’علامات‘(Symbols, Insignias, Icons) فرد، ملک، قوم اور ادارے کی شناخت کے اظہار میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ انھیں اپنی معاشرتی اور ثقافتی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے غوروخوض کے بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پھر کئی طریقوں سے انھیں ظاہر کیا جاتا ہے۔ دھاتی سکّے، دھاتی اجسام، پتھر، کپڑا، لکڑی، ٹائلیں__ کسی بھی چیز پر اپنی شناختی علامات کندہ اور نقش کی جاتی ہیں۔ کبھی روشنیوں کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے اور کبھی کشیدہ کاری کے ذریعے۔
سومائٹکس (somaitics) علم کی ایک اہم شاخ ہے۔ سمبل ازم (symbolism) ایک باقاعدہ سائنس اور آرٹ ہے کہ ’علامات‘ کی معنویت، تاثیر اور مزاجوں پر اثرانداز ہونے کی قوت کا جائزہ لیا جائے۔ انھیں اس طرح تشکیل دیا جائے کہ یہ افراد، اقوام اور اداروں کے نظریات، ذہنی تصورات، خیالات، اوصاف اور جذبات کی درست نمایندگی کرسکیں۔ یہ علامات الفاظ اور اشیاکا لغوی معنی سے کہیں گہرا مفہوم اور تصور پیش کرتی ہیں، مثلاً فاختہ محض ایک پرندہ نہیں بلکہ امن اور سکون کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سرخ گلاب محبت اور رومانس کو ظاہر کرتا ہے وغیرہ۔ فی الواقع شناختی علامت زبردست نفسیاتی قوت کی مالک ہے۔
زمانۂ قدیم سے میدانِ جنگ میں ’علَم بردار‘ خاص اہمیت کا حامل رہا۔ یہ شرف اس جواں مرد کو حاصل ہوتا جو دلیر، جرأت مند اور قومی غیرت سے معمور ہوتا۔ علَم کو ہر طرح کے حالات میں بلندرکھنا قومی عزت، غیرت اور وقار کی علامت قرار دیا جاتا جا رہا ہے۔ معرکۂ کارزار میں دشمن کا سب سے زیادہ نشانہ علَم بردار ہوتا اور غیرت مند علَم بردار جھنڈا بلند رکھنے کے لیے جان پر کھیل جاتے۔
غزوئہ موتہ میں یکے بعد دیگرے تین سپہ سالار اسلام کا جھنڈا سربلند رکھنے کے لیے شہادت سے ہم کنار ہوگئے۔ حضرت جعفرؓ بن ابوطالب کی جاں فشانی تو ضرب المثل بن گئی۔ دشمن نے جھنڈا گرانے کے لیے دائیں ہاتھ پر وار کیا تو انھوں نے جھٹ سے بائیں ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو اسے منہ سے تھام لیا۔ دشمن نے سر پر وار کیا تو جھنڈے کو گرنے سے بچانے کے لیے حضرت عبداللہؓ بن رواحہ آگے بڑھے۔ ان کے جامِ شہادت نوش کرنے پر حضرت خالدؓ بن ولید نے آگے بڑھ کر اسے بلند کردیا اور پھر نہایت سُرعت اور حکمت سے اسلامی لشکر کو دشمن کے نرغے سے بچاکر لے آئے۔ علَم کی حفاظت کے لیے دونوں بازو کٹوا دینے پر حضرت جعفرؓ کو جنت میں دو پَر عطا کیے جانے کی بشارت ملی۔ چنانچہ وہ جعفرطیارؓ کے نام سے معروف ہیں۔حضرت خالدؓ بن ولید کو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا گیا،’سیف اللہ‘ ان کے نام کا جزو بن گیا۔
آج بھی ہر ملک کا اپنا جھنڈا ہے اور اس کا خاص مفہوم۔ جھنڈا کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی نہیں ایک اہم علامت ہے، ایک قوم کی پہچان ہے۔ ہر قوم اپنی علامت، اپنی شناخت پر فخر کرتی ہے، اسے بلند رکھنے کی آرزومند ہے۔
اقوام، ممالک اور ادارے اپنی مخصوص امتیازی علامات رکھتے ہیں جنھیں رنگ، تصویر اور گرافک ڈیزائن کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔ جنگ کے میدان ہوں یا کھیل کے، تقریبات میں اقوام و ممالک کی نمایندگی ہو یا بحروبر کا سفر___ مخصوص علامات افراد اور اقوام کا تعارف بن جاتی ہیں، لہٰذا علامات کا تعین بڑی سوچ بچار کے بعد ہوتا ہے۔ تصویر کی صورت میں یہ علامت ایک خاموش پیغام ہے جو کسی فرد، گروہ یا قوم کی شناخت کے علاوہ ان کے یقین، ایمان، ارادے، عزائم اور مقاصد کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی قوت اور مرتبے کا اظہار ہیں۔
