دُنیائے اسلام کے اہل فکر میں اس وقت یہ عام احساس پایا جاتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے شدید ترین دورِ اضطراب سے دوچار ہیں۔ گذشتہ صدی کے دوسرے نصف میں، پرانے مغربی نوآبادیاتی نظام کے شکنجے سے نکل کر ایک طرف مسلم ممالک آزادی سے ہم کنار ہوئے اور ان ملکوں کو ملنے والی آزادی اپنے دامن میں تعمیرِنو (Reconstruction)کے مسائل کا ایک ہجوم لے کر سامنے آن کھڑی ہوئی۔ دوسری طرف مغرب کا ذہنی، فکری، معاشی، فوجی اور ثقافتی غلبہ اپنی انتہا کو پہنچا۔ نوجوانوں کے ذہن شک و تردّد کی آماج گاہ بنے۔سیاسی قیادت کی مداہنت پسندی، مغربیت زدہ تعلیم کی خود سپردگی، نئی نسلوں کو ملّی روایات اور اسلامی تہذیبی ورثے سے کاٹ کر، ہمارے معاشرے کی بیخ کنی کرنے پر پوری قوت سے تُل گئی۔ اس سب کے نتیجے میں رائج الوقت فلسفۂ حیات کے حملوں نے ذہنی اطمینان اور قلبی سکون کو پامال کرکے رکھ دیا ہے اور قوم کے ذہین و فعّال طبقے عقیدہ و عمل، دونوں کے اعتبار سے نیم مسلمان، بلکہ بعض حالات میں نامسلمان بنتے چلے گئے۔
بڑے دُکھ کی بات ہے کہ آج مسلم اُمت کی حالت اس جہاز کی سی ہے، جس کے سامنے ایک عظیم سفر کے امکانات تو موجود ہیں، لیکن جس کے لنگر ٹوٹ چکے ہیں اور اس قافلے کی سی حالت ہے، جس کے پاس یہاں وہاں، جوان ہمتیں تو موجود ہیں، مگر جو منزل کا پتا بھول گیا ہے۔ تاریخ کا یہ عجیب دوراہا ہے، جہاں ایک ارب ۸۰کروڑ مسلمانوں کی عظیم عددی قوت، اپنی ۵۷ آزاد مملکتوں کے ذریعے ایک شان دار عالمی کردار ادا کرسکتی ہے۔ لیکن اپنی اندرونی کمزوری، ذہنی غلامی، فکری انتشار، سیاسی غلامی اور نشۂ جاہلیت کی وجہ سے محض گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہے۔
آج مسلمان اِس عظیم چیلنج کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہیں: کیا عصرحاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کر صف بندی کرسکتے ہیں یا نہیں؟ صحیح حکمت عملی اور دانش مندانہ جدوجہد کے ذریعے تاریخ کا رُخ بدل کر ایک نئے دور کے بانی بن سکتے ہیں یا نہیں؟ خبردار ہونا چاہیے کہ اگر فکرودانش کی کمزوری اور تدبیر کی غلطی کے باعث عملی چیلنج کے جواب میں ہمارے قدم اُکھڑ گئے تو خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور پھر معلوم نہیں کب سنبھل سکیں گے۔
وقت کے اس چیلنج کا مقابلہ جن محاذوں پر کیا جانا ہے، ان میں سے اہم ترین محاذ علم و ادب اورفکروفن اور تحقیق و جستجو اور مکالمہ و استدلال کے میدان ہیں۔ بے شک انسانی زندگی میں افکارونظریات کو حکمران قوت کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح انسان کے جسم میں دماغ کی حیثیت حکمران کی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نظامِ تہذیب میں افکار و نظریات اور عقائد و خیالات سب سے مؤثر اور رہنما قوت کا مقام رکھتے ہیں، پھر تمام معاشی، سیاسی اور عمرانی اُمور اسی کے زیراثر طے ہوتے ہیں۔ وہی زمانے کا مزاج بناتے ہیں، وہی اقدار اور معیارات دیتے ہیں، انھی سے سوچنے کے انداز، غوروفکر کے زاویے اور عمل کے ضابطے مقرر ہوتے ہیں۔
