جنوری ۲۰۱۲

فہرست مضامین

بارش اور پانی، اللہ کی نشانی

پروفیسر شہزادالحسن چشتی | جنوری ۲۰۱۲ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک بارش بھی ہے۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہر قدرت میں سے ہرچیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستور ہے۔ کہیں معجزاتِ رسولؐ کو آیت کہا گیا ہے اور کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیت کہا گیا ہے۔ بارش چونکہ مظاہر قدرت میں سے ہے، لہٰذا یہ بھی اللہ کی آیت یا نشانی ہوئی۔

اللہ تبارک و تعالیٰ، بہت سی آیات میں عالمِ بالا سے کرۂ ارض پر بارش برسانے کا ذکر فرماتا ہے اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے: اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً (الزمر ۳۹:۲۱)’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا‘‘۔ کہیں بادلوں سے پانی کے برسنے کا بیان ہے:  اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o (الواقعہ ۵۶:۶۸-۶۹) ’’یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟‘‘وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا o لِّنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا o  وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا o (النبا ۷۸:۱۴-۱۶) ’’اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعے سے  غلّہ اور سبزی اور گھنے باغ اُگائیں‘‘۔بعض آیات میں آسمان سے رزق نازل کرنے کا بیان ہے: وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ (الجاثیہ ۴۵:۵) ’’اور اُس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو جلا اُٹھاتا ہے‘‘۔

 کرۂ ارض پر موجود پانی کو اللہ تعالیٰ بخارات میں تبدیل فرماتا ہے، جو بادلوں کی صورت ہوا کے دوش پر آسمان (عالمِ بالا) کی طرف سفر کرتے ہیں اور جہاں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے پھیلا دیے جاتے ہیں اور زمین کے اُوپر ایک خاص فاصلے پر پہنچ کر بالعموم پانی کی بوندوں کی شکل میں زمین ہی پر برس پڑتے ہیں۔ بعض اوقات اولوں اور برف کے گالوں کی صورت میں بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بڑے خوش کن اور خوب صورت پیرایے میں بادلوں کے بننے اور ان سے پانی کے برسنے کو بیان فرماتا ہے:

  • قسم ہے اُن ہوائوں کی جو گرد اڑانے والی ہیں، پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھانے والی ہیں، پھر سبک رفتاری سے چلنے والی ہیں، پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں۔(الذاریات ۵۱:۱-۲)
  • قسم ہے اُن (ہوائوں )کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں، پھر طوفانی رفتار سے چلتی ہیں اور بادلوں کو اُٹھا کر پھیلاتی ہیں، پھر (ان کو) پھاڑ کر جدا کرتی ہیں۔ (مرسلٰت ۷۷:۱-۴)
  • اور وہ اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو اپنی رحمت کے آگے خوش خبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھا لیتی ہیں تو انھیں کسی مُردہ سرزمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ (پانی) برسا کر (اسی مری ہوئی زمین سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے۔(الاعراف ۷:۵۷)
  • بارآور ہوائوں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں اور اس پانی سے تمھیں سیراب کرتے ہیں۔ اس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔ (الحجر۱۵:۲۲)
  • وہی ہے جو تمھارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنھیں دیکھ کر تمھیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور اُمیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھاتا ہے۔ بادلوں کی گرج اُس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسااوقات) انھیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے ، جب کہ لوگ  اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اُس کی چال بڑی زبردست ہے۔ (الرعد ۱۳:۱۲-۱۳)

بارش کی سائنسی توجیہ

کرۂ ارض پر موجود پانی سمندر، دریا، جھیلوں کی کھلی سطح، زمین کے مسام ، دودھیلے حیوانات (میملز) کی جلد پر موجود مسام اور درختوں اور پودوں کے پتوں پر ننھے ننھے سوراخوں سے ___ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کھلا ماحول، اس میں ہوا کی گردش اور ماحول کا درجۂ حرارت ہے اور یہ سورج کی تپش کا نتیجہ ہے۔ حکمت الٰہیہ کے تحت بخارات ہوا کے دوش پر عالمِ بالا کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ دراصل یہی بخارات بادل ہیں اور ان کی مقدار بادلوں کو گہرا یا ہلکا بناتی ہے۔ سمندر کی سطح سے ان بخارات کے ساتھ نمک کے نہایت مہین ذرات بھی بادلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ بادل جلد ہی ننھی آبی بوندوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بخارات کا پانی کسی بھی ننھے سے نمک کے ذرّے کے گرد جمع ہوجاتا ہے یا پھر کائناتی دھول کے ننھے سے ذرے کے گرد جمع ہوتا ہے۔ یہ کائناتی دھول کیا ہے اور اس کے ذرات کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک پردئہ اخفا میں ہے۔

اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک کیوبک سنٹی میٹر رقبے میں ۵۰-۵۰۰ ننھی آبی بوندیں ہوتی ہیں۔ پھر یہ بوندیں بارش کی شکل میں برسنے والی بوندوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہ کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی ابھی تحقیق طلب ہے۔ دو سائنس دانوں برگیرون اور فنڈیسن (Bergeron اور Findeisen) نے ۱۹۵۰ء میں مذکورہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جب بارش برستی ہے تو یہ ننھی آبی بوندیں، یعنی ایک مرکز کے گرد جمع شدہ پانی، عالمِ بالا سے زمین کی طرف جیسے جیسے گرتی ہیں تو ہر بوند پھیلتی ہے اور اس کی سطح کا رقبہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باعث آبی بوند کے گرنے کی رفتار ہوا کی رکاوٹ کے باعث کم ہوجاتی ہے اور بوند نہایت آہستگی سے زمین پر اس طرح گرتی ہے جیسے کسی پیراشوٹ کے ذریعے اُتری ہو، ورنہ بغیر رکاوٹ کے عالمِ بالا سے برسنے والی بوندیں زمینی مخلوق کا زندہ رہنا مشکل بنا دیں۔ یہ سب اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔

بارش کے برسنے کے موضوع پر مزید انسانی تحقیقات کے نتیجے میں اور بھی توجیہات سامنے آئیں گی، مگر بنیادی حقیقت وہی ہے جسے قرآنِ حکیم میں بیان کیا گیا ہے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا‘‘ (الزمر ۳۹:۲۱)۔ گویا اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی ہے، وہی اس کا مالک و آقا ہے اور اُس نے کرئہ ارض پر بارش برسانے کا نظام قائم کیا ہے۔ اس کے قوانین بنائے ہیں اور اس کے ذریعے زمین پر اپنی مخلوقات کے لیے رزق کے بہم پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ ان قوانین اور اس نظام کے معلوم کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور صرف اور صرف اللہ کی کبریائی بیان کرے اور فرشتوں کی طرح اس کی تسبیح بیان کرے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے۔ کسی فرشتے یا جِنّ یا انسان یا مٹی اور پتھر کے بنے بتوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ یہ کام کرسکیں۔ لہٰذا بارش برسنے کا عمل انسان سے خداے واحد پر ایمان کا متقاضی ہے۔

بارش کا برسنا اور کرۂ ارض پر اس کے اثرات

اس حوالے سے زمین پر بارش کے اثرات کے سلسلے میں پانی، ہوا، ماحول کی تپش، مٹی اور اس میں موجود زندہ اور مُردہ اجزا وغیرہ اہم ہیں۔

  • پـانی، قدرت کا کرشمہ: کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے کرۂ ارض پر وافر مقدار میں پانی پیدا فرمایا۔ کائنات کے دوسرے کرّوں پر پانی موجود ہے یا نہیں، اس پر تحقیق جاری ہے۔ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسوں کا مجموعہ ہے۔ ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور آکسیجن کا ایک مالیکیول باہم مل کر پانی بناتے ہیں۔ اگر پانی میں برقی رَو گزاری جائے تو وہ آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم ہو جائے گا۔ آکسیجن آگ بھڑکانے والی گیس ہے، جب کہ ہائیڈروجن بھڑک اُٹھنے والی ہے مگر خدا کی قدرت کہ جب یہ دونوں گیسیں باہم مل کر پانی بن جائیں تو یہی آگ بجھانے والا پانی بن جاتا ہے۔

پانی ایک بے رنگ، بے ذائقہ مگر فرحت بخش ، بے بو، شفاف اور پتلا مائع ہے۔ اس کی اپنی کوئی شکل نہیں۔ جس برتن میں ڈالیں اس کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اُوپر سے نیچے کی طرف بڑی تیزرفتاری سے بہتا ہے اور بہنے کے دوران توانائی پیدا کرلیتا ہے۔ پانی کی اس توانائی کو انسان نے آبی بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اسی مقصد کے لیے بڑے چھوٹے آبی ذخائر بنائے جاتے ہیں۔ سورج کی شعاع جب پانی کی بوند سے گزرتی ہے تو سات رنگوں میں منتشر ہوکر قوسِ قزح بناتی ہے جس کو بالعموم بارش کے بعد آسمان کے ایک جانب سات خوب صورت رنگوں کے قوس میں دیکھا جاسکتا ہے۔

کرۂ ارض کا ۴/۳ حصہ پانی ہے۔ اصل ذخیرہ تو سمندروں میں ہے جہاں کُل پانی کا ۹۷فی صد ہوتا ہے، یعنی کل ۳ فی صد میٹھا پانی ہے جو دریا ، جھیل، تالاب اور کنوؤں میں ہوتا ہے۔ زمین کی اُوپر کی سطح کے نیچے جذب شدہ پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے اور پودوں اور حیوانات کے جسموں میں بھی ایک خاص مقدار ہوتی ہے۔ سارے ہی زندہ حیات کے جسموں میں پانی ایک انتہائی اہم جز ہے۔ انسان کے جسم میں ہر وقت ۴۰ تا ۵۰ لٹر پانی موجود ہوتا ہے، یعنی انسان کی جسامت کا ۶۰ تا ۷۰ فی صد۔ پانی کی اہمیت اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب پیاس لگتی ہے۔ انسان اور دوسرے جان داروں میں ایک خاص مقدار سے کم پانی موت کا پیغام ہے۔ پانی کا یہ توازن جسم کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پانی کی قدرتی خصوصیات یوں تو بے جان اور جان دار دونوں کے لیے انتہائی اہم ہیں، مگر جان داروں کے لیے تو پانی آبِ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں مختلف قسم کے مائعات پیدا فرمائے ہیں مگر طبیعی اور کیمیاوی خصوصیات کے باعث صرف پانی ہی کو زندگی کے لیے لازمۂ حیات بنایا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانی میں ایک انتہائی اہم خصوصیت پیدا فرمائی ہے، جو اللہ کے رحمن ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔ پانی منفی چار (۴-) سینٹی گریڈ تک تو دوسرے مائعات کی طرح تبدیل ہوتا ہے مگر اس سے کم درجۂ حرارت پر یہ کثیف ہونے کے بجاے لطیف ہوجاتا ہے اور پھیلتا ہے۔ پھر جب پانی برف میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ برف، مائع پانی سے وزن میں ہلکی ہوتی ہے، لہٰذا برف پانی کی سطح پر تیرتی رہتی ہے، اس کی تہہ میں نہیں بیٹھتی۔ پانی کی یہ خصوصیت اس حقیقت کی غماز ہے کہ سردیوں میں دریائوں، سمندروں اور جھیلوں کا پانی اوّلاً تو منفی چار سینٹی گریڈ تک سرد ہوجاتا ہے مگر مزید سردی میں اپنی زیریں سطح پر ٹھنڈا ہوکر برف کی صورت سخت اور وزن میں ہلکا ہوجاتا ہے اور پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ برف کے نیچے اس پانی میں آبی حیات (پودے اور حیوانات) زندہ رہتے ہیں اور معمول کی زندگی گزارتے ہیں۔

