برطانوی پولیس اس وقت اپنی نوعیت کے پہلے اور ایک انوکھے معاملے کی تحقیقات کررہی ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی نے ’میٹاورس‘ [Metaverse] میں اپنے ساتھ ہونے والی 'غیر حقیقی اجتماعی زیادتی [Virtual gang rape] کی رپورٹ پولیس کو دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وہ لڑکی ورچول ریلیٹی [Virtual reality ] ھیڈ سیٹ پہنے ’میٹاورس‘ میں ایک 'حقیقت سے قریب [Immersive game] کھیل رہی تھی، جب اس کے ساتھ کھیلنے والے دوسرے کرداروں نے اس کے خاکے یا کارٹون کریکٹر [Digital Avatar] پر حملہ کیا اور اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس لڑکی کو تضحیک یا ٹرولنگ [trolling] کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے کہا کہ مختلف کمپیوٹر کھیل کھیلتے ہوئے وہ کھیل ہی کھیل میں مرچکے ہیں، تو کیا وہ اس کے لیے قتل کا مقدمہ درج کرائیں، تو کسی کے خیال میں پولیس کو حقیقی زندگی میں ہونے والے جرائم پر توجہ دینی چاہیے۔
’میٹاورس‘ کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ ’میٹاورس‘ کیا ہے؟ اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے، لیکن اس سے قبل سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ویسے تو انٹرنیٹ کا آغاز ہی ایک دوسرے سے کوسوں دُور بیٹھے چند لوگوں کے درمیان کمپیوٹر پر گفتگو سے ہوا تھا، لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے صرف ابلاغ کے ذرائع کو ہی تبدیل نہیں کیا بلکہ فرد، خاندان، معاشرہ، ٹکنالوجی، حتیٰ کہ زندگی کے فلسفے کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نہ ہوتے تو نہ اسمارٹ فونز کو ہماری زندگی میں یہ اہمیت حاصل ہوتی اور نہ مصنوعی ذہانت (AI)کو ایسا عروج حاصل ہوتا کہ اس کا خطرہ ایٹم بم سے زیادہ بڑھ جاتا۔
فیس بک، ایکس [سابقہ ٹویٹر]، گوگل، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے سوشل نیٹ ورک ہماری زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہورہے ہیں؟ ہمارے سوچنے سمجھنے سے لے کر زندگی بسر کرنے کے طریقے کیسے تبدیل ہورہے ہیں اور مستقبل کیسا ہوگا؟ اگلی سطور میں انھی سوالات کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے۔
کینیڈین مفکر مارشل مک لوہن نے ساٹھ کے عشرے میں میڈیا کی ترقی کو دیکھتے ہوئے ’گلوبل ویلیج‘(عالمی گائوں) کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان کے خیال میں الیکٹرانک میڈیا مثلاً ٹیلی ویژن، ٹیلی فون وغیرہ کی ایجاد نے دنیا کے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ نصف صدی قبل پیش کی گئی یہ تھیوری اس وقت بھی بہت مقبول ہوئی تھی، لیکن شاید اس کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے قبولِ عام دے دیا اور یہ اصطلاح زبان زد عام ہوگئی۔
بظاہر تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم روایتی میڈیا ہی کی ایک جدید اور ترقی یافتہ شکل نظر آتے ہیں، لیکن ان کے اثرات بالکل مختلف ہیں۔ جہاں میڈیا کو دنیا کو جاننے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا تو سوشل میڈیا کو ایکو چیمبرز سے تشبیہ دی جارہی ہے، کیونکہ بیش تر اوقات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آپ کو وہی کچھ دکھاتے ہیں جو آپ پسند کرتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، چند الگورتھم کی مدد سے آپ کی پسند ناپسند کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ اور مسلسل صرف وہ چیزیں دیکھ کر جو ہمیں پسند ہیں، ہم محض کنویں کا مینڈک بنتے جارہے ہیں۔
کمپیوٹر کی زبان میں ’الگورتھم‘ ایسی ہدایات یا طریقۂ کار کو کہتے ہیں جس پر عمل کرکے کمپیوٹر کسی مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ جتنا ہی مشکل مسئلہ ہوتا ہے اتنا ہی پیچیدہ ’الگورتھم‘ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے اور انسانی نفسیات سے کھیلنے سے زیادہ پیچیدہ کام شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو۔ لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے اس مسئلے کو نہ صرف اپنی دانست میں حل کرلیا ہے بلکہ انسانیت اب ان ’الگورتھم‘ کے رحم و کرم پر ہی ہے۔ ایک زمانے میں ’فیس بک‘ کا نعرہ تھا کہ ’تیز چلو اور توڑ دو‘ (Move fast and break things') ۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے پلیٹ فارمز پر لانے، ان کو زیادہ دیر تک مصروف رکھنے اور ان سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں صورتِ حال پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی رہی اور مصنوعی ذہانت اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کررہی ہے۔ یونی ورسٹی کالج لندن کی ماہر حسابیات اور اپنی کتاب 'Being Human in the Age of Algorithms First' کے لیے مشہور حنا فراے (Hannah Fry) کے خیال میں:
These are just some of the dilemmas that we are beginning to face as we approach the age of the algorithm, when it feels as if the machines reign supreme. Already, these lines of code are telling us what to watch, where to go, whom to date, and even whom to send to jail. But as we rely on algorithms...they raise questions about what we want our world to look like? What matters most...We don’t have to create a world in which machines are telling us what to do or how to think, although we may very well end up in a world like that.
