یہ صدی مغرب یعنی امریکا اور اتحادیوں کے عہد ِزوال کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ہرآنے والا بحران، اس کے زوال کے عمل کو تیز تر کیے چلا جارہا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ اس صورتِ حال کا تازہ ترین مظہر ہے۔ مغربی اخبارات واضح گھبراہٹ کے عالم میں یہ پکارتے نظر آتے ہیں کہ ’’غزہ میں نظر آنے والے ملبے تلے کئی ہزار نامعلوم لاشوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ دفن ہوچکا ہے‘‘۔ ٹائمز میگزین میں میتھیو پیریسس نے لکھا ہے کہ ’’فلسطینی ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ساکھ بھی اس قدر تباہ ہو چکی ہے کہ اس کا اندازہ مشکل ہے۔‘‘ ان کی یہ بات بجا، لیکن اس کو صرف اسرائیل کا مسئلہ سمجھنا ایک سطحیت ہی نہیں حماقت بھی ہے۔ سابقہ فلسطینی مذاکرات کار ’ڈیانا بٹو‘ جب کہتی ہیں کہ ’’یہ دراصل امریکا و اسرائیل کا مشترکہ حملہ ہے‘‘ تو یہ اسی حقیقت کا بیان ہے، جسے ہرلمحہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل کے کٹر حامیوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اسے حقیقی معنوں میں شکست ہو چکی ہے اور تمام تر ساکھ مٹی میں مل چکی ہے۔ بہت جلد دنیا کو یہ احساس ہوجائے گا کہ یہی صورتِ حال اسرائیل کو ہلہ شیری دینے والے مغربی ممالک کو بھی درپیش ہے۔
مغرب کا زوال، غزہ میں جاری تاریخی ظلم سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مغربی دائیں بازو کے نزدیک یہ زوال امیگریشن، ثقافتی تنوع، اسلام، جدید افکار، نئے جنسی نظریات، خاندانی نظام کے خاتمہ وغیرہ کو سمجھا جاتا ہے۔ لز ٹروس کی نئی کتابTen Years to Save the West،جو آزاد تجارت کے خلاف برسرپیکار نام نہاد بائیں بازو کے خلاف لکھی گئی ہے، انھی خدشات کی نمایندگی کرتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو معاملہ بڑا سادہ ہے۔ ۳۰سال قبل سویت یونین ٹوٹنے کے بعد مغربی اشرافیہ، قبل از وقت ’فتح کے نشے‘ میں مدہوش بلکہ بدمست ہو گئی تھی۔ انہدامِ دیوار برلن کے موقعے پر نیوکنزرویٹو امریکی صحافی میج ڈیکٹر کا فخروگھمنڈ اسی طرف اشارہ کرتا ہے، جس نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا تھا: ’’یہ کہنے کا وقت آ گیا ہے کہ ہم جیت چکے ہیں۔ گڈبائے۔‘‘
اس نام نہاد ’فتح‘سےدو نتائج اخذ کیے گئے: اوّل، ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سامنے آنے والا ’’بے لگام سرمایہ داری نظام انسانیت کی معراج ہے‘‘ جس میں بہتری کی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ امریکی دانش ور فرانسس فوکویاما نے اپنی کتابوں End of Historyاور Last Man میں بڑھ چڑھ کر ان خیالات کا اظہار کیا۔ دوسرا یہ کہ امریکا اور اس کے اتحادی اب لا محدود طاقت کے مالک ہیں، جس کی بنیاد پر وہ پوری دنیا میں تھانیداری اور داداگیری کر سکتے ہیں۔ ان کے اس غرور اور احساس برتری کا نتیجہ یونانی رزمیوں کے ہیرو کی طرح زوال کی صورت میں نکلا۔
۷۰ کے عشرے میں امریکی طاقت کو شدید دھچکا پہنچا تھا، جب دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ویت نام جنگ میں شکست کے بعد سائیگاؤن میں امریکی نمایندے افراتفری کے عالم میں ہیلی کاپٹروں پر چڑھ کر بھاگ رہے تھے۔ تاہم، اس کا مرکزی حریف سوویت یونین (اشتراکی روس) اس سے بھی زیادہ بُرے حالوں میں تھا اور کچھ عرصے بعد اس کی شکست و ریخت نے مغرب کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع دے دیا۔ اسی تناظر میں پہلی خلیجی جنگ (۱۹۹۱ء) اور سابقہ یوگوسلاویہ میں عسکری دخل اندازی کو ’لبرل دخل اندازی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے بعد ستمبر ۲۰۰۱ء میں نائن الیون کا المیہ ہوگیا اور انسانی کرب اور شرمندگیوں میں ڈوبی شکستوں کی ایک نئی داستان شروع ہوئی۔
افغانستان میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے بعد اگست ۲۰۲۱ء میں طالبان نے اپنی شرائط پر اس طویل جنگ کو ختم کیا، جس سے اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئے، جتنے وہ جنگ سے پہلے تھے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے ۲۰۰۳ء میں کہا تھا کہ ’’عراق پر حملہ سارے شرق اوسط کو جہنم میں دھکیل دے گا‘‘ اور دنیا نے دیکھا کہ پھر یہی ہوا۔ لیبیا کی خانہ جنگی میں نیٹو کی شمولیت سے یہ فتح تو حاصل ہوئی کہ لیبیا کے صدر معمر قذافی کا تختہ اکتوبر ۲۰۱۱ء میں اُلٹ دیا گیا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ آج یہ ملک خانہ جنگی سے تباہ حال ، ناکام ریاست کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اس ساری مہم جوئی کے نتیجے میں صرف مغرب کی عسکری بالادستی کا ہی دھڑن تختہ نہیں ہوا ہے، بلکہ اس دوران عالمی قوانین اور ضابطوں کو جس طرح روندا گیا، اس نے دوسری ریاستوں کو بھی ایک عالمی بدنظمی کی راہ دکھا دی ہے۔ براؤن یونی ورسٹی، امریکا کی تحقیق کے مطابق: ’’نائن الیون کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگوں میں تقریباً ۴۵لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ ان جنگوںمیں ہونے والی خون ریزی اور گوانتانامو بے یا ابو غریب میں ہونے والی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں نے دنیا بھر میں مغرب کے اخلاقی برتری کے دعوے کو بہت نقصان پہنچایا‘‘۔ اس نقصان کو روسی صدر ولادی میرپیوٹن جیسے کچھ لوگوں نے اپنی جارحیت کی دلیل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ میں جاری قتل عام میں اپنے کردار کے ساتھ ساتھ مغرب کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس نے کیونکر وہ حالات پیدا کیے، جن سے پیوٹن جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوکرین پر جارحانہ حملے کی ذمہ داری پیوٹن حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ امریکا بہرحال واحد ریاست نہیں ہے، جو دنیا میں بدامنی اور تباہی برپا کر سکتی ہے۔ لیکن کیا بات یہیں ختم ہو جاتی ہے؟ کیا امریکا اور مغربی دنیا کی جانب سے روس کو برآمد کیا گیا ’نیو لبرل معاشی نظریہ‘ اس تباہی میں حصہ دار نہیں ہے؟ بلاشبہہ پیوٹن ازم نے سرد جنگ کے خاتمے پر روس میں پیدا ہونے والی مایوسی سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک نے ’’Economic Shock Therapy‘‘ کے نام پر روسی معاشی نظام سے بے جا چھیڑچھاڑ کی ہے، جس کا نتیجہ ’’عظیم معاشی بحران‘‘ سے بھی بڑے بحران کی صورت میں نکلا، اور ناقابل برداشت مہنگائی، اوسط عمر میںاچانک کمی اوراشرافیہ کی لُوٹ مار نے روس کو اس حال تک پہنچا دیا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک مستحکم روس، پیوٹن جیسے ڈکٹیٹر کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف اپنا دفاع کر سکتا تھا۔
اس تباہ کن معاشی نظام نے نہ صرف روس کو غیر مستحکم کیا بلکہ مغربی لبرل جمہوریتوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس بے لگام سرمایہ داری نے براہ راست ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کی بنیاد رکھی، جس سے مغرب آج تک نکل نہیں سکا۔ بہت سے مغربی ممالک نے کفایت شعاری کے ایسے منصوبے شروع کیے، جن کا نتیجہ معاشی جمود اور زوال کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ صورتِ حال دائیں بازو کی آمریت کے لیے موزوں ترین سمجھی جا سکتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دائیں بازو کی تحریک شروع ہوئی، جو خود امریکی جمہوریت کے لیے ہی چیلنج بن چکی ہے۔ ساری دنیا میں لبرل جمہوریت زوال پذیر ہے اور آمریت اس کی جگہ لے رہی ہے۔ ایک مثال ہنگری کی بھی ہے جس پر یورپی یونین بہت چیں بہ جبیں ہوتا ہے، لیکن کچھ کر نہیں پاتا۔ یورپ کے اکثریتی ممالک میں انتہائی دایاں بازو واپس آ رہا ہے، جو اس براعظم کے لیے نیک شگون نہیں سمجھا جا سکتا۔
دیوار برلن کے انہدام پر مغربی اشرافیہ کا جشن منانا درست نہیں تھا۔ آج تین عشرے گزرنے کے بعد ان کے غرور کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور دنیا خاک و خون میں غرق ہورہی ہے۔ غزہ کی صورتِ حال مغربی ساکھ کی تباہی کا بدترین خونی استعارہ ہے۔ زیادہ تر دنیا پہلے ہی مغرب کی اخلاقی برتری کے دعوؤں کی حقیقت جان چکی تھی، لیکن اب کی بار واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمارا اخلاقی زوال مکمل ہو چکا ہے، کیونکہ ساری مشرقی دنیا اب اسرائیل کو بچانے والوں سے شدید نفرت کرتی ہے۔
صورتِ حال اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ مغرب کی سابقہ ناکام مہم جوئیوں کا حساب ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ حکومتی وزرا سے لے کر جنگ پر اُکسانے والے تجزیہ کاروں تک، تمام لوگ ہر قسم کے خونی ایڈونچر کے بعد بھی نہ جانے کس طرح اپنی پوزیشن پر موجود رہے ہیں۔ دوسری طرف ان تباہ کن فیصلوں کی مخالفت کرنے والے معاملہ فہم لوگوں کو عزّت کے بجائے رسوائی کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ اگرچہ تاریخ نے انھیں ہر دفعہ درست ثابت کیا،لیکن آج بھی ایسے لوگوں کو بڑی آسانی سے ’شدت پسند‘ یا ’غدار‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ہم چاہتے تو ایک ایسا معاشی نظام تشکیل دے سکتے تھے، جو صرف چند لوگوں کے بینک اکاؤنٹس میں دنیا کی ساری دولت اکٹھی کرنے کے بجائے اس کی عادلانہ تقسیم کا ضامن ہوتا۔ اسی طرح ہم چاہتے تو اسرائیل کے ظالمانہ حملے کی حمایت نہ کر کے اپنی ساکھ کو بچا سکتے تھے۔ صدافسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ یہ گذشتہ چند برس ہمارے لیے بڑے تکلیف دہ اور تھکا دینے والے ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن انتظار کیجیے، زوالِ مغرب کے کئی مرحلے ابھی آنا باقی ہیں۔