ڈاکٹر اُمِ کلثوم | اکتوبر ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ
اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸(الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
اللہ کا دین اسلام ایک زندئہ جاوید نظامِ حیات ہے۔ قرآن میں اس کے ’احیا‘ کی بات نہیں آئی بلکہ ’غلبہ‘ کا حکم ہے۔ اسلام کے ساتھ تعلق کا دعویٰ رکھنے والے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کے غلبے کے مکلف ہیں۔ اگر وہ اپنی زندگیوں میں اسے غالب کرلیں تو پوری زمین پر وہ غالب آجائے گا۔
اللہ ربّ العزت نے ہمارے جدِامجد حضرت آدم علیہ السلام کو پروانۂ خلافتِ ارضی عطا فرماتے ہوئے نہ صرف اکتسابِ علم کے لیے عقل و فکر کی استعداد عطا فرمائی بلکہ انسانی عقل و فکر کی محدودیت اور مابعد الطبیعیاتی اُمور میں نارسائی کے پیش نظر یہ وعدہ فرمایا کہ عقل وفکر کی رہنمائی کے لیے اپنی جانب سے رہنما ہدایات پہنچاتے رہیں گے۔ پس جو بھی اس ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اس کا اِتباع کرے گا تو اس کے لیے کوئی خوف اور غم نہیں۔ گویا اسے دُنیا و آخرت کی کامرانیاں حاصل ہوں گی (البقرہ۲:۳۸)
یہ وعدہ انبیا علیہم السلام کی بعثت کے ذریعے پورا ہوتا رہا، حتیٰ کہ اس کی تکمیل خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔
سورئہ فتح کی درج بالا آیت اسی وعدے کی تکمیل کا اعلان ہے۔ سورئہ صف اور سورئہ توبہ میں اس اعلان کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ بنی نوع انسان میں ایک طبقہ (مشرکین) دینِ حق کے نزول کو ناگوار جانے گا بلکہ وہ اس کے نفاذ کے راستہ میں مزاحم ہوگا (التوبہ ۹:۳۲)، لہٰذا ہدایت الٰہی کے غلبے کے لیے اہل حق کو باطل کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا۔
دین حق ہی ’اسلام‘ ہے: اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ (اٰل عمرٰن۳:۱۹)۔ اس دین کا اِتباع کرنے والوں کو ’مسلمین‘ کا نام دیا گیا (الحج۲۲:۷۸)۔ حکم ہوا اس دین سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والوں کو اس میں پورے کا پورا داخل ہونا ہوگا (البقرہ ۲:۲۰۸)۔ اس کے مقابلے میں دیگر تمام ادیان خطوات الشیطٰن ہیں،’اتباع ہویٰ‘ پر قائم ہیں، جن کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے (الکہف۱۸:۲۸)۔ ان کی ظاہری شان و شوکت محض دھوکا ہے، عارضی ہے، ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے سے بھی منع کر دیا گیا ، کجا کہ ان سے مرعوب ہوں (طٰہٰ ۲۰:۱۳۱)۔ بتایا گیا کہ ہمارے لیے ہمارے ربّ کا عطا کردہ رزق (ہدایت، مادی و روحانی رزق) ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔
سورئہ الانفال میں ارشاد ہے: ’’یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تمھیں جائے پناہ مہیا کردی۔ اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو‘‘ (۸:۲۶-۲۸)۔تاریخ گواہ ہے کہ حق تعالیٰ کی رہنمائی قبول کرنے والی اپنے دور کی ایک کمزور قوم چند ہی برسوں میں دُنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔
سورئہ انفال میں غلبۂ دین حق کے لیے تین اہم صفات اپنانے کا حکم دیا گیا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو‘‘ (انفال۸:۲۸)۔مزید فرمایا: ’’اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیںورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (انفال ۸:۴۶)
ان آیاتِ کریمہ میں تین اہم اُمور کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیا:
ان تینوں صفات کو مسلم معاشرے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر عملاً نافذ کرنے کے لیے تین کام کرنا ہوں گے:
اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرنا ہے اور درپیش مسائل میں شاہ ولی ؒ اللہ نے اُمت مسلمہ کے دورِ ابتلاء کے آغاز میں ہی اُمت کے مسائل کا جو حل تجویز کیا، آج بھی وہی تریاق ہے:
سرچشمۂ ہدایت قرآن وسنت کو سعی وعمل کی بنیاد بنائے بغیر کوئی منزل حاصل نہیں ہوسکتی۔ قرآن وہ بصیرت عطا فرماتا ہے کہ پھر ظلم و ناانصافی، دین و اخلاق سے انحراف اور دوست دشمن کے مابین فرق نظر آنے لگتا ہے۔قرآن ہی وہ چشم بینا دیتا ہے جو دورِ جدید کے تصوّرات کو اللہ جل شانہٗ کی ہدایت کے پیمانے پر پرکھتے ہوئے اہل جہاں کو شیطانی جال کا شکار ہونے سے بچانے کی تدابیر کی جانب رہنمائی کرسکے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے علوم و فنون کو قرآن پر استوار کریں۔ ہمارا نظامِ تعلیم قرآن و سنت کی رہنمائی میں تشکیل پائے تاکہ ہماری درس گاہوں سے وہ افراد تیار ہوکر نکلیں جن کی نگاہیں تہذیب ِ حاضر کی چکاچوند سے خیرہ نہ ہوں، بلکہ اس کی خباثتوں اور کثافتوں کو پہچاننے کی اہلیت رکھتے ہوئے دُنیا کو پاکیزہ راستہ دکھا سکیں۔ حق کے بارے میں ان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ کرسکیں۔ ہماری مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، عسکری قیادت ان قرآنی علوم میں رسوخ حاصل کرکے خود کو ان اوصاف سے متصف کرلے جو مطلوب ہیں۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کو جاہلانہ مرعوبیت سے بچانے کے لیے اپنی زبان، لباس، بودوباش، نصاب، سب قرآن و سنت کے تابع رکھنا ہوں گے۔ قرآن ہمارے اندر جو اوصاف پیدا کرتا ہے وہ اتنے نمایاں ہوں کہ دشمن بھی ان کی گواہی دے۔
صلح حدیبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دور کے مقتدر سربراہان کو خطوط لکھے جن میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ قیصرِروم کو خط ملا تو اس نے تحقیق کی غرض سے قریش مکہ کے سردار ابوسفیان کو (جو اتفاقاً اس کے دارالحکومت میں موجود تھے) دربار میں مدعو کیا اور آپؐ کے بارے میں سوال پوچھے۔ اس کا آخری سوال تھا: ’’وہ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟‘‘
ابوسفیان نے جواب دیا: ’’وہ ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہیں۔ وہ نماز کا حکم دیتے ہیں، صدق کی تلقین کرتے ہیں، ’عفاف‘ کا حکم دیتے ہیں اور ’صلہ‘ کا حکم دیتے ہیں‘‘۔ غور کیجیے اسلام کا یہ تعارف ایک ایسا شخص کروا رہا ہے جو دشمن گروہ کا سردار ہے۔ گویا یہ صفات اہل ایمان میں اتنی نمایاں تھیں کہ دشمن بھی اس کی گواہی دیتا۔
آج ہم ان صفات ہی کے لحاظ سے اپنا اپنا جائزہ لے لیں۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیانت نہ کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ محبت کے سطحی دعوئوں کے بجائے ان کے احکام پر عمل ہوتا نظر آئے۔ قرآن و سنت کے علوم میں رسوخ کے بغیر جاہلانہ افکارو نظریات کو پہچاننا ممکن نہیں۔
حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’مجھے خطرہ ہے کہ وہ شخص اسلام کی کڑیاں بکھیر دے گا جس نے اسلام میں نشوونما پائی مگر جاہلیت کی پہچان نہیں رکھتا‘‘۔
ایسے افراد ہی تمدن اور قوانین طبیعی سے حاصل شدہ وسائل کو تہذیب ِ انسانی کا خادم بنا سکتے ہیں، ان کی معیشت اور معاشرت کو منکرات سے پاک کرکے ایک پاکیزہ جہاں ترتیب دے سکتے ہیں۔
اللہ ربّ العزت کا حکم ہے: ’’امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو‘‘۔ (النساء ۴:۵۸)
امانت کی تفصیل میں ہرمنصب اور ذمہ داری کو امانت کہا گیا۔ مشورہ امانت قرار دیا گیا (ترمذی)۔ مجلسوں میں باہم گفتگو، بحث و مباحثہ، بے لاگ درست مشورہ، رازوں کی حفاظت، سب امانت ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت میں خیانت کو منافقت کی علامت قرار دیا۔ ارشاد ہے: ’’جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری)
