علی سخیری جو خود بھی آٹھ سال تک جیل میں گزار چکا ہے، اس بار ملا تو ہمراہ ایک اور ساتھی بھی تھا۔ علی نے تعارف کروایا: یہ عبد اللہ ہیں ۱۴سال صرف اس جرم کی پاداش میں جیل میں رہے کہ تعلق اخوان سے ہے۔ میں نے احترام و محبت سے پوچھا: ۱۴ سال کا پہاڑ سا عرصہ کیسے گزارا؟ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے صرف ان تین لفظوں میں جواب دیا: ’’الحمد للہ گزر گیا‘‘۔ میں نے اجروجزا کی دُعا دیتے ہوئے، تفصیل معلوم کرنے کے لیے دوبارہ اصرار کیا تو کہنے لگا: اب اس تلخ حقیقت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے زبان پر لانا مشکل ہے۔ تیسری بار میرے اصرار پر کہنے لگا: وہ انسان سے اس کا فخر انسانیت چھین لیتے ہیں۔ تم صرف اسی بات سے اندازہ لگالو کہ ایک بار ہم ۱۰ساتھیوں نے تمام تر پابندیوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے باجماعت نماز ادا کی، لیکن اس حالت میں کہ ہم میں سے کسی کے بدن پر کپڑے کی دھجی تک نہ تھی۔ اس صورت حال پر کوئی احتجاج کرتا تو اسے کئی کئی مہینوں کے لیے صرف ڈیڑھ میٹر لمبی چوڑی کوٹھڑی میں بند کردیا جاتا، جہاں صرف وہ ہوتا اور پتھریلی دیواریں۔ علی اور عبد اللہ جیسے ایک دو نہیں ہزاروں افراد ہیں۔ مرد ہی نہیں خواتین بھی گذشتہ ۶۴ برس سے اسی چکی میں پس رہی تھیں۔ ۲۰۱۱ء کا جنوری شروع ہوا تو دنیا کا کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چھلنی روح اور زخمی جسموں والے ان لاکھوں افراد کو اس بدترین ظلم و استبداد سے نجات مل جائے گی، لیکن ۲۰۱۱ء کا سال ختم ہونے سے پہلے پہلے اس قماش کے کئی جابر حکمران عبرت کا نشان بن گئے، جیلوں کی کوٹھڑیوں میں روندے جانے والوں کو قوم نے اپنے ماتھے کا جھومر بنانے کا اعلان کردیا۔ ظالم حکمرانوں کے سرپرست واویلا کرنے لگے اسلامسٹ آگئے۔ رب ذوالجلال کا فیصلہ غالب آیا: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o (القصص۲۸:۵) ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں‘‘۔
مراکش، تیونس اور مصر کے حالیہ انتخابات صرف اس حوالے سے ہی اہم ترین نہیں قرار پائے کہ ان میں اسلامی تحریک نے باقی تمام سیاسی جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس حوالے سے بھی اہم تھے کہ ان ملکوں میں پہلی بار اس طرح کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخاب منعقد ہوئے۔ معروف تجزیہ نگار رابرٹ فِسک بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ ’’صبح سویرے ایک ایک کلومیٹر لمبی لائنوں میں لگے مصری عوام کے سامنے مغربی جمہوریت شرما اور گہنا کر رہ گئی ہے۔ پولنگ کی رات ہونے والی بارش نے سردی میں مزید اضافہ کردیا تھا، لیکن مصری عوام کے جوش و خروش اور صبروتحمل میں کوئی سردمہری پیدا نہ ہوئی ‘‘۔
پورے مصر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے مرحلہ وار انتخاب کروائے جارہے ہیں۔ ووٹنگ دو روز تک جاری رہتی ہے، جب کہ گنتی عموماً تین چار روز تک جاری رہتی ہے۔ اس طرح ایک حصے کے انتخاب کا عمل مکمل ہونے میں ۱۰،۱۲ روز لگ جاتے ہیں۔ پورا انتخابی عمل عدلیہ کی زیر نگرانی ہورہا ہے۔ ہزاروں جج تینوں مرحلوں میں ملک کے مختلف اضلاع میں جاکر انتخابات کروارہے ہیں۔ اب تک دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں، جب کہ تیسرے مرحلے کے انتخابات کے لیے ۱۹ جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ۲۳دسمبر کو ہونے والے مظاہروں کے بعد اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ۲۳ جنوری کو منعقد ہوگا۔ قومی اسمبلی کو ’مجلس الشعب‘ اور سینیٹ کو ’مجلس الشوریٰ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سینیٹ کے لیے بھی عام انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات ۲۹ جنوری سے شروع ہونا ہیں جو ۱۱مارچ تک مکمل ہوں گے اور پھر ۳۰ جون ۲۰۱۲ء سے پہلے پہلے صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ اس طرح ۲۸نومبر ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والا انتخابی عمل اگلے سال کے وسط میں مکمل ہوگا۔
عبوری دستور اور انتخابی طریق کار کے بارے میں مطمئن ہوکر عوام انتخابات کی تیاریوں میں لگ گئے، لیکن پھر ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے والے عناصر نے انتخابات سے پہلے دستور بنانے کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کردی ۔ اس مطالبے میں محمد البرادعی اور عمر و موسی جیسے صدارتی اُمیدوار بھی شامل ہوگئے اور اعلان کیا گیا کہ ہم ۱۵ ملین دستخط جمع کرکے محضرنامہ تیار کریںگے کہ انتخاب ملتوی کرکے پہلے دستور بنایا جائے۔ اخوان نے کسی تصادم میں پڑے بغیر درجنوں دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھرپور عوامی ریفرنڈم نے روڈمیپ طے کردیا ہے، اب کسی بھی مرحلے میں اور کسی بھی شخص یا ادارے کو عوامی فیصلہ تبدیل کرنے کا حق نہیں۔ انتخابات چند ماہ ملتوی تو کیے گئے لیکن بالآخر انتخابی عمل شروع ہوگیا۔ سازشی عناصر بھی باز آنے والے نہیں ہیں۔ پہلے دستور کی رٹ کام نہ آئی تو ملک میں اچانک مسلم مسیحی فسادات شروع کروا دیے گئے۔ توڑ پھوڑ اور قتل و غارت ہوئی لیکن بالآخر فتنے کی یہ آگ بھی بجھ گئی۔ کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا (المائدہ ۵:۶۴) ،’’جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے‘‘۔ پھر میدان التحریر میں دوبارہ دھرنا اور ہنگامے شروع کردیے گئے۔ اخوان اس تحریک میں شامل نہ ہوئے اور انتخابات ہی کو اصل علاج قرار دیا لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ عسکری کونسل کی طرف سے ایسے بیانات اور اعلان آنے لگے کہ انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ بے وقعت لگنے لگی۔ ایک جرنل نے بیان دیا: ہوسکتا ہے کہ ۱۰۰ رکنی دستوری کمیٹی کے لیے پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کے حجم کا لحاظ کیے بغیر ہرچھوٹی بڑی پارٹی سے پانچ پانچ ارکان لے لیے جائیں‘‘ (ریفرنڈم کے ذریعے منظور ہونے والے عبوری دستور میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ کمیٹی منتخب کمیٹی ہوگی)۔ پھر نائب وزیراعظم ڈاکٹر علی السلمی نے کئی بنیادی دستوری شقوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں جو بھی آئے، دستور جو بھی بنائے یہ نکات بہرصورت جوں کے توں رہیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ عسکری سپریم کونسل کی وضع کردہ یہ دستوری شقیں انتخابات، پارلیمنٹ یا دستورسازی کے ہر نظام سے بالاتر ہیں اور انھیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔
ایک درفنطنی یہ چھوڑی گئی کہ صدارتی انتخابات اس وقت تک نہیں کروائے جائیں گے جب تک ملکی دستور وضع کرکے اس پر عوامی ریفرنڈم نہیں کروالیا جاتا۔ گویا ایک تو سارا دستوری عمل موجودہ عبوری صدر فیلڈمارشل حسین طنطاوی کی زیر سرپرستی مکمل کیا جائے، اور دوسرے یہ کہ حالیہ عبوری فوجی حکومت کم از کم ۲۰۱۳ء تک جوں کی توں رہے۔ اس طرح کے بیانات و اعلانات کے دوران میدان التحریر میں فوجی کونسل کے خلاف مظاہرے جاری رہے۔اخوان باقاعدہ طور پر اس میں شریک نہ ہوئے، البتہ ۱۸ نومبر کو ہونے والے عوامی دھرنے میں اخوان نے ایک بار پھر پوری قوت سے میدان التحریر میں اُترنے کا اعلان کیا اور فوجی کونسل کو خبردار کیا کہ وہ حقیقی جمہوریت کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔ ساتھ ہی اخوان نے اپنے کارکنان کو ہدایت دی کہ کسی طور بھی اس پروگرام کو مستقل دھرنے کی شکل نہ دی جائے، بلکہ شام پانچ بجے لوگ میدان التحریر کو خالی کردیں۔ لاکھوں افراد شریک ہوئے اور شام کو مظاہرین کی اکثریت گھروں کو واپس چلی گئی لیکن ابھی چند سو نوجوان باقی تھے کہ ان پر پولیس نے دھاوا بول دیا، شدید تشدد کیا اور اس طرح انتخابات سے۱۰ روز قبل بدترین ہنگامے اور خوں ریزی شروع ہوگئی۔ تین روز میں ۴۵؍ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ اخوان نے واضح کیا کہ یہ بلاجواز تشدد قوم کو انتخابات سے محروم کرنے اور فسادات کی طرف دھکیلنے کی سازش ہے، ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہنگاموں کی تپش فوج تک بھی پہنچنے لگی اور اصل ہدف (یعنی اخوان) میدان جنگ سے دور انتخابی تیاریوں میں مصروف رہے، تو مظاہرین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے عبوری وزیراعظم عصام شرف کو قربانی کا بکرا بناکر برطرف کردیا گیا، کمال جنزوری کو عبوری وزارت عظمیٰ اور نئی کابینہ دے دی گئی۔
انتخابات کے پہلے ہی روز لوگوں کی بے مثال شرکت اور پہلے مرحلے کے نتائج سے ہی قوم کا اصل رجحان و اعتماد پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ مختلف اسلامی تنظیموں کو ۶۵ فی صد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ باقاعدہ سرکاری نتائج کے مطابق اخوان کو ۴۱ فی صد ووٹ ملے (اب کہا جارہا ہے کہ یہ ۳۷ فی صد ہیں)۔ دوسرے نمبر پر النور پارٹی کو ۲۴ فی صد (پہلے اعلان کے مطابق ۲۰فی صد)، اور تیسرے نمبر پر حزب الوسط کو ۶ فی صد ووٹ ملے ہیں۔
’النور‘ بنیادی طور پر تین دینی جماعتوں کا اتحاد ہے جس نے النور پارٹی کے بینر تلے انتخاب لڑ ا ہے۔ ان میں دو سلفی، یعنی اہل حدیث جماعتیں ہیں ’النور‘ اور ’الاصالۃ‘ اور تیسری البناء والتنمیۃ (تعمیر و ترقی پارٹی) ہے جو کہ سابقہ الجماعۃ الاسلامیۃ المسلحۃ کی نو تشکیل شدہ سیاسی جماعت ہے۔ یہ جماعت پہلے مسلح جدوجہد کی طرف نکل گئی تھی لیکن اب ان کی اکثریت پُرامن دعوتی و سیاسی سرگرمیوں کی طرف واپس آگئی ہے۔ اس وقت سلفی جماعتوں میں ایسے دھڑے بھی ہیں جو پہلے حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں کو واجب القتل قرار دیتے تھے، ایسے بھی ہیں کہ جو حاکم کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کو بھی حرام قرار دیتے تھے، اور وہ بھی ہیں کہ جو پہلے جمہوریت اور انتخابات کو کفر قرار دیتے تھے۔ حسنی مبارک کے جانے اور آزادانہ سیاسی جدوجہد کی اجازت ملنے کے بعد اب یہ سب حضرات مجتمع ہیں اور خود کو وقت و حالات کے مطابق ڈھالنے کی سعی کررہے ہیں۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنے سے ان کی ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ عمومی طور پر ان کے ذمہ داران نے اپنے بیانات میں احتیاط برتی ہے، لیکن دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں نے کئی ایسے بیانات بھی دیے ہیں، جنھیں ذرائع ابلاغ نے معاشرے کو اسلامی حکومت سے خوف زدہ کرنے کے لیے بہت اچھالا ہے۔
انتخاب جیتنے والی تیسری دینی جماعت ’الوسط پارٹی‘ ہے جسے۶ فی صد ووٹ ملے، بنیادی طور پر اخوان ہی سے الگ ہونے والے بعض افراد پر مشتمل ہے۔ اخوان پر لگنے والی مسلسل پابندیوں کے تناظر میں بعض نوجوانوں نے، ابوالعلا ماضی کی سربراہی میں خود کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کی۔ آغاز میں بعض لوگوں کا تاثر تھا کہ اخوان نے خود ہی اپنے لیے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے، لیکن اخوان نے نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ ان حضرات کا اخراج کردیا۔ حکومت نے بھی پارٹی رجسٹرڈ نہ کی اور اس طرح یہ حضرات نہ اخوان میں رہے اور اور نہ اپنی جماعت بناسکے۔ حسنی مبارک کے زوال کے بعد سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہونے لگیں، تو سب سے پہلے الوسط کی سابقہ درخواست منظور کی گئی۔
دینی جماعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ ان کے مابین اختلافات نہ پیدا کردیے جائیں۔ معروف سیکولر اور متعدد مغربی تجزیہ نگاروں کی تحریروں کا اصل مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ اخوان اور النور کا مزاج، طریق کار اور ترجیحات مختلف ہیں، دونوں میں جھگڑا ہوگا۔ اس تجزیے کے پیچھے ان کی خواہش اور کوششیں بھی صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ بعض عرب ممالک بھی اختلافات کی آگ پر ڈالروں کا تیل ڈالنے کے لیے بے تاب ہیں، لیکن اخوان اور النور کی قیادت نے اسی اُمید کو توانا کیا ہے کہ ان شاء اللہ لڑانے والوں کے خواب پورے نہیں ہوں گے۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ کے دوران دونوں جماعتوں کے کارکنان نعرہ لگا رہے تھے: السلفیۃ والاخوان، اید واحدۃ فی کل مکان، ’’اخوان اور سلفی ہرجگہ یک مشت ہیں‘‘۔کئی اہم سلفی رسائل بھی لکھ رہے ہیں کہ اس وقت معاملہ سیٹوں یاوزراتوں کا نہیں، اسلام اور اس کی صحیح تصویر پیش کرنے کا ہے۔ حسنی مبارک سے نجات کے بعد اخوان نے ۱۸ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر جو اتحاد قائم کیا تھا، ’النور‘ پارٹی بھی اس کا حصہ تھی۔ ان دنوں محترم سید منور حسن، امیرجماعت اسلامی پاکستان کی قیادت میں مصر جانے والے وفد کو اخوانی قائدین نے بتایا تھا کہ: سلفی احباب سمیت اتحاد کی اکثر جماعتوں کو اس سے پہلے عملی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی قابل ذکر تجربہ نہیں ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی عمل پروان چڑھے اور اس میں مضبوط سیاسی جماعتیں بھرپور حصہ لیں۔
تیونس میں حالیہ منتخب حکومت تشکیل پاجانے سے بھی اختلافات کی سازشیں کرنے والے عناصر کو مایوسی ہوئی ہے۔ وہاں بھی اسلامی تحریک النہضۃ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے، اور دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی ان سے کہیں پیچھے ہے اور بائیں بازو کی قدیم قوم پرست شناخت رکھتی ہے۔ وہاں بھی طویل ڈکٹیٹر شپ کے بعد سیاسی جماعتوں کے مابین سرپھٹول کی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں، لیکن جس سہولت، کامیابی اور حسن انتظام سے النہضۃ نے اکثر سیاسی قوتوں کو ساتھ ملایا ہے، اس پر اپنے حیران اور دشمن پریشان ہیں۔
