(آخری قسط)
ایک اور بحث جو اُٹھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی شکل میں دستور کے ہوتے ہوئے کسی پارلیمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون سازی کرے۔ یہاں بھی پورے خلوصِ نیت کے باوجود ان اصطلاحات کا مفہوم ذہن میں واضح نہ ہونے کے سبب یہ سوال اُبھرتا ہے۔ قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان دو مصادر کو ہرمعاملے میں فوقیت حاصل ہوگی لیکن ان دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے لحاظ سے نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اجتہاد، قیاس اور اجماع کے اصولوں کا استعمال کیا جائے گا۔ اجتہاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ نصوص میں کوئی اجتہاد نہیں ہوتا، بلکہ جہاں نصوص خاموش ہوں وہاں نصوص کی روشنی میں راے کے قائم کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ اگر اجتہاد کی بنیاد پر ایک صورتِ حال پر دوسری کو قیاس کرنا ہو تو اسے قیاس کہتے ہیں، اور جب اجتہاد پر ایک دور کے علما کا اتفاق ہوجائے تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔ وہ تمام مسائل اجتہادی کہے جاتے ہیں، جن کے بارے میں قرآن و سنت میں متعین طور پر واضح ہدایات موجود نہ ہوں۔
اسلامی نظامِ حکومت میں شوریٰ کو جو مرکزی مقام حاصل ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ باوجود اپنے تقویٰ، علم اور فقہی علم کے، ایک انسان ہے۔ وہ کوئی معصوم ہستی نہیں ہے۔ اس کو دوسرے اہل الراے کے مقابلے میں اپنے یقین اور اپنی راے کو اس درجے اہمیت دینے اور اس کے مانے جانے پر اصرار کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں دوسرے اہل الراے کی متفقہ راے یا ان کی اکثریت کو ردّ کردے۔ اگر ایک امرِاجتہادی میں کوئی خلیفہ اپنے یقین کو اس درجے شک و شبہے سے بالاتر سمجھتا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک معصوم شخص سمجھتا ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب اسلامی ریاست (مطبوعہ دارالفکر، لاہور) میں یہی پوزیشن واضح کی ہے اور اس وضاحت کے بعد مولانا اصلاحی فرماتے ہیں: ’’خلیفہ کے لیے مجلس شوریٰ کی اکثریت کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہونے کی اول دلیل تو وہ ہے جو صاحب ِ احکام القرآن ابوبکرجصاصؒ نے دی ہے کہ یہ شوریٰ کی فطرت کا اقتضا ہے کہ اہلِ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات بالکل بے معنی سی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں شوریٰ کا حکم تو اس شدومد سے دیا جائے اور مقصود صرف یہ ہو کہ چند لوگوں کو شریکِ مشورہ کر کے ذرا ان کی دل داری اور عزت افزائی کردی جائے۔ خلیفہ کے لیے ان کے مشوروں کی پابندی ضروری نہ ہو۔ صاحب ِ احکام القرآن کے نزدیک یہ شکل لوگوں کی دل داری اور عزت افزائی نہیں، ان کی دل شکنی اور توہین کے مترادف ہے‘‘۔(اسلامی ریاست، ص ۳۹)
اس دلیل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ ’’ایک شخص کے مقابلے میں ایک جماعت کی راے اپنے اندر صحت و اصابت کے زیادہ امکانات رکھتی ہے‘‘، مولانا فرماتے ہیں: ’’اس وجہ سے عقل و فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ خلیفہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں یا اپنے ہم خیال افراد کی راے کے حق میں اکثریت کی راے کو ردّ نہ کرے۔آخر ایک اجتہادی یا مبنی بر مصلحت معاملے میں اس کو یہ علم کس طرح ہوا کہ اس کی راے صحیح اور دوسروں کی راے غلط ہے۔ صحت اور غلطی کا امکان دونوں طرف ہے لیکن صحت کا غالب امکان اس طرف ہے جس طرف اکثریت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر فرد کے مقابل میں جمہور کے مسلک اور انفرادی اجتہاد کے بالمقابل اجماع کو شریعت میں ترجیح دی گئی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۹)
