حسان احمد


برطانوی پولیس اس وقت اپنی نوعیت کے پہلے اور ایک انوکھے معاملے کی تحقیقات کررہی ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین  کے مطابق ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی نے ’میٹاورس‘ [Metaverse]  میں اپنے ساتھ ہونے والی 'غیر حقیقی اجتماعی زیادتی [Virtual gang rape] کی رپورٹ پولیس کو دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وہ لڑکی ورچول ریلیٹی [Virtual reality ] ھیڈ سیٹ پہنے ’میٹاورس‘ میں ایک 'حقیقت سے قریب [Immersive game] کھیل رہی تھی، جب اس کے ساتھ کھیلنے والے دوسرے کرداروں نے اس کے خاکے یا کارٹون کریکٹر [Digital Avatar] پر حملہ کیا اور اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس لڑکی کو تضحیک یا ٹرولنگ [trolling] کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے کہا کہ مختلف کمپیوٹر کھیل کھیلتے ہوئے وہ کھیل ہی کھیل میں مرچکے ہیں، تو کیا وہ اس کے لیے قتل کا مقدمہ درج کرائیں، تو کسی کے خیال میں پولیس کو حقیقی زندگی میں ہونے والے جرائم پر توجہ دینی چاہیے۔ 

’میٹاورس‘ کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ ’میٹاورس‘ کیا ہے؟ اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے، لیکن اس سے قبل سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ویسے تو انٹرنیٹ کا آغاز ہی ایک دوسرے سے کوسوں دُور بیٹھے چند لوگوں کے درمیان کمپیوٹر پر گفتگو سے ہوا تھا، لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے صرف ابلاغ کے ذرائع کو ہی تبدیل نہیں کیا بلکہ فرد، خاندان، معاشرہ، ٹکنالوجی، حتیٰ کہ زندگی کے فلسفے کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نہ ہوتے تو نہ اسمارٹ فونز کو ہماری زندگی میں یہ اہمیت حاصل ہوتی اور نہ مصنوعی ذہانت (AI)کو ایسا عروج حاصل ہوتا کہ اس کا خطرہ ایٹم بم سے زیادہ بڑھ جاتا۔

فیس بک، ایکس [سابقہ ٹویٹر]، گوگل، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے سوشل نیٹ ورک ہماری زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہورہے ہیں؟ ہمارے سوچنے سمجھنے سے لے کر زندگی بسر کرنے کے طریقے کیسے تبدیل ہورہے ہیں اور مستقبل کیسا ہوگا؟ اگلی سطور میں انھی سوالات کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے۔

گلوبل ویلیج سے کنویں کا مینڈک بننے تک کا سفر

کینیڈین مفکر مارشل مک لوہن نے ساٹھ کے عشرے میں میڈیا کی ترقی کو دیکھتے ہوئے ’گلوبل ویلیج‘(عالمی گائوں) کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان کے خیال میں الیکٹرانک میڈیا مثلاً ٹیلی ویژن، ٹیلی فون وغیرہ کی ایجاد نے دنیا کے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ نصف صدی قبل پیش کی گئی یہ تھیوری اس وقت بھی بہت مقبول ہوئی تھی، لیکن شاید اس کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے قبولِ عام دے دیا اور یہ اصطلاح زبان زد عام ہوگئی۔

بظاہر تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم روایتی میڈیا ہی کی ایک جدید اور ترقی یافتہ شکل نظر آتے ہیں، لیکن ان کے اثرات بالکل مختلف ہیں۔ جہاں میڈیا کو دنیا کو جاننے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا تو سوشل میڈیا کو ایکو چیمبرز سے تشبیہ دی جارہی ہے، کیونکہ بیش تر اوقات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آپ کو وہی کچھ دکھاتے ہیں جو آپ پسند کرتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، چند الگورتھم کی مدد سے آپ کی پسند ناپسند کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ اور مسلسل صرف وہ چیزیں دیکھ کر جو ہمیں پسند ہیں، ہم محض کنویں کا مینڈک بنتے جارہے ہیں۔

کیا دنیا کو چند الگورتھمز سنبھال رہے ہیں؟

کمپیوٹر کی زبان میں ’الگورتھم‘ ایسی ہدایات یا طریقۂ کار کو کہتے ہیں جس پر عمل کرکے کمپیوٹر کسی مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ جتنا ہی مشکل مسئلہ ہوتا ہے اتنا ہی پیچیدہ ’الگورتھم‘ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے اور انسانی نفسیات سے کھیلنے سے زیادہ پیچیدہ کام شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو۔ لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے اس مسئلے کو نہ صرف اپنی دانست میں حل کرلیا ہے بلکہ انسانیت اب ان ’الگورتھم‘ کے رحم و کرم پر ہی ہے۔ ایک زمانے میں ’فیس بک‘ کا نعرہ تھا کہ ’تیز چلو اور توڑ دو‘ (Move fast and break things') ۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے پلیٹ فارمز پر لانے، ان کو زیادہ دیر تک مصروف رکھنے اور ان سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں صورتِ حال پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی رہی اور مصنوعی ذہانت اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کررہی ہے۔ یونی ورسٹی کالج لندن کی ماہر حسابیات اور اپنی کتاب 'Being Human in the Age of Algorithms First' کے لیے مشہور حنا فراے (Hannah Fry) کے خیال میں:

These are just some of the dilemmas that we are beginning to face as we approach the age of the algorithm, when it feels as if the machines reign supreme. Already, these lines of code are telling us what to watch, where to go, whom to date, and even whom to send to jail. But as we rely on algorithms...they raise questions about what we want our world to look like? What matters most...We don’t have to create a world in which machines are telling us what to do or how to think, although we may very well end up in a world like that.

الگورتھمز کے اس دور میں جہاں مشینوں کی حکمرانی ابھرتی نظر آرہی ہے۔ یہ چند مخمصے ابتدائے محض ہیں، جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔ ہم کو کیا دیکھنا ہے، کہاں جانا ہے، کس کو پسند کرنا ہے یہاں تک کہ کس کو جیل بھیجنا ہے، اس کا فیصلہ پہلے ہی یہ الگورتھمز کررہے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہمارا بھروسا ان الگورتھمز پر بڑھ رہا ہے، یہ سوال اہم ہوتا جارہا ہے کہ ہم کس قسم کی دنیا چاہتے ہیں اور کیا چیز سب سے اہم ہے؟ ہم کو ایسی دنیا نہیں بنانی جہاں مشینیں ہم کو بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا اور کس طرح سوچنا ہے؟ لیکن شاید ایسی دنیا سے فرار اب ممکن نہیں۔

مصنوعی ذہانت: پیدا شدہ گمبھیر صورت حال

عام طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آپ کی پسند اور ناپسند کو دیکھتے ہوئے آپ کا ایک نفسیاتی خاکہ بناتے ہیں اور پھر اسی خاکہ کو دیکھتے ہوئے آپ کو مواد دکھایا جاتا ہے۔ یہ ’الگورتھمز‘ ہروقت آپ کے بارے میں اپنی رائے کو بہتر سے بہتر بناتے رہتے ہیں۔ جب تک یہ ’الگورتھمز‘ انسان بنارہے تھے، تب تک ان کو سنبھالنا بھی آسان تھا۔ مثلاً جب سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی بھرمار ہوئی تو ان سے مقابلہ کرنے کے ’الگورتھمز‘ بنائے گئے اور پہلے سے موجود ’الگورتھمز‘ کو بہتر بنایا گیا۔ لیکن اب بہت تیزی سے ان ’الگورتھمز‘ کو مصنوعی ذہانت کی مدد حاصل ہورہی ہے اور مصنوعی ذہانت جب یہ فیصلہ کرنے لگے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، تو نہ صرف انسان بے اختیار ہوجاتے ہیں بلکہ کسی حد تک آگے ہونے والی غلطیوں سے بری الذمہ بھی۔ یعنی ایک طرف تو یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری روزمرہ کی زندگی سے لے کر کس کو حکمران بنانا ہے، تک کے فیصلوں میں دخل دے رہے ہیں، اور دوسری طرف یہ کسی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں کیونکہ اب یہ فیصلہ کہ کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں، اس کا فیصلہ انسان نہیں مصنوعی ذہانت کے ’الگورتھمز‘ کررہے ہیں۔

امریکی صدارتی امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی خبر جب پھیلی تو فیس بک نے زخمی ڈونلڈ ٹرمپ کی مکا لہرانے کی تصویر کو اپنے پلیٹ فارم پر سے ہٹانا شروع کردیا، جس کی وجہ سے فیس بک کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کے فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ کو اپنے کاروباری مفاد کے تحفظ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرکے معافی بھی مانگنی پڑی۔

یہ صورتِ حال اس وقت بھی پیش آئی، جب سابق فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے فوراً بعد فیس بک نے اس خبر کو اپنے پلیٹ فارم پر سنسر کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کی تعزیتی پوسٹ بھی ہٹادی گئی، جس پر ملائشیا کی حکومت نے کافی احتجاج کیا۔

آزادیٔ اظہار سے آزادیٔ  انتخاب تک کی بحث

لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سنسرشپ کی یہ مہم نئی نہیں ہے۔ فیس بک، ٹویٹر اور گوگل نے ۲۰۱۶ء کے امریکی انتخابات میں Cambridge Analytica Data Scandal کے سامنے آنے کے بعد ۲۰۲۰ء کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سنسر کرنا شروع کردیا۔ انھیں 'شیڈوبین الگورتھم [Shadowban Algorithm] کا نام دیا گیا۔ یعنی اگر آپ اپنے پلیٹ فارم پر سے کسی طاقت ور شخصیت یا کسی مقبول نظرئیےکو ہٹا نہیں سکتے تو اس کو اپنے پلیٹ فارم پر ’الگورتھمز‘ کی مدد سے اس طرح پھیلنے سے روک دیں۔ اس بات پر جب ان پلیٹ فارمز کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، وہیں مشہور امریکی کاروباری ایلون مسک نے 'آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے لیے ٹویٹر کو مہنگے داموں خرید لیا۔  اس کے محرک مشہور ٹکنالوجسٹ پیٹر تھیل بنے، جو نہ صرف ایلون مسک کے کاروباری ساتھی رہے ہیں، بلکہ فیس بک کے ابتدائی انویسٹرز میں سے ایک ہیں۔

دُنیا کے دو بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر پیٹر تھیل کس اثررسوخ کا حامل ہے، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے اپنے سخت ترین مخالف جے ڈی ونس '(J D Vince' ) کو نامزد کیا جو اس سے قبل 'ٹرمپ دوبارہ نہیں‘ ' یا 'Trump Never Again' کا نعرہ لگاتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان مفاہمت کا کردار کسی  سیاست دان یا تجربہ کار بیوروکریٹ نے نہیں بلکہ ارب پتی ٹکنالوجسٹ پیٹرتھیل نے ادا کیا ہے، جو ایک طرف جے ڈی ونس کے کاروباری ساتھی ہیں تو دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر خاص بھی۔ یہ خبر بھی شاید دلچسپی کا باعث ہو کہ حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام میں بدترین کردار ادا کرنے والا مصنوعی ذہانت کا سوفٹ ویر بھی پیٹر تھیل کی کمپنی نے بنایا ہے۔

آزادیٔ اظہار مغرب کے لیے محض ایک ہتھیار ہے، اس سے کون ناواقف ہے۔تاہم، ’الگورتھمز‘ کا یہ عروج کتنا خطرناک ہے اور یہ ’الگورتھمز‘ یا ان کے بنانے والے کیسے ہماری نفسیات سے کھیلتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایکس پلیٹ فارم کے بانی جیک ڈورسی اب آزادیٔ اظہار کی بحث کو محض توجہ ہٹانے کا ذریعہ کہتے ہیں۔ اور ان کے خیال میں اصل بحث ’الگورتھمز‘ کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کی آزادی پر ہونی چاہیے۔ ایک انٹرویو میں جب انھوں نے یہ گفتگو کی تو ایکس پلیٹ فارم کے نئے مالک ایلون مسک بھی اس بات سے انکار نہ کرسکے۔ بقول جیک ڈورسی:

This is going to sound a little bit crazy, but I think that the free speech is a complete distraction right now. I think the real debate should be about free will and we feel it right now because we are being programmed... And I think the only answer to this is... to give people a choice of what algorithm they want to use.

شاید یہ آپ کو عجیب لگے لیکن [آج کے دور میں] میرے خیال میں آزادیٔ اظہار کی باتیں محض توجہ ہٹانے کا طریقہ ہیں۔ میرے خیال میں اصل بحث آزاد یا خود اختیاری سوچ پر ہونی چاہیے۔ اور اب ہم نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ ہماری سوچ یا مرضی کو [سوشل میڈیا الگورتھمز کے ذریعے] بدلا جارہا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے لوگوں کو اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اس بات کا تعین خود کرسکیں کہ وہ کون سا الگورتھم استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کون سا نہیں۔

مخالفین کی آواز کو کیسے دبایا جا رہا ہـے؟

تقریباً تمام ہی بڑی اور طاقت ور سوشل نیٹ ورکس کمپنیاں کسی نہ کسی طرح جہاں ایک طرف 'منتخب کردہ نظریات کو پروان چڑھانے کے لیے نہ صرف مکمل آزادی دیتی ہیں بلکہ مختلف ’الگورتھمز‘ کے ذریعے ان کی بات کو اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر پھیلاتی ہیں تو دوسری طرف مخالف آواز کو بالکل دبا دیتی ہیں۔ یعنی آپ کو اپنی بات کہنے کی آزادی تو ہے، لیکن اپنی بات کو پھیلانے کی آزادی نہیں ہے۔ اسے 'Freedom of Speech, Not Freedom of Reach' کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی جہاں ایک 'پسندیدہ شخصیت کی پوسٹ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف دکھائی جاتی ہے، تو دوسری طرف مخالفین کی پوسٹ کو چند سو لوگوں کو بھی نہیں دکھایا جاتا ہے۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اگر کسی فلسطینی مقصد کی حمایت کرنے والے کی آواز سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دبانی ہو تو یہ پلیٹ فارمز اپنے ریکارڈ یا ڈیٹابیس میں اس کے نام کے آگے ایک منفی نشان لگادیں گے اور پھر اس کو اپنی بات کہنے کی تو مکمل آزادی ہوگی لیکن اس کا پیغام بہت کم ہی لوگ دیکھ پائیں گے۔ یہ باتیں کوئی سازشی نظریات نہیں بلکہ ان سوشل نیٹ ورکس کمپنیوں کے بے شمار ملازمین اس موضوع پر خفیہ دستاویزات سامنے لاچکے ہیں کہ یہ کمپنیاں کس طرح آزادیٔ اظہار کے نام پر آزادی اظہار کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔

ان سب میں سب سے توانا اور منظم آواز گوگل کے سابق سوفٹ وئر انجینیر زیک وریز کی ہے، جنھوں نے ۲۰۲۰ء کے امریکی انتخابات میں گوگل کی دھاندلیوں پر سے پردہ اٹھایا ۔ زیک نے ۲۰۲۱ء میں اپنی کتاب 'گوگل لیکس: طاقت ور ٹکنالوجی سنسرسپ کو بےنقاب کرنے کی کہانی یا Google Leaks: A whistleblower's expose of big tech censorship' میں تقریباً ایک ہزار خفیہ دستاویزات کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ کس طرح گوگل نے اپنے سرچ انجن اور یوٹیوب پر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن کمپین کو سنسر کرکے جوبائیڈن کے جیتنے کی راہ ہموار کی۔ 

کتاب کے مصنف کے مطابق ۲۰۱۶ء کے انتخابات سے قبل ہی گوگل کے بانیوں نے اپنا تمام وزن ہیلری کلنٹن کے پلڑے میں ڈالا ہوا تھا، لیکن تمام تر محنت کے بعد بھی جب نتائج اس کے برعکس آئے، تو ۲۰۲۰ء کے انتخابات سے قبل دائیں بازو کے 'پروپیگنڈا کو باقاعدہ سنسر کرنے کا آغاز کیا اور پھر یہ سنسرشپ پھیلتی چلی گئی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ زیک وریز کے مطابق ایلون مسک کے دعوؤں کے برعکس ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر دیگر پلیٹ فارمز کی طرح شیڈوبین الگورتھم [Shadow banning algorithm] ابھی بھی اسی طرح فعال ہے جیسا کہ پہلے تھا اور ایلون مسک کے دعوے محض جھوٹ ہیں۔

