صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! لوگوں میں سے بہتر کون ہے؟آپؐ نے فرمایا: مَن طَالَ عُمرُہُ وَ حَسُنَ عَمَلُہُ،’’ جسے لمبی عمر ملی اور اس کے عمل نیک رہے‘‘۔ الحمدللہ ۳۵سے زائد شان دار کتابوں کے مصنف محمد قطب بھی انھی خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں۔ ۹۵برس کی عمر پائی اور آخری لمحہ تک اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزرا۔ ۴جمادی الثانی ۱۴۳۵ھ، ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء کو رخصت بھی ہوئے تو یہ جمعۃ المبارک کی قیمتی گھڑیاں تھیں اور اللہ نے حرم مکہ میں لاکھوں نمازیوں کو ان کی نماز جنازہ میں شریک کردیا۔
محمد قطب، مفسر قرآن اور شہید ِاسلام سید قطب کے بھائی تھے۔ ان کی تین بہنیں تھیں۔ سب سے بڑی بہن نفیسہ، سیّد قطب سے تین برس بڑی تھیں، پھر خود ان کا نمبر تھا۔ دوسری بہن امینہ ان سے چھوٹی تھیں اور پھر محمد قطب کا نمبر تھا، جو سیّد قطب سے ۱۳ سال چھوٹے تھے، اور ان کے بعد سب سے چھوٹی بہن حمیدہ تھیں۔ والد جناب قطب ابراہیم پورے خاندان کے بڑے سمجھے جاتے تھے، جنھیں خاندانی وجاہت اور دین داری اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ بچپن سے ہی بچوں کو خوفِ آخرت کی گھٹی دی اور عبادات و فرائض کا خوگر بنایا۔ والدہ بھی ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے دو بھائیوں نے جامعۃ الازہر سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی تھی۔
سیّد قطب سے ۱۳ برس چھوٹا ہونے کے باعث محمد قطب کو بھائی کی صورت میں والد کا پیار ملا اور اُستاد کی تربیت بھی۔ اپنی پہلی کتاب سخریات صغیرۃ کا انتساب انھوں نے سیّد بھائی ہی کے نام کیا۔ لکھتے ہیں: ’’اپنے بھائی کے نام، جنھوں نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا، جنھوں نے بچپن سے ہی مجھے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ وہ میرے لیے والد کا مقام بھی رکھتے تھے، میرے بھائی بھی تھے اور انتہائی عزیز دوست بھی۔ میں اپنی کتاب انھی کے نام کرتا ہوں، شاید کہ مجھ پر عائد ان کے گراں قدر قرض میں سے کچھ ادا ہوجائے‘‘۔
سیّد قطب نے بھی اپنے چھوٹے بھائی سے بہت اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ انھوں نے اپنا شعری دیوان الشاطئ المجہول (نامعلوم ساحل) شائع کیا تو اسے ان اشعار کے ساتھ بھائی سے وابستہ کیا:
أَخِی ذٰلِکَ اللَّفظُ الَّذِي فِی حُرُوفِہٖ
رُمُوزٌ وَ أَلغَازٌ لِشَتّٰی العَوَاطِفِ
أَخِي ذٰلِکَ اللَّحنُ الَّذِي فِی رَنِینِہٖ
تَرَانِیمُ اِخلَاصٍ وِ رَیَّا تَآلُفِ
(’میرا بھائی‘ ایک ایسا لفظ کہ جس کے حروف میں محبتوں کی تمام راز و رموز پنہاں ہیں۔ ’’میرا بھائی‘‘ لفظ ہی ایک ایسا نغمہ ہے کہ جس میں اخلاص و محبت کے تمام تر نم پوشیدہ ہیں۔ )
اسی منظوم انتساب میں سیّد قطب کہتے ہیں:
فَأَنتَ عَزَائِي فِي حَیَاۃٍ قَصِیرَۃٍ
وَ أَنتَ امتِدَادِي فِي الحَیَاۃِ وَ خَالِفِي
(تم میری اس مختصر زندگی کی ڈھارس ہو.. تم زندگی میں میرا تسلسل اور میرے بعد میرے اصل وارث ہو۔)
گویا سیّد قطب، بھائی میں صفات و خوبیاں ہی نہیںدیکھ رہے تھے، ان کی لمبی عمر کے لیے بھی دُعاگو تھے۔ مفسرِ قرآن کے دونوں اندازے درست نکلے۔ محمدقطب نے نہ صرف ۹۵ سالہ بابرکت زندگی پائی، بلکہ سیّد قطب کی حیات کے بعد بھی تقریباً نصف صدی تک علم و تحقیق کے معرکے سر کرتے رہے۔
