ڈاکٹر اُمِ کلثوم


اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۲۸(الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔

اللہ کا دین اسلام ایک زندئہ جاوید نظامِ حیات ہے۔ قرآن میں اس کے ’احیا‘ کی بات نہیں آئی بلکہ ’غلبہ‘ کا حکم ہے۔ اسلام کے ساتھ تعلق کا دعویٰ رکھنے والے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کے غلبے کے مکلف ہیں۔ اگر وہ اپنی زندگیوں میں اسے غالب کرلیں تو پوری زمین پر وہ غالب آجائے گا۔

اللہ ربّ العزت نے ہمارے جدِامجد حضرت آدم علیہ السلام کو پروانۂ خلافتِ ارضی عطا فرماتے ہوئے نہ صرف اکتسابِ علم کے لیے عقل و فکر کی استعداد عطا فرمائی بلکہ انسانی عقل و فکر کی محدودیت اور مابعد الطبیعیاتی اُمور میں نارسائی کے پیش نظر یہ وعدہ فرمایا کہ عقل وفکر کی رہنمائی کے لیے اپنی جانب سے رہنما ہدایات پہنچاتے رہیں گے۔ پس جو بھی اس ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اس کا اِتباع کرے گا تو اس کے لیے کوئی خوف اور غم نہیں۔ گویا اسے دُنیا و آخرت کی کامرانیاں حاصل ہوں گی (البقرہ۲:۳۸)

یہ وعدہ انبیا علیہم السلام کی بعثت کے ذریعے پورا ہوتا رہا، حتیٰ کہ اس کی تکمیل خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔

سورئہ فتح کی درج بالا آیت اسی وعدے کی تکمیل کا اعلان ہے۔ سورئہ صف اور سورئہ توبہ میں اس اعلان کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ بنی نوع انسان میں ایک طبقہ (مشرکین) دینِ حق کے نزول کو ناگوار جانے گا بلکہ وہ اس کے نفاذ کے راستہ میں مزاحم ہوگا (التوبہ ۹:۳۲)، لہٰذا ہدایت الٰہی کے غلبے کے لیے اہل حق کو باطل کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا۔

دین حق ہی ’اسلام‘ ہے: اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ  (اٰل عمرٰن۳:۱۹)۔ اس دین کا اِتباع کرنے والوں کو ’مسلمین‘ کا نام دیا گیا (الحج۲۲:۷۸)۔ حکم ہوا اس دین سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والوں کو اس میں پورے کا پورا داخل ہونا ہوگا (البقرہ ۲:۲۰۸)۔ اس کے مقابلے میں دیگر تمام ادیان خطوات الشیطٰن  ہیں،’اتباع ہویٰ‘ پر قائم ہیں، جن کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے (الکہف۱۸:۲۸)۔ ان کی ظاہری شان و شوکت محض دھوکا ہے، عارضی ہے، ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے سے بھی منع کر دیا گیا ، کجا کہ ان سے مرعوب ہوں (طٰہٰ ۲۰:۱۳۱)۔ بتایا گیا کہ ہمارے لیے ہمارے ربّ کا عطا کردہ رزق (ہدایت، مادی و روحانی رزق) ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔

غلبۂ دین : کرنے کا کام

سورئہ الانفال میں ارشاد ہے: ’’یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تمھیں جائے پناہ مہیا کردی۔ اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو‘‘ (۸:۲۶-۲۸)۔تاریخ گواہ ہے کہ حق تعالیٰ کی رہنمائی قبول کرنے والی اپنے دور کی ایک کمزور قوم چند ہی برسوں میں دُنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔

سورئہ انفال میں غلبۂ دین حق کے لیے تین اہم صفات اپنانے کا حکم دیا گیا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو‘‘ (انفال۸:۲۸)۔مزید فرمایا: ’’اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیںورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (انفال ۸:۴۶)

ان آیاتِ کریمہ میں تین اہم اُمور کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیا:

  • اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری
  • امانتوں کی حفاظت و پاسداری
  • اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق۔ (سورئہ صف میں بنیان مرصوص بن جانے کا حکم ہوا)

ان تینوں صفات کو مسلم معاشرے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر عملاً نافذ کرنے کے لیے تین کام کرنا ہوں گے:

  • تفقہ فی الدین (قرآن و سنت کے علوم میں تفقہ)
  • اور رسوخ (التوبہ ۹:۱۲۲)
  • دین حق کے غلبے کے لیے جہد ِ مسلسل (قولی، قلمی، عسکری جہاد)
  • احتساب (وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۝۰ۚ  الحشر ۵۹:۱۸)

اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرنا ہے اور درپیش مسائل میں شاہ ولی ؒ اللہ نے اُمت مسلمہ کے دورِ ابتلاء کے آغاز میں ہی اُمت کے مسائل کا جو حل تجویز کیا، آج بھی وہی تریاق ہے:

سرچشمۂ ہدایت قرآن وسنت کو سعی وعمل کی بنیاد بنائے بغیر کوئی منزل حاصل نہیں ہوسکتی۔ قرآن وہ بصیرت عطا فرماتا ہے کہ پھر ظلم و ناانصافی، دین و اخلاق سے انحراف اور دوست دشمن کے مابین فرق نظر آنے لگتا ہے۔قرآن ہی وہ چشم بینا دیتا ہے جو دورِ جدید کے تصوّرات کو اللہ جل شانہٗ کی ہدایت کے پیمانے پر پرکھتے ہوئے اہل جہاں کو شیطانی جال کا شکار ہونے سے بچانے کی تدابیر کی جانب رہنمائی کرسکے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے علوم و فنون کو قرآن پر استوار کریں۔ ہمارا نظامِ تعلیم قرآن و سنت کی رہنمائی میں تشکیل پائے تاکہ ہماری درس گاہوں سے وہ افراد تیار ہوکر نکلیں جن کی نگاہیں تہذیب ِ حاضر کی چکاچوند سے خیرہ نہ ہوں، بلکہ اس کی خباثتوں اور کثافتوں کو پہچاننے کی اہلیت رکھتے ہوئے دُنیا کو پاکیزہ راستہ دکھا سکیں۔ حق کے بارے میں ان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ کرسکیں۔ ہماری مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، عسکری قیادت ان قرآنی علوم میں رسوخ حاصل کرکے خود کو ان اوصاف سے متصف کرلے جو مطلوب ہیں۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کو جاہلانہ مرعوبیت سے بچانے کے لیے اپنی زبان، لباس، بودوباش، نصاب، سب قرآن و سنت کے تابع رکھنا ہوں گے۔ قرآن ہمارے اندر جو اوصاف پیدا کرتا ہے وہ اتنے نمایاں ہوں کہ دشمن بھی ان کی گواہی دے۔

صلح حدیبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دور کے مقتدر سربراہان کو خطوط لکھے   جن میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ قیصرِروم کو خط ملا تو اس نے تحقیق کی غرض سے قریش مکہ کے سردار ابوسفیان کو (جو اتفاقاً اس کے دارالحکومت میں موجود تھے) دربار میں مدعو کیا اور آپؐ کے بارے میں سوال پوچھے۔ اس کا آخری سوال تھا: ’’وہ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟‘‘

ابوسفیان نے جواب دیا: ’’وہ ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہیں۔ وہ نماز کا حکم دیتے ہیں، صدق کی تلقین کرتے ہیں، ’عفاف‘ کا حکم دیتے ہیں اور ’صلہ‘ کا حکم دیتے ہیں‘‘۔ غور کیجیے اسلام کا یہ تعارف ایک ایسا شخص کروا رہا ہے جو دشمن گروہ کا سردار ہے۔ گویا یہ صفات اہل ایمان میں اتنی نمایاں تھیں کہ دشمن بھی اس کی گواہی دیتا۔

آج ہم ان صفات ہی کے لحاظ سے اپنا اپنا جائزہ لے لیں۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیانت نہ کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ محبت کے سطحی دعوئوں کے بجائے ان کے احکام پر عمل ہوتا نظر آئے۔ قرآن و سنت کے علوم میں رسوخ کے بغیر جاہلانہ افکارو نظریات کو پہچاننا ممکن نہیں۔

حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’مجھے خطرہ ہے کہ وہ شخص اسلام کی کڑیاں بکھیر دے گا جس نے اسلام میں نشوونما پائی مگر جاہلیت کی پہچان نہیں رکھتا‘‘۔

ایسے افراد ہی تمدن اور قوانین طبیعی سے حاصل شدہ وسائل کو تہذیب ِ انسانی کا خادم بنا سکتے ہیں، ان کی معیشت اور معاشرت کو منکرات سے پاک کرکے ایک پاکیزہ جہاں ترتیب دے سکتے ہیں۔

امانت کی حفاظت و پاسداری

اللہ ربّ العزت کا حکم ہے: ’’امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو‘‘۔ (النساء ۴:۵۸)

امانت کی تفصیل میں ہرمنصب اور ذمہ داری کو امانت کہا گیا۔ مشورہ امانت قرار دیا گیا (ترمذی)۔ مجلسوں میں باہم گفتگو، بحث و مباحثہ، بے لاگ درست مشورہ، رازوں کی حفاظت، سب امانت ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت میں خیانت کو منافقت کی علامت قرار دیا۔ ارشاد ہے: ’’جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری)

ایک طویل حدیث میں قربِ قیامت کی علامات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’امانت اُٹھ جائے گی،مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہوں گی مگر پوری بستی میں بمشکل ایک امین ہوگا‘‘۔

کسی شخص کی تعریف ہوگی کہ کیسا عقل مند، کیسا خوش مزاج اور کیسا بہادر ہے درآں حالیکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری ، کتاب النفس)

امانت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کے پیش نظر دے دیا۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اس کا فرض قبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے۔(جمع الفوائد)

امانت کا صحیح شعور، اس کے ادا کرنے کی فکر، احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ہمہ گیر و ہمہ جہت اہتمام کی ضرورت ہے۔

انتشار سے اجتناب

آج کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کہ انسان کو گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ نسلی، لسانی، جغرافیائی، مسلکی گروہ بندیاں تو تھیں ہی ،اب تو عورت کو مرد کے خلاف اور اولاد کو والدین کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔

تہذیب ِ جدید کا سبق یہ ہے کہ ’اپنے حقوق کی خاطر کھڑے ہوجائو‘۔ معاشرے میں فرد کے کردار اور ذمہ داریوں کی بات ہی نہیں۔ عالمی کنونشن ہر گروہ کے صرف حقوق کی بات کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر کوئی اپنے ’حق‘ کے لیے دوسرے سے برسرِپیکار ہے، اور خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

یہ بیماری اُمت مسلمہ میں بھی آموجود ہوئی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اُمت کو خاص طور سے متنبہ کیا ہے: یہ طرزِعمل صفوں میں انتشار پیدا کرے گا، تم کمزور ہوجائو گے، تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ دشمن پر تمھارا رُعب ختم ہوگا، وہ تم پر چڑھ دوڑے گا۔

ہمیں سورئہ حجرات میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنا، اپنے ذرائع ابلاغ کا، اپنے اجتماعی اداروں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کے لیے ویسا ہی طرزِعمل اختیار کریں جیسا اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

فقہی معاملات میں بھی باہم مکالمے کے ذریعے خیرخواہی اور محبت کے جذبے کے تحت، بدگمانیوں کو دُور کرنے اور متفق علیہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

دینِ حق کے غلبہ کی راہ کی بڑی رکاوٹیں

سورئہ آل عمران اور سورئہ انفال کی روشنی میں تین بڑی رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے:

  • ’محکمات‘ کے مقابلے میں ’متشابہات‘ میں مشغولیت
  • خواہشات کی محبت
  • دوست و دشمن میں تمیز نہ ہونے کے باعث اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی ۔

’محکمات‘ عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارا نفع و نقصان وابستہ ہے۔ ’متشابہات‘ میں مشغولیت اپنے اوقات لایعنی اُمور میں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسلام کا حُسن یہ ہے کہ لایعنی اُمور کو ترک کردیا جائے۔

حرص و ہوس

اپنی اَنا اور اپنی خواہشات انسان کے لیے مصیبت بن جاتی ہیں۔ اپنی اولاد کی محبت، مال و دولت کی حرص، حق کے غلبے میں بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ دُنیا میں فتنہ وفساد، حرص و ہوس کے نتیجے ہی میں برپا ہے۔ جوع الارض کی کوئی حد نہیں۔ معاشرے سے امانت رخصت ہوجاتی ہے۔ باہم جنگ و جدل کی نوبت آجاتی ہے۔

دوستی دشمنی کا معیار

انسان اپنے دوست سے متاثر ہوتا ہے۔ اللہ کی خاطر دوستی کرنے والوں کو اللہ عزّوجل کے سائے میں جگہ پانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اللہ کے دشمن اللہ والوں کے دشمن ہیں۔ ان سے اظہار برأت کیے بغیر حق کا نفاذ مشکل ہے۔

خالق کائنات کی کمالِ حکمت ہے کہ اس نے زمین پر اپنے ’خلیفہ‘ انسان کو دو صنفوں میں پیدا کیا، جو انسانیت میں یکساں ہونے کے باوجود جسمانی ساخت، ذہنی و نفسانی اوصاف اور جذبات وداعیات، ایک دوسرے سے مختلف لےکر پیدا ہوئے ہیں۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو مختلف اسالیب میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

 اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔(النجم ۵۳ :۴۵)

سورئہ شوریٰ میں ربِ کریم کی عظمت اور قدرت کے اظہار کے طور پر فرمایا:

اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے ، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادرہے۔(الشورٰی ۴۲:۴۹-۵۰)

اللہ کی عطا کردہ جنس، اصولِ زوجیت اور اس کے نتیجے میں طریقۂ تناسل، اللہ کی تخلیق کردہ نشانی ہے۔ یہ سب اس کی قدرت اور حکمت کا اظہار ہے۔ البتہ بعض اوقات اللہ ہی کی حکمت کے تحت دورانِ حمل یا کچھ عوامل کے اثرانداز ہونے یا صنفی خلیوں (عورت کے بیضہ یا مرد کے نطفہ) میں کسی جینیاتی (ڈی این اے) تبدیلی یا تغیر کے باعث بچے کی جنسی شناخت میں ابہام واقع ہو جاتا ہے۔

پیدایشی نقائص جسم کے کسی بھی حصے میں ہوسکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں، کہیں بھی ہوں ایک بیماری اور آزمایش ہیں۔ ان نقائص کو انٹرسیکس (Inter Sex) یا جنسی نشوونما کی خرابی (Disorder of Sex Development) کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے تمام افراد کو’ خنثیٰ ‘کہا جاتا ہے۔ جنسی ابہام ایک معذوری ہے جو آبادی کے 0.017 فی صد افراد میں نوٹ کی گئی ہے۔ دیگر معذوریوں یا بیماریوں کی طرح اس کا ممکنہ علاج یا بندوبست میڈیکل کے شعبے اور معاشرے کی ذمہ داری ہے اور ان کے حقوق متعین ہیں۔

’ٹرانس جینڈر‘ کے حقوق کی حفاظت کے نام پر جو قانون سازی ہوئی ہے یا کی جارہی ہے، اس میں ایسے افراد کے حقوق کی حفاظت یا معاشرے میں انھیں باعزّت مقام دینے کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں۔ ’ٹرانس جینڈر‘ کے عنوان میں ضمناً ان کا ذکر آگیا ہے۔

’جنس‘ (Sex) تو وہ ہے جو کسی فرد کی پیدایش کے وقت حیاتیاتی شناخت ہے، جب کہ ’جینڈر‘ کا مفہوم مختلف ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو ایک فرد اپنے بارے میں محسوس کرلے یا معاشرہ اس سے اس کردار کی توقع رکھے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک مرد یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ عورت ہے، اور وہ عورتوں جیسی شناخت رکھنا چاہے اور ’عورت‘ ہونے کی حیثیت میں مردوں سے جنسی لذت کا خواہش مند ہو تووہ اس کا جینڈر ہے۔ اسی طرح کوئی ’عورت‘ خود کو ’مرد‘ محسوس کرتے ہوئے ’مردانہ‘ اطوار اختیار کرسکتی ہے۔گویا’جینڈر‘ اصل ’جنسی‘ شناخت سے مختلف ہوسکتا ہے۔

اسی سوچ کو مزید ترقی ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ملی جب ۱۹۷۴ء میں ’ٹرانس جینڈر‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔ ’بنیادی انسانی حقوق‘ کے تحفظ کے نام پر فرد کے اس حق کو تسلیم کیا گیا کہ حیاتیاتی جنسی تعین سے قطع نظر کرتے ہوئے وہ اپنی جنس کا تعین اپنی خواہش سے کرسکتا ہے۔