مختلف رنگ مختلف معنی رکھتے ہیں۔ ہر تصویر کا اپنا ایک پیغام ہے ۔ ’سفید جھنڈا‘ صلح کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ میدانِ جنگ میں سفید جھنڈے کا لہرایا جانا ہتھیار ڈالنے یا جنگ بندی کا اعلان سمجھا جاتا ہے۔ ’سیاہ جھنڈا‘ جنگ پر آمادگی یا دشمن کو شکست دینے کے عزم کا اظہار ہے۔ نیلارنگ آفاقیت اور امن کا اعلان ہے تو سرخ رنگ رومانس یا خطرے کی علامت۔ سبزرنگ پاکیزگی، خوش حالی اور شادابی کے معنی رکھتا ہے۔ ٹریفک منضبط رکھنے کے لیے سرخ، زرد اور سبز رنگ کا اپنا اپنا مفہوم ہے۔ ’سرخ بتی‘ پر چلنے والا یہ کہہ کر قانون کی گرفت سے چھوٹ نہیں سکتا کہ وہ اس کے پیغام سے واقف نہیں تھا۔
تصاویر بھی اپنا مفہوم رکھتی ہیں۔ ’ہلال‘ اُمت مسلمہ کی پہچان بن چکا ہے اور صلیب عیسائیت کا نشان۔ سرخ رنگ، ہتھوڑا اور درانتی کمیونزم کی پہچان رہے ہیں اور سواستیکا نازی جرمنی کا۔ برطانیہ کا جھنڈا صلیب کی برتری اور زمین کے چاروں گوشوں تک اس کے غلبے کی آرزو کا اظہار ہے۔ پانچ کونوں والا ستارہ اہلِ اسلام کے ساتھ اور چھے کونوں والا ستارہ صہیونیت کے ساتھ وابستہ سمجھا جاتا ہے۔
سیاسی اور بین الاقوامی تنظیمیں اپنا اپنا پرچم اور نشان رکھتی ہیں۔ عالمی سطح پر سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کا اپنا جھنڈا اور اپنا نشان ہے۔ اس کے ذیلی اداروں کی اپنی اپنی علامات ہیں۔ اقوام متحدہ کا نشان (insignia / logo) منتخب کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی کئی روز کام کرتی رہی۔ کمیٹی کے انتخاب کو جنرل اسمبلی سے ایک قرارداد کے ذریعے باضابطہ منظور کیا گیا۔ یہ منظوری ۷دسمبر ۱۹۴۶ء کو قرارداد نمبر (A/RES/92(1)) کے ذریعے حاصل کی گئی۔
اقوام متحدہ کے جھنڈے اور نشان میں نیلا اور سفید رنگ نمایاں ہیں۔ نیلا رنگ آفاقیت، امن اور سکون کی علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ سفیدرنگ امن اور اقوامِ عالم کے مابین صلح کی خواہش کا اظہار ہے۔ جھنڈے پر دنیا کے آباد علاقوں کا نقشہ ہے۔ جہاں امن اور ترقی کا قیام اور فروغ اقوام متحدہ کا عزم ہے۔ اس نقشے کو زیتون کی دو شاخوں نے گھیر رکھا ہے۔ زیتون بھی امن کی علامت ہے۔ دنیا کا نقشہ پانچ دائروں میں مقید ہے جنھیں درمیان سے ایک لائن منقطع کررہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کے اپنے جھنڈے ہیں۔ سب میں نیلااور سفید رنگ موجود ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے جھنڈے میں ایسکلیپئس کا عصا (Rod of Aesculapius) اور اس کے گرد لپٹا ہوا سانپ ہے۔ یونانی دیومالائی روایات کے مطابق یہ علامت ’صحت کے دیوتا‘ سے متعلق خیال کی جاتی ہے۔
صحت کا دیوتا: ایسکلیپئس اپالو کا بیٹا ہے۔ اسے ’صحت کا دیوتا‘ قرار دیا گیا ہے۔ وہ بیماروں کو شفا بخشتا ہے اور مُردوں کو زندہ کرنے کی قوت رکھتا تھا۔ اس پر دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے اسے ہلاک کرڈالا کیونکہ اس طرح وہ فطرت کے کاموں میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا تھا۔
دنیا بھر میں صحت کی پیشہ ور تنظیموں اور اداروں میں سے بیش تر نے اس علامت کو اپنی شناخت بنا رکھا ہے۔ شعبۂ طب اور دواسازی سے متعلق اداروں میں ایک اور علامت بھی بہت معروف ہے۔ اسے کیڈوسیس(Caduceus) کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے کم و بیش تمام طبی اور دواسازی کے تعلیمی اداروں نے اسی نشان کو اپنایا ہوا ہے۔ تاہم، کچھ ادارے ایسکلیپئس کا نشان بھی رکھتے ہیں۔ غالباً کوئی ایسا طبی ادارہ نہیں جو اس نشان سے پاک ہو۔ دنیا بھر میں تجارتی بنیادوں پر صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں میں سے ۷۶فی صد نے کیڈوسیس کا نشان اپنا رکھا ہے۔ ’عصا‘ کے گرد لپٹا ہواسانپ دنیا بھر میں شعبۂ طب و دواسازی کی معروف علامت ہے۔ طبی تعلیمی ادارے، دو اساز کمپنیاں، شفاخانے شاید ہی کوئی اس سے بے نیاز ہو۔
کیڈوسیس اولیمپک دیوتا ہرمیز(Hermes) سے منسوب عصا ہے۔ اس عصا کے اُوپر دو پھیلے ہوئے پَر ہیں اور اس کے گرد بڑے توازن سے دو سانپ اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ اُوپر جاکر دونوں کے منہ آمنے سامنے ہیں۔ یونانی عقیدے کے مطابق ہرمیز خدا اور انسانوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔
’عصا‘ اس کی دانش اور قوت کا اظہار ہے۔ یونانی شاعر ہومر کا کہنا ہے کہ ’عصا‘ انسان کی آنکھوں کو مسحور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ’عصا‘ کے اُوپر پھیلے ہوئے پَر ہرمیز کے اس مرتبہ و مقام کو ظاہر کرتے ہیں جو اسے زمین اور اس پر رہنے والوں میں حاصل تھا۔ وہ اہلِ زمین کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ مسافروں کا نگہبان تھا۔ تجارتی قافلوں کی حفاظت کرتا اور لین دین میں معاونت کرتا۔ عصا کے گرد لپٹے ہوئے سانپ تجارت، طلاقت لسانی، فصاحت، فریب کاری، شعبدہ بازی (trickery) اور گفت و شنید کے فن میں مہارت سے منسلک رہے ہیں۔ ہرمیز کو یہ ’عصا‘ اپالو (سورج دیوتا) نے دیا جو صحت و شفا اور شاعری و موسیقی کا دیوتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اسے یہ عصا دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے عطا کیا تھا۔
’طب‘ کے ساتھ اس عصا کا تعلق صدیوں سے چل رہا ہے۔ بعض اوقات اسے کیمیا، نفع اور دانائی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں ایک ماہر امراضِ چشم کی مہر میں اس عصا کی شبیہہ پائی گئی ہے غالباً اس لیے کہ عصا آنکھوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں سوئٹزرلینڈ میں ایک طبی تالیف میں اسے شعبۂ طب سے متعلق ظاہر کیا گیا۔ اس شبیہہ میں عصا کے گرد دو سانپ لپٹے تھے اور اس کے اُوپر ایک فاختہ بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ بائبل کی ایک آیت درج تھی: ’’تم سانپ کی طرح ہوشیار ، دانش مند اور فاختہ کی مانند بے ضرر بن جائو‘‘۔
انیسویں صدی کے آخر میں امریکا میں اسے شعبۂ طب کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا حتیٰ کہ ۱۹۰۲ء میں شعبۂ طب نے باضابطہ طور پر اس نشان کو اپنا لیا ۔ کہا گیا کہ ’’عصا غیر جانب داری کی علامت ہے‘‘۔ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ : ’’عصاقوت کی علامت ہے، سانپ دانش مندی اور دو پَر قوتِ کار اور فعالیت کو ظاہر کرتے ہیں‘‘۔
جنگوں میں طبی خدمات انجام دینے والے عملہ اور گاڑیوں (ایمبولینس) وغیرہ پر اسے غیرجانب داری کی علامت کے طور پر ثبت کیا جاتا۔ اس سے ان کی حفاظت مقصود تھی تاکہ وہ کسی حملے کی زد میں نہ آئیں۔ یہ نشان تجارتی بحری جہازوں پر بھی آویزاں کیا جاتا رہا۔ اس سے نہ صرف ہرمیز کی سرپرستی کے حصول کا جذبہ کارفرما تھا جو نفع بخش تجارت کا ذمہ دار دیوتا ہے، بلکہ یہ اظہار بھی ہوتا کہ یہ بحری جہاز کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔
کئی دانش ور کیڈوسس کی اس علامت کو شعبۂ طب سے منسلک کرنے پر معترض ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ بت پرستی کی علامت ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ بہت سی غلط فہمیوں اور فکری انتشار کا نتیجہ ہے کیونکہ ہرمیز نہ صرف تجارت اور تاجروں کا سرپرست ہے بلکہ چوروں، ٹھگوں، جواریوں اور جھوٹوں کا بھی پشت پناہ ہے۔ دیوتائوں کے نمایندے کی حیثیت سے وہ مسافروں اور بحری سفر کرنے والے تاجروں کا محافظ تھا اور زمین پر امن و سکون قائم کرنے والا بھی! چاہے یہ سکون ’موت کا سکون‘ ہو۔ وہ اپنی چرب زبانی سے بُری سے بُری چیز اور حالات کو عمدہ قرار دے سکتا تھا۔
سٹوارٹ ایل ٹائسن کہتا ہے: ’’اس کی ان صفات کو دیکھتے ہوئے ہرمیز کا یہ نشان طبیب کی گاڑی کے بجاے تابوت پر زیادہ سجتا ہے‘‘۔ (Stuart L Tyson, "The Cauduceus", The Scientific)
لیوک وان آرڈن کی راے ہے: ’’تجارتی ذہن رکھنے والے اطبّاکے لیے یہ علامت خاصی حسب ِ حال ہے۔ ان کے جلو میں امن کی خاطر مرنے والوں کی روحیں ہیں تو دانائی، تجارت، قسمت، چرب زبانی، دھوکادہی اور قذاقی بھی ہم رکاب ہیں۔ بیسویں صدی میں شعبۂ طب کی غالباً یہی شناخت ہے‘‘۔
(Luke Van Orden (2002), where have all he Healers gone? A Doctor's recovery journey in universe. p 129).
