وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ o وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ o وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ o قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ o النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ o اِِذْ ھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْدٌ o وَّھُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ o وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ o الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ o اِِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ o اِِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْرُ o اِِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ o اِِنَّہٗ ھُوَ یُبْدِیُٔ وَیُعِیْدُ o وَھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ o ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدُ o فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ o (البروج ۸۵:۱-۱۶) قسم ہے بُرجوں والے آسمان کی، اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے، اور شاہد اور مشہود کی۔ ناس ہو کھائی والوں کا، ایندھن بھری آگ والوں کا، جب کہ وہ اس پر بیٹھے ہوئے تھے، اور جو کچھ اہلِ ایمان کے ساتھ کر رہے تھے، اسے دیکھ رہے تھے۔ انھیں ان کی صرف یہ بات بُری لگی کہ وہ اللہ پر ایمان رکھیں، جو غلبے کا مالک اور حمدوستایش کا سزاوارہے، جو آسمان اور زمین کی بادشاہت کا مالک ہے، اور اللہ ہرچیز کو دیکھ رہا ہے۔ جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ستایا، پھر توبہ نہ کی، ان کے لیے عذاب ہے جہنم کا، اور ان کے لیے عذاب ہے بھڑکتی ہوئی آگ کا۔ بلاشبہہ جو لوگ ایمان لائے، اور اچھے کام کیے اُن کے لیے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی، یہی بڑی کامیابی ہے۔ بلاشبہہ تمھارے رب کی پکڑ بڑی ہی سخت ہے، اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہ انتہائی معاف کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے۔ تخت کا مالک بڑی شان والا، جو چاہے کرڈالے۔
اصحاب الاخدود کا یہ واقعہ اس قابل ہے کہ مومن داعیانِ حق اس پر ٹھیر کر غور کریں، چاہے وہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی دور کے ہوں۔ قرآن کا اسے ایک خاص پیرایے میں لینا، ایک خاص تمہید کے ساتھ بیان کرنا، ایک خاص زاویے سے اس پر تبصرہ کرنا، اور بیچ بیچ میں مختلف رُموز و حقائق کی طرف اشارے کرنا صرف اس لیے تھا کہ وہ کچھ گہرے اور واضح خطوط کھینچ دے جن سے بآسانی اندازہ ہوسکے کہ دعوتِ حق کا مزاج کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ انسانیت کا کیا سلوک رہا ہے، اور وہ کیسی کیسی جگرپاش مصیبتیں اور زہرہ گداز آزمایشیں ہیں جو دعوتِ دین کی راہ میں پیش آسکتی ہیں۔ قرآن چاہتا ہے کہ واضح طور پر مومنین کے لیے نشاناتِ راہ متعین کردے اور انھیں ان تمام مصائب کو جھیلنے کے لیے پہلے سے تیار کردے، جو فیصلۂ الٰہی کے تحت آتے، اور اپنے اندر گوناگوں حکمتیں رکھتے ہیں، گو ہم انھیں سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔
یہ ایک ایسے گروہ کا واقعہ ہے جو اپنے رب پر ایمان لایا، ایمان کا برملا اعلان کیا، پھر ایسے درندہ خصلت ظالموں کا نشانۂ ستم بنا، جو آزادیِ انسان کے دشمن تھے۔ ایک انسان پیدایشی طور پر آزاد اور قابلِ احترام ہے۔ اس کو فطری طور پر حق کو قبول کرنے، اور خدا پر ایمان لانے کا حق ہے، مگر وہ ظالم یہ حق چھیننا چاہتے ہیں۔ اور اگر کوئی اس حق سے دست بردار نہ ہوتا، تو اس کے لیے سراپا ظلم وستم بن جاتے۔ اس گروہ نے ایمان کا اعلان کیا، تو انھوں نے درندگی و سفاکی کے بھرپور مظاہرے کیے۔ وہ اس کو ستاستا کر اس کی اذیتوں سے محظوظ ہوئے اور آگ کے الائو میں جھونک کر اس کی بے قراریوں کا پُرشوق نظارہ کرتے رہے۔