محمد پر بڑے بھائی سیّد کا اثر انتہائی گہرا تھا۔ وہ ایف اے کے بعد عربی ادب پڑھنا چاہتے تھے، لیکن خود کہتے ہیں کہ : ’’سیّد بھائی نے مشورہ دیا کہ انگریزی زبان و ادب میں تعلیم حاصل کرو اور میں نے ان کی بات مان لی‘‘۔ شاید ذہن میں ہوگا : ’’تاکہ تم اسلام کے خلاف ہونے والے حملوں اور تشکیک و شبہات، کا جواب دے سکو‘‘۔ محمد قطب ۱۹۴۹ء میں تعلیم سے فارغ ہوئے اور ۱۹۵۱ئمیں ان کی پہلی اور انتہائی شان دار کتاب منظر عام پر آئی: الإنسان بین المادیۃ والإسلام (انسان مادیت اور اسلام کے مابین)۔ اس میں انھوں نے فرائڈ جیسے کٹر منکرین حق کے نام نہاد فلسفوں کا مسکت جواب دیا۔ اسی طرح اُنھوں نے اپنی کتاب مذاہب فکریۃ معاصرۃ (معاصر نظریاتی رحجانات)میں بھی مغربی فلسفیوں کا بخوبی محاکمہ کیا۔ اسی طرح جاھلیۃ القرن العشرین (بیسویں صدی کی جاہلیت) کے نام سے اُنھوں نے مغربی تہذیب کے تار وپود بکھیر کر رکھ دیے۔ اپنی کتاب التطور و الثبات فی حیاۃ البشریۃ (انسانی زندگی میں ترقی و ثبات) میں انھوں نے کارل مارکس اور سوشلسٹ نظریات کی حقیقت واضح کی۔
محمد قطب نے اپنے بھائی کی طرح ایک طرف تو باطل نظریات کا ابطال کیا اور دوسری جانب اسلامی تعلیمات کا روشن چہرہ اُجاگر کیا۔ اس دوسرے پہلو کے ضمن میں ان کی کتاب منہج التربیۃ الإسلامیۃ (اسلامی تربیت) بھی شہرہ آفاق کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر اسی کتاب کی وجہ سے سعودی عرب نے انھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اپنی کتاب منہج الفن الإسلامی میں اُنھوں نے واضح کیا کہ فن اسلامی کسی جامد فلسفے یا وعظ اور پندو ارشاد کا نہیں بلکہ وجود کائنات اور اس میں بکھرے حقائق، تلخیوں اور مظاہر جمال کو اسلامی تصورات کے آئینے میں دیکھنے کا نام ہے۔ مفاھیم ینبغی أن تصحح (بعض خیالات جن کی درستی ناگزیر ہے)۔ دراسات قرآنیۃ (قرآنی مطالعہ)، التفسیر الإسلامی للتاریخ (تاریخ کی اسلامی تشریح)، واقعنا المعاصر (ہمارے موجودہ حالات)، ھل نحن مسلمون (کیا ہم مسلمان ہیں؟) شبہات حول الإسلام (اسلام کے بارے میں بعض شبہات)، لا الٰہ الا اللّٰہ، عقیدۃ وشریعۃ ومنھاج حیاۃ (لا الٰہ الا اللہ عقیدہ بھی ہے، شریعت بھی اور نظام حیات بھی) ، العلمانیون و الإسلام (سیکولر حضرات اور اسلام)، کیف ندعو الناس (دعوت کیسے دیں؟)، رکائز الإیمان (ایمان کی بنیادیں) بھی مرحوم کی وہ شان دار کتب ہیں جن سے ایک دنیا نے استفادہ کیا ہے اور رہتی دنیا تک یہ کتب زندہ رہیں گی۔
دونوں بھائیوں سیّد قطب شہید اور محمدقطب کی طرح تینوں بہنوں کو بھی علم و ادب سے گہرا شغف تھا اور سب ہی نے بہت سخت آزمایشیں جھیلیں۔ سبحان اللہ... پانچوں بھائی بہنوں میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا گیا... پانچوں کا جرم صرف ایک کہ رب ذو الجلال کے سوا ہر خدا کا انکار کرتے تھے۔ پانچوں مبارک نفوس قرآن کریم کی دعوت لے کر اُٹھے اور اللہ کے حکم کے مطابق اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے مرتکب پائے گئے۔ سیّد قطب کو پہلی بار گرفتار کیا گیا تو کچھ عرصے بعد سب سے بڑی بہن نفیسہ کے جواں سال بیٹے رفعت کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے گرفتار ماموں اور اخوان کے مابین رابطہ کاری کرتا ہے۔ پھر اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ناتواں جسم تاب نہ لاسکا اور ماموں سے پہلے ہی جامِ شہادت نوش کرگیا۔ پھر دوسرے بیٹے عزمی کو گرفتار کرلیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قریب المرگ ہونے پر چھوڑ دیا گیا۔