ھائی جیہ کا پیالہ (Bowl of Hygieia): دواساز اداروں (فارما سیوٹیکل کمپنیاں) اور فارمیسی کے تعلیمی اداروں کے ہاں ایک معروف علامت (symbol) ’ہائی جیہ کا پیالہ‘ ہے۔ ’ہائی جیہ‘ صحت و صفائی کی یونانی دیوی تھی (Goddess of Hygiene)۔ یہ ایسکلیہ پیئس کی بیٹی تھی جسے صحت کا دیوتا کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے باپ کی معاون اور مددگار تھی اور خود بھی صحت سے متعلقہ اُمور کی ذمہ داری ادا کرتی۔ اس کے ایک ہاتھ میں شراب خوری کا پیالہ ہوتا اور دوسرے بازو پر ایک سانپ لپٹا ہوتا جس کا سر پیالے میں جھکا ہوتا۔ شراب خوری کا پیالہ (chalice) اب اس کی خاص علامت قرار دیا جاچکا ہے۔ پیالے کے نچلے پتلے حصے پر ایک سانپ کنڈلی کی طرح لپٹا ہوا ہے۔ اس پیالے میں کوئی سیال نشہ آور دوا (potion) ہے۔ سانپ کا سر پیالے پر جھکا ہوا ہے۔ وہ پیالے میں موجود دوا نوش کر رہا ہے۔ یہ وہی سانپ ہے جو ہرمیز اور ایسکلیہ پیئس کے عصا پر ظاہر ہوتا ہے۔ اسے دانائی اور سرپرستی کی علامت قرار دیا گیا ہے (serpent of wisdom & guardianship)۔
ہائی جیہ کا پیالہ سب سے پہلے ۱۷۹۶ء میں دواسازی سے منسلک پیرسین سوسائٹی (Perisian Society of Pharmacy) نے اپنی علامت کے طور پر استعمال کیا اور اس نشان کو ایک سکّے پر کندہ کیا گیا تھا۔ اب دنیا بھر میں متعدد دواساز اداروں، کمپنیوں اور تنظیموں نے اس علامت کو اپنارکھا ہے۔ دواسازی سے متعلق اداروں میں یہ نشان سب سے زیادہ استعمال ہورہا ہے۔
دواسازی میں معروف کمپنی وائتھ (Wyeth) نے اس نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا کیا (Bowl of Hygiea Award)۔ بعدازاں امریکا کی تمام ریاستوں کے فارمیسی کے اداروں میں اس نام سے ایوارڈ دیئے جانے لگے۔ یہ ایوارڈ فارمیسی کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والے فرد کو دیا جاتا ہے۔ اس کی نامزدگی فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشنز کرتی ہیں۔ سان فرانسسکو میں یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے سکول آف فارمیسی کے ایک طالب علم کو یونی ورسٹی کی طرف سے اس نام کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس کی نامزدگی اساتذہ اور طلبا اس طالب علم کے لیے کرتے ہیں جس میں ایک اچھے فارماسسٹ کے اوصاف سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
طبی نسخے کی علامت (Prescription Symbol): Rx کہا جاتا ہے کہ یہ علامت دراصل لاطینی لفظ Recipe (طبی نسخہ) کا مخفف ہے، جس کا مطلب ہے مجوزہ علاج اور دوا کے بارے میں ہدایات۔ تاہم اس علامت کے ساتھ کچھ دوسری کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ درحقیقت قدیم مصری دیوتا ہورس (Horus) کی آنکھ کی شبیہہ ہے۔ یہ آئسس اور اوسرس (Isis & Osiris) کا بیٹا تھا۔ اس کا سر عقاب کا اور دھڑ انسان کا ہے۔ اس کی آنکھ عقاب کی آنکھ ہے۔ وہ بادشاہوں کا دیوتا تھا (God of Kings)۔ انتقام، جنگ، حفاظت، سربلندی اور آسمان کا خدا!!