ایک مرد کو اپنا مرد ہونا پسند نہیں ہے تو وہ ’عورت‘ بن سکتا ہے اور کسی عورت کو اپنا عورت ہونا اچھا نہیں محسوس ہوتا تو وہ ’مرد‘ بن سکتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے میڈیکل سائنسز اس کی پوری مدد کریں گی۔ چنانچہ ’مرد‘ کو ’عورت‘  بنانے کے لیے نسوانی ہارمون دے کر اور پلاسٹک سرجری کے ذریعے جسمانی ساخت میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

اسی طرح عورت کی ’مرد‘ بننے کی خواہش ہے، تو مردانہ ہارمون اور سرجری کے ذریعے اس کی جسمانی ساخت میں رد و بدل ممکن ہوسکتا ہے۔ ظاہری ساخت میں تبدیلی کا جینیاتی ساخت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ خالق کائنات کی تو ہر تخلیق ’منفرد‘ ہے۔ عورت اور مرد کا بنیادی خلیہ (cell)بلکہ ہرخلیہ منفرد ہے، ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔

ابتدا میں اپنی حیاتیاتی جنسی شناخت پر عدم اطمینان کو ایک ’نفسیاتی بیماری‘ قراردیا گیا۔ بعدازاں اسے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی فہرست سے نکال کر ’فرد کا حق‘ قرار دے دیا گیا اور دُنیابھر کو اس ’حق‘ کو تسلیم کرنے کا حکم صادر کردیا گیا۔

دراصل ’ٹرانس جینڈر‘ کے نام پر ہم جنسیت کا تحفظ بلکہ فروغ مقصود رہا ہے۔ ’ٹرانس جینڈر‘ کی پوری بحث اور تذکرے میں ’خنثیٰ‘ یا ’خواجہ سرا‘ کا تو کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ ایسا غالباً صرف ہماری پاکستانی پارلیمنٹ میں ہوا کہ انھیں ایک دوسرے سے منسلک کردیا گیا، تاکہ ’خنثیٰ‘کی آڑ میں نئی اصطلاح ’ٹرانس جینڈر‘ قابلِ قبول بنائی جاسکے۔ اس اصطلاح کو قابلِ قبول بنانے کے لیے میڈیا اور دوسرے مقامات پر ’خنثیٰ ‘کو’ ٹرانس‘ کہنا شروع کر دیا گیا۔

حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد روایت کرتے ہیں: ’’چار آدمی صبح کےوقت اللہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ ان سے ناراض ہوتا ہے‘‘۔

میں نے پوچھا: ’’وہ کون ہیں یارسولؐ اللہ؟‘‘

فرمایا:

  • وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں۔
  • وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں
  • وہ شخص جو چوپایہ کے ساتھ غیرفطری حرکت کرتا ہے
  • وہ مرد جو مرد سے اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔

اللہ کا دین تو ظاہری مشابہت بھی گوارا نہیں کرتا، کجا یہ کہ فطرت میں تبدیلی کے جتن ہوں اور پھر اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو۔ یہ نہ صرف انسانی مرتبہ و مقام اور شرف کی توہین ہے بلکہ فطرت کے خلاف بغاوت ہے۔ انسانی حقوق کی آڑ میں ایسے شرمناک افعال کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ نیکی، رحم، عدل اور احسان کے معانی میں تمام بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے مگر اپنی خواہشات کی تابع داری کو انسانی حقوق کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ’خواہش پرستی‘ کو شرک بھی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنالیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ (الفرقان ۲۵:۴۳)

سورئہ کہف میں مزید وضاحت سے ارشادہے:

کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے، اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔(الکہف ۱۸:۲۸)

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی شیطانی کام ہے۔ انسان جسے ربّ العزت نے احسن تقویم بنایا، اپنے خلیفہ ہونے کا شرف بخشا۔جب اپنے اس شرف سے غافل ہوتا ہے اور نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، تو وہ اپنے طے شدہ ایجنڈے پر اسے چلاتے ہوئے اسے جہنم کا ایندھن بناکر چھوڑتا ہے، جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:

وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔ (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کررہوں گا، میں انھیں بہکائوں گا، میں انھیں آرزوئوں میں اُلجھائوں گا، میں انھیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انھیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رَد و بدل کریں گے‘‘۔ اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنالیا وہ صریح نقصان میں پڑگیا۔ وہ اِن لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انھیں اُمیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے۔ (النساء۴:۱۱۷-۱۲۱)

خاتم النبیین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلیسی طریقۂ واردات سے متنبہ فرماتے ہوئے واضح ارشاد فرمایا: ’’لعنت فرمائی اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پرجو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔(رواہ البخاری)

سورۃ الاعراف میں خواہشات کے غلام کو اس کتّے سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کی لٹکتی ہوئی زبان ایک سونگھنے والی آتشِ حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے‘‘ (آیت۱۷۶)

جنسی تبدیلی کے آپریشن کے بارے میں تمام مسلم علما کا ایک ہی موقف ہے۔ مصر کا الازہر ہو یا سعودی عرب کا دارالافتا، پاکستان اور ہند کے تمام مکاتب ِ فکر کے علما کا اس معاملے میں متفقہ فیصلہ ہے۔ ملایشیا، مراکش، انڈونیشیا اور قطر کے علما، غرض سب اس معاملے میں متفق ہیں۔

قطر کے وزارتِ اوقاف کے تحت کام کرنے والے مستند افتاء مرکز نے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد علی البار نے لکھا:’’اس قسم کے آپریشن کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے، جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کو مستلزم ہے اور جبلت سے انحراف بھی شامل ہے۔ آپریشن صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب حالت مشتبہ ہو جیساکہ ایک مرد حقیقت میں عورت ہو، لیکن اس کے اعضا مردوں کی طرح ہوں تو ایسی صورت میں اپنی قدرتی اور اصل حالت پر واپس آنے کے لیے آپریشن کروانے میں کوئی حرج نہیں (اور اسی طرح دوسری صورت میں)۔

لیکن اگر اعضاء معمول کے مطابق ہیں، جنسی شناخت میں کوئی شبہہ نہیں ہے تو محض خواہش کی تکمیل کے لیے جنس کی تبدیلی کا آپریشن کروانا جائز نہیں۔ فقط جنسِ مخالف کی طرف نفسیاتی میلان اور رجحان اس آپریشن کے لیے جواز نہیں بن سکتا بلکہ یہ رجحان ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور اپنا نفسیاتی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔

’علامات‘(Symbols, Insignias, Icons) فرد، ملک، قوم اور ادارے کی شناخت کے اظہار میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ انھیں اپنی معاشرتی اور ثقافتی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے غوروخوض کے بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پھر کئی طریقوں سے انھیں ظاہر کیا جاتا ہے۔ دھاتی سکّے، دھاتی اجسام، پتھر، کپڑا، لکڑی، ٹائلیں__ کسی بھی چیز پر اپنی شناختی علامات کندہ اور نقش کی جاتی ہیں۔ کبھی روشنیوں کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے اور کبھی کشیدہ کاری کے ذریعے۔

سومائٹکس (somaitics) علم کی ایک اہم شاخ ہے۔ سمبل ازم (symbolism) ایک باقاعدہ سائنس اور آرٹ ہے کہ ’علامات‘ کی معنویت، تاثیر اور مزاجوں پر اثرانداز ہونے کی قوت کا جائزہ لیا جائے۔ انھیں اس طرح تشکیل دیا جائے کہ یہ افراد، اقوام اور اداروں کے نظریات، ذہنی تصورات، خیالات، اوصاف اور جذبات کی درست نمایندگی کرسکیں۔ یہ علامات الفاظ اور اشیاکا لغوی معنی سے کہیں گہرا مفہوم اور تصور پیش کرتی ہیں، مثلاً فاختہ محض ایک پرندہ نہیں بلکہ امن اور سکون کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سرخ گلاب محبت اور رومانس کو ظاہر کرتا ہے وغیرہ۔ فی الواقع شناختی علامت زبردست نفسیاتی قوت کی مالک ہے۔

زمانۂ قدیم سے میدانِ جنگ میں ’علَم بردار‘ خاص اہمیت کا حامل رہا۔ یہ شرف اس جواں مرد کو حاصل ہوتا جو دلیر، جرأت مند اور قومی غیرت سے معمور ہوتا۔ علَم کو ہر طرح کے حالات میں بلندرکھنا قومی عزت، غیرت اور وقار کی علامت قرار دیا جاتا جا رہا ہے۔ معرکۂ کارزار میں دشمن کا سب سے زیادہ نشانہ علَم بردار ہوتا اور غیرت مند علَم بردار جھنڈا بلند رکھنے کے لیے جان پر کھیل جاتے۔

غزوئہ موتہ میں یکے بعد دیگرے تین سپہ سالار اسلام کا جھنڈا سربلند رکھنے کے لیے شہادت سے ہم کنار ہوگئے۔ حضرت جعفرؓ بن ابوطالب کی جاں فشانی تو ضرب المثل بن گئی۔ دشمن نے جھنڈا گرانے کے لیے دائیں ہاتھ پر وار کیا تو انھوں نے جھٹ سے بائیں ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو اسے منہ سے تھام لیا۔ دشمن نے سر پر وار کیا تو جھنڈے کو گرنے سے بچانے کے لیے حضرت عبداللہؓ بن رواحہ آگے بڑھے۔ ان کے جامِ شہادت نوش کرنے پر  حضرت خالدؓ بن ولید نے آگے بڑھ کر اسے بلند کردیا اور پھر نہایت سُرعت اور حکمت سے   اسلامی لشکر کو دشمن کے نرغے سے بچاکر لے آئے۔ علَم کی حفاظت کے لیے دونوں بازو کٹوا دینے پر حضرت جعفرؓ کو جنت میں دو پَر عطا کیے جانے کی بشارت ملی۔ چنانچہ وہ جعفرطیارؓ کے نام سے معروف ہیں۔حضرت خالدؓ بن ولید کو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا گیا،’سیف اللہ‘   ان کے نام کا جزو بن گیا۔

آج بھی ہر ملک کا اپنا جھنڈا ہے اور اس کا خاص مفہوم۔ جھنڈا کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی نہیں ایک اہم علامت ہے، ایک قوم کی پہچان ہے۔ ہر قوم اپنی علامت، اپنی شناخت پر فخر کرتی ہے، اسے بلند رکھنے کی آرزومند ہے۔

اقوام، ممالک اور ادارے اپنی مخصوص امتیازی علامات رکھتے ہیں جنھیں رنگ، تصویر اور گرافک ڈیزائن کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔ جنگ کے میدان ہوں یا کھیل کے، تقریبات میں اقوام و ممالک کی نمایندگی ہو یا بحروبر کا سفر___ مخصوص علامات افراد اور اقوام کا تعارف بن جاتی ہیں، لہٰذا علامات کا تعین بڑی سوچ بچار کے بعد ہوتا ہے۔ تصویر کی صورت میں یہ علامت ایک خاموش پیغام ہے جو کسی فرد، گروہ یا قوم کی شناخت کے علاوہ ان کے یقین، ایمان، ارادے، عزائم اور مقاصد کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی قوت اور مرتبے کا اظہار ہیں۔

مختلف رنگ مختلف معنی رکھتے ہیں۔ ہر تصویر کا اپنا ایک پیغام ہے ۔ ’سفید جھنڈا‘ صلح کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ میدانِ جنگ میں سفید جھنڈے کا لہرایا جانا ہتھیار ڈالنے یا جنگ بندی کا اعلان سمجھا جاتا ہے۔ ’سیاہ جھنڈا‘ جنگ پر آمادگی یا دشمن کو شکست دینے کے عزم کا اظہار ہے۔ نیلارنگ آفاقیت اور امن کا اعلان ہے تو سرخ رنگ رومانس یا خطرے کی علامت۔ سبزرنگ پاکیزگی، خوش حالی اور شادابی کے معنی رکھتا ہے۔ ٹریفک منضبط رکھنے کے لیے سرخ، زرد اور سبز رنگ کا اپنا اپنا مفہوم ہے۔ ’سرخ بتی‘ پر چلنے والا یہ کہہ کر قانون کی گرفت سے چھوٹ نہیں سکتا کہ وہ اس کے پیغام سے واقف نہیں تھا۔

تصاویر بھی اپنا مفہوم رکھتی ہیں۔ ’ہلال‘ اُمت مسلمہ کی پہچان بن چکا ہے اور صلیب عیسائیت کا نشان۔ سرخ رنگ، ہتھوڑا اور درانتی کمیونزم کی پہچان رہے ہیں اور سواستیکا نازی جرمنی کا۔ برطانیہ کا جھنڈا صلیب کی برتری اور زمین کے چاروں گوشوں تک اس کے غلبے کی آرزو کا اظہار ہے۔ پانچ کونوں والا ستارہ اہلِ اسلام کے ساتھ اور چھے کونوں والا ستارہ صہیونیت کے ساتھ وابستہ سمجھا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ

سیاسی اور بین الاقوامی تنظیمیں اپنا اپنا پرچم اور نشان رکھتی ہیں۔ عالمی سطح پر سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کا اپنا جھنڈا اور اپنا نشان ہے۔ اس کے ذیلی اداروں کی اپنی اپنی علامات ہیں۔ اقوام متحدہ کا نشان (insignia / logo) منتخب کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی کئی روز کام کرتی رہی۔ کمیٹی کے انتخاب کو جنرل اسمبلی سے ایک قرارداد کے ذریعے باضابطہ منظور کیا گیا۔ یہ منظوری ۷دسمبر ۱۹۴۶ء کو قرارداد نمبر (A/RES/92(1)) کے ذریعے حاصل کی گئی۔

اقوام متحدہ کے جھنڈے اور نشان میں نیلا اور سفید رنگ نمایاں ہیں۔ نیلا رنگ آفاقیت، امن اور سکون کی علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ سفیدرنگ امن اور اقوامِ عالم کے مابین صلح کی خواہش کا اظہار ہے۔ جھنڈے پر دنیا کے آباد علاقوں کا نقشہ ہے۔ جہاں امن اور ترقی کا قیام اور فروغ اقوام متحدہ کا عزم ہے۔ اس نقشے کو زیتون کی دو شاخوں نے گھیر رکھا ہے۔ زیتون بھی امن کی علامت ہے۔ دنیا کا نقشہ پانچ دائروں میں مقید ہے جنھیں درمیان سے ایک لائن منقطع کررہی ہے۔

علاماتِ طب

اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کے اپنے جھنڈے ہیں۔ سب میں نیلااور سفید رنگ موجود ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے جھنڈے میں ایسکلیپئس کا عصا (Rod of Aesculapius) اور اس کے گرد لپٹا ہوا سانپ ہے۔ یونانی دیومالائی روایات کے مطابق یہ علامت ’صحت کے دیوتا‘ سے متعلق خیال کی جاتی ہے۔

صحت کا دیوتا: ایسکلیپئس اپالو کا بیٹا ہے۔ اسے ’صحت کا دیوتا‘ قرار دیا گیا ہے۔ وہ بیماروں کو شفا بخشتا ہے اور مُردوں کو زندہ کرنے کی قوت رکھتا تھا۔ اس پر دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے اسے ہلاک کرڈالا کیونکہ اس طرح وہ فطرت کے کاموں میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا تھا۔

دنیا بھر میں صحت کی پیشہ ور تنظیموں اور اداروں میں سے بیش تر نے اس علامت کو اپنی شناخت بنا رکھا ہے۔ شعبۂ طب اور دواسازی سے متعلق اداروں میں ایک اور علامت بھی بہت معروف ہے۔ اسے کیڈوسیس(Caduceus) کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے کم و بیش تمام طبی اور دواسازی کے تعلیمی اداروں نے اسی نشان کو اپنایا ہوا ہے۔ تاہم، کچھ ادارے ایسکلیپئس کا نشان بھی رکھتے ہیں۔ غالباً کوئی ایسا طبی ادارہ نہیں جو اس نشان سے پاک ہو۔ دنیا بھر میں تجارتی بنیادوں پر صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں میں سے ۷۶فی صد نے کیڈوسیس کا نشان اپنا رکھا ہے۔ ’عصا‘ کے گرد لپٹا ہواسانپ دنیا بھر میں شعبۂ طب و دواسازی کی معروف علامت ہے۔   طبی تعلیمی ادارے، دو اساز کمپنیاں، شفاخانے شاید ہی کوئی اس سے بے نیاز ہو۔

