کی حکومت نے جماعت کے قومی اجتماع کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد ناکامی کی صورت میں، عجب جارحیت کا مظاہرہ کیا۔جیسے ہی مولانا مودودی افتتاحی خطاب کے لیے کھڑےہوئے تو  حکومتی سرپرستی میں غنڈوں نے سائیلنسر لگے پستولوں کے ذریعے براہِ راست فائرنگ شروع کر دی، جس میں فوری طور پر ایک کارکن شہید ہوگیا۔ فائرنگ کا رُخ مولانا کی طرف تھا کہ ان کے ایک رفیق نے بلندآواز میں کہا: ’’مولانا آپ بیٹھ جائیں‘‘، تو مولانا نے اسی لمحے اُن کو جواب دیا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟‘‘

یہ اور ایسےواقعات مولانا مودودی کی مقصد ِ زندگی سے وابستگی اور اس کے لیے سب کچھ کرگزرنے کے عزم کا درس دیتے ہیں۔

مولانا محترم کے اندازِ فکر اور تحقیق و تجزیے کے اسلوب، دونوں میں ہمارے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ مسلمانوں کو عہد ِ حاضر میں تجدید و احیائے دین کے لیے سرگرم اور متحرک کرنے پر  اللہ تعالیٰ انھیں بہترین انعامات سے نوازے، آمین۔

مولانا مودودی نے جو آواز حیدرآباددکن اور پاکستان سے اٹھائی تھی، وہ آج ساری دُنیا میں مسلمانوں کی آواز بن گئی ہے۔ جس بات کو مولانا مودودی نے پورے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے، اسے مختصر الفاظ میں ایران کے عالمِ دین مُلا صدرا نے چار راہِ عمل کی شکل پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلی چیز مِنَ الْخَلْقِ اِلَی اللہَ ہے کہ بندہ دُنیاداری کے راستے کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کرے، اور اس سے تعلق جوڑے، جسے وہ مَعَ اللہِ کےالفاظ سے ادا کرتا ہے، لیکن اسے یہاں رُک نہیں جانا بلکہ ایک تیسرا عمل مِنَ اللہِ اِلَی الْخَلْقِ تک کا ہے کہ دوبارہ خلق اور بندوں کی طرف جائے اور ان تک اسلام کی دعوت کو پہنچائیں جس کے بعد آخری مرحلہ مَعَ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ   کا ہے، یعنی دوسروں کو دین سے آراستہ کرکے سب کو رجوع الی اللہ کے راستے پر گامزن کرنے کی سعی کرے۔ یہی اسلام کا پیغام اور یہی ہے اسلام کا تاریخی کردار جسے اس دور میں مولانا مودودی نے محکم انداز میں ادا کیا ہے۔(مکمل

رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر سایۂ فگن ہے۔ یہ مسلمانوں اور انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرامؓ اور صلحائے امت ؒ بڑی بے چینی سے رمضان کا انتظار کرتے تھے اور پھر اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔

صوم کا معانی ہے ’رُک جانا‘، ’اپنے آپ کو روک لینا‘، ’کچھ کر ڈالنے سے روکنا‘۔ ظاہری طور پر اس کا مطلب ہے کھانے، پینے اور اور جنسی داعیہ پورا کرنے سے پرہیز کرنا۔

قرآن کریم میں آٹھ آیات ہیں جو ’صوم‘(روزہ) کی مختلف جہات کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ روزہ تمام انبیاؑ کی شریعتوں کا جزو رہا ہے۔ یہ بات بھی بڑی معنی خیز ہے کہ ہر نبی پر جب وحی نازل ہوئی تو وہ روزہ رکھے ہوئے تھا! جب سیّدنا موسٰی پر تورات اتری، آپ ؑ روزے سے تھے۔ جب نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ روزے سے تھے۔روزے کا اللہ کی عطا کردہ ہدایت سے بڑا قریبی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسے تم سے پہلوں پر فرض تھے، تاکہ تمھیں پرہیز گاری ملے۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ (البقرہ۲:۱۸۵)رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن (باتوں پر مشتمل ) ہے۔

روزے کا مقصد دو چیزوں کا حصول ہے جن کی طرف قرآن متوجہ کرتا ہے: ہدایت اور تقویٰ۔ قرآن اسی مہینے میں نازل ہوا، ہدایت لے کر، جو انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پھر ہے، تقویٰ۔ تقویٰ ایک بنیادی اور اور عقدہ کشا اصطلاح ہے۔ عمومی طور پر تو اس کا معنی ’خوف‘ لیا جاتاہے۔ لیکن کس کا خوف؟ اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ خوف ہے اللہ کی خوشی کھو دینے کا ، اللہ کی ناراضی مول لینے کا اور قربٍ الٰہی سے محرومی کا۔ تقویٰ کے اس معنی و اثر کی وجہ سے ہم ایسی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جس میں اللہ کی موجودگی کا احساس ہو۔ چنانچہ ہم ہروہ کام کر گزریں جسے کرنے کا اللہ کہے اور ہر اس کام سے رُک جائیں جس سے اللہ روکے، تاکہ ہم اس کی خوشنودی پالیں۔

تقویٰ ضبطِ نفس ہے، یعنی خود پر قابو۔ رمضان میں آپ خود پر قابو پانا اور خود کو منظم کرنا سیکھتے ہیں۔ انسان کی دو قسم کی مادی یا جسمانی ضرورتیں ہیں: کھانا پینا اور جنسی داعیہ___ رمضان میں دونوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کی تربیت دی جاتی ہے، اور اس بات کا سبق ملتا ہے کہساری زندگی ہی نظم و ضبط سے گزارنی ہے۔یہ مہینہ درحقیقت ’زمانۂ تربیت‘ ہے جس کا مقصد تقویٰ کی  زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے۔ رمضان کے بعد بھی ،باقی گیارہ مہینے تقویٰ کے حصول پر صرف کیے جائیں رمضان کا سبق تازہ کرنے کے لیے اور تازہ دم ہونے کے لیے ۔

روزہ سب سے پہلے آپ کو نظم و ضبط سکھاتا ہے، کہ آپ اپنی عادتوں کو درست کریں۔ جو کام آپ معمول کے مطابق کرتے رہتے ہیں، ایک معمول اور ایک عموم کے طور پر ۔ رمضان میں آپ پر ان کے سلسلے میں کچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ آپ وہ کام نہیں کرتے یا کرنے سے رُک جاتے ہیں۔ تاہم جوں ہی افطار کا وقت ہوتا ہے، آپ کے لیے جو چیز لمحہ بھر پہلے ممنوع تھی، اب جائز ہو جاتی ہے۔ اصل نکتہ زندگی میں نظم و ضبط (Discipline) لانا ہے۔ ایسی زندگی گزارنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرماںبرداری سے عبارت ہو اور قرآنی ہدایت پر استوار ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص روزہ رکھتا ہے مگر جھوٹ بولنے ، لڑنے جھگڑنے، اور بُرے کام کرنے سے نہیں رُکتا تو اللہ کو اس کے بھوکے رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، حدیث ۱۹۰۳)

 جو چیز اللہ کو مطلوب ہے وہ تو فرمانبرداری اور نظم و ضبط ہے۔ یہی بات تو افطار و سحر سے واضح ہوتی ہے۔ سحری سے پہلے آپ کھاتے پیتے رہتے ہیں، مگر فجر کی اذان سنتے ہی رُک جاتے ہیں اور افطار کے وقت تک رُکے رہتے ہیں۔ اس سب سے آپ کی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ سب تنہائی میں نہیں ہوتا،بلکہ دنیا بھر میں پھیلے مسلمان ایک ہی مہینے میں روزہ رکھتے اور اس کی پابندیوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس سے معاشرے اور خاندان تک ایک بھرپورماحول بن جاتا ہے جس سے ہر عام و خاص، روزہ کی برکتوں سے فیض یاب ہوتا ہے۔

رمضان کی اہمیت کے حوالے سے ایک قابل توجہ پہلو اس مہینے میں تین چیزوں کا جمع ہونا ہے: ۳۰ روزے، شبِ قدر اور آخری عشرے کی طاق راتیں۔ ایک ماہ کے مسلسل روزے ایک بھرپور تربیتی ورزش کا موقع دیتے ہیں۔ شبِ قدر رمضان کی ایک رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا:

اِنَّآ  اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ (القدر۹۷: ۱) بے شک ہم نے اس (قرآن ) کو شبِ قدر میں نازل کیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور عمل کے مطابق یہ رات نماز، تلاوتِ قرآن اور دُعا میں بسر ہونی چاہیے۔ یہ اللہ کے حضور دُعا کرنے اور اس کی قبولیت کا بہترین موقع ہے، بلکہ اسی وجہ سے تو اسے ’قدر‘ کی رات کہا جا سکتا ہے، جب قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں اور تقدیر لکھی جاتی ہے۔

آخری عشرہ، یعنی آخری دس روزے اور ان میں پانچ طاق راتیں(۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ویں)، شبِ قدر ان راتوں میں سے ایک رات ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ شبِ قدر کی عبادت محض ایک رات کی نہیں بلکہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بہتر ہے: لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ  خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ (القدر۹۷: ۳) شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

 اس رات کو ہم جو عبادت اور دعا کریں گے وہ ایک ہزار ماہ یا ۸۳ سال ، بالفاظ دیگر پوری زندگی، کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہوگی۔ یہ اللہ کی ہم پر خاص عنایت ہے۔

فرماںبرداری، تقویٰ ، صبر اور استقامت ہم کو اللہ کے قریب کرنے والی خوبیاں ہیں۔ پھر تلاوت قرآن، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، جو اگرچہ فرض تو نہیں تاہم تہجد اور تراویح قرآن سے تعلق کا اہم ذریعہ ہیں۔ مسلم تاریخ میں تراویح رمضان کے پورے دن کے پروگرام کا حصہ رہا ہے، ایک ادارہ ایک مستحکم روایت ۔ دن بھر کے روزہ کے بعد ، رات کو آپ تراویح کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آٹھ رکعات ہو یا ۲۰، قرآ ن کی تلاوت اور سماعت پورے مہینے جاری رہتی ہے اور قرآن کے پیغام کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

روزہ سے متعلق ایک بات بڑی منفر د ہے۔ ہر عبادت کا کوئی نہ کوئی ظاہری انداز ہوتا ہے۔ مثلاً نماز کی حرکات و سکنات ہیں، جو سب کو نظر آتی ہیں۔ مسجد میں نماز تو سب کے ساتھ اور سب کے سامنے ہوتی ہے ۔ زکوٰۃ میں دو افراد، دینے اور لینے والے ہوتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ  حج کا ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کون حج پر جارہا ہے یا جا چکا ہے۔ مگر روزہ کا صرف اللہ ہی کو پتہ ہوتا ہے۔ دوسروں کے سامنے آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا روزہ ہے مگر اکیلے میں آپ چاہیں تو کچھ کھا سکتے ہیں۔ گو کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا ہوگا، مگر یہ خیال اور احساس کہ اللہ تو دیکھ رہا ہے، آپ کو کچھ کھانے یا پینے نہیں دیتا۔ یہ ہے اللہ سے براہٍ راست تعلق ، اس کی ہدایت کی تعمیل!

اس لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ ہے۔ دس گنا، ستر گنا، سات سو گنا، یا اس سے بھی زیادہ ۔ مگر روزہ کا بدلہ اور اجر دینا میری خاص عنایت ہے۔ اس کا اجر لا محدود ہوگا!

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے سوائے روزہ کے، کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم،۱۹۰۴)

 روزہ ایمان کے شعور اور احتساب کے احساس کے ساتھ رکھا جائے ۔ ایمان سے مراد ہے خالص اللہ کے لیے، نہ کہ لوگوں کے لیے یا کسی اور غرض سے ۔ اور احتساب کا مطلب ہے کہ پابندی، اجازت، جائز و ناجائز سب کو اللہ کی رضا کی خاطر قبول کیا جائے۔ روزمرہ زندگی میں ہم سے غلطیاں اور بھول چُوک ہوتی رہتی ہے، ہم کبھی کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو نہیں کہنا چاہیے تھا، مگر رمضان میں ہمیں غلط کاموں اور باتوں سے بچنے کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھنا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : اگر کوئی تمھیں بُرا بھلا کہے، یا گالم گلوچ کرے، یا لڑے جھگڑے، تو اس کی بات یا حرکت کا جواب نہ دو بلکہ کہو کہ ’’ میں تو روزے سے ہوں‘‘۔ روزہ تو تزکیۂ نفس ہے، اخلاقی تربیت ہے: فَاِنْ سَا بَّهُ أَحَدٌ، أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ اِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ  (صحیح بخاری، کتاب الصوم، ۱۹۰۴) ’’اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں‘‘۔

روزے کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ بھوک لگنے پر آپ کو ان لوگوں کا اور ان کی حالت کا خیال آتا ہے جو معاشرے میں ہمارے درمیان موجود تو ہیں مگر بھوکے پیاسے اور سہولتوں سے محروم۔ ہم میں ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں، یا نہیں کرتے، اس کے اثرات کا ہمیں ہمیشہ احساس رہنا چاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے، اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(صحیح بخاری، کتاب الصوم، ۱۹۰۱)

اتنی بڑی نعمت مل جائے تو اور کیا چاہیے!

خلاصہ یہی ہے کہ روزہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان بہت ہی خاص، ذاتی اور بلاواسطہ تعلق قائم کرتا ہے۔ اس کو کوئی نہیں دیکھتا، مگر اللہ اس کا گواہ ہوتا ہے ۔ اس سے تزکیہ، اپنے آپ کو پاک و صاف کرنے اور رکھنے، کا کام ہوتا ہے۔ نتیجہ میں پاک و صاف اور نظم و ضبط والے معاشرے کا ماحول بنتا ہے۔

اس مہینے کا اپنا ہی ماحول ہوتا ہے، اپنی ہی الگ فضا۔ اسی لیے وہ لوگ بھی جو عام طور پر نماز نہیں پڑھتے یا ہر کام شعور کے ساتھ اسلام کے مطابق نہیں کرتے ، وہ بھی اس مہینے میں ملنے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور حتی الوسع رمضان کے احترام میں عبادات میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ رمضان کی آمد پر ہمیں اس ماحول اور فضا کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا ایک بار پھر موقع مل رہا ہے۔ رمضان تو ایک آئینہ کی طرح ہے جس میں مسلمان افراد اور قوم سب ہی اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں!

بیسویں صدی کے آغازسے ۱۹۲۴ء تک پھیلے ہوئے ہنگامہ خیز دور کو ہم حرکت اور تجدید کا دور (Era of reassertion)کہہ سکتے ہیں۔ اس دور کی نمایاں خصوصیت مسلمانوں کا دوبارہ اپنے آپ کو اُمت مسلمہ کی حیثیت سے دریافت اور ظاہر (assert) کرنا اور اپنے آپ کو منوانا تھا۔ یہ احیائے نو کی طرف پہلا قدم تھا۔

  • حالی، شبلی اور اکبر کی خدمات

یہ دور الطاف حسین حالی[م: ۳۱دسمبر۱۹۱۴ء] اور شبلی نعمانی [م:۱۸نومبر ۱۹۱۴ء]کی علمی و ادبی کاوشوں کی بنا پر رُونما ہوا۔ حالی کی مسدس   ہر گھر پہنچی اور مسلمانوں کے دل و دماغ میں ایک حیات پرور گرمی اور ایک احساسِ زیاں پیداکرتی گئی۔

شبلی نعمانی کی کوششوں کی بنا پرماضی پر مسلمانوں کا اعتماد بحال نظر آیا۔ شبلی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کو دوبارہ ان کی تاریخ سے روشناس کرایا اور مسلمانوں میں بے اعتمادی اور مایوسی کی جو کیفیت پیدا ہوگئی تھی کہ ماضی ہے تو انگریز کا، اور مستقبل ہے تو انگریز کا، اس احساس کو اُنھوں نے تاریخ کی رومانویت سے دُور کیا ۔ پھر اپنے آخری زمانے میں انھوں نے جدید تعلیمی پالیسی اور اس کے اثرات پر شدید تنقیدو جرح کی اور سیاسی تحریکات میں بھی شرکت کی۔ مسلمانوں کا رابطہ سیرت النبیؐ کے اطلاقی پہلوئوں سے جوڑا، جو شبلی نعمانی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔

اسی طرح نواب وقار الملک [م:۲۷جنوری ۱۹۱۷ء]نے اپنے آپ کو سرسیّد احمد خاں کی تحریک سے کاٹ کر تعلیم کو صحیح راہ پر لگانے کی کوشش کی۔اکبر الٰہ آبادی [م:۱۵فروری ۱۹۲۱ء] نے اپنے اشعار کے نشتروں سے مغربی تہذیب کے اثرات کو زائل کیا اور اسلامی تہذیب کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ مسلمانوں کی معاشرت اور تہذیب و تمدن کا نقشہ اُن کے سامنے رکھا اور اُن کو بتایا کہ کتنے خطرناک راستے پر وہ بھاگے چلے جارہے ہیں۔ اس دورِ احیا کو پروان چڑھانے میں اکبر کا کئی صورتوں میں کلیدی حصہ ہے۔

  • ندوۃ العلما

اس کے بعد ندوہ آتا ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلما ۲۶ستمبر ۱۸۹۸ء کو لکھنؤ میں قائم ہوا، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ قدیم و جدید کو ملایا جائے۔ باوجود بڑی قیمتی خدمات کے، جو دینی لٹریچر کی فراہمی اور دینی تعلیم کی ترویج کے سلسلے میں ندوہ نے سرانجام دیں، ندوہ وہ انقلابی شخصیتیں تیار نہ کرسکا، جو جدید و قدیم کی صحیح معنوں میں جامع ہوں۔ ’ندوہ نے سارے عرصے میں عملی سیاسیات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والا ایک بھی نمایاں فرد پیدا نہیں کیا۔ اس لیے دارالعلوم دیوبند [تاسیس: ۳۰مئی ۱۸۶۶ء]نے جب اپنا تعلق انڈین نیشنل کانگرس [تاسیس: ۲۸دسمبر ۱۸۸۵ء]کی یک وطنی قوم پرست تحریک کے ساتھ جوڑا تو ندوہ، مسلم قیادت کے خلا کو پُر کرنے سے قاصر رہا۔ اس طرح مسلمانوں کی قیادت بڑی آسانی سے ان جدید تعلیم یافتہ مسلم زادوں کے ہاتھ میں آگئی، جن کی اکثریت، فکروعمل کے اعتبار سے ملت کے لیے اجنبی تھی اور نواب زادوں اور بڑے زمین داروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی، جسے ۱۸۵۷ء میں اپنی قوم سے بے وفائی کے بدلے میں انگریزی سامراج نے زمینوں، مناصب اور وسائل سے نوازا تھا۔(آباد شاہ پوری، تاریخ جماعت اسلامی، اوّل، ص ۱۷۱)

واقعہ یہ ہےکہ اس کمی کے باوجود ندوہ اس دورِ احیا کی ایک اہم اور مؤثر تحریک ہے۔  اس کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس تحریک نے نئے دور کے تقاضوں کی نشان دہی کی۔ ندوی ذہن تحریک ِ اسلامی کے تقاضوں کو نسبتاً زیادہ سمجھتا اور اس سے زیادہ قریب ہے۔ دارالمصنّفین اعظم گڑھ [تاسیس:۲۱ نومبر ۱۹۱۴ء]نے بلندپایہ اہلِ قلم اور محققین کی ایک قابلِ قدر اجتماعیت تیار کی، جنھوں نے علمی و تحقیقی میدان میں اتنا عظیم علمی اثاثہ مسلمانوں کے لیے تیار کیا کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علی گڑھ [تاسیس: ۲۴مئی ۱۸۷۵ء]اور دارالعلوم دیوبند ویسی خدمت انجام نہ دے سکے۔ اس خاموش کام کے ذریعے سے مسلمانوں میں اپنے دین کے اُوپر اعتماد بحال کیا، اور مسلم اُمت کی آیندہ نسلوں کا رشتہ اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے جوڑا۔

پھر مولانا رحمت اللہ کیرانوی [م:یکم مئی ۱۸۹۱ء مکّہ]، مولانا سیّد ناصرالدین ابومنصور ، مولانا محمد قاسم نانوتوی [م:۱۵؍اپریل ۱۸۸۰ء] اور مولانا ثناء اللہ امرتسری [م:۱۵مارچ ۱۹۴۸ء] نے ردِ عیسائیت کے سلسلے میں بڑی قیمتی خدمات انجام دیں۔ عیسائیوں اور آریہ سماجی ہندوئوں سے بڑے اہم اور کامیاب مناظرے کیے ۔ مولانا رحمت اللہ ایک بین الاقوامی شہرت کے مناظر تھے، جنھوں نے یورپ کے چوٹی کے پادریوں کو جگہ جگہ مدلل اور مسکت جواب دیئے۔

ان تمام قابلِ قدر حضرات گرامی کی مساعی سے احیا کا یہ دور شروع ہوا۔ بلاشبہہ اس دور کے چار ہیرو ہیں:

  • مولانا ابوالکلام آزاد
  • مولانا محمد علی جوہر
  • علّامہ محمد اقبال
  • سیّدابوالاعلیٰ مودودی
  • مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا ابوالکلام آزاد [م: ۲۲فروری ۱۹۵۸ء] نے جواں عمری ہی میں علم و ادب کے میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔ ۱۹۱۲ء میں کلکتے سے اپنے ہفت روزہ اخبار الہلال کے ذریعے ایک طوفان کی طرح مسلمانانِ ہند کی سیاسی اور اجتماعی زندگی پر چھا گئے۔ اخبار الہلال کے اجرا [۱۳جولائی ۱۹۱۲ء] سے تنظیم حزب اللہ  کی تشکیل [۱۹۱۳ء]تک غیرمعمولی کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد بدقسمتی سے ایک ارتقائے معکوس کا شکار ہوگئے۔

معاصر احیائے اسلامی کی تاریخ میں مولانا ابوالکلام کا غیرمعمولی حصہ ہے اور اس حوالے سے ان کے اثرات کو یہاں مختصراً بیان کرتے ہیں:

۱- مغربی تہذیب پر تنقید :مولانا ابوالکلام آزاد نے علی گڑھ تحریک کے فکری، تہذیبی اور عملی پہلوئوں پر شدید تنقید کی۔ مغربی تہذیب کی جارحیت اور تعلیم کے فکری و ثقافتی مظاہر کا سختی سے محاسبہ کیا۔ تقلید ِ فرنگ کے جو رجحانات مسلمانوں میں رُونما ہوئے تھے، ان پر نقد واحتساب کیا۔ من پسند اور معذرت خواہانہ تعبیر کے فتنے کی وجہ سے جو تحریکات، دینی اساس و اقدار کے معنی بدل رہی تھیں ، اُن کا پردہ چاک کیا۔ نیز مسلمانوں کو ان کے دین سے کاٹ دینے کی جو بھی کوششیں ہورہی تھیں، اُن کا مقابلہ کیا۔ اس طرح مولانا ابوالکلام نے چُومکھی لڑائی لڑ کر، اسلامی قوتوں کو مقابلے کا نیا جذبہ عطا کیا۔

۲- تحریکِ آزادیِ ہند میں شمولیت :برطانوی سامراجی حکومت سے غیرمشروط تعاون کرنے، اس کے آگے سپر ڈالنے اور اس سے حقوق کی بھیک مانگنے کی پالیسی پر سخت تنقید کی، اور مسلمانوں کو برطانوی سامراجی حکومت سے عدمِ تعاون اور عدمِ اشتراک کا سبق دیا۔ ابوالکلام نے قوم سے کہا کہ آزادی اور حقوق بھیک مانگنے اور ہاتھ پھیلانے سے نہیں ملا کرتے، ان کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے، قربانیاں دی جاتی ہیں۔ سامراجی حکومت کے ٹکڑوں پر تمھیں نہیں جینا بلکہ حکومت کی باگیں غیرملکی غاصبوں سے چھین لینی ہیں۔ مسلمانوں میں جہاد، جدوجہد اور قربانی کے جذبے کو بیدار کرنے میں مولانا ابوالکلام کی آگ لگادینے والی تحریروں اور تقریروں کا غیرمعمولی حصہ ہے۔

۳- جدید علم الکلام کی اصلاح : سرسیّد احمد خاں، مولوی چراغ علی خان [م: ۱۵جون ۱۸۹۵ء] اور سیّد امیرعلی [م: ۳؍اگست۱۹۲۸ء]کے ہاتھوں ایک نیا علم الکلام پروان چڑھ رہا تھا، جو ایک شکست خوردہ ذہنیت پر مبنی تھا۔ ایسی ذہنیت کہ جس میں اسلام کو ایک بے بس، کمزور اور مدافعانہ پوزیشن میں لاڈالا گیا تھا۔ ابوالکلام نے اس مرعوبانہ اور معذرت خواہانہ انداز کو ترک کرنے کی طرف متوجہ کیا، اور اس کی جگہ قرآن و حدیث سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات کو اعتماد اور جرأت کے ساتھ پیش کیا۔ اگرچہ تعبیر کے معاملات میں کہیں کہیں مولانا آزاد سے بھی چوک ہوئی ہے اور خصوصیت سے واحد ہندی قومیت اور وحدتِ ادیان کے مسئلے پر انھوں نے زبردست ٹھوکر کھائی، لیکن بحیثیت ِ مجموعی انھوں نے انھی خطوط پر بیان و کلام کی روایت کو قائم کیا، جن کی بنیاد شاہ ولی اللہ نے رکھی تھی۔ اسی چراغ سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اور اسی پیغام کو خطیبانہ اور جھنجھوڑنے والے انداز میں پیش کرتے ہوئے ابوالکلام نے مسلمانوں کو سوچنے، سمجھنے اور چلنے کا ایک نیا انداز دیا۔ خصوصیت سے قرآنِ پاک سے مسلمانوں کا تعلق جوڑنے میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

نہ صرف قرآنِ پاک کے ترجمے اور تفسیر کے ذریعے بلکہ ان سے بڑھ کر اخبار الہلال کے مضامین کے ذریعے انھوں نے مسلمانوں میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ہندستان کی جدید تاریخ میں الہلال  کے مضامین میں پہلی مرتبہ یہ نظر آتا ہے کہ قرآن پاک میں سابق اُمتوں کے   محض قصے ہی نہیں بلکہ زندگی کے معاملات کے بارے میں بھی ہدایات ملتی ہیں۔ زندگی کا ہرشعبہ،ہرپہلو اور فیصلہ خواہ وہ معیشت سے متعلق ہو یا معاشرت سے، ملکی سیاست کا مسئلہ ہو یا بین الاقوامی سیاست کا معاملہ، ان میں سے ہر ایک کے حل کے لیے ابوالکلام قرآنِ پاک کی آیات سے استدلال کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے مخالفین بھی کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ:

دُنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، نہ معلوم ابوالکلام کے پاس کیا جادو ہے، قرآنِ پاک کی کوئی نہ کوئی آیت لے ہی آتے ہیں۔

 اسی طرزِ استدلال کا یہ اثر ہوا کہ لوگوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ: ’قرآن ہماری زندگی کے تمام معاملات و مسائل سے بحث کرتا ہے اور زندگی کے تمام مسائل اور شعبوں میں ہمیں رہنمائی دیتا ہے‘۔

۴- علمی مرتبہ : مولانا ابوالکلام نے معیارِ تصنیف کو بہت اُونچے مقام پر پہنچا دیا۔ پچھلے ڈیڑھ سوسال کے اہلِ علم کی تصانیف اور خصوصیت سے معرکہ ۱۸۵۷ء کے بعد جو کتابیں شائع ہوئیں، ان کو پڑھیے تو عمومی طور پر ان کا ادبی معیار بہت ہی پست نظر آتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے باقی دُنیا کا لٹریچر دیکھا ہی نہیں اور نہ خود اپنے لٹریچر پر کوئی گہری مجتہدانہ نظر ڈالی ہے۔ بس روایتی طور پر علما جو باتیں کہہ گئے تھے، انھی کو نئے سرے سے ترتیب دے کر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے اس دھارے کو روک کر ایک نیا رُخ دیا۔

۵- اور پھر ارتقائے معکوس :اس کے بعد ابوالکلام نے اجتماعی جدوجہد برپا کی، ان کے خطبات نے مسلمانوں میں ایک ہلچل پیدا کر دی تھی۔ اللہ نے ان کی زبان میں بلا کی اثرانگیزی رکھ دی تھی۔ اس بنا پر ابوالکلام اس دور کے ہیرو قرار پاتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اتنا بڑا آدمی اتنا بڑا کام انجام دے کر ارتقائے معکوس (repercussion)کی نذر ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ۱۹۰۶ء سے ۱۹۲۴ء تک والے ابوالکلام رحلت کرجاتے ہیں اور  ان کے جسد ِ خاکی سے ایک نئے ابوالکلام جنم لیتے ہیں۔ وہ ابوالکلام جو ایک زمانے میں جہاد کے لیے پکارتے تھے، وہ اب ہندوئوں سے سمجھوتے کی دعوت دینے لگے۔ وہ ابوالکلام جو مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم کرنے کے لیے اُٹھے تھے، وہ محض ’سوراجی خوداختیاری‘ (Self Governing) کےعلَم بردار بن کر رہ گئے۔ تاریخ کے اس سانحے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔

  • ابوالکلام کا اسلوب :یہاں ایک اور بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ خود مولانا ابوالکلام کا اسلوبِ بیان ، ان کے دعوتی اثرات کے استقلال (continuity)کی راہ میں حائل تھا۔ ابوالکلام کی تحریروں میں جوش ، حرارت اور گرمی کا دریا تو موج زن ہے، لیکن وہ ٹھنڈی اور مستقل روشنی نہیں ہے، جس کی بنا پر زندگیاں بدلتی ہیں۔ ان کی تحریریں ایک مرتبہ قلب میں گرمی ضرور پیدا کرتی ہیں، لیکن ٹھیرائو کے ساتھ جو مستقل تبدیلی مطلوب ہے، وہ ان کے ذریعے سے نہیں آسکتی۔ اس کے اندر حرکت، تیزی اور آگ کی سی گرمی ہے، لیکن خاموش اور پختہ انقلاب لانے والی قوت نہیں ملتی۔ پھر عملی اور اخلاقی پہلوئوں پر بھی ابوالکلام نے بہت کم متوجہ کیا ہے۔ ان کے یہاں  فکری اور سیاسی موضوعات پر تفصیلی مباحث موجود ہیں، لیکن اسلام، زندگی میں جو عملی انقلاب تعمیرِ سیرت اور تزکیۂ نفس کی بنیادوں پر برپا کرتا ہے ، اس پر بہت کم تحریریں ملتی ہیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اندازِ نگارش کی حد تک ابوالکلام کے ہاں ایک حد سے بڑھی مذہبی رومانویت ملتی ہے۔
  • مولانا محمد علی جوہـر

پھر مولانا محمدعلی جوہر [م: ۴جنوری ۱۹۳۱ء] آتے ہیں۔ مولانا محمد علی بڑے مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ وہ کوئی بڑے مفکر نہ تھے، لیکن ایک بندئہ مومن کا سا دل رکھتے تھے، مسلمان کا سا سوچنے کا انداز رکھتے تھے، مسلمانوں سے محبت رکھتے تھے اور مسلمانوں کی سربلندی چاہتے تھے۔آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق تھا۔ اللہ کی ذات پر کامل یقین اور توکّل کی مثال اس زمانے میں اس سے اعلیٰ نہیں مل سکتی کہ ایک شخص جو جیل میں پڑا ہوا ہے۔ اس کی سب سے بڑی بیٹی آمنہ بیمار ہے اور بیمار بھی ایسی کہ زندگی اور موت کی کش مکش میں گرفتار، اُس وقت آپ ایک غزل کہتے ہیں،جس میں ایک شعر باپ کی زبان سے یہ بھی نکلتا ہے :

تیری صحت ہمیں منظور ہے، لیکن اُس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں

یہ بات اس شخص کے سوا اور کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ جسے اللہ کی ذات پر کامل یقین ہو۔ اسی طرح یہ بات بھی محمدعلی جوہر جیسا بندۂ مومن ہی کہہ سکتا ہے:

کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے

مولانا محمدعلی نےاپنے انگریزی ہفت روزہ Comrade  [۱۹۱۱ء، کلکتہ] اور روزنامہ ہمدرد [۱۹۱۳ء، دہلی]کی تحریروں اور اپنی تقریروں کے ذریعے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ان کی تحریر میں بلا کا تیکھا پن تھا، دل میں کھب جانے والے تیرونشتر سے وہ آراستہ ہوتی تھی۔ مولانا محمدعلی جوہر کا اصل جوہر ’تحریک ِ خلافت‘ میں کھلا،جس کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں بیداری کی نئی تحریک رُونما ہوئی اور مسلمانوں پر مسلط مایوسی ختم ہوئی۔ مولانا محمد علی اور ’تحریک ِ خلافت‘ کے اثرات میں یہ چیزیں نمایاں محسوس ہوتی ہیں:

       ۱-    مسلمانوں میں خوداعتمادی پیدا ہوئی اور پھر کچھ کر گزرنے کا عزم ان میں فروزاں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم [۲۸جولائی ۱۹۱۴ء-۱۱ نومبر ۱۹۱۸ء] اور اس کے بعد کے زمانے میں مسلمان،غیرمنقسم برطانوی ہند کی سیاسی زندگی پر چھائے ہوئے تھے۔ برپا ہونے والی ہرقومی، ملّی اور رفاہی تحریک میں رضاکار مسلمان ہوتے تھے۔ ان میں  وہ اعتماد تھا کہ جس کی بنا پر وہ اپنی عددی کمی کے باوجود یہ یقین رکھتے تھے: ’ہندستان کے اصل حکمران ہم ہی ہوں گے‘۔ اس خطرے کو ہندو لیڈروں نے بھی محسوس کیا۔ ’تحریک ِ عدم تعاون‘ [ستمبر۱۹۲۰ء-فروری ۱۹۲۲ء] کو گاندھی جی [م: ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء] نے اسی لیے ختم کیا تھا کہ مسلمان، ہندستان کی سیاسی فضا پر چھائے جارہے تھے۔

       ۲-    مولانا محمد علی اور ’تحریک ِ خلافت‘ کے زیر ِ اثر ’تحریک اتحاد عالمِ اسلام‘ کا احیا ہوا، اور مسلمانوں میں عالم گیر برادری ہونے کا احساس زیادہ سے زیادہ مستحکم ہونا شروع ہوا۔ اس تحریک کو غذا پورے عالمِ اسلام سے مل رہی تھی، لیکن ہندستان کی سرزمین پر اس تحریک کے سب سے بڑے علَم بردار محمدعلی جوہر ہی تھے، جن کا عالم یہ تھا کہ مراکش میں ایک مسلمان کے کانٹا چبھتا تھا تو وہ بے قرار ہوجاتے تھے۔ یہی جذبہ تھا، جس نے ان سے ۱۹۱۴ء میں The Choice of the Turks جیسا مقالہ لکھوایا، جس کی مثال انگریزی صحافت میں نہیں ملتی۔[یہی مقالہ ۲۶ ستمبر ۱۹۱۴ء کو کامریڈ پر پابندی کا سبب بنا]۔

       ۳-    تحریک ِ خلافت کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک کُل ہند تنظیم رُونما ہوئی۔ جن حضرات نے حالات کا مطالعہ گہرائی میں جاکر کیا ہے، وہ واقف ہیں کہ مولانا محمدعلی جوہر کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی [م: ۲۶نومبر ۱۹۳۸ء] نے غیرمعمولی ذہانت اور قابلیت کے ساتھ اس تحریک کا اندرونی نظم سنبھالا اور پورے ملک میں تحریک کا ایک جال پھیلا دیا۔

       ۴-    ’ہندو مسلم اتحاد‘ کا جو ڈھونگ گاندھی جی اور ان کے حواریوں نے رچایا تھا، اس کا پول اس زمانے میں کھل گیا اور ہندو مسلم فسادات نے سارے پردے چاک کر دیے۔  مولانا محمدعلی جوہر نے آخری زمانے میں اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیا تھا کہ مسلمانوں کا مستقبل ہندوئوں کے ساتھ نہیں، ان سے الگ ہے۔

       ۵-    عام مسلمانوں کو تحریک سے وابستہ کیا گیا اور پوری قوم کو میدان میں لاکھڑا کیا گیا۔ اس سے پہلے کی تحریکات میں قوم کا ایک حصہ ہی سرگرم نظر آتا ہے، لیکن یہ تحریک ایسی تحریک ہے جس میں پوری قوم شریک ہے۔

  • علّامہ محمد اقبال

اس دور کے تیسرے معمار کا نام علامہ محمد اقبال [م:۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء] ہے۔ قومی زندگی میں اقبال کا اثر ۱۹۱۰ء کے بعد سے شروع ہوا۔ انجمن حمایت ِ اسلام کے جلسوں میں شرکت (۱۹۰۴ء) اور اسرار و رُموز (۱۹۱۵ء) کے ذریعے اقبال نے اپنے اصلاحی کام کا آغاز کیا اور نظم و نثر اور عملی سیاست ہر طرح سے قوم کی رہنمائی کی۔ اقبال کا رویّہ بڑا متوازن نظر آتا ہے۔ علی گڑھ تحریک کے نتائج سے غیرمطمئن رہنے کے باوجود وہ سرسیّد احمد خاں کا احترام کرتے رہے۔ علما سے ان کو شکایت رہی، لیکن ہرقدم پر ان سے رجوع کرتے نظر آتے ہیں اور ان کا پورا پورا ادب و لحاظ کرتے ہیں۔