الگورتھمز کے اس دور میں جہاں مشینوں کی حکمرانی ابھرتی نظر آرہی ہے۔ یہ چند مخمصے ابتدائے محض ہیں، جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔ ہم کو کیا دیکھنا ہے، کہاں جانا ہے، کس کو پسند کرنا ہے یہاں تک کہ کس کو جیل بھیجنا ہے، اس کا فیصلہ پہلے ہی یہ الگورتھمز کررہے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہمارا بھروسا ان الگورتھمز پر بڑھ رہا ہے، یہ سوال اہم ہوتا جارہا ہے کہ ہم کس قسم کی دنیا چاہتے ہیں اور کیا چیز سب سے اہم ہے؟ ہم کو ایسی دنیا نہیں بنانی جہاں مشینیں ہم کو بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا اور کس طرح سوچنا ہے؟ لیکن شاید ایسی دنیا سے فرار اب ممکن نہیں۔
عام طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آپ کی پسند اور ناپسند کو دیکھتے ہوئے آپ کا ایک نفسیاتی خاکہ بناتے ہیں اور پھر اسی خاکہ کو دیکھتے ہوئے آپ کو مواد دکھایا جاتا ہے۔ یہ ’الگورتھمز‘ ہروقت آپ کے بارے میں اپنی رائے کو بہتر سے بہتر بناتے رہتے ہیں۔ جب تک یہ ’الگورتھمز‘ انسان بنارہے تھے، تب تک ان کو سنبھالنا بھی آسان تھا۔ مثلاً جب سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی بھرمار ہوئی تو ان سے مقابلہ کرنے کے ’الگورتھمز‘ بنائے گئے اور پہلے سے موجود ’الگورتھمز‘ کو بہتر بنایا گیا۔ لیکن اب بہت تیزی سے ان ’الگورتھمز‘ کو مصنوعی ذہانت کی مدد حاصل ہورہی ہے اور مصنوعی ذہانت جب یہ فیصلہ کرنے لگے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، تو نہ صرف انسان بے اختیار ہوجاتے ہیں بلکہ کسی حد تک آگے ہونے والی غلطیوں سے بری الذمہ بھی۔ یعنی ایک طرف تو یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری روزمرہ کی زندگی سے لے کر کس کو حکمران بنانا ہے، تک کے فیصلوں میں دخل دے رہے ہیں، اور دوسری طرف یہ کسی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں کیونکہ اب یہ فیصلہ کہ کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں، اس کا فیصلہ انسان نہیں مصنوعی ذہانت کے ’الگورتھمز‘ کررہے ہیں۔
امریکی صدارتی امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی خبر جب پھیلی تو فیس بک نے زخمی ڈونلڈ ٹرمپ کی مکا لہرانے کی تصویر کو اپنے پلیٹ فارم پر سے ہٹانا شروع کردیا، جس کی وجہ سے فیس بک کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کے فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ کو اپنے کاروباری مفاد کے تحفظ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرکے معافی بھی مانگنی پڑی۔
یہ صورتِ حال اس وقت بھی پیش آئی، جب سابق فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے فوراً بعد فیس بک نے اس خبر کو اپنے پلیٹ فارم پر سنسر کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کی تعزیتی پوسٹ بھی ہٹادی گئی، جس پر ملائشیا کی حکومت نے کافی احتجاج کیا۔
لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سنسرشپ کی یہ مہم نئی نہیں ہے۔ فیس بک، ٹویٹر اور گوگل نے ۲۰۱۶ء کے امریکی انتخابات میں Cambridge Analytica Data Scandal کے سامنے آنے کے بعد ۲۰۲۰ء کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سنسر کرنا شروع کردیا۔ انھیں 'شیڈوبین الگورتھم [Shadowban Algorithm] کا نام دیا گیا۔ یعنی اگر آپ اپنے پلیٹ فارم پر سے کسی طاقت ور شخصیت یا کسی مقبول نظرئیےکو ہٹا نہیں سکتے تو اس کو اپنے پلیٹ فارم پر ’الگورتھمز‘ کی مدد سے اس طرح پھیلنے سے روک دیں۔ اس بات پر جب ان پلیٹ فارمز کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، وہیں مشہور امریکی کاروباری ایلون مسک نے 'آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے لیے ٹویٹر کو مہنگے داموں خرید لیا۔ اس کے محرک مشہور ٹکنالوجسٹ پیٹر تھیل بنے، جو نہ صرف ایلون مسک کے کاروباری ساتھی رہے ہیں، بلکہ فیس بک کے ابتدائی انویسٹرز میں سے ایک ہیں۔
دُنیا کے دو بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر پیٹر تھیل کس اثررسوخ کا حامل ہے، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے اپنے سخت ترین مخالف جے ڈی ونس '(J D Vince' ) کو نامزد کیا جو اس سے قبل 'ٹرمپ دوبارہ نہیں‘ ' یا 'Trump Never Again' کا نعرہ لگاتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان مفاہمت کا کردار کسی سیاست دان یا تجربہ کار بیوروکریٹ نے نہیں بلکہ ارب پتی ٹکنالوجسٹ پیٹرتھیل نے ادا کیا ہے، جو ایک طرف جے ڈی ونس کے کاروباری ساتھی ہیں تو دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر خاص بھی۔ یہ خبر بھی شاید دلچسپی کا باعث ہو کہ حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام میں بدترین کردار ادا کرنے والا مصنوعی ذہانت کا سوفٹ ویر بھی پیٹر تھیل کی کمپنی نے بنایا ہے۔
آزادیٔ اظہار مغرب کے لیے محض ایک ہتھیار ہے، اس سے کون ناواقف ہے۔تاہم، ’الگورتھمز‘ کا یہ عروج کتنا خطرناک ہے اور یہ ’الگورتھمز‘ یا ان کے بنانے والے کیسے ہماری نفسیات سے کھیلتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایکس پلیٹ فارم کے بانی جیک ڈورسی اب آزادیٔ اظہار کی بحث کو محض توجہ ہٹانے کا ذریعہ کہتے ہیں۔ اور ان کے خیال میں اصل بحث ’الگورتھمز‘ کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کی آزادی پر ہونی چاہیے۔ ایک انٹرویو میں جب انھوں نے یہ گفتگو کی تو ایکس پلیٹ فارم کے نئے مالک ایلون مسک بھی اس بات سے انکار نہ کرسکے۔ بقول جیک ڈورسی:
This is going to sound a little bit crazy, but I think that the free speech is a complete distraction right now. I think the real debate should be about free will and we feel it right now because we are being programmed... And I think the only answer to this is... to give people a choice of what algorithm they want to use.