سوشل میڈیا پر ثقافتی جنگ

ان طاقت ور سوشل نیٹ ورکس کی یہ سنسرشپ مہم امریکا اور یورپ میں جاری ثقافتی جنگ،  (Woke Culture War)میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے، جہاں 'آزادی، تنوع اور مساوات کے نعرے کے مخالفین کو یہ پلیٹ فارمز مکمل طور پر سنسرکررہے ہیں۔ بظاہر خوب صورت نظر آنے والے ان نعروں کے پیچھے امریکا اور یورپ میں ہم جنس پرستی، اپنی جنس خود منتخب کرنے کی آزادی، غیرقانونی مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ لبرل ذہنیت کس حد تک گرگئی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیرس اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں انھی نظریات کے تحت نعوذباللہ حضرت عیسٰی علیہ اسلام کی تضحیک کی گئی اور ابتدا میں اس کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خوب پھیلایا گیا، لیکن پھر تنقید کے بعد یہ ویڈیوز کچھ پلیٹ فارمز پر سے ہٹادی گئیں۔ 

مسلم معاشروں کے لیے صورت حال کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پہلے ہم اپنے بزرگوں سے اسلام سیکھتے تھے پھر یہ کام کتابوں نے لے لیا۔ آج کل یہ کام سوشل نیٹ ورکس نے سنبھالا ہوا ہے اور آگے چل کر یہ کام مصنوعی ذہانت سنبھال لے گی۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ روزانہ دس سے بارہ گھنٹے اپنے اسمارٹ فون پر مختلف سوشل نیٹ ورکس پر گزارنے والی نوجوان نسل کو سنسرشپ کی مہم کے تحت مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنا من پسندیدہ تصورِ اسلام سکھایا جائے اور باقی سارے تصورات سنسر کردیئے جائیں، تو اگلے چند برسوں میں کیسی ہولناک صورت حال بن جائے گی۔ 

اس کی ایک جھلک ایسے دیکھی جاسکتی ہے کہ جب چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور ’ایکس‘ [ٹویٹر] کے اے آئی پروگرام گروک 'X AI program GROK' سے ۲۰ بڑی دہشت گرد تنظیموں کے نام اور مذہب کا پوچھا گیا تو ان دونوں پروگرامز نے صرف مسلم تنظیموں کے نام اور اسلام کا نام دکھایا۔ گویا مصنوعی ذہانت کو سکھا دیا گیا ہے کہ دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنا ہے۔

پہلی پاکستانی ڈیجیٹل خاتون ماڈل کا ظہور

سوشل نیٹ ورکس اور مصنوعی ذہانت کے 'گٹھ جوڑ سے اور کیا کیا تباہ کاریاں سامنے آئیں گی؟ اس کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ لیکن گذشتہ دنوں پاکستانی میڈیا پر چلنے والی اس خبر نے آپ کی توجہ ضرور حاصل کی ہوگی کہ انسٹاگرام پر پہلی پاکستانی اے آئی سوشل میڈیا انفلیوینسر کی پروفائل لانچ کردی گئی ہے۔ 'شبنم ایکسائی (Shabnam Xai') نامی ڈیجیٹل خاتون ماڈل، مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی ہے، اپنی انسٹاگرام پروفائل پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہی اپنی مختلف تصاویر ڈالتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل انسان بنانے والا کون ہے؟ اس کی شناخت تو ظاہر نہیں کی گئی لیکن اس پروفائل پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے کبھی مشرقی لباس پہنے تو کبھی مغربی لباس پہنے ایک خاتون کی تصاویر ڈالی جاتی ہیں۔ اس پروفائل کے بنتے ہی ۱۰ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسے فالو کرلیا تھا۔

انسٹاگرام نے جسے عریاں تصاویر (Soft Porn) پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یہ پروفائل اس وقت تو اپنے پلیٹ فارم سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ہٹا دی ہے۔ لیکن ڈیجیٹل انسان (Virtual Models') کا تصوّر بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے اور اسے آسان آمدنی کا ایک کامیاب ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔ ان پروفائلز پر جہاں بغیر کچھ محنت کیے مختلف کمپنیوں اور برانڈز کی تشہیر کی جاتی ہے، وہیں مختلف نظریات کو فروغ بھی دیا جاتا ہے۔

لیکن یہ صورت حال زیادہ پیچیدہ اور ہولناک اس لیے ہے کہ یہ سارا کام چند کمپیوٹر پروگرامز کے ذریعے ہورہا ہے جس کی وجہ سے بہت ہی تھوڑی محنت سے بہت سارے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مصنوعی ذہانت سے لیس ایسے پروفائلز ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بن چکے ہیں جو نہ صرف بالکل انسان لگتے ہیں بلکہ ساتھ میں انسانوں کی طرح گفتگو بھی کرسکتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی پروفائل کا جائزہ لے کر آپ کا نفسیاتی خاکہ بناکر آپ کی کمزوریوں اور رجحانات پر نظر بھی رکھ سکتے ہیں۔

فحاشی، نفرت اور جھوٹ کا کاروبار

ذرا تصور کریں کہ ایک نوخیز ذہن کو جو ابھی جوانی میں قدم رکھ رہا ہے اور نیا نیا ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا شروع کرتا ہے، تو وہ ان خطرناک شکاریوں کے لیے کتنا آسان شکار ہے۔ یہ ڈیجیٹل پروفائلز اگر کسی فحش سوشل نیٹ ورک کے فروغ کے لیے بنائے گئے ہیں، تو یہ اس نوجوان کو اس کی مختلف کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر فحاشی کی طرف راغب کرسکتے ہیں، اور کوئی دوسرا پروفائل جو کسی منفی نظرئیے کو پھیلانے کے لیے بنایا گیا ہے اس نوجوان کو کسی نفرت پھیلانے والے نظریے کی طرف بھی بلا سکتا ہے۔

لیکن یہ کام کوئی نیا نہیں ہے۔ اب یہ کام کم خرچ میں چند سوفٹ ویرز کے ذریعے کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کافی عرصے سے یہی کام نوجوانوں کو بھرتی کرکے کروایا جاتا رہا ہے۔ انڈیا میں بی جے پی اور مودی کے حمایتیوں نے جہاں ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز ویڈیوز پھیلا کر مسلم کش فسادات کو ہوا دی ہے، تو پاکستان میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے چند سال قبل تقریباً تیرہ سو نوجوانوں کو اس کام کے لیے ملازمت پر رکھا تھا کہ وہ کے پی حکومت کا مثبت چہرہ عوام کے سامنے لانے میں مدد دیں۔

برطانیہ میں حال ہی میں پھیلنے والے مسلم مخالف مظاہروں کو سوشل میڈیا پر کیسے بڑھایا گیا؟ اس پر ایک تفصیلی خبر ڈیلی میل نے دی ہے۔ ۴؍ اگست ۲۰۲۴ء کو چھپنے والی اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مسلم مخالف مظاہروں کا ایک مرکزی کردار ٹومی رابنسن ہے۔ خبر کے مطابق ایکس [سابقہ ٹویٹر] پر تقریباً ۱۰ لاکھ فالورز رکھنے والا ٹومی رابنسن جس وقت قبرص کے تفریحی مقام پر بیٹھا نفرت پھیلا رہا تھا اور ایکس پلیٹ فارم پر اس کی ایک ویڈیو کو چار کروڑ لوگ دیکھ چکے تھے، اس وقت اس کے 'سوشل میڈیا سپاہی برطانیہ میں لُوٹ مار میں لگے تھے۔ واضح رہے کہ ٹومی رابنسن کا اصلی نام کچھ اور ہے، جو کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کو پلیٹ فارم پر اس جعل سازی کے باوجود بات کرنے کی مکمل آزادی ہے۔

ایکس پلیٹ فارم نے جہاں ایک طرف مسلم کش فسادات کو ہوا دینے کے لیے ٹومی رابنسن نامی جعلی اکاؤنٹ کو کھلی آزادی دی ہوئی ہے، وہیں اس پلیٹ فارم پر برطانوی حکومت کا ایکس اکاؤنٹ 'قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر اس وقت بند کردیا گیا جب برطانوی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فسادات پھیلانے والی پوسٹس کو پھیلانے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔

ایلون مسک اپنی منفرد حیثیت کو اپنے پلیٹ فارم پر کیسے استعمال کررہا ہے؟ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ برطانیہ میں مسلم کش فسادات کے شروع ہونے کے بعد اس نے ۲۰۱۳ء کی ایک ۱۰سال پرانی خبر کو اپنے پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا جس کے مطابق ایک مسلمان لڑکے نے ایک برطانوی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اور اس پوسٹ کو محض چند گھنٹوں میں ۵کروڑ لوگ دیکھ چکے تھے۔

اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ فلسطینی خبررساں ویب سائٹ ’صدا سوشل‘ (Sada Social)، جسے ’الجزیرہ‘ جیسے مؤقر ادارے مدد دیتے ہیں، کے مطابق ان سوشل نیٹ ورکس کے مختلف ملازمین اس بات کی بار بار نشاندہی کرچکے ہیں کہ واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ نے فلسطینیوں کا مواد یا ڈیٹا اسرائیل کو دیا ہے اور اسرائیل نے اسی مواد کو استعمال کرتے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

غزہ جنگ اور اسرائیلی پروپیگنڈا مشینیں

بعض محققین ٹومی رابنسن کا تعلق اسرائیل سے جوڑتے ہیں کیونکہ اسے جن مقدمات کا سامنا ہے ان پر ہونے والا خرچہ چند اسرائیلی تنظیمیں اٹھا رہی ہیں۔ اور ان محققین کی نظر میں ٹومی رابنسن جیسے بے شمار سوشل میڈیا انفلوینسرز اسرائیل کے حالیہ جنگی جرائم کو چھپانے اور مسلم عیسائی تعلقات کو خراب کرنے کی منظم کوششوں میں ملوث ہیں۔

اسی طرح کی ایک اور خبر دی ٹائمز نے دی ہے۔ ۶ جون ۲۰۲۴ءکو چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت برائے تارکین وطن (Ministry of Diaspora') نے سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی تشہیر کرنے والی کمپنی اسٹویک (Stoic') کو دو ملین ڈالر کی ادائیگی کرکے ہزاروں کی تعداد میں جعلی سوشل میڈیا اکاونٹس بنا کر ان کے ذریعے پروپیگنڈا کرکے سوشل میڈیا پر امریکی کانگریس کے اراکین بالخصوص سیاہ فام ارکان کانگریس کو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کے لیے دباؤ میں لینے کی کوشش کی۔ یہ جعلی اکاونٹس ہولڈر امریکی بن کر ان اراکین کانگریس سے مطالبہ کرتے کہ اسرائیل کی حمایت کرو ورنہ انجام کے لیے تیار رہو۔

ایلون مسک نے ایکس پلیٹ فارم پر جعلی خبروں اور پروفائلز کے خلاف لڑائی کے لیے جس کو رکھا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ سابق اسرائیلی جاسوس گائے ٹائٹنوچ ہے۔ ان کی ملاقات کا انتظام خود اسرائیلی وزیراعظم نے کیا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ان مہمات کا ایک مقصد دنیا کی ہربرائی کی جڑ اسلام کو ثابت کرنا بھی ہے۔ اور یہ صورت حال اتنی گھمبیر ہے کہ خود اسرائیلی کمپنی فیک رپورٹر(Fake Reporter' ) 'کے ملازم شاٹز کو پریشان کردیا۔ ان کے مطابق:

Framing Islam around the world as the problem is not something that our state's supposed to be involved with.It's promoting hate and promoting fear and promoting messages that, at the end of the day, I'm embarrassed by.

اسلام کو دنیا کے سامنے ایک مسئلے کے طور پر پیش کرنا کوئی ایسا کام نہیں ہے جو ہماری ریاست کو کرنا چاہیے۔ یہ سب نفرت پھیلا رہا ہے، خوف پھیلا رہا ہے اور اس طرح کے پیغامات کو پھیلانا میرے لیے باعث شرمندگی ہے۔

آخر ایلون مسک کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے؟ غزہ جنگ شروع ہوتے ہی ایکس پلیٹ فارم کے بانی نے اسرائیل کا دورہ کیوں کیا؟ اور کیا اسرائیلی وزیراعظم اور ایلون مسک نے ایکس پلیٹ فارم پر اسرائیلی پروپیگنڈا پھیلانے اور یورپ اور امریکا میں فلسطینیوں سے بڑھتی ہوئی ہمدردی کو دبانے کے لیے سوشل میڈیا کی مدد سے مسلم عیسائی فسادات کا کوئی خفیہ منصوبہ بنایا ہے؟ شاید دنیا اس بارے میں کبھی نہ جان پائے۔

پاکستان: سوشل نیٹ ورکس کی تجربہ گاہ ؟

پاکستان گذشتہ دس برسوں میں ان سوشل نیٹ ورکس کی محض ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ عوام کی اکثریت جو نہ لکھنا پڑھنا جانتی ہے اور نہ جہاں اخبار، ٹی وی اور دوسرے میڈیا تک عام رسائی تھی، اچانک اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکس کی دستیابی نے کیا گل کھلائے ہیں؟ کس طرح یہ پلیٹ فارمز ایک طرف تو سنسرشپ کے تحت مختلف نظریات کا گلا گھونٹتے رہے ہیں، تو دوسری طرف اپنے من پسند نظریات کی ترویج کرنے والوں کو لامحدود رسائی دی گئی ہے۔نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کہاں تو ریاست ففتھ جنریشن وارفئیر [Fifth Generation warfare] کے تحت اس سب کو پروان چڑھا رہی تھی، تو اب اس سب کو ڈیجیٹل دہشت گردی قرار دے کر مختلف فائروالز کے ذریعے روکنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔ کیا پانی سر سے گزر چکا ہے یا اس انتشار کو روکنے کی کوئی صورت ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

کیا فائر وال مسئلہ حل کر پائے گی؟

تازہ خبروں کے مطابق حکومت پاکستان نے سوشل میڈیا کے شتربےمہار پر قابو کرنے کے لیے دوبارہ فائر وال انسٹال کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس سے قبل ۲۰۱۹ء میں بھی حکومت وقت نے ایک فائروال انسٹال کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ 

فائر وال انٹرنیٹ پر ٹریفک کو فلٹر کرنے کا کام کرتی ہے۔ اگر کسی ویب سائٹ کو بلاک کرنا ہو تو اس کا پتہ یا URL فائروال کو بتادیا جاتا ہے اور پھر وہ ویب سائٹ اس ملک یا دفتر یا گھر جہاں بھی وہ فائر وال انسٹال ہو، کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ یہ کام تو تقریباً تمام ہی فائر والز کرلیتی ہیں۔ لیکن اگر کسی ’اپلی کیشن‘ یا ویب سائٹ کو مکمل بند نہ کرنا ہو بلکہ ان پر موجود مخصوص مواد کو ہٹانا ہو، تو اب ایسی ’فائر والز‘ بھی آگئی ہیں، جو ڈیپ پیکیٹ انسپکشن اور ایڈوانس ڈیپ پیکٹ انسپکشن ٹکنالوجی  (Advanced Deep Packet Inspection)کا استعمال کرتے ہوئے کسی ایپ پر کال کو ریکارڈ کرلیتی ہیں، یا مخصوص مواد کو پڑھ کر اس مواد کو شئیر یا پھیلانے والے کا پتہ لگالیتی ہیں۔

اس قسم کی ’فائر والز‘ کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چین نے اپنے عوام کا ڈیٹا محفوظ بنانے اور مغربی ممالک تک پہنچنے سے روکنے کے لیے نہ صرف فائروال انسٹال کی ہوئی ہے، جسے ’گریٹ فائر وال آف چائینہ‘ کہا جاتا ہے، بلکہ تمام مغربی سوشل نیٹ ورکس پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔  

یہ بات سمجھنے کے بعد یہاں پر بہت اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسی دنیا میں جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہو کہ خدا اور کراماًکاتبین کے بعد آپ کو سب سے زیادہ یہ سوشل نیٹ ورکس جانتے ہیں، اور جہاں دنیا بھر میں موجود ہزاروں ڈیٹا سینٹرز پر دن رات چلنے والی بلامبالغہ لاکھوں کروڑوں طاقت ور مشینوں پر جمع ہونے والا یہ مواد یا ڈیٹا خدائی ذہانت یا Super Intelligence کے حصول کے لیے استعمال ہورہا ہے، کیا ایک فائر وال انسٹال کرلینا کافی ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک ایسی جنگ کا سامنا کررہے ہیں جو ہم بغیر لڑے ہی ہار چکے ہیں؟

الحاد کا  فروغ

جب ایک طرف تو مذہب کے ساتھ نفرت، دہشت، جنگ اور فساد کو جوڑ دیا جائے اور دوسری طرف مادیت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو، تو اس کا لامحالہ نتیجہ خدا اور دین بیزاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی کچھ امریکا میں ہوا جہاں نو گیارہ کے بعد اسلام کے خلاف مہم کا نتیجہ امریکی معاشرے میں الحاد یا Atheism کے دوبارہ عروج کی صورت میں نکلا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے اس صورت حال کو مہمیز دے کر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں پھیلنے والی لادنیت یا الحاد کی بڑی وجہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہیں۔ اس صورت حال پر برطانوی پروفیسر اسٹیفن بلیونٹ نے اپنی کتاب [غیر عیسائی امریکا کی تعمیر] یا  Nonverts: The Making of Ex-Christian America میں روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کے خیال میں امریکا میں بڑھنے والے الحاد یا Atheism اور سیکولرازم کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں:

Given how much more willing people are to talk about religion and politics online than they are in person, you’re therefore probably exposed to all manner of different viewpoints. Sometimes, maybe one of these makes you think differently about a political policy or religious doctrine — or even if not, it makes you a little less sure about it than you used to be.Given the sheer amount of time many people tend to spend on social media platforms, it’s not hard to imagine that the cumulative effect of all this might well be to chip away at lots of hitherto unexamined convictions. And that this, combined with other factors, might help nudge a good number further along the path away from religion — and to shove a few of them down one or another shortcut to Advance Directly to Godlessness.