کیڈوسیس اولیمپک دیوتا ہرمیز(Hermes) سے منسوب عصا ہے۔ اس عصا کے اُوپر دو پھیلے ہوئے پَر ہیں اور اس کے گرد بڑے توازن سے دو سانپ اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ اُوپر جاکر دونوں کے منہ آمنے سامنے ہیں۔ یونانی عقیدے کے مطابق ہرمیز خدا اور انسانوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔

’عصا‘ اس کی دانش اور قوت کا اظہار ہے۔ یونانی شاعر ہومر کا کہنا ہے کہ ’عصا‘ انسان کی آنکھوں کو مسحور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ’عصا‘ کے اُوپر پھیلے ہوئے پَر ہرمیز کے اس مرتبہ و مقام کو ظاہر کرتے ہیں جو اسے زمین اور اس پر رہنے والوں میں حاصل تھا۔ وہ اہلِ زمین کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ مسافروں کا نگہبان تھا۔ تجارتی قافلوں کی حفاظت کرتا اور لین دین میں معاونت کرتا۔ عصا کے گرد لپٹے ہوئے سانپ تجارت، طلاقت لسانی، فصاحت، فریب کاری،  شعبدہ بازی (trickery) اور گفت و شنید کے فن میں مہارت سے منسلک رہے ہیں۔ ہرمیز کو     یہ ’عصا‘ اپالو (سورج دیوتا) نے دیا جو صحت و شفا اور شاعری و موسیقی کا دیوتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اسے یہ عصا دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے عطا کیا تھا۔

’طب‘ کے ساتھ اس عصا کا تعلق صدیوں سے چل رہا ہے۔ بعض اوقات اسے کیمیا، نفع اور دانائی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں ایک ماہر امراضِ چشم کی مہر میں اس عصا کی شبیہہ پائی گئی ہے غالباً اس لیے کہ عصا آنکھوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں سوئٹزرلینڈ میں ایک طبی تالیف میں اسے شعبۂ طب سے متعلق ظاہر کیا گیا۔ اس شبیہہ میں عصا کے گرد دو سانپ لپٹے تھے اور اس کے اُوپر ایک فاختہ بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ بائبل کی ایک آیت درج تھی: ’’تم سانپ کی طرح ہوشیار ، دانش مند اور فاختہ کی مانند بے ضرر بن جائو‘‘۔

انیسویں صدی کے آخر میں امریکا میں اسے شعبۂ طب کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا  حتیٰ کہ ۱۹۰۲ء میں شعبۂ طب نے باضابطہ طور پر اس نشان کو اپنا لیا ۔ کہا گیا کہ ’’عصا غیر جانب داری کی علامت ہے‘‘۔ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ : ’’عصاقوت کی علامت ہے، سانپ دانش مندی اور دو پَر قوتِ کار اور فعالیت کو ظاہر کرتے ہیں‘‘۔

جنگوں میں طبی خدمات انجام دینے والے عملہ اور گاڑیوں (ایمبولینس) وغیرہ پر اسے غیرجانب داری کی علامت کے طور پر ثبت کیا جاتا۔ اس سے ان کی حفاظت مقصود تھی تاکہ وہ کسی حملے کی زد میں نہ آئیں۔ یہ نشان تجارتی بحری جہازوں پر بھی آویزاں کیا جاتا رہا۔ اس سے نہ صرف ہرمیز کی سرپرستی کے حصول کا جذبہ کارفرما تھا جو نفع بخش تجارت کا ذمہ دار دیوتا ہے، بلکہ یہ اظہار بھی ہوتا کہ یہ بحری جہاز کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔

کئی دانش ور کیڈوسس کی اس علامت کو شعبۂ طب سے منسلک کرنے پر معترض ہیں۔  اس لیے نہیں کہ یہ بت پرستی کی علامت ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ بہت سی غلط فہمیوں اور فکری انتشار کا نتیجہ ہے کیونکہ ہرمیز نہ صرف تجارت اور تاجروں کا سرپرست ہے بلکہ چوروں، ٹھگوں، جواریوں اور جھوٹوں کا بھی پشت پناہ ہے۔ دیوتائوں کے نمایندے کی حیثیت سے وہ مسافروں اور بحری سفر کرنے والے تاجروں کا محافظ تھا اور زمین پر امن و سکون قائم کرنے والا بھی! چاہے یہ سکون ’موت کا سکون‘ ہو۔ وہ اپنی چرب زبانی سے بُری سے بُری چیز اور حالات کو عمدہ قرار دے سکتا تھا۔

سٹوارٹ ایل ٹائسن کہتا ہے: ’’اس کی ان صفات کو دیکھتے ہوئے ہرمیز کا یہ نشان طبیب کی گاڑی کے بجاے تابوت پر زیادہ سجتا ہے‘‘۔ (Stuart L Tyson, "The Cauduceus", The Scientific)

لیوک وان آرڈن کی راے ہے: ’’تجارتی ذہن رکھنے والے اطبّاکے لیے یہ علامت خاصی حسب ِ حال ہے۔ ان کے جلو میں امن کی خاطر مرنے والوں کی روحیں ہیں تو دانائی، تجارت، قسمت، چرب زبانی، دھوکادہی اور قذاقی بھی ہم رکاب ہیں۔ بیسویں صدی میں شعبۂ طب کی غالباً یہی شناخت ہے‘‘۔

(Luke Van Orden (2002), where have all he Healers gone? A Doctor's recovery journey in universe. p 129).

ھائی جیہ کا پیالہ (Bowl of Hygieia): دواساز اداروں (فارما سیوٹیکل کمپنیاں) اور فارمیسی کے تعلیمی اداروں کے ہاں ایک معروف علامت (symbol) ’ہائی جیہ کا پیالہ‘ ہے۔ ’ہائی جیہ‘ صحت و صفائی کی یونانی دیوی تھی (Goddess of Hygiene)۔ یہ ایسکلیہ پیئس کی بیٹی تھی جسے صحت کا دیوتا کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے باپ کی معاون اور مددگار تھی اور خود بھی صحت سے متعلقہ اُمور کی ذمہ داری ادا کرتی۔ اس کے ایک ہاتھ میں شراب خوری کا پیالہ ہوتا اور دوسرے بازو پر ایک سانپ لپٹا ہوتا جس کا سر پیالے میں جھکا ہوتا۔ شراب خوری کا پیالہ (chalice) اب اس کی خاص علامت قرار دیا جاچکا ہے۔ پیالے کے نچلے پتلے حصے پر ایک سانپ کنڈلی کی طرح لپٹا ہوا ہے۔ اس پیالے میں کوئی سیال نشہ آور دوا (potion) ہے۔ سانپ کا سر پیالے پر جھکا ہوا ہے۔ وہ پیالے میں موجود دوا نوش کر رہا ہے۔ یہ وہی سانپ ہے جو ہرمیز اور ایسکلیہ پیئس کے عصا پر ظاہر ہوتا ہے۔ اسے دانائی اور سرپرستی کی علامت قرار دیا گیا ہے (serpent of wisdom & guardianship)۔

ہائی جیہ کا پیالہ سب سے پہلے ۱۷۹۶ء میں دواسازی سے منسلک پیرسین سوسائٹی (Perisian Society of Pharmacy) نے اپنی علامت کے طور پر استعمال کیا اور اس نشان کو ایک سکّے پر کندہ کیا گیا تھا۔ اب دنیا بھر میں متعدد دواساز اداروں، کمپنیوں اور تنظیموں نے اس علامت کو اپنارکھا ہے۔ دواسازی سے متعلق اداروں میں یہ نشان سب سے زیادہ استعمال ہورہا ہے۔

دواسازی میں معروف کمپنی وائتھ (Wyeth) نے اس نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا کیا (Bowl of Hygiea Award)۔ بعدازاں امریکا کی تمام ریاستوں کے فارمیسی کے اداروں میں اس نام سے ایوارڈ دیئے جانے لگے۔ یہ ایوارڈ فارمیسی کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والے فرد کو دیا جاتا ہے۔ اس کی نامزدگی فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشنز کرتی ہیں۔ سان فرانسسکو میں یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے سکول آف فارمیسی کے ایک طالب علم کو یونی ورسٹی کی طرف سے اس نام کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس کی نامزدگی اساتذہ اور طلبا اس طالب علم کے لیے کرتے ہیں جس میں ایک اچھے فارماسسٹ کے اوصاف سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔

طبی نسخے کی علامت (Prescription Symbol): Rx کہا جاتا ہے کہ یہ علامت دراصل لاطینی لفظ Recipe (طبی نسخہ) کا مخفف ہے، جس کا مطلب ہے مجوزہ علاج اور دوا کے بارے میں ہدایات۔ تاہم اس علامت کے ساتھ کچھ دوسری کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ درحقیقت قدیم مصری دیوتا ہورس (Horus) کی آنکھ کی شبیہہ ہے۔ یہ آئسس اور اوسرس (Isis & Osiris) کا بیٹا تھا۔ اس کا سر عقاب کا اور دھڑ انسان کا ہے۔ اس کی آنکھ عقاب کی آنکھ ہے۔ وہ بادشاہوں کا دیوتا تھا (God of Kings)۔ انتقام، جنگ، حفاظت، سربلندی اور آسمان کا خدا!!

یونانی دیوتا زیس (Zeus) اور جیوپیٹر (Jupiter) کے ساتھ بھی اس کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ ان دیوتائوں سے رجوع طبی اُمور اور صحت و شفا کے لیے کیا جاتا تھا۔ دیوتا کی آنکھ سے مشابہ یہ علامت حفاظت اور شاہی قوت کے حصول کے عزم کا اظہار ہے(Symbol of Protection & Royal power)۔

چند مزید علامات

نائیکی (Nike)

کھیلوں سے متعلق جوتے، لباس اور دوسری مصنوعات تیار کرنے والی ایک معروف امریکی بین الاقوامی کمپنی ہے اور اس کا نشان (logo) دنیا کی معروف ترین علامات میں سے ہے۔ بچے بالخصوص نائیکی کی مصنوعات اور اس کے نشان کے گرویدہ ہوتے ہیں۔

نائیکی کامیابی اور جیت کی یونانی دیوی ہے (Goddess of Victory)۔ اس کے پَر ہیں۔ اس کی شبیہہ نیم برہنہ ہے۔ اسے قوت، تیزرفتاری اور کامیابی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے (strength, speed & victory)۔ نائیکی کا معروف نشان اس دیوی کے پَروں کو ظاہر کرتا ہے۔

مذکورہ کمپنی کے علاوہ ایک امریکی میزائل کا نام بھی اس پر رکھا گیا ہے۔ اولمپک کھیلوں میں کامیاب کھلاڑیوں کو دیے جانے والے میڈل پر بھی اس کی تصویر ثبت ہوتی ہے۔

اولمپکس

اولمپک کھیلیں، اس کی علامات، روایات، تقریبات تمام روایتی طور پر زمانۂ قدیم میں یونان کے بت پرستانہ شعار سے منسوب ہیں۔

یونان کے شہر اولیمپیا (Olympia) میں زیوس دیوتا کی قربان گاہ (Sanctuary of Zeus) کے سامنے منعقد ہونے والے ان کھیلوں کا آغاز ۷۷۶ ق م میں ’زیوس دیوتا‘ کے بیٹے ہرکولیس نے کیا۔ ۷۰۰ ق م تک اس میں متعدد ترمیمات ہوتی رہیں۔ ۵۶۰ ق م میں ان کھیلوں کے لیے قربان گاہ کے سامنے اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا۔

چوتھی صدی عیسوی میں اس خطے میں عیسائیت کے فروغ اور غلبے کے بعد ان کھیلوں کے بت پرستانہ شعار اور مظاہر کے باعث ان کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی۔ دیوتائوں سے منسوب، عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ بعدازاں کچھ قدرتی آفات، زلزلوں وغیرہ کے باعث ان کے آثار آٹھ نومیٹر گہرائی میں دفن ہوگئے۔

یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے دور (اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی) میں یورپی اقوام نے قدیم یونانی اور رومی تہذیب سے اپنا رشتہ ازسرِنو استوار کرنے کا آغاز کیا۔ آسمانی مذاہب اور کتابوں سے گریز اور بغاوت کی لہر بھی چل رہی تھی۔ چنانچہ ۱۸۷۵ء میں جرمن حکومت کی دل چسپی کے باعث اولیمپیا میں کھدائی کر کے آثارِقدیمہ کا سراغ لگایا گیا۔ عبادت گاہوں اور اسٹیڈیم کے آثار کی نشان دہی ہوئی۔ پرانی کہانیاں دہرائی جانے لگیں، حتیٰ کہ ۱۸۹۴ء میں اولمپک کھیلوں کا احیا کردیا گیا۔ حتی الامکان کوشش کی گئی کہ یہ کھیل قدیم روایات کے مطابق جاری رہیں۔ روایتی طور پر یہ کھیل غیرپیشہ ور کھلاڑیوں کے لیے تھے اور ان میں صرف مرد ہی شریک ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں خواتین کے مقابلوں کی اجازت دے دی گئی۔ حتیٰ کہ ۲۰۱۰ء میں اولمپک کی انتظامیہ نے ہر ملک کے اولمپک دستے میں خواتین کی شرکت لازم ٹھیرا دی اور کہا گیا کہ جو ملک اپنے دستے میں خواتین کو نہیں بھیجے گا اسے شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ سعودی عرب جیسے ممالک (جو اس سے پہلے خواتین کو بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کے لیے بھیجنے کی روایت نہیں رکھتے تھے) نے بھی اس کے بعد منعقد ہونے والے کھیلوں میں اپنے دستے میں خواتین کو شامل کرلیا۔ غیرپیشہ ور کھلاڑیوں کے ساتھ اب پیشہ ور کھلاڑیوں کو بھی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جاچکی ہے۔

ہر چار سال بعد منعقد ہونے والے ان کھیلوں میں دنیا کے ۲۰۰ کے قریب ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ اندازاً ۱۳ ہزار ایتھلیٹ ۳۳کھیلوں کے مقابلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں کے دوران ۴۰۰ کے قریب تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اولمپک کھیلوں کے اپنے مخصوص نشانات، علامات، رواج اور روایات ہیں۔

اس کا جھنڈا، مشعل، افتتاحی اور اختتامی تقریبات، حتی الامکان قدیم یونانی روایات کے مطابق ترتیب دیے جاتے ہیں۔ مخصوص اولمپک مشعل اولیمپیا میں ہیرا کے مندر کے سامنے شیشہ کے محدب عدسہ کے ذریعے سورج کی شعاعوں کو مرتکز کر کے روشن کی جاتی ہے۔ یہ خدمت مندر کی خاتون پجارن انجام دیتی ہے۔ اس مندر میں زیس دیوتا کا بت بھی موجود ہے۔ اولیمپیا میں روشن کی جانے والی مشعل پھر میزبان ملک میں پہنچائی جاتی ہے جہاں کھیلیں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ’مشعل کا سفر‘ ایک اہم سرگرمی ہے جسے دنیا بھرکا میڈیا نمایاں کر کے دکھاتا ہے۔ جس ملک کو ان کھیلوں کی میزبانی کا موقع ملتا ہے وہ اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔

یہ اعزاز اپنے جلو میں زبردست معاشی فوائد بھی لاتا ہے۔ روایتی طور پر افتتاحی تقریب میں یونانی کھلاڑیوں کا دستہ اپنے جھنڈے کے ساتھ اسٹیڈیم میں سب سے پہلے داخل ہوتا ہے۔ اختتامی تقریب میں صرف تین ممالک کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور انھی کے قومی ترانے بجائے جاتے ہیں۔ ان میں لازمی طور پر یونان شامل ہوتا ہے۔ دوسرے دو ممالک میں موجودہ میزبان ملک اور آیندہ کے لیے نامزد ملک شامل ہیں۔

انصاف کی دیوی (Goodess of Justice)

’انصاف کی دیوی‘ علامتی طور پر انصاف کے نظام میں اخلاقی قوت کی بالادستی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ انصاف کے تصور کی مجسم اور تمثیلی صورت ہے۔ مصری، یونانی اور رومی اَدوار کی کئی دیویوں کے مختلف اوصاف کو موجودہ انصاف کی دیوی جسٹیشیا (Justicia) میں تمثیلی انداز میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کا سلسلہ قدیم مصری تہذیب کی دیویوں مات اور آئسس (Maat & Isis) سے جاملتا ہے۔ یونان میں انصاف کا فریضہ ڈائک اور تھیمس (Dike & Themis) سے منسوب رہا۔  قدیم روم میں اس کو لسٹیشیا (Lustitia)کا نام دیا گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ترازو اور بائیں میں دودھاری ننگی تلوار ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ اس کے سر پر لہریے دار رِبن بندھا ہے، بالوں میں شترمرغ کا پَر ہے۔ وہ ننگے پائوں ہے، سینہ کا بالائی حصہ بھی نیم برہنہ ہے۔

