یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo (التوبۃ ۹:۱۱۹) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔
مان لینا، یقین کرنا، حقیقت کا ادراک کرلینا، ایمان ہے۔ قرآن ’اہلِ ایمان‘ کن لوگوں کو کہتا ہے؟ ’اہلِ ایمان‘ وہ ہیں جو اللہ کی ذات و صفات کا اس درجہ اِدراک حاصل کرلیں کہ پھر کوئی اور ان کی نظروں میں جچے ہی نہیں، وہ شدت سے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’اور ایمان رکھنے والے لوگ تو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ خطاب ان لوگوں سے ہے جن کا محبوب اللہ ہے۔ ’محبوب‘ کا حکم ہے کہ اس سے محبت کرنے والے لوگ، اللہ (محبوب) ہی کا تقویٰ اختیار کریں۔
تقویٰ کا مادہ تقٰی یا وِقٰی ہے۔ اس کے معنی ہیں بچنا، خود کو کسی خطرے سے بچانا۔ قرآن متقی اس کو کہتا ہے جو اللہ سے شدید محبت کی وجہ سے خود کو اس کی ناراضی سے بچاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب ایمان اور عملِ صالح (محبوب کو راضی کرنے والے کام) جمع ہوتے ہیں، تو تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہمیشہ محتاط رہتا ہے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہونے پائے جو محبوب کی نظرِ التفا ت سے محرومی کا سبب بن جائے۔
’تقویٰ‘ کے اس مقام کی حفاظت کے لیے محبوب کی جانب سے دوسری اہم ہدایت ہے کہ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ’’اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو‘‘۔ یہاں امر کا صیغہ ہے۔ َکُوْنُوْا ’’ہوجائو، ہمیشہ رہو‘‘۔ مَعَ ’’ہمراہ، ساتھ، معیت میں‘‘۔
اس ہدایت میں ایک تنبیہہ ہے: ’’اکیلے نہ رہنا، اکیلے رہنا خطرے سے خالی نہیں‘‘۔ ہرذی روح اسی کی ہمراہی پسند کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اس سے مماثلت رکھتا ہے، جن کی محبت، نفرت، منزلِ مقصود یکساں ہو۔ لہٰذا تم الصّٰدِقِیْنَ کی ہمراہی اختیار کرنا۔تمھارا باطن بھی ان کے ہمراہ ہوجائے اور ظاہر بھی ان کی مانند ہو۔ تمھاری نیت، ارادہ، تمھاری شکل و صورت ، اعمال و افعال سب صادقین کی طرح ہوں۔یہاں تاکید کے لیے ’ال‘ لگایا گیا ہے، یعنی خاص طور پر، انتہائی، بہت زیادہ صادق۔
بہت سچا، جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، بلکہ سچ کا اس قدر خُوگر کہ اس سے جھوٹ بن ہی نہ پاتا ہو۔ قول و اعتقاد میں سچا! اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کردکھائے۔ اس کا ہر کام ظاہروباطن کے اعتبار سے فضیلت کے ساتھ متصف ہو۔یہ تمام انبیا علیہم السلام کی صفت ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں فرمایا: اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ (المائدہ ۵:۷۵) ، یعنی وہ ایک راست باز عورت تھی۔ یہ جنت کی سردار خاتون کی صفت ہے۔
صدیقین: فضیلت میں انبیاے علیہم السلام سے کچھ کم درجے کے ہوتے ہیں۔ ان کے جانشین ہیں، ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ غوروفکر کرنے والے، سنجیدہ اور سلیم الفطرت لوگ ہیں۔ شھید: فعال، بھاگ دوڑ کرنے والے، خوش گفتار، عملی جدوجہد میں پیش پیش، بے خطر معرکوں میں کود جانے والے۔ یہ دونوں قسم کی صفات توازن کے ساتھ صرف انبیاے علیہم السلام میں جمع ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے کامل مثال ایک ہی ہے اور وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ نیتوں کا اخلاص اور عمل کی پاکیزگی،صدیق اور شہید دونوں کو ’مقربین‘ میں شامل کروا لیتے ہیں۔
صدیقین انبیا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، والہانہ پیش قدمی کرتے ہیں، ذرا بھی توقف نہیں کرتے۔ انھیں اس بارے میں ذرا شک و شبہہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ کوئی اعتراض کرتے ہیں ، نہ جرح ۔ دعوتِ حق کو قبول کرنے میں کسی تذبذب، تامّل یا تردّد میں مبتلا نہیں ہوتے۔ حق کی دعوت انھیں اپنی فطرت کی پکار معلوم ہوتی ہے۔ ان کے ایمان میں ایک والہانہ پن ہوتا ہے۔ فلسفۂ دین اور حکمت ِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک اہم بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’میں نے جس کے سامنے بھی دعوت پیش کی، اس نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا سواے ابوبکرؓ کے، انھوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر میری تصدیق کردی‘‘۔