ہم نے اس طویل اقتباس کو اس لیے دینا پسند کیا کہ بعض حضرات پارلیمان کے حوالے سے یہ بات کہتے ہیں کہ اکثریت تو نااہل ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں اس وقت جو پارلیمنٹ پائی جاتی ہے اور جسے دستور شوریٰ کا نام دیتا ہے، اس میں نااہل افراد چاہے زیادہ ہوں، لیکن کیا اس بنا پر ایک اسلامی اصول کو ردّ کرنا شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟ ہونا یہ چاہیے کہ اصول بدلنے کے بجاے پارلیمنٹ میں ہی ایسے افراد لائے جائیں جو اہل، امانت دار اور دین کا علم رکھنے والے ہوں۔
دین کا کام کرنے والوں کو منفی فکر کی جگہ مثبت فکر کو اپنانا چاہیے اور قرآنِ کریم میں کسی ایک لفظ کے من مانے مفہوم نکالنے سے بچنا چاہیے۔ اگر قرآنِ کریم منکرینِ حق کے بارے میں کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو عقل استعمال نہیں کرتے یا سمجھتے نہیں، تو اکثر کا یہ مفہوم لینا کہ مسلمانوں میں بھی اکثریت جاہلوں کی ہی ہوگی، بہت نامناسب بات ہے۔ شوریٰ کے اصول کی وضاحت کرتے ہوئے ہم یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو ماننا کسی بھی جماعت کے امیر پر دینی طور پر واجب ہے۔ یہی شکل باشعور پارلیمنٹ میں بھی اختیار کی جائے گی۔
اگر پاکستان کا دستور یہ کہتا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور دستور کی دفعہ یہ کہتی ہے: شوریٰ یا پارلیمنٹ جو دستورسازی بھی کرے گی وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگی، اس کے خلاف نہ ہوگی لیکن بعض ممبران پارلیمنٹ اس کی خلاف ورزی کریں، تو معقول رویہ کیا یہ ہوگا کہ پارلیمان کو توڑ دیا جائے، دستور کو پھینک دیا جائے اور ایک ’جہاد‘ کے ذریعے نیا نظام نافذ کردیا جائے، یا پارلیمان میں ایسے افراد کو لایا جائے جو دستور کی پابندی اور قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کریں۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ شریعت اور قانون سازی کی اصطلاحات معروف علمی اصطلاحات ہیں۔ انھیں سمجھے بغیر جو تعبیر کسی کے ذہن میں آجائے اسے لے لینا اور عاجلانہ نتائج اخذ کرلینا ایک غیردانش مندانہ رویہ ہے۔ شریعت کی اصطلاح صرف قرآن و سنت کے لیے استعمال ہوتی ہے، جب کہ قانون سازی روزِ اوّل سے ان اسلامی اداروں نے کی ہے، جو شریعت اور حالاتِ حاضرہ کا علم رکھتے ہوں۔ اگر قرآن کریم یا حدیث شریف میں براہِ راست ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا ذکر نہیں پایاجاتا، تو یہ کام قرآن و سنت سے واقف ماہرین کا ہوگا کہ وہ قرآن و سنت کے واضح احکام اور بالواسطہ ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس نئے معاملے میں اجتہاد کے بعد قانون سازی کریں۔ ان کا یہ کرنا دینی فریضہ ہوگا، دین سے انحراف نہیں ہوگا۔ قانون سازی ہمیشہ انسانی اداروں نے ہی کی ہے۔ یہ ایک دینی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو اجتہاد کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آخر امام مالک ہوں یا امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ہوں یا امام احمد ابن حنبل، یا امام جعفر صادق یا امام ابن تیمیہ یا امام شاہ ولی اللہ دہلوی ہوں، ان حضرات نے قرآن و سنت کی بنیاد پر جو اجتہاد کیا اور پھر اس پر اجماع ہوا اور مسلم ریاستوں نے اس کی بنیاد پر قانون سازی کی، تو کیا یہ سب شرک کے مرتکب ہوئے؟
