کسی تحریک (movement )کا دورانِ سفر اپنے سے یا کسی اور کا اس تحریک سے یہ سوال کرنا کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟___ ایک سادہ لیکن پُر معنی سوال ہے جس کا یہ مفہوم لینا درست نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد، اپنی ساخت اور اپنے طریقِ کار سے غیر مطمئن ہے،یا اس میں کسی انحراف کی بنا پر یہ سوال اُٹھا رہی ہے۔ درحقیقت یہ سوال اس لحاظ سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ وہ جس مقصد اور دعوت کو اپنی بنیاد سمجھتی ہے، اس کے حصول کے لیے اسے مزید کن اقدامات اور کس حکمت عملی کی ضرورت ہے، نیز کن پہلوؤں کو مزید قوی کرنا اور کن پہلوؤں کا اضافہ کرنا ہے؟
اس داخلی احتسابی اور تجزیاتی زاویے سے اگر تحریک اسلامی کے نصب العین، مقصد اور حکمت عملی پر ایک نظر ڈالی جائے، تو وہ دیگر سیاسی، معاشی ،ثقافتی ،مذہبی تحریکات سے بنیادی طور پر مختلف نظر آتی ہے۔گو، ان میں سے بعض اختلافات اتنے شدید نہیں کہے جا سکتے جنھیں سیاہ اور سفید کی طرح مکمل طور پر مختلف کہا جاسکے۔
یہ سوال کہ تحریک کیا ہے اور کیا نہیں؟ ہر انتخابی نتیجے کے بعد اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ ہر قومی انتخاب کے بعد صحافتی حلقوں میں اور خود کارکنوں میں اس سوال پر گفتگو کا پایا جانا حیران کن نہیں کہا جا سکتا اور انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی معاملہ توقع کے برعکس نظر آئے، تو ہر ذی فہم شخص اس کے اسباب کو تلاش کرنا چاہتا ہے تاکہ آیندہ کامیابی کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر سکے۔
اقامتِ دین کی دعوت وجدوجہد تمام انبیائے کرام ؑ کا اسوہ ہے۔ قرآن کریم ان کی دعوت کا مرکزی مضمون اطاعت الٰہی اور طاغوت سے اجتناب کو قرار دیتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶)’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘ ۔
قرآنی زبان میں اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ ،انتہائی مختصر الفاظ میں نہ صرف انسان کے مقصد وجود کو بلکہ دنیا میں مسلمان کے مشن اور طرزِ حیات کو دوٹوک انداز سے پیش کردیتے ہیں۔ یہاں بات یہ کہی گئی کہ سوچ سمجھ کر اس کی بندگی اختیار کرو، جو تمھارا اور ساری کائنات کا خالق ہے۔ اور جو طاغوتی ادارے اور افراد ،تکبر اور غرور کی بنا پر خود کو کوئی چیز سمجھتے ہیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتو بلکہ ان کی جگہ حقیقی خالق کی حاکمیت کو قائم کرو۔ یہ تمام باتیں محض دو الفاظ میں بیان کرنا درحقیقت قرآن کریم ہی کا اعجاز ہے۔
اس نصب العین کے حصول کے لیے انبیائے کرام ؑ نے خصوصاً خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نےاقامتِ دین کے لیے اللہ کے احکامات کو جوں کا تو ں، اسی شکل میں کہ جس میں وہ نازل ہوئے پہنچا کر افرادِ کار کی تعمیرِ سیرت یا تزکیہ کے کام کو انتہائی حکمت کے ساتھ سرانجام دیا، اور اس منہجِ دعوت کو سمجھ کر اختیار کرنے والوں کے لیے اقامت ِدین کے فریضے کو لازمی قرار دیا۔گویا اقامت ِدین دعوتِ الی القرآن اور اصلاح و تعمیر سیرت کو علیٰ منہاج النبوۃ حکمت و دانش کے ساتھ سرانجام دینے کا نام ہے۔
قرآن کریم واضح الفاظ میں یہ تعین کر دیتا ہے کہ اقامتِ دین ہی وہ فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے انبیائے کرامؑ اور امت مسلمہ کو برپا کیا گیا:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اور اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو(اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ ) اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ ۔
