جنوری ۲۰۱۲

فہرست مضامین

قربانی: مسلمان کو مسلمان بناتی ہے (آخری قسط)

خرم مراد | جنوری ۲۰۱۲ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

غیرمادّی قربانیاں

وقت، دولت، زندگی اور اسی طرح کی دیگر چیزیں قربان کرنا، کوئی شک نہیں کہ، بڑا دُشوار کام ہے،مگران چیزوںکے مادّی اور محسوس اشیا ہونے کی وجہ سے ان کی قربانی میں کئی لحاظ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ آپ جوکچھ بھی قربان کریں گے،وہ نظر آنے والی چیز ہوگی۔ جو قربانی آپ دیںگے اُسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اطمینان کر سکیںگے ۔علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر ایسی قربانیوں کی ضرورت بالعموم کسی بحران یاآزمایش کے وقت پیش آتی ہے۔ مصیبت اورآزمایش کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جو انسان کے اندر کے جذبات کوتحریک دے کراُس سے اپنی بہترین چیزیں باہر نکلوا لاتی ہیں۔ایسے مواقع پر آپ صورتِ حال سے باخبر ہوتے ہیں،آپ کو احتیاجات کی فوری تکمیل کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور آپ جذبات سے مغلوب بھی ہوتے ہیں۔ نیز ایسی قربانیاں بنیادی طورپر ذاتی نوعیت کی قربانیاں ہوتی ہیں،اپنی مرضی سے دی جاتی ہیں، بالعموم ان قربانیوںسے باہمی تعلقات کا پیچیدہ جال نہیں الجھتا۔

وہ تو غیر مادّی اور غیر محسوس قسم کی اشیا کی قربانیاں ہیں جو نہ صرف زیادہ مشکل ہیں، فرداور معاشرے کے لیے زیادہ اہم ہیں اور جدوجہد میں کامیابی کے لیے زیادہ ضروری ہیں، لیکن انھی قربانیوں سے صرفِ نظر کرنے، یا انھی قربانیوں کو نظرانداز کردیے جانے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔اکثر اوقات ان قربانیوں کو قربانی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ان اشیاکی قربانی کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ جس چیز کی قربانی دے رہے ہیں اُس کی جڑیں آپ کے دِل ودماغ کی پہنائیوں میں پیوست ہیں، وہ ٹھوس اور نظرآنے والی چیزیں نہیں ہیں، آپ کو اُن کی قربانی دیتے ہوئے دیکھا نہیں جا سکتا۔اوریہ قربانیاں صرف بحران و آزمایش کی گرما گرمی میں نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں، بغیر کسی کو دکھائے اور بغیر کسی کے علم میں لائے، ہرروز دی جاتی ہیں۔

اجتماعیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے اﷲ کی راہ میں جدوجہدکے وقت ایسی قربانیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ اس نوعیت کی قربانیاںہیں کہ آپ بمشکل ہی ان کو قربانیاں سمجھیں گے۔ مگر ایسی قربانیوں کے بغیرکوئی مضبوط ہم آہنگ اجتماعی زندگی وجود میں آسکتی ہے، نہ کامیابی کی اُمید کے ساتھ کوئی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔مثال کے طورپر اپنی پسندوناپسند کو لے لیجیے۔ دولت کی طرح اس کاحساب نہیں لگایا جاسکتا،مگر افراد، اشیا ا ور موقف سے متعلق اپنی پسند وناپسند کی آپ کو قربانی دینی ہوگی۔ایسی غیر محسوس اشیا کی قربانی دینے کے لیے در حقیقت نسبتاً بڑے جذبۂ قربانی کی ضرورت پیش آئے گی۔اﷲ کے کام میں انسان کو نہ صرف اپنی جان ومال، وقت اوروسائل کی قربانی دینی پڑتی ہے، بلکہ اپنی پسند وناپسند اور اپنی محبت و نفرت کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔رسول اﷲ  صلی اﷲ علیہ وسلّم کا ارشادہے: ’’جس نے صرف اﷲ کی خاطر محبت کی اور صرف اﷲکی خاطر نفرت کی، اُس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی)

جب ہم صحابۂ کرام کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ: اﷲ اُن سے راضی ہوا ،اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے (رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ) کیوں؟کیوں کہ اُنھوں نے اپنی ذات کو   اس حد تک فنا فی اﷲ کردیا تھا کہ اﷲ کی پسند اُن کی پسند، اور اﷲکی ناپسند اُن کی ناپسند بن گئی تھی۔ اُنھوں نے نہ صرف اپنی جان و مال کو اﷲ کے سپرد کردیا تھا بلکہ اپنی پوری ذات اﷲ کے حوالے کردی تھی۔

اس اہم ترین نوعیت کی قربانی کو عموماً ہم نظر انداز کردیتے ہیںجس کے بغیر اتحاد واتفاق کے مسالے سے تشکیل پانے والی اُس اجتماعیت کا بننا انتہائی مشکل ہے جو تنہا اﷲکے کام کو آگے بڑھاسکتی ہے۔آئیے ہم قربانی کی ان اقسام پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں۔ ان میں محبت، نفرت، رشتہ داریاں، پسند وناپسند، ترجیحات وتعصبات، آرزو اوراُمنگ، آرام و راحت، اُمیدیں اور توقعات، رسوم و رواج، اقدار اور رویّے، عہدہ ومنصب یامحض اَنا اور خودپسندی شامل ہیں۔

کنبے کی محبت

کنبے کی محبت دُنیاکا طاقت ور ترین اور غالب ترین رشتہ ہے ۔مہد سے لحد تک والدین کی محبت، بچوںکی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت،بھائیوں اوربہنوں کی محبت، بلکہ دوسرے   رشتہ داروں کی محبت بھی ہماری زندگی کا محور بنی رہتی ہے۔ یہ محبتیں ہمارے تمام تعلقات پر غالب رہتی ہیں۔عام طورپر ہماری زندگی، ہمارا روزگاراورمال و متاعِ دُنیا کا حصول اُنھی کی محبت کی خاطر اور اُنھی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وقف ہوجاتاہے۔

ہم اپنے دل ودماغ، اپنی توجہ اور وفاداری اور اپنے وقت اور دولت پر کسی اور حق سے پہلے عام طورپر اس محبت کا حق تسلیم کرتے ہیں۔کنبے کی محبت کا تعلق ہمیں جس طرح جوڑے رکھتاہے اُس طرح کوئی اور تعلق نہیں جوڑ سکتا۔ہم اکثر لوگوںکو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ’مجھ پر سب سے پہلا حق میرے گھرانے کاہے‘یا کسی کو اس فخر کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں کہ’میری وفا اور میرا خلوص سب کچھ اپنے خاندان کے لیے وقف ہے‘۔ اس کے معقول دلائل ہیں۔ خاندان قدیم ترین  اور اہم ترین انسانی ادارہ ہے۔ انسان نے اب تک جن تہذیبوں اور ثقافتوں کی تشکیل کی ہے، یہ اُن سب کا سنگِ بنیادہے۔ایسی مؤثر اور گہری محبت اور ایسی غالب وفاداری کے بغیر تہذیبی اقدار، معیارات اور طور طریقے اگلی نسل کو منتقل کیے جاسکتے ہیں، نہ ان کو محفوظ اور برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ کنبے کے بغیر آدمی، آدمی ہی نہیں رہتا، برباد ہوجاتاہے۔ پھر کنبے کی محبت بھی اﷲ کی راہ میں قربان کردینے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے واضح دلائل ہیں:

اوّل:آپ اُس وقت تک اپنی ذات کو اﷲ کے سپرد نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی زندگی، آپ کی محبت اور آپ کی وفاداری پر اﷲ کا حق سب سے مقدّم اور سب سے اہم حق نہ بن جائے۔  یوں کنبے کا حق اﷲ کے حق کا مطیع ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ امکان ہے کہ کنبے کی محبت ایک صاحبِ ایمان کو اﷲ کے احکام کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے پر مائل یا مجبور کردے۔

دوم:کنبہ ہمیشہ سے وہ مضبوط ترین قلعہ رہا ہے جس میں مستحکم اقدار، عقاید، رسوم ورواج اور طرزِ حیات وغیرہ مورچہ بند رہتے ہیں۔ مسلمان بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں اور اپنے معاشرے میں ایک تبدیلی لاناشروع کرتے ہیں۔آپ مستحکم بنیادوںپر قائم طرزِ زندگی کو  چیلنج کرنا شروع کرتے ہیں اور اُسے اُکھاڑ پھینکنے کا آغاز کرتے ہیں۔باپ دادا کے طور طریقوں  سے بغاوت اوراُن میں تبدیلی لانے کے خلاف پہلی مزاحمت خاندانی محبت کی حدوں کے اندرہی سے پیدا ہوگی ۔یہ بالکل فطری بات ہے۔

سوم:جوکچھ آپ کے پاس ہے اُسی کے بل بوتے پر آپ جہاد کا عزم کرتے ہیں۔آپ کی ہرچیز، بشمول خاندانی محبت کے حق پر، جہاد کا حق دیگر تمام حقوق سے فائق ہونا چاہیے۔کوئی چیز  آپ کو جہاد کے راستے سے منحرف نہ کرسکے۔خاندانی محبت اگر کوئی رُکاوٹ نہ بنے، تب بھی   آپ کواپنے فرض کی تکمیل کی خاطرکئی طریقوں سے یہ قربانی دینی پڑے گی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم ہمیں آگاہ کرتاہے: وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌo (الانفال ۸: ۲۸)،’’اورجان رکھوکہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اﷲ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔ اور ہمارے سامنے یہ بنیادی گہرا سوال رکھتاہے کہ تُم کس سے زیادہ محبت رکھتے ہو؟ اﷲ سے یا…؟

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَـآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo (التوبہ ۹:۲۴)،اے نبیؐ!کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جوتُم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ گھر جو تُم کو پسند ہیں، تُم کو اﷲ اور اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

خاندانی محبت کی قربانی مختلف صورتوں میں دی جاسکتی ہے، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ وہ اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری اور اُس کی رضا کے حصول کی جدوجہد میں کس انداز سے آڑے آتی ہے۔ پہلی مثال یہ ہے کہ خاندانی محبت مطالبہ کرتی ہے کہ والدین، خاندان کے بڑوں، باپ داداکے طورطریقوںیارسوم و رواج اورمعاشرے کی اطاعت کی جائے۔ اگرایسی اطاعت   اﷲ کی اطاعت سے متصادم ہو تو اسے ترک کردینا چاہیے۔ آپ کو اپنی عقل، اپنے ضمیر، اپنے عقیدے اور اﷲ کی طرف سے آنے والی ہدایت کا کہا ماننا چاہیے:

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط   اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ شَیْئاً وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۰)، ان سے جب کہاجاتاہے کہ اﷲ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیاہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا ط اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo (العنکبوت ۲۹: ۸)، ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتاتو ان کی اطاعت نہ کر۔

مزید یہ کہ آپ جن سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کے عقیدے پر ایمان لانے سے انکار کرسکتے ہیں، یاوہ اﷲ اوراُس کے کام کی کھلی مخالفت پر اُتر سکتے ہیں۔ایسے مخالف رشتہ دار حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں گے، آپ کا تمسخراُڑائیں گے اور تضحیک کریں گے،آپ کو ستائیں گے، گھر سے نکال دیں گے اور آپ کو خاندان سے خارج کردیں گے۔ آپ کو ایسے ضرررساں اور مخالف ارکانِ خاندان سے اپنی محبت اور تعلق کے تمام جذبات کی قربانی دینی ہوگی۔اﷲ کی محبت اور اﷲ کے دُشمنوں کی محبت ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتی۔اُن کی محبت سے مکمل دست برداری جیسی بڑی قربانی دے کر ہی آپ اپنے عقیدے کو اپنے دل میںپختہ کرسکتے ہیں اور اپنا شمار اﷲ کی جماعت (حزب اﷲ) میں کرواکر اُس کی رضا وخوش نودی اور اُس کی جنت کا انعام حاصل کر سکتے ہیں۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیجیے، جو اﷲ کی راہ میں قربانی کا نمونۂ کامل تھے۔ سب سے پہلے اُنھیں اپنے والد کو چھوڑنا پڑا، حتیٰ کہ اُن کے لیے دُعاے مغفرت کرنے سے بھی اﷲ کے حکم پر دست کش ہوگئے،اور آخرکار اﷲ کے حضور اپنے لختِ جگر کا ذبیحہ پیش کرنے کو بھی تیارہوگئے۔ یا سیدنا لوط علیہ السلام کی مثال لیجیے جنھیں اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنا پڑا، کیوں کہ وہ  اُن لوگوں کی  ہم درد تھی جنھوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کی اُس دعوت پر کان دھرنے سے انکارکردیا تھاجو     ایک اﷲ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے اُن کودی جارہی تھی۔ پھررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے  رفقا رضی اﷲ عنہم کی مثال لیجیے، باپ بیٹوں کے سامنے صف آرا تھے اور بیٹے باپ کے سامنے،    حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں بھی، مگر اُن کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔

وہ لوگ جو ایمان لانے سے محض انکار کرتے ہیںاور مخالفانہ سرگرمیوں میں فعّال نہیںہوتے، اُن کے معاملے میں آپ کی قربانی کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اُن سے آپ کو اپنی دوستی ختم کردینی چاہیے، لیکن سلوک عادلانہ اور کریمانہ کرنا چاہیے۔ اُلفت و محبت کے تمام تعلقات کا خاتمہ انتہائی اقدام ہے، مگر ان تعلقات سے چھلانگ یک لخت ہی لگانی ہوگی۔ جولوگ آپ کے عقائد کو پسند نہیں کرتے یا اُن سے اتفاق نہیں رکھتے، اور اس بات کو راز بھی نہیں رکھتے،ایسے اعزہ و اقارب کے ساتھ مستقلاً رہنا آپ کوزیادہ مشکل میں مبتلا کرسکتا ہے اور بہت بڑی قربانی کا تقاضاکرتا ہے۔کیوں کہ جب آپ کے عقیدے اور ایمان کو بُرا بھلا کہا جائے گا تو آپ کو شدید اذیت ہوگی اس کے باوجود آپ کو ان کے ساتھ تحمل و برداشت سے پیش آنا ہوگا۔

