کہتے ہیں کہ جنگل میں چڑیوں کا ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں پورے جنگل کی چڑیاں شریک تھیں۔ ایک طرف کھانا پکانے کی ذمہ دار چڑیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ سب کے لیے کھانا پکانے میں بہت محنت لگتی ہے۔ دوسری طرف چڑیوں کے ایک گروہ کا خیال تھا کہ اصل محنت تو ہماری ہوتی ہے کہ ہم دن بھر اپنی جان خطرے میں ڈال کر کھانے کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اس دوران میں ایک چڑیا کو انوکھا خیال سوجھا۔ اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک اُلو ہونا چاہیے، جو ہمارے سارے کام کرے۔ ہمارے گھونسلے بنانے سے لے کر کھانا پکانے تک، بچوں کی تربیت سے لے کر ہماری حفاظت تک ساری ذمہ داریاں اسی اُلو کی ہوں گی، تو ہمیں کچھ کرنا نہیں پڑے گا اور یوں ہم زندگی کو صحیح معنوں میں بسر کرسکیں گے۔ یہ رائے سن کر ساری چڑیاں خوش ہوگئیں۔ سب نے اس رائے کی تائید کی سوائے ایک بزرگ چڑیا کے۔ اس بزرگ چڑیا کا کہنا تھا کہ ’’اُلو کو لانے سے پہلے ہمیں اُلو کو قابو کرنا اور اپنا اطاعت گزار بنانا سیکھنا چاہیے۔ کہیں وہ اُلو ہماری سلطنت پر قبضہ کرکے خود ہمیں ہی اپنا غلام نہ بنالے اور پھر کہیں یہ ہمارا اختتام ہی نہ بن جائے‘‘۔
مگر اکثر چڑیوں کے خیال میں یہ ایک مشکل کام تھا، اس لیے زیادہ تر چڑیاں اُلو ڈھونڈنے نکل گئیں۔ اس بزرگ چڑیا کے ساتھ صرف دو چڑیاں رہ گئیں، جنھوں نے اُلو کو اپنا فرماںبردار بنانے کے طریقے سوچنے شروع کردیے۔ مگر کچھ ہی دیر میں ان دو چڑیوں کو بھی یہ سمجھ آگیا کہ یہ مشکل کام اُلو کی غیر موجودگی میں تو ناممکن ہے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ جب اُلو آجائے گا، تب ہی اس کو اطاعت گزار بنانے کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیں گے۔
اس کہانی کا اختتام کیا ہوا؟ یہ کسی کوبھی نہیں پتہ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں چڑیوں نے اُلو کے آنے کے بعد اس کو قابو کرنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا اور یوں ان کی ساری مشکلات آسان ہوگئی تھیں ،اور کچھ لوگوں کے خیال میں اُلو کے آنے کے بعد چڑیاں اس کو قابو نہ کرسکیں اور اُلو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تمام چڑیوں کو اپنا غلام بنالیا، یعنی کہانی کا اختتام سنانے والا کوئی بھی نہیں بچا۔
آج ٹکنالوجی کے جس دور میں ہم جی رہے ہیں انسانیت کو بھی یہی سوال درپیش ہے۔ جہاں ہر بندہ کہہ رہا ہے کہ آنے والا دور ’مصنوعی ذہانت‘ (Artificial Intelligence - AI)کا ہوگا۔ بہت سارے لوگ اس کے خطرات کو نظرانداز کرنے کو ایک بھیانک غلطی کہہ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ انسانیت کی ترقی میں ایک اہم قدم ہے، تو کچھ اس قدم کو آخری انسانی غلطی بھی کہہ رہے ہیں۔
کیا ہم انسان واقعی ’مصنوعی ذہانت‘ کو اس کی معراج پر پہنچا سکیں گے، جہاں ہمارے سارے کام ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذمے ہوں گے یا پھر اس کہانی کا اختتام بھی بالکل اسی طرح کسی کو کبھی معلوم نہ ہوسکے گا، جیسے ان چڑیوں کا انجام، کہ جو اُلو کو ڈھونڈنے اور اس کو سدھانے نکلی تھیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے اور اس کے انسانی زندگی اور مسلم معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اگلی سطور میں اس پر گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں:
یورپ میں نشاتِ ثانیہ کی بہت سی اہم بحثیں کائنات، انسان اور انسان کی اس دنیا میں موجودگی، زندگی اور اس کی وجوہ کے گرد گھومتی ہیں۔ جہاں بہت سے فلاسفر حضرات انسانی وجود کے بارے میں مختلف نظریات پیش کررہے تھے، وہیں بہت سے ماہرین ریاضی اور سائنس دان اپنے مقالات کے ذریعے کائنات، زندگی اور مادہ سے متعلق مختلف رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوششوں میں لگے تھے۔ فلسفہ، حساب اور سائنس کے اس ملاپ نے جدید دنیا کی تشکیل میں مدد تو کی مگر جلد ہی عملی سائنس، فلسفے پر حاوی ہوگئی۔ انسانیت نے فلسفے کی خیالی باتوں پر سائنس کی محیرالعقل ایجادات کو ترجیح دینا شروع کی، اور یوں مغرب سے مادیت کا ایک ایسا نیا طوفان اُٹھا، جس نے جلد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس طرح وہ ساری بحثیں جو کائنات کی حقیقت جاننے کے لیے شروع ہوئیں تھیں، جلد ہی کائنات کو فتح کرنے کی عملی کوششوں میں تبدیل ہوگئیں۔ انسان جس کا خود اپنا وجود ہی فلسفیوں کے لیے ایک سوال تھا، اب ایسی مشینیں بنانے میں لگ گیا، جو دنوں کا کام گھنٹوں میں انسان سے بہتر انداز میں کرنے لگ گئیں۔