  • ایک ہمہ جہت شخصیت :علّامہ اقبال ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، کہ ان کا ہرپہلو نظر کو خیرہ اور فکر کو مسحور کرنے والا ہے۔ وہ تاریخ کی اُن چند برگزیدہ ہستیوں میں سے ہیں جن کی زندگیاں خوبیوں کی جامع تھیں ۔ بلاشبہہ وہ ایک عظیم شاعر، بالغ نظر مفکّر، بلندپایہ فلسفی، صاحب ِ طرز ادیب، ماہر قانون، مدبر اور ایک اچھے انسان تھے۔ لیکن ان کی شخصیت کا جو پہلو تمام حیثیتوں سے زیادہ نمایاں ہے اورجو اُن کو فلسفی اور شاعر کے مقام سے بلند کر کے ایک تاریخ ساز کے رُتبۂ عالیہ پر لے آتا ہے، وہ ہے بیسویں صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے معمار کی حیثیت سے ان کا مقام۔ علّامہ اقبال ایک شاعر ہی نہ تھے، وہ ایک نئے دور کے پیامبر بھی تھے اور ان کی شخصیت کا یہی پہلو انھیں اسلامی تاریخ کی زندۂ جاوید شخصیتوں میں شامل کرتا ہے۔
  • فکری انقلاب کی بنیادیں : تحریک ِ خلافت سے مسلمانوں میں ایک ہمہ گیر سیاسی بیداری تو ضرور پیدا ہوئی، لیکن فکری احیا کے لیے جو کچھ ٹھوس نظریاتی اور فلسفیانہ بنیادیں درکار ہوتی ہیں، یہاں کے مسلمانوں میں یہ سیاسی بیداری ابھی تک ایسی فکری قوت سے محروم تھی، جو سیاسی بیداری کو تہذیبی انقلاب کا پیش خیمہ بنا دیتی ہے___ علّامہ محمد اقبال نے اس خلا کو پُر کیا اور عصرِحاضر میں احیائے اسلام کی بنیادیں رکھیں۔

اقبال ایک حقیقت بین نگاہ رکھتے تھے۔ انھوں نے مسلم تہذیب و تمدن کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا تھا۔ وہ اسبابِ زوالِ اُمت سے بخوبی واقف تھے۔ انھیں اس بات کا پورا احساس تھا کہ مغربی تہذیب کا زہر جسد ِ ملّت میں آہستہ آہستہ سرایت کرگیا ہے اور اگر اس کے علاج کی طرف بروقت توجہ نہ کی گئی، تو بعد میں افسوس کرنا بے کار ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں میں فکری انقلاب لانے، ان کو وقت کے تقاضوں سے آگاہ کرنے اور اسلام کو ایک مکمل دین اور تحریک کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی۔

علّامہ اقبال کے خیال میں مسلم ثقافت کے رُوبہ زوال ہونے اور مغربی افکار کے تسلط کی وجہ صرف یہ تھی کہ مسلمانوں نے اسلام کی زندہ تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر بے عملی کی زندگی اختیار کرلی تھی۔ مغرب سے متاثر ہونے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان خود اپنے اُوپر اعتماد اور اپنی اقدار پر یقین کھو بیٹھے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مغرب کی اندھی تقلید شروع کر دی۔ مزیدبرآں اُن میں ایک قسم کا احساسِ کمتری نشوونما پاتا چلا گیا، جس نے مذہب اور سیاست کی تفریق، غیراسلامی تصوف اور تباہ کن معاشرتی رُسومات کو جنم دیا۔

  • تہذیبِ نو پر تنقید :علّامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کو دعوتِ فکر دی کہ وہ اپنے اس رویے پر اَزسرِنو غور کریں کیوں کہ مغرب میں جہاں چند خوبیاں اور اچھائیاں ہیں، وہاں بہت بُرائیاں اور خامیاں بھی ہیں۔ اقبال نے خود مغربی تہذیب کا نہ صرف گہرا مطالعہ کیا تھا بلکہ بڑے قریب سے مشاہدہ بھی کیا تھا۔ اس طرح وہ اس کے مزاج، روح اور ہیئت سے بخوبی واقف تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو خبردار کیا:

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات

دوسرے مقام پر آپ نے کہا:

نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جُھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خُونیں میں تیغِ کارزاری ہے

ایک اور انداز میں اس بات کو یوں کہتے ہیں:

پیرِ مے خانہ یہ کہتا ہے کہ ایوانِ فرنگ
سُست بنیاد بھی ہے ، آئینہ دیوار بھی ہے

علّامہ محمد اقبال مسلمانوں کی ذہنی غلامی کو ختم کرنے کے لیے اپنے فکری مطالعے کا نچوڑ اس طرح ملّت کے سامنے پیش کرتے ہیں:

شَفق نہیں مغربی اُفق پر، یہ جُوئے خوں ہے ، یہ جُوئے خوں ہے
طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ

وہ فکرِ گُستاخ جس نے عُریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اُسی کی بے تاب بجلیوں سے خطر میں ہے اُس کا آشیانہ

جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مُقامِروں نے بنا دیا ہے قمارخانہ

اقبال نے مسلمانوں کے ذہنوں سے مغرب کی علمی اور فکری برتری کو ختم کر کے ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ مغربی افکار کامطالعہ کریں، مگر فکری آزادی کے ساتھ سائنس اور فلسفہ پر عبورِ کامل حاصل کریں۔ اور اس پورے عمل کے دوران میں اپنی تنقیدی حس کو ہرگز کمزور نہ پڑنے دیں۔ مغرب کی ترقی سے فائدہ اُٹھائیں، مگر مغرب کے   غلام بن کر نہیں بلکہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے علَم بردار کی حیثیت سے:’’ہمارا فرض ہے کہ بہرحال فکرِ جدید کے نشوونما پر بااحتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقدوتنقید سے کام لیتے رہیں‘‘ (اقبال ، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ)۔ یعنی علّامہ اقبال نے اس خطرے کو شدت سے محسوس کیا کہ یورپ کابڑھتا ہوا تمدن کہیں عالمِ اسلام پر چھا نہ جائے۔ چنانچہ انھوں نے مغربی تہذیب کے کمزور پہلوئوںکو اُجاگر کیا اور لادینیت اور فکری تشکیک کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کیا۔ چنانچہ وہ مثنوی ’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘ میں بڑی خوب صورتی سے کہتے ہیں:

آدمیت زار نالید از فرنگ
زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ

پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق؟
باز روشن می شود ایّامِ شرق

در ضمیرش انقلاب آمد پدید
شب گذشت و آفتاب آمد پدید

یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد
زیر گردوں رسم لادینی نہاد

گرگے اندر پوستینِ برۂ
ہر زماں اندر کمینِ برۂ

مشکلاتِ حضرتِ انساں ازوست
آدمیت را غمِ پنہاں ازوست

درنگاہش آدمی آب و گل است
کاروانِ زندگی بے منزل است

باخساں اندر جہانِ خیروشر
در نسازد مستیٔ علم و ہنر

آہ از افرنگ و از آئینِ اُو
آہ! از اندیشۂ لادینِ اُو

[ترجمہ:] lنوع انساں، فرنگیوں کے ہاتھوں سخت فریاد کر رہی ہے۔ زندگی نے اہلِ فرنگ سے کئی ہنگامے پائے ہیںl اے اقوام مشرق اب کیا ہونا چاہیے؟ تاکہ مشرق کے ایّام (یعنی زندگی اور تاریخ) پھر سے روشن ہوجائیں lمشرق کے ضمیر میں انقلاب ظاہر ہورہا ہے۔ رات گزر گئی ہے اور آفتاب طلوع ہوا lیورپ اپنی تلوار سے خود ہی زخمی ہوچکا ہے۔ اس نے دُنیا میں رسم لادینی کی بنیاد رکھ دی ہے lاس کی حالت اس بھیڑیے جیسی ہے، جس نےبکری کے بچّے کی کھال اوڑھ رکھی ہے۔ وہ ہرلمحہ ایک نئے برہ (بکری یا ہرن کا بچہ) کی گھات میں ہے lنوعِ انسان کی ساری مشکلات اس کی وجہ سے ہیں، اور اسی کی وجہ سے انسانیت گہرے غموں میں مبتلا ہے lاس کی نگاہ میں انسان محض پانی اور مٹی کا مجموعہ ہے اور زندگی ایک بے مقصد شے ہے lیہ جہاں جو خیروشر کا میدانِ جنگ ہے،اس کے اندر علم و حکمت کی مستی رذیلوں کے لیے سازگار نہیں lافسوس ہے افرنگ پر اور اس طریق کار پر بھی افسوس ہے کہ اس نے لادین فکر اختیار کرلی ہے۔

اقبال نے پوری قوت کے ساتھ اسلام کے پیش کردہ نظامِ حیات کو پیش کیا اور حکمت و دانائی پر تجزیے سے ثابت کیا کہ موجودہ فکری اور نظریاتی انتشار و پراگندگی کا واحد حل مذہب ہے۔ وہ کہتے ہیں:

عالمِ انسانی کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے: کائنات کی اخلاقی اورروحانی تعمیر، فرد کی روحانی اصلاح و نجات، اور وہ بنیادی اصول جن کی نوعیت عالم گیر ہو اور جن سے انسانی معاشرے کا ارتقا روحانی اساس پر ہوتا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ جدید یورپ نے اس نہج پر متعدد نظامات قائم کیے۔ لیکن تجربہ شاہد ہے کہ جس حق و صداقت کا انکشاف عقلِ محض کی وساطت سے ہوا، اس سے ایمان اور یقین میں وہ حرارت پیدا  نہیں ہوتی جو وحی و تنزیل کی بدولت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلِ محض نے انسان کو بہت کم متاثر کیا ہے۔ اس کے برعکس مذہب کو دیکھیے کہ اس نے افراد کو اضافہ مراتب اور اصلاحِ نفس کے ساتھ ساتھ معاشروں اور سماج و تمدن تک کو بدل ڈالا۔ یقین کیجیے کہ جدید یورپ سے بڑھ کر آج انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں ہے۔(تشکیلِ  جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۷۶، ترجمہ:نذیر نیازی)

علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد (۱۹۳۰ء) میں جو کہ تصورِ پاکستان کی بنیاد ہے، اُس میں اُمت مسلمہ کے مقصد وجود اور اس تناظر میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ سیاسی ڈھانچے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:

ظاہرہے کہ اگر مذہب کا تصور یہی ہے کہ اس کا تعلق صرف آخرت سے ہے، انسان کی دنیوی زندگی سے اسے کوئی سروکار نہیں، تو جو انقلاب مسیحی دنیا میں رُونما ہوا ہے وہ ایک طبعی امر تھا۔ مسیح علیہ السلام کا عالم گیر نظامِ اخلاق نیست و نابودہو چکا ہے اور اس کی جگہ اخلاقیات اور سیاسیات کے قومی و وطنی نظاموں نے لے لی ہے۔ اس سے یورپ بجاطور پرا س نتیجے پر پہنچا ہے کہ مذہب کا معاملہ ہر فرد کی اپنی ذات تک محدود ہے۔ اسے دُنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔لیکن اسلام کے نزدیک انسان کی شخصیت بجائے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادّے اور رُوح کی کسی ناقابل اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ مذہب اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، کلیسااور ریاست اور رُوح اور مادّہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزا ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں کہ جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر جو کسی دوسری جگہ واقع ہے‘ ترک کر دینا چاہیے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کی ایک شکل کا نام ہے، جس کا اظہار قید مکان وزمان میں ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مغرب نے مادّے اور رُوح کی ثنویت کا عقیدہ بلا کسی غور و فکر کے مانویت کے زیر اثر قبول کر لیا تھا۔ اگرچہ آج اس کے بہترین اربابِ دانش اپنی    اس ابتدائی غلطی کو محسوس کر رہے ہیں، مگرسیاست دانوں کا طبقہ ایک طرح سے اب بھی مُصر ہے کہ دنیا اس اصول کو ایک ناقابل انکار حقیقت کے طور پرتسلیم کرلے۔

اسی طرح ایک اور موقعے پر اقبال نے متوجہ کیا ہے:

مذہب اور صرف مذہب ہی آج کے انسان کو اُن ذمہ داریوں کا اہل بنا سکتا ہے جو سائنس کی ترقی نے اس کے شانوں پر ڈال دی ہیں۔ مذہب ہی کے ذریعے انسان میں وہ یقین اور ایمان پیدا ہوسکتا ہے جو اس کی شخصیت کو دُنیا میں جلابخشتا ہے او ر آخرت میں اسے دوام عطا کرتا ہے۔ انسان کی حقیقت اور اس کے مستقبل کا حقیقی شعور وہ شعور ہے جو مذہب کی دی ہوئی روشنی عطا کرتی ہے۔ یہی دورِ جدید کے انسان کو ایک ایسی سوسائٹی میں جو مذہب اور سیاست کی کش مکش کی وجہ سے اپنی اصل روح کھو چکی ہے، کامیابی سے ہم کنار کرسکتی ہے۔

اقبال نے جہاں مغرب کی کمزوریوں اور خامیوں پر بھرپور تنقید کی ہے، وہاں اس کی خوبیوں کو خصوصیت سے سائنس اور جذبۂ عمل و حرکت کو سراہا بھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ صفات یورپ نے خود مسلمانوں ہی سے مستعار لی تھیں، لیکن افسوس کہ آج مسلمان خود ان صفات سے محروم ہیں، جو ان کی اپنی کھوئی متاع ہے۔

  • اسلامی فکر کی تشکیل جدید :اقبال کی عظمت و فراست کا ایک اور نمونہ ان کے اس احساس میں مضمر ہے کہ اسلامی فکر کی تشکیل جدید کی جائے۔ وہ جانتے تھے کہ مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے غلبے (hegemony)کو عام ہتھیاروں سے روکا نہیں جاسکتا بلکہ اس کے لیے کچھ نئے وسائل و آلات اور نئے ذرائع درکار ہوں گے۔ انھیں اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ اسلام فطرتاً ایک انقلابی تحریک ہے، لیکن صدیوں کے جمود نے اس جوہرِ خالص پر ایک زنگ کی تہہ جمادی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ زنگ کو کھرچ دیا جائے۔ اسلام کی حقیقی تصویر پھر سامنے آجائے اور یہ شمع سارے عالم کو ایک بار پھر منور کردے۔ ان کی وہ تقاریر جو Reconstruction of Religious Thought in Islam(تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) کے نام سے موسوم ہیں، اس مقصدکے حصول کی ایک کامیاب کوشش ہے، جس نے برصغیر کے مسلمان کے ذہن پر اقبال کے ان انقلابی خیالات کے بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
  • ایک انقلابی، ایک مصلح :اقبال کو صرف ایک شاعر یا فلسفی کہنا تاریخ پر ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ وہ ایک ایسے انقلابی اور مصلح تھے، جنھوں نے جدید اسلامی احیا کو صرف نظریاتی اساس ہی نہیں دی بلکہ پورے ملک کو خوابِ غفلت سے جگایا اور ملت کو اس کے اصل مشن پر گامزن کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ چنانچہ انھوں نے اپنی دونوں شہرئہ آفاق مثنویوں: ’مثنوی اسرارِ خودی‘ اور ’رُموزِ بے خودی‘ میں فرد اور معاشرے کے ارتقا، اُمت کے زوال اور اس کے اسباب سے بحث کی ہے۔ پھر یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اصل راہِ نجات اپنے پروردگار کے احکام اور اس کے رسولؐ کے اسوئہ حسنہ کی پیروی میں ہے۔ اُن کے خیال میں اسلام کی بنیادیں: توحید، رسالت، آخرت اور جہاد ہیں۔ توحید کے ذریعے معاشرے میں یک رنگیٔ خیال اور عملی یکسانیت پیدا ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ انقلابی قوت اور کسی چیز میں نہیں۔ چنانچہ انھوں نے اسلام کے بنیادی عقائد پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کے الفاظ کے معجزانہ اثر نے ایک سوئی ہوئی قوم کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا۔
  • اقبال کا اصل کارنامہ  :اقبال کے اس کارنامے کو مختصراً ہم یوں پیش کرسکتے ہیں:

۱- اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی بلکہ آں حضور ؐ کے تجربے اور مشاہدے کو اس کی اساس قرار دیا۔ فلسفۂ مذہب کے نقطۂ نظر سے یہ ایک غیرمعمولی اقدام تھا اور یہ اپروچ اس نومعتز لائی نقطۂ نظر سے بہت مختلف تھی، جو سرسیّد احمد اور ان کے رفقا نے اختیار کیا تھا۔ اقبال کے ’خطبات‘ تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ کا سب سے نمایاں پہلو یہی ہے۔

۲- اقبال نے انسانِ مطلوب کا ایک مکمل تصور پیش کیا۔ اس کی ذاتی اور انفرادی صفات کو بیان کیا اور اس اجتماعی اور ملّی نظام کے خدوخال واضح کیے، جس کے ذریعے فرد اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچ سکتا ہے۔ اقبال نے خصوصیت سے، ایمان، ضبط نفس، نیابت و خلافت ِ الٰہی کے تصورات کو پیش کیا۔ خودی کی تشکیل و ترقی کا اصل مقصد، دین کی حفاظت اور ملّت کی ترقی کے لیے استعمال کو قرار دیا۔ یہی وہ کام ہے جسے نیابت ِ الٰہی کہا جاتا ہے اور یہ کام مذہب کے ذریعے انجام پاسکتا ہے۔

۳- پھر اقبال نے مغربی تہذیب ، فکر اور سیاسی درندگی پر بھرپور تنقید کی ۔ ایک طرف یہ دکھایا کہ مغرب کی بنیاد بڑی کمزور ہے اور مغربی تہذیب فی نفسہٖ آج خود انتشار کا شکار ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں نقالی اور تقلید کے نقصانات کو اُجاگر کیا اور انھیں ایک آزاد اور تخلیقی نقطۂ نظر اختیار کرنے کا مشورہ دیا:

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تُو
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے

۴- اقبال نے محض نقدوتنقید کے کام پر اکتفا نہ کیا بلکہ مثبت طور پر ملّت کے سامنے ترقی کا راستہ بھی پیش کیا___ اور وہ راستہ اسلام کا راستہ ہے۔ اقبال نے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان کو تازہ کیا اور قرآن اوررسولؐ کی اتباع کی دعوت دی۔ اقبال نے انفرادی اخلاق اور اجتماعی نظم کی پابندی کی اہمیت کو اُجاگر کیا اور کہا:

روشن اس ضَو سے اگر ظُلمتِ کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

۵- اقبال نے جذبۂ عمل کو بیدار کیا،قوم میں رجائیت اور اُمید کا چراغ روشن کیا ۔ اس کو جہاد اور تسخیر کائنات کا درس دیا اور راہِ عمل سے ہٹانے والے ہر رجحان پر تنقید کی۔ کس طنز سے اقبال  نے کہا ہے:

اسی قُرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر

اقبال نے مسلمانوں میں جذبۂ عمل بیدار کرنے کے ساتھ یہ یقین دلایا ہے کہ مستقبل تمھارا ہے:

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے

اور:

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

اس کا پیغام تو بس یہ تھا:

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

۶- اقبال کے یہاں دینی اُمور میں حددرجے کی احتیاط ملتی ہے۔ انھوں نے تقریباً تمام اہم اُمور میں علما متقدمین اورسلف کی اتباع کی ہے اور دین میں کسی قسم کی بھی قطع و برید کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ رائے قائم کرنے میں سہو ہرانسان سے ہوسکتا ہے لیکن اقبال کا نقطۂ نظر اصلاً خالص اسلامی تھا اور وہ اسلام کو زمانے کی خراد پر تراشنے کو کفر و ضلالت سمجھتے تھے۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ زمانۂ حاضرہ کے پیدا کردہ مسائل کا حل اسلام کی تعلیمات سے تلاش کیا جائے اور زمانے کو اسلام کے مطابق بدل ڈالا جائے۔

۷- اقبال کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس نے روحانی اور مادی طاقت دونوں کے امتزاج کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا کہ اگر مسلمان دُنیا میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں روحانی و اخلاقی اور مادی و دُنیوی شعبوں میں ترقی کرنی ہوگی۔ سرسیّد احمد خاں کے یہاں دُنیاوی اور مادی پہلو کا غلبہ ہے۔ اور دوسری طرف علما کے یہاں صرف روحانی اور اخلاقی پہلو نمایاں ہے۔ لیکن اقبال نے اخلاقی اور روحانی اور مادی و دُنیوی پہلوئوں کو مساوی اہمیت دی ہے اور ہرایک کو اپنے اپنے مقام پر رکھا ہے۔

۸- اقبال نے ملّت اسلامیہ کی عملی سیاست میں بھی حصہ لیا اور یہاں ان کی سب سے بڑی خدمت (contribution) نظریاتی بنیادوں پر تخلیق وطن، تقسیم ملک اور اسلامی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے ایک باقاعدہ الگ ریاست کا قیام ہے۔

  • اس عہد پر ایک نظر

اس پورے دور پر جب ہم ایک نظر ڈالتے ہیں تو چند چیزیں نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہیں:

۱- عام مذہبی احیاء :انفرادی زندگی میں اسلام کے تقاضوں کا شعور پیدا ہوا اور اجتماعی اور ملکی زندگی میں مذہبی تحریکوں کو فروغ حاصل ہوا۔ علما کی قیادت میں پوری قومی زندگی کی تنظیم بہتر ہوئی، دینی لٹریچر تیار ہوا اور مذہبی جذبات کو عام فروغ حاصل ہوا۔

۲- تہذیب مغرب کی یلغار پر ردِعمل کا  آغاز :اس زمانے میں مغربی تہذیب اور اس کی نقالی پر تنبیہ (warning)کا رجحان مضبوط ہوا۔ وہ مرعوبیت جو اَب تک ذہنوں پر مسلط تھی، کچھ کم ہوئی۔ مغرب کے خلاف سیاسی اور تہذیبی ردعمل رُونما ہوا۔ نام نہاد ’نئی روشنی‘ پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی جانے لگی اور اندھی تقلید کی رو کو ایک دھچکا لگا۔

۳- قومی نقطہ ٔ نظر کی ابتدا  : ساتھ ہی ساتھ قومی نقطۂ نظر پیدا ہونا شروع ہوا۔ دوسروں سے موازنہ اور اپنی تاریخ، اپنے قائدین اور مفکرین ، اپنے شعرا کی عظمت کا احساس پیدا ہوا۔

ہمارا یہ جائزہ نامکمل رہے گا، اگر ہم بے لاگ طور پر نہ بتائیں کہ احیائے اسلامی کے نقطۂ نظر سے اس دور میں اہم کمزوریاں کیا پائی جاتی تھیں، مثلاً:

۱- ساری قوت اس بات پر صرف ہورہی تھی کہ بس، اسلام کو اعلیٰ اور شان دار ثابت کیا جائے۔ وقت کے مسائل اور ان حقیقی تہذیبی مشکلات کو حل کرنے کی طرف ضروری توجہ نہیں دی گئی بلکہ ’پدرم سلطان بود‘ کی خوراک پر خوراک قوم کو دی جاتی رہی۔

۲- بڑی حد تک سارا انداز رومانی اور جذباتی تھا۔ اس زمانے کے ادب، صحافت، حتیٰ کہ فلسفہ اور تفسیری ادب پر بھی ایک قسم کی افسانوی اور شاعرانہ رومانیت چھائی ہوئی تھی۔ یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس کا ایک سبب یہ تو نہیں تھا، کہ بیداری کی اس تحریک کے زمانے اور دور کے تقریباً تمام معمار شاعر بھی تھے؟

۳- قومی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ذہنی انتشار نظر آتا ہے۔ اسلام کا معیارِ اقتدار نکھر کر قوم کے سامنے نہیں آرہا تھا۔ ایک ہی قلم سے دوسرے خلیفۂ راشد عمرؓ بن الخطاب [م: ۷نومبر ۶۴۴ء] اور عباسی حکمران ہارون الرشید [م:۲۴مارچ ۸۰۹ء]کی عظمت کے نقوش صفحات پر ثبت کیے جارہے تھے۔پھر گمراہ کن عقائد و انتظام کے علَم بردار مغل بادشاہ اکبر [م: ۲۷؍اکتوبر ۱۶۰۵ء] اور الٰہیاتِ اسلامی کے عظیم پیش کار شاہ ولی اللہ [م:۲۰؍اگست ۱۷۶۲ء] دونوں کو ایک ہی سانس میں خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا۔ جامع مسجد دہلی اور آگرہ میں تاج محل مقبرے کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا۔ افسوس کہ اس عظیم تضاد کو محسوس نہ کیا جاسکا۔

۴- اسلام کی دعوت کو فکری اور فلسفیانہ بنیادوں پر استوار نہ کیا جاسکا۔ خاصی حد تک ٹھوس دلیل کی جگہ شعر اور حقائق و شواہد کی جگہ نعروں سے کام چلایا جاتا رہا۔مغربی تہذیبی افکار پر کوئی مستقل تصنیف اُس زمانے میں نہیں آئی، اور اہم مسائل پر کوئی تفصیلی بحث نہیں ملتی۔ سائنس اور فلسفہ نے جو حقیقی سوالات پیدا کیے تھے، ان سے کوئی پنجہ آزمائی کرتا نظر نہیں آتا۔

صرف ایک علّامہ محمد اقبال نے اس سلسلے میں کوشش کی اور ایک نئے انداز کی داغ بیل ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تشکیلی کام کا دائرہ محدود تھا اور دائرۂ اثر اس سے بھی زیادہ محدود۔

۵- اس زمانے میں ہمہ گیر حرکت تو بہت نظر آتی ہے۔اجتماعی تنظیم بندی بھی ملتی ہے لیکن مستقل بنیادوں پر مسلمانوں کو اسلامی اصولِ تنظیم کے مطابق جمع نہیں کیا گیا۔ ان کی ایسی تنظیم بندی نہیں نظر آتی کہ جس کے ذریعے ان کی صلاحیتیں ایک مثبت دعوت پر جمع ہوجاتیں اور ان کی ترقی اور تربیت کا مناسب انتظام ہوپاتا۔

۶- مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی باہم کش مکش اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش سبھی کو بدنام کرتی دکھائی دیتی ہے، جس سے آہستہ آہستہ عام بے اعتمادی کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ اندرونی کمزوریوں اور بیرونی اثرات کی بنا پر یہ دور ختم ہوگیا اور اس کے بعد بیسویں صدی کا ایک سخت تاریک دور آیا، جو ۱۹۲۵ء سے تقریباً ۱۹۴۰ء تک رہا۔

  • ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

’تحریک ِ خلافت‘ کی ناکامی کے بعد مسلمان ایک بار پھر مایوسی کا شدید شکار ہوئے۔ دوسری طرف تقریباً تمام مسلمان لیڈرناکام ہوچکے تھے، کوئی دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھا۔ مسلمان ایک ایسے ریوڑ کی مانند تھے جس کا کوئی نگہبان نہ ہو اور ایک ایسے قافلے کا رُوپ پیش کررہے تھے کہ جس کا کوئی سالار نہ ہو۔ مغربیت اور اشتراکیت (۱۹۱۷ء میں روس میں اشتراکیت کی کامیابی کے بعد بعض مایوس مسلمانوں کو اس میں ایک نیا میدان نظر آرہا تھا) کا پلڑا بھاری ہوا تو ذہنوں کو منتشر خیالی کا شکار کرنے کے لیے بہت سے فتنوں نے سر اُٹھایا۔ جن میں تجدّد، تشکیک اور انکارِ سنت کے علَم برداروں کے ساتھ ساتھ ’ترقی پسند ادب‘ کی تحریک ذہن سازی کے لیے خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو [م: ۲۷ مئی ۱۹۶۴ء] اس دور کے برطانوی ہند کے نوجوانوں کا نیا ہیرو تھا، جو زبانی اور کلامی سطح پر، اُبھرتی اشتراکیت کا علَم بردار سمجھا جاتا تھا۔

اس زمانے میں تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ مشیت الٰہی کے تحت اسی تاریکی کا سینہ چاک کر کے احیائے اسلام کی نئی کوششیں رُونما ہوئیں۔ تحریک ِ پاکستان اور تحریک ِ اسلامی ایک نئے دور کی نقیب ثابت ہوئیں اور مسلمانانِ ہند کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی۔ یوںقائداعظم محمدعلی جناح [م:۱۱ستمبر ۱۹۴۸ء] کی قیادت میں مسلمانانِ ہند نے ایک منزل متعین کی، اور اُن کی رہنمائی میں ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کے بعد برصغیر جنوب مشرقی ایشیا میں ایک ایسے سفر کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں جغرافیائی، سیاسی اور فکری سطح پر نئی مملکت کی تشکیل ہوئی۔ اقبال اور جناح نے عالمِ اسلام میں جس عملی تصور کی صورت گری کی، اس کا متحرک عنوان ’اسلامی احیا‘ ہے اور جس کے داعی ہیں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی۔

قیامِ پاکستان نے جہاں اسلام کی بنیاد پر دورِحاضر میں ایک ریاست کے قیام سے اسلام کے اجتماعی زندگی کے عملی پروگرام کا دروازہ کھول دیا، وہیں مولانا مودودی نے دین کا صحیح اور    جامع تصور اور اس کے انفرادی، اجتماعی اور ریاستی پہلوئوں کو بہ یک وقت دلیل کی قوت سے واضح کیا ہے۔ انھوں نے برملا یہ بتایا ہے کہ انسان کا سب سے پہلا رشتہ اپنے خالق اللہ تعالیٰ سے ہے،، اور یہ رشتہ اس کی اپنی ذات، اس کی تربیت ، سیرت سازی اور تزکیہ سے ہے۔ یہ رشتہ اس کی پوری زندگی کی صورت گری کرتا ہے۔ دوسرا حصہ انسان کا دوسرے انسانوں سے، خاندان اور معاشرے سے، معیشت، سیاست اور ریاست سے تعلق پر مشتمل ہے۔اس طرح اسلام کا منشا یہ ہے کہ وہ ایک سوشل سسٹم کے طور پر قائم ہو۔ جس کے بنیادی، عملی اور اخلاقی اصول مدینہ کی اسلامی ریاست کے ماڈل پر ہر دور میں اسلامی نظریاتی ریاست قائم کرنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ نے اسےقائم کرنے کی رہنمائی اور تعلیم دی ہے۔

جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرسنت روشنی کا چراغ ہے، وہاں نزولِ وحی کے آغاز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دُنیا سے رخصت ہونے تک رہنمائی کا ایک سدابہار تسلسل ہے۔ الحمدللہ، دین کے اس مکمل اور جامع تصور کو پیش کرنے کا فی زمانہ اعزاز مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور اُن کی برپا کردہ تحریک اسلامی کو حاصل ہے۔(جاری)

برصغیر پاک و ہند میں تحریک ِ اسلامی کا ارتقا-۲
مجدد الف ثانی ؒسے علّامہ محمد اقبالؒ تک

اسلامی احیا کی اس تحریک کو شاہ ولی اللہ کے بعد شاہ عبدالعزیز دہلوی [۲۰ستمبر ۱۷۴۶ء- ۵جون ۱۸۲۳ء] اور آپ کے خانوادے کے دوسرے بزرگوں نے زندہ رکھا۔اگرچہ احمدشاہ ابدالی کے کامیاب حملے نے مرہٹہ جنگجوئوں کی صورت میں ہندو نسل پرست تحریک کی کمر توڑ دی تھی، لیکن اس کے باوجود ہندستان میں بدامنی اور طوائف الملوکی کے اس زمانے میں مسلمانوں کی سماجی، دینی، معاشی اور سیاسی زندگی بے وزنی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ مشرق اور دکن سے برطانوی سامراج قدم پھیلاتا ہوا بڑھتا چلا آرہا تھا اوردوسری جانب پنجاب عملاًسکھوں کی سکھاشاہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تیسری جانب مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج اور بدعات نے دین کی شکل تبدیل کرنے کا سفر جاری رکھا تھا۔ ایسے میں سیّداحمدشہید [۲۹نومبر ۱۷۸۶ء،رائے بریلی- ۶مئی ۱۸۳۱ء، بالاکوٹ] اور شاہ اسماعیل شہید [۲۶؍اپریل ۱۷۷۹ء-۶مئی ۱۸۳۱ء] کی قیادت میں تحریک ِ مجاہدین نے راہِ منزل متعین کی۔

تحریکِ مجاہدین

 تحریک مجاہدین کے پس منظر میں شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ کے ان فتاویٰ نے بنیادی کردار ادا کیا: ’’یہاں کے عیسائی حکام کا حکم بے دھڑک جاری ہے۔ یہ لوگ خود میں حاکم اور   مختارمطلق ہیں۔ بے شک یہ نمازِ جمعہ، عیدین، اذان وغیرہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن ان سب کی جڑ بے حقیقت اور پامال ہے۔چنانچہ یہ لوگ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ عوام کی شہری آزادیاں ختم ہوچکی ہیں، یہاں تک کہ کوئی مسلمان یا غیرمسلم ان کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اس کے اطراف میں نہیں آسکتا۔ دہلی سے کلکتے تک ان کی عمل داری ہے‘‘(فتاویٰ عزیزیہ، اوّل، ص۱۷)۔ [دوسرے فتوے میں لکھا:]’’نصاریٰ بلکہ کافروں کی ملازمت کی کئی اقسام ہیں۔  اس میں بعض مباح، بعض مستحب، بعض مکروہ ، بعض حرام، بعض گناہِ کبیرہ ہیں‘‘ (ایضاً، دوم، ص ۱۱۹)۔ ’’ہندستان اب دارالحرب ہوگیا ہے‘‘(ایضاً، اوّل، ص ۱۰۵)۔شاہ عبدالعزیزؒ کے یہ فتاویٰ اور خطبات عملی سطح پر تحریک مجاہدین کی تشکیل و تحریک اور آزادیِ ہند اور اسلامی ریاست کی تعمیر کا عنوان بنے۔

یاد رہے کہ تحریک مجاہدین محض جہاد بالسیف کی تحریک نہ تھی، بلکہ یہ تعلیم و اصلاح کی تحریک بھی تھی۔ جس کا پہلا ہدف اصلاح عقائد اور بدعات سے اجتناب اور مقامی ثقافتی رواج کو اسلام بناکر اختیار کرنے کے فتنے سے مسلمانوں کو بچانا تھا۔ دوسرا یہ کہ انگریزی اثرات اور حکومت کو ختم کرنا۔ تیسرا یہ کہ کتاب و سنت کی ترویج اور احیائے دین۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک آزاد ٹھکانے کی ضرورت تھی، جسے قائم کرنے کے لیے سیّداحمد بریلوی کی قیادت میں تحریک مجاہدین نے راجستھان، سندھ ، قندھار سے ہوتے ہوئے کابل اور پنجاب کے درمیان پٹھان قبائلی علاقے کو مستقر بنانے کی راہ اختیار کی۔

سیّد احمد شہید نے صراطِ مستقیم میں پہلے طریقِ نبوت اور صوفیا کے طریقے کا فرق بیان کیا ہے، بدعت کی حقیقت اور اس سے بچنے کے موضوع پر بڑی جامع بحث کی ہے۔پھر   آپ نے ہندستان میں فعال تصوف کے اُن تمام سلسلوں کے افکار و اشغال کو بیان فرمایا ہے، جو آپ کی نگاہ میں صحیح تھے۔ آخر میں ایک بڑا اہم باب مسلک راہِ نبوت پر لکھا ہے، جس میں بیان کیا ہے کہ فکری و روحانی اصلاح کے لیے نبویؐ طریقہ کیا ہے؟