یہاں قرآن کریم نے ایک عبد کی حیثیت سے اللہ کی بندگی کی اُس سنت کو جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے قائم کی تھی، اُمت مسلمہ کے حوالے سے اقامتِ دین سے تعبیر کیا جس کی ہدایت اور وصیت سیّدنا ابراہیم ؑ سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو کی تھی۔ اقامتِ دین کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر دیتا ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو سیدھا کر دیا جائے یعنی اس کی اصل حالت پر واپس لے جایا جائے۔ چنانچہ سورۂ کہف میں حضرت موسٰی اور حضرت خضر ؑ کے قصے میں دیوار کو سیدھا یا درست کر دینے کے لیے یہی اصطلاح استعمال ہوئی: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ۰ۭ ۖ(الکہف۱۸:۷۷)۔
اس کا دوسرا مفہوم بھی قرآن ہی واضح کرتا ہے یعنی کسی عمل کو جیسا کہ اس کا حق ہے ادا کیا جائے۔ مثلاً اقامتِ صلوٰۃ اسی وقت صحیح طور پر ہوگی جب صلوٰۃ کو اس کی ظاہری اور باطنی شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔چنانچہ اقامتِ دین کا قرآنی مفہوم یہ ہوگا کہ دین کو اس طرح قائم کرنا جیساکہ اس کا حق ہے اور جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی، حضرت عیسٰی ؑاور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کو عملاً قائم کر کے اس کا حق ادا کر کے دکھایا: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸ۭ (الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
اس قرآنی پس منظر میں دیکھا جائے تو اقامتِ دین کی تحریک حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا ؑ کا مقصد اور مشن رہا ہے، جس کا اظہار بار بار قرآن کریم نے صلوٰۃ کی اقامت کے الفاظ میں کیا ہے۔ نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے قیام کو قرآن نے ریاست اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری میں شامل کیا ہے: اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج۲۲:۴۱) ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
دین کو جیساکہ اس کا حق ہے قائم کرنا اور اس کے بنیادی ارکان صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا قیام جن کا تعلق نہ صرف تزکیۂ نفس اورتزکیۂ مال کے ساتھ ہے، بلکہ معروف کے قیام کی جدوجہد اور منکر کو مٹانے کے لیے ذرائع کا استعمال میں لانا اقامتِ دین کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں اگر زمین میں قوتِ نافذہ (تمکین )کے حصول کا مقصد وہ ہے جو یہاں بیان کیا گیا یعنی اقامتِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ کا قیام اور اچھائی اور خیر کا حکم دینا اور برائی اور منکر سے روکنا تو اقامتِ دین ہے، اور اگر زمین میں اختیار و اقتدار اس لیے مطلوب ہے کہ ذاتی فائدہ ، شہرت حاصل ہو تو یہ دنیا طلبی اور دنیا پرستی ہے۔
عصر حاضر میں تحریک اسلامی کی دعوت اور جدوجہد کا محرک یہی اقامتِ دین کا قرآنی حکم ہے۔ کیونکہ امت مسلمہ کو جو عالمگیر ذمہ داری اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تفویض فرمائی ہے وہ دین کو مجموعی طور پر قائم کرنا اور طاغوت کی حاکمیت کو مٹانا ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے اجتماعی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے اور تحریک اسلامی کے قیام کا مقصد اس اجتماعی جدوجہد کے لیے افرادِ کار کی تیاری اور ان کی سیرت سازی ہے۔
