سیرت نگار بیان کرتے ہیں کہ نبوت کا تیسرا سال تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ، ’’جس چیز کا آپؐ کو حکم دیا جا رہا ہے اس کا اعلان کردیجیے‘‘ (الحجر۱۵:۹۴)۔ اس حکم کی تعمیل کرنے کے لیے حضوؐر صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے۔ اہلِ عرب کا دستور تھا کہ جب قوم کو کسی تباہ کن حملے سے خبردار کرنا ہوتا، تو اعلان کرنے والا، جسے النذیر العریاں کہا جاتا، کپڑے اُتار کر واصباحًا (لوگو، صبح صبح ٹوٹ پڑنے کی خبر لو) کا نعرہ لگاتا۔ ہر طرف سے لوگ دوڑ پڑتے۔ حضوؐر نے طریقہ وہی اختیار کیا، مگر اسے کپڑے اُتارنے کی بے شرمی سے پاک کر دیا۔ آپؐ کے واصباحًا یامعشرقریش کی پکار بلند کرتے ہی ہرطرف سے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ مکہ کی بستی چھوٹی سی تھی، اور اس وقت صفا کی پہاڑی کھلے میدان میں تھی، اور آج سے بلند تر ہی ہوگی۔ بہت سے خود آگئے، جو نہ آسکا اس نے اپنے عوض میں کسی کو بھیج دیا۔
جب سب جمع ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا: تم مجھے بتائو کہ تم مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟
سب نے ایک آواز سے کہا: ہم نے کوئی غلط بات تمھارے منہ سے نہیں سنی۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ تم صادق اور امین ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑی کے پیچھے سے راہ زنوں کا ایک مسلح گروہ آ رہا ہے جو مکہ پر حملہ آور ہوگا، تو کیا تم اس کا یقین کرلو گے؟ (جب کہ میں پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور تم اس کے نیچے ہو، میں پہاڑی کے ادھر بھی دُور تک دیکھ رہا ہوں، اور اُدھر بھی)۔
لوگوں نے کہا: بے شک ، کیوں کہ تم کو ہم نے ہمیشہ سچ بولتے دیکھا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یقین کرو کہ موت تمھارے سر پر آرہی ہے،اور تمھیں اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ (کیوںکہ میں عالمِ آخرت کو ایسے ہی دیکھ رہا ہوں جیسا تم دنیا کو)۔ اگر تم اللہ سے ملاقات پر ایمان نہ لائو گے تو میں تمھیں ایسے ہولناک عذاب سے خبردار کرتا ہوں جو تمھارے سامنے آنے والا ہے۔ (بخاری، مسلم، احمد، رحمۃ للعالمین، ج۱)
یہ آپؐ کا اپنی قوم سے پہلا خطاب تھا۔ دعوت و اصلاح کے کارِعظیم کے سلسلے میں یہ خطاب کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اس کے موضوعات کو بڑے غور سے دیکھیے: نبوت کے منفرد اور بلند مقام کا اعلان و اقرار بھی ہے، جہاں سے آپؐ اس عالم کو دیکھ رہے ہیں، اور اس کی خبر دے رہے ہیں، جسے کوئی نیچے کھڑا ہونے والا اپنے حواس اور عقل کے بَل پر نہیں دیکھ سکتا۔ اُس عالم کے بارے میں علم کے بغیر اِس عالم کے سدھرنے کی کوئی سبیل نہیں، اور علم کے لیے نبیؐ پر اعتمادویقین کے علاوہ کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں۔ آپؐ کی صداقت و امانت کی تصدیق و شہادت بھی ہے۔ آپؐ کی یہی صداقت ہے جو رسالت کے بخشے ہوئے علوم و اخبار اور احکام کا قطعی ثبوت ہے۔ لیکن اصل قابلِ غور چیز تو پیغام کا لب ِ لباب ہے: موت سر پر کھڑی ہے، اور موت کے بعد اللہ سے ملاقات یقینی ہے، زندگی کا حساب کتاب بھی، اعمال کی جواب دہی بھی۔ اس لیے بس اس کے عذاب سے بچنے کی فکر کرو، اس سے ملاقات کی تیاری میں لگ جائو۔ یہ ملاقات اور جزا و سزا اسی طرح حقیقی ہے جس طرح (اس زمانے میں) منہ اندھیرے، اچانک راہ زنوں کی غارت گری۔