  • احیائـے حج: تحریک ِ مجاہدین کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّداحمدبریلوی نے جہاد سے پہلے جہاں ایک طرف احیائے سنت کی ہمہ گیر مہم چلائی، وہیں آپ نے لوگوں میں حرکت پیدا کرنے کے لیے اور اُنھیں ایک بڑی قربانی پر تیار کرنے کے لیے احیائے حج پر زور دیا۔ بدامنی اور راستے کی مشکلات کے باعث ہندستان میں علما نے ایک مدت سے یہ فتویٰ تک دے رکھا تھا: ’’حج یہاں کے مسلمانوں پر فرض نہیں رہا، اس لیے کہ سفرِحج کی راہ بہت پُرخطر ہے‘‘۔ سیّدصاحبؒ نے اس پر فرمایا کہ: ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حج آج بھی اُسی طرح فرض ہے جس طرح کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے فرض کیا ہے۔ مسلمانوںکا یہ فرض ہے کہ وہ اس سنت کا احیا کریں اوراپنی جان پر کھیل کر بھی اس فرض کو ادا کریں‘‘۔ اس مقصد کے لیے آپ نے صلائے عام دےدی کہ: ’’پورے ہندستان سے جو میرے ساتھ چلنا چاہتا ہے، آئے، میں اُس کو لیے چلتا ہوں‘‘۔ حاجیوں کے چھے بحری جہاز آپ اپنے ساتھ لے کر حجازِ مقدس گئے اور حج کا فریضہ ادا کرکے واپس سرزمین تشریف لائے۔ اس طرح مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا ہوگیا اور اسلام کی خاطر خطرات کو مول لینے کا داعیہ اُمڈ آیا۔
  • دعوت و ارشاد:پھر سیّدصاحب نے تعلیم، ارشاد اور ہدایت کا ایک نظام قائم کیا۔ آپ لوگوں سے بیعت لیتے تھے۔ ان میں سے جو اہلِ علم تھے اور تقریر کرسکتے اُن سے کہتے کہ: ’جائو شہر شہرجائو، بستی بستی جائو، محلے محلے جائو، گھرگھر جائو اور بدعات کو ختم کرنے کا، شرک کو جڑ سے کاٹنے کا ، سنت کے احیا کا اور جہاد کے جذبے کو بیدار کرنے کا کام انجام دو‘۔
  • جہاد بالسیف: سیّد صاحب کی اپیل پر ملک کے ہر گوشے سے جہاد کی اس دعوت پر مسلمانوں نے لبیک کہا۔ لڑائی لڑی گئی۔ اُس وقت کے شمال مغربی پنجاب اور آج کے خیبرپختونخوا میں، مسلمان اس دعوتِ جہاد میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے کھچ کھچ کر دکن، بنگال اور بہار سے آئے۔ یہ مجاہدین اپنے گھربار، اپنے دوستوں اور اعزہ کو، غرض کہ پوری دُنیا کو چھوڑ کر آئے۔ ہرقسم کی صعوبتیں جھیلیں اور مصیبتیں انگیز کیں، صرف اس لیے کہ اللہ اور اُس کے آخری رسولؐ کے کلمے کو سربلند کریں۔ جہاد کا یہ عظیم فریضہ انجام دینے کے لیے سیّداحمد بریلوی نے ایک مستقل جماعت بنائی۔ اس جماعت میں شامل ہونے والوں کے قلوب کا تزکیہ کیا۔ دین کا ایک انقلابی تصور اُن کو دیا۔ نظامِ دعوت و تبلیغ قائم کیا اور یہ سب کچھ صرف اعلائے کلمۃ الحق کے لیے کیا۔

اس بارے میں خود سرسیّد احمد خاں [۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷ء- ۲۷مارچ ۱۸۹۸ء]کی شہادت بڑی دل چسپ ہے۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم، شاہ اسماعیل شہید کے بارے میں لکھتے ہیں: بموجب ارشاد سیّد پیر طریق یدا (سیّد احمد بریلوی صاحب) کے، اس طرح سے تقریر و وعظ کی بنا ڈالی کہ مسائل جہاد فی سبیل اللہ بیش تر بیان ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ کے صیقلِ تقریر سے مسلمانوں کا آئینہ باطن مصفّا اور مجلّٰی ہوگیا، اور اس طرح سے راہِ حق میں سرگرم ہوئے کہ بے اختیار دل اُن کا چاہنے لگا کہ سر اُن کا راہِ خدا میں فدا ہو اور جان ان کی اعلائے لوائے محمدیؐ میں صرف ہو۔ (آثار الصنادید ، طبع اوّل، بحوالہ سہ ماہی رسالہ تاریخ  و سیاست، بابت نومبر۱۹۵۲ء، ص ۸)

مولانا عبدالحی [م: ۸شعبان ۱۲۴۳ھ/۲۴ فروری ۱۸۲۸ء]کے بارے میں سرسیّد احمد خاں لکھتے ہیں: ’’لوگوں کو نہایت ہدایت حاصل ہوئی اور بااتفاق مولوی محمداسماعیل صاحب کے ترغیب ِ جہاد فی سبیل اللہ میں سرگرم رہے‘‘(ایضاً، ص ۷۶)۔اس طرح تحریک ِ مجاہدین نے قوم میں جہاد کی روح پھونک دی، مسلمانوں کو دوبارہ اس جذبے سے سرشار کیا کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے وہ اپنی جانیں دے دیں۔

  • برصغیر کی پہلی اسلامی ریاست: سیّداحمد شہیدؒ نے اس مقصد کے لیے ہندستان کی سرزمین میں پہلی چھوٹی سی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ آپ نے قوم کے سامنے جو مقصد رکھا، وہ یہ تھا:’’جہاد قائم کرنا اور بغاوت و فساد کو مٹانا ہر زمانے اور ہر مقام پر خدا کا نہایت اہم حکم ہے، خصوصاً اس زمانے میں جب کافروں اور سرکشوں کی شورش ایسی عام صورت اختیار کرگئی ہو کہ سرکشوں اور باغیوں کے ہاتھوں دینی شعائر بگاڑے جارہے ہوں، اس صورت میں سرکش کافروں کی بیخ کنی سے غفلت اور مفسد باغیوں کی گوشمالی سے سہل انگاری بہت قبیح گناہ ہے۔ اس بنا پر خدا کی درگاہ سے اس بندے نے اپنے وطن سے نکل کر ہند و سندھ و خراسان کا دورہ کیا اور وہاں کے مومنوں اور مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی‘‘۔

اپنی تحریک کے بارے میں سیّد احمد بریلوی فرماتے ہیں:’’وہ غیر جن کا وطن بہت دُور ہے، بادشاہ بن گئے۔ وہ تاجر جو سامان بیچ رہے تھے، انھوں نے سلطنت قائم کر لی ہے۔ بڑے بڑے امیروں کی عمارتیں اور رئیسوں کی ریاستیں خاک میں مل گئی ہیں ، ان کی عزّت اور ان کا وقار چھن گیا ہے ۔ جو لوگ ریاست و سیاست کے مالک تھے، وہ کنج ِ عافیت میں بیٹھے ہیں۔   آخر فقیروں اور مسکینوں میں سے تھوڑے سے آدمیوں نے ہمت باندھی اور ضعیفوں کا گروہ محض خدا کے دین کی خدمت کے لیے اُٹھا ہے، یہ لوگ نہ دُنیادار ہیں اور نہ جاہ طلب۔ جب ہندستان کا میدان غیروں اور دشمنوں سے خالی ہوجائے گا اور ضعیفوں کی کوششوں کا تیر نشانے پر جا بیٹھے گا تو آیندہ کے لیے ریاست و سیاست کے عہدے طالب لوگوں میں بانٹ دیئے جائیں گے۔خدا کے اس انعام کا شکر بجا لائیں، ہمیشہ ہرحالت میں جہاد قائم رکھیں، کبھی اس کو معطل نہ چھوڑیں، عدالت اور فیصلوں میں شرع کے قانون سے بال برابر بھی تجاوز نہ کریں۔ ظلم اور کشت و خون سے برابر بچتے رہیں‘‘۔

  • تحریکِ مجاہدین کا اصل مقصد:حضرت بریلوی شہید مزید کہتے ہیں:’’پھر میں ان مجاہدین کو لے کر ہندستان کی طرف متوجہ ہوجائوں گا، تاکہ وہاں سے اہلِ کفر کے طغیان کو ختم کیا جاسکے اور میرا اصل مقصودِ جہاد یہ نہیں کہ خراسان میں سکونت اختیار کرلوں‘‘۔کچھ لوگوں نے یہ کہا تھا: ’’آپ کا مقصد تو یہ ہے کہ آپ اپنے لیے ایک چھوٹی سی ریاست بنالیں‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں، میرے پیش نظر یہ ہے کہ پورے ہندستان کو اسلامی حکومت کے ماتحت لے آئوں، خدا کا قانون یہاں پر جاری ہو۔ انگریزوں کو یہاں سے نکال دیا جائے، سکھوں کی کمر توڑی جائے اور مرہٹوں کی سرکشی ختم کی جائے‘‘۔

یہ تھا وہ مقصد، جس کو لے کر آپ اُٹھے تھے۔ آپ نے سنتؐ کے اتباع کی دعوت دی۔ اس دور میں صحابہؓ سے قرب کی کوئی مثال ہمیں ملتی ہے تو اس تحریک میں ملتی ہے۔ وہی جذبہ ہے، وہی کیفیت ہے، وہی قربانیاں ہیں،وہی اخلاص ہے، اسی قسم کی للہیت ہے اور پروانہ وار فدا کاری!

  • جذبۂ جہاد:جہاد کا موقع آتا ہے، ایک شخص بیمار ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تم اس میں شرکت نہ کرو‘‘۔وہ کہتا ہے: نہیں،میں کوئی ایسا بیمار تو نہیں ہوں۔ یہ پہلا معرکہ ہے اس میں مجھے ضرور شرکت کی اجازت دیجیے۔ ایک کمزور اور لاغر انسان ہے۔ رسد اُٹھائی جارہی ہے۔ اُس سے بوجھ نہیں اُٹھتا۔ آپ منع کر دیتے ہیں کہ ’تم کمزور ہو، اناج کی بوریاں نہ اُٹھائو‘۔وہ کہتا ہے: ’ٹھیک ہے۔ لیکن کیا میں ایک نیک کام میں شرکت سے محروم رہ جائوں‘۔

ایسی غیرمعمولی مثالیں اس تحریک میں ملتی ہیں کہ کم از کم ہندستان کی تاریخ میں تو کوئی   اُن کی مثال نہیں۔ پھر جن مشکلات سے یہ لوگ گزرے، اس میں جس تحمل اور پامردی اور جس ہمت کا انھوں نے مظاہرہ کیا،وہ غیرمعمولی ہے۔ ذاتی اخلاق اور عفت و پاک بازی کا معیار بھی بڑا ہی اُونچا تھا۔ ہزاروں کا لشکر ایک شہر میں جاتا ہے اور کسی شخص کا ایک برتن نہیں لُوٹا جاتا۔ کسی دکان پر سے ایک چیز نہیں اُٹھائی جاتی اور نہ بلاقیمت لی جاتی ہے۔ عورتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ سیّداحمد شہید کی فوج نہ معلوم کیسے انسانوں سے بنی ہوئی ہے کہ کبھی ہم نے اُن کی نگاہوں کو عورتوں پر اُٹھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔

یہ تحریک اس ملک کی پہلی حقیقی اسلامی تحریک ہے، جس نے فکروعقیدہ اور عمل اور اجتماعی نظام ان سب کو بدلنے کی کوشش کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مقامی مسلمان خوانین کی غداری اور کچھ دوسری وجوہ کی بناپر دُنیوی حیثیت سے بظاہر یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ لیکن کیا یہ بات کچھ کم ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہ بات ثابت کرگئی کہ اگر اخلاص کے ساتھ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے لوگ اُٹھیں، تو وہ اخلاق اور سیرت و کردار کا ایک ایسا نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں ایک گونہ مشابہت اس دور کی آجائے جس کا نظارہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں ملتا ہے۔

لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضوؐر کے صحابیؓ مافوق البشر تھے، اب اس کے بعد یہ چیز نہیں ہوسکتی۔ مگر تحریک ِ مجاہدین کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام وہ پارس ہے کہ جس زمانے میں بھی انسانوں کوچھو جائے اُنھیں سونا بنا دیتا ہے بشرطیکہ ان میں اخلاص ہو اور وہ فی الحقیقت اسلام کے آگے جھک جائیں اور اس کو قبول کرلیں۔ پھر کیا یہ بات کم ہے کہ ہندستان کے اتنے وسیع و عریض ملک میں چند سرفروش ایسے اُٹھے جنھوں نے عزت کی موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دی، اور بقول مرزا سودا:

سودا قمارِ عشق میں مجنوں سے کوہکن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا

  • تحریکِ مجاہدین کے اثرات:پھر یہ تحریک بالاکوٹ (ضلع مانسہرہ ،پاکستان) کی شہادت گاہ میں ختم نہیں ہوگئی اور اس کی آگ فرزانوں کے سینوں میں حرارت پیدا کرتی رہی۔ زیرِزمین یہ تحریک برابر کام کرتی رہی۔ مؤرخین ایک ہی وقت میں آپ کے ۶۶متحرک خلفا کی تعداد بتلاتے ہیں۔ گویا ۶۶ مراکز سے یہ خلفا، تحریک کو اپنے اپنے دائرے میں چلاتے رہے۔ پھر یہ صرف زیر ِ زمین ہی نہیں چلتی رہی بلکہ اس نے انگریزوں کا ناطقہ بند کر دیا۔ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ انگریز حکمرانوں کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔(ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر [۱۸۴۰ء -۱۹۰۰ء ] Indian Musalmans، طبع اوّل: ولیمز اینڈ نارگیٹ، لندن، ۱۸۷۱ء، ناشر طبع سوم:(ترمیم شدہ) ٹربنر اینڈ کمپنی، لندن، ۱۸۷۶ء)

سیّد احمد بریلوی اور ان کے رفقائے کار کے کارنامے قابلِ رشک ہیں۔ سیّدصاحب اور ان کے جانشینوں کا سب سے اہم اور نتیجہ خیز کام، خطۂ بنگال میں احیائے اسلام اور اس وسیع مملکت کا برصغیر کے اسلامی مراکز سے دوبارہ رشتہ جوڑنا تھا۔ (شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۲۰۲۱ء، ص ۵۰)

۶مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ کے مقام پر سیّدصاحب شہید ہوئے، لیکن آنے والے کم از کم ۵۰برس تک یہ تحریک مختلف علاقوں میں برابر کام کرتی رہی اور ان کے خلاف انگریزی حکومت کی جانب سے چلائے گئے ۱۸۷۳ء کے جو آخری مقدمات ہم کو ملتے ہیں (دیکھیے: محمد جعفر تھانیسری کی کتاب کالا پانی اور Selected Papers Wahabi Trials)، ان میں برطانوی حکومت ِ ہند کہتی ہے کہ ’’اب ہم نے اس تحریک کا قلع قمع کر دیا ہے‘‘۔ لیکن اہلِ تحقیق بتاتے ہیں کہ اس کے بعد بھی مجاہدین برابر خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے اور بیسویں صدی کے آغاز تک مختلف حلقوں میں یہ کام ہوتا رہا۔ پھر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں پر بے پناہ ظلم و تشدد اور ہرممکن کوشش کے باوجود اس تحریک کا یہ نتیجہ ہے کہ کم از کم مسلمانوں کو انگریزوں سے سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہ کیا جاسکا۔ مسلمانوں میں برطانوی سامراج سے بغاوت کرنے اور مصالحت نہ کرنے کا جذبہ اسی تحریک کا پیدا کردہ تھا۔

یہی تھی وہ چیز، جس نے ۱۸۵۷ء کے معرکے کو جنم دیا، اور یہی تھی وہ چیز جس نے اس کے بعد مسلمانوں کو انگریزی سامراجیت سے برابر برسرِ پیکار رکھا۔ اس میں واقعہ کانپور [اگست ۱۹۱۳ء] ہو یا خلافت کی تحریک ہو یا جلیانوالہ باغ کا المیہ [۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء] یا ترکِ موالات اور پھر خود  تحریکِ پاکستان ہو۔ان تمام تحریکات میں یہی روح کارفرما نظر آتی ہے کہ ہم انگریزوں کے تسلط کے ساتھ راضی (reconcile )نہیں رہ سکتے اور نہ اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرسکتے ہیں۔ استعمار اور غلامی کا جوا بہرحال ہمیں اپنے کندھوں سے اُتار پھینکنا ہے۔ یہی تھا وہ احساس، جو سیّدصاحب کی تحریک نے پیدا کیا۔ اس سے بڑھ کر کامیابی کسی تحریک کی اور کیا ہوسکتی ہے۔

فرائضی تحریک

اس زمانے میں ایک اور بڑی نمایاں تحریک ہم کو نظر آتی ہے، جس کی دعوت، خدمات اور اثرات کے تجزیے کی طرف ابھی تک بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ یہ تحریک بھی تقریباً اسی عہد میں برپا ہوئی، تاہم اس کا زمانۂ آغاز تحریک ِ مجاہدین سے کچھ پہلے کا ہے۔ حاجی شریعت اللہ [۱۷۸۱ء- ۱۸۴۰ء] کی ولادت بہادرپور، ضلع فریدپور (بنگال) میں ہوئی، انھوں نے اس کا آغاز کیا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں حج بیت اللہ کے لیے حجازِ مقدس تشریف لے گئے اور ۲۰برس تک مکہ معظمہ میں مقیم رہے۔ وہاں علّامہ طاہر مکی شافعی سے تعلیم حاصل کی۔

حاجی شریعت اللہ ۱۸۰۲ء میں واپس وطن آئے اور ۱۸۰۴ء میں فرائضی تحریک شروع کی۔ ایک طویل عرصے سے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بنگال کے مسلمانوں میں بھی  غلط رسمیں اور شرک سے آلودہ عقائد جڑپکڑ چکے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے ان عقائد کی درستی اور اسلام کی صحیح تعلیمات کی تعلیم و تربیت کے لیےفرائضی تحریک شروع کی۔پہلے تو انھوں نے امرا کو اور مسلمان نوابوں کو خیر کے کاموں کے لیے اُبھارنے کی کوشش کی۔ پھر یہ کہ یہاں کے مسلمانوں میں آزادی کی روح پھونکنا، انگریزوں سے نجات پانا اور ہندو زمین داروں کے مظالم سے جان چھڑانا بھی اس تحریک کا مقصد قرار دیا۔

انگریزی حکومت کے تحت رہتے ہوئے ایسے باغیانہ پروگرام کی اشاعت اور جدوجہد نہایت جرأت مندانہ قدم، موت اور آزمایشوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لیکن حاجی صاحب نے مسلمانوں کو پستی، غلامی اور ذلّت سے نکالنے کے لیے ذرہ برابر ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور سخت حوصلہ شکن حالات کے باوجود منزل کی طرف رواں دواں رہے۔جب اس میں کچھ کامیابی ہوئی تو عوام کی طرف رجوع کیا، خصوصیت سے کاشت کاروں کو جمع کیا۔ کاشت کاروں میں یہ تحریک جنگل کی آگ کے مانند پھیلی۔ حاجی شریعت اللہ نے جس بات کی کوشش کی وہ یہ تھی کہ بدعات ختم ہوں اور شرک کا استیصال ہو، یعنی جو آئیڈیل تحریک ِ مجاہدین کے تھے وہی آئیڈیل انھوں نے بھی اپنے سامنے رکھے۔ اس کے ساتھ انھوں نے جہاد کی بیعت تو لی، لیکن جہاد کر نہیں سکے۔

حاجی شریعت اللہ نے اس تنظیمی اور تحریکی سلسلے میں پیر اور مرید، یا خادم اور مخدوم کا کلچر اختیار کرنے کے بجائے ہدایت کی کہ: ’ہمارا باہم تعلق استاد اور شاگرد کا ہے‘۔ انھوں نے کسانوں اور کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور حالت ِ زار کو حیوانی سطح سے بلند کرنے اور شرفِ انسانی سے قریب ترلانے کے لیے رفاہی انداز سے کام شروع کیا۔ ان کا نعرہ تھا: ’الارض للّٰہ،یعنی زمین اللہ کی ہے‘۔مخالفین نے انگریزوں کے اشارے پر آپ کی تحریک کو بھی ’وہابی‘ تحریک کا نام دیا، حالاں کہ ان کا ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔

حاجی شریعت اللہ کی رحلت [۱۸۴۰ء] کے بعد ان کے بیٹے حاجی محسن میاں [۱۸۱۹ء-۱۸۶۰ء] نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ حاجی محسن میاں کو بنگال کے مسلمان محبت سے دودھو میاں کے نام سے پکارتے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے اور انھیں بنگال سے نکالنے کے لیے بیعت لی تھی ، لیکن جیساکہ بتایا گیا ہے کہ وہ جہاد کا آغازنہ کرسکے ۔ البتہ ان کے صاحب زادے نے اس میدان میں قدم بڑھایا۔ انھوں نے عملاً انگریزوں کے خلاف بغاوت کی۔ مختلف مقامات پر ہزاروں آدمیوں کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ’فرائضی تحریک‘ سے تعلق رکھنے والے سرفروشوں نے بڑے پیمانے پر قربانیاں دیں۔ انگریز حکومت نے جھوٹے مقدمے بنابنا کر مختلف طریقوں سے ان کو پریشان کیا اور یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ تقریباً ۳۰،۳۵ سال تک یہ تحریک بنگال میں مؤثر خدمات انجام دیتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگال، آسام اور کسی حد تک بہار میں اسلام کو مستحکم کرنے کا کارنامہ انھی دو تحریکوں: ’تحریک ِ مجاہدین‘ اور’ فرائضی تحریک‘ ہی نے انجام دیا۔(ڈاکٹر جیمس وایز ، Mohammadans of Eastern Bengal)

اسی عرصے میں اسلام کے ایک اور سرفروش، سیّدمیرنثارعلی المعروف تیتومیر [۱۷۸۲ء- ۱۹نومبر ۱۸۳۱ء] نے سرزمین بنگال میں انقلابی تحریک شروع کی۔تیتومیر، سیّداحمد بریلوی کے عقیدت مند اور ان سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ہندو زمین داروں کے مظالم اور استحصال، اور ان کے پشت پناہ انگریزوں کے خلاف پسے ہوئے بنگالی مسلمانوں میں نہ صرف زبردست بیداری پیدا کر کے مسلمانوں کو ظلم کی زنجیریں توڑنے پر آمادہ کیا، بلکہ عملی اقدامات بھی کیے۔ آخرکار اسی طرح کے ایک معرکے میںشہید ہوگئے۔[عبداللہ ملک، بنگالی مسلمانوں کی صدسالہ جہدِ آزادی، ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۷ء]

  • ۱۸۵۷ء اور اُس کے بعد:اب ہمارے سامنے ۱۸۵۷ء کا معرکہ آتا ہے، جسے انگریز اور ان کے زیراثر قلم کار ’غدر‘ کہتے ہیں۔ انگریزی جبر کے زمانے میں سرسیّد نے لکھا: ’’غدر کیا ہوا، ہندوئوں نے شروع کیا، مسلمان دل جلے تھے وہ بیچ میں کود پڑے۔ ہندو تو گنگا نہاکر جیسے تھے ویسے ہوگئے [لیکن] مسلمانوں کے تمام خاندان تباہ و برباد ہوگئے‘‘۔ (الطاف حسین حالی حیاتِ جاوید، ص۲۸۰)

 مگر حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ بغاوت مسلمانوں ہی کی برپا کردہ تھی۔ ہندو مؤرخین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے روح رواں مسلمان تھے۔ اس بغاوت کی تنظیم اور تحرک میں سب سے زیادہ حصہ علما نے لیا تھا۔ دراصل یہ معرکہ بھی سیّداحمد شہید کی تحریک ہی کا ایک فکری اور عملی مظہر تھا۔ بظاہر بجھتے ہوئے چراغ کی ناقابلِ فراموش بھڑک!

سچی بات ہے کہ ۱۸۵۷ء کی اس جنگ کی سنگینی کا عصرحاضر کے نوجوانوں کو کچھ بھی علم نہیں، اور نہ وہ اس کی شدت کا اندازہ کرپاتے ہیں۔ وہ ایک قیامت تھی جو ہندستانی مسلمانوں کے سر سے گزر گئی۔ اس بہانے انگریزوں اور ان کے طرف دار اور حلیف ہندوئوں کو موقع مل گیا کہ جس طرح ممکن ہو مسلمانوں کو برباد کر دیا جائے، بقول بہادر شاہ ظفر     ع

جسے دیکھا، حاکمِ وقت نے کہا یہ بھی قابلِ دار ہے

قیصر التواریخ (کمال الدین لکھنوی) کے مطابق سات ہزار مسلمان معززین کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ تین ماہ تک مردہ گاڑیاںطلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک گھومتی پھرتی تھیں۔ لاشوں کو درختوں سے اُتارتی تھیں۔ اس طرح چھے ہزار کے قریب افراد کو اُتارا گیا۔ پھر ہزار علما، فضلا، فقہا، شرفا، امرا کو عمرقید کے لیے جزائر انڈیمان (کالے پانی) عمرقید کاٹنے کے لیے بھیج دیا۔ اس سے متصل زمانے میں لارڈ ہاردنگ نے حکم نامہ جاری کیا کہ آیندہ عربی، فارسی جاننے والے فرد کو سرکاری ملازمت میں نہیں لیا جائے گا۔ ۱۸۴۹ء تک پنجاب کی سرکاری زبان فارسی تھی، مگر اس کا خاتمہ کرکے عام لوگوں کے لیے ۱۸۷۶ء سے پنجاب میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔(پروفیسرسیّد محمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر، ص ۱۰۷- ۱۰۸)

  • ردعمل اور انحراف کا دور:اس کے بعد ہم جس دور میں داخل ہوئے، اس کو مَیں ہندستان کی تاریخ میں ردعمل (reaction) اور انحراف (deflection)کا دور سمجھتا ہوں۔یہ زمانہ تقریباً ۵۰، ۶۰ سال پر حاوی ہے۔اس زمانے میں تین اہم ردعمل ہمارے سامنے آئے ہیں:
    • ایک سرسیّداحمد خاں اور ان کی قیادت میں رُونما ہونے والی علی گڑھ تحریک۔
    • دوسرا دیوبند کے علما اور قدامت پسند علما کاردعمل۔ lتیسرا مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت کا رُوپ بہروپ ۔

حالت یہ تھی کہ بحیثیت ِ مجموعی مسلمانوں میں ۱۸۵۷ء کے معرکے میں ناکامی کے بعد ایک عام مایوسی کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ انھوں نے اس وقت انگریز سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے تین کوششیں کیں: بالاکوٹ جاکر لڑے، بنگال میں بغاوت کی اور ۱۸۵۷ء میں مختلف مقامات پر برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی، لیکن یہ تینوں کوششیں بظاہر باثمرثابت نہ ہوسکیں۔  اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں میں لامرکزیت، بے بسی، مایوسی اور قنوطیت رُونما ہوئی۔

انگریز نے بھی اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان نرم نوالہ نہیں، ان میں کم از کم کچھ لوہے کے چنے تو ایسے بھی ہیں کہ اُن کو چبانے کی کوشش میں دانت ٹوٹ سکتے ہیں۔ ان پر  بے اعتمادی ، ان کو ختم کرنے کے لیے ہندوئوں سے تعاون کی کوشش، ان کے رہے سہے اقتدار کو ملیامیٹ کرنے کی مربوط کوشش، یہ تھے انگریز کی پالیسی کے بنیادی اصول۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی تمام مادی قوتیں ان سے چھین لی گئیں، انھیں روزگار سے محروم کر دیا گیا، ملازمتوں سے نکال دیا گیا، دربار اور عدالتوں سے ان کی ملازمتیں ختم کر دی گئیں۔ اس کے مقابلے میں ساری عنایتیں ان ضمیرفروشوں پر نچھاور ہوئیں، جو مسلمانوں سے غداری کررہے تھے اور بیرونی قوت سے سازباز کررہے تھے، یا پھر ہندوئوں کے ساتھ ہوئیں، جن کو یہ احساس دلایا گیا کہ: ’تم اکثریت میں تھے، لیکن تمھارے اُوپر آٹھ سو سال سے مسلمان حکمران تھے۔ اب تم ان سے آگے بڑھو اور اس ملک کے حکمران بنوگے‘۔

  • عیسائیت کی یلغار: انگریزوں نے صرف اس بات کو بھی کافی نہیں سمجھا، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کے ذہن کو مرتد کرنے کے لیے بھی ایک منصوبہ بنایا۔ ایک طرف عیسائیت کا پرچار وسیع پیمانے پر کیا گیا اور برطانیہ کے وزیراعظم نے خود پارلیمنٹ میں یہ بات کہی کہ: ’ہماری حکومت کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا پیغام ہم سارے ہندستان میں پہنچائیں‘۔ لٹریچر کا ایک طوفان تھا، جو اسلام پر لایعنی اور بڑے سوقیانہ اعتراضات کے ساتھ برصغیر کے کونے کونے میں پھیلایا گیا۔ اس بنا پر عوام میں ایک بے چینی اور ہلچل سی مچ گئی، شک و شبہے کے کانٹے لوگوں کے ذہنوں میں چبھو دیے گئے۔ہروہ فرد جو مغربی استعماریت اور نوآبادیاتی اقتدار کو چیلنج کرتا، اسے ’وہابی‘مشہور کر دیاجاتا، یوں خود مسلمانوں میں انتشارو افتراق کو گہرا کیا گیا۔

عیسائی مشنریوں کی ایک فوج تھی جو ملک کے طول و عرض میں کام کر رہی تھی۔ اس کے کام کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے بھی قبل، یعنی ۵۳-۱۸۵۲ء میں، جب کہ برصغیر ہند کے تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں صرف ۳۰ہزار طلبہ زیرتعلیم تھے تو اس کے برعکس عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں اس سے دس گنا زیادہ، یعنی ۳لاکھ طالب علم زیرتعلیم و تربیت تھے (بحوالہ: The  Education of  India,  p49)۔ اگرچہ بظاہر تو دُنیاوی ترقی کے لیے یہ مشنری ادارے خواب دکھاتے، مگر ان کا اصل ہدف یہ تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے کہ مقامی طالب علموں میں دین کے بارے میں شک و شبہہ اور تہذیب کے بارے میں احساسِ کمتری پیدا کریں۔

  • جدید نظامِ تعلیم:پھر برطانوی حکمرانوں کی زیرقیادت مستشرقین اور معلّمین نے مل کر ایک نیا نظامِ تعلیم قائم کیا۔ جس کے بارے میں علّامہ محمد اقبال نے کہاتھا:

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروت کے خلاف

 مستشرقین (Orientalists)کی سوچ کا اندازہ لگانے کے لیے معروف مستشرق ولیم میور [۱۸۱۹ء-۱۹۰۵ء]کی مثال کافی ہوگی۔ میور نے اپنی کتاب The Life of Mahomet  (۱۸۶۱ء) میں لکھا:’’دُنیا کو اسلام سے دوخطرے ہیں (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ ایک محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کی تلوار سے اور دوسرا محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کے قرآن سے، اور جب تک ہم دونوں کو ختم نہیں کردیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔ یہ بات بظاہر تو ایک اسکالر نے کہی، مگر یہی انداز تھا جو بحیثیت ِ مجموعی سارے مستشرقین نے اختیار کیا اور جسے انھوں نے نئے نظامِ تعلیم میں اختیار کیا۔ جبھی تو اکبر الٰہ آبادی [۱۸۴۶ء-۱۹۲۱ء] نے کہا ہے:

توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسو لا ہٹا تو رندا ہے

یعنی پہلے توپ سے حملہ کیا گیا جس سے ہماری سیاسی قوت کو ختم کیا گیا۔ اب مستشرقین اور معلّمین تشریف لے آئے تاکہ ہمارے ذہنوں اور دلوں کو ، ہمارے نظریات اور خیالات کو، ہمارے اخلاق اور کردار کو بدل کر رکھ دیں اور انگریزوں کے غلام ابن غلام تیار کریں۔ اس پس منظر میں ہمارے سامنے دو تحریکات اُبھریں: پہلی تحریک کی سربراہی سرسیّداحمد خاں اور دوسری تحریک کی قیادت علمائے دیوبند نے کی۔

  • سرسیّد احمد خاں اور علی گڑھ تحریک:سرسیّد احمد خاں کی فکر اور ان کی تحریک کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے بارے میں اُن کی تشخیص یہ تھی:
    •  حکومت کا اعتماد :مسلمانوں کی ترقی کا راز اس بات میں ہے کہ برطانوی حکومت ان پر اعتماد کرنے لگے۔ خرابی کی اصل جڑ یہ ہے کہ مسلمان، حکومت کے قابلِ اعتماد (trustful) نہیں رہے اور چوں کہ حکومت کے قابلِ اعتماد نہیں رہے، اس لیے زندگی کے تمام شعبوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ اعتماد کو بحال کریں۔ انگریزوں سے جُڑیں، سامراجی حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلائیں، اس سے اپنے تعلقات استوار کریں اور اربابِ حکومت کے ساتھ اُٹھیں، بیٹھیں، کھائیں اور پئیں۔ اسی طریقے سے مسلمان اُن کے ساتھ جڑ سکیں گے۔
    • مغربی تہذیب کی تقلید :فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو جدید مغربی تہذیب سے سمجھوتا کر لینا چاہیے۔ کچھ چیزیں اس کی لے لی جائیں، کچھ اپنی باقی رکھی جائیں اور اس طرح ایک نیا مرکب تیار کیا جائے جو نئے حالات میں چل سکے۔
    • جدید تعلیم کا حصول  :ترقی کا زینہ تعلیم ہے۔ مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرکے حکومت کے مناصب حاصل کرنے چاہییں اور سرکاری ملازمتیں اختیار کر کے اپنی معاشی حالت کو درست کرنا چاہیے۔

سرسیّد کے افکار کے تجزیے سے یہ تین بنیادی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ انھوں نے اپنے فکروفلسفے کی وضاحت اور تبلیغ کے لیے متعدد کتب اور بہت سے مقالات لکھے،    ان سب کا ذکر اس وقت ممکن نہیں۔ ہم فی الحال ان کی چار چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ان کے پیش کردہ نظریات و خیالات کا جوہر (essence)پیش کرتی ہیں:

  • بائبل کی تفسیر:سب سے پہلے ان کی بائبل کی تفسیر تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ  والانجیل علٰی ملۃ الاسلام   [۶۵- ۱۸۶۲ء ] تین حصے کو لیجیے۔اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انھوں نے بائبل کو غیرمحرف اور الہامی مان کر اس سے اسلامی تعلیمات کی تائید میں استدلال کیا۔ ایک تحریف شدہ کتاب کو غیرمحرف ماننا ’سمجھوتا کاری‘ کی پہلی کوشش تھی، جو سرسیّد مرحوم نے کی۔ یہ سمجھوتا بائبل کے ساتھ نہیں بلکہ پوری مغربی تہذیب اور خصوصیت سے انگریز حکمرانوں کے ساتھ ایک سمجھوتا تھا، جس نے سیاسی حیثیت سے ہمارے وزن کو کم کیا اور علمی و تہذیبی حیثیت سے ہمیں محض دفاعی پوزیشن میں پھینک دیا۔
  • رسالہ طعام اہلِ کتاب:پھر آپ کا رسالہ [۱۸۶۸ء] احکام طعامِ اہلِ کتاب بہت اہم ہے۔ جس میں آپ نے لکھا کہ ’اہلِ کتاب‘ کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے، خواہ اس پر کلمہ پڑھا گیا ہو یا نہیں۔ اور اس کی دلیل منجملہ دیگر دلائل کے یہ بھی دی کہ مسلمانوں کی یہ ضرورت ہے کہ وہ انگریزوں کے ساتھ اگر اُٹھیں بیٹھیں گے تو کھانا پینا ضرور ہوگا۔ اس لیے طعام کے معاملے میں ان سے یہ اختلاف نہیں رکھا جاسکتا کہ ہم تمھارا ذبیحہ نہیں کھائیں گے۔ پس، مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ کھانا کھائیں، نیز نشست و برخاست اور کھانے پینے کے ان طریقوں کو بھی اختیار کریں، جو ان حضرات کے ہیں کہ اس کے بغیر ان سے آپ کا میل جول نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ میز،کرسی اور کانٹے چھری کا استعمال کیا کریں۔
  • خطباتِ احمدیہ:سرسیّد احمد خاں نے خطباتِ احمدیہ ، بہ زبان انگریزی، ولیم میور کی کتاب The Life of Mahomet کے جواب میں لکھی۔ [سرسیّد نے کتاب اُردو میں لکھی تھی، مگر لندن سے Essay on the Life of Muhammad کے سرورق سے ۱۸۷۰ء میں ٹربنر کمپنی نے شائع کی تھی۔ آپ کے بیٹے سیّد محمود (۱۸۵۰ء-۱۹۰۳ء) نے یہ انگریزی ترجمہ کیا تھا]۔اس کتاب میں بڑی دردمندی ہے اور حضوؐر کی ذات سے بے پناہ محبت بھی نظر آتی ہے۔۳ مغرب نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر جتنے بھی اعتراضات کیے ہیں، یہ اُن کا جواب ہے، اور خاصا مدلل جواب ہے۔ لیکن جو چیز کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ مغرب کے اعتراضات کی پشت پر جو اقدار (values) ہیں، انھی کو بنیاد بناکر آپؐ کی زندگی کی توضیح کی گئی ہے۔ اس طرح اعتراضات کا رد تو کردیا گیا ہے، لیکن اُن بنیادی اقدار کو تسلیم کرلیاگیا ہے، جو مغربی تہذیب کی اساس ہیں۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے:اگر کوئی شخص تعدد اَزدواج (Polygamy) کے بارے میں یہ کہے کہ صاحب یہ تومجبوری تھی، اصل چیز تو اسلام میں یک زوجگی (Monogamy)  ہی تھی، تعدد اَزدواج تو اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ ہاں، کچھ مجبوریوں اور مشکلات کی وجہ سے اس کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح خواہ اس نے معترضین کو جواب تو دے دیا، لیکن اس بنیاد کو صحیح مان بھی لیا، جس سے اعتراض پیدا ہوا تھا۔ یہ جواب ایک معذرت نامہ ہے اور شکست خوردہ ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس کی ذات سے بے پناہ محبت اور اپنے تمام اخلاص اور نیک نیتی کے باوجود بدقسمتی سے سرسیّد مرحوم نے یہی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اور اس طرح سرسیّد احمد کو جدید مذہبی لٹریچر میں معذرت خواہانہ رویے کا بانی قرار دینے میں کوئی مبالغہ نہیں۔۴