شاید یہ آپ کو عجیب لگے لیکن [آج کے دور میں] میرے خیال میں آزادیٔ اظہار کی باتیں محض توجہ ہٹانے کا طریقہ ہیں۔ میرے خیال میں اصل بحث آزاد یا خود اختیاری سوچ پر ہونی چاہیے۔ اور اب ہم نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ ہماری سوچ یا مرضی کو [سوشل میڈیا الگورتھمز کے ذریعے] بدلا جارہا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے لوگوں کو اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اس بات کا تعین خود کرسکیں کہ وہ کون سا الگورتھم استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کون سا نہیں۔
تقریباً تمام ہی بڑی اور طاقت ور سوشل نیٹ ورکس کمپنیاں کسی نہ کسی طرح جہاں ایک طرف 'منتخب کردہ نظریات کو پروان چڑھانے کے لیے نہ صرف مکمل آزادی دیتی ہیں بلکہ مختلف ’الگورتھمز‘ کے ذریعے ان کی بات کو اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر پھیلاتی ہیں تو دوسری طرف مخالف آواز کو بالکل دبا دیتی ہیں۔ یعنی آپ کو اپنی بات کہنے کی آزادی تو ہے، لیکن اپنی بات کو پھیلانے کی آزادی نہیں ہے۔ اسے 'Freedom of Speech, Not Freedom of Reach' کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی جہاں ایک 'پسندیدہ شخصیت کی پوسٹ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف دکھائی جاتی ہے، تو دوسری طرف مخالفین کی پوسٹ کو چند سو لوگوں کو بھی نہیں دکھایا جاتا ہے۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اگر کسی فلسطینی مقصد کی حمایت کرنے والے کی آواز سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دبانی ہو تو یہ پلیٹ فارمز اپنے ریکارڈ یا ڈیٹابیس میں اس کے نام کے آگے ایک منفی نشان لگادیں گے اور پھر اس کو اپنی بات کہنے کی تو مکمل آزادی ہوگی لیکن اس کا پیغام بہت کم ہی لوگ دیکھ پائیں گے۔ یہ باتیں کوئی سازشی نظریات نہیں بلکہ ان سوشل نیٹ ورکس کمپنیوں کے بے شمار ملازمین اس موضوع پر خفیہ دستاویزات سامنے لاچکے ہیں کہ یہ کمپنیاں کس طرح آزادیٔ اظہار کے نام پر آزادی اظہار کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔
ان سب میں سب سے توانا اور منظم آواز گوگل کے سابق سوفٹ وئر انجینیر زیک وریز کی ہے، جنھوں نے ۲۰۲۰ء کے امریکی انتخابات میں گوگل کی دھاندلیوں پر سے پردہ اٹھایا ۔ زیک نے ۲۰۲۱ء میں اپنی کتاب 'گوگل لیکس: طاقت ور ٹکنالوجی سنسرسپ کو بےنقاب کرنے کی کہانی یا Google Leaks: A whistleblower's expose of big tech censorship' میں تقریباً ایک ہزار خفیہ دستاویزات کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ کس طرح گوگل نے اپنے سرچ انجن اور یوٹیوب پر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن کمپین کو سنسر کرکے جوبائیڈن کے جیتنے کی راہ ہموار کی۔
کتاب کے مصنف کے مطابق ۲۰۱۶ء کے انتخابات سے قبل ہی گوگل کے بانیوں نے اپنا تمام وزن ہیلری کلنٹن کے پلڑے میں ڈالا ہوا تھا، لیکن تمام تر محنت کے بعد بھی جب نتائج اس کے برعکس آئے، تو ۲۰۲۰ء کے انتخابات سے قبل دائیں بازو کے 'پروپیگنڈا کو باقاعدہ سنسر کرنے کا آغاز کیا اور پھر یہ سنسرشپ پھیلتی چلی گئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ زیک وریز کے مطابق ایلون مسک کے دعوؤں کے برعکس ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر دیگر پلیٹ فارمز کی طرح شیڈوبین الگورتھم [Shadow banning algorithm] ابھی بھی اسی طرح فعال ہے جیسا کہ پہلے تھا اور ایلون مسک کے دعوے محض جھوٹ ہیں۔
ان طاقت ور سوشل نیٹ ورکس کی یہ سنسرشپ مہم امریکا اور یورپ میں جاری ثقافتی جنگ، (Woke Culture War)میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے، جہاں 'آزادی، تنوع اور مساوات کے نعرے کے مخالفین کو یہ پلیٹ فارمز مکمل طور پر سنسرکررہے ہیں۔ بظاہر خوب صورت نظر آنے والے ان نعروں کے پیچھے امریکا اور یورپ میں ہم جنس پرستی، اپنی جنس خود منتخب کرنے کی آزادی، غیرقانونی مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ لبرل ذہنیت کس حد تک گرگئی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیرس اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں انھی نظریات کے تحت نعوذباللہ حضرت عیسٰی علیہ اسلام کی تضحیک کی گئی اور ابتدا میں اس کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خوب پھیلایا گیا، لیکن پھر تنقید کے بعد یہ ویڈیوز کچھ پلیٹ فارمز پر سے ہٹادی گئیں۔
مسلم معاشروں کے لیے صورت حال کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پہلے ہم اپنے بزرگوں سے اسلام سیکھتے تھے پھر یہ کام کتابوں نے لے لیا۔ آج کل یہ کام سوشل نیٹ ورکس نے سنبھالا ہوا ہے اور آگے چل کر یہ کام مصنوعی ذہانت سنبھال لے گی۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ روزانہ دس سے بارہ گھنٹے اپنے اسمارٹ فون پر مختلف سوشل نیٹ ورکس پر گزارنے والی نوجوان نسل کو سنسرشپ کی مہم کے تحت مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنا من پسندیدہ تصورِ اسلام سکھایا جائے اور باقی سارے تصورات سنسر کردیئے جائیں، تو اگلے چند برسوں میں کیسی ہولناک صورت حال بن جائے گی۔
اس کی ایک جھلک ایسے دیکھی جاسکتی ہے کہ جب چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور ’ایکس‘ [ٹویٹر] کے اے آئی پروگرام گروک 'X AI program GROK' سے ۲۰ بڑی دہشت گرد تنظیموں کے نام اور مذہب کا پوچھا گیا تو ان دونوں پروگرامز نے صرف مسلم تنظیموں کے نام اور اسلام کا نام دکھایا۔ گویا مصنوعی ذہانت کو سکھا دیا گیا ہے کہ دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنا ہے۔
سوشل نیٹ ورکس اور مصنوعی ذہانت کے 'گٹھ جوڑ سے اور کیا کیا تباہ کاریاں سامنے آئیں گی؟ اس کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ لیکن گذشتہ دنوں پاکستانی میڈیا پر چلنے والی اس خبر نے آپ کی توجہ ضرور حاصل کی ہوگی کہ انسٹاگرام پر پہلی پاکستانی اے آئی سوشل میڈیا انفلیوینسر کی پروفائل لانچ کردی گئی ہے۔ 'شبنم ایکسائی (Shabnam Xai') نامی ڈیجیٹل خاتون ماڈل، مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی ہے، اپنی انسٹاگرام پروفائل پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہی اپنی مختلف تصاویر ڈالتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل انسان بنانے والا کون ہے؟ اس کی شناخت تو ظاہر نہیں کی گئی لیکن اس پروفائل پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے کبھی مشرقی لباس پہنے تو کبھی مغربی لباس پہنے ایک خاتون کی تصاویر ڈالی جاتی ہیں۔ اس پروفائل کے بنتے ہی ۱۰ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسے فالو کرلیا تھا۔
