عربی زبان کے لفظ’ دعوۃ‘ کا سادہ مفہوم پکارنا، بلانا اور دعوت دینا ہے۔قرآن مجید میں یہ لفظ بنی نوع انسان کو اُس سچائی یا سیدھے راستے کی طرف بلانے یا دعوت دینے کے لیے استعمال ہوا ہے، جو انسانوں کے مالک اور خالق نے ان کے لیے متعین کیا ہے۔ قرآن میں ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو‘‘۔ البتہ اس اہم کام کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کچھ دیگر اصطلاحات بھی قرآن میں اکثر مقامات پر استعمال ہوئی ہیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ(البقرہ ۲:۱۴۳) تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔
لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۰ۚۖ (الحج ۲۲:۷۸) تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِيْنٌ۶۸ (الاعراف ۷: ۶۸) اور تمھارا ایسا خیرخواہ ہوں، جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔
وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ (ھود ۱۱:۳۴ ) اب اگر میں تمھاری کچھ خیرخو اہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۭ (المائدہ ۵: ۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ط (الانعام ۶: ۱۹) اور یہ قرآن میری طرف بذریعۂ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمھیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کردوں۔
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ (احزاب ۳۳: ۴۵) اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ۲ (النحل ۱۶: ۲) (لو گوں کو) آگاہ کردو، میرے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔
فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى۹ۭ (الاعلٰی ۸۷: ۹) لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو۔
لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُـجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ (النساء ۴: ۱۶۵) تاکہ ان رسولوںؑ کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔
لوگوں کو اللہ کے احکام کی اطاعت کی نصیحت یا تبلیغ کرنا اور بدی کی ان تمام طاقتوں کی ساری بُری ترغیبات کا مقابلہ کرنا، جن میں شیطان، ظالم حکمران، ظالم حکومتیں، گروہ، پارٹیاں اور اس کے علاوہ خود اپنا نفسِ امّارہ شامل ہے۔
بنی نوع انسان کے درمیان سچائی کے پیغام کو پھیلانا۔
حق و صداقت کے قبول کرنے سے سامنے آنے والے ان مثبت نتائج کی بشارت دینا جو دُنیا و آخرت دونوں میں حاصل ہوں گے۔
لوگوں کو اس خدائی ہدایت کے رَد کردینے یا اسے محض نظرنداز کردینے کے فوری اور دُور رس منفی نتائج سے آگاہ کرنا۔
لوگوں کو اس بھولی ہوئی حقیقت کی یاد دہانی کراناکہ اس زندگی میں کامیابی اور آخرت کی نجات صرف اللہ کے بتائے ہوئے نظامِ حیات پر عمل کرنے ہی پر منحصر ہے۔
سچائی کے پیغام کو اس حد تک لوگوں کے ذہن نشین کرانا کہ کوئی شخص جو اس پیغام کے بارے میں بے پروائی برتتا ہے وہ بھی اس بہانے کی آڑ نہ لے سکے کہ وہ اس پیغامِ الٰہی سے ناواقف تھا۔