  • تفسیرِ قرآن: چوتھی چیز سات جلدوں میں ان کی تفسیر تفسیرالقرآن وھدیٰ والفرقان، [۹۵-۱۸۸۰ء] ہے۔ انیسویں صدی تک سائنس اور فلسفے کے جو تصورات تھے، وہ اگر قرآنِ پاک کے کسی واضح حکم سے ٹکراتے تھے تو سرسیّد نے ان نظریات کو صحیح مان کر قرآنِ پاک کی تاویل کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کی۔ مثال کے طور پر معجزات سے انکار کر دیا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بن باپ پیدا ہونے کا انکارکر دیا۔ ان کے اسی رویے اور معذرت خواہانہ انداز کو مسلمان علما نے ’نیچریت‘کہا۔ ’معتزلہ‘ کی سی تاویلات کرتے ہوئے، خود سرسیّد بھی اپنے نظریات کو ’نیچریت‘ (Naturism) کہتے تھے (دیکھیے: مقالاتِ سرسیّد، ج ۱۵، ص ۱۴۷، ناشر مجلس ترقی ادب، لاہور)۔ اسی چیز کی بنا پر سرسیّد مرحوم کو کچھ غلو کرنے والوں نے ’کرسٹان‘ تک کہہ دیا۔ شرپسند عناصر کو چھوڑ کر علمی حلقوں میں ان کی مخالفت کی اصل وجہ یہی تھی کہ قرآن پاک کی تفسیر اور تاویل مغربی فکر کے مطابق کی گئی تھی اور مغربی تہذیب کی اقدار کا احترام ہر توجیہہ اور تشریح میں ملحوظ رکھا گیا تھا۔
  • سرسیّد کی تعلیمی کوششیں: علمی کاموں کے ساتھ ساتھ سرسیّد کا دوسرا بڑا اہم کام تعلیم کی ترویج و اشاعت تھا۔ انھوں نے اپنی ساری قوتیں مسلمانوں میں نیا نظامِ تعلیم یا دوسرے لفظوں میں مغربی نظامِ تعلیم رائج کرنے کے لیے وقف کر دیں۔ ۱۸۷۵ء میں ’محمڈن اینگلو اورینٹل ہائی اسکول کی بنیاد رکھی ، جو ۱۸۷۷ء میں کالج بن گیا اور ۱۹۲۰ء میں یونی ورسٹی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس لائق ہوجائیں کہ تعلیم حاصل کرکے ہندوئوں کا مقابلہ کرسکیں، ملازمتیں ان کو حاصل ہوں، دفاتر میں وہ داخل ہوسکیں،اور حکومت کے دائرے کے اندر وہ دخیل ہوسکیں۔ ان اہداف کا حصول جدید تعلیم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے مغربی علوم اور سائنس کو مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے غازی پور میں ’سائنٹی فک سوسائٹی‘ [۱۸۶۳ء]بنائی اور مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی محاذ فراہم کرنے کے لیے دسمبر ۱۸۸۶ء میں ’محمڈن ایجوکیشن کانفرنس‘ کی بنیاد رکھی۔ جس نے یہاں کی سیاسی زندگی میں نہایت قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ [آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ۱۹۰۶ء میں، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس منعقدہ ڈھاکہ کے دوران ہی عمل میں آیا تھا]۔ سرسیّد کی اُٹھائی ہوئی تعلیمی تحریک جس نے بعدازاں علی گڑھ میں مرکزی حیثیت اختیارکرلی، کے نتیجے میں بہرحال مسلمانوں کے معاشی مفادات کا تحفظ ہوا، جو اس کا سب سے روشن پہلو ہے۔
  • علی گڑھ تحریک کا بنیادی نقص:سرسیّد کی علی گڑھ تحریک اور اس کے نتائج کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو معیار بناکر اصلاحی کام انجام نہیں دیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ کئی مرحلوں اور موقعوں پر اسلام کی قطع و برید کرنے کے لیے تیار پائے گئے۔ یہاں تفصیل کی گنجایش نہیں، صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

’آثار الصنادید‘ جو۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے پہلے ۱۸۴۳ءکی تصنیف ہے، اس میں سیّداحمد شہیدؒ بریلوی کا ذکر کرتے ہوئے جہاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’انھوں نے جہاد کی طرف لوگوں کو اس لیے بلایا کہ اللہ کا دین سربلند ہو اور کلمۃ اللہ غالب ہو‘‘۔ یعنی سیّداحمد شہیدؒ کی کوششوں کو انھوں نے بہت سراہا،لیکن ملاحظہ فرمایئے کہ جب جناب سرسیّد سمجھوتے کی پالیسی پر اُترآئے تو اپنی تفسیر میں اور اپنے رسالے تہذیب الاخلاق  [اجراء:دسمبر ۱۸۷۰ء] کے مضامین میں یہ کہتے ہیں: ’’اسلام میں اصلاحی جہاد کوئی جہاد نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا حملہ کرے تو جہاد ہے ورنہ نہیں‘‘۔ سیّداحمد بریلوی صاحب پر کسی نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود کفر کا قلعہ توڑنے کے لیے ہندستان سے جاں نثاروں کو اکٹھا کر کے لائے تھے۔ مذکورہ بالا طرزِبیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسیّد نے اسلام کو جدید تصورات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔

یہ امربحث کا موضوع نہیں کہ یہ کام نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا یا بدنیتی کے ساتھ؟ ہمارا گمان ہے کہ نیک نیتی ہی کی بنا پر کیا گیا ہوگا، لیکن نیک نیتی سے اگر کسی کے ’دست و بازو‘ کاٹ دیے جائیں تو بہرحال وہ شخص اپاہج ہی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سرسیّد احمد خاں اہم اسلامی مباحث پر بنیادی اسلامی فکر سے بہت دُور ہٹ گئے اور اس میں کم از کم گیارہ مواقع تو ایسے ہیں کہ جن میں اس نوعیت کے اختلاف کی کوئی نظیر اس سے پہلے ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ کے یہاں نہیں ملتی۔ ہم یہ بات سرسیّد احمد کے سوانح نگار اور مدلل مداح خواجہ الطاف حسین حالی [۱۸۳۷ء- ۱۹۱۴ء] کی سند پر کہہ  رہے ہیں۔

  • جدید نظامِ تعلیم کی مخالفت:تعلیم کے بارے میں جو موقف سرسیّداحمدخاں نے اختیار کیا، اس سلسلے میں بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم نے ان کی تعلیمی کوششوں پر ان کے معترضین کی تحریروں کا جو کچھ بھی مطالعہ کیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے سرسیّدمرحوم کی تعلیم کی مخالفت تو کی تھی، مگر خود تعلیم کی مخالفت نہیں کی تھی۔ ان تمام مخالفانہ تحریروں کو پڑھ جایئے اور ان تمام اعتراضات کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیجیے جو اُن پر وارد کیے گئے۔   ان میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ کسی غیرزبان کا سیکھنا کفر ہے یا جدید تعلیم کو حاصل کرنا کفر اور یہ کوئی بُرائی ہے۔ اعتراض یہ کیا گیا تھا کہ سرسیّد احمد خاں جن کے خیالات یہ اور یہ ہیں اور جن کے زیر ِاثر اور زیر ِ نگرانی یہ تعلیم دی جارہی ہے، وہ غلط ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ علمائے کرام میں سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ۶ ، سرسیّد کی تعلیمی تحریک سے بہت پہلے فتویٰ دے چکے تھے کہ انگریزی زبان سیکھیے اور اس لیے سیکھیے کہ اس کے ذریعے آپ اسلام کا دفاع کرسکیں۔۷ مسلمان جو چیزیں دوسروں سے حاصل کرسکتے ہیں اُن سے ضرور فائدہ اُٹھائیں، لیکن اپنے بنیادی نقطۂ نظر کو محفوظ رکھتے ہوئے ۔ اس لیے نہیں کہ دوسروں کی دی ہوئی عینک سے آپ خود اپنے مذہب ہی کو دیکھنا شروع کردیں۔

اعتراضات کی بنیادمحض تعلیم نہ تھی، جیسا کہ تاریخ کو جھٹلانے اور دانستہ جھوٹ گھڑنے والے اکثر لوگ یہ افسانہ طرازی کرتے ہیں: ’’علما نے انگریزی میں تعلیم کی مخالفت کی تھی‘‘، نہیں، بلکہ جس چیز کی مخالفت کی گئی، وہ یہ تھی کہ جس تعلیم کو آنکھیں بند کرکے مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی تھی، وہ تعلیم مغرب سے مرعوبیت کی تعلیم ہے۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ’تم کو داڑھیاں منڈوانا پڑیں گی، تم کو ہیٹ پہننا پڑیں گے، تم کو نئے طریقے اختیار کرنا پڑیں گے اور یہی راستہ ہے جس سے تم آگے بڑھ سکتے ہو‘۔ اس ذہنیت پر چوٹ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ: ’مغرب کی ترقی کا سبب نہ شیو کرنا ہے اور نہ ہیٹ پہننا ، اس کا راز اس جذبے اور ولولۂ قربانی میں ہے، جس کا اس نے مظاہرہ کیا ہے اور جس سے ہم آج عاری ہوچکے ہیں‘۔

پھر جنابِ سرسیّد اس علی گڑھ مدرسے میں یورپی اساتذہ کو لے آئے۔ عام طور پر انھوں نے انگریز پرنسپل رکھے، جن میں یورپی پادری بھی شامل رہے۔ ایسی صورتِ حال میں آخر مسلمان کیسے اس تعلیم پر دیوانہ وار لبیک کہہ سکتے تھے؟ اگرچہ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں میں تعلیم عام کی، لیکن یہ تعلیم مسلمانوں کو صرف سرکاری ملازمت کے لیے ہی تیار کرسکی۔ ہمیں ابھی تک یہ جاننا ہے کہ   علی گڑھ سے اس پورے زمانے میں کون سی علمی کتاب شائع ہوئی۔ اسلام کے دفاع اور اسلام کی خدمت کے سوال کو چھوڑ کر دیکھیے، کیا علم کے کسی پہلو پر کوئی درجۂ اوّل کی کتاب، اس درس گاہ سے آئی!

تعلیم کا پورا مزاج یہ تھا کہ ’طلبہ کو ملازمت کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اس کی بہترین مثال سرسیّد کے صاحب زادے سیّد محمود کی زندگی ہے۔ سرسیّد خود کہتے ہیں: ’میری توقع یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ اپنی قوتوں کو دین و ملّت کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے‘۔ ہندستان کے مسلمانوں کی خدمت کریں گے، لیکن ہُوا یہ کہ انھیں ججی مل گئی اور انھوں نے فوراً اسے قبول کرلیا‘۔ یہ واقعہ اس پورے ذہنی کردار کی علامتی تشکیل (symbolise)کرتا ہے، جو یہاں پروان چڑھا۔ اگر ہم سرسیّد مرحوم کی آخری عمر کی تحریریں پڑھیں تو وہ خود اس المیے کا اعتراف کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے ایک خط میں جو ۱۸۹۰ء یعنی جو اُن کا آخری زمانہ تھا تب لکھا:

تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی فلاح کی اُمید تھی وہ خود شیطان اور مرتدینِ قوم ہوتے جاتے ہیں۔

خواجہ الطاف حسین حالیؔ ایک مخلص دوست کی طرح آخری دم تک سرسیّد مرحوم کے ساتھ رہے۔ ان کے حوالے سے بابائے اُردو مولوی عبدالحق [۱۸۷۰ء-۱۹۶۱ء] اپنے مضمون ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں: ’حالی اپنی آخری عمر میں اس تعلیم سے شدید حد تک مایوس ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ جو توقعات ہم نے وابستہ کر رکھی تھیں،ان میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی‘۔ پھر مثال کے طور پر نواب وقار الملک [۱۸۴۱ء-۱۹۱۷ء] جو سرسیّد کے رفقائے کار میں سے ہیں، سرسیّد کو لکھتے ہیں:

یہ کعبے کی راہ نہیں، یہ ترکستان کا راستہ ہے۔ یہ غلطی آپ کے دل کی نہیں آپ کے دماغ کی ہے۔ جو راستہ آپ نے لیا ہے وہ راستہ آپ کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔

اسی نوعیت کی مایوسی کے بعد نواب وقار الملک نے ۱۹۱۳ء میں جامعہ ملّیہ کی تجویز پیش کی، جسے ۱۹۲۰ء میں مولانا محمدعلی جوہر نے عملی جامہ پہنایا، اور اس تعلیمی تحریک پر اکبر الٰہ آبادی کا تبصرہ سنیے:

ابتدا کی جنابِ سیّد نے ، جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونی ورسٹی پر ہوئی، قوم کا کام اب تمام ہوا

ہمیں اعتراف ہے کہ یہ تعلیم ایک دائرے میں یقینا مفید ثابت ہوئی۔ مسلمانوں میں  قومی احساس پیدا کرنے میں اس تعلیم کا بڑا حصہ ہے۔ معاشی طور پر روزگار فراہم کرنے میں بھی اس تعلیم کی خدمات بڑی واضح ہیں۔ تحریک ِ آزادی کے لیے بھی اس تعلیم نے کچھ لیڈر اور کارکنان تیار کیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی، قوم کا صحیح مزاج بنانے میں یہ تعلیم کامیاب نہ ہوسکی۔

جدید تاریخ کا ہر طالب علم اس امر سے واقف ہے کہ مغربی اقوام کی ترقی، صنعت و تجارت کی ترقی سے عبارت ہے اور اگر انھی کے طریقے کو اختیار کرنا تھا تو تعلیمی نظام میں صنعت و حرفت کو، تجارت کو، تجرباتی سائنسوں کو اور انجینیرنگ کو خصوصی مقام دیا جاتا۔ لیکن علی گڑھ کے نظامِ تعلیم کو پڑھ لیجیے: اس میں تجارت، صنعت و حرفت اور دوسرے تجرباتی علوم کو کوئی قرار واقعی مقام نہیں دیا گیا، اہمیت دی بھی گئی تو مغربی فلسفے اور ادب کو۔ اس کے برعکس ہمارے سامنے جاپان کی مثال موجود ہے۔ جاپان کو بھی ایسے ہی حالات درپیش تھے، مگر اس نے اپنی تہذیبی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے مغربی سائنس اور صنعت و تجارت کا مطالعہ کیا، اس سے فائدہ بھی اُٹھایا۔

ابتدائی دور میں محض قومی نقطۂ نظر کو سامنے رکھا گیا۔ ’دینیات‘ کو بھی ایک لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی تھی، مگر تعلیم کے پورے نظام میں اسلامی روح اور اسلامی مزاج کو نہیں سمویا جاسکا۔ بنیادی اہمیت اسلام کے تقاضوں کے مقابلے میں محض مسلمانوں کے مفاد کو، یا پھر جسے اُس وقت مسلمانوں کا مفاد سمجھا جا رہا تھا، اسے اہمیت دی گئی۔ البتہ بعد میں کچھ فرق واقع ہوا، خصوصیت سے تحریک ِ خلافت کے زمانے میں ، جس کے اثرات کے تحت علی گڑھ محض انگریزی اقتدار کے کارندے تیار کرنے کے بجائے قومی سیاست کا مرکز بھی بن گیا اور اسلامی ملّی احساس میں بھی اضافہ ہوا۔

  • سرسیّد اور تجدّد پسندی:باوجود اپنے تمام اخلاص کے،تعبیر (interpretation) کے بہت سے فتنوں کی بنیاد سرسیّد مرحوم ہی نے رکھی اور ان کے افکارو نظریات سے تحریک پاکر بہت سے فکری اور اعتقادی فتنے اُبھرے۔۸ اس طرح قرآن اور حدیث کی مرعوبانہ (Apologetic) ذہن سے تعبیر کرنے کا جو فتنہ اس ملک میں رُونما ہوا ، اس کی ابتدا بہرحال سرسیّد کے تفسیری مباحث ہی سے ہوئی۔

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر مثبت طور پر مسلمانوں کو جمع کرنے کی جو کوشش شاہ ولی اللہ کے کارنامے میں نظر آتی ہے ، اس قسم کی کوئی چیز ہمیں سرسیّد مرحوم کے یہاں نہیں ملتی۔ اگرچہ مغرب کے اعتراضات کا جواب دینا بحیثیت ِ مجموعی کچھ فوائدپہنچانے کا ذریعہ بنا، لیکن سرسیّد کا یہ کام تحریک ِ اسلامی کے استحکام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ کے طور پر آج تک  چلا آرہا ہے۔ ہماری نگاہ میں سرسیّدؒ اور اقبالؒ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اقبالؒ نے مثبت رویہ اختیار کیا ،جب کہ سرسیّد کی تحریک اپنی روح اور مزاج کے اعتبار سے منفی تھی۔

علمائے کرام کی خدمات

پھرہمارے سامنے علمائے کرام کا ردعمل آتا ہے۔فکری اعتبار سے اس کا سلسلہ شاہ ولی اللہ کی تحریک سے وابستہ ہے۔

  • دارالعلوم دیوبند:۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے آٹھ سال بعد ضلع سہارن پور (اترپردیش کے قصبے) دیوبند میں دینی اور عربی علوم کے دارالعلوم کی بنیاد ۱۵محرم ۱۲۸۳ھ/۳۰مئی ۱۸۶۶ء کو چھتے کی پرانی مسجد کے صحن میں انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے سایے میں بڑی سادگی سے دُعا کرتے ہوئے رکھی گئی۔اس کے قائم کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حکومت کی سرپرستی کے بغیر، امرا اور نوابوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر دین کی حفاظت کی ایک منظم کوشش کی جائے۔ علما کا نقطۂ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ ہم دین کو غالب نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کو بچا تو لیں۔ اگر اپنی روایات کو ہم سارے ملک میں جاری و ساری نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کو محفوظ تو کرلیں۔ اگر اسلام کی چھاپ ہم دوسروں پر نہیں لگا سکتے تو کم از کم جو کچھ ہمارا ورثہ ہے اس کو تو بچا لے جائیں۔ اس ردعمل کی بنیادی روح (spirit) یہی تھی۔ ان کے پیش نظر مخالف قوتوں سے ٹکر لینا اوّلین مقصد نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو بچالینا مقصود تھا، جو اپنی جگہ ایک مثبت سوچ تھی۔ محمودحسن اس مدرسے کے پہلے طالب علم تھے، جو بعد میں شیخ الہند کہلائے۔ اسی روایت سے جڑے دوسرے مدرسے مظاہرالعلوم، سہارن پور کی تاسیس بھی اسی سال نومبر ۱۸۶۶ء کو کی گئی۔

پیش نظر یہ تھا کہ ایسے علما تیار ہوں جو ملک کے گوشے گوشے میں دین کا پیغام پہنچا سکیں اور لوگوں کو اسلام پر قائم رکھ سکیں۔ دینی علوم کا تحفظ ہو، بدعات سے بچائو اور عقائد کی اصلاح ہو۔ اربابِ دیوبند نے اُمورِ دنیوی سے تقریباً قطع تعلق کی روش اختیار کی اور وہ مسلک اختیار کیا، جس میں کہ وہ کم از کم دین اور دینی روایات کو بچا سکیں۔

جیسا کہ ہم اس سے قبل واضح کرچکے ہیں، مسلمانوں کی کیفیت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی۔اس ہاری ہوئی فوج میں اس نقطۂ نظر کا رُونما ہونا ہرگز غیرفطری بات نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اُمت کی ایک عظیم خدمت انجام دی۔ کم از کم یہ تو کیا کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے کلمے پر قائم رکھا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمارا تعلق قرآن اور حدیث سے قائم رہا اور جنوب مشرقی ایشیا میں شعائر اسلامی کا پرچار ہوتا رہا۔ جو حملہ ہمارے دلوں سے  دین کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے کیا گیا تھا، اس کی مدافعت کی گئی اور اس کے سامنے علما کی کوششیں حصار بن گئیں۔ یہ درست ہے کہ ہم ان سے ٹکر نہ لے سکے، لیکن کم از کم اپنے ایمان، اپنے معیارات، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے علوم کو تو ہم نے بچالیا ، جس سے بعد میں اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ اس بچے ہوئے سرمایے کو اللہ کے کچھ دوسرے بندے استعمال کریں اور آگے بڑھا لے جائیں۔

  • شیخ الہند مولانا محمود حسن: دیوبند کے اور دوسرے علما نے ہندستان کی سیاست میں بھی حتی الوسع حصہ لیا۔ اس گروہ کی قیادت شیخ الہند مولانا محمود حسن [۱۸۵۱ء-۱۹۲۰ء]  نے کی۔ آپ نے ۱۸۷۳ء میں ’تمرۃ التربیت‘ کے نام سے ایک انقلابی تحریک علما اور اپنے شاگردوں کی بنائی، جو خاصے عرصے تک یہاں کی سیاسی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی۔

مولانا محمودحسن نے پوری زندگی انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔ انھوں نے مسلمانوں کو جمع کرنے کی کوشش کی اور دوسری مسلم حکومتوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ سب مل کر ہندستان کو آزاد کرائیں۔۹  اس کے لیے انھوں نے سفر بھی کیے، جیل بھی گئے اور قیدوبند میں کوڑے بھی کھائے۔ انتقال پر جس وقت آپ کی میّت کو غسل دیا جارہا تھا، اس وقت دیکھا گیا کہ آپ کی پیٹھ اس تشدد کے باعث بالکل سیاہ تھی، لیکن آپ نے اپنی زندگی میں کبھی یہ پسند نہ کیا کہ اُن پر جو گزرتی رہی ہے، وہ کسی کے سامنے بیان کریں۔

دارالعلوم دیوبند اور دوسرے علمائے کرام کی یہ قابلِ رشک خدمات بجا، لیکن اس سلسلے میں کم از کم دو چیزیں ایسی ہیں جو مجھے کھٹکتی ہیں:

  • مولانا عبیداللہ سندھی: ان میں ایک مولانا عبیداللہ سندھی [۱۰مارچ ۱۸۷۲ء- ۲۱؍اگست ۱۹۴۴ء]کی تحریک ہے کہ جس میں شریعت، تصوف اور ویدانت کا ایک معجون مرکب تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان محترم بزرگ کی روش سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مغرب کے آگے بالکل گھٹنے ٹیک دیے گئے ہوں۔ دارالعلوم دیوبندکے تیار کردہ افراد میں سرسیّد احمد خاں کا فکری اثر اگر کسی نمایاں شخصیت میں پایا جاتا ہے تو وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
  • متحدہ قومیت کا مسئلہ: دوسری بات جو دارالعلوم دیوبند میں پروان چڑھی، وہ متحدہ قومیت کی مذہبی تعبیر کا معاملہ تھا۔۰  اقبال نے قومیت کی حقیقت کو بڑی خوبی سے ان اشعار میں بیان کردیا تھا:

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

یہ ٹھیک ہے کہ اس فتنے کا توڑ خود دیوبند کے کچھ دوسرے مقتدر علما نے کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ اس اہم دینی مرکز کے تیار کردہ تمام اہلِ علم متحدہ قومیت کے علَم بردار نہ تھے، لیکن بہرحال ایک عرصے تک دارالعلوم دیوبند اس فکر کا بہت بڑا مرکز رہا ہے اور اس کا نقصان اسلامی تحریک بلکہ پوری ملّت ِ اسلامیہ ہند کو اُٹھانا پڑا ہے۔(جاری)

حواشی

۳     سرسیّداحمد خاں ، لندن سے اپنے دوست نواب محسن الملک کو خط لکھتے ہیں: ’’ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حالات میں لکھی ہے، اس کو دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل جلا دیا ہے۔ اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا، اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں، جیساکہ پہلے بھی ارادہ تھا ، کتاب لکھ دی جائے۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہوجائے اور مَیں فقیر مانگنے کے لائق ہوجائوں تو بلا سے!قیامت میں تو یہ کہہ کر پکارا جائوں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے نانا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر فقیر ہوکر مرگیا حاضر کرو (بحوالہ موج کوثر، ۲۰۲۱ء،ص ۹۲)

۴     اس ضمن میں جب معذرت خواہی شروع ہوئی تو وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس فکر کو حافظ محمد اسلم جیراج پوری [م:۱۹۵۵ء] اور اُن کے بعد غلام احمد پرویز [م: ۱۹۸۵ء] نے آگے بڑھایا۔عزیز احمد [م:۱۹۷۸ء] Islamic Modernism in India & Pakistan 1857-1964 (۱۹۶۷ء) میں لکھتے ہیں: ’’سیّداحمد خاں سے لے کر آج تک کے تمام متجددین (Modernists) میں غالباً [غلام احمد] پرویزمغرب کے تصورِ حیات سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ وہ بلند معیارِ زندگی اور سیاسی، سماجی، انفرادی اور معاشی آزادیِ مطلق کو دُنیوی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں۔ البتہ وہ ایک معقول بات کو دور ازکار اور ناقابلِ یقین تفسیری اصطلاحات وضع کر کے برباد کر دیتے ہیں (ص۲۲۴- ۲۲۵)‘‘۔ پھر لغت کے سہارے تفسیر کا ایک نرالا اور بے ڈھنگا طریقہ اختیار کرتے ہیں‘‘۔(ص ۲۴۷)

۵     شیخ محمد اکرام نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’تفسیر کی اشاعت نے سرسیّد کے دوسرے [قومی]کاموں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور اُن کی دُنیوی ترقی کا انتظام کرنا تھا [لیکن] اسلام اور تفسیرقرآن کے متعلق، بالخصوص ان مسائل سے متعلق جن کا نہ تعلیم سے خاص تعلق ہے نہ دُنیوی ترقی سے، عام مسلمانوں سے گہرا اختلاف پیدا کرکے سرسیّد نے اپنی مخالفت کا سامان آپ پیدا کرلیا، اور بعض لوگوں کو انگریزی تعلیم سے عقائد متزلزل ہوجانے کا جو ڈر تھا، اس کا بدیہی ثبوت خود فراہم کردیا۔ اس کے علاوہ سرسیّدنے اپنی رائے اور قیاس کے زور سے قرآنی آیات کو نیا مفہوم دے کر ایسی مثال قائم کردی، جس کی پیروی بعضوں نے بُری طرح کی ہے، اور ہرآیت یا حدیث کی تاویل کرکے حسب خواہش معنی مراد لیے ہیں.... سرسیّد کی قابلیت، محنت اور مذہبی ہمدردی کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے علمِ کلام نے تعلیم یافتہ طبقے یا اربابِ تشکیک و الحاد کو ایمان کی دولت بہم پہنچائی ہے‘‘۔(موجِ کوثر، ص ۱۳۶-۱۳۷)

۶     مولانا شاہ عبدالعزیز نے عبرانی زبان سیکھی تھی اور وہ براہِ راست تورات کا مطالعہ کرسکتے تھے (پروفیسر سیّدمحمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۸۲)۔ فتاویٰ عزیزیہ، دوم میں انگریزی زبان سیکھنے کے حق میں فتویٰ دیا: ’’لغت انگریزی کا پڑھنا یا لکھنا اگر بہ لحاظ تشبہ کے ہو تو ممنوع ہے، اور    اگر اس لیے ہو کہ ہم انگریزی زبان میں لکھا پڑھ سکیں اور ان کے مضامین سے آگاہ ہوسکیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تشبہ سے مراد اپنی انفرادیت کھو دینا اور انگریزی تہذیب میں اپنے آپ کو گم کرنا ہے۔(سیّد محمد سلیم،ایضاً، ص ۲۶، ۲۷)

۷     رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے ملے، اسے لے لو‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے صحابۂ کرامؓ کو دوسری زبانیں سیکھنے کی ترغیب دلائی۔ اس ضمن میں سب سے روشن مثال حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے، جنھیں آپ نے غیرملکی زبانیں سیکھنے کی ہدایت فرمائی ، جس کے بعد انھوں نے سریانی، ارامی، فارسی اور حبشی زبانیں سیکھ لی تھیں (مشکوٰۃ)۔اس طرح حضرت عمرو بن العاصؓ سریانی زبان بول سمجھ لیتے تھے۔ فقہ حنفی کے جید عالم سلطان علی قاری ہروی (م:۱۶۰۵ء) مشکوٰۃ کی حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شریعت [اسلامی] میں کسی زبان کا سیکھنا جرم نہیں ہے، خواہ: عبرانی ہو یا سریانی، ہندی ہو یا ترکی، فارسی ہو یا کوئی اور زبان‘‘۔ (پروفیسرسیّد محمد سلیم،مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۲۵)

۸     اس ضمن میں فتنہ انکارِ حدیث اور پھر ایک درجے میں ’جہاد‘ کے معاملے میں بہت زیادہ گریز پائی نے خود ’قادیانیت‘ کے فتنے کو بھی راہ دی۔ واللہ اعلم!

۹     ہندستان کو اسلام کے لیے آزاد کرانا مقصد نہ تھا، بس انگریزوں کو یہاں سے نکالنا مقصد تھا۔ کابل میں آزاد ہندستان کی عارضی حکومت قائم کی گئی تھی، جس کے صدر راجا مہندر پرتاب تھے۔ اُمید تھی کہ انقلاب پسند ہندو اور سکھ مدد کریں گے اور اس تحریک ِ آزادی میں شامل ہوجائیں گے۔

۰     سیّدابوالاعلیٰ مودودی،l مسئلہ قومیت [۱۹۳۸ء] lمسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، اوّل [فروری ۱۹۳۸ء]، دوم [دسمبر ۱۹۳۸ء] اور lتحریک ِ آزادیِ ہند اور مسلمان،اوّل [مرتبہ: خورشیداحمد] ۱۹۶۸ء۔ جمعیۃ العلما ہند کی تاسیس ۲۳نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں اُس وقت ہوئی، جب  خلافت ِکانفرنس ہورہی تھی۔ ۲۸دسمبر ۱۹۱۹ء کو جمعیۃ کے اجلاس منعقدہ امرتسر میں یہ تین مقاصد شامل کیے گئے: ’’غیرمسلم برادران کے ساتھ ہمدردی اور اتفاق، مذہبی حقوق کی نگہداشت سے مسلمانوں کی رہنمائی (طفیل احمد منگلوری،مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص ۵۲۸)۔ جمعیۃ العلما کے اجلاس امروہہ (۳۰مئی ۱۹۳۰ء) میں انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ غیرمشروط اشتراکِ عمل کا اعلان کیا (ایضاً، ص ۵۳۲)۔ جس سے خود جمعیۃ میں انتشار پیدا ہوا۔ اس سے قبل ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام قائم ہوچکی تھی۔

اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اپنے ماضی قریب کی تاریخ کو ایک مسلمان کی نگاہ سے دیکھوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ تاریخ کے یہ نشیب و فراز تحریک ِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے کس رجحان کا پتا دے رہے ہیں؟ تاریخ ایک آئینہ ہے، جس میں ایک قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جاسکتا ہے۔اس کی اصل قامت، اس کا رنگ و رُوپ، اس کے خدوخال، اس کے جذبات و احساسات، ہرچیز کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں اس میں صاف نظر آجاتی ہیں۔ تاریخ محض بادشاہوں کی داستان اور سیاسی بساط کے رنگ و آہنگ کا نام نہیں۔ یہ تو پورے تہذیبی سرمایے کی عکاس ہوتی ہے۔ واقعات کے دھارے میں تہذیبی شخصیت کا پورا اُبھار دیکھا جاسکتا ہے۔

میں نے حوادث کے پردے سے جھانک کر تہہ ِآب کارفرما تحریکات و عوامل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر تاریخ نہیں، بلکہ تعبیرِ تاریخ کی ایک ابتدائی کاوش ہے، جس میں معنویت کے کچھ پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور تاریخ کے دریا کی غواصی کرکے اس سے وہ موتی نکال لائیں، جن کی نئی نسلوں کو ضرورت ہے۔ پھر اس کی کوشش بھی کریں کہ اس دریا کا قیمتی پانی یوں ہی ضائع نہ ہوجائے بلکہ یہ کشت ِ ملّی کی آبیاری کے لیے استعمال ہو۔

تاریخ ایک قوم کا حافظہ ہوتا ہے اور جو قوم حافظے سے محروم ہوجائے، وہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ جس کا حافظہ خود فراموشی اور دوسروں کی مرعوبیت کے نقوش سے بھرا ہوا ہو، اس کی شخصیت بھی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنا حافظہ قوی کرنا ہے اور اسے ملّت اسلامیہ کے درخشاں ماضی اور یادوں سے بھی بھرنا ہے، تاکہ ان یادوں کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے مراحل طے ہوسکیں۔

 پس منظر

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا پیغام ان مقدس ہستیوںکے ذریعے پہنچا، جن کی تربیت دست ِ نبوت نے کی تھی اور جنھوں نے قرنِ اوّل میں اسلام کی دعوت کو پھیلایا تھا۔ کاشانۂ رسالتؐ سے دعوتِ اسلامی کی جو لہر اُٹھی تھی، اس نے پہلی صدی ہجری کے اختتام تک سندھ کے ساحلوں کو چھو لیا تھا اور اس کے اثرات ملتان تک پہنچ گئے تھے لیکن بدقسمتی سے حالات نے ایک ایسا رُخ اختیار کیا کہ اسلام کی دعوت کو اس دور میں یہاں قدم جمانے اور مستحکم ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ یہ صحیح ہے کہ دعوتِ اسلامی کی اس قدر مختصر مدت کے لیےآمد بھی اپنی برکات یہاں چھوڑ گئی، جس کے نقش آج بھی یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن جو تہذیبی انقلاب اس کے جلو میں آنا مقدر تھا ، وہ یہاں برپا نہ ہوسکا۔

اس ابتدائی دور کے بعد اسلام برصغیر میںبادشاہوں اور سلاطین کے ذریعے سے پہنچا۔  ان ملوک میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی، نیک بھی تھے اور ظالم بھی، لیکن بنیادی طور پر ان کی حیثیت بادشاہوں کی تھی، داعی کی نہ تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، انسانیت کی خلافت اور قرآن کی حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں آئے تھے۔ ان کے پیش نظر بڑی حد تک اپنی سلطنت کو وسیع کرنا، اور اس علاقے کو اپنے زیرانتظام لانا تھا۔ چوں کہ ان میں سے متعدد سلاطین کی ذاتی زندگیاں بڑی حد تک اسلام کی منشا کے مطابق تھیں، اس لیے اور دوسرے مسلمان معاشرے کے دبائو کی وجہ سے، انھوں نے اپنی حکمرانی کے اَدوار میں بھی اکثر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے اسلام یہاں تک پہنچا، لیکن یہاں کا نظامِ حکومت بحیثیت مجموعی منہاج خلافت راشدہؓ پر قائم نہیں ہوا۔

مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جو فوجیں آئی تھیں، ان کے ذریعے سے بھی اسلام پھیلا۔ وہ لوگ یہاں آکر رہ بس گئے، مسلمانوں کا طرزِ زندگی اختیار کیا، دوسروں نے ان کو دیکھا اور ان سے مثبت اثر قبول کیا۔ اس طرح ان لوگوں نے بھی ایک طریقے سے تبلیغ کا کام انجام دیا اور اسلامی دعوت عوامی پیمانے پر پہنچائی۔ لیکن یہاں بھی اس کے اندر وہی خامی تھی کہ ایمان کی وہ حرارت اور دین کا وہ مزاج اپنی معیاری شکل میں موجود نہ تھا کہ جو قرنِ اوّل میں داعیانِ حق کی زندگیوں اور ان کے معاشرے میں نظر آتا ہے یا اُن مقامات پر ملتا ہے ، جہاں اسلام کی دعوت اُن کے ہاتھوں پہنچی تھی۔

 صوفیا کرام اور علما کا حصہ

پھر صوفیا اور علما نے برصغیر پاک و ہند کی آبادی کے ایک بڑے حصے میں دین اسلام کو پھیلایا۔ سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ دائرہ ٔ اسلام میں آئے، اُن کی اکثریت انھی نفوسِ قدسیہ کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئی۔ ان حضرات نے اپنی پارسا، ستھری ، متوازن اور پُرکشش زندگیوں، گھرگھر اپنی دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں اور اپنی پیہم قربانیوں کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچایا، لیکن ان کے پاس صرف زبان کی قوت تھی ، حکومت کی طاقت نہ تھی۔ یہ اس نظام کو زندگی کے تمام شعبوں میں قائم کر کے دکھا نہیں سکتے تھے اور نہ مدینہ کی ریاست کا نمونہ پیش کرسکتے تھے۔ بہرحال، انھی کی مساعی کی بنا پر اسلام پھیلا اور ایک بڑے طبقے نے اسلام کو قبول کیا۔

برصغیر پاک وہند میں تبلیغِ اسلام اور اشاعت ِدین کے حوالے سے صوفیائے کرام کی خدمات پر مبنی سنہری کارنامے کا تذکرہ ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودود ی سے مستعار لے رہے ہیںـ:

مسلمانوں میںجو جماعت سب سے زیادہ تبلیغِ دین کے ذوق وشوق سے گرمِ سعی رہی ہے وہ وہی صوفیائے کرام کی جماعت ہے، جو آج [پاک وہند ] میں اس طرف سے تقریباً بالکل ہی غافل ہے۔خود یہاں اولیا و صوفیا نے جس بے نظیر استقلال اور دینی شغف کے ساتھ اسلام کی روشنیوں کو پھیلا یا ہے ، وہ ہمارے آج کل کے حضرات ِ متصّوِفین کے لیے اپنے اندر ایک عمیق درسِ بصیرت رکھتا ہے ۔یہاں کے سب سے بڑے اسلامی مبلغ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ [م:۱۲۳۶ء] تھے ،جن کی برکت سے راجپوتانہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے بالواسطہ اور بلاواسطہ مریدین تمام ملک میں اسلام کی شمع ہدایت لے کرپھیل گئے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ [م:۱۲۳۵ء] نے دہلی کے اطراف میں ، فرید الدین گنج شکرؒ [م:۱۲۸۰ء] نے علاقہ پنجاب میں، نظام الدین محبوب الٰہیؒ [م:۱۳۲۵ء] نے دہلی اوراس کے نواح میں،حضرت سید محمدگیسو درازؒ  [م: ۱۴۲۲ء] شیخ برہان الدین ؒاور حضرت زین الدینؒ اور آخرِ زمانہ میں (اورنگ آباد کے ) نظام الدین ؒ نے دکن میں اور دورِ آخر میں شاہ کلیم اللہ ؒ جہان آبادی نے دہلی مرحوم میں یہی دعوت الی الخیر اور تبلیغ اوامرِ اسلام کی خدمت انجام دی۔ ان کے علاوہ دوسرے سلسلوں کے اولیائے عظامؒ نے بھی اس کام میں اَن تھک مستعدی سے کام لیا۔ [اسلام کا سرچشمۂ   قوت، اخبار،الجمعیۃ کے مضامین ۱۹۲۶ء، کتابی شکل ۱۹۶۹ء، لاہور، ص۵۸ ]

مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’پنجاب میں سب سے پہلے اسلامی مبلغ سید اسماعیل بخاری ؒ تھے جو پانچویں صدی ہجری میں لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ لوگ ہزار ہا کی تعداد میں ان کے ارشادات سننے آتے تھے اور کوئی شخص جو ایک مرتبہ ان کا وعظ سن لیتا وہ اسلام لائے بغیر نہ رہتا۔ مغربی پنجاب میں اسلام کی اشاعت کا فخر سب سے زیادہ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ [م:۱۲۶۲ء ] کو حاصل ہے۔ علاقہ بہاول پور اور مشرقی سندھ میں سیدجلال بخاری ؒ کے فیضانِ تعلیم سے معرفت ِ حق کی روشنی پھیلی اوران کی اولاد میں سے مخدوم جہانیاںؒ [م:۱۳۸۴ء]نے پنجاب کے بیسیوں قبائل کو مسلمان کیا۔ ایک اور بزرگ سید صدر الدین ؒ اور ان کے صاحبزادے حسن کبیر الدین ؒ بھی پنجاب کے بہت بڑے اسلامی مبلغ تھے۔ حسن کبیر الدینؒ کے متعلق تواریخ میں لکھا ہے کہ ان کی شخصیت میں عجیب کشش تھی۔ لوگ خود بخود ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔(اسلام کا سرچشمۂ   قوت،ص۵۸- ۵۹)

’’سندھ میں آج سے تقریباً سات سو برس پہلے سید یوسف الدین ؒ تشریف لائے اور ان کے فیضِ اثر سے لوہانہ ذات کے سات سوخاندانوں نے اسلام قبول کر لیا۔ کَچھ اور گجرات میں حضرت امام شاہ پیرانوی  ؒ اور ملک عبداللطیف ؒ کی مساعی سے اسلام کی اشاعت ہوئی۔بنگال میں سب سے پہلے جلال الدین تبریزی ؒ نے اس مقدس فرض کو انجام دیا، جو شہاب الدین سہروردی ؒ [م:۱۲۳۴ء] کے مریدانِ خاص سے تھے۔آسام میں اس نعمت عظمیٰ کو شیخ جلال الدین فارسی ؒ اپنے ساتھ لے گئے، جو سلہٹ میںمدفون ہیں۔کشمیر میں اسلام کا علم سب سے پہلے بلبل شاہؒ نامی ایک درویش نے بلند کیا تھا اور ان کے فیضِ صحبت سے خود راجا مسلمان ہو گیا، جو تاریخوں میں صدرالدین کے نام سے مشہور ہے۔پھر ساتویں صدی ہجری میں سید علی ہمدانی ؒ سات سو [مریدوں]  کے ساتھ یہاں تشریف لائے اور تمام خطۂ کشمیر میں اس مقدس جماعت نے نورِعرفان کوپھیلایا ۔ اورنگ زیب عالم گیر [۳نومبر ۱۶۱۸ء-۳مارچ ۱۷۰۷ء]کے عہد میں سید شاہ فرید الدین ؒ نے کشتواڑ کے راجا کو مسلمان کیا اور اس کے ذریعے علاقۂ مذکور میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ دکن میں اسلام کی اِبتدا پیر مہابیر کھمدایتؒ سے ہوئی، جو آج سے سات سو برس پہلے بیجاپور تشریف لائے تھے۔ ایک اوربزرگ جو شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی اولاد میں سے تھے، علاقہ کونکن کے ہادی اور رہبر تھے۔ دھارواڑکے لوگ اپنے اسلام [قبول کرنے]کو شیخ ہاشم گجراتی ؒ کی طرف منسوب کرتے ہیں، جو ابراہیم عادل شاہ [م: ۱۵۵۸ء] کے پیر طریقت تھے۔ ناسک میں محمد صادق سرمتؒاورخواجہ اخوند میر حسینی ؒ کی روحانی برکات کا اب تک اعتراف کیا جاتا ہے۔ مدر اس بھی اپنی ہدایت کے لیے چند صاحبِ حال بزرگوں کارہین منّت ہے، جن میں سب سے زیادہ مشہور سیّدنثارشاہؒمدفون ترچناپلی ہیں۔ دوسرے بزرگ سید ابراہیم شہید ؒہیں جن کا مزار اَرداری میں ہے اور تیسرے بزرگ شاہ الحامد ؒ ہیں جن کا مدفن ناگور میں واقع ہے۔نیو گنڈا کی طرف اسلامی آبادی عام طور پر اپنے قبولِ اسلام کو بابافخرالدین ؒ کی طرف منسوب کرتی ہے، جنھوں نے وہاں کے راجا کو مسلمان کیا تھا۔ (اسلام   کا سرچشمۂ قوت، ص۵۹-۶۰)

’’صوفیائے کرام کی انھی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر آج تک ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوئوں کی ایک بہت بڑی جماعت اگرچہ مسلمان نہ ہو سکی، مگر اب تک اسلامی پیشوائوں کی گرویدہ ہے۔چنانچہ ۱۸۹۱ء کی مردم شماری میں صوبہ شمال مغربی ہند کے ۶۴۳،۲۳،۲۳ ہندوئوں نے اپنے آپ کو کسی خاص دیوتا کا پرستار بتلانے کے بجائے کسی نہ کسی مسلمان پیر کا پجاری ظاہر کیا تھا۔ وہ لوگ ہندوئوں کی ایک کثیر آبادی پر اسلام کا غیر معمولی اثر چھوڑگئے مگر افسوس کہ آج ہم اس اثر سے بھی فائدہ اُٹھانے کے قابل نہیں ہیں ۔اسی طرح ہندستان سے باہر بعض دوسرے ممالک میں بھی اس مقدس تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں نے حیرت انگیز نتائج پیدا کیے ہیں۔ خصوصیت سے جب فتنۂ تاتار نے [ہلاکو خاں (م: ۸فروری ۱۲۶۵ء) کی قیادت میں ۱۰فروری ۱۲۵۸ء کو مسلم عباسی]حکومت کے قصرِ فلک بوس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، توتمام وسطِ ایشیا میں صرف یہ صوفیائے اسلام کی روحانی قوت تھی ،جو اس کے مقابلے کے لیے باقی رہ گئی تھی اور بالآخر اسی نے اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کی، لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ زبردست قوت بھی جس نے اَقطاعِ عالم میں اسلام کی روشنی پھیلائی اور تاتارکے زبردست فتنے تک کو اس کے لیے مسخر کر دیا، جو قریب تھا کہ وسطِ ایشیا سے اس کو بالکل فنا کر دیتا، آج بالکل مضمحل ہو گئی ہے۔ اور اگر ہمارے محترم حضرات ِمتصوّفین ہمیں معاف کریں تو ہمیںاس امر واقعی کے اظہار میںکچھ تامل نہیں ہے کہ اب وہ اسلام کی برکات وفیوض سے دنیا کو معمور کرنے کے بجاے بہت حد تک خود ہی غیراسلامی مفاسد سے مغلوب ہو کر رہ گئی ہے۔ (ایضاً،ص ۶۰-۶۱)

’’ اسلام دشمن طاقتیں کہتی ہیں کہ اس کی اشاعت صرف تلوار کی رہینِ منّت ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ وہ صرف تبلیغ کی منت پذیر ہے۔ اگر اس کی زندگی تلوار پر منحصر ہوتی تو وہ تلوار ہی سے فنا بھی ہوجاتی، اور اب تک تلوار سے اس پر جتنے حملے ہوئے ہیں،وہ اسے فنا کردینے میں قطعی طور پر کامیاب ہوجاتے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات اس نے تلوار سے مغلوب ہوکر تبلیغ سے فتح حاصل کی‘‘۔(ایضاً،ص۴۱)

 اجتماعی نظام کا قیام

اسلام ایک آزاد تحریک کی حیثیت سے بھی یہاں پروان چڑھا، لیکن وہ اجتماعی نظام برپا نہ ہوسکا جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، بلکہ جیسے جیسے سیاسی استحکام حاصل ہوتا گیا، ایک قسم کی داخلی کش مکش برپا ہوتی گئی۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام اس بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ اقتدار اور غلبہ اس کو حاصل ہو، لیکن یہاں پر یہ پوزیشن عملاً اس کو حاصل نہ تھی۔ یہی وہ حقیقت تھی جس کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں کش مکش رُونما ہوئی، مطالبات اُبھرے، تحریکات پروان چڑھیں، اجتماعی طور پر جدوجہد کی گئی اور اس بات کی کوشش ہوئی کہ اسلام کو حکمرانی اور اجتماعی زندگی میں فیصلہ کن پوزیشن اختیار کرنے کا موقع دیا جائے۔

سیاسی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں، جب ریاست کی قوت اسلام کے لیے بڑی حد تک استعمال بھی ہوئی، اس قسم کی ایک کوشش محمد بن تغلق [م:۲۰مارچ ۱۳۵۱ء] اور فیروز شاہ تغلق [۱۳۰۹ء-۱۳۸۸ء] کے زمانے میں ہوئی۔ پھر اسی قسم کی ایک کوشش اورنگ زیب عالم گیر [م:۳مارچ ۱۷۰۷ء] نے کی۔ ایسی مثالیں ہم کو کئی اور مقامات پر بھی ملتی ہیں۔ اسی طرح ذاتی طور پر اچھے بادشاہ بھی نظر آتے ہیں، لیکن جس چیز کی کمی رہتی ہے وہ پورے اجتماعی نظام میں اسلام کا غلبہ ہے۔ اسلامی احیا کی تحریکات کا اصل مقصد یہی تھا کہ اس سرزمین پر غلبہ اسلام ہی کو حاصل ہو۔

صوفیائے کرام میں حضرت خواجہ باقی باللہؒ [۱۵۶۳ء-۱۶۰۳ء]کی کوششیں بھی غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ مغلیہ دور میں آپ نے اسلام کی شمع کو تیز تر کیا اور عوام، خواص اور مغلیہ درباریوں کو متاثر کیا۔

 شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ 

آپ کے بعد احیائے دین کا پرچم، احمدالفاروقی سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ [۲۶جون ۱۵۶۴ء-۱۰دسمبر۱۶۲۴ء] نے اُٹھایا۔ انھوں نے عہد اکبری [۱۵۵۶ء-۱۶۰۵ء] میں جتنے فتنے پیدا ہوئے اور جو جو بدعتیں رائج کی گئیں، دین پر جس جس انداز سے مظالم ڈھائے گئے اور اس طرح اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، ان سب کے خلاف جہاد کیا۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:

وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

حضرت احمد سرہندیؒ نے مسلمانوں میں دین کی تعلیمات کو پھیلایا ، معاشرے کی عام ذہنی فضا کو اسلام کے حق میں تیار کیا، مغلیہ دربار کے بااثر لوگوں کو دعوتِ اسلامی سے متاثر کیا،امرا پر اپنا اثر ڈالا، علما اور مشائخ کو خدمت ِ دین کی عملی مساعی کی ترغیب دی۔ خود حکومت کی فوج میں تقریباً چار سال تک عسکری خدمات انجام دیں، اور اپنے خیالات کا پرچار کرتے رہے، تاکہ فوج کا سمجھ دار طبقہ ان تمام خرابیوں کو اچھی طرح جان لے، جو معاشرے میں راہ پا گئی تھیں۔

پھر اپنے خطوط کے ذریعے سے، آپ نے ان تمام لوگوں کو جو قومی زندگی میں کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتے تھے، انھیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شریعت کے قیام، احکامِ دینی کے نفاذ اور سنتِ  نبویؐ کے احیا کے لیے آمادہ کیا۔ انھیں اس بات کی مسلسل ترغیب دیتے رہے اور یہاں تک فرمایا کہ: ’’جو کام آپ حضرات کر رہے ہیں، اگر اس کو شریعت کے قیام کے ساتھ سرانجام دیں تو آپ وہی کام انجام دیں گے جو انبیا کرام ؑ نے انجام دیا ہے‘‘۔یہ وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے حضرت احمد سرہندیؒ نے دفاعِ اسلام کے لیے ایک مؤثر اور ہمہ گیر تحریک برپا کی تھی۔ انھوں نے شاہانہ استبداد کی پروا تک نہ کی اور دربار میں جاکر جہانگیر [۱۵۶۹ء-۱۶۲۷ء] کے سامنے کلمۂ حق بلندکیا اور اس ’جرم‘ پر قید کو ہنسی خوشی گوارا کیا۔ گوالیار جیل میں دو سال زیرحراست رہے۔   حضرت احمدسرہندی ؒکی پوری زندگی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی زندگی ہے اور ہماری تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔

’بدعت‘ کے حوالے سے حضرت مجددؒ کا قول ہے: ’’لوگوں نے کہا ہے کہ ’بدعت‘ کی دوقسمیں ہیں: بدعت ِ حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حُسن و نُورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا‘‘۔[مکـتوباتِ ربانی ،اوّل، مکتوب ۱۸۴، ۲۶۰۔ دوم، مکتوب ۲۳، ۵۴ ]

 اسی طرح حضرت مجددؒ نے ایک نیازمند کو خبردار کرتے ہوئے لکھا: ’’اے سعادت مند عزیز، آپ کے مکتوب گرامی کے ایک فقرے میں ’خدیونشا ٔتین‘ لکھا تھا (جس کا مطلب ہے دونوں جہان کے بادشاہ)۔ یہ وہ نعت اور تعریف ہے جو صرف حضرت واجب الوجود اللہ جل شانہ کے لیے مخصوص ہے۔ بندہ مملوک کو جو کسی شے پر قادر نہیں، کیا لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے اور اختیارات خداوندی میں دخل انداز ہو۔بالخصوص عالمِ آخرت میں کہ مالکیت و ملکیت کا کیا حقیقی اور کیا مجازی، حضرت مالک یوم الدین کے لیے مخصوص ہے‘‘ [مکتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۷۴]

جس ماحول میں حضرت احمد سرہندیؒ دعوتِ دین کا کام کر رہے تھے، اس کا اندازہ ان مکتوبات سے لگایا جاسکتا ہے:

ایک صدی سے اسلام پر اس قسم کی غربت چھا رہی ہے کہ کافر لوگ، مسلمانوں کے شہروں میں صرف کفر کے احکام جاری کرنے پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام [و شعائر] بالکل مٹ جائیں، اور اسلام اور اہلِ اسلام کا کچھ اثر باقی نہ رہے۔ نوبت اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسلامی شعائر کو ظاہر کرتا ہے تو بے دریغ قتل کیا جاتا ہے۔ (مکـتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۸۱)

اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دو اضداد کا جمع ہونا محال ہے۔ پس ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمن کے ساتھ محبت کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔(اُن سے)ہم نشینی اور ملنے جلنے میں کم سے کم نقصان یہ ہے کہ شرعی احکام کے جاری کرنے اور کفر کی رسموں کو مٹانے کی طاقت مغلوب ہوجاتی ہے ، اور یہ حقیقت میں بہت بڑا نقصان ہے۔ (مکـتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۶۳)

مرکزِ سلطنت و حکومت کی اہمیت اور اس میں کارخیر کے امکانات کو ان کی درج ذیل  تحریر سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات وہ اپنے زمانے کے حاکم کی کر رہے ہیں، مگر اس کے مخاطب ہرزمانے میں اور ہرجگہ پر اہلِ اقتدار اور اہلِ دعوت ہیں :

بادشاہ کی بہتری کے لیے کوشش کرنا گویا تمام بنی آدم کی اصلاح میں کوشش کرنا ہے، اور بادشاہ کی اصلاح اس امر میں ہے کہ بلحاظِ وقت جس طرح ہوسکے کلمۂ اسلام کا اظہار کیا جائے۔ کلمۂ اسلام کے معتقدات بھی کبھی کبھی بادشاہ کے کانوں تک پہنچا دیے جائیں اور مذہب [اسلام]کی مخالفت کی تردید کرنی چاہیے۔ اگر یہ دولت میسر آجائے تو گویا انبیاعلیہم السلام کی وراثت عظمیٰ ہاتھ آگئی۔ (مکتوبات ربانی، اوّل، مکتوب ۶۷)

حضرت مجدد صاحب کے انتقال کے بعد آپ کے خلفا اور آپ کے مریدوں کا ایک بہت بڑا حلقہ اپنے اپنے دائرے کے اندر، اور اپنے اپنے علاقے میں اس عظیم دعوتی، تربیتی اور اصلاحی کام کو انجام دیتا رہا۔ یہ اس کام ہی کا اثر تھا کہ مغل بادشاہ اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۵ء] کی بے دینی کے مقابلے میں جہانگیر کے زمانے میں حالات کچھ سنبھلے۔ پھر جہانگیر کے بیٹے شاہجہان [۱۵۹۲ء- ۱۶۶۶ء] کے زمانے میں اسلامی احیا کا آغاز ہوا اور اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے میں حالات تقریباً بالکل بدل گئے۔ پہلے حالات جتنے اسلام کے مخالف تھے، اب وہ اتنے ہی اسلام کے حق میں ہوگئے،   پھر اورنگ زیب عالم گیر نے خود حضرت مجددؒ کے صاحبزادے خواجہ محمدمعصومؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

عجمی تصوف کی اصلاح

دوسرا مغل فرماں روا نصیرالدین ہمایوں [۱۵۰۸ء-۱۵۵۶ء] جب ایران کی مدد سے دوبارہ ہندستان آیا تو وہ اپنے ساتھ بہت سے ایرانی ثقافتی اثرات اور شیعی عقائد کے پرچارک لے کر آیا۔ حضرت مجددؒ نے ان عجمی اثرات پر بھی کاری ضرب لگائی اور اسلام کو اس کے خالص رنگ میں پیش کیا۔ اسی طرح تصوف کی ہندستان میں جو شکل رواج پاچکی تھی وہ اسلام کی حقیقی روح سے بہت دُور ہٹی ہوئی تھی۔ آپ نے اس کی اصلاح کی اور اسے اسلام کے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔حضرت مجددؒ لکھتے ہیں: ’’بعض خلیفوں کو ان کے مرید سجدہ کرتے ہیں۔ اس فعل کی شناعت اورکراہت ، سورج سے زیادہ روشن ہے۔ انھیں روکنا چاہیے اور پوری سختی اور تاکید سے منع کرنا چاہیے‘‘۔ [مکتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۲۹]

’ہمہ اوست‘ کے ویدانتی، اشراقی اور ہندی تصور کے مقابلے میں ’ہمہ از اوست‘ کا تصور پیش کیا، جس میں خالق اور بندے کی تفریق باقی رہتی ہے، اور خلق، خدا میں گم نہیں ہوجاتی ۔ اسی طرح ’تصوف‘ اور ’شریعت‘ کی پرانی کش مکش کو آپ نے دُور کرنے، اور دونوں میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی اور سنت ِ نبویؐ کے اتباع اور شریعت کی پابندی پر بے حد زور دیا۔

پھر مجددؒ صاحب نے ایک طرف اسلامی عقائد کی تدریس و تعلیم کا کارنامہ انجام دیا تو دوسری طرف عجمی اثرات اور غیراسلامی تصوف کی مخالفت کی، اور اسلامی تصوف کے اصول اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کو پیش کیا۔ آپ نے مسلم معاشرے کے ہرطبقے میں اسلامی زندگی کو فروغ دیا اور ان میں حرکت پیدا کی، ملک کی سیاسی زندگی کو متاثر کیا، اور نظامِ حکومت کو شریعت کے تابع لانے کی منظم اور مسلسل کوشش کی: ’’ان کی کوششوں کے نتیجے میں اسلام سے بغاوت کی جو مختلف لہریں چل رہی تھیں وہ قدرے سُست پڑگئیں، البتہ جو بگاڑ ابتدا سے ہندی مسلم معاشرے کو چاٹ رہا تھا، وہ ختم نہ ہوسکا۔مختلف حیلوں، بہانوں سے خود مشائخ و اہلِ تصوف کی ایک تعداد کے ہاتھوں گمراہیاں، پسپائیاں اور بدعتیں راہ پاتی رہیں‘‘[آباد شاہ پوری، تاریخ جماعت اسلامی، حصہ اوّل، ص۲۷]۔ بلاشبہہ حضرت شیخ احمد سرہندی کی زندگی اور جدوجہد ، برصغیر ہند میں اسلام کے ایک زریں دور کی بازیافت ہے۔

شیخ عبدالحق دہلویؒ

اسی زمانے میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ [۱۵۵۱ء-۱۶۴۲ء]کی کوششیں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہیں، جنھوں نے خاص طور پر حدیث کی تعلیم اور احیا کی کوشش کی اور دین کے بارے میں ایک معتدل نقطۂ نظر کے فروغ دینے کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ وہ بلندپایہ فقیہ، بلندمرتبہ مصنف اور کمال درجے کے عالمِ دین تھے اور بعض حوالوں سے شیخ احمدسرہندیؒ کے ناقد بھی۔ علّامہ عبدالحیٔ حسنی لکھنوی لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالحق محدث دہلوی وہ پہلے عالمِ دین ہیں، جنھوں نے تصنیف و تدریس کے ذریعے سرزمینِ ہند میں علمِ حدیث کی نشرواشاعت کی‘‘ [نزھۃ الخواطر، ج۵، ص۲۰۱، بحوالہ فقہاے ہند، از محمداسحاق بھٹی، ج۴، ص ۱۸۰]۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں علمِ حدیث کو جو ترقی حاصل ہوئی ، اس کا اوّلین سہرا شیخ عبدالحقؒ ہی کے سر ہے۔

جب مغل جہانگیر بادشاہ نے اپنے باپ اکبر کے خیالات سے دُوری اختیار کی، تو شیخ عبدالحق کے دل میں جہانگیر کے لیے خیرخواہی کا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ نے طے کیا کہ حاکم بے خبر ہے اور خیر کی طرف آنا چاہتا ہے تو اس سے ملنا اور اس کی رہنمائی کرنا چاہیے۔ اس لیے انھوں نے جہانگیر سے ربط ضبط قائم کرنے کے لیے خود پیش رفت فرمائی۔ ایک ممتاز محقق نے لکھا ہے: ’’ممکن ہے        شیخ [عبدالحق] کے رویے میں تبدیلی کا سبب خواجہ باقی اللہ کی تعلیم ہو، کہ خواجہ کا اصول تھا: ’جھونپڑیوں سے لے کر محلوں تک ارشاد و تلقین کا کام کرنا چاہیے، اور سلاطین سے علیحدہ رہنے کے بجائے ان کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔[خلیق احمد نظامی، حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص ۱۴۶]

  • اورنگ زیب عالم گیر:ایک طویل دورِ پُرفتن کے بعداورنگ زیب عالم گیر نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ مختصراً یہ ہے کہ:
    •  پورے ملک میں اسلام کے لیے ایک سازگار فضا بنا دی۔ وہ غلط چیزیں جو کھلے بندوں ہو رہی تھیں، اُن کی حوصلہ شکنی کی اور بدعتوں کو بند کیا۔
    • جب ماحول اور فضا اعتدال پر آئے تو اسی فرماں روا نے اسلامی قوانین کو مرتب و مدون کیا اور ان کو نافذ بھی کیا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو اورنگ زیب نے انجام دیا۔ الفتاویٰ الہندیہ (فتاویٰ عالمگیری) کی تدوین ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ فتاویٰ آج بھی اسلامی قانون کے بہترین مجموعوں میں شمار کیے جاتے ہیں، بلکہ انگریزوں کے دور میں بھی جو تھوڑا بہت اسلامی قانون باقی رہا، اس کی ایک وجہ اس مدون قانون کی موجودگی بھی تھی۔
    • اس کے ساتھ ہی اورنگ زیب نے ایک نئے نظامِ تعلیم کی داغ بیل بھی ڈالی، جس کے ذریعے اسلامی نقطۂ نظر سے نئی نسلوں کو تعلیم دی جاسکے اور ایسے افراد تیار کیے جاسکیں جو ملک کے نظام کو چلانے کے قابل بن سکیں۔

دعوتِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے اورنگ زیب کے یہ تینوں کام بے حد اہم ہیں۔ تاہم، اورنگ زیب کی آنکھیں بند ہوتے ہی، یعنی ۱۷۰۷ء کے بعد اٹھارھویں صدی میں وہ تمام اجتماعی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی کمزوریاں اور خرابیاں پوری قوت سے مسلمانوں میں اُمڈ کر  حاوی ہوتی نظر آئیں، جو خرابیاں گذشتہ صدیوں سے برگ و بار لا رہی تھیں۔ اس دورِ حکمرانی میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی تو کسی زمانے میں بھی مثالی نہیں رہی تھی، اب رہی سہی کسر بھی درہم برہم ہوگئی۔

شاہ ولی اللہ  ؒ

شاہ ولی اللہ ؒ [۱۷۰۳ء-۱۷۶۳ء]کا دور اُس زمانے پر مشتمل تھا، جب اورنگ زیب کی لائی ہوئی اصلاحات خطرے میں پڑگئی تھیں۔ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ملک کے گوشے گوشے میں بغاوتیں سر اُٹھا رہی تھیں۔ ہرطرف بدنظمی، بدامنی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ اس زوال اور ہمہ پہلو انتشار کو ہندوئوں کی قومی، نسلی اور عسکری بنیادوں پر اُٹھنے والی تنظیموں نے تیز تر کر دیا تھا۔ جنوب میں مرہٹے عروج پکڑ کر دہلی کی طرف یلغار کر رہے تھے۔ دہلی کے اُس پار گنگ و جمن دوآبے میں جاٹ اُمڈ رہے تھے۔ سرہند، پنجاب اور سرحد[خیبرپختونخوا] کے علاقے سکھوں کی خوں آشامی کا نوحہ لکھ رہے تھے۔ بنگال اور ہند کے ساحلی علاقے انگریزوں کی تنظیم، سیاست اور عسکریت سے مغلوب ہورہے تھے۔ اور یہ سب مل کر مغلیہ سلطنت کو مختلف محاذوں پر شکست دے رہے تھے۔ نئی قوت انگریز اپنے قدم جما نے کے ساتھ اپنے اثرات کو مسلسل بڑھا رہا تھا۔

ان حالات میں شاہ صاحبؒ نے اسلامی احیا کے کام کا آغاز کیا۔ آپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو زندگی کے ایک ہمہ گیر پروگرام کی حیثیت سے قوم کے سامنے پیش کیا اور   اس پروگرام کے مطابق نہایت حکمت، دانش مندی اور حُسنِ توازن کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۷۰۳ء کے بعد سے جو بھی اصلاحی تحریک ہندستان میں اُٹھی، اس پر شاہ ولی اللہؒ کی فکر کی چھاپ نظر آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ کوششیں جو راہِ اعتدال پر قائم نہ رہ سکیں،انھیں بھی اگر کہیں سے سنبھلنے کی تحریک حاصل ہوئی تو وہ شاہ ولی اللہؒ ہی کی فکر تھی۔ ایک ایمان دار مؤرخ     یہ کہنے پر مجبور ہے کہ: ’گذشتہ ڈھائی سوبرسوں کو شاہ ولی اللہؒ کا دور قرار دیا جانا چاہیے‘۔

شاہ ولی اللہ ؒ نے اس بات کی کوشش کی کہ اُمت قرآن اور حدیث سے دوبارہ وابستہ ہو۔ مسلمانوں کی تاریخ اور اسلام کے مزاج کے گہرے مطالعے سے آپ نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ: نہ کلامی مباحث مسلمانوں میں حرکت پیدا کرسکتے ہیں، نہ محض تصوف کی کرامات انھیں کسی بڑے کام کے لیے تیار کرسکتی ہیں، جو چیز مسلمانوں میں زندگی کی حرارت اور ہمہ گیر حرکت پیدا کرسکتی ہے وہ صرف قرآن اور سنت ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ آپ نے قرآنِ پاک کا فارسی میں ترجمہ فرمایا۔ حدیث اور علومِ حدیث کی ترویج کی اور احادیث نبویؐ کے ذریعے احکامِ دین کی حکمتوں کو بلکہ دین کے پورے نظام کو واضح کیا۔ یہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے اور اسی خدمت کا یہ نتیجہ تھا کہ اس اُمت میں دوبارہ اپنی اصل بنیادوں سے استواری کی کیفیت پیدا ہوئی۔

تاریخ اسلام سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ اس قوم کو جن لوگوں نے ترقی و تعمیر کی راہوں پر گامزن کیا ہے، وہ وہی افراد ہیں ، جنھوں نے اس کو قرآن اور سنت کی طرف بلایا ہے، خواہ وہ: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہوں یا امام ابوحنیفہؒ ، خواہ وہ امام شافعیؒ ہوں یا امام احمد بن حنبلؒ، خواہ وہ امام مالکؒ ہوں یا امام ابن تیمیہؒ، خواہ وہ امام غزالی ؒ ہوں یا محمد بن عبدالوہابؒ۔ یہی دعوت ہے جو اس اُمت میں کامیاب ہوسکتی ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرسکتی ہے۔ ملت ِ اسلامیہ کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ صرف اُن حضرات نے کیا ہے جنھوں نے اس کو قرآن و سنت کی طرف بلایا ہے۔ اس حقیقت کو شاہ صاحب نے محسوس فرمایا اور ہندستان کے نہایت تاریک حالات میں مسلمانوں کا ربط قرآن و حدیث کے ساتھ قائم کیا۔

  • اسلام ، ایک مکمل دین: شاہ ولی اللہ ؒ کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو ایک اجتماعی نظام، ایک مکمل دین اور ایک ہمہ گیر ضابطہ ٔ حیات کی حیثیت سے پیش کیا۔ آپ کے پیش نظر زندگی کے پورے نظام کی اصلاح تھی، اس کے محض کسی ایک پہلو کی نہیں۔ آپ نے زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے اسلام کی ہدایات کوواضح کیا۔ شاہ ولی اللہؒ کی تصانیف کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ: فلسفے سے لے کر عبادت کے مسائل تک، نجی زندگی سے لے کر سیاست و معیشت اور تمدن کے ارتقا کے اصولوں تک، فقہ کے مسائل سے لے کر تصوف کے حقائق تک، تمام پر  امام صاحب ؒ نے بحث کی اور ان کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا۔ اسی لیے شاہ صاحبؒ کی تحریروں کو پڑھتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہمارے اِس عہد کا کوئی مفکر اپنے خیالات پیش کررہا ہے۔ ان کے خیالات میں ذرا بھی قدامت اور ازکار رفتگی نہیں پائی جاتی۔ ان کی تحریروں میں ایسی تازگی ہے، جیسی نسیم صبح کے ہر آنے والے جھونکے کی نشاط پروری۔
  • اعتدال اور جامعیت :شاہ ولی اللہ ؒ کے ہاں بڑا ہی اعتدال، بے مثال توازن اور حسین جامعیت ملتی ہے۔ فقہ کے تقریباً تمام مسلکوں کو انھوں نے اپنے سامنے رکھا اور اعتدال کی راہ پیش کی۔ تصوف کے جتنے بھی سلسلے ہندستان میں جاری تھے، ان میں سے بیش تر سے آپ نے خود استفادہ کیا اور جو تعلیمات پیش کیں،ان میں سب کی روح کو سمو لیا۔ جامعیت کا ایک فطری تقاضا اعتدال پسندی ہوتی ہے اور یہ بھی امام صاحب کی تعلیمات میں ہمیں بدرجۂ اتم ملتی ہے۔
  • جدید علم الکلام :شاہ ولی اللہ  ؒ نے ایک جدید علم الکلام کی بنیاد بھی رکھی اور یہ علم الکلام اُس علم الکلام سے بنیادی طور پر مختلف ہے جس کی ترویج یونانی فکر کے زیراثر معتزلہ اور فلاسفۂ اسلام کے ہاتھوں ہوئی ، بلکہ ایک حد تک اشاعرہ کے علم الکلام سے بھی یہ مختلف ہے۔ یہ وہ علم الکلام ہے جس میں قرآن کے طرزِ استدلال کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ جس میں اس طریقے کو اختیار کیا گیا ہے، جو مشکوٰۃ نبوت سے ہم کو ملتا ہے۔ سیدھی سادی دلیلیں، دل میں اُتر جانے والی باتیں، دماغ کو مطمئن کر دینے والا استدلال، روز مرہ کے حقائق سے استشہاد، نہ اس میں فلسفیانہ موشگافیاں ہیں اور  نہ لایعنی اور لاطائل بحثیں۔ اس میں ذہنی عیاشی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ خیالی قسم کی غیرحقیقی بحثوں سے بھی یہ پاک ہے۔ یہ وہ علم الکلام ہے جس کا موضوع زندگی کے بنیادی حقائق و مسائل ہیں۔   یہ زندگی سے متعلق ہے، زندگی سے ہی مربوط ہے اور زندگی ہی کی حقیقتوں کو استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ علم الکلام ہے جو ہمیں بیسویں صدی میں پروان چڑھنے والی تحریک ِ اسلامی (چاہے وہ جماعت اسلامی ہو یا الاخوان المسلمون وغیرہ)کے لٹریچر میں ملتا ہے۔ اس طرح شاہ صاحب اور عہدحاضر کی تحریک ِاسلامی کے طرزِاستدلال میں بڑی مناسبت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
  • معاشی نظریات  : اللہ تعالیٰ نے شاہ ولی اللہ ؒکو دینی اور الٰہیاتی اُمور کے ساتھ معاشی، اقتصادی اور سماجی اُمور میں منفرد شان عطا فرمائی تھی۔ ان کے معاشی نظریات کو ہم اِن بیانات سے پرکھ سکتے ہیں:
    • جو معاشرہ کسی کی محنت اور جدوجہد کا قدر دان نہیں، اور اس کی مناسب اُجرت ادا نہیں کرتا، آجر اور مزارع پر ناقابلِ برداشت محصولات عائد کرتا ہے ، وہ قوم کا دشمن ہے، اسے ختم ہو جانا چاہیے۔ 
    • پیداوار اور آمدنی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے سے تعاون کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو معاشرتی خرابیاں پیدا ہوں گی۔
    • زمین کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ملک کے باشندوں کی صرف اتنی حیثیت ہے کہ جیسے مسافرخانے میں قیام کرنے والے مسافر کی ہوسکتی ہے۔
    • ملک میں جاگیروں کی کثرت نہیں ہونی چاہیے۔ جاگیریں جتنی زیادہ ہوں گی، اس قدر حکومت کے نظم و نسق کا ڈھانچا کمزور اور استحکام متاثر ہوگا، جس کے نتیجے میں کاشت کار پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔
    • کسی گروہ کی، کسی معاملے میں اس طرح اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے کہ وہ معاشرے کے کمزور افراد کو مالی یا ذہنی تکلیفوں میں مبتلا کرے۔
    • عیاشی کے مراکز اور جوئے خانے یک قلم بند کر دیے جائیں۔ اگر یہ باقی رہیں گے تو دولت کی تقسیم کا صحت مند نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔
    • تمام انسان یکساں حیثیت کے مالک ہیں۔ کوئی شخص مالک الملک یا ملک الناس یا مالک قوم نہیں کہلا سکتا۔
    • بلالحاظ مذہب و نسل، تما م انسانوں میں عدل و انصاف، مال و جان کا تحفظ، عزت و ناموس کی حفاظت اور شہری حقوق میں یکسانیت سب کا بنیادی حق ہے۔
    • دولت کے مستحق وہی لوگ ہیں، جو اُجرت اور زراعت کے ذریعے یا دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔
    • ریاست کے سربراہ کی حیثیت، کسی وقف کے متولی کی سی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ [فقہاے ہند، پنجم، ص ۱۰۰۶-۱۰۰۷، ۱۰۱۸]
  • نظام تعلیم و تربیت : آپ نے محض خیالات پیش کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک ایسا مرکز علم قائم کیا، جہاں سے ان خیالات کی اشاعت ہوسکے۔ جہاں ملک کے گوشے گوشے سے لوگ آئیں، ان خیالات کو حاصل کریں اور پھر اپنے اپنے دائرۂ اثر میں جاکر ان کو پھیلائیں اور فروغ دیں۔ شاہ صاحبؒ نے ایک مؤثر نظامِ تعلیم وتربیت بھی قائم کیا۔آپ نے انسانوں کا ایک ایسا گروہ تیار کیا، جس نے ملک کے ہرحصے میں اس پیغام کو پہنچایا۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اجتماعی حالات پر آپ نے غیرمعمولی اثرڈالا۔ ملک کے ایک ایک طبقے کو پکارا، اجتماعی زندگی پر تنقید کی۔ علما سے کہا: ’تم اپنا فرض یاد کرو‘۔ اہلِ سیاست سے کہا: ’تم اپنی قوم کو کہاں لیے جارہے ہو؟‘۔ امرا سے کہا: ’تمھاری یہ دولت کس کام آئے گی؟ اگر تم اس کو دین کی سربلندی کے لیے استعمال نہیں کرتے؟‘ عوام سے کہا کہ: ’اُٹھو اور اللہ کی راہ کے سپاہی بنو۔ اپنے فرائض کو پہچانو اور دین کو اجتماعی زندگی میں قائم کرنے کی جدوجہد کرو‘۔ ملک کے ہرطبقے کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر آپ نے دین کی دعوت پہنچائی۔