پھر یہ سوال اٹھا کہ کیا ہم ایسی کوئی مشین بھی بناسکتے ہیں، جو ہماری طرح سوچنا اور ہماری طرح کام کرنا شروع کردے ؟ ویسے تو بعض لوگوں کے نزدیک انسان کی یہ خواہش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ کام نہ کرنے کی خواہش، مگر کمپیوٹر کی ایجاد نے انسان کا صدیوں پرانا یہ خواب دوبارہ جگادیا۔
’مصنوعی ذہانت‘ (AI)ایسی مشینوں کی تیاری کو کہتے ہیں، جو وہ کام کرسکیں جن کو عام طور پر کرنے کے لیے انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو دیکھ کر یا اس کی آوازکو سن کراس کو پہچان لینے کی صلاحیت، فیصلہ سازی کی صلاحیت، یا دو مختلف زبانوں میں ترجمے کی صلاحیت وغیرہ۔ ان مشینوں کو مخصوص موضوع پر مواد یا ڈیٹا دیا جاتا ہے اور اس مواد یا ڈیٹا میں مماثلت یا پیٹرن ڈھونڈ کر یہ مشینیں خود کو اس قابل بناتی ہیں کہ اگر ان کو اسی قسم کا مختلف مواد ملے تو وہ اس کو پہچان سکیں۔مثلاً اگر ایک مشین کو بہت سارے مرد اور عورتوں کی تصاویر دکھائی جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ یہ ایک جوان ایشیائی مرد کی تصویر ہے، یا یہ ایک بوڑھی ہسپانوی خاتون کی تصویر ہے، تو وقت گزرنے کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ مختلف تصویروں کو پہچان کر یہ مشینیں اس قابل ہوجاتی ہیں کہ جب ان کو دوسری مگر مختلف تصاویر دکھائی جائیں تو وہ ان کو صحیح طور پر پہچان لیتی ہیں۔
اب آپ ان مشینوں کو جتنی زیادہ تصویروں کی پہچان کروائیں گے، یہ مشینیں اتنے ہی بہتر طریقے سے یہ فیصلہ کرسکیں گی کہ دکھائی جانے والی تصویر کسی نوجوان امریکی مرد کی ہے یا کسی افریقی خاتون کی؟ ان مشینوں کو مواد یا ڈیٹا کی فراہمی کا عمل ’مشین لرننگ‘ کہلاتا ہے اور نتیجے میں ہمیں ایک ایسا تربیت یافتہ ڈیٹا ماڈل ملتا ہے، جو ایک مخصوص کام کرسکتا ہے۔ مثلاً ایک ڈیٹا ماڈل اگر انسانوں کو پہچان سکتا ہے تو دوسرا ماڈل جانوروں یا جگہوں کی پہچان کرسکتا ہے۔ آپ ایک زیادہ ذہین ڈیٹا ماڈل بھی بناسکتے ہیں، جو انسانوں کے ساتھ ساتھ مختلف جانوروں اور چیزوں کو الگ الگ پہچان سکے۔ اسی طرح آپ ایک مشین کو مختلف زبانوں کی لغت یا ڈکشنری دے کر ایسا ڈیٹا ماڈل تیار کرسکتے ہیں جو دی گئی تحریر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرسکے۔
کمپیوٹر کی ایجاد نے جہاں ’مصنوعی ذہانت‘ کے لیے دروازے کھولے، وہیں انٹرنیٹ کی ترقی نے ڈیٹا ماڈلز کی تیاری کے کام کو بہت آسان کردیا۔ اب کوئی بھی گھر بیٹھے ایسے ڈیٹا ماڈلز تیار کرسکتا ہے جو کوئی بھی مخصوص کام نہایت ہی سرعت کے ساتھ سرانجام دے سکیں۔ کچھ لوگ اس ترقی کو ’صنعتی انقلاب‘ کی توسیع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یعنی جس طرح صنعتی انقلاب نے خودکار مشینوں کو عام کردیا تھا اور وہ کام جو کئی انسان مل کر کئی دنوں میں کرتے تھے مشینوں نے کچھ گھنٹوں میں کرنے شروع کردیئے تھے۔ اسی طرح ’مصنوعی ذہانت‘ سے جدید ترین مشینیں وہ کام کرسکتی ہیں جو اَب تک مشینیں نہیں کرسکتیں تھیں اور ان کے لیے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
مثلاً معاشروں میں امن و امان اور نظم و ضبط برقرار رکھنا اب تک سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے بعد کسی بھی نظم و نسق کی بگڑتی صورتِ حال کو قابو کرنا پہلے کے مقابلے میں کافی آسان ہوگیا ہے۔ پہلے انسانوں کے ساتھ پہرے دینے کا کام کتّے کرتے تھے، تو اب ان کی جگہ سی سی کیمروں نے لے لی ہے اور ہم اپنے دفتر میں بیٹھ کر اپنے گھر پر آنے والے کو دیکھ لیتے ہیں۔ مگر ’مصنوعی ذہانت‘ اس سب سے بھی آگے بڑھ کر کام کرتی ہے۔ مثلاً ایسے ڈیٹا ماڈلز بن گئے ہیں، جو حالات خراب ہونے سے پہلے ہی بتاسکتے ہیں کہ کس جگہ حالات خراب ہونے والے ہیں، یا کون، کب اور کہاں کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے؟