یہ بھی اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پانی دوسرے مائعات کی طرح اپنی زیریں سطح، یعنی تلی یا تہہ کی جانب سے سرد ہونا شروع نہیں کرتا، بلکہ صفر سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت پر اپنی بالائی سطح پر سرد ہونا اور برف میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے اور برف بننے کے ساتھ ساتھ پھیلتا اور ہلکا ہوجاتا ہے، لہٰذا یہ برف سطح آب پر تیرتی رہتی ہے، تہہ میں نہیں بیٹھتی ہے۔ بس سطح آب سے ایک میٹر نیچے تک اس کی دبیز چادر قائم ہوجاتی ہے، اس میں رخنے اور دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کے ذریعے آبی جانور، مثلاً سیل یا پینگوئن وغیرہ سردی سے بچنے کے لیے پانی کے اندر اُتر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ برف کی دبیز تہہ اندر کے پانی کی حرارت کو جلد باہر کی طرف خارج نہیں ہونے دیتی اور برف کی تہہ سے حرارت کا گزر بہت سُست رفتار ہوتا ہے۔ پانی کی یہ منفرد خصوصیت اور اس کے اندر   آبی حیات کا سرد علاقوں اور سرد حالات میں زندگی بسر کرنا ایک ایسا لطیف توازن ہے جس کا  قوانینِ فطرت کے تحت خود بخود قائم ہو جانا ناممکن ہے۔

  • پانی سے زندگی کی پیدایش: یہ ایک مفروضہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں اوّلین یا ابتدائی زندگی پانی کے اجزا اور اس میں شامل مختلف نمکیات اور دھاتوں کے کیمیاوی تعامل سے سمندر میں کہیں پیدا ہوئی۔ پھر نسلی تسلسل کے نتیجے میں اس ابتدائی زندگی سے انواع و اقسام کے پودے اور حیوانات پیدا ہوتے اور پھیلتے چلے گئے۔ یہ ظنی اور تخمینی مفروضہ شواہد اور تجربات کا محتاج ہے۔ گذشتہ صدیوں میں اس مفروضے کو ثابت کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں مگر اب تک کی کوششیں سب ناکام ہیں۔ یہ مفروضہ کیونکہ نظریۂ نامیاتی ارتقا کی بنیاد ہے، اس لیے اس کی ناکامی نظریۂ ارتقا کی ناکامی بھی ہے۔
  • پانی ھی میں زندگی کی نشوونما: یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی پانی کے بغیر پرورش نہیں پاسکتی۔ کسی بھی پودے کے بیج کے اندر موجود جنین میں اللہ نے پانی کی ایک مخصوص مقدار پیدا فرمائی ہے، جو جنین کو نہ صرف بڑے عرصے تک زندہ رکھتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ نشوونما بھی دیتی ہے۔ جب یہ بیج زمین میں بویا جاتا ہے اور پانی سے سینچا جاتا ہے تو بیج نشوونما پاکر جلد ہی پودے کی شکل میں پھوٹ نکلتا ہے۔ اگر بیج میں پانی مفقود ہوجائے تو اس کے اندر کا جنین مُردہ ہوجائے گا اور کسی صورت بھی نشوونما نہ پاسکے گا۔

جانوروں کے انڈے اور چھلکے یا جھلّی کے اندر بھی جنین کے گرد پانی کی ایک مخصوص مقدار پیدا کی گئی ہے۔ اس پانی میں جنین پرورش پاتا ہے اور مخصوص وقت پر جھلّی اور چھلکا توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔ یہاں بھی پانی کی غیرموجودگی جنین کے نشوونما پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ دودھیلے حیوانات کے  (مثلاً گائے، بھینس، بکری وغیرہ اور انسان بھی ان میں شامل ہے) رحم میں پرورش پاتے ہوئے جنین کے گرد تین پردے ہوتے ہیں جن میں پانی بھرا ہوتا ہے اور جنین درحقیقت اس پانی میں تیرتا رہتا ہے۔ اسی کے ذریعے اپنی غذا بھی حاصل کرتا ہے اور جسم میں پیدا ہونے والے گندے مادے بھی خارج کرتا ہے اور پیدایش کے وقت اس پانی کی قوت سے اپنے مقررہ وقت پر رحم مادر سے خارج کردیا جاتا ہے۔ پرورش پانے والے جنین کے گرد پانی کی کمی یا زیادتی اس کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا یہاں بھی پانی کا موجود ہونا اور متوازن ہونا لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَo  (الانبیاء ۲۱:۳۰)، ’’اور ہرزندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے‘‘۔

  • پانی اور انسانی جسم: پانی میں ایک خصوصیت یہ بھی اللہ نے پیدا کی ہے کہ ٹھنڈا ہونے کی صورت میں اس کے اندر موجود حرارت خارج ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب پانی کے بخارات ٹھنڈے ہوتے ہیں تو ان کے اندر سے بھی حرارت خارج ہوتی ہے۔ یہ پانی کی مخفی حرارت کہلاتی ہے۔ پانی جلد گرم نہیں ہوتا، یعنی پانی کو گرم کرنے کے لیے زیادہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے پانی کی حرّی صلاحیت کہتے ہیں۔ پانی میں سے حرارت تیزی سے گزر جاتی ہے۔ اس کو پانی کی حرارت پذیری کہا جاتا ہے، اور خاص درجۂ حرارت، یعنی ۱۰۰ درجہ سینٹی گریڈ پر پانی بخارات میں تبدیل ہوکر اتنا ہلکا ہوجاتا ہے کہ ہوا اسے اپنے دوش پر عالمِ بالا کی طرف بادلوں کی شکل میں لے جاتی ہے۔

غور کریں کہ پانی کی یہ خصوصیات انسانی جسم کو کس طرح چاق چوبند رکھتی ہیں۔ انسانی جسم کا درجۂ حرارت بالعموم ۲۵ تا ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ اگر یہ درجۂ حرارت کسی   ایک ہی درجے پر قائم ہوجائے اور طویل عرصے تک قائم رہے تو موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ایک طویل عرصے تک جسم کا درجۂ حرارت ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ پر قائم رہے تو انسان کے جسم کے اندر موجود پانی جو جسم کے افعال میں توازن قائم رکھتا ہے جس سے انسان چاق چوبند رہتا ہے، اس میں انتشار پیدا ہوجائے گا اور یہ توازن درہم برہم ہوجائے گا۔