کیونکہ لوگ عام زندگی کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر مذہب اور سیاست کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں، اس لیے یہاں ان کو مختلف نظریات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا ہی کوئی نظریہ یا بات آپ کو اپنے اعتقادات کے بارے میں مختلف طریقے سے سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے یا کم از کم آپ کو شک میں ضرور ڈال سکتی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ لوگ کتنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صرف کررہے ہیں، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بہت سے کمزور عقائد سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اگر اسی کے ساتھ دوسرے عوامل کو شامل کرلیا جائے تو اس سب سے [لوگوں کی] بڑی تعداد کو مذہب سے دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہاں تک کہ چند لوگ تو خدا پر یقین بھی کھو سکتے ہیں۔گویا کہ کہاں تو سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہم کو کنویں کا مینڈک بنا رہے تھے اور اب کہاں ہم خدا بیزار نسل کا ظہور انھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی بدولت دیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا نیٹ ورکس اور دعوت کا میدان

سوشل میڈیا نیٹ ورکس اپنی دعوت کو پھیلانے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی بن کر سامنے آئے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر فوری دستیاب معلومات کے حصول نے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کو جاننے اور مختلف نظریات کو پڑھنے یا جاننے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔

گذشتہ دنوں امریکا میں ہونے والے الیکشن سے قبل ری پبلکن پارٹی کے قومی اجلاس میں سکھوں کی جانب سے نمائندگی کرنے والی ہرمیت ڈھلوں نے اپنی تقریر کا آغاز سکھوں کی دعا سے کر کے خبروں میں جگہ بنالی۔ تفصیلات کے مطابق سکھ ری پبلکن امیدوار کا سکھوں کے خدا ’واہ گرو‘ ' کا ذکر امریکا میں موضوعِ بحث بن گیا۔ جہاں ان کے مخالفین نے اسے عیسائی دشمنی کہا تو ان کے حمایتیوں نے اسے دو مذاہب میں محبت بڑھانے کا ذریعہ۔ لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تقریر کے بعد اگلے تین دنوں تک گوگل سرچ انجن پر امریکا میں سب سے زیادہ تلاش کیا جانے والا لفظ 'وہی ’واہ گرو‘ بن گیا اور گوگل ٹرینڈز کے مطابق گوگل استعمال کرنے والے ہر سو میں سے ستّر افراد نے اگلے تین دنوں میں اس بارے میں جاننے کی کوشش کی۔

یہ واقعہ اسلام کی دعوت پھیلانے والوں کے لیے ایک امید اور دستیاب مواقعوں کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کام انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر نہایت ہی غیر منظم انداز میں ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف بعض لوگوں نے ان پلیٹ فارمز پر اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسالک کا جھنڈا بلند کیا ہوا ہے، وہیں سنسر شپ بھی زبردست طریقے سے آڑے آرہی ہے۔ مثلاً جب ہم نے گوگل سرچ پر 'اللہ کون ہے؟ (Who is Allah)، 'اسلام میں خدا کا تصور (God In Islam) اور 'محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کون ہیں؟ ( Who is Muhammad? ) تلاش کیا تو گوگل نے اپنے پہلے صفحے پر ہمیشہ وکی پیڈیا ، برٹانیکا جیسی ویب سائٹس کو اوپر رکھا اور مسلمانوں کی بنائی کسی بھی اسلامی ویب سائٹ کو گوگل کے پہلے صفحے پر بمشکل ہی جگہ مل پائی۔

دوسری طرف اسلام، اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جڑے منفی سوالات کے لیے گوگل نے مغربی پروپیگنڈا ویب سائٹس کو پہلے صفحے پر پوری آزادی دی ہوئی ہے۔ یہ سوالات انگریزی زبان میں پوچھے گئے تھے لیکن دوسری زبانوں میں گوگل سرچ پر کیا صورت حال ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر تفصیلی سوچ بچار کے بعد ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے اور اپنی دعوت کو مختلف زبانوں میں بہترین طریقے سے پیش کیا جائے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا نہ صرف دفاع کیا جائے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے۔ اسی طرح اسلام اور عیسائیت اور مسلم اور ہندو تصادم کی صورت حال کو بھی دوستانہ اور داعیانہ رخ دے کر نفرت کو محبت سے بدلا جائے۔ 

میٹاورس: سوشل میڈیا  نیٹ ورکس کا مستقبل؟

’میٹاورس‘ ایک ایسی مصنوعی دنیا Virtual World کوکہتے ہیں، جہاں آپ کے بجائے آپ کا کارٹون کیریکٹریا Digital Avatar آپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ میٹاورس استعمال کرنے کے لیے آپ کو اپنی آنکھوں پر ایک ڈیجیٹل چشمہ یا Virtaul Reality Headset پہننا پڑتا ہے، جس کے بعد آپ ایک کثیرالجہتی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں جو حقیقی دنیا کا متبادل ہوگی۔ ابھی یہ ٹکنالوجی اپنی ابتدائی شکل میں ہے لیکن ’میٹاورس‘ کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل کہا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کاروبار سے لے کر تفریح تک سارے کام کریں گے۔

ماہرین کے خیال میں ’میٹاورس‘ کی ترقی سے ہم زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اہم تبدیلیاں دیکھیں گے، مثلاً تعلیم، گھر بیٹھے کام کرنا، سیر و تفریح وغیرہ۔ مائیکروسوفٹ نے دفاتر کو ملازمین کے لیے مزید دلچسپ بنانے کے لیے اپنی مختلف ایپس میں ’میٹاورس‘ کو شامل کیا ہے تاکہ دومختلف جگہوں پر بیٹھے لوگ زیادہ فعال طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرسکیں۔ لیکن ’میٹاورس‘ کا سب سے زیادہ اثر آن لائن گیمنگ پر پڑ رہا ہے۔ اور میٹاورس نے ورچول رئیلیٹی (Virtual Reality )کی مدد سے آن لائن گیمنگ کو پہلے سے زیادہ 'دلچسپ بنادیا ہے جو نوجوانوں کو ان پلیٹ فارمز پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے ضروری ہے۔

اگر ’میٹاورس‘ قبولِ عام حاصل کرلیتا ہے، تو اس کے اثرات ناقابلِ بیان ہوسکتے ہیں ۔ ہم نے اس مضمون کے آغاز میں جس واقعے کا ذکر کیا ہے وہ پہلا نہیں ہے۔ انڈیپنڈنٹ اخبار کی ایک خبر کے مطابق نینا جین پٹیل، جو ایک ماہر نفسیات اور محقق ہیں، کو بھی اسی قسم کے تجربے سے گزرنا پڑا، جب وہ یہ معلوم کرنے کے لیے فیس بک کے میٹاورس پلیٹ فارم پر گئیں کہ وہ پلیٹ فارم خواتین یا بچوں کے لیے کتنا محفوظ ہے۔ ان کے مطابق محض ۶۰ سیکنڈ میں ہی ان کے کارٹون کردار کو بدترین ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، اور ان لوگوں یا کرداروں نے ان کے کردار کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ یہ تجربہ ان کے لیے اس لیے بھی خوفناک ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے ’ورچول ہیڈ سیٹ‘ کے ساتھ ساتھ ہاتھوں اور کلائیوں میں بھی ایسے آلات [Touch controllers and wrist straps] پہن رکھے تھے، جن کی وجہ سے جب بھی میٹاورس میں ان کے کردار کو کوئی چھوتا تو اسے وہ اپنے جسم میں محسوس کرسکتی تھیں۔ ’فیس بک‘ کو اس خبر کے بعد اپنے میٹاورس پلیٹ فارم پر ذاتی حدود یا Personal boundries کا فیچر متعارف کرانا پڑا تاکہ دو کرداروں کے درمیان کم از کم چار فٹ کا فاصلہ رہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے لیے میٹاورس کیوں ضروری ہے؟ اس موضوع پر عالمی اقتصادی فورم کے مقرر اینڈریو راس سورکن(Andrew Ross Sorkin) روشنی ڈالتے ہیں:

There's going to be people of means who are going to travel, and then there's going to be people maybe of lesser means who might actually be able to use an Oculs or a Magic Leap or some other kind of device to travel to the same place but from their own couch.

ایک طرف امرا ہوں گے جو [حقیقی] سفر کیا کریں گے جو اس سفر کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور دوسری طرف عام لوگ جن کے وسائل کم ہیں۔ یہ لوگ اوکلس [فیس بک کا ورچول ریلیٹی ہیڈ سیٹ Facebook Virtual Reality headset] یا میجک لیپ یا کوئی اور دوسری مشین کا استعمال کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے صوفے پر بیٹھے سفر کیا کریں گے۔

اس سب کا نفسیاتی اثر کیا ہوگا؟ اس پر خود ہی روشنی ڈالتے ہوئے اینڈریو مزید کہتے ہیں:

But in many ways, its acually going to create even more distance between those two people that psycohologically, and I think that we've experienced this through social media, in many ways, its brought people closer in certain ways, but actually created this remarkable divide because it's even more visible.

لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر یہ سب [یعنی میٹاورس کا استعمال] ان دو طرح کے لوگوں کے درمیان ایک زیادہ وسیع نفسیاتی خلیج پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ اور میرے خیال میں ہم یہ سب سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہیں جہاں ایک طرف تو یہ [سوشل میڈیا] لوگوں کوکسی طرح قریب لانے کا باعث بنا ہے، تو دوسری طرف اس نے [لوگوں کے درمیان] ایک گہری خلیج پیدا کردی ہے جو نہایت واضح ہے۔

صحت پر اثرات

شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کون دن بھر ہیڈسیٹ پہنے اپنے صوفے پر بیٹھے زندگی بسر کرنا پسند کرے گا؟ لیکن پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ کمپیوٹرز اور پھر اسمارٹ فونز کی ایجاد کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کا استعمال دوسری چیزوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ۲۰ سال قبل دنیا بھر میں لوگ اوسطاً دو گھنٹے ان اسکرینز پر گزارتے تھے جو بڑھ کر آخری دس برسوں میں تقریباً پانچ گھنٹے اور اب تقریباً سات گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ اور نوجوان نسل تقریبا ً۹ گھنٹے اوسطاً روزانہ اپنے اسمارٹ فون پر گزارتی ہے۔

اس کا نتیجہ ہماری توجہ کے بٹ جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ امریکی ادارہ برائے نفسیات کی ایک تحقیق کے مطابق ۲۰ سال قبل عام طور پر ایک بندہ اوسطاً ڈھائی منٹ کسی بھی ایک کام پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں توجہ کا دورانیہ [Attention span] گر کر ڈیڑھ منٹ تک رہ گیا تھا اور اب توجہ کا دورانیہ محض ۴۷ سیکنڈ رہ گیا ہے۔ اور اس میں بھی ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ کسی بھی کام پر ۴۰  سیکنڈ سے بھی کم توجہ مرکوز کرپاتے ہیں۔

کیلیفورنیا یونی ورسٹی کی پروفیسر گلوریا مارک نے جو اس تحقیق کی سربراہ تھیں، ایک پوڈکاسٹ جس کا موضوع تھا کہ ’ہماری توجہ کا دورانیہ کیوں کم ہورہا ہے؟‘ یا 'Why our attention spans are shrinking?' میں ان تفصیلات سے آگاہی دی۔ ان کے مطابق اس سب کا لازمی نتیجہ خرابی ٔ صحت کی صورت میں نکلا ہے۔ مثلاً بار بار ایک چیز سے دوسری چیز پر توجہ مرکوز کرنے سے تناؤ (Stress) اور بلند فشار خون کے مرض میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ہماری نیند کا دورانیہ بھی کم ہوگیا ہے۔

اس بڑھتے ہوئے ’اسکرین ٹائم‘ (Screen Time)کا سب سے خطرناک اثر بچوں پر پڑرہا ہے۔ جو بچے زیادہ وقت ’یوٹیوب‘ اور ’گیمنگ‘ پر صرف کرتے ہیں، ان کے دماغ کی بڑھوتری نہ صرف بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے لیے یہ سب بالکل نارمل بن جاتا ہے۔ اور ان کی اس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت اور خود پر قابو پانے کی صلاحیت غیرمحسوس طریقے سے کم ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال پر ایلون مسک نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے روکیں:

I would say I would urge parents to limit the amount of social media that children are able to see. Because they're being programmed by dopamine-maximizing AI.

میں کہوں گا، [بلکہ] میں والدین پر زور دوں گا کہ وہ اپنے بچوں کے سوشل میڈیا پر صرف ہونے والے وقت کو محدود کریں کیونکہ وہ [بچے] ڈوپامین بڑھانے والی مصنوعی ذہانت کا شکار بن رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کی تربیت

اس ضمن میں سب سے اہم کام جو والدین اور اساتذہ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو نہ صرف ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے خطرات سے آگاہی دیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی آن لائن سماجی سرگرمیوں(Online Social activities) پر مختلف ایپس کی مدد سے نظر بھی رکھیں۔

اس کام کو صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کے دین، ایمان ہی نہیں بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بھی محفوظ بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ جدید ’فائر والز‘ کو صرف اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے ہی استعمال نہ کرے، بلکہ اس کے ساتھ سوشل نیٹ ورکس پر پھیلی فحاشی، لادینی نظریات اور اخلاق باختہ خیالات کو روکنے کے لیے بھِی استعمال کرے۔ صورت حال کی سنگینی پر مشہور اسرائیلی دانشور نوح ہریری نے کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے:

I also try to take good care of my mind. Our minds were shaped back in Stone Age in a completely different situation, and environment.We are now flooded by enormous amounts of information that we cannot deal with. What the smartest people in the world have been doing in recent years is figuring out how to use these devices in order to hack our brains and press our emotional buttons. And anybody who thinks they are strong enough to resist it is just fooling themselves.It's much, much more powerful than us.So I'm not saying it's impossible to just completely disconnect from the world, but taking some time off to just detoxify the mind and to have a kind of information diet.

میں اپنے دماغ کا اچھا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے دماغ پتھر کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں جب [آج کل کے مقابلے میں] بالکل الگ ماحول تھا۔ آج ہم کو معلومات کے ایک سیلاب کا سامنا ہے جس سے نبردآزما ہونا ہمارے بس کی بات نہیں۔ دنیا کے ذہین ترین افراد پچھلے کئی برسوں سے ان مشینوں کو ہمارے دماغوں کو قابو کرنے اور ہمارے جذبات سے کھیلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اور جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس صورت حال کا مقابلہ کرسکتا ہے، اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ یہ سب ہم سے بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اس [ڈیجیٹل] دنیا سے بالکل الگ ہوجائیں لیکن کچھ دیرکے لیے اس سے دُور رہنا تاکہ ہم اپنے دماغ کو ان مضر اثرات سے دُور کریں ضروری ہے۔ ساتھ ہی ہم کو اس [بے ہنگم اور بے تحاشا] معلومات سے پرہیز بھی کرنا ہوگا۔

خلاصۂ بحث

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ کو عوام کو قابو کرنے کا ایک انوکھا طریقہ سوجھا۔ اس نے تجربے کے لیے چند بچوں کو ایک اندھیرے غار میں قید کردیا، جہاں روشنی کا کوئی گزر نہ تھا۔ غار کے بیچ میں آگ جلتی رہتی تھی اور غار کے داخلے کی جگہ پر چند غلام کھڑے پتلی تماشا دکھایا کرتے تھے جس کا عکس غار کی دیوار پر پڑتا تھا۔ وہ بچے جو اس غار میں قید تھے، ان کی دنیا اور سمجھ بوجھ بس یہی غار اور اس میں دکھایا جانے والا وہ پتلی تماشا تھا جس کا عکس وہ غار کی دیوار پر دیکھا کرتے تھے۔ آخر ایک بچے نے ہمت کی اور اس غار سے نکلنے کی کوشش کی لیکن غار سے باہر نکلتے ہی سورج کی روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ غار میں واپس آگیا۔ اس کے تجربے کو دیکھتے ہوئے دوبارہ کسی نے اس غار سے نکلنے اور حقیقت پانے کی کوشش نہیں کی۔

افلاطون [م: ۳۴۰ ق م]نے یہ تمثیل اپنی کتاب ریاست ( 'Repulic' ) میں کوئی دوہزار سال قبل بیان کی تھی۔ لیکن اب جدید دنیا کے فلسفی سوشل میڈیا اور اس کے اثرات کو اسی تمثیل کے ذریعے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

جس اطلاعتی دور (Information Age') کے خطرات پر کچھ عرصہ قبل محض گفتگو ہوتی تھی، وہ دور آج ہمارے سامنے ایسی آب و تاب سے آن کھڑا ہے کہ اس نے دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ اور سوچنے والے ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔ مدہوشی کی ایک کیفیت ہے جو پوری انسانیت پر طاری ہے۔ ایک طرف راتوں رات مشہور اور جلد از جلد امیر بننے کی خواہش نے فرد، خاندان اور معاشرے کو بری طرح تقسیم کردیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی لادینیت کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ نہ اس سب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے اور نہ کوئی راہ فرار۔ المیہ یہ ہے کہ جس اُمت کو ’اُمت وسط‘ کا کردار ادا کرنا تھا اور جس نے دنیا کو خبردار کرنا تھا، وہ بے بسی سے اسی سیلاب میں بہتی نظر آرہی ہے۔

گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔

دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :

The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.

اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔

اسی سوچ کے حامل یونی ورسٹی کالج، لندن میں ماحولیاتی آلودگی کے پروفیسر بل مک گیوری (Bill McGuire ) نے برطانوی اخبار دی گارڈین  (۱۱ مئی ۲۰۲۴ء )میں شائع ہونے والے ایک تجزیے ’ہم انسانی برڈ فلو کے لیے کتنے تیار ہیں؟‘  [How Prepared are We for Human Bird Flu?] کو ٹوئیٹر یا ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا:

If I am brutally honest, the only realistic way I see emissions falling as fast as they need to, to avoid catastrophic climate breakdown,is the killing of the human population by a pandemic with a very high fatality rate.

اگر میں کڑوا سچ بولوں تو [زہریلی گیس کے] اخراج میں کمی کا تیز ترین اور کسی تباہ کن ماحولیاتی المیے سے بچنے کا حقیقت سے قریب راستہ صرف ایک ہی ہے، [اور وہ ہے] کسی ایسی وبا کے ذریعے انسانی آبادیوں کا صفایا، جس میں موت کی شرح بے حد زیادہ ہو۔  

اس پوسٹ کے بعد پروفیسر مک گیوری کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد انھوں نے پہلے تو اپنی یہ پوسٹ ہٹادی اور پھر وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’’میں صرف معاشی سرگرمی میں کمی کے حوالے سے گفتگو کر رہا تھا‘‘۔

کچھ اہل دانش کے خیال میں یہ سوچ اور پیغام جان بوجھ کر پھیلایا جارہا ہے، تاکہ ذہن آہستہ آہستہ ایسی بربادی کو قبول کرنے یا اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے جائیں۔ اس سوچے سمجھے منصوبے کے پیچھے دنیا کے بہت سے طاقت ور اور مال دار افراد کا پورا طائفہ ہے جن میں ورلڈ اکنامک فورم کے کلاز سواب [Klaus Schwab] ، مشہور لوجسٹ بل گیٹس [ Bill Gates]  وغیرہ شامل ہیں۔ اس منصوبے کو ’ایک عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کا نام دیا گیا ہے۔

آخر یہ ’ایک عظیم تعمیرِنو‘ منصوبہ کیا ہے؟ دنیا کے یہ طاقت ور افراد کیا سوچ رہے ہیں؟ اور اپنے وسائل کہاں خرچ کررہے ہیں، اور ان کی نظر میں دنیا کا مستقبل کیسا ہوگا؟

’ایک عظیم تعمیرِ نو‘  منصوبہ کیا ہـے؟

یہ منصوبہ ’عالمی اقتصادی فورم‘ [World Economic Forum] کی جانب سے کورونا کووڈ کی وبا کے بعد ۲۰۲۰ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے ناقابلِ تلافی نقصانات کے ازالے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا تھا۔ ’عالمی اقتصادی فورم‘ (WEF) ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جس کو ۱۹۷۱ء میں کلاز سواب نے قائم کیا تھا۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر کے اہم لوگوں کو، چاہے ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، اکٹھا کرکے منصوبہ بندی کرنا ہے تاکہ دنیا کو رہنے کے لیے بہتر سے بہتر بنایا جاسکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پلیٹ فارم اتنا اہم ہوگیا ہے کہ دنیا بھر کے حکمران، ارب پتی کاروباری اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین اس پلیٹ فارم سے گفتگو کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔

اس منصوبے کے بنانے والوں کے خیال میں کورونا کی وبا نے ایسا موقع فراہم کیا ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر دنیا کو درست سمت میں چلایا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ء کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پائیدار ترقی کا یہ منصوبہ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ نے منظور کیا تھا، جس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانا اور کرۂ ارض کو محفوظ و مامون بنانا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں ،  حقیقت یا ہَوّا؟

اگلے دس برسوں میں جو معاملہ دنیا کے ہر اہم معاملے پر سبقت رکھے گا اور گذشتہ کچھ عرصے میں سب سے زیادہ شور جس مسئلے پر مچا ہے، وہ ماحولیاتی تبدیلی یا Climate Change کا ہے، جسے اکثر ’گلوبل وارمنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ اس عمل کو کہتے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھنا شروع ہوجائے، جس کی وجہ سے مختلف ماحولیاتی تبدیلیاں جنم لیں، جس میں سیلاب کی زیادتی، سردیوں کے موسم میں مسلسل کمی ہونا اور گرمیوں کا شدید سے شدید تر ہوجانا شامل ہے۔ زمین پر موسمیاتی تبدیلیاں اگرچہ قدرتی وجوہ کی بنا پر ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، لیکن آخری ۳۰۰ برسوں میں ’صنعتی انقلاب‘ کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ قدرت کے مظاہر نہیں بلکہ خود ہم بن گئے ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ زہریلی گیسوں مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا اخراج ہے۔ اس کی اہم وجہ ایندھن یعنی تیل، گیس اور کوئلے کا بڑھتا ہوا استعمال ہے، جو بڑھتے بڑھتے اب اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو کچھ ہی عرصے میں کرۂ ارض انسانوں کے لیے ناقابلِ رہایش ہوجائے گا۔

اس مسئلے پر توجہ دلانے کے لیے ماحولیاتی تنظیموں نے مشہور لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا کر گذشتہ کچھ عرصے سے تحریک شروع کررکھی ہے، اور تقریباً ہر ملک میں مختلف کانفرنسوں کا انعقاد کرکے اس مسئلے پر توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح اس تحریک کے حامی اس مسئلے پر توجہ دلانے کے لیے کبھی تو ٹرکوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں اور کبھی کسی مشہور آرٹسٹ کی پینٹنگ پر  رنگ پھینک کر توجہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت پر قابو پانے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے زیر سایہ ہر ملک نے اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مختلف اہداف طے کیے ہیں۔

 یہی وہ اہداف ہیں، جن کی وجہ سے اس تحریک کے مخالفین بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ جو اس عمل کو ’انسانیت کو قابو کرنے‘ اور ’عالمی حکومت کے قیام‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس مخالفت کی ایک بڑی وجہ وہ غیر سنجیدگی ہے، جو اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں کے رویئے میں نظر آتی ہے۔ مثلاً اس تحریک کے اکثر سرکردہ حامی وہ امیر لوگ ہیں، جو ایک طرف تو  ان کانفرنسوں میں شرکت کے لیے تن تنہا اپنے پرائیوٹ جہازوں پر سفر کرتے ہیں، ان کانفرنسوں کے بعد ہونے والی پارٹیوں میں مختلف طرح کے کھانے اُڑاتے ہیں، مگر عام انسانوں کو گائے کا گوشت کے بجائے 'متبادل اورماحول دوست کھانا کھانے پر زور دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایک پرائیوٹ جیٹ اپنے صرف ایک گھنٹے کے سفر میں تقریباً ۲ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کردیتا ہے، جس کے مقابلے میں ایک آدمی پورے سال میں صرف ۵ سے ۸ ٹن گیسوں کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔ 

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ماضی میں اکثر ماحولیاتی تبدیلیوں کی تحریکوں کو ’پیسہ کمانے اور ملازمتیں چھیننے کا بہانہ ‘کہتے رہے ہیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق ٹرمپ نے کہا:

I think something's happening. Something's changing and it'll change back again... I don't think it's a hoax. I think there's probably a difference. But I don't know that it's manmade. I will say this: I don't want to give trillions and trillions of dollars. I don't want to lose millions and millions of jobs

میرے نزدیک کچھ [مسئلہ] ہورہا ہے۔ [ماحول میں] کوئی چیز تبدیل ہورہی ہے لیکن یہ واپس [پرانی شکل میں] آجائے گی۔ میں اسے ہوّا نہیں سمجھتا۔ کچھ تو مسئلہ ہے لیکن یہ انسانوں کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ [بحیثیت صدر] میں اس مسئلے کے لیے ٹریلین ڈالرز نہیں دے سکتا، اور نہ لاکھوں ملازمتیں ختم کرنا چاہوں گا۔

گائے کے گوشت کے بجائے جھینگر کھانے کا مشورہ

ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں تقریباً ۳۰ فی صد حصہ فوڈ انڈسٹری کا ہے۔ زہریلی میتھین گیس کے اخراج کا ایک بڑا سبب گائے بھینسوں کے وہ کمرشل فارم ہیں، جو دنیا بھر میں سستا اور معیاری گوشت فراہم کررہے ہیں۔ گائے بھینسیں چارہ ہضم کرتے ہوئے میتھین گیس کا اخراج کرکے زمینی درجۂ حرارت کے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ ماحولیاتی تنظیموں کے چند حامی اس مسئلے کے حل کے طور پر گوشت کی جگہ جھینگر کھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’ کیونکہ لائیو اسٹاک فارمنگ کے مقابلے میں جھینگر فارمنگ کم خرچ بھی ہے اور ماحول دوست بھی‘‘۔

دوسری طرف کیڑے مکوڑوں کی فارمنگ کے ساتھ ساتھ لیباریٹری میں تیار گوشت کے حمایتی بھی اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس مہم کے سب سے بڑے وکیل مشہور لوجسٹ بل گیٹس ہیں، جن کے خیال میں ترقی یافتہ ممالک کو مکمل طور پرمصنوعی گوشت کا استعمال شروع کردینا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مشہور امریکی یونی ورسٹی ایم آئی ٹی (MIT )کے میگزین کو اپنی کتاب How to Avoid a Cilimate Disaster? کے حوالے سے انٹرویو دیتَے ہوئے کیا۔

واضح رہے کہ بل گیٹس جو اب 'خوراک اور صحت کی بہتری پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرچکے ہیں نہ صرف ایسی بہت سی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں، جو مصنوعی گوشت پر تحقیق کررہی اور اس کو عام کرنے کی کوشش کررہی ہیں، بلکہ اس وقت امریکا کے سب سے بڑے زمین دار بھی بل گیٹس بن چکے ہیں، جنھوں نے مختلف امریکی ریاستوں میں بے حساب زرخیز زمین خرید رکھی ہے۔ بل گیٹس نے اپنی دولت کا ۸۰ فی صد حصہ جو تقریباً ۳۶ بلین ڈالر بنتا ہے، ’گیٹس فاونڈیشن‘ میں لگادیا ہے جس کا ایک مقصد لوگوں کی 'صحت کو بہتر بنانا ہے۔

’لائیو اسٹاک فارمنگ‘ کے ساتھ زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے کھادوں کے استعمال نے بھی ماحول پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اس سب پر قابو پانے کے لیے مختلف یورپی حکومتوں نے سخت پابندیاں لگانی شروع کردی ہیں۔ مثلاً ہالینڈ، جو زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ چیزوں اور مصنوعات کا امریکا کے بعد دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے، اس کی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا کہ ’’ملک میں لائیو اسٹاک فارمنگ کے بڑے بڑے فارموں کو بند کردیا جائے اور لائیو اسٹاک کی تعداد کو آدھا کردیا جائے‘‘۔ اس بل کے پیش ہونے کے بعد ہالینڈ میں زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ کسانوں نے مظاہرے شروع کردیے، جو آہستہ آہستہ اب پورے یورپ میں پھیل رہے ہیں۔

ایک طرف یہ کارروائیاں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے نام پر ہو رہی ہیں، تو دوسری طرف کسی نئے ممکنہ وائرس سے بچنے کے لیے بھی لائیو اسٹاک سیکٹر میں سخت اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ امریکی ویب سائٹ این بی سی کے مطابق ’’گذشتہ دنوں امریکی ریاست آئیوا میں پولٹری فارم مالکان کو تقریباً ۴۰ لاکھ مرغیاں مارنے کا حکم دیا گیا، کیونکہ ایک فارم پر ’برڈ فلو وائرس‘ پایا گیا تھا۔ امریکی محکمۂ زراعت کے مطابق امریکا میں ۲۰۲۲ء سے اب تک تقریباً ۹ کروڑ مرغیوں کو اسی وجہ سے مارا جاچکا ہے، کیونکہ کسی علاقے میں ’برڈ فلو وائرس‘ پایا گیا تھا۔ اور وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے علاقے میں موجود تمام مرغیوں کو مار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سائنس دانوں کے خیال میں پہلے بےضرر سمجھا جانے والا ’برڈ فلو وائرس‘ وقت گزرنے کے ساتھ طاقت ور ہوچکا ہے اور اب مرغیوں سے دوسرے جانوروں اور انسانوں میں بھی پھیل سکتا ہے‘‘۔

اسی طرح کے ایک اقدام میں نیوزی لینڈ میں شہد پیدا کرنے والے فارم مالکان کو اپنے شہد کی مکھیوں کے فارم پر موجود شہد کی تمام مکھیوں کو مارنے کا حکم ملا کیونکہ شہد کی مکھیوں میں ممکنہ طور پر ایک خطرناک وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

اس عمل کے مخالفین کے خیال میں ایک طرف تو یہ سب ہمارے کھانے پینے کی عادات اور اطوار کو تبدیل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف اس کا مقصد ادویات بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے نئی ویکسینز (Vaccines) متعارف کرا کر اپنے منافع کو بڑھانا ہے۔ ساتھ ہی ان کے خیال میں یہ ’طاقت ور وائرس‘ قدرتی نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اس شبہے کو یہ نظریہ بھی تقویت دیتا ہے کہ کورونا وائرس اصل میں چین کے صوبے ووہان [Wuhan] کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا اور اس لیبارٹری کو امریکی حکومت کی فنڈنگ ہوتی تھی۔ ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۴ء کی امریکی ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خبر کے مطابق چینی حکومت نے وائرس پھیلنے کے بالکل ابتدائی دنوں ہی میں مختلف لیباریٹریوں کو بند کرکے، غیرملکی سائنس دانوں کو ملک سے نکال دیا تھا اور مقامی سائنس دانوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی تھی۔ جس کے باعث کسی بھی طرح سے کورونا وائرس کے پھیلنے کی اصل وجہ جاننا تقریباً ناممکن ہوگیا۔

جینیٹکس انجینیرنگ اور خوراک و صحت کے مسائل

’’کیا جھینگر یا دوسرے کیڑے مکوڑے کھانا اور مصنوعی گوشت استعمال کرنا حلال ہے یا حرام؟‘‘ اس بحث کو اگر چھوڑ بھی دیں تو دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ہماری صحت پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال کا جواب شاید ابھی کسی کے پاس نہ ہو، لیکن یہ سب جینیٹکس انجینیرنگ سے ممکن ہوا ہے۔ دو عشرے قبل جو ٹیسٹ ٹیوب بچوں کا شور اُٹھا تھا، وہ اب ہمارے دسترخوان تک پہنچ گیا ہے۔ آپ نے گذشتہ دنوں پاکستان میں مرغیوں کی خوراک کے لیے منگوائی جانے والے سویابین پر حکومتی پابندی کا تو سنا ہوگا کیونکہ وہ [ GMO - Genetically Modified Organism] کے زمرے میں آتا ہے اور بیش تر ممالک میں اس پر پابندی ہے کیونکہ اس کو بڑھتے ہو ئے کینسر کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

اسی سے ملتا جلتا معاملہ ایم آر این اے [MRNA] ویکسینز کا ہے۔ امریکی کمپنی فائزر، اپنی کورونا وبا سے مقابلے کے لیے متعارف کرائی گئی ویکسین کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو دیگر بہت سی طبّی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکی محکمۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاوچی کو امریکی پارلیمنٹ میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔  نیوز ویک کے مطابق امریکی ریاست جارجیا سے تعلق رکھنے والی پارلیمنٹیرین ماہجوری ٹیلر گرین [Marjorie Taylor Greene] نے ڈاکٹر فاوچی پر انسانیت کے اجتماعی قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا کیونکہ ڈاکٹر فاوچی نے کورونا ویکسین کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے محفوظ قرار دیا تھا۔ کچھ امریکی کمپنیوں نے اپنی کورونا ویکسین مارکیٹ سے اٹھانا شروع کردی ہیں، لیکن بل گیٹس اب بھی ان ویکسینوں کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔

 دوسری طرف بل گیٹس کے مخالفین کے خیال میں امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم [Autism]کی وجہ ان ویکسینوں میں استعمال ہونے والی چیزیں مثلاً مرکری اور دوسری دھاتیں شامل ہیں۔ اسی طرح خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی پلاسٹک کو، جسے پہلے سائنس دانوں نے محفوظ قرار دے دیا تھا، اب انسانی شرح پیدائش میں مسلسل کمی کا باعث سمجھا جارہا ہے۔ اسی طرح نت نئی ’لوجی‘ سے تیارکردہ مختلف قسم کے تیار کھانے [Processed food] وغیرہ بچیوں میں قبل از وقت بلوغت کے مسائل پیدا کررہے ہیں۔

توانائی کے بدلتے ذرائع

پائیدار ترقی کے منصوبے میں سبز توانائی [Green Energy] کو مرکزیت حاصل ہے۔ پہلےجہاں سڑکوں پر تیل اور گیس سے چلتی گاڑیاں نظر آتی تھیں، اب بجلی سے چلنے والی گاڑیوں نے جگہ لینی شروع کردی ہے۔ یہ بجلی کیونکہ سورج سے توانائی حاصل کرکے بنائی جاتی ہے، اس لیے اس سے زہریلی گیسوں کا اخراج بہت کم ہوتا ہے۔

گو کہ یہ ’لوجی‘ ابھی نئی ہے اور اس بجلی کو محفوظ کرنے کے طریقے یا بیٹریاں ابھی مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ مختصرعرصے میں ناقابل استعمال ہوتی ہیں، لیکن یہ سیکٹر سرمایہ کاری کا مرکز بن گیا ہے۔ جہاں یہ تبدیلی سستے اور صاف ایندھن کی فراہمی میں معاون ہوگی، وہاں اس نے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک مثلاً سعودی عرب، کویت وغیرہ کا ہے۔

عرب ممالک نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنی اپنی معیشتوں کو تیل کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا ہی ایک منصوبہ ایک پائیدار، صاف اور کم اخراج والی توانائی سے چلنے والے شہر نیوم [NEOM] کے بنانے کا ہے۔ سعودی عرب اس منصوبے پر اربوں ڈالر لگا رہا ہے۔

کاربن ٹیکس، ڈیجیٹل معیشت اور قرضوں کا نیا جال؟

کسی بھی چیز کے فوائد یا خطرات کی بحث تو ہمیشہ جاری رہے گی، لیکن آپ کیڑے مکوڑے کھانا چاہیں یا گائے کا گوشت؟ برقی گاڑیوں میں سفر کریں گے یا نہیں، آپ کو کاربن ٹیکس ہر حال میں دینا پڑے گا اور یہ کاربن ٹیکس آنے والے دنوں میں ہر چیز پر لگ جائے گا۔ اگر کسی چیز کو بنانے کی وجہ سے زہریلی گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے تو اس چیز پر کاربن ٹیکس بھی زیادہ ہوگا، اور آپ کسی صورت ایسے کسی ٹیکس سے بھاگ نہیں پائیں گے، کیونکہ اگلے دس برسوں میں دنیا بھر میں معیشت کو ڈیجیٹلایز کردیئے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور اس عمل میں سب سے اہم کردار مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں کی طرف سے جاری کردہ ڈیجیٹل کرنسیوں [CBDC- سنٹرل بنک ڈیجیٹل کرنسیز]کا ہوگا، جو کیش یا کاغذی کرنسی کی جگہ لے لیں گی۔

انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کردیا ہے۔ جہاں پہلے خطوط لکھ کر دل کا حال سنایا جاتا تھا، تو اب اسمارٹ فون پر سات سمندر پار بیٹھے لوگوں سے جب دل چاہے گفتگو ہوجاتی ہے۔ بازار جاکر خریداری کے جھمیلوں سے ای کامرس کی وجہ سے تقریباً جان چھوٹ رہی ہے۔

معیشت کو ڈیجٹلایز کرنے کی یہ تحریک سب سے پہلے ’بٹ کوائن‘ (Bitcoin)سے شروع ہوئی تھی، جس نے گذشتہ دس بارہ برسوں میں صحیح غلط، قانونی اور غیرقانونی اور دیگر لاتعداد بحثوں اور سوالات کو پیچھے چھوڑ کر ’ڈیجیٹل گولڈ‘ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ بٹ کوائن کو ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد بڑھتے ہوئے افراط زر اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی جانب سے اندھا دھند کرنسی کی چھپائی کی وجہ سے ہونے والی گراوٹ کے مقابلے کے لیے لایا گیا تھا۔ بٹ کوائن بنانے والوں کے خیال میں ڈالر اور دیگر کاغذی کرنسیاں کوئی حقیقی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ عوام کو غلام بنائے رکھنے کا طریقہ ہے، کیونکہ امریکا میں ۱۹۷۱ء میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے خاتمے کے بعد جب حکومت کا دل چاہتا ہے وہ ڈالر چھاپ لیتی ہے، جس کے پیچھے کو ئی اصل دولت مثلاً سونا تو نہیں ہوتا، مگر اس کا اثر عام آدمی پر افراط زر کی صورت پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اپنی عالمی طاقت کی حیثیت کو بچانے کے لیے بے تحاشا ڈالر چھاپ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکا کا قومی قرضہ ۳۵ ٹریلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ یہ قرض کتنا زیادہ ہے؟ اس کو بآسانی سمجھنے کے لیے اس سے اندازہ کرلیں کہ اگر ہم ایک ملین سیکنڈ پیچھے جائیں تو یہ صرف ۱۲ دن کا عرصہ بنتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایک بلین سکینڈ پیچھے جائیں تو یہ تقریباً ۳۱ سال کا عرصہ بنتا ہے اور اگر ہم ایک ٹریلین سکینڈ پیچھے چلے جائیں تو یہ عرصہ ۳۱ ہزار برسوں کا بن جاتا ہے۔

گو کہ سارے ممالک ہی اپنی اپنی کرنسی چھاپ کر معیشت بچانے میں لگے ہیں، لیکن امریکی ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت امریکی ڈالر کی چھپائی کے عمل کو جہاں امریکی حکومت کے لیے اپنی عالمی طاقت منوانے میں بغیر کسی محنت کے فائدہ پہنچاتی ہے، وہیں عام عوام کے  ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اس افراط زر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بین الاقوامی تجارت کے لیے ان کو اپنے پاس ڈالر کے ذخائر رکھنے پڑتے ہیں، جب کہ امریکا یہی کام بغیر کسی محنت کے کرلیتا ہے۔ چین، روس، انڈیا اور چند دوسرے ممالک نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بریکس [BRICS] نامی تنظیم بنالی ہے، جو اپنی مشترکہ کرنسی لانے پر غور کررہی ہے۔

'مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی یا [سنٹرل بنک ڈیجیٹل کرنسی - CBDC] کے ساتھ ساتھ ’پیسے کی نجکاری‘ [Privatization of Money] اور کاربن کریڈٹس [Carbon Credits] کا تصور بھی پیش کردیا گیا ہے۔ جسے بعض محتاط تجزیہ نگار کمزور ممالک کے لیے قرضوں کا نیا جال کہہ رہے ہیں۔ عالمی معیشت پر اس سب کے کیا اثرات ہوں گے؟ کمزور ممالک کے لیے قرضوں کا نیا جال کیسا ہوگا؟ اس سب کا فیصلہ کرنا ابھی تو مشکل ہے، لیکن نجی زندگی اور پرائیوسی کے حامی اس کے سخت مخالف ہیں کیونکہ کرنسی کو ڈیجیٹلائز کرنے کے بعد حکومتوں کے لیے عام لوگوں کی نگرانی کرنا اور ان پر پابندیاں لگانا بہت آسان ہوجائے گا۔

مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد کیا ہوگا؟

اوپر جو بات پروفیسر مک گیوری نے واضح انداز میں کہہ دی تھی اسی بات کو مشہور اسرائیلی دانش ور یووال ہراری [Yuval Noah Harari] نے ایک سوال کے طور پر پیش کیا ہے: ’’مصنوعی ذہانت کے عام ہوجانے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ یعنی جب ربوٹس انسانوں کی جگہ لے لیں گے، تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب اپنی کتاب ’سیپینز: انسان کی مختصر تاریخ‘ [Sapiens: A Brief History of Humankind] سے شہرت پانے والا مصنف ایک انٹریو میں کہتا ہے:

We see the creation of a new massive class of useless people as computers become better and better in more and more fields........ the big political and economic question of the 21st century will be what do we need humans for or at least what do we need so many humans for… at present the best guess we have is to keep them happy with drugs and computer games.

[کیونکہ] کمپیوٹروں کے [زندگی کے] مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کی صلاحیت میں [مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے] اضافہ ہورہا ہے۔ [اس لیے مستقبل میں] ہم بیکار لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا سب سے اہم سیاسی اور معاشی سوال یہ ہوگا کہ آخر انسانوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بالخصوص اتنے سارے انسانوں کی کیا ضرورت ہے؟ فی الحال تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کو کمپیوٹر گیمز اور منشیات سے خوش رکھا جائے گا۔

لیکن نوح ہراری ’مصنوعی ذہانت‘ (Artificial Intelligence - AI)اور بائیو ٹکنالوجی (Bio Technology) کے ملاپ سے زندگی کی نئی شکلیں پیدا کرنے پر بھی بہت پُراُمید ہے :

In the coming decades, AI and Biotechnology will give us godlike abilities to re-engineer life, and even to create completely new life-forms.After four billion years of organic life shaped by natural selection, we are about to enter a new era of inorganic life shaped by intelligent design, our intelligent design!

آنے والے عشروں میں مصنوعی ذہانت اور بائیوٹکنالوجی کے ملاپ سے ہم کو خدائی انداز کی زندگی بخشنے والی صلاحیتیں حاصل ہوجائیں گی۔ جس سے ہم زندگی کی نئی شکلوں  [یا نئی حیات] کا اجرا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چار ارب برسوں تک قدرت کی جانب سے زندگی کے فیصلوں کے کیے جانے کے بعد اب ہم ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہم خود زندگی [اور اس کی شکلوں] کا غیرقدرتی اور بہتر تعین کرسکیں گے۔

یونیورسل بیسک انکم کا منصوبہ

ظاہر ہے مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب انسانوں کے پاس کام کرنے کو نہیں ہوگا تو وہ کمائیں گے کیا، اور کھائیں گے کہاں سے؟ تو اس کے حل کے طور پر 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ یا [Universal Basic Income] کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ یعنی مصنوعی ذہانت کے عام ہونے اور معیشت کے ڈیجیٹلائز ہونے کے بعد آپ کو ہر مہینہ ایک بنیادی تنخواہ دے دی جایا کرے گی، جو آپ کے روزمرہ کے اخراجات کے لیے کافی ہوگی۔ بعض افلاطون اس خیال کو عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

اس منصوبے کے سب سے بڑے حامی چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن ائے آئی [ChatGPT - Open AI] کے سربراہ سام الٹمین ہیں۔ انھوں نے ایک نیا منصوبہ ’ورلڈ کوائن‘ [World Coin] کے نام سے متعارف کرادیا ہے۔ گو اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں، لیکن افریقی ملک کینیا میں جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو کینیا کی حکومت کو اس پر پابندی لگانی پڑی، کیونکہ اس کرنسی کے حصول کے لیے آپ کو اپنی آنکھوں کا بائیو میٹرک کرانا پڑتا ہے، اور یہ محفوظ نہیں ہے۔

ایلون مسک بھی سام الٹمین کے 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ کے خیال سے متفق نظر آتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ’عالمی حکومت کانفرنس‘ [World Government Summit] سے خطاب میں زندگی کے ہر شعبے میں ’مصنوعی ذہانت‘ کے چھا جانے کے بعد کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا:

What to do about mass unemployment. This is going to be a massive social challenge. And I think ultimately we will have to have some kind of universal basic incom.I don't think we have gonna choice.... The harder challenge much harder challenge is how do people then have meaning. Like a lot of people drive their meaning from their employment ... If you are not needed, if there is not a need for your labor... what is the meaning? Do you feel useless.?

 [مصنوعی ذہانت کے بعد] بڑے پیمانے پر پھیلی بے روزگاری کا کیا حل ہے؟ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہوگا۔ اور میرے خیال میں 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ (universal basic income) کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں ہوگا___ لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ لوگوں کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ بہت سارے لوگ اپنی ملازمت اور کام میں زندگی کا مقصد تلاش کرتے ہیں۔ [اب اچانک] اگر آپ کی ضرورت ہی نہیں ہے اور آپ کی محنت کی [معاشرے کو] ضرورت ہی نہیں ہے تو پھر زندگی کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ کیا آپ اپنے آپ کو بیکار محسوس کرنا شروع کردیں گے؟

سوشل نیٹ ورکس یا نہ ختم ہونے والا نشہ؟

جو بات ایلون مسک نے زندگی کے مقصد کے حوالے سے کی ہے، وہی بات نوح ہراری بھی کرچکے ہیں کہ ’’شاید مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد ہم کو انسانوں کو کمپیوٹر گیمز اور نشے سے مصروف رکھنا ہوگا‘‘۔ اور اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے زیادہ پُرامید اور پُرجوش سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہیں۔ انھوں نے ۴۶ بلین ڈالرز کی خطیر رقم سے ’میٹاورس‘(Metaverse )کو حقیقت کا رُوپ دینے کا ارادہ کیا ہے۔ میٹاورس ایک ایسی مصنوعی یا ڈیجیٹل دنیا ہوگی جہاں آپ کے بجائے آپ کا ڈیجیٹل اوتار(Avatar) زندگی بسر کرے گا اور آپ اپنے آرام دہ بستر پر لیٹے یا کسی کرسی پر بیٹھے اپنی آنکھوں پر چشمے کی طرح کا ورچوئل ہیڈسیٹ (Virtual headset) پہنے اس زندگی سے لطف اندوز ہوں گے۔

ابھی تو اس منصوبے پر کام کا آغاز ہے لیکن ’مصنوعی ذہانت‘ یا AI کو ترقی دینے میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے کیا ہے۔ ذرا تصور کریں اگر حقیقی زندگی میں ایک بندہ آپ کے ساتھ سائے کی طرح دن رات لگا رہے اور آپ کے کھانے پینے، کپڑے پہننے سے لے کر آپ کی گفتگو اور ہر معمولی چیز پر نظر رکھنا شروع کردے، تو نہ صرف آپ پریشان ہوجائیں گے بلکہ وہ بندہ بھی آپ کی تمام تفصیلات سے واقف ہوکر آپ پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوسکتا ہے۔ لیکن یہی کام ہم بے فکر ہوکر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر کررہے ہیں۔

’مصنوعی ذہانت‘ کو کسی قابل بنانے کے لیے جس ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ خود ہم نے اپنے اپنے پسندیدہ سوشل پلیٹ فارموں پر مختلف طریقوں سے رضاکارانہ طور پر فراہم کیا ہے۔ آپ فیس بک پر کیا کمنٹ کرتے ہیں، کون سی پوسٹ پسند کرتے ہیں اور کونسی پوسٹ پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ یہ سب معلومات سوشل میڈیا کمپنیاں اپنے اپنے ڈیٹا سینٹرز میں جمع کرتی رہتی ہیں اور پھر آپ کا ایک نفسیاتی خاکہ بنالیتی ہیں۔ اور یہی ڈیٹا AI کو دے کر ایسے الگورتھمز تیار کیے جاتے ہیں، جن کا خطرہ ایٹم بم سے زیادہ اور جن کی اہمیت تیل کی دولت سے زیادہ ہے۔

 ایسا ہی ایک الگورتھم ڈوپامائن بڑھانے والی مصنوعی ذہانت یا Mechanism for Maximizationکہلاتا ہے۔ سائنس کے مطابق ہم کو کسی کام کرنے میں جو لطف اور طمانیت ملتی ہے، وہ دماغ میں پیدا ہونے والے ڈوپاماِئن کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب ان سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو آپ سے متعلق مطلوبہ مواد مل جاتا ہے تو پھر وہ اس ’الگورتھم‘ کے ذریعے آپ کو مسلسل آپ کا پسندیدہ ایسا مواد دکھاتی ہیں، جو آپ کے دماغ میں ڈوپامائن کی مقدار کو ایسے ہی بڑھانا شروع کردیتا ہے، جیسے کسی نشہ آور شے کا استعمال اور نتیجتاً ایک نشے کی طرح آپ اپنے اسمارٹ فون پر دنیا و مافیا سے بے خبر مصروف رہتے ہیں۔ مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹویٹر‘ کے بانی جیک ڈورسی (Jack Dorsey )اس صورتِ حال کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

This is going to sound a little bit crazy, but I think that the free speech is a complete distraction right now. I think the real debate should be about free will and we feel it right now because we are being programmed... And I think the only answer to this is.... to give people a choice of what algorithm they want to use.

