خرم مراد


برادر عزیز محترم خرم مراد مرحوم نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں ترجمان القرآن کے لیے جو ’اشارات‘ لکھے تھے وہ حالات کے گہرے تجزیے، مسائل اور اُن کے حل کی راہوں کی طرف چلنے کے روشن نشانات پر مشتمل تھے اور آج بھی ان کی تازگی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ ہم اس ماہ کے ’اشارات‘ میں خرم بھائی کی اس چشم کشا تحریر کو شائع کر رہے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں تحریک اسلامی کی قیادت اور اُس کے کارکن ان نکات پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور دُنیا اور تحریک کا احتساب کرتے وقت انھیں ملحوظ رکھیں گے۔ مدیر

 

اس بات میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ ’آج‘ کا دامن اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک یقینی روشن مستقبل کے بھرپور امکانات سے لبریز ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آج کل جو حوادث و واقعات پیش آرہے ہیں وہ مایوسی پیدا کرتے ہیں، ناکامی و مغلوبیت اور پس ماندگی کی خبر دینے لگتے ہیں۔ اپنا افتراق و انتشار اور نزاع و اختلاف اور اس کے تباہ کن نتائج دیکھ کر دل بیٹھنے لگتے ہیں۔ اغیار کی سیاسی، فوجی اور ابلاغی قوت و بالادستی اور ان کے مکروفن کی کامیابی دیکھ کر حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، ہمارے اس یقین میں کوئی کمی نہیں آتی کہ کل سورج طلوع ہوگا تو عزّت و سربلندی اور ترقی کی خوش خبری لے کر آئے گا، ان شاء اللہ!

آج اور کل کے واقعات سے نگاہ اُوپر اُٹھا کر آج کی اور ۱۹۴۷ء کی دنیا پر ایک نظر ڈالیے، تو آپ کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس نصف صدی میں ہم نے اپنی منزل کی طرف کتنی نمایاں  پیش رفت کرلی ہے۔ اسلام ایک مذہب کے مقام سے سفر کرکے مقصد ِ حیات بن گیا ہے۔ وہ مستقبل کی اجتماعیت، ریاست اور تہذیب کے نقشہ گر کے مقام پر پہنچ گیا ہے۔ نسلوں کی نسلوں نے اپنی سعی و جہد، اور اپنی آرزو و جستجو کو اس مقصد کے حصول اور اس نقشہ فردا پر مرکوز کردیا ہے۔   ملت کے جسم میں احیائے اسلام کے ساتھ وابستگی کی ایک رو دوڑ گئی ہے اور حوصلہ شکن حالات اور ناکامیوں کے باوجود الحمدللہ، یہ وابستگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ابلیس نے جس کو فتنہ فردا قرار دیا تھا، وہ اس عالم کے لیے فتنہ امروز بن کر نمودار ہوگیا ہے۔

یہ روشن مستقبل کب طلوع ہوگا؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ اس کا علم اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، جس کے پاس غیب کی ساری کنجیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےاپنے رسولوں ؑ سے نصرت و فتح کا وعدہ ضرور فرمایا:  اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۝۱۷۲۠  وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳ (الصفّٰت ۳۷: ۱۷۲-۱۷۳) ’’یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا‘‘۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح   فرما دیا(ترجمہ:) ’’اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ اب خواہ ہم تمھارے سامنے ہی ان کو ان بُرے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انھیں ڈرا رہے ہیں، یا (اس سے پہلے) تمھیں دنیا سے اُٹھا لیں‘‘ (المومن ۴۰:۷۷)۔ ہمارے ساتھ بھی اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اور لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کے وعدے ضرور پورے ہوکر رہیں گے، خواہ ہماری آنکھیں کامرانی کا یہ منظر نہ دیکھ سکیں۔

جو بات ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ روشن مستقبل کے حصول کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ ہے: جدوجہد کا راستہ۔ انفاق اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ! نصرتِ الٰہی کے بغیر تو ایک قدم بھی نہیں اُٹھ سکتا، کجا یہ کہ منزل سر ہوجائے: اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۰) ’’اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں‘‘۔

لیکن یہ نصرتِ الٰہی صرف انھی کو حاصل ہوتی ہے، جو جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں: اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ (محمد۴۷:۷)’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا، اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا‘‘__ جس سچے ایمان کےساتھ سربلندی کا وعدہ مشروط ہے، اس کی صداقت کی کسوٹی بھی جدوجہد ہی ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۱۵ (الحجرات ۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے۔ پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔

جدوجہد کے کئی پہلو ہیں۔ خود اپنے اندر جدوجہد کی استعداد پیدا کرنا، اور اپنی شخصیت کو جدوجہد کے لائق بنانا۔ انسانوں کی مطلوب ضروری تعداد کو جدوجہد کے لیے کھڑا کرنا، ان کو ایک قوت بنانا، ان کی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں بہتر سے بہتر اور مؤثر سے مؤثر تر طریقے اور تدابیر سے جدوجہد میں لگانا۔ ماحول، معاشرہ، انسان اور نظام، جیسے کچھ ہیں، انھی کے درمیان اپنی پیش رفت اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ بنانا۔ اس مقصد کے لیے راستے کے امکانات و خطرات کا، موافق و مخالف عوامل اور قوتوں کا، حال اور مستقبل کا زیادہ سے زیادہ ممکن صحیح اندازہ کرنا۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا، جس سے منزل مطلوب تک پہنچنا ممکن نظر آئے۔ اپنے اعمال و اقدامات کا جائزہ و احتساب اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر استغفار کی روش پر کاربند رہنا۔

ان کی دُعا بس یہ تھی کہ:

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ O (اٰل عمرٰن۳:۱۴۷)اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جوکچھ تجاوز ہوگیا ہو، اسے معاف کردے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

یہاں تک کہ فتح و نصرت دیکھ کر بھی یہی روش رہے:

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ  ط اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا  O (النصر ۱۱۰: ۳) اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے بخشش کی دُعا مانگو۔

صرف تمنا اور خواہش سے مستقبل کی نقشہ گری نہیں ہوسکتی۔ دُعائیں بھی جدوجہد کا بدل نہیں بن سکتیں۔ جدوجہد کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اللہ کی نصرت اور فتح حاصل نہیں ہوسکتی۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے ، کہ بڑی سے بڑی جدوجہد سے بھی اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کوئی انسانی تدبیر بھی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ کوئی انسانی عقل بھی ان تمام عوامل و حالات کا احاطہ نہیں کرسکتی، جو جدوجہد کی کامیابی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ کسی انسان کے بارے میں یہ ضمانت نہیں جو ایسے کامل انسان پیدا کرسکے جن کے بارے میں ضمانت دی جاسکے۔

چنانچہ جتنی خام، ضعیف اور کم معیار عقل، استعداد، ایمان اور عمل صالح میسر آئے اور جتنی بھی بُری بھلی جدوجہد بن پڑے، وہ اللہ کی راہ میں پیش کر دینا چاہیے۔ ہر صورت میں حکم اور تدبیر کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور نتائج صرف مشیت الٰہی پر منحصر ہیں۔ لیکن جہاں تک انسان کی نگاہ اور عقل کام کرے، وہاں تک یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جدوجہد کی کامیابی کے لیے ضروری شرائط زیادہ سے زیادہ پوری ہوں۔

اس موضوع کو سمیٹ کر ہم چند اہم اور بنیادی باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ان قوتوں اور تحریکات کی توجہ کے لیے، جنھوں نے اکیسویں صدی میں غلبۂ دین کی لہر پیدا کی ہے:

رضائے الٰہی کا حصول

سب سے ضروری اور اہم شرط للہیت اور اخلاص ہے۔ پوری جدوجہد، اور جدوجہد کا ہر کام اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے۔ رضائے الٰہی کی جستجو، جنّت کی تمنا و طلب اور اس کے لیے بھاگ دوڑ اور مسابقت اسی للہیت کی تعبیر ہے۔ قرآن میں جہاں بندگی کی دعوت ہے،وہاں مخلصین کی شرط ہے۔ اکثر مقامات پر وجہ ربہ الاعلٰی اور مرضات اللہ  کی جستجو کی تاکید ہے، اور جہاں جدوجہد کا ذکر ہے، وہاں جنّت کو مطلوب و محبوب بنانے کی دعوت ہے۔ قرآن اس دعوت سے بھرا ہوا ہے۔

آج غلبۂ دین کی جدوجہد کو جو بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں، ان کی بڑی وجہ ہمارے نزدیک اسی مطلوب اخلاص اور للہیت میں کمی یا کمزوری ہے۔ یہ افراد کی سُستی اور بے رغبتی ہو، تحریکوں میں جمود ہو، دنیاطلبی کا غلبہ ہو، عہدوں اور جاہ و عزت کی طمع ہو، خودرائی و خودسری ہو، نظم و ضبط کی کمی ہو، باہمی افتراق و تنازعات ہوں، دعوت الی اللہ سے لاپروائی اور دعوت کی بے اثری ہو___  جو بھی ہو، کھنگال کر دیکھیے تو تہہ میں یہی مرض ملے گا۔ سب سے بڑا سُلگتا مسئلہ یہی اخلاص و للہیت میں کمی کا مسئلہ ہے۔

للہیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ہر فرد کا اپنا معاملہ ہے۔ وہی اپنے اندر للہیت پیدا کرسکتا ہے، وہی جدوجہد کو للہیت کے رنگ میں رنگ سکتا ہے، وہی اس کے ہونے یا نہ ہونے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ ہے، اور اگر یہ نہ ہو تونقصان بھی سراسر اسی کا ہے۔ یہ اس کے اور اس کے  ربّ کے درمیان معاملہ ہے، جو عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہے۔ وہی صحیح علم رکھتا ہے اور فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس میں کتنی للہیت ہے؟ اجتماعی جدوجہد میں تو ہرطرح کے لوگ شامل ہونے چاہییں، اور ہوں گے: وہ بھی جن کے دل اخلاص کی اس نعمت سے خالی ہوں، وہ بھی جن کے دل اس سے مالامال ہوں۔ کوئی اجتماعیت ہر فرد کے اندر للہیت پیدا کرنے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی، نہ اسے فرد کے اخلاص کو جدوجہد میں شرکت کے لیے شرط بنانا چاہیے۔

لیکن دوسری طرف اجتماعیت کو تین باتوں کا اہتمام پوری شدت کے ساتھ کرنا چاہیے:

  • ایک یہ کہ، وہ تذکیر و موعظۃ اور دعوت کے تمام ممکن اوررائج طریقوں سے لوگوں کو مسلسل اور تاکید کے ساتھ للہیت کی طرف راغب کرتی رہے۔
  • دوسرے یہ کہ، وہ اجتماعی ماحول اور کلچر کو للہیت کے رنگ میں رنگنے کا اہتمام کرے۔ جو اس ماحول میں سانس لے، اس پر یہ رنگ چڑھے۔ وہ رضائے الٰہی اور جنّت کی قدروقیمت اور مطلوبیت کا خریدار بن جائے۔
  • تیسرے یہ کہ ، اجتماعیت اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے لازماً دنیا میں ان کے نتائج کو سامنے رکھے، لیکن مجموعی طور پر نیت اور محرک صرف اللہ اور جنت کو رکھے۔ کوشش یہ کرے کہ کوئی ایسا قدم تو ہرگز نہ اُٹھائے جو اللہ کو ناپسند ہو، مثلاً : تدابیر وہ ضرور اختیار کی جائیں جن کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریکِ سفر ہوں، لیکن نیت ان کی اور اپنی اُخروی فلاح ہی رہے۔

ہمیں یقین ہے کہ جس قدر اخلاص بڑھے گا، للہیت رچے، بسے گی، اس کا رنگ انفرادی اور سماجی زندگی پر چھائے گا، اس قدر ہمارے مسائل حل ہوں گے، ہماری کمزوریاں اور خرابیاں دُور ہوں گی، ہمارے اندر مضبوطی اور شوق و طلب میں اضافہ ہوگا، اور ہم نصرت الٰہی کے مستحق بنیں گے۔

بڑے پیمانے پر دعوتی جدوجہد

دوسری اہم اور ضروری شرط یہ ہے، کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ___ ہر طرح، ہرمعیار اور ہر انداز کے انسانوں کو ___ دینی جدوجہد کے دائرے میں جمع کرنا ، اور ان کی جو بھی استعداد و صلاحیت ہو اسے دین کے کام میں لگا دینا۔ للہیت اگر روح، مقصود اور بنیاد ہے، تو انسان دینی جدوجہد کا مرکز و محور ہے۔

ہمارے نزدیک دینی جدوجہد کا دوسرا بڑا سُلگتا مسئلہ یہی ہے،کہ اس جدوجہد میں انسان کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام انسان تک، ہرطرح کے انسان تک پہنچنے ، اس کے دل میں گھر کرنے، اسے اپنا ہم نوا بنانے، اسے اپنے دائرے میں جمع کرنے، اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے، اور اس کی استعداد و صلاحیت کو ضیاع سے بچاکر دین کے لیے کارگر بنانے میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

مسلم ممالک کی مثال

بہت سے ممالک ہیں جہاں منظم دینی گروہ موجود ہیں، ان کے پاس قوت و طاقت بھی ہے، صلاحیت، نیکی اور تقویٰ بھی موجود ہے، لیکن عام معاشرہ ان کے ساتھ نہیں۔ کوئی مؤثر عوامی مزاحمت کی لہر نہیں اُٹھتی، حالانکہ حکومتیں ہزاروں کو ذبح کردیتی ہیں، مثلاً شام میں، ہزاروں کو جیلوں میں بند کر کے تعذیب کا شکار بناتی ہیں۔ مصر میں، انتخابی عمل کو من مانے طریقے سے اپنی مرضی کے نتائج نکالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انڈونیشیا اور مصر میں آزادانہ انتخاب ہوتے ہیں مگر بھاری اکثریت غلبۂ دین کے حامیوں کے حق میں ووٹ دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان اور ترکیہ میں، جہاں ظلم و جبر کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے گئے اور نہ تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا ہے وہاں بھی عام آبادی نے ساتھ نہیں دیا ہے۔ الجزائر میں جتنی زبردست اور جتنی طویل مسلّمہ جدوجہد برپا رہی، اس پیمانے پر کوئی عوامی مزاحمت کی تحریک ہوتی، جس میں معاشرے کا بڑا حصہ شامل ہوتا، تو کیا کوئی ظالم حکومت مقابلے میں ٹک سکتی تھی ___ اس دائرے میں مطلوب کامیابی کیسے حاصل ہو؟ عام معاشرے کو کیسے اپنا ہم نوا اور ہم رکاب بنایا جائے؟ یہی آج کا دوسرا بڑا چیلنج ہے۔

اس سلگتے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کئی پہلوئوں سے غوروفکر اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جدوجہد میں انسان کی قدروقیمت، اس کی ضرورت اور اس کا مقام جاننے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ دین کا، اس کے پیغام اور جدوجہد کامخاطب ہرعام انسان ہے، اُمت مسلمہ عام انسانوں کے لیے (اُخْرِجَتْ لِلّنَاسِ) برپا کی گئی ہے۔ دینی جدوجہد کا مقصود ہرانسان کی اُخروی اور دُنیوی فلاح ہے۔ دین کی دعوت اور جدوجہد انسانوں کے ذریعے ہی دوام پاسکتی ہے۔ دینی نظام انسانی ہاتھوں ہی سے چلے گا، انسانوں ہی پر قائم ہوگا اور انھی کی فلاح و بہبود کے لیے قائم ہوگا۔

ہر فرد، ملّت کا ستارا

اس لحاظ سے دیکھیے تو ہر وہ انسان قیمتی ہے جو دینی مقاصد کا کوئی حصہ بھی قبول کرے، جو دینی جدوجہد میں کسی درجے میں بھی شرکت کرنے کو تیار ہو۔ ہر انسان کو اپنے ساتھ لے کر چلنا، یہ ہر دینی جدوجہد کرنے والے کا فرض ہے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں، جو دینی مقاصد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، مگر گوناگوں معاشرتی و سیاسی وجوہ کی بنا پر ان کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ حمایت حاصل کرنا چاہیے، جو ضروری و مفید ہوسکتی ہے۔ جیسے جنابِ ابوطالب یا وہ سردارانِ قریش جو قرابت یا شرافت ِ نفس کی وجہ سے مظلوم و مقہور مسلمانوں کو حفاظت و پناہ فراہم کرتے تھے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں جو سخت دشمن ہوں، لیکن جن کے ساتھ آجانے سے معاشرے میں وزن کا پلڑا جھک سکتا ہو۔ جیسے ابوجہل اور عمر بن الخطابؓ ، جن کے لیے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسلام کی تقویت کا سامان کرے۔

یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ انسان اپنی صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے، اپنے ایمان و تقویٰ کے لحاظ سے اور اپنے کردار کے لحاظ سے اعلیٰ بھی ہوں گے اور ادنیٰ بھی۔ لیکن اندھا بھی ہو تووہ توجہ اور مقام کا مستحق ہے۔ میدانِ جنگ سے پلٹ آنے والے ہوں، تو وہ بھی عفو و استغفار اور اجتماعی معاملات میں شریک رکھے جانے کے مستحق ہیں۔ عبداللہ بن ابی جیسے منافق کے ساتھ بھی اس حد تک نرم برتائو کیا گیا کہ ’’لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں‘‘۔

ایک بگڑے ہوئے مسلمان معاشرے میں یقینا وابستگی و وفاداری اور ایمان و عمل کے لحاظ سے معیاری لوگوں کی تلاش بھی ہوگی، ایسے لوگ جمع کرنے اور بنانے کی خصوصی فکر بھی ہوگی، اور ابتدائی مراحل میں تو زیادہ اہتمام سے ہوگی، لیکن جیسے ہی انسانوں کی قوت استعمال کر کے غلبۂ دین  کی جدوجہد شروع ہوگی۔ ویسے ہی ہرمسلمان کو، وہ کیسا ہی مسلمان ہو، اپنے ساتھ شامل کرنا اور اپنے ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوگا۔ بنی اسرائیل کے جن ’مسلمانوں‘کو اپنے ساتھ لے کر حضرت موسٰی مصر سے نکلے تھے۔ ذرا قرآن اور تورات میں ان کی ایمانی،اعتقادی، اخلاقی، عملی اور دینی حالت دیکھیے، تو آپ کو ہماری اس بات کی اہمیت کا صحیح ادراک ہوگا۔

رویے اور مزاج میں تبدیلی

ایک دفعہ انسان کا یہ مقام سمجھ لیا جائے تو رویوں،پالیسیوں اور نظام میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت خود بہ خود محسوس ہوگی اور تبدیلیاں خود بہ خود پیدا ہوں گی۔ پھر ہرشخص جس کا ساتھ دینا ضروری ہو، یا جو ساتھ دینے کے لیے تیار ہو، اس کے لیے دل کے دروازے بھی کھل جائیں گے اور دائرۂ اجتماعیت کے دروازے بھی۔

اجتماعی نظام جو تحریکوں نے اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ’نصوص‘ پر مبنی نہیں بلکہ اجتہاد پر مبنی ہیں۔ ان کو وضع کرنے میں ہمارے سامنے عصرِحاضر کی نظریاتی تحریکوں کے نظام کے ماڈل بھی رہے ہیں۔ لیکن ہماری روایات میں اور بھی ماڈل موجود ہیں، اور آج کےدور میں اوربھی ماڈل رائج ہیں، اور نصوص کی روشنی میں استنباط و اجتہاد کرکے ہم کو ایسے ماڈل وضع کرنے چاہییں، جو ان تمام انسانوں کو مساوی شرکت کا بھرپور احساس دے سکیں، جو اس غلبۂ دین کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ لوگوں کو چھانٹ چھانٹ کرلینے، اور صرف معیاری لوگوں ہی کو لینے سے بہرحال وہ قلیل گروہ تیار ہوئے جو قلیل ہونے کے باوجود قوی اور مؤثر ہیں۔ لیکن اس طریقے سے تحدید و تفریق بھی پیدا ہوئی۔ جس سے معاشرہ بحیثیت مجموعی اس قلیل گروہ کی پشت پناہی کے لیے تیار نہ ہوسکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پورے مسئلے کا اَزسرنو جائزہ لے کر ہم مناسب دُور رس اقدامات کریں، جو عام انسانوں کو اپنے دائرے میں جمع کرنے میں ممدو معاون ہوں۔

اس سلسلے میں یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دینا چاہیے کہ:تعداد فی نفسہٖ مطلوب نہیں، یا تعداد کی طلب اور جستجو مستحسن نہیں، یا تعداد و توسیع اور معیار و استحکام میں کوئی بنیادی و منطقی تضاد ہے۔ اصل چیز تومعیار ہے، تعداد سے کیا ہوتا ہے۔

یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نصرت و فتح کی علامت، یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا  کوقرار دیا ہے۔ اپنی اُمت کی تعداد کو حضوؐر نے اپنے لیے باعث ِ فخر قرار دیا ہے، اور اس تعداد میں اضافے کے لیے حضوؐر رات دن کوشاں رہے ہیں۔اور اگر دینی جدوجہد میں شریک ہونا ہی نارِ جہنّم سے نجات اور جنّت میں داخلے کا سب سے یقینی راستہ ہے ، تو اس راستے کو کسی کے لیے بند کیوں کر کیا جاسکتا ہے، یا کسی کو انتظار و تعویق میں کیوں کر ڈالا جاسکتا ہے؟

دعوتی اسلوب میں دلکشی

یہ بات واضح کر دینا بھی ضروری ہے، کہ ایسی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ محض انسان کو مرکز بنانے، اس کا مقام تسلیم کرنے، ہر طرح کےانسان کے لیے دل اور اجتماعیت کے دروازے کھول دینے سے، ایک عام معاشرہ بڑی تعداد میں کسی نہ کسی طرح دینی جدوجہد میں شامل ہوجائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایسے انداز و اسلوب میں وہ دعوت بھی ضروری ہے جو دلوں کو مسخر کرسکے، اور وہ قیادت بھی مطلوب ہے جو دلوں کو جیت سکے۔ اس کے بعد بھی ماحول، حالات اور مشیت الٰہی پر ہی کامیابی کا انحصار ہوگا۔

قوت کا سرچشمہ

ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک دفعہ ہم نے اس بات کو سمجھ لیا کہ معاشرہ اور انسان کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اسی معاشرے اور انھی انسانوں میں سے وہ قوت پیدا کرنا ہے، اور وہ پیدا ہوسکتی ہے، جو اصلاح و تبدیلی اور غلبہ و سربلندی کا کام کرسکے۔ اللہ کی نصرت کے بعد، کامیابی کا راز انسانی قوت میں پوشیدہ ہے، نہ کہ مال و اسباب اور اسلحہ و سامان میں: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ (الانفال ۸:۶۲)’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی‘‘، اور یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۴ۧ (الانفال ۸:۶۴) ’’اے نبیؐ! تمھارے لیے اور تمھارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے‘‘۔

یہ بات بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ مومنین کی اس جماعت میں لوگوں کے مقام اور درجات کا تعین اللہ کے لیے ان کی وفاداری و قربانی سے ہوا کرتا تھا۔ ایمان، عمل صالح اور تقویٰ تو وہ چیزیں ہیں جن کا صحیح علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ چنانچہ مہاجرین، انصار، اصحابِ بدر ، اصحاب بیت الرضوان وغیرہ وہ معیار تھے جن پر لوگوں کو مقام دیا جاتا تھا۔ رہے حکومتی اور فوجی مناصب، تو ایسے لوگوں کو ترجیح دی جاتی تھی، جو ایمان اوروفاداری کے ساتھ، ان مناصب کو کامیابی کے ساتھ سنبھالنے کی زیادہ صلاحیت اور اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے بے شمار نظائر موجود ہیں۔

حُسنِ اخلاق کا بحران

ایک بڑا مسئلہ حُسنِ اخلاق کا ہے۔لوگوں کے دل جیتنے، ان کو ساتھ لانے، جوڑے رکھنے اور ساتھ چلانے کے لیے سب سے مؤثر قوت حُسنِ اخلاق کی قوت ہے۔ یہ ُحُسنِ اخلاق، رافت و رحمت، نرمی و فیاضی، عفو و درگزر اور اِکرام و احسان سے عبارت ہے۔ اصل کارگر اور مؤثر قوت نہ نظریے میں ہے، نہ کتاب میں، نہ کلام میں، نہ تحریر و تقریر میں، نہ ڈپلومیسی اور پبلک ریلیشن میں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج دینی جدوجہد کرنے والوں کے اخلاق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے وہ کم سے کم نسبت حاصل نہیں ہوئی ہے، جو مطلوب اور ضروری ہے، اور جس کا حصول ممکن ہے۔

یہ حضوؐر کا اخلاقِ کریمانہ تھا، جس کی مدح قرآن میں ہے اور جس کی تصویر سیرت میں دیکھی جاسکتی ہے، جس نے مقناطیس کی طرح لوگوں کو اسلام کے دامن رحمت سے چمٹا لیا، اور چمٹائےرکھا:

وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص  (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔

حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲۸ (التوبہ ۹: ۱۲۸)تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔

اس کمی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے:افغانستان میں اتنے طویل عرصے تک جہاد جاری رہا، کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوئیں، لیکن مجاہدین نہ باہم اُلفت و اعتماد کے رشتے میں جڑسکے، نہ یہ دیکھنے میں آیا کہ مخالفین میں سے لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر آئے ہوں اور مجاہدین کے ساتھ شامل ہوگئے ہوں۔ اور پھر جن کمیونسٹ جرنیلوں نے کسی گروہ کا ساتھ دیا، تو وہ بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر۔ پاکستان میں آپ گھوم پھر کر دیکھ لیجیے، شاذ ہی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوگی جو مخالف کیمپ سے ٹوٹ کر آئے ہوں اور اب دین کے غلبے کو مقصد زندگی بنالیا ہو۔ طالبان کا گروہ خالص قیامِ شریعت کا دعوے دار ہے۔ ایک طرف طائف کا سفر دیکھیے اور ثقیف کے وفد کا خیرمقدم۔ سردارانِ قریش کے مظالم دیکھیے اور لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ  کی صدا، اور دوسری طرف [ان کے ہاتھوں سابق افغان صدر] نجیب اللہ کو پھانسی کے تختے پر لٹکا کر اپنے جوشِ انتقام اور حمیت دینی کی ’تسکین‘ کا سامان کرنا دیکھیے، جو اقوامِ متحدہ کی پناہ میںتھا، نہتا تھا اور غیرمسلم بھی نہیں تھا! حالانکہ مشرک بھی امان طلب کرے تو اسے امن تک پہنچانے کا حکم ہے۔

صاحب ِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے کم سے کم نسبت کے حصول کے بغیر انسان جمع نہ ہوں گے، مخالفین کے دل مسخر نہ ہوں گے، اسلام کے غلبے کے لیے قوت فراہم نہ ہوگی، اور اس طرح دین کا قیام ایک اَمرمحال ہوگا۔ خواہ ہمارے پاس اسلحہ کے ڈھیر ہوں، سیاسی اقتدار بھی ہو، دلائل کا انبار بھی ہو۔

اختلاف اور حُسنِ اختلاف

چوتھا مسئلہ اختلافات کا افتراق و نزاع بن کر وحدت اور شیرازہ بندی کو غیرمعمولی نقصان پہنچانے کا مسئلہ ہے۔ اختلافات کے باوجود متحد رہنے، ساتھ مل کر کام کرنے اور دینی قوتوں کو متحد رکھنے کا مسئلہ ہے۔ جہاں انسان جمع ہوں گے، وہاں اختلافات لازماً ہوں گے۔ رائے کے اختلافات ہوں گے، مزاج اور مفادات کے بھی۔ان اختلافات سے کوئی مفر نہیں۔ دورِصحابہؓ میں بھی اس سے مفر نہیں تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ سے لے کر جنگ ِ جمل و صفّین تک کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔

اختلافات سے بچنا ممکن نہیں، لیکن اختلافات کو افتراق، تنازع اور مخاصمت بننے سے روکنا ممکن ہے۔ لَا تَفَرِّقُوْا اور لَا تَنَازَعُوْا ہی کی تاکید قرآنِ مجید نے فرمائی ہے۔ لیکن اس پہلو سے بھی مسلمان بہ حیثیت مجموعی، اور خاص طور پر دینی جدوجہد کرنے والے، جن کمزوریوں کا شکار ہیں وہ عیاں ہیں۔

اختلافات کے باوجود بڑے اور عزیز تر مقاصد کی خاطر متحد رہنے کے لیے سب سے بڑھ کر اخلاص و للہیت اور نفس پر ضبط و قابو درکار ہے۔ اس کی یقینا کمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو اجتماعی زندگی میں اختلافات کا مقام معلوم ہو، اختلاف کی حدود و آداب سے واقفیت ہو، ان آداب و حدود کی پابندی کی استعداد پیدا ہو، جھٹ سے، حلال و حرام اور حق و باطل اور کفر و اسلام کے فتوے جاری کرنے کے طریقے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ تدبیری اُمور ہوں یا اجتہادی مسائل، اپنی رائے کو حتمی اور آخری سمجھنے کی خودسری پر قابو پانا ضروری ہے۔ اعجاب المرء برایہ  (اپنی رائے کو سب سے بہتر سمجھنا) ہلاکت کا سامان ہے۔ ہراختلاف کو حق و باطل کا مسئلہ بنالینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی میں اپنی رائے کو صحیح سمجھنے کے باوجود اس کے غلط ہونے کے احتمال، اور دوسری رائے کو غلط سمجھنے کے باوجود اس کے صحیح ہونے کے احتمال کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔

اختلافات کے حدود و آداب کی پابندی اور اختلاف کے دائرے تک محدود رکھے بغیر، نہ کسی اجتماعی قوت کے مضبوط بننے کا امکان ہے، اور نہ اس کا امکان کہ وہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کو اپنے ساتھ جمع کرلے۔

اجتہادی مزاج و بصیرت

پانچواں مسئلہ، اجتہادی اُمور اور تدابیر کو نصوص کا درجہ دینے، بنیادی اور اصل مقاصد کے بجائے جزئیات و فروعات پر توجہ اور مساعی کو مرکوز کرنے، اور پھر دینی احکام میں غلو، تشدد اور بال کی کھال اُتارنے پر اصرار کا مسئلہ ہے۔ اُمت میں تو یہ مرض عام ہے، اور اس کے زوال اور انتشار کا ایک بڑا سبب ہے۔ افسوس کہ دینی قوتوں میں بھی اس مرض کا غلبہ صاف طور پر دیکھاجاسکتا ہے۔ سیّد مودودیؒ نے اپنی ابتدائی تحریروں، مثلاً: تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں میں بڑے سوز و دردمندی سے، شدت اور اہتمام سے، مضبوط دلائل کے ساتھ، اس مرض کے خلاف جہاد کیا، لیکن اس سے چھٹکارا نہیں ہوسکا ہے۔

اس مرض کی وجہ سے صرف غلو اور تعمق کی بیماریاں ہی نہیں پیدا ہوتیں، جو شاہ ولیؒ اللہ کے بقول دین میں انحراف کا باعث ہیں۔افتراق و انتشار میں اضافہ ہی نہیں ہوتا، توجہ اور وسائل انسانی کا ضیاع ہی نہیںہوتا، بلکہ اصل کام اور اصل مقصد بھی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، اور جدوجہد کے لیے کھڑے ہونے والے لوگ ان گلی کوچوں میں اس طرح بھٹک جاتے ہیں، کہ بساطِ زندگی میں ان کے سب مہرے مات کھا جاتے ہیں۔

اقبالؒ، ابلیس کی زبان سے مسلمان کی بربادی کے لیے یہی نسخہ تجویز کراتے ہیں، تاکہ:

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الٰہیات۱ کے تراشے ہوئے لات و منات

ہے وہی شعروتصوف۲ اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات

ہرنفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے مَیں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

۱ اور فقیہات ۲   اور بحث و نزاع

امام بخاریؒ کی روایت کے مطابق، جب ایک مرتبہ مسجد نبویؐ میں لوگ اسی مقام پر نوافل پڑھنے لگے جس مقام پر فرائض پڑھتے تھے، تو حضرت عمرؓ بن الخطاب نے انھیں متنبہ فرمایا کہ پچھلی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔ انھوں نے احکام و مطالبات کے درجات میں خلط ملط ہوجانے کے اسی مرض کی نشان دہی کی تھی، اور حضوؐر نے ان کی بات کی تصدیق فرمائی تھی۔

دینی احکام و مطالبات کے ضمن ہی میں نہیں ، دیگر اجتماعی اُمور میں بھی یہ مرض دیکھا جاسکتا ہے۔ چیز کو ذرائع کا مقام___ مثلاً تنظیم ، اجتماعات،اپنے طے کردہ وظائف و فرائض اور پروگرام___ وہ خود مقصد بن گئے ہیں۔ تدابیر کا دائرہ تنگ اور محدود ہوگیا ہے، اور ان میں تبدیلی و تغیر انتشار کا باعث بن گیا ہے۔ اس لیے کہ اپنے اختیارات کو نصوص کا، اور تدابیر کو اصول کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اِن سلگتے مسائل کو حل کیے بغیر نہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہوگا، نہ ذرائع مطلوبہ نتائج دیں گے، نہ متحد و متفق رہ کر حالات کے تغیر کے ساتھ مناسب احوال، حکمت عملی اور تدابیر کا اختیار کرنا ممکن ہوگا۔

دوست زیادہ ، دشمن کم

ایک اور سُلگتا مسئلہ اتحاد اور یک جہتی کا ہے۔ اُمت اور معاشرے میں بھی، دینی قوتوں میں بھی، اور مشترک مقاصد کے لیے سیاسی قوتوں میں بھی، مسلم معاشرے ہرجگہ مختلف نوعیت کے تفرقوں اور انتشار کا شکار ہیں۔ دینی فرقہ وارانہ اختلافات بھی ہیں اور سیاسی اختلافات بھی، جنھوں نے اُمت کو باہم نبرد آزما گروہوں میں پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ تصادم اور خون ریزی بھی ہے، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار بھی نہیں۔ سب سے زیادہ الم ناک بات یہ ہے کہ وہ تحریکات جو غلبۂ دین  کی جدوجہد کے لیے ہی برپا ہوئی ہیں، وہ بھی یک جان و متحد ہوکر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ جیسا ہم نے افغانستان میں دیکھا، جیسا ہم برطانیہ،یورپ اور امریکا میں دیکھ رہے ہیں۔ جو معاشرے تفرقے اور انتشار کا شکار ہوں، ان کی بڑی تعداد کو کسی دینی مقصد اور دینی قوت کی پشت پناہی کے لیے کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔

سب سے پہلا ضروری کام تو یہ ہے، کہ جہاں تحریکی قوتوں کے متحد و مشترک ہوکر کام کرنے سے نتائج میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے، وہاں عدم اتحاد کے اسباب کا ازالہ کرنا ضروری ہے، اور مشترک جدوجہد کے لیے نظام اور لائحہ عمل وضع کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ اختلافات ہیں، ان کو کم کرنے کے لیے تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، اور سیاسی تدابیر بھی۔ جہاں سیاسی مقاصد کا حصول پیش نظر ہے، وہاں پیش نظر رہنا چاہیے کہ سیاسی کش مکش کا ، جنگ کی طرح، بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ حلیف بنائے جائیں اور کم سے کم لوگوں کو مخالف اور حریف بننے کا موقع دیا جائے۔ کم سے کم محاذ کھولے جائیں اور ایک دشمن کو شکست دینے کے بعد دوسرے دشمن کا رُخ کیا جائے، ساتھ مل کر اقدامات کرنے کے دروازے کبھی بند نہ کیے جائیں اور عداوت کی آگ کسی طرح نہ بھڑکنے دی جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی اسی اتحاد اور تحلیف کی جستجو اور قیام کی بہترین مثال ہے۔ معاہدۂ مدینہ کے ذریعے یہود کو ساتھ ملانا، کافر قبائل سے معاہدے کر کے ان کو حلیف بنانا، یا کم از کم ان کی عداوت کے امکانات و مواقع کو ختم کرنا، دوستوں کو دوست رکھنا، دشمنوں کو دوست بنانے کی ہر ممکن تدبیر کرنا۔

مؤثر سیاسی حکمت عملی

ساتواں مسئلہ، ایسی مؤثر سیاسی جدوجہد کرنا ہے، جو مطلوب نتائج کا پھل دے سکے۔ سیاست بھی ایک ذریعہ ہے، معاشرے میں قوت و طاقت کے سرچشموں میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے، یا انھیں اپنے ہاتھ میں لینے کا۔ باوجود اس کے کہ سیاست کو دینی جدوجہد میں مرکزی مقام دیا گیا ہے، اور ہمارے نزدیک صحیح دیا گیا ہے۔ اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ بیش تر جگہ سیاست کے نتیجے میں وہ قوت نہیں حاصل ہوئی، جو مطلوب تھی۔

اس اہم مسئلے کے بھی کئی پہلو ہیں:

  • ایک: اب تک دین و سیاست کی تفریق سے سوچ اور فکر پاک نہیں ہوسکی۔ چنانچہ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ’’سیاست زیادہ ہورہی ہے، یا زیادہ سیاسی ہوگئے ہیں‘‘۔ حالانکہ جو کام بھی اللہ کے لیے، اللہ کے حکم کے دائرے میں ہو، وہ خالص دینی کام ہے، خواہ قتال و ملک گیری جیسا سیاسی و دُنیوی کام ہو۔ اور جو کام للہیت سے خالی ہو یا احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی پر مبنی ہو، وہ دنیوی اور سیاسی کام ہے، خواہ شہادت اور تعلیم قرآن جیسا بظاہر دینی کام ہی کیوں نہ ہو۔
  •  دوسرے: سیاست کا مقصد دینی مقاصد کا حصول ہونا چاہیے۔ جو سیاست ان مقاصد کے لیے ہو، وہ دینی سیاست ہے، عبادت ہے۔ لیکن سیاسی تدابیر کو، جو اللہ کی نافرمانی پر مبنی نہ ہوں، احکامِ دینی کا مقام دینے کی روش صحیح نہیں، مگر یہ روش بھی بہ کثرت پائی جاتی ہے۔ اس طرح دینی قوتوں کا دائرۂ عمل بھی محدود ہوجاتا ہے اوردائرۂ حمایت بھی۔ تدابیر میں حالات کی مناسبت سے تغیر و تبدل کے بغیر کبھی بھی کامیاب سیاست نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ تغیر و تبدل ناممکن ہوجاتا ہے۔
  • تیسرے: کامیاب سیاست کے لیے واضح اہداف بھی ضروری ہیں، واقعات اور حالات پر گرفت بھی۔مستقبل کے بارے میں صحیح اندازے اور پیش بینی بھی۔ پھر اگر مستقبل کے اندازے صحیح نہ نکلیں تو ان میں ترمیم کرلینا، اور تبدیل شدہ حقائق کے مطابق تدابیر کو ڈھال دینا، یہ بھی ضروری ہے۔ اگر اپنی تدابیر کے نتیجے میں ہم اپنے کو بندگلی میں پائیں، تو اپنے حالات و معاملات کے فہم اور اندازِ سیاست پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
  • چوتھے: معاشرے کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش یقینا ضروری ہے، لیکن جیسا بھی معاشرہ، عمل اور حقیقت کی دنیا میں موجود ہو، اسی معاشرے میں اپنے لیے پیش رفت کا راستہ نکالنا بھی ضروری ہے۔ معاشرہ بھی انھی لوگوں کے قابو میں آئے گا، وہی اس پر حکومت کرسکیںگے، جو ایک نظریاتی و مثالی معاشرے کے قیام کے لیے بے سود تلاش و انتظار چھوڑ کر ایک واقعی و حقیقی انسانی معاشرے میں سے اپنے لیے قوت فراہم کرسکیں، اور اس معاشرے کو چلا بھی سکیں۔ جو اپنے سے مختلف لوگوں کو اپنے ساتھ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، وہ نہ کامیاب سیاست کرسکتے ہیں اور نہ کامیاب حکومت۔

آخری بات یہ کہ، سیاست صرف حکومتی اور انتخابی سیاست کا نام نہیں۔ حکومت کا اقتدار ریاست کے دوسرے اداروں کی طاقت کی وجہ سے اور معاشرے میں طاقت کے دوسرے سرچشموں کی وجہ سے بھی محدود ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سیاست کے دائرے کو حکومت اور انتخابات سے وسیع کر کے اس میں معاشرے اور ریاست کے تمام قوت و طاقت اور اثر و رسوخ کے حامل اداروں کو شامل کریں۔

مغرب سے مقابلے کی راہ

آٹھواں مسئلہ: مغرب کی فوجی، سیاسی، ثقافتی، علمی اور ابلاغی بالادستی اور تسلط کا مسئلہ ہے۔ عالمی قیادت تقریباً تین سو سال سے اہلِ مغرب کے پاس ہے۔ زبان ان کی ہے، اصطلاحات ان کی ہیں، ادارے ان کے ہیں، قوانین ان کے ہیں، تجارت ان کی ہے، عالمی تجارت پر ان کا کنٹرول ہے۔ ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہیں، اور اپنی فوجی قوت کو وہ ناقابلِ شکست سمجھتے ہیں۔ لبرلزم، منڈی کی معیشت اور مغربی جمہوریت کی فتح اور عالمی غلبے کو وہ اپنی حتمی فتح قرار دیتے ہیں۔

غلبۂ دین کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی قیادت، اہلِ مغرب کے بجائے اہلِ اسلام کے ہاتھ میں آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اتنا عظیم الشان تغیر کیسے واقع ہوگا؟ دینی جدوجہد کرنے والوں نے اس مقصد کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی ہے؟ ہمارے نزدیک ہمارے پاس نعرے ہیں، جذبہ ہے، محنت ہے، جدوجہد ہے لیکن اس سے نبٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے اور شاید کسی واضح لائحۂ عمل پر کاربند نہیں۔

اس ضمن میں ایک بڑا اہم مسئلہ یہ ہے: کیا یہ تبدیلی قوت کے بل پر آسکتی ہے؟ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ کیا یہ تبدیلی اہلِ مغرب کے دل ودماغ جیت کر آسکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے ہم کچھ نہیں کر رہے۔ کیا یہ تبدیلی آئے بغیر آج، عالمی معیشت، عالمی مفادات، عالمی عسکری و سیاسی غلبے کے اس دور میں، کیا دنیا کے کسی ایک ملک میں دینی تبدیلی آسکتی ہے؟ ہمیں اس میں شبہہ ہے۔

مشیت الٰہی نے نصف صدی میں لاس اینجلز سے لے کر استنبول تک مغرب کی سرزمین میں جو مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں پھیلادی ہیں، ان آبادیوں میں یہ صلاحیت اور امکان موجود ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ کش مکش میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔ کیا ان آبادیوں کو استعمال کرنے کے لیے ہم کوئی حکمت عملی رکھتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ نہیں۔

پھر مغرب نے ہمیں ایک اور اہم مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ کیا مغرب نے تہذیب و تمدن اور ٹکنالوجی میں جو ایجادات و اختراعات کی ہیں، جو افکار و خیالات پروان چڑھائے ہیں، جو ادارے اور ذرائع وضع کیے ہیں، وہ سب کفر ہیں، اور مسترد کیے جانے کے قابل؟ یا ان میں ترک و اختیار کی پالیسی اختیار کی جائے گی؟ کیا اسلامی انقلاب کے معنی یہ ہیں کہ اس تہذیب و تمدن کو جسے مغرب نے تعمیر کیا ہے، پہلے ڈھا دیا جائے، پھر ملبہ صاف کیا جائے گا، اس کے بعد نئے افکار اور اداروں کی دیواریں اُٹھائی جائیں گی؟ کیا حقیقت کی دنیا میں یہ عمل کرنے کا کوئی امکان ہے؟ ہمارے خیال میں نہیں ہے۔

مغرب کے ساتھ تہذیبی کش مکش اور اس میں فتح ، بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صرف نعروں، ہنگاموں اور جذبات کے اظہار سے یہ مسئلہ حل نہ ہوگا۔ اس کے لیے علم و حکمت، اجتہاد اور جہاد تینوں کی ضرورت ہوگی۔

دین اور خواتین

نواں مسئلہ عورت اورنوجوان کا ہے۔ عورت آبادی کا نصف حصہ ہے۔ ایک طرف مسلم معاشروں میں اسے وہ مقام حاصل نہیں جو اسلام نے اسے دیا ہے، یا اسلام کی رُو سے اسے دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مغرب نے معاشرے میں عورت کے مقام اور عورت مرد کے تعلقات میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرکے، انھیں بالکل نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ آنے والے زمانے میں تہذیبی مسائل میں عورت کا مسئلہ سرفہرست ہوگا: اس کا مقام اور اس کے حقوق۔ اس مسئلے پر بھی ہمارے ہاں بڑا فکری اور عملی خلا ہے، جس کو پُر کرنا ضروری ہے۔

اسی طرح مسلمان معاشروں میں آبادیوں کا نصف سے زیادہ حصہ ۳۰ سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو اپنے ایمان و اقدار اور اپنی تہذیب و ثقافت کا وارث بنائے بغیر غلبۂ دین کے مقصد میں کامیابی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن اسلامی تحریکات اس مقصد کے لیے بھی کوئی واضح فکر اور لائحۂ عمل نہیں بنا سکی ہیں۔

احتساب و اعتراف

آخری مسئلہ خود احتسابی، اپنی غلطیوں کے اعتراف، اور اپنی اصلاح کا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ احتساب پر سارے زور کے باوجود، غلبۂ دین کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور تحریکیں، اپنی اجتماعی روش، پالیسیوں اور اقدامات کے سلسلے میں احتساب و استغفار کے بجائے تاویل و پردہ پوشی کو ترجیح دیتی ہیں۔ نصف صدی کے عرصے میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی اجتماعیت نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہو، اور ان کی اصلاح کا اعلان کیا ہو۔ حالانکہ قوموں اور جماعتوں کی دُنیوی کامیابیوں میں خوداحتسابی اور استغفار کو قرآنِ مجید نے کلیدی اور مرکزی مقام دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کے کسی گروہ کو خامیوں اور غلطیوں سے مفر نہیں۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کسی انسانی گروہ سے نصف صدی میں کوئی بڑی غلطی نہ سرزد ہوئی ہوگی۔ ہمارے ہاںدنیا بھر کی خرابیوں اور غلطیوں پر قراردادیں مل جائیں گی، اپنی خرابیوں اور غلطیوں پر کوئی قرارداد نہیں ملے گی۔

ہمارا خیال ہے کہ پبلک میں اور پبلک کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو پبلک کے سامنے ہی اپنا احتساب کرنا چاہیے، اپنی غلطیوں کی تاویل یا پردہ پوشی کے بجائے ان کا اعتراف کرنا چاہیے، اپنی اصلاحی تدابیر کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی عزت، دلوں میں مقام اور ان کے دائرۂ اثر و حمایت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔ صحت مند اور مفید روایات قائم ہوں گی۔ رگوں میں نیا خون دوڑے گا اور اصلاح کے دروازے کھلیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ غلبۂ دین کی جدوجہد کے مختلف پہلوئوں پر جائزے، غوروخوض، نظرثانی، تجدید یا تغیر کا عمل شروع ہوجائے گا تو نصف صدی کی محنت سے جو پھل ہم نے جمع کیے ہیں، وہ گلنے اور ضائع جانے کے بجائے برگ و بار لائیں گے۔ قوموں اور جماعتوں کے لیے انحطاط، زوال اور بگاڑ مقدر نہیں، نہ جمود اور تعطل۔ اجتہاد و جہاد سے قوت اور شباب کے دروازے کھل سکتے ہیں  مَاشَاءَ اللہُ  وَلَا قُوَّۃَ  اِلَّا بِاللّٰہِ ۔

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی تاسیس سے بھی تقریباً ۱۵ سال قبل اقامت ِ دین کے نصب العین اور دعوت دین کے کام کا آغاز کر دیا تھا۔ مرکزی مجلس ِ شوریٰ نے یہ طے کیا ہے کہ جماعت ِ اسلامی کی دعوت زیادہ زور شور سے پیش کرنے، عوام میں اسے وسیع پیمانے پر روشناس کرانے، اور خود جماعت میں نئے ولولہ اور یکسوئی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنے کا عزم بیدار کرنے کے لیے خصوصی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے۔

گذشتہ برسوں میں ہم کن کن مراحل سے گزرے؟ کیا کیا رکاوٹیں راستے میں پیش آئیں؟ ہم نے کیا کیا پیش قدمیاں کیں؟ یہ ایک طویل داستان ہے۔ اس داستان کی تاریخ بعض احباب نے لفظوں میں لکھی ہے، اور بہت کچھ عمل کے ذریعے لکھی جا رہی ہے۔ ہم ماضی و حال کی روشنی میں، یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آج کس مرحلے میں ہیں، ہمیں کیا چیلنج درپیش ہیں، ان کا مقابلہ کس طرح کر رہے ہیں، اور آیندہ ہمیں کیا کچھ کرنا ہے؟

آج سے ایک صدی پہلے بھی تقریباً ساری مسلم دُنیا مغربی تہذیب اور مغربی سامراج کے تسلط میں تھی۔ اس کا اکثر حصہ، برصغیر پاک و ہند سمیت، براہِ راست برطانوی سامراج کی مضبوط گرفت میں تھا۔ جس میں اسلام کا نام بھی تھا، مذہبی مراسم بھی ادا کیے جاتے تھے، دینی دعوت و تعلیم بھی جاری تھی، لیکن دین کے اس تصور کا شعور خال خال لوگوں میںپایا جاتا تھا کہ اس کا قیام ہی ہرمسلمان کا انفرادی طور پر، اور اُمت ِ مسلمہ کا بحیثیت مجموعی، مقصد ِ حیات ہے۔ بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے بھی دین کا تصور اکثر لوگوں کی نظروں سے اُوجھل ہو گیا تھا۔ دین کے قیام کے لیے جدوجہد میں زندگی کے آثار بھی مفقود تھے۔ ان حالات میں پوری مسلم دُنیا مایوسی اور افسردگی کا شکار تھی۔

برصغیر کے مسلمان، آٹھ سو سال حکومت کرکے، انگریز کی غلامی میں جا چکے تھے۔ خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ، تحریک ِخلافت کی ناکامی، برہمنی سامراج کی سازشیں، پہلے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اکثریتی ہندو حکومتوں کے مظالم___  ان سب عوامل کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں پر افسردگی کے بہت گہرے سائے چھائے ہوئے تھے۔

مایوسی کے اس عالَم میں کچھ علما ضرور مسلمانوں کو دین کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ پھر علامہ محمداقبال ؒنے بھی اُمید کی ایک شمع روشن کر رکھی تھی۔ لیکن ان سب کا کام، زیادہ تر صرف پیغام تک محدود تھا۔ ان میں سے کوئی بھی آگے بڑھ کر، اقامت ِ دین کا پرچم اُٹھا کر، منظم جدوجہد کی راہ پر قدم بڑھانے کے لیے حوصلہ، ہمت اور آمادگی اپنے اندر نہ پاتا تھا۔

اُمت مسلمہ کا اصل فریضہ

ان حالات میں، خالص دین کی بنیاد پر مسلمانوں کی صف بندی کرنے کے لیے عملی تحریک برپا کرنے کی سعادت مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے حصے میں آئی۔ اُنھوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف مغربی تہذیب کا طلسم توڑا، اسلام کا تصور بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے اُجاگر کیا، بلکہ اسلام میں جہاد کی حقیقی روح و تقاضوں اور اس کی اہمیت کا احیاء بھی کیا۔

مولانامودودی نے مسلمانوں کو پکارا کہ جن حالات سے ان کو سابقہ درپیش ہے: ان حالات میں اقامت ِ دین فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص قابلِ مواخذہ ہوگا جو قدرت و استطاعت کے باوجود اقامت دین اور حفاظت ِ دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا۔ احکامِ کفر کے مقابلے میں احکامِ الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا، اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو اس کا التزام، ضروری ہے۔ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی۱۹۵۷ء)

اُنھوں نے کھول کھول کر یہ بات سمجھائی کہ اقامت ِ دین کا مقصد ہی وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر انبیا علیہم السلام بھیجے گئے، اوریہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کامقصد تھا:

  • ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۲۸ۭ (الفتح۴۸:۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

یہی اُمت ِ مسلمہ کا اصل مقصد اور فریضہ ہے۔ اُمت کے ہر فرد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فریضۂ اقامت ِ دین کی اس منظم جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرے، اور اس کے لیے اپنے آپ کو ایک جماعتی نظم کے سپرد کر دے:

  • كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بَدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
  • وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (البقرۃ۲:۱۴۳ ) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِ وسط‘ بنایا ہے، تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ ایک مومن اپنی پوری زندگی اور تمام وسائل اور ساری صلاحیتیں، اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اس جہادِزندگانی میں لگا دے۔

جماعت اسلامی کا قیام اور جدوجہد

یہی وہ دو باتیں تھیں، جنھوںنے بے شمارسعید رُوحوں کو مضطرب کر دیا، اُنھوں نے مولانامودودی کی پکار پر لبیک کہا، اور ۲۶؍اگست۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعت ِ اسلامی قائم ہو گئی۔

