ایمان داری مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ روپے وغیرہ کا لالچ نہیں ہے، لیکن میرے دفتر میں میرے ساتھیوں نے تھوڑی بہت بے ایمانی کر کے کافی دولت اکٹھا کرلی ہے، جب کہ میں اپنے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مشکل ہی سے انتظام کرپاتا ہوں۔ کیا موقع و محل سے تھوڑی بہت بے ایمانی کے لیے چھوٹ کی گنجایش ہے کہ اللہ تو معاف کرنے والا ہے۔ میں بہت ہی تذبذب میں ہوں۔ میری اُلجھن کو دُور فرمائیں۔
دین میں ایمان داری کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا تاکیدی حکم بیان کیا گیا ہے اور اس کا التزام کرنے والوں کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء۴:۵۸) ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔
سورۃ المومنون (آیات ۱-۱۱) اور سورۃ المعارج (آیات ۲۲-۳۵) میں جہاں اہلِ ایمان کے بہت سے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، وہیں ان کے اس وصف کو بھی نمایاں کیا گیا ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْن (المومنون۲۳:۸، المعارج۷۰: ۳۲) ’’جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں‘‘۔ اس کے بالمقابل جو لوگ عہد و امانت کی پابندی نہیں کرتے ان کے دین و ایمان کی نفی کی گئی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبوں میں یہ جملے اکثر پڑھا کرتے تھے: لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ ، وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ (مسند احمد،ج ۳/۱۳۵، ۱۵۴، ۲۱۰) ’’جس شخص میں امانت داری نہ ہو اس کا ایمان معتبر نہیں، اور جو شخص عہد کا پابند نہ ہو اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔
’امانت داری‘ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی رقم بطور حفاظت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خرد برد نہ کرے، بلکہ اس کا بہت وسیع مفہوم ہے۔ کوئی راز کی بات بتائی جائے اور اس کو افشا کرنے سے منع کیا جائے تو وہ امانت ہے۔ کوئی ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت ہے۔ آدمی کہیں ملازم ہو تو ملازمت سے متعلق کام امانت ہے۔ کچھ خدمات اس سے متعلق ہوں تو ان کی صحیح طریقے سے انجام دہی امانت ہے۔ انسان کی صلاحیت اور وقت اس کے پاس اللہ کی امانت ہیں۔ کسی طرح کے مالی معاملات اس سے متعلق ہوں تو ان کا صحیح ریکارڈ رکھنا امانت ہے۔
دین کا صحیح تصور یہ ہے کہ زندگی کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں اور اس کے حکموں کے مطابق گزرے۔ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا ہی عبادت نہیں ہے، بلکہ خالص دنیاوی کام بھی اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق انجام دیے جائیں تو وہ بھی عبادت ہیں۔ لوگ سمجھتے تھے کہ صدقہ صرف اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے ارشادات میں متعدد ایسے کاموں کو بھی صدقہ شمار کرایا جنھیں مطلق دنیاوی کام سمجھا جاتا تھا اور جن میں اجروثواب ہونے کا کسی کے ذہن میں بھی خیال نہ آتا تھا۔ ایک موقعے پر آپؐ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو متعدد باتوں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
وَ اِنَّکَ مَھْمَا اَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَۃٍ فَاِنَّھَا صَدَقَۃٌ حَتّٰی اللُّقْمَۃَ تَرْفَعُھَا اِلٰی فِییِّ امْرَاْتِکَ -(بخاری، کتاب الوصایا، حدیث: ۲۷۴۲) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، یہاں تک وہ لقمہ بھی جسے تم اُٹھا کر اپنی بیوی کو دو گے۔
وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ اِلَّا اُجِرْتَ بِھَا حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَجْعَلُھَا فِی فِییِّ امْرَاْتِکَ - (مسلم،کتاب الوصیۃ، حدیث: ۴۲۰۹) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے ، اگر اس سے تمھارا مقصود اللہ کی رضاجوئی ہے تو اس پر اجر کے مستحق ہوگے، حتیٰ کہ اس لقمے پر بھی تمھیں اجر ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔
آپ نے لکھا ہے کہ ایمان داری کے ساتھ ملازمت سے آپ کو جو کچھ ملتا ہے اس سے آپ کے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مشکل سے انتظام ہوپاتا ہے، جب کہ آپ کے دفتر کے ساتھیوں نے تھوڑی بہت بے ایمانی کرکے کافی دولت اکٹھی کرلی ہے۔ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ بے ایمانی کے ذریعے اکٹھی کی گئی اپنے ساتھیوں کی دولت کو آپ رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، حالانکہ انھوں نے اپنے لیے دولت نہیں بلکہ آگ کے انگارے اکٹھے کیے ہیں۔ کیا جہنم کی آگ کے انگارے رشک کرنے کی چیز ہیں!
