حیاتِ انسانی کو منضبط، مربوط اور صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لیے جن چیزوں کو تمام شرائع الٰہیہ میں ہمیشہ سے اصل الاصول کی حیثیت حاصل رہی ہے ان کا ذکر خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب، قرآن حکیم میں سورئہ انعام میں وضاحت سے فرمایا ہے۔ آیت ۱۵۱ میں بیان کی گئی ان ۱۰پابندیوں میں سے چوتھی بنیادی بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا: ’’اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی‘‘۔ اسی پارے میں سورئہ انعام سے اگلی ہی سورئہ اعراف کی آیت ۳۳ میں جن چیزوں کے حرام ہونے کا حکم دیا گیا ہے ان میں اس کا ذکر سرفہرست ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام___خواہ کھلے ہوں یا چھپے___ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے)‘‘۔ پھر سورئہ نحل کی آیت ۹۰میں اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور صلۂ رحمی کو اختیار کرنے کا حکم دینے کے بعد جن تین برائیوں سے دُور رہنے کی ہدایت فرماتا ہے ان میں بھی اولین فَحْشَآئِ ہے۔فرمان الٰہی ہے: اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفہیم میں رقم طراز ہیں: ’’تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔
پہلی چیزفَحْشَآئِ ہے جس کا اطلاق تمام بے ہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے، مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عریانی، عملِ قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بد کلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے، ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمایش کرنا وغیرہ۔
دوسری چیز منکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے بُرا کہتے رہے ہیں، اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔
تیسری چیز بغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۶۶-۵۶۷)
قرآن حکیم میں سورئہ نور کی آیت ۱۹ میں ارشاد ہوتا ہے:’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے…‘‘ سید مودودیؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں ’’یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی نشان دہی کر رہا ہے انھیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ روا داری برتی جائے دراصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۳۷۱)
قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی کئی مقامات پر فحش کی مذمت اور اس کے دنیا و آخرت میں اثرات بد سے متعلق آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ کتب احادیث میں بھی رسول اکرم ؐ کے بہت سے فرمودات میں مسلمانوں کو فحاشی، عریانی اور بے حیائی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں شدید وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں۔ مگر ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ آج ہم جس ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اس میں یہ سب برائیاں روز مرہ کا حصہ بن چکی ہیں اور ناچ، گانے، عریانی، فحاشی، بے حیائی، بد زبانی اور خواتین و حضرات کی مخلوط مجالس کے برائی ہونے کا تصور ہی ذہنوں سے محو ہوتا جا رہا ہے، چنانچہ برائی کو ہاتھ اور زبان سے روکنا تو ایک طرف، ہم اسے دل سے بُرا جاننے کے ایمان کے کم ترین درجے سے بھی محرومی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ معاشرے سے فحش کے انتہائی قبیح و قابل نفرت برائی ہونے کا احساس ہی نابود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب احساس زیاں ہی نہیں ہو گا تو متاع کارواں کے لٹنے کا دکھ کسے اور کیوں کر ہو گا۔ یوں اس قیمتی متاع کو بچانے اور اس کی حفاظت کا خیال اور جذبہ ہی مفقود رہے گا تو کسی عملی اقدام کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے ؎
واے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ذرائع ابلاغ نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے بڑے دین دار گھرانوں میں وہ وہ کچھ اہل خانہ اکھٹے بیٹھ کر دیکھتے اور سنتے ہیں، جو پہلے لوگ تنہائی میں دیکھتے، سنتے بھی شرم محسوس کرتے تھے۔ اب ہر چوک کے ہر جانب آویزاں عظیم الجثہ ہورڈنگز پر نیم عریاں خواتین ماڈلز کے اشہارات لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، جو حادثات کا سبب بھی بنتے ہیں، مگر مال و دولت کی ہوس نے لوگوں کو ایسا اندھا کر دیا ہے کہ کسی کو ان کے جانی، اخلاقی، معاشرتی اور مادی نقصانات کی کوئی پروا نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گانے بجانے کی محافل میں شرکت ہی باعث عار سمجھی جاتی تھی مگر اب فن، فیشن اور ثقافت کے نام پر عریانی اور فحاشی کو کھلے بندوں اور سینہ تان کر فروغ دیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام تو دُور کی بات ہے، اب اس خرافات پر معاشرے کے شرفا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب ٹیلی ویژن چینلوں کے خبرنامے تک ان لغویات سے محفوظ نہیں رہے اور تفریح کے نام پر خبروں کے دوران وہ کچھ دکھایا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ …!