اسی طرح پہلے آپ کو اپنے کسی بینکنگ کے مسئلے کے حل کے لیے بینک جانا پڑتا تھا۔ پھر ٹکنالوجی کی ترقی نے یہ کام آسان کردیا اور ہم کال سینٹر پر فون کرکے اپنے مسائل حل کروانے لگے۔ لیکن جس کال سینٹر پر ہم کال کرکے اپنے بینک کے مسئلے کو حل کرتے ہیں، وہاں پر موجود افرادی قوت کی تربیت، تنخواہ اور دوسری چیزوں پر کافی پیسہ خرچ ہوتا تھا۔ پہلے تو اس کا حل یہ نکلا کہ امریکا اور یورپ میں مختلف کمپنیوں نے اپنے کال سینٹرز بند کرکے ایسے ایشیائی ممالک میں کھول لیے جہاں سستی افرادی قوت موجود تھی۔ مگر اب ’مصنوعی ذہانت‘ نے یہ کام اور بھی زیادہ آسان کردیا ہے اور اب ایسے ڈیٹا ماڈل سے تربیت یافتہ ’چیٹ باٹس‘ آگئے ہیں جو انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ گویا پہلے اگر ایک شخص اپنے بینک کے کال سنٹر پر کال کرتا تھا تو اسے یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کی کال کا جواب دنیا کے کس کونے سے ملے گا، تو اب اس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ اس کی کال کا جواب دینے والا کوئی انسان ہی ہے یا پھر کوئی مشین، جس کو اسی کام کے لیے تربیت دی گئی ہے۔
بظاہر تو ایسا ہی نظر آتا ہے کہ یہ ترقی بالکل صنعتی ترقی کی ہی طرح ہے، یعنی کچھ ملازمتیں ختم ہوں گی تو کچھ نئی پیدا ہوجائیں گی۔ مگر یہ سب اتنا سادہ بھی نہیں۔ جب صنعتی انقلاب نے زندگی کے شعبہ جات میں ہنرمندوں کی ضرورت کم کردی، تو اس کا نتیجہ خاندانی منصوبہ بندی کی صورت میں نکلا اور حکومتی سطح پر آبادی کو کم کرنے کے پروگرام شروع کردیے گئے۔ کیونکہ جو وسائل انسانی بہبود پر لگ رہے تھے، اس سے کہیں زیادہ وسائل خودکار مشینوں کی تیاری میں لگنا شروع ہوگئے تھے ۔ اس خاندانی منصوبہ بندی کے جو نتایج آج جاپان یا مختلف یورپی معاشرے دیکھ رہے ہیں وہ تو ایک بالکل علیحدہ موضوع ہے، لیکن چھوٹے خاندان اور سرمائے کی بہتات نے اسراف یا کنزیومرزم کے جس کلچر کو پھیلایا ہے، اس نے زمین پر موجود محدود وسائل کے ضیاع کو ایک بالکل نئی اور ہولناک سطح پر پہنچادیا ہے۔ لہٰذا، بعض مفکرین زمین کو بیمار اور انسان کو اس بیماری کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
یہ مفکرین ’مصنوعی ذہانت‘ کو اس بیماری یعنی انسان کے خاتمے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گویا جب ’مصنوعی ذہانت‘ انسانی ہنرمندوں کی ضرورت کو ختم کردے گی تودنیا کے امیروں کے لیے ہنرمندوں یا ورکنگ کلاس کی ضرورت باقِی نہیں رہے گی۔ نتیجتاً زمین پر انسانی آبادی کو ڈرامائی انداز میں بہت کم کرکے زمین کا نظم ونسق چلانا باآسانی ممکن ہوجائے گا۔ کچھ سازشی نظریات کے پرچارک، کورونا لاک ڈاؤن اورپوری دنیا میں زبردستی ویکسنیشن کے عمل کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ، نشاتِ ثانیہ کے دور کی جو بحث انسان کے وجود کا سوال اُٹھا رہی تھی، وہ سائنس اور فلسفے کے اشتراک سے کائنات کو مسخر کرنے کی طرف چلی، تو اب خود انسانی وجود کے درپے نظر آرہی ہے۔
چین میں ’مصنوعی ذہانت‘ کا جس طرح استعمال ہورہا ہے، اس سے خود یورپ پریشان نظر آرہا ہے۔ چین نے پچھلے عرصے میں ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے سوشل کریڈٹ سسٹم کے نام پر ایک ایسا ہمہ گیر نظام تشکیل دیا ہے، جو ہر چینی باشندے کی ہرحرکت کو نوٹ کرتا ہے اور پھر اس نظام کی بنیاد پر سزا و جزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے کوئی جرم نہ بھی کیا ہو، مگر آپ معاشرے کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کررہے، تو یہ نظام آپ کو سزا دینے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اور کوئی کام تعمیری ہے یا تخریبی، اس کا فیصلہ ایک حکومتی کمیٹی کرتی ہے۔ اگر آپ نے کوئی چوری کی، یا کہیں کوئی غلط بیانی کی، یا پھر آپ نے آن لائن اسٹور سے بہت سارے کمپیوٹر گیمز خریدے ہیں، تو یقینا آپ اپنا وقت غلط یا غیر تعمیری سرگرمیوں میں لگا رہے ہیں اور یہ نظام آپ کی تربیت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
بظاہر آپ کو شاید یہ نظام معاشرے کی ترقی کے لیےبہت اچھا لگے،مگر یہ نظام اتنا ہولناک ہے کہ یورپ اور امریکا میں اس نظام کو جدید غلامی کی طرف ایک قدم قرار دیا گیا ہے۔ جہاں نجی زندگی، فیصلے کی آزادی اور آزادیٔ اظہار کا کوئی تصور نہ ہوگا۔ جہاں آپ نے کسی حکومتی فیصلے پر تنقید کی، وہاں آپ کا بینک اکاونٹ بند کردیا گیا۔