ضروری نہیں کہ آپ کے اہلِ خاندان آپ کے نصب العین کی مخالفت ہی کریں، یا اس معاملے میں غیر جانب دار رہیں، وہ ہمدرد بھی ہو سکتے ہیں۔اس کے باوجود اُن سے محبت کے تقاضوں اور اﷲ سے محبت کے تقاضوں میں ٹکراؤ، یا اختلاف پیدا ہوسکتاہے۔ایسی صورتوں میں   یہ بات نہ بھولیے کہ خود اچھے مسلمانوں سے محبت بھی بعض اوقات اﷲ کی محبت کی راہ سے بھٹکا سکتی ہے، لہٰذا قربانی کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے۔

اکثراوقات آپ کو مختلف اقسام کے نرم و نازک او رلطیف دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان کی مزاحمت کے لیے آپ کو متعدد طریقوں سے مسلسل قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان میں سے تمام صورتیں اتنی سادہ اور واضح نہیں ہوتیں کہ آپ آسانی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔کبھی ان کی ناپسندیدگی اور نامنظور ی آپ کے سامنے بظاہر یا بباطن بڑے سادہ انداز میں پیش کی جائے گی، مگراسے بھی رد کرنا ہوگا۔بعض اوقات التجائیں اور مطالبات پیش کرتے ہوئے محبت کا واسطہ دیا جائے گا، حقوق کاواسطہ دیاجائے گا اور اختیارات کاواسطہ دیا جائے گا، سب کا اسلام سے جواز بھی پیش کیا جائے گا،آپ کو ان سب کا مقابلہ مناسب طریقے سے کرنا ہوگا۔بیوی بچے محبت اورالتفات کے طالب ہوں گے، آپ کو سب میں توازن رکھنا ہوگا۔

ایسی صورت میں آپ کواُنھیں خوش رکھنے کی ضرورت پر اﷲ سے اپنے عہد کو غالب رکھنا ہوگا، اُن کا دِل نہ دُکھائیں، اُنھیں مایوس نہ کریں اور اُن کی اُمیدوں کو رد نہ کریں۔ بصورتِ دیگر آپ کو اُن سے ملنے والی مدداور تقویت سے دست کش ہوجانا پڑے گا اور اُن کی گرم جوشی اور جذباتی محبت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔آپ کو بڑے پیجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اگر     وہ اﷲ کے کام میں آپ کی راہ کی رکاوٹ بن گئے تو ایک مقام پر پہنچ کر آپ کو اپنے ان فرائض  ِذمہ داریوں، خدمت گزاری اور اُن کے حکم کی تعمیل سے ہاتھ اُٹھا لینا ہوگا۔

دوستی

افراد کے مابین قائم ہونے والے الفت و محبت کے رشتوں میں سے ایک بڑا رشتہ دوستی کا تعلق ہے۔دوستیاں ہم مزاجی، مشترکہ مفادات و مقاصد اور مشترکہ اہداف کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ مسلمان کی حیثیت سے آپ کا ایک ہی ہدف اور مقصد ہے: اپنے پورے وجود کو مکمل طورپر  اﷲ کے سپرد کردینا، لہٰذا بہت سی دوستیوں کی آپ کو قربانی دینی ہوگی اور اسی طرح بہت سی دُشمنیوں اورنفرتوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس نئے دوست بنانے ہوں گے۔کوئی شخص جسے آپ کبھی پسند نہیں کرتے تھے، اُس کے لیے آپ کے دِل میں جگہ نکل آئے گی، وہ آپ کو عزیز ہوجائے گا۔

خاندانی رشتے ہوں یا دوستیاں،سماجی تعلقات زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اپنی مدد وتعاون سے وہ آپ کو ضروری کمک اور طاقت فراہم کرتے ہیں۔آپ کو ایسی حیات بخش کمک اور سماجی تقویت کی قربانی دینی ہوگی کیوں کہ دوستیاںٹوٹ جاتی ہیں، رشتے بکھر جاتے ہیں اورحمایت سے ہاتھ کھینچ لیا جاتاہے۔محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جو صادق و امین اور قابلِ احترام رہنما تھے، یکایک (نعوذباﷲ) ’فاترالعقل‘، ’دیوانے‘ اور’ لوگوں کے دُشمن‘کہے جانے لگے تھے۔

نقطۂ نظر اور موقف

دوستیوں اور رشتہ داریوں کی طرح آپ کی پسند وناپسند کا بھی آپ کی زندگی کے ہرحصے پر غالب اثر پایاجاتاہے۔ اس میں آپ کے خیالات، آپ کا نقطۂ نظر، آپ کا ذوق، آپ کامزاج، آپ کے جذبات واحساسات اور آپ کے رویّے اورآپ کا برتاؤ بھی شامل ہے۔ بسا اوقات   ان میں سے ہرایک کی اپنے اپنے طریقے سے قربانی دینی پڑتی ہے۔

اپنا نقطۂ نظر اور اپنے خیالات آپ کو ہمیشہ عزیز رہتے ہیں۔ اپنے نظریے سے آپ کی جذباتی وابستگی صرف اسی صورت میں پختہ ہوتی ہے جب آپ اپنی زندگی کے نصب العین سے عہدِوفا استوار کرلیتے ہیں۔اس کے بعد آپ کے اندر صحیح اور غلط یا حق اورباطل میں امتیاز کی ایک طاقت وَر حِس پیداہوجاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہروقت یہ خیال آپ کے ذہن میں رہتاہے کہ اندازِ نظرصرف ایک ہی ہو سکتا ہے: صحیح یا غلط، اور آپ کو ہمیشہ درست طرزِ فکر اختیار کرناہے۔ تاہم آپ کے نظریات، کسی خاص معاملے پر آپ کی حکمت عملی اورآپ کے کام کرنے کا طریقہ، ہوسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ ایسی صورت میں آپ کو اُنھیں چھوڑنا ہوگا، آپ کو اپنے ان نظریات سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی، یا اُن نظریات کے خلاف کام کرناہوگا۔لیکن جب تک آپ کسی معاملے میں اﷲ کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہ دیکھیں، آپ کو اپنی راے کی قربانی دینی ہے۔اجتماعیت کی زندگی کوطاقت ور بنانے کے لیے دی جانے والی یہ قربانی مال ودولت کی قربانی سے زیادہ اہم ہے۔