بڑے فخر سے اب یہ اعلانات کیے جاتے ہیں کہ پاکستان اب ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں فیشن انڈسٹری کے سب سے زیادہ میلے سجائے جاتے ہیں۔ چنانچہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت تمام بڑے بڑے شہروں میں سال بھر فیشن میلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اپریل ۲۰۱۴ء کے دوسرے ہفتے لاہور کے ایکسپو سنٹر میں ’فیشن ویک‘ منایا گیا جس کے دوران براے نام لباس زیب تن کیے ماڈل لڑکیوں نے اپنے ہم پیشہ لڑکوں کے ہمراہ جسم کی ایسے ایسے پہلوئوں سے نمایش کی کہ قلم بیان کرنے سے قاصر ہے، یہ خرافات سرعام لاہور میں پورا ہفتہ جاری رہیں، ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات کے صفحات پر اس کی بھر پور کوریج بھی ہوتی رہی، مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت، دینی تنظیم، سماجی گروہ یا عالمِ دین کی جانب سے کوئی ایک بھی صداے احتجاج سنائی نہیں دی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اخلاقی اور معاشرتی زوال کی کس سطح کو چھو رہے ہیں۔ ورنہ زیادہ دُور کی بات نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں یورپی آقائوں کو خوش کرنے کی خاطر پاکستان کا ’روشن چہرہ‘ پیش کرنے کے لیے لاہور میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی سرپرستی میں مخلوط ’میراتھن ریس‘ کا اہتمام کیا گیا تو پورا معاشرہ اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا اور چودھری پرویز الٰہی کو اپنے اس اقدام کے لیے سو جواز اور معذرتیں پیش کرنا پڑیں۔ اسی دور میں جامعہ پنجاب میں موسیقی کی کلاسیں شروع کرنے کی کوشش کی گئی تو طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس کی مزاحمت کے لیے میدان میں آ گئی مگر اب یوں لگتا ہے کہ پورا معاشرہ بے حسی اور بے بسی کے سمندر میں غرق ہو چکا ہے۔ معروف شاعر عنایت علی خاں نے ایسی ہی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا آئین ملک میں شرعی قوانین کی تنفیذ اور اسلامی اقدار کے فروغ کو حکومت کی ذمہ داری ٹھیراتا ہے۔ مگر شرافت کی سیاست کے علم بردار ہونے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ یہاں سنگ مقید ہیں اور سگ آزاد۔ حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں برائی کو اپنانا آسان اور نیکی کو اختیار کرنا مشکل ہے۔ امانت، دیانت اور شرافت کی اقدار کا نام لینا بھی،اب لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بننے کا باعث ہے، جب کہ رشوت، سفارش، غنڈا گردی، بدمعاشی اور بددیانتی تیز رفتار ترقی کی ضمانت ہیں… حکمران اپنی ذمہ داریاں کلی طور پر فراموش کر چکے ہیں …!!
عدالتیں یقینا کچھ عرصے سے فعال ہیں اور ان کے بعض فیصلے معاشرے میں بعض پہلوئوں سے بہتری اور امید کا سبب بنے ہیں مگر اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اعلیٰ عدالتوں کے اکثر فیصلے ہنگامی اور وقتی نوعیت کے امور سے متعلق ہی سامنے آئے ہیں۔ دُور رس اثرات کے حامل معاملات میں عدالتیں برسرکار آنے پر تیار دکھائی نہیں دیتیں… اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف سود پر مبنی معاشی نظام عدالت عظمیٰ کی عدم توجہی کے باعث ملک و قوم پر مسلط ہے اور وفاقی شرعی عدالت کے سود کو حرام قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل میں حکم امتناعی کے ذریعے سودی نظام کو دوام بخشنے کے بعد عدالت عظمیٰ اس کیس کی سماعت پر آمادہ نہیں اور سالہا سال سے یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہے… جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک رٹ دائر کی تھی۔ وہ اس کیس پر فیصلے کے انتظار میں اپنے خالق حقیقی کے حضور پہنچ چکے ہیں مگر ہماری عدالتوں کو چند سماعتوں کے بعد اس اہم معاملے پر پیش رفت کا وقت ہی نہیں مل سکا ۔