ترازو کی علامت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہر معاملے کے حق اور خلاف پہلوئوں کا وزن دیکھتی ہے۔ کیس کی مضبوطی اور کمزوری کا جائزہ لیتی ہے اور پھر بے لاگ فیصلہ کرتی ہے۔

دو دھاری ننگی تلوار دلیل اور انصاف کی قوت کا اظہارہے،وہ اپنے فیصلوں کے نفاذ کی قوت رکھتی ہے۔ آنکھوں پر پٹی یا اندھا پن انصاف کے تقاضے مکمل غیر جانب داری کے ساتھ پورے کرنے کا عزم ہے۔ کسی قسم کا خوف، لالچ یا عصبیت فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ کسی کی شناخت، اور معاشرتی مرتبہ و مقام کا لحاظ کیے بغیر طاقت ور اور کمزور انصاف کا یکساں حق رکھتے ہیں۔

سر پر لہریے دار رِبن اس امر کا اظہار ہے کہ حقائق اور درپیش مسائل کے مطابق فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ جسم کے کچھ حصوں کا بے لباس ہونا نیکی، پاکیزگی اور بے عیب (purity) ہونے کی علامت ہے ۔ اور یہ کہ انصاف چھپایا نہیں جاتا ظاہر ہوکر رہتا ہے۔

دنیا کے بیش تر قانون ساز ادارے، عدالتیں، قانون کے تعلیمی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی دیوی کے مقاصد، تصورات اور عزائم پر کاربند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ’انصاف کی دیوی‘کے مجسمے آویزاں کر رکھے ہیں، جن میں کہیں وہ کھڑی ہے اور کہیں بیٹھی ہے۔ پاکستان میں بھی قانون کے کچھ تعلیمی اداروں میں اس کا مجسمہ ایستادہ ہے۔

کرسمس

دنیا بھر میں کرسمس کا تہوار ۲۵دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑ کے یومِ پیدایش کے طور پر منایا جاتا ہے، جب کہ عیسائی محققین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ کے یومِ پیدایش بلکہ سالِ پیدایش کا بھی یقینی علم حاصل نہیں ہے بلکہ معلوم حقائق کے مطابق وہ ایسا موسم تھا جس میں چرواہے اپنی بھیڑوں کو لے کر کھلے میدانوں میں موجود تھے اور ایسا حضرت عیسٰی ؑکی پیدایش (فلسطین) کے علاقے میں دسمبر میں نہیں ہوتا۔ چرواہے گرمی کے موسم میں اپنے جانوروں کے ہمراہ کھلے میدانوں میں راتیں گزارتے ہیں۔

چوتھی صدی عیسوی میں روم (اٹلی) میں ۲۵ دسمبر کو مسیحی مذہبی تہوار منانے کے لیے مقرر کیا گیا۔اہلِ روم کے ہاں یہ دن سورج دیوتا کا یومِ پیدایش خیال کیا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ تمام دیوتا ۲۵ دسمبر کو زمین پر اُترتے ہیں اور ۶جنوری تک انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے ہرطرح کے معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔

رومی جشن زحل (Saturnalia) ۲۵دسمبر کو مناتے تھے۔ یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا جس میں خوب رنگ رلیاں منائی جائیں۔ جب عیسائی یہاں پہنچے تو ان کے زعما نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اس دن کو حضرت عیسٰی ؑ کی پیدایش سے منسوب کردیا۔ اسے کرسمس کے تہوار کا نام دیا گیا، کرسمس کی دوسری تقریبات مثلاً سنٹاکلاز، موم بتیاں جلانا اور کرسمس کا درخت (christmas tree) بعدازاں مختلف اَدوار میں شامل کیے جاتے رہے۔ کرسمس کے درخت کا آغاز انیسویں صدی میں یورپ کے ایک شاہی خاندان میں ہوا۔ اس کی نسبت اس درخت سے کی گئی جس کے نیچے حضرت مریمؑ تشریف فرما ہوئیں۔ اگرچہ تکون شکل کا درخت اس علاقے میں نہیں پایا جاتا مگر عقیدۂ تثلیث  کے اظہار کے لیے اسے یہ شکل دی گئی۔

ھندی علامات

بت پرستانہ علامات یونان و روم ہی نہیں ہندستان میں بھی معروف ہیں۔ مثلاً ہاتھی کو  لکشمی دیوی کی علامت اور تجارتی منافع، خوش حالی اور خوش بختی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تجارتی مراکز پر ہاتھی کے مجسمے ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ گائے تو ’ماتا‘ ہے۔ ترشول تین نوکوں والا نیزہ یا بھالا مہادیو شوکا سے منسوب ہے، اسے قوت کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہندو جنگجو اسے خاص طور پر ہمراہ رکھتے ہیں۔ماتھے پر تلک لگانا روحانی تعلق کی خاص علامت ہے۔ مختلف خدائوں سے تعلق کا اظہار مختلف شکلوں کے’ تلک‘ سے ہوتا ہے۔

ماتھے پر بندیا شادی شدہ خواتین کی علامت ہے۔ کنول کا پھول، چکر، غرض مختلف علامات مختلف دیویوں، دیوتائوں سے منسوب اور اپنے اپنے مفہوم رکھتی ہیں۔ مختلف تہوار دیومالائی قصے کہانیوں سے وابستہ ہیں۔

علامات - اسلام کی رھنمائی

مختلف علامتوں کے بارے میں اسلام کا موقف بڑا واضح ہے۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات، علامات کو اللہ کے لیے خالص کرلیں۔ اسلام اس کائنات پر صرف ایک اللہ کی حکمرانی تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تمام صفات اسی کے لیے ہیں۔ تمام فیصلے اسی کی طرف سے ہیں۔ تخلیق، رزق کی تقسیم، صحت، عافیت، رہنمائی، زندگی، موت، سب کا وہ تنہا مالک اور مختار ہے۔ کسی معاملے میں اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ (الزمر ۳۹:۳) خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔

تعلق، محبت، اطاعت صرف اللہ واحد کے لیے!!

قرآنِ مجید میں علامات کے لیے دو اصطلاحات آئی ہیں: ’شعائر‘ اور’ نصب‘۔

’شعائر‘ کے معنی ہیں: ایسا نشان یا علامت جو کسی فوج، گروہ یا قوم کی پہچان ظاہر کرے۔ یا وہ خاص لفظ جو فوج میں مقرر ہوتا ہے (code)۔ اور جس سے اپنے لوگوں کو پہچانا جاتا ہے۔(المنجد، مفردات راغب)

شعائر کسی حقیقت کے نشان (symbol) اور مظہر ہوتے ہیں اور ان کا مقصود ان حقائق کی تذکیر و تذکر ہوتا ہے جو ان کے اندر مضمر ہیں۔

’نصب‘ کے معنی ہیں کھڑی کی ہوئی علامت۔ عمارت کی صورت میں ہو، پتھر تراشیدہ، ناتراشیدہ، جسے کسی واقعہ، بت، دیوی یا دیوتا کے لیے بطورِ یادگار رکھا جائے یا اس سے منسوب کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اس ذبیحہ کو حرام قرار دیا جو کسی ’علامت‘ پر ذبح کیا جائے جو غیراللہ سے منسوب ہو۔ … حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْقف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ (المائدہ ۵:۳) ’’تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے  گر کر، یا ٹکرکھاکر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو__ سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا __اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو‘‘۔

سوچنے کی بات ہے وہ ’علامت‘ جو اپنے قریب پہنچنے والے ذبیحہ کو حرام کر دے کیا یہ جائز ہوگا کہ اسے سینے سے لگا کر رکھا جائے، اپنی عمارتوں پر آویزاں کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ ایسی تمام علامات کو شیطانی علامات قرار دے رہے ہیں:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے، اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو،اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔(المائدہ ۳:۹۰)

گویا ’آستانوں‘ یا بت پرستانہ علامات کے ساتھ تعلق اتنا ہی ناپسندیدہ اور غلط ہے جتنا شراب اور جوے کے ساتھ تعلق۔ اس لیے کہ یہ علامات شیطانی علامات ہیں۔

اس بات کو مزید وضاحت سے سورئہ حج میں فرمایا:

پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو، یک سُو ہوکر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہَوا اس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینکے دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔(الحج ۲۲:۳۰-۳۱)

’بتوں‘ کو ’رجس‘ کہا گیاہے۔ ایسی غلاظت جس سے انسانی فطرت گھِن کھاتی ہے، نفرت محسوس کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بتوں سے منسوب تمام کہانیوں، عقیدتوں کو خود اللہ جل جلالہ پر افترا قرار دیتے ہیں۔ جھوٹی شہادت اور جھوٹی بات میں اگرچہ ہر طرح کا جھوٹ اور بہتان شامل ہیں مگر یہاں خاص طور سے اشارہ ان باطل عقائد ، احکام، رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفروشرک کی بنیاد ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے حقیقی یا خیالی بندوں کو حصہ دار بنانا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔

یہ قبیح فعل اس قدر سنگین ہے کہ انسان کو اللہ جل شانہ کی خلافت کے بلند مقام سے پستیوں میں لاپھینکتا ہے۔ اس کے مرتبے اور مقام کو اتنا ہلکا کردیتا ہے کہ ہوائیں اسے اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ شرک کا ارتکاب کر کے انسان خود کو سرفرازی اور امن و حفاظت سے محروم کرلیتا ہے جو اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ سے اس کو مل سکتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے ہر فتنے کا ہدف اور اس کے بچھائے ہوئے جال کا شکار بن کر رہتا ہے حتیٰ کہ بے شمار مفاسد، فواحش اور مہلک خرابیوں کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ فکرواخلاق کی پستی، خواہشاتِ نفس کی غلامی اور جذبا ت و تخیلات کی حکمرانی اسے    دنیا و آخرت کے خسارے سے دوچار کردیتے ہیں۔

یونان و ہند کے دانش ور، زندگی، موت، رزق کی تقسیم، عافیت، خیروبرکت، صحت وغیرہ، ہرمیز ایسکلیہ پئیس، ہائی جیہ، اور دیگر مختلف دیویوں اور دیوتائوں سے منسوب کررہے تھے اور حضرت ابراہیم ؑ نے واضح اعلان کردیا تھا:

جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھے زندگی بخشے گا۔(الشعراء ۲۶:۷۸-۸۱)

قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر واضح الفاظ میں گمراہ اقوام کے عقائد، نظریات، تہوار، رسوم و رواج، شعائر و علامات کو قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور معاملاتِ زندگی میں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 مشرکوں کی مخالفت کرو۔(بخاری ۵۸۹۲، مسلم ۲۵۹)

مجوسیوں کی مخالفت کرو۔(مسلم ۲۶۰)

 یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو۔(سنن ابوداؤد ۶۵۲)

یہ مخالفت ہر طرح کے مظاہر میں ہے۔ لباس، اطوار، تہوار وغیرہ تشبّہ بالکفار کا مسئلہ اہم ہے۔ اس حد تک اہم کہ روزہ جیسی عبادات میں بھی تشبّہ سے بچنے کا اہتمام کیا گیا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشور میں روزہ رکھنے کو اپنا معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس روز کی تو یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ اگلے سال ہم نومحرم کا روزہ رکھیں گے۔ لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔(رواہ مسلم، معارف الحدیث، کتاب الصوم،ص ۱۲۸)

نویں محرم کا روزہ رکھنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ آیندہ سے ہم بجاے دسویں کے نویں محرم کو روزہ رکھیں گے اور دوسرا یہ کہ ہم دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھیں گے تاکہ ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرزِعمل میں فرق ہوجائے۔ اکثر علما نے اس دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ نویں دسویں اور نویں کا ممکن نہ ہو تو دس گیارہ کاروزہ رکھ لیں۔

نماز کی ادایگی کے اوقات میں بھی یہ خیال رکھا گیا کہ جن اوقات میں آفتاب پرست اقوام عبادت کرتی ہیں۔ طلوع و غروب اور نصف النہار کے اوقات میں نفل نماز پڑھنے سے بھی منع کیا گیا۔

واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ:

 مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (سنن ابوداؤد، ۴۰۳۱) جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔

غیراقوام کی مشابہت سے بچنے کا کس قدر اہتمام کیا گیا، اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے: ’’ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اُونٹ قربان کرے گا‘‘۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجاجاتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا وہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ تب آپؐ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو، البتہ ایسی نذرکا پورا کرنا درست نہیں، جو مصیبت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو۔(سنن ابوداؤد، ۳۳۱۳)

چنانچہ فقہاے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ مسلمان کا مشرکانہ شعار و علامات، مراسم اور مقامات سے دُور رہنا شریعت اسلامی کا واضح تقاضا ہے۔

مذکورہ بالا مشرکانہ شعائر و علامات کا مسلم معاشرے میں رواج پانا لمحۂ فکریہ ہے۔ کیا یہ   اللہ کے رسولؐ کی اس پیش گوئی کے مطابق نہیں جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’تم لوگ پہلی اُمتوں کے طریقوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بِل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوگے‘‘۔ (بخاری، ۳۴۵۶)

’ہرمیز‘ یا ایسکلیہ پیئس کا عصا یا ’انصاف کی دیوی‘ اگر ہمارے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کی علامت بن جائیں، نائیکی (Nike) کا لوگو ہمارے بچوں کی پسند بن جائے، سرکاری سطح پر کرسمس کا تہوار منایا جانے لگے، ’ہواس‘ کی آنکھ ہمارے طبی نسخوں کی زینت ہو، کیا یہ ’گوہ کے بل‘ ہی نہیں؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں اپنی اُمت کے بارے میں گمراہ کن حکمرانوں (ائمہ) سے ڈرتا ہوں___ اور قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک میری اُمت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جاملے اور یہ کہ میری اُمت کے بہت سے لوگ بت پرستی   نہ کرلیں۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب: ہونے والے فتنوں کا ذکر، حدیث ۳۹۵۲)

علامات بت پرستی اپنا کر ہم کہیں اس گروہ میں تو شامل نہیں ہورہے؟؟

اللہ رب العزت کی یہ تنبیہہ بھی پیش نظر رہے: ’’اگر تم  نے اس علم کے باوجود جو تمھارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمھارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے‘‘۔(الرعد ۱۳:۳۷)

ہمارے لیے اللہ کے شعار واضح ہیں۔ وہی ہمارے لیے مقدس اور محترم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ o (الحج ۲۲:۳۲) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔

محبت، تعظیم، اپنائیت صرف اللہ کے شعار اللہ واحد کی علامات کے لیے! حتیٰ کہ شعائراللہ ہماری پہچان بن جائیں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo (التوبۃ ۹:۱۱۹)  اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔

ایمان کیا ہے؟

مان لینا، یقین کرنا، حقیقت کا ادراک کرلینا، ایمان ہے۔ قرآن ’اہلِ ایمان‘ کن لوگوں کو کہتا ہے؟ ’اہلِ ایمان‘ وہ ہیں جو اللہ کی ذات و صفات کا اس درجہ اِدراک حاصل کرلیں کہ پھر کوئی اور ان کی نظروں میں جچے ہی نہیں، وہ شدت سے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’اور ایمان رکھنے والے لوگ تو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ خطاب ان لوگوں سے ہے جن کا محبوب اللہ ہے۔ ’محبوب‘ کا حکم ہے کہ اس سے محبت کرنے والے لوگ، اللہ (محبوب) ہی کا تقویٰ اختیار کریں۔

تقوٰی کیا ہے؟

تقویٰ کا مادہ تقٰی یا وِقٰی ہے۔ اس کے معنی ہیں بچنا، خود کو کسی خطرے سے بچانا۔ قرآن متقی   اس کو کہتا ہے جو اللہ سے شدید محبت کی وجہ سے خود کو اس کی ناراضی سے بچاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب ایمان اور عملِ صالح (محبوب کو راضی کرنے والے کام) جمع ہوتے ہیں، تو تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہمیشہ محتاط رہتا ہے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہونے پائے جو محبوب کی نظرِ التفا ت سے محرومی کا سبب بن جائے۔

’تقویٰ‘ کے اس مقام کی حفاظت کے لیے محبوب کی جانب سے دوسری اہم ہدایت ہے کہ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ’’اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو‘‘۔ یہاں امر کا صیغہ ہے۔ َکُوْنُوْا  ’’ہوجائو، ہمیشہ رہو‘‘۔ مَعَ  ’’ہمراہ، ساتھ، معیت میں‘‘۔