شاہ ولی اللہ کا عہد، ہندستان میں سیاسی لحاظ سے سخت بدامنی اور انتشار سے اَٹا ہوا تھا۔ ہرطرف بغاوت سر اُٹھائے ہوئے تھی۔ مرہٹے، سکھ، جاٹ، اُمڈ اُمڈ کر، دم توڑتی مغل سلطنت کو نوچ رہے تھے۔ ان شدید تاریک ماہ و سال میں بھی شاہ ولی اللہ مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ مرہٹے ایک سیاہ آندھی کی طرح رام راج اور مسلمانوں کو برباد کرنے کے منصوبوں پر گامزن تھے۔ شاہ صاحب علم دین کے ساتھ سیاسی تدبر سے بھی سرفراز تھے۔ اس تباہ کن ماحول میں سیاسی مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے اُن کے سامنے دو راستے تھے: ایک یہ کہ روہیلوں کے رہنما نجیب الدولہ کو توجہ دلائیں اور دوسرے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو دعوت دیں۔

شاہ ولی صاحب نے احمد شاہ ابدالی [۱۷۲۲ء-۱۶؍اکتوبر ۱۷۷۲ء] کو ایک طویل خط لکھا، جس میں ہندستان کے سیاسی حالات اور عمومی زندگی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو درپیش شدید خطرات کا تفصیل سے تذکرہ تھا۔ ساتھ ہی یہ دعوت تھی کہ ان حالات کو درست رُخ دینے کے لیے وہ بامعنی قدم اُٹھائے۔ اس سے قبل احمدشاہ نےکئی بار ہندستان پر حملے کیے تھے، لیکن اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس نے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ ہندستان کا رُخ کیا۔ یکم نومبر ۱۷۶۰ء کو احمدشاہ پانی پت پہنچا، جہاں مرہٹوں سے زبردست معرکہ آرائی ہوئی:’’پانی پت کا میدان کارزار سجا، مدرسہ رحیمیہ کا ایک مدرس [شاہ ولی اللہ ] اس تاریخی جنگ کے نقشے تیار کر رہا تھا‘‘ [خلیق احمد نظامی، شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات، ص ۵۴]۔ ڈھائی ماہ تک معرکہ بپا رہا، مرہٹوں کو اس جنگ میں شکست فاش ہوئی۔ مرہٹہ جرنیل شیورائو اور اس کا بیٹا وشواس میدانِ جنگ میں خاک آلود ہوئے اور مرہٹوں کی وہ طاقت کہ جس نے گذشتہ ڈیڑھ سو برس سے طوفان مچا رکھا تھا آن کی آن میں ماضی کا قصّہ بن گئی۔

امرِواقعہ ہے کہ یہ تدبیر حضرت شاہ ولی اللہ کی ہمت، دُوراندیشی اور بصیرت کا نتیجہ تھی۔[جاری]

حواشی

۱-         بعض مسلمان حکمرانوں نے اسلام کی اشاعت کے بجائے، ہندوئوں کو مندروں اور بت خانوں میں بھیجنے میں دل چسپی لی اور اس کو اسلام کی خدمت تصور کیا (محمداسحاق بھٹی ’فقہاے ہند، سوم، لاہور ، ص۴۳)۔ شیخ محمد اکرام نے ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کی حالت ِ زار کے بارے میں لکھا ہے: ’’ان کی روحانی حالت میں کوئی اہم تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ اگر پہلے وہ مندروں میں مورتیوں کے سامنے ماتھا ٹیکتے تھے تو اب مسلمان پیروں اور قبروں کے سامنے سجدے کرتے اور ان سے مُرادیں مانگتے۔ پجاریوں اور برہمنوں کی جگہ [ایسے] مسلمان پیروں نے لے لی تھی، جن کے نزدیک انسان کی روحانی تربیت کے لیے احکام اسلام کی پابندی، اعمالِ حسنہ اور سنت ِ نبویؐ کی پیروی ضروری نہ تھی، بلکہ یہی مُدعا مراقبوں، وظیفوں اور مرشد کی توجہ سے حاصل ہوجاتا تھا۔ تعویذوں اور گنڈوں کا بہت زور تھا۔ ہندوجوگی اور مسلمان پیرکاغذ پر اُلٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر خوش اعتقادوں کو دیتے اور یوں انھیں حصولِ مقصد کے صحیح اسلامی طریقوں سے باز رکھتے۔ [اسی طرح] معاشرتی رسموں کے اعتبار سے بھی مسلمانوں اور ہندوئوں میں کوئی بڑا فرق نہ تھا‘‘ (موجِ کوثر، ۲۰۲۱ء، ص۱۳-۱۴)۔اور سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے بقول: ’’یہ تو مسلمانوں کا حال تھا، رہے وہ مسلمان جو باہر سے آئے تھے ان کی حالت بھی ہندستانی نومسلموں سے کچھ زیادہ بہتر نہ تھی۔ ان پر عجمیت پہلے ہی غالب ہوچکی تھی… خالص دینی جذبہ بہت ہی کم لوگوں میں تھا۔ وہ یہاں آکر بہت جلد عام باشندوں میں گھل مل گئے۔ کچھ نے ان کو متاثر کیا اور کچھ خود ان سے متاثر ہوئے۔ اس کے نتیجے میں یہاں مسلمانوں کا جو تمدن وجود میں آیا، وہ اسلامیت، عجمیت اور ہندوئویت کی ایک معجون مرکب بن کر رہ گیا‘‘۔ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان، اوّل[مرتب: خورشیداحمد]،ص ۲۲)

۲-         اگر ایک طرف غیرمسلم، ہندوئوں کے ذات پات پر مبنی نسل پرستانہ اور طبقاتی جبر سے نجات پانے کے لیے مسلمان ہورہے تھے، تو دوسری جانب مسلمانوں میں سے کچھ مذہبی اور کچھ سیاسی پنڈت، ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے اسلام اور ہندومت کا ایسا ملغوبہ تیار کرنے اور متعارف کرانے میں مصروف تھے کہ جس سے نومسلم خوش ہوسکیں۔ اس ’ترقی پسندانہ‘ تحریک کو واضح طور پر مسلمان صوفیوں کے ایک قابلِ ذکر طبقے نے آگے بڑھایا جس میں ویدانتی عملیات اور اشغال، وحدت الوجود کے گمراہ کن تصورات اور جذب و سکر کی کیفیات کی مبالغہ آمیزی تقویت پہنچانے کا سبب بنتی رہی (فقہاے ہند، سوم، ص ۱۳)۔ یہ چیز جب ذرا ترقی کرگئی تو نمک کی اس کان میں بہت کچھ نمک بن کر رہ گیا، جو وحدت الادیان اور وحدت الوجود کے پردوں میں تخریب ِ دین کی شاہراہ کو وسعت دیتا گیا۔ (ایضاً، ص۱۵)

قومی و بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان کے لیے ایک قومی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میںہمیں اندرورنی و بیرونی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں ان کا مختصراً جائزہ پیش ہے:

  • عالمی حالات : سب سے پہلے بین الاقوامی حالات کو دیکھنا ضروری ہے۔ عالمی اسٹیج پر اگرچہ ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں نائن الیون کے سائے منڈلا رہے ہیں، لیکن اب اصل مسئلہ اس صورتِ حال سے باہر نکلنے اور آگے بڑھنے کا ہے۔ فریقین اس ضرورت کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن باہر نکلنے کا راستہ ابھی واضح نہیں ہے۔ اس غیریقینی صورت اور بے عملی سے ہونے والے نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آج تک کی صورتِ حال کے مطابق کچھ سنجیدہ کوششوں کے باوجود کوئی واضح حل سامنے نہیں آسکا۔ ایک طرف اس بحران کا حل تلاش کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایک اور مسئلہ معاشی بحران کی شکل میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔

یہ مالیاتی بحران شروع تو ستمبر ۲۰۰۷ء میں ہوا لیکن بڑھتے بڑھتے آج ۲۰۲۲ء کے اختتام پر دُور دُور تک بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس مالیاتی بحران نے معیشت کے دوسرے شعبہ جات کو بھی متاثر کیا ہے اور اب یہ ایک کثیر الجہتی معاشی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ بحران جو بنیادی طور پر نجی شعبے( بنکنگ، پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ وغیرہ ) میں پیدا ہوا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے شعبوں تک بھی پھیل گیا اور پیداوار، تجارت، عوامی قرضوں، روزگار، اور بجٹ خسارے وغیرہ پر بھی اس کے منفی اثرات مسلط ہوچکے ہیں۔ موجودہ نظام کو بچانے کے لیے ان حالات میں حکومتوں نے سرمایہ داروں کو جو معاشی سہارے (پیکج) دیے ہیں، انھوں نے اس سرمایہ داری نظام کے اندر ریاست کے کردار پر ہی سوال اٹھا دیے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بڑھتے بڑھتے قومی سطح پر معاشی بحرانوں کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ آج اس معاشی فساد سے کوئی یورپی ملک بھی محفوظ نہیں ہے۔ بے چینی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ دنیا کو اب احساس ہو رہا ہے کہ یہ معاشی بحران، تہذیبی بحران میں بدل کر ہماری اخلاقی، سیاسی، انتظامی، اور اداراتی کمزوریوں کو سامنے لانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اس عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی سطح پر معاشی طاقت کا توازن بھی بدلتا جارہا ہے، جس میں ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک کا کردار مزید اہم ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک بھی اپنے مسائل کے باوجود اس صورتِ حال میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یعنی پہلے جو بوجھ تھے وہ اب مضبوطی اور استقامت کی مثال سمجھے جا رہے ہیں۔ چین، جاپان، برازیل، بھارت، اور ترکیہ مستقبل کے اہم کھلاڑیوں کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ تو ہوا اس صورتِ حال کا ایک پہلو۔

 دوسرا پہلو جو ’بہار عرب‘ سے شروع ہوا تھا، اس نے یہ تصور اور گہرا کر دیا ہے کہ ساری دنیا تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں عوام اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے عوام ہی اس کی اصل طاقت ہوتے ہیں لیکن ماضی میں عوام کو اس حق سے محروم رکھا گیا اور اب وہ اس نظام میں تبدیلی کےخواہاں ہیں۔ خود نظریاتی میدان میں بھی اس سارے عمل کا ایک غیر متوقع نتیجہ برآمد ہوا ہے۔

اسلامی دنیا میں جب بھی کوئی حقیقی جمہوری عمل شروع ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں مذہب خصوصاً اسلام کا رسوخ ہمیشہ بڑھا ہے۔ اس ضمن میں مجھے دو مغربی مفکرین کی رائے بڑی دانش مندانہ نظر آتی ہے، اگرچہ ان کا سیاق و سباق اور مقاصد مختلف ہیں۔ ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ نے اپنی دو کتابوںاسلام تاریخِ جدید کے آئینے میں اور پاکستان بطور اسلامی ریاست میں کہا ہے کہ پاکستان یا دوسرے مسلم ممالک میں جب بھی جمہوری عمل مضبوط ہوگا، تو وہ اپنے ساتھ مذہبیت (اسلامائزیشن) ضرور لے کر آئے گا۔

۶۰ کے عشرے میں کی جانے والی اپنی تقریروں میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بھی خوف میں لپٹے انھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب میں جمہوریت آنے سے اسلام کا سیاسی کردار مزید مضبوط ہو گا جو مغرب اور اس کے مفادات کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے خدشات کے زیر اثر اس نے عرب ریاستوں کو مزید تقسیم کرنے اور یہاں نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کو مضبوط تر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ کسنجر کے خیال میں یہ حکمت عملی اسرائیل کے دفاع میں بھی کام آ سکتی ہے۔ کردوں، عربوں، ایرانیوں، اور ترکوں کے درمیان نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کی حوصلہ افزائی اسی حکمت عملی کا ایک پہلو تھی۔ یہی کھیل اب عراق، افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور عرب دنیا میں کھیلا جا رہا ہے۔ اپنے ملک کے لیے آیندہ کی حکمت عملی بناتے ہوئے عالمی منظر نامے کے ان پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

  • علاقائی تناظر: سوم یہ کہ ہمارے خطے کی صورتِ حال۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح عراق میں بدترین امریکی مداخلت اور بھارت کے ساتھ امریکا کی نئی صف بندی سے بھی ہم متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب چین بھی ایک محکم اور کثیر الجہتی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، جس کا اثر پاک چین تعلقات پر بڑا واضح ہے۔ ایک اُبھرتی ہوئی طاقت کے طور پر اپنی سابقہ ترقیاتی حکمت عملی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، چین اب عالمی خصوصاً ایشیائی اور افریقی معاملات میں فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں جو فوری چیلنج درپیش ہے وہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کی صورتِ حال کے حوالے سے ہے۔ اس مسئلے سے پہلو بچانا ہمارے لیے ممکن نہیں ، لیکن پھر بھی حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں وہ انتہائی غیرمتوازن راستہ ہے۔ یہی معاملہ ایران، اسرائیل اور امریکا کے تعلقات کا ہے، جن میں کوئی بھی خرابی مشرق وسطیٰ کے لیے شدید خطرات کا باعث بنے گی۔ ان حالات سے آنکھیں چرانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ عالمی سطح پر امریکا اب چین کو اپنے مدِمقابل سے بھی زیادہ تصور کر رہا ہے، اور ایک نئے اقتدار کی جنگ کی طرف جارہا ہے، جس میں امریکا،چین کی قوت کو للکارنے کی راہ پر چلے گا۔

  • ملکی حالات: چہارم یہ کہ ہمارے ملکی حالات ہیں۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو گذشتہ ۲۲برس بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس دورانیے کو دو اَدوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول، ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۸ء تک مشرف کا دور۔ دوسرا، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۲ء تک زرداری، نواز اور عمران کا دورِحکومت۔ مشرف کا دور جمہوریت کے زوال، آمریت کے قیامِ نو، تمام ریاستی اداروں کے ایک فوجی حکمران کے سامنے سرنگوں ہونے، سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے فروغ، ملک کی نظریاتی سرحدوں کی کمزوری اور پاکستان کی آزادی و خودمختاری کے معاملے میں کچھ شدید قسم کے سمجھوتوں سے عبارت ہے۔

نائن الیون کے افسوس ناک واقعے اور اس کے بعد پاکستانی قیادت کے امریکا کے سامنے غیر مشروط طور پر سرنگوں ہو جانے سے نہ صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات بُری طرح متاثر ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری پر بھی سوال اٹھے اور ہمیں شدید جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔ پاک۔بھارت تعلقات میں بھی کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں، جو پوری کی پوری بھارت کے مفاد میں گئی ہیں۔ ہمارے بنیادی مسائل یعنی مسئلۂ کشمیر اور مسئلۂ آب نظر انداز ہوگئے۔ ان مسائل کے لیے غیر روایتی حل بھی پیش کیے گئے لیکن وہ سب فریب ثابت ہوئے۔ مختصر یہ کہ پاکستان کو سیاست، معیشت، امن و امان، قومی یکجہتی، ثقافت اور نظریاتی سطح پر غرضیکہ ہرشعبے میں نقصان اٹھانا پڑا۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہو سکتے تھے۔ آغاز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو امید کی راہ دکھائی تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ امیدیں دم توڑ گئیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس نیم جمہوری دور میں زیادہ وقت حکومت اور اپوزیشن کے باہم جنگ و جدل اور فوج کی مداخلت نے پورا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ ہی ہلا کر رکھ دیا۔ اس صورتِ حال میں جس دانش مندی، دُوراندیشی اور صلاحیت کی ضرورت تھی، افسوس کہ فوجی اور سیاسی قیادت، دونوں نے عوام کو بُری طرح مایوس کیا۔

ان دو اَدوار میں ہونے والے واقعات کا نتیجہ اس بحران کی شکل میں برآمد ہوا ہے، جس سے آج ہمارا ملک گزر رہا ہے۔ موجودہ پارلیمان کی مدت ختم ہو رہی ہے اور نئے انتخابات کا شہرہ ہے۔ اس ملکی بحران کی نوعیت اور گہرائی کیا ہے؟ اس ضمن میںکچھ باتیں عرض ہیں:

  • اہلیت کا بحران: سب سے پہلے ہمارے سامنے قانونی اہلیت یا حکومت کے جواز کا بحران ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے پاس حکومت کرنے کا ایک قانونی جواز موجود ہو۔ پہلے مشرف کے پاس یہ جواز موجود نہیں تھا۔ موجودہ حکومت اگرچہ منتخب حکومت ہے اور جمہوریت یا جمہوری اداروں کا ایک تاثر بھی موجود ہے، لیکن یہ حکومت بھی اخلاقی و سیاسی جواز سے عاری ہے۔ عوام اور قیادت، مختلف اداروں اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ نظریۂ ضرورت کے تحت بنا ہوا ایک عارضی بندوبست ہے، نہ جس کے خیالات میں یکسانیت ہے اور نہ مقصد و عمل میں یک رنگی۔ جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ باہمی تعاون، اشتراک اور باہمی عمل کا جذبہ ہے۔ تمام بڑے ادارے یا تو ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں یا ایک مشکل قسم کے باہمی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کا حکومت اور حکومتی اداروں پر اعتماد اگر مکمل طور پر ختم نہیں بھی ہوا، تو کمزور ضرور ہوچکا ہے۔

اس ضمن میں صرف اعلیٰ عدلیہ کو کچھ استثنا حاصل ہے۔ میڈیا نے کچھ مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن اس کا دائرہ بڑا محدود اور انتشار کا شکار ہے۔ فوج کو روایتی طور پر عوامی اعتماد حاصل رہا ہے لیکن اب ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شمولیت اور سول ، سیاسی اور انتظامی اداروں میں  خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دخل اندازی کے بعد یہ ادارہ بھی بُری طرح متنازع ہو چکا ہے۔ جواز کا یہ بحران انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگلے انتخابات جلداز جلد اور مکمل طور پر شفاف ہوں۔ لوگوں کا اعتماد رکھنے والی ایک نئی سیاسی قیادت ہی اس ملک کو کسی مثبت سمت میں لے جا سکتی ہے۔

  • دیانت  کا  بحران: معاملے کی دوسری جہت دیانت کا بحران ہے۔ یہ پہلے بحران سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اگرچہ عدم اہلیت کا بحران بھی بددیانتی کے ہی زمرے میں آتا ہے، لیکن یہ اس سے بڑا مسئلہ ہے۔ بات کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ دیانت کی بنیاد، دُور اندیشی، کردار ، اعتماد اور غیرمتزلزل ایمان داری پر استوار ہوتی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی میدان میں دیانت داری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکمران طبقے کی دیانت پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر عوام کی اکثریت یہ یقین رکھتی ہو کہ فیصلے ان کے مفاد کے علاوہ کسی اور چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جا رہے ہیں، تو ان کی نظر میں حکومتی دیانت کا کیا تصور باقی رہ جائے گا؟ ہمارے خیال میں اس معاملے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ فوج کی قیادت بھی اپنی دیانت داری کے تصور کو تقریباً کھو چکی ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی فضا مضبوط ہورہی ہے۔اس کی سب سے خطرناک علامت یہ سامنے آئی تھی کہ مشرف کے دور میں فوج کو باقاعدہ حکم نامہ جاری کرنا پڑا کہ وردی میں ملبوس سپاہی عوامی ٹرانسپورٹ میں سفر نہ کریں۔ اس سے زیادہ خطرے کی بات کیا ہو سکتی ہے؟ آج شاید صورتِ حال اتنی خراب نہ ہو، لیکن اتنی اچھی پھر بھی نہیں۔ یقیناً یہ ایک بڑی خطرناک صورت ہے جس نے فوج کے وقار کو مجروح کیا ہے لیکن اس سے نپٹنے کے لیے حقیقت پسندانہ اور مفید طریقے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر ہم علامات کو ٹھیک کرنے کے بجائے بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔

اس معاملے میں امریکی کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کی طرح عسکری قیادت بھی امریکی اشاروں پر چلتی ہے۔ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ہماری کوئی بھی پالیسی خالصتاً پاکستانی مفاد میں نہیں بنائی جاتی۔ چنانچہ اس طرح دیانت کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ متذکرہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں خوب غور و فکر کے بعد ایک سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو سیاسی قیادت میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک نئے تصورات رکھنے والی اور پاکستانی مفاد کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسیاں تشکیل دینے والی ایک نئی قیادت سامنے نہیں آجاتی، ہمارا اس بحران سے نکلنا مشکل ہے۔

اس وقت سیاسی منظرنامہ پر تاریکی چھائی نظر آتی ہے لیکن کچھ پہلو اُمیدافزا بھی ہیں۔ تمام بڑے آئینی ادارے اگرچہ عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں لیکن کم از کم چل تو رہے ہیں اور ان کی بساط میدان میں موجود ہے۔

اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے معاملے میں بھی کچھ مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔اب اگرچہ عدلیہ آزاد ہو چکی ہے لیکن حکومت اور اس کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ بہت سے عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں ہوپاتا۔کچھ ایسے فیصلے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اور عدالتوں کے درمیان کوئی رسہ کشی چل رہی ہے۔ یہ ہمارے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیںہے۔ حکومت، قانونی تقاضے پورے کرنے اور آئین کے اندر رہتے ہوئے ڈلیور کرنے میں ناکام ہو جائے تو عدالتی فعالیت (Judicial Activism) ضروری ہو جاتی ہے۔ عدلیہ کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے   ساتھ ساتھ حکومتی نا اہلی سے پیدا ہونے والے عوامی مسائل کے حل کی کوشش بھی کرنا پڑتی ہے۔ ان معاملات میں آئینی طور پر عدلیہ کو انسانی حقوق کی پاسبانی کا منصب دیا گیا ہے اور عدالتیں اس ذمہ داری کو اداکرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ معمول کی بات نہیں ہے بلکہ ملکی صورتِ حال میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔

دوسری طرف عدالتی ضبط و تحمل (Judicial Restraint) بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ عدالتی فعالیت اور ان دونوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں ۱۹۷۳ء کے آئین میں دیا گیا بنیادی حقوق اور عدالت عظمیٰ کے ان کا پاسبان ہونے کا سارا تصور بڑا اہم ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ اگر غلط حکومتی اقدامات کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے تو ان حقوق کی پاسبان ہونے کے ناطے یہ عدالت عظمیٰ ( صرف عدالت عظمیٰ) کا فرض ہے کہ وہ آگے آئے اور اپنا کردار ادا کرے۔ اس طرح ایک سیاسی مسئلہ بھی بنیادی حقوق کا مسئلہ بن سکتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہ عدالت عظمیٰ کی عملداری میں آ جاتا ہے۔ آج سپریم کورٹ بار بار اپنا یہ حق استعمال کر رہی ہے کیونکہ حکومتیں اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس عدالتی فعالیت کے اگرچہ مثبت پہلو بھی ہیں، لیکن اگر یہ سب یونہی چلتا رہا تو مستقبل میںاداروں کے درمیان توازن بگڑنے کااندیشہ ہے۔ یہاں سے بات اچھی حکومت اور اچھے انتظام پر آ جاتی ہے۔ عدالتیں حکومت یا اس کے ذیلی اداروں کاکام نہیں کر سکتیں۔ یہ صرف نظام کے اندر رہتے ہوئے ہدایات دے سکتی ہیں، اور لاقانونیت کے خلاف تحفظ مہیا کر سکتی ہیں، حکومت کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔

تیسرا مثبت پہلو صحافتی آزادی اور میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔ ذرائع معلومات کے علاوہ میڈیا ایک ایسے پلیٹ فارم کا کردار بھی ادا کر رہا ہے، جس پر بحث و مباحث کے ذریعے پالیسی ساز اداروں پر کوئی اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عوامی و سیاسی حلقوں میںشفافیت کو فروغ دینے میں بھی میڈیا کا ایک کردار ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ شعبہ بھی مفادپرستوں، زرپرستوں اور انتشار پسندوں کی دست برد سے محفوظ نہیں اور مختلف مقامی و بین الاقوامی لابیوں ، ثقافتی گروہوں، سیاسی دھڑوں اور طاقت ور اشرافیہ نے اسے بھی اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس ضمن میں اشتہاروں کا لالچ بھی دیا جاتا ہے۔ ان کمزوریوں ، کوتاہیوں کے باوجود ایک آزاد میڈیا ملکی مفاد میں ہے، اور اس ضمن میں جو بھی بہتری ہوئی ہے اسے مثبت ہی سمجھنا چاہیے۔

  • گورننس، صلاحیت اور اعتماد کا بحران: تیسرا بڑا چیلنج جو ہمیں درپیش ہے وہ گورننس کا ایک بڑا بحران ہے جو تمام شعبوں میں واضح ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ آگے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہلیت اور دیانت کے ساتھ ساتھ گورننس کا بحران ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے۔

اہلیت اور دیانت اہم ہیں، لیکن صرف یہ دو خوبیاں کافی نہیں ہیں۔ اچھی گورننس کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر قیادت اور ادارے ڈلیور کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو اچھی گورننس کی امید رکھنا عبث ہے۔ اور جب صلاحیت کا یہ فقدان بدعنوانی کے ساتھ مل جائے تو بیڑا غرق سمجھیے۔ وطن عزیز میں گورننس کی ناکامی کی بہت سی وجوہ تلاش کی جا سکتی ہیں، مثلاً اہلیت، صلاحیت اور شفافیت کا فقدان، قانون کی عملداری نہ ہونا، میرٹ اور اصول و ضوابط کو نظرانداز کیا جانا، طاقت کا غلط استعمال اور دولت کی ہوس۔ کچھ قواعد و ضوابط یقیناً غلط ہو سکتے ہیں، لیکن اگر وہ قانونی طور پر موجود ہیں تو ان کا احترام بہرحال فرض ہے۔ اگر کھلے عام بار بار قانون کی خلاف ورزی کی جائے گی تو اچھی گورننس کی امید کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ یہ اسی بدعنوانی اور نااہلی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں اچھی حکمرانی کی اُمید تقریباً ختم ہو چکی ہے اور یہ معاملہ پورے ملک کا ہے۔ اگر ہم کسی حقیقی تبدیلی کے امیدوار ہیں تو اس نا اہلی اور بدعنوانی کے خلاف سختی سے کارروائی کرنی ہوگی۔

 میں نا اہلی اور بدعنوانی کو جڑواں برائیاں سمجھتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں بدعنوانی کو اہلیت کے بالکل الٹ سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے اہلیت و صلاحیت کی تباہی کا نسخہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی بدعنوانی کی ایک نہایت کریہہ شکل ہے، لیکن بدعنوانی کو صرف مالی بے ضابطگی تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے۔ طاقت کا ہر غلط اور بے جا استعمال بھی بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بد عنوانی پورے ریاستی ڈھانچے کی تباہی کا باعث بنتی ہے اور کسی مؤثر قیادت کے ابھرنے کی ہر امید کو مسدود کردیتی ہے۔

چنانچہ اس لعنت کو اس کی جڑ (صلاحیت و دیانت کے فقدان) اور اس کے پھیلاؤ (لاقانونیت، اور بے ضابطگی) دونوں سطح پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ایک ملک گیر سخت قسم کی مہم، پہلے مرحلے میں بدعنوانی میں کمی اور پھر رفتہ رفتہ اس کے مکمل خاتمے کا باعث ہو سکتی ہے۔ آیندہ قومی حکمت عملی میں اس پہلو کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو جو مدنظر رہنا چاہیے وہ ہے ساکھ کا بحران۔ اہلیت یا ساکھ بنیادی طور پر ایک اخلاقی معاملہ ہے اور آدمی کے قول و عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ معاملہ ریاستی انتظام کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ بہرحال ریاست کا انتظام افراد کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔

درج بالا مسائل اس وقت پاکستان کے لیے اہم ترین ہیں، لیکن ہمارا تجزیہ صرف انھی تک محدود نہیں رہنا چاہیے کیونکہ کچھ اور اہم مسئلے بھی ہماری توجہ کے متقاضی ہیں:

  • ہماری آزادی و خودمختاری : سب سے پہلے تو یہ بیان کر دیا جائے کہ متذکرہ بالا تمام خرابیوں کی موجودگی میں وطن عزیز کو اپنی بقا، آزادی و خودمختاری، قومی افتخار، اور اہم قومی مفادات کے دفاع کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہماری آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے۔ اس تناظر میں آگے کی حکمت عملی بناتے ہوئے ہمیں ایک نیا دفاعی بندوبست بھی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس دفاعی حکمت عملی کی بنیادہماری آزادی، خودمختاری، قومی وقار اور قومی مفادات کے تحفظ پر ہونی چاہیے۔ ہمیں اس چیز کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم کمزور ہوں یا طاقت ور، چھوٹے ہوں یا بڑے، چند قومی مفادات ایسے ہیں جن پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی دفاع صرف عسکری دفاع تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی کئی جہتیں ہیں، جو سیاسی، انسانی، عسکری، ثقافتی، اور معاشی میدان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سیاق و سباق کو سامنے رکھتے ہوئے جو دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، اس میں ملکی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو اولین اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔
  • ثقافتی و نظریاتی شناخت: دوسرے اہم مسئلے کا تعلق ہماری نظریاتی، اخلاقی اور ثقافتی شناخت کے ساتھ ہے۔ اس میدان میں بھی ہم کئی سمجھوتے کر چکے ہیں اور کئی دفعہ مار کھا چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کے افراد سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ صرف چند سیاسی یا معاشی مفادات کی خاطر کوئی جدوجہد کریں اور اپنا سب کچھ قربان کردیں۔ لوگ اس سے بلند تر چیزوں کے لیے زندہ رہتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں۔ چنانچہ دفاع و خودمختاری کے ساتھ ساتھ ہماری نظریاتی و ثقافتی شناخت بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی لیے اسلام بطور مذہبی شناخت ہمارے لیے نہایت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

موجودہ دور میں کئی مغربی مفکرین بھی اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی بھی مسلم معاشرے کے لیے اس کا مذہب یعنی اسلام ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اسلام کو نظر انداز کر کے یا بگاڑ کر، معاشرے میں اندرونی و بیرونی امن کی امید رکھنا عبث ہے۔ سیکولر لابی یا مفاد پرست طبقہ جو بھی کہے، اس حقیقت کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ اسلام ہی ہماری شناخت کی بنیاد ہے اور اگر اس بنیاد کو متزلزل کر دیا جائے تو عوام اور حکمران کبھی ایک صفحے پر نہیں آسکیں گے۔ چنانچہ یہ سمجھا جا سکتاہے کہ ایک ایسا ملک جو اندر سے ہی بے چینی کا شکار ہو، اچھی حکمرانی کی اُمید کیونکر ہو سکتا ہے؟

  • معاشی پہلو: تیسرا پہلو معیشت سے متعلق ہے۔ قوموں کی سیاسی و عسکری طاقت ان کی معاشی طاقت پر منحصر ہوتی ہے۔ آزادی و خودمختاری، قومی تشخص، قومی وقار، شخصی خوش حالی اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے معیشت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ دفاع اور معیشت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔فرد کی خوش حالی ہی کسی قوم کی اصل طاقت ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے گذشتہ کچھ برسوں سے ہماری معیشت مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ تمام معاشی اشاریے منفی ہیں،لیکن اس کے باوجود اگر یہ ملک چل رہا ہے تو اسے اللہ کے خصوصی فضل اور عوامی استقامت کا پھل سمجھنا چاہیے۔ لوگوں کی ثابت قدمی اور ایک بڑی غیر منظم معیشت میں اپنے آپ کو بکھرنے سے بچانے کے عوامی جذبے نے ہمیں سنبھال رکھا ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ ہم غلط حکومتی پالیسیوں، توانائی کے بحران اور ہرطرف پھیلی بدعنوانی کے باوجود چلے جا رہے ہیں۔

معیشت کو جس طرح چلایا جا رہا ہے، اسے نا اہلی اور بد انتظامی کی بلندی کی آخری چوٹی ہی سمجھنا چاہیے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت، اندرونی و بیرونی منڈیوں میں روپے کی گرتی ہوئی قدر، پیداوار میں کمی، سرمائے کی بیرون ملک منتقلی، بڑھتے قرضے اور ان پر بڑھتا سود،اور زر مبادلہ کے خالی ہوتے ذخائر ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں جس میں ملک کے معاشی دیوالیہ ہونے کا دھڑکا ہرآن لگا رہتا ہے۔ لوگ مشکل میں ہیں اور معیشت کا ہر شعبہ رُوبہ زوال ہے۔ صرف ایک مخصوص اشرافی طبقہ ہی خوش حالی اورامارت سے لطف اندوز ہو رہا ہے، جب کہ عوام تکلیف میں ہیں۔ سرکاری ادارے معیشت پر ایک مسلسل بوجھ بن چکے ہیں۔ ملکی قرضوں کی واپسی کے لیے کوئی سبیل بھی پیدا نہیں ہورہی ہے اور ان پر سود کی ادائیگی قومی بجٹ میں اولین نمبر پر آگئی ہے۔ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشرے تک دفاعی اخراجات پر سب سے زیادہ رقم خرچ ہوتی تھی، اب قرضوں کی مد میں ادائیگیاں دفاعی اخراجات سے تقریباً دو،تین گنا ہو چکی ہیں۔

ترقیاتی اخراجات سے تقریباً تین گنا زیادہ رقم قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتی ہے۔ سماجی خدمات (Social Services) پر خرچ ہونے والی رقم اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ انتہائی خراب صورتِ حال ہے اور اس صورتِ حال سے اسی صورت نپٹا جا سکتا ہے کہ اگر ملک کو ایک ایسی قیادت میسر آئے جو جانتی ہو کہ کیا کرنا ہے اور معیشت کو ٹھیک کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہو۔ اس وقت معیشت میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں پیداوار کو بڑھانے ، اپنے انسانی وسائل کو بہتر کرنے،بدعنوانی کے خاتمےاور اندرون ملک و بیرون ملک موجود وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ ان تمام تبدیلیوں کے ساتھ اچھی گورننس بھی ضروری ہے اور ہماری پالیسیوں کا رُخ بھی خود کفالت اور عوام کی طرف ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں بہتر کیا ہے۔ ان بنیادی تبدیلیوں کے بغیر حالات کا بدلنا اور ہمارا اس بحران سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔

  • وفاق اور صوبوں کے تعلقات : وفاق اور صوبوںکے درمیان اور پھر مقامی حکومتوں کے درمیان تعلق بھی ایک اہم معاملہ ہے۔ اس وقت وفاق کی بنیاد وں کو کمزور کیے بغیر مقامی و صوبائی حکومتوں کی مضبوطی ہماری اہم ترین ضرورت ہے۔ اس شعبے میں آیندہ کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل بنانا ضروری ہے، جس میں وفاق اور صوبوں خصوصاً بلوچستان کے خدشات کو بھی سامنے رکھا جائے۔ یہ لائحہ عمل ایسا ہونا چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اس میں شامل ہوں، تا کہ اتفاق رائے سے معاملے کو سلجھایا جا سکے۔ ملک کے معاشی و مالیاتی نظام میں اگر کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جائیں،کیونکہ ہمارا موجودہ معاشی نظام، وفاقیت کے اصولوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ ملک میں اس وقت جو نظام موجود ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے وفاقی نظام کی خصوصیات نہیں رکھتا۔

اس نظام میں بنیادی خامی یہ ہے کہ محصول اکٹھا کرنے کا سارا نظام وفاق کے پاس ہے۔ دوسری طرف اخراجات کے لیے ایک الگ نظام موجود ہےاور یہ نظام جن کے پاس ہے ان کا محصولات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اس گورکھ دھندےکی وجہ سے معاشی نظام میں بہت سی خامیاں جنم لیتی ہیں۔ جب تک محصولات کے نظام کو بھی تقسیم نہیں کیا جاتا، معاشی ذمہ داری کے اصول کو پروان چڑھانا مشکل ہے۔ ملک کے معاشی ڈھانچے کو اَزسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک اکٹھا کرنے کا اختیار وفاق کے پاس اور خرچ کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس رہے گا، بے ضابطگی پیدا ہوتی رہے گی۔ اس لیے ایک باقاعدہ اور منظم وفاقی نظام قائم کرنے کے لیے ملکی ڈھانچے میں کئی بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