برسوں پہلے اگرچہ چند ہی رفقائے کاراکٹھے ہوئے، وہ بھی اکثر متوسط درجہ کے بے وسائل نوجوان، لیکن مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سفر اس یقین کے ساتھ شروع کیا کہ ایک وقت آئے گا کہ سرمایہ داری نظام کو واشنگٹن اور لندن میں اور اشتراکیت کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی یہ تحریک بظاہر بے سروسامانی کی حالت میں شروع کی گئی۔ لیکن اس کا اصل سرمایہ چند صالح افراد کا اخلاص اور یہ ایمان تھاکہ ’حق بذاتِ خود ایک قوت ہے‘۔ ان کو یقین تھا کہ جب اہلِ حق اخلاص کے ساتھ راہِ حق میں نکلتے ہیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے، اور فیصلہ کرنے والی ذات اللہ رب العالمین ہے۔ اگر دین کی راہ پر، قول و فعل کی صداقت کے ساتھ چلنے والے افراد کا ایک ایسا گروہ وجود میں آ جائے، جو اس کے راستے میں مخلصانہ جدوجہد کرکے ثابت کر دے کہ وہ زمین کی وراثت کی صلاحیت رکھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ دُنیا کی زمامِ کار مفسدین سے اس کی طرف منتقل کردیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان گزشتہ برسوں میںمولانا مودودیؒ کی دعوت پر جمع ہونے والوں کا قافلۂ حق کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔ اگست ۱۹۴۱ء کے اجتماع میں اگر ۷۵؍افراد تھے، اور اب لاکھوں افراد جماعت ِ اسلامی سے وابستہ ہیں۔

جماعت کے اجتماع ارکان میں طے کردہ، انتخابات کا طریقہ ہی، وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنا اصل مقصد’زمامِ کار کی تبدیلی یا انقلابِ امامت‘حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء کی قرار دادِ مقاصد، ۱۹۵۶ اور ۱۹۷۳ء کے دستور، بلاشبہہ حد درجہ بنیادی اقدامات ہیں، لیکن ان کے باوجودمطلوبہ نتائج نمودار نہیں ہوئے، اور اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آیا۔تاہم، ان اقدامات، جمہوری ذرائع سے اور کشت و خون کے بغیر، پاکستان کو کس طرح اسلامی ریاست کے راستے سے منسوب کر دیا، اور اس راستہ پر کتنا آگے بڑھا دیا؟ اس کا اندازہ ترکی، مصر، شام،سوڈان، عراق اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو دیکھ کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔

بلاشبہہ معاشرے میںبگاڑ بڑھا ہے، لیکن ذرا تصور کیجیے کہ ہماری اصلاح و تعمیر اور دعوت کی سرگرمیوں کے بغیر یہ معاشرہ کہاں پہنچ چکا ہوتا، اس کا اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں۔ دعوت ِحق کے نتیجے میں لاکھوں افراد نہ صرف اپنی زندگیاں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق گزارنے میں لگے ہوئے ہیں، بلکہ عملاً معاشرے کو، دعوت کے صبر آزما کام کے ذریعے، اسلامی بنانے کے لیے اپنا جان و مال لگا رہے ہیں۔ آج آپ کسی شعبۂ زندگی میں چلے جائیں، آپ کو جماعت ِ اسلامی کی دعوت کے اثرات نظر آجائیں گے۔ وطن عزیز ہی نہیں بلکہ آپ دُنیا کے کسی حصے میں جائیں، وہاں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں اقامت ِ دین اور تحریک اسلامی کے حوالے سے جماعت ِ اسلامی کے وابستگان کو متحرک پائیں گے۔

یہ جو کچھ حاصل ہوا ہے، محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوا ہے۔ اس پر ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں، وہ کم ہے۔ جو کچھ نہ ہو سکا، اورجتنا ہم منزل سے دور ہیں، وہ سراسر ہماری کمزوریوں اور خامیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر جس چیز کا شکر ہم پر واجب ہے اور جو چیز ، یہ ساری دُنیاوی کامیابیاں نہ بھی حاصل ہوں تو بھی، ہماری اصل متاع اور حاصل جدوجہد ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میںجو بنیادی مقاصد، ہم نے اپنے لیے متعین کیے تھے، الحمدللہ، ہم انھی مقاصد کی طرف چل رہے ہیں۔ اور اسی طریقِ کار کے مطابق چل رہے ہیں، جو ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں اخذ کیا تھا۔

حکمت عملی کی بنیادیں

انفرادی لغزشوں اور غلط فیصلوں سے انسانوں کی کوئی اجتماعیت خالی نہیں ہے۔ حالات میں تغیرات کے مطابق پالیسی، نظام، تدابیر، وسائل اور تکنیک میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں، اور ۱۹۴۷ء ہی سے کی جاتی رہی ہیں، لیکن یہ تبدیلیاں انھی اصولوں کی روشنی میں کی جاتی رہی ہیں، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، جن کی وضاحت خود داعی تحریک اسلامی نے فروری۱۹۵۷ء میں ماچھی گو ٹھ (ضلع رحیم یار خاں) میں ارکانِ کے اجتماع کے دوران کی تھی، اور جن کی بھر پور تائید ارکانِ جماعت نے کر دی تھی۔ قرآن و سنت کے منصوص احکام کو تبدیل کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، اور جو جماعت اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے اُٹھے اس کے لیے تو یہ لازم ہے کہ وہ اسی طریقِ کار سے اپنی منزل کی طرف بڑھے، جو طریقِ کار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیاتھا۔ آپؐ کی طے کردہ حدود کے اندر ہی رہے، جن چیزوں سے آپؐ نے روکا ہے اُن سے رکی رہے، اور جن وسعتوں اور جس تنوع (diversity)کو آپؐ نے اختیار کیا یا اجازت دی، ان سے اجتناب برتنے اور تنگی اختیار کرنے سے احتراز کرے۔

ہمیں اس بات میں کوئی شبہہ نہیں، اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے، کہ ہم آج وہی الفاظ بلاتامل دُہرا سکتے ہیں جو الفاظ مولانا مودودی نے ۱۹۵۷ء میں ارشاد فرمائے تھے۔ یہ الفاظ جماعت کے ان چند لوگوں کو مخاطب کرکے کہے گئے تھے، جو خود مولاناؒ کی تحریروں سے مولاناؒ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کر رہے تھے کہ ’’۱۹۴۷ء کے بعد جماعت نے اُن کی قیادت میں پالیسی اور تدابیر میں جو تبدیلیاں کی ہیں، اور جو تیز تر عوامی اور سیاسی جدوجہد شروع کر دی ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے اس اصل طریقِ کار سے ہٹ گئی ہے جس کی خود اُنھوں نے تعلیم دی تھی۔ دینی احکام میں حکمت ِ عملی کے نام پر تبدیلی کر دی گئی ہے، ترمیم و تحریف کا اختیار حاصل کر لیا گیا ہے، جماعت اسلامی کا اخلاقی و دینی معیار گر گیاہے‘‘ وغیرہ۔

اس سب کے جواب میں مولانا مودودی نے فرمایا:انفرادی لغزشوں اور کوتاہیوں سے تو بہرحال کوئی جماعت بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اجتماعی حیثیت سے جماعتِ اسلامی ان اصولوں کی پوری پابندی کرتی رہی ہے [جو عقیدہ، نصب العین، شرائط رکنیت اور مستقل  طریقِ کار کے تحت دستور میں درج کیے گئے ہیں]۔ یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ بے اصولی کے وہ انتہائی صبرآزما طوفان بھی، جن کے درمیان اِس ملک میں برسوں کام کرنا پڑا ہے، اسے ایک بے اصول جماعت بنا دینے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں___ جماعتِ اِسلامی ابتدا سے ایک سوچے سمجھے نقشے پر کام کر رہی ہے۔ اس نقشے کی تفصیلات تو ہمارے ذرائع ووسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پھیلتی رہی ہیں، لیکن اس کے بنیادی خطوط وہی رہے ہیں جو اوّل روز سے اِس کام میں ہمارے پیش نظر تھے۔ (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، جولائی۱۹۷۳ء، ص۵۹،۷۲،۷۳)

جماعت ِ اسلامی اگر اپنے نصب العین اور بنیادی اصولوں پر قائم رہی ہے، تو یہ سراسر اللہ تعالیٰ کے فضل، قرآن و سنت کی طرف رجوع اور اُن کے التزام کی سعی، اور مولانا مودودی کی بصیرت سے بھرپور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔

تحریک اسلامی کا لائحۂ عمل اور طریقِ کار

جماعت ِاسلامی نے جو طریقِ کار کتاب اللہ اور سنت ِ نبویؐ سے اخذ کیا وہ چار بنیادی اصولوں اور حدود پر مبنی تھا:

  • خدااور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا پابند رہنا۔
  • لوگوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، وسیع سے وسیع پیمانہ پر، اللہ کی طرف بلانا، یعنی دعوت الی اللہ۔
  • جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں، اُن کا تزکیہ و تربیت کرنا اور اُنھیں منظم کرنا، یعنی تربیت و تنظیم۔
  • اس منظم گروہ کو اصلاحِ معاشرہ اور انقلابِ امامت کے لیے جدوجہد کے کام میں مصروف عمل کرنا___  تاکہ ہر شعبۂ زندگی میں اللہ کا دین غالب ہو، یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔

صداقت و دیانت کے منافی ذرائع کے استعمال سے اجتناب، اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری و آئینی طریقوں سے کام کرنا، رائے عامہ کے ذریعے مطلوبہ تغیرات بروئے کار لانا، کھلم کھلا اور علانیہ کام کرنا _غور کیا جائے تو یہ سب اصول درج بالا چار اصولوں ہی کا منطقی نتیجہ ہیں، انھی سے اخذ کردہ ہیں۔

اس کام کے لیے معقول اور فطری طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا سب سے پہلے اپنی ذات سے ابتدا کرے۔ وہ اپنی زندگی میں تضادات کو دور کرنے، اللہ کے رنگ میں  اپنے آپ کو رنگ دینے، اور خود اپنی دعوت کا نمونہ بن جانے کی مسلسل کوشش میں لگ جائے۔ ساتھ ہی وہ اپنے گھر اور اہل و عیال، اعزہ و اقربا اور اپنے ہمسایوں تک یہ دعوت پہنچائے۔

اس کے ساتھ اس کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ پوری قوم کو اور حسب ِ استطاعت عالم ِ انسانیت کو اللہ کی طرف دعوت دے، اور اصلاحِ معاشرہ، تبدیلیٔ معاشرہ، تبدیلیٔ حکومت اور انقلابِ قیادت کے لیے بھی مقدور بھر کام کرے۔ ان میں سے کوئی کام کسی دوسرے کام کی خاطر نہ ملتوی کیا جاسکتا ہے، نہ مؤخر کیا جا سکتا ہے، اور نہ اسے ترک کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، کسی پہلو میں کمی بیشی اور تقسیمِ کار ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس کا فرض ہے کہ نظم جماعت اس سے جو کام لینا چاہے، جہاں اور جس ذمہ داری پر لگانا چاہے، وہ پوری وفاداری سے اپنی صلاحیتیں اس کے سپرد کردے۔

نظمِ جماعت کے لیے، ابتدا سے قرآن و سنت کی روشنی میں جو اصول وضع کیے گئے، ان میں سمع و طاعت فی المعروف، مشاورت، باہمی الفت و محبت اور احتساب اہم ترین اصولوں کے طور پر شامل تھے۔

ان اصولوں اور اس نقشۂ کار کی پابندی جس طرح روزِ اول سے کی جا رہی ہے، آج بھی کرنا ضروری ہے بلکہ آج زیادہ ضروری ہے۔ آج ہمیں سنگین تر چیلنجوں سے سابقہ درپیش ہے۔ ہماری تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب معاشرے کا بگاڑ بھی بڑھ گیا ہے۔ دُنیا ایک آنگن بن گئی ہے، اور تحریک اسلامی ایک عالم گیر حقیقت۔ اب اس کے دشمن اپنے ملک میں ہی نہیں ہیں، بلکہ عالم گیر سامراجی قوتیں بھی اس کے درپے ہیں۔ نقل و حمل کے جدید وسائل اور ذرائع ابلاغ نے غالب لادینی تہذیب کو ایک ایک گھر میں گھسنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ ان حالات میں جماعت کا کوئی ادنیٰ کارکن بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ تحریک اپنے بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار میں کچھ ترک کرکے یا کچھ لچک پیدا کرکے اپنے نصب العین کی طرف پیش قدمی کر سکتی ہے۔

جماعت اسلامی نے انھی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، آج کے اس مرحلے میں دعوت کے کام کو اپنے منصوبوں میں اوّلین ترجیح دی ہے، اور یہی ہدایت سارے کارکنوں کو دی ہے۔ صرف اولین ترجیح دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ دعوت الیٰ اللہ کے بنیادی موضوعات واضح کیے ہیں، طریقوں کا تعین کیا گیا ہے، گھر گھر کو ہدف بنا کر دعوت پہنچانے کا پابند کیا گیا ہے، وفود بناکر اور دعوتی کیمپ لگا کر دعوت پہنچانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔

ہر کارکن کو ایک محنت کار کی طرح دو افراد مسلسل زیرِ تربیت رکھنے اور اہل خانہ کی تربیت کے لیے ان کا اجتماع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں میں ایک اسلامی ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف افراد خانہ ایک دوسرے کے پشتی بان بنیں گے، بلکہ وہ اپنے ماحول میں بھی ایک خوش گوار تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔

عملی طور پر، دعوتی لٹریچر کے ہزاروں سیٹ نہایت ارزاں قیمت پر کارکنوں کو فراہم کیے جاتے ہیں، اور عمومی ابلاغ کے لیے جدید ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اپنی تربیت اور اقامتِ صلوٰۃ اور نماز باجماعت کی پابندی، اور محلوں میں توسیع دعوت کے مقاصد کے لیے فجر کی نماز میں حاضری، اور مساجد کے گرد احباب کے حلقے بنانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کارکن اس پورے منصوبے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھیں، اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا بھرپور عزم ایک دفعہ پھر تازہ کریں۔

عوام میں اثر و نفوذ کی تیز تر کوششوں کے باوجود، تربیت کے ضمن میں معمول کے سارے پروگرام اسی طرح جاری ہیں، جس طرح وقتاً فوقتاً وضع کیے جاتے رہے ہیں۔ مرکزی تربیت گاہ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دائرہ تعلیم و تربیت کا آغاز کرکے ایک ایسی تربیت گاہ کے اس خواب کو بھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بہترین کارکن تیارکرے۔ لیکن تربیت کی یہ ساری کوششیں کافی نہیں ہیں۔ ان کو تیز تر اور وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔

سالانہ منصوبۂ کار میں جو بنیادی رہنما اصول طے کیے جاتے ہیں اور جو طریقے تجویز کیے  جاتے ہیں، کارکنوں اور جماعتوں کو پورے اہتمام سے ان کا التزام کرنا چاہیے۔ خصوصاً ہر کارکن کو ’اپنی تربیت آپ‘ کے اصول پر، سب سے بڑھ کر اپنی سیرت و کردار کی تعمیر کی کوشش میں لگا رہنا چاہیے۔ تربیت یافتہ کارکن، ہماری تحریک میں مرکز و محور اور ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں۔ تحریک کے لیے موجودہ مرحلے میں عوام کو سنبھالنے کے لیے باصلاحیت، تربیت یافتہ کارکنوں کی شدید ضرورت ہے۔

عزم اور عمل کا فرق

یہاں دعوت و تربیت کے ضمن میں یہ اعتراف ضروری ہے کہ ہدایات اور فکر انگیز منصوبوں کے باوجود عملی کارکردگی میں بہت کوتاہیاں ہیں۔ مگر انسانوں میں عزائم، منصوبوں اور ہدایات اور ان پر عمل اور نتائج کے درمیان ہمیشہ فرق ہو اکرتا ہے۔ انسان عزم کا کچا ہے۔ یہ بات خامیوں، کوتاہیوں اور سہل انگاریوں کے لیے وجۂ جواز ہرگز نہیں بنائی جا سکتی۔ لیکن اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ یہ فرق ہمیشہ رہا ہے: تعلیم ِ بالغاں ہو، اعلیٰ درجہ کی تربیت گاہ کا قیام ہو، نئے نظامِ تعلیم کے مطابق درد مندی، ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے قائم اسکول اور اداروں کا قیام ہو، علمی و تحقیقی کام ہو، معیارِ ارکان کا معاملہ ہو، حلقۂ حامیان کا وہ پروگرام ہو جو ۱۹۵۱ء میں پنجاب کے پہلے انتخابات کے بعد وضع کیا گیا اور جسے ماچھی گوٹھ میں منظور کردہ قرار داد کے ساتھ منسلک کیا گیا___ عزائم اور عمل کا یہ فرق ہر جگہ موجود رہا ہے، یہ آج بھی موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود گذشتہ برسوں میں جماعت اسلامی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اور ان شاء اللہ آیندہ بھی کرے گی۔

بعض اوقات جماعت میں ارکان اوروابستگان کے معیار کے گرنے کا مسئلہ بھی بار بار ذہنوں میں اُٹھتا ہے، اُٹھایا جاتا ہے، مگر یہ بحث بھی روزِ اول سے چلی آ رہی ہے۔ جماعت کی ابتدائی رودادیں ارکانِ جماعت کی حالت پر شکایات سے بھری ہوئی ہیں۔ ۱۹۵۶ء میں جائزہ کمیٹی نے بھی کچھ ایسی ہی تصویر کھینچی تھی _کہ مولانا مودودی کو یہ کہنا پڑا تھا: ’’اگر ساری جماعت بحیثیت مجموعی بگڑ گئی ہے تو اسے توڑ دیجیے‘‘۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۴) اورپھر یہ بھی فرمایا: ’’پوری جماعت کے متعلق___  ہر پہلو سے کامل اطمینان کی رپورٹ شاید آپ کبھی نہ پا سکیں گے‘‘۔ اس ضمن میں اُن کی یہ بات بھی اہم ہے کہ ’’میرے علم میں ایسا کوئی طریقِ تربیت اب تک نہیں آیا ہے، جو معیارِ مطلوب کے آدمی تیار کرنے کی سو فی صدی ضمانت دیتا ہو۔ ہر جائزہ آپ کو یہی رپورٹ دے گا کہ آپ کے درمیان ایک ناقابلِ اطمینان عنصر موجود ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۷۷)

لیکن ہم پھر بھی یہ کہیں گے کہ یہ باتیں جواز، تاویل اور غفلت کی ہرگز بنیاد نہیں بننا چاہییں۔ ہاں، مایوسی سے بچنے اور رومانوی دُنیا سے نکل کر حقیقت پسند بننے کے لیے ان کا ادراک ناگزیر ہے۔

حکمت عملی میں تبدیلی کے اصول

جماعت کی ترقی کا راز جہاں اپنے نصب العین، بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار کی پابندی میں مضمر ہے، وہاں یہ بات ثبات و تغیر کے ان حکیمانہ اصولوں پر کاربند رہنے کا نتیجہ بھی ہے، جن کی تعلیم قرآن و سنت میں دی گئی ہے، اور جن کی وضاحت مولانا مودودی نے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں بڑی تفصیل سے فرمائی ہے۔ آج کے مرحلے میں بھی جماعت اگر پیش قدمی کر سکتی ہے تو اسی بصیرت، اور ثبات و تغیر کی اسی حکمت ِ عملی کو اختیار کرکے کر سکتی ہے جو مولانا مودودی نے اختیار کی۔ جو جماعتیں یہ نہ سمجھ سکیں کہ کیا بدل سکتا ہے اور کیا نہیں بدل سکتا، جو ہر چیز بدلنے کو تیار ہوں یا پھر ہرتبدیلی سے بدکتی ہوں، وہ اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہیں، اوراُن کو زمانہ ایک بھولی بسری داستان بنا کر چھوڑ دیتا ہے:

  •  پہلا اصول یہ واضح کیا:’’تدابیر کا ردّوبدل ایک دوسری چیز ہے، جسے بعض لوگ غلطی سے اصول کا ردّوبدل قرار دے بیٹھتے ہیں‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۵۹)
  • دوسرا اصول یہ واضح کیا: ’’فطری طریقِ انقلاب کا یہ تصوّر کہ وہ کوئی ایسا لگا بندھا طریقہ ہے جو ہر جگہ ،[اور] ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ڈھنگ پر چلنا چاہیے، سراسر ایک غیر معقول تصور ہے‘‘۔(ایضاً، ص۱۵۸)
  •  تیسرااصول یہ واضح کیا:’’ ایک طریقِ کار کے بنیادی اصولوں اور حالات پر ان کے   عملی انطباق [Synchronisation]کی مختلف اشکال کے درمیان فرق کرنا عقل مندی کا تقاضا ہے۔ ‘‘(ایضاً، ص۱۱۷)
  • چوتھا اصول یہ واضح کیا:’’دُنیا کی کوئی جماعت بھی ایک تدبیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پکڑ کر نہیں بیٹھ سکتی۔ ‘‘(ایضاً، ص۵۹)
  • پانچواں اصول یہ واضح کیا:’’خصوصیت کے ساتھ جن لوگوں کو سخت مخالف ومزاحم ماحول میں سے اپنا راستہ نکالنا ہو، ان کے لیے تو یہ ناگزیر بھی ہے اور دانائی کا تقاضا بھی کہ اگر ایک وقت انھوں نے ایک تدبیر کو صحیح ومناسب پا کر اختیار کیا ہو اور دوسرے وقت وہ تدبیر موزوں اور کارگر نہ رہے، تو وہ بِلا تامل اس کو کسی بہتر اور حالات کے لحاظ سے مناسب تر تدبیر سے بدل دیں۔ ‘‘(ایضاً، ص۵۹-۶۰)
  • چھٹا اصول یہ واضح کیا:’’دانائی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حالات میں واقع ہونے والے اہم تغیرات کا نوٹس لیا جائے اور بدلے حالات کے لحاظ سے طریقِ کار میں ضروری ردّوبدل سے گریز نہ کیا جائے‘‘۔(ایضاً، ص۱۱۷)

طریقِ کار میں تغیر__چند مثالیں

ثبات و تغیر کے ان اصولوں کا اطلاق ہم گذشتہ برسوں میں جس طرح کر تے رہے ہیں اس کا ایک مختصر جائزہ فائدہ سےخالی نہ ہوگا۔

  • ہم طریقِ کار میں قرآن و سنت کی ہدایات کے پابند ہیں۔ لیکن ہر صاحب ِ علم آدمی یہ جانتا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام کی فہم و تعبیر میں بھی انسانوں کے درمیان اور مختلف زمانوں میں اختلاف و تبدیلی کا عمل جاری رہا ہے۔ یہی معاملہ ہمارے ساتھ پیش آتا رہا ہے۔ مثلاً تاسیسِ جماعت کے وقت ہم نے یہ تعبیر اختیار کی کہ ’’حکمت ِ عملی کا اقتضا یہی ہے کہ امیرکا انتخاب کسی مدّت کے ساتھ مقید نہ ہو‘‘ (رُوداد اول، جنوری۱۹۷۲ء،ص۳۰)۔ بعد میں ہم نے اپنے دستور میں امیر کے انتخاب کو پانچ سال کی مدّت کے ساتھ مقید کیا۔
  • جب ۱۹۶۴ء کے انتخابات میں فوجی آمرِ مطلق جنرل محمد ایوب خان کے مقابلے میں  محترمہ فاطمہ جناح کے انتخاب کا مسئلہ پیش آیا تو، عورت کی سربراہی کو درست نہ سمجھنے کے باوجود، مرکزی مجلسِ شوریٰ نے طے کیا کہ ’’شریعت میں جو چیزیں حرام ٹھیرائی گئی ہیں، ان میں بعض کی حرمت تو ابدی اور قطعی ہے، جو کسی حالت میں حلت میں تبدیل نہیں ہو سکتی، اور بعض کی حرمت ایسی ہے جو شدید ضرورت کے موقعے پر، ضرورت کی حد تک، جواز میں تبدیل ہو سکتی ہے‘‘۔ چنانچہ آمریت سے نجات پانے کی ضرورت کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔
  • ایک وقت یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ اگر انتخابات صرف ایک لادینی دستور کے تحت ہی ممکن ہوں، یا انتخابات کا دروازہ مسدود ہو ، تو کیا ایسے انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے (جو ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے)، یا مسلح انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے؟___  اس کا جواب یہ دیا گیا ہے: ’’موجود الوقت دستوری طریقوں ہی سے نظامِ حکومت کا ہمارے ہاتھوں میں آجانا ممکن ہو تو ہمیں اس موقعے سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔ اس لیے کہ ہمیں جو کچھ واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے نہ کہ کسی خاص طریقے سے۔‘ اور اگر پُرامن ذرائع سے ممکن نہ ہو تو ’ہم عام دعوت جاری رکھیں گے اور تمام جائز شرعی ذرائع سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۰۵-۱۱۰)
  • ۱۹۴۷ ء میں قیامِ پاکستان کے بعد حالات میںجو عظیم تغیر رُونما ہوگیا، مولانا مودودی کی قیادت میں جماعت نے اس کا بروقت نوٹس لیا اور بدلے ہوئے حالات میں اپنے ابتدائی طریقِ کار میں ردّ و بدل کیا۔

مولانا مودودی نے ۱۹؍فروری۱۹۴۸ء کو پنجاب یونی ورسٹی لا کالج، لاہو رمیں تقریر کرتے ہوئے چار نکاتی مطالبۂ نظامِ اسلامی پیش کیا، اور اسی طرح اگست۱۹۵۲ء میں مطالبۂ  دستورِ اسلامی پیش کیا۔ ان مطالبات کو منوانے کے لیے جماعت نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے عوام سے جذباتی اپیل بھی کی، اور عوامی جدوجہد بھی شروع کر دی: ’’یوں ہماری تحریک نے ایک نئے دور میں قدم رکھا‘‘ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۰)۔ بعد میں مرکزی مجلسِ شوریٰ نے، اور آٹھ سال بعد ارکان کے اجتماعِ عام نے اس دُور رس تبدیلی کی توثیق کر دی۔

مولانا مودودی کے الفاظ میں: ’’ہم سخت نادان ہوتے اگر اس موقعے کو ہاتھ سے کھودیتے اور اپنے آپ کو قبل تقسیم ہی کی پوزیشن میں سمجھے بیٹھے رہتے‘‘(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۸)۔ ’’بلکہ اگر ہم ان حالات میں قبل تقسیم کے طریقے ہی پر کام کرتے رہتے تو اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتے‘‘۔(ایضاً، ص۱۲۰،۱۲۱)

اس طرح ہم نے اپنے اپیل کے طریقے میں تبدیلی کی۔ ہم نے اپنے کام کے ڈھنگ میں تبدیلی کی۔ پہلے ہم دعوت کا کام چند متعین طریقوں سے بہت محدود پیمانے پر کر رہے تھے۔ اب ہم نے مطالبۂ نظامِ اسلامی کے وسیلے سے لاکھوں آدمیوں تک دعوت پہنچانے، اور ہزاروں کو اپنی تحریک کے ساتھ وابستہ کرنے کا کام شروع کر دیا۔ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ مستحکم توسیع تو ’’دھیمی رفتار سے محدود پیمانے پر ہی ہو سکتی ہے‘‘۔اور اس وقت تک کام اسی دھیمی رفتار سے چل رہا تھا۔ اس مستحکم مگر سست رفتار توسیع سے نئے حالات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ اوریہ بات بھی صحیح نہ ہوتی کہ ’’بڑے پیمانے پر توسیع کے جو مواقع ہمیں حاصل ہوئے تھے ان کو ہم چھوڑ دیتے اور بجائے خود اس توسیع کے جو فوائد ہیں ان کو نظر انداز کر دیتے‘‘۔ اس طرح ہم نے اپنی پیش قدمی کی رفتار بھی تبدیل کی، اور ’’کش مکش کے تدریجی ارتقاء ہی کے [ساتھ بڑھتے بڑھتے] ہم نے دفعتاً جدوجہد کے مرحلے میں قدم رکھ دیا___  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دستورِ اسلامی کے مطالبہ پر کش مکش کا آغاز کر دیا‘‘۔ (ایضاً، ص۱۴۳-۱۴۶)

جب عوامی جدوجہد کےمیدان میں قدم رکھا تو ریزولیشن بھی پاس ہوئے، جلوس بھی نکلے، زندہ باد کے نعرے بھی لگے، جھنڈے بھی بنے، استقبالیے بھی دیے گئے، اور یوم شوکت ِ اسلام بھی منایا گیا۔ یہ سب کچھ مولانا مودودیؒ کی زیرِ قیادت ہوا، حالانکہ خود اُن کی یہ تحریر موجود تھی کہ ریزولیشن، جلوس، نعرے وغیرہ اس تحریک کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ فقیہ تھے، لکیر کے فقیر نہ تھے۔

ان میں سے کوئی بھی تبدیلی نہ تو اصول کی تبدیلی تھی، اورنہ بنیادی تبدیلی۔ لیکن بعض لوگ عمل درآمد کی ہر نئی شکل کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اصول بدل گئے اور جماعت اپنی راہ سے ہٹ گئی۔ ان کو بتایا گیا: ’’جو شخص حالات اور مواقع اور ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ان اصولوں پر عمل درآمد کی شکلیں نہ بدل سکے، اس کی مثال اسی عطائی طبیب کی سی ہے، جو کسی حکیم کی بیاض کا ایک نسخہ لے کر بیٹھ جائے اور آنکھیں بند کرکے تمام مریضوں پر اسے جوں کا توں استعمال کرتا چلا جائے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۷)

  •  اس لیے جب مولانا مودودیؒ نے یہ سمجھا کہ جماعت کا نظام بوجوہ آنے والے دور کی ساری ضروریات کو اپنے اندر نہیں سمیٹ سکے گا، تو نہ صرف جماعت میں متفق کا درجہ بنایا گیا، بلکہ متبادل انتظامات بھی کیے گئے۔ طلبہ کے لیے علیحدہ تنظیم قائم ہوئی، جو نہ ہر سطح کے جماعتی نظم کے تحت تھی اور نہ قانوناً مرکز کے تحت تھی۔ اس کے بعد، مزدوروں کے لیے، کسانوں کے لیے، اساتذہ کے لیے، اور کئی دیگر ضروریات کے لیے مختلف نظم قائم ہوتے چلے گئے۔ کسی کے بارے میں یہ نہ سمجھا گیا کہ یہ کوئی جماعت کے نظم کے متوازی نظم قائم کیے جا رہے ہیں۔ جب یہ سمجھا گیا کہ برائی بے باک اور جری ہو گئی ہے اور نیکی اورشرافت پست ہمتی، بزدلی اور کمزوری کے ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے، تو نہ صرف جماعت کے نظم کو اس صورتِ حال کے مداوا کے لیے تیار کیا گیا بلکہ اسی ضمن میں غنڈا گردی اور فواحش کے انسداد کے سلسلے میں یہ بھی طے کیا گیا: ’’ہم صرف اخلاقی تلقین پر اکتفا کرنا نہیں چاہتے، بلکہ معاشرے کے شریف عناصر کو ان برائیوں کے مقابلے میں منظم کرکے ان کے خلاف عملی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں‘‘ (آیندہ لائحہ عمل، ص۸۱)۔ اس کے بھی یہ معنی نہ تھے کہ ہم آئینی و جمہوری ذرائع ترک کرکے تشدد کی راہ پر گامزن ہو رہے تھے۔
  •  ہمارا طریقِ کار چوں کہ ہمیں جمہوری و آئینی ذرائع کا پابند کرتا ہے، اور ہم نے انتخابات ہی کو تبدیلیٔ قیادت کے ذریعے کے طور پر اختیار کیا ہے، اس لیے جمہوریت کے دفاع میں ہم ہمیشہ پیش پیش رہے، اور ہم نے ہمیشہ مارشل لا کی مخالفت کی۔ مارشل لا نے خواہ اسلام کے خلاف پوزیشن لی ہو یا اس کے حق میں، ہم نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ۔ آمریت سے نجات پانے، متعین اورمشترکہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہم نے سیکولر اور قوم پرستوں تک سے تعاون کرنے سے دریغ نہ کیا، یہ آمریت خواہ فوجی لبادے میں تھی، خواہ شہری لباس میں۔ جب مارشل لانے اسلام کے نفاذ کا نعرہ بلند کیاتو اس وقت بھی، مجلسِ شوریٰ کی قرار دادیں گواہ ہیں، ہم اس واہمے میں نہ آئے، اور مسلسل بحالیٔ آئین و جمہوریت اور انعقادِ انتخابات کا مؤقف اختیار کیے رہے۔

آج بھی پبلک ریلیاں، بڑے بڑے جلوس، سیاسی و انتخابی اتحاد، نوجوانوں کی تنظیمات، وغیرہ___ یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔یہ تاریخ کا تسلسل ہے جو جاری ہے، اور جاری رہے گا۔ ۱۹۴۷ء کےبعد بھی تبدیلیاں، نئی تدابیر، اور ایک ہی اصول کےعمل کی بدلتی ہوئی شکلیں دیکھ کر کچھ لوگ مضطرب ہو جایا کرتے تھے، اور آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ ان احباب کو نہ صرف ثبات و تغیر کے درج بالا وہ چھ اصول سامنے رکھنا چاہییں، جن کو مولانا مودودیؒ نے بیان فرمایا، بلکہ اُن کے یہ الفاظ بھی یاد رکھنا چاہییں کہ ’’تبدیلی کے معنی یہ نہیں کہ پہلے طریقے کو ہم نے بالکل ترک کر کے صرف اس دوسرے طریقے ہی پر اعتماد کر لیا۔ اس توسیعی کوشش کے ساتھ ہم اپنے سابقہ طریقے کے مطابق استحکام کی سعی بھی کرتے رہے ہیں اور اس کی اہمیت و ضرورت ہماری نگاہوں میں علیٰ حالہٖ قائم ہے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۴)

تحریک کو درپیش چیلنج

آج کے مرحلے میں ہماری تحریک کو جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں، جن بدلتے ہوئے حالات کا سامنا ہے، وہ ہماری بنیادی فکر کا منطقی نتیجہ ہیں۔ کیونکہ ہم آئینی و جمہوری طریقوں، رائے عامہ کے تغیر، اور انتخابات کے ذریعے مطلوبہ انقلاب لانے کے پابند ہیں، اس لیے عامۃ المسلمین کو اپنے نصب العین کی حمایت میں کھڑا کر دینا ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ دُنیا میں، اور خود ہمارے ملک میں، اصل غلبہ مغرب کی لادینی تہذیب اور استعماری قوتوں کو حاصل ہے۔ اس لیے ہمیں اسلامی تحریکات کے خلاف عالمی طاقتوں کے منصوبوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے۔ یہ ہمارے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہے۔

ان دونوں باتوں کو مولانا مودودیؒ نے اگست ۱۹۴۱ء میں تحریک کے آغاز ہی میں بڑے خوب صورت انداز میں یوں واضح کر دیا تھا:ہماری تعمیری کوششیں بے سود ہو جائیں گی، اگر ساتھ ساتھ ان کی پُشت پر ایک مضبوط رائے عام بھی تیار نہ ہوتی رہے۔ جس طرح تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رُونما نہیں ہو سکتا، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام کی دعوت پھیلائے بغیر ایسا کوئی انقلاب برپا ہو سکے۔ ہمیں نہ صرف [اپنے ملک] میں، بلکہ حتی الامکان دُنیا کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچانی ہوگی۔ کیونکہ آج کسی ایک ملک میں کوئی حقیقی انقلاب واقع نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وسیع پیمانے پر بین الاقوامی رائے عام اس کی تائید میں تیار نہ کر لی جائے۔ اربوں انسانوں کو ہمارے پیغام سے واقف ہونا چاہیے، کرورڑوں انسانوں کو کم از کم اس حدتک اس سے متاثر ہوجانا چاہیے کہ وہ اس چیز کو حق مان لیں جس کے لیے ہم اُٹھ رہے ہیں، لاکھوں انسانوں کو ہماری پُشت پر اخلاقی اور عملی تائید کے لیے آمادہ ہونا چاہیے، اور ایک کثیر تعداد ایسے سرفروشوں کی تیار ہونی چاہیے جو بلند ترین اخلاق کے حامل ہوں اور اس مقصدِ عظیم کے لیے کوئی خطرہ، کوئی نقصان، کوئی مصیبت برداشت کرنےمیں تامل نہ کریں۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ۶۶-۶۷)

کیونکہ صرف کسی ایک ملک میں، عالمی دعوت کے بغیر، انقلاب برپا نہیں ہو سکتا، خصوصاً آج کے سیٹلائٹ کے دورمیں، جب عالمی طاقتیں اسلامی تحریکات کو ناکام بنانے کے لیے عرصے سے منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اس لیے اس مرحلے میں رفقائے جماعت کو بین الاقوامی صورتِ حال کا بھی پورا ادراک ہونا چاہیے۔

جن دنوں برصغیر ہندوپاک میں جماعت ِ اسلامی کی تحریک برپا ہو رہی تھی، اُنھی دنوں  میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک حسن البناشہید کی رہنمائی میں مصروفِ عمل تھی۔ اس کے مقاصد بھی وہی تھے، جو جماعت ِ اسلامی کے مقاصد تھے۔ طریقِ کار میں جزوی فرق موجود تھا، لیکن طریقِ کار کے اصول چونکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں طے کیے گئے تھے، اس لیے یہ کوئی بنیادی فرق نہیں تھا۔

جماعت اسلامی اور اخوان کی یہ دو تحریکیں ہی وہ تحریکیں ہیں، جن کو اس وقت دُنیا بھر کی اسلامی تحریکیں بنیادی تحریکیں یا Mother Movements قرار دیتی ہیں۔ الاستاذ المودودی اور امام حسن البنا اس دور کی اسلامی تحریکوں کے دو مُسلمّہ رہنما ہیں۔ ان تحریکوں نے مسلمانوں کی جدید پڑھی لکھی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ کیونکہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو ان تحریکوں کے لٹریچر میں اپنے تمام ذہنی سوالات کے جوابات مل گئے، اور انھیں یہ یقین حاصل ہو گیا کہ اسلام موجودہ دور میں نہ صرف قابلِ عمل ہے بلکہ ان تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، جن سے جدید دور کے انسان کو سامنا ہے۔

نئی نسل کا اس طرح اسلامی تحریک کی طرف لپکنے کا سبب دیکھ کر استعماری قوتیں پریشان ہو گئیں۔ ان کی یہ پریشانی ان کے دانش وروں کی نگارشات، ان کے جرائد اور اخبارات، اور ان کی نشریات میں صاف جھلکتی ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ سے مشہور جریدے نیوزویک  نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: ’’اب، جب کہ ’معاہدہ وارسا‘ کے ممالک مغرب کے لیے خطرہ نہیں رہے، تو  ’نیٹو‘ (NATO)کا فوجی معاہدہ کس کے خلاف ہے؟‘‘ انھوںنے جواب دیا: ’’ہمیں نیٹو کے ممالک کے درمیان پائی جانے والی یک جہتی کوبرقرار رکھنا ہے، تاکہ اگر مستقبل میں مسلمان ممالک یورپ کے لیے خطرہ بنیں تو ان کا مقابلہ کیا جا سکے‘‘۔

لندن کے مشہور جریدہ اکانومسٹ  نے امریکا کے تین سو ارب ڈالر کے سالانہ دفاعی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پوچھا:’’اشتراکی روس کے انہدام کے بعد یہ دیوہیکل دفاعی بجٹ کس کے خلاف ہے؟‘‘ تو خود اسے بھی مستقبل میںمسلمانوں کا خطرہ نظرآیا ہے۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کو اس مسلم دُنیا سے کیا خطرہ ہے جو ۵۸ سے زیادہ ٹکڑیوں میں منقسم ہے، اور یہ چھوٹی ٹکڑیاں بھی آپس میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ بیش تر ٹکڑوں پر ایسی حکومتیں مسلط ہیں، جو استعماری مصلحتوں کے تابع ہیں۔ ان ممالک کے زیادہ تر وسائل مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج اور اسلامی تہذیب کی بیخ کنی پر صرف ہو رہے ہیں۔ ان کی معاشی منصوبہ بندی استعماری قوتوں کے سیاسی، معاشی، فوجی بلکہ تہذیبی مفادات کے تابع ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مغربی دُنیا کو خطرہ موجودہ مسلم حکمرانوں سے نہیں ہے۔ انھیں خطرہ اس سے ہے کہ تمام مسلم ممالک میں ایک مضبوط توانا اسلامی تحریک پورے اعتماد اور عزم سے پیش قدمی کر رہی ہے۔ اسلامی تحریک نے قربانی کی تاریخ میں ایک لازوال باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ شوقِ شہادت اور جدبۂ جہاد کے بل بوتے پر اس نے افغانستان میں دُنیا کی بڑی جنگی قوت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مغرب کی استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور افغانستان سے اشتراکی روس کے نکلنے کے بعد امریکا کو قطعاً یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ نئے رنگ میں انھیں غلامی کی زنجیریں پہنا سکیں۔

کشمیر کے عوام نے غلامی کی صدیوں پرانی جکڑ بندیوں کو توڑکر دُنیا کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔ وہ خالص اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، تھوڑے ہی عرصے میں اتنی زبردست تحریک شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فلسطین کے مظلوموں نے، ’’حماس‘‘ کے زیرِ اہتمام، اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، انتفاضہ کی تحریک شروع کر دی۔ وہ تنگ نظر قومیتی سیکولرزم کے جال کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ الجزائر، تیونس اور شمالی افریقہ کے دوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں نے نئی آب و تاب پیدا کی ہے۔

سب سے زیادہ اُمید افزا تبدیلی وسط ایشیا میں آئی ہے۔ ہزاروں مقفل مساجد کو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر کھول دیا۔ اشتراکی آمریت میں جکڑے مقبوضہ مدارس کو پھر سے تعلیم و تربیت کے لیے اپنے انتظام میں لینے کی بامعنی سرگرمی کی۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کا سفر کرکے آنے والوں کا مشاہدہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں، اور عشاء کے بعد جب بچے مسجدوں میں قرآن سیکھنے کے لیے جاتے ہیں تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ یہ اس علاقے کی صورتِ حال ہے جہاں دسمبر۱۹۹۱ء سے پہلے ہمیں چند ایسے مسلمان بھی بڑی مشکل سے ملتے تھے، جو روسی زبان میں ترجمہ کیاہوا ہمارا لٹریچر قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔

عالمِ اسلام میں یہ بیداری اچانک بلا سبب وجود میںنہیں آ گئی۔ اس کی پشت پر اسلامی تحریکوں کی طویل جدوجہد کارفرما ہے۔ خود اپنے معاشرے میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہمیں اسلامی تحریکوں کے دوش بدوش چلنا ہے۔

تحریک اسلامی کا اصل ہدف

اپنے معاشرے میں ہمارا اصل ہدف کیا ہے؟ مولانا مودودیؒ کے ارشاد کے مطابق:

انقلابِ قیادت کی جدوجہد، یعنی ’سیاست‘ کوئی عارضہ نہ تھا، جو جماعت ِ اسلامی کو قیامِ پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہو گیا ___میں بلاخوفِ تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دراصل یہی وہ امتیازی وصف ہے جو زمانۂ قریب کی تاریخ میں، جماعت ِ اسلامی کی تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممیز کرتا ہے (آیندہ لائحہ عمل، ص۸۵-۸۶) ۔ دعوت ہو یا تنظیم، تربیت ہو یا اصلاح معاشرہ ’’یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے، اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں‘‘۔ (ایضاً، ص۷۰)

آپ خود سوچیے کہ اگر یہ ہدف آئینی اور جمہوری ذرائع سے حاصل ہونا ہے،اور انتخابات کے ذریعے ہونا ہے، تو وسیع پیمانے پر رائے عام کو اپنے ساتھ لینے کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کا راستہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

چنانچہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے بعد ہی وہ عوامی تحریک برپا کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی، جو اس سے پہلے مدھم اور سست مگر مستحکم توسیع کے کام کی خاطر مؤخر کی جا رہی تھی۔ اب ہمیں اس تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ پیچھے دیکھنے یا پلٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انقلاب کے لیے ہر زمانے میں ذرائع اور مواقع اور حالات کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد کی جاتی رہی ہے۔ آج کے حالات کے لحاظ سے بھی ماضی کے ورثے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اسی جدوجہد کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔

اس مقصد کے لیے ہمیں لٹریچر، تقریر، تعلیم، گفتگو، مکالمے، جلسے، جلوس، ریلی، نمائش، ویڈیو، بازار، گویا تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر کام کرنا ہے۔ عوام کو اسلامی نظام کی حمایت میں ایک ایسی منظم قوت بنا دینا ہے ’’جو دفاع اور ہجوم دونوں کا بل بوتا رکھتی ہو‘‘۔ اس مقصد     کے لیے ہمیں زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل و معاملات میں دخل دینا ہوگا، اور مخالف تحریکوں اور طاقتوں کے ساتھ دلیل، ابلاغ اور رائے عامہ کے میدان میں زور آزمائی بھی کرنا ہوگی۔ اگر ہم نے ان مسائل میں دخل دینے اور مخالفین کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے گریز کیا تو مطلوبہ تغیر کی رفتار بہت سست رہے گی۔

یہ عوامی تحریک خود ایک دعوتی کام ہے۔ بعض لوگ دعوت کا کام صرف وہ شمار کرتے ہیں جس پر لفظ دعوت کا عنوان لگا ہو۔ وہ کام جن پر سیاست یا عوامی تحریک کا عنوان چسپاں ہو، وہ اسے سیاسی ہڑبونگ کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس عنوان کے تحت بھی دعوت کا کوئی کام ہوا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں:

آپ ہزار کتابیں لکھ کر [یا پڑھ کر] بھی اتنا کام نہیں کر سکتے جتنا اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جس وقت کوئی اہم مسئلہ لوگوں کے سامنے درپیش ہو، اس وقت میدان میں آکر اس مسئلے میں ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۷-۱۲۸)

ملک کے اندر تحریک کو آج جو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے وہ مولانامودودیؒ کے درج بالا ارشاد کے دوسرے حصے سے متعلق ہے۔ یعنی یہ کہ، پاکستان بننے کے بعد ہم نے ایک مسلم معاشرے کے عوام میں تحریک برپا کرکے جس حد تک کام کرلیا ہے، اب اس کو کس طرح آگے بڑھائیں کہ اپنی اصل منزل تک پہنچ سکیں؟ دوسرے لفظوں میں، برسوں کی کاشت کاری کے ذریعے ہم نے ہزاروں انسانوں کی جو فصل تیار کی ہے، اور جس کا عشر عشیر بھی ابھی اصل مقصد کے لیے کام نہیں آ رہا، اس کو کام میںلگا کر اس مسلم معاشرے کی معتدبہ تعداد کو کس طرح انقلابِ امامت کے مقصد کے لیے متحرک کر دیا جائے؟

جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا ایک حصہ یہ بھی رہا ہے: ’’ہمارے معاشرے میں جو ایک بچا کھچا صالح عنصر موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے یا اصلاح کی پراگندہ کو شش کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے، اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میںلگا دیا جائے‘‘ (آیندہ لائحہ عمل)۔ اور اب تو اس صالح عنصر میں خود ہمارے وابستگان کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ حلقۂ متفقین کا پروگرام اسی غرض کے لیے تھا، لیکن سچ بات ہے کہ وہ بھی قابل ذکر حد تک عملی جامہ نہیں پہن سکا۔

عوامی تحریک کا ایک اہم جزو عورتوں کا حلقہ ہے۔ وہ ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ عورتوں کی راہ سے بگاڑ بھی تیزی سے آ رہا ہے۔ انھی کے ذریعے اصلاح کی رفتار بھی تیز تر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہم کو ایک ہی لگے بندھے طریقے سے کام کرنے کے بجائے حالات کے لحاظ سے موزوں تدابیر وضع کرنا ہوں گی۔

یہ سارا کام جماعت کی تنظیم میںمحبت و الفت، سمع و طاعت، اور مشاورت واحتساب کے نظام کا متقاضی ہے۔ تمسخر، تنابز بالالقاب، بدظنی، تجسّس، غیبت، ہمز، بلا تحقیق نقل وغیرہ سے پاک ہو کر چلنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے لیے عزّت، احترام، محبت، الفت اور ذکرِ خیر کی صفات کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت میں اطاعت، شورائیت اور احتساب کا نظام اپنا کام کررہا ہے۔ لیکن ان اخلاقی فضائل کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

تحریک ِ اسلامی کے چار نکاتی لائحہ ٔ عمل کا یہ فطری تقاضا ہے کہ جوں جوں عوام ہمارے ساتھ آئیں گے، اور ہم انقلابِ قیادت کی منزل کے قریب پہنچیں گے اور اس کی گہما گہمی میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں عوامی پذیرائی حاصل ہوگی تو کئی بالکل نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمارے مستحکم توسیعی اور تربیتی کام کو اس گہماگہمی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، اور نہ اس گہماگہمی سے گھبرانا چاہیے۔ کیونکہ ابتدا ہی سے ہم نے ان کے درمیان توازن پیدا کرکے چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے ہم پوری دلجمعی سے دعوت الی اللہ کا کام کریں، عوام کو ساتھ لائیں، جو لوگ قریب آئیں ان کی وسیع پیمانے پر دینی اور اخلاقی تربیت کا انتظام کریں، اور انھیں منظم کریں۔ پھر اس پوری قوت کو اصلاحِ معاشرہ کے کام پر لگا دیں، اور عوامی بیداری پیدا کرکے انقلابِ قیادت کا راستہ ہموار کریں۔

ایک کام کی وجہ سے دوسرا کام ترک نہ کریں۔ کاموں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، تقسیمِ کار ہوسکتی ہے، دوسرے تنظیمی ڈھانچے بن سکتے ہیں، لیکن لائحۂ عمل کے کسی جز کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ایسا ہونا چاہیے، نہ یہ غلط مفروضہ قائم کرنا چاہیے کہ اگر عوامی کام ہو رہا ہے تو اس کے متوازی تعمیری مساعی کو ترک کیا جا چکا ہے۔

الحمدللہ! ہم اس طریقِ  کار کے مطابق اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ منزل جوں جوں قریب آتی ہے، شوقِ منزل بڑھتا ہے اور رفتار میں اضافہ ہوتا ہے  ع

تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست

(پمفلٹ منشورات سے دستیاب ہے)

دُنیا کی واحد عمارت جو چار ہزار سال سے اپنی اصل بنیادوں پر قائم ہے

محترم خرم مراد ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنگ انجیینرز (ACE) کے ساتھ کام کر رہے تھے، جب ان کی کمپنی کو  حرم کی توسیع اور تعمیرکا کام ملا۔ یہ کام انھوں نے نہایت وارفتگی ، محبت اور مہارت کے ساتھ کیا۔     اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے خانہ کعبہ کی تاریخ، توسیع و تعمیر کے بارے میں ایک ضخیم جلد مرتب کی جو انگریزی اور عربی میں محفوظ ہے۔ اس کاابتدائی حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

سعودی عرب کا مغربی علاقہ حجاز کہلاتا ہے۔حجاز، جو عربوں کی جاے پیدایش ہے، تقریباً ۱۴۰۰؍ کلومیٹر طویل، ایک تنگناے ارضی پر مشتمل ہے۔یہ خطہ بحر احمر کے مشرقی ساحل پرواقع ہے۔ لفظ ’’حجاز‘‘ کے معنی حد بندی کے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ نام اس کی جغرافیائی ہیئت کی وجہ سے پڑ ا ہو۔اس خطے کے مرکزی ڈھانچے کی تشکیل سرات کے پہاڑی سلسلے سے ہوئی ہے جو بحر احمر کے ساتھ ساتھ چلتا چلا جاتا ہے۔یہ پہاڑی سرحد بحر احمر کے ساحلی میدانی علاقے ’تہامہ‘ کوسطح مرتفع ’نجد‘ سے جدا کرتی ہے۔ خط سرطان حجاز کے دونوں مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے درمیان سے گزرتا ہے۔

مقدس شھر

مکہ، مسلمانوںکا مقدس ترین شہر، حرمِ پاک کعبہ کے ارد گردنموپذیر ہوا ہے۔ یہ شہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاے پیدایش ہے اور اسی شہر میں آپؐ پروحیِ الٰہی کانزول ہوا۔

مکہ مکرمہ نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں بیت اللہ کے شہر کی حیثیت سے ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ ’بیت اللہ‘ جو قدیم ترین گھر یا ’بیت العتیق‘ہے،اس شہر کو قرآن میں ’اُم القریٰ‘  کہا گیا ہے (الشوریٰ۴۲:۷)، یعنی ’شہروں کی ماں‘۔یہی بات مؤرخین بھی کہتے ہیں، کیوں کہ مکہ کا علاقہ زمین کا مرکزی مقام تسلیم کیاجاتا ہے۔اسی وجہ سے شہر کے مرکزی نشیب کوبسا اوقات ’مکہ کی ناف‘ کہا جاتا ہے۔

ہجرت سے دو سو سال قبل مکہ شہر بن چکا تھا۔اس سے  پہلے کے لوگ کعبہ سے کچھ فاصلے پر واقع جبل احمر اور جبل ابوقبیس کی ترائی پر رہا کرتے تھے جہاں سے کعبہ نظر آتا تھا۔

جب قصی مکہ کے سردار بنے، جو سیدنا اسماعیل ؑ کی نسل سے تھے، تو انھوںنے شہر کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایااور اس کانقشہ تیار کیا۔ اُس زمانے کی بے لچک قبائلی اور طبقاتی تقسیم کے مطابق تمام مکانات کعبہ کو مرکز مان کر اس کے ارد گرد ایک دائرے کی شکل میںبنائے گئے تھے۔ خود قصی اور ان کی اولاد کے مکانات کعبہ کے گرد باقی ماندہ خالی مربعے پر تعمیر ہوئے جہاں سے کعبہ کی زیارت کی جاسکتی تھی۔

مکہ کے اوّلین مکانات مکعب کی شکل کے تھے اور ان میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی دروازہ ہوتا تھا، جیسا کہ پہلی صدی ہجری سے لے کر تیسری صدی ہجری تک کے مکانات کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ یہ مکانات عام طور پر تراشے ہوئے یا اَن گھڑ پتھروں سے،یا پکی اور کچی اینٹوں سے تعمیر کیے جاتے تھے۔بعض اوقات ان گھروںکو سنگِ مرمر، رنگین پتھروںیا ساحلِ عرب پر پائی جانے والی سیپیوں سے بھی مزین کیا جاتا تھا۔یہ تھاوہ سادہ آغاز جس سے نشوونما پاکر مکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک متبرک شہر بن گیا۔