اس موقعے پر قارون کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ، جس کا تذکرہ قرآن نے بہت مؤثر اور عبرت انگیز اسلوب میں کیا ہے۔ اس نے بیان کیا ہے کہ قارون حضرت موسٰی ؑ کی قوم، یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و دولت کے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں ہی طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔ اس کی عیش و عشرت اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر جو لوگ دنیاوی زندگی کے طالب تھے وہ کہنے لگے: ’’کاش! ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑے نصیبے والا ہے‘‘۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا تو وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے: ’’افسوس ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، نپا تُلا دیتا ہے‘‘ (ملاحظہ کیجیے سورئہ قصص ۲۸:۷۶-۸۲)۔ دوسروں کا مال و دولت دیکھ کر اہلِ ایمان کا کیا رویہ ہونا چاہیے، اسے بھی قرآن نے قارون کے مذکورہ واقعے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ قارون کے ٹھاٹھ دیکھ کر جب کچھ لوگوں نے اس پر رشک کا اظہار کیا تو ’’جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے: افسوس تمھارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو‘‘۔ (القصص ۲۸:۸۰)
ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ ’’ایمان داری مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، روپے وغیرہ کا لالچ نہیں ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خوبی میں مزید اضافہ کرے، لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ ’’کیاموقع و محل سے تھوڑی بے ایمانی کی جاسکتی ہے؟‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بے ایمانی کی شناعت ، دنیاوی اور اُخروی دونوں اعتبار سے اس کا جرم ہونا، اور روزِقیامت اس کی سزا کی ہولناکی کا احساس نہیں ہے۔ غلاظت غلاظت ہے، خواہ زیادہ ہو یا کم۔ میٹھے اور لذیذ مشروب کے ایک گلاس میں پیشاب کا ایک قطرہ ڈال دیا جائے تو کیا کوئی سلیم الطبع انسان اسے پینا گوارا کرے گا؟ جس طرح بے ایمانی کرکے حاصل کیے گئے لاکھوں کروڑوں روپے حرام ہیں، اسی طرح ایک پیسہ بھی حرام ہے۔
آپ کو فکر ہے کہ ایمان داری کے پیسے سے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل سے ہوپاتا ہے، اس لیے تھوڑی بے ایمانی سے کچھ اور رقم حاصل کر کے، ان کے لیے آسایش فراہم کردی جائے۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے کہ آدمی دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت خراب کرلے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَبْدٌ اَذْھَبَ آخِرَتَہٗ بِدُنْیَا غَیْرِہٖ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث ۳۹۶۶، اسے ابن ابی شیبہ نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ علامہ البانی نے اسے ضعیف، لیکن علامہ بوصیری نے حسن قرار دیا ہے) ’’قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں بدترین درجہ اس شخص کا ہوگا جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت برباد کردے‘‘۔
دنیا میں تمام انسان آزمایش کی حالت میں ہیں۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مال و دولت دے کر آزما رہا ہے اور کچھ لوگوں کو اس سے محروم کرکے۔ سب امتحان گاہ میں ہیں۔ کچھ کے ہاتھ میں حساب (Mathematics) کا پرچہ دیا گیا ہے اور کچھ کے ہاتھ میں ادب (Literature) کا۔ بڑا نادان ہوگا وہ شخص جو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجاے دوسرے کے پرچے میں تاک جھانک کرتا رہے، یا لٹریچر کے پرچے میں ریاضی کے کیلکولیشن کرنے لگے۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، زندگی کے عام فقہی مسائل، دوم،ص ۱۵۲-۱۵۵)