بعض ماہرین اسے جارج اْرول کے مشہور زمانہ ناول ’۱۹۸۴ء‘ میں بیان کی گئی سوسائٹی سے تشبیہ دے رہے ہیں، جہاں ایک جابر حکومت پورے معاشرے کو کنٹرول کرتی نظر آتی ہے۔ ذرا اب تصور کریں کہ اگر خدا کے وجود سے انکاری خالص مادی معاشرے میں کام اور نماز پڑھنے کے اوقات ٹکرا جائیں، تو اس نظام کے بنانے والے نماز پڑھنا ایک غیر تعمیری سرگرمی قرار دے کر آپ کے کریڈٹ رینک کو کم کرسکتے ہیں۔ اور اگر آپ کا کریڈٹ شمار خطرے کی حد پار کر گیا تو یہ نظام آپ کی عقل ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق ایغور مسلمانوں کی نازی طرز کے انسانیت سوز کیمپوں میں تربیت اسی سلسلے کی ایک کڑی نظرآتی ہے۔
مگر چین ان سب باتوں کو مغرب کا پروپیگنڈا کہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ جو چین پر اس حوالے سے تنقید کرنے سے باز نہیں آتا، خود اپنے ہاں ایسا ہی نگرانی کا کڑا نظام نافذ کررہا ہے، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کی انسانی چہروں کو پہچان لینے کی صلاحیت رکھنے والے کیمروں پر مشتمل ہے۔ پچھلے دنوں مشرقی لندن میں برطانوی پولیس نے ایک شہری کو محض اس لیے گرفتار کرلیا کیونکہ اس شخص نے ان چہروں کی نگرانی کرنے والے کیمروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنا چہرہ اپنے مفلر سے ڈھانپ لیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنا چہرہ ڈھانپنا کوئی جرم نہیں اور میں کسی کو بھی اپنی حرکات کو ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، مگر پولیس نے اسے قبول نہیں کیا۔ بعد میں اس شخص کو جرمانہ کردیا گیا۔ نام نہاد آزاد برطانوی معاشرے میں پولیس کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی جارہی ہے، مگر برطانوی پولیس کے نزدیک یہ شہریوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
اکثر ماہرین اسمارٹ فونز کو جاسوسی کے آلات سے تشبیہ دیتے ہیں، کیونکہ جب آپ اپنا اسمارٹ فون استعمال نہیں بھی کررہے ہوتے تب بھی یہ آپ کی باتیں سن رہا ہوتا ہے اور اس کو آپ کی تمام حرکات کا ادراک ہوتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ آپ ایک پرانے واقف کار سے بات کرنے کھڑے ہوتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں فیس بک آپ کو اس بندے کو فیس بک پر اپنی فرینڈ لسٹ میں شامل کرنے کا مشورہ دے دیتا ہے، یا اکثر وہ چیز جس کے بارے میں آپ صرف سوچ ہی رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کی ’سرچ‘ میں آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب آپ کے اسمارٹ فون میں موجود مختلف ایپلی کیشنز کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے، جو یہ سب ریکارڈ کرکے کسی ڈیٹا سینٹر کو بھیجتی ہیں، اور وہاں ’مصنوعی ذہانت‘ اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو مختلف چیزیں دکھارہی ہوتی ہے۔
’مصنوعی ذہانت‘ آنے والے دنوں میں جنگوں کو کس طرح تبدیل کردے گی؟ اس کا اندازہ بی بی سی کی اس خبر سے ہوتا ہے، جس کے مطابق اسرائیل نے ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذریعے لاکھوں فلسطینیوں کی جاسوسی کرتے ہوئے تقریباً ۳۷ہزار فلسطینیوں کو حماس کا جنگجو قرار دے کر حالیہ جنگ میں خصوصی طور پر اپنے نشانے پر رکھا۔ تفصیلات کے مطابق اسرائیل کا ’مصنوعی ذہانت‘ کا پروگرام، جسے لاوینڈر (Lavender) کا نام دیا گیا ہے، فلسطینیوں کے موبائل فونز اور دیگر حرکات و سکنات کی جاسوسی کرنے کے بعد ان کی ایک سے ۱۰۰کی حد کے درمیان درجہ بندی کرتا ہے اور کسی فلسطینی کا حماس سے کتنا گہرا تعلق ہے؟ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔
مثلاً ایک فرد جو ایک ایسے ’وٹس ایپ‘ گروپ میں تھا، جہاں ایک حماس کا مجاہد بھی شامل تھا یا پھر دونوں نے ایک مسجد میں نماز پڑھ لی، یا اگر ایک فرد اپنا سیل فون بار بار تبدیل کررہا تھا، یا اگر عام فلسطینی کا موبائل فون اسی علاقے میں پایا گیا، جہاں ایک حماس کا جنگجو بھی موجود تھا، تو ایسے افراد کو اسرائیلی ’مصنوعی ذہانت‘ کے پروگرام نے خودبخود حماس کا ہمدرد یا جنگجو قرار دے دیا۔ خود اسرائیلی ماہرین کے مطابق اس پروگرام میں کم از کم ۱۰ فی صد غلطی کا امکان موجود ہے، مگر حالیہ جنگ میں اسرائیلی فوج کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ ’’نہ صرف ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے بلکہ ان پر ہر حملے کے دوران اگر ۲۰ کے قریب دوسرے عام افراد بھی مارے جائیں تو کوئی پروا نہیں‘‘۔
