اللہ پرایمان اسلام کے نظامِ عقائد کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس پر یقین کے بغیر دعواے اسلام بے حقیقت ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اللہ اس کائنات کی بدیہی حقیقت ہے۔ اللہ کہتا ہے ، اس کا کوئی ہمسر نہیں اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ کائنات اور اس میں پائی جانے والی ہرشے اللہ ہی نے تخلیق کی ہے اور انسان کو بھی خصوصیت سے اُسی نے پیدا کیا ہے۔
اللہ نے انسان کو برگزیدہ اور خاص انسانوں (پیغمبروں ؑ) کے ذریعے کرئہ ارض پر زندگی بسرکرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ اس عقیدے کا فطری تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات اور اس کی تمام موجودات اور انسان کو اللہ اور صرف اللہ ہی کا تخلیق کردہ تسلیم کیا جائے۔ قرآن حکیم میں اس بات کو جگہ جگہ بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورئہ سجدہ آیات ۴-۵ میں فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھے دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا‘‘۔ سورئہ روم آیت ۸ میں بیان ہے: ’’کیا انھوں نے کبھی اپنے آپ پر غوروفکر نہیں کیا؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور مدت مقررہ کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔
انسان کی تخلیق کے بارے میں خصوصیت سے سورئہ اعراف آیت ۱۰ میں بیان ہے: ’’ہم نے تمھاری (انسان کی) تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمھاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو‘‘۔ آگے آیت ۱۸۹ میں فرمایا : ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرسکے‘‘۔ سورئہ فاطر آیت ۱۱ میں وضاحت اس طرح کی گئی : ’’اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر تمھارے جوڑے بنائے، کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب اللہ کے علم میں ہوتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ اللہ رب العزت نے ہی انسان کو تخلیق کیا ہے۔
یہ سب آیات قطعی طور پر شاہد ہیں کہ پہلے انسانی جوڑے (آدم ؑ و حواؑ) کی تخلیق کا مقام جنت ہے۔ اس جنت میں مٹی بھی ہے اور پانی بھی، پھلواری اور پھل دار درخت بھی ہیں اور نہریں بھی، غرض انسان کی ضرورت کی ہرچیز بہترین صورت میں موجود ہے۔ یہی جگہ ہے جہاں مرنے کے بعد سعید روحیں اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کی روحیں قیام کرتی ہیں۔ اس کا نام جنت الماویٰ ہے۔ یہ جنت سدرۃ المنتہیٰ پر واقع ہے۔ اس مقام تک معراج کی رات نبی کریمؐ تشریف لے گئے تھے اور آپؐ کو اس جنت کا مشاہدہ بھی کروایا گیا تھا۔ سورئہ نجم آیت ۱۳ تا۱۵ میں فرمایا گیا ہے: ’’اور ایک مرتبہ پھر اس (محمدؐ) نے سدرۃ المنتہیٰ (بیری کا وہ درخت جو انتہائی سرے پر واقع ہے) کے پاس اُس کو اُترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے‘‘۔ اس جنت کے قریب ہی اللہ رب العزت کا عرش ہے۔ سورئہ سجدہ، آیت ۵ میں اس طرف اشارہ ہے: ’’آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدابیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے‘‘۔سورئہ معراج، آیت۴ میں یہ مقدار ۵۰ ہزار سال بیان کی گئی ہے۔
قرآن میں انسانِ اوّل کے تخلیقی مادے کے لیے تُراب، طین، طین لازب، صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ، اور صلصال کالفخار کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ تراب اور طین کے معنی خاک، مٹی اور گارے کے ہیں، جب کہ طین لازب کے معنی لیس دار گارے یا چکنی مٹی ہیں۔ صلصال کالفخار کے معنی ’’ٹھیکرے جیسا سوکھا سڑا گارا یا ایسی مٹی جو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہو‘‘ ہیں۔ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ،کا ترجمہ سید مودودی نے یوں کیا ہے: ’’سڑی ہوئی مٹی کا سوکھا گارا‘‘ اور تفسیری حاشیہ یوں ہے: ’’اُس (انسان) کی تخلیق کی ابتدا براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمَاء عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بو پیدا ہوچکی ہو، یا بہ الفاظ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مَسْنُوْن کے دومعنی ہیں۔ ایک معنی میں متغیر، منتِنٌ اور اِملس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہوگئی ہو۔ دوسرے معنی ہیں: مُصَوَّر، اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۰۴)
ان تصریحات سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسانِ اوّل کا تخلیقی مادہ ایسی مٹی ہے جس کے ذرّات انتہائی باریک اور باہم متصل ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ہوا نہیں ہوتی بلکہ پانی کی پَتلی تہہ ہوتی ہے جس کے باعث ذرّات آپس میں چپک جاتے ہیں۔ پھر اس مٹی میں نامیاتی کیمیاوی مادّے ہوتے ہیں۔ یہ مادے مُردہ حیوانی اور نباتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں اور مٹی میں موجود زندہ بیکٹیریا کے باعث سڑتے اور گلتے ہیں۔ ان میں کیمیاوی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے مٹی میں لیس، چپک، سڑاند، یعنی بو پیدا ہوجاتی ہے اور مٹی سیاہی مائل ہوجاتی ہے۔ یہ مٹی کسی بھی قالب میں ڈھالنے کے لیے عمدہ ہوتی ہے اور سوکھ کر ٹھیکرے کی طرح بجتی ہے۔ اس قسم کی مٹی کی عمدہ قسم کا اُس جنت میں پایا جانا جہاں انسانِ اوّل کی تخلیق کی گئی، زیادہ قرین قیاس ہے۔
اچھی صورت، متناسب جسم، اور بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اعلیٰ درجے کی ساخت پر تخلیق کیا گیا ہے جس پر کسی اور جان دار مخلوق کو نہیں بنایا گیا۔ اسے، یعنی انسان کو فکروفہم اور عقل کی وہ بلندپایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دی گئیں۔ سیدھا قامت یا کھڑا قد اور اس کے ساتھ مناسب اور متناسب ترین پائوں اور ہاتھ دیے گئے ہیں جن کے باعث وہ سیدھاکھڑے ہوکر چلتا پھرتا ہے اور توازن قائم رکھتا ہے، جب کہ کوئی حیوان سیدھا دوقدم بھی نہیں چل سکتا۔ اس کو بولتی ہوئی زبان دی گئی ہے، جب کہ کوئی حیوان دو لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ خوب صورت آنکھیں، ناک اور کان عطا ہوئے ہیں جو سب اسے ماحول سے ہم آہنگی پیدا کرنے، توازن قائم کرنے اور اپنی ضروریات تلاش کرنے میں مددگار ہیں۔ اس کو سوچنے، سمجھنے اور معلومات جمع کرنے، ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ دماغ دیا گیا ہے۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوتِ تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور بُرائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ اس کو ایک قوتِ فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہِ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششؤں کو کس راستے پر لگائے اور کس پر نہ لگائے۔ اس کو یہاں تک آزادی دی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کردے یا جن جن کو چاہے اپنا رب بنابیٹھے، یا جسے رب مانتا ہو اس کے خلاف بغاوت کرنا چاہے تو کرگزرے۔ ان ساری قوتوں اور سارے اختیارات کے ساتھ اُسے اللہ نے اپنی پیدا کردہ بے شمار مخلوقات پر تصرف کرنے کا اختیار دیا ہے اور وہ عملاً اس اختیار کو استعمال بھی کرتا ہے۔
انسانی جسم یا قالب عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے اتفاقاً نہیں بن گیا ہے بلکہ ایک خداے حکیم و دانا نے اسے مکمل صورت میں ترکیب دیا ہے یعنی ’نِک سُک‘ سے درست کیا، تناسب قائم کیا اور جس طرح چاہا جوڑ کر تیار کردیا۔ یہ جسم یا قالب دودھ پلانے والے (دودھیلے) جانور اور انسان سے کس قدر مشابہ، حیوانات مثلاً بندر، لنگور، گوریلا، بن مانس وغیرہ سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔ مثلاً جسم کے تمام حصے ڈھانچا، ہاضمہ، دورانِ خون کا نظام، عضلات، اعصاب اور نظام تولید وغیرہ___ سب حیوانات سے مماثل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علمِ حیوانیات میں انسان دودھیلے حیوانات کی ہومو(Homo) نام کی ایک جنس (نوع) شمار ہوتا اور اس کا نام ہومو سیپینس (Homo Sepians) ہے۔ یہی نکتہ ہے جس کی بنا پر حامیین حیاتی ارتقا منطقی دلیل قائم کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ انسان اور یہ دودھیلے حیوانات مماثل ہیں؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس مماثلت کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے کہ انسان حیاتی ارتقا کے اصول پر حیوانات سے ترقی پاکر بنا ہے۔
دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور حیوانات کی یہی مماثلت وہ نکتہ ہے جس پر غوروفکر کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان اور حیوانات دونوں ہی کو اللہ حکیم و علیم نے تخلیق کیا ہے۔ لہٰذا دونوں میں مماثلت اور مشابہت ہونا فطری اور لازمی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک ماہر سنگ تراش کے تراشے ہوئے مختلف مجسمے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود اپنے اندر ایسی بنیادی مشابہتیں رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر مجسمہ سازی میں درک رکھنے والے پہچان لیتے ہیں کہ یہ سارے مجسمے کسی ایک ہی مجسمہ ساز کے تراشے ہوئے ہیں۔ یہ منطقی حقیقت اردگرد کے سارے ماحول میں رچی بسی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سادہ سے منطقی حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ سواے اس بات کہ سائنس پرست وجودِ باریِ تعالیٰ کو تسلیم کرنے میں نفسیاتی اور روایتی مخالفت پر کمربستہ ہیں جو انسانی شرف کو قبول کرنے میں مانع ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو انسان ہونے اور اُس کا خلیفہ فی الارض ہونے کے بہت بڑے شرف سے نوازتا ہے مگر یہ سائنسی بوجھ بجھکڑ اس کو اس شرف سے نیچے گرا کر ترقی یافتہ حیوان بنا دیتے ہیں۔
اس بارے میں مولانا مودودیؒ سورئہ سجدہ، حاشیہ ۱۶ میں رقم طراز ہیں: ’’روح سے مراد محض زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذیِ حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکروشعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحب ِ شخصیت ہستی، صاحب اَنا پرستی اور حامل خلافت ہستی بنتاہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی مِلک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہوکر اس کی چیز کہلاتی ہے۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کا پرتو ہیں۔ ان کا سرچشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے۔ اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۴،ص ۴۱)
یہی وہ روح ہے جسے موت کے وقت فرشتے کسی انسان کے جسم سے نکال لے جاتے ہیں۔ یہ روح انسان کے قالب میں اللہ تعالیٰ نے پھونکی۔ اس کی تفصیلات کے بارے میں قرآنِ حکیم خاموش ہے۔ غالباً یہ کام بھی حکم ربی ’کن‘ کے تحت ہی انجام پایا۔ واللہ اعلم!
