ہماری نگاہ میں کشمیر کے معاملے کی اصل اہمیت اور غیرمعمولی اہمیت کس وجہ سے ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے ایک وسیع علاقہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا اپنے ملک کی معیشت کے لیے کشمیر کو ناگزیرپاتے ہیں۔ یہ ایک قوم پرست اور وطن پرست کا نقطۂ نظر تو ہوسکتا ہے، مگر ایک حق پرست کا نقطۂ نظر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے لیے اس معاملے کی ساری اہمیت صرف اس وجہ سے ہے کہ کشمیر کے ۳۰،۳۵لاکھ مسلمانوں کا مستقبل ہم کو خطرے میں نظر آرہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جموں کے علاقے سے بکثرت مسلمان نکالے جاچکے ہیں؟ کس کو معلوم نہیں ہے کہ پٹھانکوٹ سے دلّی تک کا علاقہ مسلمانوں سے خالی ہوچکا ہے؟ کس سے یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ ہندستان نے قصداً ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اپنے اُن تمام علاقوں کو مسلمانوں سے خالی کرایا ہے جو مغربی پاکستان [موجودہ پاکستان] کی سرحد سے متصل واقع ہیں، اور اب اِسی پالیسی پر مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] کی طرف بھی عمل ہو رہا ہے؟
اس کو دیکھتے ہوئے کبھی یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ اگر کشمیر کی قسمت کا آخری فیصلہ ہندستان کے حق میں ہوگیا تو وہ زیادہ مدت تک اپنے انتہائی شمالی سرے پر ایک مسلم اکثریت کے علاقے کو برداشت کرتا رہے گا۔ کبھی نہ کبھی وہ وقت ضرور آئے گا جب کشمیر کی ساری مسلمان آبادی، مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی طرح گھروں سے نکالی جائے گی اور مارمار کر اس کوبیک بینی و دوگوش پاکستان کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ آج کشمیریوں کی جو مدارات ہندستان میں ہورہی ہے یہ ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے۔ یہ سب کچھ تو بس اسی وقت تک ہے جب تک کشمیر کا قضیہ معلّق ہے۔ اس کے یکسو ہوجانے کے بعد یہ ہرگز اُمید نہیں کی جاسکتی کہ ہندستان اس مسلم اکثریت کو پاکستان کے قریب یوں اطمینان سے بیٹھا رہنے دے گا۔ اس لیے اُن لاکھوں انسانوں کی خاطر جو کشمیر میں بستے ہیں، ان کی جان اور مال اور آبرو کی خاطر، اور ان کے پیدایشی انسانی حقوق کی خاطر ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انھیں ہندستان کے چنگل سے نکالا جائے، اور ہم صاف کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے ہم آخری حدود تک جانے کو تیار ہیں۔ (’مسئلۂ کشمیر‘، اجتماع کراچی کی افتتاحی تقریر، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۴، ربیع الثانی ۱۳۷۱ھ، جنوری ۱۹۵۲ئ،ص ۲۸-۲۹)