دین میں توازن اور عدل شرط ہے۔ جذباتیت سے بلند ہوکر اور دین کے مصادر کو سبقاً سبقاً سمجھنے کے بعد ان معاملات پر راے قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نوجوان نسل کسی انتہاپسندی کی شکار نہ ہو۔ قانون سازی کی بنیاد ہمیشہ قرآن و سنت رہی ہے اور رہے گی لیکن قانون سازی ہمیشہ ادارے اور افراد ہی کریں گے۔ اور ان کا ایسا کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفا اور بعد میں آنے والے ائمہ فقہا کی روایت پر عمل کرنا ہے۔ دورِجدید میں یہ کام پارلیمنٹ کرسکتی ہے اگر اس میں ایسے افراد منتخب ہوں، جو قرآن و سنت اور اسلامی فقہ میں مہارت رکھتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایسے بااختیار بورڈ بنائے جو اسے قانون سازی میں مدد دیں۔ یہ خیال نہ شرعی طور پر اور نہ عقلی طور پر درست ہے کہ بغیر کسی قانون سازی کے صرف قرآن و حدیث کو دستور مان لینا مسائل کا حل ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا تعلق ہے، یہ تو وہ بنیادی حقیقت ہے جو شرطِ ایمان ہے اور اس میں کسی اختلاف کی گنجایش نہیں، لیکن عقلِ عام (common sense ) کو استعمال کر کے یہ دیکھا جائے کہ کیا دنیا میں کسی جگہ بھی دستور اور قانون دونوں کا مفہوم ایک پایا جاتا ہے؟ کیا ایسے ممالک نہیں ہیں جہاں تحریری دستور نہیں ہے لیکن قانون ہے یا جہاں چند صفحات کا دستور ہے، جب کہ بیسیوں جلدوں میں قانون ہے۔ کیا فتاویٰ عالم گیری جو اورنگ زیب عالم گیر یا مجلّہ احکام عدلیہ جو عثمانی فرماں روا نے وضع کیا، قرآن کریم اور حدیث کے ہوتے ہوئے ایک کافرانہ، مشرکانہ یا طاغوتی اقدام تھا؟
دعوتِ دین کی حکمت عملی اور نفاذ احکامِ شریعت کی حکمت عملی ایک اہم موضوع ہے اور جب تک اس میں اولیات یا ترجیحات (priorities) کا تعین نہ کیا جائے، حصولِ مقصد میں دقت اور مشکل پیش آسکتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو یا کہیں اور، قرآن و سنت اور انبیاے کرام ؑ کے طریقِ دعوت کو سامنے رکھتے ہوئے مقام اور صورتِ حال کی مناسبت سے حکمت عملی کا وضع کرنا، ہرمقام پر درست حکمت عملی ہوگی، جو حالات اور مقامات کے لحاظ سے وضع کی جائے، جب کہ ہر حکمت عملی کا مشترک نکتہ اللہ کی حاکمیت کا قیام اور طاغوت کا انکار ہوگا۔
خلافت علی منہاج النبوہ کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور دیگرمعاملات میں ایک جانب اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ’القرآن‘ کو اور دوسری جانب قرآن کی تشریح اور اس پر مبنی تشریع کو اختیار فرمایا، اسی طرح دین کے مکمل ہوجانے کے بعد آپؐ کے بعد خلفا نے قرآن و سنت کو مصدراوّل مانتے ہوئے، حالات کی مناسبت سے مشاورت و اجتہاد کو استعمال کیا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے اجتہادات غیرمعمولی طور پر یہ شہادت دیتے ہیں کہ قانون سازی مشاورت کے ساتھ کیسے کی جاتی ہے۔
خلفاے راشدین کے بعد سب سے بڑا سانحہ، انتخاب سربراہِ مملکت کے حوالے سے، انتخابی خلافت کو موروثی حکومت میں تبدیل کرنے کا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس تحریف کے امکان کو سمجھتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں، گو وہ علم و تجربے اور تقویٰ میں کسی سے کم نہ تھے اور خلیفہ بننے کی شرائط پر پورے اُترتے تھے، یہ حکم دیا کہ وہ مشاورت میں شامل رہیں لیکن انھیں خلیفہ نہ بنایا جائے تاکہ موروثی حکومت کا آغاز نہ ہوسکے۔ یہی شکل حضرت علیؓ کی شہادت میں پیش آئی، جب آپؓ سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت حسنؓ کو خلیفہ بنایا جائے تو آپؓ نے فرمایا: یہ فیصلہ لوگ مسجد میں کریں گے، میں نہ منع کرتا ہوں نہ حکم دیتا ہوں۔ گویا خلیفہ کے انتخاب کا حق عوام کو دیا جانا سنت ِ خلفاے راشدین ہے۔