یہ نفوس زندگی کی بندگی سے آزاد تھے۔ موت اس بھیانک انداز سے ان کے سامنے کھڑی تھی، لیکن زندگی کی محبت انھیں اپنی طرف نہ جھکا سکی۔ وہ زمین کی ساری بندشوں سے آزاد اور ارضی علائق پر پوری طرح غالب رہے کیونکہ عقیدہ زندگی پر غالب رہا۔
ان مومن، خیرپسند اور بلندواشرف نفوس کے مقابلے میں انتہائی سرکش، شرپسند، مجرم اور کمینی طبیعتیں تھیں۔ یہ آگ کے پاس بیٹھتیں، کہ دیکھیں مومنین کس طرح جھلستے اور تڑپتے ہیں، کس طرح آگ زندگی کو کھاتی اور ان نیک افراد کو تودۂ راکھ بنادیتی ہے۔ ان نیک اور صالح مومنین میں سے جب بھی کوئی جوان مرد یا جوان عورت، ننھی بچی یا بوڑھی خاتون، طفلِ شیرخوار یا پیرکہن سال آگ کے الائو میں جھونکا جاتا، ان سرکش طبیعتوں کے خسّت آمیز نشے میں طغیانی آجاتی، اور آگ کو بھڑکانے والے درندے خون اور آنتوں کے ساتھ خوب شیطنت کے مظاہرے کرتے۔
یہ وہ شرم ناک واقعہ ہے جس میں سرکش طبیعتیں انتہائی پستی میں اُتر کر سفاکیت کی غلیظ کیچڑ میں خوب آلودہ ہوئیں۔ جس بے ہودگی کے ساتھ وہ اس منظر جانکاہ سے محظوظ ہوتی رہیں، اس سے انسان تو انسان، درندے بھی شرماجائیں، کہ درندے بھی حملہ کرتے ہیں تو اس لیے کہ اس سے بھوک کی آگ بجھائیں نہ کہ بے ہودگی کے ساتھ شکار کی بے قراریوں کا نظارہ کریں۔
نیز یہی وہ عظیم واقعہ ہے جس میں مومنین کی روحیں رفعتوں سے آشنا ہوئیں۔ سارے بندھنوں نے آزاد ہوکر وہ بلندی کے اس نقطۂ کمال پر پہنچ گئیں کہ ساری انسانیت، ہر دور کی انسانیت، ہر نسل کی انسانیت بجاطور پر اُن پر فخر کرسکتی ہے۔
مادی نقطۂ نظر سے دیکھو تو یہاں طغیانِ کفر ایمان پر غالب رہا۔ وہ ایمان جو نیک، خیرپسند، ثابت قدم اور باعزم دلوں میں بلندی کی آخری سرحدیں چھو رہا تھا، اس کش مکش میں بُری طرح ناکام و سبک سر ہوا۔
قرآن یا حدیث، کہیں بھی یہ تذکرہ نہیں کہ اس موقعے پر خدا کا ہاتھ حرکت میں آیا، ان درندوں کی سفاکیاں رنگ لائیں۔ قومِ نوحؑ، قومِ ہود ؑ، قومِ صالحؑ، قومِ شعیب ؑ، قومِ لوطؑ اور فرعون و آلِ فرعون کی طرح ان پر بھی عذابِ الٰہی کے تازیانے برسے، اور قہرالٰہی نے بالکل ان کا صفایا کردیا۔
مادی نقطۂ نگاہ سے دیکھو تو یہ اختتام بہت ہی دل شکن اور یہ انجام انتہائی مایوس کن ہے۔ کیا بات یہیں ختم ہوگئی؟ کیا ایمان کی بلند چوٹی پر پہنچ جانے والی جماعت یوں ہی مٹ گئی؟ اخدود کی جانکاہ اذیتوں کے ساتھ مٹ گئی ؟ اور کیا وحشت وسفاکیت کا مظاہرہ کرنے والا سرکش گروہ یوں ہی بچارہا؟
بلاشبہہ مادی نقطۂ نظر سے اس انجام پر رُوح کو خلش اور دل کو کھٹک ہوتی ہے۔ لیکن قرآن مومنین کو ایک دوسرا ہی تصور دیتا ہے۔ وہ ایک دوسری ہی حقیقت سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ وہ انھیں ان قدروں کے مزاج سے آگاہ کرتا ہے، جو اُن کی میزان ہیں۔ اس معرکے کی سرحدیں بتاتا ہے جس میں وہ شریک ہیں۔
اس کے نزدیک یہ زندگی، اس زندگی کی لذّتیں اور اذیتیں اس دنیا کی کامرانیاں اور محرومیاں ہی قابلِ لحاظ نہیں۔ یہی وہ پونجی نہیں جس پر سود و زیاں کا فیصلہ ہو۔ نصرتِ مادی، غلبہ و اقتدار کے تنگ دائرے میں ہی محصور نہیں، کہ یہ تو نصرت کی محض ایک صورت ہے۔
خدا کی میزان میں قابلِ لحاظ چیز صرف عقیدہ ہے، خدا کے بازار میں چلنے والی پونجی تو بس ایمان ہے۔ نصرت کی سب سے ارفع و اعلیٰ شکل یہ ہے کہ روح مادے پر، عقیدہ اذیتوں پر، اور ایمان آزمایشوں پر غالب رہے۔
