پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۱۲ | اشارات
۲۰۱۱ء اہل پاکستان کے لیے گوناگوں اور غیرمعمولی صدمات کا سال ہونے کی حیثیت سے تاریخِ پاکستان کے حوالے سے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
حادثات کا یہ سلسلہ جنوری میں ریمنڈ ڈیوس کے خونیں واقعے سے شروع ہوا۔ پھر ۲مئی (ایبٹ آباد) کا واقعہ رونما ہوا، ۲۲مئی کو کراچی میں مہران نیول بیس پر حملہ ہوا، ۲۶نومبرکو سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی افواج نے جارحانہ حملہ کیا اور گذشتہ تین ماہ سے ہم میمو سکینڈل میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ غرض حقائق پر پردہ ڈالنے اور قومی احتساب سے فرار کے لیے طرح طرح کی بھونڈی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ صاف نظرآرہا ہے کہ حکومت ِ وقت اس طرح ایک عیارانہ منصوبہ بندی کے تحت عدلیہ اور فوج کے درمیان تصادم اور تقسیم اختیارات کے دستوری فارمولے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے حکومتی اداروں کے درمیان کش مکش اور ٹکرائو کا خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پونے چار سال میں عوام کے اعتماد اور مینڈیٹ کو نہایت بری طرح پامال کیا ہے۔ اس وجہ سے موجودہ حکومت اخلاقی سطح پر اپنا حقِ حکمرانی کھوچکی ہے جو فروری ۲۰۰۸ء میں اسے حاصل ہوا تھا۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں اس وقت میمو سکینڈل نے غیر معمولی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ پھر اقتدار میں آنے کے بعد زرداری گیلانی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کی وضع کردہ تمام پالیسیوں کو جاری رکھا، حالانکہ قوم پہلے ہی دن سے ان پر ناخوش اور معترض تھی۔
یہی وہ چیز تھی جس نے امریکا کو یہ حوصلہ اور موقع دیا کہ اس نے افغانستان میں اپنے جنگی عزائم کو بروے کار لا کر سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کو ایک زینے کے طور پر استعمال کیا۔ یوں پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور حاکمیت کو پارہ پارہ کیا اور پاکستان کے سیاسی، معاشی اور تعلیمی شعبوں، حتیٰ کہ نظریاتی دائرے میں بھی اس کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ بڑے پیمانے پر تعاون کے حاصل کرنے کے بعد اسے نچلی سطح تک تعاون حاصل کرنے کی ہمت ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی اہل کار (operators) پاکستان کی سرزمین پر سرگرم عمل ہوگئے۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اس باب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر اور اس کے سرپرستوں نے ایک پاکستانی شہری کو کار کے ذریعے شہید کر دیا۔ پھر حکومتی رضامندی، اور اعانت سے امریکی پوری دیدہ دلیری سے قاتل کو چھڑا کر لے گئے۔ اس سانحے نے عوام اور تمام ہی سیاسی اور دینی قوتوں کو بیدار کر دیا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اس کی ایجنسیوں نے جو گھنائونا کردار ادا کیا، اُس نے عوام کو زرداری گیلانی حکومت سے مکمل طور پر مایوس کر دیا اور امریکا کو یہ حوصلہ ہوا کہ وہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کو ایبٹ آباد پر حملہ کرکے شیخ اسامہ بن لادن کے قتل کا ڈراما رچائے۔ تقریباً دو گھنٹے تک یہ عمل جاری رہا اور ایبٹ آباد کے تمام ہی باسی بچشم سر، اس فوجی آپریشن کا نظارہ کرتے رہے، لیکن فضائیہ، زمینی افواج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا کہیں بھی وجود نہ تھا۔
ستم بالاے ستم یہ کہ اگلے ہی دن صدرزرداری کا مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا مگر اس میں ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے خلاف مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہ تھا، بلکہ اس آپریشن کو ایک مشترک کارنامہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ وزیر اعظم گیلانی نے پاکستانی سرزمین پر امریکی حملے اور پاکستانی زمین پر موجود افراد کو (جو کوئی بھی ہو) قتل کرنے کے اس جُرم کو ’ایک فتح‘ قرار دیا۔ وزارتِ خارجہ کا پہلا بیان نہایت بودا اور شرم ناک تھا اور پیپلز پارٹی کے دو بڑے وکیلوں (یعنی امریکا میں ان کے سفیر جناب حسین حقانی اور برطانیہ میں ان کے ہائی کمیشن واجدشمس الحسن صاحب) نے نہ صرف اس واقعے پر امریکا کو اشیرباد دی بلکہ اس میں پاکستان کے تعاون کا ذلت آمیز دعویٰ بھی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی دستوری ذمہ داری کو ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور امریکا کے اس دھڑلے سے حملے پر تمام ایجنسیاں، ادارے اور ملک کی سرحدوں اور حاکمیت کا دفاع کرنے والی قوتیں محض تماشائی کا کردار ادا کرنے اور اپنے فرائض منصبی کی ادایگی سے یکسر قاصر رہیں۔ اس چیز نے بڑے بنیادی سوالات کو جنم دیا۔