اسی لیے اسلام اپنی اصلاحی دعوت کا آغاز ایمان سے کرتا ہے اور پوری زندگی کی اصلاح کو ایمان کی قدر اور پختگی سے وابستہ کرتا ہے۔ آج جس وجہ سے صورتِ حال بہت زیادہ تشویش ناک ہوگئی ہے، وہ یہ ہے کہ بگاڑ صرف ماحول پر ہی تباہ کن اثر نہیں ڈال رہا ہے، بلکہ ایمان و یقین بھی کمزور ہورہا ہے۔ مغربی جاہلی فکری غلبے کا سب سے بڑا نشانہ ایمان اور عقائد ہیں، اور پھر وسائل و اختیار۔
پچھلی چند صدیوں سے مغربی فکروفلسفہ کے ذریعے مسلمانوں کے افکارونظریات کو ہدف بنایا گیا ہے، ان کے دل و دماغ کو زہرآلود کیا جارہا ہے، اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کوششیں اپنے نتائج سامنے لارہی ہیں۔ یہ حملہ فلسفہ اور سائنس کے ہتھیاروں سے بھی کیا جارہا ہے اور تعلیم و تربیت کے اسلحے سے بھی، پھر نشرواشاعت اور اثرونفوذ کے تمام ذرائع کو پوری طرح استعمال کیا جارہا ہے۔
ذرائع ابلاغ اور تقریر و تحریر کا ہرحربہ اس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے جواب میں اگرچہ محدود کوششیں تو ہوتی رہی ہیں، لیکن منظم اور ہمہ گیر جدوجہد کا فقدان چلا آرہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مؤثر طبقوں میں دُور دُور تک اس چیز کا احساس بھی نہیں پایا جاتا۔ ضرورت ہے کہ نئی نسل میں اعتماد بحال کرنے کے لیے درج ذیل ناگزیر اقدامات اُٹھائے جائیں:
۱- اسلام کے فلسفۂ زندگی اور اس کے نظامِ حیات کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو ایمانی اور عقلی دلائل کے ساتھ آج کی زبان میں پیش کیا جائے،تاکہ اسلام کی شاہراہِ مستقیم بالکل واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آجائے۔ ہماری مشکلات کا ایک بڑا ذریعہ جہالت اور بے خبری ہے۔ اسلام کا علمی سرمایہ جن زبانوں میں ہے ان تک ہماری نئی نسلوں کی رسائی نہیں اور جن اصطلاحات میں ہے، اس سے آج کے لوگ نامانوس ہوگئے ہیں۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو آج کی زبان میں مختلف علمی سطحوں پر لوگوں کے سامنے پیش کردیا جائے، تو دین اسلام سے انحراف اور مغرب کی غلامی کا ایک بڑا سبب دُور ہوسکے گا۔
۲- مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب و تمدن کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ علمِ جدید کے پورے سرمائے کا کھلی آنکھوں اور ناقدانہ ذہن کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے؟ اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ؟بلاشبہہ خود مغرب کی ذہنی ترقی مسلمانوں کے اثرات کی پیدا کردہ ہے، لیکن ایک غلط نظامِ تہذیب اور خالص مادہ پرستانہ زاویۂ نظر نے علوم و فنون کی ترقی کو بالکل غلط رُخ پر ڈال دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فکروفلسفہ کا عمومی مزاج زہرآلود ہوگیا ہے اور درست سمت میں ترقی نہیں کر رہا ہے۔ آج بہت بڑی ضرو رت یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت کو ترک کرکے مغربی افکار کا مطالعہ کیا جائے۔
۳- تمام علوم کو دین اسلام کی دی ہوئی اقدار پر مرتب اور مدون کیا جائے، اور صحیح سمت میں ان کو ترقی دی جائے۔ اسلام کا نقطۂ نظر بڑا وسیع ہے، وہ تمام علوم و فنون کی ترقی چاہتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ ترقی صحیح بنیادوں پر ہو اور مسلسل ہو۔