اس ہدایت میں ایک تنبیہہ ہے: ’’اکیلے نہ رہنا، اکیلے رہنا خطرے سے خالی نہیں‘‘۔ ہرذی روح اسی کی ہمراہی پسند کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اس سے مماثلت رکھتا ہے، جن کی محبت، نفرت، منزلِ مقصود یکساں ہو۔ لہٰذا تم الصّٰدِقِیْنَ کی ہمراہی اختیار کرنا۔تمھارا باطن بھی ان کے ہمراہ ہوجائے اور ظاہر بھی ان کی مانند ہو۔ تمھاری نیت، ارادہ، تمھاری شکل و صورت ، اعمال و افعال سب صادقین کی طرح ہوں۔یہاں تاکید کے لیے ’ال‘ لگایا گیا ہے، یعنی خاص طور پر، انتہائی، بہت زیادہ صادق۔

صدق کیا ہے؟

بہت سچا، جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، بلکہ سچ کا اس قدر خُوگر کہ اس سے جھوٹ بن ہی نہ پاتا ہو۔ قول و اعتقاد میں سچا! اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کردکھائے۔ اس کا ہر کام ظاہروباطن کے اعتبار سے فضیلت کے ساتھ متصف ہو۔یہ تمام انبیا علیہم السلام کی صفت ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں فرمایا: اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ (المائدہ ۵:۷۵) ، یعنی وہ ایک راست باز عورت تھی۔ یہ جنت کی سردار خاتون کی صفت ہے۔

صدیقین: فضیلت میں انبیاے علیہم السلام سے کچھ کم درجے کے ہوتے ہیں۔ ان کے جانشین ہیں، ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ غوروفکر کرنے والے، سنجیدہ اور سلیم الفطرت لوگ ہیں۔ شھید: فعال، بھاگ دوڑ کرنے والے، خوش گفتار، عملی جدوجہد میں پیش پیش، بے خطر معرکوں میں کود جانے والے۔ یہ دونوں قسم کی صفات توازن کے ساتھ صرف انبیاے علیہم السلام میں جمع ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے کامل مثال ایک ہی ہے اور وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ نیتوں کا اخلاص اور عمل کی پاکیزگی،صدیق اور شہید دونوں کو ’مقربین‘ میں شامل کروا لیتے ہیں۔

صدیقین کے ایمان کی کیفیت

صدیقین انبیا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، والہانہ پیش قدمی کرتے ہیں، ذرا بھی توقف نہیں کرتے۔ انھیں اس بارے میں ذرا شک و شبہہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کوئی اعتراض کرتے ہیں ، نہ جرح ۔ دعوتِ حق کو قبول کرنے میں کسی تذبذب، تامّل یا تردّد میں مبتلا نہیں ہوتے۔ حق کی دعوت انھیں اپنی فطرت کی پکار معلوم ہوتی ہے۔ ان کے ایمان میں ایک والہانہ پن ہوتا ہے۔ فلسفۂ دین اور حکمت ِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک اہم بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’میں نے جس کے سامنے بھی دعوت پیش کی، اس نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا سواے ابوبکرؓ کے، انھوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر میری تصدیق کردی‘‘۔

ایمان کا ایسا ہی مظاہرہ واقعۂ معراج کے بعد ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے واقعۂ معراج سنتے ہی تصدیق کی، جس پر بارگاہِ رسالت سے انھیں’صدیق‘ کا خطاب ملا۔ پوری اُمت کا اجماع ہے کہ وہ صدیقِ اکبر ہیں۔ یہ جذبۂ صدق و وفا اس درجے کا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ایسی بات کا ذکر فرماتے جس پر لوگ تعجب کا اظہار کرتے تو آپؐ فرماتے: ’’(تم تعجب کرتے ہو تو کرو) مَیں اس پر ایمان لایا۔ اور ابوبکر اور عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہما) بھی ایمان لائے‘‘۔(بخاری)

زندگی کے ہرلمحے میں صدیق کی فطرتِ صالحہ کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ وہ اپنے جان و مال سے حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہرمشکل اور کٹھن مرحلہ ان کے ایمان و عمل کو فزوںتر کرتا ہے۔ وہ تسلیم و رضا کے پیکر ہوتے ہیں۔ اپنے رب کے ہرفیصلے پر راضی، حتیٰ کہ ان کا رب ان کے بارے میں گواہی دیتا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ صلے ز  وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳ )  ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ (کسی قسم کے حالات میں) انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

صدیقین کے برعکس رویہ منافقین کا ہے۔ منافقین کم ہمت، بزدل اور مفاد پرست ہوتے ہیں، خودغرض اور خواہشات کے اسیر۔ ہرمعاملے کو خواہش اور مفاد پر تولتے ہیں، جہاں سے مفاد حاصل ہوتا نظر آئے، اس کے ہمراہ چل پڑتے ہیں، ورنہ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

بخاری میں سورئہ توبہ کی آیت ۱۱۹ کی تشریح میں، حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدق (سچائی) آدمی کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی بہشت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور آدمی سچ بولتا ہے، حتیٰ کہ صدیق کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ اور کذب (جھوٹ) فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور (نافرمانی) آگ کی طرف۔ اور آدمی جھوٹ بولتا چلاجاتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری)

صدیق کی زندگی کا سفر

صدیق کی زندگی میں، حرا سے بدر تک کے مراحل ہیں۔ اس میں ہجرت ہے، اُحد اور خندق کے معرکے ہیں، جان ومال کی قربانی ہے۔ قدم قدم پر قیامت ہے اور پھر فتح و کامرانی ہے۔ زندگی کا یہ سفر اکیلے طے کرنا بڑا مشکل ہے۔ کٹھن کام، ہم مزاج ساتھیوں کے ہمراہ آسان اور  خوش گوار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ: صدیق و صادق بننا چاہتے ہو تو پھر صادقین کی ہمراہی اختیار کرو۔ سورئہ کہف میں اس امر کی یاددہانی ان الفاظ میں کروائی گئی:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج (الکہف ۱۸:۲۸) اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو، جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر، صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔

انبیاے علیہم السلام کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان (اللہ سے شدید محبت کرنے والے لوگوں) کے ہمراہ رہیں۔انبیاے علیہم السلام کو کہا گیا کہ وہ اعلان کردیں: وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۱۰۴) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں‘‘۔ اور یہ کہ:  وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (النمل ۲۷:۹۱) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں‘‘۔

حضرت یوسف علیہ السلام حکومت میں ایک مؤثر اور اعلیٰ مقام ملنے کے بعد بھی، ایک ہی دعا مانگتے ہیں: تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo(یوسف ۱۲:۱۰۱) ’’میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔ حضرت سلیمان علیہ السلام تمام تر شاہانہ عظمت و جبروت کے اپنے رب کی نعمتوں پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے دعاگو ہیں: وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَo (النمل ۲۷:۱۹) ’’اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام فلاح و کام یابی کی خوش خبری کے باوجود ملتجی ہیں:رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ  o (الشعراء ۲۶:۸۳) ’’اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالحوں کے ساتھ ملا‘‘۔

دانش مندی یہ ہے کہ سچے اور صالح افراد کی ہمراہی نصیب ہوجائے۔ نجات اسی کے لیے ہے جواہلِ حق کے ساتھ رہا۔ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا (الاعراف ۷:۷۲) ’’آخرکار ہم نے اپنی مہربانی سے اسے (ہود ؑ) اور اس کے ساتھیوں کو نجات (عذاب سے) دے دی‘‘۔ یہی معاملہ اس سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ہوا: فَنَجَّیْنٰہُ وَ مَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰٓئِفَ (یونس ۱۰:۷۳) ’’پس ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انھی کو زمین میں جانشین بنایا‘‘۔ حق اور اہلِ حق کا ساتھ نہ دینے والا غرق ہوکر رہتا ہے، اگرچہ وہ اہلِ حق کے سرکردہ افراد میں سے کسی کا قریب ترین عزیز ہی ہو۔ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ  صلیز   کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَo (الاعراف ۷:۸۳) ’’آخرکار  ہم نے اسے (لوطؑ) اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا سواے اس کی بیوی کے، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی‘‘۔

معاشرے کے کمزور اور کم حیثیت افراد بھی حق کا ساتھ دینے کے سبب معزز ہوجاتے ہیں۔ قوم کے اکابرین انھیں اراذل خیال کرتے ہیں۔ لیکن اکابرین کی حمایت حاصل ہونے کی اُمید پر بھی انبیاے علیہم السلام حق کا ساتھ دینے والے کمزور افراد کو خود سے دُور نہیں کرتے اور صاف صاف کہتے ہیں: ’’اور میں ان لوگوں کو دھتکارنے والا نہیں جو ایمان لے آئے‘‘ (ھود ۱۱:۲۹)، بلکہ وہ اپنے اللہ کے خوف سے لرزتے ہوئے کہتے ہیں: وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ طَرَدْتُّھُمْ (ھود ۱۱:۳۰) ’’اور اے قوم! اگر میں دھتکار دوں تو مجھے اللہ (کے عذاب) سے کون بچائے گا‘‘۔ وَّ لَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْتِیَھُمُ اللّٰہُ خَیْرًاط اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ  صلیج    اِنِّیْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَo (ھود ۱۱:۳۱) ’’اور یہ بھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمھاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انھیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر مَیں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا‘‘۔

ہمراہی کے انتخاب میں غلطی کا خمیازہ

آج اہلِ حق (صادقین) کا ساتھ دینا اس لیے ضروری ہے کہ یوم الحساب کو غلط ساتھی اور ہمراہی کی معیت کا ہولناک انجام دیکھ کر، بندہ حسرت اور ندامت سے کہہ اُٹھے گا:یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًاo (الفرقان ۲۵:۲۸) ’’ہاے میری کم بختی! کاش میں فلاں (شخص) کو دوست نہ بناتا‘‘،بلکہ ہر ظالم تاسّف سے اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گا اور کہے گا: یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًاo(الفرقان ۲۵:۲۷) ’’اے کاش! مَیں نے رسولؐ کا ساتھ دیا ہوتا‘‘۔

بہترین ساتھی

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo(النساء ۴:۶۹) جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا ؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

جس کو یہ معزز رفقا میسر آجائیں پھر وہ ہراس فرد سے بے زاری کا اعلان کردیتا ہے جس کا محبوب کوئی اور ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے تو علانیہ پوری قوم سے اظہارِ براء ت کردیا:’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا: ’’ہم تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا (تمھارے اس طرزِعمل کا انکار کیا) اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بَیر پڑگیا۔ جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۴)

اس لیے کہ اس کا محبوب محبت کے معاملے میں بڑا غیرت مند ہے وہ اپنے محب کو غیرصادقین سے دوستی کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ارشاد ہے:

اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائواگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں توانتظارکرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔(التوبۃ ۹:۲۳-۲۴)

اطاعت کا معیار

والدین اور اُولوالارحام کے ساتھ حُسنِ سلوک اور صلۂ رحمی اپنی جگہ، مگر اتباع صرف    اس راستے کا، جو اللہ کی طرف لے جاتا ہو، واضح ہدایت دے دی گئی:

اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔  اس کی ماں نے ضُعف پر ضُعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا، اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔لیکن اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اس وقت میں تمھیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔(لقمان ۳۱:۱۴-۱۵)

غیرصادق والدین کے لیے استغفار کی اجازت بھی نہیں:

نبیؐ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعاے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا۔ مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خداترس اور بُردبار آدمی تھا۔(التوبۃ ۹:۱۱۴)

یہاں تک کہ غیرصادق چچا ہے تو اعلان کردیا گیا کہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ o (اللھب۱۱۱:۱) ’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہوگیا‘‘۔

ایمان قبول نہ کرنے والا بیٹا بھی غیربن جاتا ہے۔ پیغمبرؐ خدا اگر غیرصادق بیٹے کے بارے میں یہ کہہ بیٹھیں: رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ (ھود ۱۱:۴۵)’’اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھروالوں میں سے ہے‘‘ تو واضح الفاظ میں کہہ دیا جاتا ہے: یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ج  اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ(ھود ۱۱:۴۶)’’اے نوحؑ، وہ تیرے گھروالوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے‘‘۔غیرصادقین تو ایک دوسرے کے ہی دوست ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط(الانفال ۸:۷۳) ’’جو لوگ منکرِحق ہیں وہ تو ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘‘۔

صادقین کی خصوصیات

صادق ہونے کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ درست اور سچی بات کہہ رہا ہے۔ درست اور سچی بات تو کبھی کبھی جھوٹا آدمی بھی دہرا دیتا ہے۔ انسانی معاشرے میں انھیں صادق نہیں خیال کیا جاتا اور اللہ بھی انھیں جھوٹا کہتا ہے۔صادق دو بنیادی خصوصیات رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کی بات حقیقت کے مطابق ہوتی ہے۔ دوسرے وہ اس کے قلب و ضمیر کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کی زبان اس کے دل کی ترجمان ہوتی ہے اور اس مطابقت کی گواہی اس کی عملی زندگی دیتی ہے۔

صادق اللہ سے سچی محبت رکھنے والا فرد ہے۔ وہ اپنی فداکاری، جانثاری اور قربانی سے یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ واقعتا اللہ کا وفادار ہے۔ ہرحال میں ثابت قدم رہنے والا،اپنے رب کے ہرحکم پر سرِاطاعت خم کردینے والا، اس کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کردینے والا۔ اس کے شب و روز، اس کی دل چسپیاں، اس کی تگ و دو، اس کے دعواے محبت کے گواہ ہوتے ہیں۔ ایک جانب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا دعویٰ اور دوسری جانب زندگی، ان کی نافرمانی بلکہ سرکشی میں گزارنا، یہ وہ طرزِعمل ہے جس پر حضرت موسٰیؑ کو اپنی قوم سے کہنا پڑا: ’’تم مجھے کیوں ستاتے ہو؟‘‘ (الصف۶۱:۵)۔ قول و فعل میں تضاد غیرصادق فرد کی نمایاں علامت ہے۔

صادقین اُولوا الالباب ہیں، ہوش مند اور باشعور لوگ۔ یہ ہوش مند لوگ کائنات کے ذرّے ذرّے میں اپنے محبوب رب کی قدرت اور عظمت کو پہچانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے دل اس کی خشیت سے لرزتے رہتے ہیں۔ یہ خشیت انھیں ہرلمحے اپنے محبوب سے جوڑے رکھتی ہے۔ وہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہرحال میں اپنے محبوب کو یاد کرتے ہیں۔ خوش حالی ، بدحالی، فقروفاقہ، خوف اور پریشانی___ کسی حال میں بھی اپنے رب کے ساتھ تعلق میں کمی نہیں ہونے دیتے۔

ان کے چہرے ان کے رب کے ساتھ تعلق کی گواہی دیتے ہیں۔ جونہی کسی جانب سے نداسنائی دے، جس میں انھیں ان کے رب کی طرف بلایا جارہا ہو، وہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔  وہ اپنے رب سے محبت رکھنے والے ہمراہیوں (صادقین) کے ساتھ مطمئن رہتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کی معیت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا اور حشر انھی کے ساتھ ہو۔

وہ اپنے محبوب کی خاطر ہرخواہش، آرام اور تعلق ترک کردیتے ہیں۔  اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ (نسائی) کوئی محبت اور تعلق ان کے پائوں کی زنجیر بن کر انھیں اللہ کے راستے سے روک نہیں سکتا۔ اس محبت اور تعلق کے باعث لوگ انھیں ان کے گھروں سے نکالنے کے درپے ہوتے ہیں۔ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلیِ وَقٰــتَلُوْا وَقُتِلُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) ’’وہ اپنے رب کی خاطر ستائے جاتے ہیں، لڑتے ہیں اور مارے جاتے ہیں‘‘۔

نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے معرکۂ قتال میں آنا، نیکی کی بلند ترین چوٹی قرار دی گئی ہے۔ یہ صادقین بڑی ثابت قدمی سے باطل اور اہلِ باطل کا مقابلہ کرتے ہیں، اور حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہتے ہیں۔ ان کی زندگی عدل اور احسان پر استوار ہوتی ہے۔ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں اپنوں کا ساتھ بھی نہیں دیتے۔ یہ اپنے پسندیدہ مال ہر اس جگہ خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا   ان کے محبوب رب کو پسند ہو، جب کہ اسراف و تبذیر سے بچتے ہیں۔