قرآن کریم دین کی جامع اصطلاح سے مکمل دین مراد لیتا ہے۔ وہ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں کسی جزوقتی مومن کی گنجایش نہیں پائی جاتی کہ جمعہ کے دن پاک صاف ہو کر اللہ کی کبریائی ، عظمت و حاکمیت کا اقرار کرے اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کہیں مال کا بندہ ہو، کہیں شہرت کا ، کہیں برادری اور کہیں اپنی پارٹی کا۔ مجموعی عبودیت سے مراد وہ طرزِ حیات ہے جس میں اللہ کی بندگی کو زندگی کے تمام معاملات میں شعوری طور پر اختیار کر لیا جائے۔ اس لیے اقامتِ دین کی جدوجہد بھی اس کوشش کا نام ہے جس میں کلّیت ہو اور دین کے کسی جز وکی نہیں بلکہ مکمل دین کا قیام مقصود ہو، اور اس طرح مقصود ہو جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک مثالی معاشرہ اور ریاست قائم کر کےدین کی اقامت کی مثال پیش فرمائی۔
جن تحریکات اسلامی نے اپنا دعوتی اور سیاسی کام الگ کرنے کا تجربہ کیا ان کے معروضی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جہاں یہ تجربہ کیا گیا اور اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جن کے پیش نظر اسے کیا گیا تھا، بلکہ اس سے ذہنی خلفشار میں اضافہ ہی ہوا۔ زمینی حقائق یہ اشارہ کرتے ہیں کہ تحریک اسلامی کا اصولی اور عملی موقف یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو دو الگ دائروں میں تقسیم نہ کرے۔ اس کا سیاسی عمل بھی دعوتی اسلوب اور حکمت عملی پر مبنی ہوگا تو وہ اپنی فکری وحدت کو برقرار رکھ سکے گی، ورنہ سیاسی معاملات میں لبرل بننے کی تمنا اسے اصل دعوتی، اصلاحی اور تربیتی مقصد اور راستے سے غیر محسوس طور پر دور بلکہ منحرف کرسکتی ہے۔
دین ایک وحدت اور اکائی ہے۔ یہ عقائد ،انفرادی اور اجتماعی معاملات، معاشی ،سیاسی، قانونی دائروں میں حاکمیت الٰہی کے نفاذ کے ذریعے وحدت پیدا کرنے کا نام ہے۔ الہامی اصول و اخلاق ہر شعبۂ حیات میں یکساں طور پر نافذ کیے جائیں گے تو فرد، معاشرہ اور ریاست میں توازن و اعتدال ہوگا۔ ان اجزاء کو یا ان میں سے کسی ایک جزکو جب بھی الگ کیا جائے گا، انجام تصورِ دین سے دُوری ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں جب سے ’توحیدی وحدت‘ کی جگہ ثنویت ، دو رنگی (Dualism) نے لی اور دین و سیاست دو الگ خانوں میں تقسیم ہوئے، وہ مرکزِ وحدت سے دُور ہوتے گئے اور روحانیت کے نام پر ایک الگ دنیا اور سلطانی نظام کے نام پر ایک دوسری دنیا پروان چڑھی جس نے وحدتِ دین کے مظاہر اور اُمت کے وجود تک کو تقسیم کردیا۔
تحریک اسلامی کا انقلابی کردار اس حوالے سے یہی ہے کہ اس نے دین کی ناقابلِ تقسیم وحدت کو دوبارہ زندہ کیا اور امت کی فکری قیادت کی۔ تحریک کا اصل مسئلہ اہداف میں توازن ہے۔ دینی حکمت عملی میں کسی ایک جزو کو الگ کر کے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
l تحریک اسلامی کیا نہیں ہـے: عام طور پر مذہب کے نام پر جو جماعتیں وجود میں آتی ہیں، وہ کسی مذہبی مسلک سے اپنی وابستگی کو اپنی بنیاد بناتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نام ہی فقہی مذہب یا مسلکیت کو ظاہر کرتے ہیں اور ایک لحاظ سے اس کی ممبرشپ اس مسلک تک محدود سمجھی جاسکتی ہے۔
جماعت اسلامی یا تحریک اسلامی کا قیام کسی مذہبی مسلک کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا بلکہ اس میں ہر دینی مسلک کے افراد شامل ہو سکتے ہیں اور شامل رہے ہیں۔ گویا یہ صحیح معنوں میں دینی جماعت کہی جانے کی مستحق ہے اور یہ اس کا امتیاز ہے۔