پھر ’مصنوعی ذہانت‘ کا یہ پروگرام ان افراد کی حرکات و سکنات پر مستقل نظر رکھتا۔ جیسے ہی وہ اپنے گھروں میں داخل ہوتے، یہ پروگرام اسرائیلی فوج کو ایک خصوصی پیغام بھیج دیتا ہے۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایسے بہت سارے افراد کے گھروں پر میزائل حملے کیے گئے، جب ’مصنوعی ذہانت‘ کے اس پروگرام نے گھروں میں ان کی موجودگی ظاہر کی۔ جس کے نتیجے میں بے شمار عام افراد، جن کا حماس سے کوئی تعلق بھی نہ تھا، مارے گئے۔ اس پورے عمل میں اسرائیلی فوجی اپنے دفاتر میں بیٹھے یہ کارروائیاں کرتے رہے اور ان کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے یا زمینی حملے کی ضرورت نہیں پڑی۔
’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو کس طرح تبدیل کردے گا اورہمارا ایک دوسرے سے میل ملاپ کس طرح بدل جائے گا؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک مشہور ماڈل کا انسٹاگرام اکاؤنٹ’ہیک‘کرلیا گیا، جو اپنی روزمرہ کی تصاویر اپنے انسٹاگرام پر ڈالتی تھی۔ اکاؤنٹ ’ہیک‘ کرنے والے نے اس ماڈل سے مطالبہ کیا کہ جب تک وہ ماڈل دنیا کو اپنی حقیقت نہیں بتائے گی اس وقت تک اس کو اس کا اکاونٹ واپس نہیں ملے گا۔ انسٹاگرام پر ایک ملین سے زائد رابطے رکھنے والی اس ماڈل نے بالآخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ کوئی حقیقی انسان نہیں بلکہ مصنوعِی ذہانت کے ذریعے بنایا گیا ایک روبوٹ ہے اور اس کا اکاؤنٹ جس نے ’ہیک‘ کیا ہے، وہ بھی کوئی انسان نہیں بلکہ ایک دوسرا روبوٹ ہے۔
دنیا کے سامنے جب یہ حقیقت آئی تو اس ماڈل کے لاکھوں فالورز حیران و پریشان رہ گئے کہ کس طرح حقیقت سے قریب اس کی تصاویر دیکھ کر نہ صرف وہ اس سے مرعوب تھے بلکہ بعض تو اس کی جیسی زندگی گزارنے کے خواہش مند بھی تھے۔ کچھ حضرات تو اس سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے سے بھی باز نہ آئے تھے اور اس یک طرفہ پیار کا یہ ڈراپ سین ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ آپ نے ایسے کئی قصے سنے ہوں گے کہ کس طرح کسی لڑکے نے لڑکی بن کردوسرے لڑکے کو بے وقوف بنایا، مگر سوشل روبوٹس کے ذریعے یہ کام اب مشینیں کررہی ہیں۔
ٹکنالوجی کے جریدے Wired کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت کروڑوں سوشل میڈیا سائٹس ایکٹو ہیں، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال سے کہیں کسی برانڈ کی مارکیٹنگ میں مصروف ہیں تو کہیں آپ کا کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کے درپے۔
سوشل میڈیا پر روبوٹس کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا اور مخالفین کو دیوار سے لگانا اب کتنا عام ہوگیا ہے، اس کا ایک مظاہرہ دو سال قبل پورے پاکستان نے دیکھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو جب عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تو ان کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری کے چند ہی گھنٹوں میں ٹویٹر ،جس کا موجودہ نام ایکس ہے، پر کئی کئی ملین لوگوں نے مذمتی ٹویٹ کرنا شروع کردیے۔ امپوڑٹڈ حکومت نامنظور، میر جعفر اور میر صادق نامنظور جیسے بے شمار ٹرینڈز چھاگئے۔
روس کے زیر اثر مشرقی یورپ کے چند ممالک میں بیٹھے چند سرپھروں پر روسی مدد کے ذریعے امریکا اور مختلف یورپی ممالک کے انتخابات میں سوشل میڈیا کے ذریعے مداخلت کا الزام باربار لگا ہے ۔ مگر خود امریکا میں کس طرح سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والے مواد یا ڈیٹا کو ’مصنوعی ذہانت‘ کے ساتھ ملا کر ووٹرز کی نفسیات سے کھیلنے کے لیے استعمال کیا گیا؟ اس کا انکشاف اس وقت ہوا، جب ۲۰۱۸ء میں کیمرج انالیٹکا اسکینڈل سامنے آیا۔ کیمرج انالیٹکا ایک ’مصنوعی ذہانت‘ پر مبنی سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی تھی جس نے فیس بک پر موجود امریکی ووٹرز کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا اور پھر ان ووٹرز کی پسند ناپسند اور سیاسی ترجیحات کا ایک مفصل ڈیٹابیس بنایا، جو یہ بتاسکتا تھا کہ امریکا کی ریاست الاسکا میں موجود ایک چالیس سالہ سیاہ فام شخص کس کو ووٹ دے گا اور اور واشنگٹن میں موجود ایک پرائمری اسکول ٹیچر کیا سوچ کر ووٹ دے گا؟
