حیاتِ انسانی کو منضبط، مربوط اور صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لیے جن چیزوں کو تمام شرائع الٰہیہ میں ہمیشہ سے اصل الاصول کی حیثیت حاصل رہی ہے ان کا ذکر خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب، قرآن حکیم میں سورئہ انعام میں وضاحت سے فرمایا ہے۔ آیت ۱۵۱ میں بیان کی گئی ان ۱۰پابندیوں میں سے چوتھی بنیادی بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا: ’’اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی‘‘۔ اسی پارے میں سورئہ انعام سے اگلی ہی سورئہ اعراف کی آیت ۳۳ میں جن چیزوں کے حرام ہونے کا حکم دیا گیا ہے ان میں اس کا ذکر سرفہرست ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام___خواہ کھلے ہوں یا چھپے___ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے)‘‘۔ پھر سورئہ نحل کی آیت ۹۰میں اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور صلۂ رحمی کو اختیار کرنے کا حکم دینے کے بعد جن تین برائیوں سے دُور رہنے کی ہدایت فرماتا ہے ان میں بھی اولین فَحْشَآئِ ہے۔فرمان الٰہی ہے: اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفہیم میں رقم طراز ہیں: ’’تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔
پہلی چیزفَحْشَآئِ ہے جس کا اطلاق تمام بے ہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے، مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عریانی، عملِ قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بد کلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے، ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمایش کرنا وغیرہ۔
دوسری چیز منکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے بُرا کہتے رہے ہیں، اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔
تیسری چیز بغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۶۶-۵۶۷)
قرآن حکیم میں سورئہ نور کی آیت ۱۹ میں ارشاد ہوتا ہے:’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے…‘‘ سید مودودیؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں ’’یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی نشان دہی کر رہا ہے انھیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ روا داری برتی جائے دراصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۷۱)
قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی کئی مقامات پر فحش کی مذمت اور اس کے دنیا و آخرت میں اثرات بد سے متعلق آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ کتب احادیث میں بھی رسول اکرم ؐ کے بہت سے فرمودات میں مسلمانوں کو فحاشی، عریانی اور بے حیائی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں شدید وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں۔ مگر ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ آج ہم جس ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اس میں یہ سب برائیاں روز مرہ کا حصہ بن چکی ہیں اور ناچ، گانے، عریانی، فحاشی، بے حیائی، بد زبانی اور خواتین و حضرات کی مخلوط مجالس کے برائی ہونے کا تصور ہی ذہنوں سے محو ہوتا جا رہا ہے، چنانچہ برائی کو ہاتھ اور زبان سے روکنا تو ایک طرف، ہم اسے دل سے بُرا جاننے کے ایمان کے کم ترین درجے سے بھی محرومی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ معاشرے سے فحش کے انتہائی قبیح و قابل نفرت برائی ہونے کا احساس ہی نابود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب احساس زیاں ہی نہیں ہو گا تو متاع کارواں کے لٹنے کا دکھ کسے اور کیوں کر ہو گا۔ یوں اس قیمتی متاع کو بچانے اور اس کی حفاظت کا خیال اور جذبہ ہی مفقود رہے گا تو کسی عملی اقدام کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے ؎
واے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ذرائع ابلاغ نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے بڑے دین دار گھرانوں میں وہ وہ کچھ اہل خانہ اکھٹے بیٹھ کر دیکھتے اور سنتے ہیں، جو پہلے لوگ تنہائی میں دیکھتے، سنتے بھی شرم محسوس کرتے تھے۔ اب ہر چوک کے ہر جانب آویزاں عظیم الجثہ ہورڈنگز پر نیم عریاں خواتین ماڈلز کے اشہارات لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، جو حادثات کا سبب بھی بنتے ہیں، مگر مال و دولت کی ہوس نے لوگوں کو ایسا اندھا کر دیا ہے کہ کسی کو ان کے جانی، اخلاقی، معاشرتی اور مادی نقصانات کی کوئی پروا نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گانے بجانے کی محافل میں شرکت ہی باعث عار سمجھی جاتی تھی مگر اب فن، فیشن اور ثقافت کے نام پر عریانی اور فحاشی کو کھلے بندوں اور سینہ تان کر فروغ دیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام تو دُور کی بات ہے، اب اس خرافات پر معاشرے کے شرفا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب ٹیلی ویژن چینلوں کے خبرنامے تک ان لغویات سے محفوظ نہیں رہے اور تفریح کے نام پر خبروں کے دوران وہ کچھ دکھایا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ …!
