جنوری ۲۰۱۲

فہرست مضامین

سنوسی تحریک

ڈاکٹر ظفر حسین ظفر | جنوری ۲۰۱۲ | تاریخ و سیر

Responsive image Responsive image

سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کی تکمیل کے ساتھ ہی مغربی نو آبادیاتی طاقتوں کا ظہور ہوا۔مغربی طاقتوں نے نہ صرف عسکری بالادستی قائم کی، بلکہ اپنی تہذیب سے بھی مسلم معاشروں کو مرعوب کر دیا۔ مسلم دنیا کی اکثریت اِ س عسکری اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کی سکت سے تہی دامن تھی۔ جمود، تقلید اور ملوکیت جیسے عارضے مسلم معاشروں کو پہلے ہی کھوکھلا کر چکے تھے۔ مغرب کے عسکری، سیاسی، تہذیبی اور سائنسی طوفان کے سامنے مسلمانوں کی بے بسی تاریخ کا ایک سنگین المیہ ہے۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ زوال پذیر مسلم معاشروں میں مغربی بالادستی کے خلاف ایک ہی وقت میں احیائی اور اصلاحی کوششیں شروع ہوئیں۔ان احیائی تحریکوں نے جہاد اور اجتہاد کو اپنا سلوگن بنایا۔ جمود زدہ  ملّت میں حرکت اور ارتعاش کی ایسی فکری اور نظریاتی بنیادیں ان تحریکوں نے اٹھائیں کہ آج دنیا کے ہر خطے میں ان کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ اور محمد بن عبدالوہاب کو ان اسلامی تحریکوں کا پہل کار تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی وفات کے بعد دنیا کے مختلف خطوں میں بے شمار اسلامی احیائی تحریکیں منظم ہوئیں۔ شمالی افریقہ کی سنوسی تحریک،  مہدی سوڈانی کی تحریک، اخوان المسلمون(مصر، عراق، شام)، برعظیم پاک و ہند کی تحریکِ مجاہدین، فرائضی تحریک (بنگال)اور جماعت اسلامی (ہندو پاکستان) جیسی تحریکیں انیسویں اور بیسویں صدی میں شروع ہوئیں۔ ان تحریکوں کی تنظیمی ساخت اور طریق کار مختلف ہونے کے باوجود مقصد کی یکسانیت نے انھیں ایک احیائی کہکشا ں بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مطابق :شمالی افریقہ کے اندر سنوسی تحریک بہت بڑی اور   احیاے اسلام کی سب سے کامیاب تحریک تھی۔ اس کی بنیاد الجزائر کے صوفی رہنما اور مجاہد سیّد محمد ابن السنوسی نے رکھی۔ اس نے مسلمانوں کی از سرِ نو بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا۔اس تحریک نے عرب اور شمالی افریقہ کے ممالک میں تاریخی واقعات پر گہرا اثر ڈالا، خصوصاً حجاز ، مصر، لیبیا، الجزائر، شمالی نائیجیریا، چاڈ اور جنوب مغربی سوڈان اس میں شامل ہیں۔

سنوسی تحریک کا مقصد کتاب و سنت کی اساس پر عالم ِاسلام کا مکمل دینی احیا تھا۔ اس سلسلے میں دو باتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں ، ایک ردِ بدعات اور دوسری اجتہاد۔سنوسی الکبیر اس بات پر زور دیتے تھے کہ وہ باتیں جن کی سند قرآن و سنت سے نہیں ملتی، وہ ترک کر دینی چاہییں اور    اُس اسلام کی طرف رجوع کرنا چاہیے ،جو دورِ اوّل میں روبہ عمل تھا۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے تھے کہ اجتہاد کے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔

 سنوسی، احیاے اسلام کی منظم اور مربوط جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ یہ تحریک اسلام کا حقیقی اور انقلابی تصور رکھتی تھی اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو صحیح اسلامی اقدار کی حامل بنانا چاہتی تھی۔ اس تحریک کی غرض و غایت کسی ذاتی ریاست یا امارت کا حصول نہ تھا، بلکہ سنوسی یہ چاہتے تھے کہ تنظیمی بنیاد پر اسلام کے سیاسی ‘معاشی ‘ اخلاقی اور تمدّنی نظام کو اس کی حقیقی صورت میں بحال کیا جائے۔