آج کل انٹرنیٹ پر www.debitpay.org کے ذریعے ایک کاروبار کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں ایک شخص ۴ہزار سے ۵۰ہزار روپے تک کا معاملہ (package) کرسکتا ہے اور پیکج لینے والا ایک مخصوص رقم کمپنی کو ادا کر کے ایک مخصوص تعداد (۳۰تا ۳۰۰؍اشتہارات) انٹرنیٹ پر دیکھنے کا پابند ہوتا ہے۔ ان اشتہارات کے دیکھنے کے بدلے پیکج لینے والے شخص کے اکائونٹ میں ایک تا ۱۵ڈالر کی رقم جمع ہوجاتی ہے۔ مقررہ تعداد میں اشتہارات ۲۴گھنٹے میں دیکھنے لازم ہیں۔ بصورتِ دیگر وہ رقم نہیں ملے گی۔ یہ اسکیم تین سال کے لیے ہے۔ جو اشتہارات دیکھنالازم ہیں ان میں مختلف اقسام کی اشیا کے اشتہارات شامل ہیں، جب کہ ان اشتہارات میں خواتین کے مخصوص لباس کے اشتہارات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اگر مذکورہ شخص مزید لوگوں کو ممبر بنوائے گا تو اس کے بدلے میں بھی ایک خاص رقم اس شخص کو ملے گی۔ مزیدبرآں اگر متعلقہ شخص اشتہار دیکھے بغیر next کا بٹن دباتا جائے تو یہ بھی ممکن ہے۔ اس نوعیت کے کاروبار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
یہ معاملہ یا اسی طرح کے دوسرے معاملات شرعی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہیں۔ کیونکہ مذکورہ بالا معاملے میں کئی قسم کی قباحتیں موجود ہیں، مثلاً ایک شخص ایک مخصوص رقم ۴ہزار تا ۵۰ہزار روپے تک دے کر کمپنی کے ساتھ معاملہ کرتاہے، جب کہ کمپنی اس رقم کو کس قسم کے کاروبار میں لگاتی ہے یہ بات نامعلوم ہے۔ ممکن ہے کہ کاروبار سود پر مبنی ہو، شراب سے متعلقہ ہو، کسی دیگر غیرشرعی نوعیت کا ہو۔ دوسرے، اگر یہ شراکت یا مضاربت کا معاملہ ہو تو شراکت یا مضاربت چند شرائط کے ساتھ مخصوص ہے، جس میں کاروبار کی نوعیت و مدت، منافع کی تقسیم کی شرح، نقصان کی ذمہ داری وغیرہ شامل ہیں، جب کہ مذکورہ کاروبار میں اس طرح کی کوئی صورت شامل نہیں ہے۔ تیسرے، پیکج لینے والا شخص اشتہارات کی ایک مخصوص تعداد دیکھنے کا پابند ہے۔ جہاں تک اشتہارات کا تعلق ہے جو اشتہارات آج کل انٹرنیٹ پر اور دیگر میڈیا پر دکھائے جارہے ہیں ان میں نامحرم عورتوں کو نازیبا لباس بلکہ بے لباسی کی صورت میں دکھایا جا رہا ہے، جو کہ آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے۔ ا س طرح ان اشتہارات کا دیکھنا بھی غیرشرعی حرکات کے زمرے میں آتا ہے۔ مزیدبرآں ان اشتہارات پر وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع بھی اور لغویات میں بھی شمار ہوتا ہے، جب کہ انسان قیامت کے روز ’’اپنی عمر کہاں گزاری‘‘کا جواب دینے کا بھی پابند ہے اور عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (المومنون ۲۳:۳) کے حکم کا بھی پابند ہے، یعنی لغویات سے دُور رہتا ہے۔
اسی طرح دیگر افراد کو ممبرشپ لے کر دنیا میں ایک بُرائی کو فروغ دینا اور منکرات میں ان کو مشغول کردینے کے زمرے میں آتا ہے اور جتنے لوگ اس کاروبار میں شریک ہوتے جائیں گے، ان کا وبال بھی پہلے شخص اور درجہ بہ درجہ دیگر اشخاص پر آتاجائے گا۔ یہ بات ارشاد باری تعالیٰ وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا ط (النساء ۴:۸۵) ’’اور جو بُرائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘ کے مصداق ہے۔ اس لیے ایسے تمام افراد جو اس قسم کے کاروبار میں ملوث ہیں انھیں اس سے نہ صرف الگ ہوجانا چاہیے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرنی چاہیے۔(ڈاکٹر میاں محمد اکرم)