تاریخِ کعبہ

جبل سرات کی آتش فشاں چوٹیوں کے درمیان ریتلے راستے اور قدرتی وادیاںپائی جاتی ہیں۔ان ہی میں سے ایک وادی، ’وادی ابراہیم‘ کعبہ کے مقام پرمسجد الحرام کے اندر واقع ہے۔ اس وادی میں کعبہ ایک نگینے کی طرح جَڑا ہوا ہے۔کعبہ کی سمت لپکتے ہوئے زائرین ، بعض اوقات ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے لبیک اللّٰھم لبیک کا ورد شروع کردیتے ہیں، ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘۔ روایات کے مطابق، اللہ کے اِس قدیم ترین گھر،کعبہ کی بنیاد سیدنا آدم علیہ السلام نے رکھی تھی۔ یہی وہ مقدس گھر تھا جس کے جوار میں اپنی زوجہ محترمہ ہاجرہ ؑ اور اپنے شیرخوار بیٹے اسماعیل ؑ کو چھوڑ جانے کا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو  فریضہ سونپا گیا کہ اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ ملاکر انسانوں کے لیے وضع کیے جانے والے اس اوّلین مبارک گھر کی بنیادیں از سر نو اُٹھائیں۔ ’’ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ جب اس گھر کی بنیادیں    اُٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے،تُو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔اے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع فرمان (مسلم) بنا لے اورہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مطیع فرمان ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (البقرہ۲: ۱۲۷- ۱۲۹)

یہی وہ گھر تھا جو تمام انسانیت کومجتمع کرنے کے لیے ایک مرکزاور امن کی جگہ بنا۔ ’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقامِ عبادت ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہووہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۹۶ - ۹۷)

از سرنو بنیادیں اُٹھاتے ہوئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام نے چار خطوط مستقیم پر مشتمل ایک ایسی سادہ سی شکل تعمیر کی، جس کے دو اطراف بھی متوازی نہ تھے۔     شمال مغربی جانب ۳۲ ہاتھ طویل تھی،شمال مشرقی جانب ۲۲ ہاتھ طویل تھی، جنوب مغربی جانب ۳۷ہاتھ طویل تھی اور جنوب مشرقی جانب ۲۰ ہاتھ طویل تھی۔دونوں حضرات انبیا (علیہم السلام) نے سخت محنت و مشقت کے ساتھ اور گارا استعمال کیے بغیر پتھر کے اوپر پتھر رکھ کریہ شکل تعمیر فرمائی۔ مشرقی سمت میں انھوں نے سیاہ رنگ کا ایک خاص پتھر (حجر اسود) نصب فرمایا،اِس علامت کے  طور پر کہ طواف کا آغاز یہاں سے کیا جائے۔جب دیواریں اونچی ہونے لگیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہاتھ مزید اوپرتک پہنچنے سے قاصرہوا۔سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام ایک پتھر اُٹھا لائے تاکہ وہ اُس پر چڑھ کر کھڑے ہو سکیں۔اس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نقوشِ پا آج تک ثبت ہیں۔یہی وہ پتھر ہے جو آج’مقامِ ابراہیم‘کے نام سے موسوم ہے۔ جب دیواریں نو (۹) ہاتھ اونچی ہوگئیںتو  ان حضرات نے توقف فرمایا۔اپنی اس مکعب شکل ہی کی وجہ سے اس عمارت کانام ’کعبہ‘ پڑا۔

بغیر چھت کی یہ مقدس عمارت تعمیر کرکے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم الٰہی کی تعمیل کردی اورسمع و طاعت کا مظاہرہ پیش فرمایا۔ ایمان کی اِس سادہ سی علامت کی تعمیر اُن کے پختہ عقیدۂ توحیدکی بنیاد پر ہوئی   ع

دنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

جس نے کفر و الحاد کی دنیا میں اور یادگاری مندروں اور اہراموں سے بھری ہوئی دنیا میں، عقیدۂ توحید کے ذریعے سے انسانیت کے چہرے کا رُخ پھیر دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یادکرو وہ وقت، جب کہ ہم نے ابراہیم کے لیے اس گھر کی جگہ تجویز کی تھی، (اس ہدایت کے ساتھ کہ) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو،اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو،اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہردُور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوارآئیںتاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں، اور چند مقرر دنوںمیں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیںاور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذر پوری کریں، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘۔ (الحج۲۲: ۲۶- ۲۹)

اس گھر کی تعمیر کے بعد، صحرا کے وسط میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک پتھر پر چڑھے اور چاروں جانب چہرہ پھیر پھیر کر تمام انسانوں کو پکارا کہ وہ آئیں اور اس گھر کا طواف کریں۔اس پکار کے جواب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر ابدتک کے زمانے کے پیروانِ اسلام کا ایک انبوہِ کثیر لبیک اللّٰھم لبیک (میں حاضرہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں) کی صدائیں بلند کرتا ہوا، والہانہ آتا رہا ہے اور تاقیامت آتا رہے گا۔

جب ابراہیم علیہ السلام کعبہ، مکہ اور حجاز کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ رہے تھے تو آپ ؑ نے دُعا فرمائی: ’’اے پروردگار! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ پروردگار! اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے، جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میںاپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کوان کا مشتاق بنااور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔پروردگار! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں‘‘۔اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں  نہ آسمانوں میں‘‘۔ (ابراہیم ۱۴: ۳۵ - ۳۸)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج تک خانہ کعبہ گذشتہ چار ہزار برسوں سے اپنے اصل مقام پر، اپنی اصل ہیئت میں اور اپنی اصل بنیادوں پر قائم ہے۔ پوری تاریخ میں   یہ بات ریکارڈ پر رہی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے اب تک جب بھی خانہ کعبہ کی تعمیرنو ہوئی ہے، ہمیشہ ان ہی بنیادوںپر ہوئی ہے۔

 قدیم روایات کے مطابق خانہ کعبہ بے چھت کی چاردیواری سے گھرا ہوا ایک حجرہ تھاجس کی دیواروں کی بلندی ایک قد آدم تھی۔ ازرقی نے مزید تفصیل سے بیان کیاہے کہ یہ دیواریں ساڑھے چار میٹر بلند تھیںاور کھردرے پتھروںسے بغیر گارے کے بنائی گئی تھیں۔ چاروں کونوں پر چار پتھر نصب تھے، جن کی عرب تعظیم کیا کرتے تھے۔زم زم کا مقدس کنواں کعبہ کے صحن میں واقع تھا۔

ہجرتِ مدینہ سے اٹھارہ برس قبل قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کی، جس کی حالت مرمت طلب ہو چکی تھی۔ اس تعمیر نو کا احوال ازرقی نے یوں بیان کیا ہے:’’اسی زمانے میں یونان کا ایک تجارتی بحری جہاز شُعیبیہ( جدہ سے قبل مکہ کی بندرگاہ) پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔قریش بحری جہاز کی لکڑی اور ایک یونانی بڑھئی کو، جس کانام باقوما تھا(اور وہ اسی بحری جہاز پر سوار تھا)،کعبہ کی تعمیر نو میں مدد کے لیے ساتھ لے آئے۔ اب کعبہ اس طرح سے تعمیر کیا گیا کہ ایک تہ پتھروں کی رکھی جاتی اور ایک تہ (ساگوان کی) لکڑی کی۔ یوں کُل ۳۱تہیں جمائی گئیں۔۱۶ تہیں پتھروں کی تھیں اور ۱۵تہیں لکڑی کی۔پہلی اور آخری تہ پتھر کی تھی‘‘۔

جب حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیاتو سردارانِ قریش میں اسے نصب کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر جھگڑا شروع ہو گیا۔صورتِ حال سنگین ہوگئی اور خوںریزی کی نوبت نظر آنے لگی۔فیصلہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم پر چھوڑا گیا۔ آپؐ کا فیصلہ تمام متعلقین کے لیے قابل قبول ہوا۔یوں ایک تشویش ناک صورتِ حال ٹل گئی۔

کعبہ کا دروازہ فرش سے اونچا کرکے اس طرح بنایا گیا کہ اس کی چوکھٹ سطحِ زمین سے چار ہاتھ (تقریباً دو میٹر) بلندتھی۔قریش نے ایک سپاٹ چھت بھی تعمیر کی۔چھت کوچھے ستونوںسے سہارا دیا گیا تھا جوتین تین ستونوں کی دو قطاروں پر مشتمل تھے۔حرم کی دیواریں اب ۱۸ ہاتھ اونچی کردی گئیں، جب کہ اس سے قبل صر ف نو ہاتھ بلند تھیں۔ہر تہ کی اونچائی تقریباً ۳۱سینٹی میٹر تھی۔ شمالی کونے پر جو رُکنِ شامی کہا جاتا ہے، چھت تک پہنچنے والی چوبی سیڑھیاں بنائی گئیں۔حرم کو ایک کپڑے میں ملفوف کر دیا گیا،یہ کپڑا’قباطی‘ کہلاتا تھا، پھر اس کپڑے کو بھی اونی پٹیوں سے ڈھانپ دیا گیا ۔

اب خانہ کعبہ کی اندرونی چھت، دیواروں اور ستونوں کو رسولوں، فرشتوں اور درختوں کی تصاویر سے مزین کیا گیا۔رسولوں کی تصاویر میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایک تصویر بھی شامل تھی جس میں ایک ضعیف العمر شخص کوتیروں کی مدد سے فال نکالتے دکھایا گیا تھا۔ قدیم روایات کی رُو سے کعبہ کا صحن طلوعِ اسلام سے قبل بھی طواف کے لیے استعمال کیا جاتا تھااور یہ دائرہ نُما تھا۔اس علاقے کو قرآن مجید میں ’مسجد الحرام‘ کہاگیا ہے: ’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۱)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا کہ اللہ اُن کی ذرّیت میں سے ایک رسول مبعوث فرمائے، مستجاب ہوئی اور۲ ہزار ۶ سو برس بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم ان میں مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کی آیات ان کے سامنے تلاوت فرمائیں اورعربوں کی کایا پلٹ دی۔ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے پہلا اسلامی حج، ایک لاکھ ۱۴ ہزار مسلمانوں کے ساتھ، ۱۰ ہجری میں ادا فرمایا۔اسلام کی دُور دراز تک اشاعت کے بعد حاجیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔اس کے نتیجے میں مسجد حرام اور کعبہ کے گرد مطاف میں وقتاً فوقتاً توسیع کرتے رہنا ناگزیر ہوگیا۔پہلی توسیع خلیفہ ثانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور میں ہوئی، اور اب تک کی (یعنی یہ مضمون تحریر کیے جانے تک کی: مترجم) آخری توسیع سعودی عرب کی حکومت نے ۱۳۹۵ھ میں کی ہے۔مطاف کی آخری توسیع جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ میں ہوئی۔حرم کی توسیع اور تزئین نو کی ایک روداد ذیل میں دی جاتی ہے:

حرم کی توسیع اور تزئینِ نو

اوّلین اسلامی دور: سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہٗ (۱۷ھ)

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لائے اور آپؓنے کعبہ کو مرمت طلب حالت میںدیکھا توٹوٹے پھوٹے حصوں کی مرمت کے احکامات جاری فرمائے۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوا ہے کہ مسعیٰ کی جانب سے آنے والا سیلابی پانی مقام ابراہیم ؑ کے سواہرجگہ نقصان کا باعث بنا۔آپؓ نے یہ بھی محسوس کیا کہ اہل ایمان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے گنجایش پیدا کرنے کو کعبہ کے گرد مسجد حرام کے رقبے میں توسیع کی ضرورت ہے۔ اس غرض سے کعبہ کے جوار میں بنے ہوئے مکانات کا معاوضہ ادا کرکے انھیں مسمار کروا دیاگیا۔تمام روایتی مآخذ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ادوار میں کعبہ کااحاطہ کرنے والی کوئی دیوار نہیں تھی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ نے ایک قد آدم سے کچھ کم اونچائی کی ایک دیوارچاروں طرف کھنچوا دی۔اس دیوار میں دروازے بنوائے گئے اور اندھیرا چھا جانے پر اس احاطے کوروشن کرنے کے لیے دیوار پر چراغ رکھ دیے گئے۔تاریخ میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ آپؓ نے ایک پشتہ بھی تعمیر کروایاتاکہ آیندہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے یہ جگہ محفوظ   رہ سکے۔مسجد حرام کا توسیع شدہ احاطہ کثیر الاضلاعی شکل کا تھااورزم زم کا کنواں اس احاطے کے اندر لے لیا گیا تھا۔

 سیدنا عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہٗ  (۲۶ھ)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھوں ہونے والی مسجد حرام کی توسیع کے زمانے کو بمشکل ایک عشرہ گزرا ہوگا کہ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ کو مزید توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نئے نئے ممالک میں تیزی سے اشاعتِ اسلام کے باعث حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اِس توسیع کی وجہ بنی۔ ۲۶ ہجری میں آپؓ نے ارد گرد کے مزید گھروں کو معاوضہ ادا کرنے کے بعد مسمار کروا دیا اور اُن کی اراضی مسجد حرام میں شامل کردی۔آپؓ نے مسجد کی مکمل تزئینِ نو کروائی اور تاریخ میں پہلی بار نماز کے لیے سائبان تعمیر کروایا۔ نقشہ کم و بیش مربع شکل کا تھااور اس کے تمام کونے نالی دار تھے۔

 سیدنا عبداللّٰہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہٗ (۶۵ھ)

سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے نواسے تھے اور مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والے سب سے پہلے مسلمان تھے۔ آپؓ کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا اُن افراد میں سے ایک تھیں جنھوں نے مکہ سے ہجرت کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کی معاونت کی تھی۔جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ یزید کے مقابلے میں سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کررہے تھے تو یزید نے مکہ معظمہ پر حملہ کردیااور محاصرے کے دوران میں خانہ کعبہ کو آگ لگ گئی۔محاصرے کا اختتام یزید کی موت پر ہوا۔اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ کی تعمیرِ نوکا آغاز کیا۔ سب سے پہلے آپؓ نے خانہ کعبہ کو اُن پتھروںسے صاف کرنے کا حکم دیاجو یزید سے جنگ کے دوران میں کعبہ کے اندر پھینکے گئے تھے۔پھر آپ نے پوری عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دیا، کیوں کہ بہت تھوڑا ہی سا حصہ اپنی اصل صورت میں باقی رہ گیا تھا۔آتش زدگی کے نتیجے میں دیواریں ریزہ ریزہ ہوئی جارہی تھیں۔ اہل مکہ انہدام کی غرض سے خانہ کعبہ کو ہاتھ لگانے سے خائف تھے۔ پہلے پہل انھوںنے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ کی مدد کرنے سے انکار کردیا،تا آں کہ آپؓ نے خود بہ نفسِ نفیس انہدام کے کام کا آغازنہ فرمایا۔

محاصرے کے دوران میں حجر اسود تین ٹکڑے ہوگیا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے ان ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کے فریم میںیکجا کیااور حفاظت کے نقطۂ نظر سے اُس وقت تک اپنے گھر میں رکھا جب تک کعبہ کی دیواریں حجر اسود کی تنصیب کے مقام تک بلند نہ ہو گئیں۔   سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیاد میں،جو بہت بڑے بڑے سبز پتھروں پر مشتمل تھی، چھے ہاتھ کا اضافہ کیا گیااور منہدم کی گئی عمارت  کے مقابلے میں اس کی چوڑائی بھی بڑھائی گئی۔

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ کوسیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قائم کردہ بنیادوں پر ازسرِ نو تعمیر کیا۔ لمبائی میں اضافہ کرکے اسے ۱۸ ہاتھ سے ۲۶ ہاتھ کر دیا۔حجر اسماعیل(علیہ السلام) کو کعبہ کے اندر شامل کیااور کعبہ کی اُونچائی ۱۸ ہاتھ سے ۲۷ ہاتھ تک لے گئے، یہ پیمایش عمارت کی کرسی سے کی گئی تھی، جو خود ۱۶؍ انچ بلند تھی۔نئی عمارت کی تعمیرپتھروں سے کی گئی جن کی موٹائی دوہاتھ تھی۔ ان پتھروںکی ۲۷ تہیں جمائی گئی تھیں۔سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ میں دو دروازے بنوائے جو ۱۱ ہاتھ بلند تھے۔ ایک دروازہ مشرقی جانب، جو کعبہ میں داخل ہونے کے لیے تھا اور دوسرا دروازہ مغربی جانب جوباہر آنے کے لیے مختص تھا۔بعض مآخذ سے معلوم ہوا ہے کہ ان دروازوںپر سونے کی پتریاں چڑھائی گئی تھیں۔شمالی گوشے میں ایک چوبی سیڑھی نصب کی گئی جو چھت تک جاتی تھی۔ترشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کے لیے روایتی یمنی فن تعمیر اختیار کیا گیا اور یمن کی چکنی مٹی کاگارا استعمال کیا گیا۔

کلیساے یمن کی طرز پر (جو اَبرہہ نے تعمیر کروایا تھا) میناکاری کی گئی۔سنگ مرمر کے تین ستون بھی تعمیر کیے گئے جو رنگارنگ نقاشی سے مزیّن تھے۔صنعا سے شفاف سنگ مرمر لا کر اندرونی چھت پر لگائے گئے، جس سے اندرونی حصہ روشن ہوگیا۔ اگرچہ حجر اسودخانہ کعبہ سے اتار لیا گیا تھا، مگر عارضی چوبی ڈھانچے کے گرد بھی طواف جاری رہا۔جب دیواریں حجر اسود کی تنصیب کے مقام تک بلند ہو گئیں تو حجر اسود نصب کرکے اس پر دو پتھر مضبوطی سے جمادیے گئے۔کعبہ کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر مُشک کا لیپ کیا گیا۔ حرم کی نئی عمارت کو مصر کے قبطی ریشم کا غلاف پہنایاگیا،    یہ روایت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہٗ کے دور سے جاری تھی۔باقی ماندہ اضافی پتھروں سے کعبہ کے گرد ۱۰ ہاتھ چوڑی ایک دائرہ نما پیادہ رَو تعمیر کی گئی۔حرم کے گرد بنی ہوئی دیوار اونچی کی گئی۔موجودہ دیواروں کی مرمت کی گئی اور ایک برآمدے کا اضافہ کیا گیا جس کی چھت سادہ لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ازرقی بیان کرتا ہے کہ مسجد حرام نو جریب سے کچھ زائد پر تھی۔

حجاج بن یوسف (۷۴ھ)

مکہ شہر کے محاصرے کے دوران میں حجاج نے کعبہ کو شدید نقصان پہنچا یا۔جب وہ شہر میں داخل ہوا تو کعبہ کی تعمیر نو کا ذمہ لیا۔اس نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ کا تعمیر کردہ پورا ڈھانچا منہدم کرادیا۔ کعبہ کی لمبائی سات ہاتھ کم کرکے صرف ایک دروازے کے ساتھ نئی تعمیر کی گئی۔   اس واحد دروازے کو فرش سے چار ہاتھ بلند کردیاگیا تاکہ کعبہ کے اندر داخلہ محدود کیا جاسکے اور   اس میں باقاعدگی لائی جا سکے۔ حجاج نے عمارت کے سامنے کا رُخ تین اُفقی حصوں میں منقسم کردیا۔ سب سے نچلا حصہ ۱۸ ہاتھ بلندتھا اور اس میں کعبہ کے اندر داخل ہونے کا دروازہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ تین نمایشی دروازے بھی بنائے گئے۔ حرم کے ہر رُخ پر ایک چھجے کے نیچے ایک، ایک نمایشی دروازہ بنایاگیاتھا۔سب سے اونچاحصہ دو ہاتھ بلند تھااور اس حصے میں نیم شفاف سنگ مرمرکی چارکھڑکیاں نصب کی گئی تھیں۔ اندرونی حصے میں ایک نمایشی چھت کا بھی اضافہ کیا گیا جو شہتیروں سے بنائی گئی تھی۔یہ شہتیر دیواروں سے باہر نکلے ہوئے تھے اور ان پر ایک پردہ لٹکادیا گیا تھا۔ اندرونی حصے میں سنگ سرخ کے تین ستون تھے جنھوں نے شہتیروں سے بنی ہوئی چھت کو سہارا دے رکھا تھا۔

ولید بن عبدالملک (۹۱ھ)

متعدد سیلابوں میںسے ایک سیلاب کے بعد ولید بن عبدالملک نے کعبہ کی بحالی کا آغاز کیا۔ اُس نے مسجد کے رقبے کی توسیع کی اور عمارت کی تزئین نو کروائی۔ برآمدوں کی چھت کو ساگوان کی منقش لکڑی کے شہتیروں سے مزین کیااورشیشے کی میناکاری متعارف کروائی۔ سنگ مرمر کی چوکھٹیں بنوائی گئیں،پرنالوں پرسونے کی ملمع کاری ہوئی اورکنگورے بنوائے گئے۔در حقیقت ولید وہ پہلا شخص تھا جس نے مصر اور شام سے منگائے ہوئے سنگ مرمر سے ستون بنوائے۔

اُموی اور عباسی عھد کی تعمیرات

اُموی تعمیرات کا دور جو ۱۳۲ھ تک جاری رہا ، سنگ مرمر کے ستونوں پر ایستادہ محرابی چھتوں اور پتھروں کی تراش خراش سے کی جانے والی پُرکشش تعمیرات کادور تھا۔سنگ مرمرکی چوکھٹوں    اور میناکاری پر مشتمل تعمیرات کی اندرونی تزئین و آرایش انتہائی شان دار طریقے سے کی گئی تھی۔ان میں سے کچھ تکنیکی طریقے مسجد حرام کی تعمیر نو میں بھی استعمال کیے گئے۔ عباسیوں کے دور میں (۱۳۲تا ۶۵۶ھ) شامی طرزِ تعمیر کے اثرات کم ہوئے اور ایرانی و ساسانی طرزِ تعمیر کے اثرات میں اضافہ ہوا۔محوری نقشہ سازی اور پیمانوں کی وسعت اس عہد کی دو خصوصی صفات تھیں۔تعمیرات بالعموم اینٹوں سے کی جاتی تھیں جن کو استرکاری سے چھپا دیا جاتا تھا۔چہار مرکزی محرابیں نئی  صورت گری کے طور پر ظہور پذیر ہوئیں۔چمک دار ٹائلوں سے مزین قوسی محرابوں کے استعمال کا آغاز بھی اسی دور سے ہوا۔

ابوجعفر المنصور (۱۳۷ ھ)

ابوجعفر المنصور نے مسجد کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔اُس نے مسجد کی شمالی اور مغربی جانب کو توسیع کی۔ان توسیعات کے بعد رقبہ پہلے کے مقابلے میں دوگنا ہوگیا۔

محمد المہدی (۱۶۴ھ)

محمد المہدی نے یکے بعد دیگرے دو توسیعات کیں۔پہلی توسیع ۱۶۱ھ میں ہوئی جب اس نے شمالی سمت وسیع کرنے کا حکم دیا۔اس علاقے سے متصل عمارات کو خرید کر منہدم کر دیا گیااور ان کا رقبہ مسجد میں شامل کر دیا گیا۔اس توسیع کے بعد کعبہ درمیان میں نہ رہا۔ محمد المہدی نے ۱۶۴ھ کے حج میںاس بات کو محسوس کیا۔ لہٰذا اس نے جنوبی سمت میں بھی توسیع کرنے کا حکم دیا۔وہ خود بہ نفس نفیس جبل ابو قبیس پر کھڑا ہوگیا اور اس امر کو یقینی بنایا کہ کعبہ اس احاطے کے بالکل درمیان میں      نظر آئے۔مہدی نے اس احاطے کے گرد برآمدوں کی تین قطاریں مزید تعمیر کروائیں۔ستون یاتو سنگ مرمر کے تھے یا پتھر کے۔ان برآمدوں پر ساگوان کی چھت ڈلوائی گئی۔ اس نے نمازکے لیے چھوٹی چھوٹی چار چوبی عمارتیں بنوائیں ، چار فقہی مذاہب میں سے ہر ایک کے لیے ایک عمارت مختص کر دی گئی۔ مہدی کا شروع کیا ہوا کام اُس کی زندگی میں پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔اُس کے کام کی تکمیل ۱۶۷ھ میں اُس کے بیٹے موسیٰ الہادی کے عہد میں ہوئی۔اس توسیع کے نتیجے میں حرم کا رقبہ اپنے انتہائی طول و عرض تک پہنچ گیا۔سوائے اس کے کہ بعد میں ’باب الزیادہ‘ اور ’بابِ ابراہیم‘ کا اضافہ کیا گیا، حرم میں اور کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ مہدی کی تعمیرات چھے صدیوں تک کسی تغیر کے بغیر برقرار رہیں۔

l۲۲۲ھ تا ۴۸۶ ھ: ۲۲۲ھ میں سامراء سے لائے ہوئے زرد پتھرکے ستون چھت کے لیے استعمال کیے گئے۔کعبہ کے شمال مغرب میں واقع حجر اسماعیل ؑ کی نشان دہی کے لیے سنگ ہاے رنگا رنگ اور سنگ سبز کی تنصیب کی گئی۔مقام ابراہیم ؑ پر سونے کی ملمع کاری کی گئی اور موسمی اثرات سے حفاظت کی غرض سے اِسے ایک چوبی ساخت کے نیچے رکھا گیا۔کعبہ کے گرد چوبی ستونوں پر قندیلیں آویزاں کی گئیں۔تواترسے سیلابوں کی آمد کے سبب مزید مرمت کی شدید ضرورت پڑی تو کعبہ کی چھت کو ڈھاپنے کے لیے سنگ سبزکی تہ جمائی گئی۔چاندی کے دروازے پر سونے کا ملمع چڑھایا گیا۔اندرونی حصے میں دیواروں پر ایک ہاتھ چوڑی سونے کی گل کاری پر مشتمل ایک پٹی کا اضافہ کیا گیا۔ سرخ ریشم کے ایک پردے سے، جس پر سونے سے کڑھائی کی گئی تھی، کعبہ کو ملفوف کردیاگیا۔

معتضد عباسی نے ۲۸۴ھ میں دارالندوہ کا ایک حصہ مسجد حرام میں شامل کر لیا۔بعد میں دارالندوہ کا بقیہ حصہ بھی مسجد میں شامل کر لیا گیا اور اس کا نام ’باب الزیادہ‘ رکھ دیا گیا۔اس کے بعد مقتدر عباسی نے ۳۰۶ھ میں مسجد میں ایک حصے کا اضافہ کیا جو ’بابِ ابراہیم ؑ‘ کہلایا۔ اس توسیع سے مسجد حرام کا رقبہ اتنا بڑا ہوگیا جو ۱۳۷۵ھ تک برقرار رہا۔ ۴۴۲ھ میںاندرونی حصے کے متعلق ایک حاجی یوں بیان کرتا ہے: ’’امویوں کے زمانے سے اس کا نظم تین ستونوں پر استوار تھا۔ستونوں کا بالائی سرا جو سنگِ سفید سے بنایا گیا تھا، شیشے سے بدل دیا گیا۔ چاروں کونوں پر بلند طاق بنائے گئے   جن میں قرآن مجید رکھ دیا گیا۔دیواروں پر سونے کی اینٹیں مرصع کر دی گئیں۔شمال مشرقی دیوار پر چھے نقرئی محرابیں بنائی گئیں۔ لکڑی کے کچھ ٹکڑے، جن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ کشتی نوحؑ سے حاصل کیے گئے تھے، چاندی کے فریم میں جڑ کر دیوار پر آویزاں کر دیے گئے۔چھ صدیوں تک کعبہ اور مسجد حرام کم و بیش اسی صورت میں رہے، حتیٰ کہ سلطنت عثمانیہ کا دور آپہنچا۔

l۸۰۲ھ تا ۸۰۷ ھ: ۸۰۲ھ میں آتش زدگی کے سبب مسجد کی مغربی سمت مکمل طور پرجل گئی۔ سنگ مرمر کے سو سے زائد ستون اور چھت نذر آتش ہوگئی۔ یہ حادثہ فرج ابن برقوق (شراک حکمرانوں میں سے ایک حکمران)کے عہد میں پیش آیا۔ اس نقصان کی مرمت امیر بیسق الظاہری نے کروائی۔

l ۹۷۹ ھ تا حال: عثمانی حکمران سلطان سلیم نے ۹۷۹ھ میں مسجد الحرام کی مکمل تزئین نوکروائی۔اُس نے ترکی کے عظیم ماہر تعمیرات سنان کو یہ فریضہ سونپا۔ مسجد کے انہدام کا آغاز ۹۸۰ھ میں باب السلام سے ہوا۔ملبے کا ڈھیر مسفلہ میں لگایا گیا۔نئی تعمیر کا آغاز ۶جمادی الاوّل ۹۸۰ھ سے ہوا۔ کعبہ کے گرد واقع برآمدے کو جس میں ۸۹۲ ستون تھے، پتھر اور سنگ مرمرکے ستونوں سے بدل دیا گیا۔پتھر کے ستون اس ترتیب سے ایستادہ کیے گئے کہ وہ استرکاری کی ہوئی سنگی محرابوں اور گنبدوں کو سہارا دیتے رہیں۔ ہموار چھت کی جگہ طرزِ عثمانی میں مجموعی طور پر ۵۰۰ گنبد تعمیر کیے گئے۔ ان گنبدوں کی اندرونی سطح کوبعد میں عبداللہ مفتی نے سنہری نقاشی اور دل کش خطاطی سے مزین کروا دیا۔  ۹۹۴ھ میں سلطان سلیم نے سنان کے نقشے کے مطابق کعبہ کے احاطے میں توسیع کی۔سنگ ہاے رنگارنگ سے کعبہ کے گرد پیادہ رَو کو مزین کیا گیا۔ کعبہ کے احاطے میں کھجور کے درختوں کی شکل کے قمقموں کا اضافہ کیا گیا اور ساتواں میناربنا یا گیا۔ عہد عثمانی کی مسجد کا تذکرہ اٹھارھویں صدی کے اکثر سیاحوں نے کیا ہے۔ فرش کو بڑے بڑے پتھروں سے مسطح کر دیا گیا تھا۔مسجد سے لے کر کعبہ تک سات عدد پختہ پیادہ رَو تعمیر کی گئی۔مسجد کا فرش گلی کی سطح سے نیچے تھا، داخلے کے لیے ۱۹ راستے بنائے گئے جن سے سیڑھیوں کے ذریعے داخل ہوتے تھے۔ سات مینار تھے جو اِن مقامات پر تعمیر کیے گئے تھے: باب العمرہ، باب السلام، باب علیؓ، باب الوداع، مدرسہ قایتبای،باب الزیادہ اور مدرسہ سلطان سلیمان۔ اندرونی حصے میں ستونوںکا جُھنڈ تھا جن کی تعداد ۴۵۰ سے ۵۰۰ تک تھی۔ مشرقی سمت میں ایک برآمدہ تھا، جس میں ستونوں کی چار قطاریں تھیں، دوسری جانب تین قطاریں تھیں۔ ستونوں کو نوکیلی محرابوں سے جوڑا گیا تھا۔ہر چار ستون سے ایک گنبد کو سہارا دیا گیا تھا۔

۱۰۳۹ھ میں پے در پے سیلابوں کے باعث کعبہ کی تعمیر نو ضروری ہوگئی۔ دو کونوں کے پتھر منہدم ہو گئے اور علما نے متفقہ طور پر مرمت کو لازمی قرار دیا۔کھدائی اُس وقت روک دی گئی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیادکے پتھروں تک جاپہنچی۔ کعبہ کی تعمیر ان ہی بنیادوں پر ہوئی اورپرانے پتھروں ہی کا زیادہ استعمال کیا گیا۔کعبہ کے اندرونی ستونوں پر سونے کی ملمع کاری کر دی گئی۔ چاندی کا وہ دروازہ جو سلطان سلیمان نے کعبہ کی نذر کیا تھا، اپنے مقام پر بحال کر دیاگیا۔ کعبہ پر دو غلاف چڑھائے گئے، پہلے سُرخ اور اُس کے اوپر سیاہ۔ کعبہ کے گرد پڑی ہوئی ریت آبِ زم زم سے دھو کر صاف کی گئی۔ کعبہ اسی حالت میں کم و بیش ۴۰۰ سال تک رہا، تاآں کہ ۱۳۷۵ھ میں عالی مرتبت شاہ عبدالعزیز نے مسجد الحرام کے توسیعی و تعمیری منصوبے کا آغاز کیا۔  اللہ کے فضل و کرم سے اس منصوبے کی کامیابی سے تکمیل کے بعد ۱۳۹۸ھ میں مطاف کی توسیع اور نکاسی آب کے منصوبے کا آغاز کیاگیا۔

غلافِ کعبہ

اوّلین اسلامی اَدوار ہی سے کعبہ کی چاروں دیواریں سیاہ غلاف سے ملفوف کی جاتی رہی ہیں۔ غلاف کا کپڑا، کعبہ کی تاریخ کے مختلف ادوار میںمصر، یمن اور دیگرعلاقوں سے فراہم کیا جاتا رہاہے۔ ایک مرتبہ سیاہ غلاف کو سفید غلاف سے بدل دیا گیا اور کہا گیا کہ کعبہ نے ’احرام‘پہن لیا ہے۔ غلاف کو بالعموم رسیوں اور کڑوں کی مدد سے زمین پر نصب کیا جاتا ہے۔ زیادہ تریہ غلاف  سیاہ کمخواب کاہوتا ہے۔ غلافِ کعبہ کے نچلے حصے سے تین چوتھائی حصہ اوپر کرکے سونے کی کڑھائی پر مشتمل ایک پٹی تشکیل دی جاتی ہے۔کعبہ پر غلاف چڑھانے کی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانے سے پہلے بھی تھی، مگر یہ روایت حال ہی میں قائم ہوئی ہے کہ غلافِ کعبہ ہرسال تبدیل کیا جائے۔اب غلافِ کعبہ مکہ میں واقع ایک کارخانے کے اندر تیار کیا جاتا ہے۔

درِ کعبہ

کعبہ کے دروازے کا تصور وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا ہے۔ ابتدا میں دروازہ فرش کی سطح پر تھا۔ بعد میں اس کو بلند کر دیا گیا۔ ایک بار دو دروازے بنادیے گئے تھے۔ ایک داخل ہونے کے لیے اور دوسرا باہر آنے کے لیے، تاہم اکثر زمانوں میں ایک ہی دروازہ کعبہ کے شمال مشرقی رُخ پر رہا ہے۔موجودہ دروازہ فرش کی سطح سے دو میٹر بلند ہے اور سونے چاندی کے ملمع سے بنایا گیا ہے۔ سال میں ایک بار دروازہ کھولا جاتا ہے تاکہ کعبہ کے اندرونی حصے کو غسل دیا جا سکے۔دروازے کی سطح تک پہنچنے کے لیے ایک مخصوص زینہ لایا جاتا ہے۔ کعبہ کے اندرونی حصے کو آبِ زم زم سے غسل شاہِ ذی جاہ اور دیگر عمائدین اپنے ہاتھ سے دیتے ہیں۔اندرونی دیواریں کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی جاروب سے صاف کی جاتی ہیں اور اس کے بعد اندورنی حصے میں خوشبوؤں کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

حجر اسود

حجر اسود کعبہ کے مشرقی گوشے میں ثبت ہے۔ایک بار یہ ٹوٹ کر تین حصوں اور بہت سے ریزوں میں منقسم ہو گیا تھا۔ اب اسے پتھروں کے ایک حصار میں جڑ کر چاندی کے ایک بندھن سے باندھ دیا گیا ہے۔کہاجاتا ہے کہ یہ پتھر آتش فشاں کے لاوے کا پتھر ہے۔ اس کا رنگ سُرخی مائل  سیاہ ہے، جس پر زرد ذرّات پائے جاتے ہیں۔اب یہ مختلف ناپ کے سات حصوں میں منقسم ہے، جو چاندی کے ایک فریم میں مضبوطی سے جما دیے گئے ہیں۔

اسلامی معاشرے کا کیا مطلب اور مفہوم ہے؟ اس کی کیا خصوصیات ہونی چاہییں اور معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے اس کو کیسا ہونا چاہیے؟ جب تک ذہن میں اس معاشرے کا تصور واضح نہیں ہوگا، اس کے قیام کی جدوجہد اور مقصد کی تکمیل بے سمت رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ جائزہ بھی لینا ہوگا کہ جب یہ معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا… اور اس وقت دنیا میں جہاں جہاں اس سے ملتا جلتا معاشرہ قائم ہے، وہاں ایک ’مثالی اسلامی معاشرے‘ کے مقابلے میں کیا تبدیلیاں اور فرق پایا جاتا ہے۔ اس جائزے کے نتیجے میں ان خرابیوں، تبدیلیوں اور فرق کو دُور کرنے کے اقدامات تجویز کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد آخری مرحلے پر اصل مقصد کا حصول اور مسلم دانش وروں کے سامنے طریق کار اور لائحہ عمل پیش کرنے کا کام ہوگا۔

اسلامی معاشرے کی بنیادیں

  • نظریاتی معاشرہ: اسلامی معاشرے کی ابتدائی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی معاشرہ ہے۔ یہ معاشرہ کسی بھی خاص نسل، زبان، علاقے یا تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتا بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر ظہور میں آتا ہے۔ یہ نظریۂ اسلامی درحقیقت رضاے الٰہی کے حصول کا نظریہ ہے۔ اسلامی معاشرے کی یہ بنیاد جو دنیا میں کسی بھی جگہ نظر نہیں آتی، زبان ، علاقے اور نسل پرستی کے تمام بتوں کو کاری ضرب لگاتی ہے۔ اس معاشرے میں شامل ہونے کے لیے صرف اسلامی نظریے کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی معاشرے میں شامل ہونے کے بعد فرد کی تمام وفاداریاں، صرف اور صرف خالق کائنات کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔
  •  انسانیت کی رھنمائی:اس معاشرے کی دوسری خصوصیت ایک واضح مقصد کی سمت انسانیت کی رہنمائی ہے اور اس مقصد کی نشان دہی واضح طور پر قرآنِ حکیم میں کی گئی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ (البقرہ۲:۱۲۴)۔ گویا انسانوں کی قیادت اور ایک منزل کی جانب ان کی رہنمائی اس معاشرے کا دوسرا بنیادی مقصد ہے۔ یہ مقصد اس وقت سے اسلامی معاشرے کے سامنے ہے، جب دنیا میں پہلا اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں ایک علاقے کے گورنر نے خلیفہ کو خط لکھا: ’’غیرمسلموں کے بڑی تعداد میں مسلمان ہونے سے جزیے کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے‘‘۔ خلیفہ نے جواب دیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق و صداقت کا پیامبر بناکر بھیجا گیا تھا تاکہ سچائی فروغ پائے۔ انھیں تحصیل دار بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا کہ لوگوں سے رقم جمع کرتے رہیں‘‘۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا یہ جواب اسلامی معاشرے کے اس بنیادی مقصد کی تائید کرتا ہے کہ اس معاشرے کو انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے۔

  • عدلِ اجتماعی: ان نکات کو سامنے رکھا جائے تو اسلامی معاشرے کی مزید خصوصیات کا علم ہوتا ہے، اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ معاشرہ عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ ہے:

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔(الحدید۵۷:۲۵)

قرآن کا یہ فرمان انبیاے کرام ؑ کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ انسانوں کے لیے ایک ایسا نظامِ حیات تشکیل دیا جائے، جس میں انفرادی اور اجتماعی معاملات اور ایک فرد کی پوری زندگی انصاف کے اصول کے تابع ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں زندگی کے ہرشعبے میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے اس مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی، انھوں نے عدل و انصاف کے اس بنیادی فلسفے کو نمایاں رکھا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد فرمایا: ’’جو شخص مظلوم ہے وہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے اور جو ظالم ہے وہ سب سے کمزور ہے۔ اس وقت تک جب تک ظلم کا خاتمہ نہ کیا جائے اور مظلوم کے حقوق نہ دلوائے جائیں‘‘۔ اب یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ عدل و انصاف، معاملات کی شفافیت اور توازن اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیات ہیں۔

مکی زندگی میں چند صحابہؓ، رسولِ اکرمؐ کے پاس آئے اور کفار کے جبروتشدد اور ظلم وستم کی شکایت کی۔ حضرت خباب بن الارتؓ فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ کعبہ کے سایے میں چادر سر کے نیچے    رکھ کر لیٹے ہوئے تھے (اُس زمانے میں مکہ والے بے پناہ ظلم و ستم مسلمانوں پر توڑ رہے تھے)۔ ہم نے آپؐ سے عرض کیا کہ: ’’آپؐ ہمارے لیے اللہ کی مدد طلب کیوں نہیں کرتے؟ آپؐ اس ظلم کے خاتمے کی دُعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ (آخر یہ سلسلہ کب تک دراز ہوگا؟ کب یہ مصائب ختم ہوں گے؟)

حضوؐر نے یہ سن کر فرمایا: ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے کسی کے لیے گڑھا کھودا جاتا، پھر اسے اس گڑھے میں کھڑا کیا جاتا۔ پھر آرا لایا جاتا اور اس سے اس کے جسم کو چیرا جاتا، یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے ہوجاتے، پھر بھی وہ دین سے نہ پھرتا، اور اسی طرح اس کے جسم میں لوہے کے کنگھے چبھوئے جاتے جو گوشت سے گزر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتے، مگر وہ اللہ کا بندہ حق سے نہ پھرتا۔

قسم ہے خدا کی! یہ دین غالب ہوکر رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء (یمن) سے حضرموت تک کا سفر کرے گا اور راستے میں اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ چرواہے کو  صرف بھیڑیوں کا خوف رہے گا کہ کہیں بکری اُٹھا نہ لے جائیں لیکن افسوس تم لوگ جلدی کرتے ہو‘‘۔(بخاری)

ایک اور موقع پر آپؐ نے حضرت عدی ابن حاتم ؓ سے فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا جب صنعا (عرب کے ایک سرے پر واقع تھا) سے ایک عورت مکہ تک جائے گی اور بالکل محفوظ ہوگی۔ قیصروکسریٰ کی بڑی بڑی سلطنتوں کے خزانے تم نے دیکھے ہیں، یہ سب میری اُمت کے ہوںگے۔ ایک وقت آئے گا کہ ایک شخص ہاتھ میں سونا لے کر نکلے گا اور کوئی اس کو لینے والا نہیں ہوگا‘‘۔

ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ قانون کی بالادستی، قانون کی نظر میں سب کی برابری، معاشی انصاف اور خوش حالی اس معاشرے کی خصوصیات ہیں، جہاں ایک شخص دوسرے کی خیرات پر زندہ نہیں رہتا اور ہر شخص کو اس کا حق ملتا ہے۔

  •  انفرادی تشخص کا تحفظ:اس معاشرے کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر ہرشخص کو انفرادی طور پر پوری اہمیت دی جاتی ہے۔ دوسرے معاشروں میں ’فرد‘ کی حیثیت نظام کے تابع ہوتی ہے۔ جہاں فرد کی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ نظام کا ایک پُرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔  اس کے برعکس، اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی ’فرد‘ قرار پاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں فرد کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کہا گیا ہے: ’’خدا کے سامنے ہرشخص اپنے اعمال کی جواب دہی کا خود ذمہ دار ہوگا‘‘۔ ریاست، معاشرے اور اس نظام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے افراد کو خوش حال رکھے، تاکہ وہ اندرونی اور بیرونی طور پر روحانی اور جسمانی حیثیت میں مطمئن رہتے ہوئے، خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دیں۔
  • رنگ و نسل کے امتیاز کا خاتمہ: اسلامی معاشرے کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانیت کے اتحاد پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس معاشرے میں مختلف رنگ، زبان، نسل ، علاقوں اور تہذیبوں کے افراد شامل ہوتے ہیں اور ان مختلف النسل لوگوں کا آغاز ایک نظریے کی بنیاد پر عمل میں آتا ہے۔ علاقے کی دُوریاں، زبان کی اجنبیت، رنگ کا فرق اور نسل کا امتیاز یہ سب کچھ اس وقت ختم ہوجاتا ہے، جب ایک شخص کلمہ طیبہ پڑھ کر دل کی صداقت سے اقرار کرتا اور گواہی دیتا ہے کہ…’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ اور جب اس معاشرے کا کوئی فرد اس کلمے کا منکر ہوتا ہے تو خواہ وہ کتنے ہی عرصے سے اس معاشرے میں شامل کیوں نہ ہو، اس کے تمام رشتے کٹ جاتے ہیں اور معاشرہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ یہ امتیاز بھی اسلامی معاشرے کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے نظامِ حیات یا انسانی معاشرے میں نظر نہیں آتی۔ فرانس کا رہنے والا ایک شخص کبھی بھی جرمن قوم کا فرد نہیں بن سکتا، لیکن اسلامی معاشرے میں ہر ملک، علاقے، رنگ، زبان اور نسل کے لوگ شامل ہوکر اُمت مسلمہ کے فرد بن سکتے ہیں۔

یہ اسلامی معاشرے کی وہ اہم خصوصیات ہیں جو موجودہ دور میں اس منزل کی نشان دہی کرتی ہیں جس کی سمت ہمیں انسانیت کی رہنمائی کرنا ہے، یعنی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: ’’تاکہ دنیا میں انصاف ہوسکے‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ایک اور جگہ  فرمان ہے: ’’ہم نے لوہا اُتارا جو (سیاسی) طاقت کی علامت ہے ‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک سیاسی قوت ہاتھوں میں نہ ہو۔

اسلامی معاشرے کا انحطاط

اب اس مسئلے کے دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی یہ کہ جب اسلامی معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا؟ جب تک ان خرابیوں کی نشان دہی نہیں ہوگی، اس معاشرے کی دوبارہ تعمیر ممکن نہیں۔

  •  اسلامی اصطلاحات کو فراموش کرنا: اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والی پہلی خرابی یہ ہے کہ ہم اُن اسلامی اصطلاحات کے اصل معنی اور اہمیت کو فراموش کربیٹھے جو قرآن نے ہمیں دی ہیں۔ دنیا کا ہر معاشرہ اور ہر نظریہ اپنی مخصوص اصطلاحات رکھتا ہے۔ ان اصطلاحات کا ایک خاص پس منظر اور مخصوص معنی ہوتے ہیں اور جو لوگ نظریہ اپناتے ہیں، وہ ان اصطلاحات کو ان کے خاص پس منظر اور معنٰی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک بار ان اصطلاحات کے معنٰی اور نظریات فراموش کردیے جائیں تو رسمی طور پر ان اصطلاحوں کے استعمال کے باوجود مقصد نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں پیدا ہونے والی پہلی خرابی یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی ان اصطلاحات کو یا تو فراموش کر دیا ہے یا پھر نظرانداز کردیا ہے، جو اپنے اندر ایک انقلابی مفہوم اور ہمہ گیریت رکھتی تھیں۔
  • ترجیحات میں تبدیلی:دوسری خرابی یہ ہے کہ ہم ترجیحات کے پیمانے اور تناسب کا شعور کھو بیٹھے ہیں۔ ہر نظام اور ہر معاشرے میں مقاصد کے حصول، زندگی کے معاملات کو سنوار کر سرانجام دینے اور اشیا کے بارے میں ترجیحات مقرر کی جاتی ہیں۔ کچھ چیزوں کو فوقیت دی     جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں بگاڑ کا عمل اس وقت شروع ہوا، جب ہم نے یہ ترجیحات پسِ پشت ڈال دیں۔ جو باتیں اہم تھیں غیراہم قرار دے دی گئیں اور معمولی باتیں اہمیت اختیار کرگئیں۔

نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ  میںمسجد نبویؐ میں ایک شخص فرض نماز ادا کرنے کے بعد کھڑا ہوا اور اسی جگہ نفل پڑھنے لگا۔ حضرت عمر فاروقؓ وہاں موجود تھے۔ آپ نے اس شخص کو ٹوکا اور فرمایا کہ پچھلی قومیں اسی لیے تباہ کردی گئیں۔

دراصل بات یہ ہے کہ اہم باتیں، کم اہم باتوں کے ساتھ شامل کردی گئی ہیں اور جو باتیں غیراہم ہیں انھیں اہمیت دے دی گئی ہے کیوں کہ ان کی ادایگی سہل ہے۔ اسلامی معاشرے کی اہم باتوں میں ایک بات، اللہ کے دین کے لیے مسلسل جدوجہد ہے۔ یہ ایک سخت اور مشکل کام ہے۔ ہم نے اسے کم اہم بنا دیا ہے۔ یوں ترجیحات کا پورا نظام اُلٹ کر رکھ دیا گیا جس سے اسلامی معاشرے کی اساس کو نقصان پہنچا ہے۔

  •  انقلابی فکر کو فراموش کرنا: ترجیحات کے پیمانے کھو بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کو رسم و رواج، چند اذکار، کچھ رسوم اور نوافل کی ادایگی تک محدود کر دیا گیا۔ مسلمانوں پر عائد اہم فرائض دینی جدوجہد اور انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام پسِ پشت ڈال دیے گئے۔

اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والا تیسرا بگاڑ یہ ہے کہ ایک نظریے کے طور پر اسلام کو غالب کرنے اور دین کو پھیلانے کا کام ترک کر دیا گیا۔ ہم یہ احساس ہی برقرار نہ رکھ سکے کہ یہ نظریہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے اور ایک داعیانہ اور تبلیغی جذبے کے ساتھ اسے دنیا میں پھیلانا ہے۔ اس انقلابی فکر کو بھلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم مصلحت پسند ہوگئے۔ ہر جگہ اسی رویے سے کام لینے لگے۔

امریکی صدرآئزن ہاور کو واشنگٹن کی ایک مسجد کے افتتاح کے لیے مدعو کیا گیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک غیرمسلم سربراہِ مملکت کو مسجد کے افتتاح کے لیے بلایا جائے گا، لیکن یہ ہوا اور اس وجہ سے ہوا کہ ہم اسلام کا مشنری جذبہ کھو بیٹھے ہیں۔ مسجد اللہ کی بندگی اور عبادت کی جگہ ہے۔ مسلم معاشرے میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے تقدس اور اہمیت کو اس طرح نظرانداز کرنا اس خرابی کی ایک مثال ہے، جو تبلیغِ دین کے سلسلے میں ہمارے اندر پیدا ہوئی۔

مغربی تھذیب کے اثرات

یہ وہ خرابیاں ہیں جو اسلامی معاشرے کے قیام کے کچھ عرصے بعد پیدا ہونی شروع ہوئیں۔

  •  مغربی تھذیب کا غلبہ:گذشتہ دو تین صدیوں سے ہم نے مغربی معاشرے کے اثرات قبول کرنا شروع کیے اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مغربی تہذیب اپنی اقدار، معمولات اور مقاصد میں اسلامی معاشرے کے بالکل برخلاف ہے۔ جب یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کے مقابل آئیں تو سیاسی اقتدار اور برتری کی وجہ سے مغربی تہذیب اسلامی معاشرے پر حاوی ہوتی گئی۔ اکثر مسلم ملکوں میں مغربی تہذیب ہی حکمرانوں کی تہذیب تھی۔ اس وجہ سے رعایا نے اسے اپنا لیا۔ تیرھویں صدی کے آغاز کے بعد مسلم ممالک ایک کے بعد ایک، مغربی سامراجی طاقتوں کے آگے سر نگوں ہوتے چلے گئے۔ مغرب کے یہ فاتحین، تاتاریوں یا منگولوں کی طرح نہیں تھے کہ حملہ کیا، قتل و غارت گری مچائی، لوٹ مار کی، اور ہر چیز اپنے گھوڑوں کے پیروں تلے روندتے چلے گئے۔ مغربی ملکوں سے آنے والے اپنے ساتھ ایک مقصد لے کر آئے تھے۔ وہ اپنی تہذیب اور نظریات کی اشاعت چاہتے تھے۔ انھوں نے نہ صرف حکمرانی کی بلکہ نظریاتی، معاشرتی اور تہذیبی طور پر ان ملکوں کے عوام میں اپنی جڑیں گہری کرنے کی کوشش کی۔

غیرمتوقع طور پر یہ بات تو ان نوآبادیاتی قوتوں کے لیے ممکن نہ ہوسکی کہ وہ مسلمانوں کا مذہب تبدیل کراسکیں۔ وہ انھیں عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ نہ کرسکے، لیکن بہرحال وہ ایک ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے، جو اپنے اعتقادات کے بارے میں واضح تصورات نہیں رکھتی تھی، جو قرآن و سنت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھی اور جسے اپنے مستقبل پر یقین نہیں تھا۔ مغربی حکمرانوں کی کوششوں سے پیدا ہونے والی اس نسل نے تعداد میں بہت قلیل ہونے کے باوجود، ہر اس جگہ مسائل پیدا کیے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی یا وہ سیاسی طاقت حاصل کر سکتے تھے۔

یہ نسل مسلمان معاشرے میں وجود رکھتے ہوئے دوہری شخصیت کا شکار ہوکر رہ گئی۔    اس نسل کو گھر پر کچھ تعلیم دی جاتی ہے اور اسکولوں، کالجوں میں بالکل متضاد نظریات کا درس دیا جاتا ہے۔ مذہب اسے ایک سمت میں بڑھنے کا اشارہ کرتا ہے لیکن مغربی فلسفہ اور نظریات کی بنیاد پر دی جانے والی تعلیم اسے بالکل مخالف سمت کھینچنا چاہتی ہے۔ اس کش مکش میں مسلم معاشرے کا فرد داخلی انتشار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ داخلی انتشار کی یہ بیماری پورے مسلم معاشرے میں بہت گہری ہوچکی ہے اور ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں اختلاف مستقل حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مملکت کے وہ تمام وسائل جو قومی ترقی کے لیے استعمال ہونے چاہییں تھے، بلاوجہ باہمی کش مکش اور تصادم میں ضائع ہو رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

