مصر کے متجددین بعض دوسرے مسلم ممالک کے متجددین سے مختلف نہیں ہیں بلکہ دوچار قدم آگے ہیں۔ وہاں اس گروہ کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں ہے، لیکن سرکاری حکام کی سرپرستی کی وجہ سے ان کو اپنے خیالات کی اشاعت کے لیے ہر طرح کے وسائل و ذرائع مہیا ہیں۔ ان حضرات کا فتویٰ ہے کہ ’’سود حلال ہے، قومی معیشت اس کے بغیر مضبوط نہیں ہوسکتی۔ رقص اور موسیقی جائز ہے، عورتوں کے لیے ساتر لباس کی بات کرنا اُن کی آزادی میں خلل ڈالنا ہے۔ لباس نے زمانے کے ساتھ ترقی کی ہے اور زمانے کی ترقی کے ساتھ دین بھی ترقی پذیر ہے، اس لیے لباس کی بات کرنا بے جا ہوگی۔ مردوزن کے عام اختلاط میں کوئی حرج نہیں ہے ۔مرد کو عورت کا قوام بنانا، استعمار پرستانہ نظریہ ہے۔ جو عورت معاش پیدا کرلے وہ بھی قوام ہی ہے۔ قومی ضرورت کے پیش نظر روزہ ترک کیا جاسکتا ہے۔ شراب نوشی میں اگر نشہ نہ چڑھے تو جائز ہے۔ ہم جنسی رویہ فطری امر ہے، کج روی نہیں۔ حدیث کا ذخیرہ تاریخ کا دفتر ہے۔ الغرض شریعت کا ہرشعبہ خواہ وہ شخصی قوانین سے تعلق رکھتا ہو یا عبادات و معاملات سے ، اس گروہ کا نشانۂ تحریف و تنسیخ بننے سے محفوظ نہیں۔اس ’مسند ِ افتاء‘ پر متمکن صرف مرد ہی نہیں ہیں بلکہ بیگمات بھی شامل ہیں، جو مصلحت اور تقاضائے حالات کے نام پر دین کے ساتھ کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
اس سے ملتا جلتا کھیل یہاں پاکستان میں بھی کھیلا جارہا ہے: کبھی براہِ راست حکومت کی سرپرستی میں اور کبھی بالواسطہ طور پر این جی اوز کے پردے میں، اور کبھی ابلاغی اداروں کی سکرین سے اور غیرملکی کمین گاہوں میں بیٹھ کر گمراہ کن عقائد و خیالات کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ایک دور میں یہ کام ’نیچریت‘ کے نام پر ہوا، پھرانکارِ سنت و حدیث کے عنوان سے، اور آج کل ’عقل و دانش‘ کے الفاظ کو چبا کر، لیکن منزل ان سب کی ایک ہے: ’’خودنہ بدلنا، مگر سینٹ پال بن کر، اسلام ہی کو تبدیل کرنا‘‘۔
اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ فوجی آمریت کے تمام تر ظلم اور زیادتی کے باوجود الحمدللہ، مصر کے مسلمان عوام اور علما کی بڑی جماعت، متجددین اور مغرب زدہ منحرفین کی ان حرکات سے نہ صرف بے زار ہے بلکہ ان خرافات کو اُٹھا کر ان کے منہ پر مار رہی ہے۔ چنانچہ جب کبھی وہاں کے گمراہ کن ’مفکرین‘ نے سود، عائلی اُمور، اجتہاد و قانون سازی کے اختیارات اور اسی طرح کے دیگر مسائل کے متعلق احکامِ شریعت کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اُسی وقت علمائے حق کی کثیر تعداد نے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی صورت میں بھی، اسلام کے صحیح احکام کو پیش کرکے حق اور باطل کے درمیان امتیاز قائم کیا ہے۔(ادارہ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرینِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمْسکتُمْ بِـھِمَا : کِتَب اللہِ وَسُنَّتِی (موطا امام مالک ، حدیث: ۳۳۱)،’’میں تمھارے اندر دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو پکڑ لیا تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے: ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری سنّت‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