انسٹاگرام نے جسے عریاں تصاویر (Soft Porn) پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یہ پروفائل اس وقت تو اپنے پلیٹ فارم سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ہٹا دی ہے۔ لیکن ڈیجیٹل انسان (Virtual Models') کا تصوّر بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے اور اسے آسان آمدنی کا ایک کامیاب ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔ ان پروفائلز پر جہاں بغیر کچھ محنت کیے مختلف کمپنیوں اور برانڈز کی تشہیر کی جاتی ہے، وہیں مختلف نظریات کو فروغ بھی دیا جاتا ہے۔
لیکن یہ صورت حال زیادہ پیچیدہ اور ہولناک اس لیے ہے کہ یہ سارا کام چند کمپیوٹر پروگرامز کے ذریعے ہورہا ہے جس کی وجہ سے بہت ہی تھوڑی محنت سے بہت سارے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مصنوعی ذہانت سے لیس ایسے پروفائلز ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بن چکے ہیں جو نہ صرف بالکل انسان لگتے ہیں بلکہ ساتھ میں انسانوں کی طرح گفتگو بھی کرسکتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی پروفائل کا جائزہ لے کر آپ کا نفسیاتی خاکہ بناکر آپ کی کمزوریوں اور رجحانات پر نظر بھی رکھ سکتے ہیں۔
ذرا تصور کریں کہ ایک نوخیز ذہن کو جو ابھی جوانی میں قدم رکھ رہا ہے اور نیا نیا ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا شروع کرتا ہے، تو وہ ان خطرناک شکاریوں کے لیے کتنا آسان شکار ہے۔ یہ ڈیجیٹل پروفائلز اگر کسی فحش سوشل نیٹ ورک کے فروغ کے لیے بنائے گئے ہیں، تو یہ اس نوجوان کو اس کی مختلف کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر فحاشی کی طرف راغب کرسکتے ہیں، اور کوئی دوسرا پروفائل جو کسی منفی نظرئیے کو پھیلانے کے لیے بنایا گیا ہے اس نوجوان کو کسی نفرت پھیلانے والے نظریے کی طرف بھی بلا سکتا ہے۔
لیکن یہ کام کوئی نیا نہیں ہے۔ اب یہ کام کم خرچ میں چند سوفٹ ویرز کے ذریعے کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کافی عرصے سے یہی کام نوجوانوں کو بھرتی کرکے کروایا جاتا رہا ہے۔ انڈیا میں بی جے پی اور مودی کے حمایتیوں نے جہاں ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز ویڈیوز پھیلا کر مسلم کش فسادات کو ہوا دی ہے، تو پاکستان میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے چند سال قبل تقریباً تیرہ سو نوجوانوں کو اس کام کے لیے ملازمت پر رکھا تھا کہ وہ کے پی حکومت کا مثبت چہرہ عوام کے سامنے لانے میں مدد دیں۔
برطانیہ میں حال ہی میں پھیلنے والے مسلم مخالف مظاہروں کو سوشل میڈیا پر کیسے بڑھایا گیا؟ اس پر ایک تفصیلی خبر ڈیلی میل نے دی ہے۔ ۴؍ اگست ۲۰۲۴ء کو چھپنے والی اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مسلم مخالف مظاہروں کا ایک مرکزی کردار ٹومی رابنسن ہے۔ خبر کے مطابق ایکس [سابقہ ٹویٹر] پر تقریباً ۱۰ لاکھ فالورز رکھنے والا ٹومی رابنسن جس وقت قبرص کے تفریحی مقام پر بیٹھا نفرت پھیلا رہا تھا اور ایکس پلیٹ فارم پر اس کی ایک ویڈیو کو چار کروڑ لوگ دیکھ چکے تھے، اس وقت اس کے 'سوشل میڈیا سپاہی برطانیہ میں لُوٹ مار میں لگے تھے۔ واضح رہے کہ ٹومی رابنسن کا اصلی نام کچھ اور ہے، جو کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کو پلیٹ فارم پر اس جعل سازی کے باوجود بات کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
ایکس پلیٹ فارم نے جہاں ایک طرف مسلم کش فسادات کو ہوا دینے کے لیے ٹومی رابنسن نامی جعلی اکاؤنٹ کو کھلی آزادی دی ہوئی ہے، وہیں اس پلیٹ فارم پر برطانوی حکومت کا ایکس اکاؤنٹ 'قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر اس وقت بند کردیا گیا جب برطانوی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فسادات پھیلانے والی پوسٹس کو پھیلانے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔
ایلون مسک اپنی منفرد حیثیت کو اپنے پلیٹ فارم پر کیسے استعمال کررہا ہے؟ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ برطانیہ میں مسلم کش فسادات کے شروع ہونے کے بعد اس نے ۲۰۱۳ء کی ایک ۱۰سال پرانی خبر کو اپنے پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا جس کے مطابق ایک مسلمان لڑکے نے ایک برطانوی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اور اس پوسٹ کو محض چند گھنٹوں میں ۵کروڑ لوگ دیکھ چکے تھے۔
اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ فلسطینی خبررساں ویب سائٹ ’صدا سوشل‘ (Sada Social)، جسے ’الجزیرہ‘ جیسے مؤقر ادارے مدد دیتے ہیں، کے مطابق ان سوشل نیٹ ورکس کے مختلف ملازمین اس بات کی بار بار نشاندہی کرچکے ہیں کہ واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ نے فلسطینیوں کا مواد یا ڈیٹا اسرائیل کو دیا ہے اور اسرائیل نے اسی مواد کو استعمال کرتے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
بعض محققین ٹومی رابنسن کا تعلق اسرائیل سے جوڑتے ہیں کیونکہ اسے جن مقدمات کا سامنا ہے ان پر ہونے والا خرچہ چند اسرائیلی تنظیمیں اٹھا رہی ہیں۔ اور ان محققین کی نظر میں ٹومی رابنسن جیسے بے شمار سوشل میڈیا انفلوینسرز اسرائیل کے حالیہ جنگی جرائم کو چھپانے اور مسلم عیسائی تعلقات کو خراب کرنے کی منظم کوششوں میں ملوث ہیں۔
اسی طرح کی ایک اور خبر دی ٹائمز نے دی ہے۔ ۶ جون ۲۰۲۴ءکو چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت برائے تارکین وطن (Ministry of Diaspora') نے سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی تشہیر کرنے والی کمپنی اسٹویک (Stoic') کو دو ملین ڈالر کی ادائیگی کرکے ہزاروں کی تعداد میں جعلی سوشل میڈیا اکاونٹس بنا کر ان کے ذریعے پروپیگنڈا کرکے سوشل میڈیا پر امریکی کانگریس کے اراکین بالخصوص سیاہ فام ارکان کانگریس کو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کے لیے دباؤ میں لینے کی کوشش کی۔ یہ جعلی اکاونٹس ہولڈر امریکی بن کر ان اراکین کانگریس سے مطالبہ کرتے کہ اسرائیل کی حمایت کرو ورنہ انجام کے لیے تیار رہو۔