امریکا کی دل چسپی شیخ اسامہ یا القاعدہ میں تھی لیکن اب تک یہ امر غیر ثابت شدہ ہے کہ اسامہ بن لادن واقعی ایبٹ آباد کے اس مکان میں موجود تھے جس پر امریکی فوجوں نے حملہ کیا، اور چار افراد کو قتل کرکے ایک لاش اپنے ساتھ لے کر دندناتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اس واقعے میں پاکستان کے لیے اصل اہمیت جس سوال کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا نے کس طرح اس جرأت و بے باکی کے ساتھ ہماری حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کو پامال کیا، ہماری سرزمین پر چار افراد کو کسی قانونی استحقاق، اور قانون کے مسلّمہ ضابطے کو تارتار کرکے اور ہماری حاکمیت کو پامال کرتے ہوئے بڑی بے دردی سے قتل کیا۔ ہمارے نزدیک یہ کم از کم تین حیثیتوں سے ایک جرمِ عظیم ہے:
۱- پاکستان کی حاکمیت اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی۔
۲- اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی کھلی کھلی خلاف ورزی۔
۳- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو بھی لولا لنگڑا اختیار امریکا اور ناٹو کو دیا تھا، یہ اس کی بھی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے کہ یہ اقدام افغانستان کے باہر فوجی آپریشن کے ذریعے کیا گیا ہے۔
ان تین قانونی اور سیاسی وجوہ کے علاوہ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ امریکا ہمیں اپنا نان ناٹو اتحادی قرار دیتا رہا ہے اور کم از کم پچھلے ۱۰ سال سے اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ لیکن ایک اتحادی، دوست اور رفیق کار کے خلاف اس قسم کی فوج کشی اور وہ بھی اس سینہ زوری کے ساتھ، اس نے امریکا سے ہمارے پورے تعلق کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی عوام ہی نہیں دنیا بھر کے انسانوں نے امریکا کو نہ صرف یہ کہ دوست ملک نہیں سمجھا ہے بلکہ خود امریکی اداروں کے تحت عوامی راے جاننے کے لیے جو سروے کرائے گئے ان کے مطابق تیسری دنیا کی اکثریت نے امریکا کو دوست نہیں قرار دیا۔ یہ ناراضی اور بے زاری امریکا کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی کار روائیوں کی تائید کرنے والے صرف ۷ فی صد ہیں، جب کہ ۹۳ فی صد نے امریکا کی پالیسیوں اور اس کے کردار کی یا پُرزور مذمت کی ہے یا وہ امریکا سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستانی عوام کو کبھی بھی امریکا کی دوستی پر اعتماد نہیں تھا۔ یہ صرف حکمران تھے جنھوں نے عوام کے جذبات کے علی الرغم امریکا سے دوستی کا رشتہ استوار کیا اور اس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کیا، لیکن اب وہ لمحہ آگیا جب خود ان کے لیے بھی یہ حملہ ایک شرم ناک تازیانے سے کم نہ تھا۔
۲ مئی کے واقعے پر ایک کمیشن قائم کر دیا گیا۔ یہ کمیشن چار ماہ سے اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ کمیشن حقائق کی پردہ پوشی نہیں کرے گا۔ قوم اور پارلیمنٹ کو تمام حقائق سے آگاہ کرے گا اور دوٹوک انداز میں ان تینوں سوالوں کے جواب فراہم کرے گا کہ جو کچھ ہوا، وہ کیا تھا؟ بروقت اس پر ردّعمل نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا، اور یہ کہ کس طرح اس کا تعلق نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے شریک کار ہونے سے ہے؟اس لیے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس شرکت کے نتیجے میں نہ صرف دوسروں کی جنگ ہم پر مسلط ہوئی بلکہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان وہ پاکستانی قوم برداشت کر رہی ہے جس کا نائن الیون کے مذموم واقعے سے دُور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ سرکاری اعلانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ۳۶ہزار عام پاکستانی شہری اور ۶ سے ۱۰ ہزار فوجی یا فرنٹیر کور اور پولیس کے افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کی آماج گاہ بن گئی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں جان و مال کا تحفظ باقی نہیں رہا۔ وہ فوج جس سے عوام محبت کرتے تھے اور جسے اپنی آزادی اور عزت کا محافظ سمجھتے تھے، اس کے اور عوام کے درمیان دُوریاں بڑھ گئی ہیں۔شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ (Robert Pape) نے اپنی تازہ ترین کتاب Cutting the Fuse میں جہاں افغانستان اور عراق کو امریکا کے مقبوضہ ممالک قرار دیا ہے، وہیں پاکستان پر ایک باب لکھا ہے۔ پاکستان کو بطور مثال امریکا کے بالواسطہ مقبوضہ (Indirect Occupied) ملک کے طور پر پیش کیا ہے جو نہ صرف باعث ِ شرم ہے بلکہ ہماری آزادی کو عملاً غلامی میں تبدیل کیے جانے کے مترادف ہے۔
اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں جو معاشی تباہی آئی ہے وہ ہر اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ وزارتِ خزانہ، امریکا سے ملنے والی ۵؍ ارب ڈالر کی امداد کے مقابلے میں نقصان کو ۶۷؍ارب ڈالر قرار دیتی ہے لیکن اس میں انسانی جانوں کے اتلاف، زخمیوں کی دیکھ بھال کے معاشی مصارف اور پورے ملک میں انفراسٹرکچر میں جو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان (wear & tear) ہوا اس کا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ اگر ان تمام چیزوںکو معاشی نقصان کی شکل میں شمار کیا جائے تو اس تباہی کی معاشی قیمت ۱۰۰ سے ۱۵۰ ارب ڈالر سے کم نہیں ہوسکتی جو ہماری پوری سالانہ قومی پیداوار کے قریب قریب ہے۔ اس سب کے باوجود ۲مئی کو امریکا کی ہوائی افواج نے پاکستان کی مقدس سرزمین پر حملہ کیا، اور پھر ۲۶ نومبر کو ایک دوسرا بڑا حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ہماری دو فوجی چوکیاں تباہ کردی گئیں۔۲۴ جوانوں کو شہید کردیا گیا،۱۷ زخمی ہوئے اور پورے دو گھنٹے تک امریکی ہیلی کاپٹر میزائلوں کی بارش کرتے رہے اور ان ہیلی کاپٹروں کو تحفظ دینے کے لیے ایف-۱۶ طیارے فضا میں موجود رہے۔ امریکا کے اس اقدام کو بین الاقوامی قانون میں Act of War کے علاوہ کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امریکی جارحیت اتنی گھنائونی اور خوف ناک تھی کہ فوج اور حکومت بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے پر مجبور ہوئی اور عوامی دبائو کے تحت حکومت کو تین اقدام کرنے پڑے، یعنی پاکستانی سرزمین پر ناٹو اور امریکیوں کے لیے سازوسامان اور اشیاے ضرورت کی سپلائی کے لیے راہ داری کے حقوق کو معطل کرنا، شمسی ایربیس کو خالی کرانا، اور بون کانفرنس میں عدم شرکت۔ بلاشبہہ یہ اقدام عوام کی خواہشات کے مطابق اور ان کے غم و غصے کو کسی حد تک کم کرنے کا باعث ہوئے لیکن یہ وقتی اقدام ہیں، اہم ترین مسائل کچھ اور ہیں جن کا قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی و عسکری قیادت کو دوٹوک انداز میں سامنا کرنا ہوگا، وہ مسائل یہ ہیں:
امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پاکستان کو جلد از جلد نکالنا اور اس سلسلے میں امریکا جو سامراجی اور خونیں کھیل اس علاقے میں کھیل رہا ہے اور اس میں پاکستان کو بطور ایک کارندے کے استعمال کر رہا ہے، اس سے مکمل طور پر اپنے کو علیحدہ (delink) کرنا ہے۔ دوسرے یہ کہ کھلے ذہن کے ساتھ اور آنکھیں بھی پوری طرح کھلی رکھ کر امریکا سے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے سفارتی و اقتصادی روابط اور تعلقات استوار کیے جائیں، البتہ اس کی بنیاد حقائق پر ہونی چاہیے۔ محض خوف، خواہشات اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر جو پالیسی بنتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ امریکا اور پاکستان میں جو طاقت کا عدم توازن ہے وہ ایک زمینی حقیقت ہے اور اسے کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ اس سے بھی بڑی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور بھی ہے۔ جہاں یہ ضروری ہے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کیا جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قیمت پر اور کسی بھی شکل میں خود اپنے حقوق اور مفادات کو پامال نہ ہونے دیا جائے اور ان کی مکمل حفاظت کی جائے۔
ان تمام نقصانات کے علاوہ جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے امریکا نے کم از کم تین حیثیتوں سے پاکستان کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت اور سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل میں تعلقات کی جو شکل بھی مرتب کی جائے، اس میں ان تینوں اُمور کے بارے میں دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ان میں امریکا کی مداخلت کسی صورت اور کسی حیثیت میں قبول نہیں کی جاسکتی:
۱- پاکستان کی آزادی اور حاکمیت اور پالیسی سازی کا غیرمشروط اختیار۔ بلاشبہہ جن امور کے بارے میں ہمارے اور امریکا کے سیاسی اور معاشی مقاصد اور اسٹرے ٹیجک مفادات مشترک ہوں، وہاں باوقار تعاون کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے، اور جہاں اُن میں اختلاف ہے، وہاں ہماری اوّلین ترجیح اپنے مقاصد کا حصول اور اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ان مقاصد اور مفادات پر امریکا یا کسی اور کی طرف سے کوئی آنچ بھی آسکے۔
۲- کسی بھی شکل میں پاکستان کی جغرافیائی ، زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی ناقابلِ برداشت ہے۔ امریکی فوجیوں کو زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی (بشمول ڈرون حملوں) کی اجازت نہ ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کی سرزمین پر امریکی جاسوسوں، فوجیوں یا دوسرے کارندوں کی موجودگی اور خفیہ آپریشن کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ویزے اور نگرانی کے نظام کو مؤثر بنایا جائے۔ پاکستان کی سرزمین پر جو محفوظ سازشی اڈے امریکیوں نے سفارت کاری کے نام پر یا کسی دوسری شکل میں قائم کیے ہوئے ہیں، ان کو بھی مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے، اور ان کے سفارت خانوں اور سفارت کاروں کو بھی صرف وہی سہولتیں حاصل ہوں جن کی گنجایش ویانا کنونشن میں دی گئی ہے۔