ضرورت ہے کہ ملک کے دین سے محبت رکھنے والے سیاسی و سماجی رہنما اور علماے کرام سرجوڑ کر بیٹھیں، اور ملک کو تباہی و بربادی سے بچانے اور آخری حدوں کو چھوتے ہوئے اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ورنہ وقت نہایت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ اپنی بے حسی اور بے عملی کا کیا جواز اپنے رب کے حضور پیش کریں گے…؟؟
کیا خوب صورت نام ہے، ’’پاکستان‘‘ …پاک لوگوں کا وطن۔ یہ مملکت خداداد دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے یقینا خالق کائنات کی عظیم نعمت ہے جسے صرف خوب صورت نام ہی عطا نہیں کیا گیا بلکہ کلمہ طیبہ اس کا جواز ٹھیرا، اوررمضان المبارک کی ستائیسویں شب، یعنی شب ِ قدر کو اسے وجود بخش کر، گویا اس مملکت کے مبارک و مقدس ہونے کی بشارت دی گئی، اور جس کے بارے میں دور حاضر کے عظیم مفکر، مدبر اور مفسر قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا کہ ’’یہ ملک ہمارے لیے مسجد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ایک ایک انچ کا دفاع ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں‘‘۔
مالک الملک نے پاکستان کو ہر لحاظ سے بے پناہ وسائل سے بھی مالا مال کیا ہے، مگر اسے یہاں کے مقتدر طبقے کی نا اہلی اور بے تدبیری ہی کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بھوک اور ننگ کو یہاں کے عوام کا مقدر بنا دیا گیا ہے اور زبردست صلاحیتوں کی حامل یہ قوم عملاً بھکاری اور عالمی استعمار کی غلام بن چکی ہے۔ آج یہ ملک بحران در بحران کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ہرطرف مہنگائی و بے حیائی، بے کاری و بے روز گاری، بے عملی و بدامنی، بد انتظامی و بدعنوانی اور ان سب پر مستزاد بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا راج ہے اور ان میں سے ہر ایک خرابی دوسری میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بجلی اور توانائی کی عدم دستیابی کے باعث کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں جہاں پیداوار میں کمی و اشیا کی نایابی اور مہنگائی و گرانی میں اضافہ ہوتا ہے وہیں بے چینی اور بے روز گاری بھی بڑھتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بے بس، بے کس اور بے روزگار لوگوں کو اس کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر بیوی بچوں سمیت خودکشی کرلیں یا پھر سڑکوں پر آ کر احتجاج کی راہ اختیار کریں، چنانچہ ملک بھر میں مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ محنت کش مزدور، کسان، تاجر، طلبہ، اساتذہ اور کلرک، غرض یہ کہ تمام ہی طبقات احتجاج میں شامل ہیں کہ سنگین سے سنگین تر ہوتے ہوئے بحران نے تمام ہی طبقوں کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ احتجاجاً دکانیں، اور مارکیٹیں، کاروبار اور دفاتر بند کیے جا رہے ہیں۔ سڑکوں پر آکر نعرہ بازی، دھرنوں، سینہ کوبی، ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کا سلسلہ شہر شہر اور گائوں گائوں جاری ہے… جس کا جواب حکمرانوں کی جانب سے مسائل کے حل کی یقین دہانی اور عملی اقدامات کے بجاے ریاستی تشدد سے دیا جا رہا ہے اور مظاہرین کو لاٹھیوں، گولیوں اور آنسو گیس کی اندھا دھند شیلنگ کا نشانہ بنا کر طاقت سے عوامی احتجاج کو دبانے کا حربہ آزمایا جا رہا ہے، جو ماضی میں کبھی کا رگر ہوا ہے نہ اب ہو گا۔
ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمران عوامی غم و غصہ کا سبب بننے والے مہنگائی و بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل حل کرنے پر فوری توجہ دیں، لیکن عملاً صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اوّل تو حکمران اس صورت حال سے مکمل طور پر لاپروا ہیں اور اپنے عیش و عشرت میں مگن دکھائی دیتے ہیں، یا اگر کبھی اس جانب توجہ فرماتے بھی ہیں تو مسائل کے حل کی جانب کسی پیش رفت کا ذکر کرنے کے بجاے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹ اور ۲۰؍اپریل کو اسلام آباد میں دو روزہ قومی توانائی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں وزیر اعظم، چاروں صوبوں کے وزراے اعلیٰ اور دیگر متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی مگر اس کانفرنس میں مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کے بجاے پرانی گھسی پٹی تجاویز پر بحث مباحثے میں وقت ضائع کیا گیا۔ ان رنگ برنگی تجاویز کے بجاے اگر وزیر اعظم ، وزراے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام اپنے اپنے دفاتر اور رہایش گاہوں میں ائر کنڈیشنر، بجلی کے دیگر آلات اور آرایش اور غیر ضروری روشنیاں وغیرہ بند کر کے بجلی کا خرچ ۵۰ سے ۷۵فی صد کم کرنے کی عملی مثال پیش کرتے تو پھر عوام سے بھی بجلی کی بچت میں اپنی تقلید کی اپیل کرتے اچھے لگتے۔ اسی طرح بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کی پیش رفت سے بھی عوام کو آگاہ کیا جاتا تو خاصے حوصلہ افزا اثرات برآمد ہو سکتے تھے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ جان بوجھ کر صورت حال کو خراب سے خراب تر کیا جا رہا ہے اور سوچ سمجھ کر ملک کو تباہی کے گہرے غار کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ گویا عوام کو پاکستان کے مستقبل سے مایوس کر کے دشمنوں کا کام آسان کرنا مطلوب ہے… ورنہ حقائق تو اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے اور یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ ضرورت صرف خوف خدا سے سرشار مخلص اور اہل و دیانت دار قیادت کی ہے جو عوام کے مسائل کو اپنے مسائل اور قومی وسائل کو امانت سمجھ کر استعمال کرے، اور جسے ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہے کہ اس زندگی کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک پائی کا حساب آخرت میں رب کے حضور پیش ہو کر دینا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی بیداری کے موجودہ دور میں حقائق کو جھٹلانا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اب ممکن نہیں رہا، چنانچہ خود حکومت کے فراہم کردہ اعدادو شمار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ توانائی کا موجودہ بحران مصنوعی ہے اور گرانی کی ناقابل برداشت حالیہ لہر بھی اپنے اللے تللوں کے لیے حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے۔ اس وقت دستیاب وسائل میں بھی ملک میں بجلی پیدا کرنے صلاحیت ۲۰ ہزار میگاواٹ ہے، جب کہ ملک کی تمام ضروریات ملا کر بجلی کی مجموعی ضرورت ۱۵ہزار میگاواٹ ہے، لیکن اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار ساڑھے نو سے ۱۰ ہزار میگاواٹ بتائی جارہی ہے۔ ملک میں ۱۳پاور اسٹیشن بند پڑے ہیں اور نظام کے اندر موجود ۳ہزار۸ سو میگاواٹ بجلی واپڈا یا پیپکو نے از خود نظر انداز کر رکھی ہے۔ بند پاور اسٹیشنوں میں پانچ رینٹل پاور پراجیکٹس، تین انڈی پینڈنٹ پاور پراجیکٹس، اور پانچ تھرمل پاور اسٹیشن شامل ہیں۔ اگر بجلی کی تقسیم کی ذمے دار کمپنیاں ان پہلے سے موجود توانائی کے ذرائع سے استفادہ کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں اور ان کی طویل عرصے سے روکی گئی ادایگیاں کر دی جائیں تو بجلی کی قلت فوری طور پر ختم ہو سکتی ہے اور ۱۵ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت کے مقابل ۱۷ہزار میگاواٹ بجلی دستیاب ہو سکتی ہے۔ کیا ان اعداد و شمار کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ بجلی کا بحران حکمرانوں نے اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد کی خاطر از خود پیدا کر رکھا ہے۔
سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار اور طلب میں فرق ۲۳ فی صد ہے۔ گویا ضرورت اگر ۱۰۰ یونٹ کی ہے تو ۷۷یونٹ بجلی دستیاب ہے۔ حساب کو سادہ اور آسان بنانے کے لیے ہم اگر کمی کو ۲۵ فی صد بھی تسلیم کر لیں تو خود سرکار کے فراہم کردہ ان حقائق کی روشنی میں ایک چوتھائی بجلی کی کمی ہے۔ اب ذرا حساب لگایئے کہ دن کے ۲۴ گھنٹے میں اگر اس کمی کو تمام علاقوں میں یکساں تقسیم کیا جائے تو دن میں چھے گھنٹے بجلی بند اور ۱۸ گھنٹے بجلی سب کو دستیاب ہونی چاہیے لیکن یہاں تو معاملہ برعکس ہے۔ اخبارات میں ۱۸ سے ۲۲ گھنٹے تک بجلی کی بندش کی خبریں شائع ہو رہی ہیں… گویا دال میں لازماً کچھ کالا ہے…!!!