ایلون مسک نے ایکس پلیٹ فارم پر جعلی خبروں اور پروفائلز کے خلاف لڑائی کے لیے جس کو رکھا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ سابق اسرائیلی جاسوس گائے ٹائٹنوچ ہے۔ ان کی ملاقات کا انتظام خود اسرائیلی وزیراعظم نے کیا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ان مہمات کا ایک مقصد دنیا کی ہربرائی کی جڑ اسلام کو ثابت کرنا بھی ہے۔ اور یہ صورت حال اتنی گھمبیر ہے کہ خود اسرائیلی کمپنی فیک رپورٹر(Fake Reporter' ) 'کے ملازم شاٹز کو پریشان کردیا۔ ان کے مطابق:
Framing Islam around the world as the problem is not something that our state's supposed to be involved with.It's promoting hate and promoting fear and promoting messages that, at the end of the day, I'm embarrassed by.
اسلام کو دنیا کے سامنے ایک مسئلے کے طور پر پیش کرنا کوئی ایسا کام نہیں ہے جو ہماری ریاست کو کرنا چاہیے۔ یہ سب نفرت پھیلا رہا ہے، خوف پھیلا رہا ہے اور اس طرح کے پیغامات کو پھیلانا میرے لیے باعث شرمندگی ہے۔
آخر ایلون مسک کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے؟ غزہ جنگ شروع ہوتے ہی ایکس پلیٹ فارم کے بانی نے اسرائیل کا دورہ کیوں کیا؟ اور کیا اسرائیلی وزیراعظم اور ایلون مسک نے ایکس پلیٹ فارم پر اسرائیلی پروپیگنڈا پھیلانے اور یورپ اور امریکا میں فلسطینیوں سے بڑھتی ہوئی ہمدردی کو دبانے کے لیے سوشل میڈیا کی مدد سے مسلم عیسائی فسادات کا کوئی خفیہ منصوبہ بنایا ہے؟ شاید دنیا اس بارے میں کبھی نہ جان پائے۔
پاکستان گذشتہ دس برسوں میں ان سوشل نیٹ ورکس کی محض ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ عوام کی اکثریت جو نہ لکھنا پڑھنا جانتی ہے اور نہ جہاں اخبار، ٹی وی اور دوسرے میڈیا تک عام رسائی تھی، اچانک اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکس کی دستیابی نے کیا گل کھلائے ہیں؟ کس طرح یہ پلیٹ فارمز ایک طرف تو سنسرشپ کے تحت مختلف نظریات کا گلا گھونٹتے رہے ہیں، تو دوسری طرف اپنے من پسند نظریات کی ترویج کرنے والوں کو لامحدود رسائی دی گئی ہے۔نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کہاں تو ریاست ففتھ جنریشن وارفئیر [Fifth Generation warfare] کے تحت اس سب کو پروان چڑھا رہی تھی، تو اب اس سب کو ڈیجیٹل دہشت گردی قرار دے کر مختلف فائروالز کے ذریعے روکنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔ کیا پانی سر سے گزر چکا ہے یا اس انتشار کو روکنے کی کوئی صورت ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
تازہ خبروں کے مطابق حکومت پاکستان نے سوشل میڈیا کے شتربےمہار پر قابو کرنے کے لیے دوبارہ فائر وال انسٹال کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس سے قبل ۲۰۱۹ء میں بھی حکومت وقت نے ایک فائروال انسٹال کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔
فائر وال انٹرنیٹ پر ٹریفک کو فلٹر کرنے کا کام کرتی ہے۔ اگر کسی ویب سائٹ کو بلاک کرنا ہو تو اس کا پتہ یا URL فائروال کو بتادیا جاتا ہے اور پھر وہ ویب سائٹ اس ملک یا دفتر یا گھر جہاں بھی وہ فائر وال انسٹال ہو، کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ یہ کام تو تقریباً تمام ہی فائر والز کرلیتی ہیں۔ لیکن اگر کسی ’اپلی کیشن‘ یا ویب سائٹ کو مکمل بند نہ کرنا ہو بلکہ ان پر موجود مخصوص مواد کو ہٹانا ہو، تو اب ایسی ’فائر والز‘ بھی آگئی ہیں، جو ڈیپ پیکیٹ انسپکشن اور ایڈوانس ڈیپ پیکٹ انسپکشن ٹکنالوجی (Advanced Deep Packet Inspection)کا استعمال کرتے ہوئے کسی ایپ پر کال کو ریکارڈ کرلیتی ہیں، یا مخصوص مواد کو پڑھ کر اس مواد کو شئیر یا پھیلانے والے کا پتہ لگالیتی ہیں۔
اس قسم کی ’فائر والز‘ کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چین نے اپنے عوام کا ڈیٹا محفوظ بنانے اور مغربی ممالک تک پہنچنے سے روکنے کے لیے نہ صرف فائروال انسٹال کی ہوئی ہے، جسے ’گریٹ فائر وال آف چائینہ‘ کہا جاتا ہے، بلکہ تمام مغربی سوشل نیٹ ورکس پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
یہ بات سمجھنے کے بعد یہاں پر بہت اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسی دنیا میں جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہو کہ خدا اور کراماًکاتبین کے بعد آپ کو سب سے زیادہ یہ سوشل نیٹ ورکس جانتے ہیں، اور جہاں دنیا بھر میں موجود ہزاروں ڈیٹا سینٹرز پر دن رات چلنے والی بلامبالغہ لاکھوں کروڑوں طاقت ور مشینوں پر جمع ہونے والا یہ مواد یا ڈیٹا خدائی ذہانت یا Super Intelligence کے حصول کے لیے استعمال ہورہا ہے، کیا ایک فائر وال انسٹال کرلینا کافی ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک ایسی جنگ کا سامنا کررہے ہیں جو ہم بغیر لڑے ہی ہار چکے ہیں؟
جب ایک طرف تو مذہب کے ساتھ نفرت، دہشت، جنگ اور فساد کو جوڑ دیا جائے اور دوسری طرف مادیت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو، تو اس کا لامحالہ نتیجہ خدا اور دین بیزاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی کچھ امریکا میں ہوا جہاں نو گیارہ کے بعد اسلام کے خلاف مہم کا نتیجہ امریکی معاشرے میں الحاد یا Atheism کے دوبارہ عروج کی صورت میں نکلا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے اس صورت حال کو مہمیز دے کر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں پھیلنے والی لادنیت یا الحاد کی بڑی وجہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہیں۔ اس صورت حال پر برطانوی پروفیسر اسٹیفن بلیونٹ نے اپنی کتاب [غیر عیسائی امریکا کی تعمیر] یا Nonverts: The Making of Ex-Christian America میں روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کے خیال میں امریکا میں بڑھنے والے الحاد یا Atheism اور سیکولرازم کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں:
