۱۱؍اگست ۴۷ء کے بعد جو ارشادات قائداعظم کی زبان سے سنے گئے اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پشاور ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خاں نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظم کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا… انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳ سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں۔ (پاکستان ٹائمز، ۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)
کراچی، ۲۶جنوری: قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں(جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے گذشتہ شام دی گئی) تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنا پر نہیں بنے گا۔(پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خاں وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔(پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء)
ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں قائداعظم کی ۱۱؍اگست والی تقریر کا ایک ایسا مفہوم نکالنا جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو مرحوم کی یاد کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ (’مولانا مودودی کا تحقیقاتی عدالت میں دوسرا بیان‘، ترجمان القرآن،جلد۴۲، عدد۲، شعبان ۱۳۷۳ھ،مئی ۱۹۵۴ء، ص۲۱-۲۲)