تحریک اسلامی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس کی بنیاد نہ لسانی ہے، نہ علاقائی عصبیت پرہے اور نہ موروثیت پر، بلکہ یہ تمام مسلمانوں کو جو قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوں،ایک اخلاقی اجتماعیت میں متحد کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد پر قائم ہے،جس کے حصول اور تحفظ کے لیے لاکھوں مسلمانانِ ہند نے اپنی جان و مال اور عزّت کی قربانی دی تھی۔ جماعت اسلامی بانیان پاکستان کے اسلامی تصورِ پاکستان کے نفاذ کو اپنی سیاسی جدوجہد کا مقصد قرار دیتی ہے۔ اس لیے یہ ایک نظریاتی جماعت ہے،جس کا ایک واضح سیاسی اور دستوری کردار ہے۔
تحریک اسلامی روزِ اوّل سے خفیہ طریقِ کار اور قوت کے استعمال سے تبدیلی لانے کے عمل کو غلط سمجھتی ہے، اور اپنے دستور اور منشور میں وضاحت سے یہ بات دہراتی ہے کہ وہ پُرامن دستوری جدوجہد کی پابند ہے۔ اس زاویے سے تحریک اسلامی شدت پسند جماعتوں کی تعریف میں نہیں آتی۔ بلکہ جمہوری دستوری ذرائع کے لحاظ سے یہ واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس میں باقاعدگی کے ساتھ بغیر کسی انتخابی مہم کے ارکان آزادانہ رائے کا استعمال کر کے اپنے امیر اور شوریٰ کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی اور سیاسی جماعت میں اس طرح کی شفافیت نہیں پائی جاتی۔
تحریک اسلامی ندوۃ المصنّفین کی طرح کی کوئی علمی و تحقیقی جماعت نہیں ہے، لیکن اس کا ایک بنیادی مقصد دین کے فہم کو فکری اور نظری بنیادوں پر دورِ جدید کے تناظر میں عام کرنا ہے۔ یہی وہ اعلیٰ مقصد تھا جس کے لیے مارچ ۱۹۳۳ء میں مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کا اجرا کیا اور بعد میں پٹھان کوٹ میں ایک علمی ، فکری اور تحقیقی ادارہ قائم کیا، تاکہ دین کی تعلیمات کو جدید نسل تک پہنچایا جاسکے۔ لیکن اس سب کے باوجود جماعت اسلامی محض ایک علمی یا فکری ادارہ نہیں ہے۔ یہ اہم کام اس کی دعوتی ترجیحات کا اوّلین اور لازمی حصہ ہے، کیوں کہ وہ دین کی تعلیمات کو براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر عام فہم انداز میں پیش کرتی ہے۔
تحریک اسلامی دین کی کلّی تعبیر کی قائل ہے یعنی یہ دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں کرتی اور اقامتِ دین کو اس وقت مکمل سمجھتی ہے ،جب ایک مسلمان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور طاغوت سے مکمل نجات پائی جائے۔ اس لحاظ سے یہ اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔
ان چند ابتدائی گزارشات کی روشنی میں انتخابات کے نتائج کو اگر دیکھا جائے تو جماعت کے کارکن ہوں یا ہمدرد، سب کے ذہنوں میں جو سوالات گردش کرتے ہیں، ان پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات اس سلسلے میں یہ کہی جاتی ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے دینی تشخص اور سیاسی کردار میں تقسیمِ کار پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا ایک سیاسی ونگ ہو جو سیاسی مسائل کی بنیاد پر عوامی حمایت حاصل کرے، اور ایک دینی ونگ ہو جو دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے۔
اس سوال پر اقامتِ دین کے حوالے سے غور کیا جائے تو اقامتِ دین اس کلّی طرز عمل کا نام ہے، جس میں سیاسی اور غیر سیاسی کی تقسیم کرنا عملا ًناممکن ہے۔ اگر گھر گھر جا کر دعوت دین پیش کی جا رہی ہو، تو اس کا مقصد محض دینی معلومات نہیں ہو سکتیں۔ اس کے اثرات معاشرتی اور سیاسی سطح پر ہونے لازمی ہیں۔ اس لیے یہ دانش ورانہ تقسیم نظری تو ہو سکتی ہے عملاًممکن نہیں۔ اس تناظر میں اقامتِ دین کی دعوت کا مقصد خود بانی ٔ جماعت سیّد مودودی کے الفاظ میں صرف تین نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں اُن کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اُس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے اُس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے، یا بنا ہے، تو مخلص مسلمان بنے، اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فُساق و فُجار کی رہنمائی اور قیادت و فرماںروائی میں چل رہا ہے اور معاملاتِ دُنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔(روداد جماعت اسلامی، سوم،ص ۵۶-۵۷)