قرآن اور سنت کے یہ صریح احکام بتا رہے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان جو چیز امتیاز قائم کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت لے کر آیا ہے اُس کو سچا تسلیم کیا جائے، اُس کے آگے جھکا جائے، اور یہ یقین کرلیا جائے کہ اتباعِ رسولؐ ہی میں انسان کی مصلحت ہے۔ قرآن کریم نے یہ صراحت کردی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان پر بلاجھجک کاربند ہوجانا چاہیے، اور جن کاموں سے منع کیا ہے اُن سے بلاتامل دست بردار ہوجانا چاہیے۔ کسی مومن کے شایانِ شان یہ نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اُس کے لیے جو راستہ تجویز کیا ہو، اُس سے رُوگردانی کرکے اپنی مرضی سے کوئی دوسرا راستہ منتخب کرلے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
بکثرت صحیح احادیث میں یہ حکم وارد ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام سے ہٹ کر جو چیز لائی جائے، اُسے لانے والے کے منہ پر مار دینا چاہیے۔
اللہ اور رسولؐ کے قطعی احکام اور شریعت کی واضح حدود سے جو شخص تجاوز کرتا ہے، وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ہے۔ جوان پر قائم رہتا ہے، وہ ایسی شاہراہ پر گامزن ہے جس میں کوئی خم اور پیچ نہیں ہے، نہ بہکنے اور بھٹکنے کی کوئی گنجایش ہے اور نہ فساد فی الارض کا احتمال ہے۔ لیکن قرآن و سنت کی اس حکیمانہ تعلیم اور محکم نظام کے باوجود مسلمان اُمت کے اندر ایک ایسا گروہ نمودار ہو گیا ہے، جو اسلام اور اسلامی احکامات کی بجاآوری سے بے زاری کا رویہ اختیار کرتا ہے اور شریعت کے احکام کو متروک ٹھیراتا ہے، بلکہ اس گروہ کے بعض افراد تو بڑی بے شرمی کے ساتھ احکامِ شریعت کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ چنانچہ ایک قانون دان سے وراثت کے ایک مقدمے میں جب یہ دریافت کیا گیا کہ ’کیا اس میں شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے: ’کیا آپ نہیں جانتے کہ مُلّا کہتا ہے: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۰ۚ (مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوتا ہے)‘۔ گویا ان کے نزدیک نعوذ باللہ خود اللہ تعالیٰ بھی مُلّا ہے، کیونکہ یہ حکم تو اُسی نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے۔
اس گروہ کے کچھ افراد وہ ہیں، جو اسلام کی مضبوط اور مستحکم رسّی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے خاص منصو بے کے تحت اور تدریج کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی زبانیں بکثرت ’زمانے کے حالات‘ اور ’مصلحت کے تقاضوں‘ اور ’عقل کی بات‘ کے الفاظ دُہراتی رہتی ہیں۔ یہ بار بار کہتے ہیں کہ ’’اسلام کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ترقی کے راستے کا پتھر بننے کے بجائے زمانے کے ساتھ چلے‘‘۔ ان کا ارشاد ہے کہ ’’اسلام کا اس وقت تک بول بالا نہیں ہوگا، جب تک وہ عصرحاضر کے مطالبات کے سامنے نہیں جھکے گا‘‘۔ گویا ان لوگوں کی قاموس میں اسلام کی بالاتری کے معنی یہ ہیں کہ اہل زمانہ ___ نہ کہ اصحابِ علم و بصیرت___ جس چیز کو اختیار کریں اسلام اُن کے آگے سرنگوں ہوجائے۔ بعض اوقات یہ لوگ بڑی پوچ باتیں کرتے ہیں اور اپنی ’دانش وری اور خردمندی‘ کے دعوئوں کے باوجود ایسے بھونڈے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک ذی عقل انسان انھیں سن کر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا مگر یہ ہنسی نہیں ہے، بلکہ ان کی بددماغی کا ماتم ہے۔