اس تحریک کے بانی سیّد محمد بن علی السنوسی( ۱۷۸۷ئ-۱۸۵۹ئ) موجودہ الجزائر کے علاقے مستغانم کے گائوں وسیتا میں پیدا ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سنوسی ان کا خاندانی لقب تھا، جو ان کے روحانی جد امجد شیخ محمد ابن یوسف بن عمر بن شعیب السنوسی(۱۴۹۰ئ) سے منسوب ہے۔ سیّد غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ آپ نے بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کیا۔ فقہ ‘ حدیث اور دوسرے علوم سیکھے ۔اس کے بعد سیّد ایک پرانے اسلامی مرکز مزونا میں مزید تعلیم کے لیے چلے گئے۔ ان کے قلب و ذہن میں یہ احساس بچپن ہی سے پروان چڑھ رہا تھا کہ امّتِ مسلمہ دوسروں کی دست نگر بن گئی ہے اور امت کو موجودہ کیفیت سے نکالنے کے لیے اپنے حصے کاکام کرنا چاہیے۔

۱۸۰۴ء میں فاس کی قاراوین یونی ورسٹی چلے گئے، جہاں انھوںنے مزید تعلیم مکمل کی۔ یونی ورسٹی کے دوران سیّد صاحب کا رجحان تصوّف کی جانب ہوا۔ فاس میں قیام کے دوران پہلے آپ صوفیہ کے مشہور سلسلہ تاجنیہ سے منسلک ہوئے، جو بعد ازاں شیخ احمد بن ادریس سے گہرے تعلق پر منتج ہوا۔ اسی دوران میں سیّد عالم عرب کی مشہور اسلامی تحریک ( وہابی تحریک ) سے متاثر ہوئے۔ اس کا بہت امکان ہے کہ ۱۴۴۶ء میں سیّد نے عرب کی اس تحریک توحید سے جو محمد ابن عبدالوہاب نے شروع کی تھی اثرات قبول کیے۔(ایضاً، ص ۷۶)

آپ نے ۱۸۱۸ء میں فریضۂ حج ادا کیا ۔ ۱۸۳۱ء میں مصر پہنچے، جہاں الازہر یونی ورسٹی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔ ۱۸۳۲ء میں آپ مکہ معظمہ چلے گئے، جہاں آپ ۱۸۴۰ء تک مقیم رہے ۔ قیام مکہ کے دوران آپ تصوّف کے مشہور سلسلے ادریسیہ سے منسلک ہو گئے ۔ بہ ایں ہمہ محمدعلی بن سنوسی ’ سلسلۂ ادریسیہ ‘ کے ساتھ ساتھ ’ وہابی تحریک ‘ کے بارے میں بھی نرم گوشہ     رکھتے تھے۔معاصر حالات کے گہرے تجزیے کے بعد سیّد محمد بن علی السنوسی نے احیاے اسلام اور اتحاد ِاُمّت کے عالم گیر تصورکے مطابق ایک منظم تحریک شروع کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ۔ اب وقت آچکا تھا کہ مسلمانوں کے احیا کی وہ تحریک چلائی جائے جو مسلم امہ کا ایک بڑا دلربا اور محبوب خواب تھا۔ ۱۸۳۷ء میںانھوںنے پہلا سنوسی زاویہ (خانقاہ) کی مکہ میں بنیاد رکھی۔

مکّہ میں قیام کے دوران سیّد صاحب نے علما اور دیگر لوگوں کے ساتھ گہرا رابطہ رکھا۔ بالآخر انھوں نے مکہ چھوڑنے کافیصلہ کیا۔ ۱۸۴۰ء میں مکّہ سے روانگی سے قبل انھوں نے سنوسی تحریک کے مستقبل کے صدر مقام کا انتخاب کرناتھا، ان کی خواہش تھی کہ یہ اسلامی دنیا کے مرکز میں اور مغربی طاقتوں کے اثر سے دور واقع ہو۔ مزید برآں روایتی علما کی مزید مخالفت سے بچنے کے لیے وہ تہذیب وثقافت کے قدیم مراکز سے دُور ہونا چاہتے تھے۔

وہ مکہ سے مصر پہنچے۔ یہاں بلاق میں تین مہینے انھوںنے قیام کیا، بعد ازاں ’فیوم ‘ سوا اور تریپولی میں بھی قیام کیا اور سنوسی تحریک کا مستقل مرکز قائم کرنے پر غورو خوض جاری رکھا ۔ بالآخر بن غازی کے مقام پر سنوسی تحریک کا مرکز بنا لیاگیا ۔

’ بن غازی‘ لیبیا کے ساحلی علاقے میں واقع تھا اور یہ مقام سنوسی قائدین کی خاص حکمت عملی کے باعث منتخب کیاگیا تھا۔ زاویوں کی تعداد میں تسلسل کے ساتھ اضافہ شروع ہوا، طرابلس ‘ سوڈان اور افریقہ کے بیش تر علاقوں میں سنوسی تحریک کے واضح اثرات محسوس کیے جانے لگے، تو محمد علی السنوسی نے سنوسی تحریک کا مرکز گہرے تجزیے کے بعد سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کے حامل علاقے جغبوب میں منتقل کر دیا۔سیّد اکتوبر ۱۸۵۶ء کے وسط میں یہاں پہنچے۔ جغبوب اہم تجارتی راستوں کا مرکز اور حجاج کرام کا معروف راستہ تھا اور معاصر عالمی طاقتوں کی باہمی آویزش سے بھی دور تھا۔ سیّد کی تحریک کے اثرا ت جلد ہی تیونس ‘ لیبیا ‘ مصر کے مغربی صحرا‘ سوڈان اور دوسرے افریقی علاقوں میں پھیل گئے۔

جغبوب میں منتقلی کے تین سال بعد سیّد ستمبر ۱۸۵۹ء میں فوت ہوئے اور جغبوب یونی ورسٹی کیمپس میں دفن ہوئے۔ سیّد کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے سیّد محمد المہدی السنوسی تحریک کے سربراہ مقرر ہوئے ۔ المہدی سنوسی کی قیادت میں سنوسی تحریک کے کام میں وسعت آئی۔ ’سنوسی اخوان ‘ کی تعداد ۴۰ لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس علاقے میں کوئی مقام ایسا نہ تھا، جہاں تک سنوسی تحریک کی دعوت نہ پہنچی ہو اور زاویہ قائم نہ ہوا ہو ۔

المہدی سنوسی کی وفات کے بعد سیّد احمد الشریف السنوسی (۱۸۷۵ئ- ۱۹۳۳ئ) سنوسی تحریک کے امیر مقرر ہوئے ۔ سنوسی تحریک نے عالمِ اسلام کو پیش آنے والے ہر مسئلے پر توجہ دی اور اس پر ردعمل کا اظہار بھی کیا ۔ سنوسی اتحادِ عالمِ اسلام کے داعی اور پر جوش حامی تھے۔ چنانچہ عالمِ اسلام کے اتحاد کے خلاف ہونے والی استعماری سازشوں پر سنوسی بہت بے چین تھے۔ ان ہی عالمی سازشوں میں سے ایک سازش عرب نیشنلزم تھا ۔خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے استعماری ایجنڈا تھا ۔ سنوسی تحریک نے اس مرحلے پر ترکوں کا ساتھ دیا۔علامہ اقبال نے بھی سنوسی تحریک کی تحسین کی ہے    ؎

کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تُو نام و نسب کا حجازی ہے، پر دل کا حجازی بن نہ سکا

تحریک و دعوت میں وسعت تو ہوئی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تحریک میں داخلی مسائل بھی جنم لیتے رہے ۔۱۹۱۶ء میں سیّد ادریس اور سیّد احمد الشریف کے درمیان اختلافات ہوئے ، جس کے نتیجے میں سیاسی و عسکری قیادت سیّد ادریس کے سپرد ہوئی، جب کہ روحانی و تعلیمی محاذ   سیّد احمد کے سپرد ہوا۔

سیّد ادریس نے اطالویوں اور برطانوی ذمہ داران کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ سیّداحمد پہلے جغبوب گئے، لیکن برطانوی حکام نے انھیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا ۔بالآخر آپ ۱۹۱۸ء میں ترکی چلے گئے جہاں کما ل اتا ترک کی حکومت میں آنے کے بعد وہاں سے نکال دیے گئے ۔ بیروت،یروشلم سے ہوتے ہوئے مدینہ چلے گئے ، جہاں انھوں نے معروف سکالر محمد اسد سے مل کر سنوسی تحریک کو مسائل اور چیلنجوں سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ۔ بے بسی کے عالم میں وہ مصر پہنچے، اس موقع پر غازی عمر مختار منظر عام پر آئے۔ سنوسی اخوان کو مخدوش حالات میں چھوڑتے ہوئے سیّد ادریس مصر چلے گئے۔ غازی عمرمختار جو ایک بہادر جنرل تھے، انھوں نے سنوسی اخوان کی ملٹری کمانڈ خود سنبھال لی۔