ابلیس نے اپنے آگ سے تخلیق ہونے پر بڑائی دکھائی اور نہ صرف اللہ رب العزت پر الزام تراشی بھی کی کہ ’’تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے‘‘ حالانکہ وہ خود اپنے نفس کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا تھا اور اللہ کی اطاعت سے نکل گیا اور ذلت میں گرگیا۔ اس بنا پر اللہ احکم الحاکمین نے اُس کو اور اس کے گروہ کو نیچے زمین پر اُتر جانے کا حکم دیا۔ اس انتباہ کے ساتھ کہ ’’یقین رکھ کہ ان (انسانوں) میں سے جو تیری پیروی کریں گے تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا‘‘۔
جنات کون ہیں؟ کرۂ ارضی پر جنات بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان کو اللہ نے آگ کی لپٹ سے، انسان کی تخلیق سے بہت پہلے پیدا کیا۔ جِنّ انسانوں کو نظر نہیں آتے مگر وہ ان کو دیکھتے ہیں۔ یہ انسانی آبادیوں سے دُور سنسان جگہوں پر رہتے ہیں۔ بعض جنات اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض اللہ اور اس کے احکامات سے رُوگردان بھی ہیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جو اللہ کے سیدھے راستے سے انسانوں کو روکتا ہے اور دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ اس گروہ کے افراد شیطان کہلاتے ہیں۔
ابلیس، آدم ؑکی گھات میں تھا۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے وہ آدم ؑ و حواؑ دونوں کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا کہ :’’تمھارے رب نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جائو یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے اور اُس نے قَسم کھاکر ان سے کہا کہ میں تمھارا سچا خیرخواہ ہوں۔ آخرکار دونوں کو دھوکا دے کر اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرکار جب انھوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکے لگے۔ تب ان کے رب نے انھیں پکارا: ’’کیا میں نے تمھیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے؟‘‘ دونوں بول اُٹھے: ’’اے رب! ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘ (اعراف ۷:۲۰-۲۳)۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، تمھارے لیے ایک خاص مدت تک زمین میں ہی جاے قرار ہے اور سامانِ زیست ہے‘‘ اور فرمایا: ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اس میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا‘‘ (اعراف ۷:۲۴-۲۵)
lآدمؑ و حواؑ اور ابلیس کا زمین پر اُتارا جانا: اللہ احکم الحاکمین نے آدمؑ و حواؑ اور شیطان کو جنت سے کرئہ ارضی سے اُتر جانے کا حکم صادر کیا اور پھر وہ لوگ زمین پر اُتار دیے گئے اس تنبیہہ کے ساتھ ’’تمھارے بعض بعض کے دشمن ہیں (بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ) ،اور اس ہدایت کے ساتھ کہ ’’جب تمھیں میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو میری اس ہدایت پر چلا، نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جنھوں نے میری آیات کو جھٹلایا وہی دوزخ والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۸-۲۹)
حکم عدولی کے نتیجے میں، ان کے ستر ڈھانکنے کا جو انتظام کیا تھا وہ بکھر گیا۔ اب جنت کے درختوں کے پتوں سے انھوں نے اپنی سترپوشی کی۔ یہ واقعہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ انسان جب بھی کسی معاملے میں اللہ رب العزت کے حکم کی نافرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا۔ انسان کے ساتھ اللہ کی تائید و حمایت اس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ کا مطیع فرمان ہے۔ طاعت کی حدود سے قدم باہر نکالتے ہی اُسے اللہ کی تائید و حمایت ہرگز حاصل نہ ہوگی، بلکہ وہ اپنے نفس کے حوالے کردیا جائے گا۔ انسان نے شیطان سے پہلی شکست ستر کے برہنہ ہوجانے کے مسئلے پر کھائی اور آج بھی کارگاہِ حیات میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ شیطان اور اس کی ذُریت کی پوری کوشش ہے کہ مختلف ذرائع استعمال کرکے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے سامنے برہنہ یا نیم برہنہ کردے اور اس کو ’روشن خیالی‘ یا ’تہذیب جدید‘ قرار دے کر انسان کو روشن خیال یا ترقی یافتہ ثابت کردے۔
آدمؑ و حواؑ کو جنت سے نکالا ضرور مگر سزا کے طور پر نہیں بلکہ مزید آزمایش و امتحان کے لیے، اس لیے کہ دونوں نے فوراً ہی اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اللہ رب العزت سے معافی کے خواستگار ہوئے اور اللہ نے ان دونوں کو معاف بھی کردیا۔ آدمؑ و حواؑ اپنے رب کی فرماں برداری میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے اور انسان کی یہ کمزوری ظاہر ہوگئی کہ وہ اپنے دوست نما دشمن کے فریب میں آکر اطاعت سے رُوگردانی کرسکتا ہے۔ پھر انسان نے عجزوانکسار اختیار کیا، اللہ کے حضور اپنی بڑائی اور گھمنڈ نہیں دکھایا۔ اس اعتبار سے انسان شیطان سے افضل قرار پایا، جب کہ شیطان نے اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اللہ رب العزت پر الزام تراشی بھی کی۔
lزمین کی آرایش و زیبایش:کرئہ ارض کو انسان کی رہایش کے قابل بنانا بھی انسان کی تخلیق کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ انسان کی تخلیق سے بہت پہلے یہ کام شروع ہوچکا تھا۔ سورئہ حج آیت ۶۲ بتاتی ہے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس (اللہ) نے وہ سب کچھ تمھارے لیے مسخر کررکھا ہے جو زمین میں ہے‘‘۔ سورئہ طٰہٰ آیت ۵۳ بیان کرتی ہے: ’’ہم نے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں تمھارے لیے راستے بنائے اور اُوپر سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعے قسم قسم کی پیداوار نکالی‘‘۔ سورئہ زمر آیت۶ بتاتی ہے: ’’اُس (اللہ) نے تمھارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر اور مادہ پیدا کیے‘‘۔ اور سورئہ نمل آیت۶۱ میں کہا گیا ہے: ’’اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جاے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑدیں؟‘‘
یہاں مولانا مودودیؒ کا یہ طویل اقتباس شافی ہوگا: ’’زمین کا اپنی بے حدوحساب مختلف النوع آبادی کے لیے جاے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔ اس کرئہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے، ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اُسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادرِ مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہوسکتی تھیں۔ یہ کرہ فضاے بسیط میں معلق ہے، کسی چیز پر ٹکا ہوا نہیں ہے، مگراس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا، جس کے خطرناک نتائج کا ہم کبھی زلزلہ آجانے سے بہ آسانی لگاسکتے ہیں، تو یہاں کوئی بھی آبادی ممکن نہ تھی۔ یہ کرہ باقاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے آتا اور چھپتا ہے جس سے رات اور دن کا اختلاف رُونما ہوتا ہے۔ اگر اس کا ایک ہی رُخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا ہروقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رُخ کو سردی اور بے نوری نباتات اور حیوانات کی پیدایش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رُخ کو گرمی کی شدت بے آب و گیاہ اور غیرآباد بنا دیتی۔ اس کرہ پر ۵۰۰ میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردّا چڑھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوف ناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے، ورنہ روزانہ ۲ کروڑ شہاب جو ۳۰میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں یہاں وہ تباہی مچاتے کہ کوئی انسان، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا۔ یہی ہوا درجۂ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے۔ یہی سمندروں سے بادل اُٹھاتی اور زمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں [آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ] فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جاے قرار نہ بن سکتی ۔