۳- اس وقت ملٹری اور سول امداد کے نام پر امریکا پر انحصار بلکہ اس کی محتاجی کی جو کیفیت ہے اس پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ’ایڈ‘ (aid)کی خطرناک خوراک کو بند کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی جو بھی دفاعی ضروریات ہیں وہ عالمی منڈی بشمول امریکا سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ جہاں تک امریکی معاشی امداد کا تعلق ہے اس سے مکمل طور پر معذرت کرلی جائے۔ جیساکہ ہیلری کلنٹن نے اپنی پاکستان یاترا کے دوران اشارہ دیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشی امداد سرتاسر ایک نقصان کا سودا ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس (۲۹ستمبر ۲۰۱۱ئ) کے ایک مضمون میں امریکا ہی کے ایک آزاد ادارے سنٹرل گلوبل ڈویلپمنٹ (Central Global Development) کے ایک تجزیے کے مطابق گذشتہ نوبرس میں پاکستان میں جو معاشی امداد آئی ہے وہ صرف ۳ئ۴؍ارب ڈالر ہے، دوسرے لفظوں میں ۴۸۰ملین ڈالر سالانہ تھی۔ اسے پاکستان کی ۱۸کروڑ آبادی پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ ۶۷ئ۲ ڈالر فی کس بنتی ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
یہ لاہور میں چھے انچ کے پیزا کی قیمت ہے جس پر پیزاہٹ کی طرف سے کوئی اضافی topping بھی نہیں دی جاتی۔
یہ ہے اس معاشی امداد کی حقیقت جس کے نتیجے میں ہمارے ہاتھوں میں امریکا کی ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو راہ داری کی سہولتیں امریکا اور ناٹو کو گذشتہ ۱۰برسوں میں حاصل رہی ہیں اگر دنیا کے معروف قاعدے کے مطابق ان پر راہ داری ٹیکس لگایا جاتا اور انھیں ٹیکس اور کسٹم سے مکمل استثنیٰ نہ دیا گیا ہوتا، تو کم از کم ۴ سے ۵؍ارب ڈالر سالانہ صرف سروس چارجز کی شکل میں وصول کیے جاسکتے تھے۔ ترکی نے non-lethal سامان کی راہ داری کے لیے ۶؍ ارب ڈالر سالانہ اسی امریکا سے وصول کیے ہیں، جس کو ہم نے یہ ساری سہولتیں مفت دے رکھی ہیں۔ اس سے بڑی قومی مفاد سے غداری اور کیا ہوسکتی ہے۔ ایک طرف یہ ڈھائی ڈالر فی کس کی امداد ہے جس کے ساتھ سیکڑوں شرائط بھی لگائی گئی ہیں اور جسے بالعموم اپنی خودپسند این جی اوز کے ذریعے ملک میں اپنی لابی بنانے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اس ۴۸۰ ملین ڈالر سالانہ کا مقابلہ پاکستانیوں کی ان ترسیلات سے کریں جو وہ اپنے ملک میں بھیج رہے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت یہ ترسیلات ۱۱؍ارب ڈالر سالانہ ہیں لیکن افسوس کہ ان کو بھی صحیح انداز میں دیرپا معاشی ترقی کے حصول اور خوش حالی کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا۔ آیندہ امریکا سے دوطرفہ تعلقات میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امریکا سے تمام معاملات تجارتی اور سفارتی بنیادوں پر دونوں ممالک کے مشترک مفادات کی روشنی میں استوار کیے جائیں گے، اور جو یک طرفہ کھیل امریکاکھیل رہا ہے اس کا باب اب بند ہونا چاہیے۔
امریکا اور ناٹو کو راہ داری کا جو حق دیا گیا ہے اس کو ہرگز اس وقت تک بحال نہ کیا جائے جب تک کہ امریکا سے تعلقات کا نیا فریم ورک طے نہ ہوجائے۔ نیزہرچیز ضبطِ تحریر میں لائی جائے اور قوم اور پارلیمنٹ کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔ اس کے بعد تجارت اور خود راہ داری کے معاملات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دنیا کے معروف قوانین اور ضوابط کے مطابق جو بھی سامان پاکستان کی سرزمین سے بھیجاجائے اس کی اسکریننگ ہو اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ بھیجی جائے جو پاکستان کے قانون یا مفاد کے خلاف ہو، نیز پاکستانی سرزمین پر اس کا کنٹرول پاکستانی اداروں کے ہاتھ میں ہو تاکہ اسمگلنگ اور اسلحے کے ناجائز پھیلائو کو روکا جاسکے، اور راہ داری کی اس سہولت پر دنیا کے معروف ضابطوں کی روشنی میں مکمل سروس چارجز اور ٹیکس وصول کیا جائے۔
۲مئی، ۲۲مئی اور ۲۶نومبر کے واقعات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ ہمارا انٹیلی جنس اور دفاع دونوں کا نظام نہایت خام اور نامکمل ہے۔ ہم کوئی راز فاش نہیں کر رہے ہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اور سول ایوی ایشن دونوں کا نظام ہرلمحے اتنا چوکس ہونا چاہیے کہ پاکستان کی فضائی حدود میں اگر کوئی بھی داخل ہو، خواہ دوست ہو یا دشمن (hostile) تو دو منٹ کے اندر انھیں معلوم ہوجائے کہ ہماری حدود میں کوئی داخل ہوا ہے اور پھر مناسب وارننگ کے بعد اگر یہ دشمنی پر مبنی دراندازی ہے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اس کے لیے تین قسم کے نظام وضع کیے گئے تھے۔ ان میں ایک electro magnatic pulse تھا جس کے لیے پورے ملک کو مختلف سیکٹر میں بانٹ کر ریڈار کا نظام نصب کیا گیا تھا۔ دوسرا مینول مانٹیرنگ نظام تھا جس کے لیے ہر ساڑھے سات کلومیٹر پر ایک انسانی انتظام ایسی دُوربینوںکے ساتھ، جو تقریباً تین کلومیٹر تک دیکھ سکتی ہوں تاکہ پورے بارڈر کی نگرانی کی جاسکے۔ تیسرا نظام ریڈیو مانٹیرنگ کا تھا۔ اس امر کے بے لاگ جائزے کی ضرورت ہے کہ یہ تینوں نظام افغان سرحد پر کیوں غیر مؤثر رہے اور اس سلسلے میں جو بھی افراد فرض کی عدم ادایگی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کا تعین اور ان کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے ایسی کوتاہی (lapse) نہ ہو۔ یہ بات بہت ہی حیران کن ہے کہ ۲مئی کی کوتاہی کے بعد ۲۶نومبر کو بھی اسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان چھے مہینوں میں دفاعی حوالے سے فضائی نگرانی کے نظام میں کوئی جوہری بہتری نہیں کی گئی۔ اس کی بھی جواب دہی ضروری ہے۔
ایک آخری بات جو ہم قوم اور قیادت دونوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، وہ ہے جس کا تعلق اُس بدنامِ زمانہ میمورنڈم سے ہے جو اس وقت پوری قوم، میڈیا، پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی اور سپریم کورٹ، ہر جگہ زیربحث ہے۔ یہ میمو ۲مئی کے واقعے کے فوراً بعد تیار کیا گیا ہے اور بظاہر اس کا پس منظر یہ ہے کہ فوج، سول حکومت کا دائرہ تنگ کررہی ہے اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ امریکی قیادت پاکستان کی فوجی قیادت کو لگام دے اور اسے مجبور کرے کہ وہ سول قیادت کے حسب ِ منشا کام کرے۔
بظاہر اس میمو کی تیاری میں مرکزی کردار امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور منصوراعجاز نے اداکیا ہے، جو ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری ہے جس کے والد مذہباً قادیانی تھے اور پاکستان کے نیوکلیئر اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ تھے۔ منصور اعجاز نے گذشتہ ۱۵/۲۰ برس میں ایک طرف بزنس مین کی حیثیت سے کافی دولت کمائی اور دوسری طرف امریکا کی اہم شخصیات بشمول سی آئی اے اور امریکاکی فوجی اور سیاسی قیادت سے اس کے مراسم تھے اور بزعمِ خود بیک چینل ڈپلومیسی میں بھارت، پاکستان، سوڈان اور متعدد ممالک کے سلسلے میں خدمات انجام دی ہیں۔ منصور اعجاز کس کردار کا شخص ہے یہ ہمارے لیے اتنا اہم نہیں جتنا میمو اور اس کے مندرجات کا مسئلہ اہم ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ میمو ایک حقیقت ہے اور یہ بھی ناقابلِ تردید امر ہے کہ یہ میمو جنرل جونز کے ذریعے اس وقت کے چیف آف اسٹاف ایڈمرل مولن کے ہاتھوں میں پہنچا۔ البتہ جو چیز تحقیق طلب ہے، وہ یہ ہے کہ اس میمورنڈم کے تصور کا آغاز کہاں سے ہوا اور فی الحقیقت کون سی شخصیت یا ادارہ ہے جو اس کے پیچھے ہے، اور دوسری طرف اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ تیسری بات یہ کہ اس وقت اس کی اشاعت کن مقاصد کے تحت ہوئی اور کون نشانہ ہے؟
یہ بات بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ میمو کا تعلق ۲مئی کے واقعے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات سے ہے۔ اسی طرح ۳مئی کا صدر زرداری کا واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والا مضمون، اس کے بعد میمو کی اشاعت، آئی ایس آئی کے سربراہ کی منصور اعجاز سے ملاقات، چیف آف اسٹاف کی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات اور اس پر اصرارکہ معاملے کی تحقیق کی جائے اور حسین حقانی کو بلایا جائے___ یہ سب بھی حقائق ہیں۔ ابتدا میں جنرل مولن نے میمو سے انکار کیا لیکن پھر منصور اعجاز کے ای میل اور ایس ایم ایس اور دوسرے شواہد کے اعلان کے بعد، میمو کے صحیح ہونے کا اعتراف کرلیا۔ جنرل جونز کے تین بیان قابلِ توجہ ہیں: پہلے بیان میں اعتراف کیا گیا کہ میمو ملا تھا اور ایڈمرل مولن کو بھیجاگیا تھا۔ امریکا کے ایک ٹی وی چینل پر اپنے دوسرے بیان میں انھوں نے تفصیلی اعتراف کیا۔ پھر سپریم کورٹ کے سامنے حسین حقانی کی صفائی کے لیے حلفیہ بیان داخل کر دیا جو اُن کا تیسرا بیان تھا۔ ان تینوں بیانات میں تضادات ہیں اور منصور اعجاز نے جونز سے اپنے تعلقات اور بات چیت کا جو ریکارڈ پیش کیا ہے اس سے خود جنرل جونز کا کردار خاصا مشکوک ہوگیا ہے، اور صاف نظر آرہا ہے کہ حسین حقانی کو بچانے کے لیے وہ سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود میمو میں کیا کہا گیا ہے؟ اس میمو کا موقع محل اور پس منظر یہ ہے کہ یہ ۲مئی کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اس سیناریو میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی فوج ایک طرف پریشانی اور ہزیمت کا شکار ہے تو دوسری طرف وہ اپنے اثرورسوخ اور کردار کو بچانے کے لیے سول حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کرنے والی ہے۔ میمو کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی سول حکومت خصوصیت سے صدرزرداری جمہوریت کی بقا کے نام پر امریکی چیف آف سٹاف اور اعلیٰ امریکی قیادت کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ فوج کو قابو میں کیا جاسکے اور اس کے دانت اس حد تک توڑ دیے جائیں کہ وہ پورے طور پر بظاہر سیاسی قیادت کے تابع ہوجائے، لیکن فی الحقیقت اس کو ایک ایسے مقام پر لے آیا جائے جو علاقے میں امریکی مقاصد اور اہداف کے حصول میں معاون ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں سول حکومت اور امریکا کے درمیان ایک نئے گٹھ جوڑ کا اہتمام کیا جائے اور ماضی میں امریکا اور فوج کا بلاواسطہ جو تعلق رہا ہے اُسے اس طرح نئے سانچے میں ڈھالا جائے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت مل کر فوج کو قابو میں کر سکے۔
امریکا کو ضمانت دی گئی کہ اگر وہ میمورنڈم میں بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو تو صدرمملکت اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ دفاع اور سیکورٹی کا پورا نظام امریکا کی منشا کے مطابق ازسرِنو مرتب کیا جائے گا اور واشنگٹن کی پسند کے افراد کو فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ امریکا کے خدشات کی روشنی میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی نگرانی کا طریق کار بھی ازسرِنو طے کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کے سلسلے میں فوج اور انٹیلی جنس کے بارے میں امریکی تحفظات کو دُور کیا جائے گا۔ بھارت سے معاملات کو امریکی حکمت عملی کے مطابق مرتب کیا جائے گا، اور آئی ایس آئی کو اس طرح قابو کیا جائے گا کہ اس کی وہ شاخیں جن کے بارے میں امریکا کو شبہہ ہے کہ وہ امریکی مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے گا۔ نیز اس کے اُس ونگ کو ختم کیا جائے گا جس کے بارے میں حکومت اور امریکا دونوں متفکر ہیں۔
اس میموکے تجزیے سے تین باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- پاکستان کے سیکورٹی معاملات میں امریکا کو کھلی مداخلت کی دعوت۔
۲- سول قیادت کا امریکا کے ساتھ ایک نیا عہد و پیمان اور امریکی مفادات کے تحفظ کی ضمانت۔
۳- ملکی سلامتی، آزادی اور حاکمیت کے باب میں پاکستان کے آزادانہ سیاسی، عسکری کردار کا خاتمہ اور امریکی ایجنڈے کی تکمیل کی ضمانت۔
اس طرح یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ میمو محض کاغذ کا پُرزہ نہیں (جیساکہ گیلانی صاحب نے دعویٰ کیاہے) بلکہ یہ تو ایک ’میثاقِ غلامی‘ ہے، اور اس کا مضمون سوچنے، اُسے لکھنے اور اسے پہنچانے والوں نے وہی کردار ادا کیا ہے جو تاریخ میں میرجعفر اور میرصادق ادا کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل کرداروں کا تعین کیا جائے اور پھر انھیں اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے۔ اس کے بعد، اگر ان کا جرم ثابت ہو تو انھیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ یہ کام پارلیمانی کمیٹی نہیں کرسکتی صرف عدالت کرسکتی ہے۔ بلاشبہہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی فرنسک (forensic) تحقیق اور مناسب بحث و تفتیش کے بعد اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرے۔ یہ مسئلہ بہرحال ایسا نہیں کہ اس کو سیاسی مصلحتوں یا ’مُکمُکے‘ کی کسی شکل کا سہارا لے کر داخلِ دفتر کر دیا جائے۔
ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کون قابلِ اعتماد ہے اور کس کا ماضی میں کیا کردار رہا ہے؟ ہمیں اس بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں کہ منصور اعجاز پاکستان کا دوست ہے۔ بلاشبہہ اس کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ امریکا کا وفادار ہے اور جو کردار وہ ادا کر رہا ہے وہ امریکا کے مفاد میں ہے۔ اسے پاکستان سے کوئی دل چسپی نہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ منصور اعجاز ماضی میں پاکستان، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بہت کچھ لکھتا رہا اور کہتا رہا ہے لیکن اس معاملے میں حسین حقانی صاحب بھی اس سے پیچھے نہیں رہے۔ ان کی کتاب Pakistan between Mosque & Military ان کے اپنے خیالات کا آئینہ ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس باب میں ان کے اور منصور اعجاز کے خیالات میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں انگریزی محاورے میں ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں (on the same page)۔ بہرحال میمو کی تحقیق و تفتیش معروف ضابطوں کے مطابق پوری دیانت اور شفافیت کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور اس معاملے میں دونوں کا کیا کردار رہا ہے، نیز یہ بھی پتا چلے کہ اس معاملے میں اُن کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما تھیں۔ ہمارے نزدیک اس کے پانچ امکانات ہوسکتے ہیں:
اوّل: سارا کھیل صرف منصوراعجاز نے محض اپنے ذاتی مقاصد اور ذاتی شہرت اور کچھ سیاسی و مالی مفادات کی خاطر کھیلا ہے۔ بظاہر امکان نہیں ہے کہ وہ پاکستان سے کوئی فائدہ اُٹھا سکے۔ فائدہ اسے امریکا ہی سے ہوسکتا ہے جس سے وہ اپنی وفاداری اور تعلقات کا برملا اعلان کرتا ہے۔
دوم: دستاویزی اور تائیدی شہادتوں کی بنا پر قرینِ قیاس ہے کہ منصور اعجاز کو حسین حقانی نے (جس سے اس کے ۱۰ برسوں پر محیط تعلقات ہیں) اس کام کے لیے آمادہ کیا ہو۔ یوں پورے معاملے میں یہ دونوں شریک ہوں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کیا حسین حقانی بظاہر محض اپنے بل بوتے پر یہ کردار ادا کرسکتا ہے؟
سوم: میمو کی داخلی شہادت، منصور اعجاز کی ایس ایم ایس اور ای میل کا ریکارڈ اشارہ کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس پردئہ زنگاری کے پیچھے کوئی اور ہے اور اشارہ صدرِ پاکستان جناب زرداری اور غالباً ایوانِ صدر کے ایک اور اعلیٰ افسر کی طرف ہے۔ اسے ہم حسین حقانی پلس کہہ سکتے ہیں اور اگر یہ صحیح ہے تو تعین ہونا چاہیے کہ اس کے پیچھے فی الحقیقت کون تھا؟ دوسرے الفاظ میں پورے معاملے کا بینی فشری، یعنی اصل فائدہ اٹھانے والا کون ہے؟
چہارم: کسی ایجنسی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے منصور اعجاز کو ذریعہ بنایا ہو۔ منصور اعجاز، جنرل جونز اور ایڈمرل مولن یہ تین تو کھلے کھلے کردار بالکل سامنے آگئے ہیں۔ ان میں سے ہرایک نے اپنے اپنے بیان کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، البتہ ان کے پیچھے کون ہے؟ کیا یہ کام سی آئی اے نے کرایا؟ یا اس میں موساد اور را کا بھی حصہ ہے؟ اصل مقصد پاکستانی آئی ایس آئی اور فوج کی گوش مالی ہے جس کے خلاف امریکی میڈیا جارحانہ محاذ آرائی کرتا رہا ہے، اور یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ پاکستان اور اس کی فوج کو بلیک میل کیا جائے۔ کیا ان ایجنسیوں نے سارا کھیل کھیلا اور پاکستان کے سابق سفیر کو بھی اس میں استعمال کیا گیا___ ان کی مرضی سے یا ان کو بے وقوف بناکر؟
پنجم: بظاہر ایک غیراغلب امکان یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس پورے ڈرامے کے پیچھے پاکستانی انٹیلی جنس کا ہاتھ ہو، تاہم اس میں دو چیزیں اس مفروضے کو ناقابلِ التفات بتاتی ہیں۔ ایک یہ کہ منصوراعجاز اور آئی ایس آئی کا اس سازش میں شریک ہونا ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ فوج اور آئی ایس آئی نے جو اسٹینڈ لیا ہے، جس طرح وہ معاملے کی تحقیق اور مجرموں کے تعین کے لیے اصرار کررہی ہے، اس سے اس امکان کی تردید ہوتی ہے۔
ہمیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی ان تمام پہلوئوں کا دیانت داری اور عرق ریزی کے ساتھ جائزہ لے گی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ اصل حقائق قوم کے سامنے آئیں اور جس کا جو کردار ہے، اس کے مطابق معاملہ کیا جائے۔
صدرزرداری اور وزیراعظم گیلانی کا کردار بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دینے والا ہے۔ منصوراعجاز کے مضمون کی اشاعت (۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ئ) کے بعد حکومت کی مستقل خاموشی نے معاملے کو اور بھی گمبھیر بنادیا۔ جب پانی سر سے اُونچا ہوگیا تو تردیدی بیانات جاری کیے گئے مگر وہ نہایت مبہم تھے۔ بعدازاں حسین حقانی کو بلا کر ایک طرف تو ان سے استعفا لیا گیا اور دوسری طرف انھیں ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم میں پناہ دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ وزیراعظم گیلانی کا اچانک یہ اعلان کہ میمو میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ فقط کاغذ کا پُرزہ ہے۔ وفاقی حکومت نے یہی موقف سپریم کورٹ کے سامنے اختیار کیا۔ اس کے برعکس چیف آف اسٹاف اور آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل نے میمو کو ملک کی سلامتی کے خلاف ایک خطرناک سازش اور فوج کو بدنام کرنے اور اس کا مقام گرانے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔
اگر میمو جھوٹ کا پلندا ہے تو پھر امریکا میں پاکستان کے سفیر سے استعفا کیوں لیا گیا؟ اگر تفتیش کے لیے ان سے استعفا لینا ضروری تھا تو صدرصاحب سے استعفا کیوں نہیں لیا گیا؟ اس معاملے میں ان کا نام بھی سرفہرست آتا ہے۔ بظاہر وہی اس پورے معاملے سے فائدہ اٹھانے والے نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور میڈیا کے بعض عناصر نے آئی ایس آئی کے چیف کے استعفے کی بات بھی کی ہے۔ یہ حقیقت نظرانداز کی جارہی ہے کہ میمو اگر صحیح ہے تو اس میں کلیدی کردار حسین حقانی اور صدرصاحب کا ہے۔ آئی ایس آئی کے چیف کے بارے میں جو بات ضمناً فون اور ای میل کے متن (transcript) میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے، منصور اعجاز کہتا ہے:
I was just informed by senior US intelligence that GD-SII Mr. P asked for, and received permission from senior Arab leaders a few days ago to sack Z. For what its worth.