ایمان کا ایسا ہی مظاہرہ واقعۂ معراج کے بعد ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے واقعۂ معراج سنتے ہی تصدیق کی، جس پر بارگاہِ رسالت سے انھیں’صدیق‘ کا خطاب ملا۔ پوری اُمت کا اجماع ہے کہ وہ صدیقِ اکبر ہیں۔ یہ جذبۂ صدق و وفا اس درجے کا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ایسی بات کا ذکر فرماتے جس پر لوگ تعجب کا اظہار کرتے تو آپؐ فرماتے: ’’(تم تعجب کرتے ہو تو کرو) مَیں اس پر ایمان لایا۔ اور ابوبکر اور عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہما) بھی ایمان لائے‘‘۔(بخاری)
زندگی کے ہرلمحے میں صدیق کی فطرتِ صالحہ کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ وہ اپنے جان و مال سے حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہرمشکل اور کٹھن مرحلہ ان کے ایمان و عمل کو فزوںتر کرتا ہے۔ وہ تسلیم و رضا کے پیکر ہوتے ہیں۔ اپنے رب کے ہرفیصلے پر راضی، حتیٰ کہ ان کا رب ان کے بارے میں گواہی دیتا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ صلے ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳ ) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ (کسی قسم کے حالات میں) انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
صدیقین کے برعکس رویہ منافقین کا ہے۔ منافقین کم ہمت، بزدل اور مفاد پرست ہوتے ہیں، خودغرض اور خواہشات کے اسیر۔ ہرمعاملے کو خواہش اور مفاد پر تولتے ہیں، جہاں سے مفاد حاصل ہوتا نظر آئے، اس کے ہمراہ چل پڑتے ہیں، ورنہ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
بخاری میں سورئہ توبہ کی آیت ۱۱۹ کی تشریح میں، حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدق (سچائی) آدمی کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی بہشت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور آدمی سچ بولتا ہے، حتیٰ کہ صدیق کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ اور کذب (جھوٹ) فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور (نافرمانی) آگ کی طرف۔ اور آدمی جھوٹ بولتا چلاجاتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری)
صدیق کی زندگی میں، حرا سے بدر تک کے مراحل ہیں۔ اس میں ہجرت ہے، اُحد اور خندق کے معرکے ہیں، جان ومال کی قربانی ہے۔ قدم قدم پر قیامت ہے اور پھر فتح و کامرانی ہے۔ زندگی کا یہ سفر اکیلے طے کرنا بڑا مشکل ہے۔ کٹھن کام، ہم مزاج ساتھیوں کے ہمراہ آسان اور خوش گوار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ: صدیق و صادق بننا چاہتے ہو تو پھر صادقین کی ہمراہی اختیار کرو۔ سورئہ کہف میں اس امر کی یاددہانی ان الفاظ میں کروائی گئی:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج (الکہف ۱۸:۲۸) اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو، جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر، صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔
انبیاے علیہم السلام کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان (اللہ سے شدید محبت کرنے والے لوگوں) کے ہمراہ رہیں۔انبیاے علیہم السلام کو کہا گیا کہ وہ اعلان کردیں: وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۱۰۴) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں‘‘۔ اور یہ کہ: وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (النمل ۲۷:۹۱) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں‘‘۔
حضرت یوسف علیہ السلام حکومت میں ایک مؤثر اور اعلیٰ مقام ملنے کے بعد بھی، ایک ہی دعا مانگتے ہیں: تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo(یوسف ۱۲:۱۰۱) ’’میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔ حضرت سلیمان علیہ السلام تمام تر شاہانہ عظمت و جبروت کے اپنے رب کی نعمتوں پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے دعاگو ہیں: وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَo (النمل ۲۷:۱۹) ’’اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فلاح و کام یابی کی خوش خبری کے باوجود ملتجی ہیں:رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۸۳) ’’اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالحوں کے ساتھ ملا‘‘۔
دانش مندی یہ ہے کہ سچے اور صالح افراد کی ہمراہی نصیب ہوجائے۔ نجات اسی کے لیے ہے جواہلِ حق کے ساتھ رہا۔ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا (الاعراف ۷:۷۲) ’’آخرکار ہم نے اپنی مہربانی سے اسے (ہود ؑ) اور اس کے ساتھیوں کو نجات (عذاب سے) دے دی‘‘۔ یہی معاملہ اس سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ہوا: فَنَجَّیْنٰہُ وَ مَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰٓئِفَ (یونس ۱۰:۷۳) ’’پس ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انھی کو زمین میں جانشین بنایا‘‘۔ حق اور اہلِ حق کا ساتھ نہ دینے والا غرق ہوکر رہتا ہے، اگرچہ وہ اہلِ حق کے سرکردہ افراد میں سے کسی کا قریب ترین عزیز ہی ہو۔ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ صلیز کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَo (الاعراف ۷:۸۳) ’’آخرکار ہم نے اسے (لوطؑ) اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا سواے اس کی بیوی کے، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی‘‘۔