یہ پیغام کوئی پہلے خطابِ عام ہی کا لب ِ لباب نہ تھا۔ اس کے بعد پے درپے خطبات کا ایک تانتا بندھ گیا۔ مکہ میں یہ خطبے بیش تر آسمان سے نازل ہو رہے تھے۔ مشکل ہی سے کوئی خطبہ ایسا ہوتا جو اللہ سے ملاقات اور اس کے سامنے اعمال کی جواب دہی کی تیاری کے لیے تحریک و ترغیب اور تشویق و تاکید سے خالی ہو۔ جب کہ اکثر کا تو واحد مُدعا یہی موضوع ہوتا۔ بیان کبھی مختصر ہوتا، کبھی طویل۔ آہنگ کبھی انتہائی تیزوتند، کبھی قرنوں کی واردات پبلک جھپکتے گزر جاتی، کبھی ایک لمحے کی رُوداد قرنوں ختم ہونے میں نہ آتی۔ کبھی مستقبل ماضی بن جاتا، کبھی ماضی مستقبل، مژدہ جاں فزا یا اندوہِ جاں گسل کی صورت میں۔ لیکن اثرآفرینی کا معجز نما کمال تھا کہ کم نہ ہوتا۔ جو گھڑی صرف پہاڑی والا دیکھ رہا تھا۔ وہ نیچے سننے والوں کے لیے بھی الواقعۃ اور الحاقۃ بن جاتی۔ جو بہت دُور تھی، وہ القارعۃ بن کر ان کے دل اور زندگی کا دروازہ کھڑکھڑانے لگتی۔ جس کی پرچھائیں بھی نہ دیکھی تھیں، وہ الغاشیۃ بن کر حواس پر چھاجاتی۔
یہی خطبے حضوؐر شب و روز لوگوں کو سناتے۔ یہی خطبے ایمان لانے والے راتوں کو کھڑے ہوکر نمازوں میں پڑھتے۔ یہی سننے والوں کو کھینچتے اور جمع کرتے، یہی آنے والوں کے دلوں کی دنیا بدلتے، انھیں نیا انسان بناتے۔ ہرچیز کی بنیاد رب سے ملاقات کی تیاری کا ہی پیغام تھا۔
یہ سب آسان خطبے قرآنِ مجید میں موجود ہیں۔ ان کو پڑھ لیجیے۔ آپ کو خود بہ خوبی معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا پیغام تھا جس نے دلوں کے روگ دُور کر دیے، بگڑی زندگیوں کو سنوار دیا، انسان ہی کا مقدر نہیں بدل دیا کہ فانی زندگی کے عوض ابدی جنت اس کا نصیب بن گئی، قوم کا بھی مقدر بدل دیا کہ اس کے جاں بہ لب جسم میں زندگی کی لہر دوڑ گئی، اسے امامت ِ عالم اور جنت ِارضی نصیب ہوگئی۔
مدینہ میں حیاتِ اجتماعی کی ضروریات کو ترجیح ضرور حاصل ہوئی، اس کے اصول اور ضوابط بیان ہوئے، جہاد اور انفاق کی تاکید ہوئی، اُمت کے جسد کا ڈھانچا کھڑا ہوا۔ لیکن جب بھی کوئی خطبہ یہ تعلیمات لے کر نازل ہوا، حیاتِ اُخروی اور لقاے رب، حساب اور اعمال کی جواب دہی، جنت اور جہنم کا بیان اسی طرح موجود تھا جس طرح ہڈیوں کے ساتھ گوشت اورخون۔ اور اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی برابر خطبے دے رہے تھے۔ یہ خطبے مختصر ہوتے، لیکن ہرخطبے میں کوہِ صفا کے خطبہ اوّل کا نقش موجود ہوتا۔ ہرگفتگو میں اسی کے مدعا کی تذکیر ہوتی۔ ہرخطبے میں تقویٰ کی وصیت اور تاکید ہوتی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن کی یہ ساری تعلیمات اسی طرح بے اثر رہتیں جس طرح آج ہیں۔ نہ کردار کی قوت ہوتی، نہ عزم کی پختگی، نہ حوصلوں کی بلندی، نہ جہاد کے لیے سرفروشی، نہ شوقِ شہادت، جن کے بغیر قرآن زندگی میں جلوہ گر نہیں ہوسکتا۔
اسی لیے پیغامِ رسالتؐ کا لب ِ لباب اور اصلاح کے نسخے کا مرکز و محور یہی ٹھیرا کہ رب سے ملاقات اور جواب دہی کے لیے تیاری کی فکر اور تڑپ سے دلوں کو بھر دیا جائے۔ ایمان باللہ کی حقیقت بھی یہی فکر او رتڑپ قرار پائی، اور ایمان بالرسالت تو عمل کی شکل اختیار ہی نہیں کرسکتا جب تک یہ فکر دلوں میں نہ اُترے۔ جو لوگ تخلیقِ کائنات میں غوروفکر کرتے اور ہرحال میں اللہ کو یاد رکھتے، ان کے دل کی پیاس یہی ہوتی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۱-۱۹۲) جو صداے رسالت پر لبیک کہتے ان کے دل بھی اسی اضطراب میں مبتلا ہوجاتے کہ فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ o رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۳-۱۹۴) شرک اورفکرِ آخرت کے درمیان بھی لازم و ملزوم کا تعلق ہے۔ جب سب خدائوں کو چھوڑ کر، پتھر کے ہوں یا ہوا و ہوس کے، صرف خداے واحد کو معبود و حاکم بنانے کی بات ہوتی ہے، تو انھی کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (الزمر ۳۹:۴۵)۔ جب بنی اسرائیل کو اصلاح کی راہ سجھائی گئی، تو انھیں بھی بار بار یہی تاکید کی گئی کہ اس دن کے ہولناک نتائج سے بچو، جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا (آدمی اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی بیوی اور بچوں سے دُور بھاگے گا)، کسی کی سفارش نہ چلے گی، کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا (کہ روے زمین کی ساری دولت بے قیمت ہوجائے گی)۔ کہیں سے کوئی مدد نہیں کرسکے گا (البقرہ ۲:۱۲۳)۔ نماز اور صبر کو احیاے اُمت کے لیے درکار بنیادی وسائل میں کلیدی مقام حاصل ہے۔ ان کے لیے استعداد کا راز خشوع میں رکھ دیا گیا، اور بتایا کہ یہ خشوع بھی انھی کو حاصل ہوتا ہے جن کو یہ خیال اور دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
٭
آیئے، دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ملاقات کو، اس کے عذاب کے خوف اور جنت کی طلب کو، کس طرح اپنی قوم اور اپنے ساتھیوں کے لیے ایک زندہ تجربہ بنادیا تھا۔ آخرت کی زندگی کے بارے میں قرآن کے پے درپے خطبات کی بارش اور حضوؐر کے اپنے خطبے اس کارنامے کی بنیاد تھے، اس یقین کی غذا تھے۔مگر عمل کی دنیا میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رات دن کا اسوہ تھا جو ان غیبی حقائق کو زندگی میں سمو کر ایک نئے کلچر اور ایک نئے انسان کی تخلیق کررہا تھا۔ یہ اسوہ اسوئہ حسنہ تھا، ہر اس شخص کے لیے ’’جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو رہے اور کثرت سے اللہ کو یاد رکھے‘‘ (الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ یہ اسوئہ رسولؐ کی دین تھی، یہی اس کی خصوصیات تھیں۔
صفا کی پہاڑی کے خطاب سے آغاز ہوا۔ پھر ہر قدم پر آخرت کی فلاح کو اور جنت کی ابدی زندگی ہی کو مطلوب و محبوب بنا دیا گیا۔ یہ کام خانقاہی اسلوب پر نہ ہوا، مجاہدانہ نہج پر ہوا۔ ایک طرف، جب حضرت خباب بن الارتؓ نے، جنھیں انگاروں پر لٹایا جاتا تھا یہاں تک کہ چربی کے پگھلنے سے آگ بجھ جاتی تھی، آپؐ سے مشرکین کے ظلم و ستم کے بارے میں دعا کرنے کی درخواست کی، توآپؐ کا چہرئہ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا: ’’اللہ ضرور بالضرور اپنے دین کو پورا کرکے رہے گا یہاں تک کہ تم دیکھ لو گے کہ ایک سوار تنہا صنعا سے حضرموت تک آئے گا ، اور سواے اللہ عزوجل کے اسے کسی کا ڈر نہ ہوگا۔مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو‘‘ (بخاری)۔ دوسری طرف، جب آپؐ کا گزر حضرت یاسرؓ، حضرت عمارؓ اور ان کے گھر والوں پر ہوا جنھیں بدترین تعذیب کا شکار بنایا جا رہا تھا، تو فرمایا: صبرا یا اٰل یاسر، ان موعدکم الجنۃ، ’’اے آلِ یاسر! صبر کرو، تمھارے لیے جنت کا وعدہ ہے‘‘ (احمد، البیہقی)