یہ لوگ پہلے منکرات اور قبیح افعال کو رواج دیتے ہیں اور پھر احکامِ الٰہی کو انھی کے تابع کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام غسل کے وقت سر کے بالوں کو دھونے کی شرط کیوں عائد کرتا ہے؟ یہ شرط ان عورتوں کے لیے تکلیف اور نقصان کا ذریعہ ہے، جو ’مراکز آرایش‘ سے بال بنواتی ہیں۔ سوال اُٹھانے کے فوراً بعد یہ خود ہی فتویٰ دیتے ہیں کہ ’’چونکہ یہ شرط ایسی عورتوں کو غسل کے تمام احکام سے بے زار کردے گی، اس لیے بہتر یہ ہے کہ غسل میں سر پر صرف مسح کو کافی سمجھا جائے‘‘۔
جب ہم اُن سے عرض کرتے ہیں کہ غسل میں سر کا دھونا واجب ہے تو جواب میں ارشاد ہوتا کہ ’’یہ بیگمات بالوں کی تراش خراش پر جو رقم خرچ کرتی ہیں، کیا تم اس پر پانی پھیرنا چاہتے ہو؟ اس طرح تو دین میں تنگی پیدا ہوگی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (اُس نے تم پر دین کے معاملے میں تنگی روا نہیں رکھی)‘‘۔ لیکن ہم ان حضرات سے پوچھتے ہیں کہ آخر عورت کو سر دھونے کے لیے کتنے دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ اور کیا وہ مہینوں اسے بلادھوئے رکھے گی؟ اور پھر مسلمانوں کے شہروں اور بستیوں میں اس نوعیت کی عورتوں کی کتنی تعداد ہے؟ کیا مسلمان قوم کے اندر ایسی عورتوں کا تناسب شاذونادر کے حکم میں نہیں ہے؟ محلات کو چھوڑ کر عام شہری آبادی کے اندر ان کی تعداد ایک فی ۲۰ہزار سے بھی زیادہ نہیں ہے۔ دیہاتی آبادی میں تو یہ تناسب اور بھی گھٹ جاتا ہے۔ کیا ان گنتی کی چند بیگمات کی خاطر ہم اپنے پروردگار کی شریعت کو تبدیل کردیں اور اپنے نبیؐ کی سنت کو ساقط کردیں اور ثابت شدہ حقائق کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیں؟
چند افراد کے انحراف (deviation)سے شریعت کی تبدیلی تو کجا خود ان منحرفین کی خبرگیری لازم آتی ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اس بات کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ احکامِ دین کا قلادہ گلے سے اُتارنے کے لیے کیا کیا حیلے بہانے تراشے جارہے ہیں اور کس طرح دین کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: لا یومن احدکم حتٰی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ (تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک اُس کی خواہش میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع نہ ہوجائے)۔ اس گروہ کے لوگ نفس کی آگ بجھانے کے لیے اہل یورپ کی نقالی میں پہلے تو خود ہی ایک ’بدعت‘ قائم کرتے ہیں، پھر اُسے واجب الاتباع شریعت کا رنگ دینے کے لیے کتاب و سنت کے ثابت شدہ احکام میں تحریف و ترمیم کے درپے ہوجاتے ہیں، اور وقتی مصلحت کی آڑ لے کر ناقابلِ تردید حق کو اپنے نفس کے احکام کے آگے جھکا دینا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَہْوَاۗءَہُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۰ۭ (المو منون ۲۳:۷۱) ’’اگر حق ان کی خواہشوں کے تابع ہوجاتا تو آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان کے اندر ہے ان میں فساد رُونما ہوچکا ہوتا‘‘۔