معاشرے کے کمزور اور کم حیثیت افراد بھی حق کا ساتھ دینے کے سبب معزز ہوجاتے ہیں۔ قوم کے اکابرین انھیں اراذل خیال کرتے ہیں۔ لیکن اکابرین کی حمایت حاصل ہونے کی اُمید پر بھی انبیاے علیہم السلام حق کا ساتھ دینے والے کمزور افراد کو خود سے دُور نہیں کرتے اور صاف صاف کہتے ہیں: ’’اور میں ان لوگوں کو دھتکارنے والا نہیں جو ایمان لے آئے‘‘ (ھود ۱۱:۲۹)، بلکہ وہ اپنے اللہ کے خوف سے لرزتے ہوئے کہتے ہیں: وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ طَرَدْتُّھُمْ (ھود ۱۱:۳۰) ’’اور اے قوم! اگر میں دھتکار دوں تو مجھے اللہ (کے عذاب) سے کون بچائے گا‘‘۔ وَّ لَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْتِیَھُمُ اللّٰہُ خَیْرًاط اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ صلیج اِنِّیْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَo (ھود ۱۱:۳۱) ’’اور یہ بھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمھاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انھیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر مَیں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا‘‘۔
آج اہلِ حق (صادقین) کا ساتھ دینا اس لیے ضروری ہے کہ یوم الحساب کو غلط ساتھی اور ہمراہی کی معیت کا ہولناک انجام دیکھ کر، بندہ حسرت اور ندامت سے کہہ اُٹھے گا:یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًاo (الفرقان ۲۵:۲۸) ’’ہاے میری کم بختی! کاش میں فلاں (شخص) کو دوست نہ بناتا‘‘،بلکہ ہر ظالم تاسّف سے اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گا اور کہے گا: یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًاo(الفرقان ۲۵:۲۷) ’’اے کاش! مَیں نے رسولؐ کا ساتھ دیا ہوتا‘‘۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo(النساء ۴:۶۹) جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا ؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
جس کو یہ معزز رفقا میسر آجائیں پھر وہ ہراس فرد سے بے زاری کا اعلان کردیتا ہے جس کا محبوب کوئی اور ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے تو علانیہ پوری قوم سے اظہارِ براء ت کردیا:’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا: ’’ہم تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا (تمھارے اس طرزِعمل کا انکار کیا) اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بَیر پڑگیا۔ جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۴)
اس لیے کہ اس کا محبوب محبت کے معاملے میں بڑا غیرت مند ہے وہ اپنے محب کو غیرصادقین سے دوستی کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ارشاد ہے:
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائواگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں توانتظارکرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔(التوبۃ ۹:۲۳-۲۴)
والدین اور اُولوالارحام کے ساتھ حُسنِ سلوک اور صلۂ رحمی اپنی جگہ، مگر اتباع صرف اس راستے کا، جو اللہ کی طرف لے جاتا ہو، واضح ہدایت دے دی گئی:
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضُعف پر ضُعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا، اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔لیکن اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اس وقت میں تمھیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔(لقمان ۳۱:۱۴-۱۵)
نبیؐ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعاے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا۔ مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خداترس اور بُردبار آدمی تھا۔(التوبۃ ۹:۱۱۴)
یہاں تک کہ غیرصادق چچا ہے تو اعلان کردیا گیا کہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ o (اللھب۱۱۱:۱) ’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہوگیا‘‘۔