بڑے فخر سے اب یہ اعلانات کیے جاتے ہیں کہ پاکستان اب ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں فیشن انڈسٹری کے سب سے زیادہ میلے سجائے جاتے ہیں۔ چنانچہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت تمام بڑے بڑے شہروں میں سال بھر فیشن میلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اپریل ۲۰۱۴ء کے دوسرے ہفتے لاہور کے ایکسپو سنٹر میں ’فیشن ویک‘ منایا گیا جس کے دوران براے نام لباس زیب تن کیے ماڈل لڑکیوں نے اپنے ہم پیشہ لڑکوں کے ہمراہ جسم کی ایسے ایسے پہلوئوں سے نمایش کی کہ قلم بیان کرنے سے قاصر ہے، یہ خرافات سرعام لاہور میں پورا ہفتہ جاری رہیں، ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات کے صفحات پر اس کی بھر پور کوریج بھی ہوتی رہی، مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت، دینی تنظیم، سماجی گروہ یا عالمِ دین کی جانب سے کوئی ایک بھی صداے احتجاج سنائی نہیں دی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اخلاقی اور معاشرتی زوال کی کس سطح کو چھو رہے ہیں۔ ورنہ زیادہ دُور کی بات نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں یورپی آقائوں کو خوش کرنے کی خاطر پاکستان کا ’روشن چہرہ‘ پیش کرنے کے لیے لاہور میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی سرپرستی میں مخلوط ’میراتھن ریس‘ کا اہتمام کیا گیا تو پورا معاشرہ اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا اور چودھری پرویز الٰہی کو اپنے اس اقدام کے لیے سو جواز اور معذرتیں پیش کرنا پڑیں۔ اسی دور میں جامعہ پنجاب میں موسیقی کی کلاسیں شروع کرنے کی کوشش کی گئی تو طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس کی مزاحمت کے لیے میدان میں آ گئی مگر اب یوں لگتا ہے کہ پورا معاشرہ بے حسی اور بے بسی کے سمندر میں غرق ہو چکا ہے۔ معروف شاعر عنایت علی خاں نے ایسی ہی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا آئین ملک میں شرعی قوانین کی تنفیذ اور اسلامی اقدار کے فروغ کو حکومت کی ذمہ داری ٹھیراتا ہے۔ مگر شرافت کی سیاست کے علم بردار ہونے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ یہاں سنگ مقید ہیں اور سگ آزاد۔ حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں برائی کو اپنانا آسان اور نیکی کو اختیار کرنا مشکل ہے۔ امانت، دیانت اور شرافت کی اقدار کا نام لینا بھی،اب لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بننے کا باعث ہے، جب کہ رشوت، سفارش، غنڈا گردی، بدمعاشی اور بددیانتی تیز رفتار ترقی کی ضمانت ہیں… حکمران اپنی ذمہ داریاں کلی طور پر فراموش کر چکے ہیں …!!
عدالتیں یقینا کچھ عرصے سے فعال ہیں اور ان کے بعض فیصلے معاشرے میں بعض پہلوئوں سے بہتری اور امید کا سبب بنے ہیں مگر اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اعلیٰ عدالتوں کے اکثر فیصلے ہنگامی اور وقتی نوعیت کے امور سے متعلق ہی سامنے آئے ہیں۔ دُور رس اثرات کے حامل معاملات میں عدالتیں برسرکار آنے پر تیار دکھائی نہیں دیتیں… اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف سود پر مبنی معاشی نظام عدالت عظمیٰ کی عدم توجہی کے باعث ملک و قوم پر مسلط ہے اور وفاقی شرعی عدالت کے سود کو حرام قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل میں حکم امتناعی کے ذریعے سودی نظام کو دوام بخشنے کے بعد عدالت عظمیٰ اس کیس کی سماعت پر آمادہ نہیں اور سالہا سال سے یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہے… جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک رٹ دائر کی تھی۔ وہ اس کیس پر فیصلے کے انتظار میں اپنے خالق حقیقی کے حضور پہنچ چکے ہیں مگر ہماری عدالتوں کو چند سماعتوں کے بعد اس اہم معاملے پر پیش رفت کا وقت ہی نہیں مل سکا ۔
ضرورت ہے کہ ملک کے دین سے محبت رکھنے والے سیاسی و سماجی رہنما اور علماے کرام سرجوڑ کر بیٹھیں، اور ملک کو تباہی و بربادی سے بچانے اور آخری حدوں کو چھوتے ہوئے اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ورنہ وقت نہایت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ اپنی بے حسی اور بے عملی کا کیا جواز اپنے رب کے حضور پیش کریں گے…؟؟