کروڑوں امریکیوں کی تفصیلات پر مشتمل اس ڈیٹابیس کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں نے خرید کر اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ اور ہر ووٹر کو اس کی ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی ترجیحات کے مطابق پیغامات دکھا کر ایک طرف تو ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے آمادہ کیا، تو دوسری طرف مخالف سیاسی رہنماوں کے حمایتیوں کو ان کے پسندیدہ رہنما کی ناکامیوں پر مبنی پروپیگنڈا دکھا کر بدظن کیا گیا، تاکہ اگر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہ دیں تو کم از کم ٹرمپ مخالف اُمیدوار کو بھی ووٹ نہ دیں اور اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ یہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس لیے اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ آخری الیکشن میں آپ نے اپنا ووٹ شعوری طور پر دیا تھا اور آپ کسی پروپیگنڈا کا شکار نہیں ہوئے تھے، تو آپ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ بالکل نہیں ۔ ایک تجزیہ کے مطابق یہ سوشل میڈیا کمپنیاں آپ کے بارے میں خود آپ سے زیادہ جانتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آن لائن اسٹور پر جو آخری چیز آپ نے خریدی ہے اس کی آپ کو ضرورت ہی نہ ہو مگر آپ نے ایک انجان پروپیگنڈا کا شکار ہوکر وہ چیز خرید لی، اور یہ سب ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال سے ممکن ہوا ہے۔
بیسویں صدی کے نصف میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی جنگ تو آپ کو یاد ہوگی۔ صرف امریکا اور روس ہی نہیں بلکہ تمام چھوٹے بڑے ممالک یا تو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی دوڑ میں لگے تھے کہ ہر ایک کے نزدیک یہ ان کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ ’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین کے خیال میں کچھ ایسی ہی صورتِ حال اکیسویں صدی میں بھی پیش آنے والی ہے۔ اس بار یہ صورتِ حال ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال پر کسی بھی دوسرے ملک یا گروہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنے کی ہوگی۔ اور برتری حاصل کرنے کی یہ جنگ زیادہ خطرناک ہوگی کیونکہ ’مصنوعی ذہانت‘ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرے گی۔ آپ صرف کوئی چیز ہی ’مصنوعی ذہانت‘ کی وجہ سے نہیں خرید رہے ہوں گے بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی یہ آپ کے فیصلوں پر اثرانداز ہوگی۔
یہ معاملہ صرف تجارت کے میدان تک محدود نہیں بلکہ اگلی ہونے والی جنگوں میں وہی فاتح ہوگا جو ’مصنوعی ذہانت‘ کا زیادہ بہتر استعمال کرے گا۔ جنگوں میں صحیح اور بروقت فیصلے ہی آپ کی فتح کا باعث بنتے ہیں۔ چین اور امریکا ایسے ہتھیاروں کی دوڑ میں لگ گئے ہیں، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے آنے والی معلومات کو نہ صرف انسانوں سے زیادہ جلدی قابلِ استعمال بناسکیں گے بلکہ انسانوں سے زیادہ جلدی اور شاید انسانوں سے بہتر فیصلے کرکے دشمن کو زیر کرلیں گے۔
دوسری طرف زراعت کے ماہرین ’مصنوعی ذہانت‘ سے لیس ایسے ڈرون استعمال کررہے ہیں، جو فصل پر موجود کسی آنے والی بیماری کا پہلے ہی اندازہ لگا کر پیشگی اقدام کے ذریعے بہتر پیداوار لے رہے ہیں۔ کہیں اساتذہ کی کمی کا حل ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل روبوٹ اساتذہ کی صورت میں نکالا جارہا ہے۔ پھر ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف بیماریوں کا علاج ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذریعے جلد از جلد حاصل کرکے اپنی دوائیاں مارکیٹ میں دوسروں سے پہلے لاکر زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں لگ گئی ہیں۔
آج ’مصنوعی ذہانت‘ کے گرد گھومنے والی تحقیق، ڈیٹا ماڈلزاور معلومات کی نہ صرف حفاظت کی جارہی ہے بلکہ دشمن ملکوں کی اس میدان میں ہونے والی تحقیق کو حاصل کرنے کے لیے جاسوسوں کی مدد بھی حاصل کی جارہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق انٹرنیٹ سرچ انجن کمپنی گوگل نے اپنے ایک چینی نژاد ملازم کو ’مصنوعی ذہانت‘ سے متعلق انتہائی خفیہ معلومات چین کو دینے کے الزام میں ملازمت سے برطرف کردیا اوراب اس کو گرفتار کرکے مقدمہ چلانے کی تیاری ہورہی ہے۔
