بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ( بی این پی) کے دو لیڈر صلاح الدین قادر چودھری اور عبد العلیم، عوامی لیگی حکومت کے قائم کردہ نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اپنی پچھلی مدتِ حکومت میں بھی جنگی جرائم کے الزامات لگا کر اپنے مخالفین کو نشانۂ انتقام بنانا چاہا تھا، مگر بوجوہ اپنے ان عزائم کو وہ عملی جامہ نہ پہناسکی۔ اس مرتبہ بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد عوامی لیگ نے اپنے ایجنڈے میں یہی ایشو سرفہرست رکھا۔ بنگلہ دیش تحریک میں مشرقی پاکستان کی بنگالی آبادی نے بھی بلاشبہہ کلیدی کردار ادا کیا تھا، مگر اس میں شک نہیں کہ اگر بھارت کی سرپرستی اور مکمل حمایت حاصل نہ ہوتی تو محض مکتی باہنی یا چھے نکاتی پروگرام کے علم بردار سیاسی کارکن یہ منزل سر نہ کرسکتے۔ خانہ جنگی کے اس عرصے میں جماعت اسلامی نے ایک محب وطن جماعت کی حیثیت سے مقدور بھر کوشش کی کہ بدامنی اور انتشار کے اس ماحول میں عوام کو تحفظ دیا جائے، تاہم ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو یہ سانحہ رونما ہوا کہ ملک دولخت ہوگیا۔
عوامی لیگ حکومت نے اپنی پے درپے ناکامیوں کے بعد، ۴۰ برس گزرنے پر سیاسی حربے کے طور پر اپنے مدِمقابل راست فکر قیادت کو نشانہ بنانے اور راستے سے ہٹانے کے لیے جنگی جرائم کے نام سے جو ٹربیونل قائم کیا ہے، اس پر عالمی اداروں اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے مکمل عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ ۲۰ نومبر ۲۰۱۱ء کو نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا دلاور حسین سعیدی پر باقاعدہ فردِ جرم عاید کی گئی۔ ان کے علاوہ جو لوگ سال سے زیادہ عرصہ ہوا، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیے گئے ہیں، ان میں جناب مطیع الرحمان نظامی امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور علی احسن محمد مجاہد قیم جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے علاوہ محمد قمر الزمان اور عبد القادر ملا شامل ہیں۔ پروفیسر نذیر احمد، حمیدالرحمان آزاد، مولانا رفیع الدین احمد، مولانا اے ٹی ایم معصوم، رفیق النبی، عبدالرحمان اور مولانا عبدالمنان کو بھی جماعت اور اسلامی چھاترو شِبر کے دیگر ۱۲ راہ نمائوں کے ساتھ گرفتار کرکے مختلف دیگر مقدمات میں ملوث کر دیا گیا ہے۔ اب تک دلاور حسین سعیدی صاحب کے بعد نظامی صاحب، مجاہد صاحب اور قمر الزمان صاحب پر بھی فردِ جرم عاید کر دی گئی ہے۔ استغاثہ نے ٹربیونل کے سامنے اظہار کیا کہ ابھی تک پوری تفتیش مکمل نہیں ہوسکی۔
اس دوران مولانا دلاور حسین سعیدی کے خلاف گواہیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان آرمی سے قریبی تعلق رکھا اور انھیں عوام کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ ان کے خلاف ۶۸ گواہ تیار کیے گئے ہیں۔ ان گواہوں پر مولانا سعیدی کے وکلا جرح کر رہے ہیں، جس کے دوران بہت دل چسپ تضادات سامنے آرہے ہیں۔ تاہم عمومی راے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر عرب ملکوں کی طرح کوئی عوامی ریلا سڑکوں پر نہ نکلا اور عرب عوامی لہر کی طرح بنگلہ دیش عوامی لہر کا سماں پیدا نہ ہوا تو ٹربیونل حکومتی اشارے پر فیصلے صادر کردے گا۔ ۷۱ سالہ مولانا سعیدی شوگر اور بلڈپریشر کے مریض ہیں، انھیں علاج معالجے کی سہولیات بھی حاصل نہیں۔ انھیں اپنے خرچ پر اپنے معالج سے ملاقات کا بھی کم ہی موقع دیا گیا ہے۔
روزنامہ بنگلہ دیش ٹوڈے میں ۱۲ دسمبر کو ایک رپورٹ چھپی ہے جس میں جماعت اسلامی کے وکیل بیرسٹر عبد الرزاق نے ٹریبونل کے سامنے یہ شکایت پیش کی کہ محض الزام لگنے سے کوئی شخص مجرم نہیں بن جاتا، جب کہ حکومتی ذرائع ابلاغ اور وزیر قانون بیرسٹر شفیق احمد ان لوگوں کو مجرم قرار دے رہے ہیں۔ چیئرمین ٹربیونل جسٹس نظام الحق نے ان کی شکایت کو مبنی برحق قرار دیا اور کہا کہ وہ خود بھی ذرائع ابلاغ کی اس روش کو دیکھ کر کڑھتے ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم صاحب (عمر:۸۹ سال) کو بھی گرفتار کرنے کے لیے حکومت مسلسل دھمکیاں دے رہی ہے۔
غیر جانب دار حلقے ان تمام الزامات کو مضحکہ خیز اور انصاف کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اہم پہلو جسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا وہ بنگلہ دیش میں مقیم بہاری آبادی پر ہونے والے طویل مظالم کی داستان ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے وقت اس آبادی کو علیحدگی پسندوں نے جس بُری طرح سے قتل و غارت گری، لوٹ مار اور عصمت دری کا نشانہ بنایا، اس کی داستانیں تو باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں مگر ان کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ بھارت کے تجزیہ نگار کلدیپ نائر نے بنگلہ دیش میں گذشتہ مہینے پانچ دن گزارے اور اس نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ ٹربیونل قانون و انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ کلدیپ نائر کے بقول حسینہ واجد بھارت کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ایک انٹرویو میں اس نے یہ بھی کہا کہ حسینہ واجد حکومت نے یک طرفہ طور پر بھارت کو ٹرانزٹ کے حقوق دیے ہیں، جن کے تحت بھارت آسام میں علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے لیے بنگلہ دیشی راہ داری استعمال کررہا ہے۔ حسینہ واجد لوگوں کی نظروں میں عزت و احترام کھو بیٹھی ہے۔ اس نے جنگی جرائم کا ٹربیونل قائم کرکے خوف و ہراس پیدا کرنے اور اگلے انتخابات سے قبل اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ خاصا خطرناک قدم ہے۔ (ہفت روزہ Blitz، ۴ دسمبر ۲۰۱۱ئ)
بنگلہ دیش کے معروف صحافی انوار حسین مانجو (جو مجلس قانون ساز کے ممبر اور وزیر بھی رہے ہیں اور بنگلہ دیش کے لیجنڈ صحافی تفضل حسین عرف مانک میاں کے فرزند ہیں) نے کہا ہے کہ ملک کے اندر حسینہ واجد حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایک بغاوت کی کیفیت عوام میں پیدا ہوگئی ہے۔ عوام الناس آج ہر مجلس میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں سیاست نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، محض لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ بنگلہ دیش کی عدالتوں کے بارے میں آج وکلا اور ماہرینِ قانون یہ کہہ رہے ہیں یہ عدالتیں انصاف کرنے کے بجاے حکومتی تیور دیکھ کر فیصلے صادر کررہی ہیں۔ (ایضاً)
عالمی ذرائع ابلاغ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹربیونل انصاف کے لیے قائم نہیں کیا گیا بلکہ حکمران اپنے راستے سے مخالفین کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اشرف الزمان خان، جو ان دنوں امریکا میں مقیم اور گرین کارڈ ہولڈر ہیں، ان پر بھی فردِ جرم عاید کرنے کے لیے استغاثہ نے کیس ٹربیونل میں پیش کر دیا ہے۔ ایک دوسری معروف شخصیت معین الدین چودھری جو برطانوی شہری ہیں، انھیں بھی البدر کا کمانڈر ہونے کے الزام کے تحت اسی فردِ جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ نیویارک ٹائمز (۳۰ نومبر ۲۰۱۱ ئ) میں ٹام فیلکس جے نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان لوگوں کو ان کی غیر حاضری میں سزا سنادی جائے گی۔ مضمون نگار نے تفصیلاً لکھا ہے کہ بہاری آبادی پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تو کوئی تذکرہ نہیں، البتہ بنگالی آبادی کے قتل عام کا بہت غلغلہ ہے۔ مضمون نگار کے بقول: انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے تو ان پر یہ الزام ثابت کرنا خاصا مشکل ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ۱۷۷۵ ایسے افراد کی فہرست غیر جانب دار لوگوں نے تیار کی ہے جن میں عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی مجرم قرار دیے گئے ہیں۔ مضمون نگار نے ایم اے حسن نامی ایک سماجی کارکن کا حوالہ دیا ہے جس نے جنگی جرائم کے حقائق جمع کیے ہیں، اس کے مطابق اگر جرم کا ارتکاب ہوا ہے تو مجرم دونوں جانب ہیں مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ قانونی کارروائی (انتقامی) یک طرفہ ہورہی ہے۔
ڈیلی سٹار ڈھاکہ (۱۲ دسمبر ۲۰۱۱ئ) کے مطابق مولانا دلاور حسین سعیدی کے خلاف حوالدار محبوب العالم کی گواہی پر مولانا کے وکیلِ دفاع بیرسٹر میزان الاسلام نے ایک دستاویز عدالت میں پیش کی، جس کے مطابق حوالدار نے وزیراعظم کی خدمت میں پیروج پور کے ڈپٹی کمشنر کی وساطت سے ایک درخواست پیش کی کہ اسے مکان تعمیر کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے امداد دی جائے۔ جب حوالدار پر جرح کی گئی تو استغاثہ کے وکلا نے شور مچایا کہ یہ دستاویز جعلی ہے اور ٹربیونل کے چیئرمین جسٹس نظام الحق نے سماعت اگلے دن تک ملتوی کردی۔ یہ ٹربیونل کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے، کچھ معلوم نہیں کہ اس سے کیا برآمد ہوگا؟ نیوز ویک نے ۲۳دسمبر کے شمارے میں بنگلہ دیش پر خصوصی نمبر شائع کیا ہے۔ بحیثیت مجموعی تمام مضامین بنگلہ دیش کی تخلیق ہی کے حوالے سے لکھے گئے ہیں، مگر بین السطور جگہ جگہ ٹربیونل اور اس کی انتقامی کارروائیوں کا حوالہ بھی ملتا ہے۔
بنگلہ دیش کے حالات سے باخبر اہلِ دانش کی راے ہے کہ عالمِ عرب میں طویل خاموشی اور مردنی کے بعد جو بیداری کی لہر اُٹھی ہے، اس نے ساری مسلم دنیا پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام سیاسی لحاظ سے بہت پختہ اور کئی تجربات کے حامل ہیں۔ موجودہ گھٹن کے نتیجے میں یہاں بھی بنگالی بہار کا سماں پیدا ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بعض اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو مگر اس میں تمھارے لیے بھلائی (پنہاں) ہوتی ہے‘‘۔