خلافت ِ راشدہ کے بعد جو لوگ حکمران ہوئے، بہ استثنا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، وہ حکمران تو مانے گئے لیکن انھیں خلیفہ نہیں مانا گیا۔ گو، وہ خود کو خلیفہ کہتے اور کہلواتے رہے۔ اسی بناپر اُمویوں کی حکومت دمشق میں ہو یا قرطبہ میں، فاطمین کی حکومت مصر میں ہو ، عثمانیوں کی حکومت ترکی اور شام و عراق پر ہو،ان میں سے کسی کو بھی ہم صحیح معنوں میں خلافت اور حکمرانوں کو خلیفہ نہیں کہہ سکتے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمان سلاطین کا دور تھا۔ عثمانیوں کی حکومت کو خلافت راشدہ کا تسلسل کہنا تاریخ کے ساتھ ظلم ہے۔
ایک بنیادی سوال جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ ہے کہ اگر ایک اُموی فرماں روا اپنی زندگی میں اپنے بعد حکومت کرنے کے لیے اپنے بیٹے یا بھائی کو مقرر کرتا ہے، تو اس کا یہ کرنا، قرآن کریم کی آیت اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام ۶:۵۷) کے مطابق درست ہے یا غلط؟ یہی سوال فاطمین مصر اور عثمانی فرماں روائوں کے حوالے سے اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں چاہیے کہ جذبات سے بالاتر ہوکر قرآن و سنت کے مطالعے کے بعد پہلے یہ طے کریں کہ حاکمیت اعلیٰ سے مراد کیا ہے؟ پھر قرآن و سنت کو دستور مانتے ہوئے یہ طے کریں کہ اس دستور کی روشنی میں قانون سازی کون کرے اور جو یہ کام کرے گا اس کی خصوصیات کیا ہونی چاہییں؟ پھر اِن خصوصیات کے افراد کو اُن اداروں میں لایا جائے جو قانون سازی کرنے کے ذمہ دار قرار دیے گئے ہوں۔
یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ چونکہ ۶۶سال میں جو لوگ پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے وہ کردار اور عمل کے لحاظ سے اچھے نہیں تھے، اس لیے پارلیمنٹ کا ادارہ ہی غلط ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عدلیہ میں ایسے جج مقرر ہوجائیں جو رشوت خور ہوں، تو کیا اس بناپر عدلیہ کے ادارے کو ختم کرنا بہتر ہوگا یا ایسی شرائط کا لگانا جن کی بناپر عدلیہ میں صرف ایمان دار لوگ آسکیں۔
پھر یہ کہنا کہ مغربی جمہوریت میں فیصلے کے لیے ۵۱ فی صد ووٹ کا ہونا کافی ہے، جب کہ اسلام کسی تناسب کا قائل نہیں ہے، سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ فقہ اسلامی کے بنیادی اصولِ اجماع کا مطلب کیا ہے؟ کیا اجماع ہمیشہ ۹۰ فی صد افراد کی راے پر ہوگا یا ۵۱ فی صد راے پر بھی اجماع ہوجائے گا؟
ایک سوال جو بار بار اُٹھایا جاتا ہے، یہ ہے کہ کیا مغربی جمہوریت کی اصلاح ہوسکتی ہے اور اگر اصلاح کی جائے تو کس طرح؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر ایک مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس پر غور کیا جائے تو شاید ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ایک مشرک جو سات پشتوں سے شرک میں پلابڑھا ہو، مسلمان ہوسکتا ہے یا نہیں، یا جب تک اس کے جسم کے خون کا ہرقطرہ جو حرام پر پلا بڑھا تھا، نکال کر جسم میں نیا اور پاک خون ڈال کر پہلے پاک صاف نہ کیا جائے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا تو ایسی صورتِ حال میں عقل کا فیصلہ کیا ہوگا؟