Given how much more willing people are to talk about religion and politics online than they are in person, you’re therefore probably exposed to all manner of different viewpoints. Sometimes, maybe one of these makes you think differently about a political policy or religious doctrine — or even if not, it makes you a little less sure about it than you used to be.Given the sheer amount of time many people tend to spend on social media platforms, it’s not hard to imagine that the cumulative effect of all this might well be to chip away at lots of hitherto unexamined convictions. And that this, combined with other factors, might help nudge a good number further along the path away from religion — and to shove a few of them down one or another shortcut to Advance Directly to Godlessness.
کیونکہ لوگ عام زندگی کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر مذہب اور سیاست کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں، اس لیے یہاں ان کو مختلف نظریات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا ہی کوئی نظریہ یا بات آپ کو اپنے اعتقادات کے بارے میں مختلف طریقے سے سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے یا کم از کم آپ کو شک میں ضرور ڈال سکتی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ لوگ کتنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صرف کررہے ہیں، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بہت سے کمزور عقائد سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اگر اسی کے ساتھ دوسرے عوامل کو شامل کرلیا جائے تو اس سب سے [لوگوں کی] بڑی تعداد کو مذہب سے دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہاں تک کہ چند لوگ تو خدا پر یقین بھی کھو سکتے ہیں۔گویا کہ کہاں تو سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہم کو کنویں کا مینڈک بنا رہے تھے اور اب کہاں ہم خدا بیزار نسل کا ظہور انھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی بدولت دیکھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس اپنی دعوت کو پھیلانے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی بن کر سامنے آئے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر فوری دستیاب معلومات کے حصول نے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کو جاننے اور مختلف نظریات کو پڑھنے یا جاننے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
گذشتہ دنوں امریکا میں ہونے والے الیکشن سے قبل ری پبلکن پارٹی کے قومی اجلاس میں سکھوں کی جانب سے نمائندگی کرنے والی ہرمیت ڈھلوں نے اپنی تقریر کا آغاز سکھوں کی دعا سے کر کے خبروں میں جگہ بنالی۔ تفصیلات کے مطابق سکھ ری پبلکن امیدوار کا سکھوں کے خدا ’واہ گرو‘ ' کا ذکر امریکا میں موضوعِ بحث بن گیا۔ جہاں ان کے مخالفین نے اسے عیسائی دشمنی کہا تو ان کے حمایتیوں نے اسے دو مذاہب میں محبت بڑھانے کا ذریعہ۔ لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تقریر کے بعد اگلے تین دنوں تک گوگل سرچ انجن پر امریکا میں سب سے زیادہ تلاش کیا جانے والا لفظ 'وہی ’واہ گرو‘ بن گیا اور گوگل ٹرینڈز کے مطابق گوگل استعمال کرنے والے ہر سو میں سے ستّر افراد نے اگلے تین دنوں میں اس بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
یہ واقعہ اسلام کی دعوت پھیلانے والوں کے لیے ایک امید اور دستیاب مواقعوں کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کام انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر نہایت ہی غیر منظم انداز میں ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف بعض لوگوں نے ان پلیٹ فارمز پر اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسالک کا جھنڈا بلند کیا ہوا ہے، وہیں سنسر شپ بھی زبردست طریقے سے آڑے آرہی ہے۔ مثلاً جب ہم نے گوگل سرچ پر 'اللہ کون ہے؟ (Who is Allah)، 'اسلام میں خدا کا تصور (God In Islam) اور 'محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کون ہیں؟ ( Who is Muhammad? ) تلاش کیا تو گوگل نے اپنے پہلے صفحے پر ہمیشہ وکی پیڈیا ، برٹانیکا جیسی ویب سائٹس کو اوپر رکھا اور مسلمانوں کی بنائی کسی بھی اسلامی ویب سائٹ کو گوگل کے پہلے صفحے پر بمشکل ہی جگہ مل پائی۔
دوسری طرف اسلام، اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جڑے منفی سوالات کے لیے گوگل نے مغربی پروپیگنڈا ویب سائٹس کو پہلے صفحے پر پوری آزادی دی ہوئی ہے۔ یہ سوالات انگریزی زبان میں پوچھے گئے تھے لیکن دوسری زبانوں میں گوگل سرچ پر کیا صورت حال ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر تفصیلی سوچ بچار کے بعد ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے اور اپنی دعوت کو مختلف زبانوں میں بہترین طریقے سے پیش کیا جائے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا نہ صرف دفاع کیا جائے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے۔ اسی طرح اسلام اور عیسائیت اور مسلم اور ہندو تصادم کی صورت حال کو بھی دوستانہ اور داعیانہ رخ دے کر نفرت کو محبت سے بدلا جائے۔
میٹاورس: سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل؟
’میٹاورس‘ ایک ایسی مصنوعی دنیا Virtual World کوکہتے ہیں، جہاں آپ کے بجائے آپ کا کارٹون کیریکٹریا Digital Avatar آپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ میٹاورس استعمال کرنے کے لیے آپ کو اپنی آنکھوں پر ایک ڈیجیٹل چشمہ یا Virtaul Reality Headset پہننا پڑتا ہے، جس کے بعد آپ ایک کثیرالجہتی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں جو حقیقی دنیا کا متبادل ہوگی۔ ابھی یہ ٹکنالوجی اپنی ابتدائی شکل میں ہے لیکن ’میٹاورس‘ کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل کہا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کاروبار سے لے کر تفریح تک سارے کام کریں گے۔
ماہرین کے خیال میں ’میٹاورس‘ کی ترقی سے ہم زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اہم تبدیلیاں دیکھیں گے، مثلاً تعلیم، گھر بیٹھے کام کرنا، سیر و تفریح وغیرہ۔ مائیکروسوفٹ نے دفاتر کو ملازمین کے لیے مزید دلچسپ بنانے کے لیے اپنی مختلف ایپس میں ’میٹاورس‘ کو شامل کیا ہے تاکہ دومختلف جگہوں پر بیٹھے لوگ زیادہ فعال طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرسکیں۔ لیکن ’میٹاورس‘ کا سب سے زیادہ اثر آن لائن گیمنگ پر پڑ رہا ہے۔ اور میٹاورس نے ورچول رئیلیٹی (Virtual Reality )کی مدد سے آن لائن گیمنگ کو پہلے سے زیادہ 'دلچسپ بنادیا ہے جو نوجوانوں کو ان پلیٹ فارمز پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