یونانی دیوتا زیس (Zeus) اور جیوپیٹر (Jupiter) کے ساتھ بھی اس کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ ان دیوتائوں سے رجوع طبی اُمور اور صحت و شفا کے لیے کیا جاتا تھا۔ دیوتا کی آنکھ سے مشابہ یہ علامت حفاظت اور شاہی قوت کے حصول کے عزم کا اظہار ہے(Symbol of Protection & Royal power)۔
نائیکی (Nike)
کھیلوں سے متعلق جوتے، لباس اور دوسری مصنوعات تیار کرنے والی ایک معروف امریکی بین الاقوامی کمپنی ہے اور اس کا نشان (logo) دنیا کی معروف ترین علامات میں سے ہے۔ بچے بالخصوص نائیکی کی مصنوعات اور اس کے نشان کے گرویدہ ہوتے ہیں۔
نائیکی کامیابی اور جیت کی یونانی دیوی ہے (Goddess of Victory)۔ اس کے پَر ہیں۔ اس کی شبیہہ نیم برہنہ ہے۔ اسے قوت، تیزرفتاری اور کامیابی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے (strength, speed & victory)۔ نائیکی کا معروف نشان اس دیوی کے پَروں کو ظاہر کرتا ہے۔
مذکورہ کمپنی کے علاوہ ایک امریکی میزائل کا نام بھی اس پر رکھا گیا ہے۔ اولمپک کھیلوں میں کامیاب کھلاڑیوں کو دیے جانے والے میڈل پر بھی اس کی تصویر ثبت ہوتی ہے۔
اولمپک کھیلیں، اس کی علامات، روایات، تقریبات تمام روایتی طور پر زمانۂ قدیم میں یونان کے بت پرستانہ شعار سے منسوب ہیں۔
یونان کے شہر اولیمپیا (Olympia) میں زیوس دیوتا کی قربان گاہ (Sanctuary of Zeus) کے سامنے منعقد ہونے والے ان کھیلوں کا آغاز ۷۷۶ ق م میں ’زیوس دیوتا‘ کے بیٹے ہرکولیس نے کیا۔ ۷۰۰ ق م تک اس میں متعدد ترمیمات ہوتی رہیں۔ ۵۶۰ ق م میں ان کھیلوں کے لیے قربان گاہ کے سامنے اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا۔
چوتھی صدی عیسوی میں اس خطے میں عیسائیت کے فروغ اور غلبے کے بعد ان کھیلوں کے بت پرستانہ شعار اور مظاہر کے باعث ان کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی۔ دیوتائوں سے منسوب، عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ بعدازاں کچھ قدرتی آفات، زلزلوں وغیرہ کے باعث ان کے آثار آٹھ نومیٹر گہرائی میں دفن ہوگئے۔
یورپ کی نشاتِ ثانیہ کے دور (اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی) میں یورپی اقوام نے قدیم یونانی اور رومی تہذیب سے اپنا رشتہ ازسرِنو استوار کرنے کا آغاز کیا۔ آسمانی مذاہب اور کتابوں سے گریز اور بغاوت کی لہر بھی چل رہی تھی۔ چنانچہ ۱۸۷۵ء میں جرمن حکومت کی دل چسپی کے باعث اولیمپیا میں کھدائی کر کے آثارِقدیمہ کا سراغ لگایا گیا۔ عبادت گاہوں اور اسٹیڈیم کے آثار کی نشان دہی ہوئی۔ پرانی کہانیاں دہرائی جانے لگیں، حتیٰ کہ ۱۸۹۴ء میں اولمپک کھیلوں کا احیا کردیا گیا۔ حتی الامکان کوشش کی گئی کہ یہ کھیل قدیم روایات کے مطابق جاری رہیں۔ روایتی طور پر یہ کھیل غیرپیشہ ور کھلاڑیوں کے لیے تھے اور ان میں صرف مرد ہی شریک ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں خواتین کے مقابلوں کی اجازت دے دی گئی۔ حتیٰ کہ ۲۰۱۰ء میں اولمپک کی انتظامیہ نے ہر ملک کے اولمپک دستے میں خواتین کی شرکت لازم ٹھیرا دی اور کہا گیا کہ جو ملک اپنے دستے میں خواتین کو نہیں بھیجے گا اسے شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ سعودی عرب جیسے ممالک (جو اس سے پہلے خواتین کو بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کے لیے بھیجنے کی روایت نہیں رکھتے تھے) نے بھی اس کے بعد منعقد ہونے والے کھیلوں میں اپنے دستے میں خواتین کو شامل کرلیا۔ غیرپیشہ ور کھلاڑیوں کے ساتھ اب پیشہ ور کھلاڑیوں کو بھی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جاچکی ہے۔
ہر چار سال بعد منعقد ہونے والے ان کھیلوں میں دنیا کے ۲۰۰ کے قریب ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ اندازاً ۱۳ ہزار ایتھلیٹ ۳۳کھیلوں کے مقابلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں کے دوران ۴۰۰ کے قریب تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اولمپک کھیلوں کے اپنے مخصوص نشانات، علامات، رواج اور روایات ہیں۔
اس کا جھنڈا، مشعل، افتتاحی اور اختتامی تقریبات، حتی الامکان قدیم یونانی روایات کے مطابق ترتیب دیے جاتے ہیں۔ مخصوص اولمپک مشعل اولیمپیا میں ہیرا کے مندر کے سامنے شیشہ کے محدب عدسہ کے ذریعے سورج کی شعاعوں کو مرتکز کر کے روشن کی جاتی ہے۔ یہ خدمت مندر کی خاتون پجارن انجام دیتی ہے۔ اس مندر میں زیس دیوتا کا بت بھی موجود ہے۔ اولیمپیا میں روشن کی جانے والی مشعل پھر میزبان ملک میں پہنچائی جاتی ہے جہاں کھیلیں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ’مشعل کا سفر‘ ایک اہم سرگرمی ہے جسے دنیا بھرکا میڈیا نمایاں کر کے دکھاتا ہے۔ جس ملک کو ان کھیلوں کی میزبانی کا موقع ملتا ہے وہ اسے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔
یہ اعزاز اپنے جلو میں زبردست معاشی فوائد بھی لاتا ہے۔ روایتی طور پر افتتاحی تقریب میں یونانی کھلاڑیوں کا دستہ اپنے جھنڈے کے ساتھ اسٹیڈیم میں سب سے پہلے داخل ہوتا ہے۔ اختتامی تقریب میں صرف تین ممالک کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور انھی کے قومی ترانے بجائے جاتے ہیں۔ ان میں لازمی طور پر یونان شامل ہوتا ہے۔ دوسرے دو ممالک میں موجودہ میزبان ملک اور آیندہ کے لیے نامزد ملک شامل ہیں۔
’انصاف کی دیوی‘ علامتی طور پر انصاف کے نظام میں اخلاقی قوت کی بالادستی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ انصاف کے تصور کی مجسم اور تمثیلی صورت ہے۔ مصری، یونانی اور رومی اَدوار کی کئی دیویوں کے مختلف اوصاف کو موجودہ انصاف کی دیوی جسٹیشیا (Justicia) میں تمثیلی انداز میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کا سلسلہ قدیم مصری تہذیب کی دیویوں مات اور آئسس (Maat & Isis) سے جاملتا ہے۔ یونان میں انصاف کا فریضہ ڈائک اور تھیمس (Dike & Themis) سے منسوب رہا۔ قدیم روم میں اس کو لسٹیشیا (Lustitia)کا نام دیا گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ترازو اور بائیں میں دودھاری ننگی تلوار ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ اس کے سر پر لہریے دار رِبن بندھا ہے، بالوں میں شترمرغ کا پَر ہے۔ وہ ننگے پائوں ہے، سینہ کا بالائی حصہ بھی نیم برہنہ ہے۔
ترازو کی علامت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہر معاملے کے حق اور خلاف پہلوئوں کا وزن دیکھتی ہے۔ کیس کی مضبوطی اور کمزوری کا جائزہ لیتی ہے اور پھر بے لاگ فیصلہ کرتی ہے۔
دو دھاری ننگی تلوار دلیل اور انصاف کی قوت کا اظہارہے،وہ اپنے فیصلوں کے نفاذ کی قوت رکھتی ہے۔ آنکھوں پر پٹی یا اندھا پن انصاف کے تقاضے مکمل غیر جانب داری کے ساتھ پورے کرنے کا عزم ہے۔ کسی قسم کا خوف، لالچ یا عصبیت فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ کسی کی شناخت، اور معاشرتی مرتبہ و مقام کا لحاظ کیے بغیر طاقت ور اور کمزور انصاف کا یکساں حق رکھتے ہیں۔
سر پر لہریے دار رِبن اس امر کا اظہار ہے کہ حقائق اور درپیش مسائل کے مطابق فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ جسم کے کچھ حصوں کا بے لباس ہونا نیکی، پاکیزگی اور بے عیب (purity) ہونے کی علامت ہے ۔ اور یہ کہ انصاف چھپایا نہیں جاتا ظاہر ہوکر رہتا ہے۔
دنیا کے بیش تر قانون ساز ادارے، عدالتیں، قانون کے تعلیمی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی دیوی کے مقاصد، تصورات اور عزائم پر کاربند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ’انصاف کی دیوی‘کے مجسمے آویزاں کر رکھے ہیں، جن میں کہیں وہ کھڑی ہے اور کہیں بیٹھی ہے۔ پاکستان میں بھی قانون کے کچھ تعلیمی اداروں میں اس کا مجسمہ ایستادہ ہے۔
دنیا بھر میں کرسمس کا تہوار ۲۵دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑ کے یومِ پیدایش کے طور پر منایا جاتا ہے، جب کہ عیسائی محققین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ کے یومِ پیدایش بلکہ سالِ پیدایش کا بھی یقینی علم حاصل نہیں ہے بلکہ معلوم حقائق کے مطابق وہ ایسا موسم تھا جس میں چرواہے اپنی بھیڑوں کو لے کر کھلے میدانوں میں موجود تھے اور ایسا حضرت عیسٰی ؑکی پیدایش (فلسطین) کے علاقے میں دسمبر میں نہیں ہوتا۔ چرواہے گرمی کے موسم میں اپنے جانوروں کے ہمراہ کھلے میدانوں میں راتیں گزارتے ہیں۔
چوتھی صدی عیسوی میں روم (اٹلی) میں ۲۵ دسمبر کو مسیحی مذہبی تہوار منانے کے لیے مقرر کیا گیا۔اہلِ روم کے ہاں یہ دن سورج دیوتا کا یومِ پیدایش خیال کیا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ تمام دیوتا ۲۵ دسمبر کو زمین پر اُترتے ہیں اور ۶جنوری تک انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے ہرطرح کے معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔
رومی جشن زحل (Saturnalia) ۲۵دسمبر کو مناتے تھے۔ یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا جس میں خوب رنگ رلیاں منائی جائیں۔ جب عیسائی یہاں پہنچے تو ان کے زعما نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اس دن کو حضرت عیسٰی ؑ کی پیدایش سے منسوب کردیا۔ اسے کرسمس کے تہوار کا نام دیا گیا، کرسمس کی دوسری تقریبات مثلاً سنٹاکلاز، موم بتیاں جلانا اور کرسمس کا درخت (christmas tree) بعدازاں مختلف اَدوار میں شامل کیے جاتے رہے۔ کرسمس کے درخت کا آغاز انیسویں صدی میں یورپ کے ایک شاہی خاندان میں ہوا۔ اس کی نسبت اس درخت سے کی گئی جس کے نیچے حضرت مریمؑ تشریف فرما ہوئیں۔ اگرچہ تکون شکل کا درخت اس علاقے میں نہیں پایا جاتا مگر عقیدۂ تثلیث کے اظہار کے لیے اسے یہ شکل دی گئی۔
بت پرستانہ علامات یونان و روم ہی نہیں ہندستان میں بھی معروف ہیں۔ مثلاً ہاتھی کو لکشمی دیوی کی علامت اور تجارتی منافع، خوش حالی اور خوش بختی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تجارتی مراکز پر ہاتھی کے مجسمے ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ گائے تو ’ماتا‘ ہے۔ ترشول تین نوکوں والا نیزہ یا بھالا مہادیو شوکا سے منسوب ہے، اسے قوت کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہندو جنگجو اسے خاص طور پر ہمراہ رکھتے ہیں۔ماتھے پر تلک لگانا روحانی تعلق کی خاص علامت ہے۔ مختلف خدائوں سے تعلق کا اظہار مختلف شکلوں کے’ تلک‘ سے ہوتا ہے۔