ذرا آگے چلیے، ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ خالق کائنات نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ نہایت کار آمد اور شان دار دھوپ سارا سال دستیاب ہے، آبی ذخائر کے لیے انتہائی موزوں مقامات کی نشان دہی ماہرین بار ہا کر چکے ہیں، کوئلے کے وسیع و عریض ذخائر سے قدرت نے ہمیں نواز رکھا ہے اور ایٹمی صلاحیت کے ہم مالک ہیں___ ان سب وسائل سے توانائی کے حصول میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟ حکمران انھیں فوری طور پر استعمال میں لا کر عوام کی پریشانی کا ازالہ کیوں نہیں کرتے، اسے بدنیتی یا نا اہلی قرار دیا جائے تو کیا یہ بدگمانی ہو گی یا حقیقت بیانی؟
برادر ہمسایہ ملک ایران انھی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرتا ہے بلکہ وافر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ایران کی حکومت نے پیش کش کی ہے کہ بجلی کے بحران سے نکالنے کے لیے فوری طور پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی سستے داموں پاکستان کو فراہم کرنے پر تیار ہے مگر پاکستانی حکومت ہے کہ اس پیش کش پر توجہ ہی نہیں دے رہی، حالانکہ ایرانی بجلی کے حصول میں کوئی تکنیکی رکاوٹ بھی در پیش نہیں۔ پاکستان بھر میں بجلی کی ترسیل کا مربوط نیٹ ورک موجود ہے جس کے ذریعے ایرانی بجلی نہایت آسانی سے ملک بھر میں پہنچائی جا سکتی ہے۔ کیا امریکا بہادر کے دبائو کے علاوہ کوئی حقیقی رکاوٹ ایرانی بجلی کے حصول میں ہے؟ رینٹل پاور پلانٹس کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجاے ہمارے حکمران ایران کی اس دوستانہ پیش کش سے استفادہ کیوں نہیں کرتے! ہم اپنے قومی مفادات کی خاطر ڈٹ جانے کی ہمت اپنے اندر آخر کب پیدا کریں گے!!
اس امر کا تذکرہ بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ گذشتہ دنوں امریکا اور پاکستان کے مابین جن اسٹرے ٹیجک مذاکرات کی بہت دھوم رہی، ان کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ ملک میں توانائی کے بحران سے متعلق جو دستاویز دوران مذاکرات امریکی آقائوں کو پیش کی گئی اس میں یہ اعتراف یا انکشاف خود حکومت کی جانب سے کیا گیا کہ آیندہ سالہا سال تک توانائی کے بحران میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ اس حکومتی دستاویز کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ملک میں توانائی کی قلت ۳ہزار۳سو میگاواٹ تھی جو اَب بڑھ کر ۵ہزار ۴ سو ۷۶ میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں یہ ۹ہزار، ۲۰۲۰ء میں ۱۴ ہزار ۲۰۲۵ء میں ۱۶ہزار۵سو اور ۲۰۳۰ء میں ۲۳ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ گویا سرکاری طور پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اصلاح احوال کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہیں!
جماعت اسلامی وطن عزیز کی منظم ترین سیاسی جماعت ہے جو دین کی اساس پر ملک کے نظام کو چلانے کی داعی ہے۔ اس جماعت کی فکر سے اختلاف رکھنے والے بھی اس کی قیادت اور کارکنوں کے اخلاص، امانت و دیانت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ جماعت کی قیادت نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے پہلے ’گو امریکا گو‘ تحریک کے ذریعے عوام میں بیداری کی ایک لہر برپا کی، پھر قوم کو اس کے خالق و مالک کی جانب متوجہ کرتے ہوئے ’رجوع الی اللہ‘ مہم کے ذریعے عوام تک رسائی کی سبیل پیدا کی، اور عوامی مسائل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مہنگائی، بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل اور ان پر حکومتی بے حسی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جو یقینا وقت کی آواز ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنی اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے، جب کہ ۱۹؍اپریل کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ایسے ہی ایک بڑے مظاہرے میں دو درجن کارکنوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اور اس کے بعد بھی پروگرام کے مطابق احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھ کر اپنے اخلاص اور سنجیدگی کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ عوام اپنے طور پر پہلے سے سڑکوں پر ہیں۔ اگر انھیں جماعت اسلامی کی صورت میں منظم، متحرک، امانت دار اور باکردار قیادت فراہم ہو گئی تو یہ تحریک برگ و بار لانے میں زیادہ وقت نہیں لے گی…!!!
وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار کو عوام کے مسائل اور مصائب پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اب پاکستان کے حالات کرغیزستان سے بہت زیادہ مختلف نہیں جہاں عوام نے ریاستی تشدد کے باوجود مہنگائی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کے ذریعے صدر قربان بیگ کو ملک سے فرار اور وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ طاقت کے زور پر عوام کو زیادہ دیر تک دبائے رکھنا ممکن نہ ہوگا … فاعتبروا یا اولو الابصار!