  •  مغرب کا تصورِ قومیت:مغربی تہذیب کی چکاچوند اور نظریات کی حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک بڑی خرابی مغربی تصور ’قومیت‘ ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک قومیت کا تصور، جو اسلامی نظریے سے وابستہ ہے، جغرافیائی حدود، نسل اور زبان کا پابند نہیں ہے لیکن مغربی تہذیب سے آشنائی کے بعد وہ اسلامی تعلیمات کی روح کو نظرانداز کرکے، مغربی ٹکسال میں ڈھلی اصطلاحوں کو اہمیت دینے لگے ہیں۔

’قومیت‘ بذاتِ خود ایک ’مذہب‘ ہے، جو ’اسلام‘ کے بالکل متضاد ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص مغربی علمِ کلام کی رُو سے ’قومیت‘ کا فلسفہ اختیار کرتا ہے تو وہ سچا مسلمان باقی نہیں رہتا، کیونکہ قومیت کے نظریے میں خدا کی جگہ ’قوم‘ سے پُر کی جاتی ہے۔ اگر مغرب میں قومیت کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب اجتماعی زندگی سے ’کلیسا‘ کا اقتدار اور ’خدا‘ کی حاکمیت کو خارج کردیا گیا، تو ان کی جگہ پُر کرنے کے لیے اور بندگی کے فطری ذوق کی تسکین کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ ضرورت قومیت کے بت سے پوری کی گئی۔

قرآن میں ربِ کائنات ، مالکِ کائنات اور اللہ کی اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں۔ ایک سیکولر نظام میں اللہ کی جگہ ریاست اور قوم لے لیتی ہے۔ مالک کی جگہ ’عوامی استحکام‘ کے تصور سے پُر کی جاتی ہے، اور ’رب‘ کی جگہ ’سائنس اور ٹکنالوجی‘ کے بت بناکر سجا لیے جاتے ہیں۔ قومیت کے یہ تین اجزا آج جدید تثلیث کی نئی شکل ہیں۔

  •  مقصدِ حیات کی فراموشی:مغرب کے مادہ پرست نظریات کا تیسرا اثر یہ ہوا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی اور انفرادی طور پر زندگی کا مقصد تبدیل ہوگیا۔

پہلے مسلمان کا مقصد رضاے الٰہی کا حصول تھا لیکن مغربی تہذیب اپنانے کے بعد اب ہرآزاد مسلم ملک کے حکمران اپنے عوام کے سامنے معاشی ترقی، زیادہ پیداوار، زیادہ صنعتیں وغیرہ کی تعمیر کے مقاصد پیش کرتے ہیں۔ آج تقریباً ہرمسلم ملک انھی مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اصل مقصد فراموش کردیا گیا ہے۔

  •  معاشی ترقی کی ناقص منصوبہ بندی: اس سلسلے میں پاکستان کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ جب تحریکِ پاکستان شروع کی گئی تو کہا گیا کہ ’پاکستان کا مطلب، لا الٰہ الا اللہ ہے اور جب نیا ملک حاصل ہوجائے گا تو ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ لیکن جب ملک حاصل کرلیا گیا تو پہلا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ، دوسرا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ اور تیسرا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا گیا اور پوری قوم کے اجتماعی وسائل اور جدوجہد ان مادی مقاصد کے حصول میں جھونک دی گئی۔ لیکن معاشی ترقی کی روشنی میسر آئی اور نہ قومی یک جہتی کا خواب پورا ہوسکا۔

اس حکمت عملی سے معاشرہ داخلی تضادات کا شکار ہوا، کیوںکہ مقصد ِ زندگی ارفع و اعلیٰ اقدار کا حصول نہیں، بلکہ مادی خواہشات کا حصول ہوگیا، اور جب بات اقتصادی ترقی کی ہوئی تو پھر ترجیحات ہر طاقت ور فرد کی ذات سے وابستہ ہوگئیں۔ علاقے کی سطح پر ترقی کا سوال آیا تو ’میرا گھر، میرا گائوں، میرا شہر اور میرا صوبہ‘ اور سب سے آخر میں ’ملک‘ کی بات آئی۔ ترقی کی اس دوڑمیں جو پیچھے رہ گیا، وہ دوسروں سے شاکی اور متصادم نظر آنے لگا۔ اقتصادی ترقی ایک مسلم معاشرے میں اعلیٰ اقدار کے حصول کا ذریعہ ہوسکتی ہے ،مقصد ِ زندگی نہیں۔

آخری بات یہ کہ مسلم دنیا کی ترقی کے لیے اسے جو منصوبہ دیا گیا، وہ بذاتِ خود اس کے اپنے مفادات کے خلاف ہے۔ آج کی مسلم دنیا میں دو طرح کے وسائل موجود ہیں: ایک افرادی قوت اور دوسرے قدرتی وسائل۔ لیکن یہ ممالک اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہیں۔ ان وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے نقد رقم کی شدید کمی ہے۔ اس صورت حال میں مسلم ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لیے جو منصوبے بنائے گئے اور جنھیں آنکھیں بند کر کے قبول بھی کرلیا گیا، ان کی بنیاد ان قرضوں پر ہے۔ ان قرضوں اور امداد کے نام پر عمل میں آنے والی کارروائیوں کا ان ملکوں کی آزادی، خودمختاری اور ترقی پر کیا اثر پڑے گا، اس سوال کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہاں ابتدائی ۲۰سال گزرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اگر اربوں روپے کے صرافے سے اقتصادی ترقی کے پروگراموں پر عمل درآمد جاری رکھا گیا، تو عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور وہ پہلے ہی کی طرح مفلوک الحال رہے گا۔ اس وقت پاکستان میں متعدد بڑی صنعتیں ہیں، شپ یارڈ، اسٹیل مل لیکن زراعت سے وابستہ ملک کی ۷۰فی صد آبادی بدستور بدحالی کا شکار ہے۔

مجوزہ اقدامات

یہ وہ پانچ بڑے مسائل ہیں جن کا مسلم دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلم دانش وروں کو انھیں حل کرنے کی تدابیر کرنی چاہییں۔ مسلم معاشرے کی تشکیل نو میں اہلِ علم و دانش کا کردار   جس قدر اہمیت رکھتا ہے، اُس کا اندازہ اسلامی تعلیمات کے پہلے لفظ ’اقرائ‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن فکر کی دعوت دیتا ہے اور ذہانتوں کے استعمال کی ترغیب دلاتا ہے۔

  •  نصابِ تعلیم کی تشکیل نو:مسلم دانش وروں کے سامنے سب سے پہلا کام، نصابِ تعلیم کی ازسرِنوتشکیل ہے۔ آج مسلم معاشرے میں پائی جانے والی بیش تر خرابیاں اس نظامِ تعلیم کی وجہ سے ہیں، جو مغربی نظریات پر مبنی ہے اور جسے ہرملک میں جوں کا توں اپنا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد جاری ہے۔ اگر ملک بنتے وقت ۱۹۴۷ء میں  ہم اپنے نظامِ تعلیم کو صحیح خطوط پر استوار کرلیتے تو پاکستان کی نئی نسل اپنے وطن کے نظریے سے واقف ہوتی اور قومی زندگی کا سفر صحیح سمت میں جاری رہتا لیکن ہمارے نظامِ تعلیم میں اہمیت ٹکنالوجی اور سائنس کو دی گئی ہے اور وہ بھی ادھوری، ناقص اور بے سمت۔
  •  علمی و فکری محاذ کا قیام:اسلامی معاشرے کی تشکیل نو کے لیے دوسرا اہم کام  مغرب کے نظریاتی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک علمی محاذ کا قیام ہے۔ مغرب اس بات سے آگاہ ہے کہ دنیا میں اگر اس کا کوئی اصل حریف ہے تو وہ ’اسلام‘ ہے۔ مغربی تہذیب نے جس تہذیب کی جگہ لی ہے، وہ اسلامی تہذیب تھی۔ انھوں نے ترکوں، عربوں اور مغلوں سے اقتدار چھینا۔ انھیں احساس ہے کہ اسلام ایک طاقت ہے اور مسلمان اس کی طرف رجوع کر رہے ہیں، اس لیے مغرب کی تمام توپوں کا رُخ اسلام کی طرف ہے۔ اس حملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلمان کو مغربی نظریات کے سبزباغ دکھا کر ذہنی طور پر پراگندا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام پر ان اعتراضات کا جواب دینے اور اُن کے نظریات کا کھوکھلاپن ثابت کرنے کے لیے مسلمان دانش وروں پر مشتمل علمی محاذ قائم کیا جائے۔

اسلامی معاشرے کی تعمیر نو میں اندرونی اور بیرونی طور پر رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔   علاقائی سطحوں سے بین الاقوامی سطح تک، سازشوں کے جال بچھائے جاتے ہیں اور جن ملکوں میں اسلامی معاشرے کے قیام کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے حالات کو اس قدر خراب کردیا جاتا ہے کہ اسے اپنی سرحدوں کی حفاطت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ ان تمام حربوںکو پیش نظر رکھنے اور ان کے سدّباب کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام میں یہ یقین اور اعتماد پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام ہی ان کے تمام مسائل کا واحد حل ہے اور یہی دین و دنیا کی بہتری اور بھلائی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے بغیر اسلامی معاشرے کی تعمیرنو کا کام مؤثر طور پر نہیں ہوسکتا۔

  • نئی اقتصادی پالیسی: تیسرا اہم کام یہ ہے کہ مسلم ملکوں کے لیے نئے اقتصادی منصوبے تیار کیے جائیں۔ اقتصادی مسائل آج ہر مسلم ملک کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ سیاسی اور سماجی سطح پر ربط اور تنظیم، توازن اور عدل کی شاہراہِ زندگی جب تک ہم قائم نہیں کریں گے ، اس وقت تک ہم اپنے عوام کو بھوک اور افلاس سے نجات نہیں دلائیں گے۔ نتیجہ یہ کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کا کام مؤثر طور پر نہیں ہوسکے گا۔
  •  اسلام کا مؤثر پیغام:ایک اہم کام عوام سے صحیح رابطے کا قیام ہے۔ مسلم ملکوں میں دانش وروں کو جن عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ زبان اور ابلاغ سے متعلق ہیں۔ اصلاح کرنے والے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ عوام نہیں سمجھتے۔ جو اصطلاحیں اور مخصوص الفاظ عوام بولتے ہیں ان سے یہ اصلاح کار ناواقف ہوتے ہیں۔ اس لیے پیغام دل پر اثر نہیں کرتا۔ جب ووٹ دینے کا مرحلہ آتا ہے تو ووٹر صرف اس وجہ سے اسلامی قوتوں کے پلڑے میں ووٹ نہیں ڈالتا کہ اسلام کا پیغام اس تک مؤثر طور پر نہیں پہنچا۔ اس لیے مسلم دنیا کی تمام تعمیری قوتوں کو عوام کے لیے قابلِ فہم زبان اور اس سے ملحق تکنیک پر غور کرنا چاہیے جس کے ذریعے اسلامی معاشرے کاصحیح تصور عام لوگوں کے ذہنوں میں واضح کیا جاسکے۔ جب ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاسی تبدیلی جمہوری طریقوں سے ہی ممکن ہے تو اس کے لیے ہمیں عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

احیاے اسلام کے لیے تڑپ

آج مسلم دنیا میں نئے معاشرے کی تشکیل کی خواہش نظر آتی ہے۔ اس تحریک کے ہراول دستے میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جو اسلام کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا اور یورپی ملکوں میں کام کرنے والے مسلم دانش وروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں ان تحریکوں کی فکری رہنمائی کریں۔ ان کے لیے وقت صرف کریں، وہاں کے مخصوص حالات میں مسائل کا حل تلاش کریں اور جہاں تک ممکن ہو ان تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہرممکن اقدام کریں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرمسلم ملک میں اسلامی معاشرے کے قیام کی تحریک شروع ہوئی، لیکن وہیں یہ مشاہدہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند برسوں بعد ہی ان میں سے بیش تر تحریکیں غیرمقبولیت کا شکار بھی ہوئیں۔ اس کی وجہ آمرانہ نظام، خوش کن نعرے، اقتصادی نظام یا بین الاقوامی حالات ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں اگر اس قسم کی تحریک برسرِاقتدار آگئی تو اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اسے ان دانش وروں کی فعال رفاقت اور رہنمائی کی ضرورت ہوگی، جو مغربی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ مغربی نظام کی کوتاہیوں، خامیوں اور خوبیوں کا قریب سے مطالعہ کرتے رہے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔

اسلامی معاشرے کی تشکیلِ نو صرف علما اور دانش وروں کے اقدامات کے نتیجے میں ہی عمل میں نہیں آئے گی، کیوںکہ کوئی بھی نظریہ اور کوئی بھی نظام، دنیا میں صرف کتابوں، نعروں، جلوسوں، کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعے قائم نہیں ہوا۔ جس طرح کسان بیج بونے سے پہلے اور بعد میں مسلسل جدوجہد کرتا ہے، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی مسلسل اور اَن تھک محنت کی ضرورت ہے۔ اس لیے دانش وروں کا صرف فکری محاذ پر کام کرنا کافی نہیں، انھیں عملی جدوجہد میں بھی شریک ہونا چاہیے۔

مسائل کا حل

سیرت نگار بیان کرتے ہیں کہ نبوت کا تیسرا سال تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو  اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ، ’’جس چیز کا آپؐ کو حکم دیا جا رہا ہے اس کا اعلان کردیجیے‘‘ (الحجر۱۵:۹۴)۔ اس حکم کی تعمیل کرنے کے لیے حضوؐر صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے۔ اہلِ عرب کا دستور تھا کہ جب قوم کو کسی تباہ کن حملے سے خبردار کرنا ہوتا، تو اعلان کرنے والا، جسے النذیر العریاں کہا جاتا، کپڑے اُتار کر واصباحًا (لوگو، صبح صبح ٹوٹ پڑنے کی خبر لو) کا نعرہ لگاتا۔ ہر طرف سے لوگ دوڑ پڑتے۔ حضوؐر نے طریقہ وہی اختیار کیا، مگر اسے کپڑے اُتارنے کی بے شرمی سے پاک کر دیا۔ آپؐ کے واصباحًا یامعشرقریش کی پکار بلند کرتے ہی ہرطرف سے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ مکہ کی بستی چھوٹی سی تھی، اور اس وقت صفا کی پہاڑی کھلے میدان میں تھی، اور آج سے بلند تر ہی ہوگی۔ بہت سے خود آگئے، جو نہ آسکا اس نے اپنے عوض میں کسی کو بھیج دیا۔

جب سب جمع ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا: تم مجھے بتائو کہ تم مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟

سب نے ایک آواز سے کہا: ہم نے کوئی غلط بات تمھارے منہ سے نہیں سنی۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ تم صادق اور امین ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑی کے پیچھے سے راہ زنوں کا ایک مسلح گروہ آ رہا ہے جو مکہ پر حملہ آور ہوگا، تو کیا تم اس کا یقین کرلو گے؟ (جب کہ میں پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور تم اس کے نیچے ہو، میں پہاڑی کے ادھر بھی دُور تک دیکھ رہا ہوں، اور اُدھر بھی)۔

لوگوں نے کہا: بے شک ، کیوں کہ تم کو ہم نے ہمیشہ سچ بولتے دیکھا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یقین کرو کہ موت تمھارے سر پر آرہی ہے،اور تمھیں اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ (کیوںکہ میں عالمِ آخرت کو ایسے ہی دیکھ رہا ہوں جیسا تم دنیا کو)۔ اگر تم اللہ سے ملاقات پر ایمان نہ لائو گے تو میں تمھیں ایسے ہولناک عذاب سے خبردار کرتا ہوں جو تمھارے سامنے آنے والا ہے۔ (بخاری، مسلم، احمد، رحمۃ للعالمین، ج۱)

یہ آپؐ کا اپنی قوم سے پہلا خطاب تھا۔ دعوت و اصلاح کے کارِعظیم کے سلسلے میں یہ خطاب کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اس کے موضوعات کو بڑے غور سے دیکھیے: نبوت کے منفرد اور بلند مقام کا اعلان و اقرار بھی ہے، جہاں سے آپؐ اس عالم کو دیکھ رہے ہیں، اور اس کی خبر دے رہے ہیں، جسے کوئی نیچے کھڑا ہونے والا اپنے حواس اور عقل کے بَل پر نہیں دیکھ سکتا۔ اُس عالم کے بارے میں علم کے بغیر اِس عالم کے سدھرنے کی کوئی سبیل نہیں، اور علم کے لیے نبیؐ پر اعتمادویقین کے علاوہ کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں۔ آپؐ کی صداقت و امانت کی تصدیق و شہادت بھی ہے۔ آپؐ کی یہی صداقت ہے جو رسالت کے بخشے ہوئے علوم و اخبار اور احکام کا قطعی ثبوت ہے۔ لیکن اصل قابلِ غور چیز تو پیغام کا لب ِ لباب ہے: موت سر پر کھڑی ہے، اور موت کے بعد اللہ سے ملاقات یقینی ہے، زندگی کا حساب کتاب بھی، اعمال کی جواب دہی بھی۔ اس لیے بس اس کے عذاب سے بچنے کی فکر کرو، اس سے ملاقات کی تیاری میں لگ جائو۔ یہ ملاقات اور جزا و سزا اسی طرح حقیقی ہے جس طرح (اس زمانے میں) منہ اندھیرے، اچانک راہ زنوں کی غارت گری۔

یہ پیغام کوئی پہلے خطابِ عام ہی کا لب ِ لباب نہ تھا۔ اس کے بعد پے درپے خطبات کا ایک تانتا بندھ گیا۔ مکہ میں یہ خطبے بیش تر آسمان سے نازل ہو رہے تھے۔ مشکل ہی سے کوئی خطبہ ایسا ہوتا جو اللہ سے ملاقات اور اس کے سامنے اعمال کی جواب دہی کی تیاری کے لیے تحریک و ترغیب اور تشویق و تاکید سے خالی ہو۔ جب کہ اکثر کا تو واحد مُدعا یہی موضوع ہوتا۔ بیان کبھی مختصر ہوتا، کبھی طویل۔ آہنگ کبھی انتہائی تیزوتند، کبھی قرنوں کی واردات پبلک جھپکتے گزر جاتی، کبھی ایک لمحے کی رُوداد قرنوں ختم ہونے میں نہ آتی۔ کبھی مستقبل ماضی بن جاتا، کبھی ماضی مستقبل، مژدہ جاں فزا  یا اندوہِ جاں گسل کی صورت میں۔ لیکن اثرآفرینی کا معجز نما کمال تھا کہ کم نہ ہوتا۔ جو گھڑی صرف پہاڑی والا دیکھ رہا تھا۔ وہ نیچے سننے والوں کے لیے بھی الواقعۃ اور  الحاقۃ بن جاتی۔ جو بہت دُور تھی، وہ القارعۃ بن کر ان کے دل اور زندگی کا دروازہ کھڑکھڑانے لگتی۔ جس کی پرچھائیں بھی نہ دیکھی تھیں، وہ الغاشیۃ بن کر حواس پر چھاجاتی۔

یہی خطبے حضوؐر شب و روز لوگوں کو سناتے۔ یہی خطبے ایمان لانے والے راتوں کو کھڑے ہوکر نمازوں میں پڑھتے۔ یہی سننے والوں کو کھینچتے اور جمع کرتے، یہی آنے والوں کے دلوں کی دنیا بدلتے، انھیں نیا انسان بناتے۔ ہرچیز کی بنیاد رب سے ملاقات کی تیاری کا ہی پیغام تھا۔

یہ سب آسان خطبے قرآنِ مجید میں موجود ہیں۔ ان کو پڑھ لیجیے۔ آپ کو خود بہ خوبی معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا پیغام تھا جس نے دلوں کے روگ دُور کر دیے، بگڑی زندگیوں کو سنوار دیا، انسان ہی کا مقدر نہیں بدل دیا کہ فانی زندگی کے عوض ابدی جنت اس کا نصیب بن گئی، قوم کا بھی مقدر بدل دیا کہ اس کے جاں بہ لب جسم میں زندگی کی لہر دوڑ گئی، اسے امامت ِ عالم اور جنت ِارضی نصیب ہوگئی۔

مدینہ میں حیاتِ اجتماعی کی ضروریات کو ترجیح ضرور حاصل ہوئی، اس کے اصول اور ضوابط بیان ہوئے، جہاد اور انفاق کی تاکید ہوئی، اُمت کے جسد کا ڈھانچا کھڑا ہوا۔ لیکن جب بھی کوئی خطبہ یہ تعلیمات لے کر نازل ہوا، حیاتِ اُخروی اور لقاے رب، حساب اور اعمال کی جواب دہی، جنت اور جہنم کا بیان اسی طرح موجود تھا جس طرح ہڈیوں کے ساتھ گوشت اورخون۔ اور اب    نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی برابر خطبے دے رہے تھے۔ یہ خطبے مختصر ہوتے، لیکن ہرخطبے میں کوہِ صفا کے خطبہ اوّل کا نقش موجود ہوتا۔ ہرگفتگو میں اسی کے مدعا کی تذکیر ہوتی۔ ہرخطبے میں تقویٰ کی وصیت اور تاکید ہوتی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن کی یہ ساری تعلیمات اسی طرح بے اثر رہتیں جس طرح آج ہیں۔ نہ کردار کی قوت ہوتی، نہ عزم کی پختگی، نہ حوصلوں کی بلندی، نہ جہاد کے لیے سرفروشی، نہ شوقِ شہادت، جن کے بغیر قرآن زندگی میں جلوہ گر نہیں ہوسکتا۔

اسی لیے پیغامِ رسالتؐ کا لب ِ لباب اور اصلاح کے نسخے کا مرکز و محور یہی ٹھیرا کہ رب سے ملاقات اور جواب دہی کے لیے تیاری کی فکر اور تڑپ سے دلوں کو بھر دیا جائے۔ ایمان باللہ کی حقیقت بھی یہی فکر او رتڑپ قرار پائی، اور ایمان بالرسالت تو عمل کی شکل اختیار ہی نہیں کرسکتا جب تک یہ فکر دلوں میں نہ اُترے۔ جو لوگ تخلیقِ کائنات میں غوروفکر کرتے اور ہرحال میں اللہ کو یاد رکھتے، ان کے دل کی پیاس یہی ہوتی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۱-۱۹۲) جو صداے رسالت پر لبیک کہتے ان کے دل بھی اسی اضطراب میں مبتلا ہوجاتے کہ فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ o رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَo  (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۹۳-۱۹۴) شرک اورفکرِ آخرت کے درمیان بھی لازم و ملزوم کا تعلق ہے۔ جب سب خدائوں کو چھوڑ کر، پتھر کے ہوں یا ہوا و ہوس کے، صرف خداے واحد کو معبود و حاکم بنانے کی بات ہوتی ہے، تو انھی کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (الزمر ۳۹:۴۵)۔ جب بنی اسرائیل کو اصلاح کی راہ سجھائی گئی، تو انھیں بھی بار بار یہی تاکید کی گئی کہ اس دن کے ہولناک نتائج سے بچو، جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا (آدمی اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی بیوی اور بچوں سے دُور بھاگے گا)، کسی کی سفارش نہ چلے گی، کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا (کہ روے زمین کی ساری دولت بے قیمت ہوجائے گی)۔ کہیں سے کوئی مدد نہیں کرسکے گا (البقرہ ۲:۱۲۳)۔ نماز اور صبر کو احیاے اُمت کے لیے درکار بنیادی وسائل میں کلیدی مقام حاصل ہے۔ ان کے لیے استعداد کا راز خشوع میں رکھ دیا گیا، اور بتایا کہ یہ خشوع بھی انھی کو حاصل ہوتا ہے جن کو یہ خیال اور دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

٭

آیئے، دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ملاقات کو، اس کے عذاب کے خوف اور جنت کی طلب کو، کس طرح اپنی قوم اور اپنے ساتھیوں کے لیے ایک زندہ تجربہ بنادیا تھا۔ آخرت کی زندگی کے بارے میں قرآن کے پے درپے خطبات کی بارش اور حضوؐر کے اپنے خطبے اس کارنامے کی بنیاد تھے، اس یقین کی غذا تھے۔مگر عمل کی دنیا میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رات دن کا اسوہ تھا جو ان غیبی حقائق کو زندگی میں سمو کر ایک نئے کلچر اور ایک نئے انسان کی تخلیق کررہا تھا۔ یہ اسوہ اسوئہ حسنہ تھا، ہر اس شخص کے لیے ’’جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو رہے اور کثرت سے اللہ کو یاد رکھے‘‘ (الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ یہ اسوئہ رسولؐ کی دین تھی، یہی اس کی خصوصیات تھیں۔

صفا کی پہاڑی کے خطاب سے آغاز ہوا۔ پھر ہر قدم پر آخرت کی فلاح کو اور جنت کی ابدی زندگی ہی کو مطلوب و محبوب بنا دیا گیا۔ یہ کام خانقاہی اسلوب پر نہ ہوا، مجاہدانہ نہج پر ہوا۔ ایک طرف، جب حضرت خباب بن الارتؓ نے، جنھیں انگاروں پر لٹایا جاتا تھا یہاں تک کہ چربی کے پگھلنے سے آگ بجھ جاتی تھی، آپؐ سے مشرکین کے ظلم و ستم کے بارے میں دعا کرنے کی درخواست کی، توآپؐ کا چہرئہ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا: ’’اللہ ضرور بالضرور اپنے دین کو پورا کرکے رہے گا یہاں تک کہ تم دیکھ لو گے کہ ایک سوار تنہا صنعا سے حضرموت تک آئے گا ، اور سواے  اللہ عزوجل کے اسے کسی کا ڈر نہ ہوگا۔مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو‘‘ (بخاری)۔ دوسری طرف، جب آپؐ کا گزر حضرت یاسرؓ، حضرت عمارؓ اور ان کے گھر والوں پر ہوا جنھیں بدترین تعذیب کا شکار بنایا جا رہا تھا، تو فرمایا: صبرا یا اٰل یاسر، ان موعدکم الجنۃ، ’’اے آلِ یاسر! صبر کرو، تمھارے لیے جنت کا وعدہ ہے‘‘ (احمد، البیہقی)

ایک طرف، مکہ کے گلی کوچوں میں حضوؐر کی اس بشارت کا چرچا عام تھا کہ ’’یہ ایک کلمہ قبول کرلو، سارا عرب تمھارا مطیع ہوگا، سارا عجم تمھارا ہوگا‘‘ (طبری)۔ دوسری طرف، جب ۷۰؍انصار وادیِ عقبہ میں حضوؐر سے بیعت کے لیے حاضر ہوئے حضرت اسعد بن زرارہؓ، ابوہیثم بن تیہانؓ اور عباس بن عبادہؓ کھڑے ہوگئے اور کہا: بھائیو! تم لوگوں کو معلوم ہے تم کس چیز پر اس شخص سے بیعت کر رہے ہو؟ یہ تمام سرخ و سیاہ انسانوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ تمام عرب کی دشمنی مول لینا ہے۔ (وہ سب مل کر تم کو ایک تیر سے نشانہ بنا لیں گے)۔ تمھارے اموال ضائع ہوں گے۔ تمھارے اشراف قتل ہوں گے۔ پس اگر تمھیں ان سب باتوں پر صبر کی طاقت ہے، اگر تمھیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائو اور اپنے مال اور اولاد سے ہاتھ دھو لو، تو آپؐ کو اپنے ساتھ اپنی سرزمین پر لے چلو۔ اگر تم اپنے نفس میں خوف و خطر محسوس کرتے ہو تو آپؐ کو ابھی چھوڑ دو۔ انصارنے کہا: ہم آپؐ کو لے جائیں گے، خواہ مال تباہ ہوں یا اشراف قتل کیے جائیں۔ لیکن یارسولؐ اللہ! اگر ہم اس وعدے میں پورے اُترے تو ہمارے لیے کیا ہے؟

اتنے عظیم اور خطرناک عہد کے صلے میں، زبانِ رسالتؐ پر صرف ایک ہی چیز کا وعدہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا: جنت۔

حضرت بشیر بن حفاصیہؓ خدمت مبارک میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے۔ حضوؐر نے بیعت کی شرائط بیان کیں تو بولے: دو باتوں کی مجھ میں طاقت نہیں۔ ایک زکوٰۃ کی، خدا کی قسم! میرے پاس دس اُونٹنیاں ہیں اور وہی میرا ذریعہ معاش ہیں۔ دوسرے، جہاد کی، مَیں کمزور آدمی ہوں اور اگر دشمن سے مقابلے میں بھاگ کھڑا ہوا تو اللہ کے غضب کا مستحق ہوجائوں گا۔ یہ سن کر حضوؐر نے دست ِمبارک سمیٹ لیا۔ پھر آپؐ نے اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا: اے بشیر! نہ صدقہ دینے پر تیار ہو نہ جہاد پر۔ پھر کیسے جنت میں جائو گے؟ یہ سن کر حضرت بشیرؓ نے تمام مطلوبہ باتوں پر بیعت کرلی۔

رسول اللہ کی تربیت کے نتیجے میں، موت کے بعد زندگی اور جنت دوزخ، ایک آنکھوں دیکھی حقیقت کی مانند بن گئے تھے۔ ایک دفعہ حضوؐر نے سورج گرہن کی بڑی طویل نماز پڑھائی اور نماز کے بعد چند کلمات ارشاد فرمائے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! ہم نے دیکھا کہ جب آپؐ کھڑے تھے ، آپؐ نے ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز پکڑنا چاہی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپؐ پیچھے ہٹے؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے جنت میں دیکھا، اور مَیں نے ہاتھ بڑھایا تاکہ انگور کا ایک خوشہ لے لوں۔ اگر مَیں یہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ پھر مَیں نے جہنم کی آگ کو دیکھا، اور میں پیچھے ہٹا کیوں کہ میں نے ایسا ہولناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ (بخاری، مسلم)

یہ نہ سمجھیے کہ اللہ سے ملاقات کی تیاری کی فکر اور جنت کی طلب سب میں پوری طرح غالب ہوگئی تھی۔ نہیں، جو لوگ حضوؐر کے ساتھ چل رہے تھے، ایمان و یقین کے لحاظ سے ان کے درجات میں بڑا فرق تھا۔ ان میں عام بھی تھے اور خاص بھی۔ اصحاب الیمین بھی تھے اور السابقون بھی۔ یہ بھی نہ سمجھیے کہ ایسے کچھ کاملین بھی تھے جن پر ہروقت ایک ہی کیفیت طاری رہتی تھی۔ نہیں، حضرت حنظلہؓ اور حضرت ابوبکرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپؐ جنت اور دوزخ کا تذکرہ فرماتے، ہمیں ایسا معلوم ہوتا گویا ہم نے سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ پھر ہم آپؐ کے پاس سے آتے، بیوی بچوں میں پہنچتے، ہنستے کھیلتے، کھیتی باڑی میں مشغول ہوتے، وہ سب باتیں بھول جاتے۔ دونوں حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہم تو منافق ہوگئے، اور اپنا یہ حال بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر اسی حالت میں رہو جس حال میں میرے پاس رہتے ہو تو فرشتے تمھاری خواب گاہوں میں اور راستوں میں تم سے مصافحہ کریں (یعنی تم فرشتے ہوجائو)۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے، اور کبھی ایسا نہیں ہوتا۔

٭

اللہ سے ملاقات اور اعمال کی جواب دہی کے لیے تیاری اور جنت کی طلب و جستجو میں یکسوئی اور انہماک کے ساتھ لگ جانے کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ دنیا کو ترک کرنا ہوگا۔ جنت دنیا ہی کے ذریعے کمائی جاسکتی ہے۔ اپنے مقام پر دنیا کا ہر کام جو اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرے، اور اللہ کے لیے کیا جائے، عین عبادت ہے اور جنت میں لے جائے گا،خواہ وہ شکل و صورت میں خالص دنیاداری ہو۔اس کے برخلاف جو کام بھی ہو، خواہ وہ شکل و صورت میں ٹھیٹھ دینی کام ہو، جنت سے دُور اور جہنم سے قریب لے جائے گا۔ میدانِ جہاد میں شہادت جیسا عظیم کام بھی اگر نام و نمود کے لیے ہو تو سر کے بل جہنم میں گرائے گا۔ مال و دولت کمانے جیسا خالص دنیاوی کام، اطاعت ِ الٰہی کے مطابق اور مقاصد الٰہی کے لیے ہو تو جنت کے اعلیٰ درجات پر پہنچا دے گا۔ آخرت پر یقین کے بغیر دنیا نہیں سدھر سکتی، دنیا کی اصلاح کے بغیر آخرت نہیں سنور سکتی۔

یہ سمجھ لیا جائے تو جب حساب کتاب کی فکر غالب ہوجاتی ہے اور جنت مقصود بن جاتی ہے تو دنیا اور کاروبار دنیا انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ دنیا کا ہرلمحہ قیمتی بن جاتا ہے کہ اس سے لازوال لمحات حاصل ہوسکتے ہیں۔ دولت کا ہر حبّہ بیش قیمت خزانہ بن جاتا ہے کہ اس سے ابدی راحت کے خزانے ہاتھ آسکتے ہیں۔ دنیا کا ہر کام اس لیے دل چسپی اور انہماک کا مرکز بن جاتا ہے کہ وہ جنت کے لیے سرمایہ کاری کا موقع ہے۔

دنیا، طالب آخرت کے لیے کتنی اہم ہوجاتی ہے؟ ایک حدیث سے اندازہ لگایئے۔ حضوؐر نے فرمایا: ’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے، اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں لگانے کے لیے کھجور کا پودا ہو، اور وہ قیامت کے واقع ہونے سے پہلے لگا سکتا ہو، تو ضرور لگا دے۔ یہ اس کے لیے بڑے اجر کا باعث ہوگا‘‘۔ گویا آخرت کے طالب کا کام یہ نہیں کہ وہ محض گوشوں میں جاکر عبادت اور آہ و زاری میں لگ جائے۔ نہیں، وہ آخری سانس تک اللہ کی زمین میں پودے لگانے اور جس میں اسے خلیفہ بنایا گیا ہے، اسے آباد کرنے میں لگا رہے، اسی لیے جو لوگ حضوؐر کی معرفت، اللہ سے جنت کے عوض اپنی جان و مال کا سودا چکانے کے بعد دنیا میں نکلے۔ انھوں نے دنیا کی بہترین، اعلیٰ ترین تہذیب کی تعمیروتشکیل کی۔ یہ تہذیب اتنی پایدار ثابت ہوئی کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ خدا سے بے نیاز، تہذیب کا اعلیٰ نمونہ رومن امپائر ہے۔ مغربی تہذیب بھی اس کو اپنا مورث اعلیٰ تسلیم کرتی ہے۔ اس کو اپنے عروج تک پہنچنے میں تقریباً ۶۰۰ سال لگے، مگر ایک صدی میں بکھر کر رہ گئی۔ خدا پرست اسلامی تہذیب___ جو اللہ اور اس سے ملاقات کے یقین اور رسولؐ کے اتباع پر قائم ہوئی___ ۸۰سال کے عرصے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔اس کا زوال ایک ہزار سال کے بعد شروع ہوا، اور اپنی پندرھویں صدی میں وہ پھر مائل بہ عروج ہے۔

یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بعد موت کے لیے تیاری کی دعوت کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان پس ماندہ رہیںگے۔ وہ دنیا کا کوئی لطف نہ اُٹھائیں گے، ان کی دنیا اُجڑ جائے گی، اور دنیا میں وہی قومیں غالب اور آگے رہیںگی جو دنیا کے لیے فارغ ہیں۔ نہیں، حضوؐر کے ان پیروکاروں ہی کو دیکھ لیجیے جنھوں نے آپؐ کی اس پکار پر اس طرح لبیک کہا تھا جیساکہ اس کا حق تھا۔ دنیا کا کون سا کام اور کون سا شعبہ ہے جس میں انھوں نے برتری حاصل نہیں کی۔ وہ دنیا کے بہترین فاتح، حکمران اور منتظم ثابت ہوئے۔ زینت کے طیب سامان میں سے کون سا سامان ہے جو ان کو حدود اللہ کے اندر دستیاب ہوا اور انھوں نے اسے اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ انھوں نے ایک طرف اچھے کھانے بھی کھائے۔ قیمتی لباس بھی پہنے، عمدہ مکان بھی بنائے، مال و دولت بھی خوب کمایا، اسے راہِ خدا میں لٹایا تو اپنے اُوپر بھی خوب خرچ کیا اور اپنے گھروالوں پر بھی۔ دوسری طرف شہر بھی آباد کیے، عمارات بھی تعمیر کیں، صنعت و زراعت کو بھی ترقی دی، علوم و فنون کو بھی فروغ دیا۔

٭

سیّد مودودیؒ لکھتے ہیں: انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہ کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا، جب تک یہ شعور اور یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خداکے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۶۶)

جہاں خدا کے سامنے حاضری اور جواب دہی کے عقیدے کا اقرار نہ بھی ہو، وہاں بھی کسی نہ کسی کے سامنے جواب دہی کا یقین موجود ہوتا ہے جو انسانی رویوں کو درست و مستقیم رکھتا ہے: قوم کے سامنے، عدالت کے سامنے، اپنے سے بالاتر افراد اور اداروں کے سامنے، کچھ نہ ہو تو اپنے ضمیر کے سامنے بھی۔ خدا کے سامنے، جواب دہی کے نتیجے میں جنت پانے کا شوق اور لالچ نہ ہو، تو بھی معاشرے کی بہتری، انسان کی خدمت، دیانت داری، اداے فرض، ضمیر کے اطمینان اور دل کے سکون جیسی چیزوں کا لالچ اور شوق ہوتا ہے۔ آج جو اقوام مستحکم ہیں، ترقی یافتہ اور مہذب شمار ہوتی ہیں، دنیا کی قیادت کر رہی ہیں، ان کی قوت کا راز اس نوعیت کے کسی شعور اور یقین میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جواب دہی کا احساسِ مسئولیت بھی مفقود ہے۔ سارے اعمالِ بد دھڑلے سے کیے جاتے ہیں، جو زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ: ’’کرلو جو کچھ کرنا ہے، ہمارا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے!‘‘ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ اللہ سے ملاقات، اس کے سامنے جواب دہی، اور اس کی جنت کے ملنے کا یقین ہو، تو یہ دل کی توانائی، سیرت کی پختگی، جہاں گیری اور جہاں بانی کا ایک عدیم المثال نسخہ ہے، جس کا مقابلہ کوئی نسخہ نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر آخرت اور جنت کا اقرار تو ہو، مگر دل آخرت کی فکر سے خالی ہو، عملاً خدا فراموشی ہو، مقصود ِ زندگی، حصولِ دولت یا جاہ و عزت ہو، پائونڈ اور ڈالر کی بندگی ہو، عیش و عشرت میں مست ہو، تو پھر ایسے دل میں کسی نوعیت کا بھی احساسِ مسئولیت قرار نہیں پکڑسکتا، دنیا سے بلند کسی بھی چیز کی طلب و حرص نہیں سما سکتی۔ خانۂ خالی را دیواں می گیرند۔ جو دل یادِخدا سے خالی ہوجاتا ہے، پھر اس میں اَن گنت خواہشات کے ڈھیروں بت ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔ بالکل یہی حادثہ فاجعہ ہمیں پیش آچکا ہے۔ اب ہرحادثہ اور ہربحران، اسی عظیم حادثے کا نتیجہ ہے۔

چنانچہ آج ہمارے ہاں جو بدترین بحران درپیش ہے، اس سے مستقل طور پر نکلنے کا کوئی راستہ، اس کے علاوہ ممکن نہیں کہ صفا کی پہاڑی کا چراغ ہاتھ میں لے کر راہ بنائی جائے۔ اسلوب دوسرا ہوسکتا ہے، محاورہ دوسرا ہوسکتا ہے، زبان دوسری ہوسکتی ہے، تدبیر دوسری ہوسکتی ہے، حکمتِ عملی دوسری ہوسکتی ہے کیوںکہ ہرزمانے کے آدمیوں کی سمجھ اور زبان، طریقہ اوررسم و رواج علیحدہ ہوتا ہے۔ اس لیے اصلاح و تربیت کے لیے ہر زمانے میں اس زمانے کے موافق جو طریقے ٹھیک ہوں، وہی اختیار کرنے چاہییں۔ مگر روشنی وہی ہوگی، روح وہی ہوگی، مدعا وہی ہوگا، منہج وہی ہوگا، جو صفا کی پہاڑی کے خطاب کا تھا۔ جتنی خدا اور رسولؐ سے محبت کی، اللہ سے ملاقات کی فکر اور تیاری کی،  جنت کی طلب اور لالچ کی لہر بڑھے گی اور پھیلے گی اتنی ہی ملک و ملّت کی حالت بہتر ہوگی۔

بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا یاآخرت کی مغالطہ آمیز اور لاحاصل بحث سے باہر نکلیں، اور یک سُو ہوکر خود کو اور اپنی قوم کو آخرت میں فلاح اور جنت کی جستجو کی راہ پر لگانے میں لگ جائیں۔ اسی سے دنیاوی ترقی کے دروازے کھلیںگے۔ اسی سے آج کے سنگین بحران کا مستقل حل نکلے گا۔ کیوں کہ اسی جستجو اور سعی سے ہوا و ہوس کی حکمرانی ختم ہوگی۔ دنیا کی زینت کی رغبت اور کشش انسان کی فطرت میں ودیعت ہے: ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں (اور کارخانے) بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں (اٰل عمرٰن ۳:۱۴)۔ ان کی رغبت و محبت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، ان کو اس چیز کی رغبت سے مغلوب کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے، بشرطیکہ یہ یقین پیدا ہوجائے کہ جو اس کے پاس ہے وہی بہتر ہے کہ وہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کے بعد ہی سینوں میں ہواے نفس کی پرستش مٹ سکے گی،اور ہمارے اجتماعی بحران کے اصل اسباب کا ازالہ ہوسکے گا۔

اس مقصد کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسوئہ رسولؐ کے اتباع میں ہم خود اپنے دل کو جنت سے لگائیں، ہرمعاملے میں اور ہر کام میں جنت کو اپنا مقصود بنانے کی کوشش میں لگ جائیں، اور دوسروں کو بھی اسی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہوں، تو ہمیں یقین ہے کہ آج بھی جنت کی دعوت میں وہ کشش اور قوت موجو د ہے کہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرلے۔   یہ بظاہر دقت طلب کام ہے، لیکن نیکی بھی متعدی ہوتی ہے اور تیزی کے ساتھ پھیلتی ہے، جس طرح بیماری کی وبا۔ جو اس کے قائل ہوں کہ اپنے دل کو اور دوسرے دلوں کو اس رُخ پر ڈالے بغیر قومی زندگی صحیح رُخ پر نہیں پڑسکتی، ان کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ کرسکتے ہوں وہ کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔

وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَo(ھود ۱۱:۵۲) اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو۔

مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پہلا وہ گھر خدا کا، جس کے گرد ان دنوں عشاقِ بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ دُنیا کے گوشے گوشے سے کھنچ کھنچ کر پروانہ وار جمع ہو رہا ہے، اور ہزاروں برس سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے لیے مرکز زندگی کا مقام رکھتا ہے۔ اس گھر کی غریب و سادہ رنگین داستان کے ورق ورق پر آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ رقم ہے۔ ان آیات میں دیدہ و دل وا کرنے کے لیے، راہ زندگی روشن کرنے کے لیے، اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے، بیش بہا دولت محفوظ ہے۔ اس گھر میں وہ زم زم ہی رواں نہیں ہے جو چار ہزار سال سے پیاسوں کی پیاس بجھا رہا ہے اور بجھاتا چلا جائے گا، بلکہ اس ہی سے ہدایت و برکت کا وہ زم زم بھی جاری ہوا ہے جس نے سارے جہانوں کی معنوی تشنگی دور کرنے اور ان کے قلوب و ارواح اور فکر و عمل کی سیرابی کا سامان کیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، کہ اس ایک گوشۂ مکان کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ خداے لامکاں کی رحمت کاملہ نے اسیر مکان و زمان کو اپنا تقرب بخشنے کی خاطر اسے اپنا گھر بنا لیا ہے:

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ(اٰل عمرٰن۳:۹۶-۹۷) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ ہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیاتھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔

ان آیات بینات میں سب سے نمایاں، اخلاص و محبت اور اطاعت و وفا کے وہ نقوش ہیں جو اس گھر کے ایک ایک پتھر پر، اور اس کے جوار میں ایک ایک چپے پر، سلسلۂ رشد وہدایت کے  امام اولیں حضرت ابراہیم ؑ نے راہِ خدا میں اپنے مقام عالی سے ثبت کیے ہیں۔ اُنھوںنے رب واحد کی بندگی کی خاطر وطن چھوڑنے کے بعد، اپنی یکہ و تنہا بیوی اور شیر خوار بیٹے کو اس گھر کے جوار میں لا بسایا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس گھر کی دیواریں چنیں، انھوں نے اس گھر کی زیارت کے لیے مشرق و مغرب کو پکارا، انھوں نے اس گھر کو طواف، اعتکاف، قیام اور رکوع و سجود کا     مرکز بنایا، یہیں انھوں نے بارگاہِ محبوب میں اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ انھوں نے مشیت الٰہی کی طرف سے اس گھر کو سلسلۂ رشد و ہدایت کے امام آخر ؑ، اوراُمت مسلمہ کے ظہور کا مبداو مرکز بنانے کے فیصلے کو، دعا کے رنگ میں، ثبت و ظاہرکر دیا۔

پھر اللہ کا یہ گھر، اور یہ البلد الامین ان تمام تابناک و بے مثال روایات کا حامل بھی بن گیا جو بعثت محمدیؐ، نزول قرآن، دعوت اسلامی، اور ہجرت و جہاد کے ابواب میں محفوظ ہیں۔ اس گھر کا کوئی پتھر ایسا نہیں، اس کے قرب میں کوئی چٹان اور سنگریزہ ایسا نہیں، جس کے دل میں ہدایت و دعوت اور ہجرت و جہاد کا کوئی نہ کوئی نقش محفوظ نہ ہو، اور جویا و پیاسا اسے پا نہ سکتا ہو۔ سوچیے تو یہ بھی وراثت ابراہیم ہی ہے:

مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ط ہُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج۲۲:۷۸)قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’’مسلم‘‘ رکھاتھا۔

حضرت ابراہیم ؑ نے اس گھر کو، اور اس شہر کو ایسا جاے امن بنایا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا ہے، اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں، اور ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ مگرانھوں نے اس گھر میں ہدایت کا جو مرکز قائم کیا، صرف وہ مرکز ہی ایک ایسا مرکز ہے جہاں انسان داخل ہو تو اس کے قلب و روح، فکر وسوچ، اخلاق و کردار، شخصی زندگی اور حیات اجتماعی، سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔ اگر کہیں انسان خوف و حزن، ظلم و فساد، اور دُنیا و آخرت کے بگاڑ اور تباہی سے امن حاصل کر سکتا ہے تو اس بناء ہدایت میں داخل ہو کر جو عالم معنوی میں خانۂ کعبہ کی مثال ہے:

وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (اٰل عمرٰن۳:۹۷) اور اُس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔

صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہوا کہ جو پہنچ سکتا ہو وہ کم سے کم عمر میں ایک دفعہ، حضرت ابراہیم ؑ کی طرح گھر بار ترک کرکے، طویل مسافت طے کر کے، لباس دُنیا اتار کے، اللہ کے اس گھر تک ضرور پہنچے، اور یہاں فیض کا جو چشمہ بہہ رہا ہے اس میں ضرور غوطہ لگائے۔ اس گھر پر وہ اپنے دل کا لنگر ڈال دے، اس کو نگاہوں میں بسالے کہ اس کو دیکھنا بھی عبادت ہے، اس کے چاروں طرف چکر کاٹے، اس کے دوودیوار سے چمٹے، اس کے جوار میں پہاڑیوں پر چڑھے، وادیوں میں چلے اور رب البیت کے دربار عرفات میں حاضر ہو جائے:

وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط (اٰل عمٰرن ۳:۹۷)لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اِس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔

لیکن نہ ہر شخص پہنچ جانے کی استطاعت رکھ سکتا ہے، نہ عمر میں صرف ایک دفعہ ہو آنا اس چشمۂ ہدایت سے فیض مطلوب حاصل کرنے کے لیے کفایت کرتا ہے۔ جو ہُدًی لِّـلْعَالِمِیْنَ ہے اس کے ساتھ تو زندگی کے ہر لمحہ مربوط رہنا ناگزیز ہے۔ چنانچہ یہ بھی ضروری ہوا کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی ہو، اور جس حالت میں بھی ہو، ہر روز پانچ دفعہ، دُنیا کا ہر شغل اور ہر دل چسپی ترک کرکے (جس طرح حج کے لیے کرتے ہو)، اس برکت وہدایت کے گھر کی طرف رُخ کرو، سامنے اسی گھر کو رکھو، نگاہیں اسی پر جمائو:

وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ ط (البقرۃ۲:۱۴۴) اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔

بیت اللہ کے حج کو جانا، عمر بھر جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہنا، گویا کہ اس کو اپنی  سعی و طلب کا مقصود بنانا، اور ہر روز پانچ دفعہ اس کی طرف رُخ کرکے اپنے رب کے سامنے جھکنا اور بچھ جانا اور اس سے ہم کلام ہونا، گویا کہ اس کو اپنے دل و نگاہ کا مرکز بنانا، ایسے اعمال ہیں جوہماری زندگیوں کو رُخ، رنگ اور ساخت عطا کرتے ہیں۔ ان دِنوں جب حج کا موسم ہے اور زائرین اس شمع کے گرد ہجوم کر رہے ہیں، ہمیں آگاہ ہونا چاہیے کہ اس گھر میں، اس کی تاریخ میں، اس کی روایات میں، اس میں ثبت کردہ نقوش و آثار میں، برکت و ہدایت اور آیات بینات کے کیسے کیسے بیش بہا خزانے ہیں جو ہماری جستجو کے منتظر ہیں، اور جن سے ہمیں اپنی جھولی بھرنا چاہیے۔

بروبحر میں فساد کا تلاطم ہو، ہمارے گھروں میں ظلم اور فتنہ کی طغیانی ہو، اُمت ذلت و مسکنت کے شکنجے میں کسی ہوئی ہو، اغیار کا غلبہ ہو تسلط ہو، باہمی افتراق و عداوت ہو، خون مسلم کی ارزانی اور عزت مسلم کی پامالی ہو، اُمت مسلمہ کا احیا مقصود ہو، جس طرح بچے کو ماں کے سینے سے چمٹ کر ہی امن و اطمینان نصیب ہوتا ہے، انسانیت اور اُمت مسلمہ کو امن اور فلاح، بیت اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے چمٹ کر ہی نصیب ہو سکتا ہے۔

خداے لامکاں کسی مکان میں سما نہیں سکتا۔ بیت اللہ تو ایک علامت ہے، ایک شعار ہے، اور اس لیے ہے کہ مرکز دل، محبوب نظر، مقصود سعی وجہد، اللہ اور صرف اللہ، بن جائے۔ جو اللہ کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے، اسی کے ساتھ جڑ جائے، اس طرح تھام لے اور جڑ جائے جس طرح کہ اللہ کا حق ہے، وہی صراط مستقیم پا لیتا ہے۔

وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (اٰل عمٰرن۳:۱۰۱)جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پا لے گا۔

ہدایت کوئی لیبل چسپاں کر لینے سے حاصل نہیں ہوتی، وہ یہودی کا لیبل ہو نصرانی کا، یا محمدی کا۔ نہ ہدایت خانہ کعبہ کا چکر کاٹ آنے سے ملتی ہے، نہ اس کی طرف منہ کر لینے سے۔ ہدایت تو حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اللہ کا حنیف بندہ بن جانے کا نام ہے، جس میں شرک کی گندگی کا شائبہ تک بھی نہ ہو:

بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (البقرہ۲:۱۳۵)نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑمشرکوں میں سے نہ تھا۔

حضرت ابراہیم ؑحنیف تھے، یعنی وہ سب کچھ چھوڑ کر صرف اللہ کے بن گئے تھے، اس کے ہو رہے تھے، اور اللہ کے سوا کسی کے نہ رہ گئے تھے۔

انھوں نے ہر ڈوبنے والی چیز کی، اور ماسوا اللہ ہر چیز ڈوبنے والی اور فنا ہونے والی ہے، محبت ترک کرکے، تمام چمکتے دمکتے چاند، سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ کے، اپنا اور اپنی زندگی کا رُخ صرف اللہ کی طرف کر لیا تھا، سب سے بڑھ کر صرف اس کی محبت اپنے دل میں بسالی تھی، صرف اس کو طلب و سعی کا مرکز بنا لیا تھا، صرف اسی پر نگاہیں جمادی تھیں، یا یوں کہیے صرف اسی کو اپنی شخصیت اور زندگی کا قبلہ بنا لیا تھا، اور اس رُخ میں، توجہ میں، وابستگی میں، اللہ کے علاوہ اور کوئی رخ نہ تھا جو شریک ہو۔

انھوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے حوالے کر دیا تھا، اور کوئی چیز اس سے بچا کر نہ رکھی تھی … اپنے علاقے اور محبتیں، اپنا گھر اور وطن، اپنی بیوی اور بیٹے، اپنی دُنیا اور اپنی متاع… پرستش بھی اس کی، ہر چیز اس کے اشارے پر حاضر اور قربان بھی، زندگی بھی اسی کی، موت بھی اسی کی۔ اور اس خود سپردگی میں بھی شمہ برابر حصہ اللہ کے علاوہ اور کسی کے لیے نہ لگایا تھا۔