صادقین کے اہم کام

ان کے قول و فعل، ان کے محبوب کے کلام قرآن ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ ان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی اپنے رب کی رضا کے تابع ہوتی ہے۔ ان کی تجارتیں، عدالتیں، حکومتیں، رسوم و رواج، تعلقات، ان کی معاشرت، ان کے معاملات، سب قرآن پر مبنی ہوتے ہیں۔ اپنے اوقات، اپنی قوتوں اور مال کی نگرانی کرتے ہیں۔ لھو الحدیث کے خریدار نہیں بنتے۔ جدال اور بے مقصد بحث سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ زُور (جھوٹ، غلط کام) کے گواہ تک نہیں بنتے (قریب بھی نہیں جاتے)۔ وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ ہرحال میں صابروشاکر اور اپنے رب کے فیصلوں پر راضی رہنے والے لوگ ہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہرحال میں انجام دیتے ہیں اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں رکھتے۔ صلۂ رحمی کرنے والے، لوگوں کے نفع کے حریص، متواضع، نرم خُو، مہربان اور فیاض لوگ ہیں۔ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دینے والے۔ ان کی زبانوں پر یہ دعا جاری رہتی ہے:

رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) میرے رب! مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔

گویا ’صدق‘ وہ خصوصیت ہے جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قوت اور    مدد نصیب ہوتی ہے۔ حق غالب آجاتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔بڑی یکسوئی اور ثابت قدمی   کے ساتھ اپنے رب کی اطاعت کی روش پر کاربند رہنے کے باوجود یوم الحساب کی پیشی اور پکڑ سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اپنے اللہ سے اپنی مغفرت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِo(اٰل عمرٰن ۳:۱۷)

صادقین کی ہمراہی کے تقاضے

صادق کی تمام تر دوستی اور محبت صادقین کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان کی دعا ہی یہ ہے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ، اے اللہ! آپ سے آپ کی محبت کا سوال ہے اور ان کی محبت کا بھی جو آپ سے محبت رکھتے ہیں۔

اس محبت کو مضبوط تر کرنے کے لیے انھیں حکم دیا گیا کہ وہ ہرحال میں ان کے ساتھ خیرخواہی کریں۔ وہ تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ تعلقات درست رکھنے کی فکر کرتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ رکھتے ہیں، ان کی غلطیوں کو نظراندازکرتے ہیں لیکن کسی حال میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر  کے فریضے کو بھولتے نہیں___ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا طرزِعمل اُن کے تعلقات کو مضبوط تر کردیتا ہے۔

’اکرامِ مسلم‘ کا اظہار ان کی ہر ادا سے ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے سراسر سلامتی ہیں۔ سلامتیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ انھیں اپنے ہاتھ اور زبان سے ایذا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ ان کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے مال اور قوتوں سے اُن کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یُؤْتِیْ مَا لَـہٗ یَتَزَکّٰی، وہ جانتے ہیں ’تزکیہ‘ کی اعلیٰ منزل اسی رابطے سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنے معاملات میں ان کے مشورے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے اور حقوق کی ادایگی میں کوتاہی نہیں کرتے۔

وہ تحائف کے تبادلے کے ذریعے محبتوں کو مضبوط بناتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، دوسروں کو کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے ذریعے جنت کے میوے چنتے ہیں۔ جنازوں کے ہمراہ جاتے ہیں۔ہر دکھ میں وہ اپنے بھائیوں کے لیے سہارا  بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے وقار میں اضافے کے لیے کوشش، ان کے طرزِعمل کی علامت بن جاتا ہے۔ وہ ہرحال میں ایک دوسرے کے لیے دل جوئی اور دلداری کا سامان کرتے ہیں۔  نرم خُو، شیریں دہن، سراپا شفقت، اللہ اپنے محبوب کی خاطر باہم شیروشکر ۔ یہ اللہ کے دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی صفوں میں عدل و انصاف کے ساتھ اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور کفار کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ اخلاص اور خیرخواہی کا رویہ ہرلمحہ آشکار ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف عملاً ان کی بھلائی کے حریص ہوتے ہیں بلکہ اپنی دعائوں میں انھیں شریک رکھتے ہیں:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَـآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o(الحشر ۵۹:۱۰) اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بُغض نہ رکھ، اے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔

وہ جنھیں انھوں نے دیکھا تک نہیں وہ ان کی غائبانہ محبت میں بھی گرفتار ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ’ایمان‘ کے ساتھی ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں کے معاملے میں خودغرضی کی روش اختیار نہیں کرتے۔ انھیں دُکھ اور ایذا نہیں دیتے، ان سے حسد نہیں کرتے،ان پر لعن طعن نہیں کرتے، ان کا مذاق نہیں اُڑاتے، ان کی تذلیل و تحقیر نہیں کرتے۔

 خلوص اور محبت بھرے دلوں میں بدگمانی، کینہ، بُغض کا گزر تک نہیں ہوتا بلکہ ان کا طرزِعمل عدل، احسان اور صلۂ رحمی پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ بے حیائی ، ظلم اور زیادتی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ چونکہ ان کے ولأ (محبت، نصرت، قرب، مدد، دوستی) اور برأ (بُغض، بے زاری، دُوری) کا معیار ان کے محبوب اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق پر ہے، اس لیے وہ نہ صرف صادقین کے ساتھ ولایت و دوستی کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں سے صاف صاف لاتعلقی اور براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔

  • جوان کے محبوب اللہ کو اپنا محبوب نہ سمجھتے ہوں۔
  • جو ان کے محبوب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان و مال آبا و اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ رکھتے ہوں۔
  • جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے حکم اور قانون کے مقابلے میں کسی اور کی رہنمائی، حکم یا قانون کو بہتر خیال کریں۔
  • جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی کسی بات کو غیراہم یا غلط خیال کریں۔
  • جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے دین کی کسی بات کا مذاق اُڑائیں یا ان کا انداز تمسخرانہ ہو۔
  • جواللہ کے نازل کردہ دین سے محبت رکھنے والوں کے مقابلے میں مشرکین کی مدد کریں، یا کفارو منافقین کے لیے محبت و احترام کے جذبات رکھتے ہوں، ان سے مشورے کرتے ہوں۔
  • ان کے معاشروں کو استحسان کی نظر سے دیکھتا ہو، ان کی تعریف کرتا ہو۔
  • ان کے اعتقادات، افکار، شعائر، تہذیبی و ثقافتی روایات، عادات و اطوار، بودوباش، لباس، تقریبات، تہواروں میں شرکت کرتا ہو یا تشبہ اختیار کرتا ہو۔ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔
  • جوبلادِکفر کی چکاچوند سے متاثر ہوکران میں سکونت کو پسند کرتا ہو، اس کے لیے تگ و دو کرتا ہو۔ حالاںکہ ایسا کرنے کے لیے اسے کوئی مجبوری نہیں، نہ کوئی دینی مصلحت ہی وابستہ ہے۔
  • جو ایمان کے دعویٰ کے باوجود اللہ کے دین کے معاملے میں لاپروائی کا رویہ اختیار کرے۔ نہ دین سیکھتا ہے، نہ اس پر عمل کرتا ہے،

اس لیے کہ محبوب رب کا ارشاد ہے:

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْھَا (الکھف ۱۸:۵۷) اور  اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے۔

ایسے لوگ اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ اللہ والے اس وقت تک ان سے محبت کا تعلق نہیں  رکھ سکتے جب تک وہ اپنے رب کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ اس لیے کہ ان کے محبوب اللہ ہی کی دی ہوئی ہدایت ہے: وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo (الکھف ۱۸:۲۸) ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے، اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے، اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پرمبنی ہے‘‘۔

صادقین اور غیرصادقین کا موازنہ

صادق کون ہے؟ اور غیرصادق کون؟___ ان کا بڑا عمدہ موازنہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا:

ہلاک ہوجائیں عبدالدینار (دینار کا بندہ) اور عبدالدرہم (درہم کا بندہ) اور عبدالقطیفہ (ریشمی چادر کا بندہ) اور عبدالخمیصہ (لباس کی شان دکھانے والا)۔ اگر اسے عطا کیا جائے تو خوش ہوتا ہے،اور نہ دیا جائے تو ناخوش۔ ہلاک ہو اور سر نگوں ہو۔ اس کو کانٹا چبھے تو نہ نکلے۔

خوش خبری ہے اس بندے کے لیے جو اپنے گھوڑے کی لگام اللہ کی راہ میں پکڑے ہوئے ہے۔ اس کے سر کے بال پراگندہ اور پائوں غبارآلود ہوں۔ اگر وہ امام کی جانب سے پہرہ پر مقرر ہو تو پہرہ ہی دے، اور اگر فوج کے پیچھے حفاطت کے لیے مقرر     کیا جائے تو لشکر کے پیچھے لگا رہے۔ اگر اندر آنے کی اجازت طلب کرے تو اجازت نہ ملے۔ اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے۔(بخاری، کتاب الجہاد)

صادق تو وہ ہے جسے عہدہ و مرتبہ کی خواہش نہیں، شان و شوکت مطلوب نہیں۔ جو کسی اجر اور بدلے کی طمع نہیں رکھتا، اپنے رب کی رضا کے لیے دن رات اپنی صلاحیتیں اور اپنے اوقات لگائے چلا جاتا ہے۔ایسے ہی صادقین کے لیے ان کا رب انعامات کا اعلان کرتا ہے۔

صادقین کے لیے انعامات

دنیا میں پیش آنے والے امتحانات ان کے درجات بڑھانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ غزوئہ احزاب کے امتحان سے سرخ رو ہونے کے بعد ان کے محبوب اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآئَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ ط (الاحزاب ۳۳:۲۴) (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے، اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے۔

دنیا میں انعامات

  • نجات و رحمت: ظلم اور ظالموں سے نجات اس دنیا میں ملنے والا سب سے بڑا انعام ہے۔قرآن کی گواہی ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کو یہ انعام نصیب ہوا۔
  •  خلافت و جانشینی: نجات کے بعد انھیں زمین میں خلافت اور جانشینی عطا فرمائی جاتی ہے (یونس ۱۰:۷۲)۔ انھیں اس کے لیے ضروری اوصاف ’حکم‘اور ’علم‘ نصیب کیے   جاتے ہیں۔اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّ عِلْمًا ط وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo (القصص ۲۸:۱۴) ’’ہم نے اسے ’حُکم‘ اور ’عِلم‘ عطا کیا۔ ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں‘‘۔
  •  امامت:صادقین مختلف امتحانوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر ان کے حق میں امامت کا فیصلہ کردیا جاتا ہے: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَo(القصص ۲۸:۵) ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آنے والی نسلوں کا امام بنا دیا گیا:   ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا،  تو اس نے کہا: میں تمھیں سب لوگوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں‘‘۔(البقرہ ۲:۱۲۴)
  • لسان صِدق ، سچّی نام وَری: یہ ایسے امام، ایسے پیشوا اور ایسے حکمران ہوتے ہیں جنھیں سچی نام وَری نصیب ہوتی ہے۔ انھیں بہترین ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ بعد میں آنے والے ان کی تقلید پر، ان کے نقشِ قدم پر چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ’’اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی نام وَری عطا کی‘‘ (مریم۱۹:۵۰)۔ یہ وہ انعام ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم ؑدعاگو رہے۔رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ o وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَo (الشعراء ۲۶:۸۳-۸۴) ’’میرے رب! مجھے حکم عطا کر، مجھے صالحین کے ساتھ ملا، اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی  نام وَری عطا کر‘‘۔ بلاشبہہ ’امامت‘ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد یہ بہترین انعام ہیں۔

اُخروی انعام

یہ کامیاب و کامران صادقین اپنے رب کے ہاں حاضر ہوتے ہیں تو بہترین انعام اور اجر ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ اعلان ہوتا ہے: قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ (المائدہ ۵:۱۱۹) ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے‘‘۔ عظیم الشان کامیابی کا یہ مقام ہی سچی عزت کی جگہ ہے۔جیساکہ ارشاد ہے: اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ o فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُّقْتَدِرٍ o (القمر۵۴:۵۴-۵۵) ’’متقین یقینا باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب‘‘۔سچی بات تو یہ ہے کہ عظیم المرتبت، مقتدر بادشاہ کے قُرب سے بڑھ کر عزت کا مقام کون سا ہوگا؟ چنانچہ یہ صادقین حصولِ انعام پر مقتدر بادشاہ کے ہاں اپنی قدرومنزلت دیکھ کر بجاطور پر اس کی حمدوثنا کریں گے:

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَائُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَo(الزمر ۳۹:۷۴) وہ کہیں گے شکر ہے   اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا۔ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بناسکتے ہیں۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔

گھر زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ گھر مقامِ رہایش ہی نہیں ایک جاے پناہ بھی ہے جو موسم کی سختیوں اور دیگر خطرات سے حفاظت کرتا ہے۔ تمام جاندار بشمول حشرات الارض‘ جنگلی درندے‘ چرندپرند اپنے لیے گھرتعمیر کرتے ہیں جہاں وہ آزادی سے رہ سکیں اور آرام و سکون حاصل کرسکیں۔

ہر جانور اپنے خالق رب کریم کی عطا کردہ دانش اور رہنمائی کے مطابق اپنے لیے گھر تعمیر کرتا ہے جو اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہوتا ہے۔ ’بیا‘ کا گھونسلا‘ مکڑی کا جالا‘ شہد کی مکھیوں کا چھتہ‘ چیونٹیوں کے زیرزمین بِل‘ سب اپنی نوعیت کے لحاظ سے فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ مکڑی خود کو اپنے گھر میں محفوظ اور مطمئن خیال کرتی ہے اگرچہ اس کے گھر کی کمزوری کی گواہی اس کے مالک و خالق رب نے خود دی ہے: وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِم (العنکبوت۲۹:۴۱) ’’اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھرمکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے‘‘۔

رب کریم نے ہر جانور کی فطرت میں گھر بنانے کا داعیہ رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی درخت کی ٹہنیوں پر اپنا گھر تعمیر کرتا ہے‘ کوئی اس کی کھوہ میں۔ کوئی پہاڑوں کے غاروں میں بسیرا کرتا ہے تو کوئی ان کی بلندیوں پر۔ پالتو جانور اپنے گھر خود نہیں بناتے۔ انسان ان کے لیے جو قیام گاہیں بنا دیں وہیں قیام کرلیتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا گھر تمام گھروں سے نرالا ہے۔ یہ ایک گھر ہی نہیں ایک فوڈ فیکٹری ہے‘ سٹورہائوس ہے۔ ہزاروں مکھیوں کو رہایش اور جاے کار مہیا کرنے والی ایک کالونی ہے جس کا نظم و ضبط اپنی مثال آپ ہے۔ شہد کی مکھی نے کسی ماہرتعمیرات سے رہنمائی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عظیم المرتبت خالق کی براہِ راست نگرانی میں اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:

اور دیکھو‘ تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں‘ اور ٹٹّیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں‘ اپنے چھتّے بنا‘ اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس‘ اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ (النحل ۱۶:۶۸-۶۹)

تمام جانوروں کے گھروں کی بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:

                ۱-            وہ اپنے گھر راستوں سے ہٹ کر اس طرح بناتے ہیں کہ راستوں میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔

                ۲-            وہ ناجائز تجاوزات نہیں کرتے۔

                ۳-            وہ اپنی کم سے کم ضرورت پر بڑا گھر نہیں بناتے۔

                ۴-            وہ ایک دوسرے کی ملکیت کا احترام کرتے ہیں۔ کسی دوسرے کے گھر پر ناجائز قبضہ نہیں کرتے۔

                ۵-            گھر کی ملکیت یا قبضے پر بالعموم ان کے مابین جنگ نہیں ہوتی۔

                ۶-            وہ اپنا گھر خود بناتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کے معاملے میں کسی دوسرے کی مدد حاصل نہیں کرتے۔

                ۷-            وہ اپنے گھر صاف ستھرے رکھتے ہیں۔

ان خصوصیات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معیاری اور فطری خصوصیات ہیں۔

انسان اور گھر

جنت ارضی پر آمد کے ساتھ ہی انسان اپنے لیے موزوں رہایش کی تعمیر وتلاش میں مصروف ہوگیا۔ غاروں کو مسکن بنانے والا انسان جلد ہی تعمیراتی علوم و فنون میں مہارت بڑھاتا چلا گیا۔ اس عظیم خلاق کی ودیعت کردہ ذہانت اور اہلیت کی بنیاد پر نئی نئی اختراعات کا شوقین غاروں اور گھاس پھوس کے جھونپڑوں سے نکل کر عظیم الشان محلات‘ باغات‘ اہرام اور فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے لگا۔ ماحول‘ موسم‘ فیشن اور وقت کے تقاضوں کے مطابق رہایشی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ مکانوں کی تزئین و آرایش میں مسابقت شروع ہو گئی۔ گھر ایک بنیادی ضرورت ہی نہیں‘ معیارِ زندگی کی علامت قرار پایا۔ انسان کی ساری زندگی کی تگ و دو ایک آرام دہ‘ شان دار گھر کے لیے قرار پانے لگی۔ جہاں سے اسے تحفظ حاصل ہو‘ جو اس کی خلوتوں کا پردہ پوش‘ اس کے وقار اور ذوق کا آئینہ دار ہو!

