اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت پرسکون نیند بھی ہے۔نیند قدرت کا وہ عظیم تحفہ ہے، جو خالق کی عظمت و ربوبیت کا گواہ،اور اس کی بے مثال صنعت و کاریگری کا شاہ کار ہے۔ یہ ایک پیدائشی چیز ہے جو غیرشعوری طورپر انسان کی فطرت اور ساخت میں داخل ہے۔ اس کا انسانی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ خالق و مالک نے ایک مضبوط ومستحکم نظام کے مطابق، جان داروں کی راحت رسانی کے لیے اسے بنایا ہے۔انسان کو بس اتنا معلوم ہے کہ جب وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد تھکا ہارا بستر پر پہنچتا ہے تو بے ساختہ نیند اسے آدبوچتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق جب انسان گہری نیند سوجاتا ہے، تب دماغ کا کارخانہ اپنے اندر دن بھر کے کام کاج کے دوران صحت کو نقصان پہنچانے والے جمع شدہ زہریلے فضلے کونکال باہر کرتا ہے اور پورے دماغ کی مرمت کرکے اُسے نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔ جس سے دماغ اور اس کی وساطت سے سارا جسم ازسرنو مضبوط ومتحرک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نیند کا آنا، نیند سے تھکن کا دُور ہونا اور پھر تھکن دُور ہونے پر تازہ دم ہو کر اَز خود ہی بیدار ہوجانا، یہ سب قوتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں، جو سراسر اس کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں۔
مولانا مودودی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
انسان کو دُنیا میں کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس حکمت کے ساتھ اس کی فطرت میں نیند کا ایک ایسا داعیہ رکھ دیا ہے، جو ہرچند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹے سونے پر مجبور کردیتا ہے۔(تفہیم القرآن، ج۶، ص۲۲۶)
مولانا مودودی مزید لکھتے ہیں:
وہ محض خالق ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجے رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اُس سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے۔ انسان دُنیا میں مسلسل محنت نہیں کرسکتا، بلکہ ہرچند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے، تاکہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔ اس غرض کے لیے خالقِ حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’نیند‘ کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا، جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود، خود بخود ہرچند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے۔ چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کردیتا ہے، اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خود بخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے، جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کارفرما نظر آتی ہے۔ مزیدبرآں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے، وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیرخواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کرکے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کرکرکے اپنی قوتِ کار کو ہی نہیں، قوتِ حیات تک کو ختم کرڈالتا۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۷۴۷-۷۴۸)
مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ لکھتے ہیں:یہاں حق تعالیٰ نے انسان کی راحت کے سب سامانوں میں سے خاص طور پر نیند کا ذکر فرمایا ہے۔ غور کیجیے تو یہ ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ اور اس نعمت کو حق تعالیٰ نے پوری مخلوق کے لیے ایسا عام فرما دیا ہے کہ امیر، غریب، عالم، جاہل، بادشاہ اور مزدور سب کو یہ دولت بہ یک وقت عطا ہوتی ہے،بلکہ دنیا کے حالات کا تجزیہ کریں تو غریبوں اور محنت کشوں کو یہ نعمت جیسی حاصل ہوتی ہے، وہ مال داروں اور دنیا کے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ نیند کی نعمت گدوں، تکیوں یا کوٹھی بنگلوں کی فضا کے تابع نہیں ہے، یہ تو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو براہ راست اس کی طرف سے ملتی ہے۔ بعض اوقات مفلس کو بغیر کسی بستر تکیے کے، کھلی زمین پر یہ نعمت فراوانی سے دے دی جاتی ہے اور بعض اوقات سازوسامان والوں کو نہیں دی جاتی، ان کو خواب آ ور گولیاں کھا کر حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ گولیاں بھی کام نہیں کرتیں۔(ملخص از معارف قرآن)
نیند کی جو حقیقت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے،اس سے زیادہ نہ کسی نے بیان کی ہے اور نہ کوئی بیان کرسکتا ہے۔ نیند کو موت کی بہن قرار دیتے ہوئے حق تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا:اللہ تمام روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے، اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرلیتا ہے)۔ پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا۔ انھیں اپنے پاس روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔(الزمر۳۹:۴۲)