۴- آج کی دُنیا میں، خصوصیت سے معیشت، معاشرت، سیاست، انتظامیات اور قانون کے میدانوں میں جو نئی پیچیدگیاں رُونما ہوئی ہیں، ان کا مطالعہ بیدارذہن کے ساتھ اور بالغ نظری کے ساتھ کیا جائے۔ پھر پو ری وضاحت کے ساتھ بتایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کرکے ایک صالح اور ترقی پذیر تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے، اور اس میں ایک ایک شعبۂ زندگی کا عملی نقشہ کیا ہوگا؟ اسلامی اصولوں کے تحت آج کا سیاسی نظام کیا ہوگا؟ معیشت کا ڈھانچا کیسے بنے گا؟ سود کیونکر ختم کیا جاسکے گا؟ معاشی استحصال کیسے روکا جاسکے گا؟ اخلاقی ذوق کی آبیاری اور معاشی ترقی میں توازن کس طرح پیدا کیا جائے گا؟ قانونِ تجارت، قانونِ فوجداری، قانونِ شہادت وغیرہ کی شکل کیا بنے گی؟ بین الاقوامی سیاست کے ضابطے کیا ہوں گے؟ معاشرتی زندگی کی گتھیوں کو کس طرح سلجھایا جائے گا؟ فنونِ لطیفہ کس طرح صحت مند انسانی معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں؟ آج مسلم معاشرے میں پیش آنے والے عملی مسائل کو اسلام کی رہنمائی میں کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟ انھی علمی و فکری کاوشوں سے زندگیوں کے رُخ کو تبدیل کیا جاسکے گا اور وہ تہذیبی نظام قائم ہوسکے گا جو اسلام چاہتا ہے۔
یہ کام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نیک بندوں اور اسلامی تحریکوں پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، جنھوں نے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی ہے، اور ذہنی غلامی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے اپنی اور زندگی بھر کی ساری صلاحیتیں اور تمام قوتیں کھپا دی ہیں۔ لازم ہے کہ اس کام کو منظم طریقے سے اور وسیع پیمانے پر انجام دیا جائے۔ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جو اپنی ساری قوتوں کو اس علمی اور فکری جہاد کے لیے صرف کردیں۔ اعلیٰ صلاحیت کے حامل نوجوانوں کی ایک کھیپ اپنی زندگیوں کو اس عظیم کام کے لیے وقف کردے۔ صرف اسلام کی خدمت کو اپنا مشغلۂ حیات (Career) بنالے اور اس کے لیے اپنی زندگیوں کو یکسو کر دے۔
آزاد اور خودکار نظام کے تحت معیاری ،تحقیقی اور تربیتی اداروں کا قیام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے اداروں کو قائم کرتے وقت ماضی کے قائم شدہ اداروں کی کارکردگی، تجربات اور کامیابیوں، ناکامیوں کا بے لاگ جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ اس جائزے کی روشنی میں یہ ادارے علم و فکر کے میدان میں اسلام کے دفاع اور ترجمانی کی خدمات انجام دینے کی جدوجہد کریں، جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے۔ ان اداروں کا پروگرام یہ ہونا چاہیے:
یہ کام ان علمی و فکری اداروں کے پیش نظر ہونے چاہییں، اور ان میں نگرانی، حوصلہ افزائی اور احتساب کا مؤثر نظام قائم کرنا چاہیے۔ جمود زدہ ماحو ل کو تحفظ دے کر اور باہم بے فیض کارگزاریاں دکھاکر ایک دوسرے کو بے خبر رکھنے کی روش ترک کی جانی چاہیے۔