گویا سیاسی اور خالص دعوتی اور تبلیغی کام کی تقسیم تحریک اسلامی کے قیام کے تصور سے مناسبت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی تحریک نہیں جس نے محض سیاسی مقاصد کے لیے مصلحتاً ایک مذہبی لبادہ اُوڑھ لیا ہو اور نہ اس کے مزاج میں خانقاہ اور تزکیۂ نفس کا یہ تصور ہے کہ ایک فرد کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر روحانی ترقی کے زاویے میں محدود کر دے۔ بلکہ یہ فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح و تربیت کے ذریعے نظام زندگی سے طاغوت کو خارج کر کے معیشت ،سیاست، معاشرت، عدلیہ، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات کو اللہ کی بندگی میں لانے کی دعوت دیتی ہے۔
تحریک کے قیام کا ایک بڑا محرک بر صغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات تھے۔ یہ بات واضح ہو کر سامنے آر ہی تھی کہ جلد ملک کو تقسیم ہونا ہے اور ایک نیا خطۂ ارض اسلامی ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔ انگریز کی غلامی سے آزادی کے بعد مسلم لیگ جو اس وقت مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی ، قیادت کی سطح پر بالعموم ایسے افراد پر مشتمل تھی، جو اس عظیم کام کے لیے نہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ان کا علمی اور ثقافتی پس منظر اس ذمہ داری میں مددگار ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر ملک کو اسلامی نظریۂ حیات کی بنیاد پر چلانا اور یہاں پر اسلامی نظام نافذ کرنا حصولِ پاکستان کا مقصد تھا، تو اس کے لیے وہ افرادِ کار کہاں تھے، جو اس خواب کو عملی شکل دے سکیں؟ یہی وہ فکر تھی جس نے قائد تحریک اسلامی مولانا مودودی کو ایسے صالح افراد کی تلاش اور ایک ایسی جماعت کے قیام پر اُبھارا، جو وجود میں آنے والے نئے ملک کے لیے اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل منتظمین اور کارکنان فراہم کر سکے۔ یہ ایک نئے انسان کی تلاش تھی، جو ایمان دار، دیانت دار، سچا، ایثار و قربانی کرنے والا اور بے غرض ہو۔ جسے اقتدار کی ہوس نہ ہو اور جو اپنے رب کی رضا کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو اور قیادت کی مطلوبہ صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
قیامِ پاکستان سے قبل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی ڈھرّے پر لگادینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں عوام میں عمومی تحریک (Mass Movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دُوہرےفرائض کو سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلادینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر ایسے صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کر عوام کے لیے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی۔( روداد جماعت اسلامی، اوّل،ص ۹۸)