دوسری بہن امینہ، سیّد قطب سے چھوٹی اور محمد قطب سے بڑی تھیں۔ انھوں نے عربی ادب کی شان دار خدمت انجام دی۔ اسلامی تحریک سے وابستگی کی پاداش میں ان کے شوہر کمال السنانیری پر تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے جیل ہی میں شہید کردیا گیا۔ راقم نے کمال السنانیری صاحب کا نام سب سے پہلے مرحوم و مغفور محترم قاضی حسین احمد صاحب سے سنا تھا۔ پشاور آکر رہنے والے مختلف عرب رہنماؤں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کمال السنانیری کا نام خصوصی عقیدت و محبت سے لیا کرتے تھے۔ دیگر اُمور کے علاوہ ایک بات یہ بھی بتاتے کہ سنانیری مرحوم کافی عرصہ پشاور میں ہمارے گھر رہے، لیکن ہمیں ایک روز کے لیے بھی ان کی مہمان داری بوجھ نہیں لگی۔ وہ اکثر روزے سے ہوتے۔ ہمیں بھی اچانک معلوم ہوتا کہ وہ روزے سے ہیں۔ ہمیشہ تلاوت و نوافل ان کا معمول ہوتا۔ امینہ قطب سے ان کی نسبت ۱۹۵۴ء میں طے ہوئی تھی۔ سنانیری صاحب اس وقت جیل میں تھے۔ گرفتاری کا عرصہ طویل ہوگیا تو انھوں نے پیش کش کی کہ نہ جانے کب تک جیل میں رہنا پڑے، آپ اور آپ کے اہل خانہ چاہیں تو یہ نسبت ختم کردیتے ہیں۔ لیکن امینہ امانت دار ہی نہیں، وفا شعار بھی تھیں۔ انھوں نے اس موقعے پر ایک نظم کہی، جو ان کی ادبی زندگی کی پہلی نظم تھی۔ اپنے پہلے قصیدے میں، شان دار انداز سے، اپنے منگیتر کا حوصلہ بڑھایا۔ ۷۰کی دہائی میں کمال السنانیری کی رہائی ہوئی اور ۱۹۷۳ء میں دونوں کی شادی ہوئی۔ اس وقت اس باوفا ’دلہن‘کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہوچکی تھی۔ ۱۹۸۱ء میں انور السادات نے دوبارہ اخوان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔ سنانیری بھی ابتدائی اسیروں میں سے تھے۔ اس بار اس اللہ والے کے نصیب میں قید ہی نہیں شہادت کا رُتبہ بھی لکھا تھا۔ نومبر ۱۹۸۱ء میں جیل ہی میں تشدد کے نتیجے میں جان، جانِ آفریں کے سُپرد کردی۔ امینہ ہی نہیں محمد قطب سمیت تمام اہل خانہ نے اس شہادت کا صدمہ صبر و ثبات سے برداشت کیا۔
سب سے چھوٹی بہن حمیدہ قطب بھی اپنے بھائیوں، بہنوں اور دیگر افراد خانہ کی طرح جلادوں کے مظالم کا نشانہ بنیں۔ ۱۹۶۵ء میںسیّد قطب کے ہمراہ وہ بھی گرفتار ہوئیں، تو چھے سال چار ماہ جیل میں بند رہیں اور اس دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنائی گئیں۔
محمد قطب جیسی نابغہء روزگار علمی شخصیت کو بھی سیّد قطب کی طرح اسلام سے وابستگی کی سزائیں دی گئیں۔ پہلی بار ۱۹۵۴ئمیں اخوان کے ہزاروں کارکنان سمیت گرفتار کیے گئے اور بلا مقدمہ کئی سال جیل میں رہے۔ ۱۹۶۵ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے، اس بار وہ سیّد قطب سے بھی پہلے گرفتار ہوئے۔ سیّد قطب نے اعلیٰ حکومتی ذمہ داران کے نام خط لکھ کر احتجاج کیا کہ انھیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ ہم اہلِ خانہ کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ برطانوی غلامی کے شکار حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ برطانوی دانش ور اور مفکر برٹرینڈ رسل کو بھی ان کے خیالات کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا تھا، لیکن اہلِ خانہ ان کے بارے میں پوری طرح باخبر رہتے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ رسّل بھی ایک دانش ور تھا اور میرا بھائی محمد بھی ایک دانش ور ہے۔ اس احتجاجی مراسلے کا جواب یہ ملا کہ ایک ہفتے بعد سیّد قطب بھی گرفتار کرلیے گئے۔ سیّد اور ان کے ساتھیوں پر تو ایک بے بنیاد مقدمہ چلایا گیا اور ۲۹؍ اگست ۱۹۶۶ء کو انھیں اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے کر شہید کردیا گیا، لیکن محمد قطب پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر ہی انھیں سات برس تک قید رکھا گیا۔ اس دوران انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار تو جیل کے اندر باہر یہ افواہ پھیل گئی کہ محمد قطب تشدد کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئے ہیں، لیکن بعد میں یہ خبر غلط نکلی۔ رہائی ملی تو دوست احباب نے ’زندہ شہید‘ کے لقب سے یاد کرنا شروع کردیا۔
سات سال قید کے بعد رہائی ملی تو ۱۹۷۲ء میں انھیں ملک عبد العزیز یونی ورسٹی مکہ مکرمہ، حالیہ ’اُم القریٰ‘ یونی ورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آخری سانس تک وہ جوار کعبہ ہی میں رہے۔ کئی بار انھیں دیگر کئی ممالک سے ملازمت اور شہریت کی پیش کش ہوئی، لیکن انھوںنے بیت اللہ کی قربت اور مصری شہریت نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران انھوں نے نہ صرف تعلیم و تربیت اور بحث و تحقیق کی سرگرمی جاری رکھی بلکہ متعدد ممالک کے دورے بھی کیے۔ ان کے ایک یادگار سفر میں خاکسار بھی ان کا ہم رکاب رہا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف برسرِپیکار افغان مجاہدین کو باہم متحد کرنے کی درجنوں کوششوں میں شرکت کرنے کے لیے وہ بھی دیگر عرب زعما کے ساتھ پشاور آئے۔ کئی عرب مجاہدین سے ملاقات کی، کئی ایک سے وائرلیس پر رابطہ ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ تمام کاوشیں بے سود رہیں۔
دھیما مزاج رکھنے والے محمد قطب، اپنی تحریروں اور نظریات میں کامل یکسو اور مضبوط استدلال رکھتے تھے۔ حلقۂ یاراں میں اگر آرا کا اختلاف سامنے آتا تب بھی بریشم کی طرح نرم رہتے، لیکن رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن، کا حقیقی مصداق تھے۔ علامہ یوسف القرضاوی صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے سیّد قطب کے بعض خیالات سے علمی اختلاف کیا اور اس کے بارے میں مسلسل لکھا، لیکن کبھی نہیں ہوا کہ محمد قطب سے ملاقات ہونے پر انھوں نے اس اختلاف کا ذکر ہی کردیا ہو ... ہمیشہ اخوت کی حلاوت ہی گھولی۔
رب ذو الجلال ہمیشہ اپنی قدرت و حکمت دنیا کو دکھاتا ہے لیکن کم ہی لوگ عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ امام حسن البناء، سیّد قطب، محمد قطب اور ان کے ہزاروں ساتھیوں پر جن فرعون حکمرانوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے، وہ انھیں اور ان کی دعوت کو فنا کے گھاٹ اتارنا چاہتے تھے۔ اللہ نے ان جلاد حکمرانوں کو یوں فنا کیا کہ آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں بچا، جب کہ ان مخلص مصلحین کے افکار، دنیا کے چپے چپے میں اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ اسلامی تحریک عالم اسلام ہی نہیں دنیا کے ہر کونے میں کامل قوت کے ساتھ موجود ہے۔ سچی دعوت کی علم بردار اس تحریک کو آج بھی کئی فرعون اور ان کے حواری کچلنا چاہتے ہیں، لیکن کون ہے جو اللہ کے دین اور اسے غالب و کار فرما کرنے والی تحریکوں کو شکست دے سکے۔ قدرت ان ظالموں پر خنداں ہے ...پکار پکار کر کہہ رہی ہے: سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ (الشعراء ۲۶: ۲۲۷)، عنقریب یہ ظالم جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!