اس کُرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزا بڑے پیمانے پر فراہم کردیے گئے ہیں جو نباتی، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں۔ جس جگہ بھی یہ سروسامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو سہارنے کے لائق نہیں ہوتی۔ اس کُرے پر سمندروں، دریائوں، جھیلوں،چشموں اور زیرزمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کردیا گیا ہے اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان نہ تھا۔ پھر اس پانی، ہوا اور تمام اُن اشیا کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں، سمیٹے رکھنے کے لیے اس کُرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے۔ یہ کشش اگر کم ہوتی ہو تو ہوا اور پانی، دونوں کو نہ روک سکتی اور درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہوجاتی۔یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہوجاتی، اس کا دبائو بڑھ جاتا، بخارات آبی کا اُٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہوسکتیں، سردی زیادہ ہوتی، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے بلکہ کشش ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت میں انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی۔ علاوہ بریں، اس کُرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو [انسانی، حیوانی اور نباتاتی] آبادی کے لیے مناسب ترین ہے۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی، سردی بہت زیادہ ہوتی، موسم بہت لمبے ہوتے اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا، اور اگر فاصلہ کم ہوتا اس کے برعکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں۔
یہ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جاے قرار بنی ہے۔ کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان اُمور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہ یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثے کے نتیجے میں خودبخود قائم ہوگئی ہیں، اور نہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور رُوبہ عمل لانے میں کسی دیوی، دیوتا، یا جن یا نبی و ولی ، یا فرشتے کا کوئی دخل ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۵۹۰-۵۹۲)
lکرۂ خاکی پر نسلِ انسانی کی تخلیق:آدمؑ اور حواؑ کو زمین پر اُتارنے کے بعد اور زمین کو ان کا مامن اور مسکن قرار دینے کے بعد مرد اور عورت کے نطفوں کے ملاپ کو انسان کی پیدایش کا طریقہ قرار دیا۔ یہ طریقہ نسلِ انسانی کو قائم رکھنے، ترقی دینے اور زمین پر پھیلانے اور بسانے کی غرض سے جاری فرمایا۔ سورئہ مومن آیت ۴ میں بیان ہے: ’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے‘‘۔ اس کی مزید تشریح سورئہ دھر’ آیت۳ میں یوں کی گئی کہ: ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا‘‘ اور ’’مزید یہ کہ ’’اور اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمھیں بیٹے اور پوتے عطا کیے‘‘۔ (النحل ۱۶:۷۲)
اس عنوان پر بہت سی اور آیات ہیں مگر درج ذیل قابلِ غور ہیں: ۱-’’پھر اس کی (انسان کی) نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے‘‘ (السجدہ ۳۲:۷-۹)۔۲- ’’پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو اسے ایک خفیف ساحمل رہ گیاجسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی‘‘ (اعراف ۷:۱۸۹)۔۳-’’کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں‘‘ (القیامۃ ۷۵: ۳۷-۳۹)۔ مرد اور عورت کے ملنے والے نطفوں سے انسان کے بنانے کی تفصیل سورئہ حج، آیات ۵-۶ میں درج ہے۔
انسان کی تخلیق اوّل سے قبل اس کرئہ خاکی پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسری اور بھی زندہ مخلوق، یعنی نباتات اور حیوانات پیدا کی۔ ان کی بعض انواع پیدا بھی کی گئیں اور معدوم بھی کردی گئیں، مگر نوع زوج زوج، یعنی نر اور مادہ کی صورت میں پیدا کی گئیں۔ اس لیے کہ ان سب کی نسلی افزایش مقصود تھی۔ قرآن حکیم میں اس بارے میں بیان ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیا کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس، یعنی نوعِ انسانی میں یا ان اشیا میں جن کو یہ جانتے تک نہیں‘‘ (یٰسٓ ۳۶:۳۶)
کرئہ خاکی پر ہر انسان ایک خاص مدت تک زندگی گزارے گا۔ زندگی گزارنے کے لیے اپنے اختیار سے یا تووہ طریقہ اختیار کرے گا جو اس کے رب نے پیغمبروں کے ذریعے اس تک پہنچایا ہے یا وہ طریقہ اختیار کرے گا جو رب کے بتائے ہوئے طریقے کے بجاے کوئی اور طریقہ ہے۔ بس یہی انسان کی مدت ہے اور ہر انسان کے امتحان کی مدت مختلف ہے۔ اس مدت کے اختتام پر ہرانسان پر موت واقع ہوگی اور اس کے جسم سے اللہ کی پھونکی جانے والی روح نکال لی جائے گی اور مُردہ جسم سپردِ خاک کر دیا جائے گا۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ پھر ایک مدت بعد اسی خاک سے اس کو اپنی اصلی حالت میں اُٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ فی الحقیقت یہ ہرانسان کی دوسری پیدایش ہے۔ اس وقت بھی اسے رب العزت ہی تخلیق فرمائے گا۔ اس بارے میں قرآنِ حکیم میں سورئہ نوح آیت ۱۷ میں یہ شہادت موجود ہے: ’’پھر وہ (اللہ) تمھیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا‘‘۔ سورئہ طٰہٰ، آیت ۵۵ میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ’’اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکال لیں گے‘‘۔
۱۱ جنوری ۲۰۱۳ء کو شمال مغربی افریقہ کے ملک ’مالی‘ کے شمالی علاقے میں فرانس نے اسلامی جہادی قوتوں کے خلاف اپنی زمینی فوجیں اُتار دیں اور بے تحاشا بم باری کی۔ گذشتہ سال، اپریل ۲۰۱۲ء میں مالی کے شمالی حصے میں جہادی قبائل جنوب کی مرکزی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے ملک کے ۶۰ فی صد حصے پر قابض ہوگئے اور ۶؍اپریل کو ’مملکت ازداد‘ کے قیام و آزادی کا اعلان کردیا۔ اس مملکت میں اہم شہر ٹمبکٹو،کدار اور مویٹی شامل ہیں۔ مجاہدین نے جنوب میں بھی مزید علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح اہم شہر ’کونا‘ اور چاول کے کھیتوں اور ماہی گیروں کی کشتیوں سے گھرے شہر ڈایا بیلی پر بھی ۱۴جنوری کو قبضہ کرلیا۔ یہ شہر مرکزی محلِ وقوع کا حامل ہے اور ملک کے کئی اہم راستوں کے سنگم پر واقع ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق فرانس نے یہ علاقہ خالی کروا لیا ہے۔
مالی کسی زمانے میں اسلامی تہذیب کا ایک روشن ستارہ ہوا کرتا تھا۔ حالیہ مسلح کارروائیوں کے سبب باقاعدہ جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔شمالی مالی کا اہم جہادی گروپ ’انصارالدین‘ہے جو مالی کو ’اسلامی امارت‘ بنانا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک اور گروپ ’لبرل گروپ‘ ہے جس نے مرکزی حکومت سے آزادی کے اعلان سے قطع تعلق کا اعلان کیا ہے۔ وہ پہلے اعلانِ آزادی میں اسلامی قوتوں کے ساتھ تھا۔ انصارالدین کے کمانڈر عمر نے اعلان کیا ہے کہ’ ’ہماری جنگ اسلامی اصولوں کے مطابق لڑی جائے گی۔ ہم بغاوت اور علیحدگی کی تحریک کے خلاف ہیں۔ ہم اس انقلاب کے خلاف ہیں جو اسلام کے مطابق نہ ہو۔ ہم اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں‘‘۔