وہ اپنے رب کے ہر حکم کی فرماں برداری کے لیے ہر وقت مستعد اور حاضر تھے۔ آگ میں بے خطر کود پڑنے کا حکم ہو، گھر اور وطن چھوڑ کر نکل جانے کا حکم ہو، باپ کے لیے استغفار تک ترک کر دینے کا حکم ہو، تمام معبودان باطل سے اعلان براء ت و عداوت کا حکم ہو، اہل و عیال کو   وادیِ غیرذی زرع میں بسانے کا حکم ہو، پتھروں سے اللہ کے گھر کی دیواریں چننے کا حکم ہو، اکلوتے اور محبوب نور نظر کے گلے پر چھری چلانے کا حکم ہو__ ان کی زبان پر ہر وقت لبیک تھا، وہ ہر وقت حاضر تھے، ان کی ہر چیز حاضر تھی۔

توحید خالص، ریاضی کے فارمولے کی طرح، اللہ کو ایک مان لینا نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح سب کچھ چھوڑ کر صرف اُسی کا بن جانا اور اُسی کا ہوکر رہنا ہے۔ بیت اللہ کی آیات ہدایت میں سب سے نمایاں اور سب سے اہم حضرت ابراہیم ؑ کا یہی اسوۂ زندگی ہے جو ’اسلام‘ اور حنیفیت سے عبارت ہے۔ حج اور استقبال قبلہ کا عمل ہمیں بندگیِ رب کے اس رنگ میں رنگنے ہی کے لیے ہے، جس کی شان حضرت ابراہیم ؑاور آل ابراہیم ؑ نے اپنی توحید خالص، اخلاص و وفاداری،    فرماں برداری اور یکسوئی سے قائم کی۔ یہی رنگ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، یہی اُس کو مطلوب ہے، یہی اُس کے ہاں مقبول ہے۔ اس رنگ میں رنگ جانے والوں ہی سے وہ راضی ہوتا ہے۔ اِنھی سے دُنیا میں علو وامامت کا وعدہ ہے، اور آخرت میں جنت کے انعام سے سرفرازی کا۔

ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں… استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے… وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو:

یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط (النور۲۴:۵۵) بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔

مشرق سے لے کر مغرب تک نظر ڈال لیجیے! کیا اُمت مسلمہ میں حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی ایسا رنگ ہے جو غیر مسلموں اور مشرکوں کے رنگ سے الگ ہو۔ اپنے دلوں کو دیکھیے، انھی کی طرح بے شمار ٹکڑوں میں منقسم ہیں او رہر ٹکڑے میں ایک الگ معبود بیٹھا ہوا ہے۔ اغراض و مقاصد پر نظر ڈالیے، انھی کی طرح وہ بھی ان گنت ہیں اور ان سب سے کم مقام ان کا ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ترین ہیں۔ نماز میں بے شک ہمارا منہ قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف نہیں ہوتا، لیکن زندگی میں تو انھی کی طرح ہمارے بہت سے قبلے ہیں جو ہماری توجہات اور وابستگیوں کا مرکز ہیں۔ زبان پر بے شک لبیک ہے، لیکن ہم نہ خود اپنے کو، نہ اپنی کسی محبوب چیز کو، اللہ کے لیے حاضر کرنے کو تیار ہیں۔ ہر حکم کی تعمیل میں ہماری اپنی کسی نہ کسی خواہش، پسند و ناپسند، محبوب ومبغوض کی قربانی دامن گیر ہوجاتی ہے، یا ہزاروں اندیشے اور خوف ہمیں چاروں طرف سے گھیر کر ہماری راہ مسدود کر دیتے ہیں۔ حج ہو یا استقبال قبلہ، بے جان مراسم عبادت نہ ہمارے قلوب کو بیدار کرتے ہیں، نہ نگاہوں میں پاکیزگی و یکسوئی پیدا کرتے ہیں، نہ عمل میںصالحیت۔ یہ نہ ہماری سوچ بدلتے ہیں، نہ شخصیت ،نہ زندگی۔

بیت اللہ کی آیات بینات میں سے یہ بھی ہے کہ ہمہ اقتدار و ہمہ اختیار حی و قیوم خدا، جو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں سے ہے سب کا بلاشرکت غیر مالک کل ہے، اور جس کی کرسی، اقتدار سب کو سمیٹے ہوئے ہے، وہ جب چاہے موت کو زندگی سے، زندگی کو موت سے، اندھیروں کو روشنی سے، روشنی کو اندھیروں سے، عزت کو ذلت سے، اور ذلت کو عزت سے، بدل دیتا ہے۔ جو اس کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ قائم کر لے، اسے ہر اندیشے اور خوف سے، ہر حزن و غم سے، ہرحسرت و یاس سے پاک ہونا چاہیے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ جب حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں بسانے کے لیے آئے وہاں نہ انسان کا نام و نشان تھا، نہ پانی کا، نہ زراعت کا، نہ خوردونوش کا کوئی انتظام، ایک تھیلی (جراب) کھجوروں کی، اور ایک مشکیزہ پانی کا، بس یہ کل کائنات تھی جو وہ ان کے پاس چھوڑ کر چلے۔ حضرت ہاجرہؑ نے بار بار پوچھا کہ ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں چلے، جہاں نہ آدم نہ آدم زاد، نہ کوئی اور چیز۔ کوئی جواب نہ پایا تو سوال کیا، کیا اس کا حکم آپ کو   اللہ نے دیا ہے؟ فرمایا، ہاں۔ یہ سن کو اطمینان و سکون اور امن کی اس جنت میں داخل ہو گئیں، جس کا باغ ان کے اندر لہلا اُٹھا۔ یہ جنت کیا تھی؟ فرمایا: اِذَنْ لَایُضیِّعُنَا (پھر تو وہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)۔ بخاری کی ایک دوسری روایت کے مطابق، حضرت ہاجرہؑ کے پوچھنے پر ہمیں کس پر چھوڑ کر جارہے ہو، حضرت ابراہیم ؑ نے کہا، اللہ پر۔ یہ سن کر وہ پورے سکون واطمینان سے بولیں، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ (میں اللہ پر راضی ہوں)۔

اللہ پر یقین اور اعتماد، اللہ پر بھروسا اور توکل، اللہ کے ہر فیصلے پر خوش، بندگیِ رب کی یہ کیفیت تھی کہ ایک یکہ و تنہا عورت اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ، پتھریلے بیابان میں، بھیانک اور ڈرائونی راتیں، تپتے ہوئے دن، موذی جانور، چور اور ڈاکو، سب کے باوجود، اطمینان اورامن کی کیفیت سے مالا مال تھی۔ معاش کا بندوبست بھی کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کے مشکیزہ سے زائد کچھ نہ تھا۔ پھر بیت اللہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کوئی وسائل نہ تھے، کوئی اسباب نہ تھے، کوئی سہارا نہ تھا، صرف خطرات ہی خطرات تھے، وہاں خداے حی و قیوم ۴ ہزار سال سے سب کچھ  بخش رہا ہے۔ جہاں کوئی انسان نہ تھا، وہاں لاکھوں انسان دُنیا بھر سے چلے آ رہے ہیں۔ جہاں نہ پانی تھا، نہ کھانا، وہاں ہر قسم کا خوردونوش کا سامان پایا جاتا ہے۔

یہ علم ہو جانے کے بعد، پیغمبرؐ کی زبان سے کہ جس کا علم غیر مشتبہ ہے، کہ یہ خدا کا حکم ہے، کچھ مادی وسائل نہ ہونے کے باوجود، دُنیا بھرمیں یکہ و تنہا ہونے کے باوجود، ہر قسم کے سنگین اور مہیب خطرات اور اندیشوں کے سامنے ہوتے ہوئے، اطاعت و فرماں برداری کی راہ چل پڑنا ہی حکمت و دانائی کا راستہ ہے۔ یہی حکمت و دانائی راسخ ہونا چاہیے، اس میں جو چشم سر سے بیت اللہ کو دیکھے، اور پانچ وقت اس کی طرف رخ کرے۔ کیاہم اغیار کے علم و حکمت سے جھولیاں بھرنے کے بعد، اپنی اس سب سے بیش بہا متاع حکمت کو کھو نہیں بیٹھے ہیں؟

حج کے تقریباً سارے ارکان، سعی، جہد اور حرکت پر مشتمل ہیں۔ گھر سے نکلنا، سفر کرنا، بیت اللہ کے گرد طواف کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، مکہ سے نکل کر منیٰ میں ڈیرے ڈالنا، اگلے دن وہاں سے کوچ کر دینا اور عرفات میں جمع ہو جانا، مغرب ہوتے ہی عرفات سے چل دینا، رات کی چند گھڑیاں مزدلفہ میں گزار کر صبح ہی صبح منیٰ واپس پہنچ جانا پھر مکہ جا کر طواف اور سعی کرنا۔

بندگیِ رب کا خلاصہ بھی یہی ہے۔ اللہ کے ہر حکم اور پکار پر لبیک کہنا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کھڑے ہو جانا، جو کچھ بھی میسر ہو اور جس حالت میں بھی ہو، تعمیل حکم کے لیے نکل پڑنا، اپنی طرف سے کوشش اور جہد میں کوئی کسر نہ چھوڑنا، وسائل زیادہ سے زیادہ جمع کرنا اور ہر ممکن بہتر سے بہتر تدبیر کرنا مگر بھروسا اور نظر صرف تدبیرِ رب پر رکھنا، اور جو کچھ کرنا صرف رب کے لیے کرنا۔

حج میں سارے اعمال،ان صفات کے راسخ کرنے ہی کا کام نہیں کرتے، بلکہ ان اعمال میں حضرت ابراہیم ؑ کا اُسوہ کامل بھی برابر تازہ کرتے ہیں، اور اسے نگاہوں کے سامنے لاتے ہیں۔ پتھر کے ایک معمولی سے گھر کو یہ مقام، قبولیت، محبوبیت اور مرجعیت حاصل ہوئی تو اس میں اس مشن کا بھی دخل تھا جس کے لیے انھوں نے یہ گھر تعمیر کیا اور یہاں اپنی ذریت کو بسایا، اور اخلاص نیت و عمل کو بھی۔ مکان بنوانے والے نے آغاز ہی میں ہدایت کر دی تھی کہ ’’میری بندگی میں کسی کو شریک نہ بنانا‘‘(الحج)۔ اور میرے گھر کو طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود کے لیے پاک و آباد رکھنا (البقرہ)۔ انھوں نے اپنے عزائم اور تمنائوں کا اظہار بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’ہماری ذریت بھی تیری فرماں بردار رہے‘‘۔ اس گھر کو بناتے ہوئے جو دُعا لبوں پر جاری تھی وہ صرف رب کے نزدیک قبولیت کی تمنائوں پر مشتمل تھی۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo (البقرہ۲:۱۲۷)، اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

اس کے علاوہ نہ کسی کی خوشنودی مطلوب تھی، نہ کسی کے صلہ و انعام پر نظر تھی۔

اس گھر کی آیات میں ایک روشن پیغام سعی کے اس عمل کے اندر بھی ہے جو صفا اور مروہ کے درمیان کی جاتی ہے۔ یہ یادگار ہے اس بھاگ دوڑ کی جو حضرت اسماعیلؑ کو پیاس سے جاں بلب دیکھ کر حضرت ہاجرہؑ نے صفا اور مروہ کے درمیان کی۔ کبھی صفا پر چڑھتیں، کبھی بھاگ کر جاتیں اور مروہ پر چڑھتیں۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ کو ہم سے ارادے کے ساتھ ساتھ سعی بھی مطلوب ہے، عمل اور کوشش بھی مطلوب ہے، اور اسی پر وہ نتائج مرتب فرماتا ہے۔ ’’ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے وہ سعی کرے۔‘‘(النجم)، اور ’’جو آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لیے سعی کرے جیسا کہ سعی کرنے کا حق ہے… اس کی کوشش کی پوری پوری قدر دانی کی جائے گی‘‘۔ سعی کا پیغام یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنی بندگی کو اللہ کے لیے خالص کرے، اور حتی المقدور کوشش میں اپنے کو لگا دے، تو اس کا رب اک پتھریلی وادی میں شیر خوار بچے کی ایڑیوں تلے بھی کبھی ختم نہ ہونے والا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔

اُمت مسلمہ کی کشتی آج جس قدر بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، کیا وہ اس سے اپنے ہمہ اقتدار و اختیار رب پر ابراہیم ؑو ہاجرہؑ کی طرح کلی بھروسا کیے بغیر، اس کی فرماں برداری کی راہ میں ان کی طرح اپنا سب کچھ حاضر کیے بغیر، اور اس راہ میں جان و مال سے سعی وجہد کیے بغیر، نکلنے کی کوئی راہ پا سکتی ہے؟ کیا جس کی نظر کے سامنے ہر روز پانچ مرتبہ بیت اللہ کی آیات بینات کو سامنے لانے کا اہتمام کیا گیاہو، اس کی نفسیات میں ان سوالوں کی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے کہ ایسی خراب قوم کیسے سدھرے گی، ایسے تاریک حالات کیسے بدلیں گے، ایسے بنجر اور سنگلاخ معاشروں میں نیکی کے چشمے کیسے پھوٹیں گے، ایسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن کیسے اور کہاں سے طلوع ہو گی، جبر واستبداد کی چٹانوں میں سے راستہ کیسے نکلے گا، حقیر کوششیں کیسے رنگ لائیں گی، زبردست طاقتوں کامقابلہ کیسے ہوگا؟ اگر ایک عورت کا یہ یقین کہ اِذَنْ لَا یُضَیِّعُنَا (پھر اللہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)، او ریہ اعلان کہ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ  (میں اللہ سے راضی ہوں)، اور اس کی صفا اور مروہ کے درمیان سعی و جہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پتھروں کے ایک معمولی گھر کو یہ مقام عطا کر سکتا ہے، اور سنگلاخ زمین سے زم زم کا چشمہ رواں کر سکتا ہے، توآج کی دُنیا میں دین کو غلبہ کیوں حاصل نہیں ہوسکتا، اور ظلم وفساد سے بھری ہوئی دُنیا میں نیکی کا چشمہ کیوں نہیں پھوٹ سکتا؟

دینے والا عاجز و درماندہ نہیں، نہ وہ اُونگھ اور نیند کا شکار ہوتا ہے، لینے والے ہی عاجزودرماندہ ہو گئے ہیں، اپنے مقاصد سے اور اپنی قوت و سربلندی کے اصل خزانوں سے غافل ہوکر نیند میںمدہوش ہیں۔ سعی و عمل اور اخلاص و وفا کی جو دُنیا ان سے مطلوب ہے اس کوانھوں نے اپنے ارادہ و اختیار سے باہر سمجھ کر رکھا ہے۔ انسانیت ہدایت کے لیے جاں بلب ہے، فساد کے بیابان میں زیر زمین امن کا چشمہ موجود ہے، مگر یہ دور اپنے ابراہیم ؑکا منتظرہے۔

حج کا دن تکمیل دین اور اتمام نعمت کی بشارت کا دن بھی ہے۔ اس سے اگلے دن ہی ساری دُنیا کے مسلمان عیدالاضحی کا جشن مناتے ہیں، اور اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کے درمیان ربط کا ادراک بہت مشکل ہے۔ نزول قرآن کے آغاز کے دن ، ضبطِ نفس اور تقویٰ، تلاوت قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قربِ الٰہی کے حصول کے لیے، وقف کیے گئے۔ تکمیل دین اور اتمام نعمت کے دن، قربانی اور حب ِالٰہی کے حصول کے لیے مختص کیے گئے۔

تکمیل و اتمام بغیر قربانی کے ممکن نہیں، اور قربانی بغیر محبت کے ممکن نہیں۔ اسی لیے حج کے مناسک تمام تر عشق و محبت پر مشتمل ہیں۔ شاہ عبدالعزیزلکھتے ہیں:

حضرت ابراہیم ؑکو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ وشیدابنا کر، دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے، محبوب کے گھر کے گرد ننگے پائوں، اُلجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اٹے ہوئے، سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر، محبوب کے گھر کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں… اس خانۂ تجلیات کے اردگرد چکر لگائیں، اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔

اسی محبت کی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑمیں یہ استعداد پیدا ہوئی کہ وہ ہر محبوب چیز کو اس کے لیے قربان کر دیں جو ایمان لاتے ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جب محبت کی آخری آزمایش آئی، بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے کہا گیا، تواُنھوں نے بیٹے کے گلے پر بھی چھری رکھ دی۔ جب وہ محبت کی ان ساری آزمایشوں میں پورے اترے (فَاَتَمَّہُنَّ) تو اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ نعمت بھی تمام کر دی جو دین کی نعمت کے اتمام کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔

وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط (البقرہ۲:۱۲۴) یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا، تو اُس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔

جو ایک مکمل دین کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ محبت کے اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ ’’کیا کوئی بھی ایسی چیزایسی ہے جو اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے؟‘‘ اس وقت تک ان کے سروں پر سے امرالٰہی ٹل نہیں سکتا، اور وہ وعدۂ الٰہی کے مستحق ہونہیںسکتے    ؎

صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق

معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی مقبولِ عام اور مشہور کتاب خطبات کا انگریزی ترجمہ جب اسلامک فائونڈیشن لسٹر ، برطانیہ سے Let us be Muslims کے نام سے شائع کیا گیا تو محترم خرم مراد نے ترجمہ کرنے کے ساتھ ایک طویل مقدمہ بھی لکھا، جس میں اس کتاب کی خصوصیات مؤثرانداز سے  پیش کی گئیں۔ اس مقدمے کا ترجمہ تذکرۂ سید مودودی میں شائع کیا گیا۔ اس ترجمے پر   محترم مقدمہ نگار نے خود نظرثانی بھی کی تھی۔ اس کا ایک حصہ ہم پیش کر رہے ہیں۔ مکمل مطالعے کے لیے تذکرۂ سید مودودی-۲ ملاحظہ کیجیے۔ (ادارہ)

اسلام ایک روایتی مذہب نہیں، بلکہ دُنیا میں خداخوفی، عبادت گزاری اور آخرت میں رضاے الٰہی کے تابع ابدی کامرانی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام محض انفرادی وعظ و تلقین کا آوازہ نہیں، بلکہ عمل اور اجتماعی جدوجہد کی پکار بھی ہے۔ اس سرمدی پیغام کو انبیا ؑو رُسل ؑنے پھیلایا، عام کیا،   اس راستے میں اپنی زندگیوں کو نثار کیا، اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکمل کیا۔ بعدازاں یہ ذمہ داری پوری اُمت اسلامیہ پر عائد ہوگئی کہ وہ ہدایت ِ ربانی کو عام کریں۔ یہ شمعِ ہدایت  ظلمت اور تاریکی، جبر اور صُلح، محکومی اور حاکمیت ،گویا کہ ہررنگ میں روشن اور منور رہی۔ بلاشبہہ کبھی اس لَو کا ہالہ وسیع رہا، اور کبھی مایوسی کی اتھاہ یوں سامنے آئی کہ دل بیٹھنے لگے، اور یہ ان سعید رُوحوں کا کمال اور ربِ کریم کی برکت و عنایت ہے کہ دیپ سے دیپ روشن ہوتے رہے۔

ان باکمال شخصیات میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) کا اسمِ گرامی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوچکا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں جگہ پانا بھی شاید کوئی بڑے کمال کی بات نہیں ہے۔ لیکن مولانا کی عظمت و بزرگی کا اصل راز وہ حکمت اور تدبر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے پر چلنے اور لوگوں کو چلانے کے لیے انھیں عطا فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کا راہوارِقلم، مولانا کا طرزِ استدلال، مولانا کے طرزِ بیان اور مولانا کی بصیرت افروز رہنمائی وہ انعام ہے جس نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے، بھٹکے ذہنوں کو صراطِ مستقیم پر چلانے اور جمودزدہ زندگیوں کو جہادِعظیم میں کھپا دینے کا کارنامہ انجام دیا....

مولانا مودودی کی کتاب خطبات کوئی معمولی کاوش نہیں ہے۔اگرچہ یہ کتاب عام اور معروف موضوعات اور سیدھی سادی سچی باتوں پر مشتمل ہے، جن کو عام اور کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ لوگوں کے سامنے سادہ الفاظ اور انھی کی روزمرہ کی زبان میں پیش کیا گیا تھا، مگر خدا کے فضل و کرم سے اس کتاب نے مولانا کی کسی بھی اس سے زیادہ علمی کتاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں کے دلوں میں ہل چل پیدا کی ہے، اور کہیں زیادہ زندگیوں کو اپنا رُخ بدل کر اپنے خالقِ حقیقی کے ساتھ وابستہ ہوکر زندگی گزارنے کی راہ پر گامزن کردیا ہے....

سید مودودی کی تمام تحریروں میں خطبات کے الفاظ اگرچہ وہ ایک دُور دراز مقام پر ایک چھوٹی سی مسجد کی چار دیواری میں بولے گئے، اپنے زمان و مکاں کی حدود کو عبور کر کے اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان الفاظ نے اپنے قاریوں کے دل و دماغ میں جو تاثر پیدا کیا ہے وہ ٹھیک ٹھیک ان کے مقصد اور پیغام کی اس گہرائی اور اخلاص کے تناسب سے ہے جو ان الفاظ میں کارفرما ہے۔ انھوں نے بے شمار لوگوں کو ان کی کمزوریوں کا شعور دیا ہے، اور ان کے ایمان میں اخلاص پیدا کیا ہے....

اس کتاب میں مولانا مودودی کی گفتگو کے موضوعات وہ ہیں جو اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، یعنی، ایمان اور اسلام، علم و عملِ صالح، تقویٰ، دُنیا و آخرت، عبادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد۔ یہ تمام بالکل وہی موضوعات ہیں جن پر تمام مذہبی اہلِ قلم اور واعظین کلام کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مولانا کے خطاب میں کیا منفرد خصوصیت ہے؟ یہ سوال بالکل بجا ہے۔ آیئے اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

اگرچہ اس میں شک نہیں کہ مولانا کا بیان بھی ان موضوعات کی حقیقت کے بارے میں بڑا واضح اور منفرد و غیرمعمولی نوعیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ   ان تمام معمولی اور روزمرہ کے موضوعات کے ابتدائی، اصلی اور حقیقی معانی کا احیا کرکے، اور ہماری آج کی زندگی کے ساتھ جوڑ کے، ان کو ایک بالکل مختلف انقلابی مقام دے دیتے ہیں۔

وہ یہ کارنامہ کس طرح انجام دیتے ہیں؟

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ ہرموضوع کا ٹھیک وہی مقام بحال کردیتے ہیں جو اسے اسلام میں حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے اور یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ وہ ان سب کی ان باہم کڑیوں کو آپس میں پھر سے جوڑ دیتے ہیں جو عرصے سے ہماری زندگی میں فکروعمل کے دائرے میں ٹوٹ چکی ہیں اور جن کو ہم بالکل فراموش کربیٹھے ہیں۔ ایمان، اسلام، دنیا و آخرت، نماز، روزہ، یہ سب موجود ہیں، لیکن یہ سب اپنے دائرے اور حلقے  تک محدود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان سب کو ایک علیحدہ اکائی تصور کیے بیٹھے ہیں، اور ایک علیحدہ اکائی کے طور پر ہی ان سب سے معاملہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لیے اگرچہ ہر جُز اپنے مقام پر موجود ہو اور مسخ بھی نہ ہوا ہو، اور اس میں کوئی غیرمتعلق حصہ شامل بھی نہ کیا گیا ہو، پھر بھی مولانا کی تمثیل کے مطابق، یہ سب پُرزوں کی حیثیت میں رہتے ہیں اور ایک مجسم گھڑیال کی صورت اختیار نہیں کرتے، کیونکہ وہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مولانا ان سب پُرزوں کو جمع کرلیتے ہیں اور ہمیں ان کو جوڑنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اچانک جو چیز غیراہم اور غیرمتعلق تھی، ایک مرکزی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور ہماری زندگی کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس طرح باوجود اس کے کہ ان کے موضوعات معروف اور عام ہیں، اور باوجود اس کے کہ وہ طویل، بلند آہنگ اور شان دار خطابت کے لبادے میں ملبوس نہیں کیے گئے، اپنے گہرے نقوش دلوں پر مرتسم کرتے چلے جاتے ہیں۔

مولانا کے موضوعات کی گراں قدری، قوت اور وسعت یقینی طور پر بہت وقیع اور عمیق ہے۔ لیکن ہم بآسانی ایسی سات کڑیوں کا تذکرہ کرسکتے ہیں، جن کے درمیان انھوں نے دوبارہ ربط قائم کیا ہے:

  • پہلی کڑی یہ ہے کہ وہ پوری کی پوری زندگی کا رشتہ ایمان کے ساتھ قائم کرتے ہیں۔ ایمان زندگی کا ایسا مرکز بن جاتا ہے ، جو خدا کی مکمل فرماں برداری سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اس قسم کے ایمان کو ہم نے ایک عرصے سے واقعی زندگی سے غیرمتعلق بنا رکھا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ مولانا ہمارے ایمان اور عمل کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں اور اس طرح عمل کا ربط بھی زندگی سے قائم کر کے اس کا ایک اہم جُز بنا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بغیر    اعمالِ صالح کے حقیقی ایمان ممکن ہی نہیں۔
  • تیسرے یہ کہ وہ مراسم، یعنی ارکانِ خمسہ کا رشتہ بھی ایمان سے اس طرح قائم کرتے ہیں کہ جیسے ایمان بیج ہے، اور یہ پانچ ارکان لازماً اسی میں سے تنے کی صورت میں پھوٹ کر نکلتے ہیں۔ اعمالِ صالحہ ایمان کے اسی بیج کی وہ شاخیں (شعب) ہیں جو عبادات کے تنے سے پھوٹ کر نکلتی ہیں اور زندگی کو حیاتِ طیبہ بنا دیتی ہیں۔
  • چوتھے یہ کہ وہ ظاہر اور باطن کو جوڑ کر ایک کُل کی حیثیت دے دیتے ہیں، گویا جسم اور روح میں اتصال پیدا کر دیتے ہیں۔ اگر اعمال کی شکلوں سے صحیح نتائج پیدا نہیں ہورہے تو ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روح سے عاری ہیں۔ ظاہری دین داری کا لبادہ جو رُوح سے خالی دلوں کو اوڑھا دیا گیا ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں رکھتا۔
  • پانچویں یہ کہ وہ جہاد کو حیاتِ صالحہ کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، اور اس کا زندگی میں صحیح مقام اُجاگر کرتے ہیں۔ خدا کو جو اعمالِ صالحہ ہم سے مطلوب ہیں، ان میں جہاد اس کا پسندیدہ عمل اور سارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ جہاد ، زندگی میں بلند ترین نیکی کا درجہ حاصل کرتے ہی ایمان کا تقاضا بن جاتا ہے۔ گویا صحیح مسلمان بننے کے لیے ہمیں مجاہد بننا ہوگا۔

۶- چھٹے یہ کہ وہ تاریخ کو بھی ایمان کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ ایمان محض ایک مابعد الطبیعی یا روحانی قوت نہیں، وہ تاریخ اور تقدیر ساز ہے۔ اس طرح تاریخ، زندگی اور ایمان، دونوں کے لیے نہایت اہم ہوجاتی ہے۔ ہم خاموشی سے معطل ہوکر نہیں بیٹھ سکتے، بلکہ ہمیں آگے بڑھ کر تاریخ کا رُخ موڑنے کی عملی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سعی و عمل کا نام جہاد ہے۔

  • ساتویں یہ کہ مولانا اس دنیا کو آخرت سے ہم رشتہ کرتے ہیں، اور اس طرح دونوں میں تسلسل قائم کرتے ہیں۔ اس دُنیا میں خدا کی رضا کی کوشش کے بغیر ہم آخرت میں کوئی فصل نہیں کاٹ سکتے۔

آیئے! اب ہم جو کچھ انھوں نے کہا ہے اس کے چند اہم پہلو دیکھیں:

  • ایمان: ایمان کا سوال مولانا کی پوری تحریر میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا پوری کتاب کا موضوع ایمان ہی ہے، اسی پر ہر چیز مرکوز ہے۔ دراصل اس کتاب کے تمام مندرجات اس قرآنی آیت کی تفسیر ہیں:’’یعنی اے ایمان والو! (صحیح طور پر) ایمان لائو‘‘۔(النساء ۴:۱۳۶)

ایمان کا مفہوم تو سب جانتے ہیں، مگر پھر بھی خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ صاحب ِ ایمان لوگوں کی عملی زندگی سے ایمان غیرمتعلق ہوکر رہ گیا ہے، یا اس کا مقام اب زندگی کے کناروں پر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً: یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ایمان پر ایک پیدایشی ورثے کے   طور پر حق قائم رہتا ہے، خواہ عمل کچھ بھی ہو۔ یا، صرف کلمے کے الفاظ زبان سے ادا کردینے ہی کو ایمان کے مساوی بنا لیا گیا ہے۔ یا، ایمان کا مقام زندگی کے دُور دراز گوشوں اور کونوں تک محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یا، ایمان کو ایک بے ضرر شے بنا دیا گیا ہے۔

مولانا مودودی اس تمام خام خیالی کی پُرزور تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ماں باپ سے وراثت میں یہ خود بخود آپ کو حاصل ہوجائے اور خود بخود تمام عمر آپ کے ساتھ لگی رہے، خواہ آپ اس کی پروا کریں یا نہ کریں۔ بلکہ ایسی نعمت ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے خود آپ کی کوشش شرط ہے‘‘۔ (خطبات، ص ۳۱)

’’ہرشخص جو مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہے، جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے، اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۳۲)

اس لیے کہ: ’’ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان۔ اسی طرح ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق لباس کا بھی نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲)

اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’بس یہی حال کلمۂ طیبہ کا ہے۔ فقط چھے سات لفظ بول دینے سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ آدمی کافر سے مسلمان ہوجائے، ناپاک سے پاک ہوجائے، مردُود سے محبوب بن جائے، دوزخی سے جنتی بن جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۵)

اسلام میں کلمۂ طیبہ پڑھنے کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا، مگر ہاں! ایک دفعہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجانے کے بعد زندگی کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں میں کلمے کے تقاضوں کی پابندی لازم اور فرض ہے۔ مولانا اس پہلو کو یوں واضح کرتے ہیں:

’’اس بات کا اقرار کرنے کے بعد تمھیں یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ یہ جان میری ہے، جسم میرا ہے، مال میرا ہے، اور فلاں چیز میری ہے۔ دوسرے کو مالک کہنا اور پھر اس کی چیز کو اپنی قرار دینا، بالکل ایک لغو بات ہے۔ اگر درحقیقت یہ بات سچے دل سے مانتے ہو کہ ان سب چیزوں کا مالک خدا ہی ہے… تو جس طرح مالک کہتا ہے اسی طرح تمھیں ان چیزوں سے کام لینا چاہیے۔ ان کی مرضی کے خلاف ان سے کام لیتے ہو تو دھوکا بازی کرتے ہو‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹)

اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’اب آپ کو یہ کہنے کا حق ہی نہ رہا کہ میری راے یہ ہے، یا دُنیا کا دستور یہ ہے، یا خاندان کا رواج یہ ہے، یا فلاں حضرت یا فلاں بزرگ یہ فرماتے ہیں۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں اب ان میں سے کوئی چیز بھی آپ نہیں کرسکتے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)

سید مودودیؒ ایک بہت بڑے بت شکن واقع ہوئے ہیں، کیونکہ ایمان کے ساتھ بت پرستی نہیں چل سکتی۔ لیکن ان کی فکروتشویش کا موضوع پتھر کے بت نہیں ہیں، اور نہ مظاہر فطرت۔ بلکہ دلوں کے اندر بیٹھے بت ہیں، یعنی اپنی ذات، اپنا معاشرہ، اپنی تہذیب، بلکہ خود اپنے جیسے انسان، جو کہ اکثر انسانی زندگی میں خدا کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔

اکثر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ مولانا مودودی اس نکتے کو نہایت سادگی اور بڑی وسعت کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:’’خدا کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار ہو جانا ’اسلام‘ ہے۔ خدا کی پادشاہی و فرماں روائی کے آگے سرِتسلیم خم کر دینا اسلام ہے....  خدا کے حوالے کرنے یا خدا کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس کو قبول کیا جائے۔ اس میں چون و چرا نہ کی جائے اور زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اس میں صرف قرآن اور سنت ِ رسولؐ کی پیروی کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)

لیکن پھر بھی لوگ اپنی ذاتی خواہشات کے بندے اور غلام ہوتے ہیں اور انھی کی تکمیل کو مقصدِحیات قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے محض یہ امر قابلِ اطمینان ہوتا ہے کہ معاشرے کا چلن کیا ہے؟ ___ وہ ہرگز یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کیا کہتا ہے، سنت میں ان کے لیے کیا اسوئہ حسنہ ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’اگر اسے معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت کی ہدایت یہ ہے اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میری عقل اسے قبول نہیں کرتی۔ اس لیے مَیں اس بات کو نہیں مانتا یا باپ دادا سے تو اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے، لہٰذا میں اس کی پیروی نہ کروں گا، یا دنیا کا طریقہ اس کے خلاف ہے، لہٰذا میں اسی پر چلوں گا، تو ایسا شخص ہرگز مسلمان نہیں ہے۔ [یہاں پہنچ کر مولانا مودودی دوٹوک انداز سے کہتے ہیں] وہ جھوٹ کہتا ہے: اگر اپنے کو مسلمان کہتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)

خدا کو چھوڑ کر جس کے ساتھ اطاعت و وفاداری کا رشتہ قائم کیا جائے، وہ ایک خدا ہے۔  یہ اپنا نفس ہو، اپنا معاشرہ، خاندان اور قوم ہو، اپنے جیسے انسان ہوں، جیسے حکمران، دولت مند، اور   گم کردہ راہ دانش ور___ ان کی گمراہ کن اطاعت گزاری کے بتوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے، مولانا فرماتے ہیں: ’’بھائیو! آج مَیں نے آپ کے سامنے جن تین بتوں کا ذکر کیا ہے، ان کی بندگی اصل شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دیے، اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دیے، مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں، ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اوّلین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)

کیونکہ یہ امر بدیہی طور پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ:’’جس نے یہ تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں، اس کا بندۂ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پانچ وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کر اور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے، خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ مَیں پکا مسلمان ہوں، مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)

ایمان و بت پرستی کی حقیقت، اور ہماری زندگیوں میں ایمان کے مقتضیات پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے وہ یوں وضاحت کرتے ہیں: ’’اور اگر وہ [مسلمان] بعض معاملات میں تو خدا کی ہدایت کو مانتا، اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو یا رسم و رواج کو، یا انسانوں کے قانون کو، خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جس قدر بھی وہ خدا کے قانون کی بغاوت کرتا ہے، اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے، کوئی چوتھائی کافر ہے، کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ، غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے، اتنا ہی کفر۔ (ایضاً، ص ۹۰)

ایک فرد کی جانب سے بظاہر دعویٰ ٔایمان اور اس کے برعکس دل کی دُنیا کو، اس کے کسی چھوٹے سے گوشے کو بھی خدا، اطاعت ِخدا اور خوفِ خداسے خالی رکھنے کے رویے کو مولانا مودودی خالص منافقانہ روش قرار دیتے ہیں۔ کیا مولانا مودودی مسلمانوں کی تکفیر کا کام کر رہے ہیں؟ نہیں! اپنے خطبات کے مندرجہ بالا بیانات سے پیدا ہونے والی ممکنہ غلط فہمی کی وہ ساتھ ہی ساتھ فوراً  تردید کردیتے ہیں۔ اپنے لہجے کی شدت کے بارے میں جو دل گرفتگی، حسرت اور کرب کا نتیجہ ہے، فرماتے ہیں: ’’میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں، نہیں میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱-۴۲)

اس لہجے سے ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ عمومی سوچ اور روایتی عمل میں ایک زلزلہ برپا کرکے، قاری کو رُکنے، ٹھٹھکنے اور نئے سرے سے اپنے اندازِ فکر اور طرزِعمل پر نظرثانی کرنے، احتساب کرنے اور جائزہ لینے پر آمادہ کیا جائے۔ پہاڑوں کی تنگنائوں کی شوریدہ سرموجیں اب کھلے میدانی اور پُرسکون دریا کی مانند سرگرم سفر نظر آتی ہیں۔ اب وہ بڑے نرم لہجے میں سمجھا رہے ہیں: ’’یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر آپ دوسروں کو پرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مُسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں، اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اُسے دُور کرنے کی فکر کریں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۰)

مولانا مودودی نے ایمان کے دو درجات بیان کیے ہیں۔ انھوں نے ان دونوں کا بڑا اہم اور نمایاں فرق بھی بیان کیا ہے۔ پہلا درجہ ایمان کے زبانی اقرار کا درجہ ہے۔ اسے وہ ’قانونی ایمان‘ کہتے ہیں۔ دوسرا درجہ وفاو عمل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے قلبی ایمان کا ہے۔ اسے وہ حقیقی ایمان کہتے ہیں۔ یہی خدا کا پسندیدہ ایمان ہے اور یہی آخرت میں ہمارے لیے خدا کی رضا اور جزاے خیر کا ضامن ہے، نیز اس دنیا میں بھی خدا کے انعام و اکرام کا مستحق قرار دیتا ہے۔ خطبات میں اُنھوں نے بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا موضوع اس تحریر میں حقیقی ایمان ہے۔ اس لیے کہ یہی اللہ کو مطلوب ہے اور یہی ہماری دنیاوی زندگی میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔

لیکن اسی کے ساتھ وہ حکیمانہ طریقے سے ’قانونی ایمان‘ کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، کیونکہ یہی ایمان مُسلم اُمت میں رُکنیت کا سبب بنتا ہے۔ دین اور شریعت کے درمیان اہم فرق و امتیاز واضح کرکے فرقہ پرستی کی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں، جو آپس میں تفرقہ و تکفیر کا اصل سبب ہے۔ صحیح اسلام کو اپنے بلیغ انداز میں بیان کرنے کے باوجود اور اپنی تمام ایسی شعلہ نوائی کے باوجود کہ فرقہ پرستوں کو اس طرح مخاطب کرنا’’ تم لوگ مسلمان نہیں ہو‘‘، ’’یہ قطعی منافقت ہے‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ مولانا نے کبھی اپنی زندگی میں کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا بلکہ وہ ہمارے سامنے اس معاملے میں تحمل و بُردباری کی ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جو کہ آج کل بڑی کمیاب ہیں۔

’’نوکر…جس طرح آقا کے حکم کے ماننے پر مجبور ہے، اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ اگر تو میری سمجھ کو نہ مانے گا، تو مَیں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کرادوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص  کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا، اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا‘‘۔ کیونکہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے، مگر یہ شخص کہتا ہے کہ ’’نہیں، تم میری سمجھ اور میری راے کی بھی غلامی کرو‘‘۔ یعنی صرف خدا ہی تمھارا خدا نہیں ہے، بلکہ مَیں بھی چھوٹا خدا ہوں‘‘۔(ایضاً، ص ۱۲۵)

  • اعمال: حقیقی ایمان انسان کی زندگی کا مرکز بن جائے، قلب و ذہن میں جاگزیں ہوجائے، تو اس سے نیکیوں کا شجر سایہ دار لازماً سایہ فگن ہوگا۔ بدقسمتی سے اکثر اوقات ایمان اور عمل کے باہمی تعلق کا مسئلہ، اُس تعلق کا مسئلہ جو اسلام کی حقیقی قدر وقوت کا سرچشمہ ہے، خواہ مخواہ فلسفیوں یا قانون دانوں اور فقیہوں کی بحثوں کا محور بنا دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کو اس بات کا حق ہے نہ اختیار، اور نہ ضرورت، کہ وہ خدائی اختیار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے یہ فتویٰ دے کہ کسی فرد کا مقام آخرت میں کیا ہوگا۔ وہ جنت میں جائے گا یا دوزخ میں۔ نہ اسے تکفیر کا مشغلہ اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن اسے کسی طرح بھی وہ ایمان نہ کھو دینا چاہیے جس کی قوت کا راز ہی عمل میں پوشیدہ ہے۔ مولانا مودودی کا مقصد تو ایمان کو حقیقی بنانا ہے۔ یہ کام وہ زبردست قوت اور وضاحت کے ساتھ کرتے ہیں: ’’کلمۂ طیبہ کو ماننے کے معنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی دل سے ماننے کے ہیں، اور اس طرح ماننے کے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی عقیدہ آپ کے دل میں نہ رہے اور  اس کے خلاف کوئی کام آپ سے نہ ہوسکے‘‘۔ (ایضاً، ص ۶۸)
  • عبادات: نیکیوں میں سب سے پہلا مقام نماز، زکوٰۃ اور دیگر فرض مراسم عبادات کو حاصل ہے۔ ایمان کا بیج دل میں ہو تو ان فرائض سے غفلت ممکن نہیں۔ یہ قرآن و سنت کی آواز ہے جو مولانا مودودی کے ان الفاظ میں سنی جاسکتی ہے: ’’اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان دو ارکانِ اسلام سے جو لوگ رُوگردانی کریں، ان کا دعویٰ ٔایمان ہی جھوٹا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۲۰۷)

دوسری طرف اگر عبادات صحیح طریقے سے انجام دی جائیں تو وہ پوری زندگی کو ایمان کے دائرۂ کار میں لاسکتی ہیں، یا دوسرے الفاظ میں خدا اور خدائی احکام کے تحت۔ ہم اگر ان کے خطاب ’’عبادت کے صحیح معنی‘‘ کو پڑھیں تو ہم یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ کس قدر زوردار طریقے سے مولانا مودودی نے اس اہم نکتے پر اپنے دلائل دیے ہیں۔

  • ظاھر و باطن:اگر مراسمِ عبادت کی ادایگی کے نتیجے میں پوری زندگی عبادت نہیں بنتی، تو اس کی وجہ مولانا کے نزدیک اس کے علاوہ کچھ نہیںکہ وہ اپنے معنی و مقصد اور اصل رُوح سے خالی ہوچکے ہیں۔ کھوکھلی عبادت کے بے ثمر ہونے کو مولانا کس انداز سے واضح کرتے ہیں: ’’جب روح ہی موجود نہیں، تو تیرا بے جان جسم کیا کرامت دکھائے گا؟‘‘ (ایضاً، ص ۱۰۱)

مولانا مودودی کہتے ہیں کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز سے اپنے ہاتھ روک لیں،  ہراس رویّے سے اپنا پہلو بچا لیں، جو خدا کو ناپسند ہے: ’’لیکن اگر کوئی ایسا ہے کہ اتنی زبردست اصلاح کرنے والی چیز [نماز]  سے بھی اس کی اصلاح نہیں ہوتی تو [پھر جان لینا چاہیے کہ] یہ  اس کی طینت کی خرابی ہے، نماز کی خرابی نہیں۔ پانی اور صابن کا قصور نہیں، اس کی وجہ کوئلے کی اپنی سیاہی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۵۸)

مولانا مودودی نے ایسی بے روح مذہبیت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جو خالی دلوں اور  تقسیم شدہ اطاعتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ ایسے ملازم کو کیا کہیں گے جو اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجاے، محض اپنے آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے، اور اس کے نام کی مالا جپتا رہے۔ آقا اسے حکم دے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو،مگر ملازم اس پر عمل کرنے کے بجاے وہیں کھڑا رہے، اور خوش الحانی سے بار بار کہتا رہے کہ ’’چور کا ہاتھ کاٹ دو، چور کا ہاتھ کاٹ دو‘‘،  مگر اس نظام کو قائم کرنے کے لیے انگلی بھی نہ ہلائے، جہاں چور کا ہاتھ کاٹا جاسکے۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان جب یہ کرے کہ قرآن کے احکام پر عمل کرنے کے بجاے اسے بس جوابی طور پر   خوش الحانی سے ان احکام کو زبان سے دہراتا ہی رہے تو کیا اسے عبادت کہا جائے گا؟

’’مگر کیسی حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ رات دن، خدا کے قانون کو توڑتے ہیں، کفار و مشرکین کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اور اپنی زندگی کے معاملات میں خدا کے احکام کی کوئی پروا نہیں کرتے، ان کی نماز اور روزے اور تسبیح اور تلاوتِ قرآن اور حج و زکوٰۃ کو آپ خدا کی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کے اصل مطلب سے ناواقف ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۳۵)

  • جھاد:قرآن میں جہاد کا ایمان سے چولی دامن کا ساتھ ہے، اور اس لیے اس کا ایک مسلمان کی ایمان بھری زندگی سے گہرا ربط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جہاد ہی وہ مقصد ہے جو اُمت ِ مسلمہ کو وجود بخشتا ہے۔ اسی میں مسلمانوں کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ کھلا المیہ ہے کہ مسلمانوں نے اس کلیدی فریضے کی ادایگی سے خودساختہ رُخصت اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کو اس فریضے کی ادایگی کے لیے کسی حرکت کی چنداں ضرورت نہیں، کہ اس کی ادایگی سے  ان کا ایمان بالکل متاثر نہیں ہوتا۔ مولانا مودودی ایمان و جہاد کے درمیان اس خلیج کو بڑے      مدّلل و جذبات انگیز طریقے سے واشگاف الفاظ میں پاٹ دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں جہاد سے دل چسپی نہ ہونا ہی باقی مراسمِ عبادت کو ان کی اصل روح سے خالی کردیتا ہے:

’’مگر اب مَیں تمھیں بتاتا ہوں کہ جس دل میں جہاد کی نیت نہ ہو، اور جس کے پیشِ نظر جہاد کا مقصد نہ ہو ، اس کی ساری عبادتیں بے معنی ہیں۔ ان بے معنی عبادت گزاریوں سے اگر تم گمان رکھتے ہو، کہ خدا کا تقرب نصیب ہوتا ہے تو خدا کے ہاں جاکر تم دیکھ لو گے کہ اُنھوں نے تم کو اس سے کتنا قریب کیا‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۸)

’’لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین (اسلام) کو حق سمجھتے ہیں ، تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں، اور یا تو اسے قائم کر چھوڑیں، یا اسی کوشش میں جان دے دیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۶)

مگر کیوں؟___ مولانا کا دانش آفرین استدلال بڑا واضح اور معقول ہے۔ سب سے پہلے وہ بتاتے ہیں کہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان لانے اور قرآن کریم کو کتابِ ہدایت تسلیم کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری پوری کی پوری زندگی تابع امرِرب ہوجائے، اسی لیے:

’’[مسلمان سے] اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اس کا قانون جاری کرنے کے لیے اُٹھیں، اس کی رعیّت میں سے جو لوگ باغی ہوگئے ہیں اور خود مالک المُلک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑیں اور اللہ کی رعیّت کو دوسروں کی رعیّت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا___ نہیں! اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں بھی تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اُٹھو، حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شُتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے۔ (ایضاً، ص ۳۱۴)

اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ دو دینوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ مولانا مودودی اس دوعملی پر ضرب لگاتے ہیں جس میں عموماً مسلمان اس طرح دو دینوں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ ایک دین ہمارے دماغ میں ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ذاتی و خانگی زندگی میں، اور دوسرا دین اجتماعی زندگی میں:’’حکومت کے بغیر دین بالکل ایسا ہے، جیسے ایک عمارت کا نقشہ آپ کے دماغ میں ہو، مگر عمارت زمین پر موجود نہ ہو۔ ایسے دماغی نقشے ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ جب کہ آپ رہیں گے اس عمارت میں جو فی الواقع موجود ہوگی؟‘‘(ایضاً، ص ۳۲۲)

مولانا مودودی، انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہوئے واضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ کسی انسان کے لیے بیک وقت دو دینوں اور دو مذہبوں پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے: ’’حقیقت میں تو آپ اسی کے دین پر ہیں جس کی اطاعت واقعی آپ کر رہے ہیں۔ پھر یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے کہ جس کی اطاعت آپ نہیں کر رہے، اس کو اپنا حاکم اور اس کے دین کو اپنا دین کہیں؟ اور اگر زبان سے آپ کہتے بھی ہیں، یا دل میں ایسا سمجھتے بھی ہیں، تو اس کا فائدہ اور اثر کیا ہے؟ آپ کا یہ کہنا کہ ہم اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں، بالکل ہی بے معنی ہے، جب کہ آپ کی زندگی کے معاملات اس کی شریعت کے دائرے سے نکل گئے ہوں، اور کسی دوسری شریعت پر چل رہے ہوں‘‘۔ (ایضاً، ص۳۲۰)

تیسرے، ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال ایک صاحب ِ ایمان کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتی: ’’کسی دوسرے دین کے ساتھ یہ دین [اسلام] شرکت کہاں قبول کرسکتا ہے؟ اور کون سا دین ہے جو دوسرے دین کی شرکت قبول کرتا ہو؟ ہردین کی طرح یہ دین بھی یہی کہتا ہے کہ اقتدار خالصاً و مخلصاً میرا ہونا چاہیے، اور ہر دوسرا دین میرے مقابلے میں مغلوب ہوجانا چاہیے، ورنہ میری پیروی نہیں ہوسکتی‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۴)

چوتھی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان پر انسان کی خدائی، حکومت اور اقتدار ہی زمین پر فتنہ و فساد کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے: ’’جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو، اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو، تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اُٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے، غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۱)

  • تاریخ: اگر تاریخ کو نری مادی قوتوں کا کھیل سمجھ لیا جائے تو پھر ایمان آہستہ آہستہ زندگی سے خارج ہوتا جاتا ہے۔ مولانا مودودی ایمان کو اسی طرح انسانی تاریخ کا مرکز و محور بنادیتے ہیں جس طرح وہ اسے انسانی قلب و زندگی کا مرکزو محور بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان ہی ہے جو میزانِ تقدیر میں مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ چنانچہ آج مسلمانوں کی خوار و زبوں حالت دیکھ کر وہ تحیرآمیز لہجے میں یہ سوال اُٹھاتے ہیں: ’’کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اور اس پر خدا کا   غضب نازل ہو! مسلمان اور ذلیل! مسلمان اور غلام! یہ تو ایسی ناممکن بات ہے، جیسے کوئی چیز سفید بھی ہو اور سیاہ بھی‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۰)

اس سوال کی گرفت کو اور مضبوط بناتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو اور پھر دنیا میں ذلیل و خوارہو، دوسروں کی محکوم ہو، پائوں میں روندی اور جوتیوں سے ٹھکرائی جائے۔ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو، اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں، اور وہ اس کو اس طرح ہانکیں جیسے جانور ہانکتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۸)

یہ سب کچھ کیوں کر وقوع پذیر ہوگیا ہے؟ مولانا مودودی یقین بھری آواز میں پکارتے ہیں: ’اگر تمھارا ایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے، اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلت سے نہیں مل سکتا، تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو، اسی میں کوئی غلطی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۰)

یہی وہ صورتِ حال ہے جس میں موجودہ مسلمانوں کے قرآن سے تعلق اور ایمان شکن رویّے کی یوں وضاحت کرتے ہیں:’’پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتابِ الٰہی پر ظلم کر رہی ہے۔ اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اُس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۹)

اگرچہ ہمیں کتاب میں سے کثرت سے اقتباسات دینے پڑے ہیں، لیکن مولانا مودودی کی اس کتاب کے مختلف موضوعات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ مندرجہ بالا گزارشات یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مولانا کی یہ کتاب کس قدر منفرد اور بے مثال ہے۔

دراصل یہی موضوعات ہیں جن میں مولانا نے مسلمانوں کو صحیح اسلام کی طرف پلٹ آنے کی جو دعوت دی ہے، اس کی اہمیت اور نزاکت میں اصل رنگ انھی موضوعات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر چیز جو اپنے ابتدائی معنی و مفہوم کو کھو دیتی ہے یا جو صحیح رُوح سے خالی ہوچکی ہے، اس کتاب میں اس کا احیا کردیا گیا ہے___ مگر سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ان سب مطالب کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی تاثیر دوسرے واعظوں اور خطیبوں کے مقابلے میں بے پناہ ہوگئی ہے ، اگرچہ وہ لوگ یہی باتیں بیان کرتے ہیں جو مولانا مرحوم نے کی ہیں۔ اس لیے کہ یہ ایمان اس طرح زندگی، عمل، عبادت، جہاد اور تاریخ کے ساتھ جڑ کر ہی اپنی   وہ اصل قوت حاصل کرلیتا ہے جو انسان اور اس کی دُنیا میں انقلاب لاسکتی ہے۔

غیرمادّی قربانیاں

وقت، دولت، زندگی اور اسی طرح کی دیگر چیزیں قربان کرنا، کوئی شک نہیں کہ، بڑا دُشوار کام ہے،مگران چیزوںکے مادّی اور محسوس اشیا ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی میں کئی لحاظ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ آپ جوکچھ بھی قربان کریں گے،وہ نظر آنے والی چیز ہوگی۔ جو قربانی آپ دیںگے اُسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اطمینان کر سکیںگے ۔علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر ایسی قربانیوں کی ضرورت بالعموم کسی بحران یاآزمایش کے وقت پیش آتی ہے۔ مصیبت اورآزمایش کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جو انسان کے اندر کے جذبات کوتحریک دے کراُس سے اپنی بہترین چیزیں باہر نکلوا لاتی ہیں۔ایسے مواقع پر آپ صورتِ حال سے باخبر ہوتے ہیں،آپ کو احتیاجات کی فوری تکمیل کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور آپ جذبات سے مغلوب بھی ہوتے ہیں۔ نیز ایسی قربانیاں بنیادی طورپر ذاتی نوعیت کی قربانیاں ہوتی ہیں،اپنی مرضی سے دی جاتی ہیں، بالعموم ان قربانیوںسے باہمی تعلقات کا پیچیدہ جال نہیں الجھتا۔