  • نجی شعبے کا کردار: ان تمام معاشی مشکلات کے باوجود اگر ہم اپنی ترجیحات کو درست کرلیں اور اپنے وسائل کو خصوصاً سماجی اور سرکاری شعبے میںبہترین طریقے سے استعمال میں لے آئیں تو ہم ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردار نجی شعبے کا ہو گا۔ تاریخ گواہی دے گی کہ جب بھی نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا ہے، اس نے اپنا کردار مثبت اور تعمیری انداز میں ادا کیا ہے۔ تاہم بدعنوانی، مفادات کے ٹکراؤ، اچھی گورننس ، شفافیت اور احتساب کے فقدان کے باعث نجی شعبہ خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے۔

ایک متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس کے تحت نجی شعبہ کو فعال اور سرکاری اداروں کو ذمہ داربنایا جائے۔ انفراسٹرکچر تیار کرنے،سماجی خدمات کی فراہمی اور معاشرے کے نچلے طبقوں کو معاشی نظام میں لانے کے لیے ریاست کا کرداربھی بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس کے علاوہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے دست کاروں ، کاشت کاروں، اور صنعت کاروں کو روزگار کی فراہمی بھی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ بڑی سطح پر معاشی استحکام کے علاوہ نچلے درجے پر معاشی ترقی اور معاشرے کے ہر فرد کو معاشی عمل میں شامل کرنے کے لیے ایک نیا معاشی ماڈل ضروری ہے اور اس ماڈل کی تیاری اس وقت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر بطور دانش وَر ہم اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قومی مقاصد کی درست نشاندہی کے قابل ہو جائیں اور اپنے تصورات کو واضح انداز میں پیش کر سکیں تو شاید ہم آنے والی سیاسی قیادت کے لیے ایک لائحہ عمل متعین کر سکتے ہیں۔

بطور قوم ہم میں کسی صلاحیت کی کمی نہیں ۔ ہاں، سیاسی عزم، واضح مقصد، ایک سوچے سمجھے لائحہ عمل، اہل قیادت اور فعال اداروں کی کمی کا گلہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قیادت کی کامیابی اسی میں مضمر ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو معاشرے کی تعمیر میں اپنا متعین کردار ادا کرنے پر آمادہ کرسکے۔ چنانچہ آئیے ہم خود کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں اور پھر ان کے حل کے لیے کوششوں میں جت جائیں۔اگر ہم اگلے انتخابات میں نئی قیادت کو ایک قابل عمل لائحہ عمل فراہم کرسکیں تو میں سمجھوں گا کہ ہم اپنا تعمیری کردار ادا کرنےمیں کامیاب ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اب وقت آچکا ہے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ملک کو درپیش اہلیت، قیادت،گورننس اور صلاحیت کے بحران کو حل کرنے میں ہم اپنی قیادت کا ساتھ دیں تاکہ آیندہ دس سال پاکستان کے لیے ترقی و خوش حالی کے دس سال ثابت ہوں۔

بات ختم کرنے سے پہلے ہم چند دوسرے ضروری اُمورکی طرف بھی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پورے ملک میں کوئی مربوط معاشی پالیسی نہیں ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ مرکزی حکومت میں شامل جماعتوں، تحریک انصاف اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مشترکہ معاشی پالیسی پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ملک کی معیشت جن حالات سے دوچار ہے، اس میں ایک مربوط پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئے ہیں، لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان دُوری، سیاسی تفریق کی شدت اور تصادم کی حددرجہ افسوس ناک فضا ہے، جسے حدود میں لانا ازبس ضروری ہے۔ اسی طرح اس امر کی بھی سخت ضرورت ہے کہ صوبوں میں ضلعی سطح پر بلدیاتی نظام کو دستور کے مطابق جلداز جلد وضع کیا جائے اور دستور کے مطابق وسائل کی تقسیم کے نظام کو بھی نچلی سطح پر انصاف اور حق کے مطابق فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ جب تک یہ چیزیں نہیں ہوتیں، قومی معیشت کو زمینی سطح پر درست کرنا محال ہے۔

پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت بھانت بھانت کا مجموعہ ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف، جماعتی مفاد سے بلند ہوکر قومی معیشت کی اصلاح کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک قومی حکمت عملی اختیار کریں۔

ہم بڑے دُکھ کے ساتھ یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی مباحثے کی سطح اتنی پست ہوگئی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی یہ اتنی پست سطح پر نہیں گری تھی۔ قومی سطح پر یہ بڑے شرم کا مقام ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ایک فطری امر ہے، لیکن جمہوریت میں اختلاف رائے کی معروف حدود ہیں۔ ہربات کو غداری اور ملک دشمنی کے رنگ میں پیش کرنا ملک و قوم کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ اس کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے:

زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

ملک ہر اعتبار سے ایک نازک صورتِ حال سے دوچار ہے۔ دستور کی حدود کا احترام اور تصادم کے بجائے مفاہمت کا راستہ نکالناوقت کی ضرورت ہے۔

زندگی اور موت، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کا ایک نہایت طاقت ور اور ہماری روزانہ مصروفیات میں بار بار سامنے آنے والا مظہر ہے۔ لیکن اللہ کی ان دونوں نشانیوں یعنی ’زندگی‘ اور ’موت‘ پر ہم غور نہیں کرتے۔ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بہت ہی قریبی رفیقوں کے ساتھ ربط و تعلق اور نامہ و پیام کی شاہراہ پر چلتے چلتے ان میں سے اچانک کسی ایک نہایت عزیز ہستی کے وجود کو موجود سے ناموجود بنتا دیکھتے ہیں۔ ۱۱نومبر ۲۰۲۲ء کو ہمیں اپنے نہایت عزیز، محترم، صاحبِ فہم و دانش بھائی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے انتقال کی خبر سننا پڑی ___ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ کے اندر تحریکِ اسلامی نے پے درپے صدمات برداشت کیے ہیں، جن میں حاشرفاروقی، حسین خان، مولانا محمد یوسف اصلاحی، علامہ یوسف القرضاوی اور مولانا جلال الدین عمری نمایاں ہیں۔

نجات اللہ صدیقی کے پیکر میں ایک بڑے قیمتی انسان کو اللہ تعالیٰ نے اسلامی تہذیب اور تحریک اسلامی کے قافلے کا دل کش محور بنایا تھا۔وہ عمر میں مجھ سے تقریباً سات ماہ بڑے تھے [پ:۲۱؍اگست ۱۹۳۱ء] اور یہ اُن کی خوش قسمتی تھی کہ شروع ہی سے انھیں بہت اچھی تعلیمی سمت پر سفر کا آغاز کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ تعلیمی مواقع کوئی بڑے معروف اداروں یا بڑا باوسائل پس منظر نہیں رکھتے تھے۔ سائنس کی تعلیم کے ساتھ انھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک عربی زبان و ادب کا بھرپور فہم حاصل کیا۔ پھر مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڑھ میں مولانا اختر احسن اصلاحی کی رہنمائی میں قرآن فہمی کی دولت پائی۔ ازاں بعد گریجوایشن اوّل پوزیشن میں پاس کی، اسی طرح ۱۹۶۰ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے بھی اوّل پوزیشن ہی سے پاس کیا۔

۱۹۴۹ء میں علی گڑھ آئے تو مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اورالبلاغ  کو پڑھا، پھر مولانا اشرف علی تھانوی کے بہشتی زیور کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ اسی دوران میں مولانا مودودی کے دو لیکچر ان کی نظر سے گزرے۔ پہلا لیکچر ’نیا نظامِ تعلیم‘ (۵جنوری ۱۹۴۱ء) ندوۃ العلماء لکھنؤ اور دوسرا وہ مضمون کہ جس میں مولانا نے علی گڑھ یونی ورسٹی کے نظامِ کار کی اصلاح کے لیے تجاویز دی تھیں۔ ان دو تحریروں نے نوعمر نجات اللہ کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور انھیں زندگی بھر کے لیے تحریک ِ اسلامی سے وابستہ کر دیا۔

۱۹۵۵ء ہی سے میری اُن سے خط کتابت شروع ہوئی، جس میں اسلام اور تحریک اسلامی کے بڑے بنیادی مسائل پر تبادلۂ خیالات ہوتا رہا۔ اصل میں اُس وقت نجات اللہ صدیقی نے Islamic Thought کے نام سے ایک علمی پرچے کا آغاز کیا، جس نے اہلِ علم کی توجہ کھینچ لی۔ عمر اگرچہ اُس وقت اُن کی محض ۲۵برس تھی، لیکن دین اسلام کوپیش کرنے کے لیے ایک پُرجوش جذبہ ان کے پورے وجود میں موجزن تھا۔ اسی زمانے میں ہم یہاں کراچی سے Student's Voice کے بعد New Era اور Voice of Islam کی صورت میں پیغامِ حق کی وضاحت میں مصروف تھے، جس میں ظفر اسحاق انصاری اور مجھے، اہلِ علم کو اس جانب متوجہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بہرحال اسلامک تھاٹ کا ہمیں شدت سے انتظار رہتا تھا۔

مثال کے طور پر نجات اللہ صاحب کو اس بات کا شدت سے احساس تھا اور اس احساس میں، مَیں اُن سے متفق تھا کہ ہمیں اسلام کو پیش کرتے وقت قرآن و سنت اور سیرت و تاریخ اور عقل و فطرت، اور باہمی تجربات و مشاورت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے موجودہ حالات کا تجزیہ کرنا ہے۔ پھر آخرت کی جوا ب دہی کے کڑے معیار کو ہرلمحہ دل و دماغ پر تازہ رکھتے ہوئے، عصرحاضر میں معاملات کی باریکیوں کو سمجھنا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر رائے دینا ہے، کیونکہ یہی تجدید دین کا راستہ ہے اور اسی راستے سے تحریک اسلامی، انقلاب کی راہیں کشادہ کرسکتی ہے، اور موجودہ زمانے میں دین کی مصلحت کو پیش کرسکتی ہے۔

ان موضوعات پر ہمارا یہ خیال اُس وقت بھی تھا اور آج بھی یہی خیال ہے کہ اگر ہم مذکورہ پیراڈائم (مثالیہ) کو اختیار کرنے کے بجائے روایتی طور پر روایتی علما ہی کی طرف رجوع کرتے رہے، یا اُسی طرزِ فکر کے سامنے ساکن کھڑے ہوکر رہ گئے تو دین کی فطری منشا اور دین کے حرکی و انقلابی پہلو کو مجروح کردیں گے یا کھو بیٹھیں گے۔ نجات اللہ کہا کرتے تھے کہ اسلامی تحریک، ایمان و ایقان کی بنیادوں پر ہرحال میں جم کر کھڑا رہنے کے بعد کسی ایک لگے بندھے لائحہ عمل کی پابند نہیں ہے۔ اس کے لیے اوّلین کام یہی ہے کہ وہ مقاصد ِ اسلام یا مقاصد ِ شریعت سے پختگی کے ساتھ وابستہ ہو۔ باہم مشاوت اور کھلے عالمی مکالمے کے بعد تجربات سے سیکھ کر اور کھلے دل و دماغ سے واقعات کا تجزیہ کرکے، نئے حالات میں، دینی روح کے مطابق اپنی بات کو نئے انداز سے، نئے مخاطبین کے سامنے رکھتے ہوئے حاضر دماغی، دانش مندی اور بھرپور فعالیت کو قدم قدم ساتھ رکھے۔

نجات اللہ اس احساس کے ساتھ کچھ تیزگام بھی تھے، جس کے نتیجے میں انھیں بعض صورتوں میں تنقید و احتساب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے برعکس ہم ایک طرح کی احتیاط پسندی کے پابند رہے یا قدرے سُست گام۔

نجات اللہ بھائی جب بھی ملتے تو یہ پہلو زیربحث لاتے کہ مسلم معاشروں میں اصلاح کار کے لیے آواز بلند کرنے والے سبھی لوگ بدنیت اور دین کے دشمن نہیں ہیں۔ ہمیں ان کو دوطبقوں میں تقسیم کرکے دیکھنا چاہیے:

  • ان میں سے ایک بڑے طبقے میں تو قومی احساس کی جڑ بڑی گہری اور مضبوط ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ دین کےمطالعے کی کمی اور اسلامی تہذیبی اجتماعیت سے دُوری کے سبب دین کی مصلحت اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہے۔ اس طبقے کو اگر ہمدردی سے دین کی منشا سمجھائی جائے، تو وہ یقینا اپنے موقف کی خطرناکی اور ضرررسانی کو سمجھ جائیں گے اور اصرار نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے ہمیں اُن سے مکالمے، گفتگو اور سماجی تعلقات میں گرم جوشی کا دروازہ ہروقت کھلا رکھنا چاہیے۔
  • تاہم، اس ’اصلاح کاری‘ کے نام پر مسلم معاشروں میں ایک دوسرا گروہ ایسا بھی موجود ہے کہ جو مسلمانوں کا نام استعمال کرتے، مسلمانوں کی بہبودی اور ترقی کا دم بھرتے ہوئے، خود اسلام اور مسلمانوں اور اسلامی تہذیب و تمدن پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کی علامتوں پر کاری ضرب لگانا چاہتا ہے بلکہ ضربیں لگاتا چلا جاتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ خطرناک طبقہ، بے خبر اصلاح کاروں کی پہلی قسم ہی سے گفتگو کا استدلال اُدھار لیتا ہے اور اسلامی تہذیب سے دشمنی کا اُدھار چکاتا ہے۔ اس لیے اس دوسرے طبقے کی زہرناکی کا توڑ کرنے کے لیے بھی ہمیں پہلی قسم کے بے خبر اصلاح کاروں کی طرف زیادہ فکرمندی سے دیکھنا اور انھیں سنبھالنا چاہیے۔

نجات اللہ صدیقی بھائی کو بجاطور پر یہ شکایت تھی کہ ہمارا طبقۂ علما، دین کو پیش کرتے وقت معاشرے اور اہلِ حل و عقد کی توجہ ان اُمور کی جانب مبذول نہیں کراتا، جن میں شامل ہیں: عدل کا قیام، عام سطح پر کفالت کا نظام، معاشی ترقی کا منصفانہ نظام، سود سے پاک اور قابلِ اعتماد معیشت کی اجتماعی اسکیمیں، زندگی کے اجتماعی نظام اور انتظام میں دیانت داری، دولت کی منصفانہ تقسیم، وراثت میں خاص طور پر خواتین کے معاشی مفادات کا تحفظ اور ہرفرد کا ہرسطح پر اعلیٰ کارکردگی دکھانا۔ ظاہر ہے کہ جب زندگی کے ان نہایت اہم اُمور کو نظرانداز کرکے محض لگی بندھی باتیں دُہرائیں گے تو انسانی معاشرے پر اسلام کی منشا و مرضی کے مطابق کوئی گہرا نقش مرتب نہیں کرسکیں گے۔

پھر نجات اللہ صدیقی، ظفراسحاق انصاری، خرم جاہ مراد، سعید رمضان، محمدعمر چھاپرا، اور ہمارے درمیان یہ پہلو بھی اکثر فکرمندی کا عنوان بنتا کہ مسلم معاشروں میں دین کے گہرے رُسوخ کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی کے کارکن لگے بندھے طریق کار پر جمود کا شکار ہونے کے بجائے نئی راہیں سوچیں۔ دوسروں سے چھوٹے اور جزوی اختلافات کو نظرانداز کرکے رواداری اور خوش خلقی کا راستہ اپنائیں، اوردین کے بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انسانیت کی خدمت، ترجیحات کی درستی اور تعمیری کردار کو گہرے علم اور معیاری عمل سے ترقی دیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ جدید بنکاری نظام کی سودی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہوئے جس پہلے شخص نے پوری ایمانی کمٹ منٹ اور تخلیقی دانش کے ساتھ بلاسودی بنکاری کے خدوخال پیش کیے، تو وہ شخصیت پروفیسر نجات اللہ صدیقی ہی ہیں، اور ان کی اسی تعمیری اور علمی کاوش کے اعتراف میں انھیں ۱۹۸۲ء میں ’بین الاقوامی فیصل ایوارڈ‘ ملا۔

انھوں نے چھوٹی بڑی ۶۳ کتب تحریر کیں، جن میں معاشیات کی اسلامی تشکیل پر ان کی تحقیقات و تخلیقات کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں انھوں نے امام ابویوسف کی بلندپایہ تاریخی اور ضخیم کتاب، کتاب الخراج کا عربی سے اُردو ترجمہ اسلام کا نظامِ محاصل کے نام سے کیا، اور پھر ۱۹۶۳ء میں سیّد قطب شہید کی معرکہ آرا کتاب العدالۃ الاجتماعیۃ کا عربی سے اُردو ترجمہ اسلام میں عدل اجتماعی کے عنوان سے کیا۔ ان دونوں کتابوں کے ترجمہ و تدوین کے ساتھ نہایت عالمانہ مقدمے تحریر کیے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان تراجم سے اُردوخواں طبقے نے قرارواقعی استفادہ نہیں کیا۔

نجات اللہ صدیقی بنیادی طور پر استاد، محقق، مفکر اور تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے افسانے اور ادبی تنقید بھی لکھی۔ میری اُن سے پہلی ملاقات دہلی میں ۱۹۵۶ء میں ہوئی، اورپھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ عمربھر جاری رہا۔ ہمارے درمیان مختلف علمی موضوعات اور تدابیر پر اتفاق اور اختلافات بھی رہے، لیکن اسلامی معاشیات کی تشکیل نو میں جو خدمت انھوں نے انجام دی ہے، اس نے انھیں ہم میں سب سے ممتاز کردیا۔ اسلام کے مآخذ سے مکمل وفاداری کے ساتھ دورِحاضر میں ان کے اطلاق کے باب میں جدید تجربات وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ بلاشبہہ، تحریکِ اسلامی  کے مفکرین میں نجات اللہ بھائی کو اس کا شعور، میرے خیال میں سب سےزیادہ تھا۔ اس ضمن میں کبھی کبھار وہ اعتدال کی راہ سے کچھ ہٹتے تو دکھائی دیتے، لیکن الحمدللہ وہ کبھی اس سے دُور نہیں گئے۔

یہ بھی ایک حُسنِ اتفاق ہے کہ ۱۹۶۱ء میں پہلے میں، کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں لیکچرر مقرر ہوا، اور پھر اسی سال نجات اللہ صدیقی، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے شعبہ معاشیات میں لیکچرر منتخب ہوئے۔ اسی طرح مجھے صدر ایوب کے دورِ حکومت میں ۶جنوری ۱۹۶۴ء کو، اور انھیں اندراگاندھی کی ’جمہوری آمریت‘ میں ۴جولائی ۱۹۷۵ء کو سنت ِ یوسفی کی سعادت نصیب ہوئی، اور ایک عرصہ جیل میں گزارا۔ ہمارے باہم تعلقات اور اسلامی معاشیات کو درپیش چیلنجوں سے جڑی نشستوں اور تحریک اسلامی کے مسائل سےوابستہ یادوں کا یہ گلدستہ ۱۱نومبر کو بکھر گیا۔ اللہ کریم ان کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے ، اور جو کام وہ چھوڑ گئے ہیں، اسے آگے بڑھانے کے لیے نوجوانوں کو سرگرمی سے خدمات انجام دینے کی توفیق بخشے، آمین! رہا معاملہ نجات اللہ بھائی کا تو ان کے لیے، ان کا کام ایک صدقۂ جاریہ ہے، اور ان شاء اللہ، ربِّ کعبہ ان کی اس خدمت پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتارہے گا۔

انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی متاع دو صورتوں میں سامنے آتی ہے: پہلی ایمان اور دوسری دانش۔ دانش اگر ایمان کے بغیر ہو تو بعض اوقات وہ انسانیت کے لیے ضرررسانی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے بلکہ انسانی تاریخ میں ایسا بارہا ہوا ہے۔ آج ہمارے گرد پھیلی سماجی تاریکی کا ایک بڑا سبب یہی ’بلاایمان دانش‘ ہے۔ نہایت عزیز اور محترم بھائی، ڈاکٹر محمدیوسف القرضاوی، ہمارے عہد میں ایمان اور دانش سے رچے ایک عظیم رہنما اور ایک قابلِ رشک عالم دین تھے، جو ۹۶برس کی عمر میں ۲۶ستمبر۲۰۲۲ء کو خالق حقیقی سے جاملے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

ہر صاحب ِعلم و فضل انسان اور تحریک اسلامی کے کسی بھی حبیب کی جدائی میرے دل پر گہرا زخم لگاتی ہے ، جس کی کرب ناکی دل اور روح کی پنہائیوں میں محسوس کرتا ہوں، اور جس کا اثر، تادیر اعصاب پر رہتا ہے۔ ایسے پے درپے صدمات کو بار بار دیکھا اور جھیلا ہے، اور اپنے ربِّ جلیل کے ان برحق اور اٹل فیصلوں کو اسی کی ہدایت کے مطابق برداشت کرنے کی کوشش کی ہے مگر امرواقعہ ہے کہ محبی و مکرمی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال (۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) کے بعد، جناب القرضاوی کی جدائی، دوسرا بہت بڑا صدمہ ہے۔ اور یہ بات کسی مبالغے کے طور پر نہیں کہہ رہا، بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اس بڑی محرومی کا تذکرہ کر رہا ہوں، جس کی بہت سی جہتیں ہیں، مثلاً یہ کہ:

  • سب سے اوّلین اور بنیادی قدر تو یہ ہے کہ القرضاوی جیسے عالی دماغ نے ایمان کی لذت پانے کے بعد اپنی زندگی کا مقصد دین اسلام کی خدمت قرار دیا۔ امام حسن البنا شہیدؒ کی طرف سے دعوتِ دین اور طریق کار کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا اور الاخوان المسلمون سے وابستگی کا کانٹوں سے اَٹا ایک مشکل راستہ چُنا۔پھر پوری زندگی اسی مقصد کے لیے اپنی صلاحیتیں، اپنی کوششیں ، اپنے خواب اور اپنے مادی مستقبل کو تج دیا۔ دورِ جوانی ہی میں انھیں اپنے وطن مصر کو چھوڑنا پڑا، اور پھر زندگی کے بقیہ ۶۲برس کے طویل عرصے پر محیط   جلاوطنی کی زندگی میں کسی طرح کا شکوہ شکایت زبان پر نہ لائے۔
  • دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنی ذہنی ، فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو تحقیق و جستجو، اور عصرحاضر میں اسلام کے پیغام کی اشاعت کے لیے مخصوص کر دیا۔ آپ کے قلم نے ایمانیات سے لے کر اجتماعیات تک، قوانین سے لےکر تنظیمی اُمور تک، دعوتی پہلو سے لے کر تربیتی اُمور تک اور اسلام کے پیغام کو پیش کرنے سے لے کر اسلام پر ہونے والے حملوں کا جواب دینے تک، ہرزاویے کو برتا اور ہراسلوب کو اختیار کرکے حق کی برملا گواہی دی۔ ان کے ہاں ایک طرف قرآن و حدیث سے استدلال ہے تو دوسری طرف منطق اور کلام کا رنگ نمایاں ہے۔ ایک جگہ خطیبانہ آہنگ ہے تو دوسری طرف وکیلانہ دھیماپن دعوتِ غوروفکر دیتا ہے۔ ایک جگہ تاریخ سے استشہاد ہے تو دوسری جگہ عصرحاضر کے احوال و ظروف میں منفرد طرزِ بیان کی وسعتوں کا آہنگ۔ فہم کو مہمیز دینے کے لیے ادب کی چاشنی اس پر سوا ہے۔
  • ان کی تیسری نہایت متاثر کن خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تمام حیثیتوں پر، ایک معلم کی حیثیت کو غالب رکھا۔ معلّم کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ علم بانٹتا ہے، وہ نئی نسل کو اُس شاہراہ پر چلاتا ہے کہ جسے اُس نے خیر کی حیثیت سے قبول کیا تھا۔ الاستاذ قرضاوی مرحوم نے تعلیمی نظام کی بہتری اور اسے اسلامی تصورِ تعلیم سے مربوط کرنے کے لیے گراں قدر کوششیں کرکے: الجزائر، مراکش، سوڈان اور قطر کی یونی ورسٹیوں اور تعلیم و تحقیق کی دُنیا میں نئی راہیں کشادہ کیں۔ دوسری جانب غیرعرب ممالک پاکستان، انڈونیشیا، ملایشیا اور ترکی میں جس قدر امکان اور گنجایش میسر آئی، انھوں نے نظامِ تعلیم کی سمت درست کرنے کی کوشش کی۔
  • چوتھے یہ کہ وہ ایک محقق اور منفرد شان کے حامل مفکر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ اسلامی احیائی تحریک کے ایک کارکن، ایک لیڈر اورایک داعی بھی تھے۔ اس حیثیت سے انھوں نے بڑی باریک بینی سے تحریک و تنظیم کے عملی اور داخلی و اجتماعی اُمور پر شان دار رہنمائی کے لیے کتب اور مقالات لکھے۔ دعوت و تربیت کے عملی اور اطلاقی پہلوئوں پر زور دیا۔ تحریک اسلامی میں اختلاف رائے کو اتفاق و ترقی کا وسیلہ بنانے کے اصول ذہن نشین کرائے، اور وقت کی گرد ہٹا کر تحریک اور تحریک کے کارکنوں کو ندرتِ خیال اور روشن خیال راستوں کا سراغ دیا۔
  • پانچویں یہ کہ ایک فقیہ اور روحِ عصر کے نباض کی حیثیت سے انھوں نے انسان کے معاشی مسئلے کو سمجھتے ہوئے اسلام کی روشنی میں اسے حل کرنے کے لیے گراں قدر کتب تحریر کیں۔ اُن میں کتاب فقہ الزکوٰۃ کے پائے کی کوئی دوسری کتاب پیش نہیں کی جاسکتی۔ غربت کے خاتمے، بنک کے سود کی حقیقت، اسلامی اصولِ تجارت اور معاملات پر محکم دلائل اور علمی آثار کی بنیاد پہ لکھا۔اس طرح اسلامی معاشیات کے موضوع پرگراں قدر تصانیف ان سے یادگار ہیں۔
  • چھٹا یہ کہ عصرحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو، مغربی سامراجی قوتوں کی جانب سے جس ریاستی، ابلاغی، فوجی، تزویراتی اور عالمی اداراتی یلغار کا سامنا ہے، اس کے جواب میں فقہ الجہاد، جیسی جامع کتاب لکھی اورجہاد کے حوالے سے حالیہ عرصے میں خود بعض پُرجوش مسلم نوجوانوں میں جو افراط و تفریط دیکھنے میں آرہی تھی، اس کی اصلاح کرتے ہوئے درست سمت کی نشان دہی کی۔

اس طرح تقریباً۱۷۵ چھوٹی بڑی کتب، اسلامیانِ علم کے لیے جناب قرضاوی کا قیمتی تحفہ ہیں، جن میں کئی کتب دُنیا کی ۴۵ زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ جناب یوسف القرضاوی نے جامعیت اور انسائیکلوپیڈیائی ذہن کے ساتھ علمی کارنامہ انجام دیا۔ ’یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق‘ کے ذریعے مغربی دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی دینی و فقہی رہنمائی کے لیے ایک مؤثر ادارے کی داغ بیل ڈالی۔یوں علم و نُور کے سفر کے تسلسل کو عملی شکل دی۔

مجھے ذاتی طور پر ان کی تحقیقات سے استفادے کا موقع ملا۔ پاکستان، برطانیہ اور عالمِ عرب میں متعدد مرتبہ ملنے، گفتگو کرنے اور الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے میں اُن کی گراں قدر آرا سے بہت مدد ملی۔ ہمارے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات تھے۔ قطر کے سفر کے دوران انھوں نے اپنے گھر پر اہلِ خانہ کے ساتھ ایک عزیز بھائی کی طرح میرا اِکرام کیا۔ بڑی دیر تک اسلامی تحریکوں کے مسائل و مشکلات پر اپنی فکرمندی اور اُمید کے حوالے سے خیالات کااظہار کرتے رہے۔ جب بھی اُن سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی تو علم و فضل کا کوئی نہ کوئی پہلو نکھر کرسامنے آیا۔

جناب قرضاوی کی اجتہادی بصیرت، اس زمانے میں ایک بڑی گراں مایہ خوبی تھی۔ تاہم، ان کی بعض آرا سے ہمیں اختلاف بھی ہوا جو علم کی دُنیا میں ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن اس اختلاف رائے کے باوجود اُن کے اخلاص،علم و فضل اور اجتہادی شان میں کچھ فرق نہیں پڑتا، بلکہ اُن کے اُٹھائے ہوئے نکات پر مزید غوروفکر کرکے، روحِ عصر کو اسلام کے اصولوں، پیغام اور شریعت سے متعارف کرانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ نوجوان تحقیق کاروں پر لازم ہے کہ وہ سنجیدگی سے القرضاوی کے کارِ اجتہاد اور آثارِ اجتہاد پر باریک بینی سے کام کریں اور علم و فضل کا پرچم اس شان سے بلند کریں کہ اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!

مسلمان معاشرہ اور سودی نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ دونوں بیک وقت چل نہیں سکتے۔ ایک کا وجود دوسرے کی نفی ہے، ایک کا غلبہ دوسرے کے لیے موت کا پیغام ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ جن افراد اور جن معاشروں پر سودی نظام کا غلبہ ہو وہ حقیقی خوش حالی سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ وہ معاشرے ھل من مزید کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور انسان انسان کا غم خوار اور دم ساز ہونے کے بجائے ایک دوسرے کا خون چُوسنے اور حق مارنے میں مشغول رہتا ہے، جب کہ قرآن ایسے افراد اور معاشرے کی مثال اس شخص سے دیتا ہے جسے شیطان نے چھوکر مخبوط الحواس کردیا ہو:كَـمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۝۰ۭ (البقرہ ۲: ۲۷۵)، اور جن کے خلاف خود اللہ نے اپنے اور اپنے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا ہو:  فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۚ  (البقرہ ۲: ۲۷۹)، وہ فرد اور معاشرہ کیسے چین کی زندگی گزار سکتا ہے جو مسلسل اللہ اور اس کے رسولؐ سے برسرِ جنگ ہو؟

سود کی قباحت اور ہولناکی کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو اندازِ بیان اختیار فرمایا ہے، اس کے بعد کسی صاحب ِ ایمان کے لیے یہ گنجایش نہیں رہتی کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس قاتلِ ایمان و ضمیر و اخوت کو گوارا کرسکے:

  • رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی سود کا ایک درہم کھاتا ہے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ کماتا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جو گوشت مالِ حرام سے بناہو اس کے لیے آگ ہی زیادہ مستحق ہے (مسنداحمد،  طبرانی)۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے اُوپر دعوت دی (مستدرک حاکم)۔
  • اور یہ کہ جب کسی قوم کے باہمی لین دین میں سود کا رواج ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے، اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو ان پر دشمنوں کا رُعب و غلبہ حاوی ہوجاتا ہے (مسنداحمد)۔

اگر آج ہم بصیرت کی نظرخود اپنے اردگرد ڈالیں اور اپنے ملک کی حالت کو دیکھیں تو مخبرصادق کی پیش گوئی ہمیں سو فی صد درست نظر آتی ہے اور اہلِ ایمان کو توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دیتی ہے کہ صرف یہی نجات کی راہ ہے۔

انسدادِ سود کی کوششوں کا جائزہ

سود کے بارے میں پاکستانی قوم کے جذبات اور اس کی قیادتوں کے رویے میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ قائداعظمؒ نے پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح (جولائی ۱۹۴۸ء) کے موقع پر جو تقریر کی تھی، اس میں سود سے پاک مالیاتی نظام کو قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک ہرایک میں سودی نظام سے نجات کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل ۶۵-۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۹ء نے بار بار اس امر کا اظہار کیا کہ سود کو اس کی ہرشکل میں ختم کیا جائےاور متبادل نظام قائم کیا جائے لیکن برسرِاقتدار طبقوں نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے ۲۹ستمبر ۱۹۷۷ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو سود سے پاک نظام مرتب کرنے کا کام سونپا اور کونسل نے ۱۵ماہرین معاشیات و بنکاری کے تعاون سے نومبر ۱۹۷۸ء میں اپنی عبوری رپورٹ اور جون ۱۹۸۰ء میں مکمل رپورٹ پیش کی۔ انھی رپورٹوں کی روشنی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۰فروری ۱۹۷۹ء (۱۲ ربیع الاوّل) کو تین مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کا پہلا عملی اقدام کیا جس پر یکم جولائی ۱۹۷۹ء کو عمل ہوا۔ ۱۹۸۰ء سے دوسری اصلاحات کا آغاز کیا گیا جو لشتم پشتم ۱۹۸۴ء تک جاری رہیں۔

اس زمانے میں سودی نظام کے علَم بردار (ملکی اور غیرملکی دونوں) اور دوسرے مفاد پرست عناصر ان اصلاحات کا حلیہ بگاڑنے اور گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے اور بالآخر ۱۹۸۵ء سے عملاً ان تمام اقدامات کو غیرمؤثر کر دیا گیا جن کا آغاز ۱۹۷۹ء سے ہوا تھا۔ اس جوابی تحریک کو ۱۹۹۰ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے برسرِاقتدار آنے پر چیلنج کیا گیا اور شریعت کی بالادستی کے مطالبے نے زور پکڑا۔ تب وزیراعظم نوازشریف صاحب نے خودانحصاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی اور اس نے راقم کی سربراہی میں کام کیا تھا۔ اس نے اپریل ۱۹۹۱ء میں ایک رپورٹ پیش کی اور ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی تعلقات کو سود سے پاک کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی اور نقشۂ عمل پیش کیا۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے دس سال کی بے اختیاری کے بعد اختیارات بحال ہونے پر دسمبر ۱۹۹۱ء میں ایک تاریخی فیصلہ دیا جس کے تحت سود پر مبنی ۲۰قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا اور حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی کہ متبادل قانون سازی کرے، لیکن حکومت نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور دوسری طرف خودانحصاری رپورٹ کو طاق نسیاں کی نذر کر دیا۔

ہمارے ہاں یہ عجیب منطق ہے کہ پالیسی سازی اور متبادل راستوں کے لیے حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سارے ضابطوں کو معطل کرکے چند گھنٹے میں لائحہ عمل تجویز کرلیتی ہے۔ لیکن سود سے نجات ہی ایک ایسا معاملہ ہے جس میں حکومت یہ بہانے تراشتی ہے کہ اس کی اصل ذمہ داری حکومت کی نہیں بلکہ قوم کی ہے کہ وہ حکومت کو بنا بنایا کوئی متبادل نظام لا کر دے تاکہ وہ حرکت کے لائق ہوسکے!