ایمان قبول نہ کرنے والا بیٹا بھی غیربن جاتا ہے۔ پیغمبرؐ خدا اگر غیرصادق بیٹے کے بارے میں یہ کہہ بیٹھیں: رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ (ھود ۱۱:۴۵)’’اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھروالوں میں سے ہے‘‘ تو واضح الفاظ میں کہہ دیا جاتا ہے: یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ج اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ(ھود ۱۱:۴۶)’’اے نوحؑ، وہ تیرے گھروالوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے‘‘۔غیرصادقین تو ایک دوسرے کے ہی دوست ہیں۔ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط(الانفال ۸:۷۳) ’’جو لوگ منکرِحق ہیں وہ تو ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘‘۔
صادق ہونے کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ درست اور سچی بات کہہ رہا ہے۔ درست اور سچی بات تو کبھی کبھی جھوٹا آدمی بھی دہرا دیتا ہے۔ انسانی معاشرے میں انھیں صادق نہیں خیال کیا جاتا اور اللہ بھی انھیں جھوٹا کہتا ہے۔صادق دو بنیادی خصوصیات رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کی بات حقیقت کے مطابق ہوتی ہے۔ دوسرے وہ اس کے قلب و ضمیر کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کی زبان اس کے دل کی ترجمان ہوتی ہے اور اس مطابقت کی گواہی اس کی عملی زندگی دیتی ہے۔
صادق اللہ سے سچی محبت رکھنے والا فرد ہے۔ وہ اپنی فداکاری، جانثاری اور قربانی سے یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ واقعتا اللہ کا وفادار ہے۔ ہرحال میں ثابت قدم رہنے والا،اپنے رب کے ہرحکم پر سرِاطاعت خم کردینے والا، اس کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کردینے والا۔ اس کے شب و روز، اس کی دل چسپیاں، اس کی تگ و دو، اس کے دعواے محبت کے گواہ ہوتے ہیں۔ ایک جانب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا دعویٰ اور دوسری جانب زندگی، ان کی نافرمانی بلکہ سرکشی میں گزارنا، یہ وہ طرزِعمل ہے جس پر حضرت موسٰیؑ کو اپنی قوم سے کہنا پڑا: ’’تم مجھے کیوں ستاتے ہو؟‘‘ (الصف۶۱:۵)۔ قول و فعل میں تضاد غیرصادق فرد کی نمایاں علامت ہے۔
صادقین اُولوا الالباب ہیں، ہوش مند اور باشعور لوگ۔ یہ ہوش مند لوگ کائنات کے ذرّے ذرّے میں اپنے محبوب رب کی قدرت اور عظمت کو پہچانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے دل اس کی خشیت سے لرزتے رہتے ہیں۔ یہ خشیت انھیں ہرلمحے اپنے محبوب سے جوڑے رکھتی ہے۔ وہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہرحال میں اپنے محبوب کو یاد کرتے ہیں۔ خوش حالی ، بدحالی، فقروفاقہ، خوف اور پریشانی___ کسی حال میں بھی اپنے رب کے ساتھ تعلق میں کمی نہیں ہونے دیتے۔
ان کے چہرے ان کے رب کے ساتھ تعلق کی گواہی دیتے ہیں۔ جونہی کسی جانب سے نداسنائی دے، جس میں انھیں ان کے رب کی طرف بلایا جارہا ہو، وہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔ وہ اپنے رب سے محبت رکھنے والے ہمراہیوں (صادقین) کے ساتھ مطمئن رہتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کی معیت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا اور حشر انھی کے ساتھ ہو۔
وہ اپنے محبوب کی خاطر ہرخواہش، آرام اور تعلق ترک کردیتے ہیں۔ اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ (نسائی) کوئی محبت اور تعلق ان کے پائوں کی زنجیر بن کر انھیں اللہ کے راستے سے روک نہیں سکتا۔ اس محبت اور تعلق کے باعث لوگ انھیں ان کے گھروں سے نکالنے کے درپے ہوتے ہیں۔ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلیِ وَقٰــتَلُوْا وَقُتِلُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) ’’وہ اپنے رب کی خاطر ستائے جاتے ہیں، لڑتے ہیں اور مارے جاتے ہیں‘‘۔
نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے معرکۂ قتال میں آنا، نیکی کی بلند ترین چوٹی قرار دی گئی ہے۔ یہ صادقین بڑی ثابت قدمی سے باطل اور اہلِ باطل کا مقابلہ کرتے ہیں، اور حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہتے ہیں۔ ان کی زندگی عدل اور احسان پر استوار ہوتی ہے۔ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں اپنوں کا ساتھ بھی نہیں دیتے۔ یہ اپنے پسندیدہ مال ہر اس جگہ خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا ان کے محبوب رب کو پسند ہو، جب کہ اسراف و تبذیر سے بچتے ہیں۔