گھر کی چار دیواری میں ایک شخص کی اپنی سلطنت ہے جہاں کا وہ خود حاکم ہے‘ اس کو اپنی من مانی کی آزادی ہے۔ گھر کے معاملے میں انسان کی ضرورت کی کوئی حد نہیں۔ کہیں تو ایک مختصر سا گھاس پھونس کا جھونپڑا اس کی تمام ضروریات کے لیے کافی نظرآتا ہے اور کہیں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض محلات بھی اس کی طمع کی تسکین سے قاصر ہوتے ہیں جن کی تزئین و آرایش اور انتظام و انصرام پر ہی لاکھوں ڈالر ماہانہ اٹھ جاتے ہیں اور پھر معیار برقرار رکھنے اور حفاظت و انتظام کے لیے مزید لاکھوں ڈالر درکار ہوتے ہیں۔

انسانی ضروریات کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک آراستہ و پیراستہ گھر ان کی تکمیل سے قاصر ہے۔ وہ گردونواح میں ایک پوری بستی کا محتاج ہے‘ دوسرے انسانوں کے تعاون کا متلاشی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ یوں ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مختلف گھروں کی تعمیرسے ایک ماحول وجود میں آتا ہے۔ ایک ماحول‘ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے راحت رساں ہوتے ہیں اور باعث آزار بھی! اچھی بستی اور معاشرہ وہ ہے جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مددگار ہوں۔ ایک دوسرے کو دکھ دینے والے نہ ہوں۔ اسلامی معاشرت کا بنیادی اصول یہی ہے:

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔

بستیوں کی اس بنیادی ضرورت کے پیشِ نظرایک مہذب معاشرے میں انسانوں کی بودوباش اور تعمیروتشکیل کے کچھ بنیادی اصول و ضوابط طے کر دیے جاتے ہیں تاکہ افراد ایک دوسرے کے لیے باعث راحت ہوں۔ گھروں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے مقتدرانتظامیہ کی جانب سے تعمیراتی ضوابط (building rules) مقرر ہوتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ان ضوابط کے اجرا اور عمل درآمد کی نگرانی پر مامور ہیں۔ قصبوں میں یونین کونسل یا ضلعی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔

کسی عمارت کی تعمیر میں دو بنیادی اصول پیشِ نظر رکھنا لازم ہے:

                ۱-            عمارت صحت و صفائی کے اصولوں کے مطابق تعمیرہو۔ اس میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام ہو۔

                ۲-            عمارت کی تعمیر پڑوس کے لیے باعث آزار نہ ہو۔

ان اصولوں کی بنیاد پر ہی شہروں اور بستیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ پورا قصبہ یا شہر ایک وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بستیاں اور شہر کسی قوم کی تہذیب و تمدن کے  آئینہ دار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’انسان شہر تعمیر کرتے ہیں اور شہر انسان بناتے ہیں‘‘۔

شہر بسانا ایک سائنس ہے اور آرٹ بھی۔ شہر کچھ متعین حقائق مدنظر رکھ کر ہی تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بستیوں کو حسن‘ ترتیب اور توازن عطا کرنا ایک بڑا آرٹ ہے۔ کسی شہر کی تعمیرکی منصوبہ بندی میں جمالیاتی ذوق کی تسکین ہی مقصود نہیں ہوتی بلکہ شہریوں کی مناسب جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ایک اہم ضرورت ہے۔

صحت مندبستیوں کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:

                                گھر کے لیے مناسب اور باوقار جگہ کی فراہمی۔

                                بستی میں گھروں کی ایک ترتیب اور منظم تعمیر۔

                                تجارتی علاقوں کی تخصیص۔

                                صفائی اور پاکیزگی کا مناسب اہتمام اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام۔

                                ناجائز تجاوزات اور تعمیرات کی روک تھام‘ خطرناک صنعتوں کے بارے میں ضوابط۔

                                رہایشی علاقوں میں آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں کے قیام کی حوصلہ شکنی۔

                                بستیوں میں حفاظت اور تفریح کا معقول انتظام۔

                                تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی۔

                                بستی کے مکینوں کی فلاح و بہبود کا انتظام۔

انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تین عوامل کا اہتمام لازم ہے:

۱- سہولتوں کی فراہمی   ۲- خدمات کی فراہمی   ۳- صحت مند ماحول

عالمی ادارہ صحت نے ایک صحت مند رہایشی بستی کے لیے درج ذیل سفارشات کی ہیں:

  • باوقار رہایش
  •   حفاظت کا انتظام
  • خوراک اور صاف پانی کی فراہمی
  •  استعمال شدہ پانی کے نکاس کا انتظام
  • متعدی امراض سے بچائو کا انتظام
  •  شور اور دیگر آلودگی سے بچائو کا انتظام
  • غیرمحفوظ تعمیرات اور نقصان دہ عوامل سے بچائو کا انتظام
  • انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرتی اور سماجی روابط کا انتظام اور ذہنی صحت کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی۔

اسلامی معاشرے کی خصوصیات

اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض میں ایک خوب صورت توازن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کے انفرادی تشخص اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایسے ضوابط اور حدود کا پابند بناتا ہے کہ اس کی یہ خودمختاری کسی دوسرے فرد کے لیے باعث رنج نہ ہو۔ وہ انسان کو اس بنیادی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لیے اپنے اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہے۔ جواب دہی کا یہ احساس معاشرتی زندگی میں انسانی عمل کو بے لگام نہیں ہونے دیتا۔ اسے ایک ذمہ دار شہری بناتا ہے جو صرف اپنے لیے نہیں جیتا بلکہ پورے معاشرے کے لیے خدمت گزار اور راحت رساں ہوتا ہے۔ اسلام ہر انسان کو معاشرتی قواعد و ضوابط کا پابند بناتا ہے۔ یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کی جائے جب تک کہ ان کی جانب سے اپنے رب کی معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء ۴:۵۹)  اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے اولی الامر ہیں۔

حکام بالا کی اطاعت سے گریز صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ان کے حکم پر عمل درآمد سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔

معاشرے کو خوب صورت بنانے کے لیے اسلام کے بنیادی احکام درج ذیل ہیں:

                                اپنے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے کے لیے باعث آزار نہ ہوں۔

                                جو کچھ اپنے لیے پسند کریں‘ وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کریں۔

                                ہمسایگی کا حق ادا کریں۔

                                حسن سلوک اور مہربانی اخلاق و کردار کی بنیاد ہیں۔

                                معاشرتی ضابطوں کی حفاظت ایک عہد ہے۔ جب تک وہ اللہ کے احکام سے نہ ٹکراتے ہوں ان کی ادایگی لازم ہے۔

ہر انسان کی یہ خواہش ہے کہ اسے پُرامن اور آرام دہ زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے امن و اطمینان فراہم کرنے والا اور راحت رساں ہو۔ یہ طرزِعمل بستیوں کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے   ع

بہشت آنجا کہ آزارے نباشد

اسلام کے ان بنیادی قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے گھروں اور بستیوں کی تعمیر کے لیے جو احکام دیے گئے ہیں‘ ان کا تفصیلی تذکرہ کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کی یاددہانی کرلی جائے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو ارادے کی جو قوت نصیب کی ہے اس کو بروے کار لاتے ہوئے جب وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ ہر لمحے اپنے ہاتھ اور زبان کی نگرانی کرنے والا انسان کسی ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی تو کجا معمولی تکلیف کا بھی احتمال ہو۔

بستیوں کی تعمیر میں جن امور کی جانب اسلام ہمیں متوجہ کرتا ہے وہ یہ ہیں:

۱-  راستے کے حقوق

کشادگی: راستوں کی کشادگی اسلامی فنِ تعمیرکی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس کا اصل مقصد راستہ چلنے والوں کی سہولت ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ بستیوں کے راستے ہر طرح کی رکاوٹ اور تکلیف دہ امور سے پاک ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ایک مرتبہ ایک معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ راستے کی کم سے کم چوڑائی سات ذرع (تقریباً ۱۰فٹ) رکھی جائے۔ (بخاری)

اس دور کی ٹریفک کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۰ فٹ چوڑا راستہ کافی کشادہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی بستی میں ٹریفک کے متوقع دبائو کے پیش نظر گلیوں اور سڑکوں کی چوڑائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے تاکہ ٹریفک کے بہائو میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔

رکاوٹوں کو دُور کرنا: اسلام اس بات کو قطعاًناقابلِ قبول خیال کرتا ہے کہ راستوں میںکسی طرح کی رکاوٹ پیدا کی جائے۔ اسے تو راستے میں بیٹھنا یا کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں ہے‘ اس لیے کہ اس سے راہ گیروں کے لیے رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

راستوں میں نہ بیٹھو اور اگر تمھیں ایسا کرنا ہی ہے تو اس کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت فرمایا: یارسولؐ اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ۱- اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو ‘۲- دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنو‘ ۳- سلام کا جواب دو‘ ۴-راہ گیر کی رہنمائی کرو‘ ۵- امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرو۔

راستوں کو تکلیف دہ امر سے محفوظ رکھنا اس قدر اہم خیال کیا گیا کہ راستے سے پتھر کے ایک چھوٹے ٹکڑے کو ہٹانا بھی صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا۔ انسانوں کو خوش کرنا اتنا پسندیدہ ٹھیرا کہ مسکرا کر دیکھنا بھی نیکی قرار پایا۔

فی الواقع کشادہ راستے ماحول کی خوب صورتی اور مکینوں کے آرام و سکون میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام راستوں کو تنگ کرنے یا رکاوٹ ڈالنے میں کسی عذر کو قبول نہیں کرتا۔ امام غزالیؒ احیاء العلوم میں راستے کے حقوق کی اس طرح وضاحت فرماتے ہیں:

                ۱-            گھروں کے باہر ایسے تھڑے تعمیر نہ کیے جائیں جو راستے کی رکاوٹ کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گیٹ کے راستے پر بھی ہوتا ہے۔

                ۲-            راستے میں اس طرح درخت نہ لگائے جائیں جو رکاوٹ اور تنگی کا سبب بن جائیں۔

                ۳-            گھر سے باہر نکلی ہوئی بالکونیاں ‘ چھجے اور برآمدے تعمیر نہ کیے جائیں۔

                ۴-            کھونٹے اور لکڑیاں گاڑ کر راستے میں تجاوزات کی کوشش نہ کی جائے۔

                ۵-            راستے میں جانوروں کو نہ باندھا جائے جو راہ گیروں کے لیے اذیت‘ رکاوٹ اور پریشانی کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گاڑیوں کی پارکنگ پر ہوتا ہے۔

                ۶-            راستے میں چھلکے اور کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے۔

                ۷-            راستے میں پانی نہ چھڑکا جائے جو کیچڑ اور پھسلن کا باعث ہو۔ گھروں کا استعمال شدہ پانی راستوں میں بہانے سے احتراز کیا جائے۔

                ۸-            کوئی ایسی تجاوزات نہ کی جائیں جو پانی کے بہائو میں رکاوٹ کا باعث بن جائیں۔

جو دین راستے میں ایک پتھر کے روڑے اور کھونٹے کو بھی گوارا نہ کرتا ہو وہ دوسری بڑی تجاوزات کو کس طرح گوارا کر سکتا ہے۔ اس بارے میں اسلام کی حساسیت اس قدر ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ایک شخص کا یہ عمل اسے جنت میں لے جانے کا باعث بن گیا کہ اس نے راستے میں درخت کی ایک شاخ دیکھی جو لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب بن رہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ یہ شاخ کاٹ ڈالے گا تاکہ یہ راہ گیروں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بنے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۶‘ ص ۱۸۰۷)

ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا:

راستے سے پتھر ‘ کانٹا یا ہڈی کا ہٹانا صدقہ ہے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۲۳‘ ص ۱۸۱۴)

ایک مرتبہ ایک ساتھی نے دریافت کیا:

اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو نفع دینے والا ہو؟آپؐ نے فرمایا: راستے کو اذیت دینے والی اشیا سے صاف کرو۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۸‘ ص ۱۸۰۹)

  • راستے کی خوب صورتی: صاف ستھرا راستہ اگرچہ بذاتِ خود خوب صورتی اور خوش نمائی میں اضافہ کرتا ہے‘ تاہم اسلام راستوں کو پُرلطف‘ خوش گوار اور خوب صورت بنانے کے لیے پودے اور درخت لگانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس پابندی کے ساتھ کہ وہ راہ میں رکاوٹ کا باعث نہ ہوں۔ آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا:

اگر کوئی مسلمان ایک درخت لگاتا ہے تو وہ اس کا اجر پائے گا‘ اس لیے کہ اس سے دوسرے انسان اور جانور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ (بخاری)

درخت جان داروں کے لیے غذا کی فراہمی میں معاون ہوسکتے ہیں۔ راہ چلنے والوں کے لیے سایہ فراہم کرتے ہیں۔ آلودہ فضا کو صاف کرتے ہیں‘ راستوں کو خوب صورت اور  خوش نما بناتے ہیں۔ چنانچہ معاشرے کو آرام دہ اور خوب صورت بنانے کا یہ عمل صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔

اسی ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمرؓنئے شہروں کی تعمیرمیں یہ ہدایت فرماتے کہ مختلف محلوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑی جائے جس میں درخت لگائے جائیں‘ حتیٰ کہ بستیوں کے چاروں طرف درخت ہوں۔

صفائی اور پاکیزگی

اسلام جسم اور روح کی پاکیزگی اور طہارت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیتا ہے۔ روح کی پاکیزگی کے بغیر تو کوئی شخص مسلم ہو ہی نہیں سکتا۔ جسم کی طہارت اور صفائی ایک صحت مند ماحول اور معاشرے کی تشکیل کے لیے حددرجہ لازم ہیں۔ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو خالق کائنات کی محبت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْن(التوبۃ ۹:۱۰۸) ’’اور اللہ پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے‘‘

نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ابتدائی احکام میں پاکیزگی اختیار کرنے کا واضح حکم ہے:

وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْo وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ o (المدثر ۷۴:۴-۵)

اور اپنے کپڑے پاک کرو اور گندگی سے دُور رہو۔

صفائی اور نظافت کی اس درجہ اہمیت کے تحت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ اور پاکیزگی نصف ایمان ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امورفطرت کا ذکر کیا جن پر عمل ہرپاکیزہ فطرت والا شخص پسند کرتا ہے اور جنھیں تمام انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان امور میں سے ۹۰ فی صد طہارت اور پاکیزگی سے متعلق ہیں۔ مناسک عبودیت کی ادایگی میں طہارت بنیادی شرط ہے۔ جب تک جسم‘ لباس اور جگہ پاک صاف نہ ہو‘ نماز ادا نہیں ہوتی۔ حج اور عمرہ مکمل نہیں ہوتے۔

نماز کی ادایگی پر عمل کرنے والا شخص ناپاک نہیں رہ سکتا‘ گھر اور ماحول کو غلیظ نہیں رکھ سکتا۔ مدینہ کی ریاست اپنے ابتدائی دور میں مالی تنگی اور عسرت کا شکار تھی۔ جہاں کم ہی گھرانے ایسے تھے جنھیں دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نصیب ہوتی لیکن صفائی اور پاکیزگی کے اعلیٰ معیار کے باعث وہاں بیماری شاذ تھی۔ ایک ایسی سرزمین جہاں پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا وہاں اس امر پر زور دیا گیا کہ اجتماعی اجلاس اور باجماعت نماز میں اپنے جسم کی بو سے بھی دوسروں کو محفوظ رکھا جائے۔ جہاں ہر وقت باوضو رہنے کا اہتمام ہو‘ جہاں گلی اور راستے میں کوڑا کرکٹ تو کجا استعمال شدہ پانی تک پھینکنے کو روا نہ خیال کیا جائے‘ جہاں راستوں میں تھوکنے اور غلاظت ڈالنے کا تصور تک نہ ہو‘ ایسا معاشرہ کیوں صحت مند معاشرہ نہ ہوگا۔ پاک روح‘ پاکیزہ جسم ہی میں قیام کرتی ہے‘ اور پاکیزہ ماحول ہی میں پنپتی ہے۔