اگر ’میٹاورس‘ قبولِ عام حاصل کرلیتا ہے، تو اس کے اثرات ناقابلِ بیان ہوسکتے ہیں ۔ ہم نے اس مضمون کے آغاز میں جس واقعے کا ذکر کیا ہے وہ پہلا نہیں ہے۔ انڈیپنڈنٹ اخبار کی ایک خبر کے مطابق نینا جین پٹیل، جو ایک ماہر نفسیات اور محقق ہیں، کو بھی اسی قسم کے تجربے سے گزرنا پڑا، جب وہ یہ معلوم کرنے کے لیے فیس بک کے میٹاورس پلیٹ فارم پر گئیں کہ وہ پلیٹ فارم خواتین یا بچوں کے لیے کتنا محفوظ ہے۔ ان کے مطابق محض ۶۰ سیکنڈ میں ہی ان کے کارٹون کردار کو بدترین ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، اور ان لوگوں یا کرداروں نے ان کے کردار کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ یہ تجربہ ان کے لیے اس لیے بھی خوفناک ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے ’ورچول ہیڈ سیٹ‘ کے ساتھ ساتھ ہاتھوں اور کلائیوں میں بھی ایسے آلات [Touch controllers and wrist straps] پہن رکھے تھے، جن کی وجہ سے جب بھی میٹاورس میں ان کے کردار کو کوئی چھوتا تو اسے وہ اپنے جسم میں محسوس کرسکتی تھیں۔ ’فیس بک‘ کو اس خبر کے بعد اپنے میٹاورس پلیٹ فارم پر ذاتی حدود یا Personal boundries کا فیچر متعارف کرانا پڑا تاکہ دو کرداروں کے درمیان کم از کم چار فٹ کا فاصلہ رہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے لیے میٹاورس کیوں ضروری ہے؟ اس موضوع پر عالمی اقتصادی فورم کے مقرر اینڈریو راس سورکن(Andrew Ross Sorkin) روشنی ڈالتے ہیں:
There's going to be people of means who are going to travel, and then there's going to be people maybe of lesser means who might actually be able to use an Oculs or a Magic Leap or some other kind of device to travel to the same place but from their own couch.
ایک طرف امرا ہوں گے جو [حقیقی] سفر کیا کریں گے جو اس سفر کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور دوسری طرف عام لوگ جن کے وسائل کم ہیں۔ یہ لوگ اوکلس [فیس بک کا ورچول ریلیٹی ہیڈ سیٹ Facebook Virtual Reality headset] یا میجک لیپ یا کوئی اور دوسری مشین کا استعمال کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے صوفے پر بیٹھے سفر کیا کریں گے۔
اس سب کا نفسیاتی اثر کیا ہوگا؟ اس پر خود ہی روشنی ڈالتے ہوئے اینڈریو مزید کہتے ہیں:
But in many ways, its acually going to create even more distance between those two people that psycohologically, and I think that we've experienced this through social media, in many ways, its brought people closer in certain ways, but actually created this remarkable divide because it's even more visible.
لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر یہ سب [یعنی میٹاورس کا استعمال] ان دو طرح کے لوگوں کے درمیان ایک زیادہ وسیع نفسیاتی خلیج پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ اور میرے خیال میں ہم یہ سب سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہیں جہاں ایک طرف تو یہ [سوشل میڈیا] لوگوں کوکسی طرح قریب لانے کا باعث بنا ہے، تو دوسری طرف اس نے [لوگوں کے درمیان] ایک گہری خلیج پیدا کردی ہے جو نہایت واضح ہے۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کون دن بھر ہیڈسیٹ پہنے اپنے صوفے پر بیٹھے زندگی بسر کرنا پسند کرے گا؟ لیکن پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ کمپیوٹرز اور پھر اسمارٹ فونز کی ایجاد کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کا استعمال دوسری چیزوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ۲۰ سال قبل دنیا بھر میں لوگ اوسطاً دو گھنٹے ان اسکرینز پر گزارتے تھے جو بڑھ کر آخری دس برسوں میں تقریباً پانچ گھنٹے اور اب تقریباً سات گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ اور نوجوان نسل تقریبا ً۹ گھنٹے اوسطاً روزانہ اپنے اسمارٹ فون پر گزارتی ہے۔
اس کا نتیجہ ہماری توجہ کے بٹ جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ امریکی ادارہ برائے نفسیات کی ایک تحقیق کے مطابق ۲۰ سال قبل عام طور پر ایک بندہ اوسطاً ڈھائی منٹ کسی بھی ایک کام پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں توجہ کا دورانیہ [Attention span] گر کر ڈیڑھ منٹ تک رہ گیا تھا اور اب توجہ کا دورانیہ محض ۴۷ سیکنڈ رہ گیا ہے۔ اور اس میں بھی ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ کسی بھی کام پر ۴۰ سیکنڈ سے بھی کم توجہ مرکوز کرپاتے ہیں۔
کیلیفورنیا یونی ورسٹی کی پروفیسر گلوریا مارک نے جو اس تحقیق کی سربراہ تھیں، ایک پوڈکاسٹ جس کا موضوع تھا کہ ’ہماری توجہ کا دورانیہ کیوں کم ہورہا ہے؟‘ یا 'Why our attention spans are shrinking?' میں ان تفصیلات سے آگاہی دی۔ ان کے مطابق اس سب کا لازمی نتیجہ خرابی ٔ صحت کی صورت میں نکلا ہے۔ مثلاً بار بار ایک چیز سے دوسری چیز پر توجہ مرکوز کرنے سے تناؤ (Stress) اور بلند فشار خون کے مرض میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ہماری نیند کا دورانیہ بھی کم ہوگیا ہے۔
اس بڑھتے ہوئے ’اسکرین ٹائم‘ (Screen Time)کا سب سے خطرناک اثر بچوں پر پڑرہا ہے۔ جو بچے زیادہ وقت ’یوٹیوب‘ اور ’گیمنگ‘ پر صرف کرتے ہیں، ان کے دماغ کی بڑھوتری نہ صرف بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے لیے یہ سب بالکل نارمل بن جاتا ہے۔ اور ان کی اس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت اور خود پر قابو پانے کی صلاحیت غیرمحسوس طریقے سے کم ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال پر ایلون مسک نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے روکیں:
I would say I would urge parents to limit the amount of social media that children are able to see. Because they're being programmed by dopamine-maximizing AI.