اخوان کی یہ پالیسی طے شدہ ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنانے کی سعی کریں گے۔ تیونس اور مراکش کی نومنتخب حکومت ہو یا مصر میں چند ماہ بعد تشکیل کی منتظر مخلوط حکومت، ان سب کے سامنے حقیقی چیلنج اپنی ترجیحات کا درست تعین اور ان پر عمل درآمد ہے۔ مصر کے ایک عالم دین عبدالسلام البسیونی سے ملاقات ہوئی تو کہہ رہے تھے ترجیحات کا تعین اہم ترین مرحلہ ہے۔ مصر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جیسے اُولو العزم صحابہ کبار کی خلافت میں شامل رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ جیسے صحابیِ رسولؐ نے نظامِ ریاست چلایا، لیکن ابو الہول اور دور فراعنہ کے سیکڑوں بت صدیوں سے موجود تھے اور آج تک موجود ہیں۔ خود ریاست رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پورے دور خلافت راشدہ میں رومانی دینار رائج رہا جس پر صلیب بھی کندہ تھی (پہلا اسلامی سکہ اُموی دور میں ڈھالا گیا)۔ بتوں اور صلیب کا انکار عقیدۂ توحید کی بنیادی اساس میں شامل تھا، اسلام کا تعارف ہی لا الٰہ الا اللہ سے ہوتا ہے، لیکن حکمت، تدریج اور ترجیحات کے لازوال اصولوں کے تحت ہر کام کا اپنا وقت تھا۔
اسلامی تحریکوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج شخصی نظام حکومت کو ایسی باقاعدہ دستوری ریاستوں میں تبدیل کرنا ہے، جس میں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں۔ لوٹ مار اور کرپشن کے دروازے بند ہوں، لوگوں کو باعزت روزگار فراہم ہو، اور ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل پیش کیا جائے۔نئی بننے والی حکومتوں کو درپیش اقتصادی چیلنج کی ایک جھلک دیکھنا چاہیں تو صرف یہ جان لیجیے کہ مصری سٹیٹ بنک کے مطابق ملک میں دسمبر ۲۰۱۰ء میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ۳۶؍ ارب ڈالر تھے جو نومبر ۲۰۱۱ء میں ۲۰؍ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ عبوری عسکری کونسل میں مالی اُمور کے نگران بریگیڈیئر محمود نصر کے مطابق جنوری ۲۰۱۲ء تک یہ ذخائر صرف ۱۰؍ارب ڈالر رہ جائیں گے۔ گویا حالات اتنے بگڑ جائیں گے یا بگاڑ دیے جائیں گے کہ آنے والی حکومت اس پر قابو نہ پاسکے۔
اسلامی تحریکوں کی کامیابی کے فوراً بعد ذرائع ابلاغ نے عجیب و غریب سوالات کی دھول اڑانا شروع کردی ہے۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا خواتین کو کسی مخصوص لباس کا پابند بنادیا جائے گا؟ کیا سیاحت کہ جس پر دونوں ملکوں کی اقتصادیات کا بنیادی انحصار ہے، کی حوصلہ شکنی کی جائے گی؟ اسلامی تحریکوں کی قیادت ان مسائل سے بخوبی آگاہ ہے۔ان شاء اللہ ہر اقدام اپنے اپنے وقت پر انجام پائے گا اور دنیا کو اسلام کا حقیقی اُجلا چہرہ دیکھنے کو ملے گا۔ اخوان کے ذمہ دار کہہ رہے تھے ہمارے بھائی ہمارے لیے سجدوں کے دوران دُعا کیا کریں کہ اللہ ہماری مدد فرمائے۔ ریاست چلانے کی آزمایش پھانسیوں پر جھول جانے کی آزمایش سے بھی کڑی ہے۔ اللہ کی خاطر جینا بعض اوقات اللہ کی راہ میں مرنے سے بھی زیادہ دشوار ہوجاتا ہے۔