پڑوسیوں کے حقوق

عمدہ معاشرت کی بنیاد ادایگی حقوق پر ہے۔ جس معاشرے کا ہر فرد دوسروں کے حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پہچانتا اور ان کو ادا کرتا ہے‘ وہ مطمئن اور پرسکون معاشرہ ہے۔ پڑوسی سب سے زیادہ ایک دوسرے کے اچھے یا برے طرزِعمل اور اخلاق سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن پاک ادایگی حقوق کی فہرست میں ’’پہلوکے ساتھی‘‘ کا خاص طور سے ذکر کرتا ہے‘ حتیٰ کہ دورانِ سفر عارضی قائم ہونے والے پڑوسی کے ساتھ بھی احسان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ (النساء ۴:۳۶)

پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا رویہ ماحول کو خوش گوار رکھنے میں نہایت اہم ہے۔ ایک دوسرے کے لیے احترام اور لحاظ کا جذبہ بہت سی بدمزگیوں کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: ’’کوئی شخص اس وقت تک سچا مسلم نہیں ہو سکتا‘ جب تک وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی نہ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘ (مسلم)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں جس کی شرارت سے اس کے پڑوسی محفوظ نہیں‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوںکے حقوق کا اس درجہ حکم دیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بقول یہ گمان کیا جانے لگا کہ شاید انھیں وراثت میں حصہ دار ہی بنا دیا جائے۔ طبرانی میں نبی اللہ صلی علیہ وسلم سے پڑوسیوں کے جوحقوق روایت ہیں‘ وہ یہ ہیں:

                                بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔

                                وفات پا جائے تو اس کے جنازے پر جائو۔

                                قرض مانگے تو اس کو قرض دو۔

                                اگر اس کے پاس لباس نہ ہو تو اسے لباس پہنائو۔

                                اسے کوئی نعمت ملے تو اسے مبارک (برکت کی دعا) دو۔

                                اسے رنج پہنچے تو اس سے ہمدردی کرو۔

                                اپنا گھر اس کے گھر سے بلند نہ کرو کہ اس کی روشنی اور ہوا میں رکاوٹ ہو۔

                                اپنے چولہے کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو۔

اسلام کو یہ ہرگز گوارا نہیں کہ کوئی شخص خود توپیٹ بھرکر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ وہ تواس لیے شوربا پتلا کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ پڑوسی کو اس سالن میں شریک کیا جاسکے۔ وہ تو پھلوں کے چھلکے بھی پڑوسی کے سامنے پھینکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مبادا اس کے بچوں کو پھل دستیاب نہ ہونے کے باعث چھلکے دیکھ کر احساسِ محرومی ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کو ایذا پہنچانے کے کچھ کام گنواتے ہوئے ان سے واضح الفاظ میں منع فرمایا:

                                اپنے گھر کی دیوار اور کھڑکی سے پڑوسی کے گھر نہ جھانکو۔

                                اس کی دیوار پر اپنی تعمیر نہ اٹھائو۔

                                اپنے گھرکا پرنالہ اس کے گھرکی سمت مت لگائو۔

                                اس کے گھر کے سامنے کوڑا نہ پھینکو۔

                                اس کے گھر کا راستہ تنگ نہ کرو۔

ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو ان الفاظ میں متنبہ فرمایا:

’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے باعث ایذا نہیں ہو سکتا‘‘۔ (بخاری‘ کتاب الادب)

گھروں کی پردہ داری

اسلام اس لحاظ سے بالکل منفرد نظامِ حیات ہے کہ وہ انسان کی نجی زندگی کے اخفا کو برقرار رکھنے کا حددرجہ اہتمام کرتا ہے۔ وہ تو گھر کے افراد کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بغیر اطلاع اپنے گھر میں داخل ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ساتھیوں کو ہدایت تھی کہ اپنے گھروں میں داخلے سے پہلے کوئی ایسی آواز ضرور پیدا کرلو تاکہ گھر والوں کو تمھارے آنے کی اطلاع ہوجائے۔

گھروں میں داخلے کے بارے میں سورۂ احزاب میں ارشاد ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ نبیؐ کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو۔ (الاحزاب۳۳:۵۳)

سورۃ النور میں اس حکم کی مزید وضاحت فرمائی گئی:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہوا کرو جب تک کہ گھروالوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو‘ یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے۔ (النور۲۴:۲۷-۲۸)

تخلیہ‘ ہر شخص کا ایک حق ہے۔ چنانچہ دوسرے کے گھر جھانکنا‘ باہر سے نگاہ ڈالنا ‘حتیٰ کہ کسی کا خط اس کی اجازت کے بغیرپڑھنا بھی ممنوع ہے۔ کسی کے گھر جھانکنے کے بارے میں آپؐ نے فرمایا:

جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا؟ (ابوداؤد)

مزید فرمایا:

اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ (ابوداؤد)

گھر کے مکینوں کے اس حق کی حفاظت کا اس قدر اہتمام ہے کہ صحیحین میں آپؐ کا ارشاد ہے:

اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور توایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں۔

اسلام کی اسی حساسیت کی بنا پر ہر دور میں مسلم گھروں کی تعمیرمیں پردے کا خصوصی اہتمام رہا۔ گھر اس انداز میں تعمیر کیے جاتے کہ گھروں کے اندر کمروں‘ صحن اور چھت پر بھی کسی کی نگاہ نہ پڑے۔ صحن اور چھت کی چار دیواری اتنی بلند رکھی جاتی کہ اہل خانہ وہاں بیٹھے ہوں تو کسی کی نظر پڑنے کا احتمال نہ ہو‘ اور اہل خانہ اطمینان سے کھلی ہوا اور روشنی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ حفظانِ صحت کے لحاظ سے یہ بات اہم ہے کہ روشنی اور تازہ ہوا کا حاصل ہو۔ ان کی موجودگی بذاتِ خود کئی بیماریوں اور معذوریوں سے بچائو کا سامان فراہم کرتی ہے۔ کھلی فضا میں بیٹھنے یا رات کو سونے سے توانائی کی بچت بھی ممکن ہے جو آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔

ملکیت کا احترام

انسانی زندگی کا سکون اور توازن برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ موجود وسائل پر انسانوں کی ملکیت کا حق تسلیم کیا جائے۔ حق ملکیت قائم کرنے کے لیے تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ضابطے رواج پاتے گئے تاکہ باہم نزاع نہ پیدا ہو۔ اسلام انسان کے اس حق کے احترام اور تحفظ کا پورا اہتمام کرتا ہے۔

گھر کے حق ملکیت کا احترام فطری تقاضا ہے۔ جانور تک اپنے اس حق کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں اور بالعموم وہ ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ ہر پرندہ اپنا گھونسلا خود تعمیر کرتا ہے۔ کسی دوسرے کے گھونسلے میں قیام پسند نہیں کرتا۔ جنگلی جانور دوسرے جانوروں کے بھٹ میں داخل نہیں ہوتے۔ پالتو جانور تک اپنی کھرلی کو بڑی اچھی طرح پہچانتے ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ پر قبضے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کوئی دوسرا کرنے کی کوشش کرے تو اس پر زبردست جنگ کا امکان رہتا ہے۔

انسانوں کے مابین پیدا ہونے والے جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ ’زمین‘ ہے۔ انسانوں کے قیمتی وسائل اور صلاحیتیں ان جھگڑوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ قومیں باہم برسرِپیکار ہوتی ہیں تو نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

اسلام مسائل کو ان کی جڑ سے اکھاڑ دینے کا قائل ہے۔ ان تنازعات کی اصل اُس زمین کی محبت ہے جہاں انسان کا قیام بڑی مختصرمدت کے لیے ہے۔ اسلام انسانوں کو اس حقیقت کی جانب مسلسل متوجہ کرتا ہے کہ یہاں کیا جانے والا ہر عمل آخرت میں پیش ہوگا اور انھی اعمال کی بنیاد پر آخرت کے انجام کا فیصلہ ہوگا۔ لہٰذا انسان کوئی ایسا کام نہ کرے جس پر اس روز ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔

زمین کی ملکیت کے بارے میں ایک تنازع پیش ہونے پر فیصلے سے قبل آپ ؑ نے ان الفاظ میں فریقین کو متنبہ فرمایا:

ممکن ہے تم میں سے کوئی ایک اپنی قوتِ گفتار کی بنا پر فیصلہ پر اثرانداز ہوجائے لیکن اس طرح اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز حاصل کر لیتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں ہے تو اسے زمین کا وہ ٹکڑا قیامت کے روز اپنے سر پر اٹھانا پڑے گا۔

یہ تنبیہہ ان سچے متبعین کے لیے کافی تھی۔ متنازعہ زمین لینا ایک کٹھن کام خیال کیا جاتا۔ ہر ایک اس طوق کو اپنی گردن سے اسی زندگی میں اتاردینا چاہتا۔

ملکیت کے اس حق کا احترام افراد کے لیے بھی ہے اور اداروں اور حکومتوں کے لیے بھی۔ جس طرح انفرادی ملکیت پرناجائز قبضہ ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح اجتماعی ملکیت پر بھی ناحق قبضہ حرام ہے۔ اجتماعی جگہ پر ناجائز تجاوزات نہ صرف دوسروں کے حق ملکیت میں دخل اندازی  ہے بلکہ راستے کے حق کا اتلاف بھی ہے۔ ایک انچ جگہ بھی غلط طور پر اپنے گھر میں شامل کرنا یا عام افراد کے لیے ناقابلِ استعمال بنانا‘ ایک ایسا غلط کام ہے جس پر مواخذہ ہوگا۔

تعمیراتی تزئین و آرایش

جائز ذرائع سے مکان کی تعمیر اور اس کے رنگ روغن میں کوئی قباحت نہیں۔ بالخصوص جب اس کا مقصد موسم کی سختیوں سے بچائو اور گھرکی حفاظت ہو لیکن اسلام اسراف کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مسرفین وہ لوگ ہیں جن سے ان کا رب کوئی محبت نہیں کرتا۔ گھروں کی ایسی تزئین و آرایش جس میں نمایش کا جذبہ ہو‘ ہرگز پسندیدہ نہیں۔ گھروں کو عیاشی کا مرکزو مظہربنا دینا قطعاً مطلوب نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھروں کے معاملے میں ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سادگی کی تلقین فرماتے۔

لاحاصل تعمیرات

غیرضروری تزئین و آرایش سے اگلا قدم لاحاصل تعمیرات کا ہے۔ قرآن ایسی اقوام کا ذکر نہایت ناپسندیدگی سے کرتا ہے جن کا شیوہ یہ تھا کہ ہر اُونچے مقام پر ایک لاحاصل تعمیر بناڈالتے۔ سورۃ الشعرا میں ایسی اقوام کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

یہ تمھارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو‘ اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو‘ گویا تمھیں ہمیشہ رہنا ہے۔ (الشعرا ۲۶:۱۲۸-۱۲۹)

اسی سورہ میں ثمود کے بارے میں ارشاد ہے:

کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان ’جو یہاں ہیں‘ بس یونہی اطمینان سے رہنے دیے جائو گے؟ ان باغوں اور چشموں میں؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (الشعراء ۲۶: ۱۴۶-۱۵۰)

عاد اور ثمود دونوں عمارتوں کی تعمیر میں نام آور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اقوام کے جرائم کی فہرست میں ان کے اس انہماک کا خاص طورسے تذکرہ فرماتے ہیں۔ ان دونوں اقوام کو ان کے ایسے ہی جرائم کی پاداش میں تباہ و برباد کر دیا گیا۔

قرآنِ پاک میں جن امور کی محبت کو رب کریم کے ساتھ تعلق میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے ان میں بھی گھر شامل ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر …وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے‘ اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ ۹:۲۴)

گھر اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن اگر یہ نعمت بندے کو اپنے رب کا شکرگزار بنانے کے بجاے غفلت میں ڈالنے کا سبب بن جائے تو یہ اس کی انتہائی بدقسمتی ہوگی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک وسیع گھر کی دعا بھی مانگتے تھے اور گھروں میں انہماک اور تفاخر کا اظہار کرنے والی تعمیرات سے اظہارناپسندیدگی بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے:

                بغیر ضرورت کے تعمیر کی گئی عمارت میں کوئی بھلائی نہیں۔

                                ہر عمارت اپنے مالک کے لیے مصیبت ہے سواے اس کے جو کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے تعمیر کی جائے۔

                                جو شخص بغیر ضرورت کے تعمیر کرتا ہے قیامت کے روز اسے کہا جائے گا کہ وہ اس عمارت کو اپنے سر پر اٹھائے۔

                                قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ لوگ عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔

                                لاحاصل تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم میں کوئی برکت نہیں۔

                                ضروریات پر خرچ کی جانے والی رقم صدقہ ہے‘ جب کہ نمایش کی غرض سے خرچ کی جانے والی رقم میں کوئی بھلائی نہیں۔ (ترمذی‘تعلیمات اسلامی)

بے مقصد تعمیرات اسراف ہیں‘ وقت اور وسائل کا ضیاع۔ دنیا کی رہنمائی کے منصب پر فائز اُمت مسلمہ کس طرح اپنے وسائل لاحاصل مشاغل کی نذر کر سکتی ہے؟

بستیوں کی صورت حال

اسلام کے احکام اور رہنما ہدایات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہماری بستیوں کی وہ صورت حال ہو جس میں وہ اس وقت ہیں‘ مثلاً:

                                سڑکیں اور گلیاں تنگ ہیں جنھیں باڑھ یا جنگلے لگا کر ناجائز تجاوزات کے ذریعے مزید تنگ کیا جا تا ہے۔

                                پانی کے بہائو اور نکاسی کا نظام درست نہ ہونے کے باعث بارش وغیرہ کے نتیجے میں پانی سڑکوں پر کھڑا رہتا ہے۔

                                گھروں کی تعمیرمیں سڑک کے لیول کا خیال نہ رکھنے سے بھی پانی کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

                                گٹرکھلے ہوتے ہیں۔ ان سے غلیظ پانی رِس رہا ہوتا ہے۔

                                دیہاتوں میں نالیاں کھلی ہیں‘ ان کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔

                                خالی جگہوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جس سے بستیاں آلودہ ہوتی ہیں۔ مکھی‘ مچھر اور دیگر حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں اور صحتیں برباد ہوتی ہیں۔

                                ناجائز تجاوزات کی تو اس قدر بھرمار ہے کہ ایک اندازے کے مطابق لاہور کی جدید بستیوں میں ۹۰ فی صد کے قریب گھر اس مرض کا شکار ہیں۔

                                گھروں کی تعمیر میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

                                گھروں کی تعمیر میں پردے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ صحن یا چھتوں پر بیٹھنا کم ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ہوا اور روشنی جیسی عظیم الشان نعمتوں سے محرومی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے۔

حرفِ آخر

گھر ہمارے رب کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جیسا کہ فرمایا گیا کہ جسے سرچھپانے کو گھر ملا‘ سفر کے لیے سواری ملی‘ اور صبح شام پیٹ بھر کر کھانا مل گیا‘اس پر نعمتیں مکمل ہوگئیں۔ اللہ کی اس نعمت پر شکرگزاری کا تقاضا ہے کہ یہ گھر:

                                اللہ کے دین کی خدمت میں مددگار ہوں۔

                                ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے راستے میں جہاد سے روکنے والے نہ ہوں۔

                                یہ تکبر اور فخر کی علامت نہ بن جائیں۔

                                یہ اللہ کے بندوں کے لیے کسی اذیت کا باعث نہ ہوں۔

                                پڑوسیوں کے لیے باعث آزار نہ ہوں کہ ان کی ہوا اور روشنی میں رکاوٹ ڈالیں۔ ان کے لیے بے پردگی کا باعث ہوں اور ہمارے گھروں کا شوروغل ان کے آرام میں خلل انداز ہو۔

                                ان گھروں کی تعمیر کے لیے حاصل کردہ زمین میں ایک انچ بھی ناجائز طور پر حاصل کردہ نہ ہو۔ ان کی تعمیر میں مال حرام نہ استعمال ہو۔

                                یہ گھر راستوں کی تنگی کا باعث نہ ہوں۔ بستیوں کے راستے کشادہ ہوں۔

                                ہمارے گھر اور راستے صفائی‘ پاکیزگی اور نظافت کا عمدہ معیار رکھتے ہوں۔ یہ سادگی اور اسلامی شعار کے عکاس ہوں‘ نیز ہمیں اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنانے والے ہوں۔

ان امور کا اگر خیال رکھا جائے تو پھرہی یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ انسان اس روز کی جواب دہی سے بچ جائے جب نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا---!