میں کہوں گا، [بلکہ] میں والدین پر زور دوں گا کہ وہ اپنے بچوں کے سوشل میڈیا پر صرف ہونے والے وقت کو محدود کریں کیونکہ وہ [بچے] ڈوپامین بڑھانے والی مصنوعی ذہانت کا شکار بن رہے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے اہم کام جو والدین اور اساتذہ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو نہ صرف ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے خطرات سے آگاہی دیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی آن لائن سماجی سرگرمیوں(Online Social activities) پر مختلف ایپس کی مدد سے نظر بھی رکھیں۔
اس کام کو صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کے دین، ایمان ہی نہیں بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بھی محفوظ بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ جدید ’فائر والز‘ کو صرف اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے ہی استعمال نہ کرے، بلکہ اس کے ساتھ سوشل نیٹ ورکس پر پھیلی فحاشی، لادینی نظریات اور اخلاق باختہ خیالات کو روکنے کے لیے بھِی استعمال کرے۔ صورت حال کی سنگینی پر مشہور اسرائیلی دانشور نوح ہریری نے کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے:
I also try to take good care of my mind. Our minds were shaped back in Stone Age in a completely different situation, and environment.We are now flooded by enormous amounts of information that we cannot deal with. What the smartest people in the world have been doing in recent years is figuring out how to use these devices in order to hack our brains and press our emotional buttons. And anybody who thinks they are strong enough to resist it is just fooling themselves.It's much, much more powerful than us.So I'm not saying it's impossible to just completely disconnect from the world, but taking some time off to just detoxify the mind and to have a kind of information diet.
میں اپنے دماغ کا اچھا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے دماغ پتھر کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں جب [آج کل کے مقابلے میں] بالکل الگ ماحول تھا۔ آج ہم کو معلومات کے ایک سیلاب کا سامنا ہے جس سے نبردآزما ہونا ہمارے بس کی بات نہیں۔ دنیا کے ذہین ترین افراد پچھلے کئی برسوں سے ان مشینوں کو ہمارے دماغوں کو قابو کرنے اور ہمارے جذبات سے کھیلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اور جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس صورت حال کا مقابلہ کرسکتا ہے، اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ یہ سب ہم سے بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اس [ڈیجیٹل] دنیا سے بالکل الگ ہوجائیں لیکن کچھ دیرکے لیے اس سے دُور رہنا تاکہ ہم اپنے دماغ کو ان مضر اثرات سے دُور کریں ضروری ہے۔ ساتھ ہی ہم کو اس [بے ہنگم اور بے تحاشا] معلومات سے پرہیز بھی کرنا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ کو عوام کو قابو کرنے کا ایک انوکھا طریقہ سوجھا۔ اس نے تجربے کے لیے چند بچوں کو ایک اندھیرے غار میں قید کردیا، جہاں روشنی کا کوئی گزر نہ تھا۔ غار کے بیچ میں آگ جلتی رہتی تھی اور غار کے داخلے کی جگہ پر چند غلام کھڑے پتلی تماشا دکھایا کرتے تھے جس کا عکس غار کی دیوار پر پڑتا تھا۔ وہ بچے جو اس غار میں قید تھے، ان کی دنیا اور سمجھ بوجھ بس یہی غار اور اس میں دکھایا جانے والا وہ پتلی تماشا تھا جس کا عکس وہ غار کی دیوار پر دیکھا کرتے تھے۔ آخر ایک بچے نے ہمت کی اور اس غار سے نکلنے کی کوشش کی لیکن غار سے باہر نکلتے ہی سورج کی روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ غار میں واپس آگیا۔ اس کے تجربے کو دیکھتے ہوئے دوبارہ کسی نے اس غار سے نکلنے اور حقیقت پانے کی کوشش نہیں کی۔
افلاطون [م: ۳۴۰ ق م]نے یہ تمثیل اپنی کتاب ریاست ( 'Repulic' ) میں کوئی دوہزار سال قبل بیان کی تھی۔ لیکن اب جدید دنیا کے فلسفی سوشل میڈیا اور اس کے اثرات کو اسی تمثیل کے ذریعے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
جس اطلاعتی دور (Information Age') کے خطرات پر کچھ عرصہ قبل محض گفتگو ہوتی تھی، وہ دور آج ہمارے سامنے ایسی آب و تاب سے آن کھڑا ہے کہ اس نے دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ اور سوچنے والے ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔ مدہوشی کی ایک کیفیت ہے جو پوری انسانیت پر طاری ہے۔ ایک طرف راتوں رات مشہور اور جلد از جلد امیر بننے کی خواہش نے فرد، خاندان اور معاشرے کو بری طرح تقسیم کردیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی لادینیت کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ نہ اس سب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے اور نہ کوئی راہ فرار۔ المیہ یہ ہے کہ جس اُمت کو ’اُمت وسط‘ کا کردار ادا کرنا تھا اور جس نے دنیا کو خبردار کرنا تھا، وہ بے بسی سے اسی سیلاب میں بہتی نظر آرہی ہے۔