  • پانی کی شفافیت: قدرتی پانی نہایت شفاف ہوتا ہے، یعنی اس میں کیمیاوی اجزا کی آمیزش نہیں ہوتی۔ اسے آپ مقطر بھی کہہ سکتے ہیں۔ بالعموم بارش کا پانی آبِ مقطر ہوتا ہے۔ پانی کی شفافیت اور سورج کی روشنی کا اس میں سے گزرنے کا بھی ایک تعلق ہے۔ نظر آنے والی روشنی شفاف پانی سے گزر جاتی ہے۔ روشنی کی انفراریڈ شعاع جو تپش بھی پیدا کرتی ہے وہ بھی چند  ملی میٹر گہرائی تک پانی میں اُتر جاتی ہے۔ اسی لیے سمندر اور دریائوں کا پانی اتنی ہی گہرائی تک سورج کی روشنی سے متاثر ہوتا ہے، جب کہ اس سے زیادہ گہرائی میں پانی دُور دُور تک ایک ہی درجۂ حرارت پر رہتا ہے۔ سورج کی روشنی کی مختلف رنگت کی شعاعیں بھی صرف ۱۰۰میٹر کی گہرائی تک پانی میں اُترتی ہیں مگر ارزق (نیلی) اور سبز رنگت کی شعاعیں تقریباً ۲۴۰ میٹر تک گہرائی میں پہنچتی ہیں۔ اس کی وجہ سے دریا اور سمندروں کی اس گہرائی میں آبی پودے اُگتے ہیں جن کو ضیائی تالیف (فوٹو سنتھسز) کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب قدرتِ حق کے خدائی توازن کا حصہ ہے۔
  • اللّٰہ نے ٹہیک حساب کے مطابق پانی اُتارا: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ وَاِِنَّا عَلٰی ذَھَابٍم بِہٖ لَقٰدِرُوْنَo (المومنون ۲۳:۱۸)، اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا۔

وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ o (الزخرف ۴۳:۱۱)، جس نے (اللہ نے) ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اُتارا۔ اور اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو جِلا اُٹھایا۔

آسمان اور زمین، یعنی کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بیک وقت پانی کی اتنی مقدار نازل فرمائی جو قیامت تک کرئہ زمین کی ضروریات کے لیے اُس کے علم میں کافی تھی۔ وہ پانی زمین کے نشیبی حصوں میں ٹھیرگیا، جس سے سمندر اور بحرے وجود میں آئے اور زیرزمین پانی پیدا ہوا۔ اب اسی پانی کا اُلٹ پھیر (دوران) ہے جو گرمی سردی اور ہوائوں کے ذریعے ہوتا رہتا ہے۔ اسی سے بارشیں وجود پاتی اور زمین کے مختلف حصوں میں پانی پھیلایا جاتا رہتا ہے۔ یہی پانی بے شمار چیزوں کی پیدایش اور ترکیب میں استعمال ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ تو ایک قطرے کی کمی ہوتی ہے اور نہ ایک قطرہ اضافے کی ضرورت ہی پیش آتی ہے۔ ہزاروں سال سے اللہ کا قائم کیا ہوا پانی کا یہ مقداری توازن قائم ہے۔ انسان تو اس توازن میں بگاڑ پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں۔یہاں یہ حقیقت واضح رہے کہ پانی ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز، مثلاً ہوا، روشنی، گرمی، سردی، جمادات، نباتات، حیوانات، غرض ہرچیز، ہرنوع، ہرجنس اور قوت و طاقت، توانائی کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار مقرر ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے اور نہ بڑھتی ہے۔

  • اگر پانی زمین میں اُتر جائے: یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ وہ اللہ جس نے آسمان سے زمین پر پانی برسایا، اگر اس پانی کو زمین کے اندر گہرائی میں اُتار لے جائے تو بارش کہاں سے برسے گی اور زمینی مخلوق کے لیے پانی کہاں سے حاصل ہوگا؟ گویا اس بات کا امکان ہے۔ اللہ نے اس کی تنبیہہ ضرور کی ہے مگر وہ بڑا ارحم الراحمین ہے!

قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَآئٍ مَّعِیْنٍ o (الملک ۶۷:۳۰) ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا تمھارے کنوؤں کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون ہے جو پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمھیں نکال کر لا دے گا۔

  • اگر پانی کہارا بنا دیا جائے: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَo (الواقعہ ۵۶: ۶۸-۷۰) ’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اسے تم نے بادل سے برسایا ہے، یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بناکر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکرگزار نہیں ہوتے؟

وَّاَسْقَیْنٰـکُمْ مَّآئً فُرَاتًا o (المرسلات ۷۷:۲۷) اور تمھیں میٹھا پانی پلایا۔

بارش سے برسایا جانے والا پانی میٹھا اور پینے کے قابل ہوتا ہے۔ اگر اللہ بارش کا یہ نظام قائم نہ کرتا تو کرۂ ارض کے باسیوں کے لیے میٹھے پانی کا حصول ناممکن تھا، لہٰذا کرۂ ارض پر زندگی کا وجود ناممکن ہوتا۔ یہ صرف اللہ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے بارش کو میٹھے پانی کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے اور کرئہ ارض کی ساری مخلوق اس سے مستفید ہورہی ہے۔

پانی___ ایک وسیع عنوان ہے جو ایک علیحدہ اور جامع مضمون کا متقاضی ہے۔

  • ماحول کی تپش:کرئہ ارض کی وہ تپش جو پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے، سورج کی روشنی میں موجود حرارت سے حاصل ہوتی ہے۔ نظامِ شمسی میں کرۂ ارض سے سورج کا فاصلہ ۹۳ ملین میل ہے۔ اس کا قطر زمین سے ۱۰۳ گنا بڑا ہے۔ زمین کی اپنے محور پر گردش کے باعث اس کا وہ حصہ جو سورج کے سامنے آتا جاتا ہے روشن ہوجاتا ہے اور یہاں تقریباً ۱۲ گھنٹے کا دن ہوتا ہے، جب کہ زمین کا وہ حصہ جو سورج کے سامنے نہیں ہوتا، وہاں رات ہوتی ہے۔ زمین سورج کی کرنوں سے وافر مقدار میں تپش حاصل کرلیتی ہے جس سے اس کے ماحول میں ہروقت تپش رہتی ہے اور اس تپش کی حد ۲۰- تا ۱۲۰+ سینٹی گریڈ کی حد میں رہتی ہے۔ یہی تپش ہے جو زمین پر موجود پانی خصوصاً سمندروں کے پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے جو بادلوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔

سائنس دانوں کی یہ دل چسپ تحقیق ہے کہ کرۂ ارض کا سورج سے فاصلہ اور زمین کے محور کا  سورج کے مدار کی سمت ۲۳ درجے کاجھکائو___ یہ دو وجوہ ہیں جن کے باعث کرۂ ارض کا درجہ حرارت ۲۰- تا ۱۲۰+ ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ یہی وہ درجۂ حرارت ہے جس میں جان دار   اپنا وجود قائم رکھتی ہے ورنہ زمین پر بھی دوسرے سیاروں کی طرح جان دار کا وجود ناممکن ہوتا۔ تپش کا یہی وہ توازن ہے جو اللہ نے زمین پر قائم رکھا ہوا ہے۔ زمین پر پہاڑ میخوں کے ذریعے مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور ایستادہ ہیں، کسی طرف لڑھک نہیں جاتے۔ اس صورت میں یہ زمین کا توازن بھی قائم رکھتے ہیں تاکہ زمین کسی ایک طرف ڈھلک نہ جائے۔ پہاڑوں کے دامن میں قدرے گرم ماحول اور بلندی پر ٹھنڈا ماحول بھی توازن قائم رکھنے میں مددگار ہے۔

سورج کی حرارت جہاں پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے وہیں ایک اور اہم کام بھی کرتی ہے۔ زمین پر موجود پودوں کے سبز پتوں میں موجود خلیوں میں موجود سبزینہ (کلوروفل) نامی کیمیاوی مادہ موجود ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی اس میں جذب ہوجاتی ہے اور اس میں موجود پانی میں، جو پودے کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوکر تنے اور شاخوں اور پتوں کی نالیوں کے ذریعے آتا ہے، اس سے اور پتوں میں موجود آکسیجن گیس کے تعامل کے ذریعے گلوکوز نامی غذا بناتی ہے۔ گلوکوز دراصل بنیادی غذا ہیجو بعد میں نشاستے میں تبدیل ہوکر پودے کے مختلف حصوں میں    جمع ہوجاتا ہے۔

  • ھـوا اور بارش: کرئہ ارض کے ماحول میں ہوا انتہائی اہم ہے۔ ہوا میں ۲۱ فی صد آکسیجن، ایک فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ، ۷۷ فی صد نائٹروجن ہے۔ زندہ اجسام کے لیے یہ سب گیسیں کسی نہ کسی صورت میں اہم ہیں اور کرئہ ارض کے ماحول میں پھیلتی رہتی ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی قدرتی گیسیں ہیں مگر ایک تو ان کی مقدار ماحول میں انتہائی قلیل ہے اور دوسرے یہ زندہ اجسام کے لیے یہ زیادہ اہم نہیں۔ یہ گیسیں ہوا کی صورت ہلکی اور تیزرفتاری سے ماحول میں حرکت کرتی رہتی ہیں اور جو بھی ان کے راستے میں آتا ہے ان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

ہوائیں پانی کے بخارات کو جو اَب بادلوں کی صورت ہوتے ہیں، اُٹھا کر عالمِ بالا کی طرف لے جاتی ہیں۔ پھر روے زمین میں پھیلا کر اللہ کے حکم کے مطابق جہاں جتنی ضرورت ہوتی ہے پانی تقسیم کرتی (برساتی) ہیں۔ پانی کی تقسیم میں بھی توازن ہے۔ کسی بھی علاقے کی سالانہ بارش کے ریکارڈ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بارش کا سالانہ ایوریج تقریباً یکساں رہتا ہے، یا کچھ کم یا زیادہ۔ بعض علاقوں میں بڑے عرصے تک بارش نہیں ہوتی اور خشک سالی کا شکار ہوجاتے ہیں مگر پھر جب بارش ہوتی ہے تو جل تھل ہوجاتا ہے، یعنی خشک سالی کے دوران میں بارش کی کمی کا حساب برابر کردیا جاتا ہے۔ (دیکھیے: الذاریات ۵۱: ۱-۲، اور الزخرف ۴۳:۱۱)

ہوائوں کے زیراثر آسمان پر اکثر طرح طرح کی شکلوں والے بادل چھا جاتے ہیں جن میں بار بار تغیر ہوتا رہتا ہے اور کبھی کوئی ایک شکل نہ خود قائم رہتی ہے اور نہ کسی اور شکل ہی سے مشابہ ہوتی ہے۔ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ (الذاریات۵۱: ۵) ’’قسم ہے مختلف شکلوں والے آسمان کی‘‘ ۔ یہ بادل سیاہ بھی ہوتے ہیں اور سفیدی مائل بھی۔ سیاہ بادلوں میں آبی بوندوں کے باعث منفی اور مثبت برقی بار پیدا ہوجاتا ہے اور جب یہ دونوں برقی بار آپس میں ملتے ہیں تو بادلوں میں شدید گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور آسمانی بجلی کی تیزروشنی اور کڑک و چمک بھی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ اس بجلی کو بسااوقات جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے، جب کہ وہ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں، یعنی ایسے کاموں میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ ایک طرح سے یہ اللہ کا ایسے لوگوں پر تازیانہ ہے (دیکھیے: الرعد۱۳: ۱۲-۱۳)۔ یہی بجلی ہے جسے انسان نے اپنی کاوشوں سے زمین پر اُتارا ہے اور اپنے اردگرد کے تاریک ماحول کو اُجالوں میں تبدیل کرلیا ہے۔  اللہ جب کسی مقام پر آسمانی بجلی گراتا ہے تو یہ اس مقام کی ہرچیز کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔

ہوائوں کے دوش پر پانی لیے ہوئے بادل ’خوش خبری ‘ لیے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔    انسان خوش ہوتا ہے کہ اب بارش ہوگی، گرمی اور حبس ختم ہوگا، زمین نرم ہوگی اور سونا اُگلے گی۔  کھیت لہلہائیں گے، فصلیں پیدا ہوں گی، غلّہ اُگے گا، باغوں میں رنگ برنگے خوش نما پھول اور مختلف اقسام کے پھل پیدا ہوں گے اور اس طرح انسان اور جانوروں کے لیے رزق کا انتظام ہوگا۔ یہ سب اللہ کی رحمت ہے جو اپنی رحمت کے آگے ہوائوں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے۔ (دیکھیے الفرقان ۲۵:۴۸-۵۰)

یہی ہوائیں اور بارش کبھی خدا کے عذاب کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہے۔ یہی بارش ہے جسے اللہ نے طوفانِ نوحؑ میں تبدیل کر دیا اور حضرت نوحؑ کی قوم چند نفوس کے علاوہ بارش کے اس طوفان میں غرق کر دی گئی:

فَفَتَحْنَـآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْہَمِرٍ o وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ o وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ o تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا ج جَزَآئً لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ o وَلَقَدْ تَّرَکْنٰھَا اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ o (القمر ۵۴: ۱۱-۱۵)  تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کردیا، اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا، اور نوحؑ کو ہم نے ایک تختوں اور کیلوں والی پر سوار کردیا جو ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ تھا بدلہ اس شخص کی خاطر جس کی ناقدری کی گئی تھی۔ اس کشتی کو ہم نے نشانی بناکر چھوڑ دیا۔ پھر کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟

قومِ لوطؑ پر پتھر برسائے گئے جسے اللہ نے ایک قسم کی بارش سے تشبیہ دی ہے: وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَّطَرًا ج فَسَآئَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَo (النمل ۲۷:۵۸)، ’’اور برسائی ان پر ایک برسات، بہت ہی بُری برسات تھی وہ ان لوگوں کے حق میں جو متنبہ کیے جاچکے تھے‘‘۔

  • بارش اور مٹی میں موجود زندہ و مُردہ اجزا: بارش سے مُردہ پڑی زمین جِلا اُٹھائی جاتی ہے:

وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط (العنکبوت ۲۹:۶۳) اور اگر تم اِن سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے مُردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اُٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔

وَمِنْ اٰیٰـتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ط اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاھَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی ط اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۹) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سُونی پڑی ہے، پھر جوں ہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک پھبک اُٹھتی ہے اور    پھول جاتی ہے۔ یقینا جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے، وہ مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ یقینا وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔

آسمان سے پانی برستا ہے تو خشک اور مُردہ پڑی ہوئی زمین کی مٹی کے ذرات پھول جاتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ زمین کی اس پرت یا تہہ میں موجود لاکھوں بیکٹیریا جو طویل  خشک سالی کے باعث مُردہ ہوگئے تھے بارش کے پانی کے باعث ’جاگ‘ اُٹھتے ہیں۔ ان کی نسل تیزرفتاری سے بڑھتی ہے۔ اپنے جسموں میں ہوا سے نائٹروجن لے کر اس کی تالیف (synthesis) شروع کردیتے ہیں، یوں زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بارش کے پانی میں موجود ہائیڈروجن (H2) اور آکسیجن (O) آئن علیحدہ ہوجاتے ہیں، جو بیکٹیریا کے  خشک شدہ جینیاتی تشخص (genetic code) اور ڈی این اے (DNA) کو فعال بنا کر نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔ لہٰذا اب یہ بیکٹیریا (مائیکروب) زندہ اور متحرک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح     اللہ مُردہ کو زندہ کرنے کی صورت پیدا کرتا ہے۔

مٹی میں ننھے حیوانات جو خوابیدہ حالت، یعنی زندگی اور موت کی سرحد پر ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی ان میں بھی زندگی کی جولانیاں پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح بارش کے بعد بے شمار اقسام کے رینگنے والے، دوڑنے والے اور اُڑان بھرنے والے کیڑے مکوڑے جگہ جگہ متحرک نظر آتے ہیں۔ زمین میں بارش کے باعث زندگی کی ہماہمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس طرح اللہ مُردہ پڑی زمین کو زندگی سے بھر دیتا ہے۔مٹی میں مختلف قسم کے پودوں کے بے شمار بیج اور جڑیں بھی خوابیدہ حالت میں دفن ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی جوں ہی ان کے اندر جذب ہوتا ہے بیج کا خول نرم پڑتا ہے اور پھٹ جاتا ہے۔ بیج کے اندر کا جنین کا اکھوا نرم مٹی کو پھاڑ کر زمین کی سطح کے اُوپر نرم و نازک پتیوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور چہارطرف سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ پودوں کی خشک جڑوں پر موجود کلیاں پانی کے باعث پھوٹتی ہیں اور تازہ دم ہوجاتی ہیں۔

اس طرح اللہ ’مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے‘ (حم السجدہ)۔ قربِ آخرت اللہ کا حکم ملتے ہی فرشتہ صور پھونکے گا جو قربِ قیامت کا اعلان ہوگا: ’’ہول کھا جائیں گے وہ سب جو زمین و آسمان میں ہیں سواے ان لوگوں کے جن کو اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا‘‘ (النمل ۲۷:۸۷)۔  ’’وہ بس ایک دھماکا ہے جو یکایک انھیں اس حالت میں دھر لے گا جب یہ (اپنے دُنیوی معاملات میں) جھگڑ رہے ہوں گے‘‘ (یٰس ۳۶:۴۹)۔ اور ’’جو آسمانوں اور زمین میں ہیں مرکر گر جائیں گے سواے ان کے جن کو اللہ زندہ رکھنا چاہے‘‘۔(الزمر ۳۹:۶۸)۔ پھر تیسرا اور آخری صور پھونکا جائے گا جسے سنتے ہی تخلیقِ آدم، یعنی پہلے انسان سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والا ہرانسان ازسرِنو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ اسی کا نام  حشر  ہے۔ ’’اور سب کے سب اللہ واحد القہار کے سامنے بے نقاب ہوکر حاضر کیے جائیں گے‘‘ (ابراھیم۱۴:۴۸)۔  یہ کس طرح ہوگا؟ اسی طرح ’’جس طرح اللہ مُردہ پڑی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے‘‘۔