امریکی خفیہ ایجنسی کے سینیر ذمہ دار نے ابھی مجھے بتایا کہ آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل، مسٹر پی کو ایک ذمہ داری سونپی گئی جس کے تحت انھوں نے سینیرعرب لیڈروں سے چند دن قبل یہ اجازت حاصل کی کہ مسٹر زیڈ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا یا برطرف کردیا جائے۔ اب ان معلومات کی کیا قدروقیمت ہے وہ جو بھی ہو؟
اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ امریکی انٹیلی جنس کی بات ہے جو منصور اعجاز کو بتائی گئی اور وہ خود بھی اس بارے میں شبہے میں مبتلا ہے جو یہ کہہ رہا ہے: for what its worth ۔اس کے برعکس حسین حقانی اور ان کے باس صاحب کا کردار کلیدی ہے جس کا کسی سنی سنائی بات سے تعلق نہیں ہے۔ اس طرح دونوں کو مساوی ذمہ دار قرار دینا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔ اسی متن میں ایک مقام پر یہ بھی آتا ہے کہ منصور اعجاز نے یہ بات بھی کہی:
it is interesting and heartening to see that many of the proposals made in the memo are being implemented in bi-lateral relationship. very good.
یہ بات بہت دل چسپ ہے اور باعث ِ مسرت بھی، کہ میمو کی بہت سی تجاویز پر دو طرفہ تعلقات کی روشنی میں عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بہت خوب!
اس جملے کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کہاں تک یکساں سوچ رکھتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ میمو کا جو بھی رِدّعمل ہوا ہو اور مولن نے میمو کی تاریخ کے ایک ہفتے کے اندر، امریکی انٹیلی جنس کے سامنے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان دیا، اگر اس کا رشتہ نہ بھی جوڑا جائے، تب بھی میمو کی اشاعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی قیادت اور پاکستانی قیادت کے درمیان تعاون کا کوئی نہ کوئی سلسلہ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ پارلیمانی کمیٹی اور سپریم کورٹ کو اس امر کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
میمو میں ایک اور بڑی اہم بات ہے جسے تحقیق کا محور ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ ۲مئی کے واقعے کے سلسلے میں امریکا اور پاکستان کی قیادت کے درمیان کسی درپردہ تعاون اور سمجھوتے کا اشارہ ہے۔ حسب ذیل جملے کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ منصور اعجاز لکھتا یا کہتا ہے:
By the way, I know a lot more than you give me credit for about the circumstances that led to May 1 and your role in that. Just FY1.
ویسے تو آپ نے مجھے ان حالات کے بارے میں جن باتوں کا سزاوار قرار دیا ہے جو یکم مئی٭ کے واقعات کا سبب بنی ہیں، اس سے زیادہ جانتا ہوںاور یہ بھی کہ ان میں خود آپ کا کیا کردار رہا ہے۔ بس FY1
٭ امریکا میں اس روز یکم مئی ہی تھا، مگر پاکستان میں ۲ مئی شروع ہوچکا تھا۔
جس پر حسین حقانی کا جواب یہ تھا:
Honorable ppl stick with one another. Take care.
عزت مآب براہِ کرم ڈٹے رہیے اور ایک دوسرے سے جڑے رہیے اور ذرا محتاط بھی رہیں۔
جب ہم اس جملے کو حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کے ٹی وی بیانات کے ساتھ دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی صدرصاحب کے ۳مئی کے مضمون (مطبوعہ:واشنگٹن پوسٹ) کو پڑھتے ہیں (جس میں حسین حقانی کے طرزِ تحریر کی صاف جھلک موجود ہے)، تو اس میں امریکا کی طرف سے پاکستان کی حاکمیت کی پامالی اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مذمت کا ایک لفظ بھی نظر نہیں آتا، بلکہ دبے لفظوں میں پاکستان اور امریکا کے تعاون کا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہاں زرداری صاحب کے دستِ راست جناب رحمن ملک کے ایک ٹی وی انٹرویو کا یہ تذکرہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ ہفت روزہ Pulse کا مضمون نگار لکھتا ہے:
عبدالرحمن ملک نے العریبیہ چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’آپریشن شروع ہوا تو ۱۵منٹ بعد مجھے اس سے آگاہ کر دیا گیا تھا‘‘ لیکن وزیرداخلہ امریکی افواج (SEALS) کے سامنے بے بس اور عاجز تھے۔ (ہفت روزہ Pulse، ۹-۱۵ دسمبر ۲۰۱۱ئ، ص ۱۴)
یاد رہے کہ یہ آپریشن ۴۰ منٹ جاری رہا۔ اس کے بعد ۴۰منٹ تک امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی حدود میں اُڑتے رہے۔اگر وزیرداخلہ آپریشن کے آغاز سے ۱۵منٹ کے بعد اس سے مطلع ہوچکے تھے تو پھر ایک گھنٹے تک وہ کیا کرتے رہے؟
ان سارے حقائق کی موجودگی میں پورے واقعے کو مذاق اور جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملک سے اس بے وفائی اور غداری میں کس کا کتنا ہاتھ ہے؟ اس کا تعین ہونا چاہیے، مگر پارلیمانی کمیٹی کا یہ کام نہیں کرسکتی کیوں کہ اس میں اکثریت پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی ہے۔ بلاشبہہ پارلیمانی کمیٹی کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے لیکن مسئلے کی صحیح اور غیرجانب دارانہ تحقیق اور ذمہ داری کا تعین صرف اعلیٰ ترین عدالت ہی کرسکتی ہے۔ پوری قوم اور تاریخ دونوں کی نگاہیں عدالت اور اس سے بے لاگ انصاف کی توقع پر لگی ہوئی ہیں۔
_______________