ان کے قول و فعل، ان کے محبوب کے کلام قرآن ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ ان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی اپنے رب کی رضا کے تابع ہوتی ہے۔ ان کی تجارتیں، عدالتیں، حکومتیں، رسوم و رواج، تعلقات، ان کی معاشرت، ان کے معاملات، سب قرآن پر مبنی ہوتے ہیں۔ اپنے اوقات، اپنی قوتوں اور مال کی نگرانی کرتے ہیں۔ لھو الحدیث کے خریدار نہیں بنتے۔ جدال اور بے مقصد بحث سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ زُور (جھوٹ، غلط کام) کے گواہ تک نہیں بنتے (قریب بھی نہیں جاتے)۔ وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ ہرحال میں صابروشاکر اور اپنے رب کے فیصلوں پر راضی رہنے والے لوگ ہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہرحال میں انجام دیتے ہیں اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں رکھتے۔ صلۂ رحمی کرنے والے، لوگوں کے نفع کے حریص، متواضع، نرم خُو، مہربان اور فیاض لوگ ہیں۔ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دینے والے۔ ان کی زبانوں پر یہ دعا جاری رہتی ہے:
رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) میرے رب! مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔
گویا ’صدق‘ وہ خصوصیت ہے جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قوت اور مدد نصیب ہوتی ہے۔ حق غالب آجاتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔بڑی یکسوئی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے رب کی اطاعت کی روش پر کاربند رہنے کے باوجود یوم الحساب کی پیشی اور پکڑ سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اپنے اللہ سے اپنی مغفرت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِo(اٰل عمرٰن ۳:۱۷)
صادق کی تمام تر دوستی اور محبت صادقین کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان کی دعا ہی یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ، اے اللہ! آپ سے آپ کی محبت کا سوال ہے اور ان کی محبت کا بھی جو آپ سے محبت رکھتے ہیں۔
اس محبت کو مضبوط تر کرنے کے لیے انھیں حکم دیا گیا کہ وہ ہرحال میں ان کے ساتھ خیرخواہی کریں۔ وہ تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ تعلقات درست رکھنے کی فکر کرتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ رکھتے ہیں، ان کی غلطیوں کو نظراندازکرتے ہیں لیکن کسی حال میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو بھولتے نہیں___ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا طرزِعمل اُن کے تعلقات کو مضبوط تر کردیتا ہے۔
’اکرامِ مسلم‘ کا اظہار ان کی ہر ادا سے ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے سراسر سلامتی ہیں۔ سلامتیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ انھیں اپنے ہاتھ اور زبان سے ایذا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ ان کی ضروریات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے مال اور قوتوں سے اُن کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یُؤْتِیْ مَا لَـہٗ یَتَزَکّٰی، وہ جانتے ہیں ’تزکیہ‘ کی اعلیٰ منزل اسی رابطے سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنے معاملات میں ان کے مشورے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے اور حقوق کی ادایگی میں کوتاہی نہیں کرتے۔
وہ تحائف کے تبادلے کے ذریعے محبتوں کو مضبوط بناتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کو قبول کرتے ہیں، دوسروں کو کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے ذریعے جنت کے میوے چنتے ہیں۔ جنازوں کے ہمراہ جاتے ہیں۔ہر دکھ میں وہ اپنے بھائیوں کے لیے سہارا بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے وقار میں اضافے کے لیے کوشش، ان کے طرزِعمل کی علامت بن جاتا ہے۔ وہ ہرحال میں ایک دوسرے کے لیے دل جوئی اور دلداری کا سامان کرتے ہیں۔ نرم خُو، شیریں دہن، سراپا شفقت، اللہ اپنے محبوب کی خاطر باہم شیروشکر ۔ یہ اللہ کے دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی صفوں میں عدل و انصاف کے ساتھ اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور کفار کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے ساتھ اخلاص اور خیرخواہی کا رویہ ہرلمحہ آشکار ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف عملاً ان کی بھلائی کے حریص ہوتے ہیں بلکہ اپنی دعائوں میں انھیں شریک رکھتے ہیں:
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَـآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o(الحشر ۵۹:۱۰) اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بُغض نہ رکھ، اے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
