سوال: ہمارے حلقۂ احباب میں چند مسائل کے متعلق بحث و اختلاف کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ براہِ کرم ان کی صحیح حقیقت سے آگاہ کریں۔ مسائل درجِ ذیل ہیں:
۱- کیا حدیث میں یہ مذکور ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنی ماں کی جانب منسوب کیے جائیں گے؟ بعض اصحاب والدہ کی فضیلت اور اُس کے حقوق کے سلسلے میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
۲- کوئی باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو قتل کردے تو کیا اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا؟ اور کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ قاتل مقتول کا وارث ہے اور وہ اپنے آپ کو معاف کرسکتا ہے؟ جن جرائم کا حقوق العباد سے تعلق ہے، کیا اُن کے بارے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ جس فرد کی جان یا مال پر دست درازی ہوئی ہے، اگر وہ معاف کردے تو حق مارنے والے سے بازپُرس نہ ہوگی؟
۳- ماں باپ کی اطاعت کن اُمور میں اولاد پر جائز اور فرض ہے؟ کیا والدین کے حکم سے کوئی بیٹا شرعاً مجبور ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے؟
جواب: ۱- اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے والدین کے حقوق و واجبات پر بہت زور دیا ہے، اُن سے حسنِ سلوک کی بہت تاکید فرمائی ہے اور اپنے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق بیان کیے ہیں۔ بعض صحیح احادیث میں جہاں والدین سے صلۂ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ایک یا دو مرتبہ پہلے والدہ کا ذکر ہے اور اس کے بعد والد کا ذکر ہے، لیکن جس مضمون کا حوالہ سوال میں دیا گیا ہے، یہ کسی صحیح اور مستند حدیث میں وارد نہیں ہے۔ اگرچہ بعض حدیث کے مجموعوں میں ایک روایت اس طرح کی مذکور ہے، لیکن محدثین اور فنِ رجال کے ماہرین کے نزدیک یہ غیر صحیح ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
یُدْعَی النَّاسُ بِاُمَّھَاتِھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سِتْراً مِنَ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ،قیامت کے روز لوگوں کو اُن کی مائوں کے نسب سے پکارا جائے تاکہ اللہ کی جانب سے ان کی پردہ داری ہو۔
امام ابن جوزیؒ نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں اگرچہ بہت سی ان احادیث کو موضوعات سے خارج قرار دیا ہے جن پر ابن جوزیؒنے وضع کا حکم لگایا ہے، لیکن اس روایت کو تعقبات، باب البعث میں ابن عدیؒ کے حوالے سے منکر ہی لکھا ہے۔ منکر اُس ضعیف روایت کو کہا جاتا ہے جس کا راوی فحش غلطی، شدید غفلت یا فسق و فجور کا مرتکب ہو۔
والدین اور بالخصوص والدہ کے اکرام و احترام پر دلالت کرنے والی واضح نصوص جب کتاب و سنت میں موجود ہیں، تو اس کے بعد ایسی منکر یا موضوع روایت کا سہارا لینے کی کیا حاجت ہے، جس میں ماں کی افضلیت کا کوئی خاص پہلو نہیں نکلتا اور جو قرآن مجید (سورئہ احزاب) کی اُس آیت سے بھی مطابقت نہیں رکھتی جس میں لوگوں کو ان کے باپوں کے نسب سے پکارنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔
۲- یہ صحیح ہے کہ فقہا کی اکثریت اس امر کی قائل ہے کہ باپ اولاد کو قتل کردے، تو اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، لیکن یہ اس بنا پر نہیں کہ باپ بیٹے کا وارث یا ولیِ قصاص ہے اور وہ چاہے تو اپنے آپ کو معاف کردے۔ اپنے جرم پر اپنے آپ ہی کو قابلِ معافی قرار دینے کا تصور بالکل لغو ہے اور یہ بات بھی غلط ہے کہ ہرشخص جو مقتول کا وارث بن سکتا ہو، یا مطالبۂ قصاص کا قانونی حق رکھتا ہو، وہ اگر خود ہی قاتل ہو تو اُس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ باپ کو اولاد کے قتل کرنے پر قصاص سے صرف اس وجہ سے مستثنیٰ سمجھا گیا ہے کہ اُس کے حقوق اولاد پر بے حدوحساب ہیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک صحابی اور اُس کے بیٹے کی ناچاقی کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے بیٹے کو مخاطب کر کے فرمایا: اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ(البیھقی)، ’’تو اور تیرا مال و متاع سب تیرے والد کا ہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں اولاد کو والدین کی کمائی میں شمار کیا گیا ہے۔ اولاد کے بالمقابل، والدین کی اس غیرمعمولی مرتبت و منزلت کی بنا پر یہ استنباط کیا گیا ہے کہ والدین سے اولاد کا قصاص نہ لیا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ اگر والد اولاد کو ناحق قتل کرے تو عنداللہ بھی اُس سے بازپُرس نہ ہوگی۔
والدین کے ماسوا دوسرے اعزہ جنھیں وراثت یا قصاص کی ولایت اور مطالبے کا حق پہنچتا ہے، وہ اگر خود اپنے مورث کے قاتل ہوں تو وارث ہونے کے باوجود اُن سے قصاص لیا جاسکتا ہے اور اگر محض ورثہ حاصل کرنے کے لیے اُنھوں نے قتل کا ارتکاب کیا ہو تووہ ارشادِ نبویؐ کے مطابق محروم الارث بھی قرار پائیں گے۔
اسلامی شریعت کا یہ اصول بھی ہرگز نہیں ہے کہ جن جرائم کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اُن میں اگر مظلوم یا اس کا ولی معاف کردے تو ریاست ظالم یا مجرم سے مواخذہ نہیں کرسکتی۔ بہت سے جرائم جن کا تعلق انسان کی جان، مال یا آبرو سے ہے وہ حکومت کی دست اندازی کے قابل اور احتساب کے لائق ہیں اور وہ فریقین کے مابین قابل راضی نامہ بھی نہیں۔ مثال کے طور پر زنا، چوری یا ڈاکا، ایسے جرائم ہیں جن پر ریاست ہر حال میں گرفت کرے گی اور سزا دے گی ، کیونکہ انفرادی قتل تو بسااوقات ذاتی پُرخاش یا وقتی محرکات پر مبنی ہوسکتا ہے جس میں مقتول کے ورثا اگر دیت یا عفو و درگزر پر راضی ہوجائیں تو مزید انتقامی کارروائی ، خوںریزی اور فساد کا سدّباب ہوسکتا ہے، لیکن مذکورہ بالا اجتماعی جرائم کی نوعیت ایسی ہے جن میں نرمی یا چشم پوشی برتنے سے مزید شر اور فتنوں کے پھیلنے کا امکان قوی ہوجاتا ہے۔ قتل میں بھی اگرچہ مقتول کے اولیا، دیت لے لیں یا معاف کردیں تو قصاص کی سزا تو نافذ نہ ہوگی، لیکن بعض فقہا کا قول یہ ہے کہ اولیا کے راضی ہوجانے کے باوجود اگر اسلامی حکومت یہ سمجھے کہ فتنہ و فساد کے اسباب کا پوری طرح قلع قمع کرنے کے لیے قاتل کو کچھ تادیب و تعزیر ضروری ہے، تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔
۳- جو افعال خدا اور رسولؐ کے نزدیک ممنوع یا مذموم ہیں، اُن میں کسی کی اطاعت جائز نہیں، بقیہ اُمور میں والدین کی اطاعت جائز و مستحسن ، بلکہ اکثر حالات میں لازم ہے۔ جہاں تک باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینے کا سوال ہے، اس کا جواب بھی یہی ہے کہ بیٹا صرف اسی صورت میں طلاق دے، جب کہ والد کا حکم کسی مصلحت شرعی پر مبنی ہو، ورنہ ناحق طلاق خدا کی نگاہ میں بہرحال ناپسندیدہ اور مبغوض ہے۔