قرآن کریم نے سود کی ابدی حُرمت کے ساتھ کیا یہ بات نہیں کہی کہ جو حرام ماضی میں کھاچکے وہ کھاچکے اب آیندہ ایک رتی کے برابر سود بھی نہ لیا جائے۔ اس لیے اگر ایک تنظیمی ڈھانچا ایسا ہے جس میں ایک بادشاہ ہے یا فوجی آمر، یا غیرفوجی آمر ہے، اس کے تحت بے بس پارلیمنٹ ہے، بے بس عدلیہ ہے، بے بس پولیس ہے، بے بس سول انتظامیہ ہے اور اس تنظیم کو درست کرنا ہو تو کیا محض آمر کو مار کر تمام نظام ایک دم درست ہوجائے گا یا سارے نظام کو تہس نہس کرکے نئے سرے سے ایک تنظیمی ڈھانچا بنایا جائے گا، یا یہ طے کیا جائے گا کہ سب سے اہم اور اوّلین اقدام کیا ہو۔ عقل کہتی ہے کہ سب سے پہلے آمریت یا بادشاہت کی جگہ ایسے افراد کو لایا جائے، جو عدل و انصاف کے علَم بردار ہوں اور موروثی بادشاہت یا آمریت کے قائل نہ ہوں۔ ایسے ہی عدلیہ میں ایک تدریج اور ترتیب کے ساتھ ایسے افراد کو لایا جائے، جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں اور دینی علم کی دولت سے مالامال ہوں، نیز اس کے ساتھ ہی نظام میں قانون سازی سے وہ تبدیلیاں لائی جائیں جو نظام کو اسلامی اصولِ عدل کے مطابق بناسکیں۔
اس کے مقابلے میں یہ راے بھی لازماً قابلِ غور ہوسکتی ہے کہ ایک سہانی صبح کو عدلیہ، پارلیمنٹ، پولیس، فوج، قصرصدارت، کابینہ، غرض ہرادارے کو تحلیل کرکے ایک نئے نظام کا اعلان کردیا جائے۔ اس راے کے قائم کرنے سے کسی کو روکنے کا حق نہیں لیکن کیا یہ راے انسانوں کی دنیا میں آج تک قابلِ عمل ہوسکی؟ کیا افرادِکار کی تیاری، اداروں میں قانون سازی کے ذریعے اصلاح و تبدیلی اور بتدریج اصلاحی عمل کے بغیر دنیا میں کہیں بھی کوئی نظام کامیاب ہوا ہے؟ کیا صحابہ کرامؓ کی سیرت سازی، تزکیہ و تربیت اور مصائب و مشکلات سے گزارے بغیر ممکن تھی، اور کیا آج بھی انسانوں کی ماہیت ِقلبی کے بغیر اسلامی نظام نافذ ہوسکتا ہے؟
بلاشبہہ ایک مسلمان کی معاشی ظلم کے خلاف جدوجہد ہو، مشرکانہ، کافرانہ فکر کے خلاف مہم ہو، اپنی جان و مال کے ساتھ طاغوت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا ہو، نفس کے مطالبات کے خلاف جنگ کرنا ہو، یہ سب جہاد کی تعریف میں آتے ہیں۔ لیکن جہاد اسباب کی تیاری کے بغیر، جہاد حکمت عملی کے بغیر، جہاد اہداف کے تعین کے بغیر، جہاد ترجیحات کے بغیر ایک نیک خواہش تو ہوسکتا ہے، ایک تعمیری عمل نہیں ہوسکتا۔
یہ مسئلہ پاکستان میں نہیں، تمام دنیا میں جہاں بھی انتخابات کے ذریعے لوگ منتخب کیے جاتے ہیں، پایا جاتا ہے۔ اس کا حل نظام کو اُٹھا کر پھینک دینا نہیں ہے بلکہ تعلیم، ابلاغ عامہ اور انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے عمل کی ضرورت ہے۔ اگر انتخابات سے چھے ماہ پہلے سے عوام کو ان معاملات کا شعور دلایا جائے تو ووٹروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور عوام اچھے اور نیک افراد کو ووٹ دینے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک تعلیمی اور ابلاغی معاملہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق جمہوریت کے اچھے یا بُرے ہونے سے نہیں ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو چاروں خلفاے راشدین کے انتخاب میں حل و عقد کی حیثیت بنیادی تھی۔ اہلِ مدینہ نے جس کو منتخب کیا، پورے عالمِ اسلامی نے اس کی قیادت کو تسلیم کیا۔ یہ تعداد کُل مسلم آبادی کا ایک بہت چھوٹا تناسب رکھتی تھی۔ اس کے باوجود خلافت قائم ہوئی اور لوگوں نے اس کی اطاعت اور تعاون میں کمی نہیں کی۔عوام کے انتخابات میں زیادہ تعداد میں حصہ لینے کے پہلو کو تعلیم اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد ووٹ کا استعمال کرسکیں۔