مالی شمال مغربی افریقہ میں صحارا کے ریگستان میں ایک مسلمان مملکت ہے۔ اس کی آبادی ایک کروڑ ۴۵لاکھ ۱۸ہزار سے زائد ہے، جب کہ رقبہ ۱۲لاکھ ۴۰ہزارایک سو۹۲ مربع کلومیٹر ہے۔ ۸۰ فی صدآبادی مسلمان ہے جو مختلف قبائل پر مشتمل ہے۔ ۲ فی صد عیسائی ہیں، جب کہ ۱۸ فی صد مظاہرپرست ہیں۔ دارالحکومت ’باما کو‘ جنوبی علاقے کا بڑا شہر ہے۔ ملک معدنی ذخائر سے مالامال ہے، خصوصاً یورینیم کے ذخائر بڑے پیمانے پر موجود ہیں جن پر بیرونی قوتوں کی للچائی نگاہ ہے۔ ’اتحاد افریقی علما‘ نام کی ایک تنظیم کے مطابق ’حکومت مخالف مسلح تنظیمیں‘ دو طرح کی ہیں۔ ایک قومی تحریک براے آزادیِ اَزداد ہے جو علاقے میں ایک خودمختار سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے نقاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے والی مسلح تحریکیں ہیں جن میں دو گروہ ہیں: ۱- انصار الدین نامی گروہ سب سے بڑا گروہ ہے، ۲-تحریک توحید و جہاد ہے، اس میں مالی کے علاوہ موریطانیہ اور الجزائر کے نوجوان بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ آخر الذکر کو القاعدہ سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔
۱۹۶۰ء میں مالی کو فرانس کی استعماری حکومت سے آزادی ملی۔ جاتے جاتے فرانس نے اپنے گماشتوں کی حکومت قائم کردی۔ تب سے اب تک ملک میں کئی فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں اور اَزداد کی علیحدگی کی اب یہ چوتھی بڑی کاوش ہے جہاں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
جب سے مالی میں موجودہ صورت حال نے جنم لیا ہے، قدرتی طور پر فرانس پر وحشت طاری ہے کیونکہ وہاں اس کے مفادات خطرے میں ہیں، لہٰذا اس نے واویلا شروع کر دیا ہے۔ اپنے یورپی ہمسایوں، امریکا اور اقوامِ متحدہ کو دہائی دے رہا ہے۔انسانی حقوق کی انجمنوں کو توجہ دلارہا ہے۔ افریقی ممالک کی یونین (ECOWAS) سے مدد کی درخواست کی گئی ہے کہ اس ’خطرے‘ سے نبٹا جائے۔ افریقی ممالک کی یونین خصوصاً نائیجیریا نے اپنی فوجیں جلد بھیجنے کی حامی بھرلی ہے۔ ٹوگو اور نائیجیریا سے کچھ فوجی بھی پہنچ گئے ہیں۔ ۱۶۰۰ فوجی نائیجر میں موجود ہیں۔
فرانس نے گذشتہ سال اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک قرارداد منظور کرائی جس کا مقصد مالی میں شمالی علاقوں سے باغیوں کا قبضہ ختم کرانا اور افریقی اتحاد کی افواج کو وہاں تعینات کرنا تھا۔ لیکن جب افریقی اتحاد کی فوج کو مالی میں کارروائی کے حوالے سے دیر ہوئی تو فرانس نے اپنی زمینی فوجیں اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر مالی کے شمالی حصے میں اُتار دی ہیں، تقریباً ۱۹۰۰ فوجی۔ ان فوجیوں نے فوجی کارروائی شروع کردی ہے اور فوجی طیاروں سے بم باری کی جارہی ہے۔ اس کے باوجود وہ اب تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں مجاہدین مارے گئے ہیں اور انھوں نے علاقے کو چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ قبائل نے فرانس کے فوجیوں کا ہاتھ ہلاہلا کر استقبال بھی کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ہے کہ بڑی سخت مزاحمت ہے اور مجاہدین اپنے محفوظ ٹھکانوں سے حملہ آورہورہے ہیں۔
فرانس نے امریکا اور دوسرے ممالک کو متوجہ کرنے کے لیے یہ شوشہ بھی چھوڑا ہے کہ القاعدہ کا ایک گروپ جو لیبیا میں برسرِپیکار تھا وہ وہاں سے فارغ ہوکر مالی مجاہدین کی مدد کو آپہنچا ہے۔ لیکن امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری لیون ہرپینٹ نے کہا ہے کہ القاعدہ کے حوالے سے ہمارا اصل ہدف یمن اور صومالیہ ہیں جہاں القاعدہ کے مراکز ہیں۔ ابھی القاعدہ نے مالی یا شمالی افریقہ میں کوئی مرکزقائم نہیں کیا ہے۔ ہماری مدد فنی نوعیت کی ہی ہوگی۔ پھر یہ کوشش بھی ہے کہ نائیجیریا کے بوکوحرام نامی مسلمان مجاہدین کو اس قضیے میں ملوث قرار دیا جا رہا ہے۔
برطانیہ کے لیے مالی کے حالات پریشان کن ہیں۔ اس نے فرانس کی فوجی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ حکومت برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ اخلاقی مدد فراہم کرے گی، یعنی محدود پیمانے پر لاجسٹک مدد جو دو بڑے RAF C-17 جنگی ٹرانسپورٹ جہازوں پر مشتمل ہوگی اور چند تکنیکی فوجی ماہرین ان کی حفاظت کے لیے ساتھ ہوں گے۔ اسی طرح کی حمایت کا اعلان کناڈا کی حکومت نے بھی کیا ہے۔ یورپی یونین کئی ہزار فوجی جوانوں پر مشتمل قافلہ آیندہ چند ہفتوں میں روانہ کرے گا۔
فرانس کی فوجی مداخلت اور دوسری کارروائیوں کے باعث مالی کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ فرانس نے ناٹو سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ مالی کے حالات کے پیش نظر وہاں فوجی کارروائی کرے، جب کہ خود فرانس ناٹو کی فوجوں سے علیحدہ ہوکر افغانستان سے بھاگ کھڑا ہوا ہے۔
فرانس اور مغربی دنیا مالی کے مجاہدین کو ’مسلم شدت پسند‘ اور ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ ’شدت پسند‘ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مجاہدین کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے کہ مالی کے مختلف مذہبی اور غیرمذہبی گروپوں کو آپس میں اُلجھا دیا جائے۔ لہٰذا آزاد خیال گروپ کو ان سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مغربی افریقہ میں چونکہ صوفیت کے بڑے اثرات ہیں، ان کی چھوٹی بڑی خانقاہیں، درگاہیں اور ذکروفکر کے مراکز ہیں، ان کو بھی ورغلایا جارہا ہے اور ساتھ ہی قدامت پسندوں کو بھی اُبھارا جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی دنیا بنیادی طور پر صہیونیوں کے زیراثر ہے، اور صلیبی جنگ کے حوالے سے بھی پُرامن اسلامی شریعت کے نفاذ کو ہرحال میں روکنا چاہتی ہے۔ گویا یہ ساری کوششیں اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر اور اسلام کے غلبے کو روکنے کے لیے ہیں۔
جنوبی مالی کو بچانے اور مجاہدین کا زور توڑنے کے ابتدائی مقصد کے حوالے سے فرانسیسی فوجوں کی کارروائی اب تک کی اطلاعات کے مطابق کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ افریقی ممالک، یورپی یونین، برطانیہ اور امریکا ، کناڈا، ڈنمارک سے مختلف نوعیت کی مدد پہنچنا شروع ہوچکی ہے۔ پھر فرانسیسیوں کا خیال ہے کہ چونکہ مالی کے دیہی علاقوں میں جہادیوں نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے اس لیے ممکن ہے کہ بہت سے شہری ان سے انتقام لینے کے معاملے میں فرانس کی فوجوں سے مدد لیں۔ ان حالات کے پیش نظر فرانس کے وزیرخارجہ لارینٹ جنیس کا کہنا ہے کہ مالی میں فرانسیسی فوجی کارروائی چند ہفتوں کامعاملہ ہے لیکن دی اکانومسٹ نے اپنے ۲۶جنوری کے شمارے میں راے ظاہر کی ہے ’’مگر ایسا لگتا نہیں ہے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ مالی میں حقیقی استحکام پیدا کرنے میں مزید کچھ وقت لگ جائے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فرانس ناٹو افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان کے ’میدانِ جہاد‘ کو چھوڑ بھاگا تھا تو مالی کے میدان سے بھی رفوچکر ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک بارش بھی ہے۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہر قدرت میں سے ہرچیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستور ہے۔ کہیں معجزاتِ رسولؐ کو آیت کہا گیا ہے اور کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیت کہا گیا ہے۔ بارش چونکہ مظاہر قدرت میں سے ہے، لہٰذا یہ بھی اللہ کی آیت یا نشانی ہوئی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ، بہت سی آیات میں عالمِ بالا سے کرۂ ارض پر بارش برسانے کا ذکر فرماتا ہے اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے: اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً (الزمر ۳۹:۲۱)’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا‘‘۔ کہیں بادلوں سے پانی کے برسنے کا بیان ہے: اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o (الواقعہ ۵۶:۶۸-۶۹) ’’یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟‘‘وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا o لِّنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا o وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا o (النبا ۷۸:۱۴-۱۶) ’’اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعے سے غلّہ اور سبزی اور گھنے باغ اُگائیں‘‘۔بعض آیات میں آسمان سے رزق نازل کرنے کا بیان ہے: وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ (الجاثیہ ۴۵:۵) ’’اور اُس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو جلا اُٹھاتا ہے‘‘۔