جذبات و احساسات

بعینہٖ آپ کو اپنے جذبات و احساسات بھی بے حد عزیز ہوتے ہیں۔بسا اوقات آپ کو اپنے ایسے مشاغل ترک کردینے پڑتے ہیں‘ جو اﷲ کی رضا وخوش نودی کے کام نہیں ہیں،خواہ وہ آپ کو مرغوب ہوں، آپ اُن میں کشش محسوس کرتے ہوں اور اُنھیں مفید سمجھتے ہوں، جب کہ بعض اوقات صرف اﷲ کی رضا وخوش نودی کی خاطر آپ کو ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جنھیں آپ پسند نہیں کرتے اور جو آپ کے مزاج کے خلاف ہیں۔ کئی مواقع پر آپ کو اپنے بولنے کی خواہش کو دبانا ہوگا اور خاموش رہنا ہوگا خواہ اپنی بات کہہ دینے کا کتنی ہی شدّت سے دِل کیوں نہ چاہ رہاہو۔ اور کسی موقع پر آپ کا خاموش رہنے کا جی چاہ رہا ہوگامگر بولنا پڑے گا۔ آپ کوشدید غصہ آئے گا اور انتقام کا جذبہ جوش ماررہا ہوگا، برابھلا سنانے کی خواہش پیدا ہورہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی زبان قابو میں رکھنی ہوگی۔ بعض مواقع پر آپ کو تنہائی اور سکون کی ضرورت محسوس ہورہی ہوگی مگر آپ کو بھرپور سماجی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں میں منہمک ہونا پڑے گا۔ اور بعض اوقات آپ کا دل لوگوں سے ملنے جُلنے کو چاہ رہا ہوگا، مگر اکیلے رہنا پڑے گا۔آپ کے اندر ’کچھ حاصل کرلینے‘ یا ’کچھ بن جانے‘ کی اُمنگ موجیں ماررہی ہوگی، مگر آپ کو اپنی ان آرزوؤں سے مکمل طورپر دست بردار ہونا پڑے گا۔ آپ کو اپنی ذاتی خواہشات اور ذاتی منصوبے ردّی کی ٹوکری کی نذر کردینے ہوںگے۔

ذوق اور مزاج

بہت سے عام معاملات میں بھی آپ کو اپنے ذوق اور مزاج کی قربانی دینی ہوگی۔ آپ کو ایسے انداز سے زندگی بسر کرنے، کھانے پینے، سونے اورپہننے پر مجبور ہونا پڑے گا جو آپ کو پسند نہیں، آپ کے مزاج کے مطابق نہیں، یاآپ کی ترجیحات اور آپ کے طرزِ زندگی سے لگّا نہیں کھاتا۔ آپ کو یہ طرزِ حیات قبول کرنا ہوگا، بغیرناک بھوں چڑھائے، برضا ورغبت، دوسروںکی دِل شکنی کیے بغیراوراُن کے لیے مشکلات اور انتشار پیدا کیے بغیر۔

اَنا اور خود پسندی

اورآخرکار آپ کو اپنی انا، اپنی خود پسندی، اپنے متعلق حسین تصورات اور ان تصورات سے اپنی محبت، سب کچھ قربان کردینا ہوگا۔ یہ ظاہری اور باطنی بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اپنے آپ کو فنا کردینا صرف راہِ سلوک ہی کا ایک مرحلہ نہیں، اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے رستے پر چلنے   کے لیے جو واحد چیز درکار ہے وہ بھی یہی ہے کہ آپ کواپنی اَنا، اﷲ کی رضا کی خاطر فنا کردینی ہوگی۔ ہماری خود پسندی، ہمارے نزدیک اتنی اہم چیز بن جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں ضد، ہٹ دھرمی، خودسری ، خودستائی، ڈھٹائی، اور دوسروں کی تذلیل جیسی بُری عادات پروان چڑھ جاتی ہیں۔ اپنی  اَنا اور خود پسندی کی قربانی دینا زندگی کا سب سے کٹھن کام ہے، مگریہ کرنا ہی ہوگا۔

مسلسل اوردائمی قربانیاں

بعض قربانیاں زندگی میں ایک ہی بار دینی ہوتی ہیں، جیسے جان کی قربانی۔ کچھ قربانیاں بہت معمولی ہوتی ہیں مگر مسلسل دینی پڑتی ہیں۔ ان کے بعض غیر محسوس پہلوؤں کے سبب ان کا تسلسل ہی انھیں اہم بنادیتاہے۔پہلی بات تو یہ کہ ان کے معاملے میں آپ کو ہروقت چوکس اور  چوکنا رہنا پڑتاہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کا موقع آئے اور آپ اونگھ رہے ہوں، بے اعتنائی سے بیٹھے ہوئے ہوں،غفلت اور بے دھیانی کی کیفیت میںہوں، یا موقع پہچان نہ سکیں۔ دوسرے یہ کہ ان قربانیوں کے لیے عزمِ مسلسل و متواتر درکار ہوتاہے،جس کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ قربانیاں اتنی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں کہ ان کے بَل پر کوئی سُورما نہیں بن سکتا، مگر کردار سازی، معاشرتی نظم وضبط اور کامیابی کے لیے ان کی اہمیت کسی لحاظ سے کم نہیں۔ مسلسل گرنے والا پانی کا ایک معمولی قطرہ بھی پتھر کی چٹان میں سوراخ کر دیتاہے۔چوتھے یہ قربانیاں بحران اور مصیبت کے وقت نہیں طلب کی جاتیں، بلکہ ان کی ضرورت عام حالات اور روزمرہ زندگی میں پیش آتی ہے۔اسی وجہ سے معمولی ہونے کے باوجودیہ قربانیاں پیش کرنا بہت دُشوار کام ہے۔کیوں کہ شدید بحران کے وقت، جب کسی بڑے چیلنج کا سامنا ہوتو کوئی بڑا اعزاز ملنے کی توقع پر اپنی اندرونی صلاحیتوں کو اُبھارنا، اپنے عزم و ارادے کو جگانا اور اپنی بہترین مساعی کو بروے کارلے آنا نسبتاً سہل ہوتاہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ ایک طرح سے آپ کو زندگی کے  ہرلمحے چھوٹی چھوٹی___ بہت چھوٹی چھوٹی___ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کیوںکہ زندگی کے ہرہرقدم اور ہرہر ثانیے میں آپ کو دوچیزوںمیں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، خواہ یہ کتناہی چھوٹا معاملہ کیوں نہ ہو۔ اﷲ کی رضا و خوش نودی کی خاطر کسی بھی پہلو کا انتخاب کرنے کا مطلب    یہ ہے کہ آپ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینے کا فیصلہ کررہے ہیں،یہاں تک کہ اگر آپ نمازِ فجر اداکرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ اپنی نیند اور گرم بستر کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔

ایک ایسے پہاڑی راستے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے جس میں گہری کھائیاں آتی ہوں، آڑی ترچھی ڈھلوانیں ہوںاور اندھے موڑ پڑتے ہوں، آپ زیادہ محتاط رہیں گے تاکہ محفوظ ڈرائیونگ کرسکیں اور تمام مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں۔ مگر کسی ایسے راستے پر جو ہموار ہو، حادثات سے محفوظ ہو، اُس میں کسی موڑکاسامنا نہ کرناپڑتاہو، کوئی رکاوٹ نہ پیش آتی ہو اور کوئی اُترائی یا چڑھائی نہ ہو تو اُس راستے پر آپ کے بے پروائی اور غفلت سے ڈرائیونگ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔یوںآپ کو کوئی حادثہ پیش آسکتاہے، یاآپ اپناکوئی موقع ضائع کر سکتے ہیں، یا اپنے راستے سے بھٹک سکتے ہیں،یابے دھیانی میں اپنی منزل سے دُور نکل سکتے ہیں۔

گویا روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر قربانیاں دینی پڑتی ہیں___ گھر میں، دفترمیں، بازار میں، معاشرتی تعلقات میں، تنظیمی سرگرمیوں میں، یہاں تک کہ تنہائی میں بھی___جن سے غفلت ہوسکتی ہے۔یہ قربانیاں دینا زیادہ دُشوار ہے، محض اِس وجہ سے کہ انھیں قربانی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔

کامیابی کے امکانات کی عدم موجودگی میں

جب دُنیاوی کامیابی سامنے نظر نہ آتی ہو تو ایسی صورت میں دی جانے والی قربانیوں کی مزید جہتیںسامنے آتی ہیں۔جب آپ کی جدوجہد کے ثمربار ہونے کے امکانات نظر آرہے ہوںتو نسبتاً زیادہ آسان ہوتاہے کہ آپ اپنا وقت، اپنا مال اور اپنی زندگی قربان کردیں، اپنی راے سے دست بردار ہوجائیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں جن کو آپ پسند نہیںکرتے یا اُن طریقوں کو اختیار کرلیں جو ذاتی طورپر آپ کو ناپسند ہیں۔ مگر جب کامیابی کے امکانات موہوم یا معدوم ہوںتویہ تمام کام انتہائی مشکل ہو جاتے ہیں۔ مایوسی کے لمحات میں، جب کامیابی کی کوئی اُمیدنظر نہ آ رہی ہویا شکست واضح انداز سے دکھائی دے رہی ہو، زیادہ امکان یہی ہوتاہے کہ لوگ اپنے وقت اور مال سے چمٹے رہیں، اپنی راے پر اصرار کریں اور اپنے ناپسندیدہ افراد، یا طورطریقوں کو ایک تنازع بناکر کھڑا کردیں۔ ایسی صورتوں میں دی جانے والی قربانیوں کا بہت بڑا اجر ہے۔

قربانی کیسے دی جائے؟

آپ اپنے اندر کی اُن صلاحیتوں کو کیسے بیدار کریں گے جو آپ میں قربانی کا جذبہ اور استعداد، پیدا کریں، پروان چڑھائیں اور برقرار رکھیں؟ آپ سے جوقربانی طلب کی جائے گی  اُس کے لیے اپنے آپ کو کس طرح آمادہ وتیار کریںگے؟

ان میں سے کچھ طریقوں سے تو آپ کو قربانی کی اقسام پر بحث کے دوران ہی آگاہی ہوچکی ہے۔تاہم کچھ بنیادی اندرونی صلاحیتیں ایسی ہیں جن پر زیادہ زور دینے اورجنھیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور جو آپ کو خود اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ مگر سب سے پہلے ہم چند ایسے بنیادی اُصولوں کو دُہرالیتے ہیں جن پر ان صلاحیتوں کا انحصار ہے:

اوّل، قربانی اُسی صورت میں قربانی کہلائے گی جب آپ کوئی ایسی چیز قربان کریں جس کی آپ کے نزدیک کوئی قدروقیمت ہے، یا جسے آپ عزیز رکھتے ہیں۔ایسی چیزوں کی قربانی آپ اُن سے زیادہ قیمتی، زیادہ محبوب،زیادہ پسندیدہ یا زیادہ ضروری اورزیادہ اہم چیزوں کی خاطر دیتے ہیں۔

دوم، آپ جس چیز کی قربانی دیتے ہیں اُس کی ظاہری شکل خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو___ وقت، مال، زندگی، پسند و ناپسند، نقطۂ نظر ___ آپ اصل قربانی ان چیزوں کی نہیں،بلکہ ان چیزوںکی محبت اور آپ کے نزدیک ان چیزوں کی جو قدر و قیمت ہے، اُس کی قربانی دیتے ہیں۔

سوم، اُس صورت میں ان چیزوں کی قربانی دینے پر آپ کے عزم و آمادگی میں مزید اضافہ ہوگا جب اﷲ کی محبت اور اُس کے انعامات کی قدروقیمت آپ کی نظر میں انتہائی شدّت و قوت کے ساتھ بڑھتی جائے گی اور جن چیزوں کی قربانی آپ دے رہے ہیں، وہ ان کے مقابلے میں آپ کو بے قیمت اور حقیر نظر آنے لگیں گی۔

اللّٰہ سے محبت

محبت ہر شے کی بنیاد ہے۔ لہٰذا آپ بخوبی ادراک کرسکتے ہیں کہ قربانی دینے کے لیے جو اندرونی استقامت درکار ہے، اُس کے لیے آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے___اﷲ سے محبت کی۔ آپ کے دل میں اﷲکی محبت کتنی ہے؟ کیا آپ دُنیاکی ہر چیز سے زیادہ اُس سے محبت کرتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتاہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط(البقرہ ۲: ۱۶۵)، ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایک سادہ مگر انتہائی معنی خیز سوال کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ  تمھیں کون زیادہ عزیز ہے؟اﷲ، اُس کا رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد یا باپ، بیٹے، بیویاں، بھائی، مال و دولت، گھربار، تجارت اورکاروبار ؟ (التوبہ ۹:۲۴)۔ صرف ایسی محبت سے جذبۂ قربانی خارج سے وعظ و نصیحت کی تحریک پر کی جانے والی نیکی کے بجاے اپنی اندرونی لگن سے کیے جانے والے عمل میں بدل جائے گا۔ تبھی آپ ایمانی تقاضوں کی تکمیل پر حقیقی خوشی اور مسرت سے سرشار ہوسکیں گے۔یاد رکھیے کہ ایمان بھی دو قسم کا ہوتاہے: ایک ہماری زبان پر رہتاہے اور یہ ایسا ایمان ہے جو بوجھ بن جاتا ہے۔ایک ایمان وہ ہے جو ہمارے دِل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتاہے اور یہ وہ ایمان ہے جو خوشی، اطمینان اور لطف کا باعث بنتاہے۔ جب یہ ایمان حاصل ہوجائے تو اگر آپ سے وقت، مال ودولت اورزندگی کی یا پسندوناپسند اور نقطۂ نظرکی قربانی طلب کی جائے گی تو آپ یہ چیزیں بخوشی قربان کردیں گے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے پاس ہوں اُس نے ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا: (اُن میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ) وہ دُنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اﷲ اور اُس کے رسولؐ سے محبت رکھتاہو‘‘… (بخاری، مسلم)