  • بارش کا پانی اور رزق کا انتظام: بارش ہوتی ہے تو پانی کو ترسی ہوئی زمین  پھبک اُٹھتی ہے، مٹی نرم پڑتی ہے اور انسان قسم قسم کے غلّوں اور پھلوں کے بیج لے کر حرکت میں آتا ہے۔ زمین پر ہل چلاتا ہے، بیج بوتا ہے اور پھر کھیت لہلہا اُٹھتے ہیں۔ باغوں میں رنگ برنگے پھول بہار دیتے ہیں۔ درختوں پر پھول اور پھل آتے ہیں۔ انسان خوش اور مطمئن ہوتا ہے کہ اس کے اور اس کے جانوروں کی غذا اور درحقیقت زندہ رہنے کا سامان ہوگیا۔

اللہ کی شان ہے کہ زمین ایک ہے، زمین کے اجزا ایک ہیں، ہوا اور پانی ایک ہیں، مگر زمین کے کسی قطعے میں گیہوں کی فصل ہے تو کسی دوسرے قطعے میں دوسرے غلّے کی فصل۔ کہیں امرود کے پھل لگے ہوئے ہیں تو کہیں مسمّی اور آم کے پھل ہیں۔ پھر ایک ہی زمین سے اُگنے والے ایک ہی قسم کے پھل کوئی مزے میں بہتر ہے اور کوئی کم تر۔ ’’سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر اور کسی کو کم تر بنا دیتے ہیں‘‘ (الرعد ۱۳:۴)۔ پھر یہ سب وافر مقدار میں ہیں کہ انسان اور جانوروں کے لیے کافی ہیں مگر انسان اپنی خودغرضانہ حرکتوں سے خود بھی غذائی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بعض اوقات قحط کا عذاب اس پر مسلط ہوجاتا ہے۔

یہ بھی اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پانی ایک ہی ہوتا ہے مگر زمین کی خرابی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ غلّے کی ایک فصل پیدا ہوتی ہے تو اس کا بیج انسان کی اپنی غذا کے کام آتا ہے اور جب وہی فصل سوکھ جاتی ہے تو فصل کے پتے اور تنے اس کے جانوروں کے کام آتے ہیں۔ پھر مخصوص قسم کے پودوں کی فصل جانوروں کے لیے بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔

پودوں میں غذا کہاں سے آتی ہے؟ اللہ نے سبز پودوں میں غذا پیدا کرنے کا دل چسپ مگر پیچیدہ نظام بنایا ہے۔بارش کا پانی پودوں کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوکر شاخوں کے ذریعے پتوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ ’سبزپتے‘ کے ہرخلیے میں سبزینہ نام کا کیمیاوی مادہ ہوتا ہے جو سورج کی روشنی سے قوت حاصل کرتا ہے اور فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پتوں کے سوراخوں کے ذریعے پتے کے خلیوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اب پانی کی ہائیڈروجن اور آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کیمیاوی تعامل کرتی ہے جو سبز پتے میں موجود سورج کی روشنی کی قوت کو گلوکوز نام کے کیمیاوی شے میں منتقل کردیتا ہے۔ گلوکوز اس تعامل کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ یہ گلوکوز بعد میں نشاستے میں تبدیل ہوجاتا ہے جو ایک قوت بردار غذا ہے۔ یہ نشاستہ بیجوں، پھلوں اور جڑوں، پتوں اور شاخوں وغیرہ میں ذخیرہ ہوجاتا ہے۔ بس یہی چیز جب انسان کھاتا ہے تو پانی کے ذریعے حاصل کردہ توانائی انسان اور حیوانوں کے جسموں میں پہنچ جاتی ہے جو زندہ حیات کے اعضا کی حرکت کی بنیاد ہے۔ اگر یہ توانائی جسم میں نہ پہنچے تو جسم مُردہ ہوجائے گا۔

پانی          +

کاربن ڈائی آکسائیڈ

پتّے کے سبزینے میں

گلوکوز   +

آکسیجن

بارش کا پانی پودے کی جڑوں کے ذریعے پتّے میں پہنچتا ہے

فضا میں موجود ہوتی ہے اور پتّے کے سوراخوں کے ذریعے اندر آتی ہے

سورج کی روشنی سے حاصل شدہ توانائی

توانائی بردار ہے اور بطور غذا استعمال ہوتا ہے۔

گیس کی شکل میں پتّے سے باہر نکل جاتی ہے اور انسان اور حیوان کے سانس لینے میں استعمال ہوتی ہے۔

سبز پتّے کے سبزینے میں غذا کے تشکیل پانے کے عمل کا چارٹ

  • بارش کا پانی اور ندی نالے:جس علاقے میں بارش ہوتی ہے اس میں زمین پر موجود ندی نالے بھر جاتے ہیں اور اپنی ڈھلان کی وجہ سے اور پانی کی وافر مقدار کے باعث اس کو لے کر چلتے ہیں اور میلوں سفر کرکے یہ پانی دریا میں ڈالتے ہیں۔ پھر یہ دریا اسے مزید دُور لے جاکر سمندر میں لاڈالتے ہیں۔ بارش کے شفاف اور پاک پانی میں اس سفر کے دوران غیرحل شدہ چیزیں،یعنی کوڑا کرکٹ، مٹی، پتھر شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حل شدہ چیزیں نمکیات اور دوسرے کیمیاوی اجزا بھی شامل ہوجاتے ہیں: ’’آسمان سے پانی برسایا اور ہرندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا‘‘۔ (الرعد ۱۳:۱۷)