ایک غیرضروری سوال نظر آتا ہے۔ اسلامی تحریکات خصوصاً جماعت اسلامی پاکستان نے ہمیشہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کی ہے اور اپنے لٹریچر اور دیگر ذرائع کے استعمال سے اسلامی نظام کے قیام ہی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن تحریکاتِ اسلامی یہ بات بھی تسلیم کرتی ہیں کہ مغربی لادینی جمہوریت کی تمام خامیوں کے باوجود اگر کسی ملک کا دستور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے تسلیم کرتا ہو اور شریعت پر مبنی قانون کے نفاذ کا دعویٰ کرتا ہو، تو عبوری دور کے لیے ایسے نظام میں شرکت نہ شرک کی تعریف میں آتی ہے نہ کفر اور نہ طاغوت کی۔ اگر ووٹ، عوامی راے کے استعمال اور پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے اسلامی نظام تعلیم، معیشت و قانون اور ابلاغِ عامہ میں صحت مند تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اس کی کوشش کرنا تحریکاتِ اسلامی کا فرض ہے۔ دین یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دعوت و اصلاح کے لیے تمام ممکنہ ذرائع کو استعمال کیا جائے اور صرف ان کاموں سے بچا جائے، جہاں قرآن و سنت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حلال و حرام کو قرآن و سنت نے طے کردیا ہے لیکن مباح کے دائرے میں آنے والی چیزوں کو بغیر کسی دلیلِ شرعی کے حرام قراردینا، دینی حکمت کے منافی ہے۔ جب تک ایک ملک کا دستور اللہ کی حاکمیت کا اقرار اور شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، اس دستور کے تحت سیاسی، معاشی اور دیگر سرگرمیاں نہ شرک ہوسکتی ہیں نہ کفر۔
اگر پارلیمان کوئی قانون خلافِ شریعت بنانا چاہتی ہو جیساکہ ماضی میں ہوا کہ تحفظ خواتین کے نام پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی سزائوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، تو ایسے قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر کے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کا ایک غلط فیصلہ بجاے خود پارلیمنٹ کے ادارے کو قابلِ گردن زدنی نہیں بنادیتا۔یہ تصور کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہی نہیں ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔ اگر دستورپاکستان پارلیمان کو یہ حق دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان کی ہرقرارداد ہمیشہ درست ہوگی۔ پارلیمان انسانوں کا اجتماع ہے اور اگر یہ انسان قرآن و سنت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں، تو اُمید کی جاتی ہے کہ وہ جو قانون بھی بنائیں گے اس کی بنیاد شریعت ہوگی۔ خلافت راشدہ میں بھی شوریٰ یہ کام کرتی تھی۔ آج بھی شوریٰ یا پارلیمان یہ کام کرسکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد دستورساز اسمبلی میں علما پر مبنی ایک تعلیماتِ اسلامی بورڈ قائم کیا گیا تھا، جس میں ملک کے جید علما بشمول مولانا سیّد سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع اور علامہ جعفرحسین مجتہد شامل تھے۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں دستور کا اولین مسودہ تیار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ فوجی اور غیرفوجی آمروں نے دستور پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے دیا۔ اس میں قصور نہ دستور کا ہے نہ پارلیمان کا، بلکہ وہ افراد اللہ اور اہلِ پاکستان کے سامنے جواب دہ ہیں، جو اس کام میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