اﷲ سے ایسی محبت کس طرح کی جائے کہ وہ ہرشے کی محبت سے بڑھ جائے؟ اس مقصد کے لیے کوئی جامع فارمولا ہے، نہ ہوسکتا ہے، مگر چند چیزیں کارگر ہوسکتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز آپ کی اُن اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی جو قربانی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے درکار ہیں۔

ذکر الٰھی

ہروقت یاد رکھیے کہ اُس نے آپ کو کیسے پیدا کیا ہے، کس طرح آپ کی ضرورت کی ہرچیز آپ کو مہیا کی ہے، وہ کتنا رحیم وکریم ہے۔ اپنے وجود پر نظر ڈالیے، اپنے ارد گرد کی کائنا ت کا مشاہدہ کیجیے، آپ کو ہر طرف اُس کی رحمت ورافت، اُس کی حکمت اوراُس کی شان و شوکت نظر آئے گی۔ جب آپ اُس کی ان نشانیوں پر غور وفکر کریں گے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تو اُس سے آپ کی محبت میں اضافہ ہوگا۔ اُس کے ذکر کا ایک جزو اُس کی طرف رجوع کرنا اور اُس سے محبت کرنے میں اُس سے مدد چاہنا بھی ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلّم نے اس کے متعدد طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔

جب اورجتنا ممکن ہو، اﷲکا ذکر کریں، یہ بنیادی اور لازمی عمل ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کو اﷲکی محبت کے حصول میں مدد ملے گی، بلکہ جذبۂ قربانی بڑھانے کے لیے آپ کو جن دیگر وسائل کی ضرورت ہے وہ بھی حاصل ہوں گے، جیسے اُس کے حاضر وناظر ہونے کا احساس، اُس سے ملاقات اوراُس کے انعامات کی قدروقیمت کا حقیقی ادراک، اس دُنیاوی زندگی کی حقیقت اور دُنیا کی حیثیت کافہم، اُس کے حضور شکرگزاری اورعجز وانکسار کا اظہار، اس خوف سے لرزتے رہنا کہ اُس کا حق کبھی ادا نہیں کیاجاسکتا،اُس کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادہ اور تیار رہنا۔

احساسِ حضوری

زندگی ایسے گزاریئے جیسے آپ اُس کے سامنے موجود ہیں۔یاد رکھیے کہ: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط(الحدید ۵۷:۴)،’’وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تُم ہو‘‘۔جب آپ سے قربانی طلب کی جائے یا آپ از خود قربانی پیش کریں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ اُس کی نظروں کے سامنے ہیں۔ یہی بات وہ آپ سے ہروقت ذہن میں رکھنے کے لیے کہتاہے: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور ۵۲:۴۸)، ’’یقینا تُم ہماری نظروں میںہو‘‘۔ جب آپ اس یقینِ کامل کے ساتھ کوئی قربانی پیش کریں گے کہ جسے پیش کررہے ہیں  وہ آپ کو دیکھ رہاہے اوراُس کادیاہوا اجر کئی گُنا زیادہ اور ابدی ہوگا، تو یہ آپ کے اندر وہ قوتِ محرکہ اور توانائی پیدا کردے گا جو آپ کو درکار ہے۔

یہ احساسِ حضوری کہ ہم اُس کے سامنے موجود ہیں، اُس کی نظریں ہم پر ہیں، وہ ہماری باتیں سُن رہاہے، جب ہم اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو مالک ہماری نگرانی کررہاہے اور بڑی سخاوت اور مہربانی کے ساتھ ہمیں اجرو ثواب سے نواز رہاہے___ یہ احساس جذبۂ قربانی کو اُبھارنے کا اوّلین ذریعہ ہے۔اس سے اﷲ پر بھروسا بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہے تو آپ اپنے تمام معاملات اُسی کے سامنے پیش کریں گے۔

شوقِ ملاقات

کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِط(اٰل عمران۳:۱۸۵) ’’آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے۔‘‘ موت ہر شے کا اختتام نہیں ہے، اگلے مرحلے سے قبل کا وقفہ ہے۔اُ س مرحلے میں ہم اﷲ کے رُوبرو کھڑے ہوں گے۔

ہم میں سے کوئی شخص مرنا پسند نہیں کرتا، یہ انسانی فطرت ہے،مگرہمیں مرنا ضرورہے، اورموت کے بعدہی ہم پر ابدی زندگی اوراُس کی برکتوں کے دروازے کھلیں گے۔اگر آپ اس دُنیاوی زندگی کی حیثیت اور حقیقت کو سمجھتے ہیں اور آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کو اپنا بہترین اجر اﷲ سے ملاقات پر ملے گاتو آپ کے اندر دوقسم کے احساسات فروغ پائیں گے: ایک، اﷲ سے ملاقات کا شوق، تاہم اپنے اعمال کی کوتاہیوں کے سبب ایک خوف بھی دِل میں جاگزیں ہوگا۔ دوسرے، اِس دُنیا کی ہر چیز اﷲ کی راہ میں قربان کردینے پر آمادگی کا جذبہ جس کا اجر آپ کو آخرت میں ملے گا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم ایک دُعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اﷲ! مجھے اپنے وجہِ کریم کی زیارت کی لذت سے اوراپنی ملاقات کی تمنا سے بہرہ مند فرما‘‘ ۔(نسائی، احمد، حاکم)

شکر گزاری اور عجز

قربانی کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، بڑی ہو یا چھوٹی، مادّی ہو یا غیرمادّی اسے ممنونیت اور عاجزی کے ساتھ پیش کیجیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اﷲ کی راہ میں دینے سے اپنے آپ کو مضمحل اور درماندہ محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔پھر کہنے لگتے ہیں کہ:’’ہم تو پہلے ہی بہت وقت    دے چکے ہیں، ہم پہلے ہی بہت مال دے چکے ہیں، اب ہم اور کتنادیں؟ہم پہلے ہی بہت قربانی دے چکے ہیں، اب ہم سے مزید کیا چاہیے؟ایسا صرف اُسی صورت میں ہوتا ہے جب قربانی صرف ایک اﷲ کی رضا وخوش نودی کے حصول کے لیے نہ دی جارہی ہو، بلکہ کسی اور جذبے کے تحت دی جارہی ہو، یا جب آپ کو اس حقیقت کا احساس نہ ہوکہ اگرکچھ قربانی دینے کا موقع مل رہاہے توصرف اُس کے فضل و کرم سے مل رہاہے۔ہرقربانی عاجزی اور انکسار کے ساتھ پیش کیجیے۔

یہ بات صاف طورپر سمجھ لینی چاہیے کہ آپ جو چیز پیش کررہے ہیں وہ کسی فرد یاکسی تنظیم کو نہیں پیش کررہے ہیں۔ نہ وہ چیز آپ اﷲ کو ہدیہ کررہے ہیں، کیوں کہ وہ اتنا رحیم وکریم اورفیاض ہے کہ آپ سے کہتاہے کہ جوکچھ تُم اﷲکی راہ میں دیتے ہو وہ قرض ہے، جس کا کئی گُنا وہ تم کو لوٹادے گا۔ دراصل آپ ہر چیز اپنے آپ ہی کو دے رہے ہوتے ہیں۔کیاکوئی شخص اپنے آپ ہی کو مزید اور مزید دیتے رہنے سے تھک سکتا ہے؟

یہ خود غرضی نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہماری اُخروی خوش حالی اﷲ کے آگے سر جھکانے میں مضمر ہے۔قربانی کے ذریعے سے ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی بہتری لانا چاہتے ہیںاورہمیں آخرت میں بھی ایک کامیاب وکامران ابدی زندگی کی تمنا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہر وہ قربانی جو ہم دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو ہم اﷲ کی راہ میں قربان کرتے ہیں، ہماری قوم کومزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اﷲ کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے آپ کو قربانی دینے کاموقع دیا، آپ کو اپنے کام کے لیے طلب کیا، اور اپنی راہ میں قربانی دینے کی توفیق سے نوازا۔ اس کے برعکس بھی ہو سکتاہے۔ ہم بہکتے پھرنے کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ ہمیں مال کی قربانی دینے کا موقع ہی نہ ملے، یوں ہم ابدی انعامات کے حصول سے محروم رہ جائیں۔ آپ کو ہرقربانی جذبۂ تشکر اور احساسِ ممنونیت کے ساتھ دینی چاہیے۔ اُس کی طرف قبولیت کی آس کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔

عجز وانکسار بھی ضروری ہے۔کبھی یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ بہت ہوگیا۔جوں ہی اس بیماری کے جراثیم آپ کے دل میں داخل ہوں گے کہ آپ نے بہت کچھ کرلیا ہے، سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ آپ جوکچھ قربان کر رہے ہیں، وہ اﷲ کی طرف سے عائد ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ خیال رہنا کہ جتنی بھی قربانی دی جائے وہ کبھی کافی نہیں ہوگی، قربانی کی بنیاد ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ (المومنون ۲۳:۶۰)،’’وہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں ،مگر اُن کے    دل لرزتے رہتے ہیں‘‘۔

اندرونی قوتِ محرکہ

وہ بنیادی قوتِ محرکہ جو آپ کو قربانی دینے پر آمادہ کرے خود آپ کے اندر موجود رہنی چاہیے۔ یہ اُمنگ اندر سے اُٹھنی چاہیے۔ اس کی جڑیں آپ کے قلب وروح کی گہرائیوں میں پیوست ہونی چاہییں۔نہ گروہی فیصلہ،نہ دیکھا دیکھی، نہ تنظیمی پابندی، نہ کوئی اور خارجی دباؤ آپ کو قربانی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے اُکسائے۔ان میں سے ہرچیز اہم ہے اور ہمارے رویّوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن اگر اﷲ کی رضا کے سوا کسی اور مقصد سے قربانی پیش کی جائے تو بڑے پیمانے پر قربانی دینا، یامسلسل قربانی دیے جانا، ہرقسم کے حالات میں انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ قربانی کے لیے عزم و ارادہ اور جذبہ اندر سے اُبھرنا چاہیے۔

برضا و رغبت فیصلہ

قربانی دینے کا فیصلہ برضا و رغبت کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خود اپنے فیصلے کے تحت ، آپ کے پاس جوکچھ بھی موجود ہے اُس کی قربانی، اﷲ کی رضاکی خاطرپیش کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ کو راضی برضاے الٰہی ہوجانا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قربانی پیش کرتے ہوئے کسی کوزحمت اور تکلیف کا احساس بھی نہیں ہونا چاہیے۔جس وقت آپ اپنی محبت،اپنی پسند یا اپنی قابلِ قدر چیز سے دست بردار ہورہے ہوتے ہیں، تو تکلیف محسوس ہونا بشری تقاضاہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر آپ کوئی شے قربان کرتے ہوئے تکلیف نہ محسوس کریں تو وہ قربانی کہے جانے کی مستحق ہی نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر سے محض وہ چیز پھینک رہے ہیں جو آپ کے لیے بے کار ہے۔اس کے بجاے آپ کو جس قدر زیادہ دُکھ ہورہا ہوگاوہ اُتنی ہی قیمتی قربانی ہوگی۔مگر اس تکلیف اور دُکھ کی پشت پر آپ کا عہدِ وفا ہے۔وہ عہد جو آپ کو اپنی قیمتی چیز اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان کردینے کا ہے۔ اﷲ کی رضا حقیقتاً سب سے بڑھ کر قیمتی چیز ہے۔ آپ یہ تکلیف اور دُکھ اﷲ سے اپنی محبت کی وجہ سے برضا ورغبت برداشت کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے دل میں اﷲ کی محبت ہر چیز کی محبت سے بڑھ کر ہے۔

دو استعانتیں

ہماری مدد ومعاونت کے لیے دو بنیادی چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو ہماری اندرونی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں، میں ان کو آپ کے سامنے پہلے ہی رکھ چکا ہوں۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۱۵۳)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔

نماز کیاہے؟یقینا نماز ایک رسمی عبادت ہے۔چند جسمانی حرکات وسکنات پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ الفاظ بھی شامل ہیں جو ہم ابتدا سے آخرتک پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن نماز کا مجموعی مقصد اﷲ کا ذکر کرنا اور اﷲ کویاد رکھنا ہے۔یہی بات قرآن صاف اور واضح الفاظ میں کہتاہے:  وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ ۲۰:۱۴)، ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔

صبر جامع المعانی لفظ ہے۔لغوی طورپر صبرکے معنی ہیں: رُک جانا اور بازرہنا۔ قرآن میں یہ لفظ وسیع مفاہیم میں استعمال ہوا ہے اور کئی صفات کا احاطہ کرتاہے: اپنے آپ کو روکے رکھنا،  ارادہ کرنا، تحمل اورجذبۂ قربانی، نظم وضبط اورثابت قدمی۔یہ آپ کو اﷲ سے، اپنے کیے ہوئے عہد سے اپنے بھائیوں سے اورآپ کو اپنی اُخروی فلاح سے جوڑے رکھتاہے۔ نماز اور صبر کا دامن تھامے رکھنے سے آپ کو وہ استقامت حاصل ہوگی جو قربانی کے لیے ضروری ہے۔