وہ تو غیر مادّی اور غیر محسوس قسم کی اشیا کی قربانیاں ہیں جو نہ صرف زیادہ مشکل ہیں، فرداور معاشرے کے لیے زیادہ اہم ہیں اور جدوجہد میں کامیابی کے لیے زیادہ ضروری ہیں، لیکن انھی قربانیوں سے صرفِ نظر کرنے، یا انھی قربانیوں کو نظرانداز کردیے جانے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔اکثر اوقات ان قربانیوں کو قربانی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ان اشیاکی قربانی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ جس چیز کی قربانی دے رہے ہیں اُس کی جڑیں آپ کے دِل ودماغ کی پہنائیوں میں پیوست ہیں، وہ ٹھوس اور نظرآنے والی چیزیں نہیں ہیں، آپ کو اُن کی قربانی دیتے ہوئے دیکھا نہیں جا سکتا۔اوریہ قربانیاں صرف بحران و آزمایش کی گرما گرمی میں نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں، بغیر کسی کو دکھائے اور بغیر کسی کے علم میں لائے، ہرروز دی جاتی ہیں۔

اجتماعیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے اﷲ کی راہ میں جدوجہدکے وقت ایسی قربانیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ اس نوعیت کی قربانیاںہیں کہ آپ بمشکل ہی ان کو قربانیاں سمجھیں گے۔ مگر ایسی قربانیوں کے بغیرکوئی مضبوط ہم آہنگ اجتماعی زندگی وجود میں آسکتی ہے، نہ کامیابی کی اُمید کے ساتھ کوئی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔مثال کے طورپر اپنی پسندوناپسند کو لے لیجیے۔ دولت کی طرح اس کاحساب نہیں لگایا جاسکتا،مگر افراد، اشیا ا ور موقف سے متعلق اپنی پسند وناپسند کی آپ کو قربانی دینی ہوگی۔ایسی غیر محسوس اشیا کی قربانی دینے کے لیے در حقیقت نسبتاً بڑے جذبۂ قربانی کی ضرورت پیش آئے گی۔اﷲ کے کام میں انسان کو نہ صرف اپنی جان ومال، وقت اوروسائل کی قربانی دینی پڑتی ہے، بلکہ اپنی پسند وناپسند اور اپنی محبت و نفرت کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔رسول اﷲ  صلی اﷲ علیہ وسلّم کا ارشادہے: ’’جس نے صرف اﷲ کی خاطر محبت کی اور صرف اﷲکی خاطر نفرت کی، اُس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی)

جب ہم صحابۂ کرام کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ: اﷲ اُن سے راضی ہوا ،اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے (رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ) کیوں؟کیوں کہ اُنھوں نے اپنی ذات کو   اس حد تک فنا فی اﷲ کردیا تھا کہ اﷲ کی پسند اُن کی پسند، اور اﷲکی ناپسند اُن کی ناپسند بن گئی تھی۔ اُنھوں نے نہ صرف اپنی جان و مال کو اﷲ کے سپرد کردیا تھا بلکہ اپنی پوری ذات اﷲ کے حوالے کردی تھی۔

اس اہم ترین نوعیت کی قربانی کو عموماً ہم نظر انداز کردیتے ہیںجس کے بغیر اتحاد واتفاق کے مسالے سے تشکیل پانے والی اُس اجتماعیت کا بننا انتہائی مشکل ہے جو تنہا اﷲکے کام کو آگے بڑھاسکتی ہے۔آئیے ہم قربانی کی ان اقسام پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں۔ ان میں محبت، نفرت، رشتہ داریاں، پسند وناپسند، ترجیحات وتعصبات، آرزو اوراُمنگ، آرام و راحت، اُمیدیں اور توقعات، رسوم و رواج، اقدار اور رویّے، عہدہ ومنصب یامحض اَنا اور خودپسندی شامل ہیں۔

کنبے کی محبت

کنبے کی محبت دُنیاکا طاقت ور ترین اور غالب ترین رشتہ ہے ۔مہد سے لحد تک والدین کی محبت، بچوںکی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت،بھائیوں اوربہنوں کی محبت، بلکہ دوسرے   رشتہ داروں کی محبت بھی ہماری زندگی کا محور بنی رہتی ہے۔ یہ محبتیں ہمارے تمام تعلقات پر غالب رہتی ہیں۔عام طورپر ہماری زندگی، ہمارا روزگاراورمال و متاعِ دُنیا کا حصول اُنھی کی محبت کی خاطر اور اُنھی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وقف ہوجاتاہے۔

ہم اپنے دل ودماغ، اپنی توجہ اور وفاداری اور اپنے وقت اور دولت پر کسی اور حق سے پہلے عام طورپر اس محبت کا حق تسلیم کرتے ہیں۔کنبے کی محبت کا تعلق ہمیں جس طرح جوڑے رکھتاہے اُس طرح کوئی اور تعلق نہیں جوڑ سکتا۔ہم اکثر لوگوںکو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ’مجھ پر سب سے پہلا حق میرے گھرانے کاہے‘یا کسی کو اس فخر کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں کہ’میری وفا اور میرا خلوص سب کچھ اپنے خاندان کے لیے وقف ہے‘۔ اس کے معقول دلائل ہیں۔ خاندان قدیم ترین  اور اہم ترین انسانی ادارہ ہے۔ انسان نے اب تک جن تہذیبوں اور ثقافتوں کی تشکیل کی ہے، یہ اُن سب کا سنگِ بنیادہے۔ایسی مؤثر اور گہری محبت اور ایسی غالب وفاداری کے بغیر تہذیبی اقدار، معیارات اور طور طریقے اگلی نسل کو منتقل کیے جاسکتے ہیں، نہ ان کو محفوظ اور برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ کنبے کے بغیر آدمی، آدمی ہی نہیں رہتا، برباد ہوجاتاہے۔ پھر کنبے کی محبت بھی اﷲ کی راہ میں قربان کردینے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے واضح دلائل ہیں:

اوّل:آپ اُس وقت تک اپنی ذات کو اﷲ کے سپرد نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی زندگی، آپ کی محبت اور آپ کی وفاداری پر اﷲ کا حق سب سے مقدّم اور سب سے اہم حق نہ بن جائے۔  یوں کنبے کا حق اﷲ کے حق کا مطیع ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ امکان ہے کہ کنبے کی محبت ایک صاحبِ ایمان کو اﷲ کے احکام کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے پر مائل یا مجبور کردے۔

دوم:کنبہ ہمیشہ سے وہ مضبوط ترین قلعہ رہا ہے جس میں مستحکم اقدار، عقاید، رسوم ورواج اور طرزِ حیات وغیرہ مورچہ بند رہتے ہیں۔ مسلمان بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں اور اپنے معاشرے میں ایک تبدیلی لاناشروع کرتے ہیں۔آپ مستحکم بنیادوںپر قائم طرزِ زندگی کو  چیلنج کرنا شروع کرتے ہیں اور اُسے اُکھاڑ پھینکنے کا آغاز کرتے ہیں۔باپ دادا کے طور طریقوں  سے بغاوت اوراُن میں تبدیلی لانے کے خلاف پہلی مزاحمت خاندانی محبت کی حدوں کے اندرہی سے پیدا ہوگی ۔یہ بالکل فطری بات ہے۔

سوم:جوکچھ آپ کے پاس ہے اُسی کے بل بوتے پر آپ جہاد کا عزم کرتے ہیں۔آپ کی ہرچیز، بشمول خاندانی محبت کے حق پر، جہاد کا حق دیگر تمام حقوق سے فائق ہونا چاہیے۔کوئی چیز  آپ کو جہاد کے راستے سے منحرف نہ کرسکے۔خاندانی محبت اگر کوئی رُکاوٹ نہ بنے، تب بھی   آپ کواپنے فرض کی تکمیل کی خاطرکئی طریقوں سے یہ قربانی دینی پڑے گی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم ہمیں آگاہ کرتاہے: وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸: ۲۸)،’’اورجان رکھوکہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اﷲ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔ اور ہمارے سامنے یہ بنیادی گہرا سوال رکھتاہے کہ تُم کس سے زیادہ محبت رکھتے ہو؟ اﷲ سے یا…؟

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَـآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo (التوبہ ۹:۲۴)،اے نبیؐ!کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جوتُم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ گھر جو تُم کو پسند ہیں، تُم کو اﷲ اور اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

خاندانی محبت کی قربانی مختلف صورتوں میں دی جاسکتی ہے، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ وہ اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری اور اُس کی رضا کے حصول کی جدوجہد میں کس انداز سے آڑے آتی ہے۔ پہلی مثال یہ ہے کہ خاندانی محبت مطالبہ کرتی ہے کہ والدین، خاندان کے بڑوں، باپ داداکے طورطریقوںیارسوم و رواج اورمعاشرے کی اطاعت کی جائے۔ اگرایسی اطاعت   اﷲ کی اطاعت سے متصادم ہو تو اسے ترک کردینا چاہیے۔ آپ کو اپنی عقل، اپنے ضمیر، اپنے عقیدے اور اﷲ کی طرف سے آنے والی ہدایت کا کہا ماننا چاہیے:

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط   اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ شَیْئاً وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۰)، ان سے جب کہاجاتاہے کہ اﷲ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیاہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا ط اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo (العنکبوت ۲۹: ۸)، ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتاتو ان کی اطاعت نہ کر۔

مزید یہ کہ آپ جن سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کے عقیدے پر ایمان لانے سے انکار کرسکتے ہیں، یاوہ اﷲ اوراُس کے کام کی کھلی مخالفت پر اُتر سکتے ہیں۔ایسے مخالف رشتہ دار حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں گے، آپ کا تمسخراُڑائیں گے اور تضحیک کریں گے،آپ کو ستائیں گے، گھر سے نکال دیں گے اور آپ کو خاندان سے خارج کردیں گے۔ آپ کو ایسے ضرررساں اور مخالف ارکانِ خاندان سے اپنی محبت اور تعلق کے تمام جذبات کی قربانی دینی ہوگی۔اﷲ کی محبت اور اﷲ کے دُشمنوں کی محبت ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتی۔اُن کی محبت سے مکمل دست برداری جیسی بڑی قربانی دے کر ہی آپ اپنے عقیدے کو اپنے دل میںپختہ کرسکتے ہیں اور اپنا شمار اﷲ کی جماعت (حزب اﷲ) میں کرواکر اُس کی رضا وخوش نودی اور اُس کی جنت کا انعام حاصل کر سکتے ہیں۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیجیے، جو اﷲ کی راہ میں قربانی کا نمونۂ کامل تھے۔ سب سے پہلے اُنھیں اپنے والد کو چھوڑنا پڑا، حتیٰ کہ اُن کے لیے دُعاے مغفرت کرنے سے بھی اﷲ کے حکم پر دست کش ہوگئے،اور آخرکار اﷲ کے حضور اپنے لختِ جگر کا ذبیحہ پیش کرنے کو بھی تیارہوگئے۔ یا سیدنا لوط علیہ السلام کی مثال لیجیے جنھیں اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنا پڑا، کیوں کہ وہ  اُن لوگوں کی  ہم درد تھی جنھوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کی اُس دعوت پر کان دھرنے سے انکارکردیا تھاجو     ایک اﷲ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے اُن کودی جارہی تھی۔ پھررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے  رفقا رضی اﷲ عنہم کی مثال لیجیے، باپ بیٹوں کے سامنے صف آرا تھے اور بیٹے باپ کے سامنے،    حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں بھی، مگر اُن کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔

وہ لوگ جو ایمان لانے سے محض انکار کرتے ہیںاور مخالفانہ سرگرمیوں میں فعّال نہیںہوتے، اُن کے معاملے میں آپ کی قربانی کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اُن سے آپ کو اپنی دوستی ختم کردینی چاہیے، لیکن سلوک عادلانہ اور کریمانہ کرنا چاہیے۔ اُلفت و محبت کے تمام تعلقات کا خاتمہ انتہائی اقدام ہے، مگر ان تعلقات سے چھلانگ یک لخت ہی لگانی ہوگی۔ جولوگ آپ کے عقائد کو پسند نہیں کرتے یا اُن سے اتفاق نہیں رکھتے، اور اس بات کو راز بھی نہیں رکھتے،ایسے اعزہ و اقارب کے ساتھ مستقلاً رہنا آپ کوزیادہ مشکل میں مبتلا کرسکتا ہے اور بہت بڑی قربانی کا تقاضاکرتا ہے۔کیوں کہ جب آپ کے عقیدے اور ایمان کو بُرا بھلا کہا جائے گا تو آپ کو شدید اذیت ہوگی اس کے باوجود آپ کو ان کے ساتھ تحمل و برداشت سے پیش آنا ہوگا۔

ضروری نہیں کہ آپ کے اہلِ خاندان آپ کے نصب العین کی مخالفت ہی کریں، یا اس معاملے میں غیر جانب دار رہیں، وہ ہمدرد بھی ہو سکتے ہیں۔اس کے باوجود اُن سے محبت کے تقاضوں اور اﷲ سے محبت کے تقاضوں میں ٹکراؤ، یا اختلاف پیدا ہوسکتاہے۔ایسی صورتوں میں   یہ بات نہ بھولیے کہ خود اچھے مسلمانوں سے محبت بھی بعض اوقات اﷲ کی محبت کی راہ سے بھٹکا سکتی ہے، لہٰذا قربانی کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے۔

اکثراوقات آپ کو مختلف اقسام کے نرم و نازک او رلطیف دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان کی مزاحمت کے لیے آپ کو متعدد طریقوں سے مسلسل قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان میں سے تمام صورتیں اتنی سادہ اور واضح نہیں ہوتیں کہ آپ آسانی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔کبھی ان کی ناپسندیدگی اور نامنظور ی آپ کے سامنے بظاہر یا بباطن بڑے سادہ انداز میں پیش کی جائے گی، مگراسے بھی رد کرنا ہوگا۔بعض اوقات التجائیں اور مطالبات پیش کرتے ہوئے محبت کا واسطہ دیا جائے گا، حقوق کاواسطہ دیاجائے گا اور اختیارات کاواسطہ دیا جائے گا، سب کا اسلام سے جواز بھی پیش کیا جائے گا،آپ کو ان سب کا مقابلہ مناسب طریقے سے کرنا ہوگا۔بیوی بچے محبت اورالتفات کے طالب ہوں گے، آپ کو سب میں توازن رکھنا ہوگا۔

ایسی صورت میں آپ کواُنھیں خوش رکھنے کی ضرورت پر اﷲ سے اپنے عہد کو غالب رکھنا ہوگا، اُن کا دِل نہ دُکھائیں، اُنھیں مایوس نہ کریں اور اُن کی اُمیدوں کو رد نہ کریں۔ بصورتِ دیگر آپ کو اُن سے ملنے والی مدداور تقویت سے دست کش ہوجانا پڑے گا اور اُن کی گرم جوشی اور جذباتی محبت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔آپ کو بڑے پیجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اگر     وہ اﷲ کے کام میں آپ کی راہ کی رکاوٹ بن گئے تو ایک مقام پر پہنچ کر آپ کو اپنے ان فرائض  ِذمہ داریوں، خدمت گزاری اور اُن کے حکم کی تعمیل سے ہاتھ اُٹھا لینا ہوگا۔

دوستی

افراد کے مابین قائم ہونے والے الفت و محبت کے رشتوں میں سے ایک بڑا رشتہ دوستی کا تعلق ہے۔دوستیاں ہم مزاجی، مشترکہ مفادات و مقاصد اور مشترکہ اہداف کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ مسلمان کی حیثیت سے آپ کا ایک ہی ہدف اور مقصد ہے: اپنے پورے وجود کو مکمل طورپر  اﷲ کے سپرد کردینا، لہٰذا بہت سی دوستیوں کی آپ کو قربانی دینی ہوگی اور اسی طرح بہت سی دُشمنیوں اورنفرتوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس نئے دوست بنانے ہوں گے۔کوئی شخص جسے آپ کبھی پسند نہیں کرتے تھے، اُس کے لیے آپ کے دِل میں جگہ نکل آئے گی، وہ آپ کو عزیز ہوجائے گا۔

خاندانی رشتے ہوں یا دوستیاں،سماجی تعلقات زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اپنی مدد وتعاون سے وہ آپ کو ضروری کمک اور طاقت فراہم کرتے ہیں۔آپ کو ایسی حیات بخش کمک اور سماجی تقویت کی قربانی دینی ہوگی کیوں کہ دوستیاںٹوٹ جاتی ہیں، رشتے بکھر جاتے ہیں اورحمایت سے ہاتھ کھینچ لیا جاتاہے۔محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جو صادق و امین اور قابلِ احترام رہنما تھے، یکایک (نعوذباﷲ) ’فاترالعقل‘، ’دیوانے‘ اور’ لوگوں کے دُشمن‘کہے جانے لگے تھے۔

نقطۂ نظر اور موقف

دوستیوں اور رشتہ داریوں کی طرح آپ کی پسند وناپسند کا بھی آپ کی زندگی کے ہرحصے پر غالب اثر پایاجاتاہے۔ اس میں آپ کے خیالات، آپ کا نقطۂ نظر، آپ کا ذوق، آپ کامزاج، آپ کے جذبات واحساسات اور آپ کے رویّے اورآپ کا برتاؤ بھی شامل ہے۔ بسا اوقات   ان میں سے ہرایک کی اپنے اپنے طریقے سے قربانی دینی پڑتی ہے۔

اپنا نقطۂ نظر اور اپنے خیالات آپ کو ہمیشہ عزیز رہتے ہیں۔ اپنے نظریے سے آپ کی جذباتی وابستگی صرف اسی صورت میں پختہ ہوتی ہے جب آپ اپنی زندگی کے نصب العین سے عہدِوفا استوار کرلیتے ہیں۔اس کے بعد آپ کے اندر صحیح اور غلط یا حق اورباطل میں امتیاز کی ایک طاقت وَر حِس پیداہوجاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہروقت یہ خیال آپ کے ذہن میں رہتاہے کہ اندازِ نظرصرف ایک ہی ہو سکتا ہے: صحیح یا غلط، اور آپ کو ہمیشہ درست طرزِ فکر اختیار کرناہے۔ تاہم آپ کے نظریات، کسی خاص معاملے پر آپ کی حکمت عملی اورآپ کے کام کرنے کا طریقہ، ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ ایسی صورت میں آپ کو اُنھیں چھوڑنا ہوگا، آپ کو اپنے ان نظریات سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی، یا اُن نظریات کے خلاف کام کرناہوگا۔لیکن جب تک آپ کسی معاملے میں اﷲ کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہ دیکھیں، آپ کو اپنی راے کی قربانی دینی ہے۔اجتماعیت کی زندگی کوطاقت ور بنانے کے لیے دی جانے والی یہ قربانی مال ودولت کی قربانی سے زیادہ اہم ہے۔

جذبات و احساسات

بعینہٖ آپ کو اپنے جذبات و احساسات بھی بے حد عزیز ہوتے ہیں۔بسا اوقات آپ کو اپنے ایسے مشاغل ترک کردینے پڑتے ہیں‘ جو اﷲ کی رضا وخوش نودی کے کام نہیں ہیں،خواہ وہ آپ کو مرغوب ہوں، آپ اُن میں کشش محسوس کرتے ہوں اور اُنھیں مفید سمجھتے ہوں، جب کہ بعض اوقات صرف اﷲ کی رضا وخوش نودی کی خاطر آپ کو ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جنھیں آپ پسند نہیں کرتے اور جو آپ کے مزاج کے خلاف ہیں۔ کئی مواقع پر آپ کو اپنے بولنے کی خواہش کو دبانا ہوگا اور خاموش رہنا ہوگا خواہ اپنی بات کہہ دینے کا کتنی ہی شدّت سے دِل کیوں نہ چاہ رہاہو۔ اور کسی موقع پر آپ کا خاموش رہنے کا جی چاہ رہا ہوگامگر بولنا پڑے گا۔ آپ کوشدید غصہ آئے گا اور انتقام کا جذبہ جوش ماررہا ہوگا، برابھلا سنانے کی خواہش پیدا ہورہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی زبان قابو میں رکھنی ہوگی۔ بعض مواقع پر آپ کو تنہائی اور سکون کی ضرورت محسوس ہورہی ہوگی مگر آپ کو بھرپور سماجی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں میں منہمک ہونا پڑے گا۔ اور بعض اوقات آپ کا دل لوگوں سے ملنے جُلنے کو چاہ رہا ہوگا، مگر اکیلے رہنا پڑے گا۔آپ کے اندر ’کچھ حاصل کرلینے‘ یا ’کچھ بن جانے‘ کی اُمنگ موجیں ماررہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی ان آرزوؤں سے مکمل طورپر دست بردار ہونا پڑے گا۔ آپ کو اپنی ذاتی خواہشات اور ذاتی منصوبے ردّی کی ٹوکری کی نذر کردینے ہوںگے۔

ذوق اور مزاج

بہت سے عام معاملات میں بھی آپ کو اپنے ذوق اور مزاج کی قربانی دینی ہوگی۔ آپ کو ایسے انداز سے زندگی بسر کرنے، کھانے پینے، سونے اورپہننے پر مجبور ہونا پڑے گا جو آپ کو پسند نہیں، آپ کے مزاج کے مطابق نہیں، یاآپ کی ترجیحات اور آپ کے طرزِ زندگی سے لگّا نہیں کھاتا۔ آپ کو یہ طرزِ حیات قبول کرنا ہوگا، بغیرناک بھوں چڑھائے، برضا ورغبت، دوسروںکی دِل شکنی کیے بغیراوراُن کے لیے مشکلات اور انتشار پیدا کیے بغیر۔

اَنا اور خود پسندی

اورآخرکار آپ کو اپنی انا، اپنی خود پسندی، اپنے متعلق حسین تصورات اور ان تصورات سے اپنی محبت، سب کچھ قربان کردینا ہوگا۔ یہ ظاہری اور باطنی بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اپنے آپ کو فنا کردینا صرف راہِ سلوک ہی کا ایک مرحلہ نہیں، اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے رستے پر چلنے   کے لیے جو واحد چیز درکار ہے وہ بھی یہی ہے کہ آپ کواپنی اَنا، اﷲ کی رضا کی خاطر فنا کردینی ہوگی۔ ہماری خود پسندی، ہمارے نزدیک اتنی اہم چیز بن جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں ضد، ہٹ دھرمی، خودسری ، خودستائی، ڈھٹائی، اور دوسروں کی تذلیل جیسی بُری عادات پروان چڑھ جاتی ہیں۔ اپنی  اَنا اور خود پسندی کی قربانی دینا زندگی کا سب سے کٹھن کام ہے، مگریہ کرنا ہی ہوگا۔

مسلسل اوردائمی قربانیاں

بعض قربانیاں زندگی میں ایک ہی بار دینی ہوتی ہیں، جیسے جان کی قربانی۔ کچھ قربانیاں بہت معمولی ہوتی ہیں مگر مسلسل دینی پڑتی ہیں۔ ان کے بعض غیر محسوس پہلوؤں کے سبب ان کا تسلسل ہی انھیں اہم بنادیتاہے۔پہلی بات تو یہ کہ ان کے معاملے میں آپ کو ہروقت چوکس اور  چوکنا رہنا پڑتاہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کا موقع آئے اور آپ اونگھ رہے ہوں، بے اعتنائی سے بیٹھے ہوئے ہوں،غفلت اور بے دھیانی کی کیفیت میںہوں، یا موقع پہچان نہ سکیں۔ دوسرے یہ کہ ان قربانیوں کے لیے عزمِ مسلسل و متواتر درکار ہوتاہے،جس کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ قربانیاں اتنی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں کہ ان کے بَل پر کوئی سُورما نہیں بن سکتا، مگر کردار سازی، معاشرتی نظم وضبط اور کامیابی کے لیے ان کی اہمیت کسی لحاظ سے کم نہیں۔ مسلسل گرنے والا پانی کا ایک معمولی قطرہ بھی پتھر کی چٹان میں سوراخ کر دیتاہے۔چوتھے یہ قربانیاں بحران اور مصیبت کے وقت نہیں طلب کی جاتیں، بلکہ ان کی ضرورت عام حالات اور روزمرہ زندگی میں پیش آتی ہے۔اسی وجہ سے معمولی ہونے کے باوجودیہ قربانیاں پیش کرنا بہت دُشوار کام ہے۔کیوں کہ شدید بحران کے وقت، جب کسی بڑے چیلنج کا سامنا ہوتو کوئی بڑا اعزاز ملنے کی توقع پر اپنی اندرونی صلاحیتوں کو اُبھارنا، اپنے عزم و ارادے کو جگانا اور اپنی بہترین مساعی کو بروے کارلے آنا نسبتاً سہل ہوتاہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ ایک طرح سے آپ کو زندگی کے  ہرلمحے چھوٹی چھوٹی___ بہت چھوٹی چھوٹی___ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کیوںکہ زندگی کے ہرہرقدم اور ہرہر ثانیے میں آپ کو دوچیزوںمیں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، خواہ یہ کتناہی چھوٹا معاملہ کیوں نہ ہو۔ اﷲ کی رضا و خوش نودی کی خاطر کسی بھی پہلو کا انتخاب کرنے کا مطلب    یہ ہے کہ آپ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینے کا فیصلہ کررہے ہیں،یہاں تک کہ اگر آپ نمازِ فجر اداکرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ اپنی نیند اور گرم بستر کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔

ایک ایسے پہاڑی راستے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے جس میں گہری کھائیاں آتی ہوں، آڑی ترچھی ڈھلوانیں ہوںاور اندھے موڑ پڑتے ہوں، آپ زیادہ محتاط رہیں گے تاکہ محفوظ ڈرائیونگ کرسکیں اور تمام مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں۔ مگر کسی ایسے راستے پر جو ہموار ہو، حادثات سے محفوظ ہو، اُس میں کسی موڑکاسامنا نہ کرناپڑتاہو، کوئی رکاوٹ نہ پیش آتی ہو اور کوئی اُترائی یا چڑھائی نہ ہو تو اُس راستے پر آپ کے بے پروائی اور غفلت سے ڈرائیونگ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔یوںآپ کو کوئی حادثہ پیش آسکتاہے، یاآپ اپناکوئی موقع ضائع کر سکتے ہیں، یا اپنے راستے سے بھٹک سکتے ہیں،یابے دھیانی میں اپنی منزل سے دُور نکل سکتے ہیں۔

گویا روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر قربانیاں دینی پڑتی ہیں___ گھر میں، دفترمیں، بازار میں، معاشرتی تعلقات میں، تنظیمی سرگرمیوں میں، یہاں تک کہ تنہائی میں بھی___جن سے غفلت ہوسکتی ہے۔یہ قربانیاں دینا زیادہ دُشوار ہے، محض اِس وجہ سے کہ انھیں قربانی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔

کامیابی کے امکانات کی عدم موجودگی میں

جب دُنیاوی کامیابی سامنے نظر نہ آتی ہو تو ایسی صورت میں دی جانے والی قربانیوں کی مزید جہتیںسامنے آتی ہیں۔جب آپ کی جدوجہد کے ثمربار ہونے کے امکانات نظر آرہے ہوںتو نسبتاً زیادہ آسان ہوتاہے کہ آپ اپنا وقت، اپنا مال اور اپنی زندگی قربان کردیں، اپنی راے سے دست بردار ہوجائیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں جن کو آپ پسند نہیںکرتے یا اُن طریقوں کو اختیار کرلیں جو ذاتی طورپر آپ کو ناپسند ہیں۔ مگر جب کامیابی کے امکانات موہوم یا معدوم ہوںتویہ تمام کام انتہائی مشکل ہو جاتے ہیں۔ مایوسی کے لمحات میں، جب کامیابی کی کوئی اُمیدنظر نہ آ رہی ہویا شکست واضح انداز سے دکھائی دے رہی ہو، زیادہ امکان یہی ہوتاہے کہ لوگ اپنے وقت اور مال سے چمٹے رہیں، اپنی راے پر اصرار کریں اور اپنے ناپسندیدہ افراد، یا طورطریقوں کو ایک تنازع بناکر کھڑا کردیں۔ ایسی صورتوں میں دی جانے والی قربانیوں کا بہت بڑا اجر ہے۔

قربانی کیسے دی جائے؟

آپ اپنے اندر کی اُن صلاحیتوں کو کیسے بیدار کریں گے جو آپ میں قربانی کا جذبہ اور استعداد، پیدا کریں، پروان چڑھائیں اور برقرار رکھیں؟ آپ سے جوقربانی طلب کی جائے گی  اُس کے لیے اپنے آپ کو کس طرح آمادہ وتیار کریںگے؟

ان میں سے کچھ طریقوں سے تو آپ کو قربانی کی اقسام پر بحث کے دوران ہی آگاہی ہوچکی ہے۔تاہم کچھ بنیادی اندرونی صلاحیتیں ایسی ہیں جن پر زیادہ زور دینے اورجنھیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور جو آپ کو خود اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ مگر سب سے پہلے ہم چند ایسے بنیادی اُصولوں کو دُہرالیتے ہیں جن پر ان صلاحیتوں کا انحصار ہے:

اوّل، قربانی اُسی صورت میں قربانی کہلائے گی جب آپ کوئی ایسی چیز قربان کریں جس کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے، یا جسے آپ عزیز رکھتے ہیں۔ایسی چیزوں کی قربانی آپ اُن سے زیادہ قیمتی، زیادہ محبوب،زیادہ پسندیدہ یا زیادہ ضروری اورزیادہ اہم چیزوں کی خاطر دیتے ہیں۔

دوم، آپ جس چیز کی قربانی دیتے ہیں اُس کی ظاہری شکل خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو___ وقت، مال، زندگی، پسند و ناپسند، نقطۂ نظر ___ آپ اصل قربانی ان چیزوں کی نہیں،بلکہ ان چیزوںکی محبت اور آپ کے نزدیک ان چیزوں کی جو قدر و قیمت ہے، اُس کی قربانی دیتے ہیں۔

سوم، اُس صورت میں ان چیزوں کی قربانی دینے پر آپ کے عزم و آمادگی میں مزید اضافہ ہوگا جب اﷲ کی محبت اور اُس کے انعامات کی قدروقیمت آپ کی نظر میں انتہائی شدّت و قوت کے ساتھ بڑھتی جائے گی اور جن چیزوں کی قربانی آپ دے رہے ہیں، وہ ان کے مقابلے میں آپ کو بے قیمت اور حقیر نظر آنے لگیں گی۔

اللّٰہ سے محبت

محبت ہر شے کی بنیاد ہے۔ لہٰذا آپ بخوبی ادراک کرسکتے ہیں کہ قربانی دینے کے لیے جو اندرونی استقامت درکار ہے، اُس کے لیے آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے___اﷲ سے محبت کی۔ آپ کے دل میں اﷲکی محبت کتنی ہے؟ کیا آپ دُنیاکی ہر چیز سے زیادہ اُس سے محبت کرتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتاہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط(البقرہ ۲: ۱۶۵)، ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایک سادہ مگر انتہائی معنی خیز سوال کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ  تمھیں کون زیادہ عزیز ہے؟اﷲ، اُس کا رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد یا باپ، بیٹے، بیویاں، بھائی، مال و دولت، گھربار، تجارت اورکاروبار ؟ (التوبہ ۹:۲۴)۔ صرف ایسی محبت سے جذبۂ قربانی خارج سے وعظ و نصیحت کی تحریک پر کی جانے والی نیکی کے بجاے اپنی اندرونی لگن سے کیے جانے والے عمل میں بدل جائے گا۔ تبھی آپ ایمانی تقاضوں کی تکمیل پر حقیقی خوشی اور مسرت سے سرشار ہوسکیں گے۔یاد رکھیے کہ ایمان بھی دو قسم کا ہوتاہے: ایک ہماری زبان پر رہتاہے اور یہ ایسا ایمان ہے جو بوجھ بن جاتا ہے۔ایک ایمان وہ ہے جو ہمارے دِل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتاہے اور یہ وہ ایمان ہے جو خوشی، اطمینان اور لطف کا باعث بنتاہے۔ جب یہ ایمان حاصل ہوجائے تو اگر آپ سے وقت، مال ودولت اورزندگی کی یا پسندوناپسند اور نقطۂ نظرکی قربانی طلب کی جائے گی تو آپ یہ چیزیں بخوشی قربان کردیں گے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے پاس ہوں اُس نے ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا: (اُن میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ) وہ دُنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اﷲ اور اُس کے رسولؐ سے محبت رکھتاہو‘‘… (بخاری، مسلم)

اﷲ سے ایسی محبت کس طرح کی جائے کہ وہ ہرشے کی محبت سے بڑھ جائے؟ اس مقصد کے لیے کوئی جامع فارمولا ہے، نہ ہوسکتا ہے، مگر چند چیزیں کارگر ہوسکتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز آپ کی اُن اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی جو قربانی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے درکار ہیں۔

ذکر الٰھی

ہروقت یاد رکھیے کہ اُس نے آپ کو کیسے پیدا کیا ہے، کس طرح آپ کی ضرورت کی ہرچیز آپ کو مہیا کی ہے، وہ کتنا رحیم وکریم ہے۔ اپنے وجود پر نظر ڈالیے، اپنے ارد گرد کی کائنا ت کا مشاہدہ کیجیے، آپ کو ہر طرف اُس کی رحمت ورافت، اُس کی حکمت اوراُس کی شان و شوکت نظر آئے گی۔ جب آپ اُس کی ان نشانیوں پر غور وفکر کریں گے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تو اُس سے آپ کی محبت میں اضافہ ہوگا۔ اُس کے ذکر کا ایک جزو اُس کی طرف رجوع کرنا اور اُس سے محبت کرنے میں اُس سے مدد چاہنا بھی ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے اس کے متعدد طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔

جب اورجتنا ممکن ہو، اﷲکا ذکر کریں، یہ بنیادی اور لازمی عمل ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کو اﷲکی محبت کے حصول میں مدد ملے گی، بلکہ جذبۂ قربانی بڑھانے کے لیے آپ کو جن دیگر وسائل کی ضرورت ہے وہ بھی حاصل ہوں گے، جیسے اُس کے حاضر وناظر ہونے کا احساس، اُس سے ملاقات اوراُس کے انعامات کی قدروقیمت کا حقیقی ادراک، اس دُنیاوی زندگی کی حقیقت اور دُنیا کی حیثیت کافہم، اُس کے حضور شکرگزاری اورعجز وانکسار کا اظہار، اس خوف سے لرزتے رہنا کہ اُس کا حق کبھی ادا نہیں کیاجاسکتا،اُس کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادہ اور تیار رہنا۔

احساسِ حضوری

زندگی ایسے گزاریئے جیسے آپ اُس کے سامنے موجود ہیں۔یاد رکھیے کہ: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط(الحدید ۵۷:۴)،’’وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تُم ہو‘‘۔جب آپ سے قربانی طلب کی جائے یا آپ از خود قربانی پیش کریں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ اُس کی نظروں کے سامنے ہیں۔ یہی بات وہ آپ سے ہروقت ذہن میں رکھنے کے لیے کہتاہے: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور ۵۲:۴۸)، ’’یقینا تُم ہماری نظروں میںہو‘‘۔ جب آپ اس یقینِ کامل کے ساتھ کوئی قربانی پیش کریں گے کہ جسے پیش کررہے ہیں  وہ آپ کو دیکھ رہاہے اوراُس کادیاہوا اجر کئی گُنا زیادہ اور ابدی ہوگا، تو یہ آپ کے اندر وہ قوتِ محرکہ اور توانائی پیدا کردے گا جو آپ کو درکار ہے۔

یہ احساسِ حضوری کہ ہم اُس کے سامنے موجود ہیں، اُس کی نظریں ہم پر ہیں، وہ ہماری باتیں سُن رہاہے، جب ہم اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو مالک ہماری نگرانی کررہاہے اور بڑی سخاوت اور مہربانی کے ساتھ ہمیں اجرو ثواب سے نواز رہاہے___ یہ احساس جذبۂ قربانی کو اُبھارنے کا اوّلین ذریعہ ہے۔اس سے اﷲ پر بھروسا بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہے تو آپ اپنے تمام معاملات اُسی کے سامنے پیش کریں گے۔

شوقِ ملاقات

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط(اٰل عمران۳:۱۸۵) ’’آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے۔‘‘ موت ہر شے کا اختتام نہیں ہے، اگلے مرحلے سے قبل کا وقفہ ہے۔اُ س مرحلے میں ہم اﷲ کے رُوبرو کھڑے ہوں گے۔

ہم میں سے کوئی شخص مرنا پسند نہیں کرتا، یہ انسانی فطرت ہے،مگرہمیں مرنا ضرورہے، اورموت کے بعدہی ہم پر ابدی زندگی اوراُس کی برکتوں کے دروازے کھلیں گے۔اگر آپ اس دُنیاوی زندگی کی حیثیت اور حقیقت کو سمجھتے ہیں اور آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کو اپنا بہترین اجر اﷲ سے ملاقات پر ملے گاتو آپ کے اندر دوقسم کے احساسات فروغ پائیں گے: ایک، اﷲ سے ملاقات کا شوق، تاہم اپنے اعمال کی کوتاہیوں کے سبب ایک خوف بھی دِل میں جاگزیں ہوگا۔ دوسرے، اِس دُنیا کی ہر چیز اﷲ کی راہ میں قربان کردینے پر آمادگی کا جذبہ جس کا اجر آپ کو آخرت میں ملے گا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم ایک دُعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اﷲ! مجھے اپنے وجہِ کریم کی زیارت کی لذت سے اوراپنی ملاقات کی تمنا سے بہرہ مند فرما‘‘ ۔(نسائی، احمد، حاکم)

شکر گزاری اور عجز

قربانی کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، بڑی ہو یا چھوٹی، مادّی ہو یا غیرمادّی اسے ممنونیت اور عاجزی کے ساتھ پیش کیجیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اﷲ کی راہ میں دینے سے اپنے آپ کو مضمحل اور درماندہ محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔پھر کہنے لگتے ہیں کہ:’’ہم تو پہلے ہی بہت وقت    دے چکے ہیں، ہم پہلے ہی بہت مال دے چکے ہیں، اب ہم اور کتنادیں؟ہم پہلے ہی بہت قربانی دے چکے ہیں، اب ہم سے مزید کیا چاہیے؟ایسا صرف اُسی صورت میں ہوتا ہے جب قربانی صرف ایک اﷲ کی رضا وخوش نودی کے حصول کے لیے نہ دی جارہی ہو، بلکہ کسی اور جذبے کے تحت دی جارہی ہو، یا جب آپ کو اس حقیقت کا احساس نہ ہوکہ اگرکچھ قربانی دینے کا موقع مل رہاہے توصرف اُس کے فضل و کرم سے مل رہاہے۔ہرقربانی عاجزی اور انکسار کے ساتھ پیش کیجیے۔

یہ بات صاف طورپر سمجھ لینی چاہیے کہ آپ جو چیز پیش کررہے ہیں وہ کسی فرد یاکسی تنظیم کو نہیں پیش کررہے ہیں۔ نہ وہ چیز آپ اﷲ کو ہدیہ کررہے ہیں، کیوں کہ وہ اتنا رحیم وکریم اورفیاض ہے کہ آپ سے کہتاہے کہ جوکچھ تُم اﷲکی راہ میں دیتے ہو وہ قرض ہے، جس کا کئی گُنا وہ تم کو لوٹادے گا۔ دراصل آپ ہر چیز اپنے آپ ہی کو دے رہے ہوتے ہیں۔کیاکوئی شخص اپنے آپ ہی کو مزید اور مزید دیتے رہنے سے تھک سکتا ہے؟

یہ خود غرضی نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہماری اُخروی خوش حالی اﷲ کے آگے سر جھکانے میں مضمر ہے۔قربانی کے ذریعے سے ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی بہتری لانا چاہتے ہیںاورہمیں آخرت میں بھی ایک کامیاب وکامران ابدی زندگی کی تمنا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہر وہ قربانی جو ہم دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو ہم اﷲ کی راہ میں قربان کرتے ہیں، ہماری قوم کومزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اﷲ کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے آپ کو قربانی دینے کاموقع دیا، آپ کو اپنے کام کے لیے طلب کیا، اور اپنی راہ میں قربانی دینے کی توفیق سے نوازا۔ اس کے برعکس بھی ہو سکتاہے۔ ہم بہکتے پھرنے کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ ہمیں مال کی قربانی دینے کا موقع ہی نہ ملے، یوں ہم ابدی انعامات کے حصول سے محروم رہ جائیں۔ آپ کو ہرقربانی جذبۂ تشکر اور احساسِ ممنونیت کے ساتھ دینی چاہیے۔ اُس کی طرف قبولیت کی آس کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔

عجز وانکسار بھی ضروری ہے۔کبھی یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ بہت ہوگیا۔جوں ہی اس بیماری کے جراثیم آپ کے دل میں داخل ہوں گے کہ آپ نے بہت کچھ کرلیا ہے، سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ آپ جوکچھ قربان کر رہے ہیں، وہ اﷲ کی طرف سے عائد ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ خیال رہنا کہ جتنی بھی قربانی دی جائے وہ کبھی کافی نہیں ہوگی، قربانی کی بنیاد ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ (المومنون ۲۳:۶۰)،’’وہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں ،مگر اُن کے    دل لرزتے رہتے ہیں‘‘۔

اندرونی قوتِ محرکہ

وہ بنیادی قوتِ محرکہ جو آپ کو قربانی دینے پر آمادہ کرے خود آپ کے اندر موجود رہنی چاہیے۔ یہ اُمنگ اندر سے اُٹھنی چاہیے۔ اس کی جڑیں آپ کے قلب وروح کی گہرائیوں میں پیوست ہونی چاہییں۔نہ گروہی فیصلہ،نہ دیکھا دیکھی، نہ تنظیمی پابندی، نہ کوئی اور خارجی دباؤ آپ کو قربانی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے اُکسائے۔ان میں سے ہرچیز اہم ہے اور ہمارے رویّوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن اگر اﷲ کی رضا کے سوا کسی اور مقصد سے قربانی پیش کی جائے تو بڑے پیمانے پر قربانی دینا، یامسلسل قربانی دیے جانا، ہرقسم کے حالات میں انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ قربانی کے لیے عزم و ارادہ اور جذبہ اندر سے اُبھرنا چاہیے۔

برضا و رغبت فیصلہ

قربانی دینے کا فیصلہ برضا و رغبت کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خود اپنے فیصلے کے تحت ، آپ کے پاس جوکچھ بھی موجود ہے اُس کی قربانی، اﷲ کی رضاکی خاطرپیش کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ کو راضی برضاے الٰہی ہوجانا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قربانی پیش کرتے ہوئے کسی کوزحمت اور تکلیف کا احساس بھی نہیں ہونا چاہیے۔جس وقت آپ اپنی محبت،اپنی پسند یا اپنی قابلِ قدر چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، تو تکلیف محسوس ہونا بشری تقاضاہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر آپ کوئی شے قربان کرتے ہوئے تکلیف نہ محسوس کریں تو وہ قربانی کہے جانے کی مستحق ہی نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر سے محض وہ چیز پھینک رہے ہیں جو آپ کے لیے بے کار ہے۔اس کے بجاے آپ کو جس قدر زیادہ دُکھ ہورہا ہوگاوہ اُتنی ہی قیمتی قربانی ہوگی۔مگر اس تکلیف اور دُکھ کی پشت پر آپ کا عہدِ وفا ہے۔وہ عہد جو آپ کو اپنی قیمتی چیز اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان کردینے کا ہے۔ اﷲ کی رضا حقیقتاً سب سے بڑھ کر قیمتی چیز ہے۔ آپ یہ تکلیف اور دُکھ اﷲ سے اپنی محبت کی وجہ سے برضا ورغبت برداشت کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے دل میں اﷲ کی محبت ہر چیز کی محبت سے بڑھ کر ہے۔

دو استعانتیں

ہماری مدد ومعاونت کے لیے دو بنیادی چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو ہماری اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں، میں ان کو آپ کے سامنے پہلے ہی رکھ چکا ہوں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۱۵۳)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔

نماز کیاہے؟یقینا نماز ایک رسمی عبادت ہے۔چند جسمانی حرکات وسکنات پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ الفاظ بھی شامل ہیں جو ہم ابتدا سے آخرتک پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن نماز کا مجموعی مقصد اﷲ کا ذکر کرنا اور اﷲ کویاد رکھنا ہے۔یہی بات قرآن صاف اور واضح الفاظ میں کہتاہے:  وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ ۲۰:۱۴)، ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔

صبر جامع المعانی لفظ ہے۔لغوی طورپر صبرکے معنی ہیں: رُک جانا اور بازرہنا۔ قرآن میں یہ لفظ وسیع مفاہیم میں استعمال ہوا ہے اور کئی صفات کا احاطہ کرتاہے: اپنے آپ کو روکے رکھنا،  ارادہ کرنا، تحمل اورجذبۂ قربانی، نظم وضبط اورثابت قدمی۔یہ آپ کو اﷲ سے، اپنے کیے ہوئے عہد سے اپنے بھائیوں سے اورآپ کو اپنی اُخروی فلاح سے جوڑے رکھتاہے۔ نماز اور صبر کا دامن تھامے رکھنے سے آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو قربانی کے لیے ضروری ہے۔

دو مثالی پیکر

آخر میں ہمیں قربانی کے دو مثالی پیکروں پر نظر ڈالنی چاہیے۔

اُن میں سے ایک ہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔ اُن کو ہرقابل تصورطریقے سے آزمایش میں مبتلاکرکے جانچا گیا۔ اُن کے والد ، اُن کا خاندان، اُن کے زمانے کی مذہبی اور سیاسی طاقتیں، سب اُن کے مخالف تھے۔اُنھوں نے سب کو چھوڑ دیا۔ اُنھیں آگ کے الاؤ میں پھینک دیا گیا۔اُن کو گھر سے نکال دیا گیا۔اُنھیں صحراؤں اور جنگلوںمیںبھٹکنا پڑا اور آخرکار اُنھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی۔ یہی کام غالباً دشوار ترین کام تھا۔وہ نہ صرف اپنے پیارے بیٹے کی قربانی دے رہے تھے بلکہ تسلیم شدہ انسانی اخلاق کی بھی قربانی دے رہے تھے۔تاہم، حتمی بات یہ ہے کہ تمام اخلاقیات  اﷲ کی مرضی کی تابع ہیں۔اُس کو راضی رکھنا سب سے بڑا اخلاقی پیمانہ ہے۔ یقینا یہ صرف اﷲ کے نبی کا منصب ہے کہ وہ اُس کے براہِ راست حکم پر اﷲ کے متعین کردہ اخلاق سے ماورا یہ انتہائی قربانی اُس کے حضور پیش کردے۔تاہم، بعض مواقع پر ہم میں سے بعض کو بھی اﷲ کے واضح احکام کے مقابلے میں اپنے ذاتی اخلاقی فیصلوں کو معطل کرنا پڑتاہے۔ ان قربانیوں اورآخری قربانی کو پیش کرنے کے بعد ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ’امام النّاس‘ بنانے کا اعلان کیاگیا:

وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماًط (البقرہ ۲:۱۲۴)، یاد کروجب ابراہیمؑ کو اُس کے رب نے چند باتوںمیں آزمایا اور وہ اُن سب پر پورا اُترگیا، تو اُس نے (اﷲنے) کہا: میں تجھے سب انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔

اگرہم یہ کہتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے لیے اُٹھے ہیں، جہاں اسلام بنی نوع انسان کا رہبرو قائد ہوگا تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی طورپر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اُسوۂ مبارکہ کی پیروی اور تقلید کرنی چاہیے۔

دوسرانمونہ سیدنا ونبینا محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کاہے۔ خواہ وہ وادیِ مکہ ہو، جہاں آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، یا وادیِ طائف ہو، جہاں آپؐ پرسنگ باری کی گئی، یا اُحد کا میدان ہو، جس میں آپؐ  کے دندان مبارک شہید کردیے گئے، یامدینے کی گلیاں ہوں، جن میں آپؐ  کے دشمنوں نے آپؐ  کے خلاف افترا پردازانہ پروپیگنڈا کیا، آپؐ  نے ہمارے لیے قربانی کی افضل ترین مثالیں چھوڑی ہیں۔ایساہی آپؐ  کے صحابہ کرامؓ نے بھی کیا۔

بنیادی اُصول

جیسا کہ ہم پہلے جائزہ لے چکے ہیں، بنیادی طورپر قربانی کا مطلب جانور کاذبح کرنا ہے۔ حج کے دوسرے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا محمدصلی اﷲ علیہ وسلّم کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔حج خود ایک رسمِ عبودیت ہے جس میں انتہائی سخت مشقت بھری قربانیاں شامل ہیں۔ یہاں ہمیں دو اہم اسباق ذہن نشین کرلینے چاہییں:

اوّل:اﷲ کے یہاں قبولیت ہماری قربانی کے جانور کی نہیں ہوتی، بلکہ قبولیت ہمارے دلوں میں پائی جانے والی اﷲ سے محبت کی، ہماری اطاعت کی اور ہماری قربانی دینے کی نیت کی ہوتی ہے۔اس بنیادی اُصول کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے ، روح کو چھوڑ کرصرف رسم پر مطمئن نہ ہوجائیے ، البتہ رسم کو بھی ترک نہ کیجیے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط(الحج ۲۲: ۳۷)، نہ اُن کے گوشت اﷲ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمھارا تقویٰ پہنچتاہے۔

دوم:اعلیٰ ترین قربانی زندگی کی قربانی ہے۔اﷲ کی راہ میں اپنی حیاتِ دُنیوی کی قربانی  دے کر آپ صرف ایک بار موت کو گلے لگاتے ہیں اور یہ آخری قربانی ہے۔ مگر آپ اُس صورت میں ہرروز اور ہر لمحے موت کو گلے لگاتے ہیں جب آپ دل کی گہرائیوں میں پیوست محبت کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں اوراپنے آپ کو مکمل طورپر اﷲ کے حوالے کردیتے ہیں، اور تمام اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کے باوجود اُس کی اطاعت وفرماں برداری کرتے رہتے ہیں۔ یوں آپ اپنی زندگی کی قربانی ایک بار نہیںدیتے، بار بار دیتے رہتے ہیں۔ یہ افضل ترین قربانی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo(الانعام ۶: ۱۶۲) کہو، میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔

حاصلِ کلام

آخر میں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم سے یہ تمام قربانیاں اس لیے طلب کی جاتی ہیں کہ ہم نے اپنے کاندھوں پراُس مشن کی تکمیل کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے جو اﷲکے رسولوں کوسونپا گیا تھا: ’تاکہ     تم لوگوںکے سامنے گواہ بن کرکھڑے ہو‘ ۔ہمیں اپنے رب کا سچا بندہ بننا چاہیے اورانسانیت کا   بے لوث خادم۔ بنی نوع انسان ہی کے لیے ہمیں ایک اُمت کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ہے۔ اس بعثت کا تقاضاہے کہ ہم زندگی کے ایک مشکل ترین کام کے لیے اپنے آپ کو تیارکرلیں۔

قربانی کے بغیر اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کاکام ہمیشہ صرف تقریروں کا یا خواب کا موضوع بنارہے گا۔اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں اپنا وقت، اپنامال، اپنی زندگی، اپنے وسائل اور اپنی ذاتی پسند وناپسند کی قربانی دینی ہوگی۔ تاہم ہماری بہترین کوششیں بھی کاملیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتیں۔ہم ڈگمگا سکتے ہیں، ڈانوا ڈول ہوسکتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ انسانی فطرت کاتقاضا ہے۔اﷲ صرف ہماری نیتوں اورکوششوں کو دیکھتاہے۔ہمیں اﷲسے رجوع کرنا چاہیے اور اُس سے مدد مانگنی چاہیے، مباداکہ جس وقت ہم سے قربانی طلب کی جائے اُس وقت ہماری بشری کمزوریاں ہم پر غالب آجائیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں اور خطاؤں پر اُس سے مغفرت طلب کرنی چاہیے:

رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّا وقفۃ وَاغْفِرْلَنَا وقفۃ  وَارْحَمْنَا وقفۃ  اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۸۶)، اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جوقصور ہوجائیں، اُن پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر    وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار ! جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو.ُ ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

 

جولائی ۱۹۷۹ء میں لاس اینجلس (امریکا) میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ’مغربی ساحل کانفرنس‘  (West Coast Conference) میں نمازِ جمعہ کے موقع پر خرم مرادؒ کاخطاب جو Sacrifice کے عنوان سے شائع ہوا۔ ترجمہ: احمدحاطب صدیقی

(کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۲۵ روپے ۔ زیادہ تعداد میں لینے پر رعایت)

قربانی اور اندرونی صلاحیتیں

قربانیاںہماری جدوجہد کی کامیابی میں دو طریقوں سے اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ایک یہ کہ ہماری اندرونی روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو مضبوط کردیتی ہیں اور ہمارے کردار کی اُن صفات کو پروان چڑھاتی ہیں جو ہماری جدوجہدکے ہر مرحلے پر کامیابی کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرایہ کہ اجتماعیت میں نظم وہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں اور انھیں تقویت پہنچاتی ہیں، اور وسیع تر معاشرتی سطح پر جہاد برپا کرنے کی صلاحیتیوں اور قوتوں سے بہرہ مندکرتی ہیں۔