بلاشبہہ اس واقعے میں مومنین کی روحیں خوف و اَلم پر غالب رہیں، زمین اور زندگی کے علائق پر حاوی رہیں اور آزمایشوں پر پوری طرح فتح یاب رہیں۔ وہ اس شان سے غالب رہیں کہ ساری نوعِ انسانی، ہردور کی نوعِ انسانی اس پر فخرکرسکتی ہے۔ اور غور کرو تو یہی اصل غلبہ ہے۔ موت کس کو نہیں آتی، موت تو سبھی کو آتی ہے، اور مختلف انداز سے آتی ہے لیکن سب کے لیے یہ رُتبۂ بلند کہاں؟! یہ غلبہ و نصرت، یہ شرف و عزت، اور یہ ذکر دوام کہاں؟! یہ تو بس انھی کا نصیب تھا۔ یہ خدا کا خصوصی انعام و اِکرام تھا کہ وہ نیک روحیں موت میں تو سب کی شریک رہیں، مگر عزّوشرف میں سب سے منفرد رہیں۔ پھر عزّوشرف بھی ایسا کہ زمین کی وسعتیں بھی اس کے لیے ناکافی ہوئیں۔ اسی لیے تو نہ صرف روے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں میں اس کا چرچاہوابلکہ ملائِ اعلیٰ کے قدسیوں اور آسمان کے فرشتوں میں بھی اس کا شہرہ ہوا۔
مومنین کے لیے یہ کچھ مشکل نہ تھا کہ ایمان کی ہزیمت گوارا کر کے خود اپنی جان بچالیتے، مگر یہ سودا کتنے خسارے کا ہوتا۔ کتنا عظیم خسارہ ہوتا ان کا بھی، اور ساری نوعِ انسانی کا بھی! کتنا عظیم خسارہ ہوتا اگر وہ اس تصور کا خون کرڈالتے، کہ عقیدہ ہی زندگی کی روح اور آزادی ہی اس کی جوت ہے۔ اگر سرکش قوتیں جسم سے گزر کر روح پر بھی حاوی ہوجائیں، تو حقیقت میں یہی موت ہے۔
اس تصور میں کتنی بلندی ہے اور کتنی رعنائی بھی! آگ میں جلتے ہوئے بھی ان کے دل اسی تصور سے معمور تھے۔ اسی تصور کی شمعیں ان کے سینوں میں فروزاں تھیں۔ چنانچہ فانی جسم تو جل جاتے ہیں، مگر یہ بلند تصور نہ صرف فتح یاب ہوتا ہے، بلکہ آگ میں پڑ کر اور زیادہ نکھر آتا ہے۔
پھر اس معرکے کا میدان بس زمین یا یہ دنیوی زندگی ہی نہیں۔ اور اس کے شرکا و مشاہدین کسی ایک نسل کے انسان ہی نہیں۔ زمین کے ہنگاموں میں آسمان کے فرشتے بھی شریک ہیں۔ وہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور سب کے گواہ بھی ہوں گے۔ پھر جن پیمانوں سے وہ انھیں ناپتے ہیں، وہ بھی بالکل مختلف ہیں، انسانی پیمانوں سے انھیں کوئی واسطہ نہیں۔ علاوہ ازیں آسمان پر رہنے والی یہ نیک روحیں مادر گیتی کے فرزندوں سے کئی گنا زائد ہیں۔ اور یہ مسلّم ہے کہ ان کی مدح و ستایش اور ان کی تعظیم و توقیر کے مقابلے میں انسانی تعریف و تحسین اور انسانی مدح و ستایش کی کوئی قیمت نہیں۔
پھر ان سب کے علاوہ آخرت بھی ہے۔ اور وہی اصل ہے جس سے اس دنیا کا بھی سررشتہ جاکر مل جاتا ہے۔ یہ بات جہاں ایک قطعی حقیقت ہے، وہیں عقیدۂ مومن کی جان اور اس کی اہم بنیاد بھی ہے۔
گویا معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اصل انجام ابھی سامنے نہیں آیا۔ لہٰذا واقعات کی چند ظاہری کڑیوں کی ہی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنا صحیح نہ ہوگا، کہ یہ محض وہم و گمان ہوگا، سنجیدگی اور حقیقت پسندی سے اُسے کوئی واسطہ نہ ہوگا۔
پہلی نگاہ انتہائی تنگ اور محدود نگاہ ہے، جو عجلت پسند انسان کی نگاہ ہے۔ قرآن دوسری وسیع اور دُوررس نگاہ ہی مومنین کے اندر پیدا کرنی چاہتا ہے کیوں کہ یہی نگاہ صحیح ایمانی تصور کی بنیاد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ایمان و اطاعت، آزمایشوں پر صبر، اور فتنوں سے شکست نہ کھانے پر بطورِ انعام جن چیزوں کا وعدہ فرمایا، وہ کچھ اسی انداز کی ہیں، مثلاً:
۱- وہ قلبی سکون و اطمینان کی دولت ِ لازوال سے مالامال ہوں گے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد ۱۳:۲۸) جو لوگ ایمان لائے، اور جن کے دلوں کو یادِ الٰہی سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ سن لو، یادِالٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
۲- وہ خداے رحمن کی خوشنودیوں سے بہرہ مند ہوں گے، اس کی چاہتوں سے سرفراز ہوں گے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا (مریم ۱۹:۹۶) بلاشبہہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے، جلد ہی رحمن ان کے لیے محبت پیدا کردے گا۔