دراصل یہ مسئلہ آغاز میں اس طرح پیدا ہواتھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے سے کہا تھا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور اُنھوں نے تعمیلِ ارشاد کرتے ہوئے طلاق دے دی تھی، مگر ظاہر ہے کہ ہرباپ حضرت عمرؓ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمرؓ ایک جلیل القدر صحابیِ رسولؐ اور صاحب ِ اتقاء انسان تھے۔ اُن کی پاکیزہ زندگی اور بے مثال سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے اُن سے بجا طور پر یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ اُنھوں نے اس خواہش کا اظہار کسی معقول علّت اور دینی مصلحت ہی کے تحت کیا ہوگا جس کی وضاحت مناسب یا ضروری نہ ہوگی اور حضرت ابن عمرؓ نے اسی اعتماد کی بنا پر آپ کا کہا مان لیا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ نے وجہ بیان کر دی ہو مگر وہ آگے نقل ہونے سے رہ گئی ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک باپ جب چاہے، اپنے بیٹے سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرسکتا ہے اور بیٹے کے لیے اس کی تعمیل کیے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۶ئ)۔(جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص ۱۴۴-۱۴۸)
س: آج کل کاروبار اور تجارت میں پیشگی سودوں کا رواج عام ہے، یعنی بعض اجناس وغیرہ کا نرخ پہلے طے کرلیا جائے اور لین دین بعد میں ہوتا رہے۔ بعض علما اسے بیع سلم قرار دے کر جائز ٹھیراتے ہیں، لیکن بیع سلم کی تعریف عام طور پر معلوم نہیں ہے۔ براہِ کرم اس کی تعریف اور شرائط وغیرہ واضح طور پر تحریر کریں تاکہ خریدوفروخت کے معاملات میں جواز و عدم جواز کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور لاعلمی کی بنا پر کوئی غلط یا ممنوع کارروائی صادر نہ ہونے پائے۔
ج: شریعت میں بیع سلم سے مراد ایسی خریدوفروخت ہے جس میں قیمت تو نقد ادا کردی جائے گی، لیکن اُس کے عوض مال ایک متعین مدت کے بعد وصول کیا جائے۔ اس کے جائز اور صحیح ہونے کے لیے حدیث اور فقہ کی رُو سے جو شرائط لازم ہیں، اُن میں اہم ترین شرائط، جن پر قریب قریب اتفاق ہے، ذیل میں درج ہیں:
۱- مال اور اُس کی قیمت کا ٹھیک ٹھیک اور واضح تعین کیا جائے، اُس کا وزن، اُس کی نوعیت اور قسم وغیرہ کی ایسی تشریح کردی جائے کہ بعد میں اشتباہ یا اختلاف یا نزاع کی گنجایش نہ رہے۔
۲- مال ایسا ہونا چاہیے کہ اس نمونے یا اس قسم کا مال سودا کرتے وقت بازار میں بہ سہولت دستیاب ہو، یا عن قریب دستیاب ہوجانے کی توقع ہو۔
۳- جتنی مدت کے بعد مال وصول ہوگا، اُس مدت کا بھی ٹھیک تعین ہو۔
۴- قیمت بھی بالکل متعین اور مقرر ہو اور سودا کرتے وقت پیشگی ادا کردی جائے۔
۵- سودے میں مال کی واپسی اور بیع کی منسوخی کی شرط نہ ہو۔
۶- اگر مال کے نقل وحمل میں دقّت اور مصارف کا سامنا ہو، تو پھر اُس مقام کا بھی تعین ضروری ہے جہاں وہ مال مشتری کے سپرد کیا جائے گا۔(ایضاً، ص ۳۵۶-۳۵۷)
س: میرا بیٹا بیمہ پالیسی لینا چاہتا تھا۔ میں نے اسے منع کردیا۔ الحمدللہ اس نے پالیسی نہیں لی۔ بعدمیں اس نے بتایا کہ الفلاح بنک جو کہ مولانا تقی عثمانی نے بلاسود متعارف کرایا ہے، ان کی بیمہ پالیسی میں سود شامل نہیں ہے۔ کیا ان سے بیمہ پالیسی لی جاسکتی ہے؟
ج: آپ نے اپنے بیٹے کو بیمہ پالیسی لینے سے منع کیا اور بیٹے نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔ اس پر آپ دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس دینی جذبے کو آپ کے لیے دنیا اور آخرت میں رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنادے، آمین! مولانا تقی عثمانی صاحب محقق، عالمِ دین اور اسلامی معیشت کے ماہر ہیں۔ انھوں نے اگر کسی بنک کی پالیسی کو غیرسودی قرار دیا ہے تووہ درست ہے۔ اس بنک کی پالیسی لی جاسکتی ہے۔ (مولانا عبدالمالک)