قربانی کا ہر عمل آپ کے ایمان میں اضافہ کرتاہے اور اس کو نشوونما دیتاہے۔یہ عمل آپ کے زبانی اعلان اور ذہنی ایقان کو ایک زندہ حقیقت میں بدل دیتا ہے۔اﷲ سے آپ کی محبت کی توثیق کرتاہے اور اس میں اضافہ کا موجب بنتاہے ،کیوں کہ ہرقدم پرجب آپ اﷲ کی محبت میں کوئی شے قربان کرتے ہیں، تو اﷲ سے آپ کا اخلاص اور اُس پر آپ کا ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، دیگر تمام وفاداریاں ثانوی حیثیت اختیارکرلیتی ہیں، کیوں کہ اُنھیں آپ صرف اﷲ سے وفاداری کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں قربانیاں آپ کو اﷲ سے قریب تر کر دیتی ہیں۔ دونوں باتیں ایک دوسرے پر اثراندازہوتی ہیں۔عقیدہ جتنا مضبوط ہوگا قربانی دینے کی صلاحیت اورعزم اتنا ہی زیادہ ہوگا، اور جتنی بڑی قربانی دی جائے گی، عقیدہ اُتنی ہی گہری جڑ پکڑتا جائے گا۔

تمام اخلاقی اوصاف کی افزایش کے لیے قربانیاں جزوِ لازم ہیں، بالخصوص قوتِ برداشت، استقامت، استقلال ، تحمل وبردباری، عزمِ صمیم اور اولوالعزمی کی صفات میں اضافے کے لیے۔  ان تمام صفات کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جاسکتاہے اوروہ ہے:’صبر‘۔ ہرقربانی صبر کی صلاحیت کو تقویت پہنچاتی ہے، اس کے درجے میں اضافہ اور مضبوطی پیداکرتی ہے۔اس کے عوض صبر قربانی کی صلاحیت میں اضافہ اوراستقرار پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی دوطرفہ عمل ہے۔ اﷲ کی طرف سے مددونصرت کے تمام وعدے، اِس دُنیا میں فوزوکامرانی کی تمام یقین دہانیاں اورآخرت کے تمام انعامات و اکرامات، سب ایمان اور صبر کے اکتساب سے مشروط ہیں۔ (آل عمران ۳:۱۲۵، ۱۳۹، الانفال ۸:۴۶، الاعراف ۷:۱۳۷، الزمر ۳۹:۱۰)

قربانی اوراجتماعی نظم وضبط

صبر بہت جامع وصف ہے۔اس کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو نظم وضبط ہے۔  نظم وضبط کا قربانی سے قریبی تعلق ہے۔ اصل میں دونوںکا ایک دوسرے پر انحصارہے۔ نظم وضبط اپنے مکمل مفہوم میں، بشمول ذاتی نظم وضبط، روحانی واخلاقی نظم وضبط ، جماعتی نظم وضبط اور سماجی  نظم وضبط، اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک آپ اپنی محبوب چیزوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آپ اُس وقت تک اُن چیزوں کی قربانی بھی نہیں دے سکتے ، جن کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے جب تک آپ اپنے اندر نظم وضبط نہ پیدا کرلیں ___ اندرونی نظم وضبط۔ اگرچہ منظم اجتماعی زندگی بھی فردکے اندر قربانی کی روح پھونکنے میں کم اہم کردار ادا نہیں کرتی۔ قربانی بھی اس طرح کی منظم اجتماعی زندگی کو تشکیل دینے اور اسے قائم رکھنے کے لیے اُتنی ہی ضروری ہے۔آئیے ہم ایک مختصر جائزہ لیں کہ کیوں ضروری ہے؟

واضح بات ہے کہ جب اﷲ کی راہ پر آپ اکیلے چل رہے ہوں تو اُس کی رضا و خوشنودی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کوعظیم سے عظیم تر قربانیاں دینے اور زیادہ سے زیادہ ضبطِ نفس اختیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔مگر جوں ہی آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ دوسروں کے ساتھ مل کر دُنیا کو اُس کے خالق کی اطاعت وفرماں برداری کے تحت لانے کی اجتماعی جدوجہد کریں گے تو آپ کواور زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت پڑے گی۔اس کے بغیر آپ کی منظم اجتماعی جدوجہد ہی کوئی پایدار صورت اختیار کر سکتی ہے نہ آپ کے اندر اپنے مشن میں کامیابی کے لیے کوئی اُمنگ پیدا ہوسکتی ہے۔قرآن کہتاہے:اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo (الصف ۶۱: ۴)’’اﷲ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میںاِس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیںگویاکہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ کتنی حسین اور معنی خیز تمثیل ہے۔ مضبوط اور ٹھوس،مربوط اور پیوست، ناقابلِ تسخیر اور ہرطرح کے شگاف اور دراڑ سے مبرا، یہ ہے وہ انداز جس سے مسلم اُمہ مل جل کر اور باہم مربوط ہوکر اﷲ کی راہ میں جدوجہد کرتی ہے۔

اب دیکھیے دیوار کس طرح تعمیر کی جاتی ہے؟ بہت سی اینٹیں جوڑی جاتی ہیں تو دیوار بنتی ہے۔ ہر اینٹ اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اینٹیں ایک ٹھوس، مضبوط اور ناقابلِ تسخیر دیوار بننے کے لیے ’صف بندی‘ کیسے کرتی ہیں؟ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ کھڑی کر کے اور ایک اینٹ دوسری اینٹ کے اوپر نصب کرکے آپ سمینٹ سے جوڑ دیتے ہیں اور دیوار اونچی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر ہر مرحلے پر دیوار کی مضبوطی اور اونچائی میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اُسی طرح مشابہت رکھتی ہے جس طرح کی مشابہت ایک انسان  دوسرے انسان سے رکھتا ہے، باوجودے کہ ہر ایک کی اپنی اندرونی انفرادیت بھی ہوتی ہے۔ کسی اینٹ کو اپنی یہ انفرادیت قربان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مضبوطی اور شان داری کی یہ خوبیاںیقینا بہت سی انفرادیتوں کے اکٹھا ہوجانے سے حاصل ہوتی ہیں۔

لیکن اگر آپ ایک دیوار بنائیں اور ہر اینٹ اپنے طریقے پر چلنے پر اَ ڑ جائے،اوراگروہ اُس بوجھ کو سہارنے کے لیے تیار نہ ہو جو اوپر والی اینٹ سے اُس کو منتقل ہوگا یا جو سہارا اُسے اپنے نیچے والی اینٹ کو دینا ہے،اور اگر وہ اینٹ جسے کونے میں نصب ہونا ہے وہ اس بات کے لیے تیار نہیں کہ اُس کی ایسی تراش خراش کی جائے جس سے وہ اپنے مقام پر درست انداز سے فٹ ہوجائے، توکوئی مضبوط دیوار کبھی بھی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔بہت سی اینٹوں کو زمین کے اندر بنیادوں میں نصب ہونا پڑتاہے، عمارت بن جانے کے بعد وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتیں، حالانکہ پوری عمارت کا بوجھ اُنھی پر ہوتاہے اوراُن کی اس قربانی کے بغیر عمارت زمین سے بھی اوپر نہیں اُٹھ سکتی۔   بہت سی اینٹوں کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے تاکہ ایک ہموار دیوار بنائی جاسکے۔

ہراینٹ سے تھوڑی تھوڑی قربانی لیے بغیر ایک مضبوط دیوارکبھی وجودمیں نہیںآ سکتی۔

قربانی کیا ھے؟

اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ قربانی کیا ہے؟ہم کیا قربان کریں؟ کون سی قربانیاںدینا زیادہ دُشوار ہے؟ کن قربانیوںکو عظیم قربانی کہا جا سکتاہے؟

  •  دو اقسام: قربانی، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، سادہ الفاظ میں اُن اشیا سے دست بردار ہوجانے کا نام ہے جو ہمیں محبوب ہیں، ہماری پسندیدہ ہیں اور جن کی ہماری نظروں میں کچھ قدروقیمت ہے۔ جو فی الوقت ہماری ملکیت میں ہیں یا مستقبل میں ہم جنھیں حاصل کرلینے کی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں۔یہ اشیا قابلِ محسوس یامادّی اشیا بھی ہوسکتی ہیں اور ناقابلِ محسوس یا مجرد اشیا بھی۔ مادّی اشیا میں سے اہم چیزیں وقت، دولت، دُنیاوی مال ومتاع ، جسمانی صلاحیتیں اورزندگی ہیں۔ مجرد اشیا میں سے اہم چیزوں میں ہمارے پیار محبت کے رشتے ناتے بالخصوص خاندانی تعلقات، ذاتی پسند وناپسند، ترجیحات و تعصبات، خیالات اور نقطۂ نظر، آرزوئیں اور تمنائیں، آرام وراحت، عہدہ ومنصب یا محض ہماری انا اور خود پسندی۔

یہاں مجھے تین بنیادی اُصول پیش کرنے کی اجازت دیجیے جو میری نظر میں قربانی کے مکمل مفہوم سے آگاہ ہونے کے لیے سمجھنا ضروری ہیں:

اوّل: کسی چیزسے دست بردار ہوجانا صرف اُسی صورت میں قربانی کہلائے گا جب وہ چیز ہمیں محبوب ہو اور ہمارے نزدیک اُس کی کوئی قدروقیمت ہو۔ اس لحاظ سے مادّی اور مجرد اشیا کے مابین کوئی خطِ امتیاز کھینچنا دُشوارہے۔حتمی تجزیہ یہ ہوگا کہ ہر قربانی ہماری محبت اور ہماری قابلِ قدر چیزوں کی قربانی ہے۔ جب ہم اپنی دولت، اپنی زندگی یا اپنے خاندانی تعلقات سے اﷲ کی خاطر دست بردار ہوتے ہیں، تو در حقیقت ہم جس چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، اور جوکیفیت اِسے قربانی کی شکل دیتی ہے، وہ خود مال، زندگی یا رشتوں ناتوں سے دست برداری نہیں بلکہ مال کی محبت، زندگی کی محبت یا عزیزوں اور رشتہ داروں کی محبت سے دست برداری ہے۔

دوم:مادّی چیزوں کے بجاے مجرد اشیا کی قربانی دینا زیادہ دُشوار اور زیادہ ضروری ہے۔

سوم:ہم اپنی محبوب اور قابلِ قدر اشیا سے صرف اُنھی چیزوں کے لیے دست بردار ہوسکتے ہیںجوہمیں اِن سے زیادہ محبوب ہوں اور جن کی ہماری نظر میں اِن سے زیادہ قدروقیمت ہو۔

مادّی قربانیاں

یہاںہمیں مادّی اشیا کی قربانی پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ہم ایسی قربانیوں سے خوب واقف ہیں،ان کا اچھی طرح سے ادراک رکھتے ہیں اور ان کی ضرورت اوراہمیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اُس صورت میں بھی کہ جب کئی مواقع پر ہم خود اس قسم کی قربانیاں دینے کے قابل نہ ہوں یا اس قسم کی قربانیاں دینے میں دُشواری محسوس کررہے ہوں۔ لیکن اگر ہم نے اپنے آپ کو کسی نصب العین کے حصول کے لیے وقف کردیا تو وقت یا موقع آنے پرہمیںان میں سے ہر شے کی قربانی دینی ہوگی۔لہٰذاہم یہاں رُک کر اُن کی کچھ اہم خصوصیات ملاحظہ کرتے ہیں۔

وقت

وقت ہماری سب سے قیمتی متاع ہے۔ہماری زندگی کی کوئی ضرورت اورکوئی خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اُس کے حصول کے لیے وقت نہ نکالیں اور باقاعدہ وقت نہ دیں۔ہم اپنا وقت مسرت کی تلاش میں صرف کر سکتے ہیں،دُنیاوی مال و متاع اور دولت کمانے میں صرف کر سکتے ہیں، کام میں صرف کر سکتے ہیں،لطف اندوزی میں صرف کر سکتے ہیں یا محض وقت گزاری میں بھی___ کچھ نہ کرتے ہوئے۔

وقت وہ اوّلین شے ہے جو اﷲ ہم سے طلب کرتاہے۔اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔نماز اداکرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔دعوت کاکام کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے، اور بیمار کی عیادت کرنے میں وقت صرف ہوتاہے۔ اﷲ سے اپنا عہد پورا کرنے کے لیے ہمیں ہر لمحہ اُس کی رضا کے حصول میں صرف کرنا ہوگا۔لیکن اگر آپ مزید گہرائی میں جاکر غور کریں تو آپ تسلیم کریں گے کہ جوچیز آپ فی الواقع قربان کررہے ہیں وہ وقت نہیں ہے۔ وہ اشیا ہیں جن کی جستجو میں آپ کاوقت صرف ہوتاہے، ایسی اشیاجو آپ کی زندگی کے نصب العین سے متصادم ہوسکتی ہیں، بے معنی، غیر اہم، یااﷲ کے کام کے مقابلے میں کم اہم۔ لہٰذا اسلام کے لیے وقت نکالنے سے قبل، کوئی اور کام کرنے سے پہلے، آپ کو بہت سی ایسی چیزوں کی قربانی دینی ہوگی جو آپ کا وقت لے لیتی ہیں۔

آپ اپنے آپ کو ان چیزوں کی قربانی دینے، اور اپنا وقت اﷲ کے لیے مخصوص کردینے پر کس طرح آمادہ کرسکتے ہیں؟

یاد رکھیے کہ وقت ایسی چیز ہے جسے آپ ایک لمحے کے لیے بھی تھام کر نہیں رکھ سکتے۔یہ مسلسل آپ کے ہاتھ سے نکلتااورپھسلتا ہی رہے گا،خواہ آپ اسے کسی کام میں بھی صرف کرناچاہیں۔ وقت سے ملنے والا فائدہ بس وہی کچھ ہے جو آپ اُس وقت میں حاصل کرلیتے ہیں۔ ورنہ وقت توبرف کی طرح پگھل کر ختم ہوجائے گا، البتہ جوچیزآپ حاصل کریں گے وہ رہ جائے گی۔

ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیے کہ وقت کاہر لمحہ یاتو ابدی سکون و راحت میں بدل سکتاہے یا کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب میں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ وقت کوکیسے صرف کرتے ہیں۔ اِس بات کو ذہن نشین رکھنے کے نتیجے میں آپ زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ وقت کی قربانی دے سکیں گے۔ وہ لمحے جنھیں آج آپ اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے، کل آپ کے لیے نفع بخش ثابت ہوںگے، وہ کبھی ضائع نہیں جائیں گے۔ آخر آپ اُن چیزوں کے حصول کی قربانی کیوں نہ دیں جو کل آپ کو کبھی نہ ختم ہونے والی پریشانی یا پچھتاوے کی صورت میں واپس ملیں گی؟

پس جب وقت گزرہی رہاہے تو ذرا گہرے غور وخوض سے حساب لگائیے کہ آپ کیا حاصل کررہے ہیں؟ کوئی ناپایدار شے یا کوئی ابدی چیز؟ آگے چل کریہ کوئی پچھتاوا بنے گا یا خوشی؟ آپ کے وقت میںسے اسلام کو کون سی ترجیح ملی ہوئی ہے؟اپنے وقت کا کتنا حصہ آپ نے اﷲ کے لیے مخصوص کیا ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍط (الحشر ۵۹:۱۸)’’ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیاہے؟‘‘

اﷲ کے لیے اپنے وقت کی قربانی دینا اسلام کی روح ہے۔جب بھی پکارا جائے آپ کو لازماً لبیک کہناہے۔یوں اﷲ کی راہ میں اپنے وقت کی قربانی دے کر آپ اپنے آپ کو ہر چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار کرلیں گے۔دن میں پانچ مرتبہ آپ کے اندر یہ صفت راسخ کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن کے لیے آپ کو ہدایت ہے کہ: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الجمعہ ۶۲:۹)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن، تواﷲ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔

دولت اورمتاعِ دُنیوی

آپ کا زیادہ وقت دولت کمانے یا دولت کے ذریعے سے متاعِ دُنیوی حاصل کرنے میں گزرتا ہے۔ اُن کی طلب اور اُن کی محبت ہماری فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (اٰل عمران ۳:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس: عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں‘‘۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ متاعِ دُنیا سے رغبت و محبت کوئی مذموم بات ہے، نہ غلط بات ہے، نہ بدی۔یہ دُنیا برائیوں کی پوٹ نہیں‘ اس طرح کی باتیں قرآن کی تعلیمات میں نہیں ملتیں۔ قرآن میںمال ودولت کو گھٹیا اور حقیر چیز نہیں قرار دیا گیا ہے ’خیر‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور یہ بالکل معقول بات ہے،کیوں کہ اﷲ کی راہ اور اُخروی نعمتوں کا راستہ اسی دُنیا سے گزرتاہے۔ اگر ہم اس دُنیا کو اپنے اوپر حرام کر لیں تو کوئی چیز ایسی نہیں بچتی جس کی مدد سے ہم آخرت کے انمول خزانے حاصل کرسکیں۔چناں چہ یقینی طورپر یہی دُنیا وہ واحد وسیلہ ہے جس کی بنا پر ہم اﷲ کی رضا اور اگلی دُنیا کی مسرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

جوچیز اس دُنیا کوبرائی اور شر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو فراموش کردیں کہ یہ سب کچھ ہماری صوابدیدپر صرف اسی دُنیا کی زندگی کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ اُس حقیقی اور ابدی نصب العین کے حصول کا ایک وسیلہ ہے،جو اِس دُنیا و مافیہا سے بہتر چیز ہے۔جب ذریعہ منزل بن جائے تو وہ ہمیں حقیقی قدروقیمت والی چیز سے بھٹکا کرمصائب وآلام میں مبتلا کردیتاہے۔ اوپر جس قرآنی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ آگے چل کر کہتی ہے:

ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ط لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۴-۱۵)، یہ سب دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اﷲ کے پاس ہے۔کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے اچھی کیا چیز ہے؟ جولوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی،پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوراﷲ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔

دُنیاوی مال ومتاع کو اﷲ کی راہ میں قربان کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔جب حقیقی فیصلے کا وقت آتاہے تو اچھے اچھے ڈانوا ڈول اور ناکام ہوجاتے ہیں۔ چند چیزیں یاد رکھنے کی ہیں جو یہ دشوار قربانیاں دینے میں آپ کی مدد کریں گی:

اوّل: کوئی چیز آپ کی اپنی ملکیت نہیں، ہرچیز کا مالک اﷲ ہے۔جب آپ اﷲ کی راہ میں کوئی چیز قربان کرتے ہیںتو آپ وہ چیز اُس کے اصل مالک کو محض لوٹارہے ہوتے ہیں۔

دوم:آپ کے دُنیاوی مال ومتاع کی خواہ کتنی ہی قدر وقیمت کیوں نہ ہو، آپ کے آخری سانس کے ساتھ ہی آپ کے لیے اُس کی قیمت صفر ہو جائے گی:

مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ ط (النحل ۱۶:۹۶)، جوکچھ تمھارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والا ہے اور جوکچھ اﷲ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقْتَدِرًا o اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج (الکھف ۱۸:۴۵-۴۶)، اور اے نبیؐ، انھیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔

سوم: صرف اﷲ کی راہ میں خرچ کرکے ہی آپ اس کا کئی گُنا زیادہ واپس حاصل کرسکتے ہیں:

وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (المزمل ۷۳:۲۰)، اﷲ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جوکچھ بھلائی تُم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اﷲ کے ہاں موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑاہے۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط  وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ ۲:۲۶۱)، جولوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اُس سے سات بالیں نکلیں اورہر بال میں سَو دانے ہوں، اسی طرح اﷲ جس کے عمل کو چاہتاہے، افزونی عطا فرماتاہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے: اسلام سے آپ کی وابستگی کے دعوے کی کیا حیثیت رہ جائے گی اگر آپ اپنے نصب العین کے بجاے فضول قسم کی لطف اندوزی ، مثلاً تمباکو نوشی اور چٹورپن پر زیادہ رقم خرچ کریں۔اﷲ کے وعدے پر آپ کے ایمان کی کیا حیثیت ہو گی اگر اس دُنیا میں حصولِ منفعت کی ہلکی سی اُمید پر بھی آپ اپنی ساری بچت کی سرمایہ کاری کرگزریں، مگر ،کم ازکم سات سَوگُنا نفع کا وعدہ، جو کبھی واپس نہیں لیا جائے گا، آپ کو اپنے بٹوے کا مُنھ کھولنے پر مجبور نہ کرے۔آپ حساب لگاسکتے ہیں کہ اپنی دولت کا جتنا حصہ آپ اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں اُس کی روشنی میں اسلام کو آپ کی زندگی میںکیا مقام حاصل ہے۔

دولت کی قربانی دینا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ مگر ہمارا زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں بہتر معیارِ زندگی،عیش وعشرت پسندی، اسراف، اور مادّیت پرستی زندگی کا واحد مقصد بن کر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس معاملے میں آپ کو ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

زندگی

ایک وقت ایسا آئے گا جب اﷲ کی راہ میں آپ کو اپنی جان قربان کردینے کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔اپنی جان کی قربانی پیش کر دیناشہادت دینے کا بلند ترین عمل ہے،ایسی صورت میں آپ شہید کہے جانے کے حق دارقرارپاتے ہیں۔ زندگی آپ کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کی قربانی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وہ سب چیزیں قربان کردیں جو زندگی آپ کو عطا کرتی ہے یاعطاکرسکتی ہے،وہ تمام مادّی اور غیرمادّی چیزیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔

جوںہی آپ کو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ اپنی زندگی کے مالک آپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ ہے توآپ یقینا اُس کی راہ میں اپنی زندگی نثار کردینے پر آمادہ وتیار ہوجائیں گے۔آپ اُس کی امانت اُس کے حضور پیش کردیں گے۔یہ بات بھی آپ کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ موت سے آپ کو مفر نہیںہے، وہ اپنے مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر اور مقررہ طریقے سے آکر رہے گی۔      (اٰل عمران ۳:۱۸۵، ۱۴۴-۱۴۵، ۱۵۴-۱۵۶، النّساء ۴:۷۸) ۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ اﷲ کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ اپنے لیے ، اپنی قوم کے لیے اور اپنے نصب العین کے لیے حیاتِ ابدی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ عمل اُن کی موت کو افضل و اشرف موت بنادیتاہے۔ وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۴)’’اور جولوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں، اُنھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیںہوتا‘‘۔

حُبِّ دُنیا نہ ہو، خوفِ مرگ نہ ہو، تب ہی آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو زندگی قربان کرنے کے لیے ضروری ہے۔مخالف قوتوںپر آپ صرف اُسی صورت میں غلبہ حاصل کرسکتے ہیں جب جان دینے پر آمادہ ہوں۔کامیابی کا دروازہ بس اسی طرح کھلے گا۔ مرکر آپ زندگی پالیتے ہیں، اپنے لیے بھی اور اپنی قوم کے لیے بھی۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ جب تک آپ جان دینے کے لیے تیار نہ ہوں تب تک آپ زندہ رہنے کے حق سے محروم رہیں گے، بالخصوص بحیثیت ِ قوم۔ایسا نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے پکارا جائے گا، مگر آرزوے شہادت کی آگ ہر دِل میں بھڑکنی چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو اﷲ کی راہ میں جہاد نہ کرے یا اس کی آرزو بھی نہ رکھے وہ منافق کی موت مرے گا‘‘ (مسلم)۔ آپؐنے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے یہ محبوب ہے کہ میں اﷲ کی راہ میںماراجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، اورپھر زندہ کیا جاؤں، اورپھراﷲ کی راہ میں مارا جاؤں‘‘ (بخاری، مسلم)۔ (جاری)

 

قربانی، اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟

وسیع تر مفہوم میں ’قربانی‘ کا مطلب ہے اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں سے دست بردار ہوجانا۔ یہ چیزیں وقت، دولت اور زندگی جیسی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جنھیں محسوس کیا جاسکتا ہے، جنھیں شمارکیا جاسکتاہے۔یااحساسات، رویّے،مسلک ومؤقف اور تمناؤں، جیسی اشیابھی ہو سکتی ہیں کہ جن کو محسوس کیا جاسکتا ہے نہ ناپا تولاجاسکتاہے۔ان چیزوں کی قربانی کسی ایسی چیز کے حصول کی خاطر دی جاتی ہے جو ان سے زیادہ قیمتی، زیادہ اہم یا زیادہ ضروری ہو۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بنیادی طورپر قربانی کا مطلب ہے خدا کے حضور کسی جانور یا انسان کاذبیحہ بطورِ نذر پیش کرنا ،اوریوںاپنی ملکیت میں سے کوئی چیز خدا کی نذرکرنا۔

لغتِ قرآنی میںبالکل ٹھیک ٹھیک ’قربانی‘ کا ہم معنی لفظ تلاش کرنا دُشوار ہے، جس کا ایسا ہی وسیع ادبی استعمال بھی ہو۔ معنی کے لحاظ سے قریب ترین لفظ غالباً نُسُک ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲) کہو،میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اﷲ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔

بہرکیف ’انفاق‘ بنیادی اہمیت کاحامل ایک ایسا داعیہ ہے جس پر قرآن میں باربار زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ : ’جورزق ہم نے اُن کو دیاہے‘ اُس میں سے خرچ کرناایمان کالازمی تقاضا ہے۔صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ ’انفاق‘کو ایمان کی بنیاد پر بسر کی جانے والی زندگی کی صورت گری کرنے ، اس کی محافظت کرنے اور اس کو سہارا فراہم کرنے کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔اﷲ کے دیے ہوئے مال واسباب میں، جوانسان کو خرچ کرناہے،ہروہ چیز شامل ہے جو اُس کی ملکیت میں ہے، خواہ وہ مادّی شے ہو یا غیرمادّی۔ قرآن میں ایک مقام پرتقویٰ (بُرے کاموں سے پرہیز ) اورتصدیق (قبولیتِ حق) کے ساتھ ’انفاق‘کو وہ سب کچھ قراردیا ہے جو اچھی‘ نیک زندگی کی تشکیلی صفات کے لیے درکار ہے:

اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی o فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی o وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (اللیل ۹۲ : ۴تا ۱۰) درحقیقت تُم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔تو جس نے (راہِ خدامیں) مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا، اورحق کی تصدیق کی، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اورجس نے بخل کیا اور اپنے آپ کو مستغنی (خودکفیل) سمجھااورحق کا انکار کیااُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

قربانی ایسا جوہر ہے جس سے عام انسانی زندگیاںبھی عمدہ اور کامیاب بن جاتی ہیں۔اس کے بغیر زندگی امن، ہم آہنگی اور امدادِ باہمی سے محروم رہے گی، تنازعات اور اختلافات سے پُر ہوگی، نفسانی خواہشات کی فی الفور تسکین، خودغرضی اورحرص وطمع کا شکار ہوگی۔ علاوہ ازیں کوئی خاندان یا برادری بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے نہ اُس میں یک جہتی اور استحکام پیدا ہوسکتا ہے جب تک اُس کے ارکان اپنی طرف سے کچھ قربانی نہ دیں۔ کوئی انسانی جدوجہد اپنا ہدف حاصل کرنے میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں کی قربانی نہ دے۔

جو کلیہ عام انسانی زندگی اورعام انسانی جدوجہد پر صادق آتا ہے، خواہ اُس جدوجہد کی اہمیت اور نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو،یقینا وہ کلیہ اسلامی زندگی پر زیادہ صادق آئے گا،کیوں کہ اسلام کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ محض تھوڑا سا مال ومتاع نہیں، بلکہ اپنی پوری زندگی اﷲ کے سپرد کردی جائے۔ہم اپنے موجودہ زمانے کی زبان میں بات کریں تو اسلامی زندگی اعلیٰ ترین قربانی کی زندگی ہے۔اسلامی زندگی ایسی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے جسے مسلسل اور متواتر جاری رہنا چاہیے تاکہ اسلام ظاہر وباطن میں حقیقتاً رچ بس جائے اور ایک زندہ حقیقت بن جائے۔

قربانی سے ایمان کی نشوونما ہے،اس کے بغیر ایمان کے ننھے منے بیج سے ایسے تناور اور سرسبز وشاداب درخت پروان نہیں چڑھیں گے جوبے شمار انسانی کاروانوںکو چھاؤں اور پھل فراہم کریں (ابراھیم ۱۴ : ۲۴-۲۵)۔ اِسے ایساباوفاہمدم و رفیق بن جانا چاہیے جس کے بغیر راہِ جہاد طے نہ کی جاسکے، کیوں کہ اس راستے میں صحراے ناپیدا کنار بھی پھیلے ہوئے ہیں اورمنزل تک پہنچنے کی راہ میں بلند و بالا پہاڑ بھی حائل ہیں (التوبہ ۹: ۲۴)۔قربانی اُن کنجیوں میں سے ایک کُنجی ہے جس کے بغیر بند دروازے کھل نہیں سکتے۔ (البقرہ ۲ : ۲۱۴)

خواہ روحانی و اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے کیا جانے والا سفر ذاتی ہو یا زندگی اور معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے (ایک خدا کے آگے سرتسلیم خم کردینے) کے لیے کیا جانے والا سماجی سفر، یہ کلیہ دونوں پر صادق آتا ہے۔ اوریہی کلیہ اُس صورت میں بھی صادق آتا ہے جب یہ دونوں راہیں انتہائی چاہت کے ساتھ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ منزل جتنی عظیم اور بلند ہوگی، راستہ اُتنا ہی کٹھن اور دشوار ہوگا۔

اب تک آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ قربانی کا موضوع کتنا وسیع ہے۔اسی موضوع سے مضبوطی کے ساتھ گُندھا ہوا اتنا ہی وسیع اور اتنا ہی اہم موضوع ’ابتلا وآزمایش ‘کا اور ’صبر‘ کا ہے۔ اس موضوع کو لامتناہی طورپر پھیلایا جاسکتاہے مگر میرامقصد اس کا مکمل احاطہ کرنانہیں ہے۔اس معروف موضوع کے بہت سے پہلوئوںسے آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں۔چنانچہ میں اِس موضوع کے صرف ایسے پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا جومیری نظرمیں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں یا ہمارے موجودہ حالات سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔

اسلام: جدوجھد کا راستہ

سب سے پہلے ہمیں مختصراً ایک اہم سوال پر نظر ڈالنی چاہیے۔آخر اسلام کا نظریۂ جدوجہد سے اِس قدر گہرا تعلق کیوں ہے؟دونوں میں کیا ربط ہے؟ کیا کوئی شخص اپنے آپ کوکسی ایسی جدوجہد میںمشغول کیے بغیر اچھا مسلمان نہیں بن سکتا جس کا لازمی تقاضا قربانی ہے؟ جواب ہے: ’’نہیں!‘‘ اوراس کے بین دلائل ہیں۔

اسلام پوری زندگی میں محض ایک بار کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ کائناتی وسعتیں رکھتاہے۔ پوری زندگی اور تمام دُنیا کو جڑ بنیاد سے از سرنو منظم کرنے کاتقاضا کرتاہے۔یہ کلمہ محض اپنے عقیدے کا زبانی اعلان نہیں ہے۔ ایسی شہادت دینے کا عمل ہے جو پوری زندگی کو عقیدے کی جیتی جاگتی اور مسلسل گواہی میںبدل کر رکھ دے۔آپ کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل تو ہوجاتے ہیں۔ مگر مسلمان بن کرجینے کے لیے آپ کو مستقلاً گواہی دیتے رہنا پڑے گا(البقرہ ۲ : ۱۴۳،  الحج ۲۲ : ۲۸) ۔مسلسل گواہی دیتے رہنے سے اپنی ذات کے اندر اور اپنی ذات سے باہر کے جھوٹے خداؤں سے آپ کی کبھی نہ ختم ہونے والی محاذآرائی شروع ہوجائے گی۔ اپنی گواہی کی توثیق و تصدیق کرنے کے لیے آپ کو اپنے آپ اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے جہدِمسلسل بھی کرتے رہنا ہوگا۔

لہٰذا مسلمان رہنے کے لیے مسلمان بننا ضروری ہے۔ایمان کا بیج دل میں بوئے جانے کے بعد، مسلمان بننا ایک دوہرا عمل ہے۔ ایک طرف اپنے آپ کواور دوسری طرف تمام انسانیت کو اﷲ وحدہٗ لاشریک کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دینا___ یہ دونوںکام باہم گتھے ہوئے ہیں اور دونوں کام بہ یک وقت کرنے ہیں۔

تمام انسانوں کو دعوت دینا کوئی ٹھنڈاٹھار زبانی بلاوا نہیں۔یہ ایک فعال اور متحرک سرگرمی ہے، ایک تحریک ہے جو تقاضاکرتی ہے کہ تمام میسر وسائل کی مدد سے ایک ایسے جہاد کا آغاز کیا جائے جومطلق العنانیت کے جھوٹے دعوے داروں کو تخت سے اُتار پھینکے، جابروں‘ ستم گروں اور بدعنوانوں سے اُن کی طاقت سلب کرلے اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی کی ابتداہی میں اعلان فرما دیا تھا کہ: تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیںکہ ایک شخص کو پکڑ کر لایاجاتا،اورایک گڑھا کھودکراُسے گڑھے میں ڈال دیاجاتا،پھر ایک آری لاکر اُس کے سرپر رکھی جاتی اور اُس کو چیر کر دوٹکڑے کردیاجاتا، لوہے کی کنگھیوں سے اُس کا گوشت ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا، اس کے باوجود کوئی چیز اُسے اُس کے دین سے پھیر نہیں سکتی تھی۔خداکی قسم! میں اپنا مشن پورا کرکے چھوڑوں گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفرکرے گا اور اُسے خداکے سواکسی کا خوف نہیں ہوگا، اورکوئی اندیشہ اُس کے دل میں نہیں آئے گا سواے اِس کے کہ کہیں کوئی بھیڑیا اُس کے مویشیوں کو نقصان پہنچادے۔ (بخاری)

پس اسلام کاراستہ جدوجہد کے راستے کے سوا کوئی اورراستہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ قربانی کی راہ ہے۔کوئی کہہ سکتاہے کہ کیا اسلام عطیۂ الٰہی نہیں ہے؟ یقینا ہے۔ اﷲ کی مدد اور اُس کی دست گیری کے بغیر ہم صراطِ مستقیم کی طرف، جو اسلام کا راستہ ہے، ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کے باوجود ہم صرف اپنے اخلاصِ نیت اور اپنی مخلصانہ جدوجہد ہی کے ذریعے سے اس انتہائی قیمتی عطیے کو حاصل کرنے، اسے قائم و دائم رکھنے، اس کے زیرسایہ نشوونما پانے اوراس سے ملنے والے تمام فوائد سمیٹنے کے حق دار بن سکتے ہیں۔اﷲ کا یہ انعام، کوئی شک نہیں کہ، اُس کی بے پایاں رحمتوں اور اُس کے کرم ہی سے ملتاہے، مگر غیر مشروط نہیں ، کہ کوئی مانگے یا نہ مانگے، کوشش کرے یا نہ کرے اُسے   مل جائے۔ اس طرح تو یہ ایک سستی سی بے قیمت چیز بن جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں   اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے:

اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ (الشورٰی ۴۲ : ۱۳)    وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتاہے جواُس کی طرف رجوع کرے۔

رجوع الی اﷲ کے لیے نیت اور کوشش دونوںلازم ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خدا کے سوا تمام جھوٹے خداؤں سے مُنھ موڑ لیا جائے۔یہ عمل مکمل طورپراپنا رُخ پھیر لینے کا عمل ہے، اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔اِس راہ پرمزید پیش قدمی کا انحصار جدوجہد پر ہے:

وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹ : ۶۸) جولوگ ہماری خاطر سخت جدوجہد کریں گے اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

جدوجھد:ایک ناگزیر کلید

تو یہ ہے اﷲ کی سنت۔ صرف اسلام ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہماری زندگی کی اُن تمام انمول نعمتوں کے معاملے میں بھی، جن سے ہمیں نوازا گیا ہے۔ذرا ان میں سے چند پر نظر ڈالیے: یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں، یہ کان جن سے ہم سنتے ہیں، یہ ہاتھ پاؤں جن کی مدد سے    ہم اپنے کام کاج کرتے ہیں، یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، یہ پانی جس سے ہم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، جس کے بغیر زندگی اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتی___ ان تمام چیزوں کو ہم نے نہیں  پیدا کیا، نہ ہم چاہیں توپیدا کرسکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمیں بے مانگے مل جاتی ہیں،ہمارا ان پر  کوئی موروثی دعویٰ نہیں،نہ یہ ہماری ناقابلِ انتقال ملکیت میں ہیں۔ یہ سب کی سب نعمتیں ہمیں اﷲ کے فضل وکرم سے نصیب ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود انھیں اپنے استعمال میں رکھنے اور ان سے ملنے والے تمام فوائد حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی بہترین کوششیں بروے کار لانی پڑتی ہیں۔

زندگی کی بہت سی چیزیںہمیںکوشش اور جدوجہد کے بغیر نہیں مل پاتیں۔ہمیں صرف وہی نصیب ہوتا ہے جس کے لیے ہم جد وجہد اور کوشش کریں:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o (البلد ۹۰ : ۴) ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیاہے۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳ : ۳۹) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی۔

زمین موجودہے، پانی فراہم ہے، بیج میسر ہے، مگر مٹی بیج کو اناج میں اُس وقت تک تبدیل نہیں کرے گی جب تک ہم اس کی کھدائی نہ کریں، ہل نہ چلائیں،بیج نہ بوئیں، پودوںپر آب پاشی نہ کریں، اُن کی حفاظت نہ کریں اور فصل کاشت نہ کریں۔اﷲ کی بے شمار نعمتیں، جن کی ہمارے گرداگرد ریل پیل ہے، اپنے خزانوں کے منہ ہم پر اُس وقت تک نہیں کھولیں گی جب تک ہم محنت نہ کریں اور اپنا پسینہ نہ بہائیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس قدر قیمتی خزانے کے حصول کی خواہش ہو  اُسی قدر زیادہ محنت اورکوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسلام اور قربانی

ایسا نہیں ہے کہ اسلام اﷲ کی بہت سی نعمتوں میں سے محض ایک نعمت ہو۔یہ اﷲ کی منتخب ترین نعمت ہے (المائدہ ۵ : ۳)۔ اس دُنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے اﷲ نے ہمیں جن    بے شمارانعامات و اکرامات سے نوازاہے، ان میں سے عظیم ترین اور اہم ترین انعام یہ ہے کہ   اُس نے ہمیں زندگی کے حقیقی معنی و مقصدسے آگاہ کردیا ہے۔ یہ معنی اور مقصد یہ ہے کہ ہم اُسی کی خاطر جیئں، اُسی کی رضا کے حصول کی کوشش کریں، یہاں تک کہ اُسی کی راہ میں موت آجائے۔ جانوروں کی سی زندگی گزارنے کے بجاے کہ پیداہوں، کھائیں پیٔیں، تولید و تناسُل کریں اور مرجائیں، ہم کو بامقصد زندگی گزارنی ہے۔یوں زندگی ایک عارضی اور ناپایدار چیزاور موت کے ساتھ ہی ختم ہو جانے والے تاریخ کے ایک تیز قدم لمحے کی حیثیت سے بلند ہوکرایک ابدی شے  بن جاتی ہے۔ہمارا مقصدِ وجود یہ نہیں ہے کہ جو نعمتیں اور جو عہدے اور مراتب اس دُنیا میںبکھرے ہوئے ہیں، ہم محض اُنھی کوسمیٹنے کی تمنا اور اُنھی کے حصول میںجتے رہیں۔اس کے بجاے ہمارے سامنے یہ رستہ کھلا ہوا ہے کہ ہم اس دُنیا کے مال ومتاع کو اگلی دُنیا کے کبھی نہ ختم ہونے والے فوائد میں بدل لیں، کبھی یہ مال ومتاع حاصل کرکے اور شکرگزاری کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوکر اور کبھی اس مال ومتاع سے دست بردار ہوکر۔

اگر اس دُنیا کی عام اشیا بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوسکتیں تو زندگی میں مقصدیت اور معنویت پیدا کرنے کے لیے، جو اسلام ہے، یقینا انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔اس جدوجہد اور قربانی کی نوعیت اوردرجہ لازماً اُس نصب العین کی قدروقیمت اورمعیار کے مساوی ہونا چاہیے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اور کون سا نصب العین ہماری زندگی میں زیادہ قابلِ قدر، زیادہ ناگزیر، زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہوسکتا ہے، بجز اس کے کہ پورے انسان کو، اُس کی اندرونی شخصیت کو، اُس کے ماحول کو، اُس کے معاشرے کو ، غرض پوری دُنیا کو اﷲ کی طرف بلایا جائے۔ سخت محنت کے بغیر،محض تمنا، آرزو، تقریر، دعووں اور بیانات سے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم اُس منزل پر جاپہنچیں گے جو ہم نے اپنے لیے متعین کی ہے۔اگرکوئی شخص اپنی روزکی روٹی محنت کیے بغیر نہیں کماسکتا تو کیا  اﷲ اپنی عظیم ترین نعمت، اِس دُنیا کی کامیابی اور اُس دُنیا کی کامیابی ہمیں یوں ہی عطافرمادے گا؟ جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ ہم جس عقیدے کا اعلان کرتے ہیں اُس کی جڑیں ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں پیوست ہیں، ہم اپنے دعویٔ وفا میں سچے ہیں اور ہم سے جوقربانی طلب کی جائے گی ہم پیش کردیں گے۔

قرآن کافرمان ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳ : ۱۴۲)کیا تُم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جاؤ گے حالاں کہ ابھی اﷲ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تُم میں کون وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اُس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ ۲: ۲۱۴) پھر کیا تُم لوگوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالاں کہ ابھی تُم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تُم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکاہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ  وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے۔

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹ : ۳-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اوراُن کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیںجو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اﷲ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری کوششیں اور ہماری قربانیاں کسی بھی لحاظ سے اﷲ کی اُن نعمتوں کے ہم پلہ ہیں جو اﷲ نے ہمیں دی ہیں۔ ہرچند کہ ہم اپنی ذاتی محنت سے زمین سے غذا حاصل کرتے ہیں،پھر بھی یہ نعمت اس قدر انمول ہے کہ کسان جو محنت کرتا ہے وہ اُن لامحدود فوائدکے مساوی نہیں قراردی جا سکتی جو ہمیں حاصل ہوتے ہیں۔اسی طرح اﷲ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہوئے ہم سے جو قربانیاں طلب کی جاتی ہیں وہ اُن فوائد کی ہم وزن نہیں ہوسکتیںجو ہم ذاتی طورپر حاصل کرتے ہیںیا جو اُمتِ مسلمہ اجتماعی طورپر حاصل کرتی ہے اورجو   بنی نوعِ انسان کو مجموعی طورپر ملتے ہیں۔اس کے باوجود ہمیں اپنی انسانی بساط کے مطابق یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے نصب العین پر پختہ ایمان رکھتے ہیں بلکہ جس چیز کوہم اپنی محبوب ترین شے قراردینے کے دعوے دار ہیں اُس کے لیے جدوجہد کرنے اور اپنی پسندیدہ چیزوں کی قربانیاں دینے کو بھی تیارہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تقریباً تواتر کے ساتھ ایمان کاذکر عملِ صالح، ہجرت اور جہاد کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات ۴۹ : ۱۵) حقیقت میںتو مومن وہ ہیں جو اﷲ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر اُنھوں نے کوئی شک نہ کیا اوراپنی جانوں اور مالوں سے اﷲ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی لوگ سچے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بھی مختصراً ذکر کیا جاچکا ہے کہ جدوجہد دوسطحوں پر ہوتی ہے۔ذاتی سطح پر ایمان کا تقاضایہ ہے کہ فرداپنے آپ کو اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بنالے اور اس طرح دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ اﷲ کو محبوب رکھے:’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۵)۔ بہ الفاظ دیگر ایمان یہ کہتاہے کہ دُنیا کی کوئی چیز اتنی قیمتی اور اتنی قابلِ قدر نہیں کہ اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان نہ کی جاسکے۔

اجتماعی سطح پر کی جانے والی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں دی جانے والی قربانیاں پوری دُنیا کوایک اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بننے کی دعوت دینے کے لیے ہوتی ہیں۔قرآن اکثر اس جدوجہد کو جہاد سے تعبیرکرتاہے۔ایمان کا تقاضاہے کہ تمام جھوٹے خداؤںکو معزول کردیا جائے اورظلم وجبر، بگاڑ اوربدی کی تمام طاقتوں کے سامنے ڈٹ جایا جائے۔جہاد، اﷲ سے بغاوت کرنے والی تمام طاقتوںپر غلبہ پانے کے لیے کیا جاتاہے۔اس کے لیے اپنے نفس پر غلبہ پانے سے بہت مختلف نوعیت اورمختلف درجے کی قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔ (جاری)

 

اس دنیا میں ہماری زندگی ایک حقیقت ہے، اور جتنی بڑی حقیقت دنیا کی یہ زندگی ہے،  اتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس زندگی کو لازماً ختم ہوجانا ہے۔ کسی بات کے بارے میں بھی بحث، گفتگو یا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف یا بحث کی گنجایش نہیں ہے کہ یہ زندگی ختم ہوگی___ یہ بڑی واضح اور اٹل بات ہے۔ اور پھر جتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ زندگی اللہ کی بخشی ہوئی ہے اور اسی نے اس کو پیدا کیا ہے، اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ مخلوق کی خالق سے ملاقات ہوگی۔ اس سے ملاقات نہ ہو تو یہ سارا سلسلہ محض ایک واہمہ اور ایک تخیل بن کر رہ سکتاہے___ اللہ موجود ہے، وہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور  یہ کہ واقعی وہ ہے، اس کی آخری تصدیق اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس سے ملاقات ہو۔ ساری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی غلامی میں گزارنے کے لازمی معنی یہ ہیں کہ موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس سے ملاقات ہو، اور اس کی بندگی اور غلامی کی راہ میں جو ہماری کوششیں ہوں، ان کو وہ قبول فرمائے اور وہ اس کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کی مستحق ٹھیریں۔ پس جو آدمی اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرے، اس کو ان دونوں کو ملا کر چلنا ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ پر ایمان کا دعویٰ آخرت کے یقین کے بغیر، عملی زندگی میںکوئی وزن نہیں رکھتا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے جس ہستی کو ہر جگہ محسوس کیا ہو، ہر جگہ پایا ہو، موت کے ساتھ ہی اچانک وہ ہم سے لاتعلق ہوجائے۔ اگر اللہ سے ملاقات، آنے والی زندگی، اس کا احتساب، اس کی رضا اور اس کا انعام، یہ ساری چیزیں حقیقت نہ ہوں تو پھر بندگی، اطاعت، اس کی راہ میں جان لڑانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے معنی کیا رہ جاتے ہیں، بلکہ وہ آدمی بڑا احمق ہے جو نیکی کرے اور یہ یقین  نہ رکھتا ہو کہ آخرت میں اللہ سے ملاقات ہونی ہے، یعنی خدا کو مانتا ہو، آخرت کو نہ مانتا ہو۔  صاحب ِ ایمان تو صاحب ِ شعور بھی ہوتا ہے، اور ایمان کو بہرطور کامل ہونا چاہیے۔ یہی شعور کا تقاضا ہے___ یہ بنیادی مقدمات ہیں، جنھیں ذہن میں صاف ہونا چاہیے۔

  •  چند بنیادی پھلو: اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آخرت پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی ساری زندگی، یہاں کی ساری کوششوں، ہرچیز، ہربات، ہر کاوش اور ہرقدم کا محور آخرت ہو۔ یہ ایمان بالآخرت ہے اور جتنا یہ ایمان مضبوط ہوگا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق بھی مضبوط ہوگا۔ خود اللہ تعالیٰ نے بار بار دونوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ عبادت، غلامی اور بندگی کی دعوت جہاں بھی آئی ہے اس میں آخرت کو مطلوب و مقصود قرار دینے اور اس کی کامیابی کو سمجھ کر جینے کی دعوت بھی شامل ہے۔    انبیا علیہم السلام کی ساری دعوت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ زندگی اگر غلامی میں بسر کرنا ہے تو یہ سمجھ کر بسر کرو کہ جب اس سے ملاقات ہوگی تو وہی اس فیصلے کا دن بھی ہوگا کہ ہم نے فی الواقع زندگی  اس کی غلامی میں بسر کی یا نہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں ایک مشکل کا سامنا ہے___ دنیا ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کو ہم دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ اس کی لذات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس کی تکالیف سے اور درد اور الم کی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آخرت ایک وعدہ ہے، نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس کی لذتیں ہم محسوس نہیں کرتے۔ دیکھتے نہیں، سنتے ہیں کہ وہ ایسی ہوں گی۔ اس کی تکلیفوں سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اور یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم کل کے اُوپر آج کو، دُور کے مقابلے میں قریب کو، اور غیرمحسوس چیز کی جگہ محسوس چیز کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ خود دنیا میں ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ کل آنے والی چیز اور کچھ مدت بعد ملنے والی شے کو ہم ٹال دیتے ہیں اور جو چیز فوری طور پر مل رہی ہو، اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ فی الحقیقت ہمارے امتحان کا ایک حصہ ہے۔

  •  دنیا کو ترجیح دینا: دنیا کی محبت، اس کے اُوپر راضی ہوجانا اور اسی کو مقصود بنانا ایک ایسی بیماری ہے، جو اللہ کی راہ میں اُٹھنے والے ہرقدم اور کوشش کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہے۔یہ یقین کہ اللہ سے ملاقات ہونی ہے اور اسی کو مطلوب و مقصود بنانا ہے وہ چیز ہے جس سے ان سارے مراحل کو طے کرنے کے لیے، جو راہِ حق میں پیش آتے ہیں، صحیح قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔

یہ بیماری کہ آدمی دنیا کو ترجیح دے، دنیا سے محبت کرے، نقد کو حاصل کرے، اُدھار کو ٹال دے اور آج جو کچھ ہے اس کو قیمتی جانے، اور جو کچھ کل آنے والا ہے اس کو محسوس نہ کرے___ یہ جس طرح کافروں کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح ان کے ساتھ بھی لگی رہتی ہے جو ایمان کی راہ پر آتے ہیں۔ ایک ہی دنیا ہے۔ کافر بھی اس میں رہتے ہیں اور مسلمان بھی اسی میں رہتے ہیں۔ دونوں کو ایک ہی قسم کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔

جہاں جہاں بھی مسلمان ایمان کے دعوے میں اور اس کے تقاضے پورے کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کی نشان دہی کردی ہے۔ یہ دراصل دُکھتی رگ ہے اور ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ غزوئہ بدر ہوا تو فرمایا: تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا (الانفال ۸:۶۷) ’’تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو‘‘۔ غزوئہ اُحد میں ڈسپلن کی کمزوری ظاہر ہوئی تو فرمایا: مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ، (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۲) ’’تم میں سے بعض دنیا کے طلب گار تھے اور بعض آخرت کے طلب گار تھے‘‘۔ غزوئہ تبوک میں جن لوگوں نے کمزوری دکھائی ان کا ذکر سورئہ توبہ میں یوں ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمھیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘ (۹:۳۸)۔ گویا ہرجگہ ایک ہی بات کہی گئی۔ ایسے معاملات میں خرابی کی جڑ یہ دنیا کی محبت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بگڑی ہوئی مسلمان اُمتوں کو اپنی طرف بلایا تو اس میں اس بات کو بنیادی اہمیت دی کہ ہر وہ چیز جس سے آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس کمزور ہوتا ہو، یا جس سے دنیا کی محبت ظاہر ہوتی ہو، اس کو ختم کیا جائے، اس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔

  •  دعوت کا مرکزی نکتہ: سارے پہلوئوں کو سامنے رکھیں تو یہ بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ حق کی راہ پر چلنے میں، خود اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی، ایک ہی چیز مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور اسی سے ہمارے اندر قوت، استقامت اور استعداد پیدا ہوگی کہ جن لوگوں کو ہم منظم کر کے اسلامی انقلاب کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں ان کے اندر دنیا کی محبت کم ہو، آخرت کی محبت اور آخرت کا خیال زیادہ ہو، اور جو موت سے خوف زدہ نہ ہوں۔

ہماری دعوت کے اندر اس کی حیثیت ایک مرکزی نکتے کی ہونی چاہیے۔ جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور آخرت کی طلب دل کے اندر ڈیرہ ڈال لے گی اور وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ٹھیرے گی تو ہمیں صحیح عمل کرنے کے لیے یقین اور قوت بھی حاصل ہوگی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جن عوام کو ہم پکارتے ہیں اور جن کی عدم توجہی کی ہم شکایت کرتے ہیں، ان کے بھی سارے امراض کا علاج اسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کو بھی پکارا اور جب بھی پکارا تو یہی پکارا کہ وہ ایسے فریب اور دھوکے سے باہر نکل آئیں جو ان کو نیک عمل سے غافل کرتے ہیں۔

یہ حدیث آپ کی بار بار کی سنی ہوئی ہوگی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ ایک وقت آئے گا دنیا کی قومیں اس اُمت کے اُوپر اس طرح سے ٹوٹ پڑیں گی جس طرح سے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو صحابہؓ نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں بہت کم ہوجائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، تمھاری تعداد تو ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کی طرح ہوگی۔ انھوں نے کہا: پھر کیا وجہ ہوگی، تو آپؐ نے فرمایا: تمھارے اندر وہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا: وہن کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت___ گویا جب یہ پیدا ہوجائے تو انسانوں کی ساری استعداد اور قوت ختم ہوجاتی ہے، اور اگر انسان میں وہن نہ رہے تو اس کی جدوجہد اور اس کے عمل میں نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس نکتے سے غافل ہوکر جو کوششیں ہوں گی، ہوسکتا ہے وہ پوری طرح بارآور نہ ہوں۔