کرۂ ارض پر موجود پانی کو اللہ تعالیٰ بخارات میں تبدیل فرماتا ہے، جو بادلوں کی صورت ہوا کے دوش پر آسمان (عالمِ بالا) کی طرف سفر کرتے ہیں اور جہاں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے پھیلا دیے جاتے ہیں اور زمین کے اُوپر ایک خاص فاصلے پر پہنچ کر بالعموم پانی کی بوندوں کی شکل میں زمین ہی پر برس پڑتے ہیں۔ بعض اوقات اولوں اور برف کے گالوں کی صورت میں بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بڑے خوش کن اور خوب صورت پیرایے میں بادلوں کے بننے اور ان سے پانی کے برسنے کو بیان فرماتا ہے:
کرۂ ارض پر موجود پانی سمندر، دریا، جھیلوں کی کھلی سطح، زمین کے مسام ، دودھیلے حیوانات (میملز) کی جلد پر موجود مسام اور درختوں اور پودوں کے پتوں پر ننھے ننھے سوراخوں سے ___ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کھلا ماحول، اس میں ہوا کی گردش اور ماحول کا درجۂ حرارت ہے اور یہ سورج کی تپش کا نتیجہ ہے۔ حکمت الٰہیہ کے تحت بخارات ہوا کے دوش پر عالمِ بالا کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ دراصل یہی بخارات بادل ہیں اور ان کی مقدار بادلوں کو گہرا یا ہلکا بناتی ہے۔ سمندر کی سطح سے ان بخارات کے ساتھ نمک کے نہایت مہین ذرات بھی بادلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ بادل جلد ہی ننھی آبی بوندوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بخارات کا پانی کسی بھی ننھے سے نمک کے ذرّے کے گرد جمع ہوجاتا ہے یا پھر کائناتی دھول کے ننھے سے ذرے کے گرد جمع ہوتا ہے۔ یہ کائناتی دھول کیا ہے اور اس کے ذرات کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک پردئہ اخفا میں ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک کیوبک سنٹی میٹر رقبے میں ۵۰-۵۰۰ ننھی آبی بوندیں ہوتی ہیں۔ پھر یہ بوندیں بارش کی شکل میں برسنے والی بوندوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہ کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی ابھی تحقیق طلب ہے۔ دو سائنس دانوں برگیرون اور فنڈیسن (Bergeron اور Findeisen) نے ۱۹۵۰ء میں مذکورہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جب بارش برستی ہے تو یہ ننھی آبی بوندیں، یعنی ایک مرکز کے گرد جمع شدہ پانی، عالمِ بالا سے زمین کی طرف جیسے جیسے گرتی ہیں تو ہر بوند پھیلتی ہے اور اس کی سطح کا رقبہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باعث آبی بوند کے گرنے کی رفتار ہوا کی رکاوٹ کے باعث کم ہوجاتی ہے اور بوند نہایت آہستگی سے زمین پر اس طرح گرتی ہے جیسے کسی پیراشوٹ کے ذریعے اُتری ہو، ورنہ بغیر رکاوٹ کے عالمِ بالا سے برسنے والی بوندیں زمینی مخلوق کا زندہ رہنا مشکل بنا دیں۔ یہ سب اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔
بارش کے برسنے کے موضوع پر مزید انسانی تحقیقات کے نتیجے میں اور بھی توجیہات سامنے آئیں گی، مگر بنیادی حقیقت وہی ہے جسے قرآنِ حکیم میں بیان کیا گیا ہے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا‘‘ (الزمر ۳۹:۲۱)۔ گویا اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی ہے، وہی اس کا مالک و آقا ہے اور اُس نے کرئہ ارض پر بارش برسانے کا نظام قائم کیا ہے۔ اس کے قوانین بنائے ہیں اور اس کے ذریعے زمین پر اپنی مخلوقات کے لیے رزق کے بہم پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ ان قوانین اور اس نظام کے معلوم کرنے کے لیے جدوجہد کرے اور صرف اور صرف اللہ کی کبریائی بیان کرے اور فرشتوں کی طرح اس کی تسبیح بیان کرے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے۔ کسی فرشتے یا جِنّ یا انسان یا مٹی اور پتھر کے بنے بتوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ یہ کام کرسکیں۔ لہٰذا بارش برسنے کا عمل انسان سے خداے واحد پر ایمان کا متقاضی ہے۔
اس حوالے سے زمین پر بارش کے اثرات کے سلسلے میں پانی، ہوا، ماحول کی تپش، مٹی اور اس میں موجود زندہ اور مُردہ اجزا وغیرہ اہم ہیں۔
پانی ایک بے رنگ، بے ذائقہ مگر فرحت بخش ، بے بو، شفاف اور پتلا مائع ہے۔ اس کی اپنی کوئی شکل نہیں۔ جس برتن میں ڈالیں اس کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اُوپر سے نیچے کی طرف بڑی تیزرفتاری سے بہتا ہے اور بہنے کے دوران توانائی پیدا کرلیتا ہے۔ پانی کی اس توانائی کو انسان نے آبی بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اسی مقصد کے لیے بڑے چھوٹے آبی ذخائر بنائے جاتے ہیں۔ سورج کی شعاع جب پانی کی بوند سے گزرتی ہے تو سات رنگوں میں منتشر ہوکر قوسِ قزح بناتی ہے جس کو بالعموم بارش کے بعد آسمان کے ایک جانب سات خوب صورت رنگوں کے قوس میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کرۂ ارض کا ۴/۳ حصہ پانی ہے۔ اصل ذخیرہ تو سمندروں میں ہے جہاں کُل پانی کا ۹۷فی صد ہوتا ہے، یعنی کل ۳ فی صد میٹھا پانی ہے جو دریا ، جھیل، تالاب اور کنوؤں میں ہوتا ہے۔ زمین کی اُوپر کی سطح کے نیچے جذب شدہ پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے اور پودوں اور حیوانات کے جسموں میں بھی ایک خاص مقدار ہوتی ہے۔ سارے ہی زندہ حیات کے جسموں میں پانی ایک انتہائی اہم جز ہے۔ انسان کے جسم میں ہر وقت ۴۰ تا ۵۰ لٹر پانی موجود ہوتا ہے، یعنی انسان کی جسامت کا ۶۰ تا ۷۰ فی صد۔ پانی کی اہمیت اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب پیاس لگتی ہے۔ انسان اور دوسرے جان داروں میں ایک خاص مقدار سے کم پانی موت کا پیغام ہے۔ پانی کا یہ توازن جسم کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پانی کی قدرتی خصوصیات یوں تو بے جان اور جان دار دونوں کے لیے انتہائی اہم ہیں، مگر جان داروں کے لیے تو پانی آبِ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں مختلف قسم کے مائعات پیدا فرمائے ہیں مگر طبیعی اور کیمیاوی خصوصیات کے باعث صرف پانی ہی کو زندگی کے لیے لازمۂ حیات بنایا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانی میں ایک انتہائی اہم خصوصیت پیدا فرمائی ہے، جو اللہ کے رحمن ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔ پانی منفی چار (۴-) سینٹی گریڈ تک تو دوسرے مائعات کی طرح تبدیل ہوتا ہے مگر اس سے کم درجۂ حرارت پر یہ کثیف ہونے کے بجاے لطیف ہوجاتا ہے اور پھیلتا ہے۔ پھر جب پانی برف میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ برف، مائع پانی سے وزن میں ہلکی ہوتی ہے، لہٰذا برف پانی کی سطح پر تیرتی رہتی ہے، اس کی تہہ میں نہیں بیٹھتی۔ پانی کی یہ خصوصیت اس حقیقت کی غماز ہے کہ سردیوں میں دریائوں، سمندروں اور جھیلوں کا پانی اوّلاً تو منفی چار سینٹی گریڈ تک سرد ہوجاتا ہے مگر مزید سردی میں اپنی زیریں سطح پر ٹھنڈا ہوکر برف کی صورت سخت اور وزن میں ہلکا ہوجاتا ہے اور پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ برف کے نیچے اس پانی میں آبی حیات (پودے اور حیوانات) زندہ رہتے ہیں اور معمول کی زندگی گزارتے ہیں۔