دو مثالی پیکر

آخر میں ہمیں قربانی کے دو مثالی پیکروں پر نظر ڈالنی چاہیے۔

اُن میں سے ایک ہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔ اُن کو ہرقابل تصورطریقے سے آزمایش میں مبتلاکرکے جانچا گیا۔ اُن کے والد ، اُن کا خاندان، اُن کے زمانے کی مذہبی اور سیاسی طاقتیں، سب اُن کے مخالف تھے۔اُنھوں نے سب کو چھوڑ دیا۔ اُنھیں آگ کے الاؤ میں پھینک دیا گیا۔اُن کو گھر سے نکال دیا گیا۔اُنھیں صحراؤں اور جنگلوںمیںبھٹکنا پڑا اور آخرکار اُنھوں نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی۔ یہی کام غالباً دشوار ترین کام تھا۔وہ نہ صرف اپنے پیارے بیٹے کی قربانی دے رہے تھے بلکہ تسلیم شدہ انسانی اخلاق کی بھی قربانی دے رہے تھے۔تاہم، حتمی بات یہ ہے کہ تمام اخلاقیات  اﷲ کی مرضی کی تابع ہیں۔اُس کو راضی رکھنا سب سے بڑا اخلاقی پیمانہ ہے۔ یقینا یہ صرف اﷲ کے نبی کا منصب ہے کہ وہ اُس کے براہِ راست حکم پر اﷲ کے متعین کردہ اخلاق سے ماورا یہ انتہائی قربانی اُس کے حضور پیش کردے۔تاہم، بعض مواقع پر ہم میں سے بعض کو بھی اﷲ کے واضح احکام کے مقابلے میں اپنے ذاتی اخلاقی فیصلوں کو معطل کرنا پڑتاہے۔ ان قربانیوں اورآخری قربانی کو پیش کرنے کے بعد ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ’امام النّاس‘ بنانے کا اعلان کیاگیا:

وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماًط (البقرہ ۲:۱۲۴)، یاد کروجب ابراہیمؑ کو اُس کے رب نے چند باتوںمیں آزمایا اور وہ اُن سب پر پورا اُترگیا، تو اُس نے (اﷲنے) کہا: میں تجھے سب انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔

اگرہم یہ کہتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے لیے اُٹھے ہیں، جہاں اسلام بنی نوع انسان کا رہبرو قائد ہوگا تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی طورپر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اُسوۂ مبارکہ کی پیروی اور تقلید کرنی چاہیے۔

دوسرانمونہ سیدنا ونبینا محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کاہے۔ خواہ وہ وادیِ مکہ ہو، جہاں آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، یا وادیِ طائف ہو، جہاں آپؐ پرسنگ باری کی گئی، یا اُحد کا میدان ہو، جس میں آپؐ  کے دندان مبارک شہید کردیے گئے، یامدینے کی گلیاں ہوں، جن میں آپؐ  کے دشمنوں نے آپؐ  کے خلاف افترا پردازانہ پروپیگنڈا کیا، آپؐ  نے ہمارے لیے قربانی کی افضل ترین مثالیں چھوڑی ہیں۔ایساہی آپؐ  کے صحابہ کرامؓ نے بھی کیا۔

بنیادی اُصول

جیسا کہ ہم پہلے جائزہ لے چکے ہیں، بنیادی طورپر قربانی کا مطلب جانور کاذبح کرنا ہے۔ حج کے دوسرے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا محمدصلی اﷲ علیہ وسلّم کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔حج خود ایک رسمِ عبودیت ہے جس میں انتہائی سخت مشقت بھری قربانیاں شامل ہیں۔ یہاں ہمیں دو اہم اسباق ذہن نشین کرلینے چاہییں:

اوّل:اﷲ کے یہاں قبولیت ہماری قربانی کے جانور کی نہیں ہوتی، بلکہ قبولیت ہمارے دلوں میں پائی جانے والی اﷲ سے محبت کی، ہماری اطاعت کی اور ہماری قربانی دینے کی نیت کی ہوتی ہے۔اس بنیادی اُصول کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے ، روح کو چھوڑ کرصرف رسم پر مطمئن نہ ہوجائیے ، البتہ رسم کو بھی ترک نہ کیجیے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط(الحج ۲۲: ۳۷)، نہ اُن کے گوشت اﷲ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمھارا تقویٰ پہنچتاہے۔

دوم:اعلیٰ ترین قربانی زندگی کی قربانی ہے۔اﷲ کی راہ میں اپنی حیاتِ دُنیوی کی قربانی  دے کر آپ صرف ایک بار موت کو گلے لگاتے ہیں اور یہ آخری قربانی ہے۔ مگر آپ اُس صورت میں ہرروز اور ہر لمحے موت کو گلے لگاتے ہیں جب آپ دل کی گہرائیوں میں پیوست محبت کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں اوراپنے آپ کو مکمل طورپر اﷲ کے حوالے کردیتے ہیں، اور تمام اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کے باوجود اُس کی اطاعت وفرماں برداری کرتے رہتے ہیں۔ یوں آپ اپنی زندگی کی قربانی ایک بار نہیںدیتے، بار بار دیتے رہتے ہیں۔ یہ افضل ترین قربانی ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo(الانعام ۶: ۱۶۲) کہو، میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔

حاصلِ کلام

آخر میں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم سے یہ تمام قربانیاں اس لیے طلب کی جاتی ہیں کہ ہم نے اپنے کاندھوں پراُس مشن کی تکمیل کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے جو اﷲکے رسولوں کوسونپا گیا تھا: ’تاکہ     تم لوگوںکے سامنے گواہ بن کرکھڑے ہو‘ ۔ہمیں اپنے رب کا سچا بندہ بننا چاہیے اورانسانیت کا   بے لوث خادم۔ بنی نوع انسان ہی کے لیے ہمیں ایک اُمت کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ہے۔ اس بعثت کا تقاضاہے کہ ہم زندگی کے ایک مشکل ترین کام کے لیے اپنے آپ کو تیارکرلیں۔

قربانی کے بغیر اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کاکام ہمیشہ صرف تقریروں کا یا خواب کا موضوع بنارہے گا۔اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں اپنا وقت، اپنامال، اپنی زندگی، اپنے وسائل اور اپنی ذاتی پسند وناپسند کی قربانی دینی ہوگی۔ تاہم ہماری بہترین کوششیں بھی کاملیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتیں۔ہم ڈگمگا سکتے ہیں، ڈانوا ڈول ہوسکتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ انسانی فطرت کاتقاضا ہے۔اﷲ صرف ہماری نیتوں اورکوششوں کو دیکھتاہے۔ہمیں اﷲسے رجوع کرنا چاہیے اور اُس سے مدد مانگنی چاہیے، مباداکہ جس وقت ہم سے قربانی طلب کی جائے اُس وقت ہماری بشری کمزوریاں ہم پر غالب آجائیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں اور خطاؤں پر اُس سے مغفرت طلب کرنی چاہیے:

رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّا وقفۃ وَاغْفِرْلَنَا وقفۃ  وَارْحَمْنَا وقفۃ  اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۸۶)، اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جوقصور ہوجائیں، اُن پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر    وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار ! جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو.ُ ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

 

جولائی ۱۹۷۹ء میں لاس اینجلس (امریکا) میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ’مغربی ساحل کانفرنس‘  (West Coast Conference) میں نمازِ جمعہ کے موقع پر خرم مرادؒ کاخطاب جو Sacrifice کے عنوان سے شائع ہوا۔ ترجمہ: احمدحاطب صدیقی

(کتابچہ منشورات سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۲۵ روپے ۔ زیادہ تعداد میں لینے پر رعایت)