شریعت انسانوں پر حاکم بن کر آئی ہے اور یہ اُس نظام کی دعوت دیتی ہے، جو اپنی فطرت میں افضل و اولیٰ نظام ہے، اور قانونِ اخلاق کی طرح حکم عام رکھتا ہے، جسے مخصوص اور محدود نہیں کیا جاسکتا۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ فضل و اکرام پر مشتمل انسانی اخلاق کے کسی قانون کو کسی ایک شخص کی خواہش کی بناپر، یا کسی نئے فعل یا نئے رواج کی پیروی کے لیے تبدیلی کا نشانہ بنایا گیا ہو، اگرچہ وہ فعل یا رواج تقلید پر مبنی نہ ہو بلکہ خود ساختہ ہو؟ لیکن مغرب کی یہ کورانہ تقلید جس میں ہم غرق ہورہے ہیں اور جس کی پشت پر تفکر و تدبر کا کوئی سرمایہ نہیں ہے، یہ بذاتِ خود ایک قومی اور اجتماعی آفت ہے اور اس مرض کا علاج ناگزیر ہے۔ کسی چیز کے ترک و قبول میں اُس کے اچھے یا بُرے پہلو کا جائزہ لیے بغیر اندھادھند کسی قوم کی تقلید کرنا عقلی تعطل کا باعث ہوتا ہے اور عملی زندگی میں جب عقلی تعطل اور فکری مرض اور تھکن رُونما ہوجاتا ہے تو لازماً انسانی نفس میں فساد اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں، جس سے قوم کا اجتماعی توازن بگڑ جاتا ہے اور معاشرتی بیماریوں کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔
اگر اسلام ہرتقلید کے آگے سپرانداز ہوجاتا تو اُس کی دعوت کو کبھی ثبات و استحکام حاصل نہ ہوتا اور اُس کے کلمے کو وہ سربلندی اور وسعت نصیب نہ ہوتی، جو اسے حاصل ہو ئی ہے۔ قرآن کی زبان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مقابلے میں مشرکین جو حجت پیش کرتے تھے، وہ اُسی طرز کی حجت تھی، جو عصرحاضر میں خبط ِ عظمت کے بھوکے ’دانشو ر‘ پیش کرتے ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۱۷۰ وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۰ۭ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۱۷۱(البقرہ ۲:۱۷۰-۱۷۱) ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے اُس کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے باپ دادا کو پایا ہے، اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو (تو کیا پھر بھی انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے)۔ یہ لو گ جنھوں نے (خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے) انکار کردیا ہے ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔
بالکل یہی روش ان لوگوں کی ہے، جو اہل مغرب کی نقالی پر اُترے ہوئے ہیں۔ یہ کسی چیز کو اختیار کرتے وقت اُس کے حُسن و قبح کو پرکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے بلکہ تقلید کی رُو میں بالکل بے دست و پا ہوکر بہے جارہے ہیں۔ ان میں اور جاہلیت کے علَم برداروں میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا کہ اہل جاہلیت کے ہاں آبائواجداد کی تقلید کی منطق یہ تھی کہ ’’بیٹے اپنے بزرگوں کے وارث ہوتے ہیں، بزرگوں کے افکار و عادات ان میں سرایت کرچکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جن خیالات پر ان کی تربیت اور نشوونما ہوئی ہوتی ہے، اُن میں تغیر و تبدل کے بارے میں سوچنا مناسب نہیں ہوتا۔
لیکن عہد ِ حاضر میں مغرب کے مقلدین کا معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ ان کی نشوونما کسی قدر اسلامی ماحول میں ہوئی ہے، لیکن یہ اسلام سے بغاوت (خروج) کرچکے ہیں۔ مغرب کی پُرفریب تہذیب کی لذتوں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا ہے اور یہ بلادلیل و حجت اور بلاتشخیص و تمیز اُس کی پیروی کر رہے ہیں۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ جن فاسد نظریات کو انھوں نے اپنے لیے منتخب کرلیا ہے، انھیں اسلام کی پشت پر لاد دیں۔ یہ دراصل وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بالکل صحیح صادق آتا ہے:
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسولؐ پر او ر ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مو من نہیں ہیں۔ جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسولؐ کی طرف تاکہ رسولؐ ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے البتہ اگر حق ان کی مو افقت میں ہو تو رسولؐ کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آجاتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ان پر ظلم کرے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ (رسولؐ) ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور کامیاب بھی وہی ہیں۔(النور ۲۴: ۴۷-۵۱)
گنتی کے چند لوگوں کی خواہشوں پر احکامِ الٰہی کو ترک کردینے والے حضرات ہمیشہ ’مصلحت ‘کے نام پر گفتگو کرتے ہیں، اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’حقیقی مصلحت‘ وہی ہے، جس کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ نفس کی خواہشوں کو مصلحت پسندی کا لباس پہنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح سے یہ حضرات حقائق پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ بھلا اس سے بڑھ کر انسانی مصلحت پر اور کیا ستم ہوگا کہ خواہشاتِ نفس کو حقیقی مصالح کا نام دے دیا جائے، اور اصل مصلحت کو گمنامی کی نذر کردیا جائے۔ یہ لوگ شتر بے مہار ہیں جن کو کوئی اخلاقی بندھن، کوئی دینی ضابطہ، کوئی شریفانہ رواج اور کوئی بھلی روایت، نظم و ضبط کے دائرے میں نہیں لاسکتی۔ان کی آرزو یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کے ساتھ کھیلیں اور اُسے اپنے محبوب اور مرغوب سانچوں میں ڈھالتے رہیں۔
خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی ایسے لوگ تھے۔ ایک مرتبہ ان کی ایک جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا : ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جہاں سردی سخت پڑتی ہے اور لوگ شراب پی کر جسمانی حرارت حاصل کرتے ہیں۔اس لیے ہم شراب نہیں چھوڑ سکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا: اُقْتُلُوْھُمْ(ایسے لوگوں کی گردن مار دو)۔ پس جو لوگ اپنی خواہشات کے ہاتھوں گرفتار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی خواہشات حاکم اور شریعت الٰہی محکوم ہو، وہ اُن کج فطرت اور فتنہ جُو لوگوں کی صف میں شامل ہیں، جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا فرمان صادر فرمایا تھا، کیونکہ ان کی قانون شکنی سے دوسرے لوگ بھی ایمانی ضُعف و کمزوری کا شکار ہوں گے اور نتیجتاً فسق و فجور علانیہ ہونے لگے گا اور گناہ و ہوس کی اِتباع کے دروازے چوپٹ کھل جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے یہ نصیحت فرمائی ہے، مگر اُس کا رُخ ہر صادق الایمان مومن کی طرف ہے:
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۱۸ اِنَّہُمْ لَنْ يُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللہِ شَيْـــــًٔا۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۚ وَاللہُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ۱۹ (الجاثیہ ۴۵: ۱۸-۱۹) پھر ہم نے تم کو دین کے راستہ پر چلایا ہے، پس، تم اُسی کی پیروی کرو اور نادانوں کی خواہشوں پر نہ چلو، وہ اللہ کے سامنے ہرگز تمھارے کام نہ آئیں گے۔ بے شک ظالم لوگ ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا رفیق ہے۔
یہ حضرات دعوت تو دیتے ہیں نفس پرستی کی، مگر سمجھتے یہ ہیں کہ وہ ’مصلحت ِ قومی‘ کے علَم بردار ہیں۔ حالانکہ حقیقی مصلحت ان کی رائے کے یکسر خلاف ہے اور عقلِ سلیم ان کی دعوت سے صاف اِبا کرتی ہے۔ نفس پرستی کے ہاتھ میں جب فیصلوں کی زمامِ کار آجاتی ہے، تو وہ عقل پر غالب آجاتی ہے اور عقل اس کی بے دام لونڈی بن کر رہ جاتی ہے۔ اسلام جن مصالح کو قابلِ اعتبار سمجھتا ہے وہ بالکل واضح ہیں۔ فقہائے اسلام نے کہ جن کا نام سنتے ہی یہ حضرات اپنا سر مٹکانے لگتے ہیں، انھوں نے کمال حکمت، تدبّر اور اعلیٰ درجے کے دینی فہم سے ان مصالح کو جامعیت کے ساتھ منضبط کردیا ہے۔
چنانچہ فقہا کہتے ہیں: ’’شرعی مصلحت، انسان کی جان، مال، نسل، عقل اور دین کی حفاظت کا نام ہے‘‘۔ لیکن منحرفین کا گروہ ان تمام شرعی مصلحتوں پر خود ساختہ ’مصلحت‘ کے نام سے حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ لوگ شراب نوشی اور فسق و فجور کو مصلحتوں کے نام لے لے کر ہی رواج دے رہے ہیں۔ کیا یہ عقل انسانی اور نسل بشری پر غارت گری نہیں ہے؟ اسی طرح سے یہ ’رِبا‘ کی ہرمقدار کو، خواہ کم ہو یا زیادہ، حلال و طیب قرار دے رہے ہیں اور اکل الاموال بالباطل کا کوئی ایسا دروازہ نہیں ہے، جس میں یہ داخل نہ ہورہے ہوں۔ کیا یہ انسانی مال کی ظالمانہ لوٹ کھسوٹ نہیں ہے؟
پھر یہ لوگ الحاد و زندقہ اور دین سے بغاوت کی کھلم کھلا تشہیر کر رہے ہیں۔ اسلام کی بنیادی حقیقتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام کے کسی ایک شعار کو بھی یہ باوقار نہیں دیکھنا چاہتے۔ دین کی علانیہ بے حُرمتی کرتے ہیں۔ حرام چیزوں کا کھلے عام ارتکاب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک شخص بھری مجلس میں اُٹھتا ہے اور منہ پھٹ ہوکر اسلامی حقائق واقدار کو کھوکھلا اور بے بنیاد ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح کے ہر’مفکر‘ کے لیے اسلام ایک لذیذ کھانا بنا ہوا ہے۔
ان منحرفین کی سوسائٹی میں یہ عام مشہو ر ہے کہ ’’جو شخص بھی ناموری حاصل کرنا چاہتا ہو، وہ ادیانِ سماوی اور بالخصوص اسلام پر نکتہ چینی اور طعن و تشنیع شروع کردے‘‘۔ کیا یہ ملت مسلمہ کی بیخ کنی نہیں ہے؟ دین و ایمان کی چُولیں ڈھیلی ہوجانے کے بعد مسلمانوں کا ٹھکانا کہاں ہے؟ کیا واقعی ’مصلحت‘ یہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک بے یقین، بے سیرت اور بداخلاق قوم بنا ڈالا جائے؟
اسلام کا ہرحکم بذاتِ خود ایک مصلحت ہے اور اس حکم کی ممانعت بذاتِ خود ایک شدید نقصان ہے۔ جو شخص اسلام کے قطعی حکم سے ہٹ کر مصلحت تلاش کرتا ہے، وہ جاہلیت اور ضلالت میں مبتلا ہے۔دورِ رسالتؐ کے، عرب عصرِحاضر کے منحرفین سے زیادہ دانش مند اور مصلحت شناس تھے۔ ایک بدوی سے پوچھا گیا: تم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر کیوں ایمان لائے ہو؟ اس نے جواب دیا: مَا رَأَیْتُ مُحَمَّدًا یَقُوْلُ فِی اَمْرٍ: اِفْعَلْ وَالْعَقْلُ یَقُوْلُ لَا تَفْعَلْ وَمَا رَأَیْتُ مُحَـمَّدًا یَقُوْلُ فِی اَمْرٍ: لَا تَفْعَلْ وَالْعَقْلُ یَقُوْلُ: اِفْعَلْ (میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ محمدؐ نے کسی کام کے کرنے کا حکم دیا ہو اور عقل نے کہا ہو: ’نہ کر‘۔ یا،محمدؐ نے کسی کام سے روکا ہو اور عقل نے کہا ہو:’کر‘)۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو مہمل نہیں چھوڑا ہے بلکہ اُسے صراحت سے بتادیا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور گمراہی کیا ہے؟ مصلحت کیا ہے اور مضرت کیا ہے؟ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى۳۶ۭ (القیامۃ۷۵:۳۶) ’’کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اُس کو یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘
شریعت الٰہی ہی تمام انسانی امراض کی شفاء ہے اور معاشرے کی تمام خرابیوں کا علاج ہے۔ یہ انحراف، جو نوجوانوں کو لپیٹ میں لے رہا ہے، یہ اخلاق باختگی جو محفلوں پر چھائی جارہی ہے اور یہ بدعات جن کے پیچھے عورت روز بروز دوڑی جارہی ہے، ان سب کی دوا شریعت کے سوا کہیں نہیں ملے گی، اور ان سے نجات کی جگہ دین کی شہر پناہ کے سوا کہیں حاصل نہ ہوگی۔ اس وقت بگاڑ معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے، حتیٰ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ٹیلی ویژن سکرین پر عالمی پروگرام پیش کیا جاتا ہے تو اس میں مناظر فطرت اور صنعتی ترقی اور تہذیبی مظاہر دکھانے کے بجائے عورتوں کی چو ٹیوں کے مختلف مناظر، زنانہ پوشاکوں اور پازیبوں کے رنگا رنگ نمونے دکھانے پر زور ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ’’کل کی نسبت آج ان میں کیا تبدیلی آگئی ہے‘‘۔
کیا یہ بات حیران کُن نہیں ہے کہ اسی ثقافت کے ڈسے یہ لوگ ہمارے پاس آکر کہتے ہیں کہ ’’اسلام کو برتر مقام سے نیچے اُتارو، تاکہ وہ موجودہ حالات سے ہم آہنگ ہوجائے‘‘۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس انحراف کو بیماری کی علامت سمجھ کر اسلام کو ذریعہ علاج بناتے اور حکومت سے اس کے انسداد کی مدد حاصل کرتے، یہ اس کی مزید حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اُلٹا اسلام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے احکام تبدیل کرلے، کیونکہ اسی میں مصلحت ہے‘‘۔
ایک شخص جس کی عملی زندگی فسق و فجور سے آلودہ ہوتی ہے، اُٹھ کر اسلام پر اظہارِ خیال کرنا شروع کردیتا ہے، اور جب اُسے ٹوکا جاتا ہے تو ایسے گمراہ کن ’مفکرین‘ کی ایک فوج جو اس کی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتی ہے، یہ فتویٰ دینا شروع کر دیتی ہے کہ ’’وسیع چیز کو لوگوں پر محدود اور تنگ نہ کرو کہ دین میں آسانی ہے، دشواری نہیں ہے‘‘۔ یہ الفاظ ان ’مفکرین‘ کو خوب اَزبر ہوتے ہیں، تاکہ اسلام ہی کی چیزوں کو اسلام کے خلاف استعمال کر کے فسّاق و مُترفین کو خوش کرسکیں اور ان کی قربت حاصل کرسکیں۔ مگر درحقیقت یہ لوگ اسلام پر بدبختی مسلط کرتے ہیں، اسلام کے چہرے کو بدنُما بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام کی شان و شوکت کو لوگوں کے دلوں سے مٹاتے ہیں۔
اس وقت مسلمان اور مسلم دُنیا جس آزمایش میں مبتلا ہیں، ماضی میں انھوں نے یہ آزمایش کبھی نہیں دیکھی، حتیٰ کہ تاریک ترین اَدوار میں بھی وہ ایسے حالات سے نہیں گزرے: عباسی عہد میں زندیقوں کے ہاتھوں عالم اسلام پر آزمایش نازل ہوئی۔ صلیبی جنگوں کے زمانے میں مسلمان اپنی ہی سرزمین میں مبتلائے فتنہ ہوئے، تاتاریوں کی یورش اسلام نے برداشت کی، اور آخر میں استعماری دو ر، جو صلیبی جنگوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی، اسلام کے لیے آزمایش کا پیغام لے کر آیا، لیکن اسلام صحیح وسلامت باقی رہا، اللہ کی کتاب حفظ و تواتر کی بدولت باقی رہی، بلکہ حفظ و تواتر میں اضافہ ہوا۔ سنّت زندہ رہی، علما کے حلقہ ہائے درس اس کی روایت و درایت میں مشغول رہے، اور فسادِ اُمت کی مایوس کن فضا میں کتاب و سنّت سے تسلّی کا سامان حاصل کرتے رہے۔
اجتہادی اَدوار کا فقہی سرمایہ جو سلف سے منقول چلا آرہا تھا، بہرحال وہ مقلّدین کی بدولت محفوظ رہا۔ بے شک اس دور کے علما منقولات پر جامد رہے، کوئی تجدید و اضافہ انھوں نے نہیں کیا۔ لیکن اس جمود کا یہ فائدہ تو ہوا کہ انھوں نے ورثۂ اسلام کی نگرانی کی، قرآن پر پہرہ دیا، تحریف سے اُسے بچایا اور اس کی خانہ ساز تاویل کرنے والے کے ہاتھ پکڑ لیے۔ ان محافظین اور جامدین کو آپ جو کچھ چاہیں کہہ لیں، مگر یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ انھوں نے امانت ِ اسلام کی نگرانی کا حق ادا کیا اور آنے والی نسلوں تک نے اسے زیغ و انحراف سے پاک و محفوظ پہنچا دیا۔
لیکن اب حالت یہ ہے کہ ہم میں سے ایک گروہ تو اپنے سابق بزرگوں کی طرح محض جمود پر قائم ہے، اور دوسرے گروہ نے تجدد کی ٹھان لی ہے۔ تجدید کے نام پر تحریف فی الدین کے ان مدعیوں میں سے کوئی قرآن پر ہاتھ صاف کر رہا ہے، اس کی من مانی تفسیریں کر رہا ہے اور اسے وقت کی مصلحت کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبو ر کر رہا ہے۔ کچھ لوگ سنّت پر حملے کر رہے ہیں، اور اس کے اکثروبیش تر ذخیرے کو ناقابلِ اعتبار قرار دے رہے ہیں۔ کچھ حضرات نے اجماعِ اُمت ہی کو سرے سے ساقط کردیا ہے اور بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہوگئے ہیں، جن کے نام تو مسلمانوں جیسے ہیں، مگر اُن کا خیال ہے کہ ملّت اسلامی نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے عہد سے لے کر آج تک نماز اور دوسرے ارکانِ اسلام کا صحیح مطلب ہی نہیں سمجھا: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَآءُ مِنَّا۔
ان حضرات سے ہماری درخواست ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح۔ تم لوگ دین کے خدوخال کو مسخ کرنے کا کام سرانجام نہ دو۔ خودفریبی کسی عقل مند کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اگر تم لوگ مسند ِ فتویٰ کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو کم از کم اپنے خودساختہ نظریات کو اللہ اور رسولؐ سے منسوب نہ کرو، دین کو خواہشات کا کھلونا نہ بنائو، اور کسی دُنیا پرست کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی آخرت کو باطل کے عوض نہ بیچو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش نظر رکھو:
ثَلَاثٌ مُنْجِیَاتٌ وَثَلٰثٌ مُھْلِکَاتٌ ، فَاَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَتَقْوَیٰ اللہِ فِی السِرِّ وَالْعَلَنِ وَقَوْلُ الْحَقِّ فِی الرِّضَا وَالسَّخَطِ ، وَالصِّدْقُ فِی الْغِنٰی وَالْفَقْرِ وَاَمَّا الْمُھْلِکَاتُ فَھَوًی مُتَّبَعٌ ، وَشُـحٌّ مُطَاعٌ وَاِعْـجَابُ الْمَرءٍ بِنَفْسِہٖ وَھِیَ اَشَدَّھُنَّ، تین خصلتیں انسان کو نجات دینے والی ہیں اور تین ہلاک کرنے والی۔ تین نجات دینے والی یہ ہیں: پوشیدہ و علانیہ اللہ سے ڈرنا، رضامندی و ناراضی دونوں حالتوں میں حق بات کہنا، توانگری و ناداری دونوں صورتوں میں سچائی پر کاربند رہنا۔ اور تین ہلاک کرنے والی خصلتیں یہ ہیں: خواہشات کی پیروی کرنا، بخل کا طریقہ اختیار کرنا اور خودپسندی میں مبتلا ہونا اور یہ سب سے مہلک ہے۔ (بروایت بیہقی)