ماتھے پر بندیا شادی شدہ خواتین کی علامت ہے۔ کنول کا پھول، چکر، غرض مختلف علامات مختلف دیویوں، دیوتائوں سے منسوب اور اپنے اپنے مفہوم رکھتی ہیں۔ مختلف تہوار دیومالائی قصے کہانیوں سے وابستہ ہیں۔
مختلف علامتوں کے بارے میں اسلام کا موقف بڑا واضح ہے۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات، علامات کو اللہ کے لیے خالص کرلیں۔ اسلام اس کائنات پر صرف ایک اللہ کی حکمرانی تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تمام صفات اسی کے لیے ہیں۔ تمام فیصلے اسی کی طرف سے ہیں۔ تخلیق، رزق کی تقسیم، صحت، عافیت، رہنمائی، زندگی، موت، سب کا وہ تنہا مالک اور مختار ہے۔ کسی معاملے میں اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ (الزمر ۳۹:۳) خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔
تعلق، محبت، اطاعت صرف اللہ واحد کے لیے!!
’شعائر‘ کے معنی ہیں: ایسا نشان یا علامت جو کسی فوج، گروہ یا قوم کی پہچان ظاہر کرے۔ یا وہ خاص لفظ جو فوج میں مقرر ہوتا ہے (code)۔ اور جس سے اپنے لوگوں کو پہچانا جاتا ہے۔(المنجد، مفردات راغب)
شعائر کسی حقیقت کے نشان (symbol) اور مظہر ہوتے ہیں اور ان کا مقصود ان حقائق کی تذکیر و تذکر ہوتا ہے جو ان کے اندر مضمر ہیں۔
’نصب‘ کے معنی ہیں کھڑی کی ہوئی علامت۔ عمارت کی صورت میں ہو، پتھر تراشیدہ، ناتراشیدہ، جسے کسی واقعہ، بت، دیوی یا دیوتا کے لیے بطورِ یادگار رکھا جائے یا اس سے منسوب کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ذبیحہ کو حرام قرار دیا جو کسی ’علامت‘ پر ذبح کیا جائے جو غیراللہ سے منسوب ہو۔ … حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْقف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ (المائدہ ۵:۳) ’’تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھاکر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو__ سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا __اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو‘‘۔
سوچنے کی بات ہے وہ ’علامت‘ جو اپنے قریب پہنچنے والے ذبیحہ کو حرام کر دے کیا یہ جائز ہوگا کہ اسے سینے سے لگا کر رکھا جائے، اپنی عمارتوں پر آویزاں کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ ایسی تمام علامات کو شیطانی علامات قرار دے رہے ہیں:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے، اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو،اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔(المائدہ ۳:۹۰)
گویا ’آستانوں‘ یا بت پرستانہ علامات کے ساتھ تعلق اتنا ہی ناپسندیدہ اور غلط ہے جتنا شراب اور جوے کے ساتھ تعلق۔ اس لیے کہ یہ علامات شیطانی علامات ہیں۔
پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو، یک سُو ہوکر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہَوا اس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینکے دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔(الحج ۲۲:۳۰-۳۱)
’بتوں‘ کو ’رجس‘ کہا گیاہے۔ ایسی غلاظت جس سے انسانی فطرت گھِن کھاتی ہے، نفرت محسوس کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بتوں سے منسوب تمام کہانیوں، عقیدتوں کو خود اللہ جل جلالہ پر افترا قرار دیتے ہیں۔ جھوٹی شہادت اور جھوٹی بات میں اگرچہ ہر طرح کا جھوٹ اور بہتان شامل ہیں مگر یہاں خاص طور سے اشارہ ان باطل عقائد ، احکام، رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفروشرک کی بنیاد ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے حقیقی یا خیالی بندوں کو حصہ دار بنانا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
یہ قبیح فعل اس قدر سنگین ہے کہ انسان کو اللہ جل شانہ کی خلافت کے بلند مقام سے پستیوں میں لاپھینکتا ہے۔ اس کے مرتبے اور مقام کو اتنا ہلکا کردیتا ہے کہ ہوائیں اسے اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ شرک کا ارتکاب کر کے انسان خود کو سرفرازی اور امن و حفاظت سے محروم کرلیتا ہے جو اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ سے اس کو مل سکتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے ہر فتنے کا ہدف اور اس کے بچھائے ہوئے جال کا شکار بن کر رہتا ہے حتیٰ کہ بے شمار مفاسد، فواحش اور مہلک خرابیوں کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ فکرواخلاق کی پستی، خواہشاتِ نفس کی غلامی اور جذبا ت و تخیلات کی حکمرانی اسے دنیا و آخرت کے خسارے سے دوچار کردیتے ہیں۔