’مصنوعی ذہانت‘ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہی اس کے اخلاقی پہلوؤں پربھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ منفی ذہن رکھنے والے نوجوان ’مصنوعی ذہانت‘ کے منفی استعمال سے باز نہیں آرہے۔ انھوں نے ایسی ویب سائٹس بنالی ہیں، جہاں آپ کسی بھی خاتون کی تصویر ڈالیں اور وہ ویب سائٹ نتیجہ کے طور پر اس خاتون کی جعلی مگر حقیقت سے بہت قریب برہنہ تصاویر شائع کردیتی ہے۔ اس عمل کو ڈیپ فیک ٹکنالوجی کے استعمال سے ممکن بنایا جاتا ہے ۔ اس عمل سے متاثرہ خاتون اور اس کے قریبی لوگوں پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
رائٹرز نیو ز ایجنسی کی خبر کے مطابق ایلون مسک کی ائے آئی کمپنی نے ایسی کمپیوٹر چپ بنا لی ہے جو انسانی دماغ کو پڑھ کر کام سرانجام دیتی ہے۔ اسے نیورولنک کا نام دیا گیا ہے۔ فی الحال تو ایک طبقہ اسے جسمانی طور پر مفلوج لوگوں کے لیے بہت کارآمد قرار دے رہا ہے۔ مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کہیں کوئی دوسرا فرد ایسی کسی چپ کو ہیک کرکے کوئی ایسا غلط کام کرلے جو اس مفلوج شخص کی خواہش نہیں تھا مگر اس غلط کام کی سزا اس کو مل سکتی ہے کیونکہ جس چپ نے یہ کام کیا وہ اس کے دماغ کے ساتھ منسلک تھی۔
’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین نے ایسی کسی ایپ کی اخلاقی حیثیت پر کافی سوالات اٹھائے ہیں اور ان کے خیال میں بڑھتا ہوا ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال آنے والے دنوں میں ایسے بہت سے خطرات پیدا کردے گا۔ مثال کے طور پر انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے زوال، ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے دہشت گردی ، بڑھتی ہوئی ہیکنگ کا اندیشہ۔
’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین اب ایسی مشینوں پر کام کررہے ہیں، جو ہم انسانوں کی طرح سوچ سکیں اور جس طرح ہم کام کرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح وہ مشینیں بھی کرسکیں۔ اس انسانی درجے کی ذہانت کو ’مصنوعی عام ذہانت‘ یا آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس کہا جا تا ہے، یعنی ایسی ’مصنوعی ذہانت‘ کی حامل مشینیں جو بالکل انسانوں کی طرح مختلف امور سرانجام دے سکیں۔
کچھ ماہرین کے نزدیک تو ایسی کسی ذہانت کا حصول ممکن نہیں مگر بعض ماہرین زیادہ محتاط رہنے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں قانون سازی اور بین الاقوامی معاہدوں کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے ایسی مشینیں بنالیں جو انسانوں جیسی ذہانت رکھتی ہوں تو پھر کیا ضمانت ہوگی کہ وہ مشینیں ہم سے زیادہ ذہانت کا حصول نہ کرلیں، اور پھر مشینوں اور انسانوں میں زمین پر قبضے کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجائے؟ مشہور فلم ٹرمینیٹر اسی نظریے کے گردگھومتی ہے۔
وال اسٹریٹ جنرل کی ایک خبر کے مطابق اوپن اے آئی کے سربراہ سام الٹ مین اپنے ایک نئے منصوبے کے لیے آج کل دنیا بھر کے امیروں سے سات ٹریلین ڈالرز اکٹھا کرنے کی مہم پر ہیں۔ یاد رہے کہ دو سو برسوں میں دنیا کے ہر خطے میں جنگ کرنے اور بے تحاشا ڈالر چھاپنے کے باوجود امریکا کا کل قرضہ ۲۳ ٹریلین ڈالر کا ہے۔ یعنی یہ خفیہ منصوبہ کل امریکی قرضے کے ایک تہائی رقم کے برابر ہے۔
آخر سام الٹ مین کو اتنی خطیر رقم کس منصوبے کے لیے درکار ہے؟ اس کے بارے میں تو کوئی نہیں جانتا مگر ۲۰۲۳ء کے آخر میں سام الٹ مین کو اوپن اے آئی کمپنی کے بورڈ نے نوکری سے برطرف کردیا تھا۔ یہ تو معلوم نہ ہوسکا کہ اسے برطرف کیوں کردیا گیا تھا، مگر اس کی وجہ وہ انٹرویو تھا جو چند دن قبل سام الٹ مین نے دیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی کمپنی کی ’مصنوعی ذہانت‘ کے میدان میں ایک ایسی ایجاد کے بارے میں گفتگو کی تھی، جس کو وہ مشین کہنے کو تیار نہیں تھے۔ رائٹرز کی ایک خبر کے مطابق اوپن اے آئی کمپنی میں کام کرنے والے کچھ سینئر ماہرین نے ایک خط کے ذریعے کمپنی کو خبردار کیا تھا کہ کمپنی کی نئی ایجاد انسانیت کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔
کئی مہینے گزرنے کے بعد اب تک نہ تو اس خط کے مندرجات پر کوئی بات سامنے آئی ہے اور نہ سام الٹ مین کی اچانک برطرفی اور مائکروسافٹ کے سربراہ کی غیرمعمولی دلچسپی کی وجہ سامنے آئی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سام الٹ مین کا 7 ٹریلین ڈالرز کا منصوبہ اور اس نئی اور خفیہ ایجاد کا تعلق ’مصنوعی عام ذہانت‘ یعنی آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس سے ہے، جو کچھ ماہرین کی نظر میں خود انسانیت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سام الٹ مین اس خطرے سے متفق نظر آتے ہیں کہ ’مصنوعی عام ذہانت‘ انسان کا خاتمہ کردے گی، مگر انھیں ساتھ ہی یہ بھی یقین ہے کہ اس سے قبل انسان ’مصنوعی ذہانت‘ سے بہت سی دلچسپ کامیابیاں حاصل کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ’مصنوعی ذہانت‘ نیورولنک، جینیٹکس انجینئرنگ اور ایسی بہت سی جدید ایجادات سے ملا کر کسی انسان نما ڈیجیٹل مخلوق کی تخلیق کرسکنے کے قابل ہوگئی ہے؟ کیا ٹرانس ہیومنزم کے نظریات سچ ثابت ہونے والے ہیں؟
’مصنوعی ذہانت‘ انسانوں کو اپنا غلام بنالے گی یا انسانوں کا خاتمہ کردے گی؟ اس بحث کا نتیجہ نکالنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا چڑیوں کے لیے اُلو کو سدھانا۔ مگر نشاتِ ثانیہ کے دور میں جب انسان نے خدا کا انکار کردیا تو اس نے عقل کو خدا بنالیا۔ ڈیکارٹ کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’میں ہوں کیوں کہ میں سوچتا ہوں‘‘۔ اور یوں انسان اشرف المخلوقات کے منصب سے گر کر محض ایک 'سوچنے والا جانور قرار پایا۔
اس سوچ نے مادی ترقی کے نت نئے دروازے تو کھول دیے، مگر جلد ہی مغرب پر یہ بات آشکار ہوگئی کہ عقل محدود ہے۔ بیسویں صدی میں جب سائنسی ایجادات کی رفتار تقریباً رُک گئی، تو انسان کو ایک بار پھر اپنی بیچارگی کا غم ستانے لگا۔ مگر کمپیوٹنگ اور کمپیوٹر کے استعمال کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ’مصنوعی ذہانت‘ کے میدان میں ملنے والی کامیابیوں نے اس کی امیدیں دوبارہ ہری کر دی ہیں۔ بہت سے ماہرین ایسی ’مصنوعی ذہانت‘ کے حصول کی بات کررہے ہیں، جو ذہین سے ذہین انسان سے بھی زیادہ ذہین ہوگی اور اسے سپر انٹیلی جنس کہا جاتا ہے۔
طوفانوں اور انقلابات میں کئی چیزیں مشترک ہوتی ہیں، مثلاً دونوں ہی پوری زمین پر ایک ساتھ نہیں بلکہ زمین کے کسی مخصوص خطے اور کسی مخصوص معاشرے میں تبدیلی اور تباہی لاتے ہیں۔ معلوم انسانی زندگی میں صرف ایک ہی طوفان ایسا تھا، جس نے پوری زمین کو ایک ساتھ لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ طوفان نوحؑ تھا۔ مگر اب انسانیت کو ایک ایسے ہی طوفان یا انقلاب کا سامنا ہے جو بیک وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کا یہ طوفان ذہنوں کو ماؤف، زبانوں کو گنگ اور ہاتھ پاؤں شل کردے گا۔
اُمت مسلمہ جسے نائن الیون کے بعد اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے، اس معاملے میں بالکل مفلوج نظرآتی ہے۔ صرف عمل کی طاقت ہی نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم اُمت مسلمہ کے لیے یہ طوفان بالکل اسی طرح زندگی اور موت کا سوال بن کر کھڑا ہوجائے گا، جیسے عقل کی محدودیت کا اقرار کرنے کے بعد جب مغرب نے اسلام کو مستقبل کے طور پر دیکھنا شروع کیا اور بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب نظر آنے لگا، تو ایک طرف اسلام کو ’دہشت گردی‘ کے ساتھ جوڑ کرمادیت سے مغلوب مغرب کو اسلام سے بدظن کیا گیا۔
اس ضمن میں ہم بحیثیت مسلمان کم ازکم اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے طوفان کو محض سطحی دائرے میں دیکھنے کے بجائے اس کی حقیقت کو سمجھیں اور پھر کوئی لائحہ عمل طے کریں۔ ’مصنوعی ذہانت‘ اور کوانٹم کمپیوٹرز کی پراسسنگ طاقت ایک ساتھ مل کر کیا کچھ نئے گل کھلائے گی؟ اس کا آج سوچنا بھی محال ہے۔ جدید مغرب کو سمجھنے کے لیے فلسفہ اور سائنس کو ایک ساتھ لے کر سمجھنا ہوگا اور شاید جدید تاریخ میں پہلی بارعملی سائنس ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے ایک نیا فلسفہ، ایک نیا مذہب اور ایک نیا خدا تخلیق کرنے کی آخری کوشش کرے گی۔