پھر یہی اللہ کا برسایا ہوا بارش کا پانی زمین کے اندر بہت نیچے تک نہ صرف یہ کہ جذب ہوتا ہے بلکہ زمین کے اندر سوتوں اور دریائوں کی شکل میں رہتا ہے اور کہیں کہیں چشموں اور جھیلوں کی صورت میں زمین کی سطح پر پھوٹ نکلتا ہے، ان سے انسان کو میٹھا اور شفاف پانی میسر آتا ہے۔ کنویں کھود کر بھی انسان یہ پانی حاصل کرتا ہے۔ بعض جگہ سمندر سے بھی پانی جذب ہوکر زمین کے اندر بھی اندر دُور دُور تک جاتا ہے اور شفاف اور میٹھے چشمے کی صورت میں کسی جگہ بھی نکل آتا ہے۔ خیال ہے کہ آبِ زم زم کا چشمہ بھی بحیرۂ عرب سے آیا ہوا چشمہ ہے۔ ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو، اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو ستوں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کردیا‘‘۔ (الزمر ۳۹:۲۱)

  • بارش اور سیلاب: ندی نالوں اور دریائوں میں بہنے والا یہ پانی جب زیادہ بارش کے باعث بڑی مقدار میں آن پہنچتا ہے تو ان میں سما نہیں پاتا اور ان کے کناروں کو عبور کر کے، یا اپنے بہنے کی قوت سے کناروں کو توڑ کر اطراف میں تیزرفتاری سے بہہ نکلتا ہے اور انسانی آبادی اور جو چیز بھی اس کے راستے میں آجاتی ہے ان کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ انسان کے تعمیر کیے ہوئے بڑے بڑے ڈیم بھی اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بندتوڑ سیلاب ہو یا دریائوں کے پشتے توڑ سیلاب، سب اللہ کے حکم سے آتا ہے اور یہ ایک طرح کا اللہ کا عذاب ہے۔ گذشتہ دنوں پاکستان کے مختلف علاقوں میں آیا ہوا سیلاب اسی حکم میں ہے، اور عوام اور خواص کے لیے اللہ کا ایک تازیانہ ہے۔ ملکۂ سبا کے زمانے میں یمن میں ایک بند تھا جو ملک کو سرسبز رکھنے اور غلّہ اور پھل پھواری کے لیے ایک عمدہ نہری نظام سے منسلک تھا جسے اللہ نے ایک بندتوڑ سیلاب کے ذریعے درہم برہم کردیا۔ ’’آخرکار ہم نے ان پر بندتوڑ سیلاب (سیل ارم) بھیج دیا‘‘۔ (السبا ۳۴:۱۰)
  • پانی کے دو ذخیرے: اللہ رب العزت نے پانی کے دو ذخیرے پیدا فرمائے ہیں: ایک میٹھا اور دوسرا تلخ اور کھاری۔ کھاری پانی کا ذخیرہ سمندروں کی شکل میں بہت بڑا ہے۔    کرئہ ارض پر زمین کی حد بندیاں اللہ نے کچھ اس طرح کی ہیں: کھاری اور میٹھے پانی کے ذخائر  علیحدہ علیحدہ ہیں اور ملنے نہیں پاتے۔ لیکن یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے سمندر، یعنی کھاری پانی کے اندر میٹھے پانی کے دریا کچھ اس طرح بہائے ہیں کہ یہ دونوں آپس میں گڈمڈ نہیں ہوتے، مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ رہتے ہیں۔ ان کے درمیان اللہ نے پردہ حائل کیا ہوا ہے۔lکون ہے جس نے زمین کو جاے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے___ اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردیا۔ (النمل ۲۷:۶۱)
  • دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں۔ پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ ان سمندروں سے گھونگے اور موتی نکلتے ہیں۔ (الرحمٰن ۵۵:۲۴)
  • وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انھیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ (الفرقان ۲۵:۵۳)

سولھویں صدی عیسوی میں ترک امیرالبحر نے اپنی کتاب مراۃ الممالک میں خلیج فارس کے اندر ایسے مقام کی نشان دہی کی ہے اور لکھا ہے کہ وہاں آبِ شور کے نیچے آبِ شیریں کے چشمے ہیں جن سے وہ خود اپنے بحری بیڑے کے لیے پانی حاصل کرتا تھا۔ بحرین کے قریب سمندر کی تہہ میں اس قسم کے بہت سے چشمے کھلے ہوئے ہیں جن سے لوگ میٹھا پانی حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح جبرالٹر کا نیم گہرا علاقہ بحر اٹلانٹک کے پانی اور میڈی ٹرے نین سمندر کے پانیوں کو آزادانہ گڈمڈ ہونے سے روکتا ہے۔ یہ صورت حال واضح طور پر مراکش اور اسپین کے علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اللہ کی شان کہ ایک فرانسیسی ماہر بحریات جیکویاوس کاسٹیو (Jaeques Yues Costeau) نے جب اس کا مشاہدہ کیا اور قرآن حکیم آیات (الرحمٰن ۵۵:۱۹-۲۴) اس کے سامنے آئیں تو اس نے بلاتکلف اللہ رب العزت کی بڑائی کا اعلان کیا اور مسلمان ہوگیا۔

موسم کی پھلی بارش:کسی علاقے میں موسم کی پہلی بارش علاقے میں بسنے والوں کے لیے خوشی و انبساط کا باعث ہوتی ہے۔ لڑکے بالے بارش میں نہاتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں مگر پہلی بارش نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ برستا پانی اپنے ساتھ ماحول میں موجود مختلف قسم کی مہلک گیسوں اور مہلک جراثیم کو لیے ہوئے ہوتا ہے جو نہانے والوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لہٰذا اس بارش میں غسل نہ کرنا بہتر ہے۔

مصنوعی بارش:انسان کوشش کرتا رہا ہے کہ بارش برسانے پر کسی طرح قابو پالے مگر  وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اب تک کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ بخارات سے جو پانی بردار بادل  بن جاتے ہیں ان پر بعض کیمیاوی چیزوں کا چھڑکائو کیا جاتا ہے، بادل اپنا پانی برسا دیتے ہیں لیکن یہ کام کسی محدود علاقے پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اس پر بڑے اخراجات اُٹھانے پڑتے ہیں۔ انسان کے لیے بارش کے سارے عمل پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہے۔