یہ بھی اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پانی دوسرے مائعات کی طرح اپنی زیریں سطح، یعنی تلی یا تہہ کی جانب سے سرد ہونا شروع نہیں کرتا، بلکہ صفر سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت پر اپنی بالائی سطح پر سرد ہونا اور برف میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے اور برف بننے کے ساتھ ساتھ پھیلتا اور ہلکا ہوجاتا ہے، لہٰذا یہ برف سطح آب پر تیرتی رہتی ہے، تہہ میں نہیں بیٹھتی ہے۔ بس سطح آب سے ایک میٹر نیچے تک اس کی دبیز چادر قائم ہوجاتی ہے، اس میں رخنے اور دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کے ذریعے آبی جانور، مثلاً سیل یا پینگوئن وغیرہ سردی سے بچنے کے لیے پانی کے اندر اُتر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ برف کی دبیز تہہ اندر کے پانی کی حرارت کو جلد باہر کی طرف خارج نہیں ہونے دیتی اور برف کی تہہ سے حرارت کا گزر بہت سُست رفتار ہوتا ہے۔ پانی کی یہ منفرد خصوصیت اور اس کے اندر آبی حیات کا سرد علاقوں اور سرد حالات میں زندگی بسر کرنا ایک ایسا لطیف توازن ہے جس کا قوانینِ فطرت کے تحت خود بخود قائم ہو جانا ناممکن ہے۔
جانوروں کے انڈے اور چھلکے یا جھلّی کے اندر بھی جنین کے گرد پانی کی ایک مخصوص مقدار پیدا کی گئی ہے۔ اس پانی میں جنین پرورش پاتا ہے اور مخصوص وقت پر جھلّی اور چھلکا توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔ یہاں بھی پانی کی غیرموجودگی جنین کے نشوونما پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ دودھیلے حیوانات کے (مثلاً گائے، بھینس، بکری وغیرہ اور انسان بھی ان میں شامل ہے) رحم میں پرورش پاتے ہوئے جنین کے گرد تین پردے ہوتے ہیں جن میں پانی بھرا ہوتا ہے اور جنین درحقیقت اس پانی میں تیرتا رہتا ہے۔ اسی کے ذریعے اپنی غذا بھی حاصل کرتا ہے اور جسم میں پیدا ہونے والے گندے مادے بھی خارج کرتا ہے اور پیدایش کے وقت اس پانی کی قوت سے اپنے مقررہ وقت پر رحم مادر سے خارج کردیا جاتا ہے۔ پرورش پانے والے جنین کے گرد پانی کی کمی یا زیادتی اس کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا یہاں بھی پانی کا موجود ہونا اور متوازن ہونا لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَo (الانبیاء ۲۱:۳۰)، ’’اور ہرزندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے‘‘۔
غور کریں کہ پانی کی یہ خصوصیات انسانی جسم کو کس طرح چاق چوبند رکھتی ہیں۔ انسانی جسم کا درجۂ حرارت بالعموم ۲۵ تا ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ اگر یہ درجۂ حرارت کسی ایک ہی درجے پر قائم ہوجائے اور طویل عرصے تک قائم رہے تو موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ایک طویل عرصے تک جسم کا درجۂ حرارت ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ پر قائم رہے تو انسان کے جسم کے اندر موجود پانی جو جسم کے افعال میں توازن قائم رکھتا ہے جس سے انسان چاق چوبند رہتا ہے، اس میں انتشار پیدا ہوجائے گا اور یہ توازن درہم برہم ہوجائے گا۔
وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ وَاِِنَّا عَلٰی ذَھَابٍم بِہٖ لَقٰدِرُوْنَo (المومنون ۲۳:۱۸)، اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا۔
وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ o (الزخرف ۴۳:۱۱)، جس نے (اللہ نے) ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اُتارا۔ اور اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو جِلا اُٹھایا۔
آسمان اور زمین، یعنی کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بیک وقت پانی کی اتنی مقدار نازل فرمائی جو قیامت تک کرئہ زمین کی ضروریات کے لیے اُس کے علم میں کافی تھی۔ وہ پانی زمین کے نشیبی حصوں میں ٹھیرگیا، جس سے سمندر اور بحرے وجود میں آئے اور زیرزمین پانی پیدا ہوا۔ اب اسی پانی کا اُلٹ پھیر (دوران) ہے جو گرمی سردی اور ہوائوں کے ذریعے ہوتا رہتا ہے۔ اسی سے بارشیں وجود پاتی اور زمین کے مختلف حصوں میں پانی پھیلایا جاتا رہتا ہے۔ یہی پانی بے شمار چیزوں کی پیدایش اور ترکیب میں استعمال ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ تو ایک قطرے کی کمی ہوتی ہے اور نہ ایک قطرہ اضافے کی ضرورت ہی پیش آتی ہے۔ ہزاروں سال سے اللہ کا قائم کیا ہوا پانی کا یہ مقداری توازن قائم ہے۔ انسان تو اس توازن میں بگاڑ پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں۔یہاں یہ حقیقت واضح رہے کہ پانی ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز، مثلاً ہوا، روشنی، گرمی، سردی، جمادات، نباتات، حیوانات، غرض ہرچیز، ہرنوع، ہرجنس اور قوت و طاقت، توانائی کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار مقرر ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے اور نہ بڑھتی ہے۔
قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَآئٍ مَّعِیْنٍ o (الملک ۶۷:۳۰) ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا تمھارے کنوؤں کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون ہے جو پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمھیں نکال کر لا دے گا۔
اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَo (الواقعہ ۵۶: ۶۸-۷۰) ’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اسے تم نے بادل سے برسایا ہے، یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بناکر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکرگزار نہیں ہوتے؟
وَّاَسْقَیْنٰـکُمْ مَّآئً فُرَاتًا o (المرسلات ۷۷:۲۷) اور تمھیں میٹھا پانی پلایا۔
بارش سے برسایا جانے والا پانی میٹھا اور پینے کے قابل ہوتا ہے۔ اگر اللہ بارش کا یہ نظام قائم نہ کرتا تو کرۂ ارض کے باسیوں کے لیے میٹھے پانی کا حصول ناممکن تھا، لہٰذا کرۂ ارض پر زندگی کا وجود ناممکن ہوتا۔ یہ صرف اللہ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے بارش کو میٹھے پانی کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے اور کرئہ ارض کی ساری مخلوق اس سے مستفید ہورہی ہے۔
سائنس دانوں کی یہ دل چسپ تحقیق ہے کہ کرۂ ارض کا سورج سے فاصلہ اور زمین کے محور کا سورج کے مدار کی سمت ۲۳ درجے کاجھکائو___ یہ دو وجوہ ہیں جن کے باعث کرۂ ارض کا درجہ حرارت ۲۰- تا ۱۲۰+ ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔ یہی وہ درجۂ حرارت ہے جس میں جان دار اپنا وجود قائم رکھتی ہے ورنہ زمین پر بھی دوسرے سیاروں کی طرح جان دار کا وجود ناممکن ہوتا۔ تپش کا یہی وہ توازن ہے جو اللہ نے زمین پر قائم رکھا ہوا ہے۔ زمین پر پہاڑ میخوں کے ذریعے مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور ایستادہ ہیں، کسی طرف لڑھک نہیں جاتے۔ اس صورت میں یہ زمین کا توازن بھی قائم رکھتے ہیں تاکہ زمین کسی ایک طرف ڈھلک نہ جائے۔ پہاڑوں کے دامن میں قدرے گرم ماحول اور بلندی پر ٹھنڈا ماحول بھی توازن قائم رکھنے میں مددگار ہے۔