یونان و ہند کے دانش ور، زندگی، موت، رزق کی تقسیم، عافیت، خیروبرکت، صحت وغیرہ، ہرمیز ایسکلیہ پئیس، ہائی جیہ، اور دیگر مختلف دیویوں اور دیوتائوں سے منسوب کررہے تھے اور حضرت ابراہیم ؑ نے واضح اعلان کردیا تھا:
جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھے زندگی بخشے گا۔(الشعراء ۲۶:۷۸-۸۱)
قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر واضح الفاظ میں گمراہ اقوام کے عقائد، نظریات، تہوار، رسوم و رواج، شعائر و علامات کو قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور معاملاتِ زندگی میں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مشرکوں کی مخالفت کرو۔(بخاری ۵۸۹۲، مسلم ۲۵۹)
مجوسیوں کی مخالفت کرو۔(مسلم ۲۶۰)
یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو۔(سنن ابوداؤد ۶۵۲)
یہ مخالفت ہر طرح کے مظاہر میں ہے۔ لباس، اطوار، تہوار وغیرہ تشبّہ بالکفار کا مسئلہ اہم ہے۔ اس حد تک اہم کہ روزہ جیسی عبادات میں بھی تشبّہ سے بچنے کا اہتمام کیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشور میں روزہ رکھنے کو اپنا معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس روز کی تو یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ اگلے سال ہم نومحرم کا روزہ رکھیں گے۔ لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔(رواہ مسلم، معارف الحدیث، کتاب الصوم،ص ۱۲۸)
نویں محرم کا روزہ رکھنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ آیندہ سے ہم بجاے دسویں کے نویں محرم کو روزہ رکھیں گے اور دوسرا یہ کہ ہم دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھیں گے تاکہ ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرزِعمل میں فرق ہوجائے۔ اکثر علما نے اس دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ نویں دسویں اور نویں کا ممکن نہ ہو تو دس گیارہ کاروزہ رکھ لیں۔
نماز کی ادایگی کے اوقات میں بھی یہ خیال رکھا گیا کہ جن اوقات میں آفتاب پرست اقوام عبادت کرتی ہیں۔ طلوع و غروب اور نصف النہار کے اوقات میں نفل نماز پڑھنے سے بھی منع کیا گیا۔
واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (سنن ابوداؤد، ۴۰۳۱) جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔
غیراقوام کی مشابہت سے بچنے کا کس قدر اہتمام کیا گیا، اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے: ’’ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اُونٹ قربان کرے گا‘‘۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجاجاتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا وہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ تب آپؐ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو، البتہ ایسی نذرکا پورا کرنا درست نہیں، جو مصیبت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو۔(سنن ابوداؤد، ۳۳۱۳)
چنانچہ فقہاے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ مسلمان کا مشرکانہ شعار و علامات، مراسم اور مقامات سے دُور رہنا شریعت اسلامی کا واضح تقاضا ہے۔
مذکورہ بالا مشرکانہ شعائر و علامات کا مسلم معاشرے میں رواج پانا لمحۂ فکریہ ہے۔ کیا یہ اللہ کے رسولؐ کی اس پیش گوئی کے مطابق نہیں جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’تم لوگ پہلی اُمتوں کے طریقوں کی قدم بہ قدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بِل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوگے‘‘۔ (بخاری، ۳۴۵۶)
’ہرمیز‘ یا ایسکلیہ پیئس کا عصا یا ’انصاف کی دیوی‘ اگر ہمارے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کی علامت بن جائیں، نائیکی (Nike) کا لوگو ہمارے بچوں کی پسند بن جائے، سرکاری سطح پر کرسمس کا تہوار منایا جانے لگے، ’ہواس‘ کی آنکھ ہمارے طبی نسخوں کی زینت ہو، کیا یہ ’گوہ کے بل‘ ہی نہیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں اپنی اُمت کے بارے میں گمراہ کن حکمرانوں (ائمہ) سے ڈرتا ہوں___ اور قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک میری اُمت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جاملے اور یہ کہ میری اُمت کے بہت سے لوگ بت پرستی نہ کرلیں۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب: ہونے والے فتنوں کا ذکر، حدیث ۳۹۵۲)
اللہ رب العزت کی یہ تنبیہہ بھی پیش نظر رہے: ’’اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمھارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمھارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے‘‘۔(الرعد ۱۳:۳۷)
ہمارے لیے اللہ کے شعار واضح ہیں۔ وہی ہمارے لیے مقدس اور محترم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ o (الحج ۲۲:۳۲) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔
محبت، تعظیم، اپنائیت صرف اللہ کے شعار اللہ واحد کی علامات کے لیے! حتیٰ کہ شعائراللہ ہماری پہچان بن جائیں۔