۳- وہ ملائِ اعلیٰ کی نورانی محفلوں میں فرشتوں کی پاکیزہ و مقدس مجلسوں میں یاد کیے جائیں گے اور وہاں ان کے چرچے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب بندے کی اولاد مرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے: میرے بندے کی اولاد تم لے آئے؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کا جگر گوشہ لے آئے؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تب میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اور اناللہ پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنائو ، اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔(ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے متعلق بندے کا جیسا گمان ہوگا مجھ کو ویسا ہی پائے گا۔ اور مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے، تو مَیں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں۔ وہ مجھے کسی محفل میں یاد کرتا ہے ، تو مَیں اس کو اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔ وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو مَیں اس سے دوگز قریب ہوتا ہوں۔ وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔(بخاری، مسلم)
۴- ملائِ اعلیٰ کی محبتیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہوں گی اور فرشتے دعا کریں گے:
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِo (المؤمن۴۰ :۷) وہ جو عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں، اور جو اس کے اِردگرد ہیں، اپنے رب کی حمدوتسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان لانے والوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، ہمارے رب! تیرا علم اور تیری رحمت ہر شے کو محیط ہے۔ تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے انھیں معاف کردے اور انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچالے۔
۵- وہ اگر شہید ہوئے تو فنا ہونے کے بجاے ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہوجائیں گے اور وہ خدا کے خصوصی مہمان بن کر جنت کی نعمتوں سے آسودہ و شادکام ہوں گے:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ o فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضْلٍ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَo (اٰلِ عمرٰن۳:۱۶۹-۱۷۱) اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے، انھیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں رزق پارہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے، اس پر خوشیاں مناتے ہیں اور ان کے بارے میں بھی وہ خوش ہورہے ہیں، جو ان کے پیچھے رہ گئے ہیں، ابھی ان سے ملے نہیں ہیں کہ انھیں بھی نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی حزن۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر مگن ہیں اور مطمئن ہیں کہ اللہ اہلِ ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار باغی و سرکش اور نافرمان بندوں کی آخرت میں پکڑ کرنے اور دنیا میں ایک وقت تک انھیں ڈھیل دیتے رہنے کا وعدہ فرمایا۔ بلاشبہہ کبھی کبھی اس نے دنیا میں بھی پکڑ کی۔ لیکن یہ اصل اور بھرپور سزا نہ تھی کہ اصل اور بھرپور سزا تو آخرت میں ہی ملے گی:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمًّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ o مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُئُ وْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَ اَفْئِدَتُھُمْ ھَوَآئٌ o (ابراھیم ۱۳:۴۲-۴۳) دنیا میں کافروں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے، یہ تو بس چار دن کی بہار ہے، پھر تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، وہ کتنی بُری جاے قرار ہے۔ یہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو اس سے غافل نہ سمجھو، وہ تو انھیں بس اس دن کے لیے ٹال رہا ہے، جب کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، اپنے سر اُٹھائے دوڑتے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف پلٹ نہ سکیں گی اور ان کے دل اُڑے جاتے ہوں گے۔
فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ o یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّھُمْ اِِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ o خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْہَقُھُمْ ذِلَّۃٌ ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ o (المعارج ۷۰: ۴۲-۴۳) اب چھوڑ دو انھیں، باتیں بنائیں اور کھیلیں، یہاں تک کہ وہ دن ان کے سامنے آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ وہ دن، جب کہ یہ قبروں سے تیزی سے نکلیں گے، جیسے کسی نشانے کی طرف دوڑ رہے ہوں۔ نگاہیں جھکی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اس طرح انسانی زندگی کا سرا ملائِ اعلیٰ کی زندگی سے جاملا، دنیا کا تعلق آخرت سے جڑگیا، اور تنہا زمین ہی معرکۂ خیروشر، رزمِ حق و باطل اور کشاکش ایمان و طغیان کا میدان نہ رہی، دنیوی زندگی ہی اس سلسلے کی آخری کڑی یا اس کش مکش کے فیصلے کی آخری میعاد نہیں ٹھیری۔ نیز زندگی اور اس سے تعلق رکھنے والی لذتیں اور اذیتیں، شادکامیاں اور محرومیاں ہی خدا کی میزان میں قابلِ لحاظ نہ ہوئیں۔
اس طرح زمان و مکان کی حدیں ٹوٹ گئیں، قدروں اور پیمانوں میں وسعت آگئی۔ مومن کی دنیائیں لامحدود ہوگئیں۔ اس کے عزائم اور حوصلوں میں بلندی آگئی۔ ظاہر ہے اس کے بعد مومن کی نگاہ میں دنیا اور اس کی لذتوں کی کیا وقعت ہوسکتی ہے۔ وہ تو جوں جوں آفاق کا مشاہدہ کرتا، اور کائنات کی وسعتوں سے باخبر ہوتا ہے، اس کے اندر رفعت و بلندی آتی جاتی ہے۔ اصحاب الاخدود کا یہ واقعہ اس پہلو سے انتہائی اہم اور اس بلندو اشرف اور جامع تصورِ ایمانی کا بہترین شاہکار ہے۔
تاریخِ دعوت نے زمین پر تحریکِ اسلامی کے مختلف انجام دیکھے ہیں۔ اس نے قومِ نوحؑ، قومِ ہود ؑ، قومِ شعیب ؑ اور قومِ لوطؑ کی بربادی بھی دیکھی ہے،اور مختصر سی مومن جماعت کی نجات بھی۔ مگر یہاں پہنچ کر قرآن خاموش ہوجاتا ہے۔ وہ نجات یافتہ گروہ کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے بعد کا دور کیسا رہا۔ یہ مثالیں اس سنت ِ الٰہی کا پتا دیتی ہیں کہ عذابِ الٰہی کا تازیانہ کبھی دنیا میں ہی نمودار ہوکر سرکش منکرین حق کی گردنِ استکبار توڑ دیتا ہے۔ گرچہ اصل اور بھرپور سزا تو آخرت میں ہی ملے گی۔
تاریخِ دعوت نے فرعون اور آلِ فرعون کی غرقابی اور موسٰی ؑ اور قومِ موسٰی ؑکی سربلندی کا بھی مشاہدہ کیا ہے، اور یہ بھی دیکھا ہے کہ قومِ موسٰی ؑجب تک خیروصلاح میں سب سے نمایاں رہی اس وقت تک وہ قوت و اقتدار کی مالک رہی۔ گرچہ وہ کبھی کامل استقامت کا ثبوت نہ دے سکی۔ نہ زمین پر دین الٰہی کو بہ حیثیت ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی قائم کرنے کا ہی رُتبہ بلند حاصل کرسکی۔ یہ مثال پہلی مثالوں سے کچھ مختلف ہے۔
تاریخِ دعوت نے ان مشرکین کی بربادیوں کا بھی نظارہ کیا ہے جنھوں نے حق کو قبول کرنے اور رسولِؐ خدا پر ایمان لانے سے مسلسل اعراض کیا، اور ان پیروانِ رسولؐ کا دورِ اقبال بھی دیکھا ہے جو ایمان و یقین کی تلوار ہاتھ میں لے کر سارے عالم پر چھاگئے۔ اور پھر نظامِ الٰہی کی ایسی زبردست اور پُرشکوہ سلطنت قائم کی جو اپنی نظیر آپ تھی، کہ ویسی سلطنت پہلے کبھی قائم ہوئی تھی نہ بعد میں ہی ہوسکی۔
مگر ان سب کے پہلو بہ پہلو وہ انجام بھی سامنے آنا ناگزیر تھا جس پر واقعۂ اخدود سے روشنی پڑتی ہے۔ اس طرح کا انجام سامنے آنا ناگزیر تھا کہ مومنین بچ نہ سکیں اور کفار کی گرفت نہ ہو، تاکہ علَم بردارانِ حق آگاہ رہیں کہ راہِ دعوت میں کبھی اس قسم کے انجام سے بھی سابقہ پڑسکتا ہے۔ نیز اُن کے دائرۂ اختیار میں کچھ بھی نہیں، ان کی لگام اور عقیدے کی زمام سب خدا کے ہی ہاتھ میں ہے۔
ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں، پھر چلے جائیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اللہ سے ہی رشتہ جوڑیں۔ عقیدے کو زندگی پر ترجیح دیں، ایمان کو آزمایشوں پر غالب رکھیں اور فکروعمل میں اخلاص و للہیت پیدا کریں۔ انجام کیا ہوگا؟ کاوشوں کا نتیجہ کیا ہوگا؟ زمانے کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہ ان کے سوچنے کی چیزیں نہیں، یہ تو خدا کی مرضی پر ہے، وہ جو چاہے گا، فیصلہ فرمائے گا۔ چاہے گا تو ان کے ساتھ پچھلی کسی تحریک کا سا معاملہ کرے گا، یا وسیع علم و حکمت کی بنیاد پر کسی اور انجام کا فیصلہ فرمائے گا۔
وہ تو اللہ کے مزدور ہیں۔ جہاں بھی، جس وقت بھی اور جس طرح بھی وہ چاہے گا، ان سے کام لے گا۔ پھر انھیں ان کی مزدوری ملے گی۔ دعوت کا انجام کیا ہوگا؟ یہ نہ اُن کے اختیار میں ہے، نہ وہ اس کے مکلف ہیں، کہ یہ تو مالک کا کام ہے مزدوروں کا کام نہیں۔ ان کا کام تو بس یہ ہے کہ اپنی ڈیوٹی ادا کریں اور اپنی مزدوری لیں۔
پہلی قسم میں انھیں قلب و ذہن کی یکسوئی ، احساس و شعور کی بلندی، فکروتصور کی رعنائی سارے بندھنوں سے رست گاری اور خوف و اضطراب سے آزادی ملے گی۔
دوسری قسط میں ملائِ اعلیٰ کی مدح و ستایش اور فرشتوں کی تعظیم و تکریم کا گراں بہا صلہ ملے گا۔پھر سب سے بڑی قسط آخرت میں ملے گی: آسان حساب، عظیم نعمتیں۔ اور ہرقسط کے ساتھ ان کو سب سے بڑی نعمت ملے گی: خدا کی خوشنودی اور یہ رُتبۂ بلند کہ وہ خدا کے منتخب بندے ہیں۔ وہ اس کے فیصلے نافذ ہونے کا ذریعہ اور اس کی قدرت کے ظہور کا واسطہ ہیں۔ وہ زمین پر جو کچھ کرنا چاہے گا ان ہی کے ذریعے سے کرے گا۔
قرآنی تربیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بالکل یہی کیفیت ہوگئی تھی وہ اپنی شخصیت سے آزاد اور ذاتی اختیارات سے بالکل دست بردار ہوگئے تھے۔ وہ بس مالک کے مزدور تھے، کہ خدا کی رضا ان کی رضا تھی اور خدا کی پسند ان کی پسند تھی۔
قرآنی ہدایات کے ساتھ ساتھ رسولِؐ خدا کی تربیت بھی اپنا کام کرتی۔ وہ قلب و نگاہ کا رُخ جنت کی طرف پھیرکر خدا کی مشیت پر اور ان کے فیصلوں پر صبر کرنے اور ہمیشہ راضی برضا ہونے کی ترغیب دیتی۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمارؓ اور ان کے ماں باپ کو دیکھتے کہ وہ مکے کی گھاٹیوں میں بڑی بے دردی سے ستائے جارہے ہیں۔ اس وقت آپؐ ا س سے زیادہ کچھ نہ فرماتے: صبر اٰل یاسر اِن موعدکم الجنۃ، ’’آلِ یاسر صبر کرو، تمھارا ٹھکانا جنت ہے‘‘۔
حضرت خبابؓ بن الارتّ فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سایے میں ایک چادر کا تکیہ بنائے آرام فرما رہے تھے۔ ہم نے بطور شکایت عرض کیا: آپؐ خدا سے نصرت کی درخواست نہیں کرتے؟ ہمارے لیے آپؐ دعا نہیں فرماتے؟آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے تو یہ حال تھا کہ گڑھا کھود کر آدمی کو گاڑ دیا جاتا، پھر سر پر آرا رکھ کر بیچ سے چیر دیا جاتا، اور لوہے کی کنگھیاں کی جاتیں جن سے گوشت کھرچ جاتا، لیکن پھر بھی وہ دین سے برگشتہ نہ ہوتا۔ بخدا یہ دین قائم ہوکر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعا(یمن) سے حضرموت تک کا سفر کرے گا، اور راستے میں اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ بس چرواہے کو بھیڑیوں کا ڈر رہے گا۔ مگر (افسوس کہ) تم جلدی مچاتے ہو۔(بخاری)