 عمرمختار طلسماتی شخصیت کا حامل جرنیل تھا ،نو آبادیاتی نظام کے خلاف ۳۰برس تک جدوجہد کرتا رہا ۔ عمر مختار نے سنوسی تحریک کی قیادت بہت نازک اور مشکل مرحلے پر کی۔ برطانوی اور اطالوی فوجوں کے خلاف وہ ایک چٹان کی طرح ڈٹا رہا۔ بلاشبہہ عمر مختار کو مشہور مسلم   سپہ سالاروں ‘ موسیٰ بن نصیر ‘ طارق بن زیاد ‘ محمد بن قاسم ‘ صلاح الدین ایوبی ‘ عقبیٰ بن نافع کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔عمرمختار تین عشروں تک متواتر جہاد میں مصروف رہا۔ اپنی زندگی کے  آخری ۲۰مہینوں میں جب عمر ۷۵سال تھی، وہ ۲۳۶مرتبہ اپنے سے کئی گنا فوج کے خلاف لڑا، اور سنوسی تحریک کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کا ثبوت دیا۔

سیّد محمد بن علی السنوسی کی تحریک کا بنیادی مقصد ’’مسلمانوں کی اصلاح، فرنگی استعمار کی مدافعت اور اسلام کی اشاعت تھا ۔ ۲۲ برس کے عرصے میں انھوںنے ایک ایسی زبردست جماعت تیار کرلی، جس کا نظام سلطنتوں کے نظام سے زیادہ مکمل تھا، جس کا ہر شخص جماعتی مقاصد کی لگن میں ڈوبا ہوا تھا‘‘۔(ابو الاعلیٰ مودودی،الجمعیۃ، دہلی، ۲۲ جولائی ۱۹۲۵ئ)

سنوسی تحریک کے اثرات بہت گہرے اور دور رس تھے ۔ لیبیا اور شمالی افریقہ کے بدو قبائل تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔احیاے اسلام کے لیے سنوسی تحریک نے جن امور کی طرف علی الخصوص اہمیت دی تھی، ان میں ردِّ بدعات اور اجتہاد کو فوقیت حاصل تھی ۔ سنوسی تحریک کا  یہ ایک واضح رجحان رہا کہ اسلام میں ایسی اصلاحات کر دی جائیں، جن سے یہ روح اسلام سے  قطع نظر کیے بغیر زمانہ حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کر سکے۔

مسلم نشاتِ ثانیہ کی یہ عظیم الشّان تحریک کم وبیش ایک صدی تک اپنے ہمہ گیر اثرات مرتب کر کے ذیل کے عوامل کے باعث روبہ زوال ہوئی :

                ۱-            برطانیہ ‘ فرانس ‘ اور اٹلی کے خلاف طویل اور تھکا دینے والی جنگیں ۔

                ۲-            ذرائع وسائل کی قلت کے باعث وسیع تحریک کو مربوط نہ کیا جا سکا۔

                ۳-            مختلف علاقوں ، زبانوں کے افراد کا مجتمع ہونا اور کسی ایک فکری و حدت میں سمویا نہ جانا۔

                ۴-            روایتی ذرائع آمدورفت، مثلاً صرف اونٹوں کا استعمال۔

                ۵-            سنوسی تحریک کے بانی محمد ابن السنوسی کی وفات کے بعد قیادت پر ان کے بیٹے کا متمکن ہونا اور اس کے بعد ایک سینئر لیڈر کے بیٹے کو قیادت پر فائز کرنا، سیّد محمد ادریس کی جانب سے قیادت کے مسئلے پر تنازع کھڑا کر دینا …

                ۶-            سیّد ادریس (المہدی کے بیٹے) قیادت کی صلاحیت نہ رکھتے تھے، مشکل وقت میں انھوں نے تنازع کھڑا کیا ۔ سیّد احمد الشریف تحریک کی فعال ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔

                ۷-            وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوش عمل میں کمی آئی، رضاکارانہ کام کرنے والے کارکن  کم ہوتے گئے اور قائدین اور رہنمائوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

مصر، تیونس اور اب لیبیا کے عوام نے استعمار اور اُس کے ایجنٹوں کے خلاف ایک جنگ جیت لی ہے۔ انسانی خدائی کا جوا ہمیشہ کے لیے اپنی گردنوں سے اتارنے کا معرکہ ابھی جاری ہے۔ تاریخ کا یہ سفر لمحوں میں طے نہیں ہوا۔ یہ صدیوں پر مشتمل ایک تاریخی عمل ہے۔ مصر کی اخوان المسلمون ہو، یا شمالی افریقہ کی سنوسی اخوان، اس جدو جہد کے پس منظر میں اُن کا کردار نمایاں اور نکھرا ہے۔

 

ماخذ: ڈاکٹر محمود احمد غازی سنوسیہ تحریک شمالی افریقہ میں (انگریزی)، اور ڈاکٹر معین الدین عقیل، اقبال اور جدید دنیاے اسلام۔

  • مضمون نگار گورنمنٹ کالج راولا کوٹ، آزاد کشمیر میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