دراصل بیماری کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ حکومت اور اختیار رکھنے والے سارے ادارے اس اہم معاملے پر اپنی ذمہ داری کو نہ صرف یہ کہ محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ بڑی چابک دستی سے ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ملک کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجوں کے بارے میں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائیں، وسائل حاصل کریں اور ضروری عملی اقدامات کریں، اسی طرح سود کے مسئلے کے بارے میں بھی اصل ذمہ داری اربابِ اقتدار ہی کی ہے اور اس بارے میں کسی راہِ فرار کی گنجایش نہیں۔

ہمیں عدالت کے اس فیصلے پر سخت حیرت ہوئی، جس میں ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کو یہ قرار دیا گیا کہ پانچ سال کی مدت میں سود کے خاتمے پر مبنی معیشت کھڑی کی جائے، یعنی فاضل جج یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ کام اس طرح کرنے جارہے ہیں جیسے کسی نئے کام کا آغاز کیا جارہا ہو اور سادہ کاغذ پر کسی نئی تحریر کا مرحلہ درپیش ہو۔ بلاشبہہ یہ کام بہت اہم ہے اور ہمہ پہلو بھی، لیکن یہ تاثر کہ کوئی متبادل موجود نہیں ہے اور اسلامی نظامِ معیشت کے قیام کا مطالبہ کسی خلا میں کیا جارہا ہے محض کم علمی ہے، یا صریح دھوکا دہی۔

آج بلاسود متبادل محض کوئی خیالی شے نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۷۰برسوں میں اس سلسلے میں اتنا کام ہوا ہے کہ اگر کوئی مخلص اور اہل قیادت نئے نظام کے قیام کا عزم اور ارادہ رکھتی ہو تو ایک دن کی تاخیر کیے بغیر مؤثر اقدام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ بلاشبہہ نیا نظام قائم کرنے میں وقت لگے گا اور تبدیلی کا عمل تدریج اور مناسب حکمت عملی ہی سے انجام دیا جائے گا مگر آج اصل رکاوٹ فکری کام کی کمی یا متبادل نقشۂ کار کی عدم موجودگی نہیں، قیادت میں ایمان اور سیاسی عزم و ارادے کی کمی ہے۔ ہم یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے (اللہ تعالیٰ ہمیں ہر تعصب اور جانب داری سے محفوظ رکھے)۔

راقم پچھلے ۶۰برسوں سے ذاتی طور پر ان کوششوں سے وابستہ رہا ہے جو اس سلسلے میں ہوئی ہیں اور اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بناپر یہ بات کہہ رہا ہوں، کہ اصل رکاوٹ کسی متبادل ماڈل کی کمی نہیں ہے۔ راستہ صاف ہے اور اب تو دوسروں کے عملی نقوش بھی موجود ہیں۔ اصل ضرورت منزل کے شعور اور چلنے کے ارادے اور ہمت کی ہے اور ہماری قیادتوں کا اصل مرض بھی یہی ہے کہ نہ فکرونظر کے اسلامی اسلوب کو انھوں نے شعوری طور پر اپنایا ہے اور نہ ان میں وہ جرأت اورعزم ہے جس کی بنا پر انسان دُنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر اپنےاصل اہداف کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف ذہنوں پر مغرب کے افکار کا غلبہ ہے تو دوسری طرف مفاد پرست عناصر اور عالمی ساہوکاری نظام کے کارپردازوں کا گھیرائو ہے جو ذہنوں کو مسموم کرنے اور کمزور ارادہ لوگوں کے قدموں کو متزلزل کرنے میں مصروف ہے اور ہمارے اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے:

ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے

ضرورت اس امر کی ہے کہ دماغ میں جو بُت خانے آباد ہیں ان کو توڑا جائے اور دل و نگاہ کی مسلمانی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

سود: ایک مغالطہ

ایک مغالطہ جو مختلف انداز میں بار بار دیا جاتا ہے وہ سود کے تصور کے بارے میں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے بھی سرکاری وکیلوں نے اس مسئلے کو اُٹھایا اور سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی اس میں بھی اس بات کو شامل کیا گیا، یعنی یہ کہ کیا بنک کا سود ربا کی تعریف میں آتا ہے؟

ہم اس بات کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں عرب دُنیا، برعظیم اور جنوب مشرقی ایشیا میں دورِ غلامی میں جو بحثیں اُٹھائی گئی تھیں آج وہ قصۂ پارینہ ہیں۔ الحمدللہ گذشتہ ۷۰برسوں میں اس موضوع پر ایسی سیرحاصل بحث ہوئی ہے کہ براہین قاطع کی بنیاد پر یہ بحث ایک اجماع پر منتج ہوچکی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرض کے مالی معاملات پر اصل سرمائے پر جو بھی متعین اضافہ پہلے سے طے ہو اور شرط معاہدے کا حصہ ہو وہ سود ہے، خواہ یہ قرض صرفی ضروریات کے لیے ہو، یا پیداواری مقصد کے لیے، فرد لے رہا ہو یا ادارہ، نجی ہو یا سرکاری، مہاجن ہو یا بنک اورانشورنس کمپنیوں کے ذریعے۔

اس پر پاکستان میں بھی اورعالمِ اسلام میں بھی مکمل اتفاق رائے ہے اورعلما اور ماہرین معاشیات دونوں اس پر متفق ہیں۔ اس لیے اس بحث کو اَزسرنو شروع کرنا علم اور خلوص پر مبنی نہیں بلکہ مسئلے کو اُلجھانے، تعویق میں ڈالنے یا دھوکا دینے کے مترادف ہے اور انسان اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا: يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ  (البقر ہ ۲:۹) ’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کےساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اِس کا شعور نہیں ہے‘‘۔

’اسلامی مشاورتی کونسل‘ نے اپنے ۳دسمبر ۱۹۶۹ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ:

اسلامی مشاورتی کونسل اس امر پر متفق ہے کہ ربا اپنی ہرصورت میں حرام ہے اور شرحِ سود کی بیشی اور کمی سود کی حُرمت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ افراد اور اداروں کے لین دین کی مندرجہ ذیل صورتوں پر مکمل غوروفکر کرنے کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ:

(الف) موجودہ بنکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان کاروباری لین دین اور قرضہ جات میں اصل رقم پر جو بڑھوتری لی یادی جاتی ہے وہ داخل ربا ہے۔

(ب) خزانے کی طرف سے مقداری مدت کے قرضے پر جو چھوٹ دی جاتی ہے وہ بھی  داخلِ ربا ہے۔

(ج) سیونگ سرٹیفکیٹ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ ربا میں شامل ہے۔

(د) انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے ، وہ ربا میں شامل ہے۔

(ھ) پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے۔

(و) صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے جانے والے قرضوں پر بڑھوتری ربا میں شامل ہے۔ (Report on Consolidated Recommendations

on the "Islamic Economic System" Council of Islamic Ideology,

1983, pp 9-10)

بالکل یہی وہ پوزیشن ہے، جو اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے ماہرین معاشیات اور بنکاروں نے اپنی آخری رپورٹ میں اختیار کی ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر کی صدارت میں بنکاروں کی جس کمیٹی نےکام کیا اور ۱۹۸۰ء میں اپنی رپورٹ دی اس نے بھی یہی پوزیشن اختیار کی ہے۔ اس طرح ملک کے علما اور معاشی ماہرین اور بنکار اس پر متفق ہیں۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے اپنے دسمبر ۱۹۹۱ء کے تاریخی فیصلے میں اس پوزیشن پر مہرتصدیق ثبت کی جو حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔

یہی پوزیشن عالمی اداروں کی ہے۔ بھارت کے ’مجمع الفقہ الاسلامی‘ نے وہاں کے چوٹی کے علما کے سیمی نار میں جس آخری متفقہ رائے کا اظہار کیا، وہ یہ ہے:

سود خواہ ذاتی مصارف کے قرضوں پر لیا جائے یا تجارتی و کاروباری قرضوں پر، شریعت اسلامیہ کی نظر میں بہرحال حرام ہے۔ قرآن و سنت، اجماع و قیاس اور اُمت محمدیہ کا عملِ متوارث سب یہی بتاتے ہیں کہ حُرمت ربا کے بارے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ قرض لینے کا مقصد اور محرک کیا ہے؟ سود کی حُرمت پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا کہ شرح سود کم ہے یا زیادہ، مناسب حد تک کم ہے یا نامناسب حد تک زیادہ۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں صورتیں بہرحال حرام ہیں۔ (سہ ماہی بحث و نظر، پھلواری شریف، پٹنہ، شمارہ ۸جنوری تا مارچ ۱۹۹۰ء، ص ۱۳)

سرکاری سطح پر وزرائے خارجہ کی تنظیم کی قائم کردہ ’اسلامی فقہ اکیڈمی‘ نے بھی اس مسئلے پر دسمبر ۱۹۸۵ء میں غور کیا اور وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچی۔ فقہ اکیڈمی کی قرارداد نمبر۳ میں طے کیا گیا کہ بنکوں اور نظام بنکاری میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کے بارے میں:

            ۱-         ان تمام قرضوں پر، جنھیں ایک مدت کے بعد ادا کیا جاتاہے، کوئی اضافہ (خواہ اس کا نام نفع ہی کیوں نہ ہو) اگر قرض دار اسے وقت پر ادا نہ کرسکے، یا کسی بھی قرض پر اضافہ یا نفع جسے قرض دینے کے وقت معاہدے کے حصے کے طور پر رکھا گیا ہو، دونوں ربا کی تعریف میں آتے ہیں اور شریعت میں حرام ہیں۔

            ۲-         (سود کے بغیر) متبادل بنیادوں پر بنک قائم ہونے چاہییں، جو اسلامی احکام کے مطابق کام کریں اور معاشی سہولتیں فراہم کریں۔

            ۳-         اکیڈمی تمام مسلم ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کام کرنے والے بنک قائم کریں تاکہ مسلمانوں کی تمام ضروریات ان کے ایمان کے مطابق پوری کی جاسکیں اور ان کے عمل اور دین میں عدم مطابقت نہ رہے۔

یہی وجہ ہے کہ خود آئی ایم ایف کے سرکاری کاغذات میں مسلمان اُمت کی جو پوزیشن اس مسئلے کے بارے میں بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے:’’مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری نظام کے مطالعے کا آغاز اس کی بنیادی اصطلاحات کی تعریف سے کیا جائے۔ ’ربا‘ ایک شرعی اصطلاح ہے جو زر کے استعمال پر پہلے سے طے شدہ اضافے سے عبارت ہے۔ ماضی میں اس امر پر نزاع ملتا ہے کہ ’ربا‘ سے مراد سود ہے یا یوژوری (Usury)، لیکن اب مسلمان اہلِ علم کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق سود کی ہرشکل پر ہوتا ہے اور اس کا مصداق محض مناسب سے زیادہ سود (excessive interest) نہیں۔ پس آگے کے مباحث میں ’ربا‘ اور ’سود‘ بطور مترادف استعمال کیے جائیں گے اور اسلامی نظام بنکاری کے معنی وہ نظام ہوگا جس میں سود کی ادائیگی یا وصولی ممنوع ہوگی، جب کہ ایک سودی یا روایتی بنک سے مراد وہ ادارہ ہوگا جس میں مالی فنڈ کے استعمال پر سود وصول کیا جاتا ہے، یا دیا جاتا ہے‘‘۔ (International Monetary Fund

Staff Papers, Vol xxxiii, No.1, March 1986, Islamic Interest-free Banking,

a Theoretical Analysis by Mohsin S. Khan, p 4-5(

ان علمی مباحث کا بے لاگ جائزہ اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ سود کے بارے میں جو سوالات اور شبہات اُٹھائے جاتے ہیں وہ غیرحقیقی ہیں اور قرآن و سنت نے سود کو اس کی ہرشکل میں حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ قدیم ساہوکاری کی شکل میں ہو یا جدید بنکاری کی، ضرورت مندوں کے صرفی قرضوں سے متعلق ہو یا تجارتی اور پیداآوری قرضوں سے، نجی دائرے میں ہو یا سرکاری، نیم سرکاری دائرے میں ، کم شرح پر ہو یا زیادہ شرح پر۔ یہ اتفاق رائے اُمت کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اور اب گڑے مُردے اُکھاڑنے کے بجائے سیدھے سبھائو ساری کوششیں اس امرپر مرکوز کرنی چاہییں کہ سود سے کیسے نجات پائی جائے اور متبادل نظام کے خدوخال کیا ہیں؟

اسلامی بنکاری کی طرف پیش رفت

علمی اور نظری میدان میں اس کامیابی کے ساتھ دوسری بڑی کامیابی جو پچھلے ۵۰ سال میں حاصل ہوئی ہے وہ بلاسود بنکاری کے اصول و ضوابط، نظامِ کار، مالیاتی آلات (Financial Instruments) اور سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں کی تجویز و تسوید ہے۔ اس سلسلے میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیقات کی گئی ہیں اور بڑی دِقّت نظر سے متبادل نظام کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں تو ۱۹۳۰ء اور ۴۰ کے عشروں میں ہوئی تھیں اور اس میں سب سے زیادہ راہ کشا کام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور باقرالصدر شہید نے کیا تھا۔ پھر جدید معاشیات کے ماہرین میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد عزیر، ڈاکٹر محمود ابوسعود نے ابتدائی کام کیا، جسے گذشتہ ۵۰برسوں میں محققین کی ایک ٹیم نے سنوارنے اور مزید آگے بڑھانے میں قابلِ قدر حصہ لیاہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمدنجار، ڈاکٹر ساحی محمود، ڈاکٹر عمرچھاپرا، ڈاکٹر صدیق ضریر، ڈاکٹر معبد جرحی،  ڈاکٹر ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر محمد انور، ڈاکٹر محمد فہیم خان، ڈاکٹر محمد عارف اور درجنوں اہلِ علم نے بڑی مفید خدمات انجام دیں۔ کم از کم چار درجن ایسی تحقیقی کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن میں نئے نظام کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے مصنّفین کو ’اسلامی ترقیاتی بنک کا ایوارڈ‘ اور ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ، جو معاشیات اور بنکاری کے ماہرین کی رپورٹ پر مبنی ہے، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں جو ۱۹۸۰ء میں پیش کی گئی تھی، پاکستان ہی نہیں کسی بھی جدید ملک کی داخلی معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا بڑا حقیقت پسندانہ ’نقشۂ کار‘ پیش کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے گورنر کی صدارت میں مرکزی بنک کی ایک کمیٹی نے بھی اسی موضوع پر ۱۹۸۱ء میں کام کیا اور اس کا دیا ہوا نقشہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے نقشے سے بہت قریب ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر مارچ ۱۹۸۱ء ہی میں ایک عالمی سیمی نار میں بحث ہوئی اور اس کی سفارشات کی بحیثیت مجموعی توثیق کی گئی، نیز مزید کچھ سفارشات کی گئیں جو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کی طرف سے Money and Banking in Islam کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس نے ایک ورکشاپ اس موضوع پر منعقد کی کہ سرکاری لین دین سے سود کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس ورکشاپ کی رپورٹ (Report of the Workshop on Elimination of Interest on Govt. Transactions) شائع ہوچکی ہے۔

اس کے بعد جون ۱۹۹۲ء میں ’کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی‘ نے اپنی عبوری رپورٹ بنکاری کو سود سے پاک کرنے کے بارے میں دی جسے ابھی تک شائع نہیں کیا گیا بلکہ قانون کے مطابق سینیٹ اور اسمبلی تک میں پیش نہیں کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ایک سیمی نار معیشت سے سود کو ختم کرنے کے بارے میں منعقد کیا، جس میں معاشیات اور بنکاری کے تقریباً ایک سو ماہرین نے شرکت کی۔ اس کی رُوداد کے بھی متعدد ایڈیشن ۱۹۹۴ء کے بعد Elimination of Riba from the Economy کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔

یہ سارا کام پاکستان کے حالات کی روشنی میں متبادل نظام کا ایک واضح خاکہ پیش کرتا ہے اور ہرشعبے کے لیے متبادل تجویز کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کے بارے میں بھی کام ہوا ہے۔ اس کے لیے مندرجہ بالا رپورٹ اور خودانحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں واضح رہنمائی موجود ہے، بلکہ ’خودانحصاری کمیٹی‘ کی رپورٹ میں تو ایک طرف اس قانون کا خاکہ موجود ہے جو اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار ہے اور دوسری طرف باقاعدہ  Econometric Model کی مدد سے تین سال میں معیشت سے سود کو ختم کرنے کا پورا پروگرام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ متبادل نظام کا مطالبہ کرنے والے نہ ان چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر ان کے ذہنوں میں ان پیش کردہ خطوط کے بارے میں کوئی اعتراضات اور خدشات ہیں تو ان پر گفتگو نہیں کرتے جس سے ان کی عدم توجہی اور غیرسنجیدگی کا پتا چلتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس تمام کام میں جو سفارشات کی گئی ہیں وہ ان کے ذوق یا خواہش کے مطابق نہیں ہیں،  اس لیے وہ ان باتوں کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں اور رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ متبادل کہاں ہے؟

ہم نے اُوپر صرف اس کام کی طرف اشارہ کیا ہے جو پاکستان میں ہوا ہے، باقی مسلم ممالک میں بھی خصوصیت سے عرب دُنیا، ملایشیا، ترکیہ اور خود مغرب کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں جو کام اس وقت ان موضوعات پر ہوچکا ہے اور جسے مغرب کی جامعات نے بھی اعلیٰ تحقیقاتی کام شمار کیا ہے، اس کی فہرست اور تعارف ایک الگ مقالے کا محتاج ہے۔

بات صرف علمی کام اور نظری طور پر متبادل نظام کی نقشہ گری تک محدود نہیں ہے، الحمدللہ، پچھلے ۶۰برسوں میں بلاسود بنکاری محض ایک نظریہ نہیں رہی ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ ابھی بہت سا کام کرنا ہے اور بڑے مراحل طے کرنا ہیں، مگرجو کچھ حاصل کیا جاچکا ہے وہ اسلامی اصول بنکاری کا لوہا منوانے کے لیے کافی ہے۔ بالکل نچلی اور عوامی سطح پر تو بلاسودی انداز میں بچتوں کو جمع کرنے اور وسائل کی فراہمی کا کام ہمیشہ سے ہوتارہا ہے، انفرادی سطح ہی پر نہیں اداروں کی سطح پر بھی ہوتا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب نے حیدرآباد دکن میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کے تجربات پر تحقیقی کام کیا تھا اور دکھایا تھا کہ کس طرح کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری اس نظام کے ذریعے ہورہی تھی۔

پچھلے ۶۰برسوں میں جو تجربات ہوئے ہیں، ذیل میں ان کی چند مثالیں پیش کرتے ہوئے، ہمیں یہ دعویٰ نہیں کہ یہ بنک ہراعتبار سے معیاری اسلامی اپروچ پر استوارہیں، لیکن یہ بات بھی ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود ان بنکوں نے دُنیا کے سامنے یہ مثال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ بلاسودی بنکاری ممکن ہے۔ ان مثالوں میں چند کا تذکرہ یہ ہے:

lمصر کا ’مت غمر بنک‘ (Mit Ghamr Bank)  ہے، جو ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۷ء تک شرعی اصولوں کے تحت اسلامی بنکاری کے ابتدائی تجربے کے طور پر کام کرتا رہا۔ دراصل صدرناصر نے سیاسی خطرات محسوس کرتے ہوئے اسے بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد ’ناصر سوشل بنک‘ (۱۹۷۱ء) کی شکل میں اس پروگرام کو نیا رُوپ دیا گیا۔ یہ ادارے نہایت کامیابی سے دس بارہ سال چلتے رہے جس پر مغرب کے محققین نے تحقیق کی اور انھیں کامیاب ابتدائی تجربات قرار دیا۔ (ملاحظہ ہو: T. Wholus Seharf: Arab of Islamic Banks: New Business Partners for  Developing Countries، مطبوعہ پیرس، OECD،  ۱۹۸۳ء)

  • اسی طرح ملایشیا میں ۱۹۶۳ء میں حاجیوں کے لیے بنک سیونگ کارپوریشن قائم ہوئی، جسے ۱۹۶۹ء میں تبوک حاجی (Tabuk Haji) کے نام سے باقاعدہ ایک بنکاری کا ادارہ بنا دیا گیا، جس میں دس لاکھ کھاتہ داروں نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ لگایا ہے۔ اس کے تحت پانچ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور نہایت کامیابی سے بنکاری اور حج کے انتظامات کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
  • ۱۹۷۵ء میں پہلاباقاعدہ تجارتی بنک Dubai Islamic Bank کے نام سے دوبئی میں قائم ہوا۔ اسی سال ۲۸ اسلامی ملکوں کے تعاون سے جدہ کا Islamic Development Bank قائم ہوا، جس کے اب ۵۰ مسلم ممالک ممبر ہیں۔ ان باب کشا بنکوں کے بعد گذشتہ بیس سال میں سو سے زیادہ بلاسودی بنک قائم ہوئے۔ دو بڑے مالیاتی گروپ DMI اور Al-Baraka متعدد ملکوں میں بلاسود بنکاری کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
  • اخوت فائونڈیشن پاکستان نے بالکل عام آدمی کی سطح پر لاکھوں افراد کو بلاسود قرضے فراہم کیے ہیں اور یہ تجربہ چھوٹے درجے کی سرمایہ کاری (Micro-financing) کی تاریخ میں ایک کامیاب ترین تجربہ ہے، جس میں قرض کی واپسی کی شرح ۹۵ فی صد سے زیادہ ہے۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک بنکس کے سیکرٹری جنرل کی ایک رپورٹ (نومبر ۱۹۹۶ء، The Present State of Islamic Banks) کے مطابق اس وقت خلیجی کونسل کے ممالک میں ۱۷، بقیہ مشرق وسطیٰ میں ۲۲، افریقا میں ۳۰، جنوبی ایشیا میں ۴۷ اور یورپ اور امریکا میں چار بلاسودی بنک یا مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان بنکوں کا کُل سرمایہ ۶ بلین ڈالر ہے، ان میں موجود امانات (deposits)  ۷۷ بلین ڈالر اور ان کے کُل اثاثے (assets ) ۱۶۶بلین ڈالر ہیں۔ سرمائے کی تقسیم کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کے بنکوں کا حصہ ۵۵ فی صد، خلیجی کونسل کے ممالک کا حصہ ۲۳ فی صد اور جنوب ایشیا کا ۱۵ فی صد ہے۔ ان بنکوں کی کُل شاخیں اس وقت ۲۱ہزار ہیں اور ان میں دو لاکھ ۷۱ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے operations کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے وسائل کا ۳۰ فی صد اندرونی تجارت، ۱۹ فی صد صنعت، ۱۳فی صد سروس سیکٹر، ۱۲ فی صد اراضی اور املاک، اور ۸ء۵ فی صد زراعت کی مالی ضروریات پورا کرنے پر صرف ہورہا ہے۔

ایوان ٹریور (Evan Traver) نے ۱۵مارچ ۲۰۲۲ء کو لکھا: ’’اس وقت ۵۲۰ بنک اور ۱۷ہزار میوچل فنڈز، اسلامی معاشی اصولوں کے تحت کسی نہ کسی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۹ء کےدرمیان ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر ان کا حجم ۲ء۸ ٹریلین ہوگیا۔ اور اندازہ ہے کہ ۲۰۲۴ء میں یہ ۳ء۷ ٹریلین تک پہنچ جائیں گے‘‘۔ (Investopedia)

کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان تجربات کی موجودگی میں ہمارے اربابِ سیاست متبادل نقشہ طلب کر رہے ہیں۔

انسدادِ سود کا لائحہ عمل اور حکومتی روش

تینوں اہم میدان:

  • سود کی حقیقت اور تصور کی وضاحت
  • نظری طور پر بلاسود بنکاری اور مالیاتی نظام کے نقشۂ کار کی صورت گری اور
  • کمرشل اور انوسٹمنٹ بنکاری کے میدان میں عملاً بلاسودی اداروں کا قیام اور ان میں کچھ کی چالیس برس پر پھیلی ہوئی کوششوں میں جو کچھ حا صل کیا گیا ہے اس کے ایک سرسری جائزے کے بعد ضروی معلوم ہوتا ہے کہ ہم تعین کے ساتھ یہ بھی بتائیں کہ پاکستان میں یہ تجربہ کیوں کامیاب نہ ہوسکا اور گاڑی کس طرح پٹڑی سے اُتری؟

تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن مختصراً سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو حکمت عملی ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور دوسرے اسلامی معاشیات کےماہرین نے پیش کی تھی، اس پر پہلے قدم (فروری ۱۹۷۹ء) کے بعد کوئی حقیقی پیش رفت نہ ہوسکی۔ ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور ہم سب کی تجویز یہ تھی کہ ایک متعین تدریج کے ساتھ بنکاری ہی نہیں، پوری معیشت کو سود سے پاک کیا جائے۔ سب سے پہلے ان اداروں سے آغاز ہو جن کے نظام کوفوراً تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ (NIT)، آئی سی پی کا میوچل فنڈ اور ’ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ (HBFC) کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے صنعت کے لیے Banker's Equityکے قیام کا منصوبہ دیا اور زرعی بنک، سمال انڈسٹریز کارپوریشن، کوآپریٹوز اور ان اداروں کو پابند کیا کہ چھوٹے کاشتکار، چھوٹے تاجر اور چھوٹی صنعت کو سرمایہ فراہم کریں، تاکہ بنیادی سطح (grass-root ) پر  عام آدمی کو سب سے پہلے بلاسود سرمایہ کاری کی سہولت میسر ہوسکے، جس سے روزگار کے مواقع بھی عام آدمی کو میسر آسکیں گے اور غربت وافلاس کو دُور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

دوسرے مرحلے پر جسے ایک سال کے اندر شروع کرنے کا ہم نے منصوبہ پیش کیا تھا، اس میں سرکاری شعبے سےسود کو ختم کرنے کا لائحہ عمل دیا تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہماری رائے میں اصل ساہوکار مرکزی حکومت اور ایک حد تک صوبائی حکومتیں بن گئی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے جس سیکٹر کو سود سے پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ یہی سرکاری سیکٹر ہے۔ یہی بات اسلامی نظریاتی کونسل نے کہی تھی اور یہی موقف خودانحصاری کمیٹی کا تھا۔ لیکن اس سیکٹر کو نہ صرف یہ کہ اس پورے زمانے میں ہاتھ تک نہیں لگایا گیا بلکہ اس میں سودی کاروبار گذشتہ ۱۵سال میں دگنا اور تین گنا ہوگیا ہے۔

ہماری تجویز تھی کہ پہلے تجارتی بنکوں کی اصلاح ہو اور اس میں اصل توجہ اثاثہ جات (Bank Assets) کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے کی ہو، تاکہ سرمائے کے استعمال کی راہیں کھلیں اور سود سے پاک ہوکر کھلیں، جب کہ ڈیپازٹس کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا نسبتاً آسان تھا۔ حکومت نے ترتیب اُلٹ دی اور ساری توجہ ڈیپازٹس کے نظام کو بدلنے پر صرف کی اور اثاثہ جات کی اصلاح اور اس کے لیے جس قانونی ڈھانچے کی ضرورت تھی وہ نہ بنایا۔

ہماری تجویز تھی کہ کمپنی لا، ٹیکس کے نظام، کارپوریٹ لا اتھارٹی،اسٹاک ایکسچینج ان سب کو اس طرح تبدیل کیا جائے کہ نیا معاشی انفراسٹرکچر وجود میں آسکے۔ اس کے ساتھ ہی قانونی طور پر سود کو ختم کیا جائے۔ تمام تحفظات اور محرکات جو سود کو حاصل ہیں وہ نفع و نقصان پر مبنی سرمایہ کاری کو دیئے جائیں۔ بنک اور مالیاتی اداروں کے عاملین کی تربیت کے لیے مناسب ادارے قائم کیے جائیں اور مؤثر انتظامات کیے جائیں۔ نیز عوام کی تعلیم کا انتظام ہو، تاکہ حلال و حرام سے واقفیت ہو اور نئے نظام کے لیے عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔اسی طرح وطن عزیز میں اسلامی بنکاری کے عنوان سے جو اور جتنی پیش رفت ہورہی ہے، اس کو شریعت کی روشنی میں پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ اس کے اطلاقی پہلو کو شریعت کی بنیاد پر پختگی سے استوار کیا جائے، نہ کہ رسمی طور پر تذکرہ کیا جائے۔

اسٹیٹ بنک کو اس پورے کام میں ایک مرکزی کردارادا کرنا تھا لیکن حکومت نے ان میں سے کوئی اقدام نہ کیا۔ اصل اسکیم کو گڈمڈ کرکے تجارتی بنکوں میں PLS اکائونٹ کھولے اور مارک اَپ کے نام پر سود کو نئی زندگی عطا کردی۔ نیز حکومت پاکستان خود اس زمانے میں مسلسل سودی بانڈ اور سرٹیفکیٹ جاری کرتی رہی، ملک میں بھی اور زرمبادلہ کے لیے بھی، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، حتیٰ کہ ۱۹۹۷ء میں ’’قرض اُتارو، ملک سنوارو‘‘ اسکیم کے تحت حکومت نے جو قرضے حاصل کیے، ان کا ۹۰ فی صد بھی سودی بنیاد ہی پر تھا۔

اصل رکاوٹ ___ عزم کی کمی

یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل رکاوٹ اربابِ اقتدار کے فکرونظر کا بگاڑ اور ارادہ و عزم کی کمی ہے اور جب تک یہ درست نہ ہوں محض تجاویز اور متبادل صورتوں کے انبار لگانے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ سرکاری رپورٹوں، کمیشنوں اور کمیٹیوں کا تو یہ حال ہے کہ رپورٹیں موجود ہیں  جن پر کوئی عمل نہیں ہوتا اور نئی کمیٹیاں قائم کر دی جاتی ہیں، اور اس بڑھیا کی طرح اپنی محنت ضائع کی جاتی ہے جو سوت کاتتی ہے اور پھراسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے: وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْكَاثًا۝۰ۭ (النحل ۱۶:۹۲)۔ بلاشبہہ تحقیقی کام کی بھی ضروت ہے اور عوام کی تعلیم و تربیت کی بھی، مردانِ کار کی ٹریننگ کا بھی انتظام ہونا چاہیے لیکن سب سے پہلے دل و نگاہ کی اصلاح اور مؤثر سیاسی عزم (Political Will) کی ضرورت ہے جن کے بغیر کوئی منزل سر نہیں کی جاسکتی۔

صرف عبرت کے لیے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے جو متبادل کا گلا کرتے ہیں اور حقائق سے صرفِ نظر، ایک اقتباس ورلڈ بنک کے ایک برادر ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی رپورٹ سے دے دوں جو میں نے خود انحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں بھی دیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک اسٹیج پر یہ عالمی مالیاتی ادارے اس امر پر غور کر رہے تھے کہ اگر پاکستان سود کو ختم کر دیتا ہے اور حقیقی اسلامی بنکاری اور سرمایہ کاری سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں، تو پھر وہ کس طرح اپنے معاملات کو اس سے ہم آہنگ کریں؟ لیکن داد دیں ہماری قیادت کو کہ اس نے ان کو یقین دلا دیا کہ اسلام کی باتیں صرف دل بہلانے کے لیے ہیں، عمل کے لیے نہیں، اس لیے ان کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو IFC کی رپورٹ نمبر IFC/P-587، مؤرخہ دسمبر ۱۹۸۷ء:

A change to Islamic modes of financing has been considered by IFC but this would be contrary to the Government (of Pakistan) intentions for foreign loans. Adoption by a foreign lender of Islamic instruments could be construed as undermining Governments policy to exempt foreign lender from this requisit.

انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے اسلامی سرمایہ کاری کے طریقوں کو اپنانے کے بارے میں غور کیا، لیکن یہ بیرونی قرضوں کے بارے میں حکومت (پاکستان) کے منشا کے خلاف ہوتا۔ اگر بیرونی قرضہ دینے والے اسلامی طریقے اور ذرائع اختیار کرتے ہیں تو اسے اس سرکاری پالیسی کو غتربود کرنے کی کوشش سمجھا جائے جس کے تحت بیرونی قرض دینے والوں کو ان (اسلامی) مطالبات سے مستثنیٰ رکھا جارہا ہے۔

اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے بورڈ آف گورنرز تو پاکستان کے دستور کی اسلامی دفعات خصوصیت سے، وفاقی شرعی عدالت سے، سود کے بارے میں اختیارات کی تحدید کے ختم ہونے کے امکان کی روشنی میں اپنے رویے میں تبدیلی کے لیے فکرمند ہے، مگر ہمارے سرکاری حکام ان کو تسلی دیتے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں، ہم دستور کو بھی بدل دیں گے:

We have been advised by senior Government officials that steps will be taken to rectify this situation in all probability.

ہمیں سینیرسرکاری افسروں کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ پورا امکان ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا ذہن اور کردار۔ ہمیں ہوّا دکھایا جاتا ہے کہ بیرونی مالیاتی ادارے ہمارا حقّہ پانی بند کردیں گے اور ملک تباہ ہوجائے گا اور اگر وہ اسلامی بنکاری کے اصولوں کو اختیار کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو روک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دستور میں بھی ترمیم کرڈالی جائے گی مگر سود کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دیں گے، وہ شیرمادر کی طرح حلال اور رواں رہے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ  اللہِ  وَرَسُوْلِہٖ ، اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو اور اس جنگ کے نتیجے میں صرف یہی تباہ نہیں ہورہے، پورا ملک اور پوری قوم عذاب میں مبتلا ہے۔

ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ پہلے خلوصِ دل سےاللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اس جنگ کو بند کرنے کااعلان کرو۔ سیزفائر کے بغیر کسی اور اقدام کا کیا سوال؟ ایک محفوظ اور مستقل راستہ تو دستور میں ترمیم ہے، مگر دستوری ترمیم تو نہ کی جاسکی، البتہ اس کے بالکل اُلٹ وفاقی شرعی عدالت کےفیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی گئی۔ طویل عرصے بعد وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ سنایا تو پھردوبارہ بنکوں کی جانب سے اپیل کرا دی گئی۔

یہ ایک بڑا ہی سفاکانہ کھیل ہے، جسے حکمران اور دولت مند طبقے کھیل رہے ہیں۔ انھیں آخرت کی جواب دہی کا خیال کرنا چاہیے اور ہم وطنوں پر معاشی ظلم و ستم کی حکمرانی کو ترک کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ غلطی اورفروگزاشت کو معاف کرنے میں بڑا غفور و رحیم ہے لیکن بغاوت اور سرکشی کے باب میں اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہے: اِنَّ  بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ۝۱۲ۭ  (البروج ۸۵:۱۲)۔ آیئے، بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں، پھر ہرمشکل آسان ہوجائے گی اورہربند دروازہ کھل جائے گا۔

مولانا سیّد جلال الدین انصر عمری، اللہ کی عطا کردہ زندگی گزار کر، خالق و مالک کے حکم پر ۲۶؍اگست ۲۰۲۲ء کو، ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ وہ صرف ہندستان کے مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ کا سرمایہ تھے۔ان کا انتقال ہم سب کے لیے ایک گہرا زخم اور بڑا سانحہ ہے۔ موت برحق ہے، سب کو جانا ہے۔ یہاں پر کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہا۔ لیکن کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں، جن کی زندگی دوسروں کے لیے روشنی کا منبع ہوتی ہے۔ ایسے قیمتی افراد کے جانے سے ایک ایسا بڑاخلا پیدا ہوجاتا ہے، جس کے بھرنے میں بڑا وقت لگتا ہے۔ مولانا جلال الدین عمری صاحب کا شمار انھی قیمتی افراد میں سے ہے___  اِنَّـا لِلہِ   وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مجھے ان سے بالمشافہہ ملنے کا موقع تو دوبار ہی ملا، لیکن ان سے بنیادی تعارف ان کی کتابوں اور ان کے مضامین سے تھا، جن سے مَیں بے حد متاثر تھا۔ فکر کی گہرائی، مطالعے کی وسعت، زبان و بیان کا حُسن، دلیل کی قوت، سبھی خصوصیات ان کی تحریر کا حصہ تھیں۔ ہزاروں افراد نے مجھ سمیت ان کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ اس طرح وہ میرے محسنوں میں شامل ہیں۔

مولانا جب انگلستان آئے تو کمالِ عنایت سے اسلامک فائونڈیشن میں بھی تشریف لائے۔ یہاں ان کے ساتھ کئی گھنٹے ملاقات رہی۔ دینی، تحریکی، قومی اور عالمی اُمور پر بہت کھل کر بات چیت ہوئی۔ امرواقعہ ہے کہ ان کے پُراعتماد لہجے نے ہندستان کے مسلمانوں کے بارے اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں عزم و اُمید کے چراغ روشن کیے۔ پھر جب پاکستان تشریف لائے تو اسلام آباد میں ہم نے ان کے اعزاز میں محفل منعقد کی، جہاں انھوں نے بڑی ایمان افروز تقریر فرمائی۔

مولانا عمری صاحب سے اپنے ربط و تعلق کے زمانے پر نظر دوڑائوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ماہ نامہ زندگی ، رام پور پھر زندگی نو، نئی دہلی اور اس کے ساتھ تحقیقات اسلامی  ،علی گڑھ میں اُن کے فکرانگیز مضامین ہمیشہ توجہ کھینچ لیتے تھے، اور قلب و نظر کو علم سے منور کرتے تھے۔اُن کی کتب خاص طور پر عورت اسلامی معاشرے میں، معروف و منکر، اسلام میں خدمت خلق کا تصور، مزدوروں کے حقوق ، غیرمسلموں سےتعلقات اور ان کے حقوق بہت عام ہوئیں۔ بلاشبہہ اصولِ دین، عقیدے، قرآنی تجزیات، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام کی جامع تعلیمات، تحریکی اُمور اور عہدحاضر کی زندگی کے پیدا شدہ مسائل پر انھوں نے اجتہادی بصیرت کے ساتھ کلام کیا۔ اگرچہ ان کا میدان علمِ معاشیات نہیں تھا، مگر اسلامی تعلیمات کے اطلاقی معاشی پہلو پر انھوں نے متعدد تحریروں کے ذریعے انسان کے معاشی مسئلوں کو حل کرنے کے لیے رہنمائی دی، خصوصیت سے مزدوروں کے مسائل۔ سیاسی و تہذیبی موضوعات، دعوتِ دین کے عملی اور اطلاقی حوالے ، کثیر مذہبی معاشرت میں زندگی کے چیلنج، غرض کون سا موضوع ہے جس پر انھوں نے قلم نہیں اُٹھایا، اور جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کردیا۔ کمال یہ کہ وہ جو بات کرتے، دلیل سے کرتے تھے اور بڑے شگفتہ انداز میں۔

مولانا عمری صاحب جہاں قرآن کے مفاہیم سے گہرا ربط رکھتے تھے، وہیںوہ سیرتِ پاکؐ سے اُمڈتی روشنی سے بھرپور فیض پاتے تھے۔ حدیث نبویؐ سے متعلقہ اُمور میں احتیاط غالب تھی، تو دوسری طرف فقہی بصیرت ایمان افروز تھی۔ ایک طرف اسلامی فکری اور تہذیبی روایت سے وابستگی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی تو دوسری جانب اس فکر اور تفکر کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی خداداد صلاحیت اور گہرا ذوق و شوق بھی الحمدللہ فراواں تھا۔ انھوں نے نئے موضوعات پر لکھا اور اپنے رفقا سے لکھوایا بھی۔ وہ جن موضوعات پر لکھ رہے تھے، مگر مباحث ادھورے رہ گئے، انھیں مکمل کرنا نوجوان فاضلین کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں قائدانہ ، تبلیغی، دعوتی اور مکالماتی صلاحیتوں سے بھی فیاضی سے نوازا تھا، جنھیں انھوں نے بڑی محنت سے استعمال کیا۔جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمہ داری بہ حُسن و خوبی انجام دی۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میںرکھے اور ان کے صدقاتِ جاریہ کا فیض مدتوں جاری و ساری رکھے، آمین!