ان صالح افراد کی تلاش کے ساتھ تحریک کو درپیش چیلنج یہ تھا کہ ان افراد کی فکری اور عملی تربیت اور سیرت سازی کی جائے تاکہ ملک میں اخلاقی تبدیلی کا آغاز ہو سکے۔ آج جو صورتِ حال ملک میں پائی جاتی ہے، وہ بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان صالح نوجوانوں کو جو سرکاری اداروں پر اعتماد کھوچکے ہیں اور جن کے سامنے سوائے احتجاج کے اور کوئی منزل نہیں ہے۔ انھیں ہنگامہ آرائی کی جگہ اپنی فکر اور شخصیت کو قرآن و سنت میں ڈھالنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انھیں ایک تنظیم میں لاکر ان کی صلاحیتوں کو ترقی دی جائے اور تعمیری فکر ، مثبت رویہ اور پُرامن دستوری ذرائع کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کی جائے۔
یہ کام دیر طلب ہے، استقامت اور صبر سے کرنے کا ہے۔ یہ محض نعروں سے نہیں ہو سکتا۔ تحریکی افراد کو اپنے سنجیدہ اور متاثر کن کردار سے اسے کرنا ہوگا۔ ہر تحریکی کارکن کا علم مغربی اور اسلامی فکرو ثقافت میں دوسروں سے بڑھ کر ہونا چاہیے تاکہ وہ علمی اور عملی طور پر خود ایک نمونہ ہوں اور نوجوانوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ یہ کام صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرنا ہوگا۔
ہمیں ایسے افراد کو تیار کرنا ہے جو نہ صرف علم بلکہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ عالمی معاشی نظام، سیاسی فکر ہو یا معاشرتی تصورات ،وہ جدید علوم اور اسلامی مصادر سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت کی علمی تربیت اور کردار سازی کے بغیر عوام کے ایک ہجوم کو چند جذباتی نعروں کے ذریعے جمع کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اصل کرنے کا کام دعوت و اصلاح و تربیت ہے۔ جس کے مطلوب انسانی اور مالی وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔ دیر پا کلّی اخلاقی انقلاب کے لیے دعوتی ترجیحات میں توازن پیدا کرنا ہوگا، اور اوّلین نکات کو اوّلیت دینی ہوگی۔ تطہیر فکر، تعمیر سیرت ،تنظیم، انسانی وسائل کو مستحکم کیے بغیر سیاسی جدوجہد اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتی۔ عوام کی نگاہ میں متبادل (choice) بننے کے لیے سیرت و کردار سازی ہی وہ عنصر ہے جو تحریک کو ممتاز اور قابل اعتماد بنا سکتا ہے۔ سیاسی جلسے اور جلوس رائے عامہ کی تشکیل کے لیے ناکافی ہیں۔
دوسرا اہم محاذہمارے اپنے گھر ہیں۔گذشتہ چند برسوں میں تحریکی گھرانے بھی سیاسی معاملات میں تقسیم ہو گئے اور بہت سے تحریکی گھرانوں کے نوجوانوں نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خاندان کی اکائی کو بحال کیا جائے اور اس عمل میں حق کی حمایت، لاقانونیت اور غیرجمہوری اقدامات کی کھل کر مخالفت کی جائے تاکہ تحریک کے سیاسی عدم تعصب ، عادلانہ روش ، صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت اور کسی ادارے سے خائف یا پیروی کرنے کے منفی تاثر کو دُور کیا جا سکے اور اس کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے آسکے۔
پابندیوں اور غیرمنصفانہ کارروائیوں پر ردعمل:تحریک اسلامی ایک مثبت اور پیش قدمی کرنے والی تحریک ہے۔ اس کا کام رد عمل کے طور پر کام کرنا نہیں ہے۔ اسے اصول کی بنیاد پر ہی تنقید کرنا ہے، اور تنقید میں عدل و توازن کا دامن پکڑے رکھنا ہے۔اپنے قول اور عمل میں مثبت اور تعمیری رویے کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات کے پیش نظر نوجوانوں میں شدت سے انتظامیہ کے خلاف رَدعمل پایا جاتا ہے۔ اس کی فوری اصلاح اور اس قوت کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف جماعت اسلامی کرسکتی ہے۔ اس کے پیش نظر ہر شہر میں ایسے تعمیری منصوبے شروع کرنے ہوں گے، جو نوجوانوں کو تعمیری کاموں میں مصروف کریں۔ ان کی عملی تربیت معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل تلاش کرنے کا ذریعہ ہو اور وہ مثبت فکر اختیا ر کر سکیں۔