ایک طویل حدیث میں قربِ قیامت کی علامات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’امانت اُٹھ جائے گی،مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہوں گی مگر پوری بستی میں بمشکل ایک امین ہوگا‘‘۔
کسی شخص کی تعریف ہوگی کہ کیسا عقل مند، کیسا خوش مزاج اور کیسا بہادر ہے درآں حالیکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری ، کتاب النفس)
امانت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کے پیش نظر دے دیا۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اس کا فرض قبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے۔(جمع الفوائد)
امانت کا صحیح شعور، اس کے ادا کرنے کی فکر، احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ہمہ گیر و ہمہ جہت اہتمام کی ضرورت ہے۔
آج کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کہ انسان کو گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ نسلی، لسانی، جغرافیائی، مسلکی گروہ بندیاں تو تھیں ہی ،اب تو عورت کو مرد کے خلاف اور اولاد کو والدین کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔
تہذیب ِ جدید کا سبق یہ ہے کہ ’اپنے حقوق کی خاطر کھڑے ہوجائو‘۔ معاشرے میں فرد کے کردار اور ذمہ داریوں کی بات ہی نہیں۔ عالمی کنونشن ہر گروہ کے صرف حقوق کی بات کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر کوئی اپنے ’حق‘ کے لیے دوسرے سے برسرِپیکار ہے، اور خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
یہ بیماری اُمت مسلمہ میں بھی آموجود ہوئی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اُمت کو خاص طور سے متنبہ کیا ہے: یہ طرزِعمل صفوں میں انتشار پیدا کرے گا، تم کمزور ہوجائو گے، تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ دشمن پر تمھارا رُعب ختم ہوگا، وہ تم پر چڑھ دوڑے گا۔
ہمیں سورئہ حجرات میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنا، اپنے ذرائع ابلاغ کا، اپنے اجتماعی اداروں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کے لیے ویسا ہی طرزِعمل اختیار کریں جیسا اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
فقہی معاملات میں بھی باہم مکالمے کے ذریعے خیرخواہی اور محبت کے جذبے کے تحت، بدگمانیوں کو دُور کرنے اور متفق علیہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
سورئہ آل عمران اور سورئہ انفال کی روشنی میں تین بڑی رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے:
’محکمات‘ عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارا نفع و نقصان وابستہ ہے۔ ’متشابہات‘ میں مشغولیت اپنے اوقات لایعنی اُمور میں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسلام کا حُسن یہ ہے کہ لایعنی اُمور کو ترک کردیا جائے۔
اپنی اَنا اور اپنی خواہشات انسان کے لیے مصیبت بن جاتی ہیں۔ اپنی اولاد کی محبت، مال و دولت کی حرص، حق کے غلبے میں بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ دُنیا میں فتنہ وفساد، حرص و ہوس کے نتیجے ہی میں برپا ہے۔ جوع الارض کی کوئی حد نہیں۔ معاشرے سے امانت رخصت ہوجاتی ہے۔ باہم جنگ و جدل کی نوبت آجاتی ہے۔
انسان اپنے دوست سے متاثر ہوتا ہے۔ اللہ کی خاطر دوستی کرنے والوں کو اللہ عزّوجل کے سائے میں جگہ پانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اللہ کے دشمن اللہ والوں کے دشمن ہیں۔ ان سے اظہار برأت کیے بغیر حق کا نفاذ مشکل ہے۔