ایک طرف، مکہ کے گلی کوچوں میں حضوؐر کی اس بشارت کا چرچا عام تھا کہ ’’یہ ایک کلمہ قبول کرلو، سارا عرب تمھارا مطیع ہوگا، سارا عجم تمھارا ہوگا‘‘ (طبری)۔ دوسری طرف، جب ۷۰؍انصار وادیِ عقبہ میں حضوؐر سے بیعت کے لیے حاضر ہوئے حضرت اسعد بن زرارہؓ، ابوہیثم بن تیہانؓ اور عباس بن عبادہؓ کھڑے ہوگئے اور کہا: بھائیو! تم لوگوں کو معلوم ہے تم کس چیز پر اس شخص سے بیعت کر رہے ہو؟ یہ تمام سرخ و سیاہ انسانوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ تمام عرب کی دشمنی مول لینا ہے۔ (وہ سب مل کر تم کو ایک تیر سے نشانہ بنا لیں گے)۔ تمھارے اموال ضائع ہوں گے۔ تمھارے اشراف قتل ہوں گے۔ پس اگر تمھیں ان سب باتوں پر صبر کی طاقت ہے، اگر تمھیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائو اور اپنے مال اور اولاد سے ہاتھ دھو لو، تو آپؐ کو اپنے ساتھ اپنی سرزمین پر لے چلو۔ اگر تم اپنے نفس میں خوف و خطر محسوس کرتے ہو تو آپؐ کو ابھی چھوڑ دو۔ انصارنے کہا: ہم آپؐ کو لے جائیں گے، خواہ مال تباہ ہوں یا اشراف قتل کیے جائیں۔ لیکن یارسولؐ اللہ! اگر ہم اس وعدے میں پورے اُترے تو ہمارے لیے کیا ہے؟
اتنے عظیم اور خطرناک عہد کے صلے میں، زبانِ رسالتؐ پر صرف ایک ہی چیز کا وعدہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا: جنت۔
حضرت بشیر بن حفاصیہؓ خدمت مبارک میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے۔ حضوؐر نے بیعت کی شرائط بیان کیں تو بولے: دو باتوں کی مجھ میں طاقت نہیں۔ ایک زکوٰۃ کی، خدا کی قسم! میرے پاس دس اُونٹنیاں ہیں اور وہی میرا ذریعہ معاش ہیں۔ دوسرے، جہاد کی، مَیں کمزور آدمی ہوں اور اگر دشمن سے مقابلے میں بھاگ کھڑا ہوا تو اللہ کے غضب کا مستحق ہوجائوں گا۔ یہ سن کر حضوؐر نے دست ِمبارک سمیٹ لیا۔ پھر آپؐ نے اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا: اے بشیر! نہ صدقہ دینے پر تیار ہو نہ جہاد پر۔ پھر کیسے جنت میں جائو گے؟ یہ سن کر حضرت بشیرؓ نے تمام مطلوبہ باتوں پر بیعت کرلی۔
رسول اللہ کی تربیت کے نتیجے میں، موت کے بعد زندگی اور جنت دوزخ، ایک آنکھوں دیکھی حقیقت کی مانند بن گئے تھے۔ ایک دفعہ حضوؐر نے سورج گرہن کی بڑی طویل نماز پڑھائی اور نماز کے بعد چند کلمات ارشاد فرمائے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! ہم نے دیکھا کہ جب آپؐ کھڑے تھے ، آپؐ نے ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز پکڑنا چاہی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپؐ پیچھے ہٹے؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے جنت میں دیکھا، اور مَیں نے ہاتھ بڑھایا تاکہ انگور کا ایک خوشہ لے لوں۔ اگر مَیں یہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ پھر مَیں نے جہنم کی آگ کو دیکھا، اور میں پیچھے ہٹا کیوں کہ میں نے ایسا ہولناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ (بخاری، مسلم)
یہ نہ سمجھیے کہ اللہ سے ملاقات کی تیاری کی فکر اور جنت کی طلب سب میں پوری طرح غالب ہوگئی تھی۔ نہیں، جو لوگ حضوؐر کے ساتھ چل رہے تھے، ایمان و یقین کے لحاظ سے ان کے درجات میں بڑا فرق تھا۔ ان میں عام بھی تھے اور خاص بھی۔ اصحاب الیمین بھی تھے اور السابقون بھی۔ یہ بھی نہ سمجھیے کہ ایسے کچھ کاملین بھی تھے جن پر ہروقت ایک ہی کیفیت طاری رہتی تھی۔ نہیں، حضرت حنظلہؓ اور حضرت ابوبکرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپؐ جنت اور دوزخ کا تذکرہ فرماتے، ہمیں ایسا معلوم ہوتا گویا ہم نے سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ پھر ہم آپؐ کے پاس سے آتے، بیوی بچوں میں پہنچتے، ہنستے کھیلتے، کھیتی باڑی میں مشغول ہوتے، وہ سب باتیں بھول جاتے۔ دونوں حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہم تو منافق ہوگئے، اور اپنا یہ حال بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر اسی حالت میں رہو جس حال میں میرے پاس رہتے ہو تو فرشتے تمھاری خواب گاہوں میں اور راستوں میں تم سے مصافحہ کریں (یعنی تم فرشتے ہوجائو)۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے، اور کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
٭
اللہ سے ملاقات اور اعمال کی جواب دہی کے لیے تیاری اور جنت کی طلب و جستجو میں یکسوئی اور انہماک کے ساتھ لگ جانے کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ دنیا کو ترک کرنا ہوگا۔ جنت دنیا ہی کے ذریعے کمائی جاسکتی ہے۔ اپنے مقام پر دنیا کا ہر کام جو اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرے، اور اللہ کے لیے کیا جائے، عین عبادت ہے اور جنت میں لے جائے گا،خواہ وہ شکل و صورت میں خالص دنیاداری ہو۔اس کے برخلاف جو کام بھی ہو، خواہ وہ شکل و صورت میں ٹھیٹھ دینی کام ہو، جنت سے دُور اور جہنم سے قریب لے جائے گا۔ میدانِ جہاد میں شہادت جیسا عظیم کام بھی اگر نام و نمود کے لیے ہو تو سر کے بل جہنم میں گرائے گا۔ مال و دولت کمانے جیسا خالص دنیاوی کام، اطاعت ِ الٰہی کے مطابق اور مقاصد الٰہی کے لیے ہو تو جنت کے اعلیٰ درجات پر پہنچا دے گا۔ آخرت پر یقین کے بغیر دنیا نہیں سدھر سکتی، دنیا کی اصلاح کے بغیر آخرت نہیں سنور سکتی۔
یہ سمجھ لیا جائے تو جب حساب کتاب کی فکر غالب ہوجاتی ہے اور جنت مقصود بن جاتی ہے تو دنیا اور کاروبار دنیا انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ دنیا کا ہرلمحہ قیمتی بن جاتا ہے کہ اس سے لازوال لمحات حاصل ہوسکتے ہیں۔ دولت کا ہر حبّہ بیش قیمت خزانہ بن جاتا ہے کہ اس سے ابدی راحت کے خزانے ہاتھ آسکتے ہیں۔ دنیا کا ہر کام اس لیے دل چسپی اور انہماک کا مرکز بن جاتا ہے کہ وہ جنت کے لیے سرمایہ کاری کا موقع ہے۔
دنیا، طالب آخرت کے لیے کتنی اہم ہوجاتی ہے؟ ایک حدیث سے اندازہ لگایئے۔ حضوؐر نے فرمایا: ’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے، اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں لگانے کے لیے کھجور کا پودا ہو، اور وہ قیامت کے واقع ہونے سے پہلے لگا سکتا ہو، تو ضرور لگا دے۔ یہ اس کے لیے بڑے اجر کا باعث ہوگا‘‘۔ گویا آخرت کے طالب کا کام یہ نہیں کہ وہ محض گوشوں میں جاکر عبادت اور آہ و زاری میں لگ جائے۔ نہیں، وہ آخری سانس تک اللہ کی زمین میں پودے لگانے اور جس میں اسے خلیفہ بنایا گیا ہے، اسے آباد کرنے میں لگا رہے، اسی لیے جو لوگ حضوؐر کی معرفت، اللہ سے جنت کے عوض اپنی جان و مال کا سودا چکانے کے بعد دنیا میں نکلے۔ انھوں نے دنیا کی بہترین، اعلیٰ ترین تہذیب کی تعمیروتشکیل کی۔ یہ تہذیب اتنی پایدار ثابت ہوئی کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ خدا سے بے نیاز، تہذیب کا اعلیٰ نمونہ رومن امپائر ہے۔ مغربی تہذیب بھی اس کو اپنا مورث اعلیٰ تسلیم کرتی ہے۔ اس کو اپنے عروج تک پہنچنے میں تقریباً ۶۰۰ سال لگے، مگر ایک صدی میں بکھر کر رہ گئی۔ خدا پرست اسلامی تہذیب___ جو اللہ اور اس سے ملاقات کے یقین اور رسولؐ کے اتباع پر قائم ہوئی___ ۸۰سال کے عرصے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔اس کا زوال ایک ہزار سال کے بعد شروع ہوا، اور اپنی پندرھویں صدی میں وہ پھر مائل بہ عروج ہے۔
یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بعد موت کے لیے تیاری کی دعوت کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان پس ماندہ رہیںگے۔ وہ دنیا کا کوئی لطف نہ اُٹھائیں گے، ان کی دنیا اُجڑ جائے گی، اور دنیا میں وہی قومیں غالب اور آگے رہیںگی جو دنیا کے لیے فارغ ہیں۔ نہیں، حضوؐر کے ان پیروکاروں ہی کو دیکھ لیجیے جنھوں نے آپؐ کی اس پکار پر اس طرح لبیک کہا تھا جیساکہ اس کا حق تھا۔ دنیا کا کون سا کام اور کون سا شعبہ ہے جس میں انھوں نے برتری حاصل نہیں کی۔ وہ دنیا کے بہترین فاتح، حکمران اور منتظم ثابت ہوئے۔ زینت کے طیب سامان میں سے کون سا سامان ہے جو ان کو حدود اللہ کے اندر دستیاب ہوا اور انھوں نے اسے اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ انھوں نے ایک طرف اچھے کھانے بھی کھائے۔ قیمتی لباس بھی پہنے، عمدہ مکان بھی بنائے، مال و دولت بھی خوب کمایا، اسے راہِ خدا میں لٹایا تو اپنے اُوپر بھی خوب خرچ کیا اور اپنے گھروالوں پر بھی۔ دوسری طرف شہر بھی آباد کیے، عمارات بھی تعمیر کیں، صنعت و زراعت کو بھی ترقی دی، علوم و فنون کو بھی فروغ دیا۔
٭
سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں: انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہ کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا، جب تک یہ شعور اور یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خداکے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۶۶)
جہاں خدا کے سامنے حاضری اور جواب دہی کے عقیدے کا اقرار نہ بھی ہو، وہاں بھی کسی نہ کسی کے سامنے جواب دہی کا یقین موجود ہوتا ہے جو انسانی رویوں کو درست و مستقیم رکھتا ہے: قوم کے سامنے، عدالت کے سامنے، اپنے سے بالاتر افراد اور اداروں کے سامنے، کچھ نہ ہو تو اپنے ضمیر کے سامنے بھی۔ خدا کے سامنے، جواب دہی کے نتیجے میں جنت پانے کا شوق اور لالچ نہ ہو، تو بھی معاشرے کی بہتری، انسان کی خدمت، دیانت داری، اداے فرض، ضمیر کے اطمینان اور دل کے سکون جیسی چیزوں کا لالچ اور شوق ہوتا ہے۔ آج جو اقوام مستحکم ہیں، ترقی یافتہ اور مہذب شمار ہوتی ہیں، دنیا کی قیادت کر رہی ہیں، ان کی قوت کا راز اس نوعیت کے کسی شعور اور یقین میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جواب دہی کا احساسِ مسئولیت بھی مفقود ہے۔ سارے اعمالِ بد دھڑلے سے کیے جاتے ہیں، جو زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ: ’’کرلو جو کچھ کرنا ہے، ہمارا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے!‘‘ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ اللہ سے ملاقات، اس کے سامنے جواب دہی، اور اس کی جنت کے ملنے کا یقین ہو، تو یہ دل کی توانائی، سیرت کی پختگی، جہاں گیری اور جہاں بانی کا ایک عدیم المثال نسخہ ہے، جس کا مقابلہ کوئی نسخہ نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر آخرت اور جنت کا اقرار تو ہو، مگر دل آخرت کی فکر سے خالی ہو، عملاً خدا فراموشی ہو، مقصود ِ زندگی، حصولِ دولت یا جاہ و عزت ہو، پائونڈ اور ڈالر کی بندگی ہو، عیش و عشرت میں مست ہو، تو پھر ایسے دل میں کسی نوعیت کا بھی احساسِ مسئولیت قرار نہیں پکڑسکتا، دنیا سے بلند کسی بھی چیز کی طلب و حرص نہیں سما سکتی۔ خانۂ خالی را دیواں می گیرند۔ جو دل یادِخدا سے خالی ہوجاتا ہے، پھر اس میں اَن گنت خواہشات کے ڈھیروں بت ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔ بالکل یہی حادثہ فاجعہ ہمیں پیش آچکا ہے۔ اب ہرحادثہ اور ہربحران، اسی عظیم حادثے کا نتیجہ ہے۔