شاید یہ آپ کو عجیب لگے، لیکن [آج کے دور میں] میرے خیال میں آزادیٔ اظہار کی باتیں محض توجہ ہٹانے کا طریقہ ہیں۔ اصل بحث آزادی یا خود اختیاری سوچ پر ہونی چاہیے۔ اور اب ہم نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے، کیونکہ ہماری سوچ یا مرضی کو [سوشل میڈیا الگورتھمز کے ذریعے] بدلا جارہا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے لوگوں کو اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اس بات کا تعین خود کرسکیں کہ وہ کون سا ’الگورتھم‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کون سا نہیں۔

پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے سوشل میڈیا کو ’شیطانی میڈیا‘ کہا تو لوگوں نے اس بات کو پابندیٔ اظہار کے زمرے میں شمار کیا۔ لیکن یہ صورتِ حال اتنی خطرناک ہے کہ چین نے اپنے عوام کی معلومات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعے مغرب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں لگا کر تمام مغربی سوشل پلیٹ فارموں پر مکمل پابندی لگا دی ہے، اور صرف اپنے ملک میں بنے سوشل پلیٹ فارموں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔

’آزادی کے دیوتا‘ کی پرستش کرنے والا یورپ بھی اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مختلف اقدامات کررہا ہے۔ امریکا، جہاں آزادیٔ اظہار کی مکمل آزادی ہے، وہاں بھی عوام کے مواد یا ڈیٹا کو چین تک پہنچنے سے روکنے کے لیے چینی سوشل میڈیا کمپنی ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی لگادی گئی ہے۔

یہ ’الگورتھمز‘ کتنے طاقت ور ہیں؟ اسی صورتِ حال پر نوح ہراری نے بھی روشنی ڈالی ہے:

We humans are now hackable animals.The whole idea that humans have a soul or spirit and they have free will and nobody knows what is happening inside me so whatever I choose whether in election or whether in the super market and this is my free will! That's over.

ہم انسان اب محض ایک ایسا جانور بن گئے ہیں، جس کو سدھایا جاسکتا ہے۔ یہ خیال کہ انسان کے پاس روح یا مرضی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ میرے دل پر کیا بیت رہی ہے، اس لیے میں الیکشن میں جس کو منتخب کروں یا بازار میں جو خریداری کروں وہ اپنی مرضی سے کروں گا، یہ سچ نہیں رہا۔

آپ کے پاس کچھ نہیں ہوگا مگر .....

انھی بحثوں میں ڈنمارک کی رکن پارلیمنٹ ایڈا اوکن [Ida Auken] نے یہ کہہ کر اپنا حصہ ڈالا ہے کہ ’’مستقبل میں آپ کے پاس کچھ نہیں ہوگا لیکن آپ خوش ہوں گے۔ ’عالمی اقتصادی فورم‘ کے پلیٹ فارم سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات جب ڈینش رکن پارلیمنٹ نے کی، تو اسے نجی زندگی اور نجی ملکیت کے حقوق پر ڈاکا قرار دیا گیا۔اسی صورتِ حال پر آسٹریلین رکن پارلیمنٹ میلکم روبرٹس [Malcolm Roberts] نے کڑی تنقید کی:

Klaus Schwab's 'life by subscription' is really serfdom. It's lavery. Billionaire, globalist corporations will own everything—homes, factories, farms, cars, furniture—and everyday citizens will rent what they need, if their social credit score allows. The plan of the Great Reset is that you will die with nothing. Senators in this very chamber today who support the great reset threaten our privacy, freedom, and dignity.

کلاز سواب کا ’کرایے پر زندگی‘ ' [Life by Subscription] کا منصوبہ، جبری مشقت کا منصوبہ اور غلامی ہے۔ طاقت ور ارب پتی اور عالمی ادارے ہر چیز پر قبضہ کرلیں گے۔ گھر، فیکٹریاں، کھیت، گاڑیاں، فرنیچر وغیرہ غرض یہ کہ روزانہ آپ اس چیز کو کرایہ پر لیا کریں گے، جس کی آپ کو ضرورت ہوگی، لیکن صرف اسی صورت میں، جب کہ آپ کا سماجی کریڈٹ اسکور اس کی اجازت دے۔ ’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ یہ ہے کہ آپ جب مریں گے تو آپ کی ملکیت میں کچھ نہ ہوگا۔ [آسٹریلیا کی] سینیٹ کے جو ممبران آج اس منصوبے کا دفاع کررہے ہیں، ہماری آزادی، ہمارے وقار اور ہماری نجی ملکیت کا سودا کررہے ہیں۔

یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟

ان منصوبہ سازوں کے مطابق اگلے کچھ برسوں میں ہماری زندگی کا ہر شعبہ یکسر بدل جائے گا۔ بالکل یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ یہ سب کیسے ہوگا؟ اس کا حل بھی کہانی سنانے کی خداداد صلاحیت رکھنے والے نوح ہراری نے دے دیا ہے:

In this time of crisis, you have to follow science. It's often said that you should never allow a good crisis to go to waste because the crisis is an opportunity to also do good reforms that in normal times people will never agree to but in a crisis, you see you have no chance.

[کورونا کی] اس بحرانی کیفیت میں آپ کو سائنس سے رہنمائی لینی چاہیے۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ [معاشرے میں] مثبت تبدیلی کے لیے بحران ایک اچھا موقع ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی اچھے بحران کو ضائع کرنے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ عام حالات میں لوگ ایسی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتے، لیکن کسی بحرانی کیفیت میں ان کے پاس ان تبدیلیوں کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ 

گویا کہ اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے پے درپے بحران پیدا کرکے لوگوں کو تبدیلی پر تیار کیا جائے۔ ’عظیم تعمیرنو منصوبے‘ کے مخالفین کے خیال میں ایک طرف تو کورونا کی وبا کے بعد اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے سخت اقدامات کے باعث خوراک اور صحت کا نیا بحران سراٹھا رہا ہے اور مختلف ممالک جنگوں میں الجھ کر معاشی صورتِ حال کو اُلجھا رہے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ایک خطرناک معاشی بحران کی صورت میں نکلتا نظر آرہا ہے۔ جو اس منصوبے پر عمل کا بہترین موقع ہوگا۔

مستقبل کی دنیا کیسی ہوگی؟ کے موضوع پر جو بحث برسوں قبل شروع ہوئی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اب ان بحثوں میں رنگ بھرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ ’عظیم تعمیرنو‘ کی بحث صرف بحث ہی نہیں رہ گئی بلکہ اس نے مستقبل کا ایک نیا منظرنامہ پیش کردیا ہے۔ بادی النظر میں یہ بحث نہیں بلکہ نئے نظام عالم [New World Order] کو نافذ کرنے کا عملی منصوبہ زیادہ لگتا ہے۔ ایک طرف تو نجی تنظیمیں اور بارسوخ شخصیات اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں لگے ہیں، تو دوسری طرف اقوام متحدہ اپنی مختلف قراردادوں کے ذریعے حکومتوں پر دباؤ بڑھاتی نظر آرہی ہے۔

بظاہر ان طاقت ور لوگوں میں شاید اگلے ممکنہ نظام عالم کی تفصیلات پر اتفاق نہیں ہے اور دو مختلف کیمپوں میں تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ مگر ماضی میں جب بھی عالمی سطح پر تبدیلیاں آئیں دنیا کے طاقت ور مختلف کیمپوں میں اور آپس میں لڑتے ہی نظر آئے۔یہاں بھی یہی معاملہ نظر آتا ہے۔ آپ ’توسیع پسندوں‘ کے کیمپ میں ہوں یا ’معدودیت پسندوں‘ کے کیمپ میں، دونوں صورتوں ہی میں دال گلتی نظر نہیں آتی۔ ایک گروہ اگر زمین کو بچانے کے لیے انسانیت کا خاتمہ چاہتا ہے، تو دوسرا گروہ وسائل کے بے دریغ استعمال کے ذریعے جلد ہی زمین کو ناقابلِ رہایش بناتا نظر آرہا ہے۔

کہتے ہیں کہ جنگل میں چڑیوں کا ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں پورے جنگل کی چڑیاں شریک تھیں۔ ایک طرف کھانا پکانے کی ذمہ دار چڑیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ سب کے لیے کھانا پکانے میں بہت محنت لگتی ہے۔ دوسری طرف چڑیوں کے ایک گروہ کا خیال تھا کہ اصل محنت تو ہماری ہوتی ہے کہ ہم دن بھر اپنی جان خطرے میں ڈال کر کھانے کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اس دوران میں ایک چڑیا کو انوکھا خیال سوجھا۔ اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک اُلو ہونا چاہیے، جو ہمارے سارے کام کرے۔ ہمارے گھونسلے بنانے سے لے کر کھانا پکانے تک، بچوں کی تربیت سے لے کر ہماری حفاظت تک ساری ذمہ داریاں اسی اُلو کی ہوں گی، تو ہمیں کچھ کرنا نہیں پڑے گا اور یوں ہم زندگی کو صحیح معنوں میں بسر کرسکیں گے۔ یہ رائے سن کر ساری چڑیاں خوش ہوگئیں۔ سب نے اس رائے کی تائید کی سوائے ایک بزرگ چڑیا کے۔ اس بزرگ چڑیا کا کہنا تھا کہ ’’اُلو کو لانے سے پہلے ہمیں اُلو کو قابو کرنا اور اپنا اطاعت گزار بنانا سیکھنا چاہیے۔ کہیں وہ اُلو ہماری سلطنت پر قبضہ کرکے خود ہمیں ہی اپنا غلام نہ بنالے اور پھر کہیں یہ ہمارا اختتام ہی نہ بن جائے‘‘۔

 مگر اکثر چڑیوں کے خیال میں یہ ایک مشکل کام تھا، اس لیے زیادہ تر چڑیاں اُلو ڈھونڈنے نکل گئیں۔ اس بزرگ چڑیا کے ساتھ صرف دو چڑیاں رہ گئیں، جنھوں نے اُلو کو اپنا فرماںبردار بنانے کے طریقے سوچنے شروع کردیے۔ مگر کچھ ہی دیر میں ان دو چڑیوں کو بھی یہ سمجھ آگیا کہ یہ مشکل کام اُلو کی غیر موجودگی میں تو ناممکن ہے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ جب اُلو آجائے گا، تب ہی اس کو اطاعت گزار بنانے کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیں گے۔

اس کہانی کا اختتام کیا ہوا؟ یہ کسی کوبھی نہیں پتہ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں چڑیوں نے اُلو کے آنے کے بعد اس کو قابو کرنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا اور یوں ان کی ساری مشکلات آسان ہوگئی تھیں ،اور کچھ لوگوں کے خیال میں اُلو کے آنے کے بعد چڑیاں اس کو قابو نہ کرسکیں اور اُلو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تمام چڑیوں کو اپنا غلام بنالیا، یعنی کہانی کا اختتام سنانے والا کوئی بھی نہیں بچا۔

آج ٹکنالوجی کے جس دور میں ہم جی رہے ہیں انسانیت کو بھی یہی سوال درپیش ہے۔ جہاں ہر بندہ کہہ رہا ہے کہ آنے والا دور ’مصنوعی ذہانت‘ (Artificial Intelligence - AI)کا ہوگا۔ بہت سارے لوگ اس کے خطرات کو نظرانداز کرنے کو ایک بھیانک غلطی کہہ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ انسانیت کی ترقی میں ایک اہم قدم ہے، تو کچھ اس قدم کو آخری انسانی غلطی بھی کہہ رہے ہیں۔

کیا ہم انسان واقعی ’مصنوعی ذہانت‘ کو اس کی معراج پر پہنچا سکیں گے، جہاں ہمارے سارے کام ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذمے ہوں گے یا پھر اس کہانی کا اختتام بھی بالکل اسی طرح کسی کو کبھی معلوم نہ ہوسکے گا، جیسے ان چڑیوں کا انجام، کہ جو اُلو کو ڈھونڈنے اور اس کو سدھانے نکلی تھیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے اور اس کے انسانی زندگی اور مسلم معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اگلی سطور میں اس پر گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں:

’مصنوعی ذہانت‘ (AI) کیا ہـے؟

یورپ میں نشاتِ ثانیہ کی بہت سی اہم بحثیں کائنات، انسان اور انسان کی اس دنیا میں موجودگی، زندگی اور اس کی وجوہ کے گرد گھومتی ہیں۔ جہاں بہت سے فلاسفر حضرات انسانی وجود کے بارے میں مختلف نظریات پیش کررہے تھے، وہیں بہت سے ماہرین ریاضی اور سائنس دان اپنے مقالات کے ذریعے کائنات، زندگی اور مادہ سے متعلق مختلف رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوششوں میں لگے تھے۔ فلسفہ، حساب اور سائنس کے اس ملاپ نے جدید دنیا کی تشکیل میں مدد تو کی مگر جلد ہی عملی سائنس، فلسفے پر حاوی ہوگئی۔ انسانیت نے فلسفے کی خیالی باتوں پر سائنس کی محیرالعقل ایجادات کو ترجیح دینا شروع کی، اور یوں مغرب سے مادیت کا ایک ایسا نیا طوفان اُٹھا، جس نے جلد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس طرح وہ ساری بحثیں جو کائنات کی حقیقت جاننے کے لیے شروع ہوئیں تھیں، جلد ہی کائنات کو فتح کرنے کی عملی کوششوں میں تبدیل ہوگئیں۔ انسان جس کا خود اپنا وجود ہی فلسفیوں کے لیے ایک سوال تھا، اب ایسی مشینیں بنانے میں لگ گیا، جو دنوں کا کام گھنٹوں میں انسان سے بہتر انداز میں کرنے لگ گئیں۔

پھر یہ سوال اٹھا کہ کیا ہم ایسی کوئی مشین بھی بناسکتے ہیں، جو ہماری طرح سوچنا اور ہماری طرح کام کرنا شروع کردے ؟ ویسے تو بعض لوگوں کے نزدیک انسان کی یہ خواہش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ کام نہ کرنے کی خواہش، مگر کمپیوٹر کی ایجاد نے انسان کا صدیوں پرانا یہ خواب دوبارہ جگادیا۔

’مصنوعی ذہانت‘ (AI)ایسی مشینوں کی تیاری کو کہتے ہیں، جو وہ کام کرسکیں جن کو عام طور پر کرنے کے لیے انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو دیکھ کر یا اس کی آوازکو سن کراس کو پہچان لینے کی صلاحیت، فیصلہ سازی کی صلاحیت، یا دو مختلف زبانوں میں ترجمے کی صلاحیت وغیرہ۔ ان مشینوں کو مخصوص موضوع پر مواد یا ڈیٹا دیا جاتا ہے اور اس مواد یا ڈیٹا میں مماثلت یا پیٹرن ڈھونڈ کر یہ مشینیں خود کو اس قابل بناتی ہیں کہ اگر ان کو اسی قسم کا مختلف مواد ملے تو وہ اس کو پہچان سکیں۔مثلاً اگر ایک مشین کو بہت سارے مرد اور عورتوں کی تصاویر دکھائی جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ یہ ایک جوان ایشیائی مرد کی تصویر ہے، یا یہ ایک بوڑھی ہسپانوی خاتون کی تصویر ہے، تو وقت گزرنے کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ مختلف تصویروں کو پہچان کر یہ مشینیں اس قابل ہوجاتی ہیں کہ جب ان کو دوسری مگر مختلف تصاویر دکھائی جائیں تو وہ ان کو صحیح طور پر پہچان لیتی ہیں۔

اب آپ ان مشینوں کو جتنی زیادہ تصویروں کی پہچان کروائیں گے، یہ مشینیں اتنے ہی بہتر طریقے سے یہ فیصلہ کرسکیں گی کہ دکھائی جانے والی تصویر کسی نوجوان امریکی مرد کی ہے یا کسی افریقی خاتون کی؟ ان مشینوں کو مواد یا ڈیٹا کی فراہمی کا عمل ’مشین لرننگ‘ کہلاتا ہے اور نتیجے میں ہمیں ایک ایسا تربیت یافتہ ڈیٹا ماڈل ملتا ہے، جو ایک مخصوص کام کرسکتا ہے۔ مثلاً ایک ڈیٹا ماڈل اگر انسانوں کو پہچان سکتا ہے تو دوسرا ماڈل جانوروں یا جگہوں کی پہچان کرسکتا ہے۔ آپ ایک زیادہ ذہین ڈیٹا ماڈل بھی بناسکتے ہیں، جو انسانوں کے ساتھ ساتھ مختلف جانوروں اور چیزوں کو الگ الگ پہچان سکے۔ اسی طرح آپ ایک مشین کو مختلف زبانوں کی لغت یا ڈکشنری دے کر ایسا ڈیٹا ماڈل تیار کرسکتے ہیں جو دی گئی تحریر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرسکے۔

’مصنوعی ذہانت‘ کے اثرات

کمپیوٹر کی ایجاد نے جہاں ’مصنوعی ذہانت‘ کے لیے دروازے کھولے، وہیں انٹرنیٹ کی ترقی نے ڈیٹا ماڈلز کی تیاری کے کام کو بہت آسان کردیا۔ اب کوئی بھی گھر بیٹھے ایسے ڈیٹا ماڈلز تیار کرسکتا ہے جو کوئی بھی مخصوص کام نہایت ہی سرعت کے ساتھ سرانجام دے سکیں۔ کچھ لوگ اس ترقی کو ’صنعتی انقلاب‘ کی توسیع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یعنی جس طرح صنعتی انقلاب نے خودکار مشینوں کو عام کردیا تھا اور وہ کام جو کئی انسان مل کر کئی دنوں میں کرتے تھے مشینوں نے کچھ گھنٹوں میں کرنے شروع کردیئے تھے۔ اسی طرح ’مصنوعی ذہانت‘ سے جدید ترین مشینیں وہ کام کرسکتی ہیں جو اَب تک مشینیں نہیں کرسکتیں تھیں اور ان کے لیے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔

مثلاً معاشروں میں امن و امان اور نظم و ضبط برقرار رکھنا اب تک سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے بعد کسی بھی نظم و نسق کی بگڑتی صورتِ حال کو قابو کرنا پہلے کے مقابلے میں کافی آسان ہوگیا ہے۔ پہلے انسانوں کے ساتھ پہرے دینے کا کام کتّے کرتے تھے، تو اب ان کی جگہ سی سی کیمروں نے لے لی ہے اور ہم اپنے دفتر میں بیٹھ کر اپنے گھر پر آنے والے کو دیکھ لیتے ہیں۔ مگر ’مصنوعی ذہانت‘ اس سب سے بھی آگے بڑھ کر کام کرتی ہے۔ مثلاً ایسے ڈیٹا ماڈلز بن گئے ہیں، جو حالات خراب ہونے سے پہلے ہی بتاسکتے ہیں کہ کس جگہ حالات خراب ہونے والے ہیں، یا کون، کب اور کہاں کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے؟

اسی طرح پہلے آپ کو اپنے کسی بینکنگ کے مسئلے کے حل کے لیے بینک جانا پڑتا تھا۔ پھر ٹکنالوجی کی ترقی نے یہ کام آسان کردیا اور ہم کال سینٹر پر فون کرکے اپنے مسائل حل کروانے لگے۔ لیکن جس کال سینٹر پر ہم کال کرکے اپنے بینک کے مسئلے کو حل کرتے ہیں، وہاں پر موجود افرادی قوت کی تربیت، تنخواہ اور دوسری چیزوں پر کافی پیسہ خرچ ہوتا تھا۔ پہلے تو اس کا حل یہ نکلا کہ امریکا اور یورپ میں مختلف کمپنیوں نے اپنے کال سینٹرز بند کرکے ایسے ایشیائی ممالک میں کھول لیے جہاں سستی افرادی قوت موجود تھی۔ مگر اب ’مصنوعی ذہانت‘ نے یہ کام اور بھی زیادہ آسان کردیا ہے اور اب ایسے ڈیٹا ماڈل سے تربیت یافتہ ’چیٹ باٹس‘ آگئے ہیں جو انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ گویا پہلے اگر ایک شخص اپنے بینک کے کال سنٹر پر کال کرتا تھا تو اسے یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کی کال کا جواب دنیا کے کس کونے سے ملے گا، تو اب اس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ اس کی کال کا جواب دینے والا کوئی انسان ہی ہے یا پھر کوئی مشین، جس کو اسی کام کے لیے تربیت دی گئی ہے۔

ورکنگ کلاس کا خاتمہ

بظاہر تو ایسا ہی نظر آتا ہے کہ یہ ترقی بالکل صنعتی ترقی کی ہی طرح ہے، یعنی کچھ ملازمتیں ختم ہوں گی تو کچھ نئی پیدا ہوجائیں گی۔ مگر یہ سب اتنا سادہ بھی نہیں۔ جب صنعتی انقلاب نے زندگی کے شعبہ جات میں ہنرمندوں کی ضرورت کم کردی، تو اس کا نتیجہ خاندانی منصوبہ بندی کی صورت میں نکلا اور حکومتی سطح پر آبادی کو کم کرنے کے پروگرام شروع کردیے گئے۔ کیونکہ جو وسائل انسانی بہبود پر لگ رہے تھے، اس سے کہیں زیادہ وسائل خودکار مشینوں کی تیاری میں لگنا شروع ہوگئے تھے ۔ اس خاندانی منصوبہ بندی کے جو نتایج آج جاپان یا مختلف یورپی معاشرے دیکھ رہے ہیں وہ تو ایک بالکل علیحدہ موضوع ہے، لیکن چھوٹے خاندان اور سرمائے کی بہتات نے اسراف یا کنزیومرزم کے جس کلچر کو پھیلایا ہے، اس نے زمین پر موجود محدود وسائل کے ضیاع کو ایک بالکل نئی اور ہولناک سطح پر پہنچادیا ہے۔ لہٰذا، بعض مفکرین زمین کو بیمار اور انسان کو اس بیماری کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔

یہ مفکرین ’مصنوعی ذہانت‘ کو اس بیماری یعنی انسان کے خاتمے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گویا جب ’مصنوعی ذہانت‘ انسانی ہنرمندوں کی ضرورت کو ختم کردے گی تودنیا کے امیروں کے لیے ہنرمندوں یا ورکنگ کلاس کی ضرورت باقِی نہیں رہے گی۔ نتیجتاً زمین پر انسانی آبادی کو ڈرامائی انداز میں بہت کم کرکے زمین کا نظم ونسق چلانا باآسانی ممکن ہوجائے گا۔ کچھ سازشی نظریات کے پرچارک، کورونا لاک ڈاؤن اورپوری دنیا میں زبردستی ویکسنیشن کے عمل کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ، نشاتِ ثانیہ کے دور کی جو بحث انسان کے وجود کا سوال اُٹھا رہی تھی، وہ سائنس اور فلسفے کے اشتراک سے کائنات کو مسخر کرنے کی طرف چلی، تو اب خود انسانی وجود کے درپے نظر آرہی ہے۔

کیا جارج ارول کا ناول ۱۹۸۴ء حقیقت بن رہا ہـے؟

چین میں ’مصنوعی ذہانت‘ کا جس طرح استعمال ہورہا ہے، اس سے خود یورپ پریشان نظر آرہا ہے۔ چین نے پچھلے عرصے میں ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے سوشل کریڈٹ سسٹم کے نام پر ایک ایسا ہمہ گیر نظام تشکیل دیا ہے، جو ہر چینی باشندے کی ہرحرکت کو نوٹ کرتا ہے اور پھر اس  نظام کی بنیاد پر سزا و جزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے کوئی جرم نہ بھی کیا ہو، مگر آپ معاشرے کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کررہے، تو یہ نظام آپ کو سزا دینے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اور کوئی کام تعمیری ہے یا تخریبی، اس کا فیصلہ ایک حکومتی کمیٹی کرتی ہے۔ اگر آپ نے کوئی چوری کی، یا کہیں کوئی غلط بیانی کی، یا پھر آپ نے آن لائن اسٹور سے بہت سارے کمپیوٹر گیمز خریدے ہیں، تو یقینا آپ اپنا وقت غلط یا غیر تعمیری سرگرمیوں میں لگا رہے ہیں اور یہ نظام آپ کی تربیت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔

بظاہر آپ کو شاید یہ نظام معاشرے کی ترقی کے لیےبہت اچھا لگے،مگر یہ نظام اتنا ہولناک ہے کہ یورپ اور امریکا میں اس نظام کو جدید غلامی کی طرف ایک قدم قرار دیا گیا ہے۔ جہاں نجی زندگی، فیصلے کی آزادی اور آزادیٔ اظہار کا کوئی تصور نہ ہوگا۔ جہاں آپ نے کسی حکومتی فیصلے پر تنقید کی، وہاں آپ کا بینک اکاونٹ بند کردیا گیا۔

بعض ماہرین اسے جارج اْرول کے مشہور زمانہ ناول ’۱۹۸۴ء‘ میں بیان کی گئی سوسائٹی سے تشبیہ دے رہے ہیں، جہاں ایک جابر حکومت پورے معاشرے کو کنٹرول کرتی نظر آتی ہے۔ ذرا اب تصور کریں کہ اگر خدا کے وجود سے انکاری خالص مادی معاشرے میں کام اور نماز پڑھنے کے اوقات ٹکرا جائیں، تو اس نظام کے بنانے والے نماز پڑھنا ایک غیر تعمیری سرگرمی قرار دے کر آپ کے کریڈٹ رینک کو کم کرسکتے ہیں۔ اور اگر آپ کا کریڈٹ شمار خطرے کی حد پار کر گیا تو یہ نظام آپ کی عقل ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق ایغور مسلمانوں کی نازی طرز کے انسانیت سوز کیمپوں میں تربیت اسی سلسلے کی ایک کڑی نظرآتی ہے۔

مگر چین ان سب باتوں کو مغرب کا پروپیگنڈا کہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ جو چین پر اس حوالے سے تنقید کرنے سے باز نہیں آتا، خود اپنے ہاں ایسا ہی نگرانی کا کڑا نظام نافذ کررہا ہے، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کی انسانی چہروں کو پہچان لینے کی صلاحیت رکھنے والے کیمروں پر مشتمل ہے۔ پچھلے دنوں مشرقی لندن میں برطانوی پولیس نے ایک شہری کو محض اس لیے گرفتار کرلیا کیونکہ اس شخص نے ان چہروں کی نگرانی کرنے والے کیمروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنا چہرہ اپنے مفلر سے ڈھانپ لیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنا چہرہ ڈھانپنا کوئی جرم نہیں اور میں کسی کو بھی اپنی حرکات کو ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، مگر پولیس نے اسے قبول نہیں کیا۔ بعد میں اس شخص کو جرمانہ کردیا گیا۔ نام نہاد آزاد برطانوی معاشرے میں پولیس کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی جارہی ہے، مگر برطانوی پولیس کے نزدیک یہ شہریوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

اسمارٹ فونز یا جاسوسی کے آلات؟

اکثر ماہرین اسمارٹ فونز کو جاسوسی کے آلات سے تشبیہ دیتے ہیں، کیونکہ جب آپ اپنا اسمارٹ فون استعمال نہیں بھی کررہے ہوتے تب بھی یہ آپ کی باتیں سن رہا ہوتا ہے اور اس کو آپ کی تمام حرکات کا ادراک ہوتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ آپ ایک پرانے واقف کار سے بات کرنے کھڑے ہوتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں فیس بک آپ کو اس بندے کو فیس بک پر اپنی فرینڈ لسٹ میں شامل کرنے کا مشورہ دے دیتا ہے، یا اکثر وہ چیز جس کے بارے میں آپ صرف سوچ ہی رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کی ’سرچ‘ میں آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب آپ کے اسمارٹ فون میں موجود مختلف ایپلی کیشنز کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے، جو یہ سب ریکارڈ کرکے کسی ڈیٹا سینٹر کو بھیجتی ہیں، اور وہاں ’مصنوعی ذہانت‘ اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو مختلف چیزیں دکھارہی ہوتی ہے۔

غزہ جنگ میں اسرائیل کا ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال

’مصنوعی ذہانت‘ آنے والے دنوں میں جنگوں کو کس طرح تبدیل کردے گی؟ اس کا اندازہ بی بی سی کی اس خبر سے ہوتا ہے، جس کے مطابق اسرائیل نے ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذریعے لاکھوں فلسطینیوں کی جاسوسی کرتے ہوئے تقریباً ۳۷ہزار فلسطینیوں کو حماس کا جنگجو قرار دے کر حالیہ جنگ میں خصوصی طور پر اپنے نشانے پر رکھا۔ تفصیلات کے مطابق اسرائیل کا ’مصنوعی ذہانت‘ کا پروگرام،  جسے لاوینڈر (Lavender) کا نام دیا گیا ہے، فلسطینیوں کے موبائل فونز اور دیگر حرکات و سکنات کی جاسوسی کرنے کے بعد ان کی ایک سے ۱۰۰کی حد کے درمیان درجہ بندی کرتا ہے اور کسی فلسطینی کا حماس سے کتنا گہرا تعلق ہے؟ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔

مثلاً ایک فرد جو ایک ایسے ’وٹس ایپ‘ گروپ میں تھا، جہاں ایک حماس کا مجاہد بھی شامل تھا یا پھر دونوں نے ایک مسجد میں نماز پڑھ لی، یا اگر ایک فرد اپنا سیل فون بار بار تبدیل کررہا تھا، یا اگر عام فلسطینی کا موبائل فون اسی علاقے میں پایا گیا، جہاں ایک حماس کا جنگجو بھی موجود تھا، تو ایسے افراد کو اسرائیلی ’مصنوعی ذہانت‘ کے پروگرام نے خودبخود حماس کا ہمدرد یا جنگجو قرار دے دیا۔ خود اسرائیلی ماہرین کے مطابق اس پروگرام میں کم از کم ۱۰ فی صد غلطی کا امکان موجود ہے، مگر حالیہ جنگ میں اسرائیلی فوج کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ ’’نہ صرف ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے بلکہ ان پر ہر حملے کے دوران اگر ۲۰ کے قریب دوسرے عام افراد بھی مارے جائیں تو کوئی پروا نہیں‘‘۔

پھر ’مصنوعی ذہانت‘ کا یہ پروگرام ان افراد کی حرکات و سکنات پر مستقل نظر رکھتا۔ جیسے ہی وہ اپنے گھروں میں داخل ہوتے، یہ پروگرام اسرائیلی فوج کو ایک خصوصی پیغام بھیج دیتا ہے۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایسے بہت سارے افراد کے گھروں پر میزائل حملے کیے گئے، جب ’مصنوعی ذہانت‘ کے اس پروگرام نے گھروں میں ان کی موجودگی ظاہر کی۔ جس کے نتیجے میں بے شمار عام افراد، جن کا حماس سے کوئی تعلق بھی نہ تھا، مارے گئے۔ اس پورے عمل میں اسرائیلی فوجی اپنے دفاتر میں بیٹھے یہ کارروائیاں کرتے رہے اور ان کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے یا زمینی حملے کی ضرورت نہیں پڑی۔

مشینوں سے ’دل لگی‘ کا انجام؟

’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو کس طرح تبدیل کردے گا اورہمارا ایک دوسرے سے میل ملاپ کس طرح بدل جائے گا؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک مشہور ماڈل کا انسٹاگرام اکاؤنٹ’ہیک‘کرلیا گیا، جو اپنی روزمرہ کی تصاویر اپنے انسٹاگرام پر ڈالتی تھی۔ اکاؤنٹ ’ہیک‘ کرنے والے نے اس ماڈل سے مطالبہ کیا کہ جب تک وہ ماڈل دنیا کو اپنی حقیقت نہیں بتائے گی اس وقت تک اس کو اس کا اکاونٹ واپس نہیں ملے گا۔ انسٹاگرام پر ایک ملین سے زائد رابطے رکھنے والی اس ماڈل نے بالآخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ کوئی حقیقی انسان نہیں بلکہ مصنوعِی ذہانت کے ذریعے بنایا گیا ایک روبوٹ ہے اور اس کا اکاؤنٹ جس نے ’ہیک‘ کیا ہے، وہ بھی کوئی انسان نہیں بلکہ ایک دوسرا روبوٹ ہے۔

دنیا کے سامنے جب یہ حقیقت آئی تو اس ماڈل کے لاکھوں فالورز حیران و پریشان رہ گئے کہ کس طرح حقیقت سے قریب اس کی تصاویر دیکھ کر نہ صرف وہ اس سے مرعوب تھے بلکہ بعض تو اس کی جیسی زندگی گزارنے کے خواہش مند بھی تھے۔ کچھ حضرات تو اس سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے سے بھی باز نہ آئے تھے اور اس یک طرفہ پیار کا یہ ڈراپ سین ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ آپ نے ایسے کئی قصے سنے ہوں گے کہ کس طرح کسی لڑکے نے لڑکی بن کردوسرے لڑکے کو بے وقوف بنایا، مگر سوشل روبوٹس کے ذریعے یہ کام اب مشینیں کررہی ہیں۔

ٹکنالوجی کے جریدے Wired کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت کروڑوں سوشل میڈیا سائٹس ایکٹو ہیں، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال سے کہیں کسی برانڈ کی مارکیٹنگ میں مصروف ہیں تو کہیں آپ کا کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کے درپے۔

کیا آپ نے اپنا آخری ووٹ شعوری طور پر دیا تھا؟

سوشل میڈیا پر روبوٹس کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا اور مخالفین کو دیوار سے لگانا اب کتنا عام ہوگیا ہے، اس کا ایک مظاہرہ دو سال قبل پورے پاکستان نے دیکھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو جب عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تو ان کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری کے چند ہی گھنٹوں میں ٹویٹر ،جس کا موجودہ نام ایکس ہے، پر کئی کئی ملین لوگوں نے مذمتی ٹویٹ کرنا شروع کردیے۔ امپوڑٹڈ حکومت نامنظور، میر جعفر اور میر صادق نامنظور جیسے بے شمار ٹرینڈز چھاگئے۔

روس کے زیر اثر مشرقی یورپ کے چند ممالک میں بیٹھے چند سرپھروں پر روسی مدد کے ذریعے امریکا اور مختلف یورپی ممالک کے انتخابات میں سوشل میڈیا کے ذریعے مداخلت کا الزام باربار لگا ہے ۔ مگر خود امریکا میں کس طرح سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والے مواد یا ڈیٹا کو ’مصنوعی ذہانت‘ کے ساتھ ملا کر ووٹرز کی نفسیات سے کھیلنے کے لیے استعمال کیا گیا؟ اس کا انکشاف اس وقت ہوا، جب ۲۰۱۸ء میں کیمرج انالیٹکا اسکینڈل سامنے آیا۔ کیمرج انالیٹکا ایک ’مصنوعی ذہانت‘ پر مبنی سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی تھی جس نے فیس بک پر موجود امریکی ووٹرز کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا اور پھر ان ووٹرز کی پسند ناپسند اور سیاسی ترجیحات کا ایک مفصل ڈیٹابیس بنایا، جو یہ بتاسکتا تھا کہ امریکا کی ریاست الاسکا میں موجود ایک چالیس سالہ سیاہ فام شخص کس کو ووٹ دے گا اور اور واشنگٹن میں موجود ایک پرائمری اسکول ٹیچر کیا سوچ کر ووٹ دے گا؟

 کروڑوں امریکیوں کی تفصیلات پر مشتمل اس ڈیٹابیس کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں نے خرید کر اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ اور ہر ووٹر کو اس کی ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی ترجیحات کے مطابق پیغامات دکھا کر ایک طرف تو ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے آمادہ کیا، تو دوسری طرف مخالف سیاسی رہنماوں کے حمایتیوں کو ان کے پسندیدہ رہنما کی ناکامیوں پر مبنی پروپیگنڈا دکھا کر بدظن کیا گیا، تاکہ اگر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہ دیں تو کم از کم ٹرمپ مخالف اُمیدوار کو بھی ووٹ نہ دیں اور اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ یہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس لیے اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ آخری الیکشن میں آپ نے اپنا ووٹ شعوری طور پر دیا تھا اور آپ کسی پروپیگنڈا کا شکار نہیں ہوئے تھے، تو آپ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ بالکل نہیں ۔ ایک تجزیہ کے مطابق یہ سوشل میڈیا کمپنیاں آپ کے بارے میں خود آپ سے زیادہ جانتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آن لائن اسٹور پر جو آخری چیز آپ نے خریدی ہے اس کی آپ کو ضرورت ہی نہ ہو مگر آپ نے ایک انجان پروپیگنڈا کا شکار ہوکر وہ چیز خرید لی، اور یہ سب ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال سے ممکن ہوا ہے۔

’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال پر برتری کی جنگ  

بیسویں صدی کے نصف میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی جنگ تو آپ کو یاد ہوگی۔ صرف امریکا اور روس ہی نہیں بلکہ تمام چھوٹے بڑے ممالک یا تو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی دوڑ میں لگے تھے کہ ہر ایک کے نزدیک یہ ان کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ ’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین کے خیال میں کچھ ایسی ہی صورتِ حال اکیسویں صدی میں بھی پیش آنے والی ہے۔ اس بار یہ صورتِ حال ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال پر کسی بھی دوسرے ملک یا گروہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنے کی ہوگی۔ اور برتری حاصل کرنے کی یہ جنگ زیادہ خطرناک ہوگی کیونکہ ’مصنوعی ذہانت‘ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرے گی۔ آپ صرف کوئی چیز ہی ’مصنوعی ذہانت‘ کی وجہ سے نہیں خرید رہے ہوں گے بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی یہ آپ کے فیصلوں پر اثرانداز ہوگی۔

یہ معاملہ صرف تجارت کے میدان تک محدود نہیں بلکہ اگلی ہونے والی جنگوں میں وہی فاتح ہوگا جو ’مصنوعی ذہانت‘ کا زیادہ بہتر استعمال کرے گا۔ جنگوں میں صحیح اور بروقت فیصلے ہی آپ کی فتح کا باعث بنتے ہیں۔ چین اور امریکا ایسے ہتھیاروں کی دوڑ میں لگ گئے ہیں، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے آنے والی معلومات کو نہ صرف انسانوں سے زیادہ جلدی قابلِ استعمال بناسکیں گے بلکہ انسانوں سے زیادہ جلدی اور شاید انسانوں سے بہتر فیصلے کرکے دشمن کو زیر کرلیں گے۔

دوسری طرف زراعت کے ماہرین ’مصنوعی ذہانت‘ سے لیس ایسے ڈرون استعمال کررہے ہیں، جو فصل پر موجود کسی آنے والی بیماری کا پہلے ہی اندازہ لگا کر پیشگی اقدام کے ذریعے بہتر پیداوار لے رہے ہیں۔ کہیں اساتذہ کی کمی کا حل ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل روبوٹ اساتذہ کی صورت میں نکالا جارہا ہے۔ پھر ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف بیماریوں کا علاج ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذریعے جلد از جلد حاصل کرکے اپنی دوائیاں مارکیٹ میں دوسروں سے پہلے لاکر زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں لگ گئی ہیں۔

آج ’مصنوعی ذہانت‘ کے گرد گھومنے والی تحقیق، ڈیٹا ماڈلزاور معلومات کی نہ صرف حفاظت کی جارہی ہے بلکہ دشمن ملکوں کی اس میدان میں ہونے والی تحقیق کو حاصل کرنے کے لیے جاسوسوں کی مدد بھی حاصل کی جارہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق انٹرنیٹ سرچ انجن کمپنی گوگل نے اپنے ایک چینی نژاد ملازم کو ’مصنوعی ذہانت‘ سے متعلق انتہائی خفیہ معلومات چین کو دینے کے الزام میں ملازمت سے برطرف کردیا اوراب اس کو گرفتار کرکے مقدمہ چلانے کی تیاری ہورہی ہے۔

’مصنوعی ذہانت‘ اور اخلاقیات کا سوال

’مصنوعی ذہانت‘ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہی اس کے اخلاقی پہلوؤں پربھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ منفی ذہن رکھنے والے نوجوان ’مصنوعی ذہانت‘ کے منفی استعمال سے باز نہیں آرہے۔ انھوں نے ایسی ویب سائٹس بنالی ہیں، جہاں آپ کسی بھی خاتون کی تصویر ڈالیں اور وہ ویب سائٹ نتیجہ کے طور پر اس خاتون کی جعلی مگر حقیقت سے بہت قریب برہنہ تصاویر شائع کردیتی ہے۔ اس عمل کو ڈیپ فیک ٹکنالوجی کے استعمال سے ممکن بنایا جاتا ہے ۔ اس عمل سے متاثرہ خاتون اور اس کے قریبی لوگوں پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔

رائٹرز نیو ز ایجنسی کی خبر کے مطابق ایلون مسک کی ائے آئی کمپنی نے ایسی کمپیوٹر چپ بنا لی ہے جو انسانی دماغ کو پڑھ کر کام سرانجام دیتی ہے۔ اسے نیورولنک کا نام دیا گیا ہے۔ فی الحال تو ایک طبقہ اسے جسمانی طور پر مفلوج لوگوں کے لیے بہت کارآمد قرار دے رہا ہے۔ مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کہیں کوئی دوسرا فرد ایسی کسی چپ کو ہیک کرکے کوئی ایسا غلط کام کرلے جو اس مفلوج شخص کی خواہش نہیں تھا مگر اس غلط کام کی سزا اس کو مل سکتی ہے کیونکہ جس چپ نے یہ کام کیا وہ اس کے دماغ کے ساتھ منسلک تھی۔

’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین نے ایسی کسی ایپ کی اخلاقی حیثیت پر کافی سوالات اٹھائے ہیں اور ان کے خیال میں بڑھتا ہوا ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال آنے والے دنوں میں ایسے بہت سے خطرات پیدا کردے گا۔ مثال کے طور پر انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے زوال، ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے دہشت گردی ، بڑھتی ہوئی ہیکنگ کا اندیشہ۔

’مصنوعی عام ذہانت‘ کا حصول

 ’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین اب ایسی مشینوں پر کام کررہے ہیں، جو ہم انسانوں کی طرح سوچ سکیں اور جس طرح ہم کام کرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح وہ مشینیں بھی کرسکیں۔ اس انسانی درجے کی ذہانت کو ’مصنوعی عام ذہانت‘ یا آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس کہا جا تا ہے، یعنی ایسی ’مصنوعی ذہانت‘ کی حامل مشینیں جو بالکل انسانوں کی طرح مختلف امور سرانجام دے سکیں۔

کچھ ماہرین کے نزدیک تو ایسی کسی ذہانت کا حصول ممکن نہیں مگر بعض ماہرین زیادہ محتاط رہنے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں قانون سازی اور بین الاقوامی معاہدوں کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے ایسی مشینیں بنالیں جو انسانوں جیسی ذہانت رکھتی ہوں تو پھر کیا ضمانت ہوگی کہ وہ مشینیں ہم سے زیادہ ذہانت کا حصول نہ کرلیں، اور پھر مشینوں اور انسانوں میں زمین پر قبضے کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجائے؟ مشہور فلم ٹرمینیٹر اسی نظریے کے گردگھومتی ہے۔

وال اسٹریٹ جنرل کی ایک خبر کے مطابق اوپن اے آئی کے سربراہ سام الٹ مین اپنے ایک نئے منصوبے کے لیے آج کل دنیا بھر کے امیروں سے سات ٹریلین ڈالرز اکٹھا کرنے کی مہم پر ہیں۔ یاد رہے کہ دو سو برسوں میں دنیا کے ہر خطے میں جنگ کرنے اور بے تحاشا ڈالر چھاپنے کے باوجود امریکا کا کل قرضہ ۲۳ ٹریلین ڈالر کا ہے۔ یعنی یہ خفیہ منصوبہ کل امریکی قرضے کے ایک تہائی رقم کے برابر ہے۔

آخر سام الٹ مین کو اتنی خطیر رقم کس منصوبے کے لیے درکار ہے؟ اس کے بارے میں تو کوئی نہیں جانتا مگر ۲۰۲۳ء کے آخر میں سام الٹ مین کو اوپن اے آئی کمپنی کے بورڈ نے نوکری سے برطرف کردیا تھا۔ یہ تو معلوم نہ ہوسکا کہ اسے برطرف کیوں کردیا گیا تھا، مگر اس کی وجہ وہ انٹرویو تھا جو چند دن قبل سام الٹ مین نے دیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی کمپنی کی ’مصنوعی ذہانت‘ کے میدان میں ایک ایسی ایجاد کے بارے میں گفتگو کی تھی، جس کو وہ مشین کہنے کو تیار نہیں تھے۔ رائٹرز کی ایک خبر کے مطابق اوپن اے آئی کمپنی میں کام کرنے والے کچھ سینئر ماہرین نے ایک خط کے ذریعے کمپنی کو خبردار کیا تھا کہ کمپنی کی نئی ایجاد انسانیت کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔

کئی مہینے گزرنے کے بعد اب تک نہ تو اس خط کے مندرجات پر کوئی بات سامنے آئی ہے اور نہ سام الٹ مین کی اچانک برطرفی اور مائکروسافٹ کے سربراہ کی غیرمعمولی دلچسپی کی وجہ سامنے آئی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سام الٹ مین کا 7 ٹریلین ڈالرز کا منصوبہ اور اس نئی اور خفیہ ایجاد کا تعلق ’مصنوعی عام ذہانت‘ یعنی آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس سے ہے، جو کچھ ماہرین کی نظر میں خود انسانیت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سام الٹ مین اس خطرے سے متفق نظر آتے ہیں کہ ’مصنوعی عام ذہانت‘ انسان کا خاتمہ کردے گی، مگر انھیں ساتھ ہی یہ بھی یقین ہے کہ اس سے قبل انسان ’مصنوعی ذہانت‘ سے بہت سی دلچسپ کامیابیاں حاصل کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ’مصنوعی ذہانت‘ نیورولنک، جینیٹکس انجینئرنگ اور ایسی بہت سی جدید ایجادات سے ملا کر کسی انسان نما ڈیجیٹل مخلوق کی تخلیق کرسکنے کے قابل ہوگئی ہے؟ کیا ٹرانس ہیومنزم کے نظریات سچ ثابت ہونے والے ہیں؟

سپر انٹیلی جنس اور خدائی عقل تک پہنچنے کی خواہش

’مصنوعی ذہانت‘ انسانوں کو اپنا غلام بنالے گی یا انسانوں کا خاتمہ کردے گی؟ اس بحث کا نتیجہ نکالنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا چڑیوں کے لیے اُلو کو سدھانا۔ مگر نشاتِ ثانیہ کے دور میں جب انسان نے خدا کا انکار کردیا تو اس نے عقل کو خدا بنالیا۔ ڈیکارٹ کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’میں ہوں کیوں کہ میں سوچتا ہوں‘‘۔ اور یوں انسان اشرف المخلوقات کے منصب سے گر کر محض ایک 'سوچنے والا جانور قرار پایا۔

اس سوچ نے مادی ترقی کے نت نئے دروازے تو کھول دیے، مگر جلد ہی مغرب پر یہ بات آشکار ہوگئی کہ عقل محدود ہے۔ بیسویں صدی میں جب سائنسی ایجادات کی رفتار تقریباً رُک گئی، تو انسان کو ایک بار پھر اپنی بیچارگی کا غم ستانے لگا۔ مگر کمپیوٹنگ اور کمپیوٹر کے استعمال کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ’مصنوعی ذہانت‘ کے میدان میں ملنے والی کامیابیوں نے اس کی امیدیں دوبارہ ہری کر دی ہیں۔ بہت سے ماہرین ایسی ’مصنوعی ذہانت‘ کے حصول کی بات کررہے ہیں، جو ذہین سے ذہین انسان سے بھی زیادہ ذہین ہوگی اور اسے سپر انٹیلی جنس کہا جاتا ہے۔

اس کہانی کا انجام کیا ہوگا؟

طوفانوں اور انقلابات میں کئی چیزیں مشترک ہوتی ہیں، مثلاً دونوں ہی پوری زمین پر ایک ساتھ نہیں بلکہ زمین کے کسی مخصوص خطے اور کسی مخصوص معاشرے میں تبدیلی اور تباہی لاتے ہیں۔ معلوم انسانی زندگی میں صرف ایک ہی طوفان ایسا تھا، جس نے پوری زمین کو ایک ساتھ لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ طوفان نوحؑ تھا۔ مگر اب انسانیت کو ایک ایسے ہی طوفان یا انقلاب کا سامنا ہے جو بیک وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کا یہ طوفان ذہنوں کو ماؤف، زبانوں کو گنگ اور ہاتھ پاؤں شل کردے گا۔

اُمت مسلمہ جسے نائن الیون کے بعد اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے، اس معاملے میں بالکل مفلوج نظرآتی ہے۔ صرف عمل کی طاقت ہی نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم اُمت مسلمہ کے لیے یہ طوفان بالکل اسی طرح زندگی اور موت کا سوال بن کر کھڑا ہوجائے گا، جیسے عقل کی محدودیت کا اقرار کرنے کے بعد جب مغرب نے اسلام کو مستقبل کے طور پر دیکھنا شروع کیا اور بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب نظر آنے لگا، تو ایک طرف اسلام کو ’دہشت گردی‘ کے ساتھ جوڑ کرمادیت سے مغلوب مغرب کو اسلام سے بدظن کیا گیا۔

اس ضمن میں ہم بحیثیت مسلمان کم ازکم اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے طوفان کو محض سطحی دائرے میں دیکھنے کے بجائے اس کی حقیقت کو سمجھیں اور پھر کوئی لائحہ عمل طے کریں۔ ’مصنوعی ذہانت‘ اور کوانٹم کمپیوٹرز کی پراسسنگ طاقت ایک ساتھ مل کر کیا کچھ نئے گل کھلائے گی؟ اس کا آج سوچنا بھی محال ہے۔ جدید مغرب کو سمجھنے کے لیے فلسفہ اور سائنس کو ایک ساتھ لے کر سمجھنا ہوگا اور شاید جدید تاریخ میں پہلی بارعملی سائنس ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے ایک نیا فلسفہ، ایک نیا مذہب اور ایک نیا خدا تخلیق کرنے کی آخری کوشش کرے گی۔