سورج کی حرارت جہاں پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے وہیں ایک اور اہم کام بھی کرتی ہے۔ زمین پر موجود پودوں کے سبز پتوں میں موجود خلیوں میں موجود سبزینہ (کلوروفل) نامی کیمیاوی مادہ موجود ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی اس میں جذب ہوجاتی ہے اور اس میں موجود پانی میں، جو پودے کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوکر تنے اور شاخوں اور پتوں کی نالیوں کے ذریعے آتا ہے، اس سے اور پتوں میں موجود آکسیجن گیس کے تعامل کے ذریعے گلوکوز نامی غذا بناتی ہے۔ گلوکوز دراصل بنیادی غذا ہیجو بعد میں نشاستے میں تبدیل ہوکر پودے کے مختلف حصوں میں جمع ہوجاتا ہے۔
ہوائیں پانی کے بخارات کو جو اَب بادلوں کی صورت ہوتے ہیں، اُٹھا کر عالمِ بالا کی طرف لے جاتی ہیں۔ پھر روے زمین میں پھیلا کر اللہ کے حکم کے مطابق جہاں جتنی ضرورت ہوتی ہے پانی تقسیم کرتی (برساتی) ہیں۔ پانی کی تقسیم میں بھی توازن ہے۔ کسی بھی علاقے کی سالانہ بارش کے ریکارڈ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بارش کا سالانہ ایوریج تقریباً یکساں رہتا ہے، یا کچھ کم یا زیادہ۔ بعض علاقوں میں بڑے عرصے تک بارش نہیں ہوتی اور خشک سالی کا شکار ہوجاتے ہیں مگر پھر جب بارش ہوتی ہے تو جل تھل ہوجاتا ہے، یعنی خشک سالی کے دوران میں بارش کی کمی کا حساب برابر کردیا جاتا ہے۔ (دیکھیے: الذاریات ۵۱: ۱-۲، اور الزخرف ۴۳:۱۱)
ہوائوں کے زیراثر آسمان پر اکثر طرح طرح کی شکلوں والے بادل چھا جاتے ہیں جن میں بار بار تغیر ہوتا رہتا ہے اور کبھی کوئی ایک شکل نہ خود قائم رہتی ہے اور نہ کسی اور شکل ہی سے مشابہ ہوتی ہے۔ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ (الذاریات۵۱: ۵) ’’قسم ہے مختلف شکلوں والے آسمان کی‘‘ ۔ یہ بادل سیاہ بھی ہوتے ہیں اور سفیدی مائل بھی۔ سیاہ بادلوں میں آبی بوندوں کے باعث منفی اور مثبت برقی بار پیدا ہوجاتا ہے اور جب یہ دونوں برقی بار آپس میں ملتے ہیں تو بادلوں میں شدید گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور آسمانی بجلی کی تیزروشنی اور کڑک و چمک بھی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ اس بجلی کو بسااوقات جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے، جب کہ وہ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں، یعنی ایسے کاموں میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ ایک طرح سے یہ اللہ کا ایسے لوگوں پر تازیانہ ہے (دیکھیے: الرعد۱۳: ۱۲-۱۳)۔ یہی بجلی ہے جسے انسان نے اپنی کاوشوں سے زمین پر اُتارا ہے اور اپنے اردگرد کے تاریک ماحول کو اُجالوں میں تبدیل کرلیا ہے۔ اللہ جب کسی مقام پر آسمانی بجلی گراتا ہے تو یہ اس مقام کی ہرچیز کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔
ہوائوں کے دوش پر پانی لیے ہوئے بادل ’خوش خبری ‘ لیے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ انسان خوش ہوتا ہے کہ اب بارش ہوگی، گرمی اور حبس ختم ہوگا، زمین نرم ہوگی اور سونا اُگلے گی۔ کھیت لہلہائیں گے، فصلیں پیدا ہوں گی، غلّہ اُگے گا، باغوں میں رنگ برنگے خوش نما پھول اور مختلف اقسام کے پھل پیدا ہوں گے اور اس طرح انسان اور جانوروں کے لیے رزق کا انتظام ہوگا۔ یہ سب اللہ کی رحمت ہے جو اپنی رحمت کے آگے ہوائوں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے۔ (دیکھیے الفرقان ۲۵:۴۸-۵۰)
یہی ہوائیں اور بارش کبھی خدا کے عذاب کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہے۔ یہی بارش ہے جسے اللہ نے طوفانِ نوحؑ میں تبدیل کر دیا اور حضرت نوحؑ کی قوم چند نفوس کے علاوہ بارش کے اس طوفان میں غرق کر دی گئی:
فَفَتَحْنَـآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْہَمِرٍ o وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ o وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ o تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا ج جَزَآئً لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ o وَلَقَدْ تَّرَکْنٰھَا اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ o (القمر ۵۴: ۱۱-۱۵) تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کردیا، اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدر ہوچکا تھا، اور نوحؑ کو ہم نے ایک تختوں اور کیلوں والی پر سوار کردیا جو ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ تھا بدلہ اس شخص کی خاطر جس کی ناقدری کی گئی تھی۔ اس کشتی کو ہم نے نشانی بناکر چھوڑ دیا۔ پھر کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟
قومِ لوطؑ پر پتھر برسائے گئے جسے اللہ نے ایک قسم کی بارش سے تشبیہ دی ہے: وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَّطَرًا ج فَسَآئَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَo (النمل ۲۷:۵۸)، ’’اور برسائی ان پر ایک برسات، بہت ہی بُری برسات تھی وہ ان لوگوں کے حق میں جو متنبہ کیے جاچکے تھے‘‘۔
وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط (العنکبوت ۲۹:۶۳) اور اگر تم اِن سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے مُردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اُٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔
وَمِنْ اٰیٰـتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ط اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاھَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی ط اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۹) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سُونی پڑی ہے، پھر جوں ہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک پھبک اُٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے۔ یقینا جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے، وہ مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ یقینا وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
آسمان سے پانی برستا ہے تو خشک اور مُردہ پڑی ہوئی زمین کی مٹی کے ذرات پھول جاتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ زمین کی اس پرت یا تہہ میں موجود لاکھوں بیکٹیریا جو طویل خشک سالی کے باعث مُردہ ہوگئے تھے بارش کے پانی کے باعث ’جاگ‘ اُٹھتے ہیں۔ ان کی نسل تیزرفتاری سے بڑھتی ہے۔ اپنے جسموں میں ہوا سے نائٹروجن لے کر اس کی تالیف (synthesis) شروع کردیتے ہیں، یوں زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بارش کے پانی میں موجود ہائیڈروجن (H2) اور آکسیجن (O) آئن علیحدہ ہوجاتے ہیں، جو بیکٹیریا کے خشک شدہ جینیاتی تشخص (genetic code) اور ڈی این اے (DNA) کو فعال بنا کر نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔ لہٰذا اب یہ بیکٹیریا (مائیکروب) زندہ اور متحرک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اللہ مُردہ کو زندہ کرنے کی صورت پیدا کرتا ہے۔
مٹی میں ننھے حیوانات جو خوابیدہ حالت، یعنی زندگی اور موت کی سرحد پر ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی ان میں بھی زندگی کی جولانیاں پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح بارش کے بعد بے شمار اقسام کے رینگنے والے، دوڑنے والے اور اُڑان بھرنے والے کیڑے مکوڑے جگہ جگہ متحرک نظر آتے ہیں۔ زمین میں بارش کے باعث زندگی کی ہماہمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس طرح اللہ مُردہ پڑی زمین کو زندگی سے بھر دیتا ہے۔مٹی میں مختلف قسم کے پودوں کے بے شمار بیج اور جڑیں بھی خوابیدہ حالت میں دفن ہوتے ہیں۔ بارش کا پانی جوں ہی ان کے اندر جذب ہوتا ہے بیج کا خول نرم پڑتا ہے اور پھٹ جاتا ہے۔ بیج کے اندر کا جنین کا اکھوا نرم مٹی کو پھاڑ کر زمین کی سطح کے اُوپر نرم و نازک پتیوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور چہارطرف سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ پودوں کی خشک جڑوں پر موجود کلیاں پانی کے باعث پھوٹتی ہیں اور تازہ دم ہوجاتی ہیں۔