وہ جنھیں انھوں نے دیکھا تک نہیں وہ ان کی غائبانہ محبت میں بھی گرفتار ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ’ایمان‘ کے ساتھی ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں کے معاملے میں خودغرضی کی روش اختیار نہیں کرتے۔ انھیں دُکھ اور ایذا نہیں دیتے، ان سے حسد نہیں کرتے،ان پر لعن طعن نہیں کرتے، ان کا مذاق نہیں اُڑاتے، ان کی تذلیل و تحقیر نہیں کرتے۔
خلوص اور محبت بھرے دلوں میں بدگمانی، کینہ، بُغض کا گزر تک نہیں ہوتا بلکہ ان کا طرزِعمل عدل، احسان اور صلۂ رحمی پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ بے حیائی ، ظلم اور زیادتی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ چونکہ ان کے ولأ (محبت، نصرت، قرب، مدد، دوستی) اور برأ (بُغض، بے زاری، دُوری) کا معیار ان کے محبوب اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق پر ہے، اس لیے وہ نہ صرف صادقین کے ساتھ ولایت و دوستی کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں سے صاف صاف لاتعلقی اور براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْھَا (الکھف ۱۸:۵۷) اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے۔
ایسے لوگ اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ اللہ والے اس وقت تک ان سے محبت کا تعلق نہیں رکھ سکتے جب تک وہ اپنے رب کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ اس لیے کہ ان کے محبوب اللہ ہی کی دی ہوئی ہدایت ہے: وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo (الکھف ۱۸:۲۸) ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے، اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے، اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پرمبنی ہے‘‘۔
صادق کون ہے؟ اور غیرصادق کون؟___ ان کا بڑا عمدہ موازنہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا:
ہلاک ہوجائیں عبدالدینار (دینار کا بندہ) اور عبدالدرہم (درہم کا بندہ) اور عبدالقطیفہ (ریشمی چادر کا بندہ) اور عبدالخمیصہ (لباس کی شان دکھانے والا)۔ اگر اسے عطا کیا جائے تو خوش ہوتا ہے،اور نہ دیا جائے تو ناخوش۔ ہلاک ہو اور سر نگوں ہو۔ اس کو کانٹا چبھے تو نہ نکلے۔
خوش خبری ہے اس بندے کے لیے جو اپنے گھوڑے کی لگام اللہ کی راہ میں پکڑے ہوئے ہے۔ اس کے سر کے بال پراگندہ اور پائوں غبارآلود ہوں۔ اگر وہ امام کی جانب سے پہرہ پر مقرر ہو تو پہرہ ہی دے، اور اگر فوج کے پیچھے حفاطت کے لیے مقرر کیا جائے تو لشکر کے پیچھے لگا رہے۔ اگر اندر آنے کی اجازت طلب کرے تو اجازت نہ ملے۔ اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے۔(بخاری، کتاب الجہاد)
صادق تو وہ ہے جسے عہدہ و مرتبہ کی خواہش نہیں، شان و شوکت مطلوب نہیں۔ جو کسی اجر اور بدلے کی طمع نہیں رکھتا، اپنے رب کی رضا کے لیے دن رات اپنی صلاحیتیں اور اپنے اوقات لگائے چلا جاتا ہے۔ایسے ہی صادقین کے لیے ان کا رب انعامات کا اعلان کرتا ہے۔
دنیا میں پیش آنے والے امتحانات ان کے درجات بڑھانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ غزوئہ احزاب کے امتحان سے سرخ رو ہونے کے بعد ان کے محبوب اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآئَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ ط (الاحزاب ۳۳:۲۴) (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے، اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے۔
یہ کامیاب و کامران صادقین اپنے رب کے ہاں حاضر ہوتے ہیں تو بہترین انعام اور اجر ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ اعلان ہوتا ہے: قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ (المائدہ ۵:۱۱۹) ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے‘‘۔ عظیم الشان کامیابی کا یہ مقام ہی سچی عزت کی جگہ ہے۔جیساکہ ارشاد ہے: اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ o فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُّقْتَدِرٍ o (القمر۵۴:۵۴-۵۵) ’’متقین یقینا باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب‘‘۔سچی بات تو یہ ہے کہ عظیم المرتبت، مقتدر بادشاہ کے قُرب سے بڑھ کر عزت کا مقام کون سا ہوگا؟ چنانچہ یہ صادقین حصولِ انعام پر مقتدر بادشاہ کے ہاں اپنی قدرومنزلت دیکھ کر بجاطور پر اس کی حمدوثنا کریں گے:
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَائُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَo(الزمر ۳۹:۷۴) وہ کہیں گے شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا۔ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بناسکتے ہیں۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