ہرواقعے کے پیچھے خداے تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جو ہستی پوری کائنات کا نظم چلاتی ہے، جو اس کے ایک ایک گوشے کی خبر رکھتی ہے، جو اس کے لیے سارے واقعات و حوادث کی نگرانی کرتی اور اس کے تمام اجزا میں سازگاری پیدا کرتی ہے، وہی ہستی یہ جان سکتی ہے کہ اس کے مخفی پردئہ غیب میں کیا کیا حکمتیں پنہاں ہیں۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد ہم پر ایک واقعے کی حکمتیں کھلتی ہیں، جب کہ خود اس کے دور کے لوگ ان سے بالکل بے خبر تھے اور شاید ان کے ذہن میں رہ رہ کر یہ سوال بھی اُبھرتا رہا ہوگا کہ کیوں؟ میرے رب ایسا کیوں؟ خو د یہ سوال کرنا ہی ایسی جہالت ہے جس سے مومن بچتا ہے۔ کیونکہ اوّل روز سے ہی وہ جانتا ہے کہ ہرفیصلۂ الٰہی کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ پھر اس کے عالمِ تصورکی وسعت، اس کی قدروں اور پیمانوں کی آفاقیت اور اس کے زمان و مکان کی لامحدودیت شروع سے ہی اس طرح کے سوالات سے اسے بے نیاز کردیتی ہے، اور وہ کاروانِ قضاوقدر کے ساتھ پورے سکون و اطمینان کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
قرآن ایسے افراد تیار کرنا چاہتا تھاجو اس بارِ امانت کو اُٹھا سکیں۔ ایسے افراد کے لیے ضروری تھا کہ ان میں اتنی مضبوطی اور اتنی بے لوثی ہو کہ وہ ہرچیز لٹاتے ہوئے اور ہرطرح کی اذیتیں جھیلتے ہوئے بھی دنیا کی کسی چیز پر پُرشوق نگاہیں نہ ڈالیں، جن کی نگاہیں صرف آخرت کی طرف اُٹھیں، جو صرف رضاے الٰہی کے طلب گار ہوں ، جو حیاتِ دنیا کی پوری مسافت تکلیفوں، اذیتوں، مصیبتوں اور محرومیوں کے ساتھ طے کرنے کے لیے تیار ہوں، جو قربانیوں پر قربانیاں پیش کرنے، حتیٰ کہ خطرات کے نرغے میں گھرے رہنے کے لیے ہرآن مستعد ہوں۔ پھر ان سب کا صلہ وہ دنیا میں نہ چاہتے ہوں، اگرچہ یہ صلہ دعوت کی کامیابی، اسلام کی سربلندی، مسلمانوں کی فتح و ظفریابی ، حتیٰ کہ قہرالٰہی کے نتیجے میں ظالموں کی تباہی و بربادی ہی کیوں نہ ہو۔
چنانچہ جب اس طرح کے نفوس تیار ہوگئے جو اس بات سے آگاہ تھے کہ اس دنیا میں انھیں صرف دینا ہی دینا ہے، اور حق و باطل کے درمیان فیصلے کے لیے آخرت کا انتظار کرنا ہے۔ نیز انھوں نے کامل اخلاص و للہیت کا ثبوت دے دیا ، تو اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت سے نواز کر انھیں زمین کا امین بنایا، شخصی مصالح اور ذاتی اغراض کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ شریعت الٰہی جیسی عظیم امانت کو اُٹھا سکیں۔ اور سچ پوچھو تو وہ امین بننے کے پوری طرح اہل ہو بھی چکے تھے کیونکہ ان سے کسی دنیوی منفعت کا وعدہ نہیں تھا کہ اس کے وہ طلب گار ہوتے، نہ کسی دنیوی منفعت کی طرف اُنھوں نے حسرت سے دیکھا ہی تھا کہ اس سے وہ نوازے جاتے۔ وہ سچ مچ اللہ تعالیٰ کے لیے بے لوث ہوچکے تھے کہ رضاے الٰہی کے سوا ان کے ذہن میں کوئی سودا نہ تھا۔
وہ آیتیں جن میں فتح و نصرت اور مالِ غنیمت، مومنین کے ہاتھوں مشرکین کوتباہ کرنے کے وعدے تھے، وہ سب مدینہ میں نازل ہوئیں، جب کہ یہ ساری چیزیں مومنین کے پروگرام سے خارج ہوچکی تھیں، اور وہ ان چیزوں کے ذرا بھی آرزومند نہ تھے۔ پھر فتح و نصرت آنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ مشیت ِ الٰہی اس نظام کو واقعاتی دنیا میں ایک ایسی عملی اور محسوس شکل دینا چاہتی تھی، جسے قومیں اپنی نگاہوں سے دیکھ سکیں۔ گویایہ فتح و ظفرمندی ان کی قربانیوں کے صلے میں نہ تھی بلکہ فیصلۂ الٰہی اور تقدیر الٰہی کے تحت تھی، جو گوناگوں حکمتوں پر مشتمل ہوتی ہے، گرچہ ہم ان سے بے خبر ہوتے ہیں۔
یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر داعیانِ حق کو ٹھیر کر غور کرنا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی جگہ ہوں، کسی بھی دور سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس سے نشاناتِ راہ بالکل روشن ہوکر سامنے آجائیں گے۔ نیز ان فداکارانِ حق کے پیروں کو جمائو حاصل ہوگا، جو بہرقیمت اس راہ کو طے کرنے کا عزم رکھتے ہوں گے۔ چنانچہ اس خوف ناک راستے کو طے کرتے ہوئے جو انسانی کھوپڑیوں اور کٹی ہوئی آنتوں سے پٹا ہوااور بے گناہوں کے خون سے لالہ زار ہوگا، اسی دنیا میں فتح و نصرت کے آرزومند یا حق و باطل کے درمیان فیصلے کے خواہاں نہ ہوں گے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ خود اپنے دین کے لیے انھیں فتح و نصرت سے نوازنا چاہے گا تو نوازے گا لیکن یہ ان کی قربانیوں کا صلہ نہ ہوگا۔ ہاں، یہ فیصلہ نہ ہوگا، کیونکہ دنیا صلے کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ خود خدا کے ایک فیصلے کا نفاذ ہوگا، جس کے لیے وہ اپنے کچھ منتخب بندوں سے کام لے گا۔ اور یہ انتخابِ بلند اُن کے عزّوشرف کے لیے کافی ہے، کہ اس کے سامنے نہ دنیا کوئی چیز ہے نہ زندگی یا اس کی تلخیوں اور مسرتوں کی کوئی حقیقت ہے۔
وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ (البروج۸۵:۸) اور انھیں ان کی صرف یہ بات بُری لگی کہ وہ اللہ پر ایمان رکھیں جو غلبے کا مالک اور حمدوستایش کا سزاوار ہے۔
اشرافِ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال و دولت کے انبار، حکومت کے تخت و تاج اور عیش و عشرت کے سامان، غرض ساری ہی چیزیں پیش کی تھیں، کیوں؟ صرف اس لیے کہ آپؐ عقیدے کی جنگ سے باز آجائیں، اس معاملے میں نرمی و رواداری سے کام لیں۔ اور اگر معاذاللہ ان میں سے کسی چیز پر بھی آپؐ راضی ہوگئے ہوتے، تو آپؐ سے ان کی کوئی جنگ نہ رہتی۔
یاد رہے! یہ دراصل عقیدے کا مسئلہ اور عقیدے کی جنگ ہے۔ اہلِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ جب بھی کسی دشمن کے مقابلے میں صف بستہ ہوں، ان کے ذہن و دماغ میں یہ حقیقت مستحضر رہے کیونکہ عداوت کی بنیاد صرف عقیدہ ہے۔ لڑائی کی وجہ بس یہ ہے کہ وہ خداے عزیزوحمید پر ایمان رکھتے، اسی کے آگے جھکتے اور اسی کی اطاعت کرتے ہیں۔
دشمنانِ دین کی کبھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عرصۂ جنگ میں مذہبی جھنڈے کے علاوہ کوئی اور جھنڈا بلند کردیں۔ خواہ وہ اقتصادی جھنڈا ہو یا سیاسی اور قومی جھنڈا تاکہ وہ اہلِ ایمان کو جنگ کی حقیقت سے غافل رکھ کر ان کے سینوں میں عقیدے کے دہکتے ہوئے انگارے سرد کردیں۔ مومنین کا فرص ہے کہ وہ دھوکا نہ کھائیں، ان کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ چوکنّے رہیں کہ یہ ایک ناپاک سازش اور ایک خفیہ مقصد کے لیے ملمّع کاری ہے، جو ایسا کرتا ہے وہ دراصل فتح و نصرت کے حقیقی اسلحے سے انھیں غافل کرنا چاہتا ہے۔ خواہ یہ فتح و نصرت کسی بھی شکل میں ہو، روحانی ترقی کی شکل میں جیساکہ واقعۂ اُخدود میں اہلِ ایمان کو حاصل ہوئی، یا مادی غلبہ و اقتدار کی شکل میں جو روحانی ترقی کا ہی نتیجہ ہے، جیساکہ قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
جھنڈے کے رُخ پر یہ غازہ ملنے کی زندہ مثال وہ عالم گیر صلیبی تحریک ہے، جس کی آج یہ کوشش ہے کہ موجودہ جنگ کی حقیقت کے سلسلے میں ہم کو فریب میں رکھے اور تاریخ کے بدنما چہرے پر کسی طرح کوئی حسین و جمیل نقاب ڈال دے۔ چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ صلیبی جنگوں کی آڑ میں دراصل سامراجی جنگ لڑی جارہی تھی۔ ہرگز نہیں، بلکہ خود بعد میں نمودار ہونے والے سامراج کی آڑ میں صلیبی روح کی وہ دیوی تھی، جس کے اندر اتنی قوت و ہمت نہ تھی کہ قرونِ وسطیٰ کی طرح عُریاں و بے حجاب ہوسکتی۔ کیونکہ چند مسلمانوں کی قیادت نے اسے عقیدے کی آہنی چٹان سے ٹکرا کر چُور چُور کر دیا تھا۔ انھی مسلمانوں میں صلاح الدین ایوبی اور توران شاہ مملوکی بھی تھے۔ یہ مسلمان ان نسلوں سے تھے جو اپنی قومیتیں بھول کر بس عقیدے کی ہورہی تھیں۔ چنانچہ وہ عقیدے کے جھنڈے تلے فتح و نصرت سے ہم کنار ہوئیں:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ o (البروج ۸۵:۸) اور انھیںان کی صرف یہ بات بُری لگی کہ وہ اللہ پر ایمان رکھیں، جو اقتدار کا مالک اور حمدوستایش کا سزاوار ہے۔
سچ کہا، سچ کہا خداے برتر نے، اور غلط کہا، ان جھوٹے مکاروں نے!
(نقوشِ راہ، معالم فی الطریق، ترجمہ: عنایت اللہ سبحانی،ص ۲۶۶-۲۸۵)