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں: قبضِ روح کے معنی اس کا تعلق بدنِ انسانی سے قطع کردینے کے ہیں، کبھی یہ ظاہراً و باطناً بالکل منقطع کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتا ہے باطناً باقی رہتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حِس اور حرکت ِارادیہ جو ظاہری علامتِ زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً روح کا جسم کے ساتھ تعلق باقی رہتا ہے، جس سے وہ سانس لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ روحِ انسانی کو عالمِ مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کرکے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے، تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے۔ اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکلیہ ختم ہوجاتی ہے۔(تفسیر مظہری)
lنیند کا ذکر قرآن مجید میں:نیند خدا تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے،جسے قرآن مجید میں احسان و امتنان کے طور پر ذکر کیا گیاہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے تمھارا رات اور دن کو سونا اور تمھارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو(غور سے) سنتے ہیں‘‘ (الروم۳۰:۲۳)۔اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا:’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمھارے لیے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔(القصص۲۸:۷۳)
پرسکون نیند کی بنیادی ضرورت اندھیرا اور شور شرابہ کانہ ہونا ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے رات کو تاریک بنا کر پرسکون نیند کی ان فطری ضرورتوں کو پورا کردیاہے،جیساکہ ارشادربانی ہے:’’اور وہی ہے جس نے تمھارے لیے رات کو پردہ پوش اور نیند کو راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا‘‘(الفرقان۲۵:۴۷)۔ دوسرے مقام پر یوں فرمایا:’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن کیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘۔(المؤمن۴۰:۶۱)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رات کا ایک حصہ آرام و سکون حاصل کرنے کے لیے ہے،اس میں آرام کرنا ہی شریعت کا تقاضا ہے۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو،اور پھر دن میں بھی روزے رکھتے ہو؟‘‘میں نے کہا: جی ہاں، میں ایسا ہی کرتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا کروگے تو تمھاری آنکھیں بیٹھ جائیں گی اور تمھاری صحت کمزور پڑے گی۔جان لو کہ تم پر تمھارے نفس کا بھی حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔کبھی روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو۔ قیام بھی کرو اور سوؤ بھی‘‘(بخاری، کتاب الادب، حدیث:۵۷۸۹)۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بخشش و کرم کی انتہا دیکھیے کہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی برکت سے ہماری نیند کو بھی عبادت بنا دیا ہے، جیسا کہ آپؐ نے فرمایا:’’جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا۔ اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گو یا پوری رات قیام کیا‘‘ (مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃٍ،حدیث: ۱۰۸۴)۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپؐ کی صحیح اتباع کرتے ہوئے عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کریں۔
ڈاکٹر حمزۃ الحمزاوی کے مطابق:عشاء کے بعد ۹سے ۱۲ بجے کے درمیان سونا سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ایک انسان اپنی نیند کا ۸۰ فی صد حصہ انھی اوقات میں پورا کر سکتا ہے،کیونکہ ان اوقات میں نیند کے لیے خاص برکت رکھی گئی ہے، سو اس وقت کی صرف ایک گھنٹے کی نیند تین گھنٹے کی نیند کے برابر ہے۔ پھر رات ۱۲ سے ۲ بجے کے درمیان سونے سے انسان کی ۲۰ فی صد گہری نیند پوری ہوجاتی ہے۔اس وقت ایک گھنٹے کی نیند ایک گھنٹے کے برابر ہے۔اس کے بعد کا سونا انسان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں۔۲ بجے سے ۵ بجے تک یعنی فجر سے پہلے کے اوقات کچھ یاد کرنے، مطالعہ کرنے اور دیگر دماغی کاموں کے لیے نہایت مفیدہیں۔۵ بجے سے طلوع آفتاب کے بعد تک سونا بالکل بھی فائدہ مند نہیں۔اس وقت سونے میں کوئی برکت نہیں،بلکہ یہ سارا دن کاہلی وسُستی اور توجہ میں کمی کا باعث ہے۔
نیند وہ ارزاں نعمت ہے، جسے ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں اور ہمیں اس پر شکر گزاری کی توفیق بھی نہیں ملتی، بلکہ بسا اوقات ہم اپنی بے حسی اور عدم التفات کے سبب اس کی اہمیت و افادیت کو محسوس نہیں کرتے۔در حقیقت وہی لوگ اس نعمت کے حقیقی قدر شناس ہوتے ہیں،جو خدا کی طرف سے کسی تکلیف میں مبتلا ہوں یا مسلسل جاگنے کی بیماری سے دوچار۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے صحت و غذا کے حوالے سے اپنی بے اعتدالی اور وقت کے عدم انضباط کی بناء پر نیند جیسی انمول و گراں قدر نعمت کو مصیبت بنا رکھا ہے۔بڑے شہروں کا حال یہ ہے کہ مسلمان رات رات بھر جاگنے اور آدھا آدھا دن سونے میں گزاردیتے ہیں،جب کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت کی دعا دی ہے (ترمذی)۔اور ایک روایت میں تو صبح کے سونے کو رزق کے لیے مانع قرار دیاہے۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے شب و روز گزارنے کی عادت ڈالیں،بالخصوص رات گئے تک جاگنے اور دوسرے دن نمازظہر تک سوتے پڑے رہنے کی عادت کو ترک کریں،تبھی جاکر ہم دین ودنیا میں عروج و سربلندی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