چنانچہ آج ہمارے ہاں جو بدترین بحران درپیش ہے، اس سے مستقل طور پر نکلنے کا کوئی راستہ، اس کے علاوہ ممکن نہیں کہ صفا کی پہاڑی کا چراغ ہاتھ میں لے کر راہ بنائی جائے۔ اسلوب دوسرا ہوسکتا ہے، محاورہ دوسرا ہوسکتا ہے، زبان دوسری ہوسکتی ہے، تدبیر دوسری ہوسکتی ہے، حکمتِ عملی دوسری ہوسکتی ہے کیوںکہ ہرزمانے کے آدمیوں کی سمجھ اور زبان، طریقہ اوررسم و رواج علیحدہ ہوتا ہے۔ اس لیے اصلاح و تربیت کے لیے ہر زمانے میں اس زمانے کے موافق جو طریقے ٹھیک ہوں، وہی اختیار کرنے چاہییں۔ مگر روشنی وہی ہوگی، روح وہی ہوگی، مدعا وہی ہوگا، منہج وہی ہوگا، جو صفا کی پہاڑی کے خطاب کا تھا۔ جتنی خدا اور رسولؐ سے محبت کی، اللہ سے ملاقات کی فکر اور تیاری کی، جنت کی طلب اور لالچ کی لہر بڑھے گی اور پھیلے گی اتنی ہی ملک و ملّت کی حالت بہتر ہوگی۔
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا یاآخرت کی مغالطہ آمیز اور لاحاصل بحث سے باہر نکلیں، اور یک سُو ہوکر خود کو اور اپنی قوم کو آخرت میں فلاح اور جنت کی جستجو کی راہ پر لگانے میں لگ جائیں۔ اسی سے دنیاوی ترقی کے دروازے کھلیںگے۔ اسی سے آج کے سنگین بحران کا مستقل حل نکلے گا۔ کیوں کہ اسی جستجو اور سعی سے ہوا و ہوس کی حکمرانی ختم ہوگی۔ دنیا کی زینت کی رغبت اور کشش انسان کی فطرت میں ودیعت ہے: ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں (اور کارخانے) بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں (اٰل عمرٰن ۳:۱۴)۔ ان کی رغبت و محبت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، ان کو اس چیز کی رغبت سے مغلوب کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے، بشرطیکہ یہ یقین پیدا ہوجائے کہ جو اس کے پاس ہے وہی بہتر ہے کہ وہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کے بعد ہی سینوں میں ہواے نفس کی پرستش مٹ سکے گی،اور ہمارے اجتماعی بحران کے اصل اسباب کا ازالہ ہوسکے گا۔
اس مقصد کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسوئہ رسولؐ کے اتباع میں ہم خود اپنے دل کو جنت سے لگائیں، ہرمعاملے میں اور ہر کام میں جنت کو اپنا مقصود بنانے کی کوشش میں لگ جائیں، اور دوسروں کو بھی اسی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہوں، تو ہمیں یقین ہے کہ آج بھی جنت کی دعوت میں وہ کشش اور قوت موجو د ہے کہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرلے۔ یہ بظاہر دقت طلب کام ہے، لیکن نیکی بھی متعدی ہوتی ہے اور تیزی کے ساتھ پھیلتی ہے، جس طرح بیماری کی وبا۔ جو اس کے قائل ہوں کہ اپنے دل کو اور دوسرے دلوں کو اس رُخ پر ڈالے بغیر قومی زندگی صحیح رُخ پر نہیں پڑسکتی، ان کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ کرسکتے ہوں وہ کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَo(ھود ۱۱:۵۲) اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو۔