اس طرح اللہ ’مُردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے‘ (حم السجدہ)۔ قربِ آخرت اللہ کا حکم ملتے ہی فرشتہ صور پھونکے گا جو قربِ قیامت کا اعلان ہوگا: ’’ہول کھا جائیں گے وہ سب جو زمین و آسمان میں ہیں سواے ان لوگوں کے جن کو اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا‘‘ (النمل ۲۷:۸۷)۔ ’’وہ بس ایک دھماکا ہے جو یکایک انھیں اس حالت میں دھر لے گا جب یہ (اپنے دُنیوی معاملات میں) جھگڑ رہے ہوں گے‘‘ (یٰس ۳۶:۴۹)۔ اور ’’جو آسمانوں اور زمین میں ہیں مرکر گر جائیں گے سواے ان کے جن کو اللہ زندہ رکھنا چاہے‘‘۔(الزمر ۳۹:۶۸)۔ پھر تیسرا اور آخری صور پھونکا جائے گا جسے سنتے ہی تخلیقِ آدم، یعنی پہلے انسان سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والا ہرانسان ازسرِنو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ اسی کا نام حشر ہے۔ ’’اور سب کے سب اللہ واحد القہار کے سامنے بے نقاب ہوکر حاضر کیے جائیں گے‘‘ (ابراھیم۱۴:۴۸)۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اسی طرح ’’جس طرح اللہ مُردہ پڑی زمین کو جِلا اُٹھاتا ہے‘‘۔
اللہ کی شان ہے کہ زمین ایک ہے، زمین کے اجزا ایک ہیں، ہوا اور پانی ایک ہیں، مگر زمین کے کسی قطعے میں گیہوں کی فصل ہے تو کسی دوسرے قطعے میں دوسرے غلّے کی فصل۔ کہیں امرود کے پھل لگے ہوئے ہیں تو کہیں مسمّی اور آم کے پھل ہیں۔ پھر ایک ہی زمین سے اُگنے والے ایک ہی قسم کے پھل کوئی مزے میں بہتر ہے اور کوئی کم تر۔ ’’سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر اور کسی کو کم تر بنا دیتے ہیں‘‘ (الرعد ۱۳:۴)۔ پھر یہ سب وافر مقدار میں ہیں کہ انسان اور جانوروں کے لیے کافی ہیں مگر انسان اپنی خودغرضانہ حرکتوں سے خود بھی غذائی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بعض اوقات قحط کا عذاب اس پر مسلط ہوجاتا ہے۔
یہ بھی اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پانی ایک ہی ہوتا ہے مگر زمین کی خرابی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ غلّے کی ایک فصل پیدا ہوتی ہے تو اس کا بیج انسان کی اپنی غذا کے کام آتا ہے اور جب وہی فصل سوکھ جاتی ہے تو فصل کے پتے اور تنے اس کے جانوروں کے کام آتے ہیں۔ پھر مخصوص قسم کے پودوں کی فصل جانوروں کے لیے بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔
پودوں میں غذا کہاں سے آتی ہے؟ اللہ نے سبز پودوں میں غذا پیدا کرنے کا دل چسپ مگر پیچیدہ نظام بنایا ہے۔بارش کا پانی پودوں کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوکر شاخوں کے ذریعے پتوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ ’سبزپتے‘ کے ہرخلیے میں سبزینہ نام کا کیمیاوی مادہ ہوتا ہے جو سورج کی روشنی سے قوت حاصل کرتا ہے اور فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پتوں کے سوراخوں کے ذریعے پتے کے خلیوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اب پانی کی ہائیڈروجن اور آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کیمیاوی تعامل کرتی ہے جو سبز پتے میں موجود سورج کی روشنی کی قوت کو گلوکوز نام کے کیمیاوی شے میں منتقل کردیتا ہے۔ گلوکوز اس تعامل کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ یہ گلوکوز بعد میں نشاستے میں تبدیل ہوجاتا ہے جو ایک قوت بردار غذا ہے۔ یہ نشاستہ بیجوں، پھلوں اور جڑوں، پتوں اور شاخوں وغیرہ میں ذخیرہ ہوجاتا ہے۔ بس یہی چیز جب انسان کھاتا ہے تو پانی کے ذریعے حاصل کردہ توانائی انسان اور حیوانوں کے جسموں میں پہنچ جاتی ہے جو زندہ حیات کے اعضا کی حرکت کی بنیاد ہے۔ اگر یہ توانائی جسم میں نہ پہنچے تو جسم مُردہ ہوجائے گا۔
پانی +
کاربن ڈائی آکسائیڈ
پتّے کے سبزینے میں
گلوکوز +
آکسیجن
بارش کا پانی پودے کی جڑوں کے ذریعے پتّے میں پہنچتا ہے
فضا میں موجود ہوتی ہے اور پتّے کے سوراخوں کے ذریعے اندر آتی ہے
سورج کی روشنی سے حاصل شدہ توانائی
توانائی بردار ہے اور بطور غذا استعمال ہوتا ہے۔
گیس کی شکل میں پتّے سے باہر نکل جاتی ہے اور انسان اور حیوان کے سانس لینے میں استعمال ہوتی ہے۔
سبز پتّے کے سبزینے میں غذا کے تشکیل پانے کے عمل کا چارٹ
پھر یہی اللہ کا برسایا ہوا بارش کا پانی زمین کے اندر بہت نیچے تک نہ صرف یہ کہ جذب ہوتا ہے بلکہ زمین کے اندر سوتوں اور دریائوں کی شکل میں رہتا ہے اور کہیں کہیں چشموں اور جھیلوں کی صورت میں زمین کی سطح پر پھوٹ نکلتا ہے، ان سے انسان کو میٹھا اور شفاف پانی میسر آتا ہے۔ کنویں کھود کر بھی انسان یہ پانی حاصل کرتا ہے۔ بعض جگہ سمندر سے بھی پانی جذب ہوکر زمین کے اندر بھی اندر دُور دُور تک جاتا ہے اور شفاف اور میٹھے چشمے کی صورت میں کسی جگہ بھی نکل آتا ہے۔ خیال ہے کہ آبِ زم زم کا چشمہ بھی بحیرۂ عرب سے آیا ہوا چشمہ ہے۔ ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو، اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو ستوں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کردیا‘‘۔ (الزمر ۳۹:۲۱)
سولھویں صدی عیسوی میں ترک امیرالبحر نے اپنی کتاب مراۃ الممالک میں خلیج فارس کے اندر ایسے مقام کی نشان دہی کی ہے اور لکھا ہے کہ وہاں آبِ شور کے نیچے آبِ شیریں کے چشمے ہیں جن سے وہ خود اپنے بحری بیڑے کے لیے پانی حاصل کرتا تھا۔ بحرین کے قریب سمندر کی تہہ میں اس قسم کے بہت سے چشمے کھلے ہوئے ہیں جن سے لوگ میٹھا پانی حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح جبرالٹر کا نیم گہرا علاقہ بحر اٹلانٹک کے پانی اور میڈی ٹرے نین سمندر کے پانیوں کو آزادانہ گڈمڈ ہونے سے روکتا ہے۔ یہ صورت حال واضح طور پر مراکش اور اسپین کے علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اللہ کی شان کہ ایک فرانسیسی ماہر بحریات جیکویاوس کاسٹیو (Jaeques Yues Costeau) نے جب اس کا مشاہدہ کیا اور قرآن حکیم آیات (الرحمٰن ۵۵:۱۹-۲۴) اس کے سامنے آئیں تو اس نے بلاتکلف اللہ رب العزت کی بڑائی کا اعلان کیا اور مسلمان ہوگیا۔
موسم کی پھلی بارش:کسی علاقے میں موسم کی پہلی بارش علاقے میں بسنے والوں کے لیے خوشی و انبساط کا باعث ہوتی ہے۔ لڑکے بالے بارش میں نہاتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں مگر پہلی بارش نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ برستا پانی اپنے ساتھ ماحول میں موجود مختلف قسم کی مہلک گیسوں اور مہلک جراثیم کو لیے ہوئے ہوتا ہے جو نہانے والوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لہٰذا اس بارش میں غسل نہ کرنا بہتر ہے۔
مصنوعی بارش:انسان کوشش کرتا رہا ہے کہ بارش برسانے پر کسی طرح قابو پالے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اب تک کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ بخارات سے جو پانی بردار بادل بن جاتے ہیں ان پر بعض کیمیاوی چیزوں کا چھڑکائو کیا جاتا ہے، بادل اپنا پانی برسا دیتے ہیں لیکن یہ کام کسی محدود علاقے پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اس پر بڑے اخراجات اُٹھانے پڑتے ہیں۔ انسان کے لیے بارش کے سارے عمل پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہے۔