  •  آخرت کے لیے یکسوئی: اس کی اہمیت سمجھ لینے کے بعد___   دوسری جس چیز کا مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم آخرت کویکسوئی کے ساتھ منتخب کریں، اور یکسوئی کے ساتھ اس کے حصول کا ارادہ کریں۔ دنیا اور آخرت دونوں میں سے کسی ایک کو آدمی منزل بناسکتا ہے۔ دونوں کو ایک جیسا مقام نہیں دے سکتا۔ قرآن نے اس بات کو بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ آدمی اپنے ارادوں کو کبھی دو حصوں میں نہیں بانٹ سکتا۔ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ دونوں کو مقصود بنا کر چلے۔ قرآن نے کہا ہے کہ جو آخرت کو مطلوب بنائے گا اس کو آخرت ملے گی، اور جو دنیا کو مقصود بنائے گا اس کو دنیا ملے گی اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ انسان دنیا اور آخرت کو بیک وقت مقصود بناکر نہیں چل سکتا۔ دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر وہ زندگی کے سمندر میں تیر کر آخرت تک نہیں پہنچ سکتا۔

اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو آدمی آخرت کو مقصود بنائے وہ دنیا سے دستبردار ہوجائے گا___  مطلب یہ ہے کہ دنیا اس کے لیے مطلوب، محبوب اور مقصود کی حیثیت نہیں رکھے گی بلکہ یہ آخرت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوگی۔ اس کی رشتہ داریاں، اس کی دوستیاں، اس کی محبتیں، اس کی جدوجہد، سب ایک ذریعے کی حیثیت اختیار کرجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کو بار بار واضح کیا ہے، مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ آخرت کو مطلوب ہونا چاہیے، کئی جگہ بتایا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے، آخرت کی حقیقت کیا ہے، دنیا سے کیا ملتا ہے، آخرت کیا دیتی ہے، اور اس لیے ان دونوں میں سے کس چیز کو تمھیں اختیار کرنا چاہیے۔ دنیا کا نفع دنیا کی چیزیں ہیں، مثلاً مال، اولاد، جاہ و حشمت، مقبولیت۔ دوسری طرف آخرت کا فائدہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، اور وہاں کا نقصان اس کی طرف سے دیا ہوا عذاب ہے۔

دنیا اور آخرت کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف پہلوئوں سے واضح کیا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز، نعمت ہو یا تکلیف، گزر جانے کی چیز ہے۔ چونکہ وقت نہیں ٹھیرسکتا، اس لیے تکلیف بھی نہیں ٹھیرسکتی اور آرام بھی نہیں ٹھیرسکتا۔ اب اس صورت میں کہ وقت کا گزرنا یا   رُک جانا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم اس کو روک کے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لیے یہاں کی خوشی، یہاں کا آرام، یہاں کی تکلیف، یہاں کا الم، اور یہاں کا درد، یہ سب چیز گزر جانے والی ہیں۔ یہ ہمارا روز کا تجربہ ہے کہ خوشی کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ہم اس کی تمنا ہی نہیں کرتے، خواب دیکھتے ہیں۔ خوشی آتی ہے اور بالآخر گزر جاتی ہے۔ تکلیف سے ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ تکلیف بڑھتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اب گزر ہی جائے گی۔

  •  ایک اٹل حقیقت: دنیا کے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہے کہ اس کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ٹھیرنے والی ہو۔ ہر بات موت کے ساتھ بالکل ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ اس خاتمے کو ٹالا نہیں جاسکتا اور موت سب کے لیے ہے، کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۵)۔ لیکن آخرت میں جو کچھ ہے، اس کا تعلق دنیا کے وقت سے نہیں ہے۔ اس کے وقت کا پیمانہ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہمیں ہماری زبان میں جو کچھ سمجھایا ہے اس میں اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہاں کی ہرچیز باقی رہنے والی ہے، کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔

دنیا کی مثال تفصیل کے ساتھ دو تین جگہ دی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ دنیا کی مثال ایک بارش کی سی ہے۔ بارش ہوتی ہے، فصل اُگتی ہے، ہری بھری ہوتی ہے، بہار آتی ہے، اس کے بعد زرد پڑتی ہے اور چورا چورا ہوکر زمین کے اندر مل جاتی ہے۔ سورئہ کہف میں، سورئہ حدید میں اور سورئہ یونس میں تین جگہ اس مثال کے مختلف پہلو مختلف انداز سے اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس طرح کھیتی باڑی ہوتی ہے، انسان کھیتی کرتا ہے، وہ کچھ نتائج دیکھتا ہے لیکن پھر بالآخر سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ دنیا کے معاملات اسی طرح ہیں۔

آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل صاف کہی گئی ہے کہ وہاں پر موت نہیں آئے گی۔ عذاب ہوگا تو وَ یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ھُوَ بِمَیِّتٍ ط (ابراہیم ۱۴:۱۷) ،یعنی وہ عذاب تو ایسا ہوگا کہ جیسے ہر طرف سے موت آرہی ہے مگر انسان مرنے نہ پائے گا۔ دنیا میں جب درد و الم بہت بڑھتا ہے تو آدمی یہ آرزو کرتا ہے کہ بس اب موت آجائے تاکہ یہ درد و اَلم ختم ہو اور موت آبھی جاتی ہے، اور درد و اَلم ختم ہو بھی جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا عالم ایسا ہے جو موت ہی کی طرح ہوگا کہ موت آرہی ہے، لیکن آدمی مرے گا نہیں۔ یہ عذاب کی بڑی تکلیف دہ صورت ہوگی۔ لیکن انعام پانے والے بھی ایک موت کے بعد کسی دوسری موت کا مزا نہیں چکھیں گے۔

  •  یقینی نتائج:دوسری بات جو اللہ تعالیٰ نے آخرت اور دنیا کے موازنے میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ آخرت کے لیے کوشش کے نتائج یقینی ہیں۔ آخرت کے لیے کوشش رائیگاں نہیں جاسکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آدمی خلوص کے ساتھ آخرت کے لیے کوشش کرے اور وہ ضائع ہوجائے اور اس کا اجر اس کو نہ ملے۔ لیکن دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی کوشش کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آدمی بہت محنت کرے اور پھر بھی ممکن ہے کچھ حاصل نہ ہو، یا تھوڑی محنت کرے اور ممکن ہے بہت زیادہ مل جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی جو کوشش کرے گا اس کو اس کا پھل ضرور ملے گا، بلکہ کسی کو مل سکتا ہے اور کسی کو نہیں ملے گا۔ گویا دنیا کے نتائج غیریقینی بھی ہیں، کم اور زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، اور ہرشخص کو ملنا ضروری بھی نہیں ہیں۔ لیکن آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ کسی شخص کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو ضائع جائے گا، بلکہ ارشاد ہے کہ جو کچھ عمل ہوگا اس سے زیادہ کا بھی وعدہ ہے، ہماری طرف سے۔
  •  کثرت کی ھوس: اب ایک اور پہلو سے دیکھیں۔ سورئہ حدید میں ایک پوری آیت میں دنیا کو زینت بھی کہا گیا ہے، تکاثر بھی کہا گیا ہے۔ ان میں سے ہر لفظ کے اندر دنیا کے نتائج کی ایک قدروقیمت کو واضح کیا گیا ہے۔ سجاوٹ اور زینت صرف ظاہری ہوتی ہے۔ آپ باہر سے ایک چیز کو سجاتے ہیں۔ سجاوٹ کے معنی یہ ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اندر سے اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ زینت اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ تو ظاہر کی سجاوٹ ہے۔ اچھا لباس ہے، اچھا مکان ہے، اچھی گاڑی ہے،  یہ سب کچھ ہے، لیکن یہ سجاوٹ ہے۔ اس کی کوئی اندرونی قدروقیمت نہیں ہے۔ تکاثر کے معنی یہ ہیں کہ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت ہے اور مسابقت کے ساتھ حسد اور جلن اور کش مکش کی جو برائیاں ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ آتی ہیں۔ تکاثر کے معنی ہیں: زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس۔ یہ دنیا کی بھوک ہے جس سے کبھی آدمی سیر نہیں ہوتا۔ یہ وہ پیاس ہے کہ ایک گھونٹ پی کر اور بڑھتی ہے، اور بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ آدمی اس کو اور حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
  •  متاعِ غرور: دنیا کے یہ مختلف پہلو یہاں کے نتائج اور ان کی قدروقیمت کو واضح کرتے ہیں۔ قرآن حکیم انھی نتائج کو بیان کر کے تصریح کرتا ہے کہ یہ متاع ہے اور متاع الغرور ہے۔ غرور کے معنی دھوکے کے ہیں۔ سارے دھوکے اس کے اندر شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں آخرت کو خیر کہا ہے کہ یہ بہتر بھی ہے، باقی رہنے والی بھی ہے، اور یہاں خوف و حزن اور اَلم سے نجات بھی ہے۔ آخرت کے بارے میں وعدہ ہے کہ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ ۲:۳۸) ’’نہ ان پر خوف ہوگا نہ کسی قسم کے غم کا شکار ہوں گے‘‘۔ اور نہ وہاں پر یہ مسابقت ہوگی کہ اس کو اتنا مل گیا۔ ایسی کوئی چیز مالک کی خوشنودی پانے والوں کے درمیان نہ ہوگی۔

قرآنِ مجید نے دنیا کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ آخرت کی پوری راہ دنیا سے ہوکر جاتی ہے۔ یہی راہ، یہی مال، اور یہی نعمتیں آخرت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اسی لیے دنیا کے مال کو خیر بھی کہا گیا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر یہی مال آخرت بنانے کے لیے استعمال ہو تو یقینا وہ خیر ہے۔ گویا یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جو اس کے پیچھے چلتا ہے وہ برباد ہوگیا، اور جس نے اس کو اپنے پیچھے چلایا اور آخرت کی منزل کی طرف لے گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ جو انسان ان حقائق سے واقف ہو، اس کو اپنی منزلِ مقصود آخرت ہی کو قرار دینا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ دنیا کو مقصود بنائیں اور اس کے پیچھے دوڑیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ اس سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔

  •  اس سے پھلے کہ موت آجائے! اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں دنیا استعمال کرنے کی جو مہلت ملی ہوئی ہے وہ ایک مختصر مہلت ہے۔ ایک تو یہ مختصر ہے اور دوسرے اس کے اختتام کا علم ہمیں نہیں ہے۔ یہ اختتام آج بھی ہوسکتا ہے اور کل بھی، برسوں بھی لگ سکتے ہیں اور دنوں میں بھی بات ختم ہوسکتی ہے۔ ماہ و سال کی جو مقدار بھی ہو، اس مدت کو مختصر ہی قرار دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ یہ مدت مختصر ہے بلکہ ہمیں اس مختصر مدت کے نہ اختتام کا علم ہے اور نہ جگہ کا۔ موت کے بارے میں قرآنِ مجید نے جو تعلیمات دی ہیں، ان سے دراصل یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موت ڈرنے اور خوف کھانے کے لیے نہیں ہے۔ بجاے اس کے کہ ہم موت سے ڈریں اور خوف کھائیں کہ جس سے ڈرنے اور خوف کھانے کا کوئی نتیجہ نہیںہے، سواے اس کے کہ بالآخر موت آئے گی، جو کچھ موت کے بعد پیش آنے والا ہے، ہم اس کی فکر کریں۔

یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مہلتِ عمل مختصر بھی ہے اور یہ بغیر کسی نوٹس کے ختم ہونے والی بھی ہے۔ اور یہ بھی دعوت دی گئی ہے کہ ا س سے پہلے کہ وہ وقت آئے جب تم دنیا سے رخصت ہو، اس سے پہلے ہی اس کی تیاری کرلو۔ یہی دعوت اس انداز سے بھی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے کہ تم کو پکڑ لیا جائے اور موت تمھارے اُوپر آجائے، اس مہلت سے فائدہ اٹھا لو۔ اس لیے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور عمل کی مہلت نہیں ہوگی۔

اگر آخرت مقصود بن جائے تو پوری دنیا کا رُخ متعین ہوجاتا ہے۔ شادی ہو، عائلی زندگی ہو، کیریئر ہو، اولاد ہو، کارخانے ہوں، کھیت ہوں، پیداوار ہو، تجارت اور مالِ تجارت ہو،  بنک بیلنس ہو، سب چیزیں موجود ہوں گی اور آدمی کا ان سے تعلق بھی یقینا ہوگا۔ لیکن اب سب سے برتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہی اس کی منزلِ مقصود ہوگی۔ یہی طاقت کا اصل سرچشمہ اور قوت کا اصل منبع ہے۔ (ایک خطاب کی تلخیص)       (کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے، منصورہ، لاہور)

 

شیطان کا ابن آدم کو چیلنج ہے کہ وہ دائیں اور بائیں اور سامنے اور پیچھے سے حملہ آور ہوگا اور اللہ کے مخلص بندوں کے سوا ہر کسی کو اپنے جال میں پھنسا لے گا۔ ایک ہی مقصد کے لیے اور ایک ہی ہدف پر بار بار حملے کرنا بھی شیطان کے طریق کار کا تیر بہدف ہتھیار ہے۔ ہٹلر کے وزیراطلاعات گوبلز نے بھی شیطان کے اس کھیل کا ایک پہلو اپنے اس حربے کی شکل میں بنالیا تھا کہ ایک جھوٹ کو اتنی بار دہرائو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ آج کی استعماری قوتیں اور ان کے  آلۂ کار انھی تمام حربوں کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور ان کا ایک خاص نشانہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک اور اسلام کے تصورِ عدل اور جہاد ہیں۔ اپنی اصل کے اعتبار سے اعتراض بہت پرانا ہے اور اتنا گھسا پٹا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ شیطانی قوتیں ان چلے ہوئے کارتوسوں کو باربار کس دیدہ دلیرہ سے استعمال کر رہی ہے۔ لیکن چونکہ یہ حملے برابر جاری ہیں اور ایک ہی ڈراما ہے جس کو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد دہرایا جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام اعتراضات کا جواب بار بار دیا جائے اور تمام ریشہ دوانیوں کا پردہ ہربار چاک کیا جائے۔

آج جو کھیل آسیہ مسیح کے نام پر کھیلا جارہا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جو چند سال پہلے گوجرانوالہ میں رچایا گیا تھا۔ اس موقع پر مدیر ترجمان القرآن اور میرے بھائی  خرم مرادؒ نے ’توہین رسالتؐ کا مقدمہ‘ کے عنوان سے ایک گراں قدر مقالہ لکھا تھا جس میں مسئلے کے تمام پہلوئوں کا بڑے مدلل انداز میں اور کمالِ عدل کے ساتھ احاطہ کیا گیا تھا۔ آج یہ بحث ایک بار پھر برپا کردی گئی ہے اور پوری سیکولر لابی یک زبان ہوکر توہینِ رسالتؐ کے مبنی برحق قانون پر حملہ آور ہوگئی ہے تو ہم نے ضروری سمجھا کہ ایک بار پھر بطور تذکیر اس مقالے کو قارئین ترجمان کے سامنے لائیں، اور ترجمان کے ذریعے پوری قوم اور خود معتبرین کو اس کے مندرجات پر کھلے دل اور دیانت سے    غور کرنے کی دعوت دیں۔ اس ماہ کے ’اشارات‘ بھی تازہ واقعے اور اس کے تعلق سے اُٹھائے جانے والے سوالات سے متعلق ہیں جو برادر عزیز ڈاکٹر انیس احمد کے قلم سے ہیں۔ ’اشارات‘ اور یہ مضمون اس وقت کی بحث کا کافی و شافی جواب فراہم کرتے ہیں  ع

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

___  پروفیسر خورشید احمد

توہینِ رسالتؐ کا حالیہ مقدمہ ،معمول کے مطابق محض جرم و سزا کا ایک مقدمہ ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ اگر دونوں ملزم بے گناہ تھے، یا ان کا جرم شرعی معیار شہادت کے مطابق ثابت نہ ہوسکا تھا، یا اس میں کوئی ادنیٰ سا بھی شبہہ تھا، تو حق و انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو بری کردیا جاتا۔ اس حق و انصاف اور رحم و درگزر کا، جس کی تعلیم ہمیں اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، جس کی توہین کا یہ مقدمہ تھا، جس نے بدترین دشمن کے ساتھ بھی عدل و رحم کا برتائو کیا ہے، اور ہر قیمت پر عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ تو ہمارے معاہد اور برابر کے شہری تھے، مگر پورے مقدمے کے دوران جس طرح اور جس پیمانے پر طاقت ور بیرونی اور اندرونی قوتیں اثرانداز ہوتی رہیں، اس نے مذکورہ مقدمے کو ایک غیرمعمولی نوعیت دے دی ہے۔ اس نے توہینِ رسالتؐ کے معاملے کو ہمارے مقدر کا، ہمارے حال اور مستقبل کا ایک آئینہ بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملزمان کی برأت بھی مشتبہ ہوگئی ہے، جو یقینا ان کے ساتھ ایک بے انصافی ہوئی ہے۔

اس آئینے میں وہ ساری کھلی اور چھپی صورتیں بالکل بے نقاب ہوگئی ہیں، جو آج ہمارے مستقبل کی نقشہ گری اور ہمارے مقدر کے بنانے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان صورتوں میں، اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی ، تہذیبی بھی ہیں اور سیاسی بھی، فکری بھی ہیں اور ابلاغی بھی۔ اس آئینے میں ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری بربادی کے مشورے کہاں ہو رہے ہیں، جنگ کا نقشہ کیا ہے، محاذ کہاں کہاں کھولے جارہے ہیں، مورچے کہاں کہاں بنائے گئے ہیں، چالیں کیا کیا چلی جارہی ہیں، دُور مار توپیں کدھر کدھر سے گولہ باری کر رہی ہیں، ہتھیار کون کون سے استعمال ہو رہے ہیں، پیش قدمی کن کن راستوں سے ہو رہی ہے، اندر کون کون ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، عزائم کیا ہیں اور اصل ہدف کیا ہے؟___ اور یہ بھی کہ ___ ہماری قوت کا اصل راز کیا ہے، ہم بازی کیسے پلٹ سکتے ہیں، بلکہ جیت سکتے ہیں۔

l ایک چہرہ مغرب کا ہے، اس کے حکمرانوں، اہل کاروں اور سفارت کاروں اور ذرائع ابلاغ کے سحرکاروں کا چہرہ، جو پورے مقدمے کے دوران تیز تیز چلتے، بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے رہے۔   یہ چہرہ اب کچھ ایسا ڈھکا چھپا بھی نہیں رہا۔ ذرا موقع نکلتا ہے، فوراً اُوپر سے تہذیب، روشن خیالی اور انسانی ہمدردی کا چھلکا اتر جاتا ہے، اور نیچے سے وہی مسلمان اور اسلام کی دشمنی کا چودہ سو سال پرانا رویہ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت اور غصہ ٹپکاتا ہوا چہرہ نمودار ہوجاتا ہے۔

 سیکولرازم اور انسانی حقوق کی علم بردار ریاستیں بالآخر محض ’عیسائی‘ ریاستیں ثابت ہوتی ہیں، جو ہر ملک کے ملکی قوانین کے خلاف ’عیسائی حقوق‘ کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ فلسطین ہو یا بوسنیا، کشمیر ہو یا چیچنیا، الجیریا ہو یا فرانس___ چہرہ روشن، اندرون چنگیز [۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسانوں کا قاتل تاتار حکمران۔ م: ۱۲۲۷ئ] سے تاریک تر۔ مغرب کی یہ قوتیں ہمارے ہاں تہذیبی اور سیاسی غلبہ رکھتی ہیں، ہماری قسمت کے ساتھ کھیل رہی ہیں، یہاں تک کہ اب ہمارا ایک قانون اور ہمارے دو شہریوں کے خلاف، ہماری عدالت میں ایک مقدمہ بھی ان کے غلبے سے آزاد نہیں۔

l ایک چہرہ مغرب کے فرزندوں کا ہے، جو برطانوی مورخ لارڈ [تھامس بابنگٹن] میکالے [م: ۱۸۵۹ئ] کے خواب کی مکمل تعبیر ہے: ’’خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہم میںسے نہیں، مگر مذاق اور راے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز‘‘۔ یا، لبنانی ادیب خلیل جبران [م:۱۹۳۱ئ] کے الفاظ میں: ’’[جن کے جسم خواہ یہاں پیدا ہوئے ہوں، مگر] ان کی روحوں نے مغربی ہسپتالوں میں جنم لیا ہے۔ جو فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں، مگر ہمارے [فرنگی سامراجیوں] کے سامنے کمزور اور گونگے ہیں۔ جو آزادی کے علم بردار ہیں، مصلح ہیں، پرجوش ہیں، مگر اپنے اسٹیجوں پر، اہلِ مغرب کے سامنے اطاعت کیش اور رجعت پسند ہیں‘‘___ یہ فرزند ان مغرب، توہین رسالتؐ جیسے معاملات میں ایک سو ایک فی صد مغرب کے ہم نوا رہتے ہیں، مغرب سے بڑھ کرپیش پیش ہوتے ہیں۔

  • ایک چہرہ ان کا ہے، جو کسی طرح بھی لارڈ میکالے کے خواب کی مکمل تعبیر نہ بن سکے، وہ اسلام اور ملّت سے اپنا رشتہ کھرچ نہیں سکے، لیکن اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی درجے میں فرنگی افکار کے جاود میں گرفتار ہیں۔ ان کے مزاج کے لیے بھی یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا موت ہو۔

وہ پوچھتے ہیں: کیا یہ سخت سزا قرآن سے ثابت ہے؟ کہیں یہ مُلا کی تنگ نظری اور شدت کا شاخسانہ تو نہیں؟ جو رحمت للعالمینؐ تھے اور جنھوں نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں، ان کی توہین پر ایسی سخت سزا! دنیا ہمارے بارے میں کیا کہے گی، ہمیں کیا سمجھے گی، ہم اسے کیا منہ دکھائیں گے؟

خود نگری اور مستقبل بینی کا یہ آئینہ ہمارے ہاتھوں میں اگر مسئلہ توہینِ رسالتؐ کے ذریعے آیا، تو بالکل بجا آیا:

قوم را سرمایہ قوت ازو

حفظ سر وحدت ملّت ازو

’’ما ز حکم نسبت او ملتیم‘‘: آں حضوؐر کی ذات مبارک ہی ہماری قوت کا سرمایہ ہے، ہماری وحدت کا راز آپؐ سے وابستگی میں ہے، آپؐ سے نسبت ہی نے ہمیں ایک ملّت بنایا ہے، بلکہ ہمارے جسد ملّی میں رسالت ہی کی جان پھونکی گئی ہے، اسی کے دم سے ہمارا دین ہے، ہمارا آئین ہے:

حق تعالیٰ پیکر ما آفرید

و ز رسالت در تن ما جاں دمید

از رسالت در جہاں تکوین ما

از رسالت دین ما آئین ما

مغرب کا اضطراب اور شور و غوغا قابلِ فہم ہے۔ اس لیے نہیں، جیسا بعض لوگ [گستاخی رسولؐ کے مرتکب] سلمان رشدی کی یاوہ گوئی کے وقت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک رسولؐ کا مقام کیا ہے، اور کیوں ہے۔ مغرب سے ہماری مراد سارے اہلِ مغرب نہیں، تاہم ان میں سے اکثر کے بارے میں یہ بات صحیح ہے۔ اور مغرب کے طلسم میں گرفتار سادہ دل مسلمانوں کے بارے میں بھی۔ یقینا ان سب کو سمجھانے کی ضرورت ہے، ان کو سمجھا لینے ہی میں ہماری کامیابی پوشیدہ ہے۔ مگر جو حکمراں، سفارت کار، دانش ور اور ذرائع ابلاغ کے سحرکار قانونِ توہینِ رسالتؐ کے خلاف پیش پیش ہیں، وہ اسی لیے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان ملّت کی زندگی، وحدت اور قوت و توانائی کا راز اور ان کی سربلندی کا راز بھی حضوؐر کے ساتھ وابستگی اور عشق و محبت میں پوشیدہ ہے  ع  ’’در دل مسلم مقامِ مصطفیؐ است‘‘۔

اسی لیے ہزار سال سے اُوپر مدت ہوگئی، ان کے نقشۂ جنگ کا ہدف یہی مقام مصطفیؐ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کا یہی ’قلب‘ اور ’دارالحکومت‘ ہے۔ اس کی شکست و ریخت، بربادی اور اس پر قبضہ کے بغیر اس ملت کو زیر کرنے کا اور کوئی نسخہ نہیں۔ اسی لیے آں حضوؐر کی ذات ان کے سارے حملوں کا اوّلین ہدف رہی ہے، اور ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل ہر قسم کے انتہائی غلیظ وار، آپؐ  کے خلاف کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے سلمان رشدی ان کی آنکھوں کا تارا ہے، یورپ کی حکومتوں کے سفارتی تعلقات اور تجارتی مفادات اس کے خلاف ’فتویٰ‘ کے محور پر گھوم رہے ہیں۔ اسی لیے تسلیمہ نسرین ان کی ہیروئن ہے۔ اسی لیے ہر وہ مسلمان جو: شریعت مصطفویؐکو بے وقعت کرے، جو تعلیمات محمدیؐ کو مشکوک بنائے، جو مقامِ مصطفویؐ کو مجروح کرے، وہ انھیں محبوب ہے۔ اور یہ حکیمانِ مغرب کا فتویٰ ہے:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

اسی لیے مذکورہ دو افراد کے خلاف مقدمہ دائر ہوتے ہی، غیرمسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ اور سفارت کار حرکت میں آگئے اور یہ واقعہ عالمی شہرت کا حامل بن گیا۔ ان سب کا ہدف ملزموں کی بے گناہی ثابت کرنا نہیں،بلکہ توہینِ رسالتؐ کے قانون کی تنسیخ رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی، وائس آف امریکا، وائس آف جرمنی کی نشریات، اخبارات، رسائل و جرائد میں مضامین اور خبروں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ انھی بیرونی لابیوں کے ساتھ پاکستان کا ہیومن رائٹس کمیشن بھی متحرک ہوگیا۔

امریکا میں پاکستانی سفیر، ملیحہ لودھی، گوجرانوالہ گئیں اور ملزموں کی ضمانت کے لیے عدالت پر زور ڈالا۔ امریکی نائب وزیرخارجہ، رابن رافیل نومبر ۱۹۹۳ء میں اسلام آباد آئیں، تو وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے ساتھ مذاکرات کے دوران اس کیس کو اٹھایا۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے انھیں یقین دلایا کہ ’’ملزموں کو ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا‘‘۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس مقدمے میں ذاتی دل چسپی لی اور جب مجرموں کو سزا ہوئی تو انھیں ’سخت دکھ‘ ہوا۔ اپریل ۱۹۹۴ء میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے موصوفہ کی صدارت میں، توہین رسالتؐ کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا کو ۱۰ سال قید کی سزا میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

پھر جب ملزموں کو سیشن کورٹ سے سزا ہوگئی تو سارے بین الاقوامی، سفارتی اور ابلاغی ذرائع نے نفرت انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالنے کی مہم تیز تر کر دی۔ برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر، ملزمان سے ملاقات کے لیے جیل پہنچ گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک    بنچ نے، جو عارضی [ایڈہاک] ججوں پر مشتمل تھا، مسلسل روزانہ اپیل کی سماعت شروع کردی۔ بالآخر ملزمان رہا ہوگئے اور راتوں رات ان کو جرمنی روانہ کردیا گیا۔

عدالتوں کے فیصلے تسلیم کیے بغیر کوئی مہذب اور پُرامن معاشرہ قائم بھی نہیں ہوسکتا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ہائی کورٹ نے صحیح فیصلہ ہی کیا ہوگا۔ لیکن، اس مسلسل بین الاقوامی اور حکومتی دبائو اور عدالتی کارروائی میں حیرت انگیز سرعت نے پورے فیصلے کو مشکوک بنا دیا۔ اس دبائو کے آگے اس دبائو کی کیا حیثیت اور کیا وزن، جو عدالتی کارروائی کے دوران اور فیصلے کے بعد عوام نے لاہور کی سڑکوں پر نکل کر ڈالا۔ ہر تجزیہ نگار، پورا پس منظر جان بوجھ کر نظرانداز کر کے، سارا زور عوامی احتجاج کی مذمت کرنے میں لگاتا رہا۔ ہم بھی کسی عدالت پر اس طرح عوامی دبائو ڈالنے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دوسری طرف سے وہ لوگ زبردست دبائو ڈال رہے تھے، جن کی مٹھی میں حکمرانوں کے اقتدار کی کنجی ہے، ڈالر ہیں، دہشت گرد قرار دینے کی لاٹھی ہے اور ’مہذب، بھی کہلاتے ہیں۔

تہذیب کے دعووں کے ساتھ اب مغرب کے لیے قرونِ وسطیٰ کی طرح دشنام طرازیاں تو ممکن نہیں، البتہ ان کی جگہ آج کے رائج الفاظ کے پردے میں توہین رسالتؐ کے قانون پر حملہ ہو رہا ہے: ’’یہ قانون، انسانی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، مذہبی آزادی کے خلاف ہے، اظہار راے کی آزادی کے خلاف ہے، اقلیتوں کے خلاف تعصب اور امتیاز پر مبنی ہے، اقلیتی فرقوں کے سر پر  ننگی تلوار لٹکا دی گئی ہے، فرقہ واریت اور ذاتی عناد کی بنا پر، اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، اس سے مُلا، بنیاد پرستی، مذہبی جنون اور تنگ نظری کا زور بڑھ گیا ہے، تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

توہین رسالتؐ کے لیے سزا، اس مقصد کے لیے رائج الوقت قانون، اس کا استعمال اور اس بارے میں خدشات کو حالیہ مقدمہ سے الگ کر کے دیکھا جائے، تب ہی ایک منصف مزاج آدمی اس قانون کے خلاف سارے مباحث میں کسی صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔

  • بنیادی اور اوّلین سوال یہ ہے: ’’کیا توہینِ رسالتؐکوئی جرم نہیں ہے، اور جرم ہے بھی تو کیا اس پر کوئی سزا نہیں ہونا چاہیے؟‘‘

رسالت تو بڑی چیز ہے، دنیا بھر میں ہمیشہ سے کسی بھی انسان کی عزت و آبرو کو تحریری یا زبانی نقصان پہنچانا، ایک جرم قرار دیا گیا ہے، اور اسی لیے ہر معاشرے میں ہتک عزت [defamation] کے جرم کے لیے سزا کا قانون موجود رہا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں کبھی یہ نہیں آیا کہ کسی دوسرے انسان کی بے عزتی اور توہین کرنا، ایک فرد کا انسانی اور بنیادی حق ہوسکتا ہے، اور اگر اس پر سزا دی جائے تو گویا ایک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ آج مغرب میں بھی یہی تصور اور یہی قانون ہے۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ مغربی قوانین کے تحت جس کی  ہتک عزت ہوئی ہو، وہ خود ہی مدعی بن سکتا ہے۔ گویا، کیونکہ رسول، یا کوئی بھی دنیا سے گزرا ہوا آدمی، اب خود مدعی نہیں بن سکتا، اس لیے اس کی جتنی توہین کرلی جائے، یہ جرم قابلِ سزا نہیں ہوسکتا۔

لیکن اس سے زیادہ بودی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟___ جب ایک عام آدمی کی ہتک عزت بھی قابلِ تعزیر جرم ہو، تو اس شخص کی ہتک عزت کیوں نہ قابلِ تعزیر ہو، جوایک ارب سے زیادہ انسانوں کواپنی جان و مال ہی نہیں، اپنی ذات سے بڑھ کر محبوب ہے۔ جس کی عزت اور نام سے ان کی عزت اور نام وابستہ ہے۔ جس کی توہین سے ان کی اپنی ذات، ان کے نام، ان کی اپنی عزت، ان کے دین، ان کے آئین اور ان کی ملّت کی توہین ہوتی ہے۔ آں حضوؐر کا مقام تو ہرمسلمان کے لیے یہی ہے۔ ایک مسلمان کی آبرو آپؐ کے نام سے ہے: آبروے ما زنام مصطفی است۔ وہ مسلمان ہو نہیں سکتا، جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی جان، مال، والدین، دنیا کی ہر چیز، یہاں تک کہ اپنے نفس اور ذات سے زیادہ محبوب نہ ہوں: لَا یُوْمِنُ اَحَدَکُمْ حَتّٰی اَکُوْنُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنِ (بخاری، مسلم)

  • دوسرا سوال یہ ہے: ’’کیا اس جرم کے لیے موت کی سزا بہت سخت اور احترام آدمیت کے خلاف ہے؟‘‘

اگر اعتراض فی نفسہٖ موت کی سزا پر ہے کہ یہ وحشیانہ ہے، تو وہ زمانہ گزر گیا جب تہذیب کے جوش میں موت کی سزا کو بالکل منسوخ کرنے کی ہوا چلی تھی۔ اب تو انتہائی ’مہذب‘ اور   ’انسان دوست‘ ہونے کے دعوے دار ملکوں میں، ایک کے بعد ایک، یہ سزا بحال کی جارہی ہے، بلکہ ہر ملک جہاں یہ سزا ختم کی گئی، وہاں کی بھاری اکثریت موت کی سزا کی بحالی کے حق میں ہے، نہ صرف موت کی سزا، بلکہ جسمانی سزا کے حق میں بھی۔ ۱۹۹۴ء میں جب سنگاپور میں ایک امریکی کو چھے بید مارنے کی سزا دی گئی تو،امریکی حکومت اور چند طبقات کی مخالفت کے باوجود، امریکیوں کی اکثریت نے اس سزا کی حمایت کی تھی۔ مغرب میں بھی اس قسم کے جرم پر سخت سزائوں کے قوانین موجود ہیں، اور پہلے تو زندہ جلایا جاتا رہا ہے۔

اگر اعتراض یہ ہو کہ یہ سزا جرم کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے، تو اس جرم کی نوعیت کا فیصلہ تو وہی کرسکتے ہیں، جن کو اور جن کے پورے معاشرے کو اس جرم سے نقصان پہنچ رہا ہو۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے کردار، اخلاق، صداقت، امانت، عدالت کو مجروح کرنا دراصل دین، ایمان، آئین، ریاست اور پوری اُمت مسلمہ، سب کو مجروح کرنا ہے۔ اس لیے مسلمان ہی اس معاملے میں مناسب قانون سازی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کی مقننہ نے یہی سزا مناسب سمجھ کر یہ قانون منظور کیا ہے، ان کی اعلیٰ عدالتوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ یہ ایک جمہوری طریقے سے طے کردہ قانون ہے، ان کی اعلیٰ عدالتوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ یہ ایک جمہوری طریقے سے طے کردہ قانون ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمرقید کی سزا، موت کی سزا سے زیادہ وحشیانہ اور ظالمانہ سزا ہے، لیکن کوئی پارلیمنٹ یاکانگرس اپنی حدود میں یہ سزا دینے کا قانون بنائے، تو ہم اس کا فیصلہ کیسے بدلوا سکتے ہیں؟

  • تیسرا سوال یہ ہے: ’’کیا یہ قانون واقعی عیسائی اور ہندو جیسے اقلیتی فرقوں کے خلاف تعصب و امتیاز پر مبنی ہے، ان کو کچلنے، دبانے اور حقوق سے محروم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے؟‘‘

جہاں تک قانون کا تعلق ہے، اس میں ایک حرف اور ایک نکتہ بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا، جو اقلیتی فرقوں کے خلاف ہو یا ان کا کوئی حق سلب کرتا ہو۔ اس کا اطلاق کسی نام نہاد مسلمان پر بھی بالکل اسی طرح ہوگا، جس طرح غیرمسلم پر۔ تعصب و امتیاز کی بات اس وقت صحیح ہو سکتی ہے، جب یہ گمان کیا جائے کہ اقلیتی فرقوں کی باقاعدہ نیت یا پروگرام ہے کہ وہ توہینِ رسالت کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ عمومی سطح پر ان کا ایسا کوئی ارادہ یا منصوبہ نہیں، اگرچہ باہر والے ان سے یہ حرکت کروا کے انھیں اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑانے اور انھیں پاکستان میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے رکھتے ہوں۔ اگر اعتراض کی بنیاد یہ ہو کہ اس میں دوسرے مذاہب کے پیغمبروں کی توہین کو شامل نہیں کیا گیا ہے، تو اس اعتراض کو ’اسلامی نظریاتی کونسل، (IIC) اور شریعت کورٹ کی سفارش کے مطابق، دُور کیا جانا چاہیے۔

  • چوتھا سوال یہ ہے: ’’کیا یہ قانون اس لیے منسوخ کردیا جائے، کہ ذاتی عناد یا فرقہ واریت کی خاطر اس کا غلط استعمال ہوا ہے، یا خدشہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘

اگر خود قانون میں ایسی کوئی خامی، خلا یا ابہام ہے، جو غلط استعمال کا ذریعہ بن سکتا ہے، تو ہماری راے میں ایسی ہر خامی کو دُور کیا جانا چاہیے، اور ممکنہ غلط استعمال کے خلاف ہر ممکن تحفظ  فراہم کرنا چاہیے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جو باہمی گفت و شنید سے حل نہ کیا جا سکتا ہو۔ ہمیں  صرف مقامِ رسالتؐ کا تحفظ مطلوب ہے، بے گناہ لوگوں کو توہینِ رسالتؐکے نام پر سزا دلوانا تو خود توہینِ رسالتؐ کے زمرے میں آسکتا ہے۔

لیکن اگر قانون کا غلط استعمال کسی فرد یا پولیس کے غلط کردار کی وجہ سے ہے، تو اس کا  علاج قانون کی منسوخی نہیں ہے۔ اس وجہ سے تو ہر قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ قیامِ امن کے، انسداد دہشت گردی کے، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کی روک تھام کے قوانین حکومتیں بے دردی کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں، کیا اس وجہ سے ان سب کو منسوخ کردیا جائے؟ قتل کے قانون کے تحت پولیس اور بااثر لوگ بے گناہوں کو پھانستے ہیں، ان کو لوٹا جاتا ہے، بعض پھانسی پر بھی چڑھ جاتے ہیں، کیا ان کو بھی منسوخ کر دیا جائے؟ کوئی بھی معقول آدمی یہ بات نہیں کہے گا۔ ذاتی عناد کی بنا پر بھی ملک میں بے شمار مقدمات کھڑے کیے جاتے ہیں۔ اس ظلم کا کوئی خصوصی تعلق اقلیتی فرقوں سے نہیں۔

  • پانچواں سوال یہ ہے: ’’کیا قانون توہینِ رسالتؐ کی وجہ سے فرقہ واریت میں، مذہبی جنون میں، اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، کہ یہ قانون منسوخ کردیا جائے؟

اگر شدت پیدا ہوئی ہے تو شیعہ سنی فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے محض چند جنگجو عناصر میں، جب کہ عام سطح پر تو شیعہ سنی ہم آہنگی پہلے کی طرح قائم ہے اور یہ بڑی خوش آیند بات ہے۔ حد سے بڑھتی ہوئی قتل و غارت اور خوں ریزی کی وجہ نسلی اور لسانی تعصبات، سیاسی جھگڑے اور انتقامی کارروائیاں ہیں۔ اس میں کوئی دخل قانون توہینِ رسالتؐ کا نہیں، اور نہ کسی دوسرے قانون کا۔ ان کارروائیوں کا شکار اکثریتی فرقہ ہے، نہ کہ اقلیتی فرقے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں روز بروز تشدد اور خوں ریزی بڑھ رہی ہے، اس معاشرے میں کیا صرف اقلیتی فرقوں کے لوگ ہی اس لہر سے بالکل محفوظ رہ سکتے ہیں؟ پھر تشدد کے ہر واقعے کو فوراً اقلیت کے خلاف ظلم قرار دینا کہاں تک قرین انصاف ہے؟ پاکستان میں آج تک کوئی     فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ ذرا بھارت کے جمہوری، سیکولر، روشن خیال ملک پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے، جہاں کوئی مذہبی قوانین نہیں، جہاں ’مُلّا‘ کا غلبہ نہیں، لیکن وہاں پر تو فرقہ وارانہ فسادات روز کا معمول ہیں۔

قرآن و سنت کے دلائل سے جس طرح شاتمِ رسولؐ کی سزا ثابت ہے، اور اس پر جس طرح فقہاے اُمت کا اجماع ہے۔ جس طرح اس پر، ماسوا دورِ غلامی کے، ہر مسلمان ملک میں، ہرزمانے میں عمل درآمد ہوتا رہا ہے، اور دور غلامی میں بھی مسلمان جس طرح اپنا خون دے کر اسے نافذ کرتے رہے ہیں، اسے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں۔ اس بارے میں عام مسلمانوں کے درمیان نہ کبھی اختلاف رہا اور نہ کوئی شک و شبہہ۔ جس کو تحقیق کا شوق ہو، اس کے لیے   حسب ذیل کتب کا مطالعہ کافی ہے:

۱-            محمد اسماعیل قریشی : ناموس رسولؐ اور قانونِ توہینِ رسالتؐ

۲-            امام ابن تیمیہ: الصارم المسلول علی شاتم الرسولؐ

۳-            تقی الدین سبکی: السیف المسلول علی من سب الرسولؐ

۴-            ابن عابدین: تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیرالانامؐ

  • لوگ چھٹا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ: ’’رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے تو گالیاں سن کر، پتھر کھا کر، دعا دی، اب ان کو گالی دینے والے کو موت کی سزا دی جائے؟‘‘

ایسے لوگ رحمت کے مفہوم سے آگاہ نہیں۔ رحمت کا تقاضا جہاں عفو و درگزر ہے، وہاں انصاف بھی ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے: واقعہ افک میں قذف کے مرتکبین کو  کوڑے لگوائے، زنا کے مجرموں کو سنگسار کرایا، مسلح لشکر لے کر نکلے جس نے بدر کے میدان میں ۷۰سردارانِ قریش کو تہہ تیغ کردیا، فتح مکہ کے دن جب ہرجانی دشمن کو معافی مرحمت فرما دی گئی، چھے مرتدین اور شاتمین کے قتل کا حکم صادر ہوا۔ آپؐ یہ نہ کرتے تو فساد مچتا، اور زیادہ ظلم برپا ہوتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم اپنی ذات کی خاطر نہیں دیا، دین اور ملت کے تحفظ کی خاطر دیا۔ جب رسالتؐ ہی ایمان کی، دین کی، ملت کی بنیاد ہے، اس کی زندگی کی ضمانت ہے، تو توہینِ رسالتؐ کے مجرم کو سزا دینا عین رحمت کا تقاضا تھا۔ اسی لیے یومِ قیامت کو___ جس دن نیکوکاروں کو انعام سے نوازا جائے گا، مگر بدکار جہنم جھونکے جائیں گے___ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت، رحمانیت اور رحیمیت کا دن قرار دیا ہے۔ (الفاتحہ، الانعام)

شان رسالتؐ میں گستاخی کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا کے قانون کی تائید اور حمایت کچھ فقہا و علما، ملائوں اور جنونیوں ہی کا ’جرم‘ نہیں ہے، بلکہ وہ اچھے اچھے مغربی تعلیم یافتہ مسلمان حضرات، جنھوں نے روح اسلام کو ضائع نہ کیا اور مقام محمدیؐ سے آگاہ رہے، کسی بھی مداہنت کے بغیر اس ’مذہبی جنون‘ کے ’جرم‘ میں شریک رہے۔

غازی علم الدین شہید [۴دسمبر ۱۹۰۸ئ- ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ئ] نے [شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر مبنی کتاب کے ناشر] راج پال کو قتل [۶ اپریل ۱۹۲۹ئ] کیا تو اس کے مقدمے کی پیروی قائداعظم محمدعلی جناح [م: ۱۱ستمبر ۱۹۴۸ئ] نے کی۔ علامہ محمد اقبال نے رشک کے ساتھ فرمایا: ’’اسیں گلاں کر دے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔ (ہم باتیں کرتے رہ گئے، اور ایک بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔ علم الدین شہید کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا، اور اس فضا میں یہ شعر بھی کہا :

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدروقیمت میں ہے جن کا خون حرم سے بڑھ کر

شانِ رسالتؐ میں گستاخی کے جرم میں ایک خانساماں نے ایک انگریز میجر کی بیوی کا کام تمام کر دیا۔ سرمیاں محمد شفیع [م: جنوری ۱۹۳۲ئ] نے، جو برطانیہ کے زیرتسلط ہندستان میں وائسراے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن بھی تھے، اس کے مقدمے کی پیروی کی۔ دوران بحث ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

ہائی کورٹ کے انگریز جج نے انھیں بڑی حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’سرشفیع، کیا آپ جیسے ٹھنڈے دل و دماغ کا بلند پایہ وکیل بھی اس طرح جذباتی ہوسکتا ہے؟‘‘

سرمیاں محمد شفیع نے رنج اور حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا: ’’جناب، آپ کو نہیں معلوم، ایک مسلمان کو اپنے پیغمبرؐ کی ذات سے کتنی گہری عقیدت اور محبت ہوتی ہے۔ سرشفیع بھی اگر اس وقت وہاں ہوتا تو وہ بھی یہی کر گزرتا جو اس ملزم نے کیا ہے‘‘۔

ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے بعض مسیحی بھائیوں نے اس قانون کے معاملے میں حق پسندانہ اور معتدل مسلک اختیار کیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، آنجہانی بشیرمسیح کے الفاظ ایسے ہی موقف کے آئینہ دار ہیں، انھوں نے کہا تھا:

ہم اس [قانون] کے خلاف نہیں۔ کوئی بھی سچا مسیحی، توہین رسالتؐ کا تصور نہیں کرسکتا، اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر واقعی کوئی اس قبیح جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ موت سے بھی سخت سزا کا   حق دار ہے۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بے گناہ کو اس قانون کا نشانہ بنایا جائے۔

اسی طرح ماہنامہ کلامِ حق میں پادری ڈاکٹر کے ایل ناصر کے بیٹے میجرٹی ناصر کے الفاظ ہیں:

ہم مسیحی، تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵- سی یعنی گستاخ رسولؐ [کی سزا] کے مخالف نہیں۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ ایک خصوصی کمیشن بنایا جائے۔ غیر جانب دارانہ تحقیقات کریں اور اگر ملزم واقعی مجرم ہو تو اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے،   ورنہ بصورت دیگر رہا کر دیا جائے۔ مقدمہ بھی خصوصی عدالت میں چلایا جائے، اور ملزم کو تمام قانونی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں، تاکہ اقلیتوں، خاص طور پر مسیحی اقلیت کو   تحفظ و انصاف کا احساس ہو ___ اور یہ مطالبات بجا ہیں۔

لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مسیحی لیڈروں کی اکثریت، سوچے سمجھے بغیر، قانون توہینِ رسالتؐ کی اندھی مخالفت پر تل گئی ہے۔ اس طرح وہ ایک طرف مغربی سامراجی طاقتوں کے آلۂ کار بھی بن رہے ہیں، دوسری طرف پاکستان میں اسلام دشمن اور سیکولر عناصر کے دوش بدوش کھڑے ہوگئے ہیں۔

ہم پورے خلوص اور دردمندی سے ان کی خدمت میں ادب سے عرض کریں گے، کہ اگر ان کے پیش نظر اس قانون کے بارے میں خدشات کے خلاف ضروری تحفظات حاصل کرنا ہے، بلکہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے پاکستان میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہے، تو انھوں نے ایک غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ نہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے انھیں یہ مقام حاصل ہو سکتا ہے، نہ سیکولر عناصر کی مدد سے کچھ پاسکتے ہیں، اگرچہ وہ اقتدار میں بھی آجائیں۔

ان کے لیے درست اور معقول راستہ یہ ہے کہ وہ محبِّ اسلام ممتاز شہریوں اور حق پسند علما اور دینی جماعتوں سے گفت و شنید کا آغاز کریں۔ انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کریں، ممکن ہو تو ایک مشترک ’مسلم اینڈ کرسچین کونسل‘ تشکیل دیں۔ دلیل اور شواہد کے ساتھ مسلمانوں پر زور دیں کہ وہ خاص طور پر اس قانون کے ضمن میں اسلام کے قانون عدل و شہادت کے تقاضوں کی تکمیل یقینی بنائیں۔ وہ ایسی ترامیم کرانے میں ان کی مدد کریں جو قانون کو بے اثر بنائے بغیر کی جاسکتی ہیں، اور ان کے ساتھ انھی بنیادوں پر معاملہ کریں، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ اختیار کیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح دونوں کے تعلقات بھی خوش گوار ہوجائیں گے اور ان مسائل کا حل بھی خوش اسلوبی سے نکل آئے گا۔

شاید انھیں اسلام کے قانونِ عدل کے ان تقاضوں کا علم نہیں، جن کا نفاذ ان کے خدشات کے ازالے کے لیے کافی ہوسکتا ہے:

                ۱-            حد کی سزا صرف حکومت دے سکتی ہے، کسی مسلمان کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں۔

                ۲-            عدالت کے لیے یہ بھی ضروری ہے، کہ وہ گواہوں کی مناسب جانچ پڑتال کرے۔ اس لیے کہ ’حد‘ کی سزا میں شہادت کا معیار، عام شہادت کے معیار سے بہت زیادہ سخت اور غیرمعمولی ہے۔ ایسے گواہوں کی شہادت قبول ہوتی ہے، جو گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتے ہوں، صادق القول اور عادل ہوں، اور مزیدبرآں تزکیۃ الشہود کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں‘‘۔

                ۳-            جرم ثابت ہونے میں ایک شبہہ بھی رہ جائے تو شک کا فائدہ بھی اسلامی قانون کی رو سے ملزم کو پہنچتا ہے۔ حدیث مبارک ہے: ادر والحدود بالشبہات، حدود کی سزائوں کو شبہات کی بنا پر ختم کرو۔

                ۴-            عدالت ملزم کی نیت کا تعین بھی کرے گی، کیونکہ ’’نیت کے بغیر اسلامی قانون میں کوئی جرم مستوجب سزا نہیں ہوتا‘‘۔

                ۵-            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی اسلامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ’’ایک مجرم کو بری کر دینے کی غلطی ایک بے گناہ کو سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔

                ۶-            بجاے اس کے کہ ہمارے مسیحی بھائی پاکستان کی سیکولر حکومت کے وعدوں پر زندہ رہیں یا باہر کی مسیحی طاقتوں سے آس لگائیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مسلمان، عیسائی، ہندو مل کر ایک متفقہ ترمیمی بل حکومت اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردیں، جو اسلامی قانون کے مطابق بھی ہو اور اقلیتوں کے لیے انصاف اور تحفظ کا ضامن بھی۔ ہماری راے میں علما اور دینی جماعتوں کو اس مقصد کے لیے عیسائی رہنمائوں سے مکالمہ شروع کرنا چاہیے۔

قانون توہینِ رسالتؐ پر مخالفانہ ردعمل نے جو آئینہ ہمیں دیا ہے، اس میں مسلم ملت کی قوت کا اصل سرچشمہ بھی عیاں ہو رہا ہے۔

یہ سرچشمہ وہی ہے جس کے پیچھے ہمارے دشمن چودہ سو سال سے آج تک لگے ہوئے ہیں۔ ہماری قوت و توانائی کا سامان: اس اسلحہ، قرض اور امداد میں نہیں ہے جو ہمارے دشمن خود ہمیں فراہم کر رہے ہیں۔ یہ سرچشمہ تو روز اوّل سے دل مسلم میں مقام مصطفیؐ ہے، عشق مصطفیؐ ہے، اور ملت کی پوری زندگی میں اتباع اور اطاعت مصطفیؐ سے منسوب ہے۔ ہمیں اسی سرچشمے سے سیراب ہونے میں لگ جانا چاہیے۔

آج تاریخ کا اسٹیج، اسلام اور مغرب کے درمیان معرکے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ بظاہر ہمارا اور مغرب کا کیا مقابلہ؟ نہ ہمارے پاس اسلحہ، نہ ٹکنالوجی، نہ معاشی ترقی، نہ اتحاد، نہ لیڈرشپ، نہ منزل اور نہ مقصد۔ لیکن ان میں سے ہر چیز ہمیں حاصل ہوجائے گی، اگر ہم قوت اور توانائی کے اس سرچشمہ تک پہنچ جائیں:

کیمیا پیدا کن از مشت گلے

بوسہ زن بر آستان کاملے

دل زعشق اور توانا می شود

خاک ہم دوش ثریا می شود

اس سے زیادہ فریب انگیز مغالطہ اور کوئی نہیں ہو سکتا، کہ ہم یہ فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں: ہم کو ’ترقی پسند‘ بننا ہے یا ’بنیاد پرست‘۔ ہمیں نہیں معلوم بنیاد پرست کے کیا معنی ہیں۔ لیکن ہم کو یہ ضرور معلوم ہے کہ ہماری بنیاد تو حضوؐر کی ذات، آپؐ کی لائی ہوئی کتاب، آپؐ کی سنت اور آپؐ  کا   اسوۂ حسنہ ہے۔ ہم، جو اس بنیاد کے ناتے بظاہر ’بنیاد پرست‘ ہیں، فی الحقیقت سب سے بڑھ کر   ترقی پسند ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ضمن میں اگر امریکا کی انگلی پکڑ کر چلے تو ترقی نہیں موت اور ذلت کا گڑھا ہمارا مقدر ہے۔ اس راہ کو چھوڑ کر چلنے والے ’ترقی یافتہ‘ مسلمان ممالک کے ڈھانچے ہمارے سامنے بہت موجود ہیں:

کشودم پردہ را از روئے تقدیر

مشو ناامید و راہ مصطفیؐ گیر

مقام خویش اگر خواہی دریں دیر

بحق دل بند و راہ مصطفیؐ رو

دامنش از دست دادن موت است، حضوؐر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا پروانہ موت ہے۔ آج کل مسلمان ہر جگہ، خصوصاً وطن عزیز پاکستان میں، زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں، علاج کیا ہے، حل کیا ہے؟ علاج اور حل تو ایک ہی ہے۔ پہلے بھی، قوم زندگی از دم اویافت، حضوؐر کے دم سے ہی زندگی ملی تھی، اور آج بھی سب کچھ آپؐ  کا دامن پکڑ کے، آپؐ  کا مشن پورا کرنے، اور آپؐ